tag:blogger.com,1999:blog-62730830516363439392024-03-18T12:16:12.520+05:00Izhar ul Haq: ColumnsMuhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.comBlogger2185125tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-56183184067453737892024-03-18T12:15:00.001+05:002024-03-18T12:15:39.944+05:00حماقتوں کی پریڈ<div style="text-align: right;"><br></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">باربرا ٹچ مین مشہور امریکی تاریخ دان تھی۔ 1989ء میں اس کا انتقال ہوا۔ اس کا نانا سلطنت عثمانیہ میں امریکی سفیر تھا۔ باربرا ٹچ مین نے تاریخ کی کتابیں اس انداز سے لکھیں کہ انہیں پڑھ کر عام قاری کو بھی تاریخ میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا اسلوب ادبی ہے</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"> The March of Folly </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">(حماقتوں کی پریڈ) اس کی مشہور ترین تصنیف ہے۔ اس میں اس نے اپنا مشہور نظریہ پیش کیا ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ عام آدمی اپنے کام سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ اس نے جو کام بھی سرانجام دینا ہو‘ مکان بنانا ہو‘ بچوں کی تعلیم اور شادیوں کے فرائض سرانجام دینے ہوں‘ فیکٹری لگانی ہو‘ ملازم بھرتی کرنے ہوں‘ ہر کام عقل مندی سے کرے گا۔ اس کے مقابلے میں حکومتوں کے کام احمقانہ ہوتے ہیں! اتنے احمقانہ کہ عام آدمی کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ حکومت کا یہ کام‘ یا یہ پالیسی غلط ہے اور اس کے نتائج مثبت نہیں نکلیں گے! اس نظریے کے حق میں باربرا نے تاریخ سے کئی مثالیں پیش کیں۔ مثلاً لکڑی کا وہ گھوڑا جو یونانی‘ ٹرائے کے شہر کی فصیل کے باہر رکھ گئے تھے۔ طویل محاصرے کے باوجود جب یونانی شہر کو فتح نہ کر سکے تو انہوں نے یہ چال چلی۔ لکڑی کے اس بڑے سے گھوڑے کے اندر مسلح سپاہی چھپے تھے۔ کئی لوگوں نے سٹی کونسل (یعنی حکومت) کو منع کیا کہ گھوڑا شہر کے اندر لے کر نہ جائیں۔ مگر حکومت نہ مانی۔ گھوڑا شہر کے اندر لے گئے۔ رات کو سپاہی گھوڑے سے باہر نکلے اور شہر کے دروازے کھول دیے۔ شہر پر یونانیوں نے قبضہ کر لیا۔ اس کے علاوہ بھی باربرا نے اس نظریے کے حق میں تاریخ سے کئی ثبوت پیش کیے ہیں۔</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">یہ نظریہ کہیں اور منطبق ہو نہ ہو‘ ہم پر ضرور منطبق ہو رہا ہے۔ پاکستانی حکومتیں (نظر آنے والی اور نظر نہ آنے والی بھی) پے درپے ایسے ایسے احمقانہ اقدامات کرتی رہی ہیں اور اتنی غلط پالیسیاں تشکیل دیتی رہی ہیں کہ خدا کی پناہ! ان غلط پالیسیوں اور ان احمقانہ اقدامات پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ہم صرف موجودہ حکومت کی‘ جس کو بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں‘ حماقتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">ارسا </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">(Indus River System Authority)</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"> کا ادارہ 1992ء میں پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے وجود میں آیا تھا۔ اس کا کام دریائے سندھ کے آبی نظام کو صوبوں میں تقسیم کرنا ہے۔ ہر صوبے کی نمائندگی ایک ممبر کرتا ہے۔ فیصلہ ووٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ادارے کا چیئرمین باری باری ہر صوبے سے منتخب ہوتا ہے۔ کاکڑ نگران حکومت نے ایک آرڈیننس کا مسودہ صدرِ پاکستان کو بھیجا۔ یہ آرڈیننس ادارے میں بنیادی تبدیلیاں کرنا چاہتا تھا۔ چیئرمین کی تعیناتی کا اختیار وزیراعظم کو دیا جا رہا تھا۔ صوبوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ اصولی طور پر نگران حکومت اس نوع کی بنیادی تبدیلیاں کرنے کی مُجاز ہی نہیں تھی۔ ایسے کام ایک منتخب حکومت ہی کر سکتی ہے۔ بہرطور صدرِ پاکستان نے اس مسودے کو منظور کرنے سے‘ بجا طور پر‘ انکار کر دیا۔ موجودہ وزیراعظم نے اس نامنظور آرڈیننس پر عمل کرتے ہوئے‘ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ کو چیئرمین مقرر کر دیا۔ یہ ایک انتہائی غیر دانشمندانہ اقدام تھا اور ایک بچہ بھی سمجھ سکتا تھا کہ صوبے اس غیر متوازن حکم کو قبول نہیں کریں گے۔ یہی ہوا۔ سندھ نے پُرزور اعتراض کیا اور احتجاج بھی! اخبارات نے اس کے خلاف اداریے لکھے۔ بالآخر وزیراعظم کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا! ظاہر ہے سُبکی ہوئی! اب یہ وزیراعظم کا کام ہے کہ غور فرمائیں اس مشورے‘ یا تجویز کی پشت پر کون خیر خواہ تھے؟</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">دوسری مثال لیجیے۔ ذرا وفاقی کابینہ کی کمپوزیشن پر غور کیجیے۔ یہ اُنیس رکنی کابینہ ہے۔ انیس میں سے چودہ وزیر‘ جی ہاں چودہ! لاہور اور لاہور کے نواحی اضلاع (سیالکوٹ‘ نارووال‘ شیخوپورہ‘ حافظ آباد‘ گجرات) سے ہیں۔ ایک وزیر کے پی سے ہے۔ ایک بلوچستان سے اور ایک کراچی (ایم کیو ایم) سے ہے۔ دو جنوبی پنجاب سے ہیں! دوسرے لفظوں میں 73.6 فیصد لاہور اور نواحِ لاہور سے ہیں! باقی ملک کا حصہ 26.4 ہے۔ مغربی پنجاب (اٹک‘ میانوالی‘ چکوال‘ جہلم‘ راولپنڈی) کی نمائندگی صفر ہے۔ اسی طرح سندھ کی نمائندگی بھی صفر ہے۔ ایک سابق بیورو کریٹ کو وزیر بنایا گیا ہے جو غیر منتخب ہیں۔ یہ وہی صاحب ہیں جو نگران حکومت میں بھی شامل کیے گئے تھے مگر بعد میں الیکشن کمیشن کے حکم سے فارغ کر دیے گئے تھے۔ یہ بھی نواحِ لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر جناب وزیراعظم دور اندیشی سے کام لیتے اور وسعتِ نظر کو بروئے کار لاتے تو غیر منتخب شخص کو وزیر بنانا ہی تھا تو اندرونِ سندھ سے کسی کو بناتے!! اس اقدام سے کابینہ میں ایک خوبصورت اور صحت مند توازن پیدا ہو جاتا! مگر انہوں نے ذاتی وفاداری کو زیادہ اہمیت دی!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">تیسری مثال! جناب اسحاق ڈار کو وزارتِ خارجہ کا قلمدان دیا گیا ہے۔ وہ ایک لائق اور محنتی شخص ہیں۔ ان کے پاس چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی ڈگری ہے۔ ان کا سارا کیریئر مالیات (فنانس) سے متعلق رہا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے حوالے سے ان کا کوئی ایکسپوژر نہیں ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے بھارت کا وزیر خارجہ کون ہے؟ ان صاحب کا نام جے شنکر ہے اور ان کا خارجہ امور کا تجربہ 47 برس پر محیط ہے۔ یہ بین الاقوامی تعلقات کے مضمون میں پی ایچ ڈی بھی ہیں۔ انہوں نے سری لنکا‘ ہنگری‘ جاپان‘ سنگاپور‘ چین اور امریکہ میں سفارتکاری کے فرائض سرانجام دیے۔ پھر فارن سیکرٹری رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئے۔ اب ممبر پارلیمنٹ ہیں اور پانچ سال سے وزیر خارجہ ہیں۔ باقی حساب کتاب آپ خود کر لیجیے کہ اس کالم نگار کا پوائنٹ کیا ہے؟ جناب اسحاق ڈار کی خدمات کے حوالے سے انہیں کابینہ میں لینا ہے تو ان کی مہارت اور تجربے کی مناسبت سے انہیں کوئی اکنامک منسٹری دینی چاہیے تھی۔ تجارت‘ پٹرولیم اور اکنامک افیئرز جیسی وزارتوں میں ان کے معاشی پس منظر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ انہیں وزارتِ خارجہ میں لگانا ان کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور خارجہ امور کے ساتھ بھی۔ ایسی تعیناتی کو نرم ترین الفاظ میں بھی </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">Human Resource Misallocation </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">ہی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی افرادی قوت کا غلط استعمال۔ ہر فن کے ماہرین الگ ہوتے ہیں! مگر ہمارے ہاں معیار کچھ اور ہے۔ کیا عجب کل جلیل عباس جیلانی صاحب کو وزیر خزانہ لگا دیا جائے اور طارق فاطمی صاحب زراعت کے منسٹر لگے ہوئے ہوں!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ باربرا ٹچ مین کی تھیوری کیا ہے۔ حکمرانوں نے جب اپنے کاروبار اور اپنی فیکٹریوں میں افرادی قوت لگانی ہو تو بہترین افراد کا انتخاب کرتے ہیں۔ خوب چھان پھٹک کرتے ہیں۔ وہاں یہ پروڈکشن کے ماہر کو مارکیٹنگ میں کبھی نہیں لگائیں گے! مارکیٹنگ کے ماہر کو مارکیٹنگ ہی میں لگائیں گے۔ ان کے بچوں اور پوتوں کو بھی بخوبی علم ہے کہ کون سا آدمی کاروبار میں کہاں لگانا ہے! رہی حکومت! رہا ملک! رہی ریاست!! تو جسے نوازنا ہو اسے کہیں بھی لگا دیجیے۔ نقصان ہو گا تو ملک کا ہو گا۔ ذاتی نقصان تو نہیں ہو گا! وہ لطیفہ نما واقعہ آپ نے سنا ہی ہو گا۔ نہ جانے پٹیالہ کی ریاست تھی کہ کوئی اور ریاست‘ وزیر خزانہ چھٹی پر گئے تو ان کا چارج چیف میڈیکل افسر کو دے دیا گیا۔ وزیر خزانہ چھٹی سے واپس آئے تو چیف انجینئر کی پوسٹ خالی تھی‘ انہیں وہاں تعینات کر دیا گیا! ہم بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ ہمالیہ کو بحر الکاہل کے درمیان دکھاتے ہیں۔ برازیل کو ایشیا کے ماتھے کا جھومر بتاتے ہیں!! ہمارے کوتوال نابینا ہیں۔ لکنت زدہ کو ہم داستان گو مقرر کرتے ہیں!</font></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-90321696870709702802024-03-14T10:49:00.001+05:002024-03-14T10:49:39.802+05:00صدقے جاؤں مگر کام نہ آؤں <h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><span style="font-size: large;">پیپلز پارٹی سے کبھی بھی مناسبت اور مطابقت نہیں رہی۔ مگر ایک کریڈٹ اسے ضرور جاتا ہے۔ اس نے مذہبی کارڈ کبھی نہیں کھیلا! پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) نے تو اس ضمن میں ساری حدیں پار کر دی ہیں۔ حدیں پار کرنے کی تفصیلات بتانے کو جی تو چاہتا ہے مگر دل نہیں مانتا کہ بقول میر ؎</span></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">کھنچیں میر تجھ ہی سے یہ خواریاں </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں!! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">رہی وہ جماعتیں جو مذہب کے نام پر بنی ہیں‘ وہ تو مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کر ہی رہی ہیں! بلکہ مسلک کے نام پر تشکیل شدہ جماعتیں بھی میدان میں ہیں! گویا سب اسلام کی خدمت کررہی ہیں اور زیادہ خدمت کرنے کے لیے اقتدار میں آنا چاہتی ہیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ہم پاکستانی اسلام کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ رمضان کی آمد پر ہمارے تاجر بھائی (سوائے تاجرانِ کتب کے) قیمتوں کو آسمان پر لے جاتے ہیں! غیرمسلم ملکوں میں کرسمس پر سیلیں لگتی ہیں اور اب تو رمضان اور عید پر بھی ان ملکوں میں قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں‘ جہاں لوگ مذہب کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ برقع پر عربی رسم الخط میں حلوے کا لفظ بھی نظر آجائے تو برقع پوش کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں‘ رمضان اور عید پر ناجائز نفع خوری انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ ایک ہفتے میں وفاقی دارالحکومت میں سبزیوں کی قیمت میں فی کلو ستر روپے سے زیادہ کا اضافہ کیا گیا۔ لاہور میں لہسن آٹھ سو روپے کلو تک جا پہنچا! طرفہ تماشا یہ ہوا کہ برسرِ اقتدار جماعت کے ایک سرکردہ رہنما نے دہائی دی ہے کہ رمضان کے آنے سے پہلے ذخیرہ اندوز متحرک ہو گئے اور یہ کہ بازاروں میں ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں! اس پر ایک پرانا لطیفہ یاد آگیا جو مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم نے تقریر کرتے ہوئے سنایا تھا۔ مغلوں کے دورِ زوال کی بات ہے۔ ایک شہزادے کی ساری پرورش حرم سرا کے اندر ہوئی۔ یہاں تک کہ شہزادیوں‘ کنیزوں اور خواجہ سراؤں کے درمیان ہی وہ جوان ہوا۔ ایک دن محل میں سانپ آگھسا۔ جہاں عورتوں نے شور مچایا کہ کسی مرد کو بلاؤ تو وہاں شہزادہ بھی کہہ رہا تھا کہ کسی مرد کو بلاؤ! جہاں عام آدمی رو رو کر فریاد کر رہا ہے کہ بازاروں میں ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں‘ وہاں اگر حکومتی عمائدین بھی یہی کہہ رہے ہوں تو لطیفہ تو بنتا ہے! ارے بھئی! حکومت آپ کی ہے۔ آپ ڈاکوؤں‘ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع کھانے والوں کو پکڑیے! اس کام کے لیے تو آپ کو امریکہ کی‘ یا مقتدرہ کی اجازت کی ضرورت نہیں! حکومت کا سب سے بڑا فریضہ بھی یہی ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے! ہر سال یہی تماشا ہوتا ہے! ادھر رمضان کی آمد ہوئی اُدھر قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں۔ عید سے پہلے بچوں کے ملبوسات اور جوتوں کی قیمتیں جس سفاکی اور سنگدلی سے بڑھائی جاتی ہیں اس پر بد دعائیں نہ دی جائیں تو کیا کیا جائے! آخر ہم کیسے مسلمان ہیں؟ ایک طرف شہد سے لے کر نہاری تک‘ ہر شے کے برانڈ کو مذہب کا ٹچ دیتے ہیں‘ دوسری طرف مسلمانوں ہی کا خون چوستے ہیں! گویا مذہب سے ہماری محبت محض دکھاوے کی ہے۔ زندگی ہم نے اپنی مرضی کے مطابق بسر کرنی ہے۔ یعنی صدقے جاؤں مگر کام نہ آؤں!! ہم لوگ مجموعۂ اضداد ہیں! اتنی بلندی اور اتنی پستی کہ دوسرے دیکھ کر عبرت پکڑیں! سوال یہ ہے کہ حکومت کا کیا کردار ہے؟ کیا حکومت صرف ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم پر عمل کرنے کے لیے ہے؟ روایت ہے کہ سعودی بادشاہ عبد العزیز بن سعود کو معلوم ہوا کہ کچھ نانبائی روٹی کا وزن کم کر دیتے ہیں۔ بھیس بدل کر تنور پر گئے۔ روٹی خریدی۔ وزن کرایا۔ وزن کم تھا! وہیں نانبائی کو تنور میں ڈالنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد روٹی کا وزن کبھی کم نہ ہوا۔ معلوم نہیں یہ روایت کہاں تک درست ہے! مگر یہ طے ہے کہ قانون شکنی انسانی سرشت میں داخل ہے اور اس کا علاج سزاہے۔ ایسی سزا جس کا جسمانی یا مالی یا سماجی درد محسوس ہو!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">سنگا پور پہلے ملا ئیشیا کا حصہ تھا۔ الگ ہوا۔ ترقی میں ملا ئیشیا سے آگے نکل گیا۔ ایک وجہ‘ اس ترقی کی‘ قانون کا بے رحمانہ نفاذ بھی ہے۔ سنگا پور کے باشندے بارڈر پار کرکے ملائیشیا پہنچتے ہیں تو قانون توڑ کر انہیں مزہ آتا ہے کیونکہ ملائیشیا میں سزائیں سخت نہیں! ٹریفک کی خلاف ورزی کی مثال لے لیجیے۔ ہمارے ملک میں چالان ہو جائے تو جرمانہ مضحکہ خیز حد تک کم ہے۔ مجرم اسے مذاق سمجھتے ہیں۔ آسٹریلیا میں ایک خاتون گاڑی چلا رہی تھی۔ اس کا چھوٹا بچہ پچھلی نشست پر کارسیٹ میں بیٹھا ہوا تھا۔ اسے بیلٹ لگی ہوئی تھی۔ ہاتھ سے اس نے بیلٹ کا وہ حصہ جو کندھے پر تھا‘ نیچے کر دیا۔ ٹریفک والے نے روک لیا اور ماں کو بتایا کہ خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ماں کا عذر معقول تھا کہ وہ گاڑی چلا رہی تھی اور مُڑ کر پیچھے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ مگر ٹریفک والے کی دلیل تھی کہ خلاف ورزی بہر طور ہوئی ہے۔ اس نے چار سو ڈالر کا جرمانہ کیا جو وہاں کے لحاظ سے بھی ایک خطیر رقم ہے! ہم سب جانتے ہیں کہ علاء الدین خلجی کے زمانے میں کم تولنے کی بیماری عام ہو گئی تھی۔ اس نے قانون بنایا کہ کم تولنے والے کے جسم سے گوشت کاٹ کر وزن کی کمی پوری کی جائے گی! کچھ لوگوں کو سزا دی گئی۔ اس کے بعد کس کی ہمت تھی کہ خلاف ورزی کرتا! شیر شاہ سوری کا کڑا حکم تھا کہ لشکر جہاں پڑاؤ ڈالے گا‘ فصل کو ہاتھ تک نہیں لگائے گا۔ ایک سپاہی نے خلاف ورزی کی تو اس کا کان کاٹ کر اسے لشکر میں پھرایا گیا تاکہ دوسرے لشکری عبرت پکڑیں! حکومت چاہے تو کیا نہیں ہو سکتا۔ نیت درست ہو تو راستے کئی نکل آتے ہیں۔ رمضان سے پہلے کی قیمتیں ہر دکان کے باہر بورڈ پر درج ہونی چاہئیں اور رمضان کے دوران کی بھی! یہ پولیس‘ جو ہزاروں کی تعداد میں اشرافیہ کے محلات پر پہرے دے رہی ہے‘ اسے وہاں سے ہٹا کر بازاروں میں تعینات کیا جائے جو قیمتوں پر کڑی نظر رکھے! مجسٹریٹ موقع پر موجود ہو جو وہیں‘ اسی وقت سزا دے اور سزا بھی ایسی کہ دوسرے دیکھ کر عبرت پڑیں! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">بیچارے صارفین‘ سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کی ترغیب دیتے رہتے ہیں مگر بائیکاٹ مسئلے کا حل نہیں! ٹوپی بڑی ہو تو سر نہیں کاٹا جاتا بلکہ ٹوپی چھوٹی کی جاتی ہے۔ مہنگائی تاجر کرے اور بائیکاٹ صارف کرے! کیا اس سے بہتر یہ نہیں کہ مہنگائی کو اس کے وقوع سے پہلے روکا جائے! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">غور کیجیے! جتنی من مانی ہمارے ملک میں تاجر برادری کر رہی ہے‘ اتنی من مانی کوئی دوسرا طبقہ کر رہا ہے نہ کر سکتا ہے! ٹیکس یہ چوری کرتے ہیں۔ ٹیکس اہلکاروں کو کرپشن پر یہ لگاتے ہیں۔ اوقات ان کے حد سے زیادہ غیرمنطقی ہیں۔ ظہر کے بعد بازار کھلتے ہیں اور نصف شب تک توانائی کے پرخچے اڑا تے ہیں۔ تجاوزات کے یہ مجرم ہیں! رسید‘ بِن مانگے یہ نہیں دیتے! خریدا ہوا مال یہ واپس نہیں لیتے! بعض تو تبدیل تک نہیں کرتے! رمضان آئے تو ظلم کی انتہا کر دیتے ہیں! فوج سے لے کر بیوروکریسی تک‘ سیاست دانوں سے لے کر گھروں میں بیٹھی ہوئی خواتین تک‘ ہر فرد‘ ہر طبقہ‘ کسی نہ کسی قانون کا پابند ہے۔ صرف تاجر ہیں جو کسی زمینی یا آسمانی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے! قانون ایک کو پکڑے تو کوّوں کی طرح سب اکٹھے ہو جاتے ہیں! گاہک جو‘ ان کے رزق کا باعث بنتا ہے‘ اُسی گاہک کی عزت نہیں کرتے! بعض کا سلوک تو بے حد کھردرا ہوتا ہے! صحیح معنوں میں اگر کوئی طبقہ مادر پدر آزاد ہے تو تاجروں کا طبقہ ہے!</font></div></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-51356157465045992132024-03-12T09:30:00.001+05:002024-03-12T09:30:20.919+05:00معاملہ اصل زر اور سود کا <h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><font size="4"><span style="text-align: justify;">نانی نے نرسری کا چکر لگانا تھا۔</span><span style="text-align: justify;"> </span></font></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">ان کا ایک ہی شوق ہے۔ پودے‘ پودے اور پودے! پھل پھول اور سبزیاں! سرکاری گھروں کے آگے پیچھے جگہ کافی ہوتی تھی‘ سو موصوفہ سال بھر کا پیاز اور لہسن اُگا لیتی تھیں۔ اب جگہ زیادہ نہیں ہے پھر بھی خوبانی اور مالٹوں سے لے کر پالک اور بھنڈی تک‘ سپلائی اپنے ہی صحن سے ہو جاتی ہے۔ دسہری آم بھی دو پیٹیوں کے برابر ہو ہی جاتے ہیں۔ پہلے تو کدال سے کھدائی اور کُھرپے سے گوڈی بھی خود ہی کرتی تھیں۔ کیاریاں بھی خود بناتی تھیں۔ اب یہ مشقت باغبان کرتا ہے مگر نگرانی اس کی کڑی ہوتی ہے۔ سرگرمیاں اسی نوع کی ہورہی ہوتی ہیں۔ کھاد منگوائی جارہی ہے۔ مٹی آ رہی ہے۔ گھاس لگ رہی ہے۔ گملے پینٹ ہو رہے ہیں۔ بیلیں رسیوں سے باندھی جا رہی ہیں۔ کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ ہو رہا ہے۔ کہتی ہیں: میرے پودے میرے ساتھ باتیں کر تے ہیں! وہ جو مجید امجد نے کہا تھا۔ ع کاش میں تیرے بُنِ گوش کا بندہ ہوتا! تو میں کہا کرتا ہوں: کاش ہم پودے ہوتے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">جس دن کی بات ہو رہی ہے اس دن نرسری جا رہی تھیں تو رُستم کو بھی ساتھ لے گئیں! پیسے جتنے پاس تھے‘ پودوں پر خرچ ہو چکے تو رستم نے ایک طوطا دیکھ لیا۔ پلاسٹک آف پیرس سے یا مٹی سے‘ یا پتا نہیں کس چیز سے بنایا گیا تھا۔ رستم مچل گیا اور مطالبہ کیا کہ اسے لے کر دیا جائے۔قیمت پوچھی گئی۔ ایک ہزار روپے تھی! نانی کے پاس اب صرف پانچ سو تھے۔ نرسری والا آٹھ سو سے نیچے نہ اُترا۔ ڈرائیور کے پاس بھی‘ بقول اُس کے‘ پیسے نہ تھے۔ اس پر وہ کہانی یاد آرہی ہے۔ایک امیر زادے کو سکول میں کہا گیا کہ مفلسی پر کہانی لکھو! اس نے لکھا کہ ایک شخص بہت غر یب تھا۔ اس کا مالی‘ باورچی‘ چوکیدار‘ خاکروب‘ ڈرائیور سب غریب تھے۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔پیسے ہمارے پاس ہوتے ہیں نہ ہمارے کوچوان کے پاس! میں ایک تقریب کے سلسلے میں مانسہرہ گیا ہوا تھا۔ رات گئے واپس آیا تو بتایا گیا کہ رستم نرسری سے روتا سسکتا بلکتا‘ طوطا طوطاکہتا واپس آیا۔ گھر آکر بھی یہی رٹ لگائے رکھی اور روتے روتے ہی سویا۔ سارا قصہ سنا تو یوں لگا جیسے حلق میں کوئی نوکدار سی شے پھنس گئی ہے۔ عشا کی نماز کے دوران بھی یہی خیال آتا رہا۔رات کو دیر سے سونے کی عادتِ بد‘ دائمی‘ ہے۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان ( ڈاکٹر ذاکر حسین خان کے‘ جو بھارت کے صدر رہے‘ بھائی ) کی خود نوشت زیرِ مطالعہ تھی۔پڑھنے کی کوشش کی۔ کچھ پلّے نہ پڑھا۔ ذہن کہیں اور تھا۔ جو صفحہ الٹتا‘ دو سالہ رستم کا روتا چہرا نظر آتا اور ساتھ ایک طوطا! پھر ہنری کسنجر کی تصنیف ''لیڈر شپ‘‘ اٹھائی۔ اس میں کسنجر نے چھ ہم عصر رہنماؤں کی سیاسی زندگی اور زندگی کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ کسنجر کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر اس کی وسعتِ مطالعہ! اس کی یاد داشت! اس کی قوتِ تحریر! اس کا اندازِ بیان! توبہ! انسان تھا یا جن! میرے ذاتی خیال میں جو دو باب صدر ڈیگال اور صدر انور السادات پر ہیں‘ کمال کے ہیں! میں سنگا پور کے لی یؤان کیو والے باب پر تھا۔ مگر ذہن آنکھوں کا ساتھ دینے سے انکار کر رہا تھا۔ طبیعت میں عجیب بے چینی اور انتشار تھا۔ کوشش کی کہ رستم اور اس کے حاصل نہ ہونے والے طوطے کا خیال جھٹک دوں مگر اس کوشش میں کامیابی نہ مل سکی۔ ٹیبل لیمپ بجھایا اور آنکھیں بند کر کے دراز ہو گیا۔ نیند نے کیا آنا تھا‘ باڈی کلاک پر ابھی نیند کا وقت ہی نہیں ہوا تھا۔ اب جب کتاب بھی سامنے نہ تھی‘ دھیان مکمل طور پر رستم کی طرف جا رہا تھا۔ اضطراب اور بے چینی میں کئی گھنٹے کروٹیں بدلتے گزر گئے۔ پتا نہیں کب‘ دبے پاؤں‘ نیند آئی۔ خواب میں رستم سے تو ملاقات نہ ہوئی‘ ہاں کئی رنگوں کے طوطے ضرور دکھا ئی دیے۔ صبح اٹھتے ہی پہلا سوال یہ تھا کہ ڈرائیور آ گیا ہے یا نہیں ؟ آیا ہوا تھا۔ اسے آٹھ سو روپے دیے اور کہا: جاکر طوطا لے آؤ۔ وہ نیک بخت لے آیا۔ رستم کو دیا تو اس کی حالت خوشی سے غیر ہو گئی! اسے سینے سے لگائے ادھر ادھر پھرنا شروع کر دیا۔ ساتھ طوطا طوطا کہتا جائے۔ کبھی اس کی سرخ چونچ پر ہاتھ لگائے‘ کبھی اس کے سبز پروں پر! رات آئی۔ طوطے کو اس نے ساتھ سلایا۔ صبح اٹھا تو اسے ہاتھ میں پکڑ کر چارپائی سے اترا! زندگی میں‘ رحمان اور رحیم مالک کا ہزار شکر‘ بہت مسرتیں دیکھی ہیں! اس تماشا گاہ ِدنیا میں بہت مزے اٹھائے ہیں۔ دیس دیس کے کھانے کھائے ہیں۔ ملک ملک کے مناظر دیکھے ہیں۔ خشکی اور تری پر سیر و تفریح کی ہے۔ مگر جو لذت‘ جو خوشی‘ جو سیری‘ جو اطمینان اور جو سکون رستم کو طوطا ہاتھ میں پکڑے ادھر ادھر بھاگتے دیکھ کر حاصل ہوا‘ لا جواب تھا! اپنے بچے جب چھوٹے تھے اور بازار میں کھلونوں کی ضد کر کے روتے تھے تو انہیں بہلا پھسلا کر کام چلایا جاتا تھا۔ گھر پہنچنے تک ان کی ضد اور رونا دھونا‘ ماں اور باپ‘ دونوں بھول چکے ہوتے تھے۔ مگر اب یہ جو بچوں کے بچے ہیں تو ان کی ہر خواہش‘ ہر مطالبہ بڑے میاں اور بڑی بی کے لیے پتھر پر لکیر کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔ ایک تو شاید یہ کہ اس عمر میں ہاتھ اتنا تنگ نہیں ہوتا جتنا پہلے ہوتا تھا! دوسرے یہ کہ اعصاب ذرا کمزور ہو جاتے ہیں۔ جوانی میں اعصاب مضبوط ہوتے ہیں۔ رونا دھونا بے اثر ثابت ہوتا ہے۔ اب بچوں کے بچوں کا رونا نہیں دیکھا جاتا!تیسری وجہ وہی ہے جو ہر شخص کہتا اور جانتا ہے کہ اصل کی نسبت سود زیادہ عزیز ہوتا ہے! بچوں کے بچے زیادہ عزیز ہوتے ہیں! اسی فقیر کا شعر ہے ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">پوتوں نواسیوں کے چمن زار! واہ واہ!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">خلّاقِ عالم نے انسان کی زندگی کو مختلف ادوار میں بانٹا ہے۔ انسانی زندگی کے ہر دور کی خواہشات الگ ہیں! چھوٹے بچے کو کیا پسند ہے؟ پرفیوم کی خالی شیشی! ربڑ کا کھلونا! چھوٹی سی ٹارچ‘ استعمال شدہ سیل! جوں جوں انسان ایک دور سے دوسرے دور میں منتقل ہوتا جاتا ہے‘ اس کی دلچسپیاں ساتھ ساتھ بدلتی جاتی ہیں! جوانی میں بچے نہیں‘ کچھ اور چیزیں اچھی لگتی ہیں! پھر وہ دور آتا ہے کہ بچے‘ نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے بھی پیارے لگتے ہیں! گفتگو کے موضوعات دیکھ لیجیے۔ ساٹھ کے اوپر کے چار افراد جہاں مل بیٹھیں گے‘ آنکھوں کے آپریشن کی باتیں ہونے لگیں گی اور ساتھ ہی پوتوں‘ پوتیوں اور نواسوں اور نواسیوں کی!! ماں باپ جب کسی تقریب میں جا رہے ہوتے ہیں اور بچوں کو ساتھ چلنے کے لیے حکم دیتے ہیں تو بچے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہاں ان کی عمر کا کوئی بچہ نہیں ہو گا اور یہ کہ وہ وہاں بور ہوں گے! بچوں کی اس بات میں وزن ہے۔ ہو سکے تو انہیں مجبور نہیں کرنا چاہئے بشرطیکہ ماں باپ کے چلے جانے کے بعد وہ گھر میں محفوظ ہوں!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">بچوں اور بوڑھوں کی باہمی دوستی اور وفاداری قدرت کا ایک معجزہ ہے۔یہ صرف بچے ہیں جو نانا نانی‘ دادا دادی کی ہر بات کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ انتظار اُنہی کو ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ سیر کو جانا اور ان کے ساتھ سونا انہیں پسند ہوتا ہے۔ گاڑی میں بیٹھنا ہو تو کہیں گے میں نے دادا ابو کے ساتھ بیٹھنا ہے۔ سکول جاتے وقت کہہ جاتے ہیں کہ چھٹی کے وقت دادا ( یا نانا) ہی لینے آئیں! اور یہ دادا دادی ‘نانا نانی ہیں جو بچوں کی ہر بات غور سے سنتے ہیں۔ دن رات ان کی سفارشیں کرتے ہیں اور ان کے ماں باپ سے طعنے سنتے ہیں کہ آپ نے انہیں خراب کر دیا ہے!!</font></div></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-17182083244828221512024-03-11T19:49:00.001+05:002024-03-11T19:49:08.543+05:00یہ کون ہے جو ملک کو بدنام کر رہا ہے؟ <h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><span style="font-size: large;">پہلے ہی پاکستان پر دہشت گردی کا دھبہ لگا ہوا ہے۔ اوپر سے دن دہاڑے وفاقی دارالحکومت میں راستے بند کیے جا رہے ہیں! وہ بھی اسلام آباد کے عین دل میں!! ایک طرف پنج ستارہ ہوٹل ہے جہاں غیرملکی ٹھہرتے ہیں! دوسری طرف ڈپلومیٹک انکلیو ہے جہاں سفارت خانے ہیں۔ تیسری طرف مرکزی سیکرٹریٹ‘ سپریم کورٹ اور اہم وفاقی دفاتر ہیں۔ چوتھی طرف کنونشن سنٹر ہے۔ ہر طرف پولیس کھڑی ہے۔ ٹریفک رُکی ہوئی ہے۔ لوگ بے بس ہیں۔ تماشا لگا ہوا ہے!</span></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">یہ کس کے اونچے دماغ نے فیصلہ کیا ہے کہ کرکٹ ٹیموں کو اُس ہوٹل میں ٹھہرایا جائے جو وفاقی دارالحکومت کے عین قلب میں واقع ہے؟ اس سے زیادہ غیردانشمندانہ فیصلہ کیا ہو سکتا تھا۔ یہ ''غیر دانشمندانہ‘‘ کا لفظ تو مجبوراً لکھا ہے‘ جو لفظ لکھنا چاہتا تھا اس کی ایڈیٹر نے اجازت نہیں دینا تھی اور وہ لفظ آپ سمجھ گئے ہوں گے!! قربان جائیے اس عقل و دانش کے۔ جڑواں شہروں میں بیسیوں‘ درجنوں ایسے ٹھکانے ہیں جو مصروف شاہراہوں سے ہٹ کر واقع ہیں۔ مسلح افواج کے میس ہیں۔ محفوظ گوشوں میں واقع اور سکیورٹی سے آراستہ! بیسیوں محکموں کے گیسٹ ہاؤسز ہیں! پرائیویٹ مہمان خانے ہیں! ان میں سے کہیں بھی کھلاڑیوں کو ٹھہرایا جا سکتا تھا مگر چونکہ دنیا کو پیغام دینا تھا کہ ہمارے ملک میں ہماری اپنی ٹیمیں محفوظ نہیں اس لیے ایسی جگہ پر ٹھہرایا جہاں دنیا بھر کو یہ مبارک پیغام پہنچ سکے!! جس عالی دماغ نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے اس کی دور اندیشی کو سلام!!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">تادمِ تحریر ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں! نگران حکومت نقارہ بجا کر کوچ کر چکی! نئے وزیراعظم حلف لے چکے مگر کابینہ ابھی تک وجود میں نہیں آئی۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ صدر کی حلف برداری کی خبریں چل رہی ہیں۔ اس کے بعد کابینہ بنے گی۔ سو لمحۂ موجود میں حکومت کا کوئی وجود نہیں۔ ایسی صورتحال میں بیورو کریسی ملک چلاتی ہے اور اپنی مرضی سے چلاتی ہے۔ بیورو کریسی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام پر کیا گزرے گی اور بیرونِ ملک پاکستان کی شہرت کو کتنا دھچکا لگے گا! عوامی نمائندوں کے مقابلے میں افسر شاہی کی وقعت وہی ہے جو دس کے مقابلے میں دو یا تین کی ہے۔ عوامی نمائندہ چِٹا ان پڑھ ہو تب بھی عوام کی نبض پر اس کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس کے دن رات اپنے ووٹروں کے ساتھ گزرتے ہیں۔ تھانے میں کیا ہو رہا ہے؟ کچہری میں کیا چل رہا ہے؟ بازار کی کیا صورتحال ہے؟ عوامی نمائندے کو سب معلوم ہوتا ہے۔ اور بیورو کریسی؟؟ جس سطح پر بیورو کریسی فیصلے صادر کرتی ہے اس سطح کے بیورو کریٹ نے تو برسوں سے گھر کا سودا سلف ہی خود نہیں خریدا ہوتا! اسے کیا معلوم عام آدمی کس طرح زندگی بسر کر رہا ہے! وہ رات دن ماتحتوں کے حصار میں رہتا ہے۔ صبح آکر جیب سے کاغذ نکالتا ہے اور ماتحتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ یہ اس کے گھر کے کاموں والا کاغذ ہے۔ کاغذ جانیں اور ماتحت جانیں! اس کے گھر کی بجلی یا گیس یا فون یا پانی کا کوئی مسئلہ درپیش ہو تو سارے دفتر کی کیا‘ پورے محکمے کی دوڑیں لگ جاتی ہیں! اعلیٰ سطح کا بیورو کریٹ ایک ایسی دنیا میں رہتا ہے جس کا حقیقی دنیا سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا! بس آنکھیں بند کیں اور حکم دے دیا کہ ٹیموں کو فلاں ہوٹل میں ٹھہراؤ اور راستے بند کر دو!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">سکیورٹی کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو کہ کھلاڑیوں کا قیام کہاں ہے؟ یہ کامن سینس کی بات ہے! حیرت ہے ساری دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ یہاں‘ اس ہوٹل میں کھلاڑی ٹھہرے ہوئے ہیں‘ اسی لیے ہم اس کے ارد گرد کی شاہراہوں کو بند کر دیتے ہیں۔ یعنی آ بیل مجھے مار! اس سے وہ آدمی یاد آرہا ہے جس نے بینک سے بھاری کیش نکلوایا‘ بیگ میں ڈالا‘ باہر نکل کر بیگ کو سینے سے بھینچ کر لگا لیا اور ساتھ ہی ادھر ادھر‘ دائیں بائیں بار بار یوں دیکھ رہا ہے کہ ہر دیکھنے والا جان جاتا ہے کہ یہ شخص بیگ میں کوئی قیمتی چیز لیے جا رہا ہے۔ یعنی ڈاکوؤں اور اٹھائی گیروں کے لیے دعوتِ عام ہے!! اب بھی آکر کوئی بیگ چھین نہیں رہا تو اس کا اپنا قصور ہے۔ بیگ کا مالک تو چھیننے والوں کو زبانِ حال سے بلاتا پھر رہا ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">صدیوں کے تجربوں کے بعد ترقی یافتہ ملک اس نتیجے پر پہنچے کہ شہر کا نظم و نسق چلانے کے لیے بیورو کریٹ نہیں بلکہ عوام کا منتخب کردہ میئر بہتر ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے صدیوں کی بادشاہت کے بعد معلوم ہوا کہ تخت نشینی کی جنگوں اور بھائیوں کو قتل کرنے کے بجائے حکمرانی کا فیصلہ ووٹوں سے کرایا جائے۔ میئر کو معلوم ہے کہ اس نے اگلا الیکشن لڑنا ہے اور یہ کہ اس کے سیاسی مخالف اسے مسلسل جانچ رہے ہیں اور ایک لحاظ سے نگرانی کر رہے ہیں۔ اس نگرانی کی وجہ سے میئر صراطِ مستقیم پر رہتا ہے۔ عوام سے اس کا براہِ راست رابطہ رہتا ہے۔ تعلق ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ وفاقی دارالحکومت کو میئر نصیب ہوا تھا‘ بہت سے اس زمانے میں اچھے کام ہوئے۔ اس کے بعد سے پھر بیورو کریسی کی لمبی اندھیری رات کا راج ہے۔ شہر افسر شاہی کے تصرف میں ہے۔ ترقیاتی ادارے کا سربراہ ہے یا چیف کمشنر‘ یا دونوں مناصب ایک ہی افسر کے پاس ہیں‘ عوام سے رابطہ صفر ہے۔ عام شہری ملاقات تو کیا کرے گا‘ فون پر بات کرنا بھی ناممکن ہے۔ نوکر شاہی کو خول میں بند رہنے کی عادت ہے۔ کہاں وہ روایات کہ شہر کے والی بھیس بدل کر گلیوں بازاروں میں پھرتے تھے اور حالات سے فرسٹ ہینڈ آگاہی پاتے تھے!!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">یقینا افسر شاہی میں فرشتہ صفت افراد بھی ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر! یہ اور بات کہ سیاسی مداخلت ایسے افسروں کو دلجمعی سے کام ہی نہیں کرنے دیتی! اس لکھنے والے کو وفاق‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا‘ تینوں کی بیورو کریسی کا تجربہ ہے اور عمیق مشاہدہ بھی! سچ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں بیوروکریسی کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ افسر وہاں پہنچ سے باہر نہیں ہوتے! میں نے بڑے بڑے افسروں کو اپنے ڈرائیور کا کھانا اندر سے لاتے دیکھا ہے۔ ملازم ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ پنجاب میں ڈی سی اور کمشنر تو دور کی بات ہے‘ پٹواری سے مل کر دکھا دیجیے! وفاقی دارالحکومت نزدیک تو پشاور کے ہے مگر بیورو کریسی کا رنگ ڈھنگ لاہور سے ملتا جلتا ہے! خیبر پختونخوا میں افسر فرنگی لباس بھی کم ہی پہنتے ہیں! ان کے اور عام آدمی کے لباس میں کوئی فرق نہیں۔ افسر انگریزی کا رعب جھاڑتے ہیں نہ اردو بولتے ہیں۔ عام آدمی سے ٹھیک اسی کی زبان میں‘ اسی کے لہجے میں بات کرتے ہیں! قبائلی کلچر نے غلامانہ ذہنیت سے مات نہیں کھائی۔ افسروں کو احساسِ برتری ہے نہ عام آدمی کو احساسِ کم تری۔ ( یوں تو احساسِ برتری اصل میں احساسِ کمتری ہی ہوتا ہے!!)۔ علامہ اقبال کی نظم ''خوشحال خان کی وصیت‘‘ کے ایک شعر میں یہی نکتہ بیان کیا گیا ہے؛</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">مغل سے کسی طرح بھی کم نہیں</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">کہستاں کا یہ بچۂ ارجمند</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">جب تک وفاقی دارالحکومت نوکر شاہی کی بے نیاز‘ مست آمریت سے نجات نہیں پاتا‘ اس قسم کی حماقتیں ظاہر ہوتی رہیں گی۔ شہر کے قلب میں شاہراہیں بند ہوتی رہیں گی! بیرونی دنیا کو پیغام جاتا رہے گا کہ دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ حسرت موہانی نے شاید ہمارے لیے ہی کہا تھا ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">تابہ کجا ہوں دراز سلسلہ ہائے فریب</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ضبط کی لوگوں میں تاب‘ دیکھیے کب تک رہے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">حسرتِ آزاد پر جورِ غلامانِ وقت</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ازرہِ ظلم و عتاب ‘ دیکھیے‘ کب تک رہے</font></div></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-51995076178912731312024-03-07T16:56:00.001+05:002024-03-07T16:56:58.100+05:00جانا پڑا رقیب کے در پر <h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><span style="font-size: large;">…</span></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">ایک آسودہ حال شخص اپنے محل میں دسترخوان پر بیٹھا اپنی بیوی کے ہمراہ کھانا کھا رہا تھا۔انواع و اقسام کے مشروبات اور ماکولات سامنے رکھے تھے۔ دروازے سے ایک فقیر کی صدا آئی۔ امیر شخص نے بیوی سے کہا‘ فقیر کو کھانا دے آؤ۔ بیوی بہت سا کھانا لے کر باہر گئی۔ وہاں سے اس کی چیخوں کی آواز آئی۔واپس اندر آئی تو اس کی حالت عجیب سی ہو رہی تھی۔ شوہر کے پوچھنے پر اس نے جو بات بتائی ‘ وہ ہوشربا تھی۔اس نے کہا کہ یہ فقیر تو میرا سابقہ شوہر نکلا! پھر اس نے تفصیل بتائی کہ اس کا یہ سابقہ شوہر بہت مالدار تھا۔ ایک دن کھانا کھا رہا تھا تو ایک فقیر نے دروازے پر آکر کھانا مانگا۔ یہ باہر گیا اور فقیر کو مارا پیٹا اور اس کی خوب تذلیل کی۔ کچھ عرصہ بعد اس کا ستارہ گردش میں آ گیا۔ کاروبار فیل ہو گیا۔ جائداد بِک گئی۔کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا۔ پھر مجھے بھی چھوڑ دیا اور غائب ہو گیا۔ آج اسے مانگتے دیکھ کر میں کانپ اُٹھی اور افسوس اور حیرت سے چیخ نکل گئی۔ جب بیوی یہ سب کچھ بیان کر چکی تو اس کے شوہر نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات بتاتا ہوں۔ میں ہی وہ فقیر ہوں جس کی اس نے تذلیل کی تھی!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">یہ ایک بہت ہی مشہور حکایت ہے۔ صدیوں کے تجربے اور مشاہدے نے بتایا ہے کہ جس کی تذلیل کی جائے‘ ایک نہ ایک دن اسی کے دروازے پر جانا پڑتا ہے۔ایسے ایسے واقعات ہیں کہ انسان حیرت سے گنگ ہو جاتا ہے۔ حالات یوں پلٹا کھاتے ہیں کہ سوالی سیٹھ بن جاتا ہے اور سیٹھ سوالی! جس دن خان صاحب نے اچکزئی صاحب کی توہین کی تھی اور ان کی نقل لگاتے ہوئے چادر اوڑھ کر ٹھٹھا کیا تھا‘ اُس دن کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ خان صاحب اپنے ساتھیوں کو اچکزئی صاحب کے دروازے پر صدا لگانے کے لیے بھیجیں گے۔ اچکزئی صاحب نے ماضی کی تلخیوں کا ذکر نہ کر کے‘ کچھ جتائے بغیر ‘ تحریک انصاف کے لیے گھر اور دل ‘ دونوں کے دروازے کھول دیے۔یہ ان کی کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی ہے۔ کاش ہمارے اہلِ سیاست اختلاف کو دشمنی نہ بنائیں۔اس وقت سیاسی فضا جتنی مسموم ہے ‘ کبھی نہ تھی۔ پولرائزیشن سیاستدانوں سے ہو کر نیچے ‘ عوام تک پہنچ چکی ہے۔خاندان تقسیم ہو گئے ہیں۔ پرانی دوستیاں داؤ پر لگ گئی ہیں۔ یہ صورت حال پریشان کن ہے۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">اور کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ ایک دن خان صاحب کے ایلچی مولانا کی ڈیوڑھی میں کھڑے پائے جائیں گے ؟ خان صاحب نے مولانا کا نام بگاڑنے سے لے کر ان کی تضحیک کرنے تک ‘ سب کچھ کیا۔ مولانا تقی عثمانی صاحب سے لے کر چودھری شجاعت حسین تک ہر بزرگ نے سمجھایا کہ نام بگاڑنا قرآنی حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ''آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو! ‘‘ ( القرآن )۔ مگر خان صاحب کب کسی کی سنتے یا مانگتے ہیں! ان کا ایک مخصوص سٹائل ہے۔جس قسم کی زبان وہ استعمال کرتے ہیں‘بد قسمتی سے منڈی میں اسی کی مانگ ہے۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">وقت بھی عجیب ستم ظریفیاں دکھاتا ہے! جس کا پیٹ پھاڑنے کا اعلان کیا جائے‘ اس کے لیے‘ اپنی نگرانی میں ‘ چوہتر (74 ) ڈشیں پکوانا پڑتی ہیں ! جسے سب سے بڑا ڈاکو کہا جائے ‘ حکومت بنانے کے لیے‘ اسے ساتھ ملانا پڑ جاتا ہے۔ جسے چپڑاسی لگانے کے قابل بھی نہ سمجھا جائے اور اس کا اعلان بھی کیا جائے اسے داخلہ جیسی ٹاپ کلاس وزارت سے نوازنا پڑ جاتا ہے! کیا عجب خان صاحب کو کسی دن شریفوں اور زرداریوں کی حمایت کیلئے بھی دستِ سوال دراز کرنا پڑ جائے! بقول انشا </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">جذبۂ عشق سلامت ہے تو ان شاء اللہ</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">اسی لیے بزرگ ہمیشہ سمجھاتے ہیں کہ کسی کے بارے میں ایسی بات نہیں کرنی چاہیے‘ سامنے نہ پیٹھ پیچھے‘ جس پر بعد میں معذرت کرنی پڑے! تاہم خان صاحب کی جو شخصیت ہے اور جو ان کا مزاج اور افتاد طبع ہے‘ لگتا نہیں کہ انہوں نے کبھی کسی سے معذرت کی ہو !</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">عمر ایوب صاحب سے کسی نے ان کے دادا کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔اول تو یہ سوال ہی ناروا تھا۔دادا کے اعمال کی ذمہ داری پوتے پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے اور اس سے جواب طلبی کا کیا جواز ہے؟ ایوب خان نے مارشل لاء 1958ء میں لگایا۔ عمر ایوب اس کے بارہ سال بعد پیدا ہوئے۔ لیکن اگر کوئی ایسا سوال پوچھ ہی لے تو جواب پوری دیانتداری سے دینا چاہیے! خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر مرحوم جنرل ضیا کے ساتھیوں میں سے تھے۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے خواجہ آصف نے اس بات پر معذرت کی تھی یا اظہارِ افسوس کیا تھا۔ عمر ایوب صاحب اور اعجاز الحق صاحب کو چاہیے کہ کم از کم یہ تسلیم کر لیں کہ ایک کے دادا نے اور دوسرے کے والد نے غلطی کی تھی اور یہ کہ انہیں مارشل لاء نہیں لگانا چاہیے تھا۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">حقیقت تسلیم کر لینے سے ان دونوں حضرات کے مرتبے میں کمی نہیں آئے گی بلکہ ان کی شہرت اور وقار میں اضافہ ہو گا! عوام کی نظروں میں ان کا اعتبار بڑھے گا! ویسے عمر ایوب کی استقامت پر حیرت ہوتی ہے۔ وہ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے۔ ناز و نعم میں پر ورش پائی۔ ان جیسے شہزادے سے یہ توقع نہ تھی کہ گرفتاری سے بچنے کے لیے پاپڑ بیلیں گے اور مصیبت اور مشقت بر داشت کر لیں گے۔ مگر انہوں نے استقامت دکھائی اور خان صاحب کا ساتھ نہ چھوڑا۔ ہم پی ٹی آئی کے حامی نہیں مگر سچ بہر طور سچ ہے۔عمر ایوب سیماب صفت ماضی کے باوجود ڈٹے رہے۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی! شامل تو تحریک انصاف میں اعجاز الحق بھی ہوئے تھے۔مگر وزیر اعظم کے حالیہ انتخاب میں انہوں نے ووٹ شہباز شریف کو دیا ہے۔ ماضی میں وہ مسلم لیگ (ق) میں بھی رہے ہیں۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">تحریک انصاف کو احتجاج کا حق یقینا حاصل ہے۔ مگر ان کا یہ عزم کہ اسمبلی اور حکومت کو چلنے نہیں دیں گے مبنی بر انصاف نہیں۔اس پالیسی سے بد انتظامی اور بد امنی جنم لے گی۔ نقصان عوام کا ہو گا۔(ن) لیگ اور اس کے اتحادی تو اشرافیہ میں سے ہیں۔انہیں کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔پی ٹی آئی کو سسٹم سے باہر نکل جانے پر پہلے بھی نقصان ہوا ہے‘ آئندہ بھی نقصان ہی ہو گا۔ اگر وہ اداروں سے بدظن ہیں تو پارلیمان کو تو اہمیت دیں جس کا وہ خود بھی حصہ ہیں۔ مسائل حل کرنے کے لیے اور جھگڑے نمٹانے کے لیے پارلیمنٹ کے ارکان کی کمیٹیاں بنائیں جس میں تمام جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں۔یہ پالیسی کہ مل کر نہیں بیٹھنااور بات نہیں کرنی بند دروازوں کی طرف جاتی ہے۔ ایک دوسرے سے جنگ کرنے والے ممالک بھی باہمی مذاکرات کر لیتے ہیں! اور یہ تو سب ہم وطن ہیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">پس نوشت۔ بچوں کے لیے میرا لکھا ہوا ناول '' ٹِکلو کے کارنامے‘‘ ( با تصویر) شائع ہو گیا ہے۔دس سال سے لے کر اَسی سال تک کے بچے اس سے لطف اندوز ہوں گے۔ کوشش کی گئی ہے کہ بچوں کو پاکستان اور دوسرے ملکوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہوں اور اُردو زبان پر بھی ان کی گرفت مضبوط ہو سکے۔ ناول کی رونمائی کی تقریب اس کے پبلشر بک کارنر جہلم کے ہاں دس مارچ کو ہو رہی ہے۔</font></div></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-80020929133408405142024-03-05T15:50:00.000+05:002024-03-06T15:51:36.627+05:00اس خزانے کو کون چھاپے گا؟ … (2)<h1 class="title" data-reader-unique-id="titleElement" style="text-align: right; font-weight: normal; line-height: 2.55em; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5em; max-width: 100%; caret-color: rgb(27, 27, 27); color: rgb(27, 27, 27);"><font size="4" face="Helvetica"><br></font></h1><p data-reader-unique-id="0" style="max-width: 100%; caret-color: rgb(27, 27, 27); color: rgb(27, 27, 27);"></p><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">کل ہم نے جعفر طاہر کی معرکہ آرا اور تاریخ ساز تصنیف ''ہفت کشور‘‘ کے حوالے سے چار ملکوں ( ترکی‘ مصر‘ عرب اور عراق) کے متعلق بات کی تھی۔ کتاب کا پانچواں باب ایران کے بارے میں ہے۔ جعفر طاہر نے قدیم تاریخ سے لے کر عہدِ جدید تک ایران کی تاریخ کو دلچسپ انداز میں نظم کیا۔ ایران حسن و جمال کا‘ پھولوں اور چشموں کا‘ قالینوں اور توشکوں کا اور شاعروں اور محبوبوں کا ملک ہے۔ جعفر طاہر کا اس سلسلے میں حُسنِ بیان دیکھیے ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">دشت در دشت یہ آہو روِشانِ پُرکار</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">یہ طلسمات سے معمور ختن کیا کہنے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">باغ در باغ نسیمِ طرب و بادِ شمال</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">یہ فرو فالِ حسینانِ چمن کیا کہنے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">تاک در تاک مچلتے ہوئے شیریں چشمے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">مسکراتے ہوئے یہ کوہ و دمن کیا کہنے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">آج تک تیرے حسینوں کا نہیں کوئی جواب</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">اے ستاروں کے بہاروں کے وطن کیا کہنے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">فردوسی کا شاہنامہ ایرانی ثقافت کی جان ہے۔ رستم و سہراب کا قصہ فردوسی نے بے مثل انداز میں بیان کیا ہے۔ جعفر طاہر نے اس کا ذکر کیسے کیا ہے‘ ملاحظہ کیجیے ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">یہ فردوسیٔ نامور کی زبانی؍</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">سنو داستانِ جنون و جوانی</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">عجب قصّۂ حسرت و درد ہے یہ؍ نرالی انوکھی ہے ساری کہانی</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">سمجھ لو کہ سہراب وہ نوجواں تھا؍ کوئی جس کا مدِّمقابل نہ ثانی</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">مگس کی طرح اس کے آگے زمانہ؍ کئی پہلوانوں کے پِتّے ہوں پانی</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">مگر باپ کو اپنے دیکھا نہیں تھا؍ ستم اس پہ احباب کی چھیڑ خانی</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">ہوا باپ کی جستجو میں روانہ؍ نہ تصویر دیکھی نہ مانگی نشانی</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">پھرا شہر در شہر اس آرزو میں؍ مہ و سال صحراؤں کی خاک چھانی</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">ملا باپ سے تو نہ پوچھو محبّو؍ پیامِ قضا بن گئی پہلوانی</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">الٰہی یہ کیا ہو گیا دو گھڑی میں؍ زمیں ہو گئی خون سے ارغوانی</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">وہ سینے میں رستم کا خنجر گڑا ہے؍ دریغا جوانی! دریغا جوانی</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">ایران سعدی اور حافظ کی سرزمین ہے ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">یہ سعدی کے پُر نور کوچے‘ گلستاں کے اوراق‘ یہ بوستان و بہاراں</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">انہی شاہراہوں پہ کھیلا ہے وہ شہر یارِ غزل‘ وہ شہیدِ نگاراں</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">وہ سعدی کہ جس کا سخن آج بھی محفل و مدرسہ کے لیے آبرو ہے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">حسینوں کا زیور‘ فقیروں کی دولت‘ تو مستوں کو صہبائے خوش کا سبو ہے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">یہاں تجارتی کارواں آتے تھے اور ریشم و کمخواب سے لے کر گھوڑوں اور قالینوں تک‘ دنیا کی ہر شے یہاں بیچی اور خریدی جاتی تھی۔ پھر جعفر طاہر ترک خدوخال کا ذکر کرتے ہیں جو رومان پرور دریچوں کے پیچھے جام و سبو سے کھیل رہے ہیں۔ قباؤں میں بجلیاں سمٹی ہوئی ہیں۔ نقابوں کے اندر شعلوں جیسے رخسار ہیں۔ پھر عمر خیام کی بات کرتے ہیں جو حسن و جوانی کے اسرار سے آگاہ تھا اور زندگی کے بھید جس پر کھلتے تھے۔ اس کی رباعیاں عمرفانی کا نوحہ ہیں اور لمحۂ موجود سے حَظ اٹھانے کی تلقین کرتی ہیں۔ قلیان و قہوہ کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ پائلیں چھنکتی ہیں۔ شبنم برستی ہے۔ غمِ دو جہاں کو اس ماحول میں بھلا دیا جاتا ہے۔ پھر وہ مشہد میں امام رضا کے مقدس روضہ کا ذکر کرتے ہوئے دست بستہ ہو جاتے ہیں۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ اب سامنے اور ہی آستاں ہے۔ یہاں زمانہ باادب ہو کر حاضر ہوتا ہے۔ یہاں آنسوؤں سے وضو کیا جاتا ہے۔ یہاں کا ایک ایک ذرہ مقدس ہے۔ پھر وہ اصفہان نصف جہان کا قصیدہ کہتے ہیں جس کے باغات‘ محلات‘ قصر و ایواں اور عمارتوں کے ستون پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ جہاں حیران کر دینے والے مینار اور محراب ہیں۔ جہاں شہزادیاں چاندنی راتوں میں چوگان (پولو) کھیلتی ہیں۔ کہیں سرو و چنار کی چھاؤں ہے اور کہیں ستارہ جبیں نازنینیں دکھائی دیتی ہیں۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">شیر شاہ سوری نے جب ہمایوں سے تخت و تاج چھین لیا تو ہمایوں نے ایران کا رُخ کیا۔ اس کا پہلا پڑاؤ ہرات تھا۔ اس وقت شاہ طہماسپ صفوی ایران کا حکمران تھا۔ قزوین اس کا دارالحکومت تھا۔ طہماسپ نے ہمایوں کا ہرات میں فقید المثال استقبال کرایا۔ ہرات کے گورنر کو اس نے اس ضمن میں جو ہدایات دیں‘ ابو الفضل نے ''اکبر نامہ‘‘ میں یہ ہدایات نقل کی ہیں جو تیرہ صفحات پر مشتمل ہیں۔ ہمایوں کا وفادار مشیر بیرم خان طہماسپ کے دربار میں پہلے پہنچ چکا تھا۔ بیرم خان اور طہماسپ کے درمیان جو گفتگو ہوئی‘ اسے جعفر طاہر نے منظوم ڈرامے کی شکل دی ہے۔ یہ ڈرامہ بھی بہت دلچسپ ہے۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">جعفر طاہر نے جب یہ شہکار کتاب لکھی‘ اُس وقت مشرقی پاکستان‘ پاکستان کا حصہ تھا۔ پاکستان کے باب میں انہوں نے مشرقی پاکستانی ثقافت کا بھر پور تذکرہ کیا ہے۔ وہ ڈھاکہ کی ململ کا‘ باریسال کے چاول کا‘ منشی گنج کے کیلے کا‘ سلہٹ کے مالٹے کا‘ رنگ پور کے تمباکو کا‘ کُمیلا کے حقے کا اور پبنہ کے ٹیکسٹائل کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز کا ذکر کرتے ہیں جب مسلمان ہندو اکثریت اور انگریز سامراج کے درمیان پِس رہے تھے۔ ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">چھا گئی اس ملک پر یہ رات کیا؍ نور کا انجام ہے ظلمات کیا</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">مٹ گئی دلّی‘ اوَدھ برباد ہے؍ لُٹ گئے بازار کیا محلات کیا</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">گلشنِ اسلامیاں پامال ہے؍ باغ ہی باقی نہیں تو پات کیا</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">اس طرف سیّد اٹھا‘ حالی اٹھا؍ سر سلیم اللہ خاں کی بات کیا</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">کفر و دیں کے درمیاں اب ٹھن گئی؍ بنتے بنتے لیگ ملّت بن گئی</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">پاکستان کے باب میں ایک خاص تخلیق طویل بحر کی ایک نظم ہے جو جعفر طاہر کے شاعرانہ کمال کا مظہر ہے۔ صرف ایک شعر یہاں نقل کیا جاتا ہے ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">گُل و گلزار کے اورنگِ ہمہ رنگ پہ یہ نغمہ و آہنگ مرے جھنگ و تلہ گنگ کی بہتی ہوئی مَے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">طبلک و چنگ و مزامیر و دف و بربط و الغوزہ و طاؤس و گجر نادیہ طنبورہ و نَے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">پھر پاکستان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">تیرے نخل و نوا‘ تری آب و ہوا‘ ترے کھیت ہرے‘ تری گود بھرے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">تری ریگِ تپاں کا جو آئے بیاں‘ روئے خَلق پہ مخملِ خواب چمکے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">یہ اس عظیم ادبی عجوبے کی چند جھلکیاں تھیں۔ کل ہم نے اس حسرت کا اظہار کیا تھا کہ کاش کوئی پبلشر اس کی اشاعت کا بیڑہ اٹھائے۔ جہاں تک سرکاری ادبی اداروں کا تعلق ہے‘ ان سے یوں تو امید رکھنا عبث ہے مگر حسنِ اتفاق سے اس وقت دونوں بڑے اداروں کے سربراہ ادب کے خیر خواہ ہیں۔ مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم مظہر محقق اور ادیب ہیں اور ادب دوست بھی۔ اکادمی ادبیات کی چیئر پرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف بھی میرٹ پر کام کرتی ہیں! کیا عجب ان دونوں اداروں میں سے کوئی ایک ہمت کرے اور اس نایاب ادب پارے کو از سرِ نو شائع کر دے!! بقول فراز ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">دیکھ یہ میرے خواب ہیں‘ دیکھ یہ میرے زخم ہیں</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">میں نے تو سب حسابِ جاں بر سرِ عام رکھ دیا</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">(ختم)</font></div><p></p> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-88565520001045929122024-03-04T10:18:00.001+05:002024-03-04T10:18:26.908+05:00اس خزانے کو کون چھاپے گا؟؟<h1 class="title" data-reader-unique-id="titleElement" style="text-align: right; font-weight: normal; line-height: 2.55em; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5em; max-width: 100%; caret-color: rgb(27, 27, 27); color: rgb(27, 27, 27); font-family: "Noto Nastaliq Urdu";"><br></h1><p data-reader-unique-id="0" style="text-align: right; max-width: 100%; caret-color: rgb(27, 27, 27); color: rgb(27, 27, 27); font-family: "Noto Nastaliq Urdu";"><font size="4">ایک خزانہ ہے جو دفن ہے۔ کچھ اس سے بے خبر ہیں۔کچھ کھودنے کے لیے تیار نہیں!</font></p><p data-reader-unique-id="0" style="max-width: 100%;"><div style="text-align: right;"><font color="#1b1b1b" face="Noto Nastaliq Urdu" size="4"><span style="caret-color: rgb(27, 27, 27);"><br></span></font></div><font size="4" style="caret-color: rgb(27, 27, 27); color: rgb(27, 27, 27); font-family: "Noto Nastaliq Urdu";"><div style="text-align: right;">جعفر طاہر 1917ء میں جھنگ میں پیدا ہوئے۔ فوج میں نان کمیشنڈ افسر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ریڈیو سے وابستہ ہو گئے۔ 1977ء میں وفات پائی۔ رائٹرز گلڈ کب بنی‘ کیوں بنی‘ یہ ایک الگ قصہ ہے مگر اس کے ذریعے جعفر طاہر کا ایک ایسا شہکار ظہور پذیر ہوا جس کی اور کوئی مثال اُردو دنیا میں نہیں ملتی۔ یہ ان کی تصنیف ''ہفت کشور‘‘ ہے۔ اس پر انہیں 1962ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ اس کتاب کا جو نسخہ میرے پاس ہے وہ جولائی 1962ء کا شائع شدہ ہے۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کراچی نے اسے شائع کیا۔ میں نے اسے کراچی سے 31 جنوری 1974ء کو خریدا۔ اب یہ کتاب نایاب ہے۔ ایک ویب سائٹ پر موجود ہے مگر ڈاؤن لوڈ نہیں کی سکتی‘ پڑھنا بھی مشکل ہے کیونکہ یہ ویب سائٹ </div></font></p><p data-reader-unique-id="0" style="text-align: right; max-width: 100%; caret-color: rgb(27, 27, 27); color: rgb(27, 27, 27); font-family: "Noto Nastaliq Urdu";"><font size="4">User-friendly</font></p><p data-reader-unique-id="0" style="max-width: 100%; caret-color: rgb(27, 27, 27); color: rgb(27, 27, 27); font-family: "Noto Nastaliq Urdu";"><div style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"> نہیں۔</span></div><font size="4"><div style="text-align: right;">جن لوگوں نے ''ہفت کشور‘‘ کو کینٹوز </div></font></p><p data-reader-unique-id="0" style="text-align: right; max-width: 100%; caret-color: rgb(27, 27, 27); color: rgb(27, 27, 27); font-family: "Noto Nastaliq Urdu";"><font size="4">(Canto)</font></p><p data-reader-unique-id="0" style="max-width: 100%; caret-color: rgb(27, 27, 27); color: rgb(27, 27, 27); font-family: "Noto Nastaliq Urdu";"><div style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"> کا مجموعہ کہا ہے‘ صریحاً غلط کہا ہے۔ اس میں شاعری کی تمام اقسام موجود ہیں۔ غزل ہے اور نظم کی ساری اصناف ہیں۔ مثنوی‘ آزاد نظم‘ نظمِ معرّیٰ‘ پابند نظم‘ کینٹو‘ منظوم ڈرامہ! مثلث‘ مخمّس‘ مسدّس‘ یہاں تک کہ ترکیب بند اور ترجیع بند سے ملتے جلتے تجربے بھی ملتے ہیں! کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ ترکی‘ مصر‘ عرب‘ عراق‘ ایران‘ پاکستان اور الجزائر! ان ملکوں کی تاریخ‘ ثقافت‘ روایات اور ہم عصر حالات کو جس طرح بیان کیا گیا ہے‘ پڑھنے والا جعفر طاہر کے علم کی گہرائی اور قدرتِ کلام پر حیرت سے گنگ ہو جاتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا منظر! ایک کے بعد شاعری کی دوسری صنف! ایک کے بعد دوسری بحر! دریا کی سی روانی‘ لغت اور معانی کا بے کنار سمندر! سچی بات یہ ہے کہ یہ تصنیف اردو ادب کا عجوبہ ہے!</span></div><font size="4"><div style="text-align: right;">ترکی کے باب میں جعفر طاہر کہتے ہیں: یہ ترکی ہے جس کی فضاؤں ہواؤں میں شیریں نواؤں کے نغمے رواں ہیں ؍ یہیں مرشدِ روم کا آستاں ہے‘ یہیں سر جھکائے ہوئے آسماں ہیں ؍ بتانِ خجستہ قدم کی طرح ''مارمورا‘‘ کی پُر نور لہریں رواں ہیں ؍ '' ارارات‘‘ کی بخششیں بے کراں، ''باسفورس‘‘ کی یہ بستیاں جاوداں ہیں</div><div style="text-align: right;">قسطنطیہ کی فتح کا احوال منظوم ڈرامے کی شکل میں لکھا ہے۔ قسطنطینِ اعظم پکارتا ہے: صلیبیو! بہادرو! سپاہیو دلاورو! ؍ بڑھو بڑھو بڑھو بڑھو‘ عدو کو آج بھون دو ؍ وطن کی سرزمین کو عدو کا سرخ خون دو! صلیبیو! بہادرو</div><div style="text-align: right;">مرشد روم اور شمس تبریزی کی ملاقات‘ شمس کا مولانا کی کتابوں کو حوض میں پھینکنا‘ پھر خشک حالت میں باہر نکال لانا‘ یہ تمام قصہ منظوم بیان کیا ہے۔</div><div style="text-align: right;">مصر کا باب انوکھا ہے: نیل بہتا رہا نیل گاتا رہا۔ زندگی کے ترانے لٹاتا رہا ؍ عشق اپنی کہانی سناتا رہا۔ حُسن سنتا رہا مسکراتا رہا ؍ نیل بہتا رہا نیل گاتا رہا</div><div style="text-align: right;">حضرت موسیٰ کے بارے میں فرعون اور اس کی ملکہ آسیہ کی باہمی گفتگو کو بھی منظوم کیا ہے۔ مصر میں اسلام کی آمد کے بیان کی ایک جھلک دیکھیے: دینِ محمد کی برکت سے دن بدلے ہیں یاراں... اے ناداراں ؍ ایک نرالے دین کا پرچم‘ خوش نگہانِ فاراں... صدق شعاراں ؍ وادیٔ سینا تجھ کو مبارک حُسن و جمالِ بہاراں... لِحنِ ہزاراں</div><div style="text-align: right;">جامعہ ازہر کے بارے میں کہا: ابنِ خلدون کے جوہر دیکھو ؍ دوستو جامعہ ازہر دیکھو ؍ یہ کہ ہے شہرِ علوم ؍ اس کی عالم میں ہے دھوم ؍ ہو ریاضی کہ نجوم ؍ سب کی تعلیم یہاں پر دیکھو ؍ دوستو جامعہ ازہر دیکھو</div><div style="text-align: right;">صدر ناصر نے 1956ء میں نہر سویز کو قومیایا تو برطانیہ‘ فرانس اور اسرائیل نے مل کر مصر پر حملہ کر دیا۔ صدر ناصر ڈٹے رہے اور نہر سویز مصر کی ہو گئی! حق بحقدار رسید!! اس واقعہ کو جعفر طاہر نے ایک دلکش نظم کی صورت بیان کیا جو تمام مقفّیٰ ہے۔ چند مصرعے یوں ہیں: بستر بند سپاہی لاکھوں عیسائی موسائی ؍ لشکر عسکر فوجیں توپیں ٹینک جہاز ہوائی ؍ بستی بستی وادی وادی گھر گھر آگ لگائی ؍ نیل کے بیٹے رن میں کودے کیا شہری صحرائی ؍ توپوں ٹینکوں بمباروں سے کیا رکتے مولائی ؍ جنگ لڑے اور ایسی یارو داد نبی سے پائی ؍ واہ ناصر یہ تیری ہمت یہ تیری دانائی ؍ نیل کی بیٹی بچ نکلی ناکام گئے بلوائی</div><div style="text-align: right;">پھر عرب کا باب ہے۔ ابتدا یوں کی ہے: یہ ایک صحرائے لق و دق ہے ؍ نہ موجۂ ابر نے شفق ہے ؍ رواں دواں ندیاں لہو کی ؍ اجل کا دیکھو تو رنگ فق ہے ؍ یہاں دلِ دہر پارہ پارہ ؍ بیاض ہستی ورق ورق ہے</div><div style="text-align: right;">حضرت ہاجرہ اور اسماعیلؑ کا ذکر دیکھیے: وہ دوڑنے لگی ہے مروہ و صفا کے درمیاں ؍ وہ پھر پلٹ پڑی خیال آ گیا جو ناگہاں ؍ اجل کی ریت میں نہ کھو گیا ہو گوہرِ گراں ؍ مرے خدا وہ کون ہے ؍ مرے خدا وہ کون ہے</div><div style="text-align: right;">قبل از اسلام کا عرب ملاحظہ ہو: حج کے دن ہیں قبیلے آتے ہیں ؍ مل کے صحنِ حرم سجاتے ہیں ؍ دیوتاؤں کی حمد کرتے ہیں ؍ ناز نینوں کے گیت گاتے ہیں ؍ ہر قبیلے کا اپنا اپنا خدا ؍ جس کے پاؤں پہ سر جھکاتے ہیں ؍ میہمانوں کی پیشوائی کو ؍ رہگذاروں پہ بیٹھ جاتے ہیں</div><div style="text-align: right;">رسالت مآبﷺ کے ساتھیوں کے بارے میں ایک طویل نظم سے تین اشعار: یہ لوگ شہریارِ بزمِ جان و دو جہاں رہے ؍ زمیں کے پاسباں رہے دلوں پہ حکمراں رہے ؍ اداس راستوں کو ہمکنارِ نور کر دیا ؍ جہاں جہاں یہ مہر و ماہ بن کے ضو فشاں رہے ؍ گرجتے بادلوں کڑکتی بجلیوں پہ چھا گئے ؍ برستی بدلیوں کے ساتھ مل کے نغمہ خواں رہے</div><div style="text-align: right;">تیل نکلا تو سب کچھ بدل گیا: چلی مشین چلی ؍ چلی مشین چلی ؍ تھر تھر تھر تھر صحرا کانپیں انجن شور مچائیں ؍ بَن کے باسی اللہ راسی پِیپے بھرتے جائیں ؍ تیل کے سوداگر یہ سب کچھ دیکھیں اور مسکائیں ؍ کس میں ہمت کون تمہیں سمجھائے بُری بھلی ؍ چلی مشین چلی چلی مشین چلی</div><div style="text-align: right;">عراق کے چیپٹر میں زیادہ ذکر سانحہ کربلا کا ہے۔ یہ تین ایکٹ کا منظوم ڈرامہ ہے۔ جعفر طاہر نے یہاں قلم توڑ کر رکھ دیا ہے۔حضرت مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کا حال نظم کیا۔ حضرت زینبؓ اہلِ کوفہ سے مخاطب ہیں: کہو کہو ساکنانِ کوفہ! ؍ کہو کہ تم میرے پاک نانا کی امت محترم نہیں ہو؟ ؍ کہو کہ اسلام پر نہیں ہو؟ ؍ کہو تمہارا خدا کوئی اور ہے؟ ؍ نہیں تو بتاؤ یہ ظلمِ ناروا کیوں؟ ؍ جفا شعارانِ شہر کوفہ ؍ ڈرو خدا کے عذاب سے؍ روزِ حشر سے‘ یومِ عدل و یومِ حساب سے</div><div style="text-align: right;">ایران‘ پاکستان اور الجزائر کے ابواب کی جھلکیاں ان شا اللہ کل کی نشست میں پیش کی جائیں گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کتاب کا نیا ایڈیشن چھپنا چاہیے۔ یہ ایک خزانہ ہے‘ شاعری کا‘ ادب کا‘ ثقافت کا‘ علم کا‘ تاریخ کا اور غنائیت کا! آج کی نسل کے جو لوگ ادب اور علم سے وابستہ ہیں انہیں یہ میسّر ہونی چاہیے مگر کیسے میسّر ہو؟ پبلشر حضرات رو رہے ہیں کہ کاغذ کی کمیابی اور بے انتہا گرانی نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے! پبلشر یہ بھی کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی یلغار کے بعد شاعری کی اشاعت کا حال پہلے جیسا نہیں رہا۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ مگر 335 صفحات کی یہ کتاب ''ہفت کشور‘‘ ہماری ادبی تاریخ کا از حد قیمتی حصہ ہے۔ ہے کوئی پبلشر جو اسے از سر نو چھاپے؟ میں اس کے پندرہ نسخے خریدنے کے لیے رضاکارانہ اعلان کرتا ہوں! امید ہے کہ ادب کے رسیا آگے بڑھیں گے اور پبلشر حضرات کے خدشات کو دور کر دیں گے!! (جاری)</div></font></p> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-19775788425843416322024-02-29T08:40:00.001+05:002024-02-29T08:40:34.475+05:00کیا جہالت اور انتہا پسندی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں؟؟ <h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><span style="font-size: large;">پوری دنیا میں ہم تماشا بنے ہوئے ہیں!!</span><span style="font-size: large;"> </span></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">ایک طرف عملی طور پر ہم بطور مسلمان ہی نہیں‘ بطور انسان بھی بدترین ہیں! ہماری تجارت بددیانتی سے عبارت ہے۔ ہم میں سے بھاری اکثریت‘ بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو جھوٹ کو جھوٹ نہیں سمجھتے! آپ کسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہاں ہو؟ وہ گھر بیٹھا ہے مگر کہے گا کہ بس جی شیر پاؤ پُل سے گزر رہا ہوں۔ غور کیجیے! کیا اکثر ایسا نہیں ہوتا؟ وعدہ خلافی ہمارا معمول ہے۔ ملاوٹ‘ ناروا منافع خوری‘ ٹیکس چوری‘ پڑوسیوں اور اقربا کے حقوق سے غفلت‘ یہ سب برائیاں ہماری پہچان بن چکی ہیں۔ ہماری ٹریفک قانون اور انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ وقت کی پابندی حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک عنقا ہے۔ ہم ہر وہ کام کر رہے ہیں جس کی ہمارے مذہب نے ممانعت کی ہے اور وعید سنائی ہے۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">دوسری انتہا یہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی مدارس کی تعداد کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ ہے۔ تبلیغی جماعت کا عالمی مرکز ہمارے ملک میں واقع ہے۔ ہر مسلک کی تبلیغی جماعتیں شہر شہر‘ گاؤں گاؤں‘ محلہ محلہ‘ گلی گلی رات دن پھر رہی ہیں۔ مسجدوں میں صبح شام قرآن پاک اور حدیث کے درس دیے اور سنے جاتے ہیں۔ جمعہ کی نماز کے لیے اس قدر نمازی ہوتے ہیں کہ مسجدوں میں جگہ نہیں ملتی۔ باپردہ خواتین اور باریش مرد اکثریت میں ہیں۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی عمرے اور حج سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ غریب سے غریب خاندان بھی بڑی عید پر قربانی کرتا ہے۔ ہماری خواتین آئے دن آیتِ کریمہ کے حوالے سے اور میلاد کے سلسلے میں مقدس محفلیں منعقد کرتی ہیں! محرم میں ہم سینہ کوبی کرتے ہیں‘ روتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے اسوہ پر چلنے کا عزم کرتے ہیں۔ حرمتِ رسول پر‘ اہلِ بیت اور صحابہ پر جان قربان کرنے کے لیے ہر پاکستانی مسلمان‘ جس مسلک کا بھی ہے‘ ہر گھڑی تیار بیٹھا ہے۔ کشمیر‘ فلسطین‘ چیچنیا اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے ہم خون کے آنسو روتے ہیں! اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کوئی مذاق سے بھی کرے تو ملک میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ٹینشن پھیل جاتی ہے۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">تیسری انتہا دیکھیے۔ عوام نے سیاسی جماعتوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے خوب خوب استعمال کریں! اگر کوئی اپنے لیڈر کے بارے میں کھلم کھلا‘ دن دہاڑے کہتا ہے کہ ''اللہ کے بعد جو ہستی ہے‘ یہی لیڈر ہے‘‘۔ تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ کوئی کہتا ہے کہ عمرے پر کیوں گئے ہو‘ میرا ساتھ دو۔ کوئی کہتا ہے حج پر جانے سے زیادہ ضروری اس کے لیڈر کا استقبال ہے۔ کسی پارٹی کے سٹیج سے یہ اعلان ہوتا ہے کہ دنیا میں والدین دو ہی عظیم ہیں۔ ایک آقائے دو جہاںﷺ کے والدین اور دوسرے اس پارٹی کے لیڈر کے والدین!!! اس گستاخی پر اس پارٹی کے صفِ اول کے رہنما سٹیج پر کھڑے مسکرا مسکرا کر تالیاں بجاتے ہیں۔ اہلِ مذہب سمیت پوری قوم ان دیدہ دلیریوں کو بہت آرام سے ہضم کر جاتی ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">مگر چوتھی طرف یہ انتہا دیکھیے اور سر پیٹیے کہ ایک خاتون کی عبایا پر ''حلوہ‘‘ کا لفظ لکھا ہے اور آن کی آن میں ہجوم اسے کلامِ پاک کی توہین قرار دے کر اس کی جان کے درپے ہو جاتا ہے۔ اسے قتل کرنے کے لیے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ خاتون پولیس افسر اپنی جان پر کھیل کر‘ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر اسے اس خونخوار ہجوم کی وحشت سے بچاتی ہے۔ کبھی ایک بینک کا گارڈ‘ بینک کے منیجر کو ذاتی رنجش کی وجہ سے قتل کرتا ہے اور پورا شہر اسے ہیرو بنا کر جلوس نکالتا ہے۔ کبھی فیکٹری کے غیرملکی منیجر سے ذاتی بدلہ لینے کے لیے اس پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا جاتا ہے اور بے دردی سے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ کبھی زندہ انسانوں پر پٹرول چھڑک کر انہیں آگ میں جلایا جاتا ہے۔ کبھی لاشوں کو موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ کبھی محلوں کے محلے ویران کرکے بے گناہ‘ معصوم‘ غریب پاکستانیوں کو بے گھر کر دیا جاتا ہے۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">یہ سب کیا ہے؟ جہالت ہے یا انتہا پسندی؟ یا دونوں ایک ہی چیز ہیں؟ ایک طرف سیاسی لیڈروں کی پرستش! اور وہ بھی اس حد تک کہ مقدس ہستیوں کی توہین اور اسلامی شعائر کی تخفیف برملا کی جائے! اور کوئی چُوں بھی نہ کرے! دوسری طرف مذہب کے نام پر بے جا‘ بلا جواز‘ تشدد اور قتل و غارت!! دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔ پہلے ہم جہالت کا مذاق اڑاتے تھے یہ کہہ کر کہ دو عرب آپس میں جھگڑ رہے تھے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ ایک پاکستانی نے‘ جو وہاں موجود سب سُن رہا تھا‘ کہا: سبحان اللہ! جھگڑتے وقت بھی مقدس کلام پڑھتے ہیں! مگر اب ہماری جہالت اتنی عام ہو چکی ہے کہ عربی حروف کو کلامِ الٰہی سمجھ کر خونریزی پر اُتر آتے ہیں! ہماری جہالت اس حقیقت سے ناآشنا ہے کہ عرب ملکوں میں ڈیڑھ‘ دو کروڑ مسیحی آباد ہیں۔ ان کی مادری زبان عربی ہے۔ یہ عربی لکھتے ہیں۔ عربی بولتے ہیں اور عربی پڑھتے ہیں۔ سب سے زیادہ مسیحی مصر میں ہیں‘ اس کے بعد لبنان میں! لبنان کے آئین کی رو سے صدر مسیحی‘ وزیر اعظم سُنّی مسلمان اور سپیکر شیعہ مسلمان ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے اراکین نصف مسیحی اور نصف مسلمان ہیں۔ عربی زبان کی معتبر ترین اور مقبول و مشہور لغت 'المُنجِد‘ کے مصنف دو مسیحی سکالر تھے! یہ کالم نگار اٹلی میں ایک کورس کر رہا تھا تو ایک کلاس فیلو کا نام عبداللہ تھا جو خرطوم (سوڈان) سے تھا اور مسیحی تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نام بھی ایک جیسے ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے۔ میلبورن میں جہاں میرا قیام ہوتا ہے‘ وہاں قریب ہی ایک مال ہے جہاں چائے اور کافی کی دکانیں ہیں اور سودا سلف بھی مل جاتا ہے۔ وہاں اکثر و بیشتر‘ دن کے وقت جو گارڈ نظر آتا ہے‘ اس کا تعلق مصر سے ہے۔ میں اس سے گپ شپ کے بہانے اپنی ٹوٹی پھوٹی عربی کی مشق کرتا ہوں۔ ایک دن اس سے پوچھا کہ حلال کھانا مہیا کرنے والے ریستوران اس محلے میں کون کون سے ہیں؟ اس پر اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا ''مجھے نہیں معلوم کیونکہ میں تو حرام کھاتا ہوں‘‘۔ اس کے بعد اس نے بتایا کہ وہ مصر کی مسیحی کمیونٹی سے ہے!!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">صورتحال سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس کو ریسرچ کرکے مسئلے کی تہہ تک پہنچنا ہوگا کہ اس ہجوم گردی‘ اس سفاک انتہا پسندی اور اس ہولناک تشدد کے اسباب کیا ہیں؟ اس کے بعد ریاست کا فرض ہے کہ ان اسباب پر کام کرے اور معاشرے کو نارمل بنانے کی سعی کرے! یہاں قوم کی بہادر بیٹی‘ سی ایس ایس افسر‘ سیدہ شہر بانو نقوی (اے ایس پی) کو خراجِ تحسین پیش کرنا لازم ہے جس کے بروقت ایکشن سے ملک ایک بہت بڑے سانحہ سے بچ گیا! جمیل مظہری کا یہ شعر قابلِ غور ہے:</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی</font></div></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-5039059331775329862024-02-27T17:31:00.001+05:002024-02-27T17:32:13.120+05:00 تشدد کا ایشو اور اس کا حل<h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><br></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"></p><div style="text-align: right;"><font size="4">بجلی کے پنکھوں سے پہلے کپڑے کے مستطیل پنکھے ہوتے تھے جو کمرے کے درمیان‘ چھت سے لٹکائے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ رسی بندھی ہوتی تھی۔ ایک آدمی اس رسی کو کھینچنے پر مامور ہوتا تھا۔ رسی کھینچنے سے پنکھا ہلتا تھا اور کمرے میں بیٹھے ہوئے افراد کو ہوا لگتی تھی۔ انگریز دور میں یہی پنکھا استعمال ہوتا تھا جسے مقامی ( یعنی ہندوستانی ) خدام کھینچتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے' شہاب نامہ‘ میں لکھا ہے کہ سخت گرمی اور تھکاوٹ کی وجہ سے نوکر کبھی سو بھی جاتا تھا۔ ایسے میں انگریز افسر اسے جگانے کے لیے پاؤں سے ٹھوکر مارتا تھا۔کبھی کبھی بوٹ کی ٹھوکراس طرح لگتی تھی اور ایسی جگہ لگتی تھی کہ نوکر کی موت واقع ہو جاتی تھی۔قتل کے اس جرم میں سفید فام قاتل کو سزا دی جاتی تھی جو دو روپیہ جرمانے کی صورت میں ہوتی تھی!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">آپ کا کیا خیال ہے کہ سفید چمڑی کے جانے کے بعد صورت حال بدل گئی ہو گی؟ نہیں! پولیس تشدد سے جن شہریوں کی موت واقع ہوتی ہے اس کے بدلے میں کتنے قاتلوں کو پھانسی دی گئی ہے؟ کتنوں کو عمر قید کی سزا ملی ہے؟ اگر کسی پارلیمنٹ کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو اس حوالے سے اعداد و شمار پوچھتی اور قوم کو بھی بتاتی! اب تو دو روپے جرمانے والی سزا بھی نہیں ہے!! دو دن پہلے راولپنڈی میں پولیس تشدد کے دو واقعات پیش آئے۔ ایک نوجوان کو حوالات میں ہنٹر سے مارا گیا۔دوسرا واقعہ ٹیکسلا کا ہے۔ ایک ملزم کی ماں‘ ملزم کی گرفتاری میں مزاحم ہو رہی تھی۔ اسے پولیس نے دھکے دیے اور تھپڑ مارے۔ ماں تو ماں ہے۔ ملزم کی ہو یا منصف کی ! اسے سمجھایا جا سکتا تھا اور گرفتاری ماں پر تشدد کے بغیر بھی عمل میں لائی جاسکتی تھی! رونے پیٹنے کے علاوہ بیچاری نے کیا کرنا تھا۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ پولیس کے محکمے نے تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کیا ایکشن لیا۔ دونوں معاملات میں تشدد کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا۔ اورمعاملہ کی انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">یہ ہے وہ کھیل جو ایک طویل عرصے سے کھیلا جا رہا ہے۔انسان کا بچہ تھانے میں مر جائے یا بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنے ‘ یہی دو ''ایکشن‘‘ لیے جاتے ہیں۔ اہلکار یا اہلکاروں کو معطل کر دیا جاتا ہے اور انکوائری کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ یہ مذاق کے علاوہ کچھ نہیں !! اخبار کی خبر شام تک مر جاتی ہے۔ دوسرے دن کس نے پوچھنا ہے کہ معطل کرنے کے بعد کیا ہوا اور انکوائری کا کیا نتیجہ نکلا۔ اور معطل کر دینا کونسی سزا ہے؟ یہ تو ایسی تعطیل ہے جس کے دوران تنخواہ پوری ملتی ہے۔یعنی </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">Paid holidays!!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ماضی میں قانون یہ تھا کہ معطلی کے دوران آدھی تنخواہ ملتی تھی۔ یہ زیادہ نہیں تو تھوڑی سی سزا ضرور تھی۔ پھر یہ قانون بدل دیا گیا۔ اب پوری تنخواہ ملتی ہے۔ کیا خوب سزا ہے۔ گھر میں بیٹھیے۔ کام کوئی نہیں! تنخواہ پوری پائیے۔ سزا نہ ہوئی پکنک ہو گئی!! سزا وہ ہوتی ہے جس سے دوسرے عبرت پکڑیں! کچھ دن کے بعد معطل کیا جانے والا اہلکار بحال کر دیا جاتا ہے! زیادہ سے زیادہ اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ تبادلہ بھی سزا نہیں ہے۔ یہ تو ملازمت کا حصہ ہے ! اسی لیے تھانوں اور حوالات میں تشدد کا سلسلہ لامتناہی ہے۔ اس کے ختم ہونے کی ایک ہی صورت ہے۔ سخت اور عبرتناک سزا! یعنی کم سے کم ملازمت سے مکمل بر طرفی! اور زیادہ سے زیادہ ‘ برطرفی کے ساتھ قید! اعداد و شمار مہیا نہیں مگر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آج تک تشدد کرنے کے جرم میں پولیس کا کوئی اہلکار نوکری سے نکالا نہیں گیا!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہماری پولیس سے عام شہری ڈرتا ہے۔ خوف زدہ ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جائز کام کے لیے بھی تھانے نہ جائے۔ گیا تو مصیبت میں پھنس جائے گا۔ ایسا کیوں ہے ؟ کیا اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی؟ کیا اوپر کی سطح کے پولیس افسروں نے اس پر غور کیا ہے؟ کیا حکومت نے کبھی سوچا ہے؟ کیا پارلیمنٹ نے کبھی اس سوال کو موضوعِ بحث بنایا ہے؟ مہذب ملکوں میں عوام پولیس سے خوف زدہ نہیں ہوتے بلکہ اس کا احترام کرتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ان ملکوں میں جہاں واردات ہو ‘ پولیس خود وہاں پہنچتی ہے۔ ہمارے ہاں متاثرہ شخص یا خاندان کو خود چل کر تھانے جانا پڑتا ہے اور بتانا پڑتا ہے کہ چوری یا قتل ہو گیا ہے۔ اس کے بعد رپورٹ کرنے والا ایک جال میں پھنس جاتا ہے۔ بلکہ ایک شکنجے میں جکڑا جاتا ہے۔ اس کی آئندہ نسلیں بھی کانوں کو ہاتھ لگاتی ہیں! ایف آئی آر کٹوانا تو ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے برابر ہے۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ہماری پولیس عوام کی خدمتگار نہیں‘ حکومت کی خدمتگار ہے۔ یہ حکومت کی کنیز ہے۔ ہر حکومت کی !! گویا یہ ریاست کی ملازم نہیں‘ حکومت کی ملازم ہے! ہم یہ نکتہ پہلے بھی کہیں عرض کرچکے ہیں کہ ہمارے ہاں پولیس اور حکومت کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ طے پا چکا ہے! پولیس حکومت کی زر خرید غلام بن کر رہے گی! حکومت کا ہر جائز ناجائز کام کرے گی۔بغیر وارنٹ کے گھروں میں گھسے گی۔ بغیر جرم کے لوگوں کو گرفتار کرے گی۔ حکومتِ وقت کے اشارے پر ہر غیر قانونی کام کرے گی۔اس کے بدلے میں حکومت پولیس کے ''معاملات‘‘ میں دخل اندازی نہیں کرے گی! پولیس تشدد سے ملزم کو ہلاک کردے ‘ اس کے ہاتھ پاؤں توڑ دے‘ملزم کے گھر سے اس کی بے گناہ خواتین کو اُٹھا لے‘ انہیں دھکے دے‘ تھپڑ مارے ‘ ہنٹر چلائے‘حکومت کوئی مداخلت نہیں کرے گی! حکومت نہیں پوچھے گی کہ تھانیدار یا بڑے افسر کی یا اس سے بھی بڑے افسر کی تنخواہ کتنی ہے اور اس کے گھر کا خرچ کتنا ہے ؟ یہ ہے حکومت اور پولیس کے درمیان‘ غیر تحریری معاہدہ جس پر ‘ فریقین کامیابی سے عمل کر رہے ہیں!!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">اور صوبے کی پولیس کے سربراہ کی اپنی پوزیشن کیا ہے؟ کیا اُسے وہی اختیارات حاصل ہیں جو اس کے ہم منصب کو امریکہ‘ برطانیہ‘ سنگاپور یا جاپان میں حاصل ہیں ؟ کیا وہ خود مختار یا کم از کم نیم خود مختار ہے؟ نہیں! ہر گز نہیں ! اسے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اسے کب تک اس پوسٹ پر رہنا ہے۔ جن ماتحتوں سے اس نے کام لینا ہے وہ کسی اور کے حکم سے تبدیل ہو سکتے ہیں! وہ اپنی مرضی کی ٹیم تیار کر ہی نہیں سکتا۔ ان افسروں کو تو آئے دن ایئر پورٹوں پر جا کر قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ کوئی پوچھے کہ چیف منسٹر نے یا وزیر اعظم نے کہیں آنا جانا ہو تو ایس پی‘ آئی جی‘ ڈی سی اور کمشنر کا کیا کام کہ اس کا استقبال کرے یا اُسے رخصت کرے؟ پروٹو کول کی یہ مضحکہ خیز ڈیوٹی کیا ان افسروں کے کارِ منصبی میں خلل نہیں ڈالتی؟ کوئی ہے جو اس غلامانہ ڈرل کو ختم کرے؟ نصف سے زیادہ پولیس حکمرانوں‘ وزیروں اور بڑے لوگوں کے محلات پر پہرے دے رہی ہے! کروڑوں اربوں کا خرچ! حاصل صفر!!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">پس نوشت: یہ سطور لکھی جارہی تھیں کہ خبر ملی ٹیکسلا میں جس اہلکار نے ملزم کی ماں سے بد سلوکی کی اُسے ملازمت سے برطرف (ڈسمس) کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے اور واقعی اسے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے تو یہ ایک خوش آئند خبر ہے اور ایک اچھا آغاز ہے۔ امید ہے کہ تشدد کے انسداد کے لیے مزید اقدامات بھی کیے جائیں گے۔ پولیس کے جس افسر یا افسروں نے یہ قدم اٹھایا ہے وہ تحسین کے مستحق ہیں۔</font></div><p></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-34483006845208892552024-02-26T18:55:00.001+05:002024-02-26T18:55:16.903+05:00عصا اور فرعون <div style="text-align: right;"><br></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><span style="font-family: Helvetica;">……</span></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">پہلی بار عصا پکڑنے کی ضرورت اُس وقت محسوس ہوئی جب میں ابھی ، نسبتا” ، جوان تھا۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">{</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">طبیعت خراب ہوئی تو وفاقی دار الحکومت کے سب سے بڑے ہسپتال میں لے جایا گیا ۔ وہاں ایک بہت بڑے ڈاکٹر صاحب تھے۔ ان کے نام کے ساتھ ڈگریوں کی قطار لگی تھی۔ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے فلاں بادشاہ کے ذاتی معالج ( پرسنل فزیشن) رہے ہیں! ان کے علاج سے فائدہ تو کیا ہوتا، کئی مزید عارضے لاحق ہو گئے۔ یہاں تک کہ چلنے میں دقت ہونے لگی! بالآخر عصا کا سہارا لینا پڑا! ان بہت بڑے ڈاکٹر صاحب کی تشخیص ہی غلط تھی۔ چونکہ تشخیص غلط تھی اس لیے علاج بھی غلط تھا۔ وہ ایک ایسی بیماری کا علاج کرتے رہے جو دور دور تک نہیں تھی! </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">{</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">دوسری بار عصا کا سہارا تب لینا پڑا جب ایک فٹ پاتھ پر چلتے چلتے معلوم ہی نہ ہؤا اور فٹ پاتھ ختم ہو گیا۔ پاؤں مُڑ گیا۔ دوسرے دن صبح اٹھا تو درد بے پناہ تھا! ایکس رے سے معلوم ہؤا کہ ہئیر لائن</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">( Hairline) </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"> فریکچر ہو گیا ہے۔ تھا تو ہئیر لائن مگر چلنا ممکن نہ رہا۔ پلستر کئی ہفتے لگا رہا۔ یہ </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">1998-99 </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">کے دن تھے۔ فروری </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">1999</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">میں، میرے دوست، مشہور شاعر ، غلام محمد قاصر کا انتقال ہؤا تو میں پلستر لیے، بستر پر پڑا تھا۔ جنازے میں شرکت کے لیے پشاور جانا ممکن نہ تھا۔ قاصر کو ہیپی ٹائیٹس بی ، یا ، سی تھا۔ آخر تک وہ اپنی صحت کے بارے میں اچھی خبریں دیتا رہا۔فون پر اس سے مسلسل رابطہ تھا۔ ہر بار یہی کہتا کہ بیماری تیس فیصد رہ گئی ہے یا یہ کہ پہلے سے چالیس فی صد افاقہ ہے۔ مگر ساری تسلیاں جھوٹی تھیں! قاصر کے کچھ اشعار تو ضرب المثل ہو چکے ہیں۔؎</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتہ </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">ہم نے ہر اُس شخص سے پوچھا جس کے نَین نشیلے تھے۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">مجھے تو اور کوئی کام ہی نہیں آتا </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">مکاں خالی نہیں رہتا ہے قاصر </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">کبھی شہلا، کبھی شہناز دل میں </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">بہر طور، بستر سے اٹھا تو کئی ہفتے عصا پر چلنا پڑا! </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">{</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">تیسری بار عصا نے ٹھیک دس سال قبل دستگیری کی۔اچانک چُک پڑی۔ پٹھوں کے شدید کھنچاؤ نے چلنے سے معذور کر دیا ۔ گھر کے ہر فرد نے دیکھ بھال کی مگر جو خدمت عصا نے کی، بے مثال تھی۔ وہاں بھی کام آیا جہاں ساتھ کوئی نہیں ہوتا تھا۔ رات رات بھر پلنگ کے ساتھ کھڑا رہتا! مخلص اور خدمت گار عصا!! </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"> یہ تینوں مواقع عارضی تھے۔تکلیف آئی۔ عصا نے سہارا دیا۔ تکلیف دور ہوئی تو عصا بھی رخصت ہو گیا۔ مگر لگتا ہے عصا سے، آہستہ آہستہ، وقت کے ساتھ ساتھ ، مستقل دوستی رکھنا پڑے گی۔ بہت دیر بیٹھے رہنے کے بعد، اٹھتے وقت، اچانک تیز چل پڑنے سے چکر آنے لگتے ہیں۔ اصولی طور پر اٹھنے کے بعد کچھ دیر، چند سیکنڈ، کھڑا رہنا چاہیے۔ اس کے بعد چلنا چاہیے۔ مگر اٹھتے وقت یاد ہی نہیں رہتا کہ چند سیکنڈ توقف کرنا ہے۔ تیز چلنے کی عادت شروع سے ہے۔ اٹھتے ہی تیز رفتاری آغاز ہو جاتی ہے۔ بقول ظفر اقبال ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">جاگ کر بھاگ اٹھے تھے یونہی بے سمت ظفر</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">اب کھڑے سوچئے آوازہ کدھر سے آیا</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اٹھتے وقت عصا پکڑ لیا جائے۔ تاکہ چکر آئے تو عصا مدد کرے۔ مگر جس طرح اٹھتے وقت چند سیکنڈ کھڑے رہنا یاد نہیں رہتا، بالکل اسی طرح عصا پکڑنا بھی یاد نہیں رہتا۔ ایک بار پھر ظفر اقبال کا شعر ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">مقرر کر بھی دوں کوئی جو مجھ کو یاد دلوائے</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">تو میں اُس آدمی کو ساتھ رکھنا بھول جاتا ہوں </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">ایک تصویر میں علامہ اقبال عصا کے ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ فراق گورکھپوری یونیورسٹی جاتے تھے تو عصا ساتھ رکھتے تھے! اس کا مطلب یہ ہؤا کہ کسی زمانے میں عصا ساتھ رکھنا رواج میں شامل تھا۔ اس کا عمر سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جیسے گاؤں میں کسان اور گڈریے جوان ہوں، تب بھی عصا ساتھ رکھتے ہیں ۔ گڈریے کے لیے تو عصا یوں بھی ضروری ہے کہ ریوڈ ہانکنے کے کام آتا ہے۔ جس درخت کو جنگلی زیتون کہا جاتا ہے اس کا نام مقامی زبان میں کؤو ہے۔ کسان اسی درخت کی لاٹھی کو ترجیح دیتا ہے۔ جب سفر پیدل یا گھوڑوں پر ہوتا تھا تب بھی عصا ساتھ رکھنا لازم ہوتا تھا کیونکہ کتوں اور دیگر جانوروں سے بچاؤ کے کام آتا تھا۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">{</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">عجیب بات ہے کہ عصا بیک وقت کمزوری کی علامت ہے اور طاقت کی بھی !! موسی علیہ السلام کا عصا طاقت کی نشانی تھی۔ اقبال تو موسی کی کلیمی کے لیے عصا کو لازم گردانتے ہیں ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">فاقوں سے یعنی عجز اور ضُعف سے کام نہیں بنتا۔ کامیابی کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔ حبیب جالب بھی اسی نتیجے پر پہنچے ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">عصا اٹھاو کہ فرعون اسی سے جائے گا</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">فرعون کی شکلیں ہر عہد میں مختلف رہی ہیں! جناب موسی کلیم اللہ یہ سبق سکھا گئے ہیں کہ فرعون جہاں بھی ہو، جس زمانے میں بھی ہو، جس صورت میں بھی ہو، علاقائی ہو یا بین الاقوامی ہو، جب تک اس کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے نہیں ہو گے، فتح کا کوئی امکان نہیں ہو گا! غالب نے بھی تو یہی تلقین کی ہے ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">عجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"> دامن کو آج اس کے حریفانہ کھینچیے </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">بعض اوقات منت سماجت، مذاکرات، دلائل، منطق ، وظیفے، تعویذ کچھ بھی سود مند نہیں ہوتا! صرف ڈنڈا مدد کرتا ہے۔پنجابی میں مثال ہے </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">ڈنڈا پِیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا ۔علامہ نے بھی کہا ہے ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">دوسری طرف یہی عصا پیری اور ناتوانی کی علامت ہے۔ مصحفی کے بقول تو دل سے آہ بھی خود نہیں اُٹھُ سکتی جب تک کہ عصاکا سہارا نہ لے ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">اب دل سے بے عصا نہیں اٹھتی ہے آہ بھی </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">یاں تک تو ضُعفِ قلب نے ہم کو بٹھا دیا </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">بڑھاپے پر مصحفی کا ایک شعر بہت مشہور ہے ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">بھلا درستئ اعضائے پِیر کیوں کر ہو </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">کہ جیسے رسّی سے ٹوٹا کواڑ باندھ دیا </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">نئی نسل کو کیا علم کہ کواڑ کیا ہوتا ہے اور جب وہ اکھڑتا ہے تو رسی سے جیسے باندھتے ہیں! </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">مگر جو تصویر ریاض خیر آبادی نے کھینچی ہے ، لاجواب ہے ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">کمر سیدھی کرنے ذرا میکدے میں </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">عصا ٹیکتے کیا ریاض آرہے ہیں </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">آج کے لٹریچر ، خصوصا” شاعری کے شائقین کی زیادہ تعداد ریاض خیر آبادی کے نام ہی سے نا آشنا ہے۔ ریاض ایک عجیب و غریب شخصیت تھے۔ ساری زندگی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا مگر شاعری شراب پر کی۔ اسی لیے انہیں “ خمریاتی شاعر “ کہا جاتا ہے۔ شاعری میں جو تلازمے انہوں نے استعمال کیے ہیں سب کے ڈانڈے مے نوشی سے ملتے ہیں۔ جیسے دُختِ رز، سبو، ساقی ، خم و ساغر!! ان کی غزل کا رنگ دیکھیے ؎</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">پی لی ہم نے شراب پی لی = تھی آگ ! مثالِ آب پی لی </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">اچھی پی لی ، خراب پی لی = جیسی پائی شراب پی لی</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">منہ چوم لے کوئی اس ادا پر= سرکا کے ذرا نقاب پی لی</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">منظور تھی شُستگی زباں کی = تھوڑی سی شرابِ ناب پی لی </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">میرے مستقل قارئین جانتے ہیں کہ میرے مشاغل میں سے ایک مشغلہ شَو ہارن جمع کرنا بھی ہے۔ لگتا ہے کہ اب عصا بھی جمع کرنے پڑیں گے۔مری مال روڈ کی دکانوں پر قسم قسم کی </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">Sticks </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica">مل جاتی ہیں مگر اب مری میں وہ ہنگامہ اور ہجوم رہتا ہے کہ مری نہ جانے میں زیادہ سکون اور تفریح ہے! بہر طور استعمال ہوں یا نہ ہوں، خوبصورت اور مختلف قسم کے عصا ہونے چاہییں اور بہت سے ہونے چاہییں ! ……………………………………………………………</font></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-44205272073276758332024-02-22T19:30:00.001+05:002024-02-22T19:30:21.662+05:00وزیراعظم مودی کے دو چہرے<h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><br></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">وزیراعظم مودی کے دو چہرے ہیں۔ ایک چہرہ اس دنیا کے لیے ہے جو بھارت سے باہر ہے۔ یہ چہرہ متین‘ نرم اور متبسّم ہے! بھارت کے روزنامہ ''ہندو‘‘ نے تازہ ترین اشاعت میں لکھا ہے کہ بھارت اور متحدہ عرب امارات دونوں ''برداشت اور اجتماعیت‘‘ جیسی اقدار کے مشترکہ مالک ہیں! بھارت کی اس سفارتی کامیابی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے دنیا کے سامنے جو چہرہ رکھا ہوا ہے‘ دنیا سمجھ رہی ہے کہ وہی اصل چہرہ ہے! مشرقِ وسطیٰ کی کچھ ریاستیں بھارت کے اس دوغلے پن کی خاص طور پر شکار ہو رہی ہیں! سفارتی محاذ پر اسے پاکستان کی ناکامی بھی کہا جا سکتا ہے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ 2014ء سے لے کر آج تک مودی سات مرتبہ یو اے ای کا دورہ کر چکے ہیں۔ جی ہاں! نو سال میں سات بار!! ابھی ابھی دبئی میں جو ورلڈ گورنمنٹ سمٹ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">(World Government Summit)</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4"> منعقد ہوئی ہے‘ اس میں بھی مودی نے شرکت کی ہے۔ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے‘ پاکستان کی نمائندگی نہیں تھی۔ بھارت اور یو اے ای کے درمیان دس دو طرفہ معاہدے بھی ہوئے ہیں۔ باہمی سرمایہ کاری کے معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔ یو اے ای دنیا کا واحد ملک ہے جس کے ساتھ بھارت کا نہ صرف تجارتی معاہدہ ہے بلکہ سرمایہ کاری کا معاہدہ بھی ہے۔ ان دس معاہدوں کی تفصیلات ہوشربا ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں! اب تو یو اے ای برکس</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4"> (BRICS) </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">کا بھی رکن بن گیا ہے۔ بھارت پہلے ہی اس کا رکن ہے۔ اس حوالے سے بھی دونوں ملک مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں! مودی نے حالیہ دورے کے دوران ابو ظہبی میں بنائے گئے مندر کا بھی افتتاح کیا ہے!! یہ بھی یاد رہے کہ دبئی میں ہر تیسرا شخص بھارتی ہے۔ یعنی شہر کی 33فیصد آبادی بھارت سے ہے! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">اوپر برکس </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">(BRICS)</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4"> کا ذکر کیا گیا ہے! برکس کیا ہے؟ یہ بنیادی طور پر چار ملکوں کی تنظیم تھی۔ برازیل‘ روس‘ انڈیا اور چین کی! تب اس کا نام برک</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font size="4"> (BRIC)</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4"> تھا۔ یہ جنوب کے ملکوں کی انجمن ہے جو اس زاویے سے بنائی گئی کہ شمال کے ممالک جیسے امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک‘ جو عالمی معیشت پر چھائے ہو ئے ہیں‘ ان کا مقابلہ کیا جائے۔ بعد میں جنوبی افریقہ کو بھی شامل کر لیا گیا یوں برک کے آخر میں ساؤتھ افریقہ کا ''ایس‘‘ لگا اور تنظیم کا نام برکس </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">(BRICS) </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ہو گیا۔ سالِ رواں میں چھ مزید ممالک (سعودی عرب‘ ایتھوپیا‘ یو اے ای‘ مصر‘ ارجنٹائن اور ایران) اس کے رکن بنے ہیں۔ پاکستان نے عرضی تو ڈالی ہوئی ہے مگر اس ضمن میں خوش فہمی پالنے کی ضرورت نہیں! بھارت پوری کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کی رکنیت روکی جائے۔ پاکستان کا اندرونی عدم استحکام بھی اس ناکامی کا سبب ہے! پھر رکن ممالک کی باہمی پالیٹکس بھی کردار ادا کرتی ہے!! مجموعی طور پر عالمی حوالے سے ہم روز بروز پیچھے ہی جا رہے ہیں!!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">یہ جو روزنامہ ''ہندو‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ ''برداشت اور اجتماعیت‘‘ یو اے ای اور بھارت کی مشترکہ اقدار ہیں‘ اس سے بڑا دردناک اور سفاک مذاق شاید ممکن ہی نہیں! تازہ ترین خبر یہ ہے کہ مغربی بنگال میں انتہا پسند ہندو عدالت گئے ہیں صرف اس لیے کہ ایک شیرنی اور شیر چڑیا گھر میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ شیر کا نام اکبر ہے‘ شیرنی کا نام‘ ایک ہندو دیوی کے نام پر‘ سیتا ہے۔ اکبر یعنی شہنشاہ اکبر‘ جتنا بھی آزاد خیال تھا اور ہندوئوں پر مہر بان تھا‘ تھا تو مسلمان! اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ اکبر نامی شیر سیتا نامی شیرنی کے ساتھ رہ سکے!! یہ ہلکی سی جھلک ہے بھارتی ''برداشت‘‘ کی!! یہ مائنڈ سیٹ مودی کا لایا ہوا ہے۔ یہ ہے اصل چہرہ وزیراعظم مودی کا جسے باہر کی دنیا دیکھنے سے قاصر ہے یا جان بوجھ کر دیکھنا نہیں چاہتی۔ بی جے پی کی حکومت میں کون سا ظلم ہے جو مسلمانوں پر نہیں کیا جا رہا! مودی کے دو قریبی رفقا اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ امیت شاہ اور ادتیہ ناتھ! امیت شاہ وزیر داخلہ ہے۔ مودی کے پرانے ساتھیوں میں سے ہے۔ ماضی میں بی جے پی کا صدر بھی رہا ہے۔ گجرات میں مودی نے جتنے مظالم مسلمانوں پر ڈھائے‘ امیت شاہ ان میں برابر کا ذمہ دار ہے۔ ادتیہ ناتھ ایک متعصب پنڈت ہے۔ 24کروڑ آبادی والی بھارتی ریاست یو پی کا وزیراعلیٰ ہے۔ شہروں کے نام بدلنے کا یہی ذمہ دار ہے۔ جس شہر کے نام میں بھی مسلمانوں کی جھلک نظرآتی ہے‘ اس کا نام بدل دیتا ہے۔ الہ آباد‘ علی گڑھ‘ آگرہ اور کئی اور شہروں کے نام بدل دیے گئے ہیں! ادتیہ ناتھ کی مسلم دشمنی کا یہ عالم ہے کہ اس نے تقریر کرتے ہوئے ہندو نوجوانوں کو باقاعدہ اُکسایا کہ وہ مسلمان خواتین کے ساتھ زیادتی کریں! اسے مودی کا جانشین بھی کہا جاتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ادتیہ ناتھ وزیراعظم بنا تو مودی سے چار ہاتھ آگے ہو گا!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">جب سے بی جے پی کی یعنی مودی کی حکومت آئی ہے‘ مسلمانوں کی زندگی جہنم بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ گائے کے نام پر سینکڑوں مسلمان مارے جا چکے ہیں! مسلمانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر لوٹا اور قتل کیا جاتا ہے۔ کوئی مسلمان گائے فروخت کرنے بھی جارہا ہو تو مار دیا جاتا ہے۔ کل پرسوں ہی ایک امام مسجد کو شہید کیا گیا ہے۔ آسام میں مسلمان دشمنی زوروں پر ہے۔ وہاں صدیوں سے رہنے والے مسلمانوں سے شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں سے شہریت چھینی جا رہی ہے اور زرعی اراضی سے بے دخل کیا جا رہا ہے! آسام کا چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما بی جے پی کا رکن ہے۔ اس نے مسلمانوں کو زمین سے بے دخل کرنے کا لمبا چوڑا منصوبہ بنایا ہے۔ اس نے تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ لوگ مغلوں کے جبر کی وجہ سے مسلمان ہو گئے تھے۔ اب اگر انہیں زرعی زمین چاہیے تو واپس ہندو ازم کو قبول کریں! ایسا کرنے والا زمین کا حقدار ہو جائے گا! ایودھیا کی بابری مسجد کے بعد باقی مسجدوں کو منہدم کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ ہے وہ ''برداشت‘‘ جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">یہ درست ہے کہ بھارت کے مسلمانوں اور مسلمانوں کے آثار کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان سے ہے۔ مگر باقی مسلم ممالک‘ بھارتی مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم سے لا تعلق کس طرح رہ سکتے ہیں؟ بدقسمتی سے پاکستان ایک معاشی اور سیاسی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور اس پوزیشن میں نہیں کہ بھارت کی چیرہ دستیوں کو روک سکے۔ دوسری طرف مسلم ممالک بے حسی اور خود غرضی کا شکار ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اُمہ کے وجود پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ اُمہ کہاں ہے؟ مسلم ممالک‘ مسلمان اقلیتوں کی کیا مدد کریں گے‘ وہ تو ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے ہیں! غزہ کے مسلمانوں کے لیے اُمہ نے کیا کیا ہے؟ اسرائیل کے ساتھ قربتوں کے تانے بانے بُنے جا رہے ہیں! ایران‘ یو اے ای اور کچھ اور مسلم ملکوں کے تعلقات بھارت سے بہت دوستانہ ہیں۔ یہ ممالک ایک ہلکا سا اشارہ بھی کر دیں تو بھارت کا رویہ بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی مگر سوال یہ ہے کہ یہ ممالک ایسا کیوں کریں گے؟ ''نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر‘‘ والی میٹھی اور سہانی باتیں قوالیوں اور ترانوں کی حد تک تو درست ہیں‘ حقیقی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں! ڈفلی بھی اپنی اپنی ہے اور راگ بھی اپنا اپنا !!</font></div></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-29485712385681009272024-02-20T09:54:00.001+05:002024-02-20T09:54:14.458+05:00بوٹی‘ شوربا اور دیگچی<h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><br></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">وسط ایشیا کے کسی شہر کے لوگ کنجوسی میں اپنی مثال آپ تھے۔ اس ضمن میں ایک حکایت ہے کہ اُس شہر سے تعلق رکھنے والے چار دوست سفر کر رہے تھے۔ کھانے کے لیے انہوں نے دکان سے گوشت خریدا۔ یہ گوشت صرف چار بوٹیوں پر مشتمل تھا۔ پکانے کے لیے دیگچی چولہے پر چڑھائی گئی۔ ہر شخص نے بوٹی کو دھاگے سے باندھا۔ بوٹی کو دیگچی میں ڈالا اور دھاگے کا دوسرا سرا ہاتھ میں پکڑ لیا۔ آخر وقت تک سب نے اپنی اپنی بوٹیوں کے دھاگے پکڑے رکھے۔ رہا شوربہ‘ تو وہ برابر برابر تقسیم کر لیا۔ ہمارے اہلِ سیاست کا یہی حال ہے۔ دیگچی میں گوشت پک رہا ہے۔ سب نے اپنی اپنی بوٹیاں نشان زد کی ہوئی ہیں۔ مگر جھگڑا پڑا ہوا ہے۔ جن کے پاس بوٹی نہیں‘ وہ بھی حصہ مانگ رہے ہیں۔ ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ اگر انہیں کچھ نہیں ملتا تو دیگچی ہی اُلٹا دی جائے! دستبردار ہونے کو کوئی تیار نہیں! دھاگہ چھوڑنا تو دور کی بات ہے‘ گرفت ڈھیلی بھی کوئی نہیں کر رہا!! دعا کیجیے دیگچی سلامت رہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ہماری تاریخ عجیب و غریب ہے۔ آج تک کسی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی اور سوائے یحییٰ خان کے جتنے آمر آئے‘ دس سال سے کم کسی کا تسلط نہیں رہا! لیاقت علی خان چار سال 63دن وزیراعظم رہے۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارتِ عظمیٰ ایک سال 182دن رہی۔ محمد علی بوگرہ دو سال 117دن‘ چودھری محمد علی ایک سال 31دن‘ سہروردی صاحب ایک سال 35دن‘ آئی آئی چندریگر صرف 55دن اور فیروز خان نون صرف دو سو 95دن!! اس کے بعد جنرل ایوب خان نے کم و بیش گیارہ سال حکومت کی! نور الامین صرف 13دن وزیراعظم رہے! بھٹو صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کی مدت تین سال 325دن سے زیادہ نہ ہو سکی! پھر جنرل ضیاء الحق نے پورے دس سال بادشاہت کی! اس نے اپنے مہیب پروں کے نیچے جونیجو صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کا لولی پاپ دیا وہ بھی صرف تین سال 66دن کے لیے! بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیراعظم بنیں تو صرف ایک سال اور 247دنوں کے لیے! پھر نواز شریف نے دو سال 254دن حکومت کی۔ بے نظیر کی دوسری مدت بھی تین سال 17دن سے زیادہ نہ ہو سکی! نواز شریف دوسری بار دو سال 237دن وزیراعظم رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے‘ اپنے پیشرو آمروں کی پیروی میں‘ دس سال حکمرانی کے مزے لُوٹے! اس دوران اپنے مُغبچوں کے منہ میں چوگ بھی ڈالتے رہے۔ جمالی صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کی یہ چوگ ایک سال 216دن کے لیے ملی۔ چودھری شجاعت حسین 54دن کے لیے وزیراعظم بنے۔ آرڈر پر بنے ہوئے پلاسٹک کے وزیراعظم‘ شوکت عزیز‘ اس لاٹری سے تین سال 80دن کے لیے لطف اندوز ہوئے۔ یوسف رضا گیلانی کی مدت چار سال 86دن رہی۔ راجہ پرویز اشرف صرف 275دن وزیراعظم رہے۔ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو ان کی مدت چار سال 53دن سے زیادہ نہ تھی۔ شاہد خاقان عباسی صرف 303دن وزیراعظم رہے۔ عمران خان کی مدت تین سال 235دن سے زیادہ نہ ہو سکی۔ اس کے بعد شہباز شریف وزیراعظم بنے۔ ان کی حکومت ایک سال 125دن رہی۔ طویل ترین مدت یوسف رضا گیلانی کی رہی‘ یعنی چار سال 86دن!! تقسیمِ ہند کے بعد‘ 77برسوں میں ہم نے 23 وزرائے اعظم دیکھے۔ ان 77برسوں میں سے 33سال آمریت کے نکال دیجیے‘ باقی بچے 44سال! گویا ان 23 وزرائے اعظم کا کُل عرصۂ حکمرانی 44سال تھا یعنی اوسطاً ہر ایک کا عرصہ دو سال سے کم!! دوبارہ نوٹ کیجیے: 44برسوں میں 23 وزرائے اعظم۔ اس کے مقابلے میں بھارت کی صورتِ حال پر بھی غور فرما لیجیے۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">77برسوں کے دوران چودہ وزرائے اعظم!! اوسطاً ہر وزیراعظم نے ساڑھے پانچ سال حکومت کی! نہرو کا عرصۂ حکومت سولہ سال سے زیادہ تھا۔ اندرا گاندھی پہلی بار گیارہ سال اور دوسری بار چار سال سے زیادہ وزیراعظم رہیں۔ من موہن سنگھ دس سال وزیراعظم رہے۔ مودی کا یہ دسواں سال ہے! اس طویل موازنے کے بعد ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ جن سے ہم الگ ہوئے تھے وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم نے اپنا کیا حال کر رکھا ہے! یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاست دانوں کے تعاون کے بغیر آمریت کا دور دس دس‘ گیارہ گیارہ سال تک رہ سکتا تھا؟ ہمیں سب سے پہلے اُن سیاست دانوں کی فہرستیں تیار کرنی چاہئیں جنہوں نے آمروں کے ادوار میں مناصب قبول کیے اور آمروں کے ہاتھ مضبوط کیے۔ اگر ہم میں‘ من حیث القوم‘ عزتِ نفس ہوتی تو آمروں کے ساتھیوں کو کسی بھی جمہوری حکومت میں شامل نہ کیا جاتا! ایسا کیا جاتا تو مقتدرہ کو بھی سبق حاصل ہوتا! مگر ہم عجیب لوگ ہیں۔ آمریت کی مذمت بھی کرتے ہیں اور آمروں کے پُشتیبانوں کو سر پر بھی بٹھاتے ہیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان چھوڑتے وقت جو باتیں کہیں وہ مقتدرہ سمیت قوم کے ہر شعبے کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ یہ باتیں انہوں نے 23نومبر 2022ء کو یومِ شہدائے پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ میڈیا نے ان کی جو تقریر رپورٹ کی اس کی رُو سے ان کا کہنا تھا ''دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہندوستانی فوج کرتی ہے۔ لیکن ان کے عوام کم ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری فوج دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے‘ اور پھر بھی تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ 70سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں مداخلت ہے جو غیر آئینی ہے‘‘۔ گویا سطورِ بالا میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی حکومتی مدتوں کا جو تقابل پیش کیا گیا ہے‘ اس کا سبب جنرل قمر جاوید باجوہ نے انتہائی جامعیت کے ساتھ نہ صرف اپنی قوم کے سامنے بلکہ پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ''پچھلے سال فروری میں فوج نے بڑی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس پر سختی سے کاربند ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے‘‘۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">اس وقت ہم جس افراتفری اور غیر یقینی صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں‘ اس کے اسباب ہم سب جانتے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں۔ یہ اسباب بیان کیے جائیں یا نہ کیے جائیں‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا! بقول سعدی:</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">گر نہ بیند‘ بروز‘ شپرہ چشم</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">چشمۂ آفتاب را چہ گناہ</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">دن کے اجالے میں بھی اگر چمگادڑ کی آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے تو اس میں سورج کا کیا قصور ہے؟</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">واپس دیگچی کی طرف چلتے ہیں! دیگچی بچانے کی ایک ہی صورت ہے۔ سب اپنی اپنی بوٹی سے تھوڑا سا حصہ کاٹ کر اُن کے دہانوں میں ٹھونسیں جن کے پاس بوٹی نہیں ہے۔ شوربے کا بھی ایک ایک گھونٹ انہیں بخشش میں دیں! ورنہ یہ طفیلی اس قدر شور و غوغا برپا کریں گے اور اتنی بدامنی پھیلائیں گے کہ اصل مالک بھی اپنی اپنی بوٹی نہیں کھا سکیں گے۔ کسی کو تو قربانی دینا پڑے گی۔ قربانی وہی دیتا ہے جو مخلص ہو۔ دو عورتوں میں بچے کے بارے میں جھگڑا تھا۔ دونوں ماں ہونے کا دعویٰ کر رہی تھیں۔ جج نے فیصلہ کیا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کو ایک ایک ٹکڑا دے دیا جائے۔ جعلی ماں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اصل ماں تڑپ اٹھی اور کہنے لگی: سارا بچہ دوسری عورت کو دے دیا جائے تاکہ بچے کی زندگی سلامت رہے! اصل ماں اور جعلی ماں میں فرق کرنا بہت ضروری ہے!</font></div></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-89579088205768469162024-02-19T12:23:00.001+05:002024-02-19T12:23:11.068+05:00اپنے کالج میں<div style="text-align: right;"><br></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">میں پھر رہا تھا برآمدوں میں اور راہداریوں میں! کمروں میں جھانک رہا تھا۔ گراؤنڈ کا چکر لگارہا تھا مگر کوئی بھی تو دکھائی نہیں دے رہا تھا !</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">لوگ تو موجود تھے! مگر جنہیں میں تلاش کر رہا تھا‘ ان میں سے کوئی نہیں نظر آ رہا تھا! میرے استاد کہاں تھے؟ پروفیسر اقبال بخت کیوں نہیں نظر آ رہے تھے؟ پڑھانے میں ان کا جواب نہ تھا اور خوش لباس اُن جیسا کوئی نہ تھا! پروفیسر سجاد حیدر ملک کہاں تھے جو انگریزی شاعری اور ڈراما پڑھاتے تھے۔ جنہیں معلوم تھا کہ لٹریچر کا ذوق طلبہ میں کیسے پیدا کیا جاتا ہے! جو خود سراپا لٹریچر تھے! پروفیسر اختر شیخ کلاس میں تھے نہ سٹاف روم میں! انہوں نے ہمیں برٹرنڈ رسل کے مشکل </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">Sceptical Essays </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">اس طرح پڑھائے تھے جیسے ان سے زیادہ سہل کوئی مضمون نہ ہو! پروفیسر اشفاق علی خان‘ جو ہمارے پرنسپل تھے‘ کہاں تھے؟ میرے ہم جماعت کہاں تھے؟ مسکراتا دانیال ہمیں کیوں نہیں ڈھونڈ رہا تھا؟ حسن زیدی کے گھر جا کر کھانا کہاں تھا! وہ کیوں غائب تھا؟ ٹی ایس ایلیٹ کی بلّی پر نظم‘ جس کا عنوان </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">Macavity </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">تھا‘ پڑھنے کے بعد ہم نے طاہر اکرام کا نام مکیویٹی رکھ دیا تھا‘ وہ بھی کہیں نہیں نظر آ رہا تھا! مولانا خلیق کہاں تھے؟ افضال بیدار ،مہتاب نقوی‘ اختر کاظمی‘ قمر قریشی‘ پوری کلاس غائب تھی! کیا یہ وہی کالج ہے جہاں کئی دہائیاں پہلے میں پڑھتا تھا؟ برآمدوں‘ رہداریوں اور گراؤنڈ میں طلبہ اور طالبات آج بھی آ جا رہی تھیں۔ کسی کو معلوم تھا نہ پروا کہ یہ سفید ریش شخص کون ہے۔ یہاں کیا کر رہا ہے؟ کسے ڈھونڈ رہا ہے؟ انہیں کیا معلوم کہ میں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہا تھا! میں وقت کو ڈھونڈ رہا تھا! مٹی کا ایک ایک ذرہ چھان رہا تھا مگر وقت نہیں مل رہا تھا! وہ ایک اور وقت تھا! ایک اور زمانہ تھا! وہ وقت لد چکا! وہ زمانہ گم ہو چکا! مگر کالج اب بھی موجود تھا! میرے دل میں آباد تھا! اس کے برآمدے‘ اس کی روشیں‘ اس کے کلاس روم‘ اس کے لیکچر ہال سب مجھ میں آباد تھے! یوں کہ کبھی دل سے نکلے ہی نہیں! آج میں جو کچھ بھی تھا‘ افتاں و خیزاں جہاں تک پہنچا‘ جو بھی ٹوٹی پھوٹی پہچان بنائی‘ جو کچھ حاصل کیا‘ اس میں اس درسگاہ کا‘ اس کے اساتذہ کا‘ اس کے کمروں کا‘ اس کی رہداریوں کا‘ اس کے باغ کے پھولوں کا‘ اس کی مٹی کا بہت بڑا عمل دخل ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">میں مدتوں بعد اپنی مادردرسگاہ کو پلٹا تھا! گورنمنٹ کالج اصغر مال!! مجھے فخر ہے کہ میں اس کا طالبعلم رہا ہوں! اس کی مٹی میرے لیے مقدس ہے! اس کے در و دیوار تو کیا‘ اس کی گھاس کا ایک ایک تنکا میرا محسن ہے! میں نے یہاں ادب پڑھا! ادب سیکھا! یہاں زندگی گزارنے کا نہیں‘ زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ پایا! زندگی بھر اپنے اساتذہ کا پانی بھرتا رہوں تو ان کے احسانات کا بدلہ نہ چُکا سکوں۔ میرے لیے تو میرے اساتذہ کے قدموں کی دھول بھی مقدس ہے! ہم اساتذہ سے بچھڑ کر عملی زندگی کی پُرپیچ جدوجہد میں کھو جاتے ہیں! ملازمت‘ کاروبار‘ گھر بار‘ بیوی بچے‘ ذمہ داریاں اور فکرِ معاش اجازت ہی نہیں دیتے کہ اساتذہ کی زیارت مسلسل کرتے رہیں! اور ان کی خدمت کریں! زندگی کی ضروریات اور مکروہات آہنی پنجوں میں جکڑے رکھتی ہیں! جب بڑھاپا فراغت کی گھڑی لاتا ہے اور پلٹ کر دیکھتے ہیں تو اساتذہ جا چکے ہوتے ہیں! پھر کفِ افسوس ملتے ہیں! خدا انہیں اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">اچانک مجھے اپنا نام سنائی دیتا ہے۔ پلٹ کر دیکھتا ہوں۔ یہ کالج کے موجودہ پرنسپل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عبد الکبیر محسن! عربی ادب کے استاد‘ سکالر‘ کئی کتابوں کے مصنف اور مترجم! وہ مجھے اپنے دفتر لے جاتے ہیں! یہ وہی کمرہ ہے جہاں ہمارے پرنسپل‘ پروفیسر اشفاق علی خان اور ان کے بعد پروفیسر ڈاکٹر سید صفدر حسین بیٹھا کرتے تھے۔ تب ہمیں اس کمرے میں داخل ہونے سے پہلے سو بار سوچنا پڑنا تھا! دیوار پر سابق پرنسپل صاحبان کی تصویریں آویزاں تھیں۔ کرسی پر بیٹھتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے اپنے پرنسپل صاحبان کی تصویروں کی موجودگی میں بیٹھ کر میں سوء ادب کا مرتکب ہو رہا ہوں! مجھے کھڑا رہنا چاہیے تھا۔کچھ دیر کے بعد پرنسپل صاحب کالج کے وسیع و عریض آڈیٹوریم میں لے جاتے ہیں! آڈیٹوریم طلبہ اور طالبات سے بھرا ہوا ہے! اساتذہ بھی موجود ہیں! پرنسپل صاحب سٹیج پر اپنے ساتھ بیٹھنے کا اعزاز عطا کرتے ہیں! ہال میں شور ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر وسیم باقر ڈائس سنبھالتے ہیں! وہ دایاں ہاتھ بلند کرکے ایک بار، صرف ایک بار‘ کہتے ہیں ''آواز نہ آئے‘‘ اور ہال میں سناٹا چھا جاتا ہے! پروفیسر صاحب میرا تعارف کرانے کے بعد مجھے طلبہ و طالبات سے گفتگو کرنے کا حکم دیتے ہیں! میں طلبہ اور طالبات کو بتاتا ہوں کہ میری سب سے بڑی کوالیفکیشن‘ سب سے بڑا اعزاز اور سب سے بڑی اہلیت یہ ہے کہ میں اس کالج کا طالب علم رہا ہوں! میں انہیں بتاتا ہوں کہ جو اساتذہ آج اس کالج میں پڑھا رہے ہیں وہ بھی میرے لیے قابلِ احترام ہیں۔ میں انہیں ایک ضعیف العمر شخص کے بارے میں بتاتا ہوں جسے میں نے ایک ڈیڑھ سالہ بچی کے پاؤں چومتے دیکھا تھا! پوچھنے پر اس نے بتایا تھا کہ یہ بچی اُس کے استاد کی پڑپوتی ہے اور‘ اپنے استاد کی نسبت سے‘ اس کے لیے قابلِ احترام ہے! میں انہیں بتاتا ہوں کہ علم اور رزم گاہِ زندگی میں کامیابی‘ استاد کا ادب اور احترام کرنے سے حاصل ہوتی ہیں! طلبہ و طالبات کے ساتھ سوال جواب کا سیشن چلتا ہے۔</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">تشویشناک معاملہ یہ ہے کہ اصغر مال کالج کی اصل‘ قدیم عمارت خستہ شکستہ حالت میں ہے۔ یہ ایک یاد گار عمارت ہے۔ اس کی حیثیت تاریخی ہے۔ یہ راولپنڈی کا بہت نمایاں لینڈ مارک ہے۔ مگر افسوس کہ پنجاب حکومت کے متعلقہ محکمے اس عمارت کی مرمت‘ تجدید‘ تزین اور آرائش سے یکسر غافل ہیں۔ محکمۂ تعلیم اور محکمۂ عمارات دونوں کو اس ضمن میں اپنے اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہیے! پنجاب کے مستعد اور محنتی وزیراعلیٰ جناب محسن نقوی کی خدمت میں خصوصی گزارش ہے کہ اس عمارت کی بقا اور </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">Renovation </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">کے لیے ضروری احکام جاری کریں اور وزارتِ خزانہ کو فنڈز کی فراہمی کا حکم بھی دیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">اصغر مال کالج کی یہ عمارت 1913ء میں سناتن دھرم ہائی سکول کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ پاکستان بنا تو پنجاب حکومت نے 1948ء کے اواخر میں اسے کالج کا درجہ دے دیا! گزشتہ پون صدی کے دوران اس عظیم الشان تعلیمی ادارے میں ہزاروں لاکھو ں نونہالانِ وطن نے تعلیم پائی! یہ سلسہ بدستور جاری ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ و طالبات ملک کے مختلف شعبوں میں کام کر کے قومی ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں! بجا کہ نئے بلاک تعمیر ہو گئے ہیں مگر کالج کی اصل شناخت پرانی اور اصل عمارت ہی سے ہے۔ اس کے سرخ‘ منفرد نوعیت کے مینار کالج کی پہچان ہیں! ان کا تحفظ لازم ہے! زندہ قومیں افسروں اور حکمرانوں کے محلات کی تعمیر و تزیین کو نہیں بلکہ تعلیمی عمارات کو فوقیت دیتی ہیں! کالج کے وسیع و عریض احاطے میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ اساتذہ کی قیام گاہیں تعمیر کی جا سکیں! کثیر المنزلہ اپارٹمنٹس بنائے جا سکتے ہیں اور بنانے چاہئیں! کتنا بڑا المیہ ہے کہ کلرک سے لے کر سیکشن افسر تک اور مجسٹریٹ سے لے کر کمشنر تک‘ تمام سرکاری ملازموں کو سرکاری قیام گاہیں دی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ سرکار کی طرف سے ان کے گھروں میں ٹیلیفون بھی لگائے جاتے ہیں۔ ان کے موبائل ٹیلی فونوں کا بار بھی قومی خزانے پر پڑتا ہے مگر اساتذہ کو‘ جو ہماری آئندہ نسلوں کے معمار ہیں‘ ان کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جاتا ہے! ہماری موجودہ عبرتناک حالت کا بہت بڑا سبب یہ ہے کہ ہم تعلیم اور اساتذہ کو وہ مقام نہیں دے رہے جو ترقی یافتہ ملکوں میں دیا جاتا ہے! اس مائینڈ سیٹ کو تبدیل نہ کیا گیا تو ہم اسی طرح اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے!!</font></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-41386130790355289522024-02-13T17:31:00.001+05:002024-02-13T17:32:17.420+05:00اگر عمران خان دوبارہ وزیر اعظم بنے<h1 class="title" data-reader-unique-id="titleElement" style="text-align: right; font-weight: normal; line-height: 2.55em; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5em; max-width: 100%; caret-color: rgb(27, 27, 27); color: rgb(27, 27, 27);"><font size="4" face="Helvetica"><br></font></h1><p data-reader-unique-id="0" style="max-width: 100%; caret-color: rgb(27, 27, 27); color: rgb(27, 27, 27);"></p><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">عوام نے فیصلہ کر دیا ہے! یہ فیصلہ کسی کو پسند ہو یا نہ ہو‘ اس فیصلے کا احترام ہونا چاہیے! اس فیصلے پر عمل ہونا چاہیے! تمام رکاوٹوں اور نامساعد حالات کے باوجود تحریک انصاف نے میدان مار لیا ہے۔ اس کامیابی کا بڑا سبب وہ وابستگی ہے جو لوگوں کو عمران خان کے ساتھ ہے اور جنون کی حد تک ہے! وہ عمران خان کو ایک دیومالائی‘ ایک مافوق الفطرت شخصیت سمجھتے ہیں! وہ ان کا لیڈر نہیں ہیرو ہے! اس کی غلطیاں بھی انہیں اس کے کارناموں کی طرح لگتی ہیں! وہ اس کے پرستار ہیں! اور پرستش دل کا معاملہ ہے۔ اس میں دماغ کا کچھ عمل دخل نہیں! اس وابستگی اور اس جنون کے علاوہ‘ کامیابی کا دوسرا سبب وہ مار دھاڑ ہے جو تحریک انصاف کے حامیوں کے ساتھ روا رکھی گئی! ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے۔ بہت سے ووٹ ہمدردی کے بھی پڑے! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">آخر میاں صاحبان‘ زرداری صاحب اور بلاول میں اتنی سیاسی دور اندیشی اور اخلاقی جرأت کیوں نہیں کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھیں! ایک مضبوط اپوزیشن ملک کی اتنی ہی خدمت کر سکتی ہے جتنی کہ حکومتی پارٹی! اگر تحریک انصاف ملک کے لیے اچھی کارکردگی دکھائے گی تو اپوزیشن کا بھی اس میں کردار ہو گا۔ اگر تحریک انصاف کی پرفارمنس اچھی نہیں ہو گی تو عوام اگلے انتخابات میں اپنا فیصلہ بدل سکتے ہیں! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">میاں نواز شریف کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ پاکستان میں صرف اسی صورت میں رہ سکتے ہیں جب اقتدار میں ہوں! لندن کی زندگی کے وہ دلدادہ ہیں! اس حوالے سے اکثر تصویریں اور خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ لندن کے ریستورانوں‘ کافی شاپس‘ سپر سٹوروں اور اپارٹمنٹس میں بہت کشش ہے۔ کون ہے جسے لندن میں رہنا پسند نہ ہو۔ پھر اگر استطاعت بھی ہو تو کیا کہنے!! مگر پاکستان کے عوام اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ حکومت کرنے کے لیے پاکستان میں رہا جائے اور حکومت نہ ملے تو لندن کو مستقر بنایا جائے‘ یہاں تک کہ عید بھی لندن میں کی جائے! میاں صاحب کو یہ تاثر زائل کرنا چاہیے! لازم ہے کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھیں! اور لوگوں کی یہ غلط فہمی دور کر دیں کہ وہ حکمرانی کے بغیر پاکستان میں نہیں رہ سکتے! یوں بھی رائیونڈ کے محلات اور وسیع و عریض جاگیر لندن سے کم نہیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">ووٹ دینے والوں کی اکثریت عمران خان کو وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ عمران خان رہا ہو جاتے ہیں اور وزیراعظم بن جاتے ہیں! ہم یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ پنجاب اور کے پی میں بھی انہی کی حکومت ہو گی۔ اس صورت میں ذہن کچھ سوالات اٹھاتا ہے۔ کیا وہ پہلے کی طرح پنجاب کو اپنی مٹھی ہی میں رکھنا چاہیں گے؟ اگر اب کے بھی ان کی خواہش یا پالیسی یہی ہوئی تو اس مقصد کے لیے کیا پھر کسی بزدار کا انتخاب کیا جائے گا؟ کیا پھر پنجاب میں سیکرٹریوں‘ ڈپٹی کمشنروں‘ کمشنروں اور پولیس افسروں کی میوزیکل چیئر کھیلی جائے گی؟ کیا تقرریوں‘ تبادلوں اور ترقیوں کے لیے پھر روپیہ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا؟ گجر صاحب کا کیا کردار ہو گا؟ کیا وہ اور ان کی بیگم‘ عمران خان کے دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد پاکستان واپس آجائیں گی؟ کیا زلفی بخاری‘ جو عمران خان کو مصیبت میں دیکھ کر واپس بیرونِ ملک چلے گئے‘ واپس آکر پھر سے کوئی اہم ذمہ داری سنبھالیں گے؟ کیا شہباز گل صاحب بھی امریکہ سے واپس آکر‘ ایک بار پھر‘ چیف آف سٹاف یا ترجمان کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے؟ کیا شیخ رشید کے ساتھ دوبارہ ان کا اتحاد ہو گا؟ چودھری پرویز الٰہی نے استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کئی ماہ سے جیل میں ہیں! تحریک انصاف کو نہیں چھو ڑا۔ عمران خان انہیں یقینا کسی بڑے منصب سے نوازیں گے! مگر کیا وہ اعتراف کریں گے کہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہنے والی بات غلط تھی؟ کیا عمران خان اپنے دوسرے عہدِ اقتدار میں پہلے کی نسبت ‘ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کیا کریں گے؟ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">کیا عمران خان اس بار بھی‘ ہر روز‘ ہیلی کاپٹر ہی کے ذریعے دفتر آیا جایا کریں گے یا یورپ کے ان حکمرانوں کی طرح عام شہریوں کا انداز اپنائیں گے جن کی وہ مثالیں دیتے رہے ہیں؟ کیا اس بار بھی بڑے بڑے مناصب پر تقرریوں کے فیصلے افسروں کی تصویریں دیکھ کر کیے جائیں گے؟ کیا زرداریوں اور شریفوں سے دولت واپس لینے کی کوششیں دوبارہ کی جائیں گی؟ اور کیا شہزاد اکبر صاحب دوبارہ وہی ذمہ داریاں سنبھالیں گے؟ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">عمران خان طالبان کے لیے ہمیشہ سے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں کوشش کی کہ ٹی ٹی پی (جو پاکستان پر مسلسل حملے کر رہی ہے) کے پانچ ہزار ارکان اپنے خاندانوں سمیت پاکستان منتقل ہو جائیں۔ اس امر کے بارے میں کبھی کوئی وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا یہ افراد اپنے ہتھیاروں سمیت منتقل ہونے تھے یا غیر مسلح ہو کر؟ دوبارہ وزیراعظم بننے کی صورت میں کیا عمران خان اسی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے؟ سعودی عرب کے ساتھ ان کے زمانے میں تعلقات بہت اچھے نہیں رہے تھے۔ اس میں‘ مبینہ طور پر‘ کسی گھڑی کا بھی معاملہ تھا۔ شہزادے کے جہاز پر سوار ہو کر عمران خان امریکہ گئے تھے۔ واپسی پر کچھ ہوا اور یہ جہاز سفر کے دوران ہی واپس منگوا لیا گیا۔ ایک اور دراڑ یوں بھی پڑی تھی کہ عمران خان‘ مہاتیر اور اردوان اسلامی کانفرنس کے مقابلے میں ایک اور تنظیم کھڑی کرنا چاہتے تھے۔ روایت ہے کہ خان صاحب‘ کسی ملک کے کہنے پر‘ پیچھے ہٹ گئے اور پھر اس ملک کا نام بھی لے لیا تھا۔ بین الاقوامی تعلقات اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے طالب علم کے طور پر‘ ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان ان تعلقات کی تجدید کریں گے؟</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">عمران خان کے دورِ اقتدار میں عام شہریوں کے لیے صحت کارڈ جاری کیے گئے تھے۔ یہ ایک انتہائی عوام دوست پالیسی تھی۔ ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد‘ بد قسمتی سے‘ یہ سہولت غیر اعلانیہ طور پر ختم کر دی گئی۔ کیا تحریک انصاف کی حکومت اس پالیسی کا احیا کرے گی؟ تحریک انصاف کی حکومت کا ایک اور تعمیری منصوبہ یہ تھا کہ دو یا تین پاکستانی جزیروں کو سیاحت کے نقطۂ نظر سے ڈویلپ کرنا تھا۔ اس میں رخنہ یہ آن پڑا کہ سندھ حکومت نے اس منصوبے کی اجازت نہ دی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عمران خان اپنے عہدِ اقتدار میں کسی سیاسی مخالف کے ساتھ بات کرتے تھے نہ ہاتھ ملا تے تھے۔ جب کراچی جاتے تھے تو سندھ کے وزیراعلیٰ کو ان کے دورے کی خبر ہوتی تھی نہ وزیراعلیٰ کو کسی اجلاس میں بلایا جاتا تھا۔ تعلقات کا یہ انقطاع بھی ان جزیروں کے ترقیاتی منصوبے کی ناکامی کا سبب تھا۔ عمران خان اپنے مخالفین کو چور اور ڈاکو کہتے تھے۔ اپوزیشن کا ان کے نزدیک وجود ہی نہ تھا! اس بچکانہ رویے نے کاروبارِ حکومت کو متاثر کیا۔ ویسے عمران خان نے اس بات کا جواب کبھی نہیں دیا کہ جس سیاستدان کو وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے‘ اس کے ساتھ ان کے تعلقات انتہائی گہرے کیوں تھے۔ اسے ان کے زمانے میں بہت بڑا منصب ملا۔ اس کے بیٹے کو وزارت دی گئی۔ اصولی طور پر خان صاحب کو باقی چوروں سے بھی ہاتھ ملا لینا چاہیے تھا یا پھر کسی سے بھی نہ ملاتے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">کیا دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد بھی وہ اپوزیشن کے وجود کو تسلیم نہیں کریں گے؟ ان سوالوں کا جواب وقت ہی دے گا۔ بہر طور‘ عوام کے فیصلے کا احترام لازم ہے!</font></div><p></p> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-52076681460210042622024-02-12T09:45:00.001+05:002024-02-12T09:45:45.619+05:00کیا بنگلہ دیش ماڈل یہاں چل سکتا ہے؟؟<h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><br></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">اروَند سہارن نوجوان صحافی ہیں۔ تعلق بھارت سے ہے۔ نیوزی لینڈ میں رہتے ہیں۔ اُردو لکھ پڑھ لیتے ہیں۔ یوٹیوب پر ان کا ایک مستقل فیچر ''سرحد کے اُس پار‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں وہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں سے انٹرویو کرتے ہیں۔ تقریباً دو سال پہلے انہوں نے میرا بھی انٹرویو لیا جو دو نشستوں میں مکمل ہوا۔ اچھی بات یہ تھی کہ میرے جوابات کو انہوں نے ایڈٹ نہیں کیا اور بلا کم و کاست نشر کیا۔ بھارتی ناظرین اور سامعین نے مجھے جی بھر کر بُرا بھلا کہا‘ یہاں تک کہ اروند سہارن کو کہنا پڑا کہ ان کے مہمان کے ساتھ ایسا نہ کیا جائے۔ اصل بات جو بتانی ہے‘ یہ ہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی ترقی اور بہتر اقتصادی اشاریوں کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ آخر بنگلہ دیش پاکستان سے آگے کیوں نکل گیا؟ اس کا فوری جواب میں نے یہ دیا کہ بنگلہ دیش کی خوش بختی ہے کہ اس کے پڑوس میں کوئی افغانستان آباد نہیں ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">یہ بات اس لیے یاد آئی کہ آج کل بنگلہ دیش ماڈل کا‘ پاکستان کے حوالے سے‘ بہت چرچا ہے! تاریخ بھی کیسے کیسے مذاق کرتی ہے۔ جنوبی کوریا کے بارے میں روایت ہے کہ پاکستان کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کو اس نے اپنایا اور سرخرو ٹھہرا! (معلوم نہیں یہ بات کہاں تک درست ہے) آج ہم بنگلہ دیش ماڈل کی پیروی کرنے کا سوچ رہے ہیں! بقول غالب:</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رَو کے ساتھ</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">کسی بھی ملک میں کامیاب ہونے والے ماڈل کو کسی دوسرے ملک پر منطبق کرنا اول تو ناممکن ہے‘ مگر فرض کیجیے اگر منطبق ہو بھی گیا تو اس کی کامیابی معجزے سے کم نہیں اور معجزات کا زمانہ لَد چکا! دنیا میں دو گھر بھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے‘ دو ملک کیسے ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟ بنگلہ دیش اپنی جی ڈی پی کا کتنے فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے اور پاکستان کتنے فیصد؟ بنگلہ دیش کو ایسے بہت سے فوائد حاصل ہیں جن سے پاکستان محروم ہے! دفاع کا بجٹ ایک بہت بڑا عامل ہے۔ افغانستان‘ ٹی ٹی پی‘ مشرقی سرحد‘ لائن آف کنٹرول‘ یہ سب وہ زخم ہیں جو پاکستان کے جسم پر موجود ہیں اور جن سے وقتاً فوقتاً لہو رستا رہتا ہے! بنگلہ دیش کا بجٹ اس قسم کی مجبوریوں سے آزاد ہے۔ بنگلہ دیش کے تین طرف بھارت ہے۔ بھارت سے بنگلہ دیش کو کوئی عسکری خطرہ نہیں! اسی لیے اس کا خرچ دفاع پر پاکستان کی نسبت بہت کم ہے! حکومت سازی میں جو کردار اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان میں ہے اور رہا ہے‘ بنگلہ دیش میں نہیں ہے! صرف ایک فرق ہی دیکھ لیجیے۔ بنگلہ دیش کی وزارتِ دفاع کا سیکرٹری ایک سول سرونٹ ہے جبکہ ہمارے ہاں بہت عرصہ سے ایسا نہیں ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">بنگلہ دیش ماڈل کے حوالے سے جو بات بہت زیادہ کی جا رہی ہے‘ وہ حکومت کا تسلسل ہے۔ حسینہ واجد پندرہ سال سے وزیر اعظم چلی آرہی ہیں! پاکستان میں کوئی وزیراعظم پانچ سال بھی مکمل نہیں کر سکا! اس سے بھی زیادہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہر نئی حکومت‘ گزشتہ حکومت کے منصوبوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتی ہے! پالیسیوں کے تسلسل کا پاکستان میں سوچا بھی نہیں جا سکتا! ہر حکومت الف سے شروع کرتی ہے۔ ابھی مشکل سے سین شین تک پہنچ پاتی ہے کہ ختم ہو جاتی ہے۔ آنے والی حکومت پھر الف سے شروع کرتی ہے! ایک عرصہ سے ملک اسی دائرے کے اندر چکر کاٹ رہا ہے! یہاں ایک دلچسپ موازنہ کرنا شاید نامناسب نہ ہو! معاشی مسائل اور معاشی منصوبوں کے متعلق جو اجلاس ہوتے ہیں‘ حسینہ واجد ان اجلاسوں کی صدارت خود کرتی ہیں۔ یہ اجلاس دس دس گھنٹے مسلسل جاری رہتے ہیں اور وہ بیٹھی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں صورتِ حال قابل رحم ہے اور مضحکہ خیز بھی! جسے </font></div></p><p class="text-justify" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><font size="4">Span of attention </font></p><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">کہتے ہیں یعنی توجہ کی مدت پندرہ‘ بیس منٹ یا آدھے گھنٹے سے زیادہ نہیں! نہ فائل خود پڑھتے ہیں! اس سلسلے میں کئی حقائق تو لطیفوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں! آج اگر بنگلہ دیش کی برآمدات حیران کن حد تک زیادہ ہیں اور دیگر اقتصادی اشاریے مثبت ہیں تو اس کی پشت پر وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی شبانہ روز محنت کا کردار ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">افغانستان کا ذکر اوپر عسکری حوالے سے کیا گیا ہے! معاشی نقطۂ نظر سے ہمارا یہ پڑوسی ہماری معیشت پر مستقل بوجھ ہے۔ یہ آج کی بات نہیں‘ موجودہ پاکستان کے علاقے صدیوں سے افغانوں کی جولان گاہ رہے ہیں۔ موجودہ افغانستان 1747ء میں ریاست کے طور پر وجود میں آیا مگر اس سے پہلے بھی یہ لوگ حملہ آور ہوتے تھے اور اناج‘ مویشی‘ سونا چاندی لوٹ کر لے جاتے تھے۔ احمد شاہ ابدالی آٹھ بار حملہ آور ہوا اور ہر بار لوٹ مار کر کے گیا۔ اُس زمانے کی ایک پنجابی بولی آج تک تاریخ میں محفوظ ہے۔ کھادا پیتا لاہے دا‘ تے باقی احمد شاہے دا! حملوں کا زمانہ ختم ہوا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ افغانستان خودکفیل ہو گیا۔ حملہ آوروں کی لوٹ مار کی جگہ سمگلنگ نے لے لی جو لوٹ مار کا دوسرا نام ہے! گندم‘ چینی‘ ادویات‘ سیمنٹ‘ سریا‘ کون سی شے ہے جو سمگل ہو کر نہیں جاتی۔ بنگلہ دیش اور پاکستان میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ بنگلہ دیش صرف اپنے ملک کے لیے کماتا‘ اُگاتا اور بناتا ہے جبکہ پاکستان نے اپنے علاوہ افغانستان کے لیے بھی کمانا‘ اُگانا اور بنانا ہے! ڈالر کی مہنگائی میں‘ ہم سب جانتے ہیں کہ افغانستان کا بہت بڑا کردار ہے! بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کی ہمدردیاں اپنے لوگوں کی نسبت افغانستان کے ساتھ زیادہ رہیں! پاکستان کئی دہائیوں سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو برداشت کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں صرف نو لاکھ ساٹھ ہزار روہنگیا مہاجر بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تو بنگلہ دیش کا رویہ سرد مہری کا‘ بلکہ معاندانہ رہا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ یہ مہاجر جلد سے جلد واپس چلے جائیں۔ انہیں مزدوری یا نوکری کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ کیمپوں میں مقید ہیں! بنگلہ دیش ماڈل کی بات کرنے سے پہلے یہ بھی دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ بنگلہ دیش لسانی اور نسلی حوالے سے ایک اکائی ہے اور مضبوط‘ ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی اور باہم پیوست اکائی ہے۔ حکومت کے تسلسل میں یہ عامل بہت اہم ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کئی لسانی اور نسلی ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے۔ کسی بھی حکومت کے نیچے سے زمین کھینچنا یہاں بہت آسان ہے۔ پاکستان جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ سرداروں اور خوانین و ملوک کا ملک ہے۔ بنگلہ دیش ان بلاؤں سے پاک اور محفوظ ہے! مشرقی پاکستان کے الگ ہونے میں اس سرداری نظام اور وڈیرہ شاہی کا بھی کردار تھا۔ مزاج الگ الگ تھے۔ مائنڈ سیٹ مختلف تھے۔ سیاسی رویّوں میں فرق تھا۔ یہ فرق آج بھی موجود ہے۔ اگر ترقی کرنے کی نیت ہو اور لیڈر شپ مخلص ہو تو کسی دوسرے ملک کا ماڈل اپنانے کے بجائے اپنا ماڈل خود بنانا ہوتا ہے۔ ہر ملک کے حالات مختلف ہیں۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ملائیشیا کے مہاتیر اور سنگاپور کے لی کوان ییو نے اپنے اپنے ملک کے ماڈل خود تیار کیے۔ تھائی لینڈ اور تائیوان نے اپنی اپنی پالیسیاں خود وضع کیں! ہانگ کانگ کا اپنا طریقّ کار تھا! پاکستان اگر ترقی کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنے مخصوص اندرونی اور خارجی مسائل کو سامنے رکھ کر ایسی طویل المیعاد پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی جو صرف اسی کے لیے ہوں گی! کسی دوسرے ملک کا ماڈل ہماری دستگیری نہیں کر سکتا! یہ جو ہمارے ہاں محاورہ رائج ہے کہ کوّا چلا ہنس کی چال‘ اپنی بھی بھول گیا‘ تو یہ محاورہ نظامی گنجوی کے اس شعر کا بالکل لفظی ترجمہ ہے:</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">کلاغی تگِ کَبک را گوش کرد</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">تگِ خویشتن را فراموش کرد</font></div></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-65973650598207237452024-02-06T11:49:00.001+05:002024-02-06T11:49:31.068+05:00کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد <div style="text-align: right;"><br></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">ایک حالیہ سروے کے مطابق چوبیس فیصد لوگوں نے اسلام آباد کو ملک کا خوبصورت ترین شہر قرار دیا ہے۔ پندرہ فیصد نے یہ اعزاز لاہور کو دیا ہے اور نو فیصد نے کراچی کو! باقی شہروں کا بھی ذکر ہے۔ نہیں معلوم یہ سروے کیوں کیا گیا اور کتنا قابلِ اعتبار ہے مگر‘ بہرطور‘ یہ سروے آواز دے رہا ہے کہ اپنے شہروں کی خبر لو!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کراچی اس خطے کا مقبول ترین شہر تھا۔ تب دبئی منظرپر تھا نہ سنگاپور! یورپی ملکوں کے سفیر ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں مقیم ہونا پسند کرتے تھے۔ دنیا بھر کے جہاز کراچی اترتے تھے! غیر ملکی سیاحوں کے ہجوم ہوا کرتے تھے۔ یہ جو علاقہ ہے‘ ریجنٹ پلازا ( پرانا نام تاج محل) سے لے کر میٹرو پول ہوٹل تک‘ اور اس سے آگے میریٹ تک‘ یہ سارا علاقہ سیاحوں کے لیے جنت تھا۔ زینب مارکیٹ غیر ملکی خریداروں سے چھلک رہی ہوتی تھی۔ ریگل کراچی کا مرکز تھا۔ امن و امان اس قدر مثالی تھا کہ رات رات بھر دکانیں کھلی رہتی تھیں! اس کالم نگار نے ملازمت کا آغاز کراچی سے کیا۔ ستر کی دہائی تھی! ہم چند دوست رات کے دو بجے‘ پیدل چلتے ہوئے‘ بندو خان کے ریستوران میں جایا کرتے تھے۔ واپسی پر ایرانی ریستوران سے‘ جو اس وقت کھلے ہوتے تھے‘ کافی پیا کرتے تھے۔ گورنمنٹ ہوسٹل چڑیا گھر (گاندھی گارڈن) کے بالکل سامنے تھا۔ وہاں سے لے کر صدر تک پیدل جانا پکنک کی طرح لگتا تھا! صدر میں فرزند قلفی والے کی دکان پر کتنے ہی گم شدہ دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے والی گلیاں مسیحی اور پارسی آبادیوں سے بھری ہوئی تھیں! کراچی کے حوالے سے محمد خالد اختر کا شہرہ آفاق ناول ''چاکی واڑہ میں وصال‘‘ منظرِ عام پر آ چکا تھا۔ کراچی کے گلی کوچوں سے واقفیت کے بعد‘ اس ناول کو ہم نے بار بار پڑھا اور ہر بار نیا لطف اٹھایا۔ سنا ہے فیضؔ صاحب کا بھی یہ پسندیدہ ناول تھا۔ محمد خالد اختر کا اسلوب خاص ہے اور اسے پسند کرنے کے لیے اس کا ذوق پالنا پڑتا ہے۔ کئی دہائیاں پہلے‘ اسلام آباد میں منعقدہ‘ اہلِ قلم کانفرنس کے دوران مستنصر تارڑ صاحب نے مجھے محمد خالد اختر سے ملایا۔ وہ طویل قامت تھے۔ دھان پان! مجھے فخر ہے کہ میں نے انہیں دیکھا اور ان سے ہاتھ ملایا!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">اُس رنگارنگ‘ خوبصورت‘ دل آویز اور شیشے جیسے صاف شفاف کراچی کو کیا ہوا؟ کس کی نظر لگ گئی؟ پہلا مجرم‘ اس ضمن میں‘ علاقائیت پرستی تھی! ہم پاکستانی ہونے کے بجائے پنجابیوں‘ پٹھانوں‘ سندھیوں‘ بلوچوں‘ سرائیکیوں‘ براہویوں میں بٹ گئے! کراچی یونیورسٹی میں پندرہ کے لگ بھگ طلبہ تنظیمیں تھیں جو لسانی‘ صوبائی اور نسلی بنیادوں پر قائم تھیں! جب ہر طرف یہی کچھ ہو رہا تھا تو الطاف حسین نے بھی مہاجر کی بنیاد پر طلبہ کی تنظیم بنائی۔ ردِعمل ہمیشہ شدید اور غیر منطقی ہوتا ہے۔ اس ردِعمل میں پورس کے ہاتھیوں کی طرح کراچی ہی کو برباد کر دیا گیا۔ اس بربادی کی تفصیل ہم سب جانتے ہیں! دوسرا مجرم نااہلی اور نالائقی تھا۔ لسانی بنیادوں پر کراچی کی آبادی تقسیم ہو گئی۔ حکمران کوتاہ اندیش تھے اور سخت نالائق اور خود غرض! یہاں جدید سنگاپور کے معمار لی کوآن ییو کی فراست اور دور اندیشی یاد آتی ہے۔ سنگاپور میں تین قومیتیں آباد ہیں۔ چینی‘ مَلے اور انڈین۔ کسی بھی بلڈنگ میں ممکن نہیں کہ صرف چینی یا صرف انڈین یا صرف مَلے رہ سکیں۔ سب کو مکس ہو کر رہنا پڑے گا! فلیٹوں کی ہر عمارت میں ان کے کوٹے مقرر ہیں! ہم اہلِ پاکستان کی نالائقی اور نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ آج تک متبادل بندرگاہ نہیں بن سکی۔ اگر گوادر آباد ہو جاتا تو اندرونِ ملک سے لوگوں کا رُخ اُس کی طرف ہو جاتا! موجودہ صورتِ حال میں کراچی کی آبادی ہر سال‘ ہر ماہ‘ ہر روز‘ ہر لمحہ بڑھ رہی ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">یہی کوتاہ اندیشی اور عقل کا اندھا پن لاہور کو بھی برباد کرنے کے درپے ہے!! لسانی بنیاد پر پاکٹس (Pockets) بن رہی ہیں اور بڑھتی جا رہی ہیں ! اگر ان لسانی جزیروں کو روکا نہ گیا تو کل یہاں سہراب گوٹھ بھی بن جائے گا اور لسانی بنیادوں پر انتخابات بھی شروع ہو جائیں گے! اس کوتاہ اندیشی کی ایک مثال ذہن سے کبھی نہیں اترتی! شہباز شریف جب چیف منسٹر تھے تو کلرکہار کے دورے پر گئے۔ وہاں ایک لسانی تنظیم نے ان سے مطالبہ کیا کہ آبادی کے ایک خاص حصے کو ایمبولنس دی جائے! وزیراعلیٰ کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ ایمبولنس دی جائے گی مگر کسی خاص تنظیم اور کسی خاص لسانی گروہ کے لیے نہیں بلکہ یہ تمام لوگوں کے لیے ہو گی خواہ وہ کوئی سی زبان بولتے ہوں یا کسی بھی نسل یا گروہ سے تعلق رکھتے ہوں! مگر ہمارے حکمرانوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہی ہوتی ہے۔ ایمبولنس منظور کی گئی مگر صرف ایک خاص کمیونٹی کے لیے! اسے کہتے ہیں اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنا!! خدا لاہور کے مستقبل کو محفوظ رکھے اور ایک اور کراچی بننے سے روکے!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">چوبیس فیصد لوگوں نے اسلام آباد کو ملک کا خوبصوت ترین شہر قرار دیا! یہ شہر کبھی خوبصورت تھا مگر اب نہیں! عرصہ ہوا ایک دوست جو بھارت سے ہو کر آیا تھا‘ اسلام آباد کا موازنہ چندی گڑھ سے کر رہا تھا! دونوں شہر نئے ہیں اور منصوبہ بندی سے بنے ہیں! اُس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد‘ چندی گڑھ کی نسبت زیادہ صاف ستھرا ہے! تب ایسا ہی تھا! آج کا اسلام آباد </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">Slums </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">کا مجموعہ ہے! اگر آپ نے ملک کا سب سے زیادہ غلیظ بازار دیکھنا ہو تو میلوڈی مارکیٹ جا کر دیکھیے! یہ شہر کا دل ہے! نام نہاد دل! نالیوں سے سیوریج کا پانی باہر چھلک رہا ہے‘ گٹر ابل رہے ہیں اور اس سب کے درمیان لوگ بیٹھے کھانے کھا رہے ہیں اور چائے پی رہے ہیں! شہر کے حاکم کو پروا ہے نہ ریستورانوں کے مالکوں کو! پارکنگ کا برا حال ہے۔ نیشنل بینک کی بڑی عمارت کھوکھوں کی کثرت اور پارکنگ کی ہڑبونگ کا شکار ہے! اسی طرح سپر مارکیٹ اور جناح سپر مارکیٹ بھی کھو کھوں سے اَٹی پڑی ہیں! صفائی عنقا ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">اسلام آباد کا زوال جنرل ضیاء الحق کے تاریک دور میں شروع ہوا۔ ماسٹر پلان کی دھجیاں اُڑائی گئیں! پلاٹوں کی بندر بانٹ ہوئی۔ جنرل صاحب نے نرسریاں اور فارم اپنی ذاتی پسند‘ ناپسند کی بنیاد پر بانٹے۔ گرین ایریاز میں خوب خوب نقب لگائی گئی! بعد میں آنے والے حکمرانوں نے غلط بخشیوں کا یہ کاروبار جاری رکھا! نوازشیں جاری رہیں! شہر گہناتا گیا! پارک اور گرین ایریا کم ہوتے گئے۔ سیمنٹ اور سریا غلبہ پاتا رہا! مخصوس مافیا مکانوں اور پلاٹوں کی قیمتیں بڑھاتا رہا! یہاں تک کہ یہ قیمتیں عام پاکستانیوں کی پہنچ سے باہر ہو گئیں! ساتھ ساتھ پانی کی قلت ہوتی گئی! کراچی کی طرح ٹینکر مافیا بھی وجود میں آگیا! جولائی2016 ء میں سپریم کورٹ نے ایل ڈی اے کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دیا۔ اس پر اس کالم نگار نے سی ڈی اے کو شرم دلائی کہ یہ اعزاز تو آپ کا تھا۔ جا کر سپریم کورٹ میں فریاد کیجیے کہ کرپٹ ترین ادارہ ہم ہیں! شہروں کی خوبصورتی کو بر قرار رکھنا‘ بڑھانا‘ آبادیوں اور بستیوں کو سائنسی بنیادوں پر کنٹرول کرنا مقامی حکومتوں کا کام ہے! یہاں تو مقامی حکومتیں ہی غائب ہیں! اسلام آباد اپنے میئر سے محروم ہے اور بیورو کریسی کے رحم و کرم پر ہے! یہ طے ہے کہ بیورو کریسی سینے میں دل نہیں رکھتی اور سر میں بھیجا نہیں رکھتی! اس بیورو کریسی کی خوش قسمتی دیکھیے کہ جن حکمرانوں نے اسے کنٹرول کرنا ہے وہ خود نیم تعلیم یافتہ ہیں!!</font></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-9496447434138436912024-02-05T09:18:00.001+05:002024-02-05T09:18:32.625+05:00More of the same<h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><font size="4"><br></font></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">بس کر دو! خدا کے لیے بس کر دو! کب تک منافقت کے پیچھے اصل چہرا چھپاتے رہو گے؟ کوئی کہتا ہے بوتل میں پانی تھا جو پیر صاحب نے دم کیا تھا؟ کوئی کہتا ہے گاڑی میں جو بوتلیں تھیں ان میں شہد تھا۔ کوئی کہتا ہے ہسپتال‘ اس کے کمرے میں جو بوتلیں پڑی تھیں ان میں کوکنگ آئل تھا! تم منافقوں سے تو وہ رند اچھے ہیں جن کے چہروں پر نیکوکاری کی تہہ نہیں ہوتی! منافقت کے علاوہ یہ تمہاری بزدلی بھی ہے! وہ کام کرتے کیوں ہو جس کا اعتراف نہیں کر سکتے؟ کرتے ہو تو اعتراف بھی کرو! تم چاہتے ہو کہ اندر خانے موج مستی بھی کرو‘ عیش و عشرت کے تقاضے بھی پو رے کرو اور اوپر سے لبادہ بھی نہ اُترے! لوگ سمجھدار ہو گئے ہیں! انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پیر کے دم کیے ہوئے پانی سے کیا مراد ہے‘ شہد کا کیا مطلب ہے اور خوردنی تیل کیسا تھا! تم جو چاہو کرو! کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تمہیں روکے! جو معاملات بندے اور خدا کے درمیان ہیں‘ ان میں انسانوں کو دخل نہیں دینا چاہیے! مگر ڈرامے کرنا‘ ملمع سازیاں کرنا‘ جھوٹ بولنا‘ پاکبازی کی جعلی قبائیں پہننا‘ ان سب حرکتوں سے ذلت میں اضافے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">اور یہ ہم کس زمانے میں پہنچ گئے ہیں! ہمارے کلچر میں تو ماؤں‘ بہنوں‘ بیویوں اور بیٹیوں کا عدالتوں میں جانا ہی ناقابلِ تصور تھا‘ چہ جائیکہ ان کی موجودگی میں‘ انہی کے بارے میں‘ ایسے سوالات اور ایسی باتیں جنہیں سُن کر مردوں کے کان بھی سرخ ہو جائیں! لوگ مر جاتے تھے‘ اپنے گھروں کی خواتین کو کچہریوں میں نہیں جانے دیتے تھے! یہ کیسے لوگ ہیں جو اس سارے شرمناک تماشے کے دوران‘ زمین میں گڑنے کے بجائے‘ ہنستے رہے اور انگلیوں سے فتح کے نشان بناتے رہے! کیسی بے حسی ہے! اور بے حسی کی کیسی انتہا ہے! سچی مثال ہے وہ جو کسی کو شرم دلانے کے لیے کہا گیا کہ تمہاری پشت پر کیکر اُگا ہے تو اس نے‘ شرم کرنے کے بجائے‘ آگے سے جواب دیا تھا کہ اچھا ہے‘ اس کی چھاؤں میں بیٹھیں گے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ایک بار چہرے سے حیا کی چادر اُتر جائے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بے حرمتی کتنی بار ہو رہی ہے یا کتنی ہو رہی ہے یا کہاں کہاں ہو رہی ہے! کاش انتہائی ذاتی معاملات ذاتی ہی رہنے دیے جاتے! بندوں کو ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہیے جو بندوں اور خدا کے درمیان ہیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">کسی خاتون قیدی کو اگر اپنے گھر میں نظربندی کی رعایت دینا ہی تھی تو ڈاکٹر یاسمین راشد سے زیادہ اس رعایت کی مستحق کوئی نہ تھی! ہو بھی نہیں سکتی! اس ملک میں کتنی خواتین ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ان کے برابر ہو سکتی ہیں؟ انہوں نے ساری عمر تعلیم کے شعبے میں خدمات انجام دیں! ہزاروں طلبہ اور طالبات کو پڑھایا۔ ان کی تصنیف کردہ کتابیں نصاب میں شامل ہیں! چکوال کی اس جینیئس بیٹی نے برطانیہ سے گائناکالوجی میں اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کیں! کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) جیسے معتبر ترین ادارے میں شعبے کی سربراہ رہیں! پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کی صدر رہیں! کئی یونیورسٹیوں میں کام کیا! اتنی لائق اور بلند ترین اہلیت کی مالک خاتون جیل میں عام قیدیوں کی سی زندگی گزار رہی ہے۔ عمر بھی ان کی ستر سے زیادہ ہے! اس کے مقابلے میں ایک ایسی خاتون کو گھر میں نظر بندی کی سہولت دی گئی ہے جو تعلیم و تعلّم میں ان کے پاسنگ تک نہیں! ایک اور سَو کا فرق ہے! ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ جس خاتون کو یہ بیش بہا رعایت ملی ہے‘ اسے نہیں ملنی چاہیے یا اس سے یہ رعایت واپس لے لینی چاہیے۔ مگر ایسی رعایت ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی قابل پروفیسر کو بھی ملنی چاہیے تھی! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">اور صرف ڈاکٹر یاسمین راشد ہی نہیں‘ کتنی ہی خواتین عام قیدیوں کی زندگی گزار رہی ہیں! ذلت آمیز زندگی!! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">2019</font></div></p><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">ء کے اعداد و شمار کی رُو سے‘ صرف پنجاب کے زندانوں میں ساڑھے چار سو سے زیادہ عورتیں پڑی ہیں جن کے مقدمات کے فیصلے ہی نہیں ہوئے۔ کتنی عورتوں کو وکیل ہی میسر نہیں! کتنی ہی عورتیں جیل میں بجوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہ بچے بھی سزا کاٹتے ہیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">2021</font></div></p><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">ء کے اعداد و شمار کے حساب سے ایک ہزار چار سو سے زیادہ خواتین جیلوں میں بند ہیں! ان بے کس‘ بے بس عورتوں کو گھر میں نظر بندی کی عیاشی کیوں نہیں میسر؟ کیا یہ پاکستانی نہیں؟ کیا یہ حوّا کی بیٹیاں نہیں؟ اس رعایت کا معیار کیا ہے؟ تعلیم؟ عمر؟ یا صرف سوشل سٹیٹس؟ سوشل سٹیٹس تو مریم نواز اور فریال تالپور کا بھی کم نہ تھا! بلکہ بہت زیادہ تھا! کئی نسلوں سے امیر زادیاں تھیں اور حکمران خاندانوں کی بیٹیاں!! سوشل سٹیٹس اور خاندانی امتیاز کی بنیاد پر ایسی رعایت دینا اور لینا انصاف کا خون کرنے کے برابر ہے! انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ بوڑھی خواتین قیدیوں کو گھروں میں نظربند کیا جائے اور اُن عورتوں کو بھی جن کے ساتھ بچے ہیں! رہی اُس سلوک کی بات جو ہمارے جیلوں میں خواتین قیدیوں سے روا رکھا جاتا ہو گا‘ تو اس کے تصور ہی سے دل میں ہول اٹھنے لگتا ہے۔ ہم سب اس سلوک کی نوعیت کو اچھی طرح جانتے ہیں! کوئی غلط فہمی نہیں! ظلم‘ تشدد‘ اور وہ سب کچھ جو ناگفتنی ہے اور ناقابلِ بیان‘ ان خواتین قیدیوں کے ساتھ ہوتا ہو گا اور یقینا ہوتا ہو گا! خدا دشمن کی خواتین کو بھی جیل سے بچائے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ہنسنے ہنسانے کا موسم زوروں پر ہے! ذرا ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھیے! لگتا ہے دنیا بھر کے کلاؤن‘ مسخرے اور مداری یہاں آ گئے ہیں! رنگا رنگ پگڑیاں پہن کر تقریریں کی جا رہی ہیں! اچھل اچھل کر دعوے اور چھلانگیں لگا لگا کر وعدے کیے جا رہے ہیں! ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں کی جا رہی ہیں کہ الامان و الحفیظ! ایک دوسرے کے کردار کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں! کل جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر حکومت بنا رہے تھے اور حکومت کر رہے تھے‘ آج ایک دوسرے کو چیر پھاڑ رہے ہیں! حیرت تو یہ ہے کہ ہر نئے الیکشن سے پہلے پارٹی بدلنے والے بھی انقلاب کے خواب فروخت کر رہے ہیں! قیمتیں نیچے لانے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ مگر کیسے؟ یہ نہیں بتاتے! پی ڈی ایم کی حکومت میں تو سمدھی صاحب کوئی معجزہ نہ دکھا سکے! دیکھیے! اب کے کیا کرتب دکھاتے ہیں! ہم اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ چلو جیسی بھی لُولی لنگڑی جمہوریت ہے‘ جمہوریت تو ہے! مگر سچ یہ ہے کہ یہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی نہیں‘ یہ اولی گارکی </font></div></p><p class="text-justify" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><font size="4">(Oligarchy) </font></p><p class="text-justify" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><font size="4">ہے۔ یعنی امرا شاہی! ارسطو </font></p><p class="text-justify" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><font size="4">Oligarchy</font></p><p class="text-justify" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><font size="4">کو ارسٹوکریسی (اشرافیہ کی حکومت) کی بدتر قسم کہتا ہے! آپ ضیاء الحق کی کابینہ سے لے کر آج تک کی کابینہ کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے! وہی اشرافیہ! وہی امرا! ثروت مندوں کے وہی ٹولے! نسل در نسل! پشت در پشت! ساتھ ساتھ نئے امرا بھی شامل ہوتے جاتے ہیں! وہ جو مڈل کلاس کے نام پر سیاست میں آئے تھے‘ ان کے کنبے بھی امریکی شہروں کے گراں ترین علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں ! پاکستان کی اشرافیہ نے پکا پکا اصول بنا لیا ہے کہ حکومت کرنے کے لیے پاکستان اور رہنے کے لیے لندن‘ دبئی‘ جدہ‘ سپین اور امریکہ!! جو سیاستدان آج کل اپنا اصلی وطن‘ لندن‘ چھوڑ کر پاکستان آئے ہوئے ہیں‘ ان کا قوم پر اور ملک پر احسانِ عظیم ہے! کہاں لندن کے کافی ہاؤس‘ سپر سٹور‘ اور شاپنگ! اور کہاں غریب‘ گرد آلود‘ پاکستان!! مگر حکومت میں ایک بار پھر آنے کے لیے قربانی تو دینا پڑتی ہے! ہاں! حکومت ہاتھ آگئی تو پھر پہلے کی طرح لندن کے پے در پے ''سرکاری‘‘ دورے یعنی چُپڑی اور دو دو!! پھر کابینہ کے نہ اسمبلی کے اجلاسوں میں حاضری!! فرنگیوں نے کیا جامع محاورہ نکالا ہے </font></p><p class="text-justify" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><font size="4">More of the same!! </font></p><p class="text-justify" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><font size="4">یعنی یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے۔</font></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-88795368947965563232024-02-01T15:20:00.001+05:002024-02-01T15:20:47.626+05:00وصال اور فراق کا کھیل<div style="text-align: right;"><br></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">''میں پاکستان کو آسٹریلیا سے کہیں زیادہ چاہتا ہوں! اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے مال اور بازار میں زیادہ مزہ آتا ہے۔ آپ کے پاس اگر ویک اینڈ کے لیے کوئی اور ایجنڈا نہیں تو مال میں چلے جائیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آپ خاندان کے افراد کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں! مجھے تارکِ وطن </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">(Expat)</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica"> کہلانا بالکل پسند نہیں۔ میرے ابو کو بھی نہیں پسند! ہم چاہتے ہیں کہ اپنے شہروں میں اپنے رشتہ داروں کے پاس رہیں!‘‘</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">گیارہ سالہ تیمور رو رہا تھا۔ پوچھا کیا ہوا! کہنے لگا: میں آسٹریلیا نہیں جانا چاہتا۔ یہیں پاکستان میں رہنا چاہتا ہوں! اس کا دل بہلانے کے لیے کہا کہ لکھ کر بتائیے آپ کیوں نہیں جانا چاہتے! اس پر اس نے دو پیرا گراف لکھ کر دکھائے جن کا ترجمہ اوپر دیا ہے۔ اس کا باپ بھی غم زدہ تھا مگر بیٹے کے آنسو کام آئے نہ باپ کی اداسی! تین دن پہلے ایک طاقتور‘ قوی ہیکل فولادی پرندے نے انہیں اپنے بازوؤں میں جکڑا اور گیارہ ہزار کلومیٹر دور جا کر بحر الکاہل کے کنارے اُگل دیا!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">کئی برسوں بعد اب کے سب بچوں کو تعطیلات ایک ہی وقت ملیں! دسمبر میں سب اکٹھے تھے۔ خوب ہنگامے رہے! جس گھر میں دو عمر رسیدہ میاں بیوی‘ گویا چوکیداری کر رہے تھے‘ آباد ہو گیا! کہیں نقرئی قہقہے تھے‘ کہیں سنہری آوازیں! اپنے اپنے کمروں میں سونے کے بجائے سب لاؤنج یا بیٹھک میں اکٹھے بیٹھتے! فرش پر سونا گوارا تھا مگر ایک دوسرے سے الگ ہونا نہیں! رات رات بھر جاگتے! کبھی کیرم بورڈ ہو رہا ہوتا تو کبھی کسوٹی! کبھی پیزا آ رہا ہوتا تو کبھی برگر! چھوٹے بچے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آکر کاغذ مانگتے۔ نہیں معلوم یہ ان کاغذوں کا کیا کرتے۔ بس میز کے ارد گرد بیٹھ کر ہر بچہ کوئی نہ کوئی شہکار تخلیق کر رہا ہوتا! پیسے اکٹھے کرکے محلے کی دکان پر جاتے اور کئی بار جاتے! بڑے بچے باہر گلی میں کرکٹ کھیلتے۔ مصطفی زیدی کے بقول:</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">افسانہ در افسانہ تھی مڑتی ہوئی سیڑھی</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">اشعار در اشعار تھا ہر در اسی گھر میں</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">قرب کی اس دیوار میں پہلا شگاف زرین نے ڈالا! اس کا سکول کھلنے والا تھا! وہ جاتے وقت ازحد اداس تھی۔ بالکل خاموش! اتنے ہنگامے‘ اتنی چہل پہل‘ اتنی ہماہمی چھوڑ کر جانا آسان نہ تھا۔ میں نے سینے سے لگایا تو ڈر رہا تھا کہ رو نہ پڑے۔ مگر وہ ایک بت کی طرح‘ گُھٹے ہوئے منہ کے ساتھ‘ بالکل بے حس و حرکت رہی! چند دن اور گزرے تو لاہور والوں نے رختِ سفر باندھا! زینب اب ماشاء اللہ اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ چھوٹے کزنز کا خیال رکھ سکے۔ کل کی بات لگتی ہے کہ منی سوٹا کے ایک ہسپتال میں اس کا ورود ہوا تو ہسپتال میں شور مچ گیا کہ ایک بچی سیاہ بالوں والی پیدا ہوئی ہے۔ سنہری بالوں کی اس دنیا میں سیاہ بال عجوبہ تھے۔ نرسیں دیکھنے آتی تھیں اور دیکھ کر خوش ہوتی تھیں!! معلوم ہوا کہ نومود بچوں کو شہد کی گُھٹی دینے کی اجازت نہیں! زینب کی نانو اس قانون کو کہاں ماننے والی تھیں! عملے سے چھپ کر گھٹی دی۔ زینب پہلی </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">Grand child </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">ہے۔ اس کی پیدائش کے بعد ہی معلوم ہوا کہ زندگی کا شیریں ترین میوہ تو بچوں کے بچے ہیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">پوتوں نواسیوں کے چمن زار واہ واہ</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">زینب کا چھوٹا بھائی‘ ہاشم خان‘ روہیلہ پٹھانوں کی روایت بر قرار رکھتے ہوئے پندرہ برس کی عمر میں چھ فٹ کا ہو چکا ہے۔ اسے سکول میں اپنی بہن پر مضمون لکھنے کے لیے کہا گیا تو اس نے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ زینب نانا ابو کی پہلی </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">grand child. </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">ہے اور ان کی چہیتی ہے۔ ویسے اس میں کوئی خاص بات نہیں! یہ لوگ لاہور واپس چلے گئے تو رونق آدھی رہ گئی!! کچھ دن اور گزرے تو حمزہ‘ زہرہ اور سمیر کی بیرونِ ملک روانگی سر پر آگئی۔ جوں جوں جانے کی تاریخ نزدیک آتی گئی‘ زہرہ پہلے سے زیادہ لپٹنے لگی! کہیں کھڑا ہوتا یا بیٹھا ہوتا تو آکر لپٹ جاتی! بچوں کو سر پر کھڑی جدائی کا پورا ادراک ہوتا ہے مگر اظہار نہیں کر سکتے! بعض اوقات بچوں کو اپنی پسندیدہ شخصیت کے فراق میں بخار بھی ہو جاتا ہے! یہ درست ہے کہ بچے جلد بھول جاتے ہیں اور اپنے نئے مشاغل میں مصروف ہو جاتے ہیں مگر جدائی کا فوری ردِ عمل ان پر شدید ہوتا ہے۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">تیمور نے مندرجہ بالا نوٹ چند روز پہلے لکھا اور پرسوں چلا گیا۔ جہاز کی روانگی سے پہلے ہم ایئر پورٹ کے ریستوران میں بیٹھے رہے۔ اسے اور اس کے چھوٹے بھائی سالار کو کھانے پینے کی چیزیں لے کر دیں اور وہ خوش ہوئے! رخصت ہوتے وقت وہ بار بار مڑ مڑ کر ہاتھ ہلاتا رہا‘ بالکل بڑے آدمیوں کی طرح!! واپسی پر میں اور اس کی دادی گاڑی میں‘ بے حس و حرکت‘ خاموش بیٹھے رہے! گاڑی میں اندھیرا تھا۔ معلوم نہیں اسے میرے رونے کا پتا چلا یا نہیں مگر مجھے معلوم تھا کہ وہ رو رہی ہے! زیادہ دکھ یہ سوچ سوچ کر ہو رہا تھا کہ تیمور جانا نہیں چاہتا تھا۔ جانے سے پہلے اس نے کئی بار پوچھا ''آپ کا نیا ویزا کب تک لگ جائے گا‘‘؟ یہ لوگ میلبورن پرسوں رات نو بجے پہنچے۔ گھر پہنچتے پہنچتے گیارہ بارہ بج گئے۔ وہاں آدھی رات تھی جب تیمور کے ابو نے فون کیا کہ تیمور راستے میں بھی روتا رہا اور اب گھر پہنچ کر بہت زیادہ رو رہا ہے۔ میں نے اسے وڈیو کال پر چپ کرانے کی کوشش کی۔ مگر وہ سسکیاں لے رہا تھا اور ایک ہی بات پوچھے جا رہا تھا کہ آپ کے آنے میں کتنے دن باقی ہیں؟ آپ کتنے دن بعد آرہے ہیں؟ آپ کب آئیں گے؟</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">وصال و فراق کا یہ کھیل ہر دوسرے نہیں تو تیسرے گھر میں ضرور جاری ہے! خاندان بٹ گئے ہیں۔ کنبے بکھر گئے ہیں! ملکوں ملکوں! دیس دیس! ہاں! بعض افراد کے اعصاب ''فولادی‘‘ ہوتے ہیں! کچھ طبائع حساس نہیں ہوتے! ہمارے ایک دوست ہیں جنہیں اپنے ہی پوتوں نواسوں کا شور بُرا لگتا ہے۔ ہم جیسے ''کمزور‘‘ اعصاب کے لوگ بچوں کے شور میں لکھنے پڑھنے کا کام بھی کرتے رہتے ہیں۔ مجھے تو اپنے بچوں کا شور دلفریب موسیقی کی طرح لگتا ہے! ''فولادی‘‘ اعصاب تو ان صاحب کے بھی تھے جو بارگاہِ رسالت میں حاضر تھے۔ ان کے سامنے رسالت مآبﷺ نے اپنے نواسے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ ان صاحب نے بتایا کہ ان کے دس بیٹے ہیں مگر انہوں نے کبھی کسی کو نہیں چوما۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا ''اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں اس کا مالک تو نہیں ہوں‘‘!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">اپنے بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو ان سے لطف اندوز ہونے کا وقت کم ہی ملتا ہے۔ زندگی کی بے مہریاں تب عروج پر ہوتی ہیں۔ غمِ روزگار نے گھیرا ہوتا ہے۔ بقول ناصر کاظمی:</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">صبح نکلے تھے فکرِ دنیا میں</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">خانہ برباد دن ڈھلے آئے</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">دیکھتے ہی دیکھتے بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ جب ان کے بچے وارد ہوتے ہیں تب فرصت ہی فرصت ہوتی ہے۔ ذمہ داری ان کے ماں باپ پر اور لطف اندوزی دادا ‘دادی یا نانا‘ نانی کے حصے میں! بچوں کی بات توجہ سے ماں باپ نہیں بلکہ دادا‘ نانا سنتے ہیں! ایک خاموش‘ غیر تحریری معاہدہ طے ہو جاتا ہے۔ دادا‘ نانا بچوں کے وکیل ہوتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کے ماں باپ کی سب سے بڑی دلیل وہی ہوتی ہے جو نسل در نسل چلی آتی ہے کہ ''آپ نے اسے یا انہیں </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">Spoil </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">کر دیا ہے‘‘۔ ہاں! کر دیا ہے! اس لیے کہ دادا‘ نانا کو قدرت نے یہی کردار سونپا ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">اب میرے پاس رستم اور آزادِہ ہیں! رستم دو برس کا ہونے والا ہے۔ چائے اور رَس کا ناشتہ میرے ساتھ بہت شوق سے کرتا ہے۔ ہاں! تیمور کا مضمون فریم کرا رہا ہوں کہ محفوظ ہو جائے!</font></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-49389517631428607422024-01-30T10:22:00.001+05:002024-01-30T10:22:13.244+05:00میں آٹھ فروری کا دن کیسے گزاروں گا ؟<h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; font-size: 1.7rem; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">الیکشن کی گہما گہمی ہے! شور و غوغاہے۔ ہنگامہ ہے! سڑکیں‘ راستے‘ گلیاں‘ کوچے‘ بینروں سے اَٹ گئے ہیں! بینروں پر تصویریں ہیں! کچھ چہرے نئے ہیں! کچھ جانے پہچانے ہیں! چہروں کے ساتھ دعوے ہیں اور وعدے ! وہی دعوے اور وہی وعدے جو ہر بار سنائی دیتے ہیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">مگر مجھے 2018ء کا الیکشن یاد آرہا ہے جب میں نے اڑتالیس سال کے بعد پہلی بار ووٹ ڈالا تھا۔کتنا پُر جوش تھا میں! کتنا </font></div></p><p class="text-justify" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><font size="4">Excited </font></p><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">تھا! میں اور بیگم دونوں مقررہ وقت سے بہت پہلے پولنگ سٹیشن پہنچ گئے تھے۔ لوگ باگ کھڑے تھے! جس سے بھی پوچھتے کہ کس کو ووٹ دینا ہے‘ وہ ہمارا ہی ہمنوا نکلتا ! چہروں پر چمک تھی! دلوں میں اطمینان تھا! جذبہ تھا۔ سامنے روشنی نظر آرہی تھی! ستّر برسوں کے بعد امید ہمارے سامنے جیتے جاگتے وجود میں کھڑی تھی! ہم عمران خان کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے پاس پروگرام تھا۔ پلاننگ تھی! ہمارے دل اس کی آواز کے ساتھ دھڑکتے تھے! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">اُس نے اُن سیاستدانوں‘ اُن حکمرانوں کو ہمارے سامنے بے نقاب کر دیا تھا جو کئی دہائیوں سے ہمیں اُلو بنا رہے تھے! یہ سب اپنے اپنے خاندان کے لیے کام کر رہے تھے۔ کوئی بیٹی کو جانشین بنانا چاہتا تھا۔ کوئی بیٹے کو تخت پر بٹھانا چاہتا تھا! کسی کو توشہ خانے سے گاڑی درکار تھی! کوئی مشرقِ وسطیٰ کے تحائف پر نظر رکھتا تھا! یہ عمران خان تھا جس نے وعدہ کیا کہ اس کا کوئی ذاتی مفاد نہ تھا! ہم نے اسے ووٹ دیے اس لیے کہ جو وعدے اور جو دعوے اس نے کیے تھے ‘ ان کے بعد اسے ووٹ نہ دینا ملک دشمنی کے مترادف تھا! ہمیں یقین تھا کہ وہ عوام سے ہے اور عوام ہی کا رہے گا! اس نے ہمیں برطانیہ‘ امریکہ ‘ ناروے اور ڈنمارک کے حکمرانوں کی مثالیں دی تھیں! ہمیں یقین تھا کہ وہ ایک ایک پائی کا خیال رکھے گا۔ ہم اسے بازار میں بھی دیکھیں گے اور پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی! کیونکہ برطانیہ‘ ڈنمارک اور ناروے‘ سویڈن کے حکمران ایسے ہی ہوتے ہیں! اس نے کہا تھا کہ وہ ہر کام میرٹ پر کرے گا۔پولیس سیاسی مداخلت سے آزاد ہو جائے گی! کچہریوں میں رشوت کا خاتمہ ہو جائے گا۔یہ ملک سنگاپور اور جنوبی کوریا کی طرح اوپر اُٹھے گا اور دنیا حیران ہو گی! سبز پاسپورٹ کی رینکنگ بلند ہو جائے گی۔ روپے کی قدر ہمیں دنیا میں باعزت بنائے گی!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">عمران خان آج بھی میرا ہیرو ہے! کون سا عمران خان؟ اگست 2018ء سے پہلے والا عمران خان! میں اُسے ڈھونڈ رہا ہوں! ہاتھ میں چراغ لے کر اسے ڈھونڈ رہا ہوں! شہر شہر! قریہ قریہ! گلی گلی!! میں نے گزشتہ53 برسوں میں سوائے عمران خان کے کسی کو ووٹ نہیں دیا! میں نے نصف صدی میں پہلی بار ووٹ ڈالا تھا! میں آج بھی کسی اور کو ووٹ نہیں دوں گا۔ مگر کیا میں اُسے بھی ووٹ دوں گا ؟ ہاں! میں آج بھی اسی کو ووٹ دینا چاہتا ہوں! مگر یہ پرچھائیاں‘ یہ ہیولے‘ یہ سائے کیا ہیں جو میرے سامنے آ رہے ہیں! کیا یہ بھوت ہیں ؟ کیا یہ جنات ہیں؟ کیا یہ چڑیلیں ہیں؟ کیا میں آسیب زدہ ہو گیا ہوں؟ دائیں طرف دیکھتا ہوں تو بزدار نظر آتا ہے! قہقہے لگاتا ہوا! کرسی پر بیٹھا ہوا! ٹانگ پر ٹانگ رکھے! میں اس سے پوچھتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے خان کہاں ہے؟ کیا تم اس سے ملاقات کرنے جیل میں گئے؟ کیا تم نے جا کر اُس سے پوچھا کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے ؟تمہیں کوئی جانتا نہ تھا! خان کی وجہ سے تم پوری دنیا میں جانے گئے اور تم اسے ملنے کے لیے ایک بار بھی نہ گئے! بزدار میرے کسی سوال کا جواب نہیں دیتا! وہ میری طرف دیکھ کر قہقہہ لگاتا ہے ! میں اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ غائب ہو جاتا ہے!! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">میں بائیں طرف دیکھتا ہوں تو مجھے گجر نظر آتا ہے۔ وہ ایک جہازی سائز کی گاڑی سے اُتر رہا ہے۔ مجھ پر اس کی نظر پڑتی ہے تو قہقہہ لگاتا ہے۔ بالکل ویسا ہی غصہ دلانے والا قہقہہ جو بزدار نے لگایا تھا۔ میں گجر سے پوچھتا ہوں تم کہاں ہو؟ ملک کیوں چھوڑ کر چلے گئے؟ کیا تمہیں معلوم ہے خان مشکل میں ہے؟ وہ زندان میں ہے؟ کیا تم اس کے پاس گئے؟ کیا تمہیں معلوم ہے خان نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی تمہاری بیگم کا دفاع کیا تھا؟ تم واپس آکر اس کی رہائی کے لیے جدو جہد کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم پر اس کے احسانات نہیں؟ گجر ایک عجیب و غریب قہقہہ لگاتا ہے اور اِٹھلاتا ہوا‘ اِتراتا ہوا ‘ ایک طرف کو چل پڑتا ہے۔ میں اس کے پیچھے بھاگتا ہوں! پکڑنے لگتا ہوں تو وہ غائب ہو جاتا ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ایک پاٹ دار قہقہہ اپنے پیچھے سنائی دیتا ہے! مُڑ کر دیکھتا ہوں تو زلفی بخاری نظر آتے ہیں۔ مجھے دیکھ کر مسکراتے ہیں! میں غضبناک ہو کر مخاطب ہوتا ہوں ! شاہ صاحب ! آپ تو سیّد بادشاہ ہیں! آپ بھی خان کو مشکل میں دیکھ کر بھاگ گئے؟ کیا آپ بھی صرف چُوری کھانے والے مجنوں تھے؟ آپ کو اقتدار کی جن بلندیوں پر خان نے پہنچایا‘ آپ ان کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے! مگر جیسے ہی خان پر ابتلا کا دور آیا آپ برطانیہ چلے گئے ! کیا کوئی اتنی بے وفائی ‘ اتنی بے اعتنائی بھی کر سکتا ہے؟ خان بھی تو ملک چھوڑ کر جا سکتا تھا! وہ نہیں گیا تو آپ اسے چھوڑ کر کیوں چلے گئے ؟ بخاری صاحب! واپس آئیے! خان کو اس کڑے وقت میں آپ کی ضرورت ہے! اس کے لیے‘ پارٹی کے لیے‘ عوام کے لیے‘ ملک کے لیے‘ قوم کے لیے قربانی دینے کا وقت ہے! بخاری صاحب ایک فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہیں! میں غصے سے ان کی طرف دیکھتا ہوں مگر وہ تو جیسے کبھی اس جگہ تھے ہی نہیں!! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">یہ میں کس کیفیت میں ہوں؟ کہاں ہوں؟ وقت کون سا ہے! کیا یہ 2018ء ہے؟ یا کوئی اور زمانہ ہے؟ اچانک میری نگاہوں کے سامنے توشہ خانے کی بلڈنگ پھرنے لگتی ہے! پھر مجھے عمران خان دکھائی دیتا ہے! میں اسے دیکھ کر روہانسا ہو جاتا ہوں! اس کا دامن پکڑ لیتا ہوں اور چیخ چیخ کر کہتا ہوں خان! یہ تم نے کیا کیا؟ تمہیں معلوم تھا گزشتہ حکمرانوں نے توشہ خانے میں منہ مارا تھا۔ تم نے اس سے اعراض کیوں نہ برتا؟ تم نے توشہ خانے کو اور اس کے مال اموال کو پاؤں کی ٹھوکر پر کیوں نہ رکھا؟ تمہارے پاس تو سب کچھ تھا! تم نے دنیا کے سارے مزے چکھے ہوئے تھے! تم پوری دنیا کے ہیرو رہے! تم نے توشہ خانے سے مکمل لاتعلقی کیوں نہ اختیار کی؟ تم کہتے ہو تم نے غلط کام کوئی نہیں کیا۔ مگر تم نے اس گند‘ اس غلاظت میں اپنے ہاتھ ڈالے ہی کیوں؟ تم اس سارے معاملے‘ اس سارے کاروبار سے بے نیاز کیوں نہ ہوئے؟ تم نے اپنے اوپر چھینٹے پڑنے ہی کیوں دیے؟ پھر پتہ نہیں کیا ہوتا ہے۔ توشہ خانے کی بلڈنگ غائب ہو جاتی ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">میں آٹھ فروری کو گھر سے باہر نہیں نکلوں گا! میں سیاہ لباس پہن کر‘ اُس دن اپنی آرزوؤں کا سوگ مناؤں گا! اپنے مرحوم خوابوں پر نوحے پڑھوں گا! میں اُن وعدوں اور اُن دعووں کا ماتم کروں گا جو خان نے اگست 2018ء سے پہلے کیے تھے! میں اپنے تار تار ووٹ کے پُرزے ڈھونڈ کر اسے پھر سے جوڑنے کی کوشش کروں گا اور ناکام رہوں گا!</font></div></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-30118624132931452222024-01-29T10:38:00.001+05:002024-01-29T10:38:12.502+05:00سوچ سطحی ! احساس ِکمتری شدید !! <div style="text-align: right;"><br></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">کتابیں ہر روز ہی موصول ہوتی ہیں۔ عام ڈاک سے بھی‘ کوریئر سے بھی! اس پیکٹ کو بھی میں کتاب ہی سمجھا۔ جِلد کافی مضبوط لگ رہی تھی۔ ہاں کتاب شاید پتلی سی تھی! کھولا تو یہ ایک شادی کا دعوتی کارڈ تھا!دو موٹے گتّوں کے اندر دعوت نامہ تھا۔یہ نہایت قیمتی ‘ کتاب نما‘ دعوت نامہ ایک لفافے میں بند تھا۔ لفافے کے منہ پر دو ڈوریاں لگی تھیں جن سے لفافہ ایک بیگ کی شکل اختیار کر گیا تھا جسے ڈوریوں کی مدد سے پکڑا یا لٹکایا جا سکتا تھا!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">مجھے اس سے ‘ فی الحال‘ غرض نہیں کہ اس دعوت نامے پر لاگت کتنی آئی! چلیے ‘ ہم یوں کہہ لیتے ہیں کہ شادی پر جہاں بہت سے دیگر‘ جائز‘ ناجا ئز ‘ اخراجات آئے اور خواتین کھل کھیلیں‘ وہاں ایک مہنگا آئٹم دعوتی کارڈ بھی سہی! عام طور پر ہماری خواتین ‘ مردوں کے اعتراض کا جواب یہ دیتی ہیں کہ خوشی کا موقع ہے ‘ اور خوشی کے مواقع روز روز کہاں آتے ہیں! مہنگے دعوتی کارڈ کا بھی یہی جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ اور بات کہ بہت سے لوگ اب کارڈ چھپواتے ہی نہیں! دیدہ زیب ڈیزائن بنواتے ہیں اور پھر اسے وٹس ایپ کے ذریعے بھیج دیتے ہیں! کبھی کبھی کچھ دوست یا عزیز فون کر کے گھر کا پتا پوچھتے ہیں کہ دعوت نامہ بھیجنا ہے۔ میں انہیں سختی سے منع کر دیتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ وٹس ایپ پر جگہ‘ تاریخ اور وقت بتا دیجیے۔ مقصد اطلاع بھیجنا یا اطلاع وصول کرنا ہے! امید کرنی چاہیے کہ جس طرح سوشل میڈیا نے عید کارڈ کا رواج ختم کر دیا ہے‘ شادیوں کے دعوتی کارڈ چھپوانے کا سلسلہ بھی جلد ہی اپنے انجام کو پہنچے گا!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">مگر مسئلہ تب پیدا ہؤا جب کارڈ کو پڑھا! یہ انگریزی زبان میں تھا! کارڈ بھیجنے والے قریبی عزیز تھے۔ جب بھی ملتے‘ شستہ اور رواں اُردو میں بات کرتے! مجھے یقین ہے کہ انہوں نے انگریزی میں لکھا ہوا یہ کارڈ جس جس کو بھی بھیجا‘ اس سے بات انگریزی میں کبھی نہ کی ہو گی! اگر شادی کی اطلاع فون پر دیتے تو اُردو میں اطلاع دیتے! تو پھر انہوں نے کارڈ انگریزی میں کیوں لکھوایا؟ جن صاحب کی بات کر رہا ہوں ان سے تو نہیں پوچھ سکتا کہ خاندانی حساسیت اور نزاکتوں کا معاملہ ہے! مگر اکثر احباب سے پوچھتا ہوں! دو جواب ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ بچوں کا اصرار تھا کہ کارڈ انگریزی میں چھپیں! کوئی پوچھے کہ بچے آپ کے اپنے نہیں؟ آپ نے ان کی کیسی تربیت کی کہ وہ شادی کے دعوتی کارڈ بھی اُردو میں چھپوانا نہیں پسند کرتے؟ شرم کا مقام تو آپ کے لیے ہے! دوسرا جواب یہ ہوتا ہے کہ '' صاحب ! کیا کریں! رواج ہی یہی ہے !‘‘ اب کون کہے کہ خدا نے تو آپ کو آزاد پیدا کیا تھا! رواج نے آپ کے پاؤں میں زنجیر اور آپ کی ناک میں غلامی کی نکیل کب ڈالی؟ افسوس ہے آپ کی غلامانہ بے بسی اور بے کسی پر ! اور رحم آتا ہے آپ کی ابلہی اور سبک مغزی پر!!!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">آپ اگر یہ شادی لندن یا نیویارک میں کر رہے ہیں اور متوقع مہمانوں میں انگریز یا امریکی شامل ہیں تو کارڈ انگریزی میں چھپوانے کی منطق سمجھ میں آتی ہے مگر تقریب آپ پاکستان میں کر رہے ہیں۔تقریب کے دوران آپ انگریزی نہیں بولیں گے! شادی ہال والوں سے بھی انگریزی میں بات نہیں کی مگر کارڈ انگریزی میں !! واہ! جناب ! واہ!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">یہ احساسِ کمتری کب ہماری جان چھوڑے گا؟ حکومت سے شکوہ ہے کہ اُردو نافذ نہیں کرتی ! سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے دائرۂ کار میں اردو نافذ کی ہے؟ کیا ہم شادی کے دعوتی کارڈ اُردو میں چھپوا رہے ہیں؟ کیا ہم چَیک اُردو میں لکھتے ہیں؟ کیا ہم پارسل پر اپنا اور دوسرے کا پتا اُردو میں لکھتے ہیں؟ کیا ہمارے گھر اور دفتر کے باہر ہمارا نام اُردو میں لکھا ہے؟ کیا ہماری دکان کے اوپر لگا ہوا بورڈ اُردو میں ہے؟ کیا ہم اپنا بزنس</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">( visiting ) </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">کارڈ اُردو میں چھپواتے ہیں؟ اگر انگریزی میں ہے تو ساتھ اُردو میں کیوں نہیں؟ کیا ہماری دکان‘ یا کاروبار کی رسید‘ اُردو میں چھپی ہوئی ہے؟ کیا ہم سوشل میڈیا پر اُردو کو ذریعہ اظہار بنائے ہوئے ہیں؟ ہماری تو یہ حالت ہے کہ اُردو کو انگریزی حروف تہجی میں لکھتے ہیں اور پھر فخر سے اسے رومن اُردو کا نام دیتے ہیں! ڈوب مرنے کا مقام ہے! شلوار قمیض پر نکٹائی لگانے والی بات ہے! اُردو کی بورڈ عام ہے۔ یہ فقط دماغ کی کج روی ہے جو اُردو کو انگریزی حروف میں لکھوا رہی ہے! اُن بزرجمہروں پر تو حیرت کے ساتھ ساتھ رحم بھی آتا ہے جو کالم کے نیچے کمنٹ میں کالم نگاروں کو گالی بھی رومن اُردو میں دیتے ہیں اور تہمت بھی رومن اُردو میں! یعنی بُرا کام کرنا بھی ہے اور کرنا بھی بُرے انداز میں ہے! اگر آپ اُردو کی بورڈ استعمال کرنا جانتے نہیں تو یا تو آپ نالائق‘ غبی اور نا اہل ہیں یا آپ محض سبزی ہیں! ایسی سبزی جو سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">ہمارے ادارے اردو سے کیوں شرماتے ہیں؟ پی ٹی سی ایل کا ادارہ فون کا بل اُردو میں کیوں نہیں جاری کرتا؟ بجلی اور گیس کے بل انگریزی میں جاری کرنے کی کیا منطق ہے؟ سٹیٹ بینک‘ کمر شل بینکوں کو کیوں نہیں ہدایت جاری کر رہا کہ چیک بُک اُردو میں چھپوائیں؟ ریلوے اور ہوائی جہازوں کے ٹکٹ اُردو میں کیوں نہیں ہیں؟ یہاں بھاری اکثریت اُردو بھی نہیں پڑھ سکتی! آپ انگریزی کے گھوڑے سے اُترنے کا نام نہیں لے رہے!! کیوں؟ نرم ترین الفاظ میں بھی اسے بے حسی ہی کہا جا سکتا ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">اور یہ دلیل کتنی بودی ہے کہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے! اب انگریزی پڑھے بغیر گزارہ نہیں! ہم دنیا سے کٹ جائیں گے! چلیے ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ انگریزی واقعی بین الاقوامی زبان ہے! انگریزی پڑھے اور جانے بغیر گزارہ نہیں۔ مگر پاکستان کے اندر انگریزی کیوں لازم ہے؟ آپ امام دین کو انگریزی میں بِل کیوں بھیج رہے ہیں؟ آپ اگر بینکار ہیں تو آپ کے گاہکوں کی اکثریت انگریزی سے ناآشنا ہے۔ آپ چیک بُک اور دیگر کئی اقسام کے فارم انگریزی میں چھاپ کر کیوں ان کے سر پر تھوپ رہے ہیں؟ یہ سب کام وہ ہیں جن کے لیے حکومت کی منظوری لازم نہیں! اگر ہم خود اپنے اپنے دائرے میں اُردو کے ساتھ سوتیلا سلوک کر رہے ہیں تو حکومت سے شکوہ کیسے کر سکتے ہیں؟</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">اس پرانی تقریر کو بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں اور زندہ قومیں اپنی زبان ہی کو ذریعہ اظہار بناتی ہیں! بھائی! مسئلہ ضرورت کا ہے اور کامن سینس کا ! ایک شخص انگریزی پڑھ ہی نہیں سکتا ‘ آپ اسے وہ دستاویز‘ یا بِل‘ انگریزی میں مہیا کر رہے ہیں جو اس کے لیے ضروری بھی ہے ! آپ کی اُس سے آخرکیا دشمنی ہے؟ میرے ننھیالی گاؤں کا ایک آدمی نوکری کرنے کسی شہر چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد واپس آیا تو '' لُون ‘‘ کو نمک کہنے لگا! یہ وہ زمانہ تھا جب گاؤں میں سکول تھا نہ اخبار نہ فون نہ ٹی وی ! ماں کے فرشتوں کو بھی ''نمک‘‘کا پتا نہ تھا۔ اس سادہ لوح عورت نے میرے نانا جان سے شکایت کہ کہ میرا پتر تو اپنی زبان ہی بھول گیا ہے! نانا جان نے اس '' نو دولتیے‘‘ کو کہا کہ بے وقوف شخص! تیس سال تم گا ؤں میں رہے ہو اور ایک سال شہر میں اور گاؤں کی زبان بھول گئے ہو! یہ نخرے بند کرو!! ہمارے بھی یہ سارے نخرے ہیں! سوچ سطحی! شان و شوکت جھوٹی ! احساس کمتری شدید !</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">اے ارضِ سیہ روز! کوئی اور ہی سورج!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">شاید کہ بدل جائیں یہ ایام ہمارے</font></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-12875549914922839592024-01-23T15:01:00.001+05:002024-01-23T15:01:22.712+05:00<div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">تلخ نوائی ………آپا زہرا</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4"><br></font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">تین دن قیام کرنے کے بعد‘ واپس آتے ہوئے‘ نوجوان ڈاکٹر سے الوداعی کلمات کہے تو ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہ بھی رونے لگا اور میں بھی!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">اُس کی والدہ‘ اُسے چھوڑ کر اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گئی تھیں! میں نے اُسے کہا کہ اب اُسے محتاط اور ہوشیار رہنا ہو گا کیونکہ جو حفاظتی حصار اس کے ارد گرد تھا‘ وہ اُٹھ گیا ہے اور یہ کہ اب </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">He is on his own</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">۔ روایت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نہ رہیں تو انہیں وارننگ دی گئی کہ اب ذرا سنبھل کر کہ معاملات پہلے جیسے نہیں! اب پشت پر ماں کی دعائیں نہیں رہیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">ماں باپ کی قدر جیتے جی کم ہی ہوتی ہے! اس لیے کہ ہمارے پاس اُس زندگی کا تصور نہیں ہوتا جو اُن کے بغیر ہو سکتی ہے۔ وہ ہماری زندگی کا‘ ہماری ذات کا‘ ہمارے وجود کا ‘ یا ہم ان کے وجود کا حصہ ہوتے ہیں! ہم انہیں </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">Taken for granted</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4"> لیتے ہیں! بالکل اسی طرح جیسے ہم ہاتھوں یا آنکھوں کے بغیر اپنی زندگی کا تصور نہیں کر سکتے! ہاتھوں کی معذوری یا آنکھوں کی بے نوری کا احساس اسی کو ہوتا ہے جس سے یہ چیزیں چھِن جائیں! ہم آئے دن فقیروں کی صدا سنتے ہیں ''آنکھوں والو! آنکھیں بڑی نعمت ہیں‘‘ مگر کبھی اس جملے کی گہرائی پر غور نہیں کرتے! کر بھی نہیں سکتے! یہ تو تجربے کا معاملہ ہے! آنکھوں‘ ہاتھوں اور دیگر اعضائے بدن کی طرح ماں باپ بھی نعمت ہیں مگر ہم ادراک نہیں کر سکتے! ماں نعمت کے علاوہ ایک معجزہ بھی ہے! غور کیجیے! ہم تو بنتے ہی ماں کے پیٹ میں ہیں! وہیں ڈھلتے ہیں! وہیں صورت پذیر ہوتے ہیں! کوئی کسی بے سہارا کو چند دن بھی اپنے گھر میں رکھے تو وہ تا دمِ مرگ اس کا احسان مند رہتا ہے! اور ماں ہمیں اپنے گھر میں نہیں‘ اپنے کمرے میں نہیں‘ اپنے اندر‘ اپنے وجود کے اندر رکھتی ہے! کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی پناہ دے سکتا ہے! فرض کیجیے یہ بات آپ زندگی میں پہلی بار سن رہے ہیں! تو کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں؟ اور چند دن نہیں‘ چند ہفتے نہیں‘ نو ماہ اپنے اندر رکھتی ہے! دنیا کا کوئی مرد اُن تکالیف کا احساس نہیں کر سکتا جن کا ماں ان نو ماہ کے دوران سامنا کرتی ہے!وہ اپنی خوراک‘ اپنے پانی‘ اپنے خون‘ اپنی توانائی‘ اپنی سانسوں کا ایک حصہ اس بے سہارا‘ انسان کو دیتی ہے جس کی پوری دنیا میں ماں کے پیٹ کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں! ماں کے چہرے پر داغ پڑ جاتے ہیں! اس کا حُسن مرجھا جاتا ہے! کبھی وہ قے کرتی ہے کبھی اسے غش پڑتا ہے! کبھی وہ کچھ کھا نہیں سکتی! اس تکلیف کا تو بیان بھی انسان کے بس کی بات نہیں! اس تکلیف کو خدا ہی بیان کر سکتا تھا! یہ جو فرمایا گیا ہے ''وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ یعنی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر پیٹ میں رکھا تو عجیب ہی جامع اظہار ہے! کمزوری پر کمزوری! ہر روز‘ ہر ہفتے‘ ہر ماہ بڑھتی ہوئی کمزوری! علامہ اسد نے ''وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ‘‘ کا ترجمہ </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">Strain upon strain </font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">کیا ہے! پھر جنم دینے کے بعد وہ اپنے خون کو دودھ بنا کر پلاتی ہے۔ فیضی کے اس شعر نے جو اس نے ماں کی وفات پر کہا تھا‘ مجھے مدتوں نڈھال رکھا :</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">خون کہ از مہرِ تُو شد شیر و بطفلی خوردم</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">باز خون گشتہ و از دیدہ برون می آید</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">تیری محبت سے جو خون دودھ بن گیا تھا اور میں نے بچپن میں پیا تھا‘ اب وہ دوبارہ خون بن کر میری آنکھوں سے باہر آرہا ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">اب یہ بے یار و مدد گار انسان ماں کے لیے ایک اور امتحان ہے! ہِل سکتا ہے نہ اُٹھ بیٹھ سکتا ہے! نہ بول ہی سکتا ہے! نہ بول و براز کا کوئی وقت مقرر ہے! ( اب تو ڈائپر آگئے ہیں! ہماری ماؤں نے‘ اور میری بیوی نے بھی‘ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر پوتڑے دھوئے تھے۔ یہ سہولت تو اب ہماری بیٹیوں اور بہوؤں کے دور میں آئی ہے!) جو ماں کے سامنے اکڑے‘ اُس تِیرہ بخت کو یاد کرنا چاہیے کہ وہ نو ماہ کس پوز اور کس پوزیشن میں کہاں پڑا رہا اور پیدائش کے بعد اس کی کیا حالت تھی!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">آپا زہرہ سے میرا تعلق تقریباً بیس برس قبل قائم ہوا جب انہوں نے اپنے ڈاکٹر فرزند کے لیے میری بڑی بیٹی کا رشتہ لیا! وہ ایک عام عورت نہ تھیں! انہیں دیکھ کر‘ اُن کے پاس بیٹھ کر اور ان سے معاملات طے کر کے معلوم ہوتا تھا کہ خاندانی بیبیاں کیسی ہوتی ہیں! اعوان تھیں! شخصیت میں رعب تھا اور دبدبہ! قوتِ فیصلہ میں کئی مردوں سے آگے تھیں! میں وہ منظر نہیں بھول سکتا جب تقریب کے اختتام پر رخصتی کا وقت آیا تو میری بیٹی کے سر اور کندھوں پر پہلے انہوں نے چادر ڈالی! کبھی ایسا نہ ہوا کہ ہم گئے ہوں اور آتے ہوئے ہمارے ڈرائیور کو انہوں نے اچھی خاصی رقم نہ دی ہو! نصف درجن ملازم مستقلاً ان کے ہاں تین وقت کا کھانا کھاتے تھے اور کھانا بھی ایسا جیسے مہمانوں کے لیے ہوتا ہے! بے پناہ مہمان نواز تھیں! ملاقاتی کو یا مہمان کو تحائف دے کر رخصت کرتی تھیں! دو تعزیتی فقرے کبھی نہیں بھولتے۔ دادی جان کی وفات ہوئی تو میرے علاقے کی ایک بزرگ خاتون( بریگیڈیر زرین خٹک کی والدہ ) نے مجھے روتا دیکھ کر کہا '' رو کیوں رہے ہو؟ تو کیا اب ہم مَریں بھی نہیں ؟‘‘ جب والد گرامی نے کُوچ کیا تو آپا زہرہ نے مجھے جتلایا ''محروم ہو گئے نا؟ ‘‘ آج بھی یہ فقرہ یاد آتا ہے تو چشمہ اُبل پڑتا ہے!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">مگر آپا زہرا کا اصل کام اور تھا! وہ بلند پایہ عالمہ تھیں! نہ صرف عالمہ بلکہ ایک لائق معلّمہ بھی! عالمہ فاضلہ ہونا اور بات ہے اور ساتھ معلّمہ ہونا یکسر مختلف! ساری زندگی قرآن کی تدریس کی! ہزاروں خواتین نے اکتسابِ فیض کیا! آپا کے بچے جہاں رہیں یا جہاں جائیں کوئی نہ کوئی خاتون انہیں ملتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس نے قرآن کے رموز و اسرار ان کی امی جان سے سیکھے یا کوئی مرد بتاتا ہے کہ اس کی ماں یا بہن یا بیوی ان کی شاگرد تھی! ایک وقت وہ بھی تھا جب آپا زہرہ پچپن( 55) سکول چلا رہی تھیں اور ہر سکول کا معائنہ اور نگرانی خود کرتی تھیں! کئی ٹرسٹ اُن کی نگرانی میں چل رہے تھے! غیر مسلم خاتون نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تو اُسے اپنے گھر میں گھر کا فرد بنا کر رکھا۔ پھر شادی کی اور بہت کچھ دے دلا کر رخصت کیا! جنازے میں ان کی شاگرد خواتین کے شوہروں اور بیٹوں کا اژدہام تھا! مٹی ڈالنے کے بعد ‘ قبر پر‘ عموماً پیشہ ور حفاظ سے تلاوت کرائی جاتی ہے۔ آپا زہرا کے فرزندوں نے‘ جو دنیاوی اعتبار سے اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں اور فائز رہے ہیں‘ خود تلاوت کی ! انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا کیونکہ وہ آپا زہرا کے بیٹے تھے۔ مرحومہ نے بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلائی! علم و ادب اس گھر کا سب سے بڑا اثاثہ تھا۔ ان کے مرحوم شوہر‘ عبد الوحید خان ،جو نسلاً یوپی کے روہیلہ پٹھانوں میں سے تھے‘ اپنے وقت کے سب سے بڑے روزنامے ''کوہستان‘‘ کے چیف ایڈیٹر تھے اور کئی کتابوں کے مصنف-!</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">مرنا تو سب نے ہے۔</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">آخر سب اپنی اپنی سنا کر ہوئے خموش</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">تھی داستاں طویل تو کیا‘ مختصر تو کیا</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">مگر جس طرح انسان اور انسان میں فرق ہے اسی طرح مرنے اور مرنے میں بھی فرق ہے! بعض کی موت سے لوگ سکون کا سانس لیتے ہیں اور خس کم جہاں پاک کا نعرہ لگاتے ہیں۔ بعض مرتے ہیں تو لا تعداد لوگ ان کی موت کو اپنا ذاتی نقصان سمجھتے ہیں! معلوم نہیں کس کا ہے مگر قطعہ بے مثال ہے:</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">یاد داری کہ وقتِ زادنِ تو / ہمہ خندان بُدند و تو گریان</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">آنچناں زی کہ وقت مُردنِ توُ/ ہمہ گریاں بوند و تو خندان</font></div><div style="text-align: right;"><font face="Helvetica" size="4">کالم کا دامن تمام ہوا۔ ترجمہ پھر کبھی!</font></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-90627551083678417742024-01-18T20:14:00.001+05:002024-01-18T20:14:41.651+05:00ناموں کی فہرست<h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><br></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">میں جب اُٹھا ہوں تو زور کا چکر آیا اور گر پڑا! اپنے آپ کو سنبھال کر دوبارہ اُٹھا۔ سب لوگ ایک طرف کو رواں تھے۔ میں نے بھی اسی جانب چلنا شروع کر دیا۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">گرمی تھی اور بلا کی گرمی! ناقابلِ بیان حد تک! دور دور تک سایہ کہیں نہیں تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ سورج کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ لوگ چلتے جا رہے تھے۔ گروہوں کے گروہ! جماعتوں کی جماعتیں! طائفوں کے طائفے! قطاروں کی قطاریں‘ ان میں سفید فام بھی تھے‘ سیاہ رنگی بھی!! زرد رنگ والے بھی! گندمی رنگت والے بھی! سانولے سلونے بھی! طویل قامت بھی! پستہ قد بھی! مرد بھی‘ عورتیں بھی! جوان بھی‘ بوڑھے بھی! ادھیڑ عمر بھی! سب چلتے جا رہے تھے! چلتے چلتے گر پڑتے تھے اور اُٹھ کر دوبارہ چلنے لگتے تھے۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ہم چلتے رہے۔ وقت کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ صبح ہے یا شام یا دوپہر! رات کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ لگتا تھا یہ کوئی اور ہی نظام ہے۔ ہمارے والا نظامِ شمسی نہیں! یہ بھی اچنبھے کی بات تھی کہ اَن گنت انسان کیسے سمائے ہوئے تھے! اتنے میں ایک کڑک کی آواز سنائی دی۔ ایسی خوفناک کہ دل دہل گئے۔ یہ ویسی ہی کڑک تھی جس نے پہلے سوتوں کو اُٹھا دیا تھا۔ اب کے سب بے ہوش ہو گئے! بے ہوشی کا یہ زمانہ نہیں معلوم برسوں پر مشتمل تھا یا صدیوں پر! رات دن تو تھے نہیں کہ ہفتوں مہینوں کی بات ہو۔ کوئی اور ہی تقویم تھی!! کوئی انوکھا ہی کیلنڈر تھا۔ اُٹھے تو اور ہی سماں تھا۔ اب سب اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔ کب تک کھڑے رہے؟ کوئی اندازہ نہ تھا۔ پھر ایک عجیب سلسلہ شروع ہوا! ایک عجیب سی مخلوق آتی! پر اس کے اتنے بڑے کہ میلوں‘ کوسوں تک پھیلے ہوئے! یہ مخلوق ایک ایک کرکے آتی اور ایک ایک انسان کو ساتھ لے جاتی! کتنے زمانے گزر گئے۔ یہ سلسلہ جاری رہا! اس ساتھ لے جانے والی عجیب و غریب مخلوق کا کوئی شمار تھا نہ انسانوں کا جنہیں یہ مخلوق ساتھ لے جارہی تھی! میں نے اندازہ لگایا کہ جلد یا بدیر‘ مجھے بھی لے جایا جائے گا! اب تجسس دل میں ہول ڈالنے لگا کہ کہاں لے جا رہے ہیں! کیوں لے جا رہے ہیں؟ آخر کیا سلسلہ ہے! یہ بھی نوٹ کیا کہ کچھ کو احترام اور نرمی سے لے جایا جا رہا تھا اور کچھ کو درشتی سے یوں جیسے ہانک رہے ہوں! نہ جانے کتنا وقت‘ کتنے قرن‘ کتنے ہزار سال‘ کتنے زمانے‘ کتنے جُگ‘ کتنا عرصہ‘ کتنی مدتیں‘ کتنے ادوار بیت گئے! یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہ بات بھی عجیب اور پُر اسرار تھی کہ جو جاتا‘ واپس نہ آتا۔ اس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ اس میدان میں قیام عارضی تھا۔ مستقل ٹھکانہ کہیں اور تھا!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">بالآخر پروں والی ایک مخلوق میرے قریب آئی۔ اس کی قربت کا عجب اثر تھا۔ پہلے مجھے سردی لگی! اتنی کہ ٹھٹھرنے لگا! پھر حرارت محسوس ہوئی جو بڑھتے بڑھتے اتنی زیادہ ہوئی کہ میں پسینے میں نہا گیا! اس کے چہرے پر انتہا درجہ کی سنجیدگی اور لاتعلقی تھی۔ اپنائیت اور نرمی کا کوئی نشان نہ تھا۔ اس نے اشارے سے مجھے چلنے کے لیے کہا اور جواب یا ردِ عمل کا انتظار کیے بغیر ایک طرف کو چل پڑا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا! ہر طرف حیرت انگیز مناظر تھے۔ کہیں کہیں کچھ لوگ سائے میں کھڑے تھے۔ ہمت کر کے پروں والی مخلوق سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ اس نے بتایا یہ وہ اہلِ ایمان ہیں جو دوسرے انسانوں کے حقوق کا خیال رکھتے تھے۔ آگے گئے تو کچھ لوگ سجدے میں پڑے تھے۔ پوچھا تو پروں والی مخلوق نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ کے مجرم ہیں۔ یہ معافی کے طلبگار ہو رہے ہیں! امید تو ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کے معاملات معاف فرما دیں گے۔ اور آگے گئے تو کڑکتی دھوپ میں ایک جمِ غفیر پریشان کھڑا تھا۔ پیاس اور گرمی کی شدت سے سب کا بُرا حال تھا۔ پروں والی مخلوق نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن سے حقوق العباد میں گناہ سرزد ہوئے! میں نے بہت منطقی اور اپنی طرف سے دانشمندانہ سوال پوچھا کہ اگر ان لوگوں سے حقوق العباد میں کوتاہیاں ہوئی ہیں تو یہ بھی ان لوگوں کی طرح اللہ تعالی کے سامنے گڑ گڑاتے کیوں نہیں جو حقوق اللہ کے مجرم ہیں اور سجدہ کناں ہیں؟ اس پر پروں والی مخلوق پہلی بار مسکرائی اور کہا کہ حقوق العباد کا معاملہ مختلف ہے۔ جس انسان کا حق تلف کیا گیا‘ صرف وہی مجرم کو معاف کر سکتا ہے! یہ تمام لوگ ان افراد کی تلاش میں ہیں جن کے ساتھ انہوں نے زیادتیاں کی ہیں۔ جب تک وہ معاف نہیں کرتے‘ ان کی جان نہیں چھوٹے گی! پھر اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تمہاری جگہ بھی اسی گروہ میں ہے! مگر پہلے تم ان افراد سے ملو گے جنہوں نے تمہارے ساتھ ناانصافیاں کیں! یہاں سب کے ساتھ انصاف ہو گا۔ مظلوموں کے ساتھ بھی اور ظالموں کے ساتھ بھی! ہر ظالم مظلوم بھی ہے اور ہر مظلوم ظالم بھی! اور یہاں ہر انسان کی ہر حیثیت کو جانچا جا ئے گا! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ہم دونوں‘ میں اور پروں والی مخلوق‘ ابھی وہیں کھڑے ہی تھے کہ ایک آدمی ہماری طرف بڑھا! وہ پریشان حال دکھائی دے رہا تھا۔ پسینہ سر سے پیروں تک بہہ رہا تھا۔ چہرا یوں لگ رہا تھا جیسے ٹوٹا ہوا ہو! عجیب سا! ڈراؤنا سا! میرا نام لے کر پوچھا کہ کیا یہ تم ہی ہو! میں نے اثبات میں جواب دیا تو گڑ گڑانے لگا کہ مجھے معاف کر دو! میں نے کہا کہ بھئی! میں تو تمہیں جانتا ہی نہیں اور پھر مجھے تو یہاں اپنی پڑی ہے! نہ جانے میرے ساتھ کیا ہو گا! اس نے میری قمیض کا دامن پکڑ لیا اور کہنے لگا: تم مجھے نہیں جانتے مگر میں تمہیں جانتا ہوں! میں تمہیں لفافہ کالم نگار کہتا تھا۔ یہ بھی الزام تم پر لگایا کہ تم مقتدر حلقوں کے لیے لکھتے ہو! تم نے تحریکِ انصاف پر تنقید کی تو میں نے تمہیں مسلم لیگ کا پروردہ کہا! تم نے مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے خلاف لکھا تو میں نے الزام لگایا کہ تم انصافیوں کے پے رول پر ہو۔ تم نے مجھے تنبیہ کی تھی کہ روزِ حشر ثبوت دینا پڑے گا! اس وقت میں یہ سُن کر ہنسا تھا! مگر آج پروں والی مخلوق مجھ سے ان الزامات کا ثبوت مانگ رہی ہے جو میں تم پر لگاتا رہا! خدا کے لیے مجھے معاف کر دو ورنہ مجھے شدید سزا دی جائے گی! مجھے اس پر رحم آیا اور اسے کہا: جاؤ! میں تمہیں معاف کرتا ہوں! وہ خوش خوش جدھر سے آیا تھا‘ ادھر واپس چلا گیا! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">میں پروں والی مخلوق کی طرف خوف زدہ ہو کر دیکھ رہا تھا کہ اب یہ میرے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا! اچانک کسی نے مجھے جھنجھوڑا! اٹھیے آج ڈرائیور نہیں آیا! جا کر سبزی لائیے کہ پکانے کے لیے گھر میں کچھ بھی نہیں! یہ میری بیوی تھی! میں نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں مگر میں سخت خوفزدہ تھا۔ بیوی نے رضائی ہٹائی تو مجھے دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ ''آپ ٹھیک تو ہیں؟ رنگت ہلدی کی طرح زرد ہو رہی ہے! اس شدید سردی میں بھی آپ پسینے میں نہا رہے ہیں! کیا بات ہے؟ آپ کی طبیعت خراب لگ رہی ہے‘‘۔ مجھے بیوی کی آواز بہت دور سے آتی سنائی دی۔ اس کی باتوں کا جواب دیے بغیر میں نے کاغذ اور قلم لیا اور ان افراد کے ناموں کی فہرست بنانے لگ گیا جن کے ساتھ میں نے زیادتیاں اور ناانصافیاں کی تھیں!</font></div></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-19404155339965573212024-01-16T09:49:00.001+05:002024-01-16T09:49:31.920+05:00<h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><span style="font-size: large;">افسوس ! صد افسوس! فور سٹار جنرل ‘ پرویز مشرف مرحوم کے دفاع کے لیے کوئی نہ آگے بڑھا! </span></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><div style="text-align: right;"><font size="4">وہ سب جن کے لیے جنرل صاحب نے عاقبت کو داؤ پر لگا دیا‘ غائب تھے! ایک صاحب راولپنڈی میں '' سیّد پرویز مشرف‘‘ کا نام بہت ہی عقیدت سے لیتے تھے‘ کہیں دکھائی نہ دیے! پرویز الٰہی صاحب ‘ جن کا دعویٰ تھا کہ جنرل صاحب کو دس بار وردی میں '' منتخب‘‘ کرائیں گے‘ جیل میں تھے مگر کسی کو مامور تو کر سکتے تھے! انہوں نے بھی ایسا نہ کیا! کیا طنطنہ تھا جنرل صاحب کا ! اکبر بگتی کو مروا دیا! کسی نے چوں تک نہ کی! کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی تو اسلام آباد میں اس پر فخر کیا اور اسے اپنی طاقت کے طور پر پیش کیا! کتنوں ہی کے حقوق تلف کیے اور دوسروں کو دے دیے!کسی جرنیل کو پوسٹل کے محکمے کا سربراہ بنا دیا کسی کو سول سروس کے تربیتی ادارے کا سربراہ! مکمل شہنشاہ تھے! کوئی نہ تھا جو اُن کے کسی حکم کی تعمیل میں ایک دو دن کی تاخیر بھی کر سکتا! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">کم از کم شوکت عزیز کو ان کے دفاع میں ضرور عدالت میں آنا چاہیے تھا!مرحوم نے شوکت عزیز کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا ! عین ممکن ہے کہ شوکت عزیز بیرونی طاقتوں کا گماشتہ ہو مگر اسے وزیر خزانہ‘ اور بعد میں وزیراعظم تو جنرل صاحب ہی نے بنایا تھا۔اقتدار کے سنگھاسن سے اترتے ہی شوکت عزیز نے قیمتی ‘ سرکاری ‘ تحائف کی بھاری گٹھڑی سر پر رکھی اور ملک سے فرار ہو گیا۔اس کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں۔ چاہتا تو اپنے محسن کے لیے ایک بلند پایہ وکیل کر سکتا تھا۔ اُن کے احسانات کا بدلہ‘ سارا نہیں تو تھوڑا سا چکا سکتا تھا مگر:</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">اے رُو سیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">المیے کی انتہا یہ ہے کہ جنرل مرحوم کی بیگم اور اُن کے بچوں نے بھی ان کا مقدمہ نہ لڑا۔ غالباً وہ بدستور پاکستان سے باہر ہیں! مرحوم کے دفاع کے لیے انہیں واپس آنے کی ضرورت بھی نہ تھی۔پاکستان میں ایک سے ایک اچھا وکیل موجود ہے‘ وہ باہر بیٹھ کر بھی ایک لائق وکیل کی خدمات حاصل کر سکتے تھے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ جنرل مرحوم کے دوستوں‘ نام نہاد جان نثاروں‘ احسان مندوں‘ ان کے ماتحت کام کرنے والے وزیروں‘ جرنیلوں اور سول افسروں سے کیا گلہ‘ خود اُن کے فرزند‘ اُن کی دختر نیک اختر اور ان کی رفیقۂ زندگی نے انہیں عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ رمق بھر پروا بھی نہ کی! کسی نے بھی ان کا دفاع نہ کیا۔ عدالت نے سزائے موت بر قرار رکھی ! جی ہاں! بعد از مرگ سزائے موت !! فاعتبروا یا اولی الابصار!! بقول منیر نیازی۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">یہ افسوسناک واقعہ ہمیں تین پہلوئوں پر غور و فکر کی دعوت دے رہا ہے۔ پہلا پہلو: غور کیجیے۔ یہ تو دنیا کی عدالت تھی۔ جن لوگوں پر جنرل مرحوم نے احسانات کیے تھے ان کی بھاری اکثریت مزے کی زندگی گزار رہی ہے۔وہ بہت آسانی سے ‘ اپنے آرام و راحت کو برقرار رکھ کر بھی جنرل صاحب کی مدد کو آسکتے تھے اور ان کی روح کو خوش کر سکتے تھے مگر کسی نے تنکا تک نہ توڑا۔ سب نے منہ موڑ لیا۔ مکمل اغماض برتا! اگر یہاں یہ حالت ہے تو وہاں‘ سب سے بڑی عدالت میں کیا ہو گا؟ اُس بڑی عدالت کے نقطہ نظر سے جنرل صاحب کے بجائے ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے۔ وہ جو بار بار بتا یا گیا ہے کہ وہاں بھائی بہن کام آئیں گے نہ اولاد حتیٰ کہ رفیقۂ حیات اور رفیقِ حیات بھی مدد کو نہ آئیں گے تو اس کی چھوٹی سی جھلک ہم نے دنیا میں اپنے سامنے ‘ جنرل مرحوم کے حوالے سے دیکھ ہی لی ہے۔ اس کے بعد قطمیر برابر شک کی بھی گنجائش نہیں رہنی چاہیے کہ جن پر دنیا میں تکیہ ہوتا ہے اور جن کے مفاد کے لیے ہم دوسروں پر ظلم کرتے ہیں وہ دنیا میں کام نہیں آتے تو اُس دن کیسے کام آئیں گے! وہ دن جو بہت ہی سخت دن ہو گا۔جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔جس دن سورج اور چاند کو ملا دیا جائے گا اور جس دن زمین کسی اور زمین سے تبدیل کر دی جائے گی۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">دوسرا پہلو غور کرنے کا یہ ہے کہ فرض کیجیے اگر بعد از مرگ کوئی مقدمہ کسی آمر کے بجائے کسی دانشور‘ کسی اہلِ قلم یا انسانوں کے کسی محسن پر چلایا گیا ہو تا تو کیا اسی طرح لوگ اسے بے یار و مدد گار‘ تنہا چھوڑ دیتے؟ فرض کیجیے‘ خدا نخواستہ آج ایدھی مرحوم کے خلاف مقدمہ چلتا ہے یا حکیم سعید صاحب یا فیض صاحب یا احمد ندیم قاسمی یا صادقین کے خلاف عدالتی کارروائی ہوتی ہے تو کیا تب بھی لوگ ان کے دفاع کے لیے نہیں اٹھیں گے؟ نہیں! اٹھیں گے اور اس طرح اٹھیں گے کہ ان کی گنتی مشکل ہو جائے گی! آمر یا حکمران اپنی جسمانی موت کے ساتھ مکمل طور پر مر جاتا ہے مگر ایک دانشور‘ ایک اہلِ قلم‘ ایک عوام کا خدمت گزار مر کر بھی زندہ رہتا ہے! آج اگر بادشاہوں کے نام زندہ ہیں تو اس لیے کہ سعدی‘ نظامی‘ امیر خسرو اور غالب نے اپنی شاعری میں ان بادشاہوں کے ناموں کا ذکر کیا ہے! ورنہ انہیں کون جانتا!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">تیسرا پہلو اہم بھی ہے اور حساس بھی ! کیا آئین شکنی کا مجرم صرف جنرل پرویز مشرف تھا؟ کیا وہ پہلا آمر ہے جس نے اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھا؟ کیا وہ پہلا غارت گر تھا جس نے جمہوریت کی بساط لپیٹی اور ہمیں برسوں نہیں دہائیوں پیچھے دھکیل دیا؟ نہیں ! جناب نہیں ! نہیں مائی لارڈ ! نہیں! انصاف کا تقاضا ابھی پورا نہیں ہوا! بعد از مرگ مقدمے کچھ اور لوگوں پر بھی چلنے چاہئیں! اور چلانے ہوں گے !! آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں چلیں گے اور ضرور چلیں گے! یہ پہلی بعد از مرگ سزائے موت ہے مگر یہ آخری بعد از مرگ سزائے موت نہیں! تاریخ کا پہیہ بہت ظالم ہے! جس نے پہلا مارشل لا ء لگایا اس پر بھی مقدمہ چلانا ہو گا! جس نے جس نے 1970ء کا انتخاب جیتنے والوں کو حکومت نہیں دی تھی اور اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ( بلکہ کینسل) کر دیا تھا اس پر بھی مقدمہ چلانا ہو گا! جس نے تیسرا مارشل لاء لگایا اُس پر بھی اور جس نے چوتھا لگایا اس پر بھی !! آج نہیں تو کل یہ مقدمے ضرور چلیں گے ! تاریخی عمل اور تاریخی ارتقا کا رُخ پیچھے کی طرف نہیں کیا جا سکتا! جو آج ہوا ہے اس کا ماضی میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا اور جو آج محال لگ رہا ہے وہ مستقبل میں ہو کر رہے گا ! کوئی ٹینک‘ کوئی بندوق‘ کوئی توپ‘ کوئی میزائل تاریخ کے پروسیس کو نہیں روک سکتا!! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">اور جنہوں نے ان آمروں کا ساتھ دے کر ان کے ہاتھ مضبوط کیے ‘ کیا انہیں چھوڑ دیا جائے؟ جن نام نہاد سیاستدانوں نے اور صحافیوں نے ان آمروں کے جوتے صاف کیے‘ وردیاں استری کیں ‘ کُھرکُو بن کر ان کی پیٹھوں پر کھجلی کرتے رہے ‘ ان کے سامنے لیٹ گئے اور سیڑھی کی طرح استعمال ہوئے‘ ان پر بھی مقدمے چلانے ہوں گے ! کس نے مشورہ دیا تھا کہ امیر المومنین کا لقب اختیار کیجیے؟ کون نام نہاد شوریٰ میں بیٹھ کر آمر کو مضبوط کرتے رہے؟ کون تھے جو غیر جماعتی انتخابات کے مشورے دیتے رہے ! کس کس نے وزارتیں قبول کیں؟ کون قصیدے لکھتے رہے ؟ کون اپنے نام نہاد اداروں اور انسٹیٹیوٹس کے لیے آمروں سے گرانٹیں وصول کر کے ان کے حق میں رطب اللسان رہے؟ کون مارشل لاء کی اے ٹیم ‘ بی ٹیم اور سی ٹیم بنے رہے! یہ سب مقدمے چلانے ہوں گے ! اس دودھ اور پانی نے الگ الگ ہونا ہی ہے !</font></div><p></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-75100497060937169822024-01-16T00:51:00.001+05:002024-01-16T00:51:17.674+05:00سول ایوی ایشن اتھارٹی… ایک جھلک <h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><span style="font-size: large;">آپ کسی عزیز یا مہمان کو رخصت کرنے اسلام آباد ایئر پورٹ جائیں تو مسافروں اور انہیں رخصت کرنے والوں کے ہجوم میں ایک شخص نظر آئے گا جو اپنے سامنے میز رکھے کرسی پر بیٹھا ہو گا۔اس کی میز کے آگے لکھا ہے کہ چار سو یا پانچ سو روپے فیس ادا کر کے آپ پورٹر ( قلی) لے سکتے ہیں۔ اگر سامان زیادہ ہو تو مسافر‘ خاص طور پر خواتین مسافروں کو مشکل پیش آتی ہے۔ پورٹر کی مدد سے مراحل ذرا سہولت سے طے ہو جاتے ہیں!</span></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", alinastaliq, jameel, Roboto, sans-serif; -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4">گزشتہ اڑھائی تین ماہ کے دوران‘ مہمانوں اور اعزہ کو رخصت کرنے کے لیے مجھے تقریباً دس بار ایئر پورٹ جانا پڑا۔ میز کرسی لگا کر بیٹھنے والے اہلکار سے ہر بار پورٹر کا تقاضا کیا۔ ہر بار اس کا ایک ہی جواب تھا کہ پورٹر دستیاب نہیں ہے۔ایک دو بار یہ بھی بتایا گیا کہ پورٹر ٹرالیوں کی قطار کو اندر لے جانے میں مصروف ہیں! یہ اور بات کہ ڈیپارچر والی سائڈ پر خالی ٹرالی حاصل کرنا بھی جوئے شِیر لانے کے برابر ہے۔ یہ سارے معاملات جس ادارے کے سپرد ہیں اس کا نام '' سول ایوی ایشن اتھارٹی‘‘ ہے ! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">گزشتہ ہفتے ایک بار پھر یہی تجربہ ہوا تو سوچا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی والوں سے بات کر کے پتہ چلا یا جائے کہ اس تکلیف دِہ صورت حال کا سبب کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے۔ چنانچہ ایئر پورٹ کے ٹیلی فون ایکسچینج پر فون کیا۔ایک خاتون نے فون اٹھایا۔پوچھا ایئر پورٹ پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کا بڑا افسر کون ہوتا ہے؟ اس نے بتایا ''ڈیوٹی ٹرمینل مینجر‘‘ ( ڈی ٹی ایم ) ہوتا ہے۔ کہا‘ان سے بات کرائیے! کچھ دیر ایکسچینج والی خاتون جیسے زیر زمین غائب ہو گئیں۔ جب ابھریں تو خبر لائیں کہ ڈی ٹی ایم موجود نہیں! ان کی خدمت میں عرض کیا کہ کسی اور ذمہ دار افسر سے بات کرائیے۔ خاتون نے ایک صاحب کو لائن پر لیا۔ ان کا نام بھی بتایا اور ان کے عہدے کا نام بھی ! مگر یہاں ان کا نام اور ان کے عہدے کا نام نہیں لکھا جا رہا اس لیے کہ اعلیٰ حکام نظام کو درست کرنے کے بجائے اس افسر کے پیچھے پڑ جائیں گے کہ پاکستان میں یہی ہوتا ہے اور یہی ہوتا آیا ہے! بہر طور اس ذمہ دار افسر سے جو مکالمہ ہوا‘ آپ اس سے لطف اندوز ہوں :</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭ جناب ! '' روانگی‘‘ والی سائڈ پر پورٹر کبھی نہیں ملتا </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭ ایسی بات نہیں ہے۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭ جناب ! ایسی ہی بات ہے۔ میں کئی بار گیا ہوں۔ پورٹر دلانے والے ڈیسک سے بھی پورٹر کبھی نہیں ملا۔ وہ ہر بات معذرت کر دیتے ہیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭ کس نے معذرت کی ؟ اس کا نام بتائیے ! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭نام نہیں پوچھا۔ نام لے کر آپ کریں گے بھی کیا۔ آپ اپنا سسٹم ٹھیک کیجیے۔ مسافروں کو پورٹر دستیاب ہونے چاہئیں! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭پورٹر موجود ہوتے ہیں۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭ میں غلط نہیں کہہ رہا۔ کئی بار تجربہ ہوا ہے۔ کبھی نہیں میسر ہوا۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭ہو سکتا ہے رش میں ایک آدھ بار ایسا ہو گیا ہو۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭ نہیں جناب! ایک آدھ بار نہیں! آٹھ دس بار ایسا ہوا ہے! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭ میں نے کہا نا کہ رش میں ایسا ہوا ہو گا۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭جناب! جب بھی فلائٹ جانے والی ہو گی‘ رش ہی ہو گا! رش ہی کی بات کر رہا ہوں! جب رش نہیں ہو گا تو فلائٹ بھی نہیں ہو گی اور پورٹر کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭ ایسی بات نہیں ہے۔ پورٹر موجود ہوتے ہیں۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭کیا کبھی رش کے دوران آپ نے خود آکر صورت حال کا معائنہ کیا ہے ؟ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭ میں آپ کو بتا رہا ہوں ! پورٹر وہاں ہوتے ہیں۔ </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭اگر ہوتے تو مجھے آپ کے نوٹس میں لانے کی اور شکایت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">٭ میں آپ کو بتا رہا ہوں۔ پورٹر موجود ہوتے ہیں۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">یہ ہے سرکاری اداروں کی کارکردگی کی ایک جھلک! اور عام شہری کی بات کی اہمیت! بجائے اس کے کہ حقیقت تسلیم کی جائے اور مسئلہ حل کیا جائے‘ شکایت کرنے والے کو جھٹلایا جاتا ہے۔ بیروزگاری ملک کے منہ کو آرہی ہے۔ پورٹر کم ہیں تو مزید بھرتی کرنے چاہئیں! مسافروں کو بھی سہولت ہو گی اور کچھ شہریوں کو روزگار بھی مل جائے گا۔ مگر آپ جب یہ تجویز دیں گے تو آگے سے بجٹ کا اور فنڈز کی کمی کا رونا رویا جائے گا۔ اپنی مراعات کی بات کوئی نہیں کرے گا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی جیسے ادارے سونے کی مرغی سے کم نہیں۔ اہلِ روابط ہی ان اداروں میں تعینات ہو سکتے ہیں۔ یہ ہری بھری‘ سر سبز و شاداب پُر کشش چراگاہیں ہیں! اعلیٰ افسران کی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیل سن کر دماغ گھوم جاتا ہے! ادارے کے اصحابِ قضا و قدر کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ مسافر ہوائی اڈوں پر کن حالات کا سامنا کر رہے ہیں!! دو متوازی لکیریں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ کبھی آپس میں نہیں ملتیں! ایک طرف ایئر کنڈیشنڈ دفاتر ہیں اور رہنے کے لیے محلات! بڑی بڑی گاڑیاں! مفت پٹرول! مفت علاج! نوکروں کی فوج ظفر موج! دوسری طرف ایئر پورٹوں پر دھکے کھانے والے مسافر! یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کبھی کوئی شکایت نہیں آئی! بھئی! شکایت کرے گا کون؟ اول تو اس ملک میں شکایت کرنے کا اور اپنا حق مانگنے کا رواج ہی نہیں! یہاں تو یہ سکھایا جاتا ہے کہ مٹی پاؤ! روٹی شوٹی کھاؤ اور چلتے بنو! شکایت کوئی کرنا بھی چاہے تو متعلقہ افسر یا اہلکار کا فون نمبر یا ای میل ایڈریس ہی نہیں ملتا! مل جائے تو شکایت کرنے کا انجام اوپر دیے ہوئے مکالمے میں آپ دیکھ چکے ہیں!</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">یہ صرف ایک ادارے کی بات نہیں! ہر محکمے میں‘ ہر ادارے میں‘ ہر دفتر میں یہی چلن عام ہے! سائل کو اپنے حضور بلایا جاتا ہے۔ حکومت جس ٹیلی فون کا بل عوام کے ٹیکسوں سے ادا کرتی ہے‘ اُس ٹیلی فون کو عوام کی سہولت کے لیے کم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ سائل حاضر ہو‘ عرضی دے اور پھر چکر لگاتا رہے! ایک بزرگ بتا رہے تھے کہ ان کی کچھ رقم '' قومی بچت‘‘ کے ادارے میں جمع تھی۔ ایک ملک کا ویزا لینا تھا اور ویزا لینے کے لیے بتانا تھا کہ قومی بچت کے مرکز میں وہ اتنی رقم کے مالک ہیں! انہوں نے قومی بچت کی متعلقہ برانچ میں فون کیا اور افسر انچارج سے کہا کہ ایک سٹیٹمنٹ ان کے وٹس ایپ پر بھیج دیں ! افسر نے فوراً کہا کہ درخواست لے کر آئیے! انہوں نے متعلقہ وزارت سے فون کرایا تو مطلوبہ سٹیٹمنٹ وٹس ایپ پر چند منٹوں ہی میں موصول ہو گئی۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4">ہمارے سرکاری محکموں کی بنیادی پالیسی یہ نہیں کہ عوام کو سہولت بہم پہنچانی ہے۔ غیر تحریری بنیادی پالیسی یہ ہے کہ اپنی اہمیت جتاؤ ! اپنی اہمیت جتانے کا بہترین نسخہ یہ ہے کہ لوگ حاضر ہوں! عرضی گزاریں! اس کے بعد چکر لگائیں! ترقی یافتہ دنیا میں انسانی رابطہ کم سے کم کر دیا گیا ہے۔ کام مشینوں پر ہو رہے ہیں۔ ای میل اور وٹس ایپ کو عوام کی راحت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ آپ ای میل پر‘ یا وٹس ایپ پر یا فون پر‘ متعلقہ اہلکار کو بتائیں کہ آپ اتنے بجے ایئر پورٹ پر پہنچیں گے۔ آپ کو پورٹر الاٹ کر دیا جائے اور اس کا فون نمبر دے دیا جائے۔ فیس آپ بینک میں آن لائن ٹرانسفر کر دیں اور رسید یعنی ثبوت‘ ادارے کو بھیج دیں۔ ایئر پورٹ پہنچ کر آپ فون کر کے پورٹر سے رابطہ کر لیں! دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں کام اسی طرح ہو رہے ہیں! مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ ! محنت ہم بہت کرتے ہیں مگر ذاتی فائدے کے لیے ! ملک‘ قوم اور عوام کے لیے محنت کرنے سے کیا حاصل ؟</font></div></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6273083051636343939.post-63803631789088452082024-01-11T20:32:00.001+05:002024-01-11T20:32:04.199+05:00محض اتفاقات؟<h1 class="column-title-single text-center" style="text-align: right; box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 0.5rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; padding: 1rem 0.2rem 0rem; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; border: medium !important;"><br></h1><div class="column-content" style="box-sizing: border-box; caret-color: rgb(33, 37, 41); color: rgb(33, 37, 41); -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); -webkit-text-size-adjust: 100%; line-height: 2 !important; text-align: justify !important;"><p class="text-justify" style="box-sizing: border-box; margin-top: 0px; margin-bottom: 1rem;"><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">یہ واقعات ایک دوست نے سنائے اور میں حیران ہوں کہ کتنا عجیب و غریب نظام ہے جو موجود ہے مگر نظر نہیں آتا۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">اس دوست نے بتایا کہ وہ ایک ایسے محکمے میں ملازمت کر رہا تھا جہاں طِبّی سہولتوں کا معقول بند و بست تھا۔ وہ ان سہولتوں کی بدولت اپنے والد کی طِبّی دیکھ بھال اچھی طرح کر لیتا تھا۔انہیں کئی تکالیف تھیں۔ آنکھوں کا معائنہ کرانا ہوتا تھا۔ پروسٹیٹ کی پیچیدگیاں۔ دل کے بھی مسائل تھے۔ خون وغیرہ کے ٹیسٹ بھی کرانے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی لیبارٹری سے ٹیکنیشن کو گھر بھی بلایا جا سکتا تھا کہ خون کے نمونے لے جائے۔ غرض دیکھ بھال کا اطمینان بخش انتظام تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اس کے والد اپنے دوسرے بیٹے کے پاس بیرونِ ملک چلے گئے۔ اُن کے جانے کے کچھ ماہ بعد اس کا تبادلہ ایک ایسے محکمے میں ہو گیا جہاں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس کے بیوی بچوں کو ہسپتال کی طویل قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا یا کسی پرائیویٹ کلینک کا رُخ کرنا پڑتا۔ اس نے کوشش شروع کر دی کہ اس کا تبادلہ کہیں اور ہو جائے۔مگر معلوم ہوا کہ یہاں سے نکلنا انتہائی مشکل کام ہے۔تگڑی‘ اونچی نسل کی سفارش درکار تھی جو اُس کے پاس نہیں تھی۔ بہت کوشش کی مگر کام نہ بنا۔ تھک ہار کر بیٹھ گیا۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">سال گزر گیا۔ ایک دن اس کے بھائی کا فون آیا کہ والد صاحب واپس آنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ نہ جانے کیوں اُسے یقین ہو گیا کہ اب اس کا تبادلہ یہاں سے ہو جائے گا اور ایسی جگہ ہو گا جہاں میڈیکل سہولتیں موجود ہوں گی! وہ کہتا ہے کہ اس اطمینان کا کوئی ظاہری سبب نہ تھا۔ منطق تھی نہ حالات کی تبدیلی مگر یقین اسے پختہ تھا۔ ایک دو بار دماغ نے سمجھانے کی کوشش بھی کہ اس اطمینان کا کوئی جواز نہیں۔ خواب نہ دیکھو! تم نے بارہا کوشش کی۔ کام نہ بنا۔ اب تمہارا دل کس برتے پر کہتا ہے کہ تم یہاں سے نکلنے والے ہو! مگر دل نے دماغ کی منطق اور دماغ کی سائنس کو بالکل ہی در خورِ اعتنا نہ گردانا! اطمینان میں کمی نہ آئی! دوسری طرف اس کے والد کی واپسی کی تاریخ نزدیک سے نزدیک تر ہو رہی تھی۔ پھر ایک دن اچانک اسے ایک محکمے کے بارے میں پتا چلا کہ ایک صاحب ترقی پا کر کہیں چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ خالی ہے۔ ان صاحب کی ترقی کی خبر حیرت انگیز تھی کیونکہ بظاہر ان کی ترقی کے امکانات نحیف تھے۔ اس سے میرے دوست کا یقین پختہ تر ہو گیا کہ اس کا کام ہونے والا ہے۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ مجاز حاکم کے سامنے پیش ہوا اور عرض گزاری۔ یہ وہی حاکم تھا جو پہلے بات سننا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ اس بار اس کا انداز بدلا ہوا تھا۔ اب وہ پتھر نہیں‘ موم تھا۔ بات بھی سُنی اور ہامی بھی بھری کہ وہ اس کا نام منظوری کے لیے اوپر بھیجے گا۔ نام بھیجا گیا۔ مقابلہ سخت تھا۔ سفارش نہ ہونے کے برابر تھی۔ مخالف بھی زور لگا رہے تھے۔ اس کے والد کی واپسی سے چند روز پہلے اس کا تبادلہ کر دیا گیا! جب تک والد زندہ رہے‘ ان کی طِبّی ضروریات بہ طریقِ احسن پوری ہوتی رہیں! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">یہ وا قعہ سُن کر میں حیران ہوا مگر میرے بھی دماغ نے دل پر اعتراض کر دیا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یہ محض اتفاق بھی تو ہو سکتا ہے‘! یہ تمہاری توجیہ بھی تو ہو سکتی ہے۔ اگر تمہارے والد نہ واپس آتے اور ابھی بیرونِ ملک ہی ہوتے تو ممکن ہے کہ تمہارا تبادلہ پھر بھی ہو جاتا!اُس نے میری بات سُنی اور جواب دیا کہ اس کے ساتھ ایک اور واقعہ بھی پیش آیا۔ کیا وہ بھی محض اتفاق تھا۔ میں نے پوچھا وہ کیا واقعہ ہے؟ اُس نے کہا کہ ایک بار وہ ملک سے باہر گیا ہوا تھا۔ موسمِ گرما تھا۔ بیوی سے فون پر بات ہورہی تھی۔ کہنے لگی: بزرگوں کے ( یعنی میرے دوست کے والد کے ) کمرے میں ایئر کنڈیشنر نہیں ہے۔ تم واپس آؤ تو لگواؤ۔ اُس نے بیوی کو بتایا کہ وہ لگوانا چاہتا تھا مگر والد صاحب نے منع کر دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ انہیں اس سے سردی لگے گی! کمزور تو وہ تھے ہی! بیوی نے کہا کہ اب کے گرمی بہت زور وں کی پڑ رہی ہے۔ اب لگوانا چاہیے۔ وہ واپس آیا۔ بازار سے ایئر کنڈیشنر خریدا اور والد کے کمرے میں نصب کرا دیا۔ پانچ دس منٹ تک وہ لگا رہنے دیتے پھر بند کرا دیتے۔ کہنے لگا ٹھیک دو دن بعد اُس کے ایک دوست نے‘ جو اس کی نسبت کہیں زیادہ خوشحال تھا‘ فون کیا کہ یار! ایئر کنڈیشنر منگوائے تھے۔ کچھ ضرورت سے زائد آگئے۔ ایک تمہیں بھیج رہا ہوں۔ اُس نے بھیجا تو وہ اسی کمپنی کا‘ اور اسی ماڈل کا ایئر کنڈیشنر تھا جو اس نے والد کے کمرے میں لگوایا تھا! پھر میرا دوست یوں گویا ہوا کہ اگر اس واقعہ کو بھی میں محض اتفاق سمجھتا ہوں تو پھر میں ایک اور واقعہ کے بارے میں کیا کہوں گا جو بہت عرصہ پہلے اس کے ساتھ پیش آیا تھا۔ میں نے پوچھا وہ کیا واقعہ ہے؟ کہنے لگا بہت سال پہلے کی بات ہے۔ والدہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ فرما نے لگیں :کچھ ر وپوں کی ضرورت ہے۔ جیب میں کچھ سو روپے تھے۔ اُن کی خدمت میں پیش کر دیے۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ ڈاکیا کھڑا تھا۔ کہنے لگا: آپ کا منی آرڈر آیا ہے۔</font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">یہ رقم‘ جس نے بھی بھیجی تھی‘ ٹھیک اتنی ہی تھی جو میں نے والدہ کو دی تھی۔ اندر آکر میں نے وہ رقم انہیں پیش کر دی کہ یہ مزید آگئی ہے۔ انہوں نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ انہیں جتنی ضرورت تھی وہ لے چکی ہیں! یہ واقعہ سنانے کے بعد میرے دوست نے پوچھا کہ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جو کچھ تم والدین پر خرچ کرتے ہو‘ وہ تمہیں واپس دے دیا جاتا ہے! </font></div><div style="text-align: right;"><font size="4" face="Helvetica">میں خاموش رہا! اُس نے مجھے متذبذب جانا اور کہا کہ کہنے والے تو کائنات کی پیدائش کو بھی اتفاق سمجھتے ہیں۔ پھر اُس نے وہ واقعہ سنایا جو امام ابو حنیفہؒ سے منسوب ہے۔ امام صاحب کی ایک ایسے شخص سے بحث طے تھی جو خدا کے وجود سے منکر تھا اور کائنات کی پیدائش کو اتفاقی حادثہ سمجھتا تھا۔ وہ مقررہ وقت پر بحث کے لیے پہنچ گیا۔ امام صاحب کا نام و نشان نہ تھا۔ ایک طویل انتظار کے بعد پہنچے اور کہنے لگے :ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ تاخیر بھی اسی سبب سے ہوئی۔ مد مقابل اور دیگر حاضرین نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگے: میں آرہا تھا کہ راستے میں دریا پڑا۔ ارد گرد دیکھا کوئی آدمی نہ آدم زاد! کوئی کشتی نہ جہاز! پریشان کھڑا رہا کہ دریا کیسے پار کروں! بہت دیر ہو گئی۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درخت سے موٹی موٹی ٹہنیاں نیچے گر پڑیں! کچھ ہی دیر میں یہ ٹہنیاں‘ خود بخود‘ گھڑے گھڑائے ترشے ہوئے ہموار تختوں میں تبدیل ہو گئیں۔ پھر یہ تختے آپس میں خود بخود جُڑنے لگے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان سے ایک کشتی بن گئی۔ پھر چپو ظاہر ہوا۔ پھر دیکھا تو کشتی میں ملاح بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے مجھے دریا پار کرایا اور یوں آپ کے پاس پہنچ پایا۔ مدِ مقابل ہنسا اور کہنے لگا: امام صاحب! آپ کسے بے وقوف بنا رہے ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کشتی‘ کسی بنانے والے کے بغیر خود بخود بن جائے؟ اب امام صاحب کے ہنسنے کی باری تھی۔ کہا :ایک چھوٹی سی کشتی خود بخود نہیں بن سکتی تو اتنی بڑی کائنات خود بخود کیسے بن گئی؟</font></div></p></div> Muhammad Izhar ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/12137301450500607444noreply@blogger.com0