محمد اقبال نے جس دن وزارتِ داخلہ کی چھت سے کود کر خود کشی کی، ٹھیک اُسی دن، چند گز دور، وزارت خزانہ میں، کمرے ایئرکنڈیشنڈ تھے اور بابو ان ٹھنڈے کمروں میں، نکٹائیاں لگائے، کوٹ ہینگروں پر لٹکائے، اعداد و شمار کے پکوان تیار کر رہے تھے تا کہ عوام کو لٹا کر، ان کے گلے پر پائوں رکھ کر، یہ پکوان ان کے حلق سے نیچے اتارے جائیں۔ اعدادوشمار کے ان پکوانوں میں کوئی پکوان ایسا نہ تھا جو 35سال حکومت پاکستان کی چاکری میں گزارنے والے محمد اقبال کو دوکمروں کی ایک جھونپڑی دے سکتا۔
جس دن مملکت خداداد پاکستان کی تیس فٹ بلند چھت سے کودنے والے محمد اقبال نے حکومت پاکستان کی پیش کردہ شرط منظور کی، اس سے چند دن پہلے سعودی عرب اور یو اے ای کی برادر حکومتوں نے ٹرمپ کی بیوی کی این جی او کو دس کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ اگر ان دس کروڑ ڈالروں میں سے چند ہزار ڈالر محمد اقبال کو مل جاتے تو وہ خود کشی نہ کرتا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کا محمد اقبال ایک سال بعد ریٹائر ہونے والا تھا۔ اس کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی۔ صرف ایک سرکاری کوارٹر تھا جو ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت نے واپس لے لینا تھا۔ اُس دن جب چند گز دور وزارتِ خزانہ میں نکٹائیاں نصب کیے بابو اعدادوشمار کے ولایتی پکوان پکا رہے تھے، ہاں اسی دن محمد اقبال نے اپنے بیٹے کو ہمراہ لیا اور اپنے ادارے کے ایڈمنسٹریشن افسر کے سامنے پیش ہوا۔ اُس نے افسر کی منت کی کہ اس کے بیٹے کو نوکری دی جائے تا کہ سرکاری کوارٹر ریٹائرمنٹ کے بعد اُس کے کنبے کے پاس ہی رہے۔ ایسا نہ ہوا تو ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دربدر ہو جائے گا۔ افسر نے اُسے آسان طریقہ بتایا کہ باپ کی جگہ بیٹے کی ملازمت کے لیے ضروری ہے کہ باپ ڈیوٹی کے دوران مر جائے۔ محمد اقبال نے بیٹے کو وہیں چھوڑا اور خود چھت کی طرف روانہ ہو گیا۔
ایڈمنسٹریشن افسر کے کمرے اور چھت کے درمیان فاصلہ تو چند منٹ کا تھا مگر یہ فاصلہ چند منٹ کا نہ تھا یہ فاصلہ ستر سال کا تھا! یہ فاصلہ طے کرنے کے دوران محمد اقبال نے نہ جانے کتنے مہینوں کتنے ہفتوں اور کتنے سالوں کی مسافت طے کی۔ چھت کی طرف جاتے وقت اس نے یہ ضرور سوچا ہو گا کہ اگر قیام پاکستان سے پہلے وہ ایڈمنسٹریشن افسر کے پاس جاتا تو وہ ایڈمنسٹریشن افسر یقینا ہندو ہوتا اور اسے بالکل یہی الفاظ کہتا کہ باپ مرے تبھی بیٹے کو ملازمت مل سکتی ہے۔ ہندو ایڈمنسٹریشن افسر سے جان چھڑانے کے لیے تحریکِ پاکستان چلی، لاکھوں مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے۔ ستر ہزار سے زیادہ مسلمان عورتیں سکھوں کے قبضے میں رہ گئیں۔ پاکستان بن گیا۔ اسلامی مملکت قیام پذیر ہو گئی۔ ہندو ایڈمنسٹریشن افسر کی جگہ مسلمان ایڈمنسٹریشن افسر نے لے لی مگر افسوس! محمد اقبال کو وہی جواب ملا جو اُس وقت ملنا تھا!
کمرے سے چھت کی طرف جاتے ہوئے چند منٹ کی مسافت طے کرنے میں محمد اقبال کو زمانے لگ گئے۔ اس دوران اُس کی آنکھوں کے سامنے کئی فلمیں چلیں۔ ایک فلم میں وزارئِ اعلیٰ کے محلات تھے۔ جس محل میں بیگم رہ رہی ہو، وہی سرکاری قیام گاہ سمجھی جائے گی۔ جتنی بیگمات، اتنے وزیر اعلیٰ ہائوس، ایک اور فلم میں رائے ونڈ محلات پر تعینات ہزاروں پولیس افسر دکھائی دیئے جو سرکاری خزانے سے تنخواہ پاتے تھے۔ 36 کروڑ اضافی سکیورٹی پر لگے۔ کروڑوں روپے چار دیواری پر صرف ہوئے۔ اس میں سے اگر ہر سال بیس جھونپڑیاں بھی نچلی سطح کے سرکاری ملازموں کو بنا دی جاتیں تو شاید محمد اقبال کی باری آ جاتی!
ایک اور فلم میں ہر شہر میں بنائے جانے والے بلاول ہائوس نظر آ رہے تھے۔ محمد اقبال سیڑھیاں چڑھتا گیا اور بلاول ہائوس گنتا گیا اور دیکھتا گیا۔ ایک اور فلم میں سابق صدر جہاز سے اُس وقت اترتے دکھائی دے رہے تھے جب جہاز اور گاڑی کے درمیان سرخ قالین بچھ چکا تھا۔
اسی چند منٹ کی مسافت کے دوران محمد اقبال نے دیکھا کہ پاکستان ہائوسنگ فائونڈیشن اور پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی جیسے متعدد ادارے کام کر رہے تھے۔ ان دفتروں میں لاکھوں کروڑوں روپوں کا فرنیچر اور ڈیکوریشن تھا! افسروں کو ڈیپوٹیشن الائونس مل رہے تھے۔ مگر آہ! ان میں سے کوئی انسٹھ سالہ محمد اقبال کو یہ یقین دہانی نہ کرا سکا کہ اسے دو کمروں کا جھونپڑا الاٹ کر دیا جائے گا اور یہ کہ اسے مرنے کی ضرورت نہیں۔
چھت پر پہنچتے پہنچتے اسے ایک فلم میں وفاقی وزارت ہائوسنگ بھی نظر آئی جس کے وزیر با تدبیر ہفتے میں ایک بار دفتر ضرور تشریف لاتے ہیں۔ اس وزارت پر، جو ایک مذہبی سیاسی جماعت کو دی گئی ہے، کروڑوں روپے ہر ماہ خرچ ہوتے ہیں۔ اس خرچ میں وہ ٹیکس بھی شامل ہیں جو محمد اقبال ماچس سے لے کر موبائل فون کارڈ تک ہر شے خریدتے وقت حکومت کو ادا کرتا رہا ہے۔ مگر آہ! یہ طویل و عریض وزارت بھی اس کے لیے کچھ نہ کر سکی۔
محمد اقبال اگر کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا یا کفار کے کسی اور ملک میں ہوتا تو اسے کونسل کا خیراتی گھر مل جاتا جو وہاں کی حکومتیں بے آسرا، بے سہارا خاندانوں کو دیتی ہیں اور جو بے شمار ایشیائی اور افریقی مسلمانوں کو ملے ہوئے ہیں۔ کچھ مسلمان تو کفار کے عطا کردہ ان گھروں میں اپنے کنبوں کو محفوظ رکھ کر خود ماشاء اللہ تبلیغِ دین کے لیے نکل جاتے ہیں۔ محمد اقبال اگر ناروے ڈنمارک سویڈن یا فن لینڈ میں ہوتا تو اسے نہ صرف سر چھپانے کی جگہ بلکہ نان و نفقہ بھی ریاست کی طرف سے مہیا کیا جاتا مگر یہ سب کچھ ایسی ریاست میں ہوتا ہے۔ جہاں ملکہ یا صدر یا وزیر اعظم سبزی اور کریانہ کی دکانوں سے سودا سلف خود خریدتے ہیں۔ محمد اقبال کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ جس ملک میں رہ رہا تھا وہاں کا بادشاہ سات پردوں کے پیچھے محلات میں رہتا تھا اور کسی بازار کسی مارکیٹ کسی گلی کوچے میں بھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ چھت پر چڑھتے وقت محمد اقبال اپنی زندگی کے اس حتمی نتیجے پر پہنچا کہ جن ملکوں میں حکومتوں کے سربراہ عام آدمی کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ وہاں پر عام آدمی کو وی آئی پی سمجھا جاتا ہے اور جن ملکوں میں سربراہ وی آئی پی زندگی گزارتے ہیں۔ وہاں عام آدمی کو عام آدمی سمجھا جاتا ہے اور عام آدمی کو کوئی پوچھتا نہیں۔
ایڈمنسٹریشن آفس سے چھت تک کی مختصر مگر انتہائی طویل مسافت طے کرتے وقت محمد اقبال پر اور بھی بہت سی حقیقتیں منکشف ہوئیں۔ اسے احساس ہوا کہ ہر سال حج اور عمرے کرنے والے اور باقاعدگی سے چندے دینے والے حاجی صاحبان اور سیٹھ صاحبان اور تاجر اور ٹریڈر اور صنعت کار اگر عمروں اور چندوں پر اٹھنے والے اخراجات کا دس فیصد، ہاں! صرف دس فیصد ہی محمد اقبال جیسے بے گھر افراد کے لیے رہائش گاہیں تعمیر کرنے پر صرف کرتے تو محمد اقبال چھت پر چڑھنے سے تو بچ ہی جاتا، حاجی صاحبان اور سیٹھ صاحبان اور تاجر اور ٹریڈر اور صنعت کار کل پروردگارِ عالم کے سامنے بھی سرخرو ہوتے اس لیے کہ کل جب عدالت لگے گی اور میزان رکھی جائے گی تو معیار وہ نہیں ہو گا جو یہاں سمجھا جا رہا ہے! وہاں یہ دیکھا جائے گا کہ مُردوں کے اوپر چادریں چڑھانے والے زندہ لوگوں کے لیے کیا کر رہے تھے؟
محمد اقبال واحد ایٹمی مسلمان ملک کی حکومت کی چھت سے نیچے کود کر جان دے گیا۔ اس نے ایڈمنسٹریشن افسر کا مسئلہ حل کر دیا۔ اب ایڈمنسٹریشن افسر کے لیے کوئی راہ نہیں بچی۔ امید ہے اس نے مر جانے والے کے بچے کو نوکری دے دی ہو گی۔ رہا یہ مسئلہ کہ محمد اقبال حرام موت مرا یا حلال، تو یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ اس کی موت حرام تھی یا حلال لیکن یہ طے ہے کہ اس نے مر کر اپنے خاندان کو دربدر ہونے سے بچا لیا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے محمد اقبال نے مر کر اپنے خاندان کو چھت تو لے دی مگر ساتھ ہی وہ کچھ اور افراد کے لیے مسئلہ چھوڑ گیا۔ اس نے حشر کے دن حکومت کے سربراہ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے کہ اگر امیرالمومنین فرات کے کنارے مرنے والے کتے کی موت کے ذمہ دار تھے تو محمد اقبال تو کم از کم انسان تھا۔ اگر امیرالمومنین نے درست ارشاد فرمایا تھا تو محمد اقبال جس وفاقی حکومت کی چھت سے کودا ہے۔ اس وفاقی حکومت کے سربراہ کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ اگر کسی نے محمد اقبال نے کمرے سے نکل کر چھت کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ہوتا تو فوراً جان جاتا کہ محمد اقبال کے ارادے کچھ اور ہی ہیں۔ وہ چھت سے کود کر مر جانے کے بعد خاموش نہیں بیٹھے گا۔ اس نے تو حشر کے دن حشر برپا کر دینا ہے۔ اس نے میزان کے پاس کھڑے ہو کر دہائی دینی ہے۔
جس نے اُس دہائی کا جواب دینا ہے اسے چاہیے کہ جواب سوچ لے۔
No comments:
Post a Comment