Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, January 26, 2010

چودہ لاکھ ڈالر


نصرانیوں اور یہود و ہنود کا برا ہو جو ہم مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ ہمارے تین تین چار چار سال کے معصوم بچے سمگل ہو کر جس ملک میں جاتے ہیں وہ جغرافیائی لحاظ سے بھی ہمارے نزدیک ہے اور روحانی حوالے سے بھی دور نہیں۔ امت مسلمہ کے افراد جہاں بھی ہوں‘ انکے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہوتا ہے۔ یہی حال امت کا بھی ہے۔ یہی تو وہ اتحاد ہے جس سے نصرانی اور یہود و ہنود لرزاں اور ترساں ہیں!



مغربی تہذیب تباہی و بربادی سے دوچار ہو اور ہماری آنکھیں اور جگہ ٹھنڈی ہو‘ یہ تین تین چار چار سال کے معصوم بچے وہاں پہنچتے ہیں تو ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔ انہیں ایک عظیم مقصد کیلئے درآمد کیا جاتا ہے۔ یہ مقصد اتنا عظیم الشان ہے کہ اہل مغرب… خدا انہیں نیست و نابود کرے۔ اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اسی مقصد سے وابستہ ہے۔ اہل پاکستان قسمت کے دھنی ہیں کہ انکے تین تین چار چار سال کے معصوم لخت ہائے جگر تاریخ کا دھارا بدلنے میں ایک ناقابل فراموش کردار ادا کر رہے ہیں…ع


یہ نصیب! اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے


ان بچوں کو صحرا میں‘ آبادیوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ انہیں کم خوراک دی جاتی ہے تاکہ ان کا وزن زیادہ نہ ہو کیوں؟ یہ ہم تھوڑی دیر بعد بتائیں گے۔ انکی نگرانی پر ایسے بدُّو مامور کئے جاتے ہیں جن کا نرمی‘ شفقت‘ رحم دلی اور اس قسم کے دوسرے اسمائے صفت سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ یوں بھی صحرا کی بے کنار اندھی وسعتوں میں جہاں سینکڑوں فرسنگ تک ریت کے ٹیلے موت کی منڈیروں کی طرح زندگی کا راستہ روکے ہوئے ہوں‘ وہاں ایک بچہ اصطبل سے بھاگ بھی جائے تو کتنا دور جا سکے گا؟


امریکہ کے ڈرون جہازوں میں کیڑے پڑیں کہ علم جو مومن کی میراث تھا‘ امریکہ نے اچک لیا ورنہ ڈرون جہاز ہم بھی بنا سکتے تھے) وہ دیکھئے‘ کیا منظر ہے۔ صحرا کے ایک بڑے ٹکڑے پر شامیانے تنے ہیں۔ ایک طرف صوفے لگے ہیں جن پر شہزادے تشریف فرما ہیں۔ خدا انہیں ہر قسم کے مصائب و آلام سے محفوظ رکھے۔


خدام قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ دنیا کا کوئی مشروب‘ کوئی کھانا ایسا نہیں جو یہاں پیش نہیں کیا جا رہا۔ وہ دیکھئے‘ فوٹو گرافروں کے ہجوم کھڑے ہیں۔ یقیناً کچھ ہونے والا ہے۔


یہ تو چیخیں سنائی دی جانے لگی ہیں! دہشت زدہ چیخیں‘ خوف کے مارے چیخ رہے ہیں؟ کون؟ وہی معصوم بچے! وہ دیکھئے‘ اونٹ بھاگتے آ رہے ہیں‘ انتہائی تیزی سے بھاگتے اونٹ! ہر اونٹ پر تین یا چار سال کا بچہ رسیوں سے بندھا ہے۔ وہ خوف کے مارے چیخ رہا ہے۔ اسکے ہاتھ میں کوڑا ہے۔ اس سے سبق تو یہ دیا گیا ہے کہ بھاگتے اونٹ پر کوڑے برسائے لیکن اسکے تو حواس ہی گم ہو گئے ہیں۔


اسے کوڑے برسانے کا ہوش ہی کہاں ہے۔ وہ تو خوف کے مارے چیخ رہا ہے۔ یہ چیخ اونٹ کیلئے کوڑے کا کام دیتی ہے۔ چیخیں سن کر اونٹ بھی سمجھتا ہے کہ میں کسی مصیبت میں گرفتار ہوں اور یہ آواز کیسی ہے۔ وہ اور تیزی سے بھاگتا ہے۔ ان بچوں کو اس لئے خوراک کم دی جاتی ہے کہ ان کا وزن نہ بڑھے۔ بچہ بھاری ہو تو اونٹ تیز نہیں دوڑ سکتا۔ شہزادے خوشی سے تالیاں بجاتے ہیں۔ ہا …ہا کرتے ہیں ہنستے ہیں۔ انکے سینوں میں ’’نرمی‘‘ اور ’’شفقت‘‘ کے جذبات شدت سے ابل رہے ہیں۔ وہ دیکھئے‘ ایک معصوم بچہ بھاگتے اونٹ سے گر پڑا ہے۔ پیچھے آنیوالے اونٹوں نے اسے اپنے مہیب پیروں تلے کچل ڈالا ہے۔ لیکن تماشائیوں کی تالیوں پر اور ہا …ہا… ہا کی آوازوں پر اس دلدوز حادثے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ کھیل جاری ہے۔ جشن مسلسل ہو رہا ہے۔


کچلے جانے والے بچے کے ماں با پ جنوبی پنجاب میں ہیں وہی جنوبی پنجاب جس سے عالی مرتبت وزیراعظم کا تعلق ہے۔ وہی جنوبی پنجاب جہاں قابل احترام وزیرخارجہ‘ روایتی دستار پہنے‘ چند دن پہلے مزار پر چادر چڑھا رہے تھے‘ اس لئے کہ وہ گدی نشین بھی ہیں۔ وہی جنوبی پنجاب جہاں اولیا ء محو خواب ہیں۔ وہی اولیا ء جنہوں نے محبت کا سبق پڑھایا‘ شفقت اور رحم کا درس دیا!


اسلامی مملکت سے یہ معصوم بچے‘ ایک اور اسلامی ملک میں عرصہ سے جا رہے ہیں۔ کبھی سمگل ہو کر‘ کبھی فروخت ہو کر‘ کبھی کرائے پر‘ کبھی معاوضے پر‘ کبھی چوری ہو کر‘ کبھی غریب بدبخت والدین کی مرضی سے‘ آہ! ایسی مرضی جس میں غربت کا جبر شامل ہے۔ وڈیروں ‘ مخدوموں‘ کھرب پتی گدی نشینوں کی سرزمین… جنوبی پنجاب… میں بے بس بے کس والدین بھوک کے عفریت سے بچنے کیلئے موت کی پھنکار سے ڈرتے ہوئے اپنے جگر کے ٹکڑے سرحد پار… دور بہت دور… اس اسلامی ملک میں بھیج دیتے ہیں۔ جہاں اونٹوں کی دوڑ کا ’’مہذب‘‘ کھیل کھیلا جاتا ہے۔


آپ پریشان نہ ہوں‘ اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ ڈالئے‘ اس ’’مہذب‘‘ کھیل میں وہاں کی حکومت اور شہزادے سب شامل ہیں۔ یہی تو وہ کھیل ہے جس پر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دار و مدار ہے‘ اگر اہل مغرب کے پاس ہارورڈ‘ آکسفورڈ اور کیمبرج کی یونیورسٹیاں ہیں تو ہمارے پاس ایسے کھیل ہیں۔ ہم ان سے کم تو نہیں! اگر ان کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی ہے تو ہمارے پاس بچوں کی چیخوں سے اونٹوں کو تیز دوڑانے کا فن ہے۔ غلط ہیں وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ گذشتہ پانچ سو سال کے دوران عالم اسلام نے کوئی ایجاد‘ کوئی دریافت نہیں کی ہم نے اس ’’مہذب‘‘ کھیل کو ساری دنیا میں اپنے اوپر ہنسنے کا سامان بنا کر پیش کیا ہے۔


رہے اہل مغرب… تو ہمارے نوکر اور ہمارے منشی ہیں۔ ہمیں دل کا دورہ پڑے تو ہم راچسٹر یا ہیوسٹن جا کر آپریشن کروا آتے ہیں۔ ہمیں دبئی کی کارپوریشنیں کمپنیاں چلانی ہوں تو ہم تعلیم یافتہ گورے بھرتی کر لیتے ہیں۔ آپ کبھی امریکہ یا یورپ سے جہاز پر بیٹھیں‘ پورا جہاز‘ گوری چمڑی والوں سے بھرا ہو گا۔ جب یہ جہاز کویت‘ بحرین‘ مسقط یا ابوظہبی اترے گا تو یہ گورے بھی اتر پڑیں گے‘ آخر انہوں نے ہی تو ساری کمپنیاں سارے دفاتر سارا کام سنبھالا ہوا ہے!


لیکن اصل بات جو میں بتانا چاہتا ہوں وہ تو اور ہے۔ مندرجہ ذیل خبر پڑھئے…


’’ یو اے ای کی حکومت نے اپنے ملک میں اونٹ دوڑ میں استعمال۔۔ ہونے والے کم سن پاکستانی بچوں کی تلافی کی خاطر حکومت پاکستان کو چودہ لاکھ ڈالر دیئے۔ یہ بات جمعہ کو وزیرداخلہ نے پاکستان میں تعینات اس ملک کے سفیر کیساتھ ملاقات کے بعد میڈیا کو بتائی۔


وزیر داخلہ نے اسی ملک کے صدر اور وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انکے اس اقدام سے پاکستان کے غریب عوام کی جن کے بچے اونٹ دوڑ میں’’استعمال‘‘ ہوئے دلجوئی ہو گی اور اچھے جذبات پیدا ہوں گے‘‘۔


آئیے! ہم جشن منائیں کیونکہ ہم اتنے ’’غیرت مند‘‘ ہو گئے ہیں کہ بچے بھی ہمارے ’’استعمال‘‘ ہو رہے ہیں اور شکریہ بھی ہم ادا کر رہے ہیں۔


’’اچھے جذبات ‘‘ پیدا کرنے میں اگر ہمارے معصوم بچے ’’کام‘‘ آ گئے تو گھاٹے کا سودا نہیں۔ یوں بھی ہم ابھی عراق افغانستان‘ چیچنیا اور فلسطین کیلئے پریشان ہیں۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو اپنے بچوں کیلئے بھی پریشان ہولیں گے!

Sunday, January 24, 2010

عیاری اور یاری

ج پاکستان کو دنیا کی برادری میں قابلِ رشک حیثیت حاصل ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں وہ پوری دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ خواندگی کا تناسب صد در صد ہے۔ اس وقت پاکستان اُن ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں لوگ دنیا کے کونے کونے سے آ کر آباد ہونا چاہتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طلبہ کا ہجوم ہے۔ فرقہ واریت کا کوئی وجود نہیں۔ امن و امان کا یہ عالم ہے کہ ایک اکیلی عورت زیورات سے لدی پھندی گلگت سے کراچی تک پیدل سفر کرے تو اُسے آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت کوئی نہیں کرسکتا۔ سوات اور فاٹا میں ہارورڈ اور آکسفورڈ کے مقابلے کے تعلیمی ادارے ہیں۔ ملک میں چینی آٹا گیس برقی روشنی اور پٹرول وافر اور ارزاں ہیں۔
یہ سب کچھ تو اطمینان بخش ہے لیکن ملک کے اہلِ دانش ایک طویل عرصہ سے اس موضوع پر بحث کر رہے ہیں کہ اس قابلِ رشک مقام کا اصل سبب کیا ہے۔ آخر وہ کون سے محرکات اور عوامل ہیں جو وطن عزیز کو اس اوج پر لیکر آئے ہیں کچھ اصحاب کا خیال ہے کہ پے در پے قبضہ کرنیوالی عسکری حکومتیں اس ترقی کا سبب ہیں۔ کچھ یہ سہرا نوکر شاہی کے سر پر باندھنا چاہتے ہیں لیکن اکثریت کی رائے یہ ہے کہ یہ سب اہلِ سیاست کی کرم نوازی ہے کیونکہ کیا عسکری ملازم اور کیا سول سروس سب انکے ماتحت ہیں۔ جب بھی فوجی حکومت آتی ہے، سیاست دان انکے ساتھ ہوتے ہیں اور دونوں مل کر ملک کو ترقی کے زینے پر چڑھاتے رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رائے وقیع تر ہے اور ہماری شان و شوکت اور جاہ و جلال کا کریڈٹ اہلِ سیاست ہی کو جاتا ہے اور اہلِ سیاست میں بھی جو صفت سب سے زیادہ مثالی ہے وہ انکی سچائی ہے۔ سچائی ایک وسیع اصطلاح ہے اور اس میں امانت، دیانت سب کچھ آجاتا ہے۔ باسٹھ سالوں کے اخبارات ہمارے اس دعوے کی تصدیق سے بھرے پڑے ہیں۔ تازہ مثال ملاحظہ کیجئے۔
’’مسلم لیگ نون کے لیڈر کیپٹن (ر) محمد صفدر نے قومی اسمبلی میں مسلم لیگ قاف کے رہنما اور سابق وزیر… کی میاں نوازشریف کیساتھ خفیہ ملاقاتوں کو آشکارا کردیا انہوں نے کہا کہ وہ جو کچھ بیان کر رہے ہیں حلفیہ اقرار کرتے ہیں کہ سب کچھ درست ہے… نے چار روز قبل قومی اسمبلی میں میاں نوازشریف سے اپنی کسی خفیہ ملاقات کی تردید کی تھی اور کہا کہ لندن کے ایک سٹور میں شاپنگ کے دوران ان کی نوازشریف سے اتفاقیہ ملاقات ہوگئی تھی۔ کیپٹن صفدر نے کہا کہ پچھلے سال جون جولائی میں لندن کی آکسفورڈ سٹریٹ میں … گھوم رہے تھے کہ ان کی سرِ راہ میاں صاحب کے صاحبزادے سے ملاقات ہوگئی جس میں انہوں نے نوازشریف کو عظیم لیڈر قرار دیتے ہوئے ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے اور نوازشریف سے ملنے کی آرزو کا اظہارکیا۔ نوازشریف کے صاحبزادے نے اپنے والد کو… کی تمنا سے آگاہ کیا تو حسین نواز کے دفتر میں… کی نوازشریف سے ملاقات ہوئی۔ افتخار جھگڑا بھی موجود تھے۔ اس ملاقات میں… نے قاف لیگ کی قیادت اور پرویز مشرف پر سخت تنقید کی تھی۔ پھر انکی دوسری خفیہ ملاقات رائے ونڈ میں ہوئی۔ کیپٹن صفدر نے کہا کہ… نے صدارتی الیکشن میں اپنی جماعت کے امیدوار مشاہد حسین کو ووٹ نہیں دیا تھا بلکہ مسلم لیگ نون کے امیدوار جسٹس سعید الزمان صدیقی کو ووٹ دیا تھا اور اسکی شہادت کیلئے اپنے موبائل کے کیمرے پر ووٹ کی عکس بندی بھی کی تھی اور یہ عکس بندی ہمارے لیڈروں کو دکھائی تھی تاکہ اپنی وفاداری ظاہر کرسکیں۔
اس خبر سے بہت سے امور کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ ہمارے سیاستدان آکسفورڈ سٹریٹ میں یوں گھومتے پھرتے ہیں جیسے ہم غریب غربا مال روڈ پر گھومتے پھرتے ہیں یہ ملک کی خوشحالی کا واضح ثبوت ہے۔ دوم یہ کہ ہمارے سیاستدانوں کے صاحبزادوں کے کاروباری دفاتر لندن جیسی جگہوں پر ہیں، سوم یہ کہ جب کوئی اپنے آپکو فروخت کرنے کیلئے پیش کرتا ہے تو خریدار بھی فوراً آموجود ہوتا ہے۔ گھوڑے خریدنے والا بھی اتنا ہی عظیم ہوتا ہے جتنا ’’عظیم‘‘ فروخت کیلئے پیش ہونے والا گھوڑا ہوتا ہے اور چہارم یہ کہ ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے زمانے میں گھوڑوں کی خرید و فروخت سائنسی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ اگر سیاست دان نے اپنے امیدوار کی پشت میں چھُرا گھونپا ہے اور خریدنے والی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیا ہے تو اس کا ثبوت ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا مہیا کرنا ان دنوں آسان ہے اور ہمارے سیاست دان پوری دیانت داری سے یہ ثبوت تیار کرتے ہیں اور پیش کرتے ہیں۔
باڑ(Fence) سے چھلانگ لگانا ہمارے سیاست دانوں کیلئے ایک معمول کا کام ہے۔ کبھی اِدھر سے اُدھر اور کبھی اُدھر سے اِدھر۔ یہ جدھر اور کدھر کا مسئلہ نہیں، یہ ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کا مسئلہ ہے اور یہ سیاست دان ہی ہیں جو ہر وقت کی محنت شاقہ کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام پر احسان کر رہے ہیں ورنہ عوام تو دقیانوسی سوچ رکھتے ہیں او ر وفاداری، دیانت اور امانت کے چکروں میں پڑے ہیں۔ موسم بدلا تو زاہد حامد قاف سے نکلے اور نون میں جا پہنچے اور ہاتھوں ہاتھ لئے گئے۔(کیوں؟ اس کا جواب آپ خود سوچئے) پھر ایک اور جھونکا تیز ہوا کا آیا تو محترمہ حنا ربانی کھر قاف سے پیپلز پارٹی میں چلی گئیں۔ پھر نئی کونپلیں پھوٹنے کا وقت آیا۔ جماعتِ اسلامی نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ پارٹی کیساتھ وفاداری اور قربانی ہمارے سیاست دانوں کو کبھی اچھی نہیں لگی۔ حنیف عباسی صاحب جماعت اسلامی سے نکلے اور نون لیگ میں چلے گئے اور صرف انہیں ہی کیوں قصوروار ٹھہرایا جائے، اہل سیاست نے ہمیشہ ٹریڈنگ یعنی تجارت کی ہے۔ تقسیم کے فوراً بعد پنجاب میں نواب ممدوٹ کی حکومت تھی۔ دولتانہ انکے حریف تھے۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ پنجاب اسمبلی میں ’’میری‘‘ اکثریت ہے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان لاہور تشریف لائے، دونوں نے وزیراعظم کو اپنے اپنے حمایتیوں کی فہرست دی۔ دونوں فہرستوں میں سات نام مشترک تھے۔ یعنی سات سیاست دانوں نے نواب ممدوٹ اور دولتانہ دونوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا تھا۔ کاش اپن سات ’’وفاداروں‘‘ کوننگا کیا جاتا لیکن افسوس! حکومت ٹوٹ گئی لیکن ’’عزتیں‘‘ محفوظ رہیں!
آپ اہلِ سیاست کی دانائی کا کمال دیکھئے، ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ عسکریت پسندی کی ایک بڑی وجہ ملک میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے اور یوں لگتا ہے پاکستان سرداروں، ملکوں، خانوں، چوہدریوں، سرداروں، جاگیرداروں اور زمینداروں کیلئے بنا تھا۔ قبائلی علاقوں میں چند ’’برگزیدہ‘‘ خوانین کو ہمیشہ بھاری رقوم دی گئیں اور اسکا نتیجہ یہ ہے کہ آج عام قبائلی نے بندوق اٹھا لی ہے۔ بجائے اسکے کہ قوم کو یہ بتایا جاتا کہ باسٹھ سالوں میں کن کن خوانین کو کس کس پولیٹیکل ایجنٹ نے کتنی کتنی رقم دی، خوانین کو مزید دولت دی جا رہی ہے۔ سینٹ میں بتایا گیا ہے کہ فاٹا امن کمیٹیوں کو چھ سو پچاس ملین یعنی پینسٹھ کروڑ روپے دیئے گئے ہیں۔ یہ ’’امن‘ق کمیٹیاں کیا ہیں؟ انہوں نے کون سے علاقے میں کون سا ’’امن‘‘ قائم کیا ہے؟ انکے ارکان کون کون ہیں اور یہ پینسٹھ کروڑ روپے کہاں اور کیسے ’’خرچ‘‘ کئے جائینگے؟ کسی کو نہیں معلوم نہ کسی کو پرواہ ہے!
رہے فوجی یا سرکاری ملازم، خاکی یا سول۔ تو سارے سیاستدانوں کے ماتحت رہے ہیں اور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فوجی حکومت آتی ہے تو مٹھائیاں کون بانٹتا ہے؟ جرنیلوں کی جیب میں کون جا بیٹھتا ہے اور اُن کی پشت کون کُھجاتا ہے؟ ’’مہربانوں‘‘ کے مستقل ’’ساتھی‘ق کون ہیں، خفیہ ملاقاتیں کون کرتے ہیں، وردی میں بار بارکون منتخب کرواتے ہیں، بیورو کریسی کو کون بدعنوانیاں سکھاتا ہے۔ یہاں تو یہ بھی ہوا ہے کہ نوکر شاہی کے سینئر ارکان نے پانچ سال کی چھٹی لی اور سیاستدانوں کی فیکٹریوں میں ملازم ہوگئے۔ انکی انتخابی مہم چلائی اور واپس آکر صوبے کے چیف سیکرٹری بن گئے۔ اقبال نے اہل سیاست ہی کو تو کہا تھا…؎
گلہ ہا داشتم از دل بزبانم نہ رسید
مہر و بے مہری و عیاری و یاری ازنست
شکوہ دل سے زبان تک نہ آئے تو اور بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مہر اور بے مہری، عیاری اور یاری سب کچھ ’’وہی کر رہے ہیں۔

Tuesday, January 19, 2010

نمستے

میں ابھی دکان پر پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے بیوی کا فون آگیا۔
’’تم نے موم بتیاں خریدیں تو نہیں؟‘‘
’’نہیں، بس ابھی دکان میں قدم رکھا ہے خریدنے لگا ہوں۔‘‘
’’مت خریدو اور فوراً واپس آ جائو‘‘
ایک زمانہ تھا کہ بیوی مجھے ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتی تھی لیکن یہ لوڈ شیڈنگ سے پہلے کی بات ہے۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس سے احکام میں تبدیلی کی وجہ پوچھوں لیکن لہجہ دیکھ کر ارادہ بدل دیا۔
گھر پہنچا تو دروازے کے سامنے گلی میں حجام چارپائی پر بیٹھا میرے دونوں چھوٹے بیٹوں کے سر مونڈ رہا تھا۔ بچے رو رہے تھے۔ میں نے پوچھا توکہنے لگے ’’پتا جی! ماتا جی کا حکم ہے۔‘‘
میرا سر چکرانے لگا۔ ’’کیا بکواس کر رہے ہو۔ ابو کہنے کے بجائے پتا جی اور امی کے بجائے ماتا جی کا راگ الاپ رہے ہو۔ پاگل تو نہیں ہوگئے؟‘‘
’’یہ بھی ماتا جی نے کہا ہے۔‘‘
میں غصے سے تلملاتا گھر میں داخل ہوا۔ بیوی کو دیکھا تو آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ ساری باندھے بیٹھی تھی اور ماتھے پر تلک تھا لیکن وہ اتنے غصے میں تھی کہ کچھ پوچھنے کی ہمت نہ پڑی۔ ایک دوبار کوشش بھی کی لیکن تھوک نگل کر رہ گیا۔ لفظ ادا نہ ہوسکے۔مگر ذہن میں طوفان اٹھ رہا تھا۔ یہ نیم صحیح الدماغ خاتون نہ جانے کیا کرنا چاہتی ہے۔ اتنے میں دونوں بچے دروازے سے داخل ہوئے۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ان کے سر مُونڈے ہوئے تھے لیکن ایک کان کے اوپر سے ایک لٹ چھوڑ دی گئی تھی اور وہ رسی کی طرح بٹی ہوئی کان کے نیچے تک لٹک رہی تھی!
’’تم آخر کیا چاہتی ہو؟‘‘ میں نے ہرچہ بادا باد کہہ کر نتائج سے بے پروا ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’فضول باتیں نہ کرو‘‘ بیوی نے تنک کر جواب دیا اور میں نے چپ رہنے ہی میں عافیت سمجھی۔
اس کے بعد کی کہانی اس سے بھی زیادہ دردناک ہے۔ گھر میں دالیں پکنے لگیں۔ گوشت مچھلی اور انڈے خواب و خیال ہوگئے۔ کانچ کی پلیٹوں کی جگہ ایلومینم کی تھالی آگئیں۔ ہر بچہ گول سی تھالی میں اچار ڈال اور چپاتی رکھ کر الگ بیٹھ کر کھاتا۔ بیٹھنے کیلئے لکڑی کی چوکیاں استعمال ہونے لگیں۔ غسل خانوں کے باہر ہوائی چپلوں کے بجائے لکڑی کی کھڑائوں رکھ دی گئیں۔ میرا زیادہ وقت دکان پر گزرنے لگا۔ دوپہر کو گھر آنا چھوڑ دیا۔ صبح نو بجے جاتا تو رات عشا کے بعد دکان بند کرکے ہی واپس لوٹتا۔
ایک شام فون آیا کہ کھانے پر مہمان آرہے ہیں اس لئے جلدی آجائوں پوچھا کہ کون آرہا ہے۔بیگم نے تفصیل سے گریز کرتے ہوئے اتنا ہی کہا کہ بس تم آجائو، خود ہی دیکھ لینا۔
انواع و اقسام کی دالوں، دہی کے پکوانوں اور قسم قسم کی سبزیوں سے دسترخوان بھرا ہوا تھا۔ پوریاں، پکوڑے، سموسے، کچوریاں سب کچھ تھا۔ بس لحمیات نہیں تھیں۔ اتنے میں گھنٹی بجی، کیا دیکھتا ہوں کہ ہنستی مسکراتی فائزہ حباب داخل ہو رہی ہیں۔ بیوی نے ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا اور میرا تعارف کرایا کہ یہ میرے پتی ہیں۔ محترمہ کے چہرے پر کچھ بے یقینی کے آثار نمایاں ہوئے جو دستر خوان دیکھ کر زیادہ گہرے ہوگئے۔ لیکن ایک عمر خار زار سیاست میں گزارنے والی خاتون فوراً سنبھل گئیں اور حواس مجتمع کرلئے۔
’’مجھے دلی مسرت ہے کہ میں ایک ایسے پاکستانی گھرانے کی مہمان ہوں جو اقلیت کا نمائندہ ہے۔ ہماری پارٹی کا منشور بھی یہی کہتا ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والے اس جان سے پیارے وطن میں باہم مل جل کر محبت اور پیار سے رہیں۔‘‘
’’شکریہ، میڈم۔ میری بیوی نے جواب دیا۔ لیکن مجھے وضاحت کرنے کی اجازت دیجئے۔ ہم الحمد للہ مسلمان ہیں‘‘
یہ سن کر جہاں فائزہ حباب پریشان ہوئیں وہاں میں نے کئی دنوں بعد اطمینان کا سانس لیا۔
’’لیکن آپ نے مجھے دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کہا، اپنے میاں کا تعارف پتی کہہ کر کرایا اور کھانے میں دالوں سبزیوں اور اچار کی بھرمار ہے۔ آخرکیوں؟‘‘
’’اس لئے کہ محترمہ! آپ نے قوم کو بھارتیوں کی تقلید کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہم پاکستانی لوڈ شیڈنگ پر کُڑھتے تھے اور احتجاج کرتے تھے لیکن آپ نے ہمیں سمجھایا کہ رات میں بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور کوئی بھارتی باہر نہیں آتا۔
میں نے سوچا کہ اگر بھارت کی نقالی کرنے ہی میں ہماری عافیت ہے تو پھر صرف لوڈ شیڈنگ کے حوالے ہی سے کیوں نقالی کی جائے۔ پوری طرح کیوں نہ انکے رنگ میں ڈھل جائیں۔ چنانچہ میں نے بچوں کے سروں پر چوٹیاں رکھا دی ہیں اور ہر معاملے میں بھارت کو آئیڈیل بنا لیا ہے لیکن آپ کا حکم ماننے میں کچھ امور مانع ہیں۔ ازراہ کرم وہ بھی دور فرما دیجئے‘‘
’’وہ کیا ہیں؟‘‘ محترمہ نے پوچھا
’’دلی میں زیر زمین ریلوے چل رہی ہے اور شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں چند منٹ لگتے ہیں۔ دنیا کی چھ بہترین زیر زمین ریلوے سے مل کر یہ میٹرو چلائی گئی ہے۔ بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی ہم سے بہت آگے ہے۔ حیدر آباد اور بنگلور پوری دنیا کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ بھارتی تارکین وطن، اپنے ملک میں واپس آنا شروع ہوگئے ہیں۔ متوسط طبقہ دن بدن زیادہ ہو رہا ہے اور معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔
بھارت نے تقسیم کے بعد فوراً ہی زرعی اصلاحات نافذ کردی تھیں۔ آج بھارتی پنجاب، جو پاکستانی پنجاب سے چھوٹا ہے، کئی گنا زیادہ غلہ پیدا کر رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھارتی سیاست دان کا بیرون ملک کوئی اکائونٹ نہیں نہ کارخانے نہ کوٹھیاں نہ فلیٹ نہ محل۔ اور پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ کانگریس، جنتا پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے اندر بھی باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔ آپ ان سب معاملات میں بھارت کی تقلید کیوں نہیں کرتیں؟
محترمہ برہم ہو کر تشریف لے جاچکی تھیں!

Saturday, January 16, 2010

دو ہتھڑ


میں رویا اورٹوٹ کر رویا۔ میں نے سسکیاں لیں، میری ہچکی بندھ گئی، میری سفید داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی، میری آنکھیں سُوج گئیں، میرے رخساروں پر تیز کٹیلے آنسوؤں سے گڑھے پڑ گئے جیسے میرے آنسوؤں میں نمک نہیں تھا،
 تیزا ب تھا، شکیب جلالی نے یہ شعر میرے ہی لئے تو کہا تھا…ع

کیا   کہوں  دیدہء تر!     یہ تو  مرا  چہرہ   ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
اس ملک کی باسٹھ سالہ تاریخ میں میں پہلا وزیر تھا جو دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ ایک طرف میری وزارت کا وفاقی سیکرٹری کھڑا تھا جو مجھے چُپ کرانے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا۔ دوسری طرف میرا پرائیویٹ سیکرٹری رومال سے میرے آنسو پونچھ رہا تھا۔ سامنے وزارت کے دوسرے افسر اور اہلکار درجہ بدرجہ کھڑے تھے اور سب پریشان تھے۔


’’سرکار! کچھ بتائیں تو! آخر کیوں رو رہے ہیں؟‘‘ وفاقی سیکرٹری نے خالص افسرانہ لہجے میں، جسے چاپلوسی کا تڑکا لگا تھا، پوچھا میرے پرائیویٹ سیکرٹری کو وفاقی سیکرٹری کی یہ ادا ایک آنکھ نہ بھائی اس نے اسے نیچا دکھاتے ہوئے میرے رخساروں پر رومال قدرے زور سے رگڑا اور پوچھا:
’’سر! کہیں آپ اس لئے تو نہیں رو رہے کہ قاف لیگ کے رکن اسمبلی جناب رضا حیات ہراج نے دھمکی دی ہے کہ وہ اگر ایک خط سامنے لے آئیں تو ایوان میں بیٹھے قائدین کو منہ چھپانے کیلئے جگہ نہیں ملے گی۔‘‘


سر! کہیں وہ خط آپ نے تو نہیں لکھا؟‘‘ اب وفاقی سیکرٹری نے پوچھا کہ آپ کہیں اس لئے تونہیں رو رہے کہ آخر رضا حیات ہراج وہ خط دکھا کیوں نہیں دیتے؟ انہیں دکھانے سے منع کیا ہے؟‘‘


میرے نائب قاصد نے آگے بڑھ کر کہا کہ ’’وزیر صاحب شاید اس لئے رو رہے ہیں کہ رضا حیات ہراج صاحب نے کہا کہ ان کی گردن اتنی نہ دبائی جائے کہ زبان نکل آئے۔ وزیر صاحب یقیناً وہ منظر تصور میں لا کر رو رہے ہیں جب زبان باہر نکلی ہوئی ہو۔‘‘
اب افسروں کی باری تھی ایک سیکشن افسر کا خیال تھا کہ میں وزیر پٹرولیم سید نوید قمر کی اس بات پر رو رہا ہوں کہ سوئی ناردرن نے اگر LUMS کو دس کروڑ روپے چندہ دیا ہے تو یہ بات پرانی ہو چکی ہے۔ گویا نوید قمر کا فلسفہ یہ ہے کہ جرم پرانا ہو جائے تو دُھل جاتا ہے!
میں نے زور کی ایک دھاڑ اور ماری اور بھاں بھاں کر کے مزید رویا۔ ایک ڈپٹی سیکرٹری نے سب کو مخاطب کیا ’’بے وقوفو! وزیر صاحب نے نون لیگ کے رہنما حنیف عباسی کا یہ انکشاف پڑھا ہے کہ سندھ کے ایک ہزار سات سو سکولوں پر وڈیرے قابض ہیں۔ یقیناً ان کے رونے کی وجہ یہ انکشاف ہے۔ کون پتھر دل ہو گا جو اس شرم ناک بات پر آنسو نہیں بہائے گا۔
ایک جوائنٹ سیکرٹری نے دھکا دے کر ڈپٹی سیکرٹری کو آگے سے ہٹایا اور کہنے لگا کہ وزیر صاحب قومی اسمبلی کے ان اٹھارہ ارکان کی دیانتداری، شرافت اور حلال خوری پر رو رہے ہیں جو کرایہ ادا کئے بغیر گورنمنٹ ہوسٹل میں رہ رہے ہیں اور انہوں نے ہزاروں لاکھوں روپے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو دینے ہیں اور نہیں دے رہے اور دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ چوہوں کی طرح دبک کر بیٹھا ہے اور کوئی ایکشن نہیں لے رہا۔ وزیر صاحب کو افسوس ہے کہ وہ اتنی ایماندار برداری سے تعلق رکھتے ہیں!
وزارت کا ایک ڈرائیور اٹھا اور اس نے تقریر کرنے کے انداز میں خدشہ ظاہر کیا کہ شاید وزیر صاحب اس لئے سسکیاں بھر رہے ہیں کہ جناب امین فہیم وزیر تجارت نے اپنے دور وزارت کے پہلے ہی سال تیس مہنگی
LUXURY
گاڑیاں خرید لیں جن پر چار کروڑ روپے خرچ ہوئے اور یہ وہی سال ہے جس کے دوران وفاقی وزیر خزانہ کے بیان کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کا قرض لیا ہے۔ وزیر صاحب یقیناً جناب امین فہیم کی حب الوطنی اور دل سوزی و درد مندی پر رو رہے ہیں۔ اس سے پہلے جب جناب امین فہیم نے اپنی صاحبزادی کو مقابلے کا امتحان پاس کئے بغیر فارن سروس میں فائز کرایا اور بیرون ملک وہ بھی یورپ میں… تعینات کرایا اور یوں میرٹ پر احسان عظیم کیا اور اپنے انصاف پسند اور خداترس ہونے کا ثبوت دیا تب بھی وزیر صاحب بھُوں بُھوں کر کے روئے تھے۔‘‘


خرافات سُن سُن کر میں تنگ آ چکا تھا۔ میں نے روتے روتے گھگھپانے کی خوفناک آواز نکالی، ایک بار پھر ہچکی باندھی اور ہاتھ کے اشارے سے سب کو خاموش کیا اور کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس ملک کے عوام کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور ہم ہیں کہ عوام کیلئے کچھ بھی نہیں کر رہے۔ ہم کتنے بے حس کتنے سنگ دل اور کتنے ظالم ہیں! یہ کہہ کر میں نے ایک دردناک چیخ ماری جس سے سب حاضرین کا ترا نکل گیا۔ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں اپنا بیان جاری رکھا۔
’’محترمہ کے غم میں اور عوام کے درد میں دوسری وزارتوں نے بہت کچھ کیا ہے اور میری وزارت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ یہ جمود، یہ بے عملی ناقابل برداشت ہے اور یہی میرے رونے کا سبب ہے!‘‘


وفاقی سیکرٹری سے لے کر نائب قاصد تک سب ہمہ تن گوش تھے اور سب کے چہروں پر ندامت کے آثار ہویدا تھے… کچھ افسروں نے تو باقاعدہ اپنے چہروں اور سینوں پر دو ہتھڑ مارنے شروع کر دیئے۔ میں نے تقریر میں سوز پیدا کیا اور کہا کہ رونے پیٹنے سے کیا فائدہ! ہمیں چاہیے کہ میدان عمل میں آگے بڑھیں۔ دیکھو، ہر وزارت اخبارات میں نصف اور چوتھائی صفحے کے اشتہارات شائع کرا رہی ہے جن پر محترمہ شہید کی اور صدر زرداری اور وزیراعظم کی اور وزیر کی تصویر ہوتی ہے۔
وزارت صنعت نے گوجرانوالہ ٹول سنٹر کا لاکھوں، کروڑوں روپے کا اشتہار شائع کر کے ملک کو صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں لاکھڑا کیا ہے۔ پرائیویٹائزیشن کمیشن کے وزیر نے بھی خوب خوب اشتہار بازی کی ہے۔ متروکہ املاک کے چیئرمین تو سب سے بازی لے گئے اور محترمہ فرزانہ راجہ بھی قوم کی اس خدمت میں پیچھے نہ رہیں۔ اس طرح عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کیا ہوا قومی خزانہ عوام ہی پر خرچ ہوا کیونکہ عوام ہی نے یہ اشتہارات پڑھے اور ان کے دل اور جگر ٹھنڈے ہوئے۔ بدبختو! تم بھی میری طرف سے اور میری وزارت کی طرف سے پورے صفحے کا اشتہار تمام قومی اور علاقائی اخبارات میں شائع کراؤ۔ اس پر نہ صرف صدر زرداری اور بے نظیر شہید اور وزیراعظم گیلانی کی تصویریں ہوں بلکہ محترمہ نصرت بھٹو، بلاول، ان کی دونوں بہنوں ان کی خالہ محترمہ اور دونوں شہید ماموؤں کی تصویریں بھی ہوں۔


وزیراعظم گیلانی صاحب کے بھی تمام قریبی رشتہ داروں کی تصویریں اس اشتہار میں ہوں۔ رہا، میں تو میری، میری گھر والی کی اور میرے بال بچوں کی تصویریں بھی ضرور ہوں۔ ہر ایک نے پارٹی کا جھنڈا پکڑا ہوا ہو اور عوام کی خدمت کرتا ہوا نظر آئے۔ اب اشتہار جاذب نظر ہو اور کئی رنگوں پر مشتمل ہوتا کہ وزارت کا پورے سال کا بجٹ اس پر قربان ہو جائے۔ یہ ملک اسی طرح ترقی کرے گا۔ محترمہ شہید کو نذرانہ پیش کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے اور یہی وہ بہترین دو ہتھڑ ہے جو ہم اپنے سینوں پر نہیں بلکہ چہروں پر مار سکتے ہیں!‘‘

Tuesday, January 12, 2010

بابا جی


مسئلے تو بہت ہیں مثلاً یہ کہ وزیر مملکت برائے داخلہ حکومتِ پاکستان نے دو ماہ کے عرصہ میں ممنوعہ بور کے صرف پانچ ہزار چھ سو اناسی لائسنس جاری کئے ہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے اس پر ’تشویش‘ کا باقاعدہ اظہار کیا ہے اور ’انصاف‘ کے تقاضے پورے کرنے کیلئے تین سیکشن افسروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے! سیکشن افسروں کا اصل جرم غالباً یہ ہے کہ وہ اس طبقے سے تعلق نہیں رکھتے جس طبقے سے سینٹ کے ارکان تعلق رکھتے ہیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ کا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے اگر ’انصاف‘ کے تقاضے پورے کرنے ہوں تو یہ تجویز بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ گرفتار شدہ سیکشن افسر قطعاً رہا نہ کئے جائیں اور وزیر مملکت برائے داخلہ بدستور لائسنس جاری کرتے ہیں۔ اخبارات نے تو یہ اطمینان بخش خبر بھی شائع کی ہے کہ جس پرائیویٹ (یعنی غیر سرکاری) شخص کو اسلحہ کے شعبے کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کام دیا گیا تھا، اسی نے چھبیس ہزار لائسنس خود ہی جاری کر دئیے!۔ مسئلے بہت ہیں مثلاً حافظ حسین احمد صاحب اور محمد علی درانی صاحب نے بہاولپور میں پریس کانفرنس سے اکٹھا خطاب کیا لیکن یہ اصل خبر نہیں ہے۔ اصل خبر یہ ہے کہ حافظ حسین احمد نے پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ اکبر بگتی کے قاتل پرویز مشرف کو کٹہرے میں لایا جائے اور محمد علی درانی نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ جب پرویز مشرف عازمِ برطانیہ ہو رہے تھے تو قاف لیگ نے یہ نہیں کہاکہ …؎


میرے قاتل مرے دل دار! مرے پاس رہو

تو کیا محمد علی درانی قاف لیگ کا حصہ نہیں؟ اس سوال کا جواب قاف لیگ ہی دے سکتی ہے یا درانی صاحب خود۔ لیکن درانی صاحب بھی کیا کریں۔ قاف لیگ تو خود حصوں بخروں کا شکار ہوگئی ہے…؎

مرے لاشے کے ٹکڑے دفن کرنا سو مزاروں میں

بنے گا کوئی تو تیغِ ستم کی یادگاروں میں

مسئلے تو اور بھی ہیں لیکن درمیان میں بابا جی آ گئے ہیں۔ کیوں آ گئے ہیں؟ اس کی وجہ کالم کے آخر میں عرض کی جائیگی۔بابا جی بیمار پڑ گئے۔ ٹائی فائیڈ کا علاج اس وقت تک تسلی بخش نہیں دریافت ہوا تھا۔ بیماری کی شدت سے انکی آواز تک بند ہوگئی۔ بابا جی کے تین بیٹے تھے۔ اس بیماری کے دوران تینوں بیٹوں نے باپ کی اس قدر خدمت کی کہ انکی خدمت پورے علاقے میں ضرب المثل بن گئی۔ لکڑی کی طرح پہروں بابا جی کی چارپائی کیساتھ کھڑے رہتے۔ کوئی ٹانگوں کو دبا رہا تھا تو کوئی تکیہ بنا ہوا تھا۔ انہوں نے دور دور سے دوائیں منگوائیں۔معجزہ ہوا اور بابا جی رْوبصحت ہونا شروع ہوگئے۔ آواز بحال ہوگئی۔ پہچاننا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ اٹھ کر بیٹھ جانے لگے۔ گھوڑی منگوا کر چند منٹ سواری بھی کی۔ عالم اور فاضل تھے۔ بیٹوں کے ساتھ گفتگو میں علم و حکمت کے موتی بکھیرنے لگے۔ پھر زندگی معمول پر آنے لگی۔ ایک دفعہ انہوں نے بیٹوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ ویسے تو میں اب اللہ کا شکر ہے تندرست ہوں لیکن ٹانگوں میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ ایک بیٹے نے بہت ہی ادب کیساتھ اور ذرا سی بذلہ سنجی کیساتھ جواب دیا کہ ’آپ نے شکار تھوڑا ہی کرنا ہے‘۔ بابا جی نے بیٹے کا یہ فقرہ سنا تو مسکرائے اور کہنے لگے کہ میں چالیس سال سے اس فقرے کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ تو مجھے معلوم تھا کہ یہ فقرہ کہا جائیگا لیکن میں سوچا یہ کرتا تھاکہ تینوں میں سے کون سا بیٹا میرا قرض مجھے واپس کریگا۔ میری والدہ نے مجھے کہا تھا کہ بیٹا ٹانگوں میں کمزوری محسوس ہوتی ہے تو میں نے کہا تھا امی! آپ نے کون سے ہرن شکار کرنے ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے بھی ایسا ہی کہا جائے گا سو، آج جو ہونا تھا، ہوا !

جن چند اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں ملتا ہے بلکہ آخرت کے علاوہ اس دنیا میں ’بھی‘ ملتا ہے، ماں باپ کیساتھ حسنِ سلوک یا بدسلوکی اْنہی اعمال میں سے ہے۔ یوں تو کسی کو پست سمجھ کر اسکے ساتھ حقارت سے پیش آنا بھی ایسا ہی عمل ہے اور اس کا بدلہ بھی اکثر و بیشتر اسی دنیا میں ملتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ ایک نہ ایک دن اسی ’پست‘ شخص کی خدمت میں حاضر ہونا پڑتا ہے! لیکن صدیوں کا تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ جس طرح دو اور دو ہمیشہ چار ہوتے ہیں بالکل اسی طرح والدین کیساتھ جو سلوک روا رکھا جائے، وہ ضرور پیش آتا ہے! اس معا ملے میں بدبختی، بدبختی ہی کو جنم دیتی ہے اور سعادت مندی خوش قسمتی کا باعث بنتی ہے، جنہوں نے بوڑھی بیمار ماں کو نوکروں کی کوٹھڑیوں میں رکھا تھا وہ دولت مند جانوروں کے باڑے میں مرے۔ اگر کسی شقی القلب نے باپ پر ہاتھ اٹھایا تو اسے بھی اس کی اولاد نے مارا اور اسی جگہ جہاں اس نے ہاتھ اٹھایا تھا۔ یہ الگ بات کہ اب اس جگہ بازار تھا! جو باپ کے جوتے اٹھا کر مسجد کے باہر انتظار کرتے تھے کہ باپ نکلے تو اس کے پاؤں زمین پر پڑنے سے پہلے جوتے پیش کریں، انکے سامنے انکے بیٹوں نے جوتے سیدھے کئے۔ اورنگ زیب عالم گیر نے اپنے باپ کو قید میں رکھا۔ اْس کا بیٹا اْس کے مرنے کی دعائیں کرتا تھا۔ اورنگ زیب کو معلوم ہوا تو اس نے اسے خط لکھا۔ (علامہ اقبال نے پیامِ مشرق میں اس خط کو منظوم کیا ہے) اس کالم نگار نے عجیب عجیب مناظر دیکھتے ہیں ایک عالم دین کو دیکھا جو باپ کیساتھ گستاخی کے مرتکب ہو رہے تھے۔ گاؤں کے ان پڑھ اکھڑ بھائیوں کو دیکھا جو باپ کے سامنے بولنے کی ہمت نہ رکھتے تھے اور باپ کے قدموں کی آہٹ سن کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ ایک حافظ قرآن کو رمضان میں تراویح پڑھاتے دیکھا۔ جب وہ پندرہویں پارے کی اس آیت پر پہنچے کہ اْنکے سامنے اْف تک نہ کرو، نہ ہی انہیں جھڑکو اور اپنے بازوؤں کو انکے سامنے عاجزی سے جھکائے رکھو اور نرمی کا معاملہ کرو، تو ان کی آواز بھّرا گئی۔ اس وقت انکے والد عین انکے پیچھے کھڑے انکی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے۔ وہ واقعہ یاد آ گیا جس میں شاعروں کو گرہ لگانے کیلئے یہ مصرع دیا گیا …؎

میں تھا نماز میں، مری کعبے کو پیٹھ تھی

شاعر حیران تھے کہ اس پر گرہ کیوں کر لگائیں۔ آخر نماز میں کعبے کی طرف پیٹھ کیسے ہو سکتی ہے؟ آخر ایک شاعر کی سمجھ میں معاملہ آ گیا اور اس نے شعر کو اس طرح مکمل کیا۔

میں تھا نماز میں، مری کعبے کو پیٹھ تھی

میں تھا امام اور مرے والد تھے مقتدی

اللہ نے اپنی آخر کتاب میں جہاں اولاد کو انسان کیلئے فتنہ قرار دیا، جہاں ایک سے زیادہ مرتبہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کی۔ یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اپنے بچوں پر رحم کرو اور ان کا خیال رکھو‘ اس لئے کہ اولاد کے ساتھ محبت اور انکی خاطر قربانی تو ماں باپ کی فطرت میں رکھ دی گئی۔ مشکل کام تو یہ ہے کہ ماں باپ کو اولاد پر ترجیح دی جائے۔ ہم نے یہ واقعہ بھی سن رکھا ہے کہ ایک بوڑھا اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیٹے کی شکایت کی کہ جب وہ چھوٹا تھا تو میں اپنا مال اس پر خرچ کرتا رہا اور اب وہ میرا خیال نہیں رکھتا اور مجھ سے اپنا مال بچا کر رکھتا ہے۔ آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپکے منہ سے وہ فقرہ ادا ہوا جو قیامت تک آنیوالے مسلمانوں کیلئے قانون بن گیا۔ آپؐ نے اسکے بیٹے سے فرمایا کہ’ تم اور تمہارا مال۔ سب تمہارے باپ کی ملکیت ہیں…‘‘!جو جانتے ہیں وہ تو جانتے ہیں، جو نہیں جانتے وہ جان لیں کہ کڑوا تْنبا بو کر سیب کا پھل کسی نے نہیں کھایا اور راستے میں کانٹے بچھا کر پھولوں پر کسی نے پاؤں نہیں رکھے گندم بونے والے کو گندم ملے گی اور جو بولنے والے کو جو ہی کاٹنے ہیں۔ اگر ماں باپ توجہ اور التفات سے محروم ہیں تو نماز اور حج کوئی کام نہیں آئینگے۔بوڑھے والدین کی خدمت نہ کرنے سے بڑی بدبختی ابھی وجود ہی میں نہیں آئی۔ ایک بوڑھے شخص نے، جسکی اولاد اسکے بڑھاپے اور ضعف کا خیال نہیں رکھ رہی، ہمیں اپنی حالتِ زار سنائی۔ یہی ان سطور کے لکھنے کا باعث بنا۔ بھوک اور ناکامی کی دعوت دینے کا آسان ترین نسخہ یہی ہے کہ ماں باپ کو چھوڑ دیا جائے۔ اس لئے کہ سبز گنبد کے نیچے استراحت فرمانے والے نے یہ اصول بتا دیا تھا کہ ’تمہیں تمہارے ضعیفوں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور اْنہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔

Saturday, January 09, 2010

چیونٹیاں


جنگل ہے اور گھنا جنگل، راستہ ہے نہ روشنی، الامان والحفیظ!



طُوس فردوسی اور امام غزالیؒ کا وطن ہے، اسی طوس سے ایک شاعر اسدی طوسی بھی تھا کچھ تذکرہ نویس اسدی کو فردوسی کا استاد کہتے ہیں لیکن شبلی نعمانی اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ اسدی طوسی گھنے جنگل کی تعریف یُوں کرتا ہے…؎


چنان تنگ ودرہم یکی بیشہ بُود


کہ رفتن دران کارِ اندیشہ بُود


ایک جنگا اتنا گھنا تھا کہ اس میں صرف خیال ہی چل سکتا تھا…؎


درخشانش سر در کشیدہ بسر


چو خط دبیراں یک اندر دگر


اونچے درخت یوں پاس پاس تھے جیسے خوش نویسوں کی سطریں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں…؎


کماں شاخہاشاں، ہمہ گرز بار


سپر برگ ہا و سنان نوک خار


ان درختوں کی شاخیں کمان تھیں، ان کے پھل گُرز تھے ان کے پتے ڈھال تھے اور کانٹے برچھیوں کی مثال تھے…؎


نتابیدہ اندر وی از چرخ ہور


ز تنگی رہش پوست رفتی زمور


اس جنگل میں آسمان سے کبھی سورج نہ چمکا تھا اور اتنا گھنا تھا کہ چیونٹی بھی اس میں چلتی تو اسکی کھال ادھڑنے لگتی۔


جنگل ہے اور گھنا جنگل، راستہ ہے نہ روشنی، لیکن یہاں درخت نہیں ہیں جو سورج کی کرنیں روکے ہوئے ہیں یہاں مردم خور چیتے، خونخوار بھیڑیے، چالاک لومڑیاں، زہریلے اژدھے، ڈنگ مارنے والے بچھو اور ٹکریں مار مار کر ہلاک کر دینے والے گینڈے ہیں جن سے جنگل بھرا پڑا ہے۔ عام پاکستانی وہ چیونٹی ہے جو اس جنگل میں چلنے کی کوشش کرے تو اس کی کھال اتر جاتی ہے اور وہ زخموں سے چور، سسک سسک کر مر جاتا ہے۔ ایل پی جی کوٹہ جن کو دیا گیا ان کے ذرا نام دیکھئے، اعتزاز احسن کی اہلیہ، نیب کے سربراہ جنرل منیر حفیظ کے عزیز، جنرل معین حیدر اور چودھری شجاعت الٰہی کے داماد، جنرل خالد مقبول کی صاحبزادی، علی رضا نیشنل بینک کے صدر کا صاحبزادہ، آفتاب شیرپاؤ کی فیملی، جنرل پرویز مشرف کے بہت سے قریبی دوست۔ کیا پاکستان ان لوگوں کے لئے وجود میں آیا تھا؟ کیا یہ وہ مسلمان کی اقتصادی ترقی تھی جس کیلئے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا اور ہزاروں مسلمان عورتیں مشرقی پنجاب میں سکھوں کے گھروں میں رہ گئیں؟ آٹا، چینی، بجلی، گیس کو ترستے ہوئے عوام اور قلت سے فائدہ اٹھا کر اربوں روپے کمانے والے چند ڈاکو…؟ کیا یہ تھا وہ خواب جو قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں نے دیکھا تھا؟


جنگل ہے اور گھنا جنگل، راستہ ہے نہ روشنی، بھیڑیے،  مگرمچھ، شیر، تیندوے، سانپ اور بچھو ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ مویشیوں کی دیکھ بھال اور دودھ دہی (ڈیری) کے لئے ایک الگ وزارت بنائی گئی۔ MINISTARY OF LIVE STOCK AND DAIRY DEVELOPMENT
ذرا وزارت کا کروفر والا نام ملاحظہ فرمائیے اور کام یہ ہے کہ ایک سو سے زیادہ ملازم، جو تنخواہ وزارت سے لے رہے ہیں، کام پرائیویٹ فارم ہاؤسوں اور کوٹھیوں بنگلوں میں کر رہے ہیں، یہ فارم ہاؤس اٹک چکوال اور جہلم میں واقع ہیں۔
دوسری طرف اخبارات واویلا مچا رہے ہیں کہ اسی وزارت کے تحت چلنے والے ہسپتالوں میں لاکھوں آسامیاں افرادی قوت کا انتظار کر رہی ہیں اور یہ سب کچھ وزیراعظم کی عین ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔تقریروں میں میرٹ میرٹ کی تسبیح کرنے والے وزیراعظم کی حکومت کی وزارت خود قائمہ کمیٹی کو بتاتی ہے کہ ستر سے زیادہ سرکاری مکان سفارش کی بنیاد پر الاٹ ہوئے، کن لوگوں کو الاٹ ہوئے؟ ان کو جو فہرست کے لحاظ سے حق دار نہیں، کن لوگوں نے سفارش کی؟ وزیر اور دوسرے لوگ جو اقتدار پر قابض ہیں، کن لوگوں کی حق تلفی ہوئی؟ وہ جن کے پاس سفارش ہے نہ پیسہ جو عام سرکاری ملازم ہیں، جن کی جیب میں کوئی وزیر ہے نہ ایم این اے، نہ سینیٹر۔ یہ سب کچھ اخبارات میں شائع ہوتا ہے کسی کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی، کوئی وزیر، کوئی ایم این اے، کوئی ترجمان معذرت تک نہیں کرتا، پیغام واضح ہے۔ اس جنگل میں جس کی سفارش نہیں ہو گی اس کا کام نہیں ہوگا۔ چیونٹیاں چلنے کی کوشش کریں گی تو ان کی کھال اُدھڑ کر رہ جائے گی!


جنگل، گھنا سیاہ جنگل، درندوں سے بھرا ہوا جنگل، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی بہن گریڈ بیس میں ہے لیکن اسے گریڈ بائیس پر فائز کیا جاتا ہے اسی پرنسپل سیکرٹری کے فرسٹ کزن کو متبادل توانائی کے ترقیاتی بورڈ کا چیئرمین لگایا جاتا ہے ابھی انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ ابھی حق ’’حقدار‘‘ کو نہیں ملا۔ اسی این آر او زدہ پرنسپل سیکرٹری کو ریٹائرمنٹ کے بعد ایشیائی ترقیاتی بنک میں پاکستان کا نمائندہ مقرر کر کے منیلا (فلپائن) بھیجا جاتا ہے۔ ایک اور پرنسپل سیکرٹری ریٹائر ہوتا ہے تو وزیراعظم اسے بھاری تنخواہ پر بجلی کی ریگولیٹری اتھارٹی میں ’’تعینات‘‘ کرتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کتنے عرصے کے لئے؟ پانچ سال کیلئے، جب تک کہ وہ شخص پینسٹھ برس کا نہ ہو جائے ۔کوئی اصول؟، کوئی اشتہار؟کتنے امیدوار تھے جن میں سے یہ انتخاب ہوا؟ کیا یہ وہ میرٹ ہے جس کا ذکر ہر تقریر میں کیا جاتا ہے؟ پارلیمنٹ بے جان ہے، دنیا کی سب سے بڑی کابینہ جی جناب اور یس سر کہنے والوں پر مشتمل ہے۔ لوگ بھیڑ بکریاں ہیں جنہیں مار پیٹ کر آٹے چینی اور سی این جی کی قطاروں میں رکھا جا رہا ہے اور آٹے چینی اور سی این جی کے بحران سے فائدہ اٹھا کر کروڑوں اربوں روپے ہڑپ کرنیوالے سانپ اور بچھو اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں؟ کوئی فریاد، کوئی زاری، کوئی آنسو، کوئی سسکی، کوئی ہچکی کام نہیں آ سکتی۔ چند خاندان، چند افراد جو ہر حکومت میں ہیں، ہر سیاسی پارٹی میں ہیں۔ باقی چیونٹیاں ہیں جن کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ کھال اُدھڑواتی رہیں۔


فریب دیتے ہیں وہ جو کہتے ہیں اس ملک کا مسئلہ دہشت گردی ہے، اپنے آپکو نہیں، عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ وہ جو طالبان کانام لے کر لوگوں کو ڈراتے ہیں اس ملک کا مسئلہ طالبان ہیں نہ نام نہاد دہشت گرد۔ امریکہ ہے نہ اسرائیل، اس ملک کا اصل مسئلہ وہ خاندان ہیں جو سیاست اور حکومت پر قابض ہیں اور نسل در نسل نام نہاد منتخب اداروں میں اپنی موجودگی کی نحوست پھیلاتے ہیں۔ اس ملک کا مسئلہ وہ جرنیل ہیں جنہوں نے دولت کے انبار اکٹھے کئے ہیں اور ابھی تک ان کے تنور نما شکم نہیں بھرے۔ ابھی انہیں گیس کے مزید کوٹے درکار ہیں! اس ملک کا مسئلہ وہ سیاست دان ہیں جن کے کارخانے، جن کی رہائش گاہیں، جن کے پراپرٹی کے کاروبار، ملک سے باہر ہیں اور جو اپنے آپکو جمہوری لیڈر نہیں، موروثی بادشاہ سمجھتے ہیں۔کیا کسی نے سوچا ہے کہ بھارت میں متوسط طبقہ پھیل رہا ہے اور پاکستان میں سکڑ رہا ہے کیوں؟ کیا کسی نے سوچا ہے کہ بھارت میں REVERSE-BRAIN-DRAIN 
شروع ہو چکا ہے یعنی بیرونِ ملک رہنے والے اور کام کرنے والے بھارتی اپنی مرضی سے اپنی خوشی سے بھارت واپس آ رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں لوگوں کو بیرون ملک، ہجرت کروانیوالی کمپنیوں کی تعداد میں ہوش رُبا اضافہ ہو رہا ہے کیوں؟ اگر نائن الیون کے سانحے کے بعد پابندیاں نہ لگتیں تو خدا کی قسم! پاکستان میں کوئی ایک تعلیم یافتہ شخص بھی نہ بچتا! صرف معاوضے پر کام کرنیوالے، سیاسی پارٹیوں کے ’’کارندے‘‘ اس ملک میں رہ رہے ہوتے۔ کل ہی کی خبر ہے کہ راولپنڈی میں منعقد ہونیوالا ایک سیاسی پارٹی کا کنونشن کارکنوں کی ہاتھا پائی کی نذر ہو گیا۔ کارکن سٹیج پر لگی ہوئی نشستوں پر بیٹھنا چاہتے تھے، روکنے پر انہوں نے ایک دوسرے کے گریبان پکڑ لئے، خوب مار کٹائی ہوئی جس ملک میں بنیادی کردار سفارش اور روپے کا ہو اور سیاسی پارٹیوں کے اندر الیکشن کے مستقبل بعید میں بھی کوئی آثار نہ ہوں اس ملک میں یہی کچھ ہو گا۔


رہیں چیونٹیاں تو انکی کھال اُدھڑتی ہی رہے گی!

Wednesday, January 06, 2010

امریکہ کا محسن


ڈاکٹر فاطمہ حسین دلی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ان کا تعلق بھارت ہی سے ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کی نئی تصنیف کی تقریب رونمائی حکومت پاکستان (وزارت تعلیم) کے ماتحت ادارے پاکستان اکادمی ادبیات نے منعقد کی ہے۔ پاکستان اکادمی ادبیات جب جولائی 1976ء میں قائم ہوئی تو حکومت پاکستان نے اسکے قیام کا مقصد پاکستانی ادب کی ترویج اور پاکستانی ادیبوں کی بہبود بیان کیا تھا۔ اکادمی کی سرکاری ویب سائٹ پر کم از کم یہی لکھا ہوا ہے۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر (pal.gov.pk) ٹائپ کریں تو اکادمی ادبیات کے بیس اغراض و مقاصد پر نظر پڑیگی۔ اس میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ بھارتی ادیبوں کی فلاح و بہبود بھی حکومت پاکستان کے اس ادارے کے فرائض میں شامل ہوگی جو پاکستانیوں کے ادا کردہ ٹیکسوں سے پرورش پا رہا ہے۔ ہمیں قطعاً یہ اعتراض نہیں کہ بھارتی ادیبوں کی پذیرائی حکومت پاکستان کیوں کر رہی ہے۔ ہم تو صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت پاکستان، وزارت تعلیم کے اس نیم خود مختار ادارے کے اغراض و مقاصد میں ترمیم کرکے اس میں ’’پاکستانی ادیبوں‘‘ کے ساتھ ’’بھارتی ادیبوں‘‘ کے الفاظ بھی شامل کردے تاکہ قانونی سقم دور ہو جائے۔ بھارت کا حجم اور آبادی دونوں پاکستان سے زیادہ ہیں اس لئے انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اگر اکادمی ادبیات پاکستان چار پاکستانی ادیبوں کی تصانیف کی تقاریب رونمائی برپا کرتی ہے تو بھارت کے آٹھ بلکہ دس بارہ ادیبوں کی کتابوں کی پذیرائی کی جائے۔ ہم تو یہاں تک تجویز کرینگے کہ ہماری وزارت خزانہ بھارت کی فلاح وبہبود کیلئے باقاعدہ بجٹ بنائے اور یہ رقم بھارت کو پیش کردی جائے تاکہ مستقبل میں ڈاکٹر فاطمہ حسین صاحبہ اور دیگر بھارتی ادیبوں کو یہاں تشریف لانے کی زحمت نہ فرمانا پڑے اور انکی تصانیف دل پذیر کی رونمائی کی تقاریب دہلی ہی میں منعقد ہو جائیں اور اخراجات حکومت پاکستان برداشت کرے۔ شنید ہے کہ محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کا ازدواجی رشتہ ایک پاکستانی ادیب سے ہے۔ اگر وہ نجی طور پر پاکستان آتی ہیں تو سو بار نہیں ہزار بارتشریف لائیں ہم تو یہ بھی نہیں کہتے کہ اکادمی ادبیات اقربا پروری کا ارتکاب کر رہی ہے!!



اکادمی ادبیات پاکستان کی ’’پاکستانیت‘‘ کا تذکرہ تو یوں ہی درمیان میں آگیا، ہم تو قارئین کو ایک اور روح فرسا خبردینا چاہتے ہیں۔ ہمارے پڑھنے والوں کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہے کہ ہم آج تک کسی امتحان میں فیل نہیں ہوئے۔ بلکہ اکثر امتحانات میں پوزیشن لیتے رہے ہیں۔ ہم جب پانچویں جماعت کے طالب علم تھے اور گورنمنٹ ہائی سکول پنڈی گھیپ میں پڑھتے تھے تو وظیفے کا امتحان دینے دو میل (بسال) کے قصبے میں گئے تھے اور کامیاب ہوئے تھے جسکے نتیجے میں چھٹی ساتویں اور آٹھویں جماعت میں چار روپے ماہانہ وظیفہ حاصل کرتے رہے۔ اول آنے اور وظیفہ حاصل کرنے کی یہ صورت حال ایم اے تک برقرار رہی۔ مرکزی حکومت کی اعلیٰ ملازمتوں کے مقابلے کے امتحان میں بھی ہم کامیاب ہوئے‘ مگر افسوس! صد افسوس! ہیہات! ہیہات! ان ساری کامیابیوں اور کامرانیوں پر پانی پھر گیا۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ جنرل نالج کے ایک مقابلے میں ہم فیل ہوگئے ہیں۔ یہ ناکامی، یہ رسوائی ہمیں اس بڑھاپے میں دیکھنا پڑی ہے۔ ہمارے صاحبزادے اور بہو جو ملک سے باہر ہیں، ہماری ناکامی کا سن کر دیار غیر میں اپنے سفید فام پڑوسیوں اور دوستوں سے منہ چھپاتے پھرر ہے ہیں۔ ہماری بیٹی یہ خبر اپنے شوہر سے چھپانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ بیچاری کی ’’پوزیشن‘‘ خراب نہ ہو۔ ہماری چار سالہ نواسی ہم سے پوچھتی ہے ’’نانا ابو! آپ اتنے نالائق کیوں نکلے؟‘‘


تفصیل اس دردناک اجمال کی یہ ہے کہ واشنگٹن میں چند دن پہلے جنرل نالج کا ایک مقابلہ منعقد ہوا۔ مواصلاتی ترقی کے اس زمانے میں ہم بھی یہاں بیٹھے بیٹھے سات سمندر پار ہونیوالے اس مقابلے میں شریک ہوئے۔ ہم نے تقریباً سارے سوالوں کے جوابات صحیح دیئے لیکن مقطع میں سخن گسترانہ بات آپڑی۔ آخری سوال لازمی تھا اور اسی میں ہمیں واشنگٹن نے ناکام قرار دیا۔ سوال یہ تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی (عرفِ عام میں امریکہ اسے ہی کہتے ہیں) کل کتنی ریاستیں ہیں؟ ہم نے اپنی دانست میں درست جواب دیا کہ پچاس (نصف جن کی پچیس ہوتی ہیں) ہم نے اس ضمن میں تفصیل بھی بیان کی کہ جب امریکہ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تو اس وقت تیرہ ریاستیں تھیں جو دراصل تیرہ نو آبادیاں تھیں۔جب غلامی کے مسئلے پر خانہ جنگی ہوئی(1861-1865ئ) تو مغربی ورجینیا، ورجینیا سے الگ ہوگیا۔ دارالحکومت کا علاقہ واشنگٹن ڈی۔سی (ڈسٹرکٹ آف کولمبیا) ان ریاستوں میں شامل نہیں۔ سب سے کم عمر ریاست ہوائی ہے جو دراصل بحرالکاہل میں ایک سے زیادہ جزیروں پر مشتمل ہے اور 1959ء میں امریکہ کا حصہ بنی۔ الاسکا کی ریاست بھی جغرافیائی لحاظ سے امریکہ سے کٹی ہوئی ہے اور درمیان میں کینیڈا پڑتا ہے۔ الاسکا کا علاقہ امریکہ نے 1867ء میں روس سے ستر لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔ یعنی دو سینٹ فی ایکڑ، سائز کے لحاظ سے الاسکا امریکہ کی سب سے بڑی ریاست ہے۔


قصہ مختصر ہم نے تفصیل سے جواب دیا۔ ایک ایک ریاست کے بارے میں بتایا اور کل تعداد تو جغرافیے اور تاریخ کی ساری کتابوں میں پچاس دی ہوئی ہے۔ امریکی انتخابات بھی انہی پچاس ریاستوں میں ہوتے ہیں۔ ہر پڑھا لکھا بلکہ نیم خواندہ شخص بھی بتا سکتا ہے کہ امریکہ کی ریاستوں کی تعداد پچاس ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں فیل کردیا گیا۔ ہم نے احتجاج کیا تو ہمیں عجیب و غریب منطق سے پالا پڑا۔ فیل کرنے والوں کی دلیل یہ تھی کہ یہ پچاس ریاستیں اسی لئے امریکہ کا حصہ سمجھی جاتی ہیں کہ ان میں امریکی بغیر کسی روک ٹوک کے جاسکتے ہیں۔ ان ریاستوں کے درمیان نقل و حرکت اور آمد و رفت کیلئے امریکیوں کو پاسپورٹ کی ضرورت ہے نہ ویزہ کی۔ ان ریاستوں میں امریکی سامان سے بھرے ہوئے بڑے بڑے کنٹینر لاسکتے ہیں۔ ان ریاستوں کے ہوائی اڈے امریکی جہازوں کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں جب چاہیں ان امریکی ریاستوں میں کسی کو بھی پکڑ سکتی ہیں۔ اب اگر یہ ساری شرطیں ایک اور ملک بھی پوری کرتا ہے اس ملک میں بھی امریکی جب چاہیں جاسکتے ہیں، انہیں پاسپورٹ کی ضرورت ہے نہ ویزے کی۔ وہ سامان سے بھرے ہوئے بڑے بڑے کنٹینر لاسکتے ہیں۔ اس ملک کے ہوائی اڈے امریکی جہازوں کیلئے اپنی آغوش میں لے رکھے ہیں۔ امریکی بلیک واٹر ہوں یا وائٹ واٹر، آزادی سے اس پورے ملک میں دندنا رہے ہیں، جس کو چاہیں پکڑ لیں، جس کو چاہیں، سرعام پیٹنا شروع کردیں۔ پولیس انہیں روک بھی لے تو صرف ایک ٹیلی فون کی مار ہے۔ فوراً چھوڑنا پڑتا ہے تو پھر امریکی ریاستوں اور اس ملک میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟


ہم تو جنرل نالج کے مقابلے میں ناکام ہوگئے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا (میرے منہ میں خاک) امریکی ایک آزاد ملک کو اپنی ریاست سمجھ رہے ہیں؟ اور ذرا ادھر دیکھئے۔ جنرل پرویز مشرف کیوں مسکرا رہا ہے؟ تو کیا وہ امریکیوں کا محسن ہے؟

Saturday, January 02, 2010

چرواہا


سبزہ زار دیکھ کر میں نے گاڑی روکی۔ کیا خوبصورت منظر تھا! ذرا فاصلے پر جھیل تھی۔ نیلے پانیوں کے اندر لہریں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ کنول کے پھول تیر رہے تھے اور سفید پرندے اُن پر اُڑ رہے تھے۔ ہَوا ٹھنڈی تھی۔ درخت جھوم رہے تھے۔ میں گاڑی سے اترا اور موبائل فون کے ضعیف کیمرے سے منظر کی تصویریں لینے لگا۔ اچانک ایک ٹیلے کی اوٹ سے دس بارہ سال کا لڑکا نمودار ہوا‘ اسکے ہاتھ میں لاٹھی تھی جس سے وہ اس ریوڑ کو ہانک رہا تھا جو اسکے آگے آگے بیزاری سے چل رہا تھا۔ میں نے لڑکے پر کوئی توجہ نہ دی لیکن میں ٹھٹھک گیا جب میرے نزدیک آ کر اس نے اچانک سلام دیا اور کہا ’’چاچا! تصویریں کھنیچ رہے ہو؟‘‘ ۔’’چاچا‘‘ کا لفظ یوں بھی چونکانے والا تھا۔ میرے بچوں کے دوست تو مجھے انکل کہتے ہیں! اور انکل ہی ان دنوں باعزت لفظ سمجھا جاتا ہے۔ جبھی تو صدر پاکستان نے بھی چند دن پہلے نوڈیرو میں تقریر کرتے ہوئے بلاول کے انکلوں کو سلام پیش کیا ہے۔ میں نے لڑکے کے سلام کا جواب دیا اور کہا کہ سفر کے دوران یہ منظر دل کو بھایا اور میں رُک گیا۔



’’چاچا! تصویر میں مجھے اور میرے مویشیوں کو نہ آنے دینا‘ تمہارے منظر کی خوبصورتی داغدار ہو جائے گی۔‘‘ میں نے اسے غور سے دیکھا وہ واقعی درست کہہ رہا تھا۔ اُس کے گال پچکے ہوئے تھے‘ رنگ زرد تھا‘ پاؤں میں پشاوری چپل تھی جو کسی زمانے میں سیاہ رنگ کی ہو گی سخت سردی میں اس نے ایک پتلی سی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔ میرے پاس سینڈوچ تھے ایک اسے دیا تو کہنے لگا ’’یہ شاید ڈبل روٹی ہے جو تم کھا رہے ہو۔‘‘ میں نے اسے بتایا کہ اسے سینڈوچ کہتے ہیں‘ اس نے مہربانی کہہ کے لینے سے انکار کر دیا۔ ’’میں صبح‘ باسی روٹی چائے کے ساتھ کھا کر آتا ہوں پھر دن بھر کچھ کھانے کی عادت نہیں ہے۔‘‘


’’تمہارے گاؤں میں سکول نہیں ہے؟‘‘


’’سکول تو ہے‘ ایک ماسٹر بھی ہے جو دن کے وقت اپنے کھیتوں میں بھی کام کرتا ہے۔‘‘


’’تو تم سکول میں پڑھتے کیوں نہیں؟‘‘


وہ عجیب انداز سے ہنسا جیسے مجھے احمق سمجھتا ہوں۔ ’’چاچا! تم بھی مست ہی ہو اور یوں پوچھتے ہو جیسے امریکہ کے رہنے والے ہو۔ میں سکول پڑھوں تو ڈنگر کون چَرائے گا؟ ابا تو زمیندار کے گھر میں کام کرتا ہے۔ زمیندار کی بیگاریں ہی ختم ہونے میں نہیں آتیں‘‘۔’’تمہارے باپ کو زمیندار کتنی تنخواہ دیتا ہے؟‘‘ وہ پھر زہر خند بکھیرنے لگا۔ ’’زمیندار نے کیا تنخواہ دینی ہے۔ مٹی اور راکھ! ہم اس کے مزارع ہیں‘ لیکن چاچا! تم میرا تاریخ جغرافیہ اور حدود اربعہ چھوڑو‘ میرے حالات تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گے کیونکہ تم شہر کے رہنے والے ہو اور شہر کے رہنے والوں کو پاکستان کے اتنے حصے ہی کا علم ہے جتنا حصہ ان کی بیمار نرگسی آنکھوں کو دکھائی دیتا ہے۔ یہ بتاؤ کہ جس وفاقی وزیر نے حال ہی میں سندھ کارڈ کھیلنے کی بات کی ہے یہ وہی تو نہیں جس نے کراچی میں اپنے بیٹے کی شادی پر کُنڈے سے بجلی کا ’’انتظام‘‘ کیا تھا؟ میں بھونچکا رہ گیا۔ کبھی اس کی شکل دیکھتا تھا اور کبھی بوسیدہ چپل کو جو اس کے پاؤں میں تھی۔ کیا یہ بارہ سالہ چرواہا وفاقی وزیر کی تضحیک کرنے کا اہل ہے؟ ’’تم ہمارے وفاقی وزیر کی شان میں گستاخی کر رہے ہو۔ اگر صاحبزادے کی شادی خانہ آبادی پر انہوں نے کُنڈے سے بجلی حاصل کی تو وہ ان کا حق تھا ایک وفاقی وزیر کچھ بھی کر سکتا ہے اور اگر انہوں نے سندھ کارڈ کھیلنے کی بات کی ہے تو ایک وفاقی وزیر کچھ بھی کہہ سکتا ہے تم کون ہوتے ہو اشرافیہ کی تضحیک کرنے والے؟ ’’چاچا! یہاں تو خفیہ اداروں کا کوئی ملازم بھی ارد گرد نہیں جس سے تم خوفزدہ رہتے ہو۔ کم از کم اس جنگل میں تو سچ کہو!‘‘


میں جھینپ گیا اور اُس کی ذہانت پر حیران ہو گیا لیکن فوراً اپنے عزت دار ہونے کا خیال آیا ’’میں کیوں خوفزدہ رہوں؟ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ میں تو وفاقی وزیروں کی دل سے عزت کرتا ہوں۔‘‘ چرواہے نے قہقہہ لگایا اور بیروں سے بھری ہوئی پوٹلی کھول کر میرے سامنے رکھ دی۔ اچانک اس نے ایک اور سوال کیا ’’یہ سندھ کے جس وزیر نے کہا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل پر ہم پاکستان توڑنا چاہتے تھے کیا یہ وہی ہے جس کی بیگم صاحبہ وفاقی اسمبلی کے سپیکر کے عہدے پر فائز ہیں؟‘‘


’’ہاں! وہی ہیں‘‘ اور میں ڈرنے لگا کہ جانے یہ کیا کہہ دے اور پھر اس نے کہہ بھی دیا۔ ’’تو پاکستان کی سپیکر اس کی بیگم صاحبہ ہیں‘ اسی کو توڑنے کی وہ بات کرتا ہے‘ یہ کس قماش کے لوگ اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں؟ یہ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرنے کے درپے ہیں اور جس ٹہنی پر بیٹھے ہیں‘ اسی کو کاٹنا چاہتے ہیں۔ یہ کتنے احسان فراموش اور طوطا چشم لوگ ہیں‘ بلکہ انہیں طوطا چشم کہنا دنیا بھر کے طوطوں کی توہین ہے۔ طوطے جیسے بھی ہیں‘ کم از کم دیکھنے میں تو خوبصورت اور معصوم ہیں۔! اور یہ پنجاب کا جو وزیر ہاتھ توڑنے کی بات کرتا ہے کیا یہ وہی ہے جو ایک طویل و عریض جسم کا مالک ہے؟‘‘


’’ہاں ۔ وہی ہے‘‘ میں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’واہ! کیا جسم پایا ہے اور کیا دماغ ہے اس کے اندر! اُسے میرا مشورہ پہنچا دینا کہ بات نہ کیا کرے کیوں کہ جیسے ہی وہ بولتا ہے‘ سارا تاثر زائل ہو جاتا ہے! اور یہ وزیراعظم کو کیا سوجھی کہ انہوں نے گوادر کے سمندر میں جنگی جہاز پر کابینہ کا اجلاس منعقد کر ڈالا؟


میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وزیراعظم آخر ملک کے بادشاہ ہیں‘ سیاہ و سفید کے مالک ہیں جو چاہیں کریں اور پھر گوادر ہمارے ملک کا حصہ ہے! لیکن اس نے نئے نئے نکتے نکالے۔


’’کیا کہا؟ وزیراعظم سیاہ و سفید کے مالک ہیں! سفید تو کچھ رہا ہی نہیں اور سیاہ کا مالک امریکہ ہے خواہ وہ دل ہیں یا اعمال نامے! اور گوادر ملک کا حصہ ہے تو ملک کا حصہ تو وزیرستان اور سوات بھی ہیں اور اورکزئی ایجنسی بھی۔ وزیراعظم وہاں کیوں نہیں جاتے؟ اور کیا وزیراعظم قوم کو بتانا پسند فرمائیں گے کہ جنگی جہاز میں کابینہ کا اجلاس منعقد کرنے پر قومی خزانے سے کتنی رقم خرچ کی گئی اور کابینہ کے کتنے ارکان اپنے خرچ پر گوادر تشریف لے گئے؟‘‘


میں نے اس منہ پھٹ چرواہے سے جان چھڑا لینے ہی میں عافیت سمجھی۔ میں اٹھا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔ لڑکا ایک بار پھر ہنسا۔ ’’چاچا ! لگتا ہے میری باتیں تمہیں بُری لگیں! لیکن ایک بات اور بھی سُنتے جاؤ۔ میری کوئی بھیڑ اگر ریوڑ سے غداری کرنے کا سوچے تو میں اسے ذبح کر دیتا ہوں‘ تم کیسے لوگ ہو کہ پاکستان توڑنے کی بات کرنے والوں اور علاقائی زہر کے کارڈ کھیلنے والوں کو قومی خزانے سے عیش و عشرت کروا رہے ہو اور کروائے جا رہے ہو؟ تم تو مجھ چرواہے سے بھی گئے گزرے ہو!‘‘
 

powered by worldwanders.com