Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, February 28, 2022

کچھ ہوتا ہے جب خلقِ خدا کچھ کہتی ہے




مشکل میں کام آنے والے حافظ شیرازی نے کہا تھا

غمِ غریبی و غربت چو بر نمی تابم
بشہر خود روَم و شہریارِ خود باشم
کہ جب بے وطنی اور مسافرت کا غم برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو (سوچتا ہوں ) اپنے شہر چلا چلا جاؤں اور اپنا مالک خود بنوں،مگر مسافرت کی کئی قسمیں ہیں۔ اپنے ملک میں ، اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے بھی کبھی کبھی بے چارگی کا احساس ہوتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے کوئی جائے پناہ نہیں۔
اچانک جسٹس وجیہ الدین کی طرف خیال چلا گیا۔ چند ہفتے ہوئے انہوں نے ایک بیان دیا۔ اس بیان پر ایک معروف ٹی وی چینل نے اپنے تجزیہ کاروں سے رائے مانگی۔ان صاحبانِ علم و دانش نے جو تبصرے کیے اور جس طرح کی باتیں جسٹس صاحب کے بارے میں کیں ، وہ سب یاد آنے لگیں۔ ان کا ذکر یہاں مطلوب نہیں کہ اپنا ڈپریشن پھیلانا کوئی اچھا کاروبار نہیں۔ غم غلط کرنے کے لیے ناصر کاظمی کا دیوان اٹھا لیا کہ خیالات کی رَو اپنا رُخ بدل لے۔ ناصر کاظمی( اور مجید امجد ) غم غلط کرنے میں دستگیری کرتے ہیں۔ کبھی غم میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔سیاسی صورتِ حال جس دل گرفتگی کی طرف لے جارہی ہے اور سچ بولنے والوں کے ساتھ یہ معاشرہ جو خیالات رکھتا ہے انہیں بھولنے کے لیے آپ بھی اس میگساری میں شریک ہوں۔
اے ہم سخن! وفا کا تقاضا ہے اب یہی
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی
کن بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کی نور نہ باتوں میں تازگی
بول اے مرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں!
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی
بازار بند، راستے سنسان، بے چراغ
وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں کوئی
گلیوں میں اب تو شام سے پھرتے ہیں پہرہ دار
ہے کوئی کوئی شمع، سو وہ بھی بجھی بجھی
اے روشنیٔ دیدہ و دل اب نظر بھی آ
دنیا ترے فراق میں اندھیر ہو گئی
٭......٭......٭
کیا تماشا ہے کہ بے ایامِ گْل
ٹہنیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہاں
ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے
اب تو خوش ہو جائیں اربابِ ہوس
جیسے وہ تھے ہم بھی ویسے ہو گئے
حسن اب ہنگامہ آرا ہو تو ہو
عشق کے دعوے تو جھوٹے ہو گئے
اے سکوتِ شامِ غم! یہ کیا ہوا
کیا وہ سب بیمار اچھے ہو گئے
آؤ ناصرؔ ہم بھی اپنے گھر چلیں
بند اس گھر کے دریچے ہو گئے
٭......٭......٭
پیارے دیس کی پیاری مٹی
سونے پر ہے بھاری مٹی
کیسے کیسے بُوٹے نکلے
لال ہوئی جب ساری مٹی
دُکھ کے آنسو سکھ کی یادیں
کھاری پانی کھاری مٹی
تیرے وعدے میرے دعوے
ہو گئے باری باری مٹی
گلیوں میں اُڑتی پھرتی ہے
تیرے ساتھ ہماری مٹی
٭......٭......٭
چند گھرانوں نے مل جل کر
کتنے گھروں کا حق چھینا ہے
باہر کی مٹی کے بدلے
گھر کا سونا بیچ دیا ہے
سب کا بوجھ اٹھانے والے
تو اس دنیا میں تنہا ہے
مَیلی چادر اوڑھنے والے
تیرے پاؤں تلے سونا ہے
گہری نیند سے جاگو ناصرؔ
وہ دیکھو سورج نکلا ہے
٭......٭......٭
رو نوَوردِ بیابانِ غم! صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر
تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک
کوئی دن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر
شہر اجڑے تو کیا ہے کشادہ زمینِ خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر
یہ محلاتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں ان کے علَم صبر کر صبر کر
دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر
لہلہائیں گی پھر کھیتیاں، کارواں کارواں
کھل کے برسے گا ابرِ کرم صبر کر صبر کر
کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے‘ جی جلا ڈھنگ سے
دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر
پہلے کھِل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریرِ قلم صبر کر صبر کر
درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر
دیکھ ناصرؔ زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بھول جا اس کے قول و قسم صبر کر صبر کر
٭......٭......٭
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے
یہ ٹھٹھری ہوئی لمبی راتیں کچھ پوچھتی ہیں
یہ خامشی آواز نما کچھ کہتی ہے
مہمان ہیں ہم مہمان سرا ہے یہ نگری
مہمانوں کو مہمان سرا کچھ کہتی ہے
بیدار رہو! بیدار رہو! بیدار رہو!
اے ہمسفرو! آوازِ درا کچھ کہتی ہے
ناصرؔ آشوبِ زمانہ سے غافل نہ رہو
کچھ ہوتا ہے جب خلق خدا کچھ کہتی ہے

Thursday, February 24, 2022

یہی تو نشانیاں ہیں جو قدرت دکھاتی ہے

اقتصادیات کے پروفیسر نے سبق دیا تھا کہ ایک تو ماں بننے والی خاتون خوشخبری کو زیادہ دیر نہیں چھپا سکتی دوسرے، افراط زر نہیں چھپ سکتا‘ مگر تیسری بات بتانا پروفیسر صاحب بھول گئے۔ مالِ حرام نہیں چھپ سکتا۔ قدرت اس طرح اسے سامنے لاتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ہر تدبیر ناکام ہو جاتی ہے۔ ہر پردہ اُٹھ جاتا ہے۔ جو طاقت زمین کے نیچے، بیج کو پھاڑ کر پودے کی صورت باہر نکال سکتی ہے اور ایک بیج کے بدلے اس پر سینکڑوں پھل لگا سکتی ہے وہ طاقت مالِ حرام کے اوپر پڑے ہوئے پردے کیوں نہیں تار تار کر سکتی؟
کیسے کیسے لوگ ہم پر مسلط کیے گئے! پھر ان کے جانے کے بعد ان کی ذریت!! کیسے کیسے خطاب دیے گئے۔ کیسے کیسے افراد کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا! ایک پوری نسل بھینٹ چڑھا دی گئی۔ سادہ لوح لوگوں کے جذباتی بچوں کو قربان کیا جاتا رہا۔ دوسری طرف اپنے بچوں کو سونے میں تولا جاتا رہا۔ کوئی بزنس میں پھلتا پھولتا رہا۔ کوئی بحر اوقیانوس کے اُس پار ڈگریاں لیتا رہا۔ ڈگریاں جن کا عام شہری کا بچہ خواب ہی دیکھ سکتا ہے! سرکاری ملازم تو بہت تھے‘ مگر چند تھے جو ملازمت ملازمت کھیلتے، خزانوں کے مالک بن گئے۔ پھر ملازمت کے بیج سے حکمرانی کا شجر پھوٹا۔ گھنا سایہ دار شجر! میووں سے لدا پھندا شجر! مگر قدرت کا ہاتھ نمودار ہوتا ہے اور ایک ہی وار سے شجر اکھڑ جاتا ہے! تنے سے نہیں! جڑوں سے!! خوش بخت اس سے عبرت پکڑتے ہیں! تائب ہوتے ہیں۔ جن کے دلوں پر پردے پڑے ہوتے ہیں وہ اپنی ڈگر پر ہی رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ کھڑکی سے موت کا پرندہ داخل ہوتا ہے اور جسم لے کر، دروازے سے باہر نکل جاتا ہے!
کون سا دھوکہ ہے جو اس سادہ دل، مفلوک الحال، قلاش قوم نے نہیں کھایا۔ بھٹو صاحب جیسا شخص سب کچھ کر سکتا تھا۔ جینئس! اعلیٰ تعلیم یافتہ! تقریر اور تحریر پر کمال کی قدرت رکھنے والا! چاہتا تو اس ملک کو سنگا پور بنا دیتا! مگر قوم کی تیرہ بختی کہ آخر کار فیوڈل ثابت ہوئے۔ بادشاہ بن گئے۔ پھر مرد مومن مرد حق نے اسلام کا نعرہ لگایا۔ پلٹ کر دیکھتے ہیں تو سب کچھ تھا، صرف اسلام ہی نہیں تھا۔ وہی عہدِ ہمایونی تھا جس میں ثروت مندوں کی ایک نئی نسل قوم کو تحفے میں دی گئی۔ آج، اتنے برسوں بعد، زمین راز اگل رہی ہے۔ مالک الملک اس بات پر قادر ہے کہ قیامت سے پہلے بھی قیامت کی جھلک دکھا دے۔ وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَـہَا - وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَـہَا- یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا-بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَـہَا۔ ''اور زمین اپنے بوجھ نکال پھینکے گی اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہو گیا۔ اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔ اس لیے کہ آپ کا رب اسے حکم دے گا!‘‘
ایک بات طے ہے۔ پتھر پر لکیر کی طرح! جو اس ملک کو دھوکا دے گا آخر کار خائب و خاسر ہو گا۔ جلد یا بدیر، اس کا چہرہ بے نقاب ہو کر رہے گا۔ مگر اصل سوال اور ہے۔ اور وہ یہ کہ کوئی عبرت پکڑتا ہے یا نہیں! بد بختی کا یہ عالم ہے کہ کوئی عبرت پکڑنے کو تیار نہیں۔ شہزادی کو دیکھیے! دعوے غریبوں کی محبت کے! مگر رعونت کا یہ عالم کہ ایک عام خاتون کا ساتھ چلنا بھی گوارا نہیں۔ ہاتھ سے اسے اس طرح رد کرتی ہے جیسے وہ انسان نہ ہو کیڑا ہو! اور یہ تو شیدائی عورت تھی! کیا ہوتا اگر ایک لمحہ رک کر اس کے ساتھ تصویر بنوا لی جاتی؟ دوسری طرف دیکھیے! اِسی زمانے میں، اِسی دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں جہاں کے صدر عام کنبوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ کہیں ملکہ خود بازار سے سبزی خریدتی ہے۔ کہیں ملک کا سربراہ برگر خریدنے کے لیے قطار میں کھڑا ہے۔ کہیں وزیر اعظم ٹرین میں کھڑے ہو کر سفر کر رہا ہے۔ کہیں کوئی حکمران اپنی بیوی کے لیے سیکنڈ ہینڈ کار خرید رہا ہے اور پھر اس کار کا ٹیکس ادا کرنے کے لیے کھڑکی کے سامنے کھڑا ہے۔ ہمارے یہاں حکمران خاندانوں کی نئی نسل، جو پیدائشی ارب پتی ہے، عام انسان کو آج کے دور میں بھی کمتر اور اچھوت گردانتی ہے۔ یہ سب آخر میں شکست کھائیں گے۔ بے نقاب ہو کر رہیں گے۔ قدرت کی بے آواز لاٹھی اپنا کام کرتی رہے گی۔ پردے اٹھتے رہیں گے۔ لُوٹ کھسوٹ کا مال ظاہر ہوتا رہے گا۔ نام نہاد عزتیں تار تار ہوتی رہیں گی۔ سوشل میڈیا بھی خدا کی لاٹھی ہی ہے۔ قدرت جیسے راز افشا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے زمانے کا انتظار ہی تو کر رہی تھی۔ خلق خدا پھَٹ پڑی ہے۔ خدا نے اپنی مخلوق کو زبان دے دی ہے۔ جن تخت نشینوں کے بارے میں لوگ بات کرتے ہوئے خوف سے کانپتے تھے، آج عوام کے نشانوں کی زد پر ہیں۔ وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ! ''اور ہم یہ دن لوگوں میں باری باری بدلتے ہیں‘‘۔ عزتِ نفس کی کوئی رمق باقی ہو تو زندگی بھر منہ چھپاتے پھریں!
نام اہل علم و دانش ہی کا احترام سے لیا جاتا رہے گا۔ حسنی مبارک، چاؤ شیسکو، رضا شاہ پہلوی، اور ہر زمانے کے فراعنہ اور نماردہ! کون ان کا نام عزت سے لیتا ہے؟ عید کے دن نانِ شعیر کھانے والے امیرالمومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ اربوں دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر تناول کرنے والے صوفیا کے مرقد، جن کا ترکہ مٹی کے برتنوں اور چٹائی کے سوا کچھ نہ تھا، زائرین کی دعاؤں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ اقبال کی زندگی میں جھانکنا ہو تو ان کے خطوط پڑھیے۔ صوفوں کا کپڑا بدلنے کی مالی استطاعت نہ تھی مگر مسجدوں کے اماموں سے لے کر ہَیٹ پوشوں اور سگار نوشوں تک سب انہیں پڑھتے ہیں۔ کروڑوں ہیں جنہیں ان کا کلام ازبر ہے۔ دعا مانگی: 'مرقدی در سایۂ دیوار بخش‘ کہ دیوار کے سائے میں مرقد ہو۔ دعا قبول ہوئی۔ ذرا سے فاصلے پر ایک گردن بلند جاہ طلب حکمران کی قبر ہے۔ کتنے لوگ وہاں جاتے ہیں؟ اللہ کے بندو! یہی تو نشانیاں ہیں جو قدرت دکھاتی ہے! دیکھو اور سمجھنے کی کوشش کرو! قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے غالب کا دیوان آج ایک سو ترپن سال بعد بھی بیسٹ سیلر ہے! زندگی بھر حرام کے لقمے سے بچنے والے قائد اعظم آج دنیا بھر میں مسلمانوں کے ہیرو ہیں۔ آج تک کوئی خفیہ اکاؤنٹ ظاہر نہیں ہوا۔ کیا عزت اور کیا مقام ہے جو اللہ نے دلوں میں دیا اور تاریخ میں بھی۔ دشمن بھی کردار پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ سر سید احمد خان کو دیکھیے۔ زندگی بھر روکھی سوکھی کھائی۔ گھر کا اثاثہ بیچ کر ولایت گئے۔ اپنے مقدس نانا پر لگے ہوئے الزامات کا جواب دیا۔ زندگی مسلمانوں کی خدمت میں گزار دی۔ ایک ہی دُھن کہ ہندوؤں سے پیچھے رہ کر ان کے غلام نہ بن جائیں! انتقال کو ایک سو چوبیس سال ہو رہے ہیں! کوئی خفیہ اثاثہ آج تک نہیں ظاہر ہوا! دادا کے بعد پوتے کو خدا نے کیا مقام دیا۔ سید راس مسعود کی زندگی بھر اقبال سے دوستی رہی۔ اقبال اور سید سلیمان ندوی کے ساتھ افغانستان، وہاں کی حکومت کی دعوت پر گئے اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا۔
صدیوں کا آزمودہ مقولہ ہے۔ ہر کرا این دہند آن نہ دہند۔ دونوں میں سے ایک ہی شے ملتی ہے۔ عزت یا مال و دولت۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ دونوں نصیب ہوں!!

Tuesday, February 22, 2022

کیا تم لوگ گھاس کے اوپر سے ہٹو گے ؟


جب سے ہوش سنبھالا ہے ‘ ہم اور آپ سن رہے ہیں‘ سنا رہے ہیں‘ پڑھ رہے ہیں پڑھا رہے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو حاضرین میں سے ایک نے اعتراض کیا کہ پہلے یہ بتائیے ایک چادر سے آپ کا کُرتا کیسے بن گیاکیونکہ حکومت کی طرف سے سب کو ایک ایک چادر ملی تھی اور ایک چادر میں تو آپ جیسے طویل القامت شخص کا کُرتا بن ہی نہیں سکتا! اس پر امیر المومنین کے بیٹے نے وضاحت پیش کی کہ انہوں نے والد گرامی کو اپنے حصے کی چادر دے دی تھی تا کہ ان کا کرتا بن جائے۔ اس وضاحت کے بعد ہی آپ خطبہ دے سکے۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے ‘ ہم اور آپ سن رہے ہیں‘ سنا رہے ہیں‘ پڑھ رہے ہیں پڑھا رہے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی زرہ کھو گئی۔ آپ اُس وقت خلیفۂ وقت تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ نے دیکھا کہ آپ کی زرہ ایک یہودی پہنے ہوئے تھا۔ آپؓ نے اسے بتایا کہ یہ زرہ آپ کی ہے۔ اس نے اصرار کیا کہ اس کی اپنی ہے۔ معاملہ عدالت میں لے جایا گیا۔ آپؓ مسلمانوں کے حکمران تھے مگر ایک عام مدعی کی طرح عدالت میںپیش ہوئے۔ عدالت نے قانون کے مطابق دو گواہ طلب کئے۔ آپؓ نے اپنے غلام اور صاحبزادوں حسنین کریمین کو بطورِ گواہ پیش کیا۔ عدالت نے غلام کی گواہی تسلیم کی مگر کہا کہ بیٹے کی گواہی والد کے حق میں قبول نہیں کی جا سکتی۔ فیصلہ یہودی کے حق میں ہوا۔ امیر المومنین نے سربراہ مملکت ہونے کے باوجود اپنے خلاف عدالت کا فیصلہ قبول کیا۔
جب سے ہم نے اور آپ نے ہوش سنبھالا ہے کیا ایسا واقعہ دیکھا بھی ہے ؟ کیا پچپن مسلمان ملکوں میں ایسا واقعہ ہمارے زمانے میں بھی رونما ہوا ہے؟ کانوں نے تو بہت کچھ سنا ہے۔ کیا آنکھیں بھی کبھی فیض یاب ہوئیں ؟ چلئے‘ خلافتِ راشدہ کے خاتمے کے بعد تو بادشاہت نے ڈیرہ جما لیا۔ آمریت آگئی۔ حجاج بن یوسف کے سامنے جو سچ بولتا‘ اس کی گردن مار دی جاتی۔محمد بن قاسم کاکیا انجام ہوا ؟ اہل بیت کی کتنی ہی نسلیں سچ بولنے پر شہید کی جاتی رہیں۔ عباسی بادشاہوں نے امام ابو حنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے بلند مرتبت فقہا تک کو صدقِ مقال کے جرم میں خوفناک طریقوں سے اذیتیں دیں۔ سلاطینِ دہلی زندہ انسانوں کی کھالیں اترواتے رہے۔ قاضیٔ شہر کو سچ بولنے کے جرم میں مروا دیا گیا۔ مغل بادشاہ اونچائی سے گرا کر مروا دیتے۔ زبانیں کھینچ لی جاتیں۔ نسلیں ختم کر دی جاتیں۔ مگروہ زمانے جا چکے۔ اب تو جمہوریت کا زمانہ ہے۔ کیا آج کسی مسلمان ملک میں حکمران کے سامنے کھڑا ہو کر ‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کوئی بات کر سکتا ہے؟ چلئے یہاں بھی ہم بادشاہت زدہ ملکوں کی بات نہیں کرتے۔ جمال خاشقجی کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے بھی چھوڑیے۔اُن مسلمان ملکوں کی بات کر لیتے ہیں جو جمہوری کہلاتے ہیں۔بھٹو صاحب کتنا سچ برداشت کرتے تھے؟ کتنوں کو تو مروا ہی دیا۔ دلائی کیمپ تاریخ کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ اور تحریک انصاف ‘ تین بڑی پارٹیوں کے اجلاسوں میں کتنے ارکان کھڑے ہو کر‘ لیڈروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بول سکتے ہیں ؟ پارٹیوں کے سربراہوں کو تو جانے دیجیے۔ان سربراہوں کے بیٹوں‘ بیٹیوں اور بیگمات کے حکم سے کون سرتابی کر سکتا ہے اور کون ان کی کہی ہوئی بات کو غلط قرار دے سکتا ہے؟ میڈیا آج کل جس آزادی سے لطف اندوز رہا ہے ‘ کھلا راز ہے۔ کل کی خبر ہے کہ ترکی میں ایک صحافی گونگر ارسلان کو گولی مار کر ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا کیونکہ وہ سرکاری کرپشن کی تفتیش کر رہا تھا۔پریس کی آزادی کے عالمی انڈیکس میں پہلی دس پوزیشنوں پر ناروے‘فن لینڈ‘ سویڈن‘ ڈنمارک‘ کوسٹا ریکا‘ نیدرلینڈز‘ جمیکا‘نیوزی لینڈ‘ پرتگال اور سوئٹزر لینڈ فائز ہیں۔ کویت کا نمبر ایک سو پانچ ‘ انڈونیشیا کا ایک سو تیرہ‘ مراکش کا ایک سو چھتیس‘ پاکستان کا ایک سو پینتالیس ‘ ترکی کا ایک سو تریپن‘ مصر کا ایک سو چھیاسٹھ‘ سعودی عرب کا ایک سو ستر ‘ اور ایران کا ایک سو چوہتر ہے!
یہ امتیازصرف غیر مسلم ملکوں کو حاصل ہے کہ کوئی بھی شخص حکمران کے سامنے بے دھڑک بات کر سکتا ہے۔ بقول فراق ؎
ہر ایک سے کہاں بارِ نشاط اٹھتا تھا
بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی
بالکل اسی طرح جیسے مسلمانوں کے اوّلین دور میں کوئی بھی کر سکتا تھا۔ یہ تو کئی سال پہلے کا واقعہ ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون ہسپتال میں ایک مریض کی عیادت کو گیا۔ وہاں جو ڈاکٹر انچارج تھا‘ اس نے وزیر اعظم کو ڈانٹا اور قواعد پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے باہر نکال دیا۔ صدر کلنٹن کو کٹہرے میں کھڑا کر دینے والا مقدمہ بھی ماضی بعید کا حصہ بن چکا۔ ماضی قریب کا واقعہ سُن لیجیے۔ آسٹریلیا کا وزیر اعظم‘ سکاٹ ماریسن‘ دارالحکومت کی ایک نواحی بستی کا دورہ کر رہا تھا۔ ایک لان پر کھڑے ہو کر اس نے پریس کانفرنس شروع کی۔ رفقائے کار اور رپورٹر وغیرہ بھی ساتھ تھے۔ ایک دروازہ کھلا‘ایک شخص باہر نکلا اور چیخا ''Can everyone get off the grass, please? Come on- Hey guys, I've just reseeded that‘‘۔کیا تم لوگ گھاس کے اوپر سے ہٹوگے ؟ ارے بھئی! میں نے ابھی ابھی نئی گھاس لگائی ہے! وزیراعظم فوراً گھاس سے ہٹ گیا۔ دوسرے لوگوں کو بھی ہٹنے کا کہا۔ لان کے مالک نے کہا:Sorry! Mate!؛ یعنی سوری یار! اور پھر گھر کے اندر چلا گیا۔ یہ ذہن میں رکھئے کہ آسٹریلیا میں میٹ کا لفظ اسی طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح ہم کسی کو یار یا بھئی کہہ دیں !
کوئی ایف آئی اے اس شخص کے پیچھے نہیں لگی۔ کسی نے اسے ہراساں نہیں کیا۔ کوئی جھوٹا مقدمہ اسے سبق سکھانے کے لیے نہیں بنایا گیا۔ برطانیہ اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم‘ خلفائے راشدین کے قدموں کی دھول بھی نہیں مگر سچ یہ ہے کہ واقعاتی مماثلت موجود ہے۔ بالکل موجود ہے۔ کُرتے پر اعتراض کرنے والے پر مقدمہ چلایا گیا نہ اسے ہراساں کیا گیا۔ سیدنا علیؓ نے ریاست کی طاقت استعمال کر کے زرہ واپس نہیں لی۔ وہ ایسا کرتے تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ سب جانتے تھے کہ امیر المومنین غلط دعویٰ نہیں کر سکتے‘ مگر آپ عدالت گئے‘ قانون کی راہ پر چلے۔ جج نے ان کے خلاف فیصلہ کیا تو جج کے خلاف ریفرنس کرنے کا سوچا تک نہیں ! اپنے ارد گرد دیکھئے ! غور سے دیکھئے! تحقیق کر لیجئے۔ ایسا مسلمان ملکوں میں نہیں ‘ دوسرے ملکوں میں ہورہا ہے۔ اور جو کچھ مسلمان ملکوں میں ہو رہا ہے اس سے بھی آپ بخوبی آگاہ ہیں !
لیکن اصل المیہ یہ نہیں کہ ایسا ہمارے ہاں نہیں ہو رہا۔ اصل المیہ یہ ہے کہ جب ہم فخر سے کُرتے اور زرہ والے واقعات سنتے اور سناتے ہیں تو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ آج کل حکمرانوں سے اس انداز کے سوال جواب کہاں ہو رہے ہیں ؟ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ حکمران کی جوابدہی کی یہ میراث اب ہمارے پاس نہیں ‘ کہیں اور ہے ! اور جہاں ہے وہاں مسلمان‘ گروہ در گروہ‘ انبوہ در انبوہ ہجرت کر کے جا رہے ہیں! یہ میراث کسی مسلمان ملک کے پاس ہوتی تو لوگ برطانیہ‘ امریکہ آسٹریلیا جانے کے بجائے اُدھر کا رُخ کرتے !
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Monday, February 21, 2022

…ہم کہاں پہنچ گئے ! ہمارا کیا ہو گا !!



سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ میں  شہر بھر میں جھاڑو دیتا پھرتا ہوں مگر  اپنا گھر  کوڑے کرکٹ سے بھرا ہے۔ وجہ ظاہر ہے۔ شہر بھر میں جھاڑو دوں گا تو ہیرو بن جاؤں گا۔ اخبارات میں تصویریں چھپیں گی۔ ٹیلیویژن چینلوں پر ستائش ہو گی۔ جدھر سے گذروں گا  لوگ سلام کریں گے۔ نئی نسل آٹو گراف لے گی۔ کوئی ایوارڈ وغیرہ بھی مل جائے گا۔ اگر اپنے گھراور  اپنی گلی  کو صاف کرتا رہوں گا تو پنجابی محاورے  کی رُو سے موئے یعنی مُردے پوچھیں گے ؟ 

میں معلّم  بنا تو ساری دنیا میں علم کی روشنی پھیلاتا رہا ۔ملک ملک سے تشنگان علم کو اکٹھا کیا اور انہیں فیض سے سیراب کیا مگر اپنا  گھر ، اپنا محلہ، اپنا قریہ علم سے بے بہرہ ہی رہا۔ زرعی انقلاب کا پرچم لے کر نکلا تو ملک بھر میں ٹریکٹر پھیلا دئے۔ تھریشر تقسیم کئے۔ بیج بانٹے۔اپنی بستی کے کسان اسی طرح ہل چلاتے رہے جیسے سینکڑوں سال سے چلاتے آئے ہیں۔ اسی طرح چلچلاتی دھوپ میں درانتی سے گندم کاٹتے رہے جیسے ان کے اجداد کاٹتے تھے۔ ان کے لیے میرے پاس وقت ہی کہاں تھا۔  میں  تو قومی سطح کا ہیرو بن رہا تھا۔ صنعتکار بنا تو بنگلہ دیش سے لے کر ویت نام تک کارخانے لگا دیے۔ جدہ میں، کبھی انگلستان میں،  صنعتی یونٹوں کے معائنے کیے۔ ملا ایشیا میں فیکٹریاں لگا ئیں ۔ نہیں فائدہ ہؤا تو میرے تجربے اور میری مہارت کا  میرے اپنے علاقے کو نہیں فائدہ ہؤا۔ صدی کا تین چوتھائ آزاد ہوئے گذر چکا۔ میں باجوڑ میں،مہمند میں، میرن شاہ میں، وزیرستان میں ایک  کارخانہ نہ  لگا سکا۔ بے بصیرت حکومتیں کوتاہ نظر پولیٹیکل ایجنٹوں کو پیسہ  دیتی رہیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ یہ پیسہ قبائلی  ملک صاحبان اور  خان صاحبان   کو دیتے رہے۔ نوجوان کیا کرتے ؟ زراعت نہ صنعت نہ تعلیم ! بندوق اٹھائی اور دہشت گردوں سے جا ملےکہ  ع۔ 
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر ! میں مبلغ بنا تو ایک ایک ملک میں کئی بار گیا ۔ چھ بر اعظموں میں تبلیغ کی۔ دنیا میری قوت تقریر پر عش عش کر اٹھی۔بادشاہوں نے میری پذیرائیاں کیں ۔ محلات میں ٹھہرایا۔ قومی ایوارڈ ملے۔ یو ٹیوب نے انعامات سے نوازا ۔چہار اطراف عالم میں میرا ڈنکا بجا۔ مگر میری عمر بھر کی ان کامرانیوں  کا کیا فائدہ جب میری اپنی بستی سے چند فرسنگ کے فاصلے پر  جہالت بال کھولے  راج کرتی رہی یہاں تک کہ لوگوں نے ایک ذہنی مریض کو درخت سے باندھ کر سنگسار کر دیا اور پھر اس کچلے ہوئے، زخم زخم،ریزہ ریزہ ، مقتول  کے ہاتھوں کی انگلیاں بھی کاٹ کر لے گئے۔ پوری دنیا میں دین کے حوالے سے سیلبریٹی 
( Celebrity )

بننے سے بہتر تھا کہ میں اپنے علاقے کے عوام پر محنت کرتا۔ انہیں وقت دیتا۔ ان پر اپنی صلاحیتیں خرچ کرتا تا کہ  آج میری بستی کے لوگ ، میرے اڑوس پڑوس  کے مسلمان، مثالی مسلمان ہوتے اور وہ کچھ نہ کرتے جو ملک کے دوسرے حصوں میں ہوتا رہا ہے۔   کاش دنیا زیر کرنے کے بجائے میں اپنے علاقے میں صحیح معنوں میں  ایک  اسلامی معاشرہ قائم کرتا۔کاش اپنا برانڈ قائم کرنے کے بجائے میں اپنے علاقے کو اپنا برانڈ بناتا۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا اور اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہو گی کہ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ نکل سکا جو اس مظلوم کو بچانے کی کوشش کرتا جب کہ میں برداشت ، رواداری، تحمل  اور محبت کے وعظ نصف صدی سے کر رہا ہوں۔میں یہ نہ جان سکا کہ اگر اپنے علاقے میں بیٹھ کر اپنے لوگوں پر کام کرتا، صحیح معنوں میں ایک مصلح اور ایک ریفارمر  کا فرض ادا کرتا  اور انہیں بدل کر رکھ دیتا ، تب بھی ، آخر کار، شہرت مل ہی جاتی اور ایوارڈ بھی ! مگر آہ ! ؎
دامن خالی ہاتھ بھی خالی  ، دستِ طلب میں گرد طلب
عمرِ گریزاں !  عمرِ گریزاں ! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو 

 شہنشاہ اکبر کے لائق فائق مصاحب، ابوالفضل کے بھائی، فیضی، کو دکن میں سفیر مقرر کیا گیا۔اس کی کامیابی کے  جھنڈے گڑ گئے۔ فیضی ، شاعر، ادیب،محقق ہونے کے علاوہ نامور  طبیب بھی تھا اور میڈیکل کالج کا پروفیسر بھی۔ دوران سفر پیچھے ، گھر میں ماں کا انتقال ہو گیا۔ فیضی کی دنیا تاریک ہو گئی۔اس نے ایک دلدوز مرثیہ لکھا  جسے پڑھ کر دل لرز جاتا ہے اور کلیجہ  پگھل جاتا ہے۔…………””  میں اپنے وقت کا بقراط اور جالینوس تھا مگر کیا فائدہ! ماں کا علاج تو کر نہ سکا۔ میرے نصیبوں کو آگ لگ جائے،   ماں کے ایامِ مرض میں میں سفر میں رہا! کاش  میں اپنے کاسۂ سر کو ماں کے لیے ہاون دستہ بنا لیتا ، دل سے جڑی بوٹیاں نکال کر کھرل کرتا  اور ماں کے لیے دوا تیار کرتا………”” 

کوئی ایک علاقہ ، کوئی  ایک ضلع،  چلیے کوئی ایک تحصیل ہی ایسی ہو تی  کہ ماڈل بن جاتی۔ وہاں کارخانے لگتے!! زراعت جدید ترین طریقوں سے کی جاتی ! خواندگی اور تعلیم کا معیار بلند ترین ہو تا!گھر ،بازار، گلیاں، کوچے، سڑکیں  صاف ستھری ہوتیں ! روزگار کی شرح اطمینان بخش ہوتی ! خوشحالی کا دور دورہ ہوتا!   لوگوں میں دین اور دنیا دونوں کی سمجھ ہوتی ۔ کوئی کسی کو کنکر تک نہ مارتا! پھر اس مثالی تحصیل کے تجربے کو دوسری تحصیلوں، دوسرے اضلاع میں دہرایا جاتا ! مگر افسوس! صد افسوس! ہم ایک چھوٹے سے گاؤں کو بھی مثالی نہ بنا سکے! اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان ،  جی ٹی روڈ کی بغل میں، ایک  ماڈل ٹاؤن “ ہمک” کے نام سے بسایا گیا جسے اسلام آباد  کا حصہ قرار دیا گیا۔ اس ماڈل ٹاؤن کو کبھی جا کر دیکھیے۔اگر ماڈل کا لفظ انسان ہوتا تو عدالت جا کر اپنی توہین کے خلاف مقدمہ دائر کر دیتا۔ماڈل کے لفظ کی اتنی بے حرمتی کسی نے دیکھی ہو گی نہ کی ہو گی! صفائی عنقا ہے۔  کثافت کی حکمرانی جا بجا  ہے۔ غیر قانونی دکانوں نے ماڈل ٹاؤن کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئیں۔ٹرکوں کا غدر اس کے علاوہ ! صنعتی زون اس ماڈل ٹاؤن کی پسلیوں میں گھُسا ہؤا ہے !

چلیے مان لیا ۔ ایسی مثالی بستی یوٹوپیا ہے۔مگر ہم کوشش تو کرتے۔ ہم تو دنیا اور دین دونوں لحاظ سے گھاٹے میں رہے۔ زراعت کا یہ حال ہے کہ چینی اور گندم درآمد کر رہے ہیں۔ خالص شہد اور دودھ نایاب ہے۔ صنعت میں بنگلہ دیش ہم سے کوسوں آگے نکل گیا۔ گورننس کا حال سب کے سامنے ہے۔ مگر سب سے زیادہ گھاٹا تو ہمیں دین کے معاملے میں ہؤا۔ اسلام کے نام پر ہم الگ ہوئے۔ مدارس اور مساجد یہاں  لا تعداد  ہیں۔ حج کے بعد، مبینہ طور پر ،  سب سے بڑا اسلامی اجتماع ، ہمارے ہاں منعقد ہوتا ہے۔ پیران عظام کے با برکت وجود بستی بستی موجود ہیں۔ اب تو شاہی محلات سے  بھی  تصوف  کی سرپرستی ہو رہی ہے۔ مگر  سیالکوٹ کی فیکٹریوں  سے لے کر خوبصورت خوشاب اور  مشہورِ عالم  تلمبہ تک  خون کی ایک  لکیر بہہ رہی ہے۔  سرخ سے سرخ تر ہوتی لکیر! کوئی غیر ملکی محفوظ ہےنہ ذہنی معذور ! کبھی  قتل کے بعد ہم روتے ہیں۔ آہ و بکا  کرتے ہیں۔  کبھی قاتلوں کو ہیرو بناتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں درست ہؤا ہے۔ کبھی کہتے ہیں غلط ہؤا ہے۔ بہنوں کے  قاتل رہا ہو جاتے ہیں۔  بے گناہوں کو سڑکوں پر گھسیٹ کر مار دیا جاتا ہے۔ کسی سے کوئی بات کرتے ہوئے خوف آتا ہے۔ ماں باپ بچوں کی منت کرتے پھرتے ہیں کہ خدا کے لیے کالجوں، یونیورسٹیوں، دفتروں،محفلوں میں مذہب پر گفتگو نہ کرناکہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں ! ہمارا کیا ہو گا !! 

…………………………………………………………………………

Thursday, February 17, 2022

ترازو جو ابھی تک نہیں بنایا جا سکا

چالیس سال سے تین سال اوپر ہو گئے، سب سے پہلے جس ملک میں جانا ہوا وہ اٹلی تھا۔ پہلے اتوار کو قیام گاہ سے نکلے تو ایسا منظر دیکھا کہ حیرت ہوئی۔ گھروں کے دروازوں سے باہر، مختلف چیزیں رکھی تھیں۔ زیادہ تر گھر کے استعمال کی۔ جیسے کچن کے برتن، کمبل، کرسی، صوفہ، بچوں کی سائیکل وغیرہ۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ ایک مقامی شخص سے پوچھا تو مزید حیرت ہوئی کہ کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟ بتایا گیا کہ جو اشیا ضرورت سے زائد ہوں، یا ان کا نعم البدل آ جائے تو باہر رکھ دیتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ، جنہیں یہ آئٹمز چاہئیں، لے جا سکیں اور چاہیں تو اس کی جگہ اپنے گھر کا کوئی آئٹم، جو ان کے لیے بیکار ہو، رکھ دیں۔ یہ بیک وقت چیریٹی بھی تھی اور ایکس چینج پروگرام بھی۔ ضروری نہیں کہ لینے والا غریب ہی ہو۔ وہ اسے اپنے گھر کی کسی چیز سے بدل بھی سکتا ہے۔ اس کے بعد کئی ملکوں میں جانا ہوا جنہیں ہم ترقی یافتہ یا مغربی ملک کہتے ہیں۔ ان میں بھی یہ رواج عام ہے۔ پلنگ اور گدوں سے لے کر کرسیوں، کھلونوں، برتنوں اور ملبوسات تک باہر رکھے ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے مدتوں پہلے بتایا تھا کہ امریکہ میں انہیں ایک گھر کے باہر سے ٹائپ رائٹر مل گیا تھا جو ٹھیک حالت میں تھا اور کئی سال ان کے زیر استعمال رہا۔ وہ ٹائپ رائٹروں کا زمانہ تھا۔
کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟ ہمارے ہاں بیماری ہے کہ سامان جمع ہوتا رہتا ہے۔ نیا فرنیچر آتا ہے تو پرانا بھی حرزِ جاں بنا رہتا ہے۔ ممٹیوں، چھتوں، گیراجوں اور سٹور رومز میں کاٹھ کباڑ پڑا رہتا ہے جس میں بے شمار اشیا ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں کے کام آ سکتی ہیں۔ ہماری خواتین میں ملبوسات کے بعد سب سے زیادہ شوق شاید پلنگ پوش خریدنے اور جمع کرنے کا ہے مگر خال خال ہی پرانے پلنگ پوش کسی کو دینے کا رواج ہے۔ امیر ملکوں میں گھروں سے باہر چیزیں کئی کئی دن پڑی بھی رہتی ہیں مگر ہمارے ہاں تو ضرورت مند ان گنت ہیں۔ اگر ہم ایسا کرنا شروع کر دیں تو آغاز میں ممکن ہے کچھ لوگ، لالچ کی وجہ سے، بغیر ضرورت بھی چیزیں لے جائیں مگر کچھ مدت بعد معاشرہ تربیت یافتہ ہو سکتا ہے۔ تب لوگ صرف وہی شے اٹھائیں گے جس کی انہیں ضرورت ہو گی اور دوسری چیزیں دوسروں کے لیے چھوڑ دیں گے۔
کھلونے ہر گھر میں ان دنوں بے تحاشا ہیں۔ مڈل کلاس اور اپر کلاس کو تو چھوڑیے، اب زیریں طبقے میں بھی سالگرہ منانے کا فیشن جڑ پکڑ چکا ہے۔ بچوں کو کھلونے خاصی تعداد میں ملتے ہیں۔ دوسری طرف معاشرہ بے گھروں، مفلسوں اور ناداروں سے بھی بھرا ہے۔ بینک کے گارڈ کی کیا تنخواہ ہو گی؟ پندرہ یا بیس ہزار! بیس‘ پچیس یا تیس ہزار ماہانہ تنخواہ پانے والا شخص کھلونے کیسے خریدے گا؟ زائد کھلونے ان ترستے ہوئے بچوں کو پہنچائے جانے چاہئیں! گھروں میں چھانٹی ہونی چاہیے اور ضرورت سے زائد سامان ضرورت مندوں کو دے دینا چاہیے! دوائیں گھر میں پڑے پڑے پرانی ہو جاتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کی تاریخ گزر جائے کسی ڈاکٹر کو دے دیجیے تاکہ مستحق مریضوں تک پہنچ جائے۔ اسی طرح عینکوں کے فالتو فریم عینک ساز کو دے دینے چاہئیں تاکہ وہ مستحقین کی مدد کر سکے۔ جن حضرات کو کتابیں خریدنے اور جمع کرنے کا شوق ہے کیا انہوں نے کبھی ان لوگوں کا سوچا ہے جو کتابیں پڑھنے کے شائق ہیں مگر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے؟ اب تو اولڈ بک شاپس میں بھی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ایک آئیڈیا یہ ہے کہ ایک بک شیلف، اپنی گلی یا سٹریٹ میں رکھ دیی جائے جس پر پلاسٹک، پڑا ہو تاکہ کتابیں بارش سے بچی رہیں۔ کئی ملکوں میں ایسے بک شیلف گھروں سے باہر دیکھے ہیں۔ لوگ کتابیں لے جاتے ہیں اور رکھ بھی جاتے ہیں۔ مگر یہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سہولت کو مسلکی یا فرقہ وارانہ مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ منع کرنے پر لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اب تو ہجوم اکٹھا کرنا اور مار دینا یا جلا دینا عام ہو گیا ہے۔ بہتر ہے کتابوں کے عطیات لائبریریوں کو دیے جائیں یا زائد کتابیں قریبی احباب اور اقارب کی خدمت میں پیش کر دی جائیں۔
معاشرے میں خیر کے کام کرنے کی بے شمار صورتیں ہیں اور لا تعداد مواقع ہیں۔ اس سے پہلے ایک بار عرض کیا جا چکا ہے کہ پھل یا گھر کا سودا سلف خریدتے وقت اس ملازم کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو ہمارے گھر میں صفائی کا کام کرتا ہے یا اس خاتون کو بھی جو برتن دھوتی ہے۔ آپ اس کے لیے ایک درجن کیلے ہی خرید لیجیے یا ایک کلو والا چینی کا پیکٹ یا چائے کا ڈبہ‘ یا اس کے بچوں کے لیے شربت کی ایک بوتل۔ اس کے بچے کو سکول کی کتابیں‘ کاپیاں بھی لے کر دے سکتے ہیں۔ ریڑھی پر پھل بیچنے والے سے بھائو تائو کیا کرنا‘ آخر وہ کتنا کما لیتا ہو گا۔ ایک بوڑھے، ضعیف ریڑھی والے سے کچھ خریداری بغیر ضرورت کے بھی کر لیجیے تا کہ اس کی مدد ہو جائے اور اس کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔ آپ کے پڑوس میں یا گلی میں کوئی کنبہ کہیں سے منتقل ہوا ہے، سامان ان کا ابھی بکھرا پڑا ہے۔ پہلے دن ان کے کھانے اور چائے کا بندوبست کرنا، انہیں پینے کا پانی بھیجنا، آپ کا اخلاقی فرض ہے۔ کھانے یا چائے کا وقت ہے تو الیکٹریشن، بڑھئی، پلمبر، صوفہ ساز یا گٹر کھولنے والا، جو اس وقت آپ کے گھر میں کام کر رہا ہے، آپ کی طرف سے کھانے یا چائے کا حق دار ہے۔ بجا کہ کھانا یا چائے اس کی مزدوری یا معاوضے کا قانونی حصہ نہیں مگر ایک قانون طعام المسکین کا بھی ہے اور ایک قانون سخاوت کا بھی ہے۔ جب یہ فرمایا گیا کہ ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہے تو تین چار یا پانچ چھ افراد کے کھانے سے دو تین آدمیوں کا کھانا نکل سکتا ہے۔ پڑوس میں اگر مکان بن رہا ہے اور مزدور وہاں کام کر رہے ہیں تو کم از کم ایک بار ان کے لیے بھی کھانا یا چائے بھیجنی چاہیے۔ محلے یا سٹریٹ میں کسی کا انتقال ہوا ہے تو وہاں کھانا بھیجنے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہاں الٹا حساب ہے یعنی میت کے گھر سے کھانے کھائے جاتے ہیں۔ ریلوے سٹیشن پر قلی یا کہیں بھی سامان اٹھانے والے مزدور کو اجرت اس کی توقع سے زیادہ دینے میں کیا حرج ہے؟ یہ لوگ مالی امداد کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔
آپ ایسے جتنے کام بھی کرتے ہیں، آپ کے بچے انہیں نوٹ کرتے ہیں۔ یوں آپ ایک نسل کی تربیت کر رہے ہیں اور معاشرے کو ایسے افراد دے رہے ہیں جو بھلائی کا کام کرنے والے ہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بچے متاثر نہ ہوں۔ اگر آپ کنجوس اور سنگدل ہیں اور دوسروں کی تکالیف سے بے نیاز تو آپ کے بچے بھی آپ کی تقلید کریں گے۔ بچوں کو یہ بھی سمجھائیے کہ وہ اپنی پاکٹ منی سے یا عیدیوں سے ناداروں کا حصہ نکالیں خواہ ایک حقیر حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ نیکی کوئی بھی بڑی یا چھوٹی نہیں ہوتی۔ نیکی کو ماپنے کے لیے ابھی تک، اِس دنیا میں، کوئی گز ایجاد ہوا ہے نہ ہی تولنے کے لیے کوئی ترازو بنا ہے۔

Tuesday, February 15, 2022

نہیں ! جناب تسلیم نورانی ! نہیں !


یہ دلدوز واقعہ آپ نے کئی بار سنا ہو گا۔چوہے نے ہاتھی کے بچے کو دیکھا تو اس کی جسامت دیکھ کر سوچا یہ ضرور پندرہ بیس سال کا ہو گا۔ اس سے پوچھا تمہاری عمر کیا ہے؟ چھوٹے ہاتھی نے کہا: دو سال! چوہے نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا:ہوں تو میں بھی دو سال کا مگر ذرا بیمار شیمار رہا ہوں!
بھارت میں دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں ‘ کانگرس اور بی جے پی ‘ کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر ایک تیسری قوت میدان میں اُتری۔ اروند کجریوال ایک بیورو کریٹ تھے۔ مقابلے کا امتحان پاس کر کے انڈین ریونیو سروس میں جوائنٹ کمشنر انکم ٹیکس کے طور پر کام کر رہے تھے۔ معروف سوشل ورکر انّا ہزارے نے جب کرپشن کے خلاف عوامی تحریک چلائی تو اروند کجریوال اس کے ساتھ تھے۔ انّا ہزارے ایک مندر سے ملحقہ چھوٹے سے کمرے میں رہتا تھا۔ شادی کا جھنجٹ پالا ہی نہیں تھا۔ اس پر آر ایس ایس کا ساتھ دینے اور مسلم دشمنی کے الزامات بھی تھے۔ کجریوال نے جب سیاست میں آنے کا ارادہ کیا تو انّا ہزارے نے اس کی مخالفت کی۔ انّا ہزارے کا موقف یہ تھا کہ سیاست میں آئے بغیر ‘ دھرنوں اور بھوک ہڑتالوں سے مطالبات منوائے جائیں۔ اروند کجریوال نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیا اور انّا ہزارے سے الگ ہو کر ''عام آدمی پارٹی‘‘ کے نام سے سیاسی جماعت بنائی۔ انتخابی نشان جھاڑو رکھا۔ کامیابی نے اس کا ساتھ دیا۔ اس وقت وہ دہلی کا چیف منسٹر ہے اور یہ منصب اس نے تیسری بار‘ الیکشن جیت کر حاصل کیا ہے۔
دہلی کی حالت اروند کجریوال نے بدل کر رکھ دی۔ تعلیم‘ بجلی‘ صفائی‘ غرض کئی شعبوں میں انقلابی اقدامات کیے۔ ایسا نہیں کہ وہ اور اس کی کابینہ کے ارکان ہی اپنی کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔عوام نے اس کی خدمات کو مانا اور بعد کے دو انتخابات میں اس کی پارٹی کو ووٹ دیا، مگر اس سے بھی زیادہ قابلِ تعریف حقیقت یہ ہوئی کہ کجریوال نے اپنا لائف سٹائل نہیں بدلا۔ وہی عام سا لباس‘ وہی ایک مفلر‘ پاؤں میں کبھی چپل‘ کبھی سادہ سے جوتے۔ گنجان محلے میں رہ کر بھی کسی اُڑنے والے فولادی پرندے کا سہارا نہ لیا۔یہی حال اس کی کابینہ کے دیگر ارکان کا ہے۔ بڑی بڑی گاڑیاں نہ محلات! اب دیگر ریاستوں میں بھی ''عام آدمی پارٹی‘‘ زور پکڑ رہی ہے۔ آنے والے انتخابات میں پوری توقع ہے کہ پنجاب میں اس کی حکومت بنے گی۔ گوا میں بھی اس کی جیت کے روشن امکانات ہیں۔ عام آدمی پارٹی اس بار یو پی‘ اُترکھنڈ اور ہماچل پردیش میں بھی انتخابات جیت کر حکومت بنانے کا عزم رکھتی ہے۔
اب پلٹتے ہیں چوہے اور ہاتھی کے بچے کی طرف! پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی باریوں سے تنگ آکر ہم نے بھی امیدیں تیسری قوت کے ساتھ وابستہ کی تھیں ! ہم جیسے لوگ جو الیکشن کے دن گھروں سے کبھی نکلے ہی نہیں تھے‘ 2018ء کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں کھڑے رہے۔ مگر افسوس! ہم ذرا بیمار شیمار نکلے۔ ہمارے خوابوں کے درختوں پر چمگادڑوں اور الّوؤں نے بسیرا کر لیا۔ ہمارے باغ جھاڑ جھنکار سے بھر گئے۔
میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
مریے سر پہ بُوم ہے‘ زاغ ہے مرے ہاتھ میں
ہمارے آدرش ہیلی کاپٹر کی نذر ہو گئے۔کابینہ میں وہ براجمان ہو گئے جو کروڑوں کے قرضے معاف کرا کے ڈکار تک نہیں لے رہے۔ اس ماتم کی کہانی لمبی ہے۔ جتنی سینہ کوبی کی جائے‘ کم ہے! حقیقتیں سب کے سامنے ہیں۔ کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں! ہر روز یہ الم ناک داستان دہرائی جاتی ہے۔ کالم ہوں یا ادارتی نوٹ یا ٹی وی کے تجزیے‘ ایک ایک زخم کا کھرنڈ کئی کئی بار چھیلا جا چکا!
مگر یہ آہ و زاری تا بکے ؟اس رونے پیٹنے کا فائدہ؟ جو دودھ پھٹ چکا ‘ وہ پھٹ چکا! جو گنّا گنڈیریوں میں تبدیل ہو چکا‘ وہ دوبارہ گنّا نہیں بننے کا! تو پھر کیا ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جائیں ؟ کیا بدقسمتی ہمیں پھر اُنہی دو‘ بار بار آزمائی گئی پارٹیوں کی طرف لے جانا چاہتی ہے؟ اگر تیسری قوت سراب ثابت ہو ئی تو کیا اس سراب میں پیاسے مر جائیں ؟ حالیؔ اس موڑ پر دستگیری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بس اے ناامیدی نہ یوں دل بجھا تو
جھلک اے امید اپنی آخر دکھا تو
ذرا ناامیدوں کی ڈھارس بندھا تو
فسردہ دلوں کے دل آ کر بڑھا تو
ترے دم سے مُردوں میں جانیں پڑی ہیں
جلی کھیتیاں تو نے سر سبز کی ہیں
سر سید کہتے تھے روزِ جزا خدا نے پوچھا کہ کیا کر کے لائے ہو تو مسدّسِ حالی پیش کروں گا کہ یہ لکھوائی ہے! کون سی مسدّسِ حالی؟ وہی جس کا نام بھی نئی نسل کو نہیں معلوم! نہ ضمیر جعفری کی مسدّسِ بد حالی ہی سے واقف ہیں! مگر یہ نوحہ خوانی پھر کبھی! اس وقت تو حالی جو امید دلا رہے ہیں اس کا دامن پکڑنا چاہیے!
شکوہ ہمیں اپنے بڑوں سے ہے۔ ایک بہت ہی محترم اور میرے مہربان کالم نگار کی تحریر سے معلوم ہوا کہ جناب تسلیم نورانی ‘ نورانی فاؤنڈیشن بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔ شورش کاشمیری نے ہفت روزہ چٹان نکالا تو کسی نے کہا تھاکہ پہاڑوں سے ٹکرانے والا شورش چٹان کا سہارا لے کر بیٹھ گیا!یاد رہے کہ تسلیم نورانی تحریک انصاف کا حصہ تھے۔ پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر تھے۔ اصولوں پر ڈٹ گئے اور نامزدگیوں کو قبول کرنے سے انکار کیا تو ناقابلِ قبول ٹھہرے۔مستعفی ہو کر واپس آگئے۔ چھوٹا منہ بڑی بات مگر نورانی صاحب کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ آپ کے بے مثال اور آئیڈیل تعلیمی ادارے سے جو نوجوان فارغ التحصیل ہوں گے ‘ وہ اس ناانصافی کے سسٹم میں اور اس مضحکہ خیز گورننس میں کریں گے کیا؟ وہ'لا محالہ‘ کسی ترقی یافتہ ملک کے سفارت خانے کے سامنے قطار میں کھڑے ہو کر ویزہ لگوائیں گے اور اُن لاکھوں نوجوانوں میں گم ہو جائیں گے جو نا انصافی اور میرٹ کُشی سے عاجز آکر وطن چھوڑ گئے! حضور ! سسٹم بدلے گا تو ایجوکیشن میں انقلاب لانے کا ثمر ملے گا! ورنہ اگّوں دوڑ تے پچھوں چَوڑ ! جسٹس وجیہ الدین بھی گھر بیٹھ گئے! آپ جیسے لوگ نا امید ہو گئے تو ہم جیسے عامی ‘ الیکشن کے دن پھر گھروں سے نہیں نکلیں گے۔ اٹھیے! اس ملک نے تیسری قوت کا مزا چکھ لیا اور خوب چکھ لیا! اب چوتھی قوت کی ضرورت ہے! مایوسی کفر ہے۔ اس ملک نے ہمیشہ دلدل میں نہیں رہنا! ایسا ہونا ہوتا تو قدرت قائد اعظم کو نہ پیدا کرتی اور اقبال محض گُل و بلبل کی شاعری کرتے! جو آدرش تیسری قوت نے بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیے‘ انہیں اٹھانا ہے اور ہمی نے اٹھانا ہے! آپ تعلیمی میدان میں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں ‘ لائقِ صد تحسین ہے مگر اسے اخوت والوں کے سپرد کیجیے۔ آپ پارٹی بنائیے! یہ بے بضاعت فقیر آپ کا پہلا رکن بنے گا اور اس کے ہزاروں چاہنے والے بھی! اروند کجریوال ہمارا آئیڈیل نہیں مگر ایک مثال تو ہے! اس ملک کو وہ رہنما درکار ہیں جو حکومت میں آکر اپنالائف سٹائل نہ بدلیں! فضاؤں میں نہ رہیں! زمین سے رشتہ نہ توڑیں! انہی مصروف‘ ٹریفک کی بے قاعدگیوں سے بھری‘ سڑکوں سے گزر کر دفتروں میں پہنچیں! کروڑوں کے قرضے معاف کرانے والوں اور چینی‘ آٹے اور ادویات سے اربوں کمانے والوں کے ساتھ نہ بیٹھیں !

Monday, February 14, 2022

ہماری ناک اونچی ہے


 ہندوستان میں انگریز حکمرانِ اعلیٰ  پہلے  گورنر جنرل کہلاتا تھا۔ 
18 57 

کی جنگ آزادی  کو کچلنے کے بعد وائسرائے کہلانے لگا۔ وائسرائے کا لفظی مطلب”  نائب السلطنت” ہے۔ یعنی بادشاہ کا نمائندہ۔جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی سے اقتدار ملکہ برطانیہ نے  لے لیا۔اوراپنی بادشاہت کی نشانی کے طور پر وائسرائے لگایا جو پورے ہندوستان کا حاکم تھا۔  اس کی مراعات خاصی تھیں۔ مگر وہ آڈیٹر جنرل کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کر سکتا تھا۔ جیسے ہی  وائسرائے  لگا، ساتھ ہی کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل بھی لگا دیا گیا۔ سر اَیڈورڈ، ڈرمنڈ 
Sir Edward Drummond 
پہلا شخص تھا جو اس منصب پر فائز ہؤا۔اس کے  پاس برطانوی ہند کے اکاؤنٹس بھی تھے اور آڈٹ کا فریضہ بھی سر انجام دیتا تھا۔  وائسرائے کی مجال نہ تھی کہ اس کی اجازت کے بغیر ایک پیسہ بھی خرچ کرے۔  آڈٹ کے ایک ایک اعتراض کا وائسرائے کو اور وائسرائے کی حکومت کو جواب دینا ہوتا تھا۔ 

آج کے  پاکستان  میں صورت حال مختلف ہے۔ملک پر عملا” آئی ایم ایف کا اختیار ہے۔ بجٹ کیسے بننا ہے ؟ٹیکس کتنے لگانے ہیں؟ ۰بجلی کا نرخ کیا مقرر کرنا ہے؟ سرکاری ملازموں کی تنخواہیں بڑھانی ہیں  یا نہیں ؟ بڑھانی ہیں تو کتنی ؟ عوام کو سبسڈی دینی ہے یا نہیں؟ پٹرول کی قیمت کتنی معیّن کرنی ہے؟ یہ سب فیصلے بظاہر تو ہماری حکومت کرتی ہے مگر آئی ایم ایف کی ہدایات اور احکام کے مطابق! آئی ایم ایف کے نمائندے وفاقی دارالحکومت میں بارہ مہینے موجود رہتے ہیں۔ ان کے باقاعدہ دفاتر ہیں ! آئی ایم ایف کا سب سے بڑا نمائندہ  گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان ہے۔ موجودہ گورنر آئی ایم ایف کے اٹھارہ سال  باقاعدہ ملازم   رہے ہیں۔ وہ اس سے پہلے مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندہ کے طور پر تعینات تھے۔ آپ کے علم میں ہے کہ چند روز پہلے ہی پارلیمنٹ میں قانون پاس ہؤا ہے جس کی رُو سے سٹیٹ بنک خود مختار ادارہ قرار دے دیا گیا ہے ۔سینیٹ میں ایک رکن نے  حکومت سے پوچھا کہ گورنر سٹیٹ بنک کی تنخواہ اور دیگر مراعات کیا ہیں۔ حکومت نے جواب دیتے ہوئے جو تفصیل بتائی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے

۱——گورنر کی ماہانہ تنخواہ پچیس لاکھ روپے ہے۔ 
۲—— اس تنخواہ میں ہر سال دس فی صد اضافہ ہو گا ۔ یعنی دوسرے سال یہ تنخواہ  ساڑھے ستائیس لاکھ ہو جائے گی۔ تیسرے سال تیس لاکھ پچیس ہزار ہو جائے گی
۳——-فرنشڈ یعنی ساز و سامان سے آراستہ گھر دیا جائے گا۔ اس کی مرمت بھی سر کاری ہو گی۔ گھر نہ لینے کی صورت میں اس کے  کرایہ   کے برابر رقم  ہر ماہ دی جائے گی۔ 
۴——دو گاڑیاں دی گئی ہیں۔ ایک اٹھارہ سو  سی سی۔  دوسری سولہ سو سی سی۔
۵———دونوں گاڑیوں کے لیے دو ڈرائیور بھی دیے گئے ہیں۔
۶———ہر گاڑی کے لیے چھ سو لٹر پٹرول دیا جانا ہے 
۷——- بچوں کی پڑھائی کی فیسوں کا بھی  پچھتر فی صد  دیا جانا ہے۔ 
۸——-بجلی، گیس پانی مفت ہو گا۔ اگر جنریٹر چلانا پڑا تو اس کے ایندھن کا  خرچ بھی سرکار کے ذمے ہو گا۔
۹——-موبائل فون، انٹر نیٹ، لینڈ لائن سب مفت ہوں گے۔ 
۱۰—-گورنر صاحب گھر کے لیے  چار ملازم  رکھ سکتے ہیں۔ اٹھارہ ہزار روپے ماہانہ  تنخواہ  فی  ملازم  سرکار دے گی۔
۱۱—-چوبیس گھنٹے سیکورٹی گارڈز کی سروس  مفت مہیا کی جائے گی۔ 
۱۲——-کلب کی ممبر شپ فیس سرکار دے گی۔ اس کے علاوہ کلب کا ماہانہ بل بھی سرکار ادا کرے گی۔ یعنی کلب میں ان  کے اور اہل خانہ کے  کھانے پینے،کھیل، تیراکی وغیرہ کے اخراجات سرکار ادا کرے گی۔ حکومت نے یہاں یہ وضاحت نہیں کہ ان ماہانہ اخراجات   کی کوئی حد ہو گی۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ اخراجات غیر محدود ہوں گے۔ 

۱۳———گورنر اور اہل خانہ کو مفت علاج کی سہولت میسر ہو گی۔ 

۱۴——- گورنر صاحب  ہر ماہ تین چھٹیوں کے اہل ہوں گے۔
۱۵——- ہر سال، ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر، یعنی پچیس لاکھ روپے گریچواٹی کے طور پر ادا کی جائے گی۔

۱۶——— ٹرانسفر کی صورت میں  تمام اہل خانہ سمیت، ہوائی ٹکٹ دیا جائے گا اور سامان کی منتقلی کا خرچ بھی !
۱۷——— تین سالہ ملازمت  کے خاتمے پر چھ ماہ کی تنخواہ اضافی ملے گی۔  یعنی ہر سال دس فی صد بڑھنے کے بعد تیسرے سال تنخواہ تیس لاکھ پچیس ہزار ہو گی۔ اس حساب سے چھ ماہ کی تنخواہ  ایک کروڑ اکاسی  لاکھ  پچاس ہزار بنے گی۔  یہ رقم تین سالہ  ملازمت کے اختتام پر الگ دی جائے گی۔
۱۸——ریٹائر منٹ کے بعد بھی ایسی مراعات ملتی رہیں گی جو سٹیٹ بنک کا بورڈ منظور کرے گا۔ یاد رہے کہ بورڈ  کے چئرمین خود گورنر صاحب ہی ہیں ! 

ہم سمجھتے ہیں کہ  جو مرتبہ، اس وقت گورنر  سٹیٹ بنک کا ہے ، اس کے لحاظ سے یہ مراعات کم ہیں۔ یہ نہ بھولیے کہ گورنر صاحب اُس عالمی ادارے کے نمائندہ ہیں جس کے ہاتھ میں اس وقت ہماری رگِ جاں ہے۔  ہمارے قومی بجٹ سے لے کر بجلی کے نرخ تک، ہر مالی اختیار  اس وقت اسی عالمی ادارے کے ہاتھ میں ہے۔ اس تناسب سے گورنر صاحب کی اہمیت ، عملا” ، وہی ہے جو تقسیم ہند سے پیشتر وائسرائے کی ہوتی تھی۔ ایک پہلو سے دیکھا جائے تو ان کا اختیار انگریز وائسرائے سے بھی زیادہ ہے۔ وائسرائے ، آڈیٹر جنرل کے احکامات، قواعد اور ضوابط کا پابند تھا۔ مگر سٹیٹ بنک کے گورنر ، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دائرۂ کار اور دائرۂ اختیار سے باہر ہیں۔ مندرجہ بالا  تنخواہ اور مراعات بہت کم ہیں۔ اس ضمن میں ہماری پُر خلوص  تجاویز مندرجہ ذیل ہیں :

۱— پچیس لاکھ کے بجائے ماہانہ تنخواہ پچاس لاکھ کی جائے۔
۲——- ہر سال دس فی صد اضافہ اس منصب کی توہین ہے۔ سالانہ اضافہ کم از کم پچاس فی صد ہونا چاہیے۔ 
۳——فرنشڈ یعنی سازوسامان سے آراستہ گھر گورنر صاحب کے نام کر دیا جائے یعنی ان کی مستقل ملکیت میں دے دیاجائے اور اسے ان کا ذاتی گھر قرار دیا جائے۔ ہاں مرمت کے اخراجات حکومت بے شک ادا کرتی رہے۔ 
۳——اٹھارہ سو اور سولہ سو سی سی گاڑیاں مذاق ہیں۔ ایک گاڑی مرسڈیز ہو اور دوسری بی ایم  ڈبلیو۔    ملازمت سے فراغت پر دونوں گاڑیاں بے شک ساتھ لے جائیں۔
۴——-چھ سو لٹر پٹرول کی حد ہٹا کر  غیر محدود پٹرول کی اجازت دی جائے۔
۵——- نہ صرف سو فی صد  فیسیں، بلکہ بچوں کی تعلیم کے مکمل اخراجات سرکار برداشت کرے۔ اس میں بیرون ملک تعلیم بھی شامل ہو۔
۶——- کچن کے روزمرہ کے  تمام خراجات بھی ادا کیے جائیں۔
۷——چار ملازموں کی حد حقیقت پسندانہ ہر گز نہیں۔  باورچی،  ویٹر، بٹلر، ڈرائیور، مالی،گیٹ کیپر، خاکروب،  دھوبی،حجام،  بچوں کی آیا، چوبدار اور جنریٹر چلانے والا، یہ کُل  بارہ ملازم بنتے ہیں۔ احتیاطا” پندرہ ملازم رکھے جانے کی اجازت ہو۔ 
۸—- ایک قیام گاہ مری یا نتھیا گلی میں  مہیا کی جائے۔ 
پس نوشت۔ بزنس ٹو ڈے بھارت کا ٹاپ کا بزنس میگزین ہے۔اس کا نو۔ اکتوبر 

2020 

کا شمارہ ہمارے سامنے ہے۔ بھارت کے مرکزی بنک ( ریزرو بنک آف انڈیا) کے گورنر کی ماہانہ تنخواہ دو لاکھ ستاسی ہزار روپے ہے۔ اس میں مہنگائی الاؤنس بھی شامل ہے۔ اندازہ لگائیے! ہمارے ملک کے مقابلے میں بھارت کی پوزیشن  کتنی کمزور ہے۔    یہ بات باعث فخر ہے کہ ہماری ناک اونچی ہے۔

………………………………………………………………………………

Thursday, February 10, 2022

……کون کسے بے وقوف بنا رہا ہے ؟؟


خواب چکنا چور ہوگئے۔ امیدیں سراب نکلیں۔ بقول شہزاد احمد:
چوم لیں دیدۂ حیراں کو کہ آنکھیں پھوڑیں
چاند سمجھے تھے جسے، ابر کا ٹکڑا نکلا
پاکستان کشکول اٹھائے پوری دنیا سے بھیک مانگ رہا ہے؟ اپنے لیے؟ نہیں! افغانستان کے لیے! حالانکہ خود پاکستانی عوام مہنگائی اور بھوک تلے پِس رہے ہیں۔ کراہ رہے ہیں۔ کون سا افغانستان؟ وہی جہاں اب پاکستان کے دوست حکمران ہیں؟ ہاں وہی! جہاں سے پاکستان کی سرزمین پر اب بھی حملے ہورہے ہیں اور برابر ہورہے ہیں۔ مشیر قومی سلامتی نے قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سامنے 27 جنوری کو بیان دیا کہ افغان سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ اسی روز وزیر داخلہ نے کہا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ کارروائیوں سے باز رہیں اور یہ کہ ان کی ہمارے ساتھ کمٹمنٹ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی‘ مگر چھ فروری کو پھر افغانستان سے حملہ ہوا۔ کرم کے علاقے میں پاک فوج کے پانچ جوان شہید ہوگئے۔ پاکستان نے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر شدید احتجاج کیا۔
اصل حقیقت (Bottom Line) کیا ہے؟ بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان ایک عجیب و غریب صورت حال سے دوچار ہے۔ پائے رفتن نہ جائے ماندن! توقع تھی کہ اشرف غنی کی بھارت نواز حکومت ختم ہوگی تو مغربی سرحد محفوظ ہوجائے گی‘ مگر حملے افغانستان سے پھر بھی ہورہے ہیں۔ پاکستانی جوانوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہمارے عساکر شہید ہورہے ہیں‘ اور مسلسل شہید ہو رہے ہیں۔ وزیر داخلہ جب کہتے ہیں کہ 'افغان طالبان ٹی ٹی پی کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ کارروائیوں سے باز رہیں‘ تو بیک وقت حیرت ہوتی ہے اور ہنسی بھی آتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے معاشرے میں، خاص طور پر دیہات میں، مرد بیوی کو زدوکوب کرتا تھا۔ بیوی کے میکے والے گلہ کرتے تھے تو مرد کے ماں باپ ایک ادائے بے نیازی کے ساتھ کہہ دیتے تھے کہ سمجھا رہے ہیں بیٹے کو! اور سب کو معلوم ہوتا تھا کہ کوئی کسی کو نہیں سمجھا رہا! جن ماں باپ نے سمجھانا ہوتا ہے وہ سمجھا لیتے ہیں اور ایسا سمجھاتے ہیں کہ اس کے بعد لڑکے کو بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی! افغان طالبان کسی کو سمجھائیں اور وہ نہ سمجھے؟ ان کے سمجھانے کے بعد بھی حملے جاری رکھیں؟ ممکن ہی نہیں۔ کون کس کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے؟
پیچھے چلتے ہیں۔ تیس لاکھ سے زیادہ مہاجرین کو تو چھوڑ ہی دیجیے۔ اب تو ان کی کئی نسلیں پاکستان کی چاندنی، دھوپ اور ہوا میں سرسبز و شاداب ہو چکی ہیں۔ صرف اُس جِدوجُہد کو دیکھیے جو طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان، افغانستان کے لیے کر رہا ہے۔ گزشتہ سال گیارہ نومبر کو پاکستان کی وفاقی کابینہ نے انتہائی فیاضانہ اقدامات کا اعلان کیا۔ افغانستان سے سیب کے سوا تمام درآمدات پر ٹیکس ختم کر دیے‘ چاول اور گندم کی امداد بھیجنے کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ افغانوں کی مدد کے لیے خصوصی فنڈ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تاکہ پاکستانی عوام براہ راست افغانستان کی مدد کر سکیں۔ صرف یہی نہیں، عالمی برادری سے بھی افغانستان کی مدد کے لیے اپیل کی۔ اس کے دو دن بعد، تیرہ نومبر کو، پاکستان نے سردیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے گندم، چاول سمیت دیگر غذائی اشیا، ہنگامی طبی سامان اور پناہ گاہ کی اشیا بھیجنے کا اعلان کیا۔ ٹرائیکا پلس کے خصوصی نمائندگان برائے افغانستان سے ملاقات میں پاکستانی وزیر اعظم نے افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی پر زور دیا۔ اس سے پہلے گیارہ ستمبر کو پاکستان نے روس، چین، ایران، ازبکستان، قازقستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے انٹیلی جنس کے سربراہوں کی میزبانی کی۔ یہ بے مثال کانفرنس صرف اور صرف افغانستان کی خاطر بلائی گئی۔ اس میں پاکستان کا موقف تھا کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور اسے معاشی دیوالیہ پن سے بچایا جائے۔ پاکستان نے دواؤں کے لیے بھی ایک خطیر رقم بھجوائی۔
ان کوششوں اور قربانیوں کی تہہ میں پاکستان کا کوئی منفی مفاد نہیں تھا۔ نہ ہی صلے میں کچھ چاہیے تھا۔ یہ بے لوث خدمت تھی جو افغان بھائیوں کے لیے اس ملک نے کی اور اپنے غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر کی۔ ہاں! قدرتی توقع تھی کہ پاکستان دشمن عناصر اب افغانستان کی کمین گاہوں میں نہیں رہ سکیں گے اور نکال باہر کر دیے جائیں گے مگر افسوس! صد افسوس! اس حوالے سے نئی افغان حکومت نے جو موقف اپنایا اور ظاہر کیا وہ نہ صرف انتہائی مایوس کُن بلکہ حیران کُن بھی تھا۔ سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ کیا طالبان حکومت ان عناصر کو افغانستان سے نکالے گی؟ اس بارے میں آج تک افغان حکومت نے کوئی واضح بات نہیں کی۔ 29 اگست کو ایک پاکستانی اینکر کے سوال کے جواب میں طالبان کے ترجمان نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی افغانستان کا مسئلہ ہی نہیں، پاکستان کا ہے (حالانکہ حملے افغانستان سے ہو رہے ہیں) ایک اور بیان میں اسی ترجمان نے کہا کہ ہم پاکستان سے درخواست کریں گے کہ وہ ٹی ٹی پی کے مطالبات پر غور کرے۔ یہ گزشتہ دسمبر کی بات ہے! ٹی ٹی پی کے ایک سرکردہ لیڈر نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے دورے کے دوران ایک وڈیو میں دعویٰ کیا کہ ان کی تنظیم امارت اسلامی افغانستان کی ایک برانچ ہے اور پاکستان میں امارت اسلامی افغانستان کی چھتری کے نیچے کام کر رہی ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کے ترجمان نے اس کی تردید کی مگر ایک پاکستانی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستانی طالبان افغان طالبان کے سربراہ کو اپنا سربراہ مانتے ہیں تو انہیں ان کی بات بھی ماننا ہوگی۔ اس بیان کے اندر جھانکیے! یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ اس سیاق و سباق میں پاکستان کا عدم اطمینان پاکستان کے وزیر خارجہ کے اُس انٹرویو میں پوری طرح جھلکتا ہے جو انہوں نے گزشتہ ستمبر کی سولہ تاریخ کو برطانوی اخبار انڈی پینڈنٹ کو دیا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو ان خبروں پر تشویش تھی کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو جیلوں سے رہا کیا جا رہا ہے۔ اشرف غنی کو ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان نے مسلسل نشان دہی کی لیکن انہوں نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغان طالبان اپنی یقین دہانیوں پر کام کرتے ہیں یا نہیں!

پاکستان اگر عدم اطمینان کا اظہار، زیرِ لب ہی سہی، کر رہا ہے تو حق بجانب ہے! دنیا نیوز کا پروگرام تھنک ٹینک ملک کے ٹاپ کے اہلِ دانش پر مشتمل ہے۔ تین دن پہلے جو آرا اس موضوع پر ان اہل دانش نے دیں وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا (1) افغانستان سے ہماری ٹینشن رہے گی۔ (2) ٹی ٹی پی اور افغانستان طالبان کی سوچ ایک ہے۔ افغان طالبان چاہیں تو ٹی ٹی پی پاکستان پر حملہ نہیں کر سکتی۔ (3) افغان پالیسی پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے۔ (4) ہمیں افغان سے باقاعدہ احتجاج کرنا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ ہماری خود مختاری چیلنج ہو رہی ہے۔ (5) ہماری افواج مسلسل قربانیاں پیش کر رہی ہیں (6) افغانستان سے ہمیں کبھی محبت نہیں ملی۔ جب پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, February 08, 2022

وفاقی وزیر کا سچ

کوئی ہے جو عدالت میں جائے؟ نالش کرے! دہائی دے!اور انصاف مانگے مؤقر انگریزی معاصر نے اپنی چار فروری کی اشاعت میں وفاقی وزیر کا یہ بیان نقل کیاہے کہ...'' کوئی بھی شخص‘ بیک وقت‘ دو ملکوں کا وفادارنہیں ہو سکتا...‘‘
کیا ہی سنہری اصول ہے جو وفاقی وزیر نے قوم کے ساتھ شیئر کیا ہے! اور یہ بات انہوں نے روا روی میں نہیں کہی۔ نہ کسی تقریر میں جوشِ خطابت کی وجہ سے یہ بات ان کے منہ سے نکل گئی۔ نہ کسی نجی محفل میں احباب کے ساتھ گپ شپ کے دوران کہی۔یہ بات انہوں نے ملک کے سنجیدہ ترین‘ ادارے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے رو برو ارشاد کی۔ سینیٹ کی یہ قائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ کے امور کی انچارج ہے! اہم ترین پہلو یہ ہے کہ یہ بات کسی اپوزیشن رہنما نے نہیں کی۔ کسی کالم نگار یا صحافی نے کی ہوتی تو اسے آسانی سے نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ یوں بھی اس عہد میں کسی صحافی یا کالم نگار کی کیا اوقات ہے! کچھ عرصہ پہلے یہی میڈیا والے آنکھوں کے تارے تھے۔ آج کل معتوب ہیں اور ہدف ! آئینوں پر گرد جمی ہے اور کیا شتابی سے جمی ہے۔ حکیم مومن خان مومن یاد آگئے ؎
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
یہ بات تو ایک محترم اور ثقہ وزیر نے کی ہے۔ سرکاری ملازموں کے حوالے سے قوانین میں ترمیم کرنے کا بِل زیر غور ہے تا کہ انہیں دہری شہریت رکھنے سے روکا جائے۔ ہزاروں سرکاری ملازم دہری شہریت رکھتے ہیں۔ اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ملک کے اسّی نوے فیصد تعلیم یافتہ افراد ملک سے کیوں باہر جانا چاہتے ہیں یا دہری شہریت رکھنے کے کیوں متمنّی ہیں! نہ ہی اس کالم نگار کو نوکر شاہی سے کوئی ہمدردی ہے۔ ( نہ کالم نگار خود دہری شہریت رکھتا ہے ) اس میں کیا شک ہے کہ ملک کو تباہی کے دہانے پر لانے میں بیوروکریسی بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جتنے ذمہ دار سیاستدان اور آمر ہیں۔ مگر ایک ہی ملک میں ایک چیز بیک وقت اچھی اور بُری کیسے ہو سکتی ہے ؟ جب دہری شہریت والے تارکین وطن کو ووٹ دینے کا حق دیا جا رہا تھا تو سب سے زیادہ تشویشناک بات یہی تھی جو آج وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور جناب علی محمد خان نے کہی ہے۔ انہوں نے درست کہا ہے۔ جو تارک وطن اپنی مذہبی کتاب پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھاتا ہے کہ:"I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state, or sovereignty, of whom or which I have heretofore been a subject or citizen.
( یعنی میں حلفاً اعلان کرتا ہوں کہ میں قطعیت کے ساتھ اور پوری طرح‘ ایسے کسی بھی غیر ملکی شہزادے‘ حکمران‘ ریاست یا خود مختار ملک کو‘ جس کی میں اب سے پہلے رعایا یا شہری تھا‘ چھوڑتا ہوں‘ ترک کرتا ہوں اور اس سے لا تعلق ہوتا ہوں)
وہ اُس ملک کا وفادار کیسے ہو سکتا ہے جسے وہ چھوڑ چکا ہے‘ جسے ترک کر چکا ہے اور جس سے لا تعلق ہو چکا ہے اور جس لا تعلقی کا اعلان وہ حلف اٹھا کر کر چکا ہے ؟ کیا محترم وفاقی وزیر یہ بات اپنی حکومت کو‘ خاص طور پر وزیر اعظم صاحب کو سمجھائیں گے؟ اقتدار میں آنے سے پہلے وزیر اعظم برملا کہتے تھے کہ دہری شہریت والوں کو سیاست کا حق ہے نہ وزیر بننے کا نہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا! بعد میں حکومت میں آکر انہوں نے اپنا موقف بدل لیا۔ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ جس کی وفاداری مشکوک ہے کیا اسے یہ حق دیاجانا چاہیے کہ وہ کسی امیدوار کے پارلیمنٹ میں جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کرے؟
وفاقی وزیر صاحب کی بات سے قطع نظر‘ تارکین وطن کی اپنے سابق وطن سے محبت قدرتی ہے اور اس میں شاید ہی کسی کو شک ہو۔ مسئلہ منطق کا ہے اور زمینی حقائق کا۔ وہ کسی امیدوار کو ووٹ ڈالنے یا ووٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کریں گے تو کس بنیاد پر؟ کئی تارکین تو کئی کئی سال آتے ہی نہیں۔ خاص طور پر جن کے والدین حیات نہیں‘ ان کی آمد بہت ہی کم ہوتی ہے۔وہ امیدواروں کو جانتے ہی نہیں۔ حلقے کے مسائل سے بھی وہ نا آشنا ہیں۔ یہاں کے بازار اور قیمتوں سے بھی انہیں واسطہ نہیں پڑتا۔ یہاں کے سرکاری دفتروں کی کارکردگی کا بھی انہیں اندازہ نہیں۔ کیاان کے لیے یہ بہتر نہیں کہ جس وطن میں وہ گئے ہیں‘ جس سے غیر مشروط وفاداری کا حلف اٹھایا ہے‘ جس سے ان کے بچوں کا مستقبل بندھا ہے‘ جہاں ان کی زندگیاں گزر رہی ہیں اور جہاں وہ ٹیکس دے رہے ہیں‘ وہیں کی سیاست میں دلچسپی لیں! دو کشتیوں کی سواری نہ کریں۔ ہم جو وطن میں رہ رہے ہیں‘ ہم انتظار کر رہے ہیں کہ ہمارے بھائی اپنے اپنے نئے ملکوں میں وزیر کب بنیں گے؟ مئیر کب منتخب ہوں گے اور وہاں پارلیمان میں کب پہنچیں گے؟ ہمیں آپ پر فخر ہے۔ آپ حضرات پاکستان کے اصل سفیر ہیں۔ اپنے نئے ملکوں کی سیاست میں آپ جتنا زیادہ حصہ لیں گے‘ پاکستان کو اتنا ہی زیادہ فائدہ پہنچے گا! ظاہر ہے وہاں کی حکومت کا حصہ بننے کے بعد آپ پاکستان کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں !
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس معاملے کا اُن تارکین وطن سے کوئی تعلق نہیں جو یو اے ای‘ قطر‘ کویت‘ سعودی عرب اور بحرین میں کام کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے پاس دہری شہریت نہیں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ممالک شہریت نہیں دیتے۔ یوں انہیں تارکین وطن کہا ہی نہیں جا سکتا۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی بھاری اکثریت کے کنبے پاکستان ہی میں ر ہتے ہیں۔ وہ تعطیلات میں برابر وطن آتے ہیں۔ یوں وطن کی سیاست سے پوری طرح باخبر رہتے ہیں۔
بیورو کریسی پر ہاتھ ڈالنا اور اسے ہدف بنانا آسان ہے۔ انگریز ایسے ہدف کے لیے belly Softکے الفاظ استعمال کرتے ہیں‘مگر زیادہ طاقتور طبقات کو کوئی نہیں پوچھتا۔ جن وزرا‘ ارکانِ پارلیمنٹ‘ عمائدین حکومت اور سیاست دانوں کے کنبے بیرونِ ملک رہتے ہیں‘ ان پر کیوں نہیں توجہ دی جاتی؟ کچھ عرصہ پہلے اپنے دوست خالد مسعود خان کے کالم کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایک مشہور سیاست دان کی فیملی لاس اینجلس کے مہنگے علاقے میں قیام پذیر ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔سیاست یہاں کرتے ہیں‘ کاروبار باہر ہے اور بچے بھی باہر رہتے ہیں! معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے افراد تو باہر سے آکر حکمرانی بھی کر گزرے۔ معین قریشی واشنگٹن ڈی سی کی مٹی اوڑھ کے سو رہے ہیں۔ ان کا محل‘ جو وہاں تھا‘2016ء میں اسّی لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا۔ شوکت عزیز‘ باہر سے آئے۔ وزارتِ خزانہ اور وزارتِ عظمیٰ کے مزے لُوٹے۔ جیسے ہی اقتدار سے نکلے‘ بریف کیس اٹھایا اور چلے گئے۔ اس کے بعد وطن کا رخ ہی نہیں کیا۔ شاید پاکستان کو ان کا وطن کہنا ہی نامناسب ہے اور واقعاتی طور پر غلط ! جاتے ہوئے تحائف‘ جو وزیر اعظم کی حیثیت سے بیرونِ ملک ملتے رہے‘ پوٹلی میں باندھ کر ساتھ لے گئے۔ یہ کھرب پتی لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ دولت جتنی زیادہ ہوتی ہے‘ دولت کی ہوس اتنی ہی بڑھ جاتی ہے یہاں تک کہ قلاشوں اور بھکاریوں جیسی چھوٹی حرکتیں کر نے سے بھی باز نہیں آتے۔————بشکریہ روزنامہ دنیا 

Monday, February 07, 2022

خوشیاں مناؤ



کیا ہی برکت والا دن تھا! ایک سعید دن! ایک خوشیوں بھرا دن!

قوموں کی تاریخ میں ایسے دن صدیوں بعد آتے ہیں! پھر وہ ایسا نقش چھوڑ جاتے ہیں جو ان مٹ ہوتا ہے۔ روشنی بکھیرتا ہے۔ اس روشنی میں قومیں مستقبل کے فاصلے طے کرتی ہیں! منزلیں سر کرتی ہیں! کامیابیاں سمیٹتی ہیں۔ خود ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ میں ایسے دو دن آئے ہیں۔ چار جولائی کا دن! جب دو سو چھیالیس سال پہلے، چار جولائی 1776ء کو امریکہ کی تیرہ ریاستوں نے تاجِ برطانیہ سے چھٹکارا حاصل کیا اور ایک آزاد امریکہ وجود میں آیا۔ پھر جب 1865ء میں امریکی خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا تو یہ دن بھی امریکہ کی تاریخ میں ایک عظیم دن ہے۔ جنوبی ریاستیں غلامی کے حق میں تھیں جب کہ مرکز (یونین) غلامی کا خاتمہ چاہتا تھا۔ فریقین میں جنگ ہوئی۔ مرکز جیت گیا۔ ابراہام لنکن اس جنگ کا ہیرو تھا۔ اس دن نے امریکہ کو عظیم سے عظیم تر بنا دیا۔ آسٹریلیا میں چھبیس جنوری کا دن آسٹریلیا ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اُس دن، 1788ء کو سڈنی کے ساحل پر برطانوی جھنڈا لہرا کر نئی کالونی کا آغاز کیا گیا تھا۔ یہی نئی کالونی آسٹریلیا کی شکل میں ایک الگ ملک بنی۔ یکم جنوری بھی آسٹریلیا کی تاریخ میں انتہائی اہم دن ہے۔ یکم جنوری 1901ء کو آسٹریلیا کا آئین بنا اور چھ ریاستیں وفاق کی شکل میں متحد ہو کر ایک ملک بن گئیں۔ تب سے یکم جنوری کو یومِ وفاق ( فیڈریشن ڈے) کے طور پر منایا جاتا ہے۔
خود ہمارے لیے چودہ اگست کا دن تاریخ ساز دن ہے۔ ہندو اکثریت سے ہمیں نجات ملی ورنہ ون مین ون ووٹ کے حساب سے ہم ہمیشہ زیرِنگیں ہی رہتے۔ دوسرا اہم دن اٹھائیس مئی کا ہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ یہ دھماکے سو فیصد اپنے دفاع میں تھے کیونکہ بھارت نے اپنے ایٹمی دھماکے کے بعد خونخوار لہجہ اپنا لیا تھا اور بھیڑیا بن کر پاکستان کو میمنا سمجھنے لگا تھا۔ مگر یہ دن جس کا ذکر اس تحریر کے آغاز میں ہوا ہے، ہمارے ان دونوں اہم دنوں سے بھی زیادہ اہم ہے۔ ہمارے وزرا اور حکومتی عمائدین نے بجا طور پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ یہ دن ہمارے لیے قابلِ فخر ہے۔ ایسا عظیم دن ترقی یافتہ ملکوں کے نصیب میں بھی نہیں۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک جو تیل اور سونے میں کھیل رہے ہیں، ایسے مبارک دن کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
پوری قوم کو نماز شکرانہ ادا کرنی چاہیے۔ وفاقی دارالحکومت میں شکرانے کی جو نماز ہو، اس میں صدر مملکت، وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان شرکت کریں۔ یہ نماز فیصل مسجد میں ادا ہونی چاہیے۔ صوبائی دارالحکومتوں میں گورنر اور وزرائے اعلیٰ نماز میں شامل ہوں۔ علمائے کرام اور مساجد کے آئمہ کو اس دن کے فیوض و برکات پر خصوصی خطبات دینے چاہئیں۔ اس دن کو قومی تعطیل کے طور پر منایا جائے۔ جشن کا سماں ہو۔ لوگ رنگا رنگ نئے ملبوسات پہن کر باہر نکلیں۔ ایک دوسرے کو مبارک دیں۔ تمام شہروں، قصبوں اور بستیوں میں اس دن آتش بازی ہو۔ اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع کریں۔ ٹی وی چینل خصوصی پروگرام نشر کریں۔ قومی نغمے گائے جائیں۔ محکمہ ڈاک اس دن کی یادگار کے طور پر خصوصی ٹکٹ جاری کرے۔ قیدیوں کی سزا میں کمی ہونی چاہیے اور جو سزائے موت کا انتظار کر رہے ہیں‘ انہیں اس خوشی کے صدقے معاف کر دینا چاہیے۔ سفارت خانوں کو خصوصی ہدایات دی جائیں کہ دنیا بھر میں اس عظیم دن کی اہمیت واضح کریں۔ تعلیمی نصاب میں اس دن کے حوالے سے مضامین، کہانیاں اور نظمیں شامل ہوں۔ مطالعۂ پاکستان کے مضمون میں اس پر خصوصی باب ہو۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے اس دن کو تحقیق کا موضوع بنایا جائے۔

یہ دن، یہ عظیم الشان دن، سالِ رواں کی دو فروری کا ہے۔ اس دن آئی ایم ایف نے ہمیں ایک ارب ڈالر قرض دینے کی منظوری دی۔ اس بے مثال کامیابی پر ہمارے وزیر خزانہ نے کہا 'میں خوشی کے ساتھ اعلان کر رہا ہوں کہ آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کے لیے چھٹی قسط کی منظوری دے دی ہے‘۔ ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات نے بیان جاری کیا کہ الحمدللہ! آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے سے معیشت کے استحکام اور اصلاحات کے عمل میں مدد ملے گی۔
ہم جو عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہیں، ہمارے لیے قرض کی یہ قسط ایک بہت بڑا انعام ہے! ایک بہت بڑی نعمت ہے! ہمیں تو اس زبردست کامیابی کے لیے کچھ زیادہ قربانی بھی نہیں دینا پڑی۔ ہم نے بس یہ کیا کہ کچھ اور تابع داریوں کے علاوہ سٹیٹ بینک کا ترمیمی بل پاس کر دیا۔ اس کے لیے حزبِ اختلاف کے کچھ معزز ارکان کو بس اپنی حُرمت گروی رکھ کر ایوان سے ذرا غائب ہونا پڑا۔ ملک اور قوم کے لیے یہ قربانی کوئی بڑی قربانی نہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض مل جائے تو اور کیا چاہیے! عزت و حُرمت تو یوں بھی آنی جانی شے ہے! رہا سٹیٹ بینک! تو اسے ہم نے اپنے محسن آئی ایم ایف کے قدموں میں ڈال کر کوئی خاص تیر نہیں مارا۔ محسنوں کے لیے تو جان بھی دینا پڑ جائے تو بڑی بات نہیں! اور یہ تو خدا کا شکر ہے کہ ہم نے ہوش کے ناخن لیے اور ہمیں عقل آ گئی‘ ورنہ ہم تو کچھ عرصہ پہلے اس قسم کے دعوے کر رہے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے خود کُشی کر لیں! خود کُشی کے دعووں سے لے کر قرض ملنے پر اظہار مسرت تک ہم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے! ہم نے اس سفر میں بہت کچھ سیکھا! ہم نے سیکھا کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی شیر کی ایک دن کی زندگی سے نہ صرف بہتر ہے بلکہ کئی درجے بہتر ہے! ہم نے سیکھا کہ اصول وہ ہے جس سے کچھ وصول ہو! ہم نے جان لیا کہ نماز کس کی اقتدا میں ادا کرنی ہے اور کھانا کس کے دستر خون پر اچھا ملتا ہے! ہم نے جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا! ہمیں معلوم ہو گیا کہ عوام اپنی ذات کو پسِ پشت رکھ کر اپنے بڑوں کے لیے قربانی دیں تو اس میں عوام کسی پر کوئی احسان نہیں جتا سکتے اس لیے کہ عوام کا کام ہی یہ ہے کہ بڑوں کی خاطر اپنی، اپنے بچوں کی زندگیوں کو قربان کر دیں! ہم عوام کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے بڑوں کی ملکیت میں مالیاتی ادارے ہیں! انہوں نے اپنی ٹیکسٹائل ملیں، اپنے ملک سے دوسرے ملکوں میں منتقل کر دی ہیں کیونکہ اصول یہ نہیں کہ اپنے ملک کی ترقی ہو۔ اصول وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے یعنی جس سے کچھ وصول ہو!
چودہ اگست، تئیس مارچ اور یوم تکبیر کے ساتھ ساتھ ہم اب دو فروری کا دن بھی ہر سال منایا کریں گے۔ ہمارے تہواروں میں یہ ایک زبردست اضافہ ہے۔ اٹھائیس مئی کو یوم تکبیر پر ایٹمی دھماکہ کرکے ہم نے اپنی گردن بچائی تھی۔ دو فروری کے دن ہم نے اپنی گردن پر سنہری چُھری پھروائی ہے اور ساتھ ہی تکبیر پڑھی ہے۔ ملک سعید ہزارہ کا ایک مشہور و معروف گیت ہے جس کے بول یوں ہیں:
خوش روے شالا سہریاں والا، خوشیاں مناؤ
ہر ویلے وَسے سہریاں والا، خوشیاں مناؤ

آئیے! ہم بھی خوشیاں منائیں۔ رقص کریں! دھمال ڈالیں !

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, February 03, 2022

باغ بغیچہ ہے سامنے


دو شہروں کے درمیان معلّق ہوں! چکی کے دو پاٹوں کے درمیان! مگر یہ دو پاٹ پتھر کے نہیں، پھولوں کی پتیوں سے بنے ہیں! میلبورن میں حمزہ، زہرا اور سمیر ہیں۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی ڈرائیو پر جیلانگ کا شہر ہے جہاں تیمور اور سالار رہتے ہیں۔ میرا آسٹریلیا انہی میں ہے اور انہی تک ہے! سارے شہر دیکھ لیے۔ سارے ساحل ماپ چکے! دنیا کی سیر کر لی! اقلیمیں اور ولایتیں چھان لیں! طارق نعیم نے کیا کمال کا شعر کہا ہے
یونہی تو کُنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں
خسروی، شاہجہانی مری دیکھی ہوئی ہیں
یہ جو پوتوں پوتیوں اور نواسیوں نواسوں کی دنیا ہے یہ ایک الگ ہی اقلیم ہے! ایک انوکھی ہی ولایت ہے! زمین کے اوپر ہے مگر بہشت کا یہ ٹکڑا زمین سے الگ ہے۔ یہ بچے نہیں، اُڑتے ہوئے رنگین ابر پارے ہیں۔ تتلیاں ہیں! جگنو ہیں! خوشبو کے پیکر ہیں! ان کے جسم، چاندنی کو سورج کی کرنوں اور ستاروں کی ٹھنڈک میں گوندھ کر بنائے گئے ہیں! ان کی روحیں مقدس ہیں۔ اگر یہ عمر بھر کی محنت مشقت کا بڑھاپے میں صلہ ہے تو کیا ہی اچھا صلہ ہے۔
یہ جو سفر کا آخری حصہ ہے سامنے
دلکش بہت ہے، باغ بغیچہ ہے سامنے
یہ باغ باغیچہ بہت بڑا انعام ہے! دنیا کی کسی لغت میں ایسے الفاظ نہیں جو اس انعام کا شکر ادا کرنے کے لیے کافی ہوں!
دو اڑھائی سال کورونا نے ڈکّا لگائے رکھا۔ کوئی آیا نہ گیا۔ اب آ کر دیکھا تو بچے بڑے بڑے لگے۔ کمپیوٹر پر مسلسل نظر آتے رہے۔ مگر اصل اصل ہے اور عکس عکس! دیکھنے اور چھونے میں فرق ہے۔ اس بار قیام چند ہفتوں سے زیادہ کا نہیں۔ ایک ہفتہ جیلانگ رہ کر میلبورن جانے لگے تو تیمور رونے لگ گیا کہ رات، سونے سے پہلے کہانی سننا ہوتی ہے؛ چنانچہ جتنے دن وہاں نہیں ہوتے، موصوف وڈیو لنک پر کہانی سنتے ہیں۔ میلبورن سے جیلانگ جانے لگتے ہیں تو حمزہ اور زہرا منہ بسور کر چمٹ جاتے ہیں۔ یہاں رہتے ہوئے اسلام آباد اور لاہور والے بچے بھی یاد آتے ہیں اور ساتھ ہی یہ شعر بھی:
پوتوں نواسیوں کے چمن زار! واہ! واہ!
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے
کووڈ کے طویل تعطل کے بعد سکول کھلے۔ حمزہ کو اس کا والد سکول چھوڑنے جا رہا تھا تو میں بھی ساتھ ہو لیا۔ سکول کے پاس وہ گاڑی سے اترا۔ بستہ پیٹھ پر لادے گیٹ کی طرف جا رہا تھا اور میں اسے جاتے دیکھ کر زمانوں کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا۔ پینسٹھ چھیاسٹھ سال پہلے اس کا دادا گاؤں کے سکول میں پہلی جماعت میں داخل ہوا تھا۔ یہ سکول ایک چھوٹے سے گراؤنڈ اور ایک بڑے کمرے پر مشتمل تھا۔ گراؤنڈ کے ایک طرف ٹوٹا ہوا گھڑا زمین میں دبایا گیا تھا۔ اس میں پانی ہوتا تھا جس سے ہم اپنی تختیاں دھوتے۔ پھر پوچہ لگاتے اور ہوا میں لہرا لہرا کر انہیں خشک کرتے۔ پانچوں کی پانچوں جماعتیں اُس ایک کمرے میں تھیں۔ دیوار کے ساتھ ساتھ ٹاٹ بچھے تھے۔ جہاں پہلی جماعت ختم ہوتی تھی، وہیں، اُسی ٹاٹ پر دوسری جماعت شروع ہو جاتی تھی۔ پھر تیسری، پھر چوتھی اور پھر پانچویں! ماسٹر صاحب کا نام منشی نور حسین تھا۔ قریب کے ایک گاؤں (گلی جاگیر) سے سائیکل پر آتے تھے۔ دادی جان کے ساتھ ان کی رشتہ داری تھی؛ چنانچہ اکثر چھٹی کے بعد ہمارے گھر آتے اور چائے یہیں پیتے۔ گاؤں میں چائے ظہر کی نماز کے فوراً بعد پی جاتی تھی۔ گرمیوں میں مغربی دیوار کے ساتھ اتنا سایہ ہو جاتا تھا کہ چارپائیاں بچھا کر وہاں بیٹھا جائے۔ سائے میں دھوپ کی تپش! اور سخت گرم چائے! اس کا اپنا ہی مزا تھا۔ وہ ایک مخلوط معاشرہ تھا۔ دادی جان، دادا جان اور مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتی تھیں۔ ہاں! اکثر وہ پیڑھی پر بیٹھتی تھیں۔ گاؤں کے کلچر میں برقعے کا نام و نشان نہ تھا۔ عورتیں کھیتوں میں بھی کام کرتیں! منہ زور بیلوں کی جوڑی کو تالاب لے جا کر پانی بھی پلاتیں۔ مہمانوں کو بھی اٹینڈ کر تیں! ماسٹر صاحب سے رشتہ داری کا دادی جان خوب فائدہ اٹھاتیں! دس بجے صبح، جب تنور سے روٹیاں اترتیں تو سکول آ کر مجھے لے جاتیں اور ماسٹر صاحب کو بتاتی جاتیں کہ اس کی روٹی ٹھنڈی نہ ہو جائے۔ تنور سے اتری ہوئی گرم روٹی پر انگلیوں سے گڑھے بناتیں۔ اس پر مکھن کا پیڑا رکھتیں جو حدت سے پگھل جاتا اور سوراخوں کے اندر رچ بس جاتا۔ اس کے اوپر شکر ڈالتیں۔ ساتھ دودھ ہوتا یا تازہ لسّی۔ دس بجے کے لگ بھگ یہ جو لنچ ہوتا اس میں سالن قسم کی کوئی چیز نہ تھی۔ کھانا کھا کر میں دوبارہ سکول جاتا۔ یہ خاص رعایت صرف میرے لیے تھی۔
حمزہ گیٹ کے اندر داخل ہو رہا تھا۔ میں اسے برابر دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی ایک اور زمانے پر دستک دے رہا تھا! چالیس سال پہلے اس کے ابو کو میں سکول کے لیے گھر سے جاتے دیکھا کرتا۔ اسلام آباد، صبح صبح سائیکل پر نکلتا! اُس وقت کا اسلام آباد انسانوں کی بستی تھی۔ ابھی عفریت گرین ایریا پر حملہ آور نہیں ہوئے تھے۔ شہر سریے اور سیمنٹ کے عذاب سے بچا ہوا تھا۔ بچے سڑکوں پر سائیکلیں چلا سکتے تھے۔ اسرار کے دادا اسے اہتمام سے رخصت کرتے۔ سینے سے لگاتے۔ بوسہ لیتے اور ایک یا دو روپے پاکٹ منی دیتے۔ یہ عجیب قرض ہے جو اتارنا ہوتا ہے۔ حمزہ کو صبح، گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے بھی سینے سے لگایا۔ پھر گاڑی سے اترتے وقت بھی! پانچ ڈالر پاکٹ منی دی۔ اس کا ابو کہنے لگا: دو کافی تھے۔ جیسے جیسے وہ سکول کے گیٹ کی طرف چلتا گیا دادا کا دل سینے میں پگھلتا گیا۔ میاں محمد بخش صاحب کے بقول:
پاٹی لیر پرانی وانگوں ٹنگ گیاں وچ ککراں
جی چاہا اتر کر سکول کے گیٹ پر بیٹھ جاؤں اور چھٹی تک اس کا انتظار یہیں بیٹھ کر کروں! اس کا ابو شاید میری کیفیت کو بھانپ گیا تھا۔ مجھے باتوں میں لگا لیا!
میلبورن اور جیلانگ میں رہ کر یہ بچے اردو لکھ پڑھ لیتے ہیں اور شاید یہی ہیں جو اردو لکھ پڑھ رہے ہیں۔ آج کل فیروز سنز کی چھپی ہوئی کہانیوں کی کتابیں پڑھ رہے ہیں ۔ املا لکھتے ہیں۔ اردو اور پنجابی بولتے ہیں۔ ان کے باپ اس ضمن میں شدید محنت کر رہے ہیں۔ دو متوازی نظام! مگر
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
اِس جنوبی نصف کُرۂ زمین میں گرمیوں کا موسم ہے! یہ عجیب و غریب گرمیاں ہیں! تین دن درجۂ حرارت چونتیس پینتیس تک جائے تو چوتھے دن انیس پر آ جاتا ہے۔ کبھی اس سے بھی کم۔ دن کی روشنی سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے گرمیوں میں گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے کر دیا جاتا ہے۔ سورج پونے نو بجے غروب ہوتا ہے۔ کھانا سات بجے کے لگ بھگ کھا لیا جاتا ہے اور بچوں کو دس بجے تک سلا دیا جاتا ہے۔ بازار ساڑھے پانچ بجے بند ہو جاتے ہیں۔ ہماری تو یہ دکھتی رگ ہے۔ گھڑیاں آگے کر بھی لیں تو کچھ حاصل نہ ہو۔ ہمارے بازار ظہر کے بعد کھلتے ہیں اور آدھی رات تک کھلے رہتے ہیں۔ باقی معاملات کی طرح ریاست یہاں بھی بے بس ہے۔ بے بس ہی نہیں، عملاً وجود ہی نہیں رکھتی۔ ملک ایک ہے! اس کے اندر ریاستیں کئی ہیں! ایک ریاست ہمارے تاجروں کی ہے۔ اس میں ان کی اپنی بادشاہت ہے۔ صرف عوام ہیں جن کی بادشاہت کا دور دور تک کوئی امکان نہیں!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, February 01, 2022

ہم اُس کے ‘ وہ اور کسی کا…


ہم پاکستانی اس خبر کو شاید ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کر سکیں۔ اسرائیل کے صدر نے یو اے ای کاپہلا سرکاری دورہ کیا ہے۔ اس موقع پر اسرائیلی صدر نے متحدہ عرب امارات کی '' سکیورٹی‘‘ کی اہمیت پر زور دیا اور اس سلسلے میں اسرائیلی تائید کا بھی ذکر کیا۔ یاد رہے کہ چند دن پہلے ہی یمن کے حوثی قبائل نے ابو ظہبی پر ڈرون حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ایک پاکستانی سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ ایک گنجلک مسئلہ ہے۔ یمن‘ فی الحال‘ اس مسئلے کا گرم ترین نقطہ ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای ایک طرف اور ایران دوسری طرف ہے۔ اگر حوثی قبائل کے حملے یو اے ای پر جاری رہے تو یو اے ای کے مستقبل کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یو اے ای کا سب سے بڑا مثبت پہلو اس کا امن و امان ہی تو ہے۔ جبھی دنیا بھر کے ذہین اور محنتی لوگ یو اے ای کا رُخ کرتے ہیں۔ دبئی کی بے مثال ترقی کا راز ہی یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کی افرادی قوت یہاں آکر اس کی ترقی میں کردار ادا کر تی ہے۔ فرض کیجیے خدا نخواستہ ایسے حملے تواتر سے ہوتے ہیں اور زور پکڑتے ہیں‘ دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے ورکر چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ یو اے ای کے لیے بہت بڑا المیہ ہو گا۔ ایک بار ایسا ہو گیا تو اس کے مضر اثرات ایک طویل عرصہ تک یو اے ای کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بنے رہیں گے۔ یہ اس کے مستقبل کے لیے ایک بہت بڑی بد شگونی ہو گی۔
بقول فانی بدایونی ؎
دل کا اُجڑنا سہل سہی‘ بسنا سہل نہیں ظالم!
بستی بسنا کھیل نہیں‘ بستے بستے بستی ہے
مگر عرب ایران نزاع اور خطے کی صورت حال آج کا موضوع نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس واقعہ سے ہم اپنے لیے کیا نتائج اخذ کر سکتے ہیں ؟
کوئی مانے یا نہ مانے‘ حقیقت یہ ہے کہ ہم پاکستانی بین الاقوامی تعلقات کو مذہب اور صرف مذہب کی عینک سے دیکھتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں ان تعلقات کوملکی مفاد کی عینک سے دیکھا جاتا ہے! صرف اور صرف ملکی مفاد کی عینک سے! ہم ابھی تک اس خوش فہمی‘ یا غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ فلاں فلاں ملک سے ہمارا رشتہ اسلام کے مضبوط بندھن سے بندھا ہے اور فلاں سے ہمیں مذہبی بنیاد پر ہمیشہ کے لیے دور رہنا ہے۔ ہم ایسا پورے خلوص اور بے غرضی سے کرتے ہیں مگر یہ معیار باقی دنیا کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ جب یہ دونوں معیار باہم متصادم ہوتے ہیں تو ہم شدید ذہنی صدمے سے دوچار ہوتے ہیں۔ کرب کی یہ صورت حال قدرتی ہے۔ جب امیدوں کو آسمان تک لے جایا جائے تو ان کا زمین پر آگرنا اسی تناسب سے المناک ہوتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کو جب مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں بہت زیادہ پذیرائی ملتی ہے‘ ان ملکوں میں جب حکومتوں کی اشیر باد سے مندر تعمیر ہوتے ہیں‘ جب بھارتیوں کو تمغوں اور اعزازات سے نوازا جاتا ہے تو یہ سب کچھ ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔فرض کیجیے ہم ان ملکوں کے کسی شہری سے اس بات کا گلہ کریں تو اس کا رد عمل کیا ہو گا ؟ وہ لامحالہ ایک ہی سوال پوچھے گا کہ آپ کا اس میں کیا نقصان ہے؟ ہم زمینی حقائق کو بھول جاتے ہیں اس لیے کہ جو اسباب و عوامل ہم اپنے ذہن میں لیے پھرتے ہیں‘ حقائق کی دنیا میں ان اسباب و عوامل کا وجود ہی کوئی نہیں! اول تو اسلام اتنا کمزور نہیں کہ ایک مندر کی تعمیر سے یا ایک بھارتی حکمران کو کوئی اعزاز دینے سے اسے نقصان پہنچ جائے۔ رہا یہ پہلو کہ وہ ہمارا دشمن ہے تو آپ اس کے ساتھ تعلقات کیوں بڑھا رہے ہیں تو یہ دلیل ہماری برادریوں اور خاندانوں میں تو چل سکتی ہے‘ بین الاقوامی امور میں نہیں چل سکتی! ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے۔ اس کی معیشت کا پھیلاؤ بڑا بھی ہے اور اس کی بنیادیں زیادہ گہری بھی ہیں۔اقتصادی حوالے سے مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو جو فائدہ بھارت پہنچا سکتا ہے پاکستان نہیں پہنچا سکتا! بھارت کا ان ملکوں کے ساتھ دو طرفہ بھاری سرمایہ کاری کا تعلق ہے جبکہ ہم اپنے غیر ترقیاتی اخراجات بھی مانگے تانگے سے پورے کر رہے ہیں! سائز میں چھوٹا تو ہمیں قدرت نے بنایا ہے مگر یہ بھی دیکھیے کہ ہم سے بھی زیادہ چھوٹے ملک ہم سے صدیوں آگے نکل گئے ہیں ! ہم جب اپنا ایئر پورٹ گیارہ بارہ سال میں بنائیں گے‘ ہم سے جب کسی ایک شہرمیں بھی انڈر گراؤنڈ ریلوے نہیں بن سکی‘ ہم جب اپنی ٹریفک کو راہ راست پر نہیں لا سکے تو دوسرے ملکوں کے لیے ہم کس طرح مفید ثابت ہو سکتے ہیں ؟
بین الاقوامی تعلقات میں مذہب کا کردار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ ترکی ایئر لائن کی ہر ہفتے درجنوں پروازیں تل ابیب آجا رہی ہیں۔وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ اسرائیل اور بھارت کے سینکڑوں معاہدے تجارتی اور اقتصادی میدانوں میں بروئے کار آ رہے ہیں۔ یو اے ای کے علاوہ‘ بحرین‘ سوڈان اور مراکش بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں! آذربائیجان میں اکثریت شیعہ مکتب فکر کی پیرو کار ہے مگر آرمینیا کے ساتھ اس کی جنگ کے دوران ایران کی ہمدردیاں نصرانی آرمینیا کے ساتھ تھیں! سعودی عرب نے ہمیں جو حالیہ مدد دی ہے اس کی شرائط روح فرسا ہیں اور ان سے اجنبیت پوری پوری جھلک رہی ہے۔ ہم فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں مگر جس ملک میں حرمین شریفین واقع ہیں وہاں حال ہی میں فرانسیسی صدر کو بھرپور سرکاری پروٹو کول دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان معاہدہ ہے کہ دونوں ملک‘ کسی تیسرے ملک کو سامانِ تجارت بھیجنے کے لیے ایک دوسرے کے زمینی اور سمندری راستے استعمال کر سکتے ہیں۔ اسی معاہدے کی رُو سے بھارت میانمار (برما ) کو بنگلہ دیش کے راستے تجارتی مال بھیج سکتا ہے اور بھیج رہا ہے! ان ملکوں میں کوئی فتویٰ لگا نہ ان معاہدوں اور دوروں کے خلاف کسی مسلمان ملک میں کوئی احتجاج ہوا‘نہ کہیں گولی چلی جبکہ ہماری خارجہ پالیسی کے خدو خال کا فیصلہ سڑکوں پر نکلا ہوا ہجوم کرتا ہے یا خارجہ پالیسی کے خطوط اس ہجوم کے ڈر سے طے کیے جاتے ہیں!
معیشت اور سکیورٹی‘ یہ دو بنیادی عوامل ہیں جو آج کی دنیا میں کسی ملک کی خارجہ پالیسی کو طے کرتے ہیں۔مذہب‘ زبان‘ نسل‘ ثقافت‘ ہمسائیگی‘ مشترکہ تاریخ‘ سب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ ماضی قریب میں ہمارے سامنے قطر اور دوسرے عرب ملکوں کے درمیان دوریاں پروان چڑھیں اور ترکی قطر کے نزدیک ہوا۔ایرانیوں اور عربوں کا خدا ایک ہے‘ قران ایک ہے اور رسول ؐایک۔ قرأت کی بڑی بڑی کانفرنسیں ایران میں بھی منعقد ہوتی ہیں جن میں عرب قاری اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ عظیم الشان بندھن ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اس قابلِ فخر اشتراک کے باوجود خارجہ پالیسیوں اور تعلقات میں ان بندھنوں کا کوئی کردار نہیں۔ اسرائیلی صدر کے دورے پر اس کالم نگار سمیت ہم سب کو دھچکا لگا ہے؛ تاہم حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مزید دھچکوں کے لیے تیار رکھیں کہ بقول ظفر اقبال ؎
ہم اُس کے‘ وہ اور کسی کا‘ پکی پختہ ڈوری
اپنا دل‘ اپنا مذہب‘ کیا جھگڑا چوں چناں کا

بشکریہ روزنامہ دنیا
 

powered by worldwanders.com