دو شہروں کے درمیان معلّق ہوں! چکی کے دو پاٹوں کے درمیان! مگر یہ دو پاٹ پتھر کے نہیں، پھولوں کی پتیوں سے بنے ہیں! میلبورن میں حمزہ، زہرا اور سمیر ہیں۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی ڈرائیو پر جیلانگ کا شہر ہے جہاں تیمور اور سالار رہتے ہیں۔ میرا آسٹریلیا انہی میں ہے اور انہی تک ہے! سارے شہر دیکھ لیے۔ سارے ساحل ماپ چکے! دنیا کی سیر کر لی! اقلیمیں اور ولایتیں چھان لیں! طارق نعیم نے کیا کمال کا شعر کہا ہے
یونہی تو کُنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں
خسروی، شاہجہانی مری دیکھی ہوئی ہیں
یہ جو پوتوں پوتیوں اور نواسیوں نواسوں کی دنیا ہے یہ ایک الگ ہی اقلیم ہے! ایک انوکھی ہی ولایت ہے! زمین کے اوپر ہے مگر بہشت کا یہ ٹکڑا زمین سے الگ ہے۔ یہ بچے نہیں، اُڑتے ہوئے رنگین ابر پارے ہیں۔ تتلیاں ہیں! جگنو ہیں! خوشبو کے پیکر ہیں! ان کے جسم، چاندنی کو سورج کی کرنوں اور ستاروں کی ٹھنڈک میں گوندھ کر بنائے گئے ہیں! ان کی روحیں مقدس ہیں۔ اگر یہ عمر بھر کی محنت مشقت کا بڑھاپے میں صلہ ہے تو کیا ہی اچھا صلہ ہے۔
یہ جو سفر کا آخری حصہ ہے سامنے
دلکش بہت ہے، باغ بغیچہ ہے سامنے
یہ باغ باغیچہ بہت بڑا انعام ہے! دنیا کی کسی لغت میں ایسے الفاظ نہیں جو اس انعام کا شکر ادا کرنے کے لیے کافی ہوں!
دو اڑھائی سال کورونا نے ڈکّا لگائے رکھا۔ کوئی آیا نہ گیا۔ اب آ کر دیکھا تو بچے بڑے بڑے لگے۔ کمپیوٹر پر مسلسل نظر آتے رہے۔ مگر اصل اصل ہے اور عکس عکس! دیکھنے اور چھونے میں فرق ہے۔ اس بار قیام چند ہفتوں سے زیادہ کا نہیں۔ ایک ہفتہ جیلانگ رہ کر میلبورن جانے لگے تو تیمور رونے لگ گیا کہ رات، سونے سے پہلے کہانی سننا ہوتی ہے؛ چنانچہ جتنے دن وہاں نہیں ہوتے، موصوف وڈیو لنک پر کہانی سنتے ہیں۔ میلبورن سے جیلانگ جانے لگتے ہیں تو حمزہ اور زہرا منہ بسور کر چمٹ جاتے ہیں۔ یہاں رہتے ہوئے اسلام آباد اور لاہور والے بچے بھی یاد آتے ہیں اور ساتھ ہی یہ شعر بھی:
پوتوں نواسیوں کے چمن زار! واہ! واہ!
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے
کووڈ کے طویل تعطل کے بعد سکول کھلے۔ حمزہ کو اس کا والد سکول چھوڑنے جا رہا تھا تو میں بھی ساتھ ہو لیا۔ سکول کے پاس وہ گاڑی سے اترا۔ بستہ پیٹھ پر لادے گیٹ کی طرف جا رہا تھا اور میں اسے جاتے دیکھ کر زمانوں کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا۔ پینسٹھ چھیاسٹھ سال پہلے اس کا دادا گاؤں کے سکول میں پہلی جماعت میں داخل ہوا تھا۔ یہ سکول ایک چھوٹے سے گراؤنڈ اور ایک بڑے کمرے پر مشتمل تھا۔ گراؤنڈ کے ایک طرف ٹوٹا ہوا گھڑا زمین میں دبایا گیا تھا۔ اس میں پانی ہوتا تھا جس سے ہم اپنی تختیاں دھوتے۔ پھر پوچہ لگاتے اور ہوا میں لہرا لہرا کر انہیں خشک کرتے۔ پانچوں کی پانچوں جماعتیں اُس ایک کمرے میں تھیں۔ دیوار کے ساتھ ساتھ ٹاٹ بچھے تھے۔ جہاں پہلی جماعت ختم ہوتی تھی، وہیں، اُسی ٹاٹ پر دوسری جماعت شروع ہو جاتی تھی۔ پھر تیسری، پھر چوتھی اور پھر پانچویں! ماسٹر صاحب کا نام منشی نور حسین تھا۔ قریب کے ایک گاؤں (گلی جاگیر) سے سائیکل پر آتے تھے۔ دادی جان کے ساتھ ان کی رشتہ داری تھی؛ چنانچہ اکثر چھٹی کے بعد ہمارے گھر آتے اور چائے یہیں پیتے۔ گاؤں میں چائے ظہر کی نماز کے فوراً بعد پی جاتی تھی۔ گرمیوں میں مغربی دیوار کے ساتھ اتنا سایہ ہو جاتا تھا کہ چارپائیاں بچھا کر وہاں بیٹھا جائے۔ سائے میں دھوپ کی تپش! اور سخت گرم چائے! اس کا اپنا ہی مزا تھا۔ وہ ایک مخلوط معاشرہ تھا۔ دادی جان، دادا جان اور مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتی تھیں۔ ہاں! اکثر وہ پیڑھی پر بیٹھتی تھیں۔ گاؤں کے کلچر میں برقعے کا نام و نشان نہ تھا۔ عورتیں کھیتوں میں بھی کام کرتیں! منہ زور بیلوں کی جوڑی کو تالاب لے جا کر پانی بھی پلاتیں۔ مہمانوں کو بھی اٹینڈ کر تیں! ماسٹر صاحب سے رشتہ داری کا دادی جان خوب فائدہ اٹھاتیں! دس بجے صبح، جب تنور سے روٹیاں اترتیں تو سکول آ کر مجھے لے جاتیں اور ماسٹر صاحب کو بتاتی جاتیں کہ اس کی روٹی ٹھنڈی نہ ہو جائے۔ تنور سے اتری ہوئی گرم روٹی پر انگلیوں سے گڑھے بناتیں۔ اس پر مکھن کا پیڑا رکھتیں جو حدت سے پگھل جاتا اور سوراخوں کے اندر رچ بس جاتا۔ اس کے اوپر شکر ڈالتیں۔ ساتھ دودھ ہوتا یا تازہ لسّی۔ دس بجے کے لگ بھگ یہ جو لنچ ہوتا اس میں سالن قسم کی کوئی چیز نہ تھی۔ کھانا کھا کر میں دوبارہ سکول جاتا۔ یہ خاص رعایت صرف میرے لیے تھی۔
حمزہ گیٹ کے اندر داخل ہو رہا تھا۔ میں اسے برابر دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی ایک اور زمانے پر دستک دے رہا تھا! چالیس سال پہلے اس کے ابو کو میں سکول کے لیے گھر سے جاتے دیکھا کرتا۔ اسلام آباد، صبح صبح سائیکل پر نکلتا! اُس وقت کا اسلام آباد انسانوں کی بستی تھی۔ ابھی عفریت گرین ایریا پر حملہ آور نہیں ہوئے تھے۔ شہر سریے اور سیمنٹ کے عذاب سے بچا ہوا تھا۔ بچے سڑکوں پر سائیکلیں چلا سکتے تھے۔ اسرار کے دادا اسے اہتمام سے رخصت کرتے۔ سینے سے لگاتے۔ بوسہ لیتے اور ایک یا دو روپے پاکٹ منی دیتے۔ یہ عجیب قرض ہے جو اتارنا ہوتا ہے۔ حمزہ کو صبح، گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے بھی سینے سے لگایا۔ پھر گاڑی سے اترتے وقت بھی! پانچ ڈالر پاکٹ منی دی۔ اس کا ابو کہنے لگا: دو کافی تھے۔ جیسے جیسے وہ سکول کے گیٹ کی طرف چلتا گیا دادا کا دل سینے میں پگھلتا گیا۔ میاں محمد بخش صاحب کے بقول:
پاٹی لیر پرانی وانگوں ٹنگ گیاں وچ ککراں
جی چاہا اتر کر سکول کے گیٹ پر بیٹھ جاؤں اور چھٹی تک اس کا انتظار یہیں بیٹھ کر کروں! اس کا ابو شاید میری کیفیت کو بھانپ گیا تھا۔ مجھے باتوں میں لگا لیا!
میلبورن اور جیلانگ میں رہ کر یہ بچے اردو لکھ پڑھ لیتے ہیں اور شاید یہی ہیں جو اردو لکھ پڑھ رہے ہیں۔ آج کل فیروز سنز کی چھپی ہوئی کہانیوں کی کتابیں پڑھ رہے ہیں ۔ املا لکھتے ہیں۔ اردو اور پنجابی بولتے ہیں۔ ان کے باپ اس ضمن میں شدید محنت کر رہے ہیں۔ دو متوازی نظام! مگر
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
اِس جنوبی نصف کُرۂ زمین میں گرمیوں کا موسم ہے! یہ عجیب و غریب گرمیاں ہیں! تین دن درجۂ حرارت چونتیس پینتیس تک جائے تو چوتھے دن انیس پر آ جاتا ہے۔ کبھی اس سے بھی کم۔ دن کی روشنی سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے گرمیوں میں گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے کر دیا جاتا ہے۔ سورج پونے نو بجے غروب ہوتا ہے۔ کھانا سات بجے کے لگ بھگ کھا لیا جاتا ہے اور بچوں کو دس بجے تک سلا دیا جاتا ہے۔ بازار ساڑھے پانچ بجے بند ہو جاتے ہیں۔ ہماری تو یہ دکھتی رگ ہے۔ گھڑیاں آگے کر بھی لیں تو کچھ حاصل نہ ہو۔ ہمارے بازار ظہر کے بعد کھلتے ہیں اور آدھی رات تک کھلے رہتے ہیں۔ باقی معاملات کی طرح ریاست یہاں بھی بے بس ہے۔ بے بس ہی نہیں، عملاً وجود ہی نہیں رکھتی۔ ملک ایک ہے! اس کے اندر ریاستیں کئی ہیں! ایک ریاست ہمارے تاجروں کی ہے۔ اس میں ان کی اپنی بادشاہت ہے۔ صرف عوام ہیں جن کی بادشاہت کا دور دور تک کوئی امکان نہیں!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment