Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, April 30, 2020

سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے


آج بھی مولانا طارق جمیل کی بالواسطہ مذمت میں ہمارے قابلِ احترام دوستوں کے دو کالم چھپے۔ مذمت نہ سہی، ان کے خلاف تو ضرور ہیں! کسی اور موضوع پر لکھنا تھا۔ ایک اور پے کمیشن تشکیل پایا ہے۔ کچھ معروضات اس کی خدمت میں پیش کرنا تھیں۔ دوست گرامی، سابق سفیر جناب جاوید حفیظ نے آج کے کالم پر بذریعہ فون تبصرہ کیا اور بہت قیمتی اشارات دیئے کہ شرقِ اوسط والوں سے بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی امید رکھنا حقیقت پسندی کے خلاف ہو گا۔
مگر ان موضوعات پر کیا لکھنا! نیکو کاروں کی بستی میں ایک گنہگار پھنس گیا ہے۔ ہر ہاتھ نے دستانہ پہنا ہوا ہے۔ ہر ہاتھ میں سنگ ہے۔ ہر قلم کار رسّہ اٹھائے درخت کی شاخ تلاش کر رہا ہے جہاں گنہگار کو لٹکا دے۔ ساری اقلیم میں جیسے آگ لگ گئی ہے۔ ہر نیکو کار کی انا سے زخم رِس رہا ہے۔ مولوی طارق جمیل نے قوم کو جھوٹا کہہ دیا ہے۔ اس سے بڑا ظلم، اس سے بڑی نا انصافی کوئی نہیں! چھوڑنا نہیں! بچ کر نہ جائے!
مولانا نے معافی مانگ لی۔ غیر مشروط معافی! کوئی دلیل دی نہ بحث کی! صرف اور صرف معافی! اس کے بعد متانت کا اور وضعداری کا اور اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ معاملہ ختم ہو جاتا مگر حملے اور مسلسل حملے دیکھ کر یوں لگتا ہے مولانا نے معافی نہیں مانگی، للکار دیا ہے!
مانا یہ عذاب نہیں، یاد دہانی ہے۔ تنبیہہ ہے! چلیے، میڈیا کے بارے میں مولانا کو بات نہیں کرنا چاہیے تھی اس لیے کہ میڈیا ایک طبقہ ہے اور کسی طبقے کو Single out کرنا مناسب نہیں‘ مگر یہ جو سیاپا پڑا ہوا ہے کہ قوم کو جھوٹا کہا‘ تو ہاں بھئی! بالکل غلط کہا ہے! ہم تو دنیا کی صادق ترین اور امین ترین قوم ہیں! ہم جیسا دیانت دار روئے زمین پر کوئی نہیں! مولوی طارق جمیل پر فرد جرم عائد کر کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے اور پھر پا بہ جولاں، دست بہ زنجیر کر کے حوالۂ زنداں کر دینا چاہیے!
اس سے پہلے بھی ایک گنہگار عبدالستار ایدھی ہمارے ہتھے چڑھا تھا۔ کبھی ترنگ میں آتا تھا تو اہلِ سیاست کی اصلیت بتا دیتا تھا۔ اہلِ مذہب نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ خوب فتوے لگے۔ اب مولوی طارق جمیل مل گیا ہے۔ اس کے پیچھے اہلِ دنیا لگے ہیں۔ اہلِ مذہب میں سے بہت سے خوش ہو رہے ہیں۔ معاصرت بھی عجب روگ ہے۔ دوسرے کی شہرت، مقبولیت، ہر دلعزیزی راس نہیں آتی! کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے! 
چھوٹا منہ بڑی بات! کہاں ایک بے بضاعت کالم نگار کہاں مولانا! مگر اختلاف اُن سے کچھ معاملات میں ضرور ہے۔ دربار نواز شریف کا ہو ، یا کپتان صاحب کا، ہرگز نہیں جانا چاہیے۔ پھر تقریر میں مبالغہ آرائی بھی ہے۔ جنت کا احوال بیان کرتے ہیں تو نعمتوں کے حوالے سے ضعیف روایات بیان کر جاتے ہیں۔ سماں تو بندھ جاتا ہے‘ لیکن پورا بیان غیر سنجیدہ ہوتا ہے۔ عورت کو بھی ایک طبقہ کے طور پر، الگ سے نشانے پر نہیں لینا چاہیے۔ مرد کو بھی تو غض بصر کا حکم ہے۔ اس پر بھی برابر کا زور دینا چاہیے۔ سب بجا... مگر طوفان اس پر مچا ہے کہ جھوٹا کیوں کہا!
غلط کہا، بالکل غلط! سراسر غلط! ہمارے ہاں تو جھوٹ وہ جنس ہے جو مکمل نایاب ہے۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہی دینے والا ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ سب ولی زادے ہیں! یہ جو زنداں میں مر جانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ بے گناہ تھا تو یہ جھوٹی گواہی کا نہیں، سچی گواہی ہی کا تو کرشمہ ہے!
خدا کا خوف بھی کوئی شے ہے یا نہیں! میڈیا تلملا رہا ہے کہ قوم کو، من حیث المجموع، جھوٹا کیوں کہا؟ یہی میڈیا تو ہے جس نے ایک ایک جھوٹ، ایک ایک بے ایمانی، ایک ایک فریب کو طشت ازبام کیا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، استعمال شدہ گندے تیل کو موٹروں کے انجنوں میں ڈالنے کے لیے دوبارہ بیچا جا رہا تھا تو میڈیا کی ٹیم نے پکڑا۔ 

شہر شہر جعلی دوائیوں کی فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ 
مرچ ہے یا بیسن، دودھ ہے یا گھی، آٹا ہے یا چائے کی پتی، شیمپو ہے یا منہ پر لگانے کی کریم، شہد ہے یا مکھن، کون سی شے ہے جو نقلی، یا ملاوٹ والی نہیں!! کھلے عام تیار ہو رہی ہے اور بِک رہی ہے! درست ہے کہ غیر مسلم ملکوں میں بھی جعلی خوراک بن اور بک رہی ہے، مگر انہیں تو اس پیغمبر پر کوئی یقین نہیں جس کا نامِ نامی سن کر یہاں بے ایمانی کرنے والا انگوٹھے چومتا ہے اور درود شریف پڑھتا ہے۔ غیر مسلموں نے تو سنا ہی نہیں کہ ''مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا‘‘۔ جس نے ملاوٹ کی ہم میں سے نہیں! انہیں تو معلوم ہی نہیں کہ مُحَتَکِر (ذخیرہ اندوز) ملعون ہے۔ انہیں کیا پتہ کہ بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتانے والے پر فرشتے لعنت کرتے ہیں۔ وہ تو فرشتوں کو مانتے ہی نہیں! وہاں تو مسجدیں ہیں نہ محراب نہ منبر جہاں سے بیچارا واعظ آئے دن یاد دلاتا ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں‘ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا، امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کا ارتکاب کرتا ہے!
امتحان گاہوں میں بوٹی مافیا کا راج ہے۔ ملازمتیں دینے کا وقت ہو تو وزیروں، مشیروں اور سیکرٹریوں کی درازیں چٹوں سے بھر جاتی ہیں۔ یہ تو ابھی دو سال پہلے کی بات ہے‘ میرٹ پر بیرون ملک بھیجے جانے والوں کی فائل اُس وقت کے وزیر اعظم نے پورا ایک سال اپنے دفتر میں رکھی اور پھر سارا عمل دوبارہ کیا گیا تا کہ وہ جو زیادہ ''برابر‘‘ (Equal) ہیں، انہیں نوازا جائے! جھُوٹ کے الزام پر تلملانے والے کُنڈے ہی گِن لیں جو بجلی کی تنصیبات پر لگے ہیں۔ سچ بولنے والوں کی گیس کنکشن کی درخواستوں کو کیڑے کھا رہے ہیں اور چوری کے گیس کنکشن ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہیں۔ اوپر سے نیچے تک سب ''سچوں‘‘ کو ایک ایک جعلی کنکشن کا علم ہے! سب کر رہے ہیں آہ و فغاں سب مزے میں ہیں۔ لاکھوں افراد پلاٹوں کے الاٹ منٹ لیٹر ہاتھوں میں لے کر پھر رہے ہیں کہ پلاٹ کا وجود ہی نہیں، مگر داد رس کوئی نہیں! اس لیے کہ جعلی لیٹر ایشو کرنے والوں کے ہاتھ لمبے ہیں! 
اس ملک کے سارے صوبوں میں کتنی کچہریاں ہوں گی! کیا کوئی ایک کچہری بھی ہے جس کے بارے میں کوئی دعویٰ کر سکے کہ جھوٹ بولے بغیر، رشوت دیئے بغیر کام ہو جائے گا! مولانا کا حلقوم دیکھ کر چھریاں تیز کرنے والے صرف سرکاری ٹیکس دے کر زمین یا جائیداد کا انتقال کرا کے دکھا دیں بشرطیکہ اپنی پوزیشن، اپنی حیثیت، اپنے تعلقات کا استعمال نہ کریں۔ خدا کے بندو! ایک ایک سائل کو ایک ایک کچہری میں بھنبھوڑا جاتا ہے۔ پٹواری سے لے کر تحصیل دار تک۔ تحصیل دار سے لے کر اوپر تک... کہاں کہاں حصّہ نہیں جاتا! یہ جن کے سرکاری اور غیر سرکاری گھروں میں اور ڈیروں پر اور حویلیوں میں ''لنگر‘‘ چل رہے ہیں اور سینکڑوں ''وابستگان‘‘ صبح شام تنورِ شکم بھرتے ہیں، ان کا حساب کتاب کیا ہے؟ کیا تنخواہ سے، یا جائز روٹین کی کمائی سے سب کچھ ہو رہا ہے؟ بھید ہے نہ معمّہ ! ہر شخص جانتا ہے کن کے اخراجات کون پورے کرتا ہے!!
کورونا عذاب نہیں! اس کا ہمارے جھوٹ سے کوئی تعلق نہیں! کورونا تو پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے! ہمارے جھوٹ کا حساب تو ابھی ہونا ہے! فَانْتَظِرُوا اِنِّی مَعَکُم مِنَ المُنتظرین! تم بھی انتظار کرو! ہم بھی انتظار کرتے ہیں! 
بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, April 28, 2020

کیا خلیج میں بھارت کے چہرے سے نقاب اُترنے کو ہے؟


آزاد پاکستان میں جب ہم ان جھگڑوں کو رونق بخش رہے ہیں کہ نماز مسجدوں میں پڑھیں یا گھروں میں‘ اور جب مولانا کی دعا پر طول و طویل بحث مباحث ہو رہے ہیں اور جب یہ طے کیا جا رہا ہے کہ قوم جھوٹی ہے یا دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں...تب‘ سرحد پار بھارت میں مسلمان کس قیامت سے گزر رہے ہیں‘ اس کا ہمیں اندازہ ہے نہ اندازہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے‘ اس لئے کہ ہم آزاد ہیں!
یہ دہلی کا مضافاتی علاقہ ہے۔ ایک مسلمان کو ہجوم پیٹ رہا ہے۔ لاٹھیوں اور جوتوں سے مار رہا ہے۔ اس کے منہ‘ ناک اور کانوں سے خون بہنے لگا ہے۔ وہ ایک تبلیغی اجتماع سے واپس آیا ہے۔ حملہ آور کہہ رہے ہیں کہ یہ ''کورونا جہاد‘‘ میں ملوث ہے اور اُس سازش کا حصّہ ہے جس کے تحت بھارتی مسلمان ملک میں کورونا پھیلا رہے ہیں اور ایک منظم پلان کے تحت یہ کام کر رہے ہیں۔ہجوم مارتا مارتا اسے ایک قریبی مندر میں لے جاتا ہے۔ یہاں اسے اور مارا پیٹا جاتا ہے اور مجبور کیا جاتا ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کرے۔ اس کے بعد ہی اسے ہسپتال جانے دیا جاتا ہے۔اکثر و بیشتر مقامات پر مسلمانوں کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ انہیں ''کورونا دہشت پسند‘‘ جیسے القابات سے پکارا جا رہا ہے۔ یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ مسلمان خوراک اور پانی پر تھوک رہے ہیں تاکہ وائرس پھیلے۔ دہلی کے علاوہ کرناٹک ‘مدھیہ پردیش اور تلنگانہ کی ریاستوں میں ایسے پوسٹر جابجا نظر آ رہے ہیں جن میں مسلمانوں سے بچنے کی وارننگ دی گئی ہے۔تبلیغی جماعت کے ارکان کو ''انسانی بم‘‘ کہا جا رہا ہے۔کچھ انہیں پھانسی پر لٹکانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ ڈاکٹروں اور نرسوں کے چہروں پر تھوک رہے ہیں تاکہ وائرس مزید پھیلے۔ کرناٹک میں آڈیو کلپ کے ذریعے لوگوں کو تلقین کی جا رہی ہے کہ مسلمان سبزی فروشوں اور میوہ فروشوں کو اپنی آبادیوں میں نہ داخل ہونے دو کیونکہ یہ ان اشیا کی مدد سے کورونا پھیلا رہے ہیں۔ مسلمانوں کا ایک گروہ غریب آبادیوں میں راشن تقسیم کر رہا تھا‘ گروہ کے ارکان کو ڈنڈوں سے پیٹا گیا۔ پیٹنے والے کہہ رہے تھے کہ تم راشن پر تھوکتے ہو تاکہ وائرس پھیلے۔ یہاں تک کہ ہندو تنظیموں کے مسلمان ارکان کو بھی راشن تقسیم کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ ایک گاؤں کی پنچایت کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ مسلمانوں سے میل جول رکھنے والے ہندو پر ایک ہزارر وپے جرمانہ کیا جائے گا۔ زہریلے پروپیگنڈے کا یہ حال ہے کہ ہسپتالوں میں مسلمانوں کا علاج کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ جھوٹ کا ایک کارخانہ ہے جو مسلمانوں کے خلاف دن رات چل رہا ہے۔ ناقابلِ یقین الزامات! مثلاً یہ کہ تبلیغی جماعت کے ارکان نے خواتین نرسوں کے سامنے اپنے آپ کو برہنہ کر دیا اور ڈاکٹروں پر تھوکا! بنگلور میں مسلمان خوانچہ فروشوں کو کرکٹ کے بَیٹوں سے مارا گیا۔یو پی میں چیف منسٹر ادتیا ناتھ یوگی کے احکام یہ ہیں کہ تبلیغی جماعت کے ارکان جہاں نظر آئیں‘ گرفتار کر لئے جائیں۔ 23خصوصی جیل ان کیلئے تیار کئے گئے ہیں‘ ہندو مریضوں کو قرنطینوں میں رکھا جا رہا ہے‘ مگر مسلمان مریضوں کو جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔ اصطلاحی طور پر انہیں ''عارضی‘‘ جیل کہا جا رہا ہے۔ پھر‘ جن مسلمانوں میں مرض کے آثار بالکل موجود نہیں‘ انہیں بھی پکڑ کر ان ''عارضی‘‘ جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔ یہ ظلم رمضان کے مہینے میں ہو رہا ہے!
یوگی ادتیا ناتھ سے یوں بھی کسی انسانیت کی توقع لاحاصل ہے۔ مودی اور اس کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے بعد یوگی ادتیا ناتھ تیسرا متعصب ترین ہندو ہے جو بی جے پی کی حکومت کا اہم ترین فرد ہے۔ ایک پیشہ ور پنڈت۔ ہمیشہ زعفرانی رنگ کے مذہبی لبادے میں ملبوس۔ سر سے مصنوعی گنجا! شاید ہی کوئی ایسا ہفتہ گزرا ہو جب اس نے مسلمانوں کے خلاف زہر نہ اُگلا ہو! یو پی کی آبادی دوسری تمام ریاستوں سے زیادہ ہے۔ بیس کروڑ۔ مسلمان تقریباً ساڑھے چار کروڑ ہیں اور اس وقت تاریخ کے سب سے زیادہ بھیانک اور اذیت ناک دور سے گزر رہے ہیں۔ حال ہی میں گورکھپور میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ چند ماہ پہلے اس نے ایک درفطنی چھوڑی اور یو پی کے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ تم اگر پاکستان نہیں گئے‘ یہاں رہ گئے تو بھارت پر احسان نہیں کیا‘ پاکستان کی تو تم نے‘ تقسیم سے پہلے‘ حمایت ہی کی تھی!جس طرح تقسیم سے پہلے کچھ ہندو اور سکھ عورتیں مسلمانوں سے شادی کرنے کی متمنی تھیں اور اسے ہندو اور سکھ ہمیشہ فساد کی بنیاد بناتے تھے‘ اسی طرح آج بھی ایسے واقعات بھارت میں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ہندو لڑکیاں‘ اپنی مرضی سے‘ مسلمان لڑکوں سے محبت کی شادی کرتی ہیں۔ کوئی پاگل بھی نہیں مان سکتا کہ آج کے بھارتی معاشرے میں‘ جہاں مسلمان جان بچاتے پھر رہے ہیں‘ کوئی کسی ہندو عورت کو جبراً مسلمان کرے گا‘ مگر ادتیا ناتھ کا اعلان یہ ہے کہ اگر وہ ایک ہندو عورت کو مسلمان کریں گے تو ہم سو مسلمان عورتوں کو ہندو بنائیں گے۔ اپنے آبائی قصبے میں اس نے ایک انتہا پسند تنظیم خصوصی طور پر بنائی ہے۔ اس کے اجتماع میں‘ ایک ہندو لیڈر نے حاضرین کو مسلمان عورتوں کی لاشوں کے ساتھ جس انسانیت سوز سلوک کی تلقین کی‘ اسے لکھنے کی قلم اجازت نہیں دیتا۔ اس وقت ادتیا ناتھ اس جلسے میں موجود تھا اور سٹیج پر بیٹھ کر یہ شرمناک بکواسات سُن رہا تھا۔ مسلمانوں کے بسائے ہوئے شہر‘ جو صدیوں سے چلے آ رہے ہیں‘ ان کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ الٰہ آباد اور آگرہ کے نام بدلے جا چکے۔ مسلمان مدارس کو حکم دیا گیا ہے کہ ''قومی‘‘ تعطیلات کے مواقع پر ''تقاریب‘‘ منعقد کی جائیں اور ثبوت کیلئے وڈیوز اعلیٰ حکام کو پیش کی جائیں۔عالمِ اسلام تو اس حوالے سے بے نیاز ہے ہی‘ خود پاکستان میں اس ظلم و ستم کو نمایاں طور پر اس طرح پیش نہیں کیا جا رہا جس طرح پیش کرنے کا حق ہے۔ جو کچھ آسام میں ہوا‘ پھر کشمیر میں‘ اور اب کورونا کے نام پر جو کچھ پورے بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے‘ اس پر مسلمان حکومتیں مُہر بہ لب ہیں۔ گویا؎
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
تاہم ایک کرن مشرقِ وسطیٰ سے ابھری ہے۔ یہ کرن‘ بارش کا پہلا قطرہ تو تاحال ثابت نہیں ہوئی مگر امید ہے کہ جوں جوں وقت گزرے گا‘ بھارتی چیرہ دستی کے چہرے سے نقاب مسلمان ملکوں میں ضرور اُترے گی۔ ہوا یہ کہ متحدہ عرب امارات میں مقیم سورابھ اوپا دھائے نامی ایک بھارتی نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ ہندؤں کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا! اس نے یہ بھی کہا کہ دبئی جیسے شہر ہندوؤں نے تعمیر کیے اور یہ کہ یہاں کے کاروبار میں ان کا حصّہ ہے۔ ساتھ ہی اس نے تبلیغی جماعت کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف ناشائستہ الفاظ استعمال کئے۔ اس کے جواب میں متحدہ عرب امارات کی شہزادی ہند فیصل القاسمی نے ٹویٹ کیا کہ اگرچہ حکمران خاندان‘ بھارت کا دوست ہے مگر ایسی گستاخی اور بدتمیزی نہیں برداشت کی جائے گی۔ یہاں جو کام کرتا ہے‘ وہ معاوضہ پاتا ہے۔ مفت کوئی نہیں کام کرتا۔ جس سرزمین کی تم توہین کر رہے ہو‘ اسی سے روٹی کما کر کھا رہے ہو۔ اس تضحیک کا نوٹس لیا جائے گا۔ ساتھ ہی شہزادی نے یہ بھی لکھا کہ نسل پرستانہ اور امتیازی رویہ دکھانے والوں کو جرمانہ کیا جائے گا اور ملک سے نکال دیا جائے گا۔
صرف یہی نہیں‘ سعودی سکالر عابدی زاہرانی نے کہا ہے کہ لاکھوں بھارتی‘ خلیج کی ریاستوں میں رہ رہے ہیں۔ کچھ کورونا وائرس میں بھی مبتلا ہیں۔ ان کا علاج مفت کیا جا رہا ہے‘ قطع نظر اس کے کہ ان کا مذہب کیا ہے۔ دوسری طرف فاشسٹ مودی اور اس کے انتہا پسند جتھے اپنی ہی مسلمان آبادی کے خلاف جرائم سرزد کر رہے ہیں۔زہرانی نے تجویز کیاکہ متعصب ہندوؤں کو خلیج کی ریاستوں سے نکال کر‘ واپس بھارت بھیج دیا جائے۔
کیا عجب‘ یہ آغاز ہو اور عالمِ اسلام بھارت کے عزائم سے خبردار ہو جائے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, April 27, 2020

ایک عقیدت مند کی گزارش


مولانا طارق جمیل صاحب نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ شاید رفعِ شر کے لیے۔ شاید انکسار کے سبب! غلطی کو تسلیم کرنا بڑائی کی علامت ہے۔ اس سے شان میں کمی نہیں‘ اضافہ ہوتاہے!
اس میں کیا شک ہے کہ میڈیا نے قربانیاں دی ہیں۔ اس ملک میں صحافیوں نے جان کی بازی لگائی ہے۔ میڈیا کا ایک کردار ہے قومی تعمیر میں۔ سکینڈل بریک کرنے میں۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ حکومتِ وقت کی جہاں حمایت ہوتی ہے وہاں اسی میڈیا پر حکومتِ وقت پر تنقید بھی ہوتی ہے جو آسان کام نہیں! اس میں پرنٹ میڈیا بھی پیش پیش ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کا معیار ریٹنگ ہے۔ ریٹنگ کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ سطح سے نیچے آنا پڑتا ہے۔ جبھی تو بعض ایسے افراد کو بھی اینکر حضرات اکثر و بیشتر انٹرویو کے لیے بلاتے رہتے ہیں جو متین کم اور مقبول زیادہ ہیں!
رہی مولانا صاحب کی یہ بات کہ ساری قوم یا سارا معاشرہ ہی جھوٹا ہے تو انہوں نے وضاحت کر دی کہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عمومی رویہ کیا ہے۔ بہت سے لوگ اس دورِ فتن میں بھی سچ بولتے ہیں اور بول رہے ہیں۔ یوں بھی کُلّیہ یہ ہے کہ جب ہم سو فیصد کہتے ہیں تو مراد نوے پچانوے فیصد ہوتی ہے اور جب صفر فیصد کہتے ہیں تو مراد پانچ دس فیصد ہوتی ہے!
اس میں کیا شک ہے کہ بحیثیت مجموعی ہماری دیوار جھوٹ کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ ہم جھوٹ بولتے ہیں اور بے تحاشا بولتے ہیں۔ دکاندار گاہک سے‘ گاہک دکاندار سے‘ والدین اولاد سے‘ اولاد والدین سے‘ افسر ماتحت سے‘ ماتحت افسر سے‘ عوام رہنمائوں سے‘ رہنما عوام سے سب جھوٹ بولتے ہیں۔ برملا بولتے ہیں۔ جھوٹ کی ایک بدترین قسم وعدہ خلافی ہے اور ہمارے ہاں تو ریاست کے ایک سابق سربراہ کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ وعدہ قرآن و حدیث نہیں کہ پورا کیا جائے! گویا وعدہ خلافی کا جواز مہیا کیا جا چکا ہے!
دکاندار گاہک سے کہتا ہے یہ کپڑا یا جو بھی چیز ہے‘ لے جائیے‘ کوئی شکایت نہیں آئی۔ گارنٹی ہے۔ گاہک گارنٹی کی تحریر مانگتا ہے تو دکاندار کہتا ہے گارنٹی زبانی ہے۔ دوسری طرف گاہک جھوٹ بولتا ہے کہ گزشتہ ہفتے اس قیمت پر لے گیا تھا۔ تب دکاندار کہتا ہے کہ خدا کا خوف کیجیے‘ دکان تو تین دن پہلے شروع کی ہے۔ پچھلے ہفتے تھی ہی نہیں!
کیا ہم مقررہ وقت کی پابندی کرتے ہیں؟ ملاقات کا وقت پانچ بجے طے ہو تو سات بجے پہنچتے ہیں۔ گھر میں بیٹھے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ راستے میں ہیں۔ سائل چل چل کر جوتے توڑ دیتا ہے مگر ہر بار دفتر کا اہلکار کہتا ہے :کل آئیے کام ہو جائے گا۔ کتنی باراتیں مقررہ وقت پر پہنچتی ہیں؟ کتنے ولیمے دیئے ہوئے وقت پر منعقد ہوتے ہیں؟ لڑکی والوں کا انتظار ہو رہا ہے۔ وہ گھنٹوں تاخیر سے آتے ہیں۔ تب حاضرینِ مجلس کو کھانا ملتا ہے۔ ٹرینیں اور جہاز چلانے والے وعدے کے کتنے پابند ہیں؟ جہاں دوسری ائیر لائنوں کے جہاز وقت سے پانچ منٹ پہلے لینڈ کرتے ہیں‘ وہاں ہمارے جہاز گھنٹوں لیٹ پہنچتے ہیں۔ ہماری ائیر لائنز کے بارے میں تو یہ کہاوت ہی بن گئی تھی کہ کنکٹنگ فلائٹ مِس کراتی ہے۔ یہ بھی تب کی بات تھی جب دنیا کے بہت سے شہر‘ ہماری منزلوں میں شمار ہوتے تھے۔ اب تو بہت کچھ چھن چکا! 
جھوٹ کو کوّر کرنے کے لیے ہم نے یُو ٹرن کی اصطلاح عام کی! ایک زمانہ تھا کہ وعدہ خلافی معشوق کی مشہور تھی۔ اب ہر شخص معشوق ہے! ہماری ٹیلی فون کالوں کا سروے کیا جائے تو چالیس پچاس فیصد کالیں تو صرف اس ''یاددہانی‘‘ کی نکلیں گی کہ آپ نے فلاں وقت آنا تھا‘ آئے نہیں۔ فلاں شے پہنچانا تھی‘ نہیں پہنچائی۔ مال ڈیلیور کرنا تھا‘ انتظار کر رہے ہیں! جب ہم بورڈ پر لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ کھانے یا نماز کا وقفہ ایک سے دو بجے تک ہے تو یہ وعدہ ہے کہ دو بجے آ جائیں گے‘ مگر سائل کھڑے ہیں‘ دو بجے کوئی نہیں آتا۔ کھڑکی اُس وقت کھلتی ہے جب مرضی ہو‘ جب دل چاہے!!
مثال ہم سرورِ کونینﷺ کی دیتے ہیں کہ کسی نے انتظار کرنے کا کہا اور پھر بھول گیا۔ آپؐ تین دن وہاں انتظار فرماتے رہے۔ رویّہ ہمارا بالکل مختلف ہے۔ جنہیں ہم کفار گردانتے ہیں‘ ان کے ہاں ایک ایک سیکنڈ کے حساب سے وعدے کی پابندی ہے۔ دعوت پر بلائیں تو عین مقررہ وقت پر پہنچیں گے۔ دکانیں دیئے ہوئے وقت پر کھلیں گی اور بند ہوں گی! زندگی اس وجہ سے ہموار ہے اور سہل ہے۔ اپنے ہاں کچھ مشکلات کا حل تو ہمارے بس میں نہیں‘ مگر جھوٹ اور وعدہ خلافی سے ہم نے مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر رکھا ہے جبکہ یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ ایک عام شہری جھوٹ بولتا ہے یا وعدہ شکنی کرتا ہے تو اس میں حکومت کا کیا قصور ہے یا سیاست دانوں کو کیسے ملزم ٹھہرا سکتے ہیں یا اہلِ مذہب کی کیا غلطی ہے؟ کون سا واعظ ہے جو سچ بولنے کی تلقین نہیں کرتا؟ کون سا عالمِ دین ہے جو عہد شکنی کی سزا سے نہیں ڈراتا مگر ہم عوام ہیں کہ اسی ڈھرے پر چلے جا رہے ہیں! خدا کا خوف ہے نہ معاشرے کا! ایسے میں اگر مولانا نے ایک عمومی رنگ میں‘ اکثریت کے حوالے سے کہہ دیا ہے کہ سب جھوٹ بولتے ہیں تو کیا غلط کہا ہے؟ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سچ کوئی نہیں بولتا۔ بہت سے لوگ‘ الحمد للہ ایسے موجود ہیں جو سچ بولتے ہیں اور دروغ گوئی سے احتراز کرتے ہیں!
ہاں! ایک گزارش کرنی ہے۔ یہ کالم نگار ان کا مداح ہے! وہ بھی اس بے بضاعت پر کرم فرمائی کرتے ہیں۔ کوئی غلط فہمی ہو تو فون پر وضاحت فرماتے ہیں۔ پچھلے دنوں جب حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے مسئلہ اٹھا تو انہوں نے بیرون ملک سے وڈیو کال پر یاد فرمایا اور مسئلہ سمجھایا۔ وضاحت بھی فرمائی۔ یہ ان کی عظمت ہے کہ ہر شخص سے‘ قطعِ نظر اس کی حیثیت کے‘ بات کرتے ہیں اور خود بات کرتے ہیں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ صرف مشاہیر اور Celebrities پر توجہ دیتے ہیں تو یہ یوں غلط ہے کہ مشاہیر سے بات کرتے ہیں تو وہ میڈیا میں خبر بن جاتی ہے۔ عام لوگوں سے وہ ہر وقت رابطے میں ہیں‘ مگر ظاہر ہے اس کی خبر نہیں بنتی نہ بن سکتی ہے! 
گزارش یہ ہے کہ اگر حضرت مولانا کسی حکمران کے پاس بھی نہ جائیں تو کیا حرج ہے! نواز شریف کے پاس جاتے تھے تو مسلم لیگ (ن) کے مخالفین اعتراض کرتے تھے۔ اب موجودہ وزیراعظم سے ملتے ہیں تو حکومت کے مخالف معترض ہیں۔ اگر اس ہنگامہ خیزی سے گریز کرنے میں عافیت ہو تو اس عافیت کو کیوں نہ اپنایا جائے؟ حکمرانِ وقت کو‘ خواہ میاں صاحب ہوں خواہ کپتان صاحب ہوں‘ اگر نصیحت کی ضرورت ہے تو کنواں پیاسے کے پاس چل کر کیوں آئے؟ پیاسا کنوئیں کی طرف کیوں نہ قدم بڑھائے؟ اقبال نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا؎
قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ
حکمرانی کی تاریخ بھی عجیب ہے! حکمران پامسٹوں‘ نجومیوں یہاں تک کہ ملنگوں کی خدمت میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ پیٹھ پر ڈنڈے کھاتے‘ دور افتادہ بستیوں کا سفر کرتے ہیں۔ ''بابوں‘‘ کے ہاں حاضریاں لگواتے ہیں۔ پیر مردوں اور پیر خواتین کی درگاہوں میں جاتے ہیں۔ تو پھر مولانا طارق جمیل صاحب جیسے علما اور مبلغین کے حضور کیوں نہیں حاضر ہوتے؟ دعا کرانی ہے تو انہیں زحمت دینے کے بجائے‘ ان کے آستانے پر جائیں!
حکمران ہمیشہ متنازعہ ہوتے ہیں۔ لاکھ حامی تو دو لاکھ مخالف! کوئی حکمران بھی ایسا نہیں ہوتا جس کو سو فیصد ہم نوائی حاصل ہو! اس لیے ان سے احتراز ہی میں عافیت ہے! بجائے اس کے کہ بعد میں وضاحتیں کرنا پڑیں اور اعتذار کرنا پڑے‘ کیا بہتر نہیں کہ دامن ہی بچا لیا جائے؟ میڈیا کے اس طلسماتی دور میں کسی حکمران کو نصیحت کرنی ہو‘ تنبیہ کرنی ہو‘ تو مسجد میں بیٹھ کر کریں‘ تب بھی چند منٹ کے اندر اندر وہاں پہنچ جائے گی! یہ الگ بات کہ حکمران اس پر توجہ دیں یا درخورِ اعتنا نہ سمجھیں!
بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, April 23, 2020

وبا کے دنوں میں ٹرالی بیگ کی یاد


‎ٹرالی بیگ ڈھونڈ رہے تھے۔ ہم دونوں میاں بیوی ایک ایک بازار میں، ایک ایک دکان میں! چھوٹے سائز کا ٹرالی بیگ جو ایک تین سالہ بچے کے لیے موزوں ہو، مل نہیں رہا تھا!
‎ٹرالی بیگ کا شوق موصوف کا، اُس وقت سے ظاہر تھا جب مشکل سے دو سال کے تھے۔ جب بھی ایئر پورٹ پر جاتے، کسی نہ کسی مسافر کے ٹرالی بیگ کو دھکیلنا شروع کر دیتے۔ کچھ ماہ اور گزرے تو ہینڈل سے پکڑ کر کھینچنا شروع ہو گئے۔ سفر کے ارادے سے ہم گھر والے نکلنے لگتے تو ایک نہ ایک ٹرالی بیگ کے در پے ہو جاتے کہ اسے میں لے کر جائوں گا۔ ہلکا ہوتا تو کھینچ لیتے۔ بھاری ہوتا تو خوب زور لگاتے۔ ایئر پورٹ پر ایک بار یہ بھی ہوا کہ ایک مسافر کا ٹرالی بیگ پکڑا اور اسے چلاتے چلاتے کافی دور نکل گئے۔ مسافر کو پتہ چلا نہ ہم گھر والوں کو۔ جیسے ہی نظر پڑی، واپس لے آئے۔ مسافر سے معذرت کی تو وہ ہنس پڑا۔
‎یہ شوقِ فراواں دیکھ کر ایک دن ہم دونوں نے باہمی مشورہ کیا کہ حمزہ کے لیے ایک چھوٹا ٹرالی بیگ ہونا چاہئے جو اس کا اپنا ہو، آسانی سے اِدھر اُدھر لے جا سکے۔ یوں شوق بھی پورا ہو اور ایک اعتبار سے اس کے کام بھی آئے! 
‎اس ارادے سے اُن دن گھر سے چلے۔ کہاں ملے گا؟ کوئی آئیڈیا نہ تھا۔ اس کے ماں باپ سے رہنمائی لیتے تو معاملہ سہل ہو جاتا مگر یہ ممکن نہ تھا۔ انہوں نے ایک تقریر جھاڑنا تھی کہ پہلے ہی اس کے اتنے کھلونے اور بے ہنگم سامان جمع ہو چکا ہے۔ اور پھر اس کے اپنے الگ ٹرالی بیگ کے آئیڈیا کو انہوں نے غلط قرار دینا تھا کہ کیا کرے گا، چار دن بعد اس کی طرف دیکھے گا ہی نہیں! اور اس قسم کی اور بہت سی باتیں!
‎یہ بھی ایک عجیب دائرہ ہے جو نسل در نسل گھومتا ہے اور گھومتا ہی رہتا ہے۔ سیاروں کی طرح! یوں کہ مدار سے باہر نہیں نکلتا۔ عورت جوان ہوتی ہے تو ہر برائی ساس میں نظر آتی ہے۔ وہی جب ساس بنتی ہے تو پورے کا پورا PARADIGM شفٹ ہو جاتا ہے۔ برائیاں ساس سے بہو میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ بالکل یہی دائرہ ماں باپ کا ہے۔ اپنے بچوں کے ساتھ جس طرح کا برتائو کرتے ہیں، جس طرح ڈسپلن سکھاتے ہیں‘ جس انداز میں سختی کرتے ہیں، دادا دادی یا نانا نانی بننے پر وہ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ ایک سو اسّی ڈگری کے زاویئے پر گھوم جاتے ہیں۔ جو کچھ خود کرتے تھے، پوتے یا نواسی کے ساتھ بالکل وہی ہوتا دیکھ کر اعتراض کرتے ہیں، کبھی بیٹی کو، کبھی بہو کو تلقین ہوتی ہے کہ بچوں کو سمجھانے کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں! ڈانٹو مت، کھیلنے دو! چھوٹے ہیں۔ بڑے ہوں گے تو سیکھ جائیں گے! آج سکول نہ جانے کی ضد کر رہا ہے تو چھٹی کر لینے دو۔ کون سا پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ دوسری طرف ماں باپ کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ دادا، دادی نے نانا ، نانی نے بچے کو بگاڑ دیا ہے۔ اس کے لیے فرنگی زبان کا لفظ استعمال کرتے ہیں کہ Spoil کر دیا ہے! پھر یہی ماں باپ، دادا دادی بنتے ہیں تو ع
‎تھا جو نا خوب، بتدریج وہی خوب ہوا
‎ایک بچے نے دادا دادی پر مضمون لکھا جو کچھ اس طرح کا تھا۔
‎''نہیں معلوم دادا دادی کہاں رہتے ہیں۔ ہم انہیں ایئر پورٹ سے لاتے ہیں اور وہیں چھوڑتے ہیں۔ ہماری وہ باتیں سنتے ہیں جو امی ابو نہیں سنتے۔ ہمیں ہمارے کھلونے ڈھونڈ کر دیتے ہیں۔ ہمارے ساتھ باتیں کرتے ہیں۔ وہ ہمیں کبھی نہیں کہتے کہ خاموش ہو جائو۔ ہماری خاطر ہمارے امی ابو سے جھگڑا بھی کرتے ہیں!‘‘
‎دوسرا پہلو بھی عجیب ہے۔ پوتوں، نواسوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی صرف لطف اندوزی ہوتی ہے۔ شاید یہ وہ تلافی ہے جو قدرت بڑھاپے کے بدلے میں عطا کرتی ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ اگر معلوم ہوتا کہ پوتے ، نواسے اتنے مزیدار ہوتے ہیں تو اپنے بچوں کے بجائے پہلے انہیں حاصل کرتے۔ یہ محاورہ بھی مشہور ہے کہ دروازے سے جیسے ہی دادا، نانا داخل ہوئے، ڈسپلن کھڑکی سے باہر کود گیا۔ یا یہ کہ وہی ماں باپ ترقی کر کے دادا، دادی بنتے ہیں جو اس قابل ہوں! ایسے ماں باپ تو ہوتے ہیں جو اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتے مگر ایسے دادا، دادی، نانا، نانی کا کوئی وجود نہیں جو پوتوں، نواسوں سے پیار نہ کریں۔ ایک عجیب منظر ہوتاہے جب بچے اس بات پر جھگڑ رہے ہوں کہ کس نے دادا یا دادی کے پاس سونا ہے۔ پھر جھگڑا ختم کرنے کے لیے باریاں مقرر کی جاتی ہیں، جنہیں کوئی بچہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس کالم نگار کی ایک عزیزہ ایک سکول کی پرنسپل ہیں۔ بتاتی ہیں کہ ماں باپ شکایت کرنے آئیں تو ہم مطمئن کر کے انہیں واپس بھیجنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر دادا، دادی یا نانا، نانو کو سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ذرا سی غلطی بھی سکول والوں سے بچے کے حق میں ہو جائے تو معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور بہت زیادہ فساد ڈالتے ہیں۔
‎ایک حیران کن حقیقت یہ ہے کہ اکثر چیزوں کی نوعیت اور ماہیت ہم بتا سکتے ہیں کہ کیا ہیں‘ مگر کسی ایسے شخص کو جو عملی طور پر ابھی دادا یا نانا نہیں بنا، کبھی بھی نہیں سمجھا سکتے کہ پوتے یا پوتی یا نواسی سے زندگی کیسی ہو جاتی ہے، کتنا لطف آتا ہے‘ اور یہ تجربہ کیسا ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے ماں کے پیٹ میں جو بچہ ہے اسے نہیں سمجھایا جا سکتا کہ باہر دنیا کیسی ہے اور ریل یا جہاز کیا ہے۔
‎ایک دوست نے، جو معروف کالم نگار ہیں، بہت عرصہ ہوا ایک واقعہ لکھا تھا کہ غالباً کوئی سابق بیورو کریٹ تھا۔ اسے وائٹ ہائوس سے فون آیا کہ آنے والے اتوار کو امریکی صدر اس سے مل کر کسی مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ سابق بیورو کریٹ نے معذرت کر دی کہ اتوار کو وہ مصروف ہے۔ صدر کے سٹاف افسر نے مصروفیت کی نوعیت پوچھی کہ آخر ایسا کون سا کام ہے جو امریکی صدر کے ساتھ ملاقات سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس نے بتایا کہ پوتی کو چڑیا گھر لے جانا ہے۔ سٹاف افسر بے اختیار ہنس پڑا کہ یہ کون سا ایسا ضروری کام ہے! دادا نے جواب دیا کہ یہ کئی گنا زیادہ ضروری ہے۔ امریکی صدر ملاقات کے چند گھنٹے بعد مجھے بھول چکا ہوگا مگر پوتی ساری زندگی یاد رکھے گی کہ دادا ابو مجھے چڑیا گھر لے کر گئے تھے!!
‎ہم گھر میں کسی کو بتائے بغیر کہ کس کام کے لیے باہر جا رہے ہیں، نکلے۔ ٹرین پر بیٹھ کر ''سنٹرل میلبورن‘‘ کے سٹیشن پر اترے۔ کئی سپر سٹوروں، دکانوں میں گئے، ایسا ٹرالی بیگ نہیں مل رہا تھا جو تین سالہ مسافر کے لیے موزوں ہو! ایک جگہ ملا مگر وہ سرخ رنگ کا تھا۔ ان ملکوں میں ضروری ہے کہ رنگوں کے فرق کو ملحوظ رکھا جائے۔ گلابی یا سرخ رنگ لڑکیوں کے لیے اور نیلا، کالا یا سفید لڑکوں کے لیے! بڑے بڑے مال بھی جھانکے‘ کہیں نہ ملا۔ پھر ایک دکاندار نے مشورہ دیا کہ Southern-cross جا کر دیکھو۔ یہ ایک ریلوے سٹیشن ہے۔ اس کے ساتھ بہت بڑا بازار ہے۔ وہاں گئے۔ صندوقوں اور بیگوں کی بہت سی دکانیں تھیں۔ شام ہو چلی تھی۔ پانچ ساڑھے پانچ بجے بازار بند ہو جانے تھے۔ دل میں قائل ہو چکے تھے کہ مہم ناکام گئی۔ بالآخر ایک دکان میں نیلے رنگ کا ننھا منا ٹرالی بیگ مل گیا۔ ایک لمحہ تاخیر کیے بغیر یوں قابو کیا جیسے کئی دوسرے گاہک اس کے درپے ہوں‘ حالانکہ ہمارے علاوہ اس کا خریدار کوئی نہ تھا۔
‎گھر پہنچے تو حمزہ سویا ہوا تھا۔ صبح اٹھا اور ٹرالی بیگ پا کر جو خوشی اسے ہوئی، ظاہر ہے اس کا اظہار اس کے لیے نا ممکن تھا۔ 
‎کِھلتا ہوا چہرہ کچھ کچھ بتاتا تھا۔ کئی بار زِپ کھولی اور بند کی۔ پھر اس میں الم غلّم اپنا سامان ڈالا۔ کھلونے،بلاکس،پرفیوم کی خالی بوتل، وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ گویا اس کے جسم کا حصہ ہو گیا۔ جہاں جاتا، اس کا ہینڈل ہاتھ میں ہوتا اور چلاتا جاتا۔ صبح اپنی خواب گاہ سے نکلتا تو ٹرالی بیگ لیے۔ کسی بھی کمرے میں، طعام گاہ میں، کچن میں، لائونج میں، یا باہر صحن میں، ٹرالی بیگ ساتھ ہوتا۔ ایک رات، بہت دیر ہو چکی تھی، اس کے ماں باپ اپنی خواب گاہ میں سو چکے تھے، یہ ٹرالی بیگ چلاتا، ہمارے بیڈ روم میں آیا۔ ٹرالی بیگ چار پائی کے ساتھ لگایا اور میرے پاس لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اٹھا، میں نے کہا کہ دیر ہو چکی ہے، میرے پاس ہی سو جائیے، کہنے لگا : نہیں، میں ممی کے پاس جا رہا ہوں۔ ہاتھ میں ٹرالی بیگ کا ہینڈل سنبھالا، اور چل پڑا۔ میں بھی ساتھ ہی اٹھا اور ساتھ ہی کمرے سے باہر نکلا۔ ٹرالی بیگ کے ساتھ ہی خواب گاہ میں داخل ہوا۔
‎اب نو برس کا ہے۔ وہ آسٹریلیا میں کورونا کا قیدی ہے اور دادا، دادی پاکستان میں نظر بند!! رمضان اس کے ساتھ گزارنا تھا مگر قدرت کو منظور نہ تھا۔ دو دن پہلے کمپیوٹر پر بات ہو رہی تھی۔ اچانک مجھے ٹرالی بیگ یاد آیا۔ پوچھا: کہاں ہے! کیا چھوٹے بھائی کو دے دیا ہے؟ کہنے لگا: نہیں! میرے پاس ہے۔ اس میں میرا سامان پڑا ہوا ہے!!

Tuesday, April 21, 2020

علماء کرام اور مفتیانِ عظام کی خدمت میں ادب کے ساتھ



بات گھبرانے کی بھی ہے اور فخر کرنے کی بھی!

یہ کیسا وقت آن پڑا کہ بے دینی اور اسلام دشمنی کی لہر‘ عالم اسلام تک آ پہنچی! دشمن کے ایجنٹ ہمارے ملکوں میں گھس آئے۔ کسی نے ایک لبادہ پہنا‘ کسی نے دوسرا! ہم پہچان ہی نہیں سکتے کہ کون کیا ہے!

کورونا کے نام پر ترکی سے لے کر مصر تک‘ ایران سے لے کر مراکش تک‘ ہماری مسجدیں بند ہو گئیں اور تو اور علما نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔ مسلمانوں کو گھروں میں نماز پڑھنے کیلئے کہا جا رہا ہے۔ اذان میں حیَّ عَلی الصٰلواۃ کے بجائے صلوا   فی  بیوتکم کے الفاظ ادا کئے جا رہے ہیں۔ جامعہ ازہر مصر کی سپریم کونسل نے بھی فتویٰ دے دیا کہ نماز باجماعت اور نمازِ جمعہ پر پابندی لگائی جا سکتی ہے! سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ نے بھی ہدایت کر دی کہ تراویح اور عیدالفطر کی نمازیں گھروں میں ادا کریں اور یہ کہ تراویح سنّت ہے فرض نہیں اور یہ کہ نبی اکرمﷺ تراویح کی نماز گھر پر بھی ادا فرماتے تھے۔ تازہ ترین خبر کے مطابق سعودی علماء سپریم کونسل نے بھی مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ اگر وہ ایسے ملکوں میں رہ رہے ہیں‘ جہاں کورونا کا حملہ جاری ہے تو وہ نماز اور تراویح گھروں میں ادا کریں!

قصّہ مختصر‘ اسلامی ملکوں میں غیر معینہ مدت کیلئے مساجد میں نماز باجماعت پر پابندی ہے‘ سب سے زیادہ افسوسناک امر یہ پیش آیا ہے حرمِ کعبہ اور مسجدِ نبویؐ میں بھی زائرین کے داخلے پر پابندی ہے!

ان دگرگوں حالات میں ہم اہل پاکستان کیلئے فخر کی بات ہے کہ ہمارے علماء کرام اور مفتیانِ عظام نے اسلام کے پرچم کو جھکنے نہیں دیا اور تھام لیا۔ عالم اسلام میں یہ صرف ہمارے مذہبی رہنما ہیں جنہوں نے مسجدیں کھولے رکھنے کا فتویٰ دیا‘ نمازِ باجماعت جاری رکھنے کا حکم دیا اور اب رمضان میں تراویح کی نماز بھی گھروں کے بجائے مسجدوں میں ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ 

ہمارے دینی پیشواؤں کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے حکومتِ پاکستان کو بھی قائل کر لیا کہ حکومت ان کے مؤقف کی حمایت کرے؛ چنانچہ اب ہمارا ملک‘ کورونا زدہ اسلامی ملکوں میں‘ کم و بیش واحد ملک ہے جہاں مسجدوں میں نمازی باقاعدہ حاضر ہو رہے ہیں! 

اس امتیازی حیثیت پر‘ ہم اہلِ پاکستان‘ جتنے خوش ہوں‘ جس قدر اطمینان کا اظہار کریں‘ جتنا شکر بجا لائیں‘ اتنا ہی کم ہے! یہ ایک سرخاب کا پَر ہے ‘جو ماشا ء اللہ ہماری ٹوپی میں لگا ہے!

کچھ ناعاقبت اندیش اس قسم کی غلط باتیں کہہ رہے ہیں کہ دوسرے مسلمان ملکوں میں مذہب کو کاروبار کا ذریعہ بنانے کی اجازت ہے نہ چندہ مدارس اور طلبہ کے نام پر جمع کر کے ذاتی مصارف پر خرچ کرنے کا رواج ہے۔ نہ ہی مدرسہ قائم کرنا اور چلانا پیشوں میں سے ایک پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ کچھ بدنہاد یہ بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ ملائیشیا ‘مصر‘ ترکی‘ مراکش اور مڈل ایسٹ کے تمام عرب ملکوں میں مساجد ریاست کی تحویل میں ہیں اور یہ کہ ان تمام ملکوں میں مسجدوں کی امامت اور خطابت کا سلسلہ موروثی اور خاندانی نہیں! 

مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے ناعاقبت اندیش‘ بدنہاد‘ مفسد اور مذہب دشمن لوگوں کی باتوں پر کان دھرنا چاہیے نہ انہیں کوئی اہمیت دینی چاہیے! ان کم فہم معترضین کو معلوم ہی نہیں کہ نیک مقاصد کیلئے چندہ جمع کرنا کارِ ثواب ہے اور مسجدوں کو خاندانی سلسلوں کی تحویل میں دینے سے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ کسی وقت خدانخواستہ امام صاحب داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیں تو نیا امام تلاش نہیں کرنا پڑتا اور خلف الرشید فوراً تیار ملتا ہے!

مگر ایک بات کا قلق ہے اور بہت قلق ہے! عالمِ اسلام پر ابتلا کا وقت ہے اور ہمارے محترم علماء کرام اور مفتیانِ عظام اس ابتلا کی فکر نہیں فرما رہے! وہ صرف اس پر مطمئن ہیں کہ پاکستان میں مسجدیں کھلی ہیں‘ نماز باجماعت ہو رہی ہے اور تراویح کی نماز بھی ادا کی جائے گی۔ انہیں دوسرے مسلمان ملکوں کی فکر نہیں نہ ان ملکوں کے نمازیوں کی پروا ہے! عالم اسلام ہمارے علما کی طرف پرامید نظروں سے دیکھ رہا ہے۔

ہمارے علماء کرام سے بہتر کون جانتا ہے کہ غلط کو غلط کہنا ایک مسلمان عالمِ دین پر فرض ہے! الازہر‘ سعودی مفتی صاحب اور ان ملکوں کی سپریم علما کونسلیں‘ اگر درست بات کرتیں تب تو ہمارے علما کی خاموشی قابل ِفہم تھی مگر وہ درست نہیں‘ جبھی تو ہمارے علما نے ان کے فتاویٰ کے برعکس یہاں مختلف احکام جاری کئے۔تو ان حالوں‘ ہمارے علما کی خاموشی ہم مقتدیوں کیلئے باعثِ تشویش ہے!ہم التجا کرتے ہیں کہ ان ملکوں میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کے خلاف علماء کرام قدم اٹھائیں‘ حرمین شریفین بند ہیں۔ اگر یہ درست نہیں تو علما خاموش کیوں ہیں؟ وہ احتجاج کریں‘ ہم عوام ان کا ساتھ دیں گے! دوسرے ملکوں کے علما اور مفتیوں کی آخر ہمارے علما اور ہمارے مفتیوں کے سامنے حیثیت ہی کیا ہے؟ اسلام کا جو علم ہمارے ان مقدس رہنماؤں کو حاصل ہے‘ اس کی ثقاہت کا دوسرے مسلمان ملکوں کے علما سوچ ہی نہیں سکتے! کہاں ہمارے علما! کہاں مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ! کہاں ہمارے مفتیان عظام کہاں الازہر کی سپریم کونسل! چہ نسبت خاک را باعالمِ پاک!

علما کی خاموشی اس نازک موقع پر ہماری فہم سے باہر ہے۔ ہمیں تو انہی بزرگوں نے یہ پڑھایا تھا کہ ؎

اگر بینم کہ نابینا و چاہ است
اگر خاموش بنشینم‘ گناہ است

بصارت سے محروم ایک شخص کنویں کی طرف جا رہا ہے تو ایسے موقع پر خاموشی گناہ کے مترادف ہے!

اے ہمارے مقدس علما ء کرام! اے واجب الاحترام مفتیانِ عظام! اُٹھیے! عالم اسلام پر چھائے ہوئے اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائیے! آپ ہمارے رہنما اور ہادی ہیں! ہم آپ کے پیچھے ہیں۔ 

پہلے تو علما حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کریں کہ وہ مداخلت کرے اور ان ملکوں میں‘ مسجدوں کو‘ بشمول حرمین شریفین‘ کھلوانے کے اقدامات کرے! اس کے بعد ہمارے مذہبی رہنما‘ خدا ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے‘ ان مسلمان ملکوں کے سفارت خانوں سے رجوع فرمائیں اور جا کر اپنا احتجاج نوٹ کرائیں تاکہ دنیا کو بالعموم اور عالم اسلام کو بالخصوص معلوم ہو جائے کہ جب مراکش سے لے کر ملائیشیا تک اور ترکی سے لے کر یمن تک دین کا علم عنقا ہو گیا ہے اور کسی کو اسلامی احکام کا پتہ نہیں‘ تو ہمارے علما اس وقت بھی علم اور تفقہ سے پوری طرح بہرہ ور ہیں!

اگر یہ تدبیریں کارگر نہ ثابت ہوں تو یہ جہاد رکنا نہیں چاہیے۔ اگلے مرحلے میں ہمارے علماء کرام کا وفد ان تمام ملکوں میں جا کر ان کی حکومتوں کو سمجھائے۔ ان کے اہلِ علم سے مناظرہ کرے اور اگر حق بات کیلئے مجادلہ بھی کرنا پڑے تو پیچھے نہ ہٹیں!اس وفد کے تمام اخراجات ہم عوام اٹھائیں گے اس لیے کہ ہمارے مالی وسائل اس نیک کام پر نہ خرچ ہوئے تو پھر کہاں خرچ ہوں گے؟ 

پش نوشت۔ بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ دوسرے مسلمان ملکوں کے علما کو سمجھانے کے بجائے حضرت مولانا فضل الرحمن نے ایک لحاظ سے ان کی حمایت کردی ہے اور فرمایا ہے 

کہ ''میں نماز گھر میں پڑھوں گا اور تراویح بھی گھر میں پڑھوں گا‘‘۔ 

مولانا نے یہ بھی فرمایا ہے 

کہ''ایک وبا پوری دنیا کو لاحق ہے تو پھر جو بھی احتیاطی تدابیر اس حوالے سے ہیں وہ سب اختیار کرنی پڑتی ہیں۔ سعودی حکومت نے بھی وہاں اگر پابندیاں لگائی ہیں تو ہم سے زیادہ وہ حرمین کے تقدس اور مقام کو جانتے ہیں اور ان کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ کرئہ ارض کے کونے کونے سے مسلمان اُدھر کا رخ کرتے ہیں تو اس کا ان کو بھی احساس ہے‘ لیکن انسانی ہمدردی کا تقاضا اس وقت یہ ہے کہ اس قسم کے اجتماعات سے پرہیز کیا جائے اور یہی پرہیز اس کا علاج ہے‘‘۔

یہ جو بازار‘ بینک وغیرہ کھلے ہیں تو اس کے متعلق مولانا ...
نے کہا ہے 

کہ ''ردعمل یہ آیا کہ اگر یہ جگہیں کھلی ہیں تو پھر مساجد کو کیوں بند کیا جاتا ہے تو میں نے ذاتی طور پر یہ مشورہ دیا تھا کہ یہ مناسب بات نہیں ہو گی کہ وہ کھلی ہیں تو مسجد بھی کھلی رہے‘ جب ہم قبول کر رہے ہیں تو دوسری جگہ جہاں حکومت کی نظر نہیں پڑ رہی ہے وہاںبھی اس کی نظر پڑے اور وہاں بھی قدغن لگائیں تاکہ لوگوں کا جمگھٹا نہ ہو اور یہ بیماری کم سے کم پھیلے‘‘۔

ہم محترم علماء کرام اور مفتیانِ عظام کی توجہ مولانا کے اس بیان کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ یہ بھی عرض ہے کہ جو وفد ہمارے علما کا مسلمان حکومتوں کو سمجھانے اور وہاں کے علما سے مناظرے (اور بوقت ضرورت مجادلے) کیلئے جائے تو اس میں مولانا فضل الرحمن کو شامل نہ کیا جائے!!

Monday, April 20, 2020

صدر اور وزیراعظم کا استحصال کیوں کیا جا رہا ہے؟




‎سردار جی ولایت سے ہو کر آئے تو مرچ مصالحہ لگا کر وہاں کی رنگینیوں کی خوب خوب داستانیں سنائیں۔ آخر میں کہا کہ معاملہ وہاں بھی وہی ہے جو یہاں لدھیانہ میں ہے۔
‎اس حکومت میں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو پہلے ہوتا آیا ہے ع
‎طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
‎تبدیلی کا خواب بکھر چکا۔ جڑیں تبدیل ہوئیں نہ تنا! وہی شاخیں‘ وہی زاغ و زغن! وہی برگ و بار! اس دیار کا بخت بھی عجیب ہے! گلاب دکھا کر دھتورا دیا جاتا ہے! عہد و پیمان بلبل سے ہوتا ہے آواز بُوم کی سنائی دیتی ہے!؎
‎میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
‎مرے سر پہ بوم ہے زاغ ہے مرے ہاتھ میں
‎ایک وفاقی سیکرٹری گزشتہ ہفتے جس دن ریٹائر ہوئے‘ ٹھیک اسی دن ان کی نئی تعیناتی کے آرڈر جاری ہو گئے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر لگ گئے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ معمول کی سرکاری کارروائی ہے تو آپ کو حقیقتِ حال کا علم نہیں! 
‎فیڈرل پبلک سروس کمیشن وہ بلند ترین آئینی ادارہ ہے جو وفاقی حکومت کو نئے ملازمین مہیا کرتا ہے۔ سی ایس ایس کے تحریری امتحان‘ انٹرویو اور تمام مراحل کا مالک و مختار یہی ادارہ ہے! اس کے علاوہ بھی تمام وفاقی محکموں کی افرادی قوت کے لیے یہی انٹرویو لیتا ہے۔ تعیناتیاں اسی کی سفارشات پر ہوتی ہیں۔ 1977ء کے آرڈیننس میں تفصیلات موجود ہیں۔
‎منطقی سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو ادارہ پورے وفاق کے لیے ملازم اور افسر چنتا ہے‘ انٹرویو لیتا ہے‘ سی ایس ایس کے امتحان کا کرتا دھرتا ہے‘ خود اس ادارے کے ممبر کس طریقِ کار کے تحت لائے جاتے ہیں؟ کیا ان کے انتخاب کے لیے بھی کوئی انٹرویو ہوتا ہے؟ کیا درخواستیں طلب کی جاتی ہیں؟ کیا مقابلہ ہوتا ہے؟ کیا اس امر کی ضمانت دی جاتی ہے کہ بہترین افرادی قوت ہی اس ادارے کو مہیا کی گئی ہے؟
‎نہیں! ایسا نہیں! آپ حیران ہوں گے کہ اس ادارے کے ممبران صرف اور صرف جان پہچان اور اعلیٰ سطح تک رسائی کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔آرڈی ننس کے تحت‘ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئر مین اور ممبران کی تعیناتی صدر مملکت کرتے ہیں۔ کُل ممبران میں سے نصف تعداد اُن افراد کی ہوگی جو حکومت پاکستان کے گریڈ 21 یا اس سے اوپر کے افسر رہے ہوں! اس کے علاوہ کم از کم ایک ممبر عدلیہ کا ریٹائرڈ جج ہونا چاہیے۔ ایک ممبر مسلح افواج سے اور ایک نجی شعبے سے! 
‎اصل سوال یہ ہے کہ نصف ممبران جو ریٹائرڈ سرکاری افسروں میں سے ہونے چاہئیں‘ کس طرح چُنے جاتے ہیں؟ یہی مثال لے لیجیے۔ گزشتہ ہفتے ریٹائر ہونے والے سیکرٹری صاحب کا نام جب وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوا رہے تھے تو کیا انہوں نے پوچھا کہ گزشتہ چھ ماہ یا ایک سال کے دوران کتنے افراد ریٹائر ہوئے؟ اس فرد کو کس طرح چنا گیا ہے؟ کیا درخواستیں طلب کی گئی تھیں؟ کیا کوئی انٹرویو ہوا؟ آخر نامزدگی کا معیار کیا ہے؟ کیا شفافیت اور یکساں مواقع کے اصول مدِّ نظر رکھے گئے؟ کون کون سے ریٹائرڈ افسران اس تعیناتی کے لیے مناسب نہیں سمجھے گئے؟ اور کیوں نہیں سمجھے گئے؟
‎عملاً‘ سول سروس کے متعدد گروپوں میں سے ایک اور صرف ایک گروپ یا حلقے کی کمیشن پر اجارہ داری ہے! مسلح افواج سے آئے ہوئے ایک ممبر کو چھوڑ کر‘ بقیہ تمام ممبران ایک ہی سروس گروپ‘ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (PAS) (سابق ڈی ایم جی)سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم نجی شعبے سے کوئی لیا جا رہا ہے یا نہیں‘ مگر اوپر سے نیچے تک اسی حلقے کا غلبہ ہے! وزیراعظم کے دفتر میں بھی ٹاپ بیورو کریسی ساری کی ساری اسی حلقے سے تعلق رکھتی ہے۔ 
‎وزیراعظم اور صدر مملکت کو پوچھنا چاہیے کہ کتنے ممبر فارن سروس سے ہیں؟ کیا کوئی ریلوے سے بھی ہے؟ کوئی ایف بی آر سے بھی ہے؟ آڈیٹر جنرل کے ادارے سے؟ انفارمیشن سروس سے؟ پوسٹل سروس سے؟ ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ سے؟ 
‎سرحد پار‘ بھارت میں‘ یونین (یعنی فیڈرل) پبلک سروس کمیشن کا موجودہ چیئرمین اروند سکسینہ پوسٹل سروس سے ہے! اس سے پچھلا چیئر مین ریلوے سے تھا! اس سے بھی پچھلا یونیورسٹی کا پروفیسر تھا! ممبران میں پولیس سروس سے بھی ہیں۔ اکنامک سروس سے بھی! ایک ممبر سابق وائس چانسلر ہے! اس لیے کہ جب معاملہ حکومت کے سامنے رکھا جاتا ہے تو حکومت اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ سارے گروپوں کی شمولیت ہو!

‎ہم وزیراعظم اور صدر مملکت سے بصد احترام یہ پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ آپ نے اتنا اہم اور کلیدی ادارہ صرف ایک گروپ کے سپرد کیوں کر رکھا ہے؟ کیا خدانخواستہ آپ اس ایک حلقے ہی کے وزیراعظم اور صدر ہیں؟ کیا ایف بی آر‘ پولیس‘ آڈیٹر جنرل‘ ریلوے‘ پوسٹل ڈیپارٹمنٹ‘ انفارمیشن‘ کامرس اینڈ ٹریڈ کے ریٹائرڈ افسران اس قابل نہیں کہ کمیشن کے ممبر بن سکیں؟ کیوں؟؟ کیا یہ کوئی چراگاہ ہے جو ایک ہی ریوڑ کی ملکیت ہے؟ کیا وزیراعظم شفافیت اور یکساں مواقع کے حوالے سے اپنا اطمینان کرتے ہیں؟ کیا صدر مملکت منظوری دیتے وقت اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بیورو کریسی کے بہت بڑے حصے کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے؟ صریح زیادتی؟؟
‎اول تو 1977ء کا آرڈی ننس ہی غلامی کی یادگار ہے! انگریز سرکار نے 1935ء  کے ایکٹ کی شق نمبر 265 میں جب قرار دیا تھا کہ کمیشن کے نصف ممبران ملکہ برطانیہ کے سابق ملازم ہوں گے تو وہ استعمار کا تقاضا تھا! آج آزادی کے تہتّر سال کے بعد بھی وہ شق جوں کی توں موجود ہے! 1977ء کا آرڈی ننس وضع کرتے وقت مکھی پر مکھی ماری گئی! نصف ممبران ریٹائرڈ سرکاری افسر کیوں ہوں؟ اکثریت نجی شعبے سے کیوں نہ ہو؟ صنعتکار‘ ماہرینِ زراعت‘ ماہرینِ قانون‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر‘ دانشور‘ ادیب‘ کئی کئی درجن کتابوں کے مصنف کیوں نہ ہوں؟ سول سروس کا یہ لاڈلا‘ راج دلارا‘ گروپ جو کمیشن پر مارِ سرِ گنج بن کر بیٹھا ہے‘ کیا اُن تمام مضامین کا ماہر ہے جو سی ایس ایس کے امیدوار منتخب کرتے ہیں؟ اس پروردگار کی قسم! جس نے دانش کو اقتدار سے دور رکھا ہے‘ افسر شاہی میں پڑھنے لکھنے‘ مطالعہ کرنے اور تازہ ترین مطبوعات سے تعلق رکھنے والے افراد آٹے میں نمک کے برابر ہیں!
‎چلئے! جب تک قانون میں ترمیم نہیں ہوتی تو ریٹائرڈ افسر ہی رکھیے! مگر خدا کا خوف کیجیے! شفافیت بھی ایک چیز ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پہلے بھی حکمرانوں کا استحصال کیا جاتا رہا‘ کیا آج کے وزیراعظم بھی اپنا استحصال ہونے دیں گے؟ وزیراعظم آفس سے لے کر ‘ پبلک سروس کمیشن تک‘ مشیر سے لے کر کابینہ ڈویژن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تک ...خزانہ سے لے کر پرنسپل سیکرٹری تک‘ ہر اہم مقام پر ایک ہی قبیلے کے ارکان پوزیشنیں سنبھالے ہیں! دوسرے گروپوں کے لیے یہ سب شجرِ ممنوعہ ہے! اور کیا پارلیمنٹ کو نہیں معلوم کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا حزبِ اختلاف اس مسئلے کی نزاکت اور عدم انصاف سے یکسر بے خبر ہے؟ 
‎نادر شاہ دلّی میں تھا تو اس کی طبیعت خراب ہو گئی! دوا کے طور پر گُل قند کھلائی گئی! کہنے لگا : ''حلوائے خوب است! دیگر بیار!‘‘ کہ مزیدار حلوہ ہے! اور لائو! فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں حلوہ مزیدار ہے اور بہت سا بھی ہے! پانچ ساڑھے پانچ لاکھ ماہانہ تنخواہ ہے! ڈیڑھ دو لاکھ ماہانہ ٹی اے ڈی اے کی مد میں مل جاتا ہے! گاڑی‘ ڈرائیور‘ پٹرول سرکاری ہے! دورے پر بیگم صاحبہ بھی سرکاری خرچ پر جانے کی قانوناً مجاز ہیں! جب لقمۂ تر ہے اور بڑا بھی ہے تو پھر ایک مخصوص حلقے کی اجارہ داری کیوں نہ ہو؟ اہلیت کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ حکمران آپ سے شناسا ہو اور اس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے معتبر افراد آپ ہی کے طائفے سے ہوں!! مگر ایک منٹ رُکیے! باہر دروازے پر دستک ہوئی ہے! ذرا دیکھ آئوں! تبدیلی تو نہیں آ گئی؟

Thursday, April 16, 2020

ہمارے ملک کی انفرادیت قائم رہنی چاہئے



بغیر کسی سیاسی جرم کے یہ جو گھر میں نظر بندی (ہائوس اریسٹ) ہے اس سے دماغ پر اثر پڑ رہا ہے۔ بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آ رہیں! سوچ رہا ہوں‘ ڈاکٹر کے پاس جائوں یا کسی بابے کے پاس جو تعویذ دے اور پڑھ کر کچھ پھونکے۔ یہ محبت تو ہے نہیں کہ کوئی دوا، کوئی تعویذ، کوئی منتر کارگر نہ ہو! مختار صدیقی کہہ گئے ؎
پیر، فقیر، اوراد، وظائف اس بارے میں عاجز ہیں
ہجر و وصال کے باب میں اب تک حکم چلا ہے ستاروں کا
یا یہ کہ؎
مسجد میں دیا جلا چکی میں
تعویذ سب آزما چکی میں
یہ محبت نہیں، روزمرہ کے مسائل ہیں جنہیں سمجھنے سے ذہن انکار کر رہا ہے۔ مثلاً یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ صدرِ مملکت کو وزیراعظم صاحب کوئی ڈیوٹی کیسے سونپ سکتے ہیں۔ صدر نے جو فرائض سرانجام دینے ہیں، وہ آئین میں درج کر دیئے گئے ہیں! اور یہ بات تو بالکل سمجھ میں نہیں آ رہی جو صدرِ مملکت نے خود ارشاد فرمائی ہے کہ ''وزیراعظم عمران خان نے مجھے بطور چیئرمین آئی ٹی ٹاسک فورس کے فروغ کا ٹاسک سونپا ہے‘‘ کیا صدر مملکت، وزیراعظم کے ماتحت ہیں؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کل زرتاج گل صاحبہ یا شفقت محمود صاحب کوئی ٹاسک وزیراعظم کو سونپ دیں! یعنی بازی بازی بازی باریش بابا ہم بازی! 
لطائف و ظرائف قسم قسم کے صدر کے عہدے کے ساتھ پہلے بھی منسوب چلے آتے رہے ہیں۔ چوہدری فضل الٰہی صدر تھے تو گائوں سے کوئی سائل آیا کہ واپڈا میں اس کا کام پھنسا ہوا تھا۔ صدر مملکت نے خاصی دیر سوچنے کے بعد بے بسی کا اظہار کیا کہ بھئی! واپڈا میں میرا کوئی جاننے والا نہیں! بھٹو صاحب کے زمانے میں اسلامی ملکوں کی سربراہی کانفرنس ہوئی تو بھٹو وزیراعظم تھے اور فضل الٰہی صدر مملکت! ٹی وی پر دیکھا گیا کہ مہمانوں کا استقبال کرتے وقت صدر صاحب کنفیوز ہو جاتے تھے کہ آگے ہونا ہے یا پیچھے، ایسے موقع پر وزیراعظم انہیں پشت سے تھوڑا سا دھکیلتے ہوئے آگے کرتے تھے۔ یوں کہ دیکھنے والا آسانی سے نوٹ کرتا تھا! 
مگر یہ متانت کے زمانے تھے۔ اس کے بعد اس عہدے کے ساتھ جو جو تیرہ تالیاں اور مضحکہ خیز تلمیحات وابستہ ہوئیں تو الامان والحفیظ! کبھی بریف کیس مشہور ہوا تو کبھی دہی بڑے! اور یہ شعر بھی اس حوالے سے لوگوں کو بہت یاد آیا؎
بہ نادان آنچنان روزی رساند
کہ دانا در آں حیران بماند
قدرت کی بے نیازیاں کہ نادان کو روزی یوں مہیا کرتی ہے کہ دانا حیران رہ جاتا ہے! 
ویسے بھی اٹھاون بی کی تلوار نیام میں رکھے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ صدر مملکت کو ان کے ماتحت ٹاسک سونپنے لگ جائیں! حفظِ مراتب بھی ایک شے ہوتی ہے!
بات، لاک ڈائون کے دوران دماغ کی کارکردگی کے بارے میں ہو رہی تھی۔ اس کالم نگار کے دماغ نے تو کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ آپ ہی اسے سمجھائیے کہ اگر وزیراعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ کاروبار پھر بھی چل سکتے ہیں، زندگیاں دوبارہ نہیں مل سکتیں اور یہ کہ پورے ملک کا بیانیہ ایک ہونا چاہئے اور یہ کہ وزیراعظم کو قیادت کرنی چاہئے، کیوں کہ ہر صوبہ الگ پالیسی بنائے تو وائرس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو گا تو کیا غلط کہا ہے۔ آخر وفاقی وزرا، جن کے محکمے کا صحت سے تعلق ہے نہ کسی اور متعلقہ شعبے سے، اس بیان کی تردید محض برائے تردید کیوں کرتے پھر رہے ہیں۔ جیسے ایک وفاقی وزیر نے وزیر اعلیٰ سندھ کی پریس کانفرنس کے جواب میں یہ الزام لگایا کہ وزیر اعلیٰ عوام کو دھمکا رہے ہیں اور خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں! کیا یہ موقع اس قسم کے مناظروں کا ہے! اور کیا قانونی اور منطقی طور پر، ایک وزیر کو اپنے محکمے کے امور تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے؟
ذہن مختل ہو گیا ہے۔ کیا کوئی اس کالم نگار کو یہ بات سمجھا سکتا ہے کہ جس طرح وزیر اعلیٰ سندھ مکمل اعداد و شمار کے ساتھ پوری صورت حال کا میڈیا کے سامنے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں اور عوام کو اعتماد میں لیتے ہیں، اُس طرح پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیوں نہیں کرتے؟ وہ تو ماشاء اللہ تمام وزرائے اعلیٰ میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، سب سے زیادہ تجربہ کار، سب سے زیادہ ذہین و فطین اور زبان و بیان پر سب سے زیادہ دسترس رکھتے ہیں! بولتے ہیں تو الفاظ دست بستہ سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں! ابوالکلام آزاد اور شورش کاشمیری جیسے مقرّر ہمارے وزیر اعلیٰ پنجاب کے سامنے طفلانِ مکتب لگتے ہیں!؎
پھر دیکھیے اندازِ گُل افشانیٔ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے!
جید علمائے کرام نے اعلان کیا ہے کہ اب لاک ڈائون کا اطلاق مساجد پر نہیں ہوگا۔ یہ بھی کہا ہے کہ لاک ڈائون کی اصطلاح بھی مساجد پر استعمال نہیں ہوگی۔ زیادہ وضاحت کرتے ہوئے علما نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ''آج سے (یعنی 14 اپریل سے) مساجد پر لاک ڈائون کا اطلاق نہیں ہو گا‘‘ دوسری طرف وزیر مذہبی امور نے کہا ہے کہ فیصلہ 18 اپریل کو علما کے ساتھ مشاورت سے کیا جائے گا! کوئی سمجھائے کہ جب علما فیصلہ کر چکے ہیں‘ اعلان بھی ان کی طرف سے ہو چکا ہے تو پھر اٹھارہ کو‘ یعنی چار دن کے بعد‘ وزیر صاحب کون سا فیصلہ کریں یا کرائیں گے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اٹھارہ اپریل کی تاریخ، چودہ اپریل سے پہلے پڑ رہی ہے؟ اس سے بھی زیادہ ناقابلِ فہم یہ خبر ہے کہ صدر مملکت نے مساجد میں اجتماعات اور نماز تراویح سے متعلق سفارشات کی تیاری کے لیے تمام صوبوں کے گورنروں اور علما کرام کا اجلاس بھی اٹھارہ اپریل ہی کو طلب کیا ہے‘ جبکہ علما علی الاعلان میڈیا پر مکمل صراحت کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ چودہ اپریل سے مسجدوں میں تمام عبادات باقاعدگی سے ادا کی جائیں گی! تو کیا اٹھارہ اپریل کو صرف شلغموں سے مٹی جھاڑی جائے گی؟
ہم تصوّر بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے ملک کے علما پر تنقید کریں، یا ان سے اختلاف کریں یا ان کے کسی فرمان کے آگے سوالیہ نشان لگائیں مگر بُرا ہوا اس انٹرنیٹ کا کہ دوسرے مسلمان ملکوں کی خبریں بھی دے رہا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس انٹرنیٹ پر، اس دشمنِ دین پر، پابندی لگا کر اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اب کیا ضرورت ہے ہم اہلِ پاکستان کو دوسرے مسلمان ملکوں کی خبریں پہنچانے کی! اس روزنامہ گلف نیوز کی قبیح حرکت دیکھیے۔ خلیج کا یہ اخبار بتا رہا ہے کہ سعودی مملکت میں نمازِ تراویح نہیں پڑھی، پڑھائی جائے گی۔ وہاں کے وزیر برائے اسلامی امور جناب عبداللطیف شیخ نے کہا ہے کہ مساجد میں پانچ وقت کی نماز کا تعطل، تراویح کے تعطل سے بھی بڑی بات ہے! انہوں نے اللہ سے یہ دعا بھی کی کہ تراویح جہاں بھی پڑھی جائے، مسجد میں یا گھروں میں، قبول فرمائی جائے۔ روزنامہ عرب نیوز (سعودی عرب کے اخبار) نے خبر دی ہے کہ اردن کی وزارت اوقاف نے رمضان المبارک کے دوران اس سال تراویح کی نماز پر پابندی لگائی ہے تاکہ کورونا کو روکنے کے عمل میں خلل نہ پڑے۔ اردن کے وزیر اسلامی امور جناب محمد خلیل نے یہ بھی کہا ہے کہ اپنے آپ کی اور گھروں کی حفاظت بھی شریعت کے مقاصد میں شامل ہے۔ 
مشرقِ وسطیٰ ہی کے روزنامہ ''العربیہ‘‘ نے اطلاع دی ہے کہ مصر میں بھی نماز تراویح پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مصر میں افطار کی مجالس رمضان کا لازم حصہ ہیں‘ جہاں گروہوں کے گروہ افطار مل کر کرتے ہیں۔ رمضان میں خصوصی خیمے نصب کیے جاتے ہیں جہاں بیٹھ کر، خاندان والے، دوست احباب کی ہمراہی میں قہوہ اور شیشہ پیتے ہیں۔ ایسی تمام سرگرمیاں حکماً ممنوع قرار دے دی گئی ہیں۔
اب ترکی کی سنیے: ''مڈل ایسٹ آئی‘‘ ایک ایسی نیوز ویب سائٹ ہے جو انگریزی، عربی اور فرانسیسی میں خبریں دیتی ہے اور جسے الجزائر، بحرین، مصر، ایران، عراق، اسرائیل، اردن، کویت، لبنان، لیبیا، ماریطانیہ، مراکو، اومان، فلسطین، قطر، سعودیہ، سوڈان، شام، تیونس، ترکی، یو اے ای اور یمن میں کروڑوں افراد ہر تھوڑی دیر کے بعد تازہ ترین خبروں کے لیے دیکھتے ہیں۔ اس کی رو سے ترکی کے وزیر مذہبی امور جناب علی ارباس نے مساجد میں تمام اجتماعی عبادات کو معطل کرنے کے حکم کی تجدید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''اسلام ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتا جو انسانی زندگی کو خطرے سے دو چار کریں‘‘
ڈاکٹر احمد عبدالعزیز الحداد، متحدہ عرب امارات کے مفتیٔ اعظم ہیں، اور حکومت کے فتویٰ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی ہیں۔ فرماتے ہیں: ''شریعت کے عمومی قوانین میں ایک یہ ہے کہ نقصان سے بچا جائے اور مدافعت کی جائے۔ شریعت ہر پہلو پر محیط ہے۔ اور ایسی ایمرجنسی کے حالات کے لیے شریعت کے پاس مناسب حل موجود ہیں۔ اسی لیے لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ نماز اپنے اپنے گھروں میں ادا کریں تا کہ محفوظ رہیں اور خیریت سے ہوں‘‘۔
مجھے تو یہ سب کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ آخر دوسرے مسلمان ملکوں کے علما نے یہ سوچا بھی کیوں کہ میرے ملک کے 
علما سے مختلف رائے دیں اور مختلف فتویٰ دیں! اس بے دین، گستاخ انٹرنیٹ پر پابندی لگوایئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ  ہمارے ملک کی انفرادیت مجروح ہو

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, April 14, 2020

گریبان تو ہماری قمیضوں میں بھی لگے ہیں



آفرین ہے ہم مسلمانوں پر اور شاباش ہے ہم پاکستانیوں کو۔ کہ ان حالوں بھی‘ عبرت کا نشان نیو یارک اور لندن ہی کو قرار دے رہے ہیں۔ جیسے ہم خود دودھ سے دُھلے ہیں! وہ پانچ انگلیاں نظر نہیں آ رہیں جو ایک انگلی دوسروں کی طرف کرتے ہوئے‘ اپنی طرف ہوتی ہیں!
یہ وقت خود احتسابی کا تھا! اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کا! اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھنے کا! طعن و تشنیع کا نہ تھا! بہادر شاہ ظفر کہاں یاد آ گیا ؎
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر‘ رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا
خبر آئی ہے کہ بادشاہ جزیروں میں چلے گئے۔ خلقِ خدا کو ساحلوں کے اُس طرف چھوڑ کر۔ کہ تم جانو اور تمہاراخدا۔ ہم تو اپنے محلات میں بند ہوئے۔
استنبول میں موت ہوئی۔ یوں کہ جسم کے اعضا تک نہ ملے۔ ایسا کسی مغربی ملک میں ہوتا۔ اگر ہوتا۔ تو حشر سے پہلے حشر برپا ہو جاتا! لیکن ہم تو پکے بہشتی ہیں۔ پوتّر !! ہم جو کچھ کریں‘ درست ہے۔ سارے گناہ‘ تمام بدمعاشیاں بحرِ اوقیانوس کے مشرقی اور مغربی کناروں پر ہیں۔ ساری عیاشیاں بحرالکاہل کے ساحلوں پر ہیں۔ یہ عذاب بھی اُنہی پر آیا ہے! ؎
ہر ایک سے کہاں بارِ نشاط اٹھتا تھا
بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی
ہم جو مسجدوں میں جانے سے بھی رہ گئے‘ طواف بند ہو گئے۔ حرمین شریفین رسائی سے باہر ہو گئے۔ شام عراق اور ایران میں واقع ہمارے مقدس مقامات پہنچ سے دور ہو گئے۔ کیا یہ عبرت کا سامان نہیں؟ کیا ہم خود اپنے گریبان میں نہ جھانکیں؟ کیا ہم خود نہ سوچیں کہ ہم پوتّر ہیں یا چلتّر؟
ہم نے کیا کیا نہ کیا! اور کیا کیا نہیں کر رہے! موت سامنے کھڑی‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے‘ پلک تک نہیں جھپک رہی‘ ان حالوں بھی ہماری فارمیسی کی دکانیں جعلی سینی ٹائزروں سے بھری ہوئی ہیں! کتنے ملک ہیں جو ملاوٹ‘ چور بازاری اور ناروا نفع خوری میں ہمارا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ جھوٹ کو ہم جھوٹ سمجھتے ہی نہیں! مگر خوش ہیں کہ امریکہ پر عذاب مسلط ہے۔ مطمئن ہیں کہ یورپ میں اموات زیادہ ہو رہی ہیں!
ہم تو وہ ہیں جو خلقِ خدا سے بھاری رقوم طلبہ کے لئے جمع کرتے ہیں اور پرورش اپنے خاندانوں کی کرتے ہیں؟ کتنے ہیں مذہبی اداروں کے مالکان جو الگ ذریعۂ معاش رکھتے ہیں؟ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ مظلوم ترین مخلوق مدارس کے اساتذہ ہیں؟ ساری زندگی چٹائی پر گزرتی ہے۔ کسی مسجد کی امامت یا خطابت مل گئی تو گزران ہو گیا ورنہ مدرسہ سے اتنی قلیل تنخواہ کہ قوتِ لایموت سے بھی کم! ساری زندگی قال اللہ اور قال الرسولؐ پڑھا کر‘ آخر میں پنشن نہ جی پی فنڈ! نہ علاج معالجے کی سہولت! نہ کوئی ہاؤس رینٹ! نہ کوئی تنظیم نہ کوئی یونین نہ کوئی باڈی جو احتجاج ہی کر سکے‘ مطالبات ہی پیش کر سکے! اور مالکان؟؟ مالکان کا کیا کہنا! ان کے پاس صوفے بھی ہیں‘ گاڑیاں بھی۔ ہوائی جہازوں کے ٹکٹ بھی! امریکہ کے سال بہ سال دورے بھی! خاندان کے خاندان پَل رہے ہیں جن کے نام پر سب کچھ اکٹھا ہوتا ہے وہ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں! کیوں؟ کیا مدارس کے اساتذہ انسان نہیں؟ کیا پرائمری سکولوں کے اساتذہ سے بھی ان کی حیثیت کم ہے!
اور کیا کبھی مدارس کے طلبہ کے بارے میں کسی نے سوچا ہے؟ اگر میز کرسی پر بیٹھ کر قدوری اور کنز پڑھنا منع ہے تو مالکان کے دفتروں میں فرنگی صوفے کیوں ہیں؟ مالکان کفار کی بنائی ہوئی فراٹے بھرتی گاڑیاں کیوں استعمال کرتے ہیں؟ اپنے لئے دبیز قالین اور اساتذہ اور طلبہ کیلئے چٹائیاں! واہ جناب! واہ! پھر بھی کورونا کا عذاب امریکہ کیلئے ہے!! خود‘ حساب نہ کتاب‘ نہ آڈٹ‘ نہ رپورٹ‘ نہ ٹیکس نہ کچھ اور۔ لَا تاکُلُوا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکم بِالباَطل کے سارے پند و مواعظ دوسروں کیلئے۔ خود را فضیحت‘ دیگران ر انصیحت! ماں صدقے!!
یہ تو دنیا کی تذکیر ہے اور یاد دہانی!
آخرت میں ہم سے امریکہ کا پوچھا جائے گا نہ یورپ کا! یہود کا نہ ہنود کا! جو پوچھا جائے گا کیا اس کیلئے ہم تیار ہیں؟

اندر ہم دشمنیاں پالتے ہیں۔ باہر سے مسکراہٹیں بکھیر کر معانقے کرتے ہیں! نفاق ہم سے پناہ مانگتا ہے! معصیت ہم پر ہنستی ہے! گھر گھر قطع رحمی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر برسوں تک تعلقات کا خاتمہ یہاں روز مرہ کا معمول ہے! کوئی اتنا بھی کہہ دے کہ بھائی صاحب! آپ نے گاڑی غلط پارک کی ہے تو کھانے کو پڑتے ہیں۔ بنیادی ادب آداب تک عنقا ہیں! ایفائے عہد کی حالت یہ ہے کہ لوگ منتظر رہتے ہیں اور ہم وقتِ موعود پر سو رہے ہوتے ہیں۔ دلوں پر پڑنے والے سیاہ نقطے پھیل پھیل  کر‘ ناقابلِ عبور دائروں میں تبدیل ہو چکے!
بیٹیوں‘ بہنوں کو وراثت سے محروم کرنے میں کیا تھری پیس سوٹ اور کیا کلف لگے عمامے‘ سب ایک ہی قطار میں کھڑے ہیں! ایسی ایسی وڈیوز موجود ہیں جن میں خدائی ٹھیکیدار مشورہ دے رہے ہیں کہ آبرو ریزی ہو تو عورت چُپ کر جائے! چھ چھ سال کی بچیاں‘ دوسروں کے گناہ دھونے کیلئے‘ ساٹھ ساٹھ سال کے بوڑھوں سے ''بیاہی‘‘ جاتی ہیں لاؤڈ سپیکروں میں ذرا سا ارتعاش پیدا ہوتا ہے نہ کسی مقدس عبا پر ہلکی سی شکن پڑتی ہے! غیرت کے نام پر قتل و غارت روکنے کا بل پیش ہوتا ہے بندہ و غنی‘ محمودو ایاز‘ منتخب ایوانوں میں ایک ہو جاتے ہیں۔ جس غیرت کا حکم اللہ نے دیا نہ رسولؐ نے‘ وہ غیرت نہیں کچھ اور ہے! اور تم کہاں کے معزز ہو؟؟ عزت تو اللہ کیلئے ہے اور اس کے رسولؐ کیلئے ہے! اور ان کیلئے جنہیں دوسروں کا نہیں‘ اپنی جواب دہی کا خیال ہے!
کفار کے ملکوں میں ہر شہری کو کورونا کے حوالے سے مالی امداد دی جا رہی ہے۔ گھر بیٹھے بیٹھے چیک مل رہے ہیں‘ بینکوں میں رقوم‘ خود بخود آ رہی ہیں۔ دھکم پیل نہ منت زاری! ہمیں چونکہ بخشش کی اور جنت کی گارنٹی ہے اس لئے ہم مستحقین کو ذلیل و رسوا کر کے ایک آدھ ٹکڑا دے رہے ہیں۔ ایک ایک ووٹ کیلئے کروڑوں دینے والے آج منہ دوسری طرف کئے بیٹھے ہیں!
ہم کتنے دیانت دار ہیں اور بحیثیت قوم کتنے خود دار ہیں‘ اس کا اندازہ ہماری کابینہ کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے! حکومت نئی ہو یا پرانی‘پرویز مشرف کی ہو یا زرداری صاحب کی یا میاں صاحبان کی یا عمران خان صاحب کی‘ کابینہ وہی ہوتی ہے! وہی زبیدہ جلال‘ وہی فہمیدہ مرزا‘ وہی شیخ رشید‘ وہی اعظم خان سواتی‘ وہی فردوس عاشق اعوان‘ وہی عمر ایوب خان! وہی محمد میاں سومرو! وہی فواد چودھری! ہماری بوتلیں وہی ہیں‘ ان کے اندر محلول بھی وہی صرف لیبل نئے ہوتے ہیں! ہم ہر بار الماریوں سے نکال کر وہی پرانے ڈھانچے عوام کو دکھاتے ہیں‘ فقط لبادے اُن پر نئے ڈالتے ہیں! ہم بقول عباس تابشؔ درختوں کو تو طعنے دیتے ہیں کہ ؎
عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی
ہمارے سامنے کپڑے بدلتے رہتے ہیں
مگر جو ہمارے سامنے پارٹیاں بدلتے ہیں‘ دن رات موقف بدلتے ہیں‘ ہمارے سامنے ترازو میں اپنے ایمان تولتے ہیں‘ انہیں ہم کچھ نہیں کہتے! کہنا تو دور کی بات ہے‘ انہیں ہم سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں! معزز سمجھتے ہیں! ایلیٹ کا خطاب دیتے ہیں! 

اب بھی وقت ہے! اس وبا کو یاد دہانی سمجھو! کفار پر کیا بیتے گی‘ یہ تمہارا مسئلہ نہیں! فکر اس کی کرو کہ تم پر‘ ہم پر‘ کیا بیتے گی! کیا خبر یہ آخری وارننگ ہو ‘کیا عجب یہ آخری تنبیہ ہو! کاش اب تو ہم حرام کھانے سے باز آ جائیں! اب تو حقوق العباد کے قتل سے باز آ جائیں! اب تو گاہکوں‘ سائلوں‘ موکلوں‘ پڑوسیوں‘ رشتہ داروں کو اذیت پہنچانے سے رُک جائیں! اب تو ظاہر پر زور دینے کے بجائے اپنے اپنے باطن کو آراستہ کریں! اب تو دوسروں کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے ایمان کی فکر کریں!
آخر گریبان تو ہماری قیمضوں میں بھی لگے ہیں۔

Monday, April 13, 2020

کورونا کی جنگ… پانچ رکاوٹیں


کسی ملک کی صورت حال سمجھنا ہو تو اسے ایک خاندان تصوّر کیجیے!
خاندان میں کوئی بیمار ہو جائے تو اصل ذمہ داری اس کے علاج و نگہداشت کی خاندان کے سربراہ پر پڑتی ہے۔ خاندان کے سربراہ پر یہی نہ واضح ہو کہ کس ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے‘ کس ہسپتال کا رخ کرنا ہے‘ ادویات کہاں سے لینی ہیں‘ پرہیز کیا کیا کرانی ہے‘ تو مریض کا‘ یوں سمجھیے اللہ ہی حافظ ہے!
جس قدر بھی اس ضمن میں غور کیا جائے‘ وفاقی حکومت کی کوئی پالیسی کہیں بھی واضح نہیں نظر آتی! اہم ترین فیصلہ یہ کرنا تھا کہ لاک ڈائون کیا جائے یا نہیں! کبھی یہ معاملہ صوبوں پر چھوڑ دیا گیا۔کبھی نیم دلی سے لاک ڈائون کرانے کی بات کی گئی‘ کبھی لاک ڈائون کے نقصانات کا ذکر کیا گیا۔ سب سے بڑی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ دیہاڑی دار طبقہ کہاں سے کھائے گا؟ گویا دیہاڑی دار طبقے کو اُس موت کے منہ میں ڈال دیا جائے جو کوروناکے جلو میں چلی آ رہی ہے! بجائے اس کے کہ اس طبقے کو کورونا سے بچا کر‘ گھروں میں رکھا جائے اور خوراک وہاں پہنچائی جائے‘ اس طبقے کو مزدوری کے نام پر باہر بھیج دیا جائے۔ کورونا کا شکار ہوا تو دیہاڑی کا مسئلہ بھی ساتھ ہی حل ہو جائے گا!
تادمِ تحریر‘ پوری دنیا میں صرف ایک ملک‘ چین‘ نے اس وبا پر کنٹرول حاصل کیا ہے۔ اور صرف اور صرف لاک ڈائون سے حاصل کیا ہے۔ چین کا اندرونی نظام اس قدر سخت ہے کہ اگر حکومت لاک ڈائون کا حکم دے تو کسی فرد یا گروہ کی مجال نہیں کہ اس حکم کی خلاف ورزی کرے۔ اسے آمریت کہہ لیجیے یا نظم و ضبط‘ بہر طور‘ لاک ڈائون کے اصول پر پوری طرح عمل کیا گیا اوروبا کو کنٹرول کر لیا گیا۔ ہمارے ہاں وفاقی حکومت ابھی تک اس ضمن میں کوئی واضح پالیسی نہیں بنا سکی!
فرض کیجیے لاک ڈائون‘ کرفیو کے طفیل مکمل طور پر نافذ کر لیا جاتا ہے تو غریب طبقات کو خوراک پہنچانے کا سوال اٹھے گا! یہاں پر دوسری رکاوٹ سامنے آتی ہے اور وہ ہے مقامی حکومتوں کا نہ ہونا! دنیا میں جہاں جہاں بھی جمہوریت حقیقی معنوں میں موجود ہے‘ اس کی بنیاد لوکل گورنمنٹ کا نظام ہے۔ ہمارے ہاں اس کا وجود ہی نہیں! کئی بار عرض کیاجا چکا کہ صدر پرویز مشرف نے ضلعی حکومتیں قائم کر کے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے استعماری اداروں سے قوم کی جان چھڑائی تھی‘ مگر افسوس! صد افسوس! جمہوریت کے نام نہاد علم بردار آئے تو لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی کے تخت و تاج کو برقرار رکھنے کے لیے ضلعی حکومتوں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ آج مقامی حکومتیں ہوتیں تو ضلع ناظم‘ تحصیل ناظم اور یونین کونسل کے سربراہ کو‘ ایک ایک محلّے‘ ایک ایک گھر کا علم ہوتا۔ وفاقی سطح پر اپوزیشن جماعتیں بھی سرگرمِ کار ہوتیں۔ آپس میں مقابلہ ہوتا۔ یوں زیریں طبقات کی نگہداشت کا مرحلہ سر ہو جاتا۔ ہوگا کوئی کوئی بیورو کریٹ ‘ کوئی کوئی ڈپٹی کمشنر‘ جو دل سوزی اور صدقِ دل سے یہ کام کرے مگر اکثریت اس طبقے میں اُن افراد کی ہے جو آرام دہ دفتروں سے نکلنے کی مشقت برداشت ہی نہیں کر سکتے! افسر شاہی کا مقامی حکومت سے سمجھوتہ ہو ہی نہیں سکتا! یہ سیاست دان ہے جو‘ ووٹوں کی لالچ میں ہی کیوں نہ ہو‘ ہر شخص ‘ ہر گھر‘ ہر خاندان‘ ہر کنبے تک پہنچتا ہے۔ آپ نے یہ خبر کئی بار پڑھی ہوگی کہ شاہ محمود قریشی موٹرسائیکل پر بیٹھ کر‘ گلیوں میں پھر رہے ہیں یا شیخ رشید‘ ایک ایک گھر کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ مگر ایسی خبر کسی ڈی سی‘ کمشنر یا کسی اے سی کے حوالے سے کبھی نہیں پڑھی یا سنی ہوگی! اپنے ضلع کی بات کروں تو تحریک انصاف کے میجر(ر) طاہر صادق ہوں یا پیپلز پارٹی کے سلیم حیدر خان یا نون لیگ کے ملک سہیل‘ یہ سب حضرات ایک ایک قریے‘ ایک ایک بستی‘ ایک ایک گھر کو جانتے ہیں اور مصیبت کے وقت پہنچتے ہیں۔ میجر طاہر صادق جب تک ضلعی حکومت کے سربراہ رہے‘ ضلع کے اطراف و اکناف میں مسلسل سرگرداں رہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے آ کر‘ ضلعی حکومتوں کو ختم کر کے‘ اس ملک کو ایک سو سال پیچھے دھکیل دیا۔ موجودہ حکومت بھی اس ضمن میں کوئی مثبت قدم نہیں اٹھا رہی!
تیسری مصیبت یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں میں کو آرڈی نیشن نہیں نظر آتی۔ سندھ حکومت ‘ وفاق سے نالاں ہے۔ بلوچستان اور کے پی میں کیا ہو رہا ہے‘ کچھ معلوم نہیں! صرف پنجاب اور وفاق کا باہمی رابطہ نظر آتا ہے۔ چوتھی مصیبت اس تیسری سے جڑی ہوئی ہے اور وہ ہے صوبوں کا آپس میں ربط و مساعدت کا مکمل فقدان! کتنے مریض کس صوبے سے نکل کر کس صوبے میں داخل ہو رہے ہیں‘ کسی کو کچھ معلوم نہیں! یہ کو آرڈی نیشن بھی وفاق کی چھتری تلے ہی ممکن تھی!
یہ تو حکومتوں کا کچا چٹھا تھا۔ عوام کی بات کی جائے تو جو پانچویں اور سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ مائنڈ سیٹ ہے۔ مائنڈ سیٹ دو حوالوں سے رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ ایک ذہنیت وہ ہے جو کھلنڈری ہے۔ لا ابالی اور لاپروا ہے۔ غیر سنجیدہ ہے! 1965ء کی جنگ میں سنتے تھے کہ مورچوں میں پناہ لینے کے بجائے پاکستانی چھتوں پر چڑھ کر بھارتی اور اپنے ہوائی جہازوں کی ڈاگ فائٹ دیکھتے تھے۔ یہ رویہ جنگ کے دوران تو بہادری سے موسوم کیا جا سکتا ہے‘ مگر کورونا جیسی مہلک وبائوں کے دوران اسے غیر سنجیدگی اور مجرمانہ لاپروائی ہی کہا جا سکتا ہے! ہدایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ لاک ڈائون کی خلاف ورزی‘ غیر ضروری طور پر باہر نکلنا‘ بھیڑ سے اجتناب نہ کرنا‘ ہم لوگوں کا مجموعی طور پر‘ معمول ہے!
دوسرے حوالے سے مائنڈ سیٹ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے! صرف مذہبی رہنما ہی نہیں‘ خود عوام بھی حکومت سے تعاون کرنے کو تیار نہیں! کراچی میں خاتون ایس ایچ او جس طرح زخمی ہوئی اور لیہ میں ایس ایچ او پر جس طرح چاقو سے وار کیے گئے ‘ لمحۂ فکریہ ہے۔ ایک مشہور و معروف مفتی صاحب کی وڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ ساری صورت حال کو امریکہ کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں! ایک سروے کے مطابق‘ جو حال ہی میں کیا گیا ہے‘ 43 فیصد لوگ ہمارے ہاں سمجھتے ہیں کہ کورونا امریکہ اور اسرائیل کی سازش ہے! 68 فیصد کے نزدیک با جماعت نماز سے کورونا نہیں پھیل سکتا! 48 فیصد یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ مصافحہ کرنا ان حالات میں خطرناک ہے۔بہت سے لوگ اس مسئلے کو کسی عقیدے یا فرقے کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔
ایک بزرگ ایک اینکر پرسن کو سمجھا رہے تھے کہ اگر عہدِ رسالتؐ میں بارش کی وجہ سے گھروں میں نماز پڑھنے کی ہدایت کی گئی تو اُس وقت گلیاں کچی تھیں‘ پرنالے برستے تھے۔ مسجد نبوی کا فرش کچا تھا۔ چھت گھاس پھونس کی تھی۔ آج وہ صورت حال نہیں۔ جب اینکر نے یہ دلیل دی کہ بہر طور مسجد میں نہ آنے اور گھر پر نماز پڑھنے کی مثال تو موجود ہے! مخصوص صورتِ حال میں جواز تو بنتا ہے ‘ تو اس دلیل کا حضرت کے پاس کوئی جواب نہ تھا!
ایسے بھی واقعات‘ خاصی تعداد میں ہوئے ہیں کہ مریض قرنطینوں سے فرار ہو گئے۔ کچھ مریض کہیں لے جائے جا رہے تھے‘ وہ ویگن سے باہر نکلے اور بھاگ گئے۔ سوشل میڈیا پر ایک صاحب کا لیکچر وائرل ہو رہا ہے۔ ان کے بارے میں لکھا ہے کہ کلونجی پر پی ایچ ڈی کی ہے! کہاں سے؟ کس یونیورسٹی سے کی ہے؟ کچھ معلوم نہیں‘ نہ کوئی پوچھنے والا ہے۔ غرض ہر شخص دکان کھول کر بیٹھا ہوا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ گردے جب زیادہ خراب ہو جائیں تو ٹیسٹ کرنے کیلئے مریض کو 24 گھنٹے کا پیشاب جمع کرنے کا کہا جاتا ہے۔ بہت عرصہ پہلے ایک دوست ڈاکٹر نے بتایا کہ ایسے ایسے مریض بھی ہیں جو پیشاب بوتل میں کرنا بھول جاتے ہیں تو اس میں پانی ملا دیتے ہیں تا کہ لیبارٹری والے کو مقدار کم نہ محسوس ہو! انہیں یہ سمجھانا ممکن ہی نہیں کہ اس حرکت سے ان کا ٹیسٹ خراب ہو جائے گا۔
ایک حکومت‘ ایک قوم‘ کورونا سے تو لڑ سکتی ہے مگر جہالت‘ تعصّب اور صدیوں سے منجمد مائنڈ سیٹ سے نہیں لڑ سکتی!

Thursday, April 09, 2020

پارلیمانی طرزِ حکومت میں تو یہی کچھ ہوگا


بزرجمہر رپورٹ کے تجزیے کر رہے ہیں، سبسڈی کے لغوی اور اصطلاحی معنوں پر بحث کر رہے ہیں، پنجاب اور سندھ گورنمنٹ کے موازنے کر رہے ہیں، انڈیا کی سبسڈی کی مثالیں دے رہے ہیں۔ کبھی وفاقی حکومت کو الزام دے رہے ہیں‘ کبھی صوبائی کو! جبکہ مسئلے کی جڑ کہیں اور ہے! بیماری زیادہ خطرناک ہے۔ صرف خون کے ٹیسٹ سے نہیں، خون کے کلچر کیلئے بھی لیبارٹری والوں کوکہنا ہوگا!
گزشتہ حکومت میں ایک بات ہر روز کہی جاتی تھی بلکہ ایک ایک دن میں یہ فرمان کئی بار یاد دلایا جاتا تھا کہ کاروبارِ حکومت تاجروں کے حوالے نہ کرو! کہاں گئی آج یہ نصیحت؟ آج بھی کاروبارِ حکومت تاجروں کے حوالے ہے، صنعت کاروں کی مٹھی میں ہے! آج اس فرمان کی یاد کسی کو نہیں آ رہی؟ کیوں؟
کیا یہ اصول کہ تاجروں کے حوالے کاروبارِ حکومت نہ کرو، صرف اُس وقت قابلِ عمل ہوگا جب سربراہ حکومت تاجر یا صنعتکار ہو؟ وزیروں، مشیروں کی اکثریت تاجروں پر مشتمل ہو تو سب ٹھیک ہوگا؟
ای سی سی سے لے کر شوگر بورڈ تک، سب وہی لوگ کرسیوں پر براجمان ہیں جن کے کارخانے ہیں، جن کی فیکٹریاں ہیں۔ جن کے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات ہیں! انسان ہیں! فرشتے نہیں! سوال یہ اٹھتا ہے کہ فیصلے انہی لوگوں کے سپرد کیوں کر دیئے گئے ہیں؟ کارخانوں کے مالک وزارتوں پر بیٹھے! فیصلے صادر کرتے وقت اپنے مفادات کو کیونکر فراموش کر سکتے ہیں؟ نسلیں صرف ہوئیں، عمریں لگیں تب جاکر وہ صنعت کار بنے۔ تب جاکر تجارت میں ان کی حیثیت قائم ہوئی۔ اب کیا وہ فرشتے ہیں کہ اپنے مفادات، اپنے پس منظر، اپنے خاندانی علائق پر خطِ تنسیخ پھیر دیں؟ 
کاروبار کو حکومت سے الگ رکھنے کا اصول اسی دن طے ہو گیا تھا جس دن، حکومت پر متمکن ہونے کے بعد، امیرالمومنین ابو بکر صدیقؓ نے حسبِ معمول کپڑے کا گٹھر اٹھایا اور فروخت کرنے کے لیے نکلنے لگے‘ جیساکہ خلیفہ المسلمین بننے سے پہلے وہ ہر روز کیا کرتے تھے۔ امیرالمومنین عمر فاروقؓ نے ٹوکا کہ جب حاکم کا مال مارکیٹ میں ہوگا تو دوسروں سے کون خریدے گا؟ اس کے بعد ہی سرکاری خزانے سے، گزر بسر کے لیے، حکمران اعلیٰ کا وظیفہ یا تنخواہ، مقرر ہوئی۔ اس سے یہ اصول طے ہو گیا کہ حکمران، حکومت میں شامل ہونے کے بعد کاروباری سرگرمیاں معطل کر دے!
اب یہاں وہ نقص سامنے آتا ہے جو پارلیمانی طرزِ حکومت کا جزو لا ینفک ہے۔ وزیر وہی افراد بنیں گے جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ پارلیمنٹ میں وہی بیٹھیں گے جنہیں عوام منتخب کریں گے! مشیروں کا مسئلہ الگ ہے۔ وزیر اعظم پانچ مشیر رکھ سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ صنعتکاروں کو اپنے ہی شعبے کے اوپر مشیر مقرر کرنے کے نتائج کیا نکلیں گے؟ 
Conflict of interests!! مفادات کا تصادم! مفادات کا ٹکرائو! یہ ہے وہ دیمک جو انصاف کو چاٹ جاتی ہے۔ اجتماعی غیر جانبداری کو گھُن کی طرح کھا جاتی ہے! 
اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ انتخابات کے نتیجہ میں وہ لوگ ایوانوں میں پہنچتے ہیں جو استحصالی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنہیں 1857ء کی مکروہ خدمات کے صلے میں جاگیریں ملیں۔ وہ جاگیریں آج تک انہیں اقتدار دلوا رہی ہیں۔ کسی کے پردادا نے مجاہدین کو قتل کیا۔ کسی کے وڈے وڈیرے نے مخبری کی۔ زرعی اصلاحات ہو نہ سکیں۔ سرحد پار بھارت اس معاملے میں بازی لے گیا۔ تقسیم کے چار سال بعد انہوں نے آکاش بیلوں سے، طفیلیوں سے نجات حاصل کر لی! ہاں! یہ سچ ہے کہ آج بھارت کے منتخب ایوانوں میں غنڈے بیٹھے ہیں، مگر اس کا سبب اور ہے!
ایک ایسے ملک میں جہاں جھنگ سے لے کر ملتان تک، ہالہ سے لے کر خیرپور تک، گجرات سے لے کر رائے ونڈ تک، وراثتیں ہی وراثتیں ہوں، گدیاں ہی گدیاں ہوں، جہاں کھرب پتی صنعت کاروں کو منتخب ہونے سے کوئی نہ روک سکے، جہاں دولت اور نام نہاد ذہانت کا منبع اوجڑی کیمپ جیسے ''سانحے‘‘ ہوں، وہاں پارلیمانی طرزِ جمہوریت ایک عذاب سے کم نہیں! اس طرزِ حکومت کا کمال ہی یہ ہے کہ جن کی شوگر ایمپائرز ہیں وہی شوگر پالیسیاں بناتے ہیں۔ جن کی اپنی فیکٹریاں ملک سے باہر ہیں، وہی ملک کے اندر چلنے والی فیکٹریوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں! انتظامیہ اور مقننہ کے درمیان حدِ فاصل ہی کوئی نہیں، پوری انتظامیہ، بشمول سربراہِ حکومت، اس ایوان کے رحم و کرم پر ہوتی ہے جس میں نسل در نسل منتخب ہونے والی ایلیٹ بیٹھی ہے۔ انہی میں سے وزیر بننے ہیں۔ پالیسیاں بناتے وقت یہ وزیر وزرا، اپنی فیکٹریوں، اپنے کارخانوں، اپنی جاگیروں، اپنی ٹریڈنگ کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ رہی سہی کسر ان مشیروں نے پوری کر دی جو مفادات کے اسیر ہیں! جن کی اپنی صنعتی سلطنتیں ہیں! 
پاکستان جیسے ملک میں، جہاں انتخابات ان سیاسی جماعتوں کی مٹھی میں ہوں جو خاندانوں کی میراث ہیں‘ پارلیمانی طرزِ حکومت وہی گل کھلائے گا جو کھلا رہا ہے! کون سی سیاسی جماعتیں؟ کون سی جمہوریت؟ کون سا پارلیمانی نظام؟ بیس فیصد سے زیادہ خواندگی کی شرح نہیں! آبادی کا درست شمار ناممکن ہے۔ پیپلز پارٹی سے لے کر اے این پی تک، مسلم لیگ سے لے کر تحریک انصاف تک، جے یو آئی سے لے کر پختونخوا ملی عوامی پارٹی تک... ساری سیاست خاندانوں کے گرد گھومتی ہے یا افرادکے گرد! ایم کیو ایم نے مالکانہ آمریت سے چھٹکارا پا لیا مگر ملک کے ایک حصّے میں محدود ہے۔ جماعت اسلامی کے اندر ایک مخصوص طریقے سے انتخابات ضرور ہوتے ہیں مگر، بوجوہ، پارٹی مین سٹریم سے دور ہے اور ان پڑھوں اور پڑھے لکھوں میں یکساں اجنبی! وجوہ کیاہیں؟ یہ ایک لاحاصل بحث ہو گی کیونکہ دیگر مذہبی جماعتوں کی طرح ان حضرات کی طرف سے بھی جوابی کارروائی (Back Lash) ناقابلِ برداشت ہوتی ہے! اس لیے خیر اندیش بھی عزت بچانے کی خاطر چُپ رہتے ہیں اور مشورہ بازی کا خطرہ مول نہیں لیتے! 
کسی کو یہ بات اچھی لگے یا بُری، پاکستان جیسے ملک میں صدارتی نظمِ حکومت ہی اُن اجارہ داریوں کا مقابلہ کر سکتا ہے جو معاشرے پر قابض ہیں۔ اگر کابینہ کا انتخاب، منتخب ارکان ہی سے کرنا ہے تو پھر کابینہ کی کمپوزیشن وہی ہو گی جو نظر آتی ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر ٹائیکون! مِل اونر! کارخانہ دار! جاگیردار! سردار! صدارتی نظمِ حکومت میں صدر مملکت کو یہ تو اختیار ہے کہ کسی غیر جانب دار، اعلیٰ تعلیم یافتہ، دردِ دل رکھنے والے کو کابینہ میں لے‘ جو مفادات کے تصادم کا شکار نہ ہو! امریکہ میں صدر، کابینہ کے لیے کسی کو چُنتا ہے تو اس کی تصدیق ایوان بالا کرتا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں ایوانِ بالا کو صنعت کاروں، تاجروں اور جاگیرداروں سے بچایا جا سکتا ہے بشرطیکہ سیاسی جماعتیں، خاندانوں کی غلامی سے باہر آ جائیں! 
کوئی ایک بدقسمتی ہو تو رونا بھی رویا جائے! جہاں وزیراعظم کو آزادی ہے کہ مشیر جسے چاہیں بنائیں، وہاں بھی طالع آزما نظر آتے ہیں۔ کل جسے بہترین حکمران کا سرٹیفکیٹ دے رہے تھے‘ 
آج اسی کے مخالف کی کابینہ میں بیٹھے ہیں! کل جو بھی حکمران ہوگا، اس کے گردوپیش میں بھی یہی افرادی قوت ہوئی تو روزِ نجات کی امید ہی نہ رکھیے! ایک مکروہ دائرہ ہے! ایک Vicious circle ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا! ایک دو نہیں پانچ چھ نہیں، بیس بیس، تیس تیس سالوں سے وہی چہرے نظر آ رہے ہیں۔ حکومتیں آئیں، تاریخ کی گرد بنیں، یہ چہرے، یہ خاندان، یہ کنبے، اسی طرح مسلط ہیں! انہی خاندانوں کی نئی نسل اب حکمرانی کے لیے پر تول رہی ہے! کچھ نام نہاد پارلیمنٹ میں تشریف لا بھی چکے! اثاثے اربوں سے اوپر ہیں! ابھی سے اربوں سے اوپر ہیں۔ ع
ابھی تو قرضِ مہ و سال بھی اتارا نہیں! 
سنتے ہیں کہ اسی کرۂ ارض پر کچھ ولایتیں ہیں جن کے حکمران سائیکلوں پر آتے جاتے ہیں۔ ٹرینوں میں عام مسافروں کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ سبزی، گوشت خریدنے ملکہ سے لے کر وزیراعظم تک خود دکانوں پر آتے ہیں۔ اپنے ناشتے، لنچ، ڈنر اپنے ہاتھوں سے پکاتے ہیں۔ سرکاری ضیافتوں میں چار پانچ سے زیادہ مہمان نہیں ہوتے۔ بیویوں کے لیے سیکنڈ ہینڈ کاریں خریدتے ہیں۔ ٹیکس ان کا ڈاکخانے کی کھڑکی پر کھڑے ہو کر اپنے ہاتھوں سے ادا کرتے ہیں، سرکاری گھر سے نکلنا ہو تو اپنا سامان خود پیک کرتے ہیں! اقتدار سے نکلنے کے بعد بس سٹاپوں پر نظر آتے ہیں! بیٹے کو بیماری کے سبب، ملازمت چھوڑنی پڑے تو اس کا گھر چلانے کے لیے مکان بیچنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ایسے حکمران، ایسے ارکانِ کابینہ، ہمیں کب ملیں گے؟ کیا ہم اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ کھرب پتی ہم پر حکمرانی کریں؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, April 07, 2020

بیچارہ ‘ ناکام ! شکست خوردہ



کل شام کو اس نے پیغام بھیجا کہ ملنا چاہتا ہے ۔
پہلے تو میں ڈرا کہ اس مکروہ شخصیت کی طرف سے یہ سندیسہ خطرے کی گھنٹی ہے‘ مگر پھر تجسس ہوا کہ آخر مجھے ہی کیوں یاد کیا ہے؛ چنانچہ دل کو مضبوط کیا اور مقررہ جگہ پر پہنچ گیا۔ تیاری میں نے پوری کی تھی ‘ ہاتھوں پر دستانے تھے ‘ منہ پر ماسک ‘ ریستوران کا جو گوشہ اس نے بتایا تھا وہاں اور کوئی نہ تھا‘ بیٹھا ہی تھا کہ السلام علیکم کی آواز آئی۔ پوچھا: کہاں سے بول رہے ہو‘ کہنے لگا: اس مسئلے میں نہ ہی پڑو تو تمہارے لیے بہتر ہے ۔ بہر طور تمہارے اطمینان کے لیے بتائے دیتا ہوں کہ تمہاری میز سے چار میزیں چھوڑ کر جو میز ہے اس پر دھری پیالی کے دستے پر بیٹھا ہوں ۔ جس گاہک نے اس سے چائے پی اسے میں لاحق تھا‘ اس کے ہاتھ سے دستے پر منتقل ہوا ۔اور اب یہیں سے بات کر رہا ہوں۔ 
میرے خوف میں اضافہ ہوااور جھنجھلا کر کہا کہ ٹھیک ہے تم نے اپنا مکروہ محل ِوقوع تو بتا دیا اب یہ بھی بتاؤ کہ مجھے تم نے کیوں بلایا ہے ؟ کیا لاحق ہونے کا ارادہ ہے ؟ نہیں ! ایسا کوئی ارادہ نہیں‘ تمہاری عمر پرترس کھائے دیتا ہوں ۔تمہارا نام نہاد تعلق چونکہ میڈیا سے ہے اس لیے تمہارے توسط سے اپنی ناکامی اور نامرادی کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں ۔ 
فرشتے تمہاری قوم سے ناامید ہو چکے تھے ۔ جس دن وہ بارگاہِ ایزدی میں اس ناامیدی کا اظہارکر رہے تھے میں وہاں موجود تھا۔ غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دیں اور دعویٰ کیا کہ اس قوم کو میں ٹھیک کر کے دکھاتا ہوں۔ اجازت مل گئی اور میں نے آکر دھاوا بول دیا ورنہ میرے اصل پلان میں پاکستان کا نام تھا نہ ذکر ۔مجھے خوش فہمی تھی کہ جیسے ہی حملہ کروں گا تم لوگ سیدھے ہو جاؤگے ‘ مگر مجھے تو منہ کی کھانا پڑی اور اب فرشتوں کی اس رائے سے متفق ہوں کہ تم لوگ اسفل السافلین میں ہو۔
‏Scum of earthہو
اسقط الناس ہو۔ روئے زمین پر تم سے بڑا نفاق پرور کوئی نہیں ۔
میں نے اس کی بات کاٹی '' اے انسانوں کے دشمن ! کیا یاوہ گوئی کر رہے ہو‘ میری قوم کے متعلق! تم اچھی طرح جانتے ہو کہ خیراتی کاموں میں میری قوم کا نام سر فہرست ہے ‘‘۔ہاں ! اسی لیے ماسک کی قیمت چار گنا ہو گئی۔ سینی ٹائزر مارکیٹ میں غیر معیاری آگئے ! ملاوٹ جوں کی توں ہے‘ چوربازاری ویسی ہی ہے ! چینی اور آٹے کی انکوائری رپورٹ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں تمہارے تاجروں کو راہ راست پر لا سکا نہ صنعتکاروں کو۔ سب سے زیادہ مایوسی اہل سیاست سے ہوئی ہے ۔ ابتلا کے اس خوفناک لمحے میں بھی حکومت اپوزیشن کی طرف رواداری کا ہاتھ نہ بڑھا سکی ۔ ایک بار بھی ایسا نہ ہواکہ سب مل کر بیٹھ جاتے ‘اختلافات کی چادر اُتار کر ایک طرف رکھ دیتے ‘ مجھ سے نمٹنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ۔مگر حکومت تو خیر حکومت ہے خود حزبِ اختلاف یکجہتی نہ پیدا کر سکی ۔ مولانا فضل الرحمان‘ زرداری ‘ شہباز شریف ‘ اسفند یار ولی ہی ایک مشترکہ پالیسی بنا لیتے ۔ اہلِ اقتدار اپنی الگ فورس بنانے کے بجائے ‘ قومی سطح کی تنظیم بنا لیتے جس میں ساری پارٹیوں‘ سارے صوبوں‘ سارے طبقات کی شمولیت ہوتی ‘ بے شک اس کی قیادت حزبِ اختلاف کے سپرد کر دیتے۔ افسوس ! صد افسوس! اس موقع پر بھی اس ملک کے اہلِ سیاست ایک پیج پر نہ آسکے ۔اس سے بھی زیادہ مایوسی مذہبی رہنماؤں کے انداز فکر سے ہوئی ۔کسی کا منہ اس طرف ہے تو کسی کا اُس طرف! یہ حرم کی اتباع میں بھی مناسبت نہ دکھا سکے یعنی ـ؎
گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے 
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہَری ہَری 
کسی نے کہا کہ فرض نمازیں گھر پر پڑھنی چاہئیں‘ کسی نے کہا کہ نہیں صرف سنتیں اور نوافل گھر پر پڑھیں۔ مقتدی حیران پریشان‘ کس کی مانیں کس کی نہ مانیں ؎ 
کس کا یقین کیجیے کس کا یقیں نہ کیجیے 
لائے ہیں بزم ِناز سے یار خبر الگ الگ 
کہیں امام اور پولیس کا جھگڑا۔ کہیں عوام کا امام سے اختلاف اور کہیں نمازیوں کا کوتوالی والوں سے تصادم ! یعنی موت کا ہر طرف رقص جاری ہے اور اس حال میں بھی لوگ پولیس کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں اس لیے کہ پیشواؤں کا رویہ معاندانہ ہے ! اس عالم میں کہ مخالفتیں ترک کر دینی چاہئیں تھیں‘ مسلکی اختلافات کو ہوا دی گئی۔ خدا کا خوف نہ رہا۔ ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے باتیں ہونے لگیں ۔ تبلیغی جماعت کو زیر بحث لایا گیا۔ زائرین پر اعتراضات کیے گئے حالانکہ میں شیعہ ہوں نہ سنی‘ ایران نواز ہوں نہ عرب دوست ! دیوبندی ہوں نہ بریلوی ! میں تو کورونا کا وائرس ہوں۔مجھے تو انسانی خون چاہیے ۔ خون سب مسلکوں کا ایک ہی ذائقے کا ہے۔ پھیپھڑے ہر فرقے کے ایک ہی بناوٹ کے ہیں ۔آہیں اور کراہیں ایک جیسی ہیں۔ پروردگار سب کا وہی ہے ۔

مجھے اپنی شکست کا اعتراف ہے۔ مان گیا ہوں تم پاکستانیوں کو ! تمہارے تاجروں کر تمہارے سیاستدانوں کو تمہارے حکمرانوں کو تمہارے پیشواؤں کو اگر میں بھی ذاتی اغراض سے پاک کر کے راہ راست پر نہیں لا سکا تو پھر فرشتے سچ ہی کہہ رہے تھے کہ تم لاعلاج ہو ! حقیقت یہ ہے کہ تمہارے دعوے ‘ تمہارے وعدے ‘‘ تمہاری تقریریں‘تمہارے خطبے‘ تمہارے مواعظ‘ تمہاری نمازیں ‘ تمہارے حج‘ تمہارے عمرے‘ تمہاری تسبیحیں ‘ تمہاری خیراتیں ‘تمہارے عطیات‘ سب دکھاوے کے ہیں ۔ اندر سے تم آلائشوں سے بھرے ہوئے ہو۔ تم باہر سے جتنے صاف ہو اندر سے اتنے ہی کثیف ہو !
تم نے موت کو سامنے ناچتے دیکھا مگر تم نے قطع رحمی سے توبہ کی نہ حقوق العباد کے حوالے سے اپنا رویہ بدلا ۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ کل کو میرے استیصال کے لیے کوئی ویکسین ایجاد ہوئی تو تم نے ایک اور حشر برپا کر دینا ہے۔ پہلے تو تم اس میں ملاوٹ کر کے چار مریضوں کی ویکسین آٹھ کو لگاؤ گے‘ پھر تم ذخیرہ اندوزی کا ارتکاب کر کے اسے بلیک میں فروخت کرو گے ۔ امیر اسے ہتھیا لیں گے ‘ غریب غربا دیکھتے رہ جائیں گے ‘ سرکاری ہسپتال اس سے محروم رہیں گے ‘ مہنگے نجی کلینک تیرہ تالی کھیلیں گے ۔
اپنی تحریر کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کو میری طرف سے بتا دو کہ میں جلد ہی بوریا بستر سمیٹ کر چلا جاؤں گا ۔ میں تو وہ بچھو ہوں جو سردیوں میں باہر نہیں نکلتا اس لیے کہ گرمیوں میں میری کون سے عزت ہوتی ہے۔ مگر یہ اعلان بھی کردو کہ اس سے پہلے کہ کوئی مصیبت مجھ سے بھی بڑی نازل ہو‘ اپنی اصلاح کر لیں ۔ قوم کو تفرقوں میں نہ بانٹیں ‘ اس ملک کو ذاتیات کی نذر نہ کریں۔ اسے آگے بڑھنے دیں۔ اہلِ اقتدار اپنے دوستوں کو کارِ حکومت سے الگ کر لیں۔ پرانی دوستیاں نبھانی ہیں تو اپنے طور پر نبھائیں۔ قوم کی قیمت پر نہیں۔ آج نہیں تو کل حساب دینا ہی پڑے گا ۔ 

اس بلائے بے درماں سے جان چھڑا کر واپس آرہا تھا کہ راستے میں فارمیسی کی دکان پر نظر پڑی ‘اندر جا کر کاؤنٹر والے سے ماسک کا پوچھا تو کہنے لگا نہیں ہے۔ ایک اور صاحب آئے ‘ کاؤنٹر والا ان سے گلے ملا ‘ حال احوال پوچھا ‘ انہوں نے بھی ماسک مانگا ‘ دکاندار نے آنکھ مار کر انہیں انتظار کرنے کا کہا !

میں بہت سخت کنفیوزڈ ہوں ‘ کیا ہم واقعی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ کوروناسے بڑی کسی آزمائش کے مستحق ہیں ‘کیا ہم دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کر نے کو تیار ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم جو کچھ مانگ رہے ہیں ‘ اسے حاصل کرنے سے پہلے ہمیں کچھ دینا بھی ہے جس کا ہم سوچ ہی نہیں رہے !

بشکریہ  روزنامہ دنیا

Monday, April 06, 2020

مبارک ہو جناب وزیراعلیٰ، مبارک ہو


سب سے پہلا فون جو وزیراعلیٰ کو آیا وہ صدر ٹر مپ کا تھا!
احساسِ کمتری کا یہ عالم تھا کہ صدر ٹرمپ سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔ ہکلا ہکلا کر بول رہے تھے۔ مبارک باد دی۔ وزیراعلیٰ کی قسمت پر رشک کیا۔ ان کے خیال میں یہ واقعہ اپنی مثال آپ تھا۔ دوسرے ملکوں کے متعلق تو بقول صدر ٹرمپ، انہیں زیادہ معلومات نہ تھیں مگر کم از کم امریکہ کی اڑھائی سو سالہ تاریخ میں ایسا ایک بار بھی نہیں ہوا تھا۔
اس کے بعد ٹیلی فون کالوں کی قطار لگ گئی۔ ہر بادشاہ، ہر صدر، ہر وزیر اعظم، ہر وزیر خارجہ مبارکباد دے رہا تھا۔ وزیراعلیٰ کے مجوزہ سرکاری اجلاس‘ کانفرنسیں، ملاقاتیں سب منسوخ کرنا پڑیں۔ بین الاقوامی سفارت کاری کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ وفاقی حکومت سے رابطہ کیا گیا اور وزارت خارجہ کا ایک سینئر افسر مع عملہ وزیر اعلیٰ کے دفتر میں تعینات کرانا پڑا۔
تاریخ میں ایسے قابلِ فخر واقعات کم ہوئے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کی اور بات ہے۔ عروج کے عہد میں دنیا بھر سے سفیر قسطنطنیہ میں واقع ''بابِ عالی‘‘ میں حاضر ہوتے تھے۔ خورجینوں میں قیمتی تحائف اور زربفت میں لپٹے مودبانہ خطوط! وہ زمانہ لد چکا۔ اب نیا زمانہ تھا۔ یہ قابلِ رشک مقام تاریخ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو عطا کیا تھا۔ قدرت کے کھیل نیارے ہیں۔ کہاں پاکستانی پنجاب! کہاں اس کے حکمران کو، عالمی طاقتوں سمیت، دنیا بھر سے تہنیتی پیغامات! جاپان کے وزیر اعظم سے لے کر سعودی شاہ تک! مراکش کے بادشاہ سے لے کر انڈونیشیا کے صدر تک۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سے لے کر کینیڈا کے وزیر اعظم تک! رشک تھا اور حیرت تھی! مبارکبادیں تھیں اور نیک تمنائیں تھیں! حسرتیں تھیں اور اپنی اپنی قوم، اپنے اپنے ملک پر سب افسوس کناں تھے!
موٹروے پر اس دن جھنڈوں والی کاروں کی لائنیں لگی تھیں! قطار اندر قطار! یہ سفیر تھے دوسرے ملکوں کے جو وفاقی دارالحکومت سے لاہور کی جانب رواں تھے! انہیں اپنی اپنی حکومتوں کی طرف سے فوری احکام موصول ہوئے تھے کہ بنفسِ نفیس جائیں اور وزیراعلیٰ کو مبارکباد پیش کریں! لاہور شہر کی شاہراہوں پر پروٹوکول کا غلغلہ تھا۔ خوبصورت ، کلف لگی کھڑکھڑاتی، اجلی وردیوں میں ملبوس ٹریفک کے سپاہی، جھنڈے والی کاروں کو سلیوٹ کرتے تھے اور رہنمائی کرتے تھے۔ وزیر اعلیٰ کے دفتر کے ارد گرد، عام ٹریفک روکنا پڑی کہ مہمانانِ گرامی کو دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
 یہ بھیڑ ذرا کم ہوئی تو ملک کے اندر سے ملاقاتوں اور تبریک کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سب سے پہلے آئے۔ گلے ملے، پیشانی پر بوسہ دیا اور برملا اعتراف کیا کہ لاہور اس معاملے میں کراچی کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اور پیچھے بھی کوئی ایسا ویسا نہیں چھوڑا۔ کوسوں پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ فرسنگ در فرسنگ ۔ منزل بہ منزل! 
پھر کوئٹہ، پشاور، گلگت اور مظفر آباد سے حکمرانوں کی سواریاں آئیں۔ وفاقی حکومت نے اپنے سب سے سینئر وزیر کو پورے پروٹوکول، ڈھیر سارے لوازمات اور شاہانہ تکلفات کے ساتھ بھیجا۔ سچ پوچھیے تو شادی کا سماں تھا! لگتا تھا ستاروں نے سالگرہ کی کوئی تقریب اس سرکاری عمارت میں رکھ دی ہے! وزیراعلیٰ، بار بار، دل میں پروردگارِ عالم کا شکر ادا کرتے تھے۔ احساس تشکّر سے ان کا سر جھکا جاتا تھا۔ یہی اہلِ دل کی نشانی ہوتی ہے۔ پھلوں سے لدی ٹہنی، نیچے کی طرف جھکتی ہے۔ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو نا ممکن کو ممکن بناتا ہے۔ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ‘ وہاں سے عطا کرتا ہے جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا!؎
شکر نعمت ہائے تو چنداں کہ نعمت ہائے تو
عذر تقصیراتِ ما چنداں کہ تقصیراتِ ما
ملاقاتوں، فون کالوں، مبارکبادوں، تہنیتوں اور پروٹوکول کا طوفان تھما تو اصل مسئلہ خم ٹھونک کر سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس رقم کو خرچ کیسے کیا جائے گا؟ کہاں کہاں خرچ کیا جائے گا؟ کتنے محکموں کی ضروریات پوری ہوں گی؟ ترجیحات کے مسائل کیسے طے ہوں گے؟ ظاہر ہے رقم معمولی نہیں تھی، غیر متوقع طور پر خطیر تھی! جیسے صوبائی حکومت کی لاٹری نکل آئی ہو، جیسے طلسمی داستانوں کا کوئی ورق سامنے کھل گیا ہو۔ اس سے کئی برسوں کے ترقیاتی بجٹ بن سکتے تھے۔ وزیر اعلیٰ نے اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا۔ کابینہ کے ارکان، تمام محکموں کے سربراہ، صوبائی اسمبلی کے ممبر، اپوزیشن کے رہنما، سب کو دعوت دی گئی۔ کل کوئی یہ نہ کہے گا‘ ہُن برسا تو اپنے آپ میں نہ رہے۔ حالات کا تقاضا تھا کہ حزبِ اختلاف کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ فیصلے باہمی مشاورت اور رضا مندی سے ہوں! سب سے پہلے صوبے بھر میں ان تمام لوگوں کے گھروں میں راشن پہنچانے کی منظوری ہوئی جو دیہاڑی دار تھے اور لاک ڈائون کی وجہ سے روزانہ کی مزدوری نہیں کر پا رہے تھے۔ اس کے بعد محکمۂ تعلیم کو ٹاپ کی ترجیح دی گئی۔ صوبے کے ہزاروں سکولوں کو جو چھتوں، فرنیچر اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم چلے آ رہے تھے‘ رقوم فراہم کی گئیں اور کھلے دل کے ساتھ فراہم کی گئیں۔ اساتذہ کی تنخواہیں دو گنا کر دی گئیں۔ صوبے بھر کی نہروں کی صفائی کا پروگرام منظور کیا گیا۔ پانچ سو نئے کارخانے لگانے کے لیے صنعت کاروں کو گرانٹ دی گئی۔ پانچ لاکھ کسانوں کو مفت ٹریکٹر، تھریشر، ٹیوب ویل اور کھاد اور بیج کی ایک ایک ہزار بوری مفت دینے کا منصوبہ فائنل کیا گیا۔ تحصیل کی سطح پر موٹر وے جال بچھانے کا پروجیکٹ طے کیا گیا۔ آئی جی پنجاب کی تجویز پر پولیس کی تنخواہیں تین گنا بڑھا دی گئیں۔ دس لاکھ، پانچ پانچ مرلے کے گھروں کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا۔ اور امریکہ جیسا ملک رشک کر رہا تھا تو بلا وجہ نہیں کر رہا تھا۔ ان سارے منصوبوں کے بعد بھی بھاری رقم بچ رہی تھی۔ 
اجلاس جاری تھا کہ وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کا پی اے اندر آیا اور پرنسپل سیکرٹری کے کان میں کچھ کہا۔ پرنسپل سیکرٹری فوراً اٹھے اور وزیر اعلیٰ کے کان میں سرگوشی کی! وزیر اعلیٰ نے اجلاس آدھ گھنٹے کیلئے ملتوی کیا۔ حاضرینِ اجلاس اٹھ کر باہر جا رہے تھے تو وزیر اعلیٰ نے پرنسپل سیکرٹری، وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ کو روک لیا۔ دروازہ کھلا تو سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے سیکرٹری خزانہ اندر آ رہے تھے۔ وزیراعلیٰ نے اٹھ کر سب سے ہاتھ ملائے۔ یہ ایک غیر متوقع اجلاس تھا‘ ایجنڈے پر نہ تھا مگر یہ صوبوں کے فنانس کے سربراہ تھے۔ اہم اور عالی مرتبت منصب دار۔ بات شروع ہوئی تو سندھ کے سیکرٹری خزانہ نے باقیوں کی بھی نمائندگی کی اور حرف مطلب ادا کیا۔ اس غیر معمولی خطیر رقم میں سے یہ بھائی، یہ صوبے، محبت اور تعلق کی بنیاد پر اپنا اپنا حصہ مانگ رہے تھے۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر وزیر اعلیٰ نے چاروں صوبوں کیلئے فیاضانہ گرانٹس منظور کیں۔ ان کے وزیر خزانہ نے بخوشی تائید کی! کچھ رقم خیر سگالی کے طور پر، صوبے کی طرف سے، وفاق کو بھی پیش کی گئی!
یہ رقم یہ گنجِ گراں مایہ، کہاں سے آیا تھا؟ رقم تھی کتنی؟ قارئین سے معذرت! یہ اطلاع کالم کے شروع ہی میں دے دینا چاہیے تھی مگر فرطِ مسرت نے اور کمالِ حیرت نے بدحواس کر رکھا تھا۔ تاریخ کا یہ انوکھا قابلِ رشک واقعہ تین اپریل بروز جمعۃ المبارک پیش آیا۔ لاہور چیمبر آف کامرس انڈ انڈسٹری کے دو معزز ممبران وزیر اعلیٰ پنجاب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ادارے کی جانب سے ایک کروڑ روپے کا چیک کورونا فنڈ کے لیے عطیہ کیا! پورے ایک کروڑ روپے کا!

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے کم از کم اس وقت پندرہ ہزار ارکان ہوں گے۔ یہ ایک انتہائی محتاط دقیانوسی اندازہ ہے کیونکہ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق تیرہ سال پہلے ممبران کی تعداد دس ہزار تھی۔ ان ممبران میں بڑے بڑے مال، کمرشل کارپوریشنیں، بلڈرز، گلاس انڈسٹری، عظیم الجثہ کاروبار، شاہ عالمی کے ہول سیلرز، غلّے کے آڑھتی، پراپرٹی ٹائیکون، کپڑے کے تاجر، دوا ساز، بجلی کی مارکیٹوں کے کرتا دھرتا، گاڑیوں، ٹرکوں اور بسوں کے ڈیلر اور دیگر سینکڑوں ہزاروں اقسام کے کاروبار کے مالکان شامل ہیں۔ ارکان یقینا پندرہ ہزار سے زیادہ ہوں گے مگر فرض کیجیے، پندرہ ہزار ہی ہیں تو ایک کروڑ روپے کورونا فنڈ میں دینے کا مطلب ہے چھ سو چھیاسٹھ روپے چھیاسٹھ پیسے فی ممبر!!

Thursday, April 02, 2020

The World is no more the Same



عبداللہ صاحب یاد آ رہے ہیں!
یہ ملازمت کے درمیانی عرصہ (مِڈکیریئر) کی بات ہے۔ اگلی ترقی کیلئے تربیتی کورس لازم تھا۔ ساڑھے چار ماہ کا یہ تربیتی کورس کراچی کرنا تھا یا لاہور یا پشاور! اسلام آباد سے پشاور نزدیک ترین تھا؛ چنانچہ پشاور کا انتخاب کیا۔ اس میں قدرت کی مصلحت تھی۔ تربیتی کورس بھی ہو گیا‘ ترقی بھی مل گئی‘ مگر کورس کا اصل حاصل عبداللہ صاحب سے ملاقات تھی۔ وہ ان اکابر میں سے ہیں جن سے راہ و رسم زندگی کی راہیں تبدیل کر دیتی ہے؎
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
وہ ان رجالِ خیر سے ہیں جن سے مل کر زندگی گزارنا نہیں زندگی بسر کرنا آ جاتا ہے۔ ڈی ایم جی کے افسر رہے۔ ڈی ایم جی کے افسر تو بہت ہیں‘ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے، مگر عبداللہ صاحب، سول سروس کے اس گروپ کیلئے خود باعثِ اعزاز تھے۔ ملازمت اپنے ڈھب سے کی۔ بے خوف اور بے نیاز ہو کر! فارسی شعروادب پر مکمل دسترس! انگریزی زبان کے غضب کے مقرّر! ہمارے تربیتی کورس کے دوران محمدعلی کلے نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ہمارے ادارے میں بھی آئے۔ عبداللہ صاحب نے تقریر کی۔ ایسی کہ سننے والوں کو یاد ہی نہ رہا کس دنیا میں، کس زمانے میں بیٹھے ہیں! الفاظ گویا کسی نامعلوم سمت سے آ رہے تھے اور کانوں کے راستے سے نہیں، براہ راست دل میں اتر رہے تھے۔ محمدعلی کلے کا تقریر پر تبصرہ یہ تھا کہ کسی نان انگلش سپیکنگ شخص کی زبان سے اس نے ایسی تقریر آج تک نہیں سنی۔ اس تقریر کی وڈیوکیسٹ رکھی ہوئی تھی۔ پھر وی سی آرکا زمانہ لدگیا۔ نہیں معلوم اب اسے نئے میڈیم پر کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے!
تربیتی کورس کرانے کا ان کا اپنا انداز تھا۔ پشاور کے معروف عالم دین قاری روح اللہ صاحب کو درسِ قرآن پر مامور کیا۔ ایبٹ آباد سے چلاسی بابا کو بلایا جنہوں نے ان گردن بلند افسروں سے اپنے مخصوص انداز میں خطاب کیا۔ یہ کالم نگار بعد میں بھی چلاسی بابا کے ہاں حاضری دیتا رہا۔ اچھے زمانے تھے۔ مڈ کیریئر کورس میں بھی دوملکوں کا بیرونی دورہ شامل تھا۔ ہم ترکی اور اردن گئے۔ وقت کی قلت کے باوجود عبداللہ صاحب نے اسی ٹکٹ میں عمرے کا بندوبست کرایا۔ یہ اس کالم نگار کی پہلی حاضری تھی۔ چار غزلوں کی سیریز ''حرم سے واپسی پر‘‘ اسی عمرے کی دَین ہے!؎
میں تھا قلّاش یا زردار جو بھی تھا وہیں تھا
کہ میرا اندک و بسیار جو بھی تھا وہیں تھا
وہیں تھا ایک پتھر جس پہ تفصیلِ سفر تھی
یہ رستہ سہل یا دشوار جو بھی تھا وہیں تھا
وہیں میزان تھی، اوزان لکھے جا رہے تھے
اثاثہ کاہ یا کہسار جو بھی تھا وہیں تھا
وہیں مٹی مری اظہارؔ گوندھی جا رہی تھی
ازل کا اولیں دربار جو بھی تھا وہیں تھا
ترکی میں دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ پاکستانی سفیر کے ہاں مدعو تھے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں ایسی بات کہہ دی جس سے کمال اتاترک کی قائداعظمؒ پر برتری کا پہلو نکلتا تھا۔ عبداللہ صاحب کہاں درگزر کرنے والے تھے۔ بحث چھڑی اور ایسی کہ عبداللہ صاحب نے دلائل کے انبار لگا دیئے۔ انداز ان کا تربیت دینے کا خطرناک تھا۔ بیرون ملک مختلف اداروں کے ہاں اجلاس ہوتے تھے۔ زیر تربیت افسر کو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کب اسے دعوتِ مبارزت دی جائے گی! جس دن استانبول چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ساتھ میٹنگ تھی، اچانک عبداللہ صاحب نے اٹھ کر کہا:
‏Mr. Izhar has been midwifing many commercial organization. He will wind up the meeting.
تقریر کیا کرنا تھی۔ ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر بات کی اور قصّہ وسط ایشیا سے شروع کیا۔ اس وقت سوویت یونین کے خاتمے کا کوئی سین نہیں تھا۔ تقریر کے بعد خالد عزیز نے‘ جو پشاور کے کمشنر تھے، خراجِ تحسین یہ کہہ کر پیش کیا کہ ہم سے افغانستان کے مہاجر نہیں سنبھالے جا رہے۔ اظہار! تم وسط ایشیا سے بھی مہاجر منگوانے کے چکر میں ہو! 
عبداللہ صاحب مذہبی امور کے وفاقی سیکرٹری رہے۔ پھر کے پی صوبے کے چیف سیکرٹری! اور اگر میں بھول نہیں رہا تو صوبائی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین بھی! مگر یہ سب کچھ جملۂ معترضہ تھا۔ اصل بات جو بتانا ہے وہ فقرہ ہے جو عبداللہ صاحب نے اپنے والد گرامی کی وفات کی خبر سن کر کہا۔
بتاتے ہیں کہ جدہ میں تعینات تھے۔ والد کی رحلت کا تار پہنچا۔ درماندگی کی کیفیت میں دھڑام سے بیٹھ گئے۔ غیر ارادی طور پر منّہ سے نکلا:
‏The World Is No More The Same .
کہ دنیا اب کبھی ویسی نہ ہو گی جیسی تھی!
ہر شخص پر انفرادی طور سے یہ وقت آتا ہے۔ کوئی ایسا واقعہ، ایسا حادثہ، ایسا سانحہ پیش آتا ہے کہ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ زندگی ایک موڑ مڑتی ہے اور منظرنامہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ بیٹی اپنے گھر کی ہوئی تو کچھ دن بعد ہم میاں بیوی، بیٹھے آنسو بہا رہے تھے۔ اہلیہ نے ایک فقرہ کہا ''اب وہ دن کبھی نہیں لوٹیں گے‘‘ دل میں پیوست ہو گیا۔ کسی کی ماں، کسی کا باپ، کسی کا لخت جگر چلا جائے، کوئی ٹانگ یا بازو سے محروم ہو جائے۔ کوئی صبح اٹھے اور اس کا ملک، ایک اور ملک بنا بیٹھا ہو، کوئی جلا وطن ہو جائے، ان سب صورتوں میں دنیا پہلے جیسی نہیں رہتی مگر صرف اس ایک شخص کے لیے! یہ سب انفرادی سانحے ہیں۔ پہلی بار یہ ہوا ہے کہ کرۂ ارض کے ایک ایک فرد کے لیے دنیا پہلے جیسی نہیں رہی! عالمی جنگیں آئیں تو بہت سے ملک متاثر ہوئے مگر سارے نہیں! نائن الیون کے بعد یہ فقرہ بہت کہا گیا کہ دنیا پہلے جیسی نہیں رہی مگر کورونا نے نائن الیون کو جیسے صدیوں پیچھے چھوڑ دیا۔ نائن الیون کے بعد افغانستان، پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے کچھ بدقسمت ملک نشانہ بنے۔ دہشت گردی کے واقعات کثیرتعداد میں رونما ہوئے مگر بہت سے ملک بالکل متاثرنہ ہوئے جیسے جنوبی امریکہ کے ممالک، جیسے مشرق بعید کے اکثر علاقے! ایئرپورٹوں پر سب کچھ بدل گیا۔ جوتے، کپڑے اتروانے کا رواج پڑا مگر دنیا کی کل آبادی کا کتنا حصّہ ہوائی سفر کرتا ہے؟ اعدادوشمار پانچ فیصدسے لے کر بیس فیصد تک ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں! کچھ اندازے پچاس فیصد تک پہنچتے ہیں مگر یہ سراسر مغالطہ ہے کیونکہ کچھ افراد باربار ہوائی سفر کرتے ہیں۔ ایک ہفتے یا ایک مہینے میں کئی باراور اکثر ساری زندگی ایک بار بھی نہیں کرتے! یوں نائن الیون کے حوالے سے یہ کہنا کہ دنیا پہلے جیسی نہیں رہی، مبالغہ کے سوا کچھ نہیں! 
دنیا عملی طورپر لاک ڈائون ہے! کسی کوخبر ہے نہ اندازہ کہ یہ صورتحال کب تک رہتی ہے۔ چھ ماہ! ایک برس! دو برس! یا اس سے بھی زیادہ! ویکسین کب بنتی ہے؟ بن گئی تو کتنوں تک پہنچے گی؟ کتنے ملک اور کتنے لوگ اسے حاصل کرنے کی استطاعت رکھیں گے؟ کتنی مقدار میں بنے گی؟ ہر متاثرہ فرد تک پہنچ بھی پائے گی یا نہیں؟ 
حکومتوں کی ترجیحات یکسر بدل گئی ہیں۔ اب گاڑیوں، جہازوں، اسلحہ، ملبوسات اور مشینری کی باتیں نہیں ہو رہیں، اب یہ طے کیا جارہا ہے کہ وینٹی لیٹر کتنے بنانے ہیں؟ کتنے درآمد کرنے ہیں؟ ماسک کیسے پورے پڑیں؟ گھروں میں بیٹھے ہوئوں کو ضروریات زندگی کیسے فراہم کی جائیں؟ قرنطینوں کی بڑھتی ہوئی طلب سے کیسے نمٹا جائے؟ پاکستان جیسے ملکوں میں حکومتوں کو صرف کورونا سے نہیں، ایسے لوگوں سے بھی سابقہ پڑتا ہے جو الٰہیات کی من مانی تعبیر کرکے مشکلات پیدا کرتے اور خطرات بڑھانے کا باعث بنتے ہیں!
کلاس روموں میں حاضری خواب و خیال ہوگئی ہے۔ کچھ طلبہ وطالبات آن لائن پڑھائی پر منتقل ہو چکے ہیں۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ باقی کیلئے بھی صورتیں نکل آئیں گی! گھر میں بیٹھ کر کمپنی کیلئے کام کرنے کا کلچر پہلے سے محدود تعداد میں موجود ہے۔ گوگل جیسے عظیم الجثہ اداروں کے ملازمین کو یہ سہولت ابتدا ہی سے حاصل تھی۔ اب یہ طریقہ عام کرنا پڑے گا۔ یہ ابتلا اگر چھ ماہ یا سال یا دو سال رہتی ہے تو کاروبارِ دنیا ٹھپ نہیں ہو سکتا۔ نئے طریقے دریافت ہوں گے۔ اس لیے کہ زندگی پانی کی مثال ہے۔ جیسا راستہ ہو، ویسا جسم بنا لیتی ہے۔ میدان میں دریا پھیل جاتا ہے۔ پہاڑی راستہ ہو تو اپنے آپ کو تنگ گزر گاہوں کے مطابق ڈھال لیتا ہے؎
بدلتے جا رہے تھے جسم اپنی ہیئتیں بھی
کہ رستہ تنگ تھا اور یوں کہ اس میں خم بہت تھا
دنیا پہلے جیسی نہیں رہی! پہلے شہروں کے محاصرے ہوتے تھے۔ آج پوری دنیا محصور ہے! وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنo ابھی تو وہ کچھ ہو گا جس کا تصوّر ہی محال ہے!
 

powered by worldwanders.com