Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, November 29, 2022

ایک یونیورسٹی کا قتل


مبارک ہو۔ یہ فتح یابی بھی اپنے ہی ملک کے حصے میں آنی تھی! بقول فراق گورکھپوری ؎
ہر ایک سے کہاں بارِ نشاط اُٹھتا تھا
بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی
تاریخ میں پہلے ایسا ہوا نہ کبھی دوبارہ ہو گا۔ ایک جیتی جاگتی‘ زندہ‘ گوشت پوست سے بنی ہوئی ‘ بین الاقوامی رینکنگ رکھنے والی‘ یونیورسٹی کو زمین پر لٹایا جارہا ہے۔ پھر اس کے گلے پر تیز دھار خنجر رکھ کر‘ اس کے سینے پر سے ایک چھ لین شاہراہ گزاری جارہی ہے۔ یونیورسٹی کا جسم کٹ کر دو حصوں میں بٹ جا ئے گا۔ ایک حصہ شاہراہ کے ایک طرف‘ دوسرا حصہ شاہراہ کے دوسری طرف!
سچ پوچھیں تو اس ملک کو یونیورسٹیوں کی ضرورت ہی نہیں ہے! بے شمار سکولوں کالجوں کی عمارتیں پہلے ہی وڈیروں کے مویشی خانوں اور گندم اور بھوسے کے گوداموں کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں! جو سرکاری سکول کام کر رہے ہیں ان کی حالت اُن بیواؤں جیسی ہے جن کے گھروں میں شام کو چراغ نہیں جلتے۔ ان سکولوں کی دیواریں ہیں تو چھت نہیں ہے۔ فرنیچر خال خال ہے۔ بچے اپنے گھروں سے سیمنٹ کی خالی بوریاں لاتے ہیں اور ان پر بیٹھتے ہیں۔ ماسٹرصاحبان ساتھ ساتھ‘ دن کے وقت ہی‘ اپنی دکانیں چلاتے ہیں اور کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ رہیں سرکاری یونیورسٹیاں تو ان کے وجود کا بھی کیا جواز ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ان کی عمارتیں منہدم کر دی جائیں۔ کچھ زمین ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے حوالے کر دی جائے جو ان یونیورسٹیوں میں دادا گیری کا کام کرتی ہیں‘ اور عملاًپہلے ہی قابض ہیں۔اساتذہ کو ڈراتی ہیں۔ نئے طلبہ و طالبات کو اپنے دامِ تزویر میں جکڑتی ہیں اور '' ضرورت ‘‘ پڑے تو وائس چانسلروں کے دفتروں پر قبضہ بھی کر لیتی ہیں۔ باقی زمین پراپرٹی ڈیلروں‘ قبضہ مافیا کے ممبروں اور دکانداروں میں بانٹ دی جائے۔ بانس رہے نہ بانسری! اس ملک کو یونیورسٹیوں اور لائبریریوں کی ضرورت نہیں! صرف محلات اور بڑی گاڑیوں کی ضرورت ہے! ٹھیکیداروں کی ضرورت ہے!جہاں دس پاس‘ یا فیل‘ ٹائیکون بن سکتے ہیں اور حکومتوں کی تشکیل میں کردار ادا کر سکتے ہیں ‘ وہاں یونیورسٹیوں کا رُخ کرنے والوں کی دماغی صحت پر شک ہی کیا جا سکتا ہے!
یہ جو بارہ کہو کے بے ترتیب ‘ غدر نما علاقے پر اوور ہیڈ برج نہیں بنایا جا رہا اور اس کے بجائے وفاقی دارالحکومت کی قدیم ترین یونیورسٹی کے سینے میں خنجر بھونکا جا رہا ہے تو اس کا ایک پس منظر ہے۔ ایسا پس منظر جس سے سر جھک جائیں! جس سے ثابت ہو جائے کہ ہم بطور قوم نااہل ہیں۔ہماری دُور کی نظر نہ ہونے کے برابر ہے اور ایک ملک تو کیا ‘ ہم ایک شہر کا انتظام کرنے کے قابل بھی نہیں! معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے آپ اسلام آباد کو تین حصوں میں تقسیم کر لیجیے۔ مغربی کنارا۔ درمیانی حصہ اور مشرقی کنارا! مغربی کنارے کا نام ترنول ہے۔ یہ مقام غیر قانونی آبادیوں کا گڑھ ہے۔ کوئی ترتیب ہے نہ نظم و ضبط! کسی کی اجازت کی ضرورت ہے نہ کوئی نقشہ ہی پاس کرانا ہے۔ یہ غیر ملکیوں کی جنت ہے۔ بھگوڑے یہاں آسانی سے چھپ سکتے ہیں۔اسلحہ اس علاقے میں بے شمار ہے۔یہ سب کچھ حکام کی ناک تلے ہوا۔ نام نہاد ترقیاتی ادارہ اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اس مجرمانہ غفلت‘ یا نا اہلی ‘ کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔
اسلام آباد کے عین وسط میں ایک سیکٹر ہے جسے '' جی۔بارہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ یہ سیکٹر جو شہر کے دل میں واقع ہے‘ اسلام آباد میں شامل ہی نہیں! آپ وہاں زمین نہیں خرید سکتے۔ گھر نہیں بنا سکتے۔ ہاں ! اگر آپ سرحد پار سے آئے ہیں‘ اگر کسی مافیا سے تعلق رکھتے ہیں‘ اگر کسی جرائم پیشہ سرگرمی میں ملوث ہیں تو اس سیکٹر میں جو جی چاہے کیجیے۔ اس میں ساری تعمیرات غیر قانونی ہیں۔ بجلی کی بہم رسانی غیر قانونی ہے۔ یہ خطرناک ترین جرائم کا مرکز ہے۔ اسے کیوں ترقیاتی ادارے کے تحت نہ کیا گیا؟ یہاں پلاٹ کیوں نہ بنائے گئے؟ یہاں جنگل کا قانون کیوں ہے؟ اس میں رہنے والے لوگوں کے رویے کی کیا ضمانت ہے؟ یہ دارالحکومت کے اندر ہو کر بھی باہر کیوں ہے؟ ان سوالوں کے جواب آپ کو کوئی نہیں دے گا؟ ایسی ہوشربا لاقانونیت کی مثال کم از کم کرۂ ارض کے کسی مہذب خطے میں ملنی نا ممکن ہے۔ بہت سے لوگ اس سیکٹر کو سہراب گوٹھ کہتے ہیں۔ کیوں کہتے ہیں ؟ وجہ ظاہر ہے!
شہر کا مشرقی کنارہ بارہ کہو ہے۔ یہ گنجان ترین آبادی ہے اور مادر پدر آزاد ہے۔ حکام کی نااہلی کا یہ بدترین نمونہ ہے۔ کوئی قانون‘ رُول‘ قاعدہ‘ ضابطہ یہاں موجود نہیں۔ جہاں بھی زمین ملے‘ لے لیجیے۔ جو بنانا چاہیں‘ بنا لیجیے۔ کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔ کوئی ٹیکس نہیں۔ گیس کے ان گنت کنکشن غیر قانونی ہیں! اس بات پر غور کیجیے کہ مکانوں اور دکانوں کا یہ بدترین جمگھٹ وزیر اعظم کے دفتر سے صرف دس یا بارہ منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ سب سے زیادہ خطر ناک پہلو یہاں لاکھوں غیر ملکیوں کا مستقل قیام ہے۔ اس علاقے میں عدلیہ کا متوازی سسٹم‘ جو یہ غیر ملکی اپنے ساتھ لائے ہیں‘ باقاعدہ چل رہا ہے۔ مگر یہ سارا معاملہ مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مری روڈ کا جو حصہ بارہ کہو سے گزرتا ہے‘ اس کے دونوں طرف دکانیں کسی ترتیب یا تنظیم کے بغیر ڈالی گئیں اور یہ سب ‘ ترقیاتی ادارے اور ضلعی انتظامیہ کے سامنے ہوتا رہا۔ قبضہ گروپ اور پراپرٹی ڈیلروں نے حشر برپا کر دیا۔ مری روڈ کی دونوں اطراف کے بیشتر حصے ہولناک تجاوزات کا شکار ہیں۔ کوئی چیف کمشنر اسلام آباد سے پوچھے کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہوتا رہا؟ انتظامیہ کو کئی سال پہلے یہاں سروس روڈز بنا کر مری روڈ کو بچا لینا چاہیے تھا۔ اب یہاں سے عام دنوں میں بھی گزرنا مشکل ہے اور عید اور دیگر تعطیلات میں تو ناممکن ہے۔ٹھیلوں کا ایک جہان ہے جو اپنی مرضی سے آباد ہے۔ دکانوں کے آگے دکانیں ہیں۔ دکانوں کے اندر دکانیں ہیں اور دکانوں کے پیچھے دکانیں ہیں۔ دکانداروں اور پراپرٹی ڈیلروں کا یہ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ اب اوور ہیڈ پُل نہیں بنانے دے رہا۔ حکام اس مافیا کے سامنے تو بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں مگر یونیورسٹی پر ان کا خوب زور چلتا ہے۔
چیف کمشنر کا ادارہ اور ترقیاتی ادارہ دونوں اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ حل صرف اور صرف یہ ہے کہ
1۔ بارہ کہو سے غیر ملکیوں کو نکالا جائے‘ اس سے پہلے کہ یہ سہراب گوٹھ کی شکل اختیار کر لے۔
2۔ غیر قانونی تعمیرات ‘ بالخصوص دکانیں‘ منہدم کی جائیں۔
3۔فوری طور پر سروس روڈز بنا کر مری روڈ کو الگ کر دیا جائے
4۔تجاوزات کی اندھیر نگری پر قابو پایا جائے۔
5۔سب سے بڑھ کر یہ کہ متعلقہ ادارے‘ یونیورسٹی کے قتل سے باز آئیں اور آئندہ نسلوں کی پھٹکار اور لعن طعن کا کچھ خوف کریں۔ پچاس پچپن سال سے جو یونیورسٹی قائم ہے اور کئی نسلیں جس سے فارغ التحصیل ہو چکی ہیں ‘ اس یونیورسٹی کے ساتھ وہ سلوک نہ کیا جائے جو وڈیرے‘ سردار اور جاگیردار سکولوں اور کالجوں سے کر رہے ہیں۔ کسی‘ ترقی یافتہ ملک میں اس قسم کے غیر مہذب اقدام کا سوچا تک نہیں جا سکتا۔
6۔ بارہ کہو اوور ہیڈ برج کا اصل منصوبہ بروئے کار لایا جائے۔منطق یہی کہتی ہے اور انصاف بھی یہی ہے۔

Monday, November 28, 2022

زندگی کی پیمائش ! کافی کے چمچوں سے


یہ اطلاع میری بھتیجی فاطمہ گیلانی نے دی۔ پروفیسر معظم منہاس وہاں چلے گئے جہاں سب جاتے ہیں مگر وہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔�انسان اوپر سے سب ایک سے لگتے ہیں۔ سب کا ایک سر‘ دو آنکھیں اور دو کان! مگر اندر جہانوں اور زمانوں کا فرق ہوتا ہے۔ وحشی تاتاری کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کا قیدی کون ہے ؟ وہ اسے سینکڑوں ہزاروں دوسرے عام قیدیوں کی طرح سمجھ رہا تھا کیونکہ اوپر سے اس کا قیدی دوسرے قیدیوں ہی کی طرح تھا۔جب ایک خریدار نے چاندی کے ہزار سکے اس قیدی کے عوض پیش کیے تو قیدی نے تاتاری سے کہا: اس قیمت پر مجھے نہ بیچناکہ میری قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پھر کسی نے بھوسے کے گٹھے کی پیشکش کی تو قیدی نے کہا: قبول کر لو کہ یہی میری قیمت ہے۔ اس وحشی تاتاری کو کیا معلوم تھا کہ یہ قیدی تو عطار ہے۔ عالموں کا عالم اور صوفیوں کا صوفی ! فقیروں کا فقیر اور داناؤں کا دانا! اس نے بھنّا کر اسے قتل کر دیا! پروفیسر معظم منہاس بھی دیکھنے میں عام آدمیوں کی طرح لگتے تھے۔ طویل قامت! بھاری جسم! کھلی پیشانی ! اس خطۂ زمین میں ایسے لاکھوں افراد پائے جاتے ہیں مگر ان میں پروفیسر معظم منہاس جیسا کوئی نہیں! پروفیسر صاحب کی موت کسی عام آدمی کی موت نہیں! یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں! رومی نے کہا تھا کہ خواجہ سنائی کی موت کوئی چھوٹی بات نہیں! وہ کوئی تنکا تھوڑی تھا جسے ہوا اُڑا لے جاتی۔ وہ دانہ بھی نہیں تھا جسے زمین دبا لیتی۔ وہ کوئی کنگھی نہیں تھی جو بالوں سے ٹوٹ جاتی! وہ پانی نہیں تھا جسے سردی منجمد کر دیتی۔ وہ تو مٹی کے اس گھروندے میں زر کا ذخیرہ تھا۔ وہ تو ان دنیاؤں کو جَو کے ایک دانے کے برابر سمجھتا تھا۔ اس نے خاکی جسد کو خاک پر ڈالا اور خود آسمانوں کی طرف پرواز کر گیا !�وفاقی دارالحکومت میں ایک سے ایک محل ایسا ہے کہ رباط اور جدہ میں ایسے محل کیا ہوں گے ! اسی بھرے بھرائے مگر اُتھلے شہر کے‘ اسی روشنیوں سے جگمگاتے مگر اندر سے تاریک شہر کے‘ ایک بارہ مرلے کے اوسط درجے کے گھر میں پروفیسر صاحب رہتے تھے۔ اس گھر کے لان میں جامن کا ایک درخت تھا۔ ان سطور کے لکھنے والے نے جامن کبھی رغبت اور اشتیاق سے نہیں کھائے۔ مگر پروفیسر صاحب کے لان کا یہ درخت جامن گراتا تو ایک ایک جامن ہیرے اور موتی کی طرح لگتا اور میں دلبستگی اور آرزومندی کے ساتھ کھاتا کہ کیا خبر اُس علم کے دریا کا کوئی ایک آدھ قطرہ میرے حصے میں بھی آجاتا جو پروفیسر صاحب کے سینے کے اندر موجزن تھا! انگریزی ادب اور لغت کے وہ بہت بڑے عالم تھے۔ بائیس برس شرق اوسط میں انگریزی لغت اور ادب کی تعلیم دی۔ شہزادے اور بادشاہ ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے۔ انہیں جھُک کر ملتے۔خود پروفیسر صاحب نے اس عرصہ میں عربی سیکھی۔امتحان پاس کیے۔مقامی لہجے( Colloquial)کے گویا ماہر ہو گئے۔میری ان سے جب ملاقات ہوئی وہ شرق اوسط سے واپس آچکے تھے۔ اُن سے یارِ مہرباں سید فاروق گیلانی نے ملاقات کرائی۔ یہ دونوں اصحاب اسلام آباد کلب میں بیٹھتے تھے۔ بیٹھتے کیا تھے۔ مجلس آرائی کرتے تھے۔ یہ چراغ تھے۔ان سے علم کی ادب کی‘ فصاحت کی‘ شاعری کی‘ منطق کی‘رموز و اسرار کی‘ شعاعیں پھوٹتی تھیں۔ دونوں فیاض تھے اور انتہا درجے کے مہمان نواز! میں بھی اس مجلس کے خوشہ چینوں میں تھا۔ بس چلتا تو پروفیسر صاحب سے سبقاً سبقاً‘ شیکسپئیر‘ ٹی ایس ایلیٹ اور ایزرا پاؤنڈ پڑھتا۔ جدید اور قدیم انگریزی ادب ان کے سامنے دست بستہ کھڑا تھا۔ انگریزی کی کلاسیکی شاعری ان کی کنیز تھی! کوئی ایک مجلس بھی ان کے ساتھ ایسی نہ تھی جس میں کچھ سیکھا نہ ہو۔ ان کا انگریزی کالم ایک پہاڑی جھرنے کی طرح ہوتا جس سے لفظ اور جْملے آہستگی کے ساتھ نکلتے مگر دور‘بہت دور‘ تک جاتے۔ کیا سحر طاری کر دیتی ان کی انگریزی انشا پردازی! نصر اللہ خان عزیز نے ابو الکلام آزاد کی خطابت کی تصویر کچھ اس طرح کھینچی تھی '' یوں لگتا تھا جیسے قمقموں سے روشنی نکل نکل کر خلقت کے سر پر چادر کی طرح تانی جا رہی ہو‘‘ پر و فیسر صاحب انگریزی بولتے یا لکھتے تو لگتا روشنی ستاروں سے چھن چھن کر ہم پر برس رہی ہے۔ پھر جانے کیا سوجھی۔ اڑسٹھ سال کی عمر میں قانون کا امتحان پاس کیا اور وکالت کرنے لگے۔ خمیر لٹریچر سے بنا تھا۔ قانون کو بھی اسی رفعت پر لے گئے۔ بولتے تو عدالتیں ہمہ تن گوش ہو جاتیں کہ قانون اور ادبِ عالیہ یکجا ہو رہے ہوتے۔ جج حضرات ان کی انگریزی سے مسحور ہو جاتے۔ حیران ہو جاتے! انہیں کیا معلوم کہ علم اور فصاحت کا یہ بحر بیکراں معاوضے کے لیے وکالت نہیں کر رہا بلکہ اپنی اُس رگ کی تسکین کر رہا ہے جو علم کی جویا ہے اور جوایک سے ایک نئی منزل کی تلاش میں ہے۔�پھر اس منڈلی کو نظر لگ گئی۔ فاروق گیلانی نے ڈھلتے ہوئے سال کے ایک بے فیض دن‘ چرم کے موزے پہنے۔چادر کندھے پر ڈالی۔ پٹکا کمر سے باندھا۔ عصا ہاتھ میں لیا۔ گھوڑے پر بیٹھے۔ مہمیز لگائی اور نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئے۔ میں ملک سے باہر ہوا ماپ رہا تھا اور گرد چھان رہا تھا۔ پروفیسر صاحب کو فون کیا تو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ ہماری تکون ٹوٹ گئی تھی! مثلّث کا وَتر چلا گیا تھا۔ میں نے مرثیہ کہا تو ہر شعر پر تڑپ تڑپ اٹھے۔ صادق نسیم کا یہ شعر انہیں سنایا تو گویا اسے حرزِ جاں ہی بنا لیا�

وہ میرا شعلہ جبیں‘ موجۂ ہوا کی طرح

دیے بجھا بھی گیا اور دیے جلا بھی گیا


پروفیسر صاحب کلب میں آتے رہے۔ فرینچ فرائز اور اچھی چائے ! بس انہی دو اشیا کے رسیا تھے۔ کوشش کرتا کہ کسی مجلس سے غیر حاضر نہ رہوں کہ غیر حاضری طالبِ علم کے لیے گھاٹے کا سودا تھی۔میرے اور فاروق گیلانی کے بچوں کو کوئی کامیابی ملتی تو خوشی منانے کے لیے دعوتیں کرتے۔ عام گفتگو میں بھی مزاح کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ عرض کیا کہ خود نوشت تحریر فرمائیں۔ کہنے لگے ''بادشاہ ہیں آپ ! ادھر گھُٹنے کام نہیں کر رہے‘ آپ کہتے ہیں خود نوشت لکھوں!!‘‘ مرضیہ بیٹی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا: انکل خود نوشت کو چھوڑیں‘ بس زندگی سے لطف اٹھائیں‘‘۔بہت خوش ہوئے کہ یہی کچھ وہ چاہتے تھے۔ فاطمہ بیٹی کا نام انہوں نے 
unguided missile
رکھا ہوا تھا۔ سب سے زیادہ خیال اُن کا اُسی نے رکھا۔ آہستہ آہستہ گھر تک محدود ہو کر رہ گئے۔یہ اور بات کہ لکھنے پڑھنے کا کام کم نہ ہوا۔ مطالعہ گھُٹی میں پڑا ہوا تھا۔ کالم پڑھ کر فون کرتے اور حوصلہ افزائی فرماتے! صاف معلوم ہو رہا تھا کہ چراغ بھڑک کر بجھنے کو ہے۔ ایک روشن ستارہ ٹوٹنے کو ہے! تقویم کا ایک صفحہ الٹنے کو ہے۔ تند و تیز ہوا ایک بلند ٹیلے کی ریت کو آہستہ آہستہ اُڑا لے جا رہی تھی۔ ہم ٹیلے کو کَم ہوتے‘ گھَٹتے‘ دیکھ رہے تھے مگر بے بس تھے۔ آخری فتح قدرت کی ہوتی ہے یا شاید موت کی ! پروفیسر صاحب‘ ٹی ایس ایلیٹ کا یہ لافانی مصرع اکثر پڑھا کرتے:
 I have measured out my life with coffee spoons
کہ میں نے اپنی زندگی کو کافی کے چمچوں سے ماپا ہے۔ ہمیں جب کافی کے چمچوں سے زندگی کو ماپنا سکھا چکے تو خود چلے گئے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, November 24, 2022

کسی ایک شعبے میں تو ہم آگے ہوتے


افغانستان اور انگریزی ہندوستان کی باہمی کشمکش ایک طویل کہانی ہے جو تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا سبب جنوب کی طرف روسی پیش قدمی تھی۔ اسے ہی گریٹ گیم کہتے ہیں۔ کچھ تو روسی عزائم بھی تھے اور کچھ انگریزی ذہن کی مبالغہ آرائی بھی! انگریزوں اور روسیوں کے درمیان جو پِس رہا تھا وہ افغانستان تھا۔انگریزی ہند اور افغانستان کے درمیان تین جنگیں ہوئیں۔ پہلی جنگ 1839ء میں ہوئی۔ یہی سال رنجیت سنگھ کی وفات کا بھی ہے۔اس جنگ میں انگریزی فوج کو عبرتناک شکست ہوئی۔دوسری اینگلو افغان جنگ 1875ء میں اور تیسری1919ء میں ہوئی۔
لیکن ایک اور لڑائی بھی ہوئی جس کا ذکر کم ہی کیا جاتا ہے۔ یہ لڑائی انگریزی فوج کے سکھ سپاہیوں اور افغان قبائلیوں کے درمیان ہوئی۔ تاریخ کی یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ سکھ بہادر ہونے کے باوجود اکثر و بیشتر دوسروں کے ہاتھ میں کھلونا بنتے رہے۔ انگریزوں نے انہیں اپنا وفادار بنا کر ان کے خون اور ہڈیوں سے اپنی سلطنت کو مضبوط کیا۔ پھر تقسیم کے وقت سکھ ہندؤوں کے ہاتھ میں کھیلے جس کا تاوان وہ آج تک ادا کر رہے ہیں۔
یہ ستمبر1892ء کی بات ہے۔ انگیزوں نے قبائلیوں کو قابو کرنے کے لیے کوہاٹ کے علاقے میں کچھ نئے قلعے بنائے اور کچھ پرانے قلعوں کو مستحکم کیا۔ ان قلعوں کے درمیان‘ ایک چوکی سرگڑھی کے مقام پر تھی۔ اس چوکی پر اکیس سکھ فوجی تعینات تھے۔ ان کی کمانڈ حوالدار اِشر سنگھ کے ہاتھ میں تھی۔قبائلی لشکر نے‘ جس کی تعداد دس ہزار یا اس سے زیادہ تھی‘ اس چوکی پر حملہ کیا۔اس لڑائی کو تاریخ میں سرگڑھی کی لڑائی کہتے ہیں۔ قریبی قلعوں سے اس چوکی کی مدد کو کوئی نہ پہنچا؛ اگرچہ انگریز افسروں کو معلوم تھا کہ صرف اکیس سکھ فوجیوں کو تعینات کرنا انہیں مارنے کے مترادف ہو گا۔ یہ درست ہے کہ عین لڑائی کے وقت کمک پہنچانا ممکن نہ تھا مگر بنیادی طور پر اتنی کم نفری کی تعیناتی اس پُر شور علاقے میں حماقت تھی یا بدنیتی۔ اس تحریر میں اس لڑائی کی تفصیل بیان کرنا مقصود نہیں۔مختصر یہ کہ یہ اکیس سکھ فوجی قبائلی لشکرِ جرار کے سامنے ڈٹ گئے۔ صبح نو بجے سے شام چار بجے تک لڑائی جاری رہی۔ جب قبائلی چوکی کی دیوار توڑ کر اندر داخل ہوئے تو ایک دہشت ناک دست بدست لڑائی ہوئی۔اکیس کے اکیس سکھ فوجی کام آئے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والے قبائلیوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ یہاں یہ بتانا بر محل ہو گا کہ1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد ہندوستانی فوجیوں کو جو اسلحہ دیا جاتا تھا وہ اس معیار کا نہیں ہوتا تھا جس معیار کا انگریز فوجیوں کو دیا جا تھا۔سر گڑھی کی یہ لڑائی سکھ تاریخ میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ بھارتی فوج کی سکھ رجمنٹ اس دن کو باقاعدہ یادگار کے طور پر مناتی ہے۔
بھارت نے اس واقعہ پر متعدد ڈاکومنٹریاں‘ ٹی وی سیریزاور فلمیں بنائیں جن میں سے ایک مشہور فلم‘ پچھلے دنوںمجھے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ فلم اس قدر بلند معیار کی ہے اور اس قدر پُرتاثیر اور دلچسپ ہے کہ فلم بنانے والوں نے حوالدار اِشر سنگھ اور اُس کے بیس سپاہیوں کو امر کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے کسی ہیرو پر ایسی کامیاب فلم بنائی ہے؟ کیا کیپٹن کرنل شیر خان‘ پائلٹ آفیسر راشد منہاس‘ میجر طفیل‘سوار محمد حسین اور دوسرے نامور شہیدوں میں سے کوئی اس قابل نہیں کہ اُس پر فلم بنائی جاتی ؟ چونڈہ کا معرکہ‘ جنگوں کی عالمی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ چاون اُس وقت بھارت کا وزیر دفاع تھا۔شورش کاشمیری نے کہا تھا ؎
ٹینکوں کے ہلہلے میں چونڈہ کا معرکہ
چاون کے حق میں تیغ جگر وار ہو گیا
ہم اس معرکے پر بھی کوئی فلم نہ بنا سکے۔ افواج کے محکمہ اطلاعات نے کچھ ڈرامے پروڈیوس کیے مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری نے اب تک اس سلسلے میں کیا کیا ہے ؟ سیاسی پہلوؤں‘اور متنازع روایات سے قطع نظر‘ اس میں کیا شک ہے کہ ہمارے جوانوں اور افسروں نے کارگل اور سیاچین پر سختیاں جھیلی ہیں۔ لاشیں وہاں سے آئی ہیں۔ فراسٹ بائٹ (یخ زدگی) سے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں جھڑی ہیں۔ آکسیجن کی شدید کمی سے کئی جانیں گئی ہیں۔ ہم اس موضوع پر بھی کوئی فلم نہ بنا سکے!
جن دنوں ہمارے ہاں کمال کے ڈرامے بن رہے تھے‘ ہم ان ڈراموں کی مارکیٹنگ نہ کر سکے۔ ان ڈراموں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار سرکاری کام سے بمبئی جانا ہوا۔ جیسا کہ پاکستانیوں کے لیے ہر بھارتی شہر میں لازم تھا‘ پہلے تھانے جا کر رجسٹریشن کرانا پڑی۔ ہم دو تھے۔ جب تھانے پہنچے تو بھارتی تھانیدار نے علیک سلیک کے بعد سب سے پہلے یہ پوچھا کہ ''ہمارے لیے پاکستانی ڈراموں کی کیسٹیں لائے ہیں؟‘‘ ہم نے معذرت کی کہ ہمیں معلوم نہ تھا ورنہ ضرور لاتے! وسط ایشیا کی ریاستیں آزاد ہوئیں تو میں اُن چند افراد میں سے تھا جو وہاں سب سے پہلے پہنچے۔ پورے وسط ایشیا پر بھارت چھایا ہوا تھا۔ تعمیرات‘ ہوٹل انڈسٹری‘ تعلیم اور دوسرے شعبوں پر تو بھارت کی اجارہ داری تھی ہی‘ بھارتی فلمیں بھی وہاں پر حکمرانی کر رہی تھیں۔ یہ درست ہے کہ سوویت یونین اور بھارت کے قریبی تعلقات تھے مگر سوویت انہدام کے بعد بھی تو ہم نے کچھ نہ کیا۔ وسط ایشیا سے واپس آکر میں اُس وقت کے وفاقی سیکرٹری اطلاعات سے ملا۔ بھلے آدمی تھے۔ عرض کیا کہ ہمارے ڈراموں کے لیے وہاں ایک وسیع مارکیٹ ہے۔ حکومت کو اس ضمن میں خصوصی اقدامات کرنے ہوں گے۔ مگر جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے‘ کچھ بھی نہ ہوا۔ حکیم سعید مرحوم نے بھی ان ریاستوں کے حوالے سے حکومت کو عقل سکھانے کی سعی کی مگر کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ بدقسمتی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اُس وقت کے وزیر اعظم نے ان ریاستوں میں سے ایک اہم ریاست میں اپنے ایک ذاتی دوست کو سفیر بنا کر بھیج دیا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ گالف کھیلنے کے علاوہ اُن صاحب کی کسی اور شے میں دلچسپی نہ تھی۔ رہے آج کے پاکستانی ڈرامے تو وہ اسفل السافلین کے درجے پر ہیں۔ شرمناک کہانیاں۔بے ہودہ پلاٹ۔ ساس بہو کے جھگڑے‘ سازشیں‘ منگنیاں‘ معاشقے‘ مقدس رشتوں کی پامالی۔ خدا کی پناہ! ایک ہی کہانی ہے جو ہر ڈرامے میں ڈھٹائی سے دہرائی جا رہی ہے۔ ذہنوں میں بدقماشی کا زہر گھولا جارہا ہے!
کسی شعبے میں تو ہم بھارت سے آگے ہوتے! ریلوے اُن کی کہاں جا پہنچی اور ہماری کس حال میں ہے؟ ایئر لائن ہماری کہیں نہیں نظر آرہی۔ ایئر انڈیا کی ایک فلائٹ روزانہ سڈنی سے اور ایک روزانہ میلبورن سے دہلی جا رہی ہے۔ مہینوں پہلے سنا تھا کہ ہماری قومی ایئر لائن بھی اس میدان میں اترے گی مگر خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا! بنگلور‘ چنائی اور حیدرآباد عالمی آئی ٹی کے مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ میڈیکل ٹور اِزم کے ذریعے بھارت کروڑوں ڈالر کما رہا ہے۔افرادی قو برآمد کرنے میں ان کی سودا بازی کی قوت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ یو اے ای میں ہر تیسرا فرد بھارتی ہے۔صنعت کے میدان میں ان کی برتری کسی شک و شبہ سے بالا ہے کیونکہ‘ سابق حکمرانوں سمیت‘ ہمارے سیاست دان اپنے کارخانوں کے لیے مشینری وہاں سے منگوانے کی ہر جائز ناجائز کوشش کرتے پائے گئے ہیں۔ زیر زمین ریلوے سسٹم‘ دہلی کے بعد باقی شہروں میں بھی بچھایا جا رہا ہے اور کچھ شہروں میں مکمل بھی ہو چکا ہے! رہا فلم کا شعبہ تو اس میں ہم نظر تک نہیں آرہے !
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Tuesday, November 22, 2022

سرجری کا تازہ ترین معجزہ


''کنیز نے چاقو پکڑا اور اپنے گلے پر پھیر دیا۔ ہوا کی نالی کا ایک حصہ کٹ گیا۔ مجھے اس کے علاج کے لیے بلایا گیا۔ اس کے گلے سے ایسی آوازیں آرہی تھیں جیسی جانور ذبح ہونے کے فوراً بعد نکالتا ہے۔ میں نے زخم کا معائنہ کیا تو دیکھا کہ خون بہت کم مقدار میں نکلا ہے‘ کوئی شریان یا گردن کی ورید نہیں کٹی تھی؛ چنانچہ میں نے جلدی سے اس کا زخم سیا اور پھر اس کا علاج کرتا رہا یہاں تک کہ وہ تندرست ہو گئی۔ صرف یہ ہوا کہ اس کی آواز بھاری ہو گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ بالکل نارمل ہو گئی۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ Laryngotomyکا عمل خطرناک نہیں ہے‘‘۔
یہ تحریر ابوالقاسم الزہراوی کی ہے جسے سرجری ( جراحی) کا بابا آدم سمجھا جاتا ہے۔ اندلس میں رہنے والے اس سرجن نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ''کتاب التصریف‘‘ 1000ء میں مکمل کی‘ جو تیس جلدوں میں تھی۔ یہ کتاب صدیوں تک یورپ کے تعلیمی اداروں میں نصاب کا حصہ رہی۔
سرجری وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ کچھ ہونے لگا جس کا تصور بھی محال تھا۔ موتیا کے علاج کے لیے آنکھوں کی سرجری میں اب گھنٹے سے بھی کم وقت لگتا ہے جب کہ ایک زمانے میں مریضوں کو کئی کئی دن ہسپتال میں رہنا پڑتا تھا۔ دل کا بائی پاس ہونے لگا۔ آنکھوں‘ گردوں‘ جگر کی پیوندکاری عام ہو چکی ہے۔ جڑواں بچوں کو علیحدہ کر دیا جاتا ہے اور دونوں صحت مند رہتے ہیں۔ شکاگو میں ایک اٹھاون سالہ خاتون کا حیرت انگیز آپریشن ہوا جو چار دن یعنی چھیانوے گھنٹے جاری رہا۔ اس کی بیضہ دانی میں گلٹی تھی جس کی وجہ سے خاتون کا وزن چھ سو سولہ پونڈ ہو گیا تھا۔ گلٹی نکالنے کے بعد وزن تین سو آٹھ پونڈ رہ گیا۔ سرجری کی طوالت کی بھی ایک وجہ تھی۔ گلٹی میں سے سیّال مادہ آہستہ آہستہ نکالا گیا تا کہ یکدم نکالنے سے دل نہ متاثر ہو۔ گلٹی سے دو سو پونڈ سیال مادہ نکلنے میں چار دن لگے۔ اس کے بعد گلٹی کا اخراج کیا گیا۔ گلٹی کا وزن ایک سو پچاس پونڈ تھا۔
1921ء میں ایک ڈاکٹر ( او نیل کین) نے کمال کردیا۔ اس نے اپنے اپنڈکس کی سرجری خود کی۔ اُس زمانے میں چھوٹے سے آپریشن کے لیے بھی پورا بے ہوش کرتے تھے۔ ڈاکٹر کین کا مؤقف تھا کہ صرف مقامی عضو کو سن کیا جائے۔ یعنی لوکل اِنیستھیزیا دیا جائے۔ اس نے اپنے آپ کو آپریشن ٹیبل پر لٹایا۔ ساتھ آئینہ فِٹ کیا۔ دو تین ڈاکٹر احتیاطاً موجود تھے مگر اس نے اپنا آپریشن خود کیا! پھر جب وہ ستر سال کا ہوا تو اپنا ہرنیا کا آپریشن بھی اس نے خود کیا۔
اور تو اور‘ چہرے کی پیوند کاری بھی ہو رہی ہے۔ پیرس کے ایک ہسپتال میں سرجری کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر لارنٹ نے بتایا کہ ان کے ہاں ایک شخص کے ہونٹوں‘ رخساروں‘ منہ اور ناک کی پیوندکاری کی گئی۔ ایک فرانسیسی خاتون کے چہرے کا نچلا حصہ کتے نے چبا ڈالا تو اس کے منہ‘ ناک اور ہونٹوں کی پیوندکاری کی گئی۔ ہیوسٹن میں ایک حاملہ خاتون کا الٹرا ساؤنڈ کیا گیا تو ڈاکٹروں نے دیکھا کہ چھ ماہ کی بچی کی پشت کے نیچے رسولی بن رہی ہے جو چکوترے کے سائز کی تھی۔ اس میں کینسر کے آثار نہیں تھے مگر یہ خون کی سپلائی کو روک رہی تھی اور مہلک تھی۔ ڈاکٹروں نے عجیب و غریب سرجری کی۔ انہوں نے بچہ دانی کو خاتون کے جسم سے باہر نکال لیا۔ پھر بچی کے جسم کے اسی فیصد حصے کو بچہ دانی سے باہر نکالا۔ صرف سر اور بالائی حصہ اندر رہنے دیا۔ پھر رسولی نکالی اور کوشش کی کہ کم سے کم وقت میں سرجری مکمل ہو کیونکہ اگر بچی زیادہ دیر باہر ہوا میں رہی تو اس کا دل متاثر ہو گا۔ پھر بچی کو بچہ دانی میں ڈال کر بچہ دانی کو دوبارہ اپنی جگہ پر رکھا گیا۔ مقررہ وقت پر اس بچی کی ولادت ٹھیک ٹھاک ہوئی۔ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بچی دو بار پیدا ہوئی۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ سرجری کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ حیران کن معجزے برپا ہو رہے ہیں۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک رہنے والے بہت سے پاکستانیوں کے دماغ کی سرجری کی جا رہی ہے۔ یہ آپریشن‘ سرجری کی تاریخ کا سب سے زیادہ عجیب و غریب آپریشن ہے۔ اس میں کھوپڑی سر سے اتار لی جاتی ہے۔ اس کے بعد دماغ‘ بھیجے میں سے باہر نکال کر کوڑے کرکٹ کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ طوطے کا دماغ اندر فِٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان سوال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ پوچھ گچھ نہیں سکتا۔ وہی کچھ کہتا ہے جو اسے سکھایا یا پڑھایا جاتا ہے۔ شروع میں صرف سیاسی پارٹیوں کے ارکان نے یہ سرجری کرائی۔ پیپلز پارٹی‘ (ن) لیگ‘ (ق) لیگ اور جے یو آئی کے ارکان سرجری کا یہ عمل کرانے میں سر فہرست تھے۔ سرجری کے بعد وہ اس قابل نہیں رہے تھے کہ اپنے اپنے رہنماؤں سے کچھ پوچھ سکیں۔ مثلاً زرداری صاحب صرف بلاول کو وزیراعظم بنتا کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ بھٹو خاندان یا زرداری خاندان سے باہر کا کوئی فرد پارٹی کا سربراہ کیوں نہیں بن سکتا؟ ان خاندانوں کے پاس بے تحاشا دولت کہاں سے آئی؟ میاں صاحب کا اصلی وطن لندن ہے یا لاہور؟ لندن کے یہ فلیٹ ان کی ملکیت میں کیسے آئے؟ کیا ان کی دختر نیک اختر اور بھائی کے علاوہ کوئی اس قابل نہیں کہ پارٹی کی قیادت کر سکے؟ وہ کب تک لندن میں رہیں گے؟ پاکستان آکر عدالتوں کا سامنا کیوں نہیں کرتے؟ کیا مولانا اسعد محمود کے علاوہ پوری جے یو آئی میں مرکزی وزارت کا اہل کوئی نہ تھا؟
رہی تحریک انصاف تو اس سے وابستہ لاکھوں افراد نے دماغ کی یہ سرجری کرائی ہے۔ اس میں نوجوانوں کی تعداد خاصی ہے۔ یہ لاکھوں نوجوان‘ ملک کے اندر اور باہر‘ اپنی پارٹی کے تاریخ ساز قائد سے کسی صورت نہیں پوچھ سکتے کہ آپ اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دے کر معترضین کے منہ ہمیشہ کے لیے بند کیوں نہیں کر دیتے؟ عثمان بزدار کو آپ کی خدمت میں سب سے پہلے کس نے پیش کیا تھا؟ کیا وہ گجر صاحب بنفس نفیس خود نہیں تھے؟ کیا یہ تعیناتی میرٹ پر تھی؟ پاکپتن واقعہ کے بعد جب اعلیٰ پولیس افسر کو چیف منسٹر کے ہاں بلایا گیا تو اس سے سوال جواب گجر صاحب نے کیوں کیے تھے؟ پارٹی کے انقلابی قائد نے اس شرمناک صورت حال پر ایکشن کیوں نہ لیا؟ کیا یہ سچ ہے کہ تاریخ ساز قائد کو گھڑیوں کی فروخت کا علم فروخت کے چار ماہ بعد ہوا؟ کون سی مجبوری تھی کہ امریکہ جانے کے لیے ایم بی ایس سے جہاز کی گداگری کی گئی؟ جس جرم میں دوسروں کے گھر گرا ئے گئے اسی جرم میں قائدِ تحریک کے تین سو کنال والے گھرکو بارہ لاکھ روپے کے عوض قانونی حیثیت کیوں دے دی گئی؟ حکومت کے دوران اختیارات نہیں تھے تو حکومت پر لات مار کر عوام کو اسی وقت حقیقتِ حال سے آگاہ کیوں نہ کیا؟ کیا دنیا کے کسی جمہوری ملک کی کابینہ سے بند لفافے کے نا دیدہ مندرجات منظور کرائے جانے کی مثال موجود ہے؟ مشہور پراپرٹی ٹائیکون سے سینکڑوں کنال زمین مفت کیوں لی گئی؟ اور بھی بہت سے سوالات ہیں جو کوئی نہیں پوچھ سکتا!
سائنس کے‘ خاص طور پر سرجری کے عجائبات کی کوئی حد نہیں! اور اس تازہ ترین معجزے کا تو جواب ہی نہیں! اطمینان بخش امر یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے اس کا خوب خوب فائدہ اٹھایا ہے!
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Monday, November 21, 2022

ایک خط جو تکیے کے نیچے پڑا ملا


طبیعت ان کی کئی دنوں سے عجیب سی ہو رہی تھی۔خراب بھی نہیں کہہ سکتے مگر ٹھیک بھی نہیں تھی!
دفتر سے آتے تو بیزار دکھائی دیتے۔ کچھ ہفتوں سے نماز بھی مسجد کے بجائے گھر میں پڑھنے لگے تھے۔سوشل لائف ان کی تقریباً ختم ہو گئی تھی۔ خاندان کی تقاریب میں جانا چھوڑ دیا تھا۔دوستوں سے گریزاں رہنے لگے تھے۔کوئی ملنے گھر آجاتا تب بھی خاموش ہی رہتے حالانکہ زندگی بھر خوش مزاج اورہنس مکھ رہے۔ احباب اور اقارب کی دعوتیں بہت کرتے تھے۔ اب ان کی یہ حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ کھانا پینابالکل کم کر دیا تھا۔ سگریٹ زیادہ پینے لگے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ زندگی بھر‘ صبح اٹھنے کے بعد‘ بے تابی سے اخبار کاانتظار کرتے رہے مگر اب اخبارپڑھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ٹیلی ویژن پر خبریں سننے کا بہت شوق تھا۔گاڑی میں ہمیشہ ریڈیو پر خبریں سنا کرتے تھے۔ مگر اب ٹی وی‘ ریڈیو سب کچھ بھلا بیٹھے تھے۔ اکثر چائے کی فرمائش کرتے اور میں بنا کر دیتی مگر اب یہ حال ہو گیا تھا کہ خود کہنا تو دور کی بات‘ میں پوچھتی کہ چائے بنا لاؤں تو کہتے '' نہیں! جی نہیں چاہتا‘‘۔ میں اور بچے بہت پریشان تھے کہ انہیں کیا ہوا ہے۔ مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ہم پوچھتے کہ جو معاملہ بھی آپ کے ساتھ پیش آیا ہے‘ ہم سے شیئر کیجیے تا کہ اور کچھ نہیں تو آپ کا کتھارسس ہی ہو جائے مگر کوئی جواب نہ دیتے۔ ہم زیادہ اصرار کرتے تو کہتے مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ بڑے بیٹے نے کئی بار منت کی کہ ماہرِ نفسیات کے پاس چلتے ہیں مگر ان کا جواب یہ ہوتا کہ اس نے کیا کرنا ہے؟ وہ کچھ نہیں کر سکتا!
جس دن یہ واقعہ پیش آیا ہے اس دن صبح پہلے ملازم ان کے لیے ناشتہ لے کر گیا۔ ہمیشہ ناشتہ سب گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کرتے تھے مگر جب سے تنہائی کو اپنایا تھا اور مردم بیزاری طاری ہوئی تھی‘ ناشتہ اوردوپہر اور رات کا کھانا کمرے میں کھانے لگے تھے۔ ملازم نے آکر بتایا کہ صاحب دروازہ نہیں کھول رہے۔ میں نے اس کے ہاتھ سے ٹرے لے لیا اور خود گئی۔ کئی بار دستک دی مگر دروازہ انہوں نے نہ کھولا۔ بیٹے کو بتایا تو اس نے کمرے کی عقبی کھڑکی کو چیک کیا۔ اتفاق سے وہ کھلی تھی۔ کھڑکی کے راستے وہ کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ کھولا۔ وہ سوئے ہوئے تھے۔ میں نے کہا: اٹھیے‘ ناشتہ کر لیجیے۔ انہوں نے کوئی رد عمل نہ دکھایا۔ میں نے ان کے منہ سے چادر ہٹائی تو گردن ایک طرف لڑ ھکی ہوئی تھی۔ نہ معلوم رات کو کس وقت جان پروردگار کے سپرد کی اور مجھے بیوہ اور بچوں کو یتیم کر کے چلے گئے۔
تدفین کے چار پانچ دن بعد جب میرے اوسان کچھ بحال ہوئے تو میں نے ان کا بستر ٹھیک کیا۔ میرے آنسو رک نہیں رہے تھے۔ جب بھی بستر ٹھیک کرتی‘ کہتے کہ ہر روز بیڈ شیٹ جھاڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔تم بیکار میں تھکتی رہتی ہو۔ تکیے کے نیچے سفید رنگ کا لفافہ نظر پڑا۔اس پر میرا نام لکھا تھا۔ کھولا تو ان کا خط تھا۔ اُس پر ایک ہفتہ پہلے کی تاریخ درج تھی۔ خط تھا یا درد کی تفسیر تھی! میں نے پڑھنا شروع کیا:
'' میری زندگی کا چراغ بجھنے کو ہے۔ ہو سکتا ہے تم جب یہ خط پڑھو‘ مجھے گزرے ہوئے کئی دن ہو چکے ہوں! مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے!‘‘
''زندگی بہت مزے کی گزر رہی تھی۔ ترتیب بھی تھی۔ تہذیب بھی! دوستوں کے ساتھ شائستہ گفتگو ہوتی تھی۔ اعزّہ و اقارب کے ساتھ محفلیں بر پا ہوتی تھیں۔ دفتر میں رفقائے کار کے ساتھ خوب نبھتی تھی۔ بیٹے اور بیٹیاں ساتھ مل بیٹھتے تھے تو خوب رونق ہوتی تھی۔ فلسفہ‘ تاریخ‘ اور اقتصادیات پر بات چیت ہوتی تھی۔ میرؔ‘ غالبؔ اور اقبالؔ کی شاعری پر بحث ہوتی۔ پڑوسیوں سے خلوص کا رشتہ تھا۔ نماز ادا کر کے مسجد سے نکلتے تو ایک دوسرے سے اہل و عیال کی خیریت دریافت کرتے۔ ایک دوسرے کی باغبانی کا پوچھتے۔ محلے کے فلاحی کاموں پر بات ہوتی۔‘‘
'' پھر نہ جانے کیا ہوا۔ سب کچھ بدل گیا۔ ہر طرف سیاست پر بات ہونے لگی۔ یہ سیاست بھی عجیب سیاست تھی۔ اس میں ملکی اور قومی ترقی کے منصوبوں پر بات نہیں ہوتی تھی۔ صرف'' میرا لیڈر‘ تیرا لیڈر‘‘ پر گفتگو ہوتی۔ دفتر کا ماحول گندہ ہو گیا۔ سارا دن ایک دوسرے کے لیڈروں کے کچے چٹھے کھولے جاتے۔ اونچی آوازوں میں تلخ لہجے نمایاں ہوتے۔ دوستوں کی منڈلی میں بھی یہی کچھ ہوا۔ جو دوست ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے‘ ان کی آنکھوں میں خون اُتر آیا۔ بحث ہوتی۔ پھر جھگڑا شروع ہو جاتا۔ میں اس زندگی سے تنگ آگیا۔ مسجد سے باہر‘ نمازی‘ جو چند منٹ پہلے‘ کندھے سے کندھا ملا کر‘ سجدہ ریز تھے‘ چلّا چلّا کر‘ طعن و تشنیع کر رہے ہوتے۔ شادی کی تقریب ہوتی یا تعزیتی اکٹھ‘ ایک دوسرے کے لیڈروں کے لتے لیے جا رہے ہو تے۔لڑکے بالے‘ جو پہلے ادب احترام کرتے تھے‘ اب منہ کو آنے لگے تھے۔ گھر میں کوئی دوست یا رشتہ دار آتا تو ابتدائی علیک سلیک کے بعد‘ گفتگو کا رخ اسی نام نہاد سیاست کی طرف مُڑ جاتا۔ ٹی وی لگاتا تو ہر چینل پر وہی نام‘ وہی دشنام‘ وہی الزام‘ وہی لڑائیاں۔ ایک کہتا تمہارا لیڈر ڈاکو ہے۔ دوسرا کہتا تمہارا لیڈر چور ہے۔ لاؤنج میں بیٹھتا تو بیوی کی آواز آتی۔ کسی سہیلی سے فون پر بات کر رہی ہوتی۔ وہی بحث! وہی اپنے لیڈر کی توصیف اور دوسرے کے لیڈر کی چیر پھاڑ! ریل کار میں پنڈی سے لاہور گیا تو تمام راستہ ایک عذاب میں کٹا۔ لوگ بحث کر رہے تھے۔ لوگ چیخ رہے تھے‘ لوگ چلّا رہے تھے۔ لوگ چنگھاڑ رہے تھے۔ لوگ ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے تھے۔ اخبار دیکھ کر ابکائی آنے لگتی۔لمبے لمبے زہریلے بیانات۔ ایک دوسرے کے خلاف عدالتی مقدمے۔ پھر جوابی مقدمے! اداریوں اور کالموں میں بھی وہی لڑائی جھگڑے! انتہا یہ ہوئی کہ ایک دوسرے کے لیڈر کے مرے ہوئے والدین کو بھی نہ بخشا گیا۔
یہ زندگی نہیں! یہ پانی پت کا میدان ہے۔ یہ شاہجہان کے بیٹوں کی جنگِ تخت نشینی ہے۔اس ماحول میں میرا دم گھٹ رہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگ شدید ذہنی تناؤ اور دباؤ میں ہیں۔ سوشل میڈیا کا عفریت آہستہ آہستہ انہیں کھا رہا ہے۔ نگل رہا ہے۔ پورا ملک ایک ہیجان‘ ایک خلجان‘ایک خلفشار‘ ایک اختلاج میں مبتلا ہے۔ یوں لگتا ہے خلقِ خدا کے جسموں کے اعضا پھڑک رہے ہیں اور کسی بھی لمحے ان کے گُردے‘ انتڑیاں‘ جگر‘ دل اور پھیپھڑے اچھل کر باہر آ جائیں گے۔ میں اب یہاں مزید نہیں رہ سکتا۔ کسی سے ملنا ممکن ہے نہ کسی کو بلانا۔ کئی مہینوں سے میں ایک قیدی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ میری عمر زیادہ ہے نہ مجھے کوئی خطرناک مرض ہی لاحق ہے۔ میں محض اپنی قوتِ ارادی سے مر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ لحد میں ماحول اس سے کہیں بہتر ہو گا۔منکر نکیر کے سوالات جتنے بھی مشکل ہوں‘ یہاں کی نہ ختم ہونے والی مکروہ بحثوں کی نسبت آسان ہی ہوں گے۔ مجھے افسوس ہے کہ تمہیں اس طرح چھوڑ کر جا رہا ہوں مگر سچ یہ ہے کہ تمہیں بھی مجھ سے زیادہ دلچسپی اب ان بحثوں میں تھی۔ میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ اپنی سہیلیوں کو صرف اس لیے بلاک نہ کرو کہ ان کا لیڈر تمہیں اچھا نہیں لگتا مگر تم نے برسوں پرانے تعلقات کو تکبیر پڑھے بغیر ذبح کر دیا۔ خیر! مجھے اس سے کیا!
میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا
میری بلا سے بُوم رہے یا ہما رہے

Thursday, November 17, 2022

کوتاہ نظری کی بد ترین مثال


پندرہ سال سے کچن کی دیوار گری پڑی ہے۔ رات کو بلیاں کچن میں گھس جاتی ہیں۔وہ تو خدا کا شکر ہے کہ گھر کی چاردیواری قائم ہے ورنہ کتے بھی کچن میں رکھے برتنوں میں منہ مار رہے ہوتے۔ بیوی چلّا چلّا کر تھک گئی۔بیٹی نے کئی بار یاد دلایا۔ مگر چودھری صاحب سے دیوار دوبارہ نہ بنی۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ انہی چودھری صاحب کو شہر کی تعمیرِ نو کا ٹھیکہ دے دیا گیا! لطیفہ! اور اتنا دردناک! جو شخص پندرہ سال میں گھر کے کچن کی مرمت نہ کر سکا‘ وہ پورے شہر کی تعمیرِ نو کس طرح کرے گا؟
پندرہ سال پہلے وفاقی دار الحکومت میں ایک تنازع اٹھا۔ جو ہوا غلط ہوا۔ مگر جو ہونا تھا‘ ہو گیا۔سوال یہ ہے کہ آج‘ پندرہ سال کے بعد بھی‘ اس تنازع سے جُڑی شاہراہ‘ جو شہر کی مصروف ترین شاہراہ ہے‘ بند ہے! یہ شاہراہ میلوڈی مارکیٹ کو آب پارہ بازار سے ملاتی ہے۔ اس ڈبل شاہراہ کا ایک حصہ کئی سال سے ٹریفک کے لیے بند رہا۔ ڈبل روڈ‘ عملاً‘ سنگل روڈ بنی رہی۔ شہری‘ اور پورے ملک سے آنے والے مسافر‘ سالہا سال اذیت میں مبتلا رہے۔ خدا خدا کر کے گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم سے شاہراہ واگزار ہوئی۔ اور اب پھر بند کر دی گئی ہے!
آپ انصاف کیجیے‘ جس ملک سے‘ جس ملک کی حکومتوں سے‘ جس ریاست سے‘ ایک مسجد اور شاہراہ کا مسئلہ حل نہیں ہورہا اور پندرہ سال سے شہری سولی پر اٹکے ہوئے ہیں‘ وہ ملک‘ وہ ریاست‘ اس ملک کی حکومتیں‘ اس زعم میں ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ حل کر لیں گی‘ افغانستان کا مسئلہ حل کر لیں گی‘ خارجہ امور طے کر یں گی اور تئیس کروڑ آبادی والا ملک چلا لیں گی! تو پھر ملک ٹھیک اُسی طرح چل رہا ہے جیسے دارالحکومت میں یہ شاہراہ چل رہی ہے! کوئی آپ سے پوچھے کہ پاکستان کس طرح چل رہا ہے تو چُپ کر کے اُسے یہ بند شاہراہ دکھا دیجیے۔ سمجھ جائے گا کہ یہ ملک کیسے چل رہا ہے!
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ قصور مسجد والوں کا ہے یا انتظامیہ کا‘ نہ یہ ہمارا منصب ہے! ہم صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ مسئلے کو حل کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ اندازہ لگائیے! اس دارالحکومت کے نام پر کتنا بڑا سیٹ اَپ قائم ہے۔ ڈپٹی کمشنر‘ اس کے اوپر چیف کمشنر! پھر ایک بہت بڑا ترقیاتی ادارہ۔ اس کا چیئر مین۔ اس کے نیچے ممبر۔ پھر ڈی جی۔ پھر ڈائریکٹر۔ نیچے افسروں اور اہلکاروں کے لشکر کے لشکر۔ پھر ان سب کے اوپر وزارت! وزارت میں گریڈ بائیس کے سیکرٹری صاحب! ان کے نیچے ایڈیشنل سیکرٹریوں‘ جوائنٹ سیکرٹریوں اور ڈپٹی سیکرٹریوں کے گروہ! ان کے نیچے پھر افسروں اور اہلکاروں کے لشکر! ان سب کے اوپر وزیر صاحب اور ان کا عملہ! ذرا سوچیے۔ یہ سارا سیٹ اَپ اس بھوکی‘ ننگی‘ قلاش قوم کو کتنے میں پڑ رہا ہوگا! گاڑیاں! پٹرول! ڈرائیور‘ سرکاری مکانات! تنخواہیں! ہاؤس رینٹ‘ میڈیکل اور ٹی ڈی اے کی مَدّات (Heads) میں آسمان بوس اخراجات! اور اس سارے قوی ہیکل سیٹ اَپ کا حاصل حصول اور وصول کیا ہے ؟ ایک مسجد اور ایک شاہراہ کا مسئلہ پندرہ سال سے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ حل کیا ہے! شاہراہ کا ایک حصہ بند کر دیجیے! ماں صدقے!! کوتاہ نظری (Myopia) کی اس سے بد تر مثال کیا ہو گی ؟ کند ذہنی اور کسے کہتے ہیں ؟ اور جب یہ سب اہلکار اور افسر Presentation دینے کھڑے ہوں گے تو مشن سٹیٹمنٹ اور وژن کے نام پر ستارے توڑ لانے کی باتیں کریں گے! سنتے جائیے! سر دھنتے جائیے! باہر نکلیں گے تو شاہراہیں بند! اور جس شاہراہ کا ہم ماتم کر رہے ہیں وہ شہر کے دل میں واقع ہے! ایک طرف آبپارہ کا‘ مصروف‘ لوگوں سے چھلکتا بازار‘ ایک طرف اتوار بازار! ایک طرف میلوڈی مارکیٹ‘ جس کے اندر شہر کا مصروف ترین فوڈ پارک‘ ساتھ جی پی او! ساتھ ہسپتال! ارد گرد سکول اور کالج! آبادی چاروں طرف گنجان! اور غضب خدا کا پندرہ برسوں سے مسئلے کا حل صرف یہ کہ شاہراہ بند کر دیجیے!
کیا اربابِ اختیار اتنا نہیں کر سکتے کہ علما پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دیں۔ جناب مفتی محمد تقی عثمانی سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کمیٹی کی سربراہی قبول فرمائیں۔ جامعہ اشرفیہ اور دیگر معروف مدارس کے علما کو اس کمیٹی میں شامل کریں۔ جہاں تک ہمیں علم ہے‘ مولانا عبد العزیز‘ جو خود عالم ہیں‘ علما کا بہت احترام کرتے ہیں اور ایک شائستہ شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے والد گرامی مرحوم‘ مولانا محمد عبداللہ سے اس قلمکار کے والد گرامی مرحوم‘ حافظ محمد ظہورالحق ظہورؔ کے بہت اچھے مراسم تھے۔ کمیٹی کے سامنے فریقین کا موقف رکھا جائے۔ قانونی پوزیشن واضح کی جائے اور پھر کمیٹی کے فیصلے پر پوری دیانتداری اور صدقِ دل سے عمل کیا جائے! کیا ارباب ِاختیار کو نہیں معلوم کہ اگر مسئلہ حل نہ کیا گیا تو کسی بھی وقت بات بڑھ سکتی ہے! سلگتی ہوئی چنگاری کسی بھی وقت بھڑک کر شعلہ بن سکتی ہے! جو کچھ ہو چکا‘ کیا وہ کافی نہیں ؟ کیا ہم کسی اور المیے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ ان اربابِ اختیار کی خدمت میں یہ عرض کرنے کی جسارت کرتے ہیں کہ ایک صاحب تھے جنہیں دنیا سعدی کے نام سے جانتی ہے۔ وہ گھومتی ہوئی کرسی پر بیٹھتے تھے نہ ان کے آگے پیچھے نقیب ہٹو بچو کی آوازیں لگاتے تھے مگر تھے بہت جہاندیدہ اور دانا! اچھے زمانوں میں تربیت کے لیےHumpty Dumpty اور Twinkle Twinkle یاد نہیں کرائے جاتے تھے بلکہ سعدی کی گلستان اور بوستان پڑھائی جاتی تھی۔ اس سے ادب آداب بھی آتا تھا اور زندگی گزارنے اور حکومت کرنے کا اسلوب بھی!! تو یہی صاحب‘ سعدی‘ کہتے ہیں کہ 
سرِ چشمہ شاید گرفتن بہ مِیل
چو پُر شُد‘ نشاید گذشتن بہ پیل
کہ چشمے کا سوراخ ابتدامیں ایک سلائی سے بند ہو جائے گا لیکن اگر پانی زیادہ ہو گیا تو ہاتھی پر سوار ہو کر بھی پار جانا ممکن نہیں ہو گا!
یہ صاحب یہ بھی کہتے ہیں :
دیدیم بسی کہ آبِ سر چشمہ خُرد
چون بیشتر آمد‘ شتر و بار ببرد
یعنی ہم نے کئی بار مشاہدہ کیا کہ چھوٹے سے چشمے کا پانی جب زیادہ ہو گیا تو اونٹ اور اس پر لدا ہوا سامان‘ سب کچھ بہالے گیا۔
اور اگر مزید پندرہ برس اسی ایڈہاک ازم اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے ساتھ گزارنے کا پلان ہے تو اعتراف کیجیے کہ ریاست اور حکومتیں یہ مسئلہ حل کرنے کے قابل نہیں! آخری حل یہ ہے کہ اقوام متحدہ کو یا دوست ملکوں کو اپیل کیجیے کہ آکر فی سبیل اللہ اس مسئلے کا حل نکال دیں۔ چین کے صدر‘ ترکیہ کے صدر اور سعودی عرب کے بادشاہ پر مشتمل ایک ہائی لیول کمیشن ہو جو آ کر بتائے کہ شہرکے عین درمیان‘ شاہراہ بند کر دینا کوئی اندازِ حکمرانی نہیں! ٹوپی چھوٹی ہو تو سر نہیں کاٹتے‘ ٹوپی بڑی کرتے ہیں! یہ کبوتر کی صفت ہے کہ آنکھیں بند کر کے سمجھتا ہے بلّی کا خطرہ ٹل گیا! مسائل آنکھیں چرانے سے نہیں حل ہوتے۔ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا ہوتی ہیں۔ اگر ہماری حکومتیں اپنے ہی دارالحکومت کی ایک شاہراہ نہیں کھول سکتیں تو پھر اس میں تعجب ہی کیا ہے اگر آج ملک مسائلستان بنا ہوا ہے۔ زمین کا ملکیتی ڈھانچہ‘ سرداری نظام‘ بڑھتی ہوئی آبادی‘ خواندگی کا تناسب‘ سمگلنگ‘ مہنگائی‘ حقوق ِنسواں‘ ٹریفک‘ لوڈ شیڈنگ‘ یہ سب ان کی بساط سے باہر ہیں! جبھی تو قوموں کی فہرست میں ہمارا مقام باعث ِ شرم ہے!!!

Tuesday, November 15, 2022

کوئی ہے ؟؟

زخموں سے چور چور‘ اس خون تھوکتی قوم کو کر کٹ متحد کر دیتی ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی! جتنی دیر کھیل جاری رہا ‘ دعا اور خواہش میں‘ جوش اور بے تابی میں سب پاکستانی یک جان تھے۔ ہارنے پر مغموم ہونا فطری ہے۔ مگر سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ 

شکست و فتح‘ میاں! اتفاق ہے لیکن

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

افسوس! جیسے ہی کھیل ختم ہوا‘ ہم پھر ریزہ ریزہ ‘ لخت لخت‘قاش قاش ہو گئے۔ پھر ایک دوسرے کو بے لباس کرنے لگے! دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے! مذاق اڑا رہی ہے۔ روزنامہ وال سٹریٹ جرنل کا حالیہ مضمون اس مذاق‘ اس تماشے کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ ہم اسفل السافلین کے زمرے میں گنے جا رہے ہیں! ہماری عزت‘ ہماری حرمت‘ پارہ پارہ ہو رہی ہے۔ �

بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے

جتنے زیادہ ہو گئے‘ اتنے ہی کم ہوئے

ہر کوئی دوسرے پر الزام لگا رہا ہے۔ کوئی نہیں جو اس منتشر قوم کو یکجا کر سکے۔ بہت ہو چکی‘ بہت کچھ کہا جا چکا عمران خان کے خلاف! بہت کچھ کہا جا چکا شریف فیملی اور زرداری خاندان کے خلاف! بہت مقدمے عدالتوں میں گئے۔ بہت فیصلے ہوئے۔ حاصل کچھ بھی نہیں ہوا! کسی نے ہار مانی نہ مانے گا! اے آپس میں دست و گریباں گروہو! اے تباہی پھیلاتے طائفو! خدا کے لیے اس قوم پر رحم کرو! دلوں میں بھڑکتی نفرت کی آگ بجھاؤ! شعلوں پر پانی گراؤ ! سلگتی چنگاریوں پر مٹی ڈالو! اس سے پہلے کہ سب کچھ بھسم ہو جائے‘ رُک جاؤ! کوئی بھی ہو‘ عمران خان ہو یا دوسری طرف بیٹھے ہوئے اس کے مخالف! کسی کی انا پاکستان سے بڑی نہیں ہے !�خدا کے بندو! یہ ملک ہے تو تم بھی ہو اور تمہاری سیاست بھی ہے! کیوں ناشکری کر رہے ہو؟ کیوں کفرانِ نعمت کے مرتکب ہو رہے ہو؟ ارد گرد دیکھو اور سمجھنے کی کوشش کرو کہ یہ ملک تمہارے لیے پناہ گاہ ہے اور خیر کا جزیرہ ہے! کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ بھارت میں رہنے والے ہمارے بہن بھائی کس طرح دوسرے درجے کے شہری بنا دیے گئے اور بدستور بنائے جا رہے ہیں! وہاں رہنے والی ہماری بیٹیاں اور بہنیں اپنے نام بدلنے پر مجبور ہیں کہ ملازمتیں مل سکیں! اللہ کا شکر ادا کرو کہ ادتیا ناتھ ‘ امیت شاہ اور مودی کی شکل میں ان پر جو عذاب اترا ہوا ہے‘ تم اس عذاب سے محفوظ ہو! ہزار ہا سالوں سے آباد شہر جن کی ایک ایک دیوار‘ ایک ایک گلی‘ ایک ایک کوچہ مسلم تہذیب کا آئینہ دار ہے ‘ اپنے اصلی ناموں سے محروم کیے جا رہے ہیں! گاؤ کُشی کے جرم میں بے گناہ مسلمان سنگینوں کا شکار ہو رہے ہیں! صدیوں سے جو آسام اور دوسرے صوبوں میں رہ رہے ہیں ان سے شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں! انہیں ختم کرنے کے لیے اسرائیل کی پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں ! کوئی ان کا پرسانِ حال ہے نہ درد آشنا! کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ افغانستان میں بھوک کا راج ہے۔ موت وہاں کے شہروں میں اور قصبوں میں اور قریوں میں دیوانہ وار ناچ رہی ہے۔ شاہراہیں ہیں نہ ہسپتال! تمہارے جیسے لوگ ہی وہاں آباد ہیں مگر پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں ! تم ان کے مقابلے میں ہزار گنا نہ سہی‘ سو گنا بہتر زندگی گزار رہے ہو! پھر کیوں اپنے ملک کی قدر نہیں کر رہے ؟ کیوں اسے تماشا گاہ بنائے بیٹھے ہو؟ اس ہرے بھرے چمنستان کو ویرانہ بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہو؟�کوئی ہے جو پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو سمجھائے کہ عمران خان کوئی جِن یا راکھشس نہیں کہ تمہیں نگل جائے گا۔ وہ بھی اتنا ہی پاکستانی ہے جتنے تم ہو۔ اتنا ہی محب وطن ہے جتنے تم ہو! اگر یہ ملک اس کی جاگیر نہیں تو تمہاری چراگاہ بھی نہیں! اس سے بات تو کرو! اگر اس کے دس مطالبے نہیں مان سکتے تو پانچ پر تو غور کرو! اسے اپنے برابر کا تو سمجھو! اگر اس میں کمزوریاں ہیں تو تم کون سے فرشتے ہو؟ اور کوئی ہے جو عمران خان کو باور کرائے کہ دوسروں کو بھی انسان سمجھو! کافر سے بھی ہاتھ ملا لیتے ہیں ! بات کر لیتے ہیں! تمہاری نظر میں یہ گنہگار ہیں ! حد سے زیادہ گنہگار! مگر کافر تو نہیں ! یہ بھی پاکستانی ہیں! یہ بھی محب وطن ہیں ! تم سب محب وطن ہو! خدا کے لیے دشمنی چھوڑو اور ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر کے معاملات سلجھاؤ! تم سب نے ‘ عمران خان نے بھی ‘ پی ڈی ایم والوں نے بھی‘ اسی ملک میں رہنا ہے! بھاگ کوئی نہیں سکتا! یہیں رہنا ہے تو ایک دوسرے کو بیٹھنے کی نہیں تو کم از کم کھڑے ہونے کی جگہ تو دو! سو سال بھی لڑتے جھگڑتے رہو گے‘ سو سال بھی ایک دوسرے کے سر پھاڑتے رہو گے ‘ پھر بھی آخرِ کار ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنا ہی پڑے گا‘ بات کرنی ہی پڑے گی! تم سب انسان ہو! سانپ نہیں جو ایک دوسرے کو کھانا شروع کروگے تو میدان میں کوئی بھی باقی نہیں بچے گا!!!�اور یہ فوج! یہ فوج کس کی ہے ؟ انڈیا کی یا افغانستان کی تو نہیں! تمہاری ہے! تمہارے ملک کی ہے! تمہارے ہی بھائیوں‘ بیٹوں اور دوستوں پر مشتمل ہے! اس سے غلطیاں سرزد ہوئی ہوں گی‘ تم سے بھی ہوئی ہیں ! دودھ کے دھلے ہوئے تم ہو نہ یہ ! جس حال تک پہنچے ہیں اس میں حسبِ توفیق سب کا حصہ ہے! دوسروں پر سنگباری وہ کرے جو خود ولی اللہ ہو! فوج اتنی ہی خراب یا صاف ہے جتنی خراب یا صاف پوری قوم ہے! الگ تھلگ جزیرے میں کوئی نہیں رہتا ! اور اُس بات کو بھی ذہن میں ضرور رکھو جو ڈیگال نے کہی تھی کہ ہر ملک میں ایک فوج ضرور ہوتی ہے۔ اپنی نہ ہو تو کسی دوسرے ملک کی ہو گی ! فوج میں ایک ہزار کمزوریاں ہوں گی‘ غلطیوں کا ارتکاب کیا ہو گا مگر یہ فوج ہی ہے جس نے بھارت کی مکروہ توسیع پسندی کو لگام دے رکھی ہے ! ورنہ لالہ جی خلیج فارس تک پہنچ چکے ہوتے۔ یہ پاکستانی فوج ہی ہے جس نے ہمارے ملک کو سکم ‘ بھوٹان اور نیپال نہیں بننے دیا! اور یہ پاکستانی فوج ہی ہے جس نے پاکستان کو لیبیا‘ عراق یا شام نہیں بننے دیا!�کاش ! کوئی ایسا رجلِ رشید اُٹھے جو اِن متحارب گروہوں کو یکجا کر سکے! جو سارے فریقوں کو اکٹھا بٹھا کر مخاصمت ختم کرا سکے ! جو اس ریزہ ریزہ ہوتی قوم کو پھر سے یکجا کر سکے! اب تک تو ہر کوئی اسے تقسیم در تقسیم در تقسیم ہی کر رہا ہے! نرمی ہے نہ محبت! شفقت ہے نہ رواداری! کوئی کسی کو معاف کرنے کے لیے تیار ہے نہ معافی مانگنے کو ! کاش کوئی پردۂ غیب سے نکل کر آئے اور انہیں بتائے کہ حکم کیا دیا گیا ہے۔�''بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں سو اپنے بھائیوں میں صلح کرادو‘ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘�''اے ایمان والو! ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے عجب نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے ٹھٹھا کریں کچھ بعید نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں‘ اور ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور نہ ایک دوسرے کے نام دھرو‘ فسق کے نام لینے ایمان لانے کے بعد بہت برے ہیں‘ اور جو باز نہ آئیں سو وہی ظالم ہیں۔‘‘�''اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچتے رہو‘ کیوں کہ بعض گمان تو گناہ ہیں ۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, November 14, 2022

مسافر بس میں قتل


نہیں معلوم اس بات میں کتنی صداقت ہے۔ تاہم مشہور یہی ہے کہ جب چنگیز خان کا پوتا ہلاکو خان بغداد پر حملہ کر رہا تھا تو بغداد کی مسجدوں‘ مدرسوں اور چوراہوں پر بحث یہ ہو رہی تھی کہ کوا حلال ہے یا حرام !
ہو سکتا ہے مغرب میں بھی تحریک ِاحیائے علوم سے پہلے ایسی بحثوں کا رواج ہو‘مسلمانوں میں تو آج تک ہے۔ اس کی ایک شکل مناظرہ بھی ہے۔ ہمارے مذہبی حلقوں میں مناظرہ ایک مقبول سرگرمی رہی ہے۔ اس کا انجام‘ اکثر و بیشتر مجادلوں کی صورت میں سامنے آتا رہا۔ مناظرہ ذہنی عیاشی کا بہت بڑا ذریعہ رہا ہے۔ اب اس کا رواج نسبتاً کم ہو گیا ہے۔ وہ وقت بھی تھا جب ''مناظر‘‘ یا ''مناظر اسلام‘‘ باقاعدہ ایک لقب تھا۔
مذہبی بحث تو ہمارا طُرّۂ امتیاز تھی ہی‘ اب سیاسی بحث بھی پیش منظر پر چھائی ہوئی ہے۔ ہر گھر میں‘ ہر دفتر میں‘ ہر بازار میں‘ ہر ٹرین اور ہر بس میں‘ سیاسی بحث ہو رہی ہے۔ اس میں بڑے بھی شامل ہیں‘ چھوٹے بھی‘ مرد بھی عورتیں بھی۔ یہ جو اکبر الہ آبادی نے کہا تھا :
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
تو یہ بات سیاسی بحث پر زیادہ صادق آ رہی ہے۔ اس سیاسی بحث کے چند ایسے خواص ہیں جن کی تصدیق ہر معقول شخص کو کرنا پڑے گی۔ بہت دھیمے انداز میں بات شروع ہوتی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں فریقین کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کون کس لیڈر کا پیروکار ہے۔وہ فریق ثانی کے لیڈر پر الزامات لگاتا ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ فریق ثانی ان الزامات کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سنے اور آرام سے ہر پوائنٹ کا جواب دے۔ الزامات عائد کرنے والے کا بھی فرض ہے کہ وہ خاموشی سے اپنے اعتراضات کا جواب سنے۔مگر افسوس! صد افسوس! ایسا ہوتا نہیں! الزامات سنتے ہی فریق ثانی بھڑک اٹھتا ہے۔ جواب دینے کے بجائے وہ فریق اول کے لیڈر پر جوابی الزامات کی بوچھاڑ کر دیتا ہے۔ اب دونوں فریق بیک وقت بولنے لگ پڑتے ہیں۔ آوازیں اونچی ہونے لگتی ہیں۔ لیڈروں کو گالیاں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر لیڈروں کو چھوڑ کر‘ دونوں فریق ایک دوسرے پر دشنام طرازی کرنے لگتے ہیں۔ قریب ہے کہ دونوں اُٹھ کر ایک دوسرے کے گریبان پکڑ لیں‘ پاس بیٹھے ہوئے لوگ بیچ بچاؤ کر کے دونوں کو بٹھاتے ہیں۔ بظاہر جھگڑا ختم ہو جاتا ہے۔ مگر اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔اس کے بعد دونوں کی بات چیت بند ہو جاتی ہے۔ دونوں کے خاندان ایک دوسرے کے ساتھ معاشرتی تعلقات کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ لکیر گہری ہوتی جاتی ہے۔ یوں ایک معمولی بحث فساد کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
جاویداحمد غامدی صاحب کی کئی باتوں سے اختلاف ہے۔یوں بھی کسی گروہ یا شخصیت کا حلقہ بگوش ہونے کا مطلب ہے کہ دماغ کے دروازے بند کر دیے جائیں یہاں تک کہ ان پر مکڑی کے جالے تن جائیں۔ کائنات میں صرف ایک ہی ہستی ہے جس کی ہر بات کو بلا چون و چرا تسلیم کیا جاتا ہے اور کیا جائے گا؛ تاہم غامدی صاحب کا یہ نکتہ دماغ کو اپیل کرتا ہے کہ سائنس میں مسلمانوں کی پسماندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے بہترین دماغ‘ سائنس کی طرف نہیں گئے بلکہ فلسفے اور فقہ کی طرف گئے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ فلسفہ اور فقہ بحث کے ماں باپ ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ان شعبوں کا تو اوڑھنا بچھونا ہی بحث ہے۔ اسی لیے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا :
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
اہل دیہہ بہت زیادہ بحث کرنے والے کے بارے میں کہتے ہیں کہ حلوے کا سرا ڈھونڈ رہا ہے۔ حلوے کا سرا ہوتا ہی نہیں۔ کہاں سے ملے گا؟ کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں سیاسی بحث ایک سماجی بیماری (سوشل ایول) کے طور پر پھیل رہی ہے۔ اس بیماری کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی ویکسین ہے نہ سرجری! سوشل میڈیا اسے مزید بھڑکا رہا ہے۔ برداشت عنقا ہو چکی ہے۔ بھائی بھائی سے اور بہن بہن سے جھگڑ رہی ہے۔ ایک دوسرے کو بلاک کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے جو واقعہ پیش آیا‘ عبرت کا سامان ہے۔ پشاور سے مسافر کوچ چلی۔ یہ تیمر گرہ جا رہی تھی۔راستے میں دو مسافروں کے درمیان ایسی ہی بحث چھڑ گئی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ ایک نے کہا: تمہارا لیڈر جھوٹا ہے۔ دوسرے نے کہا: تمہارا لیڈر فراڈ ہے۔ بات بڑھ گئی۔ ایک نے اپنے رشتہ داروں کو بلا لیا۔ مسافر بس بابو زئی انٹرچینج پر پہنچی تو بندوق بردار افراد نے بس کو روک لیا۔ بحث کرنے والے ایک فریق کو اندر سے نکالا اور موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ اس سے قیاس کر لیجیے کہ ہم کہاں پہنچ چکے ہیں۔
کئی تجربوں سے گزرنے کے بعد یہ قلمکار اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ بحث سے‘ مذہبی ہو یا سیاسی‘ اجتناب کرنے میں بہت فائدہ ہے۔ ایک معروف کالم نگار اور دانشور نے‘ جو ہمارے برخوردار ہیں اور ہمیں بہت عزیز ہیں‘ ایک بار‘ ایک تقریب میں ہمارے بارے میں ایک تحریر پڑھی۔ ہماری خوبیاں یا خامیاں بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بحث نہیں کرتے۔ طرح دے جاتے ہیں۔ بحث سے گریز کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ اول تو چپ رہیے۔ ہاں ہوں‘ کچھ بھی نہ کیجیے۔ '' بحثیا‘‘ جب دیکھے گا کہ آگے سے ردِ عمل میں کچھ نہیں آرہا تو آپ پر تین حرف بھیج کر خاموش ہو جائے گا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دیجیے۔ جب دیکھے گا کہ مزہ نہیں آرہا اور لڑائی کا کوئی امکان نہیں تو ناامید ہو کر منہ دوسری طرف کر لے گا۔ موضوع بدلنے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے مثلاً اگر کوئی صاحب آپ سے عمران خان یا نواز شریف کے بارے میں کچھ پوچھیں یا بات کرنا شروع کریں تو آپ آگے سے اپنی چچی یا ممانی کی درد ناک موت کی تفصیل بیان کرنی شروع کر دیجیے۔ ہو سکے تو آواز بھی روہانسی کر لیجیے۔ امید ہے ان کا بخار اتر جائے گا۔
ایک بزرگ نے ایک نوجوان کو بتایا کہ وہ اپنا مؤقف ایک بار بیان کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی اس پر بحث شروع کر دے تو وہ آگے سے کہتے ہیں کہ '' آپ درست کہہ رہے ہیں‘‘۔ نوجوان نے کہا کہ یہ تو غلط بات ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اعتراض کرنے والے کی تشفی کریں! اس پر بزرگ نے نوجوان کو کہا کہ ''آپ درست کہہ رہے ہیں‘‘۔
سیاسی یا مذہبی بحث‘‘ پانی وچ مدھانی‘‘ کی بد ترین مثال ہے۔ لسی بنے گی نہ مکھن نکلے گا۔ صرف چھینٹے پڑیں گے۔حاصل کچھ نہیں ہو گا سوائے دشمنی اور قطعِ تعلق کے ! اور جن کی خاطر آپ اپنے پیاروں کو رنجیدہ کرتے ہیں اور تعلقات کشیدہ کرتے ہیں‘ ان کے نزدیک آپ کا وجود صفر سے زیادہ نہیں! جتنی چاہیں بحث کر لیجیے‘ آپ کو جاتی امرا یا ایون فیلڈ یا بنی گالا یا بلاول ہاؤس میں کسی نے گھسنے بھی نہیں دینا! اور اگر آپ نے زبردستی اندر جانے کی کوشش کی تو کتا یا چوکیدار‘ یا دونوں‘ آپ کو چیر کھائیں گے! کتے سے ایک واقعہ یاد آگیا۔ حفیظ جاندھری ایک کمشنر صاحب کو ملنے ان کے دفتر گئے۔ یہ کمشنر صاحب معروف ادیب بھی تھے۔ دربان نے روکنے کی کوشش کی۔ حفیظ صاحب کہاں رکنے والے تھے۔ اندر چلے گئے اور کمشنر صاحب کو بتایا کہ وہ جو باہر چھوٹا کتا بیٹھا ہے‘ اُس نے روکنے کی کوشش کی تھی !!

Thursday, November 10, 2022

سر نہ مُنڈانے والا قلندر


علامہ اقبال کے 145 ویں یومِ پیدائش پر عام تعطیل کا اعلان ہوا۔ کیا یہ کافی ہے؟
اصل سوال یہ ہے کہ کیا علامہ کی عظمت اور خاص طور پر ان کی اہمیت کا احساس نئی نسل کو ہے؟ کیا نوجوان پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ اتنے قریب کے زمانے میں ایسے شخص کا وجود ایک نعمت ہی نہیں معجزہ بھی تھا؟ اگر یہ کہا جائے کہ رومی کے بعد ان کے پائے کا کوئی اور نابغہ نہیں پیدا ہوا تو مبالغہ نہ ہوگا۔ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایسی ہستی چوراسی برس پہلے ہم میں موجود تھی! صرف چوراسی برس پہلے! اس میں کیا شک ہے کہ اس سارے عرصے میں بڑے بڑے لوگ آئے۔ مذہب کے شعبے میں‘ فلسفہ و حکمت کے میدان میں‘ تحریر اور تقریر میں یکتا! مگر تاثیر کا جو کرم خزانۂ خاص سے علامہ کو بخشا گیا‘ کسی اور کو نہیں ملا۔ علم تو بہت سوں کے پاس ہوتا ہے‘ تاثیر ایک اور ہی شے ہے۔ اب تو محققین نے ان کی زندگی کے ایک ایک سال‘ ایک ایک مہینے کی مصروفیات پر مشتمل کتابیں لکھ دی ہیں۔ پڑھ کر تعجب ہوتا ہے۔ عملی زندگی میں وہ ایک انتہائی مصروف اور سرگرم انسان تھے۔ پنجاب کی سیاست میں ان کی شرکت بھر پور رہی۔ یونیورسٹیوں کے نصاب مرتب کیے۔ ممتحن کے فرائض سرانجام دیے۔ قومی سطح کے تمام جلسوں اور تقاریب میں شامل رہے۔ کبھی مدراس جا کر لیکچرز دے رہے ہیں۔ کبھی علی گڑھ یونیورسٹی جا رہے ہیں تو کبھی حیدر آباد اور کبھی الٰہ آباد۔ سید سلیمان ندوی اور سید راس مسعود کی معیت میں افغانستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر افغان جنرل نادر شاہ سے ملاقات کر رہے ہیں۔ کبھی جواہر لال نہرو ان سے ملاقات کے لیے آرہے ہیں۔ کبھی انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسے میں نظم سنا رہے ہیں۔ خطوط کے جوابات بھی پابندی سے دیتے ہیں۔ دنیا بھر کے بلند پایہ اہلِ علم سے بھی رابطے میں ہیں۔ اکل حلال کے لیے وکالت بھی کر رہے ہیں۔ اپنے دوست گرامی سے شاعری کے فنی مباحث بھی چھیڑ رہے ہیں۔ سید سلیمان ندوی سے دقیق علمی استفسارات بھی کر رہے ہیں۔ ان سب مصروفیات کے ساتھ شاعری اور اتنی مہتم بالشان شاعری بھی کر گئے جو آج بھی دلوں میں طوفان برپا کر رہی ہے۔ انہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ صرف ایک شاعر ہی نہیں‘ صرف ایک فلسفی اور استاد ہی نہیں‘ دلوں میں تڑپ پیدا کرنے والی مافوق الفطرت طاقت کے بھی مالک ہیں۔ اسی لیے کہا:
حلقہ گردِ من زنید ای پیکرانِ آب و گِل
آتشی در سینہ دارم از نیاگانِ شما
اے پانی اور مٹی سے بنے ہوئے پیکرو! میرے گرد جمع ہو جاؤ۔ میرے سینے میں وہ آگ جل رہی ہے جو تمہارے اجداد میں تھی!
ہمارا المیہ یہ ہے کہ علامہ اقبال ہمارے پاس ہیں مگر ہم ان سے دور ہیں اور ہر روز دور تر ہو رہے ہیں۔ اقبال کے نام پر ادارے بھی ہیں جو کئی خاندانوں کی پرورش کا سبب بن رہے ہیں۔ اقبال ڈے کی چھٹی بھی ہے۔ ہمارے ٹاپ کے مغنّیوں اور موسیقاروں نے کلام اقبال گایا بھی ہے! ہم نے کلام اقبال سے قوالیاں بھی کشید کی ہیں مگر اقبال شناسی سے پھر بھی کئی فرسنگ دور ہیں! اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو زبان ایک ہزار سال تک ہمارے تہذیبی‘ ثقافتی‘ علمی اور ادبی اظہار کا ذریعہ رہی‘ اسے ہم نے غیر ملکی زبان سمجھ لیا اور اس سے کنارہ کش ہو گئے۔ جن جڑوں ( رُوٹس) کی تلاش میں دنیا ماری ماری پھر رہی ہے‘ ہم نے انہیں اپنے ہاتھوں سے کاٹ کر پرے پھینک دیا۔ ہم اُس کوّے کی طرح ہیں جو ہنس کی چال چلا تھا۔ دانش کے ذخیرے جو ہمارے تھے‘ آج ایک دنیا ان سے وابستہ ہے مگر خود ہم ان سے بے بہرہ ہیں!
یہ ماتمی صورتحال یکدم ظہور پذیر نہیں ہوئی۔ اپنی زبان‘ اپنی ثقافت‘ اپنے ہیروز‘ اپنی تاریخ سے ناواقفیت‘ جو آج کی نسل میں دیکھی جا سکتی ہے‘ ایک مسلسل عمل کا نتیجہ ہے۔ جس زمانے میں انگریز ہم پر حکمران تھے‘ اسی زمانے میں وسط ایشیا پر روسی قابض تھے۔ بظاہر روسی زیادہ ظالم دکھائی دیتے تھے۔ لباس بھی بدلوا دیا اور زبان کا رسم الخط بھی! مگر انگریز زیادہ شاطر ثابت ہوا۔ اس نے سوچا کہ رسم الخط بدلا تو زبان پھر بھی بچ جائے گی۔ کیوں نہ زبان ہی سے جان چھڑا لی جائے۔ چنانچہ اس نے انگریزی نافذ کر دی۔ ہمارے عالم فاضل راتوں رات جاہل ہو گئے۔ بس ایک دو نسلوں کے مرنے کی دیر تھی۔ امیر خسرو‘ مسعود سعد سلمان‘ بیدل‘ فیضی‘ ابوالفضل‘ عبد الرحیم خانخاناں‘ غنیمت کنجاہی‘ غنی کاشمیری‘ میرزا مظہر جانِ جاناں اور بے شمار دوسرے شاعر اور ادیب عملاً عاق (disown) ہو گئے۔ غالب کی فارسی شاعری بھی طاقِ نسیاں پر دھر دی گئی۔ انگریزی پلان کامیاب رہا۔ فارسی سے ہم محروم کر دیے گئے اور یہ انگریزی پلان اتنا دور رس تھا کہ آزادی کے بعد بھی اس کے اثرات جاری و ساری رہے اور آج بھی ہیں‘ اس حد تک کہ آج کی نسل اردو سے بھی بے نیاز ہے اور تقریباً نابلد! چلیے! اقبال کا فارسی کلام تو فارسی میں ہے‘ اردو کا کلام کون سی توجہ پا رہا ہے؟ مہنگے ماڈرن سکولوں میں او لیول اور اے لیول کرنے والے طلبہ و طالبات تو مکمل طور پر کیمبرج اور آکسفورڈ کے نام پر بنائے گئے نام نہاد نصاب ہائے تعلیم کی نذر ہو گئے۔ اقبال کی اردو تصانیف کے نام بھی اکثر کو نہیں معلوم! رہے سرکاری سکول تو کون سے سکول اور کیا استاد! قصبوں اور قریوں میں قائم ہزاروں لاکھوں سکولوں میں جو تعلیم دی جا رہی ہے‘ شہروں میں رہنے والے لوگ اس کے معیار کا تصور بھی نہیں کر سکتے! وقت کی پابندی ہے نہ اساتذہ کی تعداد ہی پوری ہوتی ہے۔ جو اساتذہ موجود ہیں ان میں سے بھی بہت سوں کی توجہ اپنی دکانوں اور کھیتی باڑی پر رہتی ہے۔ سکولوں میں ٹاٹ تک مہیا نہیں کیے جاتے۔ اس ماحول میں اور سہولتوں کی اس ہولناک عدم موجودگی میں اقبال شناسی کا امکان دور دور تک نہیں! ہاں لاکھوں میں کوئی ایک طالب علم اس طرف آنکلے تو اور بات ہے۔ وہ بھی اپنی غیر معمولی ذہانت اور طبعی رجحان کی وجہ سے یا اپنے گھر اور خاندان کے اثر تلے!
ضمیر جعفری نے کہا تھا:
کوئی رومیؔ، کوئی حافظؔ، کوئی اقبالؔ پیدا کر
کہ شہروں کی بڑائی ان کے میناروں میں ہوتی ہے!
زندہ قومیں اپنی روایت اور اپنی ثقافت کے ساتھ جُڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ ہمارا حال مخدوش ہے۔ مستقبل غیر یقینی! جو کچھ ماضی نے دیا تھا اسے بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ یہی استعمار کا منصوبہ تھا۔ یہ منصوبہ کامیاب ہوا! غالبؔ خوش قسمت ہے کہ گلزار نے ایک معرکہ آرا ڈرامہ اس کے بارے میں لکھا اور پروڈیوس کیا۔ اس کے طفیل بہت سے لوگ غالب سے آشنا ہوئے۔ اقبال پر تو کوئی ایسا کام بھی نہ ہو سکا! طلبہ اور عام آدمی کو تو چھوڑیے، اساتذہ میں سے بھی کتنوں کو معلوم ہے کہ ''مسجد قرطبہ‘‘ اور ''ساقی نامہ‘‘ اردو شاعری کا معجزہ ہیں! اقبال نے کہا تھا:
بیا بہ مجلسِ اقبالؔ و یک دو ساغر کَش
اگرچہ سر نتراشد، قلندری داند
کہ اقبال کی محفل میں آ اور ایک دو ساغر کھینچ۔ سر نہیں منڈاتا مگر قلندری جانتا ہے۔
افسوس! ہم ان کے ہتھے چڑھ گئے جو سر تو منڈاتے ہیں مگر قلندری کی الف بے سے ناواقف ہیں!
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Tuesday, November 08, 2022

اگر گھوڑا ہی مُک گیا تو؟


گھر کے بڑے جب مسلسل جھگڑوں اور لڑائیوں میں لگے ہوں اور سارا وقت کچہریوں اور تھانوں کے چکر لگاتے رہیں تو سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے۔ بڑوں کے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ بڑوں کی ترجیحات میں ان کا کوئی وجود ہی نہیں رہتا۔ ان کی تعلیمی ترقی رک جاتی ہے۔ ان کی صحت کی دیکھ بھال نہیں ہوتی۔ وہ کہاں جاتے ہیں؟ کس کے ساتھ کھیلتے ہیں؟ سکرین پر کیا دیکھتے ہیں؟ کسی کے پاس ان سب پہلوؤں پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔
اسی پر عوام اور سیاستدانوں کو قیاس کیجیے۔ ہم عوام گویا بچے ہیں۔ سیاستدان ہمارے بڑے ہیں۔ سیاستدان حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں‘ ان کا اولین فریضہ عوام کی نگہداشت ہے۔ عوام کی تعلیم‘ عوام کی صحت‘ عوام کی تربیت‘ عوام کی حفاظت‘ یہ سارے کام ایک جمہوری سیٹ اپ میں سیاست دانوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے اہلِ سیاست جس طرح باہمی جنگ و جدل میں مصروف ہیں‘ جس طرح آپس میں گتھم گتھا ہیں اور جس طرح سر پھٹول ہو رہی ہے‘ اس میں عوام مکمل طور پر نظر انداز ہورہے ہیں۔ حکومتوں کے عدم استحکام نے سوشل سیکٹرز کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ سرکاری سکولوں کا برا حال ہے۔ سرکاری ہسپتالوں پر توجہ دینے والا کوئی نہیں۔ عمران خان کے پاس عزم بھی تھا اور کچھ منصوبے بھی! مگر اپنے دورِ اقتدارمیں ان کی ساری توجہ اپوزیشن کو سبق سکھانے پر مرکوز رہی۔ وہ ذہنی طور پر مسلسل حالتِ جنگ میں رہے۔ رہی سہی کسر ان کے غیر منتخَب مشیروں اور دوستوں نے پوری کر دی! عمران خان کی حکومت کوئی ایسا انقلابی قدم اٹھانے سے قاصر رہی جو عوام کی حالت بدل سکتا! معاشرہ حکومت کا محتاج ہوتا ہے! معاشرے کی ذہنی بلندی یا ذہنی پستی کا انحصار حکومتی پالیسیوں پر ہوتا ہے۔ کسی حکومت کا سارا زور اگر اپنی بقا پر ہو یا سیاسی دشمنوں کو کچلنے پر ہو تو صاف ظاہر ہے کہ عوام کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہو گا۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ سیاست کو ایک طرف رکھ دیجیے۔ آپ عمران خان کے ساتھ ہیں یا کسی دوسری پارٹی کے ساتھ‘ معاشرے کی ذہنی حالت پر غور کیجیے۔ عورت آج بھی پاؤں کی جوتی ہے۔ لڑکیاں بوجھ سمجھی جاتی ہیں۔ نئی صدی کا ایک چوتھائی ختم ہونے کو ہے مگر آبادی کی اکثریت آج بھی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی طرف راغب نہیں ہو رہی۔ چند بڑے شہروں کے شاپنگ مالز میں گھومتی فیشن ایبل لڑکیاں دیکھ کر کوئی نتیجہ مت نکالیے۔ ان کروڑوں لڑکیوں پر غور کیجیے جو بستیوں‘ قریوں اور قصبوں میں رہ رہی ہیں۔ تعلیم کی راہ میں والدین اور بزرگوں کا مائنڈ سیٹ رکاوٹ بنا ہوا ہے اور شادی کی راہ میں جہیز حائل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ لکھنے والا اپنا ذاتی مشاہدہ قارئین کے ساتھ شیئر کر چکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑے شہر کی بات ہے۔ میاں بیوی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کا پورا حلقۂ احباب سائنسدانوں‘ پروفیسروں اور اساتذہ پر مشتمل ہے۔ دوسری لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ وہ مٹھائی تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ احباب مٹھائی لے کر‘ کھا کر‘ اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں۔ نوزائیدہ لڑکی کے یہ ماں باپ بار بار بتاتے ہیں کہ وہ خوش ہیں اور یہ ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر ہرکوئی ان سے ہمدردی کرتا ہے۔ ہرکوئی یہ امید دلاتا ہے کہ اگلی مرتبہ لڑکا پیدا ہو گا۔ بچی کا باپ جہاں کام کرتا ہے وہاں‘ اس کا باس‘ جو ایک اعلیٰ‘ انتہائی اعلیٰ‘ سائنسدان ہے‘ اور طرہ یہ کہ باریش ہے اور مذہبی‘ اسے پڑھنے کے لیے چند آیات بتاتا ہے کہ یہ پڑھو تو اگلی بار بیٹی نہیں‘ بیٹا ہوگا۔ یعنی؛
چو کفر از کعبہ برخیزد‘ کجا ماند مسلمانی!
بس ! مٹی میں گاڑنے کی کسر رہ گئی ہے۔
''اور جب ان میں سے کسی کی بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے۔ اس خوشخبری کی برائی کے باعث لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے‘ آیا اسے ذلت قبول کر کے رہنے دے یا اس کو مٹی میں دفن کر دے‘ دیکھو کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں‘‘۔
ضلع اور تحصیل لیول کے سرکاری ہسپتال‘ عملاً مذبح خانے ہیں۔ اتائیوں کی چاندی ہے۔ تعویذ فروشوں اور جھاڑ پھونک کرنے والوں کی پانچوں گھی میں ہیں۔ ایک صدی ہونے کو ہے جب اقبال نے کہا تھا؛
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دِیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو‘ دہاتی ہو‘ مسلمان ہے سادہ
مانندِ بُتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں‘ سُود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرقہ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!
آج بھی صورتحال وہی ہے۔ جہالت ہر طرف ناچ رہی ہے۔ ضعیف الاعتقادی اور توہّم پرستی کا دور دورہ ہے۔ یہ سارا مسئلہ مائنڈ سیٹ کا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو حکومتی پالیسیاں تبدیل کر سکتی ہیں۔ سوشل سیکٹرز پوری طرح بے نیازی کا شکار ہیں۔ جب گاؤں میں ڈسپنسری نہیں ہو گی‘ جب قصبے کے ہسپتال میں ڈاکٹر ہوگا نہ ادویات نہ آلات تو نعم البدل دم درود اور تعویذ گنڈہ ہی ہو گا!
کیا یہ حقیقت ہمارا منہ نہیں چڑا رہی کہ پنچایتیں‘ متوازی عدلیہ کا کردار ادا کر رہی ہیں! آئے دن پنچایتوں کے ہوشربا فیصلے اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کی شادیاں بوڑھوں سے کی جا رہی ہیں۔ قانون اندھا ہے اس لیے اسے یہ سب کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ کراچی‘ اسلام آباد اور لاہور کے رہنے والے سوچ بھی نہیں سکتے کہ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں عورت ہونے کا کیا مطلب ہے! تعلیم تو دور کی بات ہے‘ ایک ہاری کی بیوی یا بیٹی یا بہو کی عزت ہی کی کوئی ضمانت نہیں! یہ مسئلہ زرعی اصلاحات کا ہے۔ بھارت کی نسبت ہم اس ضمن میں کوسوں پیچھے ہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جاگیردار کی گرفت آہنی ہے۔ پیری فقیری اور جاگیرداری کے اشتراک کا جال منتخب اداروں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ''ٹو اِن وَن‘‘ کی بدترین مثال ہے۔ ہم سب ہر سال‘ ہر عرس کے موقع پر اُس معروف سیاستدان کی تصویر دیکھتے ہیں جو طُرّے والی پگڑی پہن کر‘ چادر اوڑھ کر‘ مریدوں کو فیضیاب کر رہا ہوتا ہے۔ کیا ضرورت ہے اسے اپنے مریدوں کو یہ بتانے کی کہ وہ کسی مافوق الفطرت طاقت کا مالک نہیں؟ وہ آنکھیں بند کرکے اسے یا اس کی ذرّیّت کو ووٹ دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے!
یہ ہے اُس معاشرے کی ایک جھلک جس کے سیاستدان آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔ الزامات‘ دھمکیاں‘ پھر جوابی الزامات اور جوابی دھمکیاں! سازشیں! سازشی تھیوریاں‘ دشنام طرازیاں اور نہ جانے کیا کیا! ہر نیا دن معاشرے کو نئے پاتال کی طرف گرا رہا ہے! سیاستدانوں میں سے کچھ کے بچے یورپ میں ہیں اور جن کے بچے یہاں ہیں ان کی نشستیں اسمبلیوں میں‘ نسل در نسل‘ محفوظ ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان سیاست دانوں کو معاشرے کے حوالے سے اپنے فرائض کا احساس بھی ہے یا نہیں؟ کیا اقتدار کی یہ جنگ‘ یہ آنکھ مچولی‘ یہ میوزک چیئر‘ اسی طرح چلتی رہے گی؟ خدانخواستہ معاشرہ ہی ریزہ ریزہ ہو گیا‘ تو سیاستدان حکومت کس پر کرینگے؟
سکھ گھوڑے پر سوار تھا۔ سرکتے سرکتے پیچھے کی طرف ہٹتا گیا۔ گر پڑا تو کہنے لگا گھوڑا ہی مُک گیا۔ ہمارا گھوڑا بھی مُک گیا توکیا کریں گے

Monday, November 07, 2022

معظم گوندل اور اشتیاق


عمران خان پر حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایسا حملہ کسی عام آدمی پر بھی نہیں ہونا چاہیے چہ جائیکہ عمران خان جیسے مقبول لیڈر پر ! جب نوبت بندوق کی گولی تک جا پہنچے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اس نوبت تک پہنچنے کے لیے بہت سا کام کیا گیا ہے ! اس سے پہلے بہت سے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے الزام کا مرحلہ آتا ہے ! الزام کے بعد اگلا منطقی مرحلہ قانونی کارروائی کا ہونا چاہیے۔ مگر جب قانونی کارروائی کے بجائے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے تو اگلا مرحلہ دھمکی کا ہو تا ہے۔ پھر گالی دی جاتی ہے۔اور آخر میں بندوق کی گولی چلتی ہے!
اس ملک میں سیاست کچھ سالوں سے الزام‘ دھمکی اور گالی کے گرد طواف کر رہی ہے۔ قانون کی کوئی اہمیت نہیں ! عدالت حق میں فیصلہ کرے تو اچھی ہے۔ خلاف فیصلہ کرے تو بری ! ادارے ساتھ دیں تو قابلِ قبول ہیں۔ چوں چرا کریں تو قابلِ نفرت! جب خود پر لگے کسی الزام کو درخور اعتنا نہ گردانا جائے اور دوسروں پر الزامات کی بارش کر دی جائے‘ جب دوسرے کی بات نہ سنی جائے اور اپنی بات مسلسل سنائی جائے‘ جب دلیل کے بجائے گالی لڑھکائی جائے تو بندوق کی گولی کو کوئی نہیں روک سکتا !
ایک سیاسی لیڈر میں اور محلے کے ایک ناراض نوجون میں فرق ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ جب سیاسی لیڈر کا تکیہ کلام یہ ہو کہ ''نہیں چھوڑوں گا‘‘ یا '' اوئے کان کھول کر سن لو‘‘ تو سیاست محلے کے لڑاکا نوجوانوں کی سطح پر آجاتی ہے۔ جب لیڈر‘ لڑکوں کی طرح چہرے پر ہاتھ پھیر کر کہے کہ '' نہیں چھوڑوں گا‘‘ تو عوام اس سے بھی دو ہاتھ آگے جائیں گے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست ابتذال اور پستی کا شکار ہو چکی ہے۔ دھونس اور دھاندلی کا دور دورہ ہے۔ دلیل کونوں کھدروں میں چھپی زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔
اگر یہ حملہ سیاسی مخالفوں کی سازش ہے تو اس کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہونی چاہیے اور اصل ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔اگر یہ مذہبی انتہا پسندی کا شاخسانہ ہے تو سوچنا چاہیے کہ اس کے اسباب و علل کیا ہیں۔ مذہب کے نام پر جو انتہا پسندانہ سوچ پیدا کی جارہی ہے اس کے آگے بند باندھنا ہو گا ورنہ سب کچھ اس میں بہہ جائے گا۔ اس سے پہلے احسن اقبال صاحب پر حملہ ہوا۔ سیالکوٹ میں ایک غیر ملکی غیر مسلم کو بے دردی سے مار دیا گیا۔ بدنامی ہوئی اور جگ ہنسائی ! بے شمار واقعات ایسے ہوئے ہیں جو باعثِ ندامت ہیں اور عالمی برادری میں ہماری شرمساری کی وجہ بنے ہیں۔ افسوس! ہم نے ان سے کوئی سبق سیکھا نہ کوئی لائحہ عمل ہی طے کیا۔اس انتہا پسندی کی ذمہ داری معاشرے کے کسی ایک طبقے پر نہیں ڈالی جا سکتی! صرف مدارس اور علما کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا ایک لایعنی تسہیل (oversimplificatin)ہے۔ اس کی پشت پر اقتصادی سچائیاں منہ کھولے کھڑی ہیں۔ کیا پالیسی سازوں نے کبھی سوچا ہے کہ انہی علاقوں میں انتہاپسند کیوں زیادہ ہیں جہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں ؟ جہاں جاگیرداروں‘ خانوں اور سرداروں کی حاکمیت ہے ؟ جہاں سکول کالج اور یونیورسٹیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ اور بات کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں نے بھی انتہا پسند خاصی تعداد میں پیدا کیے ہیں!
اس وقت سیاسی حوالے سے ہم تباہی کے گڑھے کے عین سامنے کھڑے ہیں۔ ایک ہیبت ناک ڈیڈ لاک‘ سروں پر تنا ہوا ہے۔ ہم کیا اور ہماری بساط کیا! تاہم ایک دردمند پاکستانی کی حیثیت سے چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ بقول احمد ندیم قاسمی :
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پر تولتی ہے
٭ وفاقی حکومت کی طرف سے وزرا اور ارکان ِاسمبلی پرمشتمل فی الفور ایک وفد ترتیب دیاجائے۔ یہ وفد عمران خان صاحب کی عیادت کے لیے ان کے پاس جائے۔ نیک خواہشات کا اظہار کرے اور ان کی صحت کے لیے دعا کرے۔ خان صاحب وفد کو ملیں یا نہ ملیں‘ حکومت کو اس ضمن میں اپنا اخلاقی فرض ضرور سرانجام دینا چاہیے۔
٭ تحریک انصاف اور اس کی مخالف جماعتوں کے درمیان گفت و شنید کا دروازہ ہر حال میں کھلنا چاہیے۔ شائستگی اور تہذیب کا تقاضا یہی ہے۔ فریقین کو سمجھنا چاہیے کہ مسائل بیٹھ کر بات چیت کرنے سے طے ہوتے ہیں۔ للکارنے اور آوازے کسنے سے معاملات مزید بگڑتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں‘ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے دوسری صف کے رہنما ملاقات کریں۔ گفت و شنید کا ایجنڈا طے کریں۔ برف پگھلائیں۔کسی درمیانی نقطۂ اتصال تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
٭ تحریک انصاف کے معتدل عناصر اپنے لیڈر کو قائل کریں کہ آخر کار انہیں مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہی ہوگا۔ اس کام میں وہ لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں جو تحریک انصاف میں شامل نہیں مگر خان صاحب سے بات کر سکتے ہیں۔ عمران خان جنہیں پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کہتے رہے ہیں‘ اگر حکمرانی کا تاج اپنے ہاتھوں سے ان کے سر پر رکھ سکتے ہیں تو جن دوسرے افراد کو وہ ڈاکو اور چور کہتے ہیں‘ ان سے بات کیوں نہیں کر سکتے ؟
٭ آخری مرحلے میں پی ڈی ایم جماعتوں کے سربراہ اور عمران خان مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور تمام متنازع امور طے کریں۔ ایک درمیانی راستہ ہر مسئلے کا‘ کہیں نہ کہیں‘ موجود ہوتا ہے! اس درمیانی راستے تک پہنچنے کے لیے ہر رکاوٹ کو عبور کرنا چاہیے ! اس کے سوا جو تدبیر بھی کی جائے گی وہ خرابی پر منتج ہو گی! ایجی ٹیشن کا راستہ جس جنگل کی طرف جاتا ہے وہاں عافیت نہیں‘ تباہی ہے! اس تباہی کی ایک جھلک ملک دیکھ چکا ہے۔ املاک جلانا اور ملکی اور انفرادی اثاثے برباد کرنا‘ غیر ملکی ایجنڈا تو ہو سکتا ہے‘ کسی محب وطن پاکستانی کا نہیں ہو سکتا! معظم گوندل نامی شخص جوایک ماہ پہلے کویت سے وطن واپس آیا تھا‘ فائرنگ سے جاں بحق ہو گیا۔ اس کا کیا قصور تھا؟ اس کی بیوہ اور بچوں کی کفالت کون کرے گا؟اسلام آباد‘ فیض آباد کے مقام پر ایک بے گناہ نوجوان‘ اشتیاق‘ کی موٹر سائیکل کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس سے پارٹی کو کیا فائدہ حاصل ہوا؟ بہت سے دعوے کرنے والی اس پارٹی کے کارکن بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو دوسرے لوگ کرتے رہے ہیں۔ یہ موٹر سائیکل اس غریب شخص کا واحد ذریعۂ روزگار تھا جس سے وہ اپنے خاندان کا پیٹ پال رہا تھا اور اپنی تعلیم کے اخراجات بھی پورے کر رہا تھا۔
آخر کب تک ہم عوام‘ سیاست دانوں کو اقتدار میں لانے کیلئے‘ ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں گے ؟دریاں بچھانے‘ کرسیاں سَیٹ کرنے‘ نعرے لگانے اور جلوس نکالنے کی حد تک تو لیڈروں کی خدمت ٹھیک ہے مگر دوسروں کی املاک تباہ کرنا کون سی خدمت ہے؟ بر صغیر کی بھی عجیب قسمت ہے۔ پہلے ہم لوگ بادشاہوں کیلئے لاشوں کے ڈھیر لگاتے رہے۔اپنی جانیں قربان کرتے رہے۔ آج جب نام نہاد جمہوریت کا زمانہ ہے تو صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ تخت نشینی کی جنگیں آج بھی لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں۔ خانوادے آج بھی حکمرانی کر رہے ہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ پر کئی عشروں سے مخصوص خاندانوں کا قبضہ ہے تو تحریک انصاف بھی ربع صدی سے ایک ہی شخصیت کے ہاتھ میں ہے۔ جمہوریت بھی یہاں آکر کانِ نمک میں نمک ہی ہو گئی۔انجم رومانی نے کہا تھا: 
انجمؔ غریبِ شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے

Thursday, November 03, 2022

اُف !! یہ کفّار !!


یہ ایک کچھوا نما شے تھی جو لان میں آہستہ آہستہ چل رہی تھی مگر کچھوا بھی نہ تھی۔کافی دیر غور سے دیکھنے کے باوجود کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا شے ہے! پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ روبوٹ ہے! لان میں گھاس کاٹنے والا۔ چنانچہ اپنا کام کر رہا ہے!
خدا کی پناہ! یہ کفار بھی کتنے عجیب ہیں! حیرت سے انسان گُنگ ہو جاتا ہے! ہر مسئلے کا حل نکال لاتے ہیں! اور حل کے پیچھے‘ اکثر و بیشتر‘ فلسفہ ایک ہی ہے کہ انسان کا دوسرے انسان پر انحصار کم ہو جائے! اب گھاس کاٹنے والے روبوٹ کی ایجاد کے بعد اُس بندے کی ضرورت نہیں رہی جو آکر مشین سے گھاس کاٹتا تھا۔سامان اٹھانے والے قُلی سے نجات پانا تھی تو صندق کے نیچے پہیے لگا لیے۔اٹھائے بغیر اسے ایک ہاتھ سے چلاتے جائیے۔ شہر بڑے ہو گئے۔ راستے یاد رکھنے مشکل ہو گئے۔ کس کس سے پتا پوچھتے پھریں۔ کفار نے ہر گاڑی میں‘ ہر موبائل فون میں ایک بی بی بٹھا دی ہے جو آپ کو نقشہ دکھاتی جاتی ہے اور بتاتی جاتی ہے کہ کہاں مُڑنا ہے اور کہاں سیدھا چلتے جانا ہے۔ کسی کی مدد کے بغیر آپ ٹھیک اُس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں آپ کو جانا ہے! چیک لکھ کر بینک کے کیشیئر کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت نہیں۔ کارڈ اے ٹی ایم میں ڈالیے۔ گِنے گنائے کرنسی نوٹ باہر نکل آئیں گے۔ بجلی کا یا گیس کا یا فون کا بل ادا کرنا ہے تو کپڑے بدل کر بینک میں جانے کی یا ملازم کو بھیجنے کی ضرورت نہیں‘ بستر پر بیٹھے بیٹھے آن لائن رقم بھیج دیجیے۔ بازار جا کر دکاندار کے متھے لگنے کی ضرورت نہیں‘ آن لائن آرڈر کیجیے‘ گھر بیٹھے بیٹھے مطلوبہ شے حاضر ہو جائے گی۔ اب ہاکر کی ضرورت نہیں‘ کلک کیجیے۔ تازہ اخبار سامنے کھل جائے گا۔ صرف آپ کے شہر کا نہیں‘ دنیا کے کسی ملک کا اخبار‘ کسی بھی شہر سے شائع ہونے والا اخبار‘ صرف ایک کلک سے پڑھ سکتے ہیں۔ ٹرین میں بیٹھ کر کہیں جانا ہے۔ کھڑ کی سے ٹکٹ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ مشین میں پیسے ڈالیے‘ کھٹ سے ٹکٹ باہر آجائے گا۔ ٹرین آگئی۔ دروازے خود بخود کھل گئے۔ مسافر اترے۔ نئے مسافر سوار ہو ئے۔ پھر خود ہی دروازے بند بھی ہو گئے۔ دروازے پر گھنٹی ہوئی۔ پہلے باہر جا کر دیکھنا پڑتا تھا یا ملازم جاتا تھا پھر آکر بتاتا تھا کہ کون آیا ہے۔ اب گھنٹی کی آواز آئی ہے تو سامنے لگی سکرین پر نظر ڈالیے۔ آنے والا دکھائی دے گا۔ اس سے بات کرنی ہے کہ کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ کیا کام ہے؟ تو انٹرکام اٹھائیے اور جہاں بیٹھے ہیں‘ وہیں بیٹھے بیٹھے سب کچھ پوچھ لیجیے۔ خط لکھنا ہے تو لفافہ چاہیے نہ پوسٹ آفس جا کر خط پوسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔اب ڈاکخانہ بھی آپ کے پاس ہے۔ چھاپہ خانہ بھی گھر میں ہے۔ کسی مسلمان نے کسی اجنبی شہر میں نماز ادا کرنی ہے۔ کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ قبلہ کس طرف ہے؟ کفار نے کمپاس (قطب نما) آپ کے موبائل فون میں ڈال دیا ہے۔ موبائل فون آپ کی جیب میں ہے۔ سمت دیکھیے اور کسی سے پوچھے بغیر اپنی نماز ادا کر لیجیے! دلی میں انگریز آئے تو غالب ماچس دیکھ کر کہنے لگے: کیا لوگ ہیں! جیب میں آگ لیے پھرتے ہیں! غالب آج ہوتے تو کفار کی حرکتیں دیکھ کر دنگ رہ جاتے! حد ہو گئی! کفار نے ہماری جیب میں سب کچھ رکھ دیا۔ ٹارچ بھی! کیلکولیٹر بھی! قطب نما بھی! کیمرہ بھی! ٹیلیفون بھی! ڈاکخانہ بھی! گھڑی بھی! کیلنڈر بھی! ہماری مذہبی کتاب بھی۔ تصویروں والا البم بھی! ڈکشنری بھی! نمازوں کے اوقات بھی! ہمارا بینک اکاؤنٹ اور اس کا بیلنس بھی! ٹیکسی بلانے کا انتظام بھی۔ ہمارا پسندیدہ گویّا بھی‘ شاعر بھی‘ قاری بھی! اور دنیا بھر کے اخبار ات اور ٹی وی چینل بھی اور لائبریری بھی! دنیا میں جہاں بھی جس سے بھی بات کر رہے ہوں‘ اس کی تصویر بھی! سفر میں ہیں تو پیچھے گھر کا اندر بھی اور باہر بھی! گھر میں کھانا منگوانا ہے یا سودا سلف‘ جیب سے اسی حیران کن‘ پانچ انچ لمبی اور اڑھائی انچ چوڑی مشین کو نکالیے‘ کھانا اور سودا سلف‘ سب کچھ گھر پہنچ جائے گا!! داد تو دینی پڑے گی نا ان کفار کو!
کہیں پڑھا تھا کہ ایک بار مصری صدر انور السادات یورپ کے دورے پر گئے تو ایک شخص ان کے ساتھ‘ وفد میں‘ ایسا بھی تھا جس کے بارے میں میزبانوں کو معلوم نہیں ہورہا تھا کہ کون ہے! پتا چلایا گیا۔ وہ انور السادات کے پاؤں دبانے والا اور مالش کرنے والا تھا۔ کفار نے اس کا بھی حل ڈھونڈ نکالا۔ اب آپ نے پاؤں دبوانے ہیں یا سر‘ کمر پر مساج کرانا ہے یا ٹانگوں پر۔ کرسی پر بیٹھیے‘ بٹن دبائیے‘ لیجیے مساج شروع ہو گیا۔ کسی حجام کی ضرورت ہے نہ مساجیے کی! آنکھیں بند کیجیے اور لطف اندوز ہوں! یہی نہیں۔ کپڑے دھونے ہیں تو دھوبی کی ضرورت نہیں۔ برتن دھونے ہیں تو ڈش واشر میں ڈال کر بٹن دبا دیجیے۔ دھل جائیں گے! گیٹ کھولنا ہے تو گاڑی سے اترنے کی ضرورت نہیں‘ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی بٹن دبائیے۔ گیٹ کھل جائے گا۔درزی سے کفار نے ڈیڑھ سو سال پہلے ہی نجات حاصل کر لی تھی۔سر سید جب فرانس گئے جنوبی ساحل پر بحری جہاز سے اترے تو برطانیہ پہنچنے کیلئے انہیں فرانس سے گزرنا تھا۔ ان کے ایک ساتھی کے پاس مناسب لباس نہیں تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ سلے سلائے تیار کپڑے بازار سے مل جائیں گے۔سر سید کے بقول دکان پر ایک مس صاحبہ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے فوراً ان کے ساتھی کو نیا لباس دے دیا جو انہیں پورا بھی تھا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے کام ہم کیوں نہ کر سکے اور کیوں نہیں کرتے؟ تو اس کا جواب جاننے کے لیے کسی پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے نہ راکٹ سائنس پڑھنے کی۔ ہمارے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے آبادی کی کثرت! ہم ہر سال آبادی میں بے پناہ اضافہ کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس ہر کام کے لیے افرادی قوت وافر موجود ہے۔برتن صاف کرنے کیلئے‘ کپڑے دھونے کیلئے‘ گیٹ کھولنے اور بند کرنے کیلئے‘ لان کی گھاس کاٹنے کیلئے‘ مالش کرانے اور پاؤں دبوانے کیلئے‘سامان اٹھانے کیلئے‘سودا سلف لانے کیلئے‘بل جمع کرانے کیلئے غرض ہر کام کیلئے الگ الگ‘کئی‘ ملازم موجود ہیں۔ ہمیں سائنس پڑھنے کی ضرورت ہے نہ ایجادات کرنے کی۔ہمارے پاس تو ما شاء اللہ ایسے ایسے مقرر موجود ہیں جو کثرتِ ازدواج اور کثرتِ اولاد کیلئے لوگوں کو قائل کرنے میں دن رات مصروف ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جب ہماری آبادی حد سے بڑھ جائے گی تو یہ کفار کو بہا لے جائے گی۔ کیا کہا؟ علم مومن کی میراث ہے؟ ارے بھئی! سائنس اس علم میں شامل نہیں!! علم تو یہ جاننے کا اور بتانے کا نام ہے کہ دائرۂ اسلام سے خارج کون کون ہے؟ نماز کس کس کے پیچھے جائز نہیں! جہنم میں کون کون جائے گا؟ کون کون سی مسجدیں کس کس گروہ کی ہیں! کس مسلمان ملک نے کس مسلمان ملک سے لڑائی کرنی ہے؟ عورت کیوں ناقص العقل ہے؟ لڑکی سے پوچھے بغیر اس کی شادی کرنے میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں؟ بیٹے بیٹیوں کی نسبت برتر کیوں ہیں؟ فیوڈلزم کیوں ضروری ہے؟ سرداری سسٹم کو دوام کیسے بخشا جائے! کھیرا کاٹنے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ ہم کفار کی طرح احمق تھوڑی ہیں کہ ایجادات کرنے بیٹھ جائیں؟؟۰

Tuesday, November 01, 2022

گوجرانوالہ سے برطانیہ کی وزارتِ عظمیٰ تک



چلیے! 1757ء ہی سے بات شروع کرتے ہیں!�اگرچہ اس سے پہلے ہی انگریزی عمل دخل قائم ہو چکا تھا اور مغلیہ سلطنت کے دست و بازو ٹوٹنا شروع ہو چکے تھے؛ تاہم پہلی فیصلہ کن جنگ1757ء ہی میں لڑی گئی۔ پلاسی کے میدان میں انگریز غالب آ گئے۔ تاریخ ہی نہیں‘ اہلِ ہند کی تقدیر بھی بدل گئی۔ پلاسی کی فتح لارڈ کلائیو کی ٹوپی میں سرخاب کاپَر تھا۔ اسے یہ فخر سجتا بھی تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے آئر لینڈ میں جو جائیداد خریدی اس کا نام پلاسی رکھا! 1757ء سے لے کر1947ء تک تقریباً دو صدیاں بنتی ہیں۔ ان دو صدیوں میں کوئی ظلم‘ کوئی تشدد‘ کوئی ناانصافی ایسی نہیں جو انگریزوں نے اہلِ ہند پر نہ کی ہو۔ تفصیل سے کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔بہت سی کتابیں خود انگریزوں نے لکھی ہیں۔ کچھ حالات ان کے روزنامچوں میں درج ہیں۔ ایک ایک انگریز افسر کے پاس پچاس پچاس مقامی نوکر ہوتے تھے جن کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ ہر ممکن طریقے سے مقامی لوگوں کو ذلیل کیا جاتا تھا۔ نکلسن‘ جس کی یادگار آج بھی ٹیکسلا کے قریب پہاڑ پر بنی نظر آتی ہے‘ ایک درندے سے کم نہ تھا۔ سرحد میں اس نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ ایک مقامی عزت دار شخص نے اس کی موجودگی میں تھوک دیا تو نکلسن نے اسے وہ تھوک چاٹنے پر مجبور کیا۔ ایک مولوی صاحب نے گزرتے ہوئے سلام نہ کیا تو بلا کر اپنے ہاتھ سے ان کی داڑھی مونڈ دی جو ایک مسلمان کے لیے شرم اور اذیت کا باعث ہے۔ بات بات پر کوڑے مارنا اور پھانسی دینا اس کے لیے عام بات تھی۔ جس بربریت سے1857ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد لاکھوں لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں اور دہلی میں محلوں کے محلے مسمار کر کے ان پر ہَل چلائے گئے‘ اس کی مثال شاید ہی تاریخ میں ملے۔1600ء میں بر صغیر پوری دنیا کی پیداوار کا تقریباً 25 فیصد پیدا کر رہا تھا جبکہ برطانیہ صرف1.8 فیصد! انگریز رخصت ہوئے تو یہی بر صغیر دنیا کی پیداوار کا صرف تین فیصد پیدا کر رہا تھا۔ انگریز آئے تو بر صغیر کی ٹیکسٹائل انڈسٹری دنیا پر چھائی ہوئی تھی۔ خاص طور پر ریشم کی بہت زیادہ طلب تھی۔ انگریزوں نے بنگال کے لوگوں سے ٹیکس کے نام پر ان کا خون تک نچوڑ لیا۔ اپنی مرضی کی فصلیں بونے پر مجبور کیا۔ ہولناک قحط پڑے۔ انگریزی عہد میں تیس لاکھ انسان قحط کی وجہ سے لقمۂ اجل بنے۔ 1765ء سے لے کر 1938ء تک کے عرصہ میں انگریزوں نے 45کھرب ڈالر لُوٹ کر برطانیہ میں منتقل کیے۔ چرچل کا یہ قول مشہور ہے کہ‘‘ مجھے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ یہ وحشی جانور ہیں اور ایسے ہی ان کے مذاہب ہیں‘‘۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران گندم بنگال کے منہ سے چھین کر‘ انگریزی افواج کے لیے یوگو سلاویہ بھیج دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قحط پڑا اور چالیس لاکھ سے زیادہ لوگ مر گئے۔ اس پر چرچل نے لکھا کہ '' قحط ان کی اپنی غلطی ہے۔ خرگوشوں کی طرح یہ بچوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں‘‘۔ نسلی امتیاز کا یہ عالم تھا کہ جس جرم کی سزا ایک انگریز کو چھ ماہ قید کی صورت میں ملتی تھی‘ اسی جرم کی سزا میں مقامی آبادی کے فرد کو بیس سال قید میں رکھا جاتا تھا۔�معجزہ یہ ہوا کہ جن لوگوں کو انگریز جانوروں سے بد تر سمجھتے تھے اور جن کے ساتھ جانوروں سے بد تر سلوک روا رکھتے تھے‘ انہی میں سے ایک آج برطانیہ کا وزیر اعظم ہے! تعجب ہے! اور سخت تعجب!! ایسی پستی! ایسی بلندی! آج لندن کا میئر ایک پاکستانی نژاد شخص ہے اور برطانیہ کا وزیراعظم ایک بھارت نژاد! بلکہ بھارت نژاد نہیں‘ وہ بھی اصلاً پاکستان نژاد ہی ہے! رِشی سوناک کا دادا یا پردادا تقسیم سے پہلے گوجرانوالہ سے ہجرت کر کے افریقہ چلا گیا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں یہ خاندان برطانیہ منتقل ہو گیا۔�کمال کا کام انگریز نے یہ کیا کہ ہندوستان اور دوسری نو آبادیوں پر جتنا ظلم ڈھایا‘ اپنے ملک کے اندر نظام کو اتنا ہی شفاف رکھا۔ چرچل کی یہ بات مشہور ہے! دوسری جنگ عظیم کے دوران جب برطانیہ کی اینٹ سے اینٹ بج رہی تھی تو اس نے بہت اعتماد سے کہا تھا کہ جب تک برطانیہ کی عدالتیں کام کر رہی ہیں‘ برطانیہ کو کوئی خطرہ نہیں۔ نہ صرف بس ڈرائیوروں کے بیٹے بیٹیاں پارلیمنٹ تک پہنچے بلکہ پاکستانی اور بھارتی نژاد ہونے کے باوجود پہنچے۔ یہ جو ہم خوشی کے مارے دانت نکالتے ہیں کہ دیکھا‘ لندن کا میئر پاکستان نژاد ہے اور برطانیہ کا فلاں وزیر ہمارا آدمی ہے تو اصولی طور پر خوش ہونے اور اترانے کے بجائے ہمیں شرم آنی چاہیے! ہمارا اپنا رویہ اس ضمن میں کیا ہے؟ ہمارے ہاں کتنے بس ڈرائیوروں کے بیٹے بیٹیاں پارلیمنٹ تک پہنچے؟ کیا ہم مذہبی‘ نسلی اور لسانی تعصب سے آزاد ہیں؟ اندرونِ سندھ سے کیسی خبریں آتی ہیں؟ ہمیشہ غیر مسلم لڑکی ہی اسلام قبول کرتی ہے! مرد نہیں کرتے!! امریکہ میں مقہور اور مظلوم کالوں کی اولاد قصرِ صدارت میں متمکن ہو گئی۔ برطانیہ میں ہندوستانی غلاموں کی اولاد پارلیمنٹ تک تو پہنچی ہی تھی‘ اب دس ڈاؤننگ سٹریٹ میں بھی داخل ہو گئی۔ اور ہم! ہم کیا کر رہے ہیں؟ بسوں سے مسافروں کو اتارتے ہیں اور شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر قتل کرتے جاتے ہیں! وہاں عقیدہ دیکھے بغیر حکومت سپرد کر دی‘ یہاں عقیدہ دیکھے بغیر جینے کوئی نہیں دیتا اور عقیدہ دیکھ کر مار دیا جاتا ہے! حد یہ ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں الیکشن لڑ رہی ہیں! مذہب ہمارے دلوں میں نہیں! زندگیوں میں مذہب کی جھلک تک نہیں دکھائی دیتی! اور دلوں اور زندگیوں کے علاوہ ہر جگہ مذہب موجود ہے! عقیدے سینوں سے نکلے اور کہیں مسجدوں کے دروازوں پر لکھ دیے گئے اور کہیں گاڑیوں کے عقبی شیشوں پر! صادق خان لندن کا میئر بن گیا اور چھ سال سے میئر ہے۔ کسی نے عقیدہ پوچھا نہ دیکھا۔ ساجد جاوید صحت اور خزانے جیسی وزارتوں کا انچارج رہا۔ کسی نے عقیدہ نہ پوچھا۔ یہ درست ہے کہ وہاں اسلامو فوبیا بھی ہے۔ایک خاتون منسٹر نے دعویٰ بھی کیا کہ اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہٹنا پڑا مگر ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ اس دعوے کو چیلنج بھی کیا گیا۔ کئی مسلمان مرد اور خواتین پارلیمنٹ میں ہیں اور مقامی حکومتوں میں شامل ہیں۔ ہرجیت سنگھ سجن چھ سال کینیڈا کا وزیر دفاع رہا اور اب انیتا آنند وزیر دفاع ہے جس کا باپ تامل تھا اور ماں پنجابی!�کمال ان پاکستان نژاد اور بھارت نژاد افراد کا نہیں! کمال ان ملکوں کے سسٹم کا ہے! ان ملکوں نے نسل‘ رنگ اور مذہب کے حصار سے اپنے آپ کو نکالا اور سب کو خوش آمدید کہا۔ جو لوگ کل ان کے غلام تھے‘ آج ان کی اولاد کو قبول کیا اور آزادی کا ماحول بھی دیا۔ چالیس چالیس سال مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والوں کو جب شہریت ملتی ہے نہ ملکیت تو وہ کینیڈا چلے جاتے ہیں اور امریکہ اور برطانیہ جہاں شہریت بھی ملتی ہے‘ ملکیت کے لا محدود حقوق بھی اور نجی اور سرکاری دونوں شعبوں میں مناصب بھی! ترقی کی حد آسمان ہے! آسٹریلیا میں مصریوں اور لبنانیوں کے پاس اتنے بڑے بڑے تعمیراتی بزنس ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے!�پلاسی کے فاتح لارڈ کلائیو اور دس ڈاؤننگ سٹریٹ کے نئے مکین کے درمیان دو سو پینسٹھ برس کا فاصلہ ہے۔ کلائیو کو فتح اس لیے ملی کہ ہندوستان میں اندرونی استحکام نہیں تھا۔ رِشی سوناک کو وزارت عظمیٰ اس لیے ملی ہے کہ برطانیہ اندر سے مستحکم ہے!!
بشکریہ روزنامہ دنیا
 

powered by worldwanders.com