Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, June 28, 2013

جنرل ضیا الحق کا احترام ہم سب کرتے ہیں

جوکچھ قومی اسمبلی میں اعجاز الحق اور پیپلزپارٹی کے ارکان کے درمیان ہوا، وہ نہ ہی ہوتا تو بہتر تھا۔ ایک طرف اعجاز الحق اکیلے تھے، دوسری طرف پیپلزپارٹی کے کئی ممبر تھے۔ باقی تماشائی تھے۔ اس زبانی جنگ میں اعجاز الحق صاحب کی کارکردگی اتنی اعلیٰ بھی نہیں تھی کہ وہ کہتے   ؎
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرورہو آئے کرے شکار مجھے
میڈیا نے اس پہلو کو خاصی اہمیت دی کہ مسلم لیگ نون کے ارکان نوک جھونک کا مزا لیتے رہے۔ اعجاز الحق صاحب کا ساتھ دینے والا کوئی نہ تھا   ع
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہوکر
اعجاز الحق صاحب نے مسلم لیگ نون کو اس کے برے وقتوں میں چھوڑ دیا اور پرویز مشرف کے آٹھ سالہ نادرشاہی عہد کے دوران اس گروہ عاشقاں میں شامل رہے جو وزارتوں‘ سفارتوں اور امارتوں پر فائز رہا۔ لال مسجد کا المیہ تھا یا چیف جسٹس کی توہین۔ کسی موقع پر انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا۔ ہاں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے تھا!
جوکچھ قومی اسمبلی میں ہوا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ فرض کریں اعجاز الحق ، دور ابتلا میں مسلم لیگ نون کا ساتھ نہ چھوڑتے‘ تو کیا ایسی صورت میں مسلم لیگ نون کے ارکان چار دن پیشتر ہونے والی زبانی جنگ میں اعجاز الحق کا ساتھ دیتے ؟اس سوال کا جواب مشکل ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ وہ بیچ بچائو کرادیتے لیکن جنرل ضیا الحق کو ڈکٹیٹروں کی صف  سے کیسے نکلواتے ؟
قصے کی بلاتصویر تفصیل یوں ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے حوالے سے کارروائی کرنے کا بیان دیا‘ تو پیپلزپارٹی نے ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے پارلیمنٹ سے تمام ڈکٹیٹروں کی تصاویر اتاردینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے بطور خاص جنرل ضیا الحق کا نام لیا‘ نہ ذکر کیا۔ دانائی اور تحمل کا تقاضا یہ تھا کہ اعجاز الحق اس موقع پر خاموش رہتے۔ آیا ہوا لمحہ گزرجاتا لیکن انہوں نے اس دفاع کی ٹھانی جو ممکن نہ تھا۔ الزامی جواب کی ٹیکنیک بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو پر تنقید کی۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ بھٹو صاحب سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے لیکن ضیا الحق کے طویل دور کا بھٹوکے چند روزہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر شپ سے تقابل کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ پیپلزپارٹی کے اراکین نے اس پر ’’آئین کے قاتل کا بیٹا‘‘ کا نعرہ لگانا شروع کردیا۔ اعجاز الحق نے دلائی کیمپ کا حوالہ دیا اور یوں بات بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی۔
اعجاز الحق جوہری طورپر سیاست دان نہیں ہیں۔ وہ منتخب بھی ایک ایسے حلقے سے ہوتے ہیں جہاں آرائیں برادری کا زور ہے۔ انہوں نے سیاست دانوں کی طرح گراس روٹ سطح پر کوئی کام نہیں کیا‘ نہ ہی سیاسی کیریئر کے تقاضے پورے کیے۔ یونین کونسل، ضلع کونسل، ضلع ناظم، صوبائی اسمبلی ۔ کئی مراحل ہوتے ہیں جن کی چھلنیوں سے گزر کر سیاست دان ٹاپ پر پہنچتا ہے۔ ان کے مقابلے میں خواجہ آصف کو دیکھیے۔ انہوں نے اصرار نہیں کیا کہ ان کے مرحوم والد نے ضیا الحق کا ساتھ دیا تو ٹھیک کیا۔ ایک منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح جو چھلنیوں سے گزر کر ایک مقام پر پہنچتا ہے۔ کسی احساس کمتری اور خوفِ ملامت کے بغیر انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ مرحوم کی غلطی تھی۔ اس اعتراف سے اس ادب و احترام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی جو خواجہ آصف کے دل میں اپنے عزیز ازجان والد محترم کے لیے موجود ہے اور تاحیات رہے گا۔   ؎
ببین تفاوت رہ ازکجاست تابہ کجا
توبستن در و من فتح باب می شنوم
یعنی کتنا فرق ہے تمہارے اور میرے رویے میں۔ جو آہٹ تمہیں دروازہ بند ہونے کی لگتی ہے، مجھے وہی آہٹ دروازہ کھلنے کی لگ رہی ہے!
جنرل ضیا الحق میں بہت خوبیاں تھیں۔ انہوں نے قومی زبان کو اہمیت دی۔ ذاتی زندگی میں صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے لیکن تاریخ قانون کی طرح اندھی ہے۔ وہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید نہیں کہتی‘ نہ کہنے دیتی ہے۔ ایک منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹ کر تخت پر فائز ہونے کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہ کہنا کہ سیاست دان ان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے، ایک ضعیف دلیل ہے۔ تو پھر ان سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو مسلسل مخالفت کرتے رہے‘ کوڑے کھاتے رہے اور شاہی قلعے میں انگریزی عہد ستم کی تاریخ دہراتے رہے ؟ضیا الحق نے نوے دن کا وعدہ کیا۔ اس وعدے کا جو حشر ہوا، بیان کا محتاج نہیں۔
پاکستانی تاریخ کے طالب علم سے اگر وہ واحد نقصان پوچھیں جو جنرل ضیا الحق کے زمانۂ آمریت میں ملک کوپہنچا تو اس کا ایک ہی جواب ہوگا کہ ادارے ختم ہوگئے‘ اداروں کی حرمت ختم ہوگئی، رولز، ریگولیشن، قواعد، ضوابط، آئین، سب کچھ پامال ہوتا رہا۔ ضیا الحق صحیح معنوں میں بادشاہ تھے۔ جو لفظ منہ سے نکلتا، قانون بن جاتا۔ جسے چاہتے، نواز دیتے، جس سے ناراض ہوتے، نشان عبرت بنادیتے۔ ان کے اس فرمان کا کہ آئین کیا ہے، کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے، آخر اعجاز الحق صاحب کس طرح دفاع کریں گے ؟ ریلوے ہی کو دیکھیے، آج جس کا جنازہ پڑھا جارہا ہے، اسے اس حال تک پہنچانے میں ضیا الحق کا کردار نمایاں ترین ہے۔ جس کو این ایل سی کا سرپرست بنایا، وہی ریلوے کا وزیر تھا۔ یعنی دودھ کی رکھوالی بلے کے سپرد۔ یہ وہی ہے جو ان دنوں بوسنیا میں ’’پناہ گزین‘‘ ہے اور قومی جرائم کا مرتکب رہا ہے۔ بیرون ملک تعیناتیاں تھیں یا پلاٹوں کی بندربانٹ، دارالحکومت میں نرسریوں کی تقسیم تھی یا زرعی جاگیروں کی ہرشے روابط کی بنیاد پر تھی۔ ارشاد احمد حقانی بتاتے تھے کہ ضیا الحق ترکی گئے تو ترکی کے صدر نے کسی کھلاڑی یا فنکار کا تعارف کراتے ہوئے یوں ہی ذکر
کردیا کہ یہ بیمار ہے۔ میں علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنا چاہتا ہوں لیکن میری یعنی ترکی کی وزارت خزانہ اجازت نہیں دے رہی۔ ضیا الحق صاحب نے وہیں سے اس ترک فنکار یا کھلاڑی کے بیرون ملک علاج کا بندوبست حکومت پاکستان کے خرچ پر کردیا۔ ان کے نزدیک اس بات کا کوئی تصور ہی نہیں تھا کہ ان کی وزارت خزانہ کے پاس کوئی اختیار ہے یا یہ کہ قوانین کا احترام مہذب حکومتوں پر لازم ہے ! حقانی صاحب مرحوم سارک کے ایک دورے کو بھی ضیا الحق کے دور میں اداروں کے انہدام کی مثال کے طورپر پیش کرتے تھے۔ غالباً سری لنکا میں ضیا الحق صاحب نے سارک کانفرنس کے شرکاء کی ضیافت کی اور اس ’’فیاضی‘‘ میں مکمل ’’شہنشاہی ‘‘ کا ثبوت دیا!
افغان مہاجرین کو پاکستان کے اطراف واکناف میں بغیر کسی رکاوٹ کے پھیلا دینے کا کام ضیا الحق کے عہد کا ایک ایسا اقدام ہے جس کا خمیازہ آج ملک بھگت رہا ہے اور جانے کب تک بھگتے گا۔ یہ ایک طویل موضوع ہے ۔
اعجاز الحق جنرل ضیا الحق کے حکومتی اور سیاسی اقدامات کے دفاع کے شرعاً مکلف نہیں ہیں۔ ایک سعادت مند فرزند کے طورپر ان کے فرائض یہ ہیں کہ وہ ان کی مغفرت کے لیے زیادہ سے زیادہ دعائیں کریں۔ ان کے لیے صدقات وخیرات کا اہتمام کریں۔ ان کی نیکیوں کا تذکرہ کریں اور ان کے دوستوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔ رہا مارشل لایا تختہ الٹ کر تخت پر قابض ہونا تو اگر وہ اعلان کردیں گے مارشل لا جس جس نے بھی لگایا ، اچھا نہیں کیا، تو اس سے اس احترام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی جو اپنے محترم والد کے لیے ان کے دل میں ہے اور سچ پوچھیے تو ہم سب کے دل میں ہے!

Tuesday, June 25, 2013

اندھیرا کمرہ اور سوئی

اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو گلی میں کچھ ڈھونڈ رہا ہے۔ کھمبے کے بلب سے گلی روشن ہے۔ ہم اس سے پوچھتے ہیں تم کیا تلاش کررہے ہو؟ وہ بتاتا ہے کہ سوئی ڈھونڈ رہا ہے۔ پھر ہم اس سے پوچھتے ہیں سوئی کہاں گم ہوئی تھی۔ وہ بتاتا ہے کہ سوئی تو کمرے میں گم ہوئی تھی لیکن کمرے میں اندھیرا ہے۔
یہی مثال ان لوگوں کی ہے جو دوحہ مذاکرات سے (جو ابھی ہونے ہیں) امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ دوحہ میں ہونے والی بات چیت کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ امریکہ نکلنے سے پہلے ایک جھوٹی عزت چاہتا ہے۔ وہ اب صرف لنگوٹی سنبھالنے کی فکر میں ہے۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ حامد کرزئی کی کیا پوزیشن ہے یا امریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان میں جو گھمسان کا رن پڑے گا اس کا انجام کیا ہوگا؟ وہ اس وقت صرف یہ کہہ رہا ہے   ؎
میں نے جو آشیانہ چمن سے اُٹھا لیا
میری بلا سے بوم رہے یا ہُمارہے
مذاکرات کی چمک میں ہمارے دوست یہ سوال بھول گئے کہ مذاکرات کے بعد کیا ہوگا؟
2014ء میں افغانستان میں انتخابات ہونے ہیں۔ حامدکرزئی اپنے بھائی کو کھڑا کررہا ہے۔ پاکستان نے شمال کے غیرپختونوں سے تعلقات بہتر کرلیے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ کسی غیر پختون، کسی تاجک یا ازبک امیدوار کی حمایت کرے لیکن پاکستان کس کی حمایت کرے گا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ جنوبی اور مشرقی افغانستان میں ،جو دس
 سالہ جنگ سے زخم زخم ہورہا ہے، جس کے انگ انگ سے لہو رس رہا ہے، جہاں سڑکیں ہیں نہ ڈاک، تار برقی ہے نہ ٹیلی فون ،کوئی ادارہ ہے نہ عمارت، یہ انتخابات کس طرح منعقد ہوں گے ؟ 93فی صد عورتیں اور ستر فی صد مرد قصبوں اور بستیوں میں لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ ووٹرز کی فہرستیں ناپید ہیں۔ جو آبادیاں پورے دس پندرہ سال سے صرف لڑائی کررہی ہیں یا جنگ کی تباہ کاریوں سے بچتی پھرتی ہیں، وہ انتخابات کو کس طرح بھگتائیں گی ؟ پھر اگر انتخابات جوں توں کرکے ہو جاتے ہیں تو پختون علاقوں میں پختون امیدوار جیتیں گے اور غیرپختون علاقوں میں غیرپختون امیدوار۔ فرض کریں ملا عمر صدر منتخب ہوجاتے ہیں، کابل کے اوپر امریکی یا نیٹو افواج کی چھتری تو ہوگی نہیں۔ کیا ازبک ،تاجک اور ہزارہ، پختون صدر کو تسلیم کریں گے ؟ اور اگر عبداللہ عبداللہ یا کوئی اور تاجک یا ازبک تخت صدارت پر بیٹھتا ہے تو کیا قانون ،آئین ،امن وامان اور اداروں سے نابلد پختون اس کی صدارت چلنے دیں گے ؟
طالبان کے ظہور سے صورت حال عجیب وغریب ہوگئی ہے۔ اگر طالبان سے پہلے کا افغانستان ہوتا تو شمال اور مغرب کے غیرپختونوں کا جنوب اور مشرق کے پختونوں سے سمجھوتہ ہوسکتا تھا۔ لیکن طالبان صرف پختون نہیں، طالبان بھی ہیں۔ تاجک ، ازبک اور ہزارہ تعلیم اور صنعت میں کوسوں آگے ہیں۔ عورتوں کے ساتھ ان کا رویہ مختلف ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ’’پختون ولی‘‘ کو ، جوپختونوں کا ثقافتی اور قبائلی طرز زندگی ہے اور جس میں غیرت اور انتقام کے تصورات ہیں، طالبان نے اسلامی لباس پہنا دیا ہے۔ پختونوں کو پورا حق پہنچتا ہے کہ وہ پختون ولی کے اصولوں کے تحت زندگی بسر کریں۔ لیکن اس سب کچھ کو اگر وہ اسلام کا رنگ دیتے ہیں تو ضروری نہیں کہ دوسری قومیں بھی اس ثقافت کو اسلام کے طورپر قبول کریں ؟ یہ ہے وہ مرکزی نکتہ جو طالبان اور طالبان کے ہم نوائوں کو سمجھ میں نہیں آتا! نہ ہی تاجکوں کے لیے احمد شاہ مسعود اور ہزارہ کے لیے عبدالعلی مزاری کے قتل کو بھولنا آسان ہے، جوان دونوں لیڈروں کے قتل کی ذمہ داری طالبان پر ڈالتے ہیں۔
جنوب کے پختون علاقوں اور شمال اور شمال مغرب کے غیرپختون صوبوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ بلخ اور ہزارہ جات اس سارے عرصہ کے دوران پرامن رہے ۔ یہاں تعلیم اور صنعت وحرفت کے میدانوں میں دھیمی رفتار سے سہی لیکن مستقل مزاجی سے ترقیاتی کام ہوتے رہے۔ قندھار کے لوگ اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ بامیان کی گورنر 2005ء سے حبیبہ سرابی چلی آرہی ہے۔ ایک اور ہزارہ خاتون سیما ثمر کچھ عرصہ وزیر رہی اور اب ’’افغانستان ہیومن رائٹس کمیشن‘‘ کی سربراہ ہے۔ افغان انسٹی ٹیوٹ آف ہائرایجوکیشن بھی اسی نے قائم کیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کابل کی حکومت طالبان کے تصرف میں آجاتی ہے تو کیا ٹیبل کی دوسری طرف وہ اس قسم کی خواتین کو برداشت کریں گے ؟ ازبک اور تاجک تاریخ کی اس ستم ظریفی کو تسلیم کرتے ہیں کہ احمد شاہ ابدالی نے ان علاقوں کو ،جو پہلے خراسان کا حصہ تھے ،افغانستان کا نام دیا لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ افغانستان میں سب لوگ افغان نہیں ہیں۔ تقریباً اڑھائی سو سال پختونوں نے تلواروں اور نیزوں سے حکومت کی لیکن ثقافت اور ادب میں وہ ازبکوں اور تاجکوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔نوائی اور بابر جیسے ازبک شاعر اور جامی، نظیری اور فردوسی جیسے شہرۂ آفاق فارسی شاعر غیرپختونوں ہی کے پاس ہیں ۔ کاش ! جنوبی افغانستان کے پختون اس نکتے کو سمجھ لیتے کہ ادب ،تعلیم اور صنعت وحرفت ہی انسان کو مہذب بناتے ہیں۔ پاکستان کے محلات میں رہنے والے چند لوگ جو پختونوں کو ہروقت بہادر اور غیرمند کہہ کر اشتعال دلاتے رہتے ہیں، اپنے بچوں کو ایسی زندگی میں کیوں نہیں دھکیلتے ؟ اسلام آباد کے پشاور موڑ پر افغان نانبائیوں کی دکانوں پر آج کیا ہورہا ہے، نہیں معلوم لیکن چند سال پہلے یہ کالم نگار دیکھتا تھا کہ فیاض امرا انہیں رقم دے کر کہتے تھے کہ لوگوں کو روٹیاں دے دینا اور روٹیاں دینے کا وقت آتا تھا تو قطار درقطار افغان خواتین اور بچے ایک یا دو روٹیوں کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ان میں زیادہ تعداد پختونوں کی تھی۔ بہادری اور غیرت تو یہ ہے کہ خواتین اور بچے محفوظ ہوں اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں ۔ چند مذہبی رہنما اور کچھ سابق جرنیل جو شاہانہ زندگیاں گزار رہے ہیں اور جن کی اولادیں لاکھوں کروڑوں کا بزنس کرتی ہیں، سادہ لوح پختونوں کے کاندھوں پر تھپکی دے کر انہیں جنگ اور بدامنی کی آگ میں دھکیلتے رہے اور محلات میں بیٹھ کر واہ واہ کرتے رہے !
کوئی مانے یا نہ مانے، افغانستان کا پائیدار اور طویل المیعاد حل اس کا پختون اور غیرپختون حصوں میں تقسیم ہونا ہے۔ اس سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ آخر افغانستان کے علاقے وہی تو ہیں جو برصغیر سے، وسط ایشیا سے اور ایران سے الگ ہوئے۔ کوریا بھی امن کی خاطر دوحصوں میں منقسم ہوا۔ اگر ازبک ، تاجک ،ہزارہ اور ترکمان الگ ہوکر امن اور ترقی کا سفر جاری رکھ سکتے ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ہوسکتا ہے اس سے ہمیشہ شمشیر بکف رہنے والے پختون بھی اپنے بچوں کے ہاتھوں میں غلیل اور رائفل کے بجائے کتاب اور لیپ ٹاپ دے دیں !! یوں بھی ہر تھوڑے عرصے کے بعد پاکستان کے سرپر ڈیورنڈ لائن کی تلوار لٹکانے والے پختونوں کو ایک سرحد شمال کی طرف مل جائے تو کیا عجب پاکستان کو وہ اس کے حال پر چھوڑ دیں !!

Monday, June 24, 2013

امریکیوں کے انخلا کے بعد

دوحہ میں امریکیوں اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ پاکستانی اس ضمن میں جس جوش وخروش کا اظہار کررہے ہیں اس کاجانے کیا جواز ہے۔ امریکیوں کی ’’بے نیازی ‘‘ تاریخ میں مشہور ہے۔ سوویت یونین کے لیے انخلا کے بعد انہوں نے پاکستان کو جس طرح بیچ منجدھارکے چھوڑا، وہ تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا۔ لاطینی امریکہ میں یہ کھیل وہ کئی بار کھیل چکے ہیں۔ ایک تھیوری یہ پیش کی جارہی ہے کہ اگر پاکستان کو دوحہ میں کھلم کھلا فریق بنایا جائے تو بھارت بھی اس سٹیٹس کا مطالبہ کرے گا۔ یہ ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ پاکستان کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اور یہ کرۂ ارض کی پیچیدہ ترین سرحدوں میں سے ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرکئی عشروں سے پاکستان میں مقیم ہیں اور واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ افغانستان کی وجہ سے پاکستان کا معاشرتی تاروپود بکھر چکا ہے۔ معیشت تباہ ہوتی رہی ہے۔ دہشت گردی کے کالے بادل جنہوں نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، افغانستان ہی کے سبب سے ہیں۔ بھلا افغانستان کے حوالہ سے پاکستان اور بھارت کو ایک مقام پر کیسے رکھا جاسکتا ہے ! پاکستان ایک ایسا فریق ہے جو براہ راست متاثر ہوا ہے اور ہورہا ہے جب کہ بھارت کی افغانستان میں واحد دلچسپی یہ ہے کہ وہ اسے استعمال کرکے اپنی طاقت تسلیم کرائے اور پاکستان کو نقصان پہنچائے۔
اہم ترین سوال ‘جو ہرپاکستانی کے ذہن میں اٹھ رہا ہے‘ یہ ہے کہ اگر تحریکِ طالبان پاکستان، ملاعمر کو اپنا رہنما تسلیم کرتی ہے تو کیا جوکچھ پاکستان میں ہورہا ہے، ملاعمر کا اس پر سکوت ان کی رضامندی کا اظہار ہے ؟ اور اگر امریکیوں کی طالبان سے دوحہ میں گفت وشنید کسی مثبت نوٹ پر منتج ہوتی ہے تو کیا اس میں کوئی ایسی شق شامل ہوگی جس کے ذریعے ملا عمر کی کوئی ہدایت تحریک طالبان پاکستان کو  پہنچے؟
جو حضرات اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کے تحریک طالبان محض چند ہزار جنگجوئوں پر مشتمل ہے، ان کی سادہ دلی پر رحم آتا ہے، پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ جو غیرمسلح سہی، تحریک طالبان پاکستان کا حامی ہے لیکن یہ موضوع طویل ہے اور الگ تحریر کا متقاضی ہے، ہم یہاں دوحہ مذاکرات کے حوالے سے افغانستان کے مستقبل کی تصویر پر بات کرنا چاہتے ہیں۔
امریکیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں امن قائم ہوجانا ایسے ہی ہے جیسے ہتھیلی پر بال اگ آئیں یا کبوتری انڈے کے بجائے بچہ دے۔ ہم میں سے اکثر افغانستان میں بسنے والے مختلف نسلی گروہوں سے واقف ہی نہیں۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان پختونوں کا ملک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شمالی
افغانستان کو ترکستان صغیر کہا جاتا رہا ہے۔ افغانستان میں پختون 42فی صد سے زیادہ نہیں۔ ستائیس فیصد تاجک اور دس فیصد ازبک آبادی ہے۔ ہزارہ بھی دس فیصد ہی ہیں، موجودہ افغانستان کا بانی احمد شاہ ابدالی ہے جس نے 1747ء میں پختونوں کو یکجا کیا۔ اس وقت سے لے کر 1979ء میں سوویت یونین کی آمد تک دوسوبتیس سال قضا وقدر کے مالک پختون ہی رہے ہیں۔ اس عرصہ میں ازبکوں، تاجکوں اور ہزارہ کے ساتھ کیا بیتی، ایک طویل داستان ہے (ہزارہ قبیلے کا ایک بڑا حصہ کوئٹہ میں بلاسبب نہیں آباد آہوا) ان گروہوں کی زبان‘ ثقافت‘ تعلیم‘ معاشرت اور اقتصادیات کس طرح محرومی کا شکار ہوئیں، الگ کہانی ہے۔ یہ گروہ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کے دوران پیش منظر پر ابھرے۔ احمد شاہ مسعود، رشید دوستم، برہان الدین ربانی سب غیر پختون تھے اور اٹھارہویں صدی کے وسط کے بعد پہلی دفعہ پختون نمایاں حیثیت میں ظاہر ہوئے تھے۔ طالبان کی افغانستان میں حکومت قائم ہوئی۔ اگر امریکی مداخلت نہ ہوتی تو کیا طالبان کی امارت بدستور قائم رہتی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب چنداں مشکل نہیں!
اصل سوال یہ ہے کہ امریکیوں کے انخلا کے بعد کیا پختون غیرپختونوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکیں گے ؟ملاعمر کی افتاد طبع کے بارے میں قاضی حسین احمد مرحوم نے اپنے ایک مضمون میں برملا لکھا تھا کہ ان کا مزاج ایسا نہیں کہ وہ مکمل کنٹرول حاصل کیے بغیر چین سے بیٹھیں ۔ لیکن فرض کریں ملا عمر کے بجائے کوئی اور پختون فیصلہ سازی کی مسند پر فائز ہوتو کیا صورت حال مختلف ہوگی؟
افغانستان کے تاجک‘ ازبک‘ ہزارہ اور ترکمان گزشتہ پورے عشرے کے دوران جنگ کی اس آگ سے بچے رہے جس میں پختون جلتے رہے اور اپنے علاقوں کو جلاتے رہے۔ وہ پختونوں کی نسبت کئی گنا زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کے علاقوں میں صنعت وحرفت کی سرگرمیاں عرصہ سے جاری ہیں۔ ایک ازبک یا تاجک اور پختون میں عام طورپر اتنا ہی فرق ہے جتنا ڈیفنس لاہور کے رہنے والے اور کسی چک گ ب شمالی یا جنوبی کے کسان میں ہے۔ افغان امور کے کچھ ماہرین اسی تفاوت کا حل افغانستان کی تقسیم بتاتے ہیں۔
پس نوشت: پنجاب حکومت نے بڑے مکانوں پر جو ٹیکس تجویز کیا ہے، اس کے بارے میں معروف ماہر اقتصادیات محمداکرم خان نے خط بھیجا ہے۔ محمداکرم خان اقوام متحدہ کے انتظام  کے تحت مشرقی تیمور کے آڈیٹر جنرل رہے۔ آپ سوڈان میں بھی اقوام متحدہ کے نمائندے کے طورپر خدمات انجام دیتے رہے۔ اکرم خان نے لکھا ہے۔
’’پنجاب حکومت نے دوکنال کے گھروں پر پانچ لاکھ روپے کا ٹیکس تجویز کیا ہے۔ یہ ایک بھاری رقم ہے۔ یہ سماجی عدم انصاف کا مسئلہ ہے۔ مثلاً اگر کسی شخص نے دیانت داری سے دوکنال کا گھر بنایا ہے اور اب سوائے پنشن کے کوئی اور ذریعہ آمدنی اس کا نہیں ہے تو پانچ لاکھ روپے کا ٹیکس ایسے شخص کو گداگر بنادے گا۔ بیوہ کے لیے بھی یہ ٹیکس مشکلات کا باعث ہوگا۔ ایسے گھروں میں کئی خاندان مل کر بھی رہتے ہیں۔ اس کے برعکس کسی کمرشل ایریا میں چھوٹی سی دکان بھی دوکنال کے گھر سے کئی گنا زیادہ کی قیمت رکھتی ہے لیکن اسے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ اسی طرح کئی پلاٹوں کا مالک چھوٹے گھر میں رہ کر بھی اس ریٹائرڈ شخص کی نسبت زیادہ مالدار ہوگا جس نے جوں توں کرکے بڑا گھر بنالیا اور اب پنشن پر گزارا کررہا ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ گھر کس علاقے میں ہے۔ خراب علاقے میں دوکنال گھر کی نسبت دس مرلے کا گھر ایک امیر علاقے میں زیادہ مہنگا ہوگا۔ ٹیکس کا تعلق آمدنی سے ہونا چاہیے‘‘۔

Friday, June 21, 2013

کیا وزیراعظم ایسا کر سکیں گے؟

متحدہ عرب امارات کی بین الاقوامی ائر لائن ’’امارات‘‘ (Emirates) کو دنیا کی بہترین فضائی کمپنی کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ فرانس میں دیا گیا۔ ایک سو ساٹھ ممالک کے ایک کروڑ بیاسی لاکھ مسافروں نے اس رائے سازی میں حصہ لیا۔ ’’امارات‘‘ مشرقِ وسطیٰ کی بہترین ائر لائن ہونے کا ایوارڈ پہلے لے چکی ہے۔ عالمی ایوارڈ بھی اس نے پہلی بار نہیں حاصل کیا۔ 2001ء اور پھر 2002ء میں بھی اس نے یہ اعزاز جیتا تھا!
دلچسپ امر یہ ہے کہ مسلمانوں کی اور عربوں کی اس کامیابی کو روکنے کے لیے کوئی ’’سازش‘‘ نہیں کی گئی۔ (اس سے پہلے مغربی ملکوں ہی نے احمدی نژاد کو‘ جب وہ تہران کے میئر تھے‘ دنیا کا بہترین میئر قرار دیا تھا) لیکن میرے ذہن میں وسوسے ا ُٹھ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہو چلا ہے کہ مقابلے میں ہماری قومی ائرلائن اوّل آنے والی تھی مگر پھر وہی ہوا جو ہمارے ساتھ ہر معاملے میں ہوتا رہا ہے‘ ہمارے خلاف سازش کی گئی۔ عالمی طاقتیں اور غیر مسلم قوتیں کہاں برداشت کر سکتی تھیں کہ عالمِ اسلام کی واحد نیوکلیئر قوت کو یہ اعزاز حاصل ہو‘ چنانچہ ہماری ائر لائن کا نام کاٹ کر امارات کا نام ڈال دیا گیا۔ مجھے یہ بھی یقین ہو چلا ہے کہ فیصلہ کرنے والے منصفین کو متحدہ عرب امارات کے حکام نے آموں کے ٹوکرے‘ نہیں معاف کیجیے‘ اعلیٰ نسل کی کھجوروں کے کریٹ بھجوائے ہوں گے۔
فرض کیجیے‘ آج سے ’’امارات‘‘ ائرلائن پاکستان کے حوالے کردی جاتی ہے اور ہماری پی آئی اے دبئی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے۔ سب سے پہلے تو یہاں جشن منعقد ہونے شروع ہو جائیں گے۔ گورنروں‘ وزرائے اعلیٰ‘ وزیروں‘ سیاسی جماعتوں کے مالکان اور ان کے حواریوں کی چاندی ہو جائے گی۔ دو تین ماہ کے اندر سب کے بیٹے‘ صاحبزادیاں‘ بھتیجے‘ بھانجے‘ داماد ’’امارات‘‘ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو چکے ہوں گے۔ کسی اعلیٰ شخصیت کا قریبی دوست اس کا ایم ڈی مقرر ہوگا۔ پھر یونین کا کردار درمیان میں آئے گا۔ ہڑتالیں ہوں گی اور ہاں! ایک بات یاد آ گئی‘ ’’امارات‘‘ ائر لائن کو یہ بھی سکھا دیا جائے گا کہ پرواز کسی بھی وی آئی پی کے لیے تاخیر کا شکار کی جا سکتی ہے۔ تین سال کے عرصے میں‘ یا اس سے پہلے دنیا کی یہ بہترین ائر لائن اپنی اوقات میں آ چکی ہوگی اور اس عرصہ میں پی آئی اے کو نئی زندگی مل چکی ہوگی!
پاکستان اقربا پروری اور دوست نوازی کے جس سرطان میں مبتلا ہے اس کی موجودگی میں اس کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ناممکن ہے۔ ہزار دعوے کریں‘ لاکھ کوششیں کریں‘ جب تک کُتا کنوئیں کے اندر موجود ہے‘ سو یا پانچ سو ڈول پانی نکالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ راولپنڈی کے ایک میئر ہر رمضان میں مردِ مومن مردِ حق کے اعزاز میں ایک گرینڈ افطار پارٹی کا انعقاد کرتے تھے۔ ان کے انتہائی قریبی عزیز کو مردِ مومن مردِ حق نے ایک گمنام محکمے کی عام سی اسامی سے اٹھایا‘ ترقیاں دی اور بحراوقیانوس کے پار بھیج دیا۔ ہر افسر جو راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ لاہور کا ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے‘ باہر تعینات ہو جاتا ہے۔ پچھلی حکومت میں ایک پائی ٹیکس نہ دینے والے مشہور و معروف وزیر کی صاحبزادی کو یورپ کے بہترین ملک میں افسر لگایا گیا۔
اس کینسر کی بدترین مثال ’’فیڈرل پبلک سروس کمیشن‘‘ ہے۔ یہ وہ وفاقی ا دارہ ہے جس کا کام ملک بھر میں مرکزی ملازموں کے لیے میرٹ کی بنیاد پر امیدواروں کو منتخب کرنا ہے‘ لیکن بدترین مذاق یہ ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر حضرات کا چُنائو سو فی صد تعلقات اور سفارش کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس کالم نگار نے ایک صاحب سے جو پیپلز پارٹی کی مجلسِ قضا و قدر کے اہم رکن ہیں‘ پوچھا کہ فلاں صاحب کس بنیاد پر فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ممبر تعینات ہوئے ہیں؟ فرمانے لگے‘ ان کے والد کی ’’پارٹی‘‘ کے لیے خدمات تھیں!!
ہوتا یہ ہے کہ اگر پانچ سرکاری ملازم گریڈ بائیس یا اکیس میں ریٹائر ہوئے ہیں اور ان میں سے دو کو وزیراعظم‘ صدر یا کوئی اور ’’فیصلہ ساز‘‘ شخصیت ذاتی طور پر جانتی ہے تو انہیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں لگا دیا جائے گا۔ تین سال کے لیے لاکھوں کی تنخواہ اور مراعات… جو شخص خود دوست نوازی یا ’’خدمات‘‘ کی بنیاد پر منتخب ہوا ہے‘ وہ دوسروں کو میرٹ کی بنیاد پر کیوں منتخب کرے گا؟ سنا ہے ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے تو قاضی حسین احمد مرحوم نے انہیں نصیحت کی کہ فیصلے میرٹ پر کرنا‘ جمالی صاحب نے کسی لگی لپٹی کے بغیر جواب دیا کہ ہم خود کون سا میرٹ پر آئے ہیں! یہ الگ بات کہ یہ بلوچ وزیراعظم بعد میں آنے والے شوکت عزیزوں‘ گیلانیوں اور راجوں سے بدرجہا بہتر اور نیک نام تھا!
یہی کھیل صوبائی پبلک سروس کمیشنوں میں ہو رہا ہے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں پولیس کے ریٹائرڈ افسروں کی اکثریت ہے جو سراسر ’’ذاتی وفاداری‘‘ کی بنیاد پر لگائے گئے۔ جو تفصیلات میسر ہیں‘ ہوشربا ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اشارۂ ابرو پر تعینات کیے گئے اہلکار ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے میرٹ کو خاطر میں لائیں گے تو وہ کسی ماہرِ نفسیات سے رجوع کرے!
وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میرٹ کا بول بالا کریں گے۔ اگر وہ اس دعویٰ میں سنجیدہ ہیں تو ہم ان سطور کی وساطت سے یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں اس دھاندلی اور مذاق کا خاتمہ کریں۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ پہلے چوروں کی ماں کو پکڑیں۔ وزیراعظم ایک کمیشن تشکیل فرمائیں۔ سپریم کورٹ کا جج اس کمیشن کا سربراہ ہو۔ چاروں صوبائی اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس اس کمیشن کے ارکان ہوں۔ یہ کمیشن فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے
ارکان (ممبرز) کی اسامیاں اخبارات میں مشتہر کرے۔ ایک معیار مقرر کرے‘ اس معیار پر پورا اترنے والوں سے درخواستیں طلب کرے۔ پھر ان کے انٹرویو کر کے ممبرز کو میرٹ کی بنیاد پر منتخب کیا جائے اور شفافیت کو کامیاب کرنے کے لیے پوری کارروائی کو میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کوئی خیراتی ادارہ یا دارالامان نہیں جہاں ریٹائرڈ سرکاری ملازم اپنی ’’خدمات‘‘ اور ’’تعلقات‘‘ کی بنیاد پر آ کر بڑھاپے میں آرام کریں۔ نجی شعبے میں نام پیدا کرنے والے دانش ور‘ پروفیسر‘ ڈاکٹر‘ وکیل اور کارپوریٹ سیکٹر کے تجربہ کار ٹیکنوکریٹس بھی اسی ملک کے شہری ہیں اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو ان کی خدمات اور میرٹ نوازی کی بھی ضرورت ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا ایک ممبر ایک ریٹائرڈ جرنیل بھی ہوتا ہے۔ وہ کس طریقِ کار کے تحت منتخب ہوتا ہے؟
اگر وزیراعظم وفاق میں یہ کمیشن تشکیل دیں گے تو صوبوں میں بھی پبلک سروس کمیشنوں کی سُنی جائے گی اور وہاں بھی اقربا پروری‘ دوست نوازی‘ تعلقات پرستی اور سفارش کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
وزیراعظم کے دفتر میں بیٹھے افسر شاہی کے نمائندے اس قسم کی کسی بھی تجویز کا سن کر اپنی پیشانیوں پر لکیروں کے جال پھیلا لیں گے۔ وزیراعظم نے یہ بنیادی معرکہ سر کر لیا تو قوم کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ انہیں آفرین کہے گا۔ ورنہ یگانہ چنگیزی تو کہہ ہی چکا ہے   ؎
شش جہت میں ہے ترے جلوۂ بے فیض کی دھوم
کان مجرم ہیں مگر آنکھ گنہگار نہیں

Thursday, June 20, 2013

سچ

’’پاکستان مشکل صورتحال میں ہے۔ چین جیسا دوست ہم سے ناراض ہے۔ ایران شکوہ کرتا ہے۔ بہت سی چیزیں ہمارے خلاف ثابت ہوچکی ہیں۔ میں انتباہ کرتا ہوں ہمارا ملک بربادی کے کنارے پر ہے۔ اسے صرف سچ بچا سکتا ہے۔ ایجنسیوں نے لشکر پال رکھے ہیں۔ ہم نے ایٹم بم بیچا۔ اتنے فوجی پاکستان کی انڈیا سے جنگ میں نہیں مرے جتنے اب مر چکے ہیں۔ مساجد محفوظ نہیں ہیں۔ کراچی جل رہا ہے۔ فاٹا اور کے پی میں مسلح لشکر کام کررہے ہیں۔ 25دسمبر 1979ء کو سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو اس جنگ کا آغاز ہوا۔ پوری دنیا نے اسلحہ کا رخ اس طرف کردیا۔ کلاشنکوف‘ جو اخبار میں دیکھتے تھے‘ وہ پورے ملک میں عام ہوگئی۔ کسی نے نہ سوچا کہ اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ پوری دنیا سے لوگ یہاں آ کر جمع ہوگئے۔ ایمن الظواہری جیسے لوگوں نے یہاں آ کر لوگوں کو تربیت دی۔ کرنل امام نے اعتراف کیا کہ ہم نے 95 ہزار افراد کو ٹریننگ دی۔ کسی کا پتہ نہیں رکھا گیا کہ وہ کہاں چلے گئے۔ایجنسیاں گدلے پانی میں سوئی ڈھونڈ سکتی ہیں۔ یہ کیوں ناکام ہیں؟ انہیں پھر کیوں پال رکھا ہے؟ ہمیں ہر اس شخص یا گروہ کے خلاف لڑنا ہے جو قتال کرتے ہیں۔ لوگوں کو حقائق بتائیں کہ آخر امریکہ کیوں ڈرون حملے کرتا ہے؟ آخر وہاں کوئی تو چھپا ہوا ہے۔ ہم انکار کرتے رہے کہ ہم نے بن لادن کو پناہ دی ہوئی ہے۔ امریکہ نے اسے پکڑ لیا۔ ایٹمی ہتھیاروں کی فروخت کا الزام لگا تو ایران اور لیبیا نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ہتھیار خریدے۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ ہم افغانستان میں مداخلت کار ہیں۔ قبائلی علاقوں میں غیر ملکی رہتے ہیں۔ پختونوں کو کیا معلوم کہ چیچنیا کہاں ہے؟ ا فغانستان پر سکندرِ اعظم قبضہ نہیں کرسکا۔ امریکہ نہیں کرسکا۔ سوویت یونین نہیں کرسکا۔ آپ بھی نہیں کرسکتے۔ آپ کو خود مختاری عزیز ہے لیکن جب تک آپ ہمسائے کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کریں گے اس وقت تک آپ کی اپنی خود مختاری محفوظ نہیں ہوگی۔ ہم انگریز کے سامنے بچھے جاتے ہیں لیکن خاکروب سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں حالانکہ دونوں عیسائی ہیں۔ انسان انسان ہوتا ہے۔ فاٹا کے عمائدین سے بات کریں۔ ان غیر ملکیوں کی حکومتوں سے بات کریں اور انہیں واپس بھجوائیں۔‘‘
یہ سارے کڑوے سچ پختونخواہ عوامی ملّی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی میںتقریر کرتے ہوئے کہے اور سارے اخبارات میں شائع ہوئے۔ اچکزئی صاحب خوش قسمت ہیں کہ یہ سب کچھ کہہ کر بھی وہ دشنام کے تیروں اور طعن و تشنیع کی برچھیوں سے ابھی تک محفوظ ہیں۔ اس لیے کہ کوئی بدبخت کالم نویس یہ سچائیاں لکھنے کی جسارت کرتا تو اب تک دائرۂ اسلام سے خارج تو ہو ہی چکا ہوتا، زندگی کے دائرے سے نکالے جانے کی خوش خبریاں بھی مل چکی ہوتیں۔ منتخب عوامی نمائندے اس جنگل کے بادشاہ ہیں۔ حفیظ جالندھری نے کہا تھا    ؎
شیروں کو آزادی ہے
آزادی سے خورسند رہیں
جس کو چاہیں چیریں پھاڑیں
کھائیں، پئیں، آنند رہیں
عوامی نمائندے اسلحہ رکھنے سے لے کر مفرور رکھنے تک‘ ہر قسم کی پابندی سے مستثنیٰ ہیں۔ تحریک استحقاق انہیں ہر وہ حق دلاتی ہے جس کا عام پاکستانی سوچ بھی نہیں سکتا۔ کسان کے بچے کو گائوں میں گڑ بہت کم ملتا تھا۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا۔ ایک دن کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسان نے دیکھا کہ بادشاہ کی سواری گزر رہی ہے۔ اس نے بچے کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے اسے بتایا کہ وہ دیکھو‘ بادشاہ کے گھوڑے پر رکھی زین سونے کی ہے۔ بچہ کہنے لگا، بادشاہ کی کیا بات ہے۔ وہ تو گڑ کی زین بھی بنوا سکتا ہے۔ یہی حال ہمارے ان بادشاہوں کا ہے جو اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں۔ اچکزئی صاحب اس طاقت ور طبقے کا فرد نہ ہوتے تو اب تک ان کا جسم چھلنی ہوچکا ہوتا!
اچکزئی صاحب نے سچ کہا ہے ۔ جب تک سچائی کو ہم تسلیم نہیں کریں گے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ سچ سچ ہی رہتا ہے۔ اٹھارہ کروڑ تو کیا، اٹھارہ کھرب انسان بھی سچائی کی حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ ہم نے اپنے گرد ایک خول بنا رکھا ہے۔ ہم نے ایک مخصوص عینک لگا رکھی ہے۔ آنکھیں یرقان زدہ ہوں تو ہر شے زرد نظر آتی ہے۔ ہم ہر مسئلے کی تان سازش پر توڑتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی کے بارے میں ایک لطیفہ مشہور تھا کہ کسی نے انہیں ان کے گھر میں بچے کی ولادت کی خبر دی تو ان کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ یہ امریکی سازش ہے!
آخر اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کیا مضائقہ ہے کہ افغان جہاد کے سلسلے میں غلطیاں ہوئیں اور اس وقت تک پاکستانی قیادت کا وژن ان غلطیوں کا ذمہ دار ہے۔ مجاہدین کی مدد کرنا کوئی جرم نہ تھا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ساری دنیا کے ممالک اپنے حالات کے مطابق دوسرے ملکوں کی مدد کرتے ہیں۔ چھپ کر بھی اور علانیہ بھی۔ لیکن یہ کہیں بھی نہیں ہوتا کہ آپ چالیس لاکھ مہاجروں کو اپنا پورا ملک چراگاہ کی طرح پیش کریں۔ نوکریاں، مزدوریاں، مکان، دکانیں، کھیت، باغات، ٹرانسپورٹ سب کچھ ان کی خدمت میں پیش کردیں ا ور آپ کے اپنے شہری، دوسرے درجے کی مخلوق بن کر رہ جائیں۔ پورے ملک کو، خاص طور پر خیبرپختونخوا کے صوبے کو ضیاالحق اور ان کے حواریوں کی اس کوتاہ نظر پالیسی کا بے پناہ نقصان ہوا اور یہ صوبہ سو نہیں تو پچاس سال پیچھے چلاگیا۔ آج تک اس اندھی پالیسی کے بنانے والے اس سوال کا جواب نہیں دے سکے کہ یہ کھلی چھٹی افغان مہاجرین کو ایران میں کیوں نہیں دی گئی؟
آج پاکستان میں جتنا اسلحہ ہے، اتنا شاید پورے ایشیا میں نہ ہو۔ یہ کیسی پالیسی تھی جس کے نتیجے میں بم، راکٹ اور میزائل ٹافیوں اور کھلونوں کی طرح کھلی منڈی میں بکتے رہے۔ یہ سارا اسلحہ آج پاکستانیوں کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔ پشاور کے پہاڑوں سے لے کر کراچی کی کٹی پہاڑیوں تک ہمارے مرد‘ عورتیں اوربچے گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں اور اوجڑی کیمپ کے ’’سانحہ‘‘ کے بعد کھرب پتی ہوجانے والی اولادیں عیش و عشرت کررہی ہیں۔ ریٹائرڈ جرنیل اپنے محلات سے دانشوری بگھار رہے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک تباہ وبرباد ہورہا ہے! ان حضرات کی نزدیک کی نظر اس قدر کمزور ہے کہ انہیں کوئٹہ، کراچی اور پشاور میں بہتے ہوئے خون کے دریا نہیں نظر آرہے۔ یہ اب بھی دوسرے ملکوں پر قبضہ کرنے کی تدبیریں نہیں، بلکہ تقریریں کررہے ہیں!
محمود اچکزئی کے اس سوال کا جواب کون دے گا کہ امریکہ کیوں ڈرون حملے کررہا ہے؟؟ ہم جس ملکی خودمختاری کی بات ڈرون حملوں کے حوالے سے کررہے ہیں وہ ملکی خودمختاری غیر ملکی جنگجوئوں کی آمد اور مداخلت سے کیوں متاثر نہیں ہوتی؟ یہ ملک امریکہ کے باپ کا نہیں کہ وہ ہمارے ملک پر ڈرون حملے کرے۔ یہ حملے بند ہونے چاہئیں! اسی طرح یہ ملک غیر ملکی جنگجوئوں اوربھگوڑوں کے باپ کا بھی نہیں۔ کسی غیر ملکی طالع آزما کو ہماری مقدس سرحدیں پامال کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ آخر یہ جنگجو ان ملکوں کا رخ کیوں نہیں کرتے جو اسلام کے مراکز شمار ہوتے ہیں۔ پاکستانی فوجیوں پر حملے کرکے یہ کون سا چیچنیا اور کون سا فلسطین آزاد کرا رہے ہیں؟ ہمیں امریکی ایجنٹوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے اور غیر ملکی مداخلت کاروں کے ایجنٹوں سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہر دو قسم کے ایجنٹ ملک کے دشمن ہیں۔
تعجب  ہے کہ سچ بولنے کی پاداش میں محمود اچکزئی کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی! اچکزئی نے ثابت کردیا ہے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو یا نہ ہو، اسمبلی کا ممبر سچ بول سکتا ہے!!

Tuesday, June 18, 2013

نہیں! حضرت مفتی صاحب! نہیں!

دارالعلوم کراچی ان وقیع دینی مدارس میں شامل ہے جو پاکستان میں سرفہرست ہیں اور عالم اسلام میں بھی جانے پہچانے ہیں۔ اس کے بانی مفتی محمد شفیع مرحوم کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز مدرسین میں سے تھے۔ تقسیم سے چند سال پیشتر تحریک پاکستان کے لیے مستقل کام کرنے کی غرض سے انہوں نے تدریسی کام سے استعفیٰ دے دیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی ان کے رفقا میں شامل تھے۔ ان حضرات نے مولانا اشرف علی تھانوی کی ہدایت پر تحریک پاکستان کے لیے پورے برصغیر میں کام کیا۔ جمعیت علماء اسلام ان کا فورم تھی۔ (یہ بھی ایک معمہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جمعیت علماء اسلام ، علماء کے اس گروہ کی جیب میں کیسے چلی گئی جو کانگریس کے ہم نوا تھے اور قیام پاکستان کے مخالف تھے۔) مفتی محمد شفیع کی رحلت کے بعد ان کے نامور فرزندوں نے دین کی ترویج و اشاعت اور تدریس و افتا کا سلسلہ جاری رکھا۔ جسٹس تقی عثمانی کا نام اسلامی بنکاری کے ضمن میں مستند ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے اپنے مکتب فکر کے علما ہی نے اس میدان میں ان کی مخالفت کی ہے۔ مفتی محمد رفیع عثمانی دارالعلوم کے سربراہ ہیں۔ ان کے مرحوم بھائی ذکی کیفی معروف شاعر تھے۔ لاہور میں ان کا اسلامی کتابوں کی اشاعت کا وسیع کاروبار تھا۔ ذکی کیفی کے صاحبزادے، ہمارے دوست،سعود عثمانی کو شاعری اور کاروبار دونوں نعمتیں ورثہ میں ملی ہیں۔ کیسے کیسے اچھے شعر کہے ہیں۔    ؎
میں رفتگاں کے بنائے مکاں میں رہتا ہوں
کسی کے خواب سے کرتا ہے استفادہ کوئی
گزشتہ ہفتے ایک معاصر میں مفتی محمد رفیع صاحب نے دو قسطوں میں’’ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جو دراصل ان کی ایک حالیہ تقریر کی تحریری شکل ہے۔ مضمون میں انہوں نے نظریۂ پاکستان، پاکستان کے لیے مسلمانوں کی قربانیوں، 1965ء کے جہاد، ابتدائی دور کے اتحاد، افواج پاکستان کی عزت اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی اہمیت اور اسی قبیل کے دیگر موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔
ہم ہر مسلک کے علمائے کرام کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ علمائے کرام کی خدمات اور سامراجی عہد میں ان کی قربانیوں سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے۔ آج دین، جیسا بھی، ہمارے ہاں موجود ہے اس کے کریڈٹ کا بڑا حصہ علمائِ  کرام ہی کو جاتا ہے۔ تاہم، ہم جیسے طالب علم اور علمائِ کرام کے خادم صدقِ دل سے ان کی توجہ ان امور کی طرف بھی مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہیں جو علما ئِ کرام کی نظرِ کرم کے محتاج ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں، وہاں محض دو قومی نظریے کی تعریف، چالیس پچاس سال پرانی جنگوں اور اتحاد بین المسلمین کے تذکروں سے بات نہیں بنے گی۔ کاش مفتی صاحب قوم کو بالعموم اور اپنے عقیدت مندوں کو بالخصوص یہ بتاتے کہ بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں کے اسباب کیا ہیں۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ہی ہم وطنوں کو مسلسل موت کے گھاٹ کیوں اتار رہی ہے؟ فرقہ وارانہ، لسانی اور نسلی لحاظ سے پاکستانی قوم کیوں پارہ پارہ ہوگئی ہے؟ جن علما ئِ کرام نے تقسیم سے قبل مولانا اشرف علی تھانوی ؒاور ان کے عقیدت مندوں کی پاکستان کے حوالے سے مخالفت کی تھی، ان کی پیش گوئیاں کیوں درست ثابت ہورہی ہیں؟ سیاسی پیش منظر پر جو علما ئِ کرام چھائے ہوئے ہیں، ان پر پاکستانی عوام کی اکثریت ہنستی کیوں ہے اور ان کی شہرت ’’تو بازمانہ بساز ‘‘ کی کیوں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم
جس گڑھے میں گر چکے ہیں وہاں سے نکلنے کی کیا صورت ہے؟
تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لائق صد احترام علما ئِ کرام نے کم از کم چار حوالوں سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ اول وہ قوم کو مناہی اور رذائل سے نہیں بچا سکے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ قوم کی عظیم اکثریت مسجدوں میں جاتی ہے، نمازیں پڑھتی ہے اور جمعے کے خطبے کے علاوہ علماء کرام کے مواعظ اکثر و بیشتر سنتی ہے۔ صدقات ،خیرات، حج ،عمرے اور قربانی کے حوالے سے پاکستان عالم اسلام میں سر فہرست ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جھوٹ اور وعدہ خلافی میں بھی پاکستان سرفہرست ہے۔ جھگڑا فساد، گالی گلوچ، چغل خوری ،اسراف، بخل ، حرص ، حسد اور ریا کو برائی سمجھا ہی نہیں جاتا ۔انتہائی دردناک حقیقت یہ ہے کہ تاجروں کی بہت بڑی اکثریت مذہبی اور تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ یہ متشرع وضع کے لوگ نماز ، روزہ، حج، عمرہ، صدقہ ،خیرات میں ثانی نہیں رکھتے لیکن دوسری طرف ہماری یہی تاجر برادری ایسے کاموں میں رات دن مشغول ہے جو شرعاً ،اخلاقاً اور قانوناً قطعی طور پر ناجائز ہیں۔ ایک ،ہمارا تاجر گاہک سے جھوٹ بولتا ہے اور شے کا نقص نہیں بتاتا۔ دو، ہمارے تاجروں کی ریفنڈ پالیسی کوئی نہیں۔ ’’خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا‘‘ کا رویہ ہماری بزنس کمیونٹی کی سفاکی اور اخلاقی پستی کی کھلی دلیل ہے۔ تین، اشیائے خوردنی یہاں تک کہ بچوں کے دودھ اور لائف سیونگ ادویات تک میں ملاوٹ عام ہے اور پاکستان جن برائیوں کے لیے دنیا میں بدنام ہے، یہ ان میں سرفہرست ہے۔ صحت کی رو سے جعلی دوائوں کی تیاری اور فروخت میں پاکستان دنیا بھر میں تیرھویں نمبر پر ہے۔ چار، ہمارے تاجر ٹیکس چوری میں مشہور ہیں اور خود اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ پانچ، تجاوزات اس ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس کے ذمہ دار دکاندار اور تاجر ہیں۔حکومت اور عوام کی ملکیت کو شیرِ مادر سمجھا جاتا ہے۔ چھ، تاجروں کے اوقات کار عوام ،حکومت اورملک سب کے لیے تکلیف دہ اور اذیت ناک ہیں اور باقی دنیا سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ حضرات دن کے بارہ بجے سے رات دس گیارہ بجے تک کام کرتے ہیں۔ دوسری طرف مدارس انہی تاجروں کی خدمت سے چل رہے ہیں۔ یہاں مُلّا ملٹری گٹھ جوڑ کی بات ہوتی رہتی ہے۔ کہیں یہ مُلّا بزنس گٹھ جوڑ تو نہیں؟ رذائل اخلاق عام ہونے کا ایک سبب ،ہمارے علما ء ِکرام کی حقوق العباد سے چشم پوشی بھی ہے۔ ان کا سارا زور عبادات پر ہے۔ سنجیدہ اور ثقہ علمائِ کرام تبلیغی جماعت سے اس حوالے سے اپنے اختلاف کا ذکر نجی محفلوں میں کرتے ہیں لیکن عوام کے سامنے
 بات نہیں کرتے۔ دوم، ملک آج قومی اداروں کی جس شکست و ریخت کا شکار ہے اسے شروع توبھٹو صاحب نے کیا تھا لیکن اوجِ کمال پر ضیا ء الحق نے پہنچایا اور علما ئِ کرام نے اس کی مکمل پشتبانی کی۔ سوم، زرعی اصلاحات جاگیردارانہ نظام اور سرداری سسٹم کو ختم کرنے پر ہمارے علما کرام نے اپنے فرائض سے پہلو تہی کیا۔ حضرت عمرؓ جاگیردارانہ نظام کے خلاف تھے۔ یہی پالیسی حضرت عمر بن عبدالعزیز کی تھی لیکن ہمارے علما مجموعی طور پرلامحدود نجی ملکیت کے حامی رہے ہیں۔ چہارم، طالبان ایک مخصوص مسلکِ فکر کے علم بردار ہیں۔ جب ان حضرات نے دوسرے مسالک کے علما اور پیروں کی لاشیں قبروں سے کھود کر نکالنا شروع کیں اور مزاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر سرِعام اس کا اعتراف بھی کیا تو اس مخصوص مسلک کے علما نے مصلحتاً یا عمداً اس کی مخالفت کی ،نہ اعلانِ برأت کیا۔ جسٹس تقی عثمانی جیسے نامور علما ئِ کرام نے یہ بھی فرمایا کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے اور ’’خاموشی‘‘ بہتر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب جوڑیا بازار کراچی پر حملہ ہوا تو پریس کانفرنسیں کی گئیں۔
موضوع وسیع ہے اور دامن قرطاس تنگ ع شب کوتاہ و قصہ طولانی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صرف علما ء کرام ہی کیوں؟ باقی شعبے بھی ذمہ داری پوری کریں۔ بجا۔ لیکن اسلام کے نام لیوا صرف علما ء کرام ہیں اور عوام ہر طرف سے مایوس ہو کر سچے، بے غرض اور جینوئن علما ء کرام کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مفتی صاحب کی خدمت میں ادب سے عرض گزاری ہے کہ    ؎
گلہ ہا داشتم، از دل بزبانم رسید
مہر و بی مہری و یاری ازتست

Thursday, June 13, 2013

ثاقب

مملکت خدادادِ پاکستان میں اُس دن بھی کابینہ کی میٹنگ منعقد ہوئی تھی۔ یہاں لوڈشیڈنگ تھی نہ دھوپ، کمرا اتنا ٹھنڈا تھا کہ کوٹوں اور واسکٹوں میں سب نے اپنے آپ کو فِٹ محسوس کیا تھا۔ وزیراعظم نے مِنرل واٹر کی بوتل کھولی تھی۔ اس لمحے کو ٹیلی ویژن کیمروں نے محفوظ کر لیا تھا۔ اگر اُس کے گھر میں ٹیلی ویژن ہوتا تو وہ بھی یہ منظر دیکھتا۔
مملکت خداداد میں اُس دن بھی لاکھوں ٹن شربت، کولڈ ڈرنک، پھلوں کے رس، بوتلوں اور ڈبوں کی صورت میں تیار ہوئے تھے۔ دساور سے بھی پہنچے تھے۔ فائیو سٹار ہوٹلوں سے لے کر محلات تک، عام ریستوران سے لے کر کوٹھیوں تک، کھوکھوں اور ریڑھیوں سے لے کر گلیوں محلوں تک کروڑوں خوش قسمتوں نے یہ مشروبات پیے تھے اور اپنی پیاس بُجھائی تھی۔ تباہ حال معیشت کے باوجود اُس دن بھی لاکھوں تقاریب شادیوں کی برپا ہوئی تھیں۔ خوبصورت خیمے نصب کیے گئے تھے جن  میں پنکھے چل رہے تھے۔ عالی شان ہوٹلوں، وسیع و عریض شادی ہالوں، سول گیسٹ ہائوسوں اور فوجی میسوں میں منعقد کی گئی ان شادیوں کی تقاریب میں درجنوں کورس کے کھانے پیش کیے گئے تھے۔ مشروبات کی ریل پیل تھی۔ زرق برق پوشاکوں میں ملبوس خوبصورت گول مٹول بچوں نے بوتلوں پر بوتلیں لنڈھائی تھیں۔
اُس دن بھی جہازی سائز کی گاڑیوں میں سوار خوش بخت بچوں نے لبرٹی، ڈیفنس مارکیٹ، جناح سپر اور کلفٹن میں فیشن ایبل دکانوں، سپر سٹوروں اور مغربی طرز کے Out Letsپر آکر آئس کریم کھائی تھی۔ قسم قسم کی آئس کریمیں، عجیب عجیب ناموں والی۔ انہوں نے کاروں، لینڈ کروزروں، پجاروں میں بیٹھے بیٹھے ہی آرڈر دیے تھے۔ اُس وقت ان کی گاڑیوں کے ائیر کنڈیشنر چل رہے تھے۔
اسلام کے اِس اکلوتے قلعے میں اُس دن بھی فلسطین‘ عراق اور چیچینا کے بچوں کی فکر میں غلطاں رہنمائوں نے تقریریں کی تھیں۔ مسلح محافظوں کے سائے میں کھڑے ہو کر انہوں نے اُس دن بھی عہد کیا تھا کہ وہ مغرب کو ناکوں چنے چبوا دیں گے۔ کروڑ پتی سابق جرنیلو ں نے اُس دن بھی افغانستان اور امریکہ کے بارے میں فلسفیانہ مضامین لکھے تھے اور نہ سمجھ میں آنے والی موشگافیاں کی تھیں۔ اُس دن بھی گِری ہوئی دیوار برلن کے محفوظ شدہ ٹکڑوں سے شیش محل نما ڈرائنگ روموں میں گرد صاف کی گئی تھی۔
اُس دن بھی بلاول زرداری بھٹو، حمزہ شہباز، مریم نواز، مونس الٰہی اور فضہ گیلانی نے اپنی اپنی جائیدادوں، جاگیروں، صنعتوں، کارخانوں، فیکٹریوں اور فارموں کا جائزہ لیا ہو گا اور اُس عرصے کو ماپا ہو گا جو اُن کے اور تخت کے درمیان وقتی طور پر حائل ہے۔
ستائیسویں رمضان کو معرضِ وجود میں آنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان سے باہر بھی اُس دن عالمِ اسلام کے اطراف و اکناف میں مسلمان اپنی اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہے تھے۔ مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے شہزادے نے ڈزنی لینڈ پیرس میں اپنے گریجوایٹ ہونے کی تقریب منعقد کرتے ہوئے پندرہ ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ یورو خرچ کیے تھے۔ ڈلروں میں یہ رقم ایک کروڑ پچانوے لاکھ بنتی ہے۔
اس دن بھی رباط ، سکندریہ، قاہرہ، جدہ، دبئی، انقرہ، کراچی، جکارتہ اور دارالسلام میں محلات کی تعمیر جاری رہی تھی۔ بڑے بڑے محلات، ساحلوں پر، پہاڑوں کے دامن میں، جزیروں کے درمیان، یورپ اور امریکہ کے خوبصورت قصبوں میں، بحر روم کے کناروں پر۔ اس دن بھی عرب شہزادوں اور بادشاہوں نے ان ہوائی جہازوں کی تعمیر کے آرڈر دیے تھے جن میں کثیر المنزلہ خواب گاہیں، ڈرائنگ روم اور بارمہیا کیے جاتے ہیں ۔ جن کا ایک واش روم کروڑوں ڈالروں میں تیار ہوتا ہے، جن میں ملازمین کی افواج ظفر موج فضائوں میں مالکان کے ایک ایک اشارۂ ابرو کی تعمیل جان ودل سے کرتی ہیں اور جن کی تنخواہیں کوہ تخیل سے بھی بلند تر ہیں۔
اس دن بھی ہمارے آسودہ حال ٹی وی اینکر، لاکھوں روپوں کے سوٹوں میں ملبوس اپنے اپنے محلات سے عالی شان سواریوں میں بیٹھ کر ٹی وی سٹوڈیوز میں پہنچے تھے۔ ان کی ٹیمیں اس دن بھی وزیروں اور گورنروں کی سرگرمیوں کو کورکرنے ہرجگہ گئی تھیں۔ یہ محض اتفاق تھا کہ مرتے ہوئے ثاقب کو دیکھنے یادکھانے کوئی ٹیلی ویژن ٹیم نہ پہنچ سکی تھی۔ اس کی خون آلود گردن اور کٹے ہوئے پیٹ کی تصویر پرنٹ میڈیا میں بھی نہ چھپ سکی تھی۔ بس اندر کے کسی صفحے پر ایک کالمی خبر چھپی تھی جو چار پانچ سطروں سے زیادہ نہ تھی۔ صدر، وزیراعظم گورنروں وزیروں مشیروں اور پوری دنیا پراسلام کا جھنڈلہرانے کا عزم رکھنے والے مجاہدین اسلام کے پاس دم توڑتے ثاقب کے لیے وقت نہیں تھا۔
اس دن چک 53گ ب میں دس سالہ ثاقب برف فروش کے پاس آیا تھا۔ پیاس سے اس کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ زبان خشک تالو سے لگ کر باہر آرہی تھی۔ اس نے برف فروش سے برف مانگی۔ برف فروش نے کہا پیسے لائو۔ اسلام کے اس قلعے میں رہنے والے ثاقب کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ برف کا ایک انچ لمبا ، ایک انچ چوڑا اور آدھا انچ موٹا ٹکڑا خرید سکتا۔ برف بیچنے والے نے انکار کردیا ۔ ثاقب کا پیاس سے براحال تھا۔ فرشتے العطش العطش پکاررہے تھے۔ ثاقب نے غیراختیاری طورپر برف کا چھوٹا سا مکعب نما ٹکڑا ، کنارے سے اٹھا کر منہ میں ڈالا اور اسے چوسنے لگا۔ برف فروش کے ہاتھ میں سوا تھا جس سے وہ برف کی چٹانیں کاٹتا اور چیرتا تھا۔ اس نے نوک والی طرف سے سوا ثاقب کے جسم میں گاڑ دیا۔ کچھ کہتے ہیں سوا گردن میںپیوست ہوا، کچھ بتاتے ہیں پیٹ میں گیا، ہوسکتا ہے ۔ نرم دل برف فروش نے پہلے پیٹ میں سوا گاڑا ہو اور پھر دوسراوار گردن پر کیا ہو، بہرحال سوا پیٹ میں گڑا یا گردن میں، ثاقب گرپڑا، اسے جڑانوالہ تحصیل ہسپتال لے جایا گیا۔ تحصیل
ہسپتال کی حالت ویسی ہی تھی جیسی اس مملکت خداداد میں سرکاری ہسپتالوں کی عموماً اور تحصیل ہسپتالوں کی خصوصاً ہوتی ہے۔ موت کے ننھے دس سالہ مسافر کو وہاں سے فیصل آباد ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں پیر کی صبح اس نے بیس بیس حج اور پچاس پچاس عمرے کرنے والے نیکوکاروں کی اس پاک سرزمین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔
آدھی دنیاپرحکمرانی کرنے والے کھدر پوش،بوریا نشین فاروق اعظمؓ نے کہا تھا کہ اگرفرات کے کنارے کتا بھی مرگیا تو عمرؓ سے جواب طلبی ہوگی! لیکن ثاقب کی کٹی ہوئی گردن اور انتڑیاں نکالتے پیٹ کے بارے میں حکمرانوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیںہوگی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول پاکستان عمرفاروق اعظمؓ کی سلطنت کے ایک صوبے سے بھی چھوٹا ہے۔ دوم، ماچس کی ڈبیا کے سائز کے اس ملک میں رسل ورسائل اور مواصلات اکیسویں صدی کی ہیں۔ سوم عمرؓ غریب شخص تھے۔ ہمارے حکمران کھرب پتی ہیں۔
ثاقب کا خون کس کی گردن پر ہے ؟ برف فروش کی گردن پر یا ان کی گردن پر جوثاقب کی ضروریات کے ذمہ دارتھے اور جن سے کل ضرور پوچھا جائے گا اس لیے کہ ثاقب فرات کے کنارے مرتا ہوا کتا نہ تھا ، انسان تھا !
دنیا کے پچاس پچپن مسلمان ملکوں میںپاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کا قلعہ ہونے کا دعویدار ہے۔ اسلام کے اس قلعے میں رہنے والے پندرہ امیرترین شخص اگر اپنی اپنی دولت کا نصف حصہ ۔نہیں۔ نصف چھوڑیے، ایک تہائی بھی بروئے کار لائیں تو اس ملک میں چوبیس گھنٹے بجلی مہیا ہوسکتی ہے اور ہرثاقب کے گھر میں ریفریجریٹر ہوسکتا ہے !

Wednesday, June 12, 2013

بلبلے

                                                 ’’موسم خوشگوار ہے‘‘ ایک دوست نے دوسرے سے کہا ’’کیوں نہ جنوب کے ان ٹیلوں کی سیر کریں جہاں ہم سردیوں میں شکار کھیلنے جاتے ہیں۔‘‘دوسرے دوست نے اتفاق کیا اور وہ چل پڑے۔ یہ ایک سہ پہر تھی۔ معتدل اور گوارا۔ گرمی زیادہ تھی نہ کم۔ ہوا چل رہی تھی۔ کھیتوں میں کام کرنے والے سستانے اور ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد دوبارہ مصروف کار تھے۔ ڈھور ڈنگر چر رہے تھے۔ گھنٹیوں کی آواز ٹھہری ہوئی فضا میں ارتعاش پیدا کرتی اور پھر خاموش واپس آجاتی۔ دونوں دوست چلتے جارہے تھے۔ کبھی ان میں سے ایک کسی گیت کی لَے چھیڑتا اور ذرا دیر بعد دوسرا اس کا ساتھ دینے لگتا۔ وہ جھیل نما بڑے تالاب کے شمال سے گزرے، سیاہ چٹانوں سے ہوتے ہوئے پہاڑی نالے کے ساتھ ساتھ چلتے گئے۔ موسم کی دلکشی ان پر مستی کی تہہ بچھا رہی تھی۔ وہ باتیں کررہے تھے۔ بچپن کی، لڑکپن کی، میلوں ٹھیلوں کی، مویشیوں، گھوڑوں اور شکاری کتوں کی، باز سے کھیلے جانے والے خرگوش کے شکار کی۔ اس سرخ گھوڑی کی جس کے ہر بچے کے ماتھے پر سفید ستارہ نما نشان ہوتا تھا۔ اس قوی ہیکل خودسر بیل کی جو کئی متکبروں کو سینگوں پر رکھ کر ہوا میں اچھال چکا تھا، بیج کی کوالٹی اور کھاد کی قیمتوں کی، چھپے ہوئے اور ظاہر ہوچکے معاشقوں کی، یہاں تک کہ وہ ان ٹیلوں تک پہنچ گئے جو سرخ مٹی کے تھے، دور تک پھیلے ہوئے تھے اور جن کے درمیان وسیع میدان تھا۔
ہوا تیز ہوچکی تھی۔ چھدرے چھدرے بادل کالی گھٹا میں تبدیل ہوچکے تھے۔ آنے والی بارش کی خوشبو فضا میں پھیلتی جارہی تھی۔ ایک دوست آگے آگے جارہا تھا۔ پگڈنڈی نما راستہ اتنا چوڑا نہیں تھا کہ دونوں ساتھ ساتھ چل سکتے۔
’’تمہیں معلوم ہے میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟‘‘پیچھے آنے والے دوست نے دفعتاً بلند آواز سے پوچھا، لہجے میں ایک سرد تبدیلی تھی جس نے آگے جانے والے شخص کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ چونکا اور اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا پیچھے آنے والے دوست کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔’’میں آج تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ اس نے فیصلہ کن لہجے میں بتایا۔
کوئی پرانی دشمنی تھی۔ رشتوں سے پھوٹتی ہوئی، یا سالہا سال پہلے کا کوئی جھگڑا تھا یا کبھی کوئی مقدمہ بازی ہوئی تھی، جو کچھ بھی تھا، پیچھے آنے والے نے بغض دل میں رکھا ہوا تھا اور موقع کی تلاش میں تھا اور آج موقع مل گیا تھا۔ آگے چلنے والا نہتا تھا۔ سیر کے لیے گائوں سے باہر آتے وقت اس نے مسلح ہونا ضروری نہیں سمجھا تھا اور وہ جس کے پاس ریوالور تھا اپنا حساب چکانے تیار ہو کر آیا تھا۔ بوندیں پڑنا شروع ہوگئی تھیں۔ نہتے نے وضاحتیں پیش کیں، قسمیں کھائیں، قول دیے، اپنی بے گناہی واضح کی لیکن خون سر پر چڑھا تھا۔ معافی کا کوئی سوال نہیں تھا۔ بھاگنا بے سود تھا۔ اس سے بہتر تھا کہ منت زاری کی جائے جو نہتے شخص نے بہت کی۔ مسلح دوست نے آخری وارننگ دی کہ گولی چلانے لگا ہوں۔ بارش اب تیز ہوچکی تھی۔ قتل ہونے والے نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ہر طرف کالے بادل تھے۔ پھر زمین کی طرف نگاہ کی۔ میدان میں پانی جمع ہوچکا تھا۔ہر بوند جو پڑتی، ایک بلبلا بناتی۔ بلبلا کچھ دور تک پانی میں تیرتا، پھر ٹوٹ جاتا اور دائروں میں بدل جاتا۔ بے کسی، بے کسی اور ناامیدی کی انتہا تھی۔ نہتے نے آخری حربہ آزمایا۔ اس نے کہا ، دیکھو یہ بلبلے جو بارش کی بوندیں بنا رہی ہیں۔ یہ تمہیں پکڑوا دیں گے۔ مسلح شخص نے طنز سے کہا ’’بلبلے! یہ کیسے پکڑوائیں گے؟‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے فائر کیا۔ ویرانے کے سناٹے میں ارتعاش پیدا ہوا، پھر آواز مرگئی، نشانہ بننے والا گرا، اس کا ایک ہاتھ دل پر تھا پھر اس کی جاں، جسم سے جدا ہوگئی۔ قاتل نے لاش کسی کھڈ میں ڈالی۔ پکا انتظام کیا اور واپس آگیا۔ تفصیل غیرضروری ہے۔ چند دن ڈھنڈیا پڑی، پولیس آگے پیچھے بھاگی، کچھ نہ ہوا، معاملہ ختم ہوگیا۔
سال گزرتے گئے، گزر گزر کر عشروں کی صورت اختیار کرتے گئے۔ قاتل ادھیڑ عمر کو پہنچ گیا۔ ویسا ہی موسم تھا۔ اس دن گھٹائیں امڈ امڈ کر آرہی تھیں۔ ہوائیں تیز چل رہی تھی۔ بجلی چمکتی تھی اور جھٹپٹے میں حویلی کے دیوار و در روشن ہوتے تھے۔ بادل گرجتا تھا یوں جیسے مقتولوں پر بین کررہا ہو۔ وہ کمرے میں چارپائی پر نیم دراز ہو کر لیٹا تھا اور صحن پر نظریں جمائے تھا۔ بوندیں گرتیں تو بلبلے بنتے۔ ہر بلبلہ تیرتا، پھر ٹوٹ کر دائروں میں بٹ جاتا۔ اسے کئی سال پرانی بارش یاد آئی۔ مرتے وقت اس نے کہا تھا یہ بلبلے تمہیں پکڑوا دیں گے! لیکن نہ پکڑوا سکے۔ اس کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے فاتحانہ مسکراہٹ آئی اور پھر غائب ہوگئی۔ لیکن یہ وہ لمحہ تھا جب اسی کمرے میں بیٹھی ہوئی اس کی بیوی کی نظر اس پر تھی۔ اسے عجیب سا لگا، اس کا میاں ٹکٹکی باندھے صحن کو دیکھ رہا ہے اور ایک لمحے کے لیے بہت ہی عجیب، بہت ہی پراسرار اندازمیں مسکرایا۔ یہ مسکراہٹ عام مسکراہٹ ہرگز نہیں تھی۔
وہ پیچھے پڑ گئی۔ ہر بیوی کی طرح جو میاں کے ہر راز میں شریک رہنا چاہتی ہے اور جسے میاں کی ہر مسکراہٹ میں کوئی اور عورت دکھائی دیتی ہے۔ میاں نے بہانے بنائے لیکن چل نہ سکے۔ عورت کا عزم چٹانوں کو پانی کر دیتا ہے۔ وہ مصر رہی۔ زچ ہو کر ایک دن میاں نے راز کی بات بتا ہی دی۔ عورت پر سنتے ہی سکتہ طاری ہوگیا۔ خاوند نے وارننگ دی کہ اب یہ بات اگر تم نے کسی کو بتا دی تو اچھا نہیں ہوگا لیکن عورت اتنی بڑی بات اپنے اندر رکھتی تو کیسے رکھتی۔ وہ تو پھٹنا چاہتی تھی۔ رات کو اسے نیند نہ آتی اور دن کو وہ کھوئی کھوئی سی رہتی آخر کار اس نے نجات اس میں سمجھی کہ عزیز ترین سہیلی کو بتا دے۔ اس سے قسم لی کہ وہ کسی کو نہیں بتائے گی۔ اس نے کسی اور سے قسم لی اور یوں کئی سہیلیوں نے قسمیں کھائیں۔ بات کھل گئی۔ گائوں میں سو سجن اور سو ہی دشمن ہوتے ہیں۔ مقدمہ چلا اور پھانسی ہوئی۔
ہم بلبلوں کو بھول جاتے ہیں۔ بلبلے صرف پکڑواتے نہیں، پھانسی تک لے کر جاتے ہیں۔ وہ جاگیردار نوجوان جس نے نہتے شاہ زیب کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ دو دن پہلے ٹیلیویژن سکرینوں پر سزائے موت سننے کے بعد اٹکھیلیاں کررہا تھا، ہنس رہا تھا اور انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا رہا تھا۔ یہ جاگیردارانہ مائنڈ سیٹ تھا جو اس سے یہ سب کچھ کرا رہا تھا۔ اس ملک میں قانون ہمیشہ سے فیوڈلزم کا دربان‘ بیوروکریسی غلام اور حکمران محتاج رہے ہیں۔ نہیں معلوم موت کی سزا پر عملدرآمد ہوگا یا نہیں لیکن اگر عملدرآمد نہ بھی ہوا تو چند دن کی بات ہے۔ بلبلے کسی کو نہیں چھوڑتے۔

Monday, June 10, 2013

سیاست اور مذہب کے باہمی تعلقات

گزشتہ ہفتے، انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کے حوالے سے جو تحریر شائع ہوئی تھی، اس کے ردعمل میں بہت سے قارئین نے رابطہ کیا ہے۔ نہ جانے یہ بات قابلِ اطمینان ہے یا باعث تشویش کہ اکثر سوالات اور اعتراضات جماعت اسلامی سے متعلق ہیں۔ ایک سوال جو بہت سے حضرات نے اٹھایا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کی ہم خیال جماعتیں ترکی اور مصر میں انتخابات جیت سکتی ہیں تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟
ترکی اور مصر کی برسراقتدار اسلامی جماعتوں کے بارے میں ہم میں سے اکثر کی معلومات سطحی ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس ضمن میں وہاں نظر آنے والی اور زیرزمین رویں کیسی ہیں اور ان کا رُخ کس طرف ہے؟ جس قدر علم جماعت اسلامی کی بہترّ سالہ تاریخ کے بارے میں ہمارے پاس موجود ہے‘ ترکی اور مصر کی سیاسی جماعتوں اور مذہبی پریشر گروپوں کے متعلق اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ عدلیہ کے حوالے سے مصریوں میں کچھ روز پہلے صدر مرسی کے خلاف ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ نہ جانے اس کی صحیح نوعیت کیا تھی؟ آج کل ترکی میں وزیراعظم کے خلاف جلسے ہورہے ہیں۔ جلوس نکالے جارہے ہیں اور دھرنے دئیے جارہے ہیں۔ کچھ مغربی صحافیوں کے رائے میں اس کا سبب یہ ہے کہ وزیراعظم استنبول کے میئر سے لے کر ملک کے وزیر خارجہ تک‘ ہر ایک کے کام میں بے تحاشا دخل اندازی کررہے ہیں اور عوام اس ون مین رول سے عاجز آچکے ہیں لیکن اس رائے کی ثقاہت واضح نہیں! ان ہنگاموں کو ’’عرب بہار‘‘ سے تشبیہ دینا بھی قبل از وقت ہے۔
اس موضوع کا حق وہی شخص ادا کرسکتا ہے جس کی معلومات ترکی، مصر اور پاکستان کی اسلامی جماعتوں کے بارے میں یکساں ہوں۔ اس کے باوجود بنیادی حقائق اس قبیل کے موازنے کو کبھی بھی منطقی قرار نہیں دیں گے۔ ترکی اور مصر لسانی طور پر اکائیاں ہیں۔ ترکی کے عوام کی ایک ہی مشترکہ زبان ہے۔ یہی حال مصر کا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کئی زبانوں کا ملک ہے۔ نسلی لحاظ سے بھی یہاں مختلف گروہوں کے درمیان مناسبت مفقود ہے۔ فرقہ وارانہ اختلافات بھی پاکستان میں، ان دونوں ملکوں کی نسبت زیادہ ہیں اور ہنگامہ خیز ہیں۔
سنا ہے کہ مصر میں اخوان المسلمین نے ایسے بہت سے اقتصادی منصوبے آغاز کیے جن میں عوام کی شراکت تھی۔ ان میں سے اکثر منصوبے کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ پاکستان کی جماعت اسلامی نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ اگرچہ صدقہ خیرات کرنے والی تنظیمیں ضرور مصروف کار ہیں جنہیں عوامی خدمت کا نام دیا جاتا رہا لیکن اہمیت مچھلی دینے سے زیادہ مچھلی پکڑنے کا ہنر سکھانے کی ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ میاں طفیل محمد اور ضیاء الحق کے زمانے میں جماعت اسلامی کو جو منفی اور متنازع ’’کامیابیاں‘‘ حاصل ہوئیں، کیا ترکی اور مصر کی جماعتوں کو بھی ایسے حادثے پیش آئے؟ میاں طفیل محمد مرحوم کی قیادت کا زمانہ یاد کرکے وہ بات ذہن میں آجاتی ہے جو ایک اور مذہبی، غیر سیاسی، جماعت کے متعلقین کے بارے میں اسی جماعت کے ایک بزرگ نے کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عقل کے بجائے اخلاص دیا ہے! ضیاء الحق کے طویل دور آمریت میں جماعت اسلامی کی شہرت بی ٹیم کی رہی۔
ایک اور واضح فرق یہ ہے کہ پاکستان کی جماعت اسلامی عوام کے مسائل سے ہمیشہ بے نیاز رہی۔ اندرون ملک اس کی دلچسپیاں نہ ہونے کے برابر رہی ہیں۔ سوویت یونین کی افغانستان آمد کے بعد جو متنازع جہاد شروع ہوا، جماعت اسلامی کی ساری دلچسپیاں اور سرگرمیاں اس تک محدود ہو کر رہ گئیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں، لیکن پوری دنیا اس جہاد کو ’’سی آئی اے کا شروع کردہ جہاد‘‘ کہتی ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم اکثر و بیشتر قومی سطح کے اخبارات میں
مضامین لکھتے رہے ہیں۔ ان کی کوئی ایک تحریر بھی ایسی نہیں جس میں ملک کو درپیش مسائل کا ذکر ہو۔ ان کا پسندیدہ موضوع افغان جہاد‘ مجاہدین کی خفیہ آمد اور قیام اور ان سے ان کے خصوصی روابط تھا۔ یا وہ عالم اسلام کے دیگر رہنمائوں سے اپنی ملاقاتوں اور تعلقات کا ذکر شوق سے کیا کرتے تھے۔ سید منور حسن کی شہرت نظم و ضبط اور مالی معاملات میں احتیاط کے حوالے سے اپنے پیشروئوں کی نسبت بہت بہتر ہے لیکن ملک کے اندرونی مسائل سے ان کی بے نیازی ویسی ہی ہے۔ وہ یہ واضح نہیں کرتے کہ ’’گو امریکہ گو‘‘ تحریک کی کامیابی کے بعد کیا ہوگا؟ ترکی اور مصر میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی کا ایک سبب یقیناً یہ ہے کہ ان جماعتوں نے عوام کو درپیش معاشی اور معاشرتی مسائل کا ٹھوس حل پیش کیا ہوگا اور اس میدان میں مسلسل انتھک کام کیا ہوگا۔
فرد کی اصلاح کا جو پوٹینشل جماعت اسلامی میں تھا وہ کسی بھی دوسری مذہبی جماعت سے زیادہ تھا۔ بالخصوص ان جماعتوں کی نسبت جو ایک طویل عرصہ سے گلی گلی‘ کوچہ کوچہ اور قریہ قریہ پھر رہی ہیں اور قرآن اور قرآنی تعلیمات سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتیں، جماعت اسلامی نے اپنا تعلق قرآن سے مضبوطی کا رکھا۔ اس کے تربیتی پروگراموں میں قرآنی تعلیمات باقاعدگی سے دی جاتی ہیں۔ اگر یہ جماعت سیاست سے کنارہ کش رہتی اور فرد کی اصلاح کو اپنا نصب العین بناتی تو حالات مختلف ہوسکتے تھے لیکن یہ بہر طور ایک رائے ہے اور اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔
پاکستانی پیش منظر پر مذہبی اختلافات اور فرقہ واریت کی جو خوفناک گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں اس کے پیش نظر مذہبی جماعتیں سیاست سے نکل کر جس قدر جلد معاشرتی اصلاح کا راستہ اپنالیں، اتنا ہی بہتر ہے۔ ہماری عافیت اس میں ہے کہ سیاسی جماعتیں مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی اور نسلی حوالوں سے ہمہ گیر ہوں اور سب کو اپنے دامن میں لے سکتی ہوں۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف ایسی ہی جماعتیں ہیں۔ جماعت اسلامی بہر طور ایک ایسی مذہبی جماعت ہے جس میں شیعہ اور بریلوی نہیں پائے جاتے۔ جماعت اپنے آپ کو جو کچھ بھی کہے اس کے ارکان اور متعلقین کی تقریباً تمام تعداد دیوبندی اور اہل حدیث عقائد کی پیروکار ہے۔ پاکستان میں کسی ایسی مذہبی جماعت کا وجود میں آنا ناممکن ہے جو ہر عقیدے سے ہم آغوش ہوسکے۔ پاکستان مصر ہے نہ ترکی! پاکستان پاکستان ہے۔ اس کے اپنے مسائل ہیں اور اپنی حساسیت ہے!
یوں بھی مصر اور ترکی میں برسراقتدار اسلامی جماعتوں کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ ایران میں بھی اہل مذہب کے اقتدار نے ابھی تک اُسے بین الاقوامی تنہائی ہی عطا کی ہے!

Friday, June 07, 2013

میاں محمد نواز شریف اور ستارے

ایک اوربادشاہ تخت پر بیٹھا ہے۔ ایک اور صفحہ کھل گیا ہے۔ ستارے دیکھ رہے ہیں۔ کہیں دور، آسمانوں سے اوپر، کسی زبردست ہاتھ میں قلم ہے۔ یہ صفحہ بھی بھر جائے گا۔ ایک اور بادشاہ آئے گا۔ پھر اس کا صفحہ کھلے گا۔
دس سال ایوب خان نے بادشاہی کی۔ صفحہ الٹ نہ دیا جاتا تو الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب دین الٰہی بھی ایجاد کردیتے۔ دس سالہ بادشاہی سے قوم کو کیا ملا ؟ اول مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج تناور درخت کی صورت میں ، دوم گوہرایوب خان ، سوم عمرایوب خان، یحییٰ خان تو اونٹ کی پشت پر آخری تنکا تھا۔ سب کچھ پہلے تیار ہوچکا تھا۔ اس بلانوش نے مالی بددیانتی کی نہ اس کا بیٹا قوم پر مسلط ہوا۔ پھر اس مظلوم، معتوب ، مقہور اور مغضوب قوم نے ذوالفقار علی بھٹو کی بادشاہی کو شہنشاہی میں بدلتے دیکھا۔ عقل کے اندھے کہتے ہیں اس نے غریبوں کو زبان دی اور لوگوں نے کے ٹی کے سوٹ پہننے شروع کیے، وہ یہ دیکھنے سے معذور ہیں کہ اس نے جاگیرداری کو مستحکم کیا۔ بظاہر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھٹو کا طرز فکر دیکھنا ہوتو ممتاز بھٹو کو دیکھو۔ فرماتے ہیں فلاں نشست ہماری خاندانی نشست ہے۔ بیگم صاحبہ فرماتی تھیں بھٹو کی اولاد پیدا ہی حکمرانی کے لیے ہوئی ہے۔ جیالے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے تھے تو برا مناتی تھیں۔ گلاب کی خوشبو سے الرجی تھی! بھٹو نے وراثت میں کیا چھوڑا؟ اول ضیاء الحق، دوم بے نظیر بھٹو، سوم مصطفی کھر۔ ستارے ضیاء الحق کا طویل ، مضبوط، زمانہ دیکھتے رہے ، زبردست قلم لکھتا رہا۔ اورنگ زیب کے بارے کسی من چلے نے لکھا تھا کہ کوئی نماز چھوڑی نہ کوئی بھائی چھوڑا۔ اس کا جواب بھی دینے والوں نے دیا۔ بھائی چارتھے۔ قبریں تین تھیں۔ دارا بادشاہ بنتا یا شاہ شجاع یا مراد، تین نے ماراہی جانا تھا۔ مغلوں کی تاریخ کسی نے پڑھنی ہوتو ابراہام ایرالی کو پڑھے۔ کسی پاکستانی سے یہ کام نہ ہوا۔ اشتیاق حسین قریشی نے ہمت کی لیکن بات نہ بنی۔ غالباً وہ سینٹ سٹیفن کالج دہلی میں ضیاء الحق کے استاد تھے۔ شاگرد نے استاد کے لیے مقتدرہ قومی زبان ایجاد کیا۔ مقصد سعادت مندی تھا۔ اردو کا نفاذ نہ تھا۔ نیت خالص ہوتی تو اردو نافذ ہوجاتی۔
ستارے ضیاء الحق کا زمانہ دیکھتے رہے اور گیت گاتے رہے۔ مرحوم نے کوئی نماز چھوڑی نہ کوئی ادارہ چھوڑا۔ بادشاہی تھی اور مکمل بادشاہی! جولفظ منہ سے نکلتا قانون کی شکل اختیار کرلیتا۔ خلجی، بلبن اور تغلق قبروں میں کروٹیں لیتے تھے اور حسد کرتے تھے۔ علما اور مشائخ کو بھی دسترخواں پر بٹھائے رکھا اور شتروگھن سنہا سے بھی منہ بولی رشتہ داری نبھائے رکھی۔ سلطنت کے انتظام وانصرام کا واحد معیار ذاتی وفاداری تھی۔ وہ تو بھلا ہو بحیرہ اوقیانوس کے پارایک ملک کا جس نے ایک صاحب کو بطور سفیر قبول ہی نہ کیا ورنہ کون سا مجرم تھا جسے دربار سے خلعت اور گھوڑا نہ ملا ! سرکاری خرچ پر جہاز بھرکر ستائیسویں رمضان کو حرم جانے کا رواج وہیں سے نکلا۔ آئین اس زمانے میں کاغذ کا بے وقعت ٹکڑا تھا۔ قانون فرش پر بچھایا جاتا تھا کہ اس پر جوتوں سمیت چلنے سے مزاآتا تھا۔ ضیاء الحق نے قوم کو کیا دیا۔ اول فرقہ وارانہ اور نسل پرست جماعتیں جوکھمبوں کی طرح اُگیں ، دوم منشیات، سوم اسلحہ کی بھرمار، بشمول راکٹ اور میزائل۔ چہارم اسلام  کی ملایانہ ظاہرپرست تعبیر۔ پنجم اعجاز الحق‘ جواب ایک عظیم الشان وسیع وعریض قومی سطح کی جماعت کے سربراہ ہیں۔ اسلحہ کی فراوانی کا تو یہ عالم تھا کہ عام آدمی کو اس کے حصول میں کوئی پریشانی نہ تھی۔ انہی دنوں ایک خبر چھپی تھی کہ ایک شخص نے چائے مانگی‘ بیوی نے تاخیر کردی۔ شوہر غضب ناک ہوگیا اور راکٹ سے اپنے ہی گھر کو اڑادیا۔
پھر چھوٹے چھوٹے جمہوری ادوار آئے اور گزرگئے ۔ ان میں قسم قسم کی داستانیں پھیلیں۔ ٹانگوں سے بم باندھنے کی اطلاعات عام ہوئیں۔ ٹین پرسنٹ کے قصے چلے۔ سپریم کورٹ پر لشکر کشی ہوئی۔ کہیں معلوم ہوا کہ کوئی باریش صاحب بریف کیس لے کر کوئٹہ پہنچے۔ کہیں پتہ چلا کہ کوئی بے ریش صاحب بریف کیس کی شہرت کو موٹروے سے جوڑ بیٹھے ۔ لاہور کی ایک مخصوص برادری کے وارے نیارے ہوہی رہے تھے کہ پرویز مشرف آگئے۔ یہ تحفہ قوم کو میاں نواز شریف صاحب نے دیا۔
یہ بھی عجیب زمانہ تھا۔ ستارے دیکھتے رہے اور گیت گاتے رہے۔ ادھر قوم کا منتخب وزیراعظم پس دیوار زنداں تھا۔ کبھی ہاتھ، ہتھکڑی سے جہاز کی نشست کے ساتھ بندھا ہوا اور کبھی جاوید ہاشمی کال کوٹھری میں سڑتا ہوا لیکن چوری کھانے والے مجنوں جوق درجوق قافلہ درقافلہ مشرف کے دسترخوان کی طرف چلتے ہوئے۔ چھوٹی ’’ی‘، کو لوگ کہیں اور منسوب کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ جمالی، چودھری اور لال حویلی ، سب کے آخر میں چھوٹی ’’ی‘‘ ہے اور اسی نکتے سے پرویز مشرف کی جرنیلی فیض یاب ہوتی رہی!
پرویز مشرف نے قوم کو کیا دیا ۔ اول دہشت گردی، دوم ڈرون حملے، سوم پیپلزپارٹی کی حکومت جس کے دوران نظام سقہ ۔ قبرمیں ہائے ہائے کرتا رہا کہ میرے بھائیوں کو پانچ سال ملے اور مجھے صرف ایک دن ! وہ کچھ ہوا‘ جو ستاروں نے آج تک نہ دیکھا تھا۔ صلائے عام تھی۔ جو جتنا کرسکتا ہے کرلے۔ جو جتنا بھرسکتا ہے‘ بھرلے۔ جوجتنا زیادہ کرتا اور بھرتا ، اسے اتنی ہی زیادہ شاباش ملتی۔ مدتوں کے بھاگے ہوئے واپس آئے۔ ایک صاحب وزیراعظم کے میرمنشی لگے۔ ایک دن میں پروموشن ہوئی۔ سالہا سال کے واجبات ملے۔ بہن کو بیس سے اٹھایا بائیس پر مسند نشین کیا۔ ماموں زاد کو ایک ادارے کا سربراہ بنایا خودبیرون ملک تعیناتی سنبھالی۔ کسی نے برادر زادی کو مشیر بنوادیا۔ وزیراعظم کے سوٹ ٹرکوں پر آئے۔ ڈیفنس لاہور میں محلات مع بی ایم ڈبلیو کی گونج ٹیلیویژن پر سنائی دی۔ حاجیوں کے مال اسباب پر ڈاکے پڑے۔ الامان والحفیظ خدا کالے کافروں کو بھی ایسے دن نہ دکھائے۔
اب میاں محمد نواز شریف بادشاہ بنے ہیں۔ ستارے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے لیے نیا صفحہ کھلا ہے۔ ہر سچا پاکستانی ان کی کامیابی چاہتا ہے۔ اگر کسی کے دل میں یہ خناس ہے کہ وہ ناکام ہوں تو وہ محب وطن نہیں ہے۔ یہ کسی سیاسی جماعت کا سوال نہیں، ملک کا مسئلہ ہے۔ میاں نواز شریف کی کامیابی میں ملک کی سلامتی کا راز پنہاں ہے۔ میاں صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ شیرشاہ سوری کو صرف پانچ سال ملے اور کسی درباری کی کتاب کے بغیر وہ زندہ ہے۔ اس کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس نے سنارگائوں سے پشاورتک صرف موٹروے نہیں بنوائی تھی، انصاف بھی قائم کیا تھا جس گائوں میں قتل ہوتا، قاتل نہ پکڑا جاتا تو نمبردار کو پھانسی ملتی‘ نتیجہ یہ تھا کہ نمبردار رات بھرپہرے دیتے۔ ایک لشکری نے کھیت سے ایک خوشہ توڑا تھا تو بادشاہ نے اس کا کان کاٹ کر پورے لشکر میں پھرایا تھا۔ اکبر اور
جہانگیر کو عشروں کے عشرے ملے لیکن فیضی، ابوالفضل اور محمد حسین آزاد نہ ہوتے تو ان کا نام بھی کسی کو معلوم نہ ہوتا۔ میاں صاحب انصاف کریں، میرٹ کا بول بالا کریں۔ برادری سے دوران اقتدار پیچھا چھڑالیں اور تاریخ میں اپنا نام اپنے کارناموں سے چھوڑیں، فیضیوں اور ابوالفضلوں پر انحصار نہ  کریں۔
ستارے گیت گارہے ہیں۔ میاں صاحب کو بادشاہی مبارک ہو۔ تخت اور بخت سلامت رہے۔ وہ یہ گیت ضرور سنیں   ؎
گرمٔی کارزار ہا
خامئی پختہ کار ہا
تاج و سریر و دار ہا
خواریٔ شہریار ہا
بازیٔ روزگار ہا
می نگریم ومی رویم
جوکچھ جنگ کے میدانوں میں ہورہا ہے ، بڑے بڑے جغادری جوغلطیاں کربیٹھتے ہیں، کیا تاج اور کیا تختہ دار، بادشاہوں کی دربدری، زمانے کی گردشیں اور بازیاں، ہم ستارے سب کچھ دیکھتے جاتے ہیں اور چلتے جاتے ہیں   ؎
خواجہ ز سروری گزشت
بندہ ز چاکری گزشت
زاری و قیصری گزشت
دور سکندری گزشت
شیوۂ بت گری گزشت
می نگریم ومی رویم
نوابوں جاگیرداروں کے اقتدار ختم ہوچکے۔ خاک نشیں اٹھ بیٹھے، زاررہا نہ قیصر وکسریٰ، سکندر کی آمریت بھی جاچکی، بت تراشنے کا زمانہ بھی لدچکا۔ ہم دیکھتے جاتے ہیں اور چلتے جاتے ہیں۔

Thursday, June 06, 2013

دامن خالی‘ ہاتھ بھی خالی

وفاق میں مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا اور سندھ میں برسراقتدار آچکی ہیں۔ بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک وزیراعلیٰ تعینات ہوگئے ہیں۔ تاریخ پاکستان کا طالب علم وقت کے اس مقام پر سوچتا ہے کہ کسی مذہبی سیاسی پارٹی کو کہیں بھی اقتدار نہیں ملا۔ ایک صوبے میں جہاں جماعت اسلامی حصہ دار بنی ہے، وہ اعدادوشمار کی مجبوری ہے۔ ایک اور مذہبی سیاسی جماعت مرکز میں کیک کا ٹکڑا حاصل کرنے کی مقدور بھر سعی کررہی ہے !
مجیدامجد نے ’’شب رفتہ‘‘ کے منظوم دیباچے میں ایک بند یوں کہاتھا:    ؎
بیس برس کی کاوشِ پیہم
سوچتے دن اور جاگتی راتیں
ان کا حاصل
ایک یہی اظہار کی حسرت!
چھیاسٹھ برس سے مذہبی جماعتیں سیاست میں دخیل ہیں اور پوری طرح دخیل ہیں۔ انہیں ہر قبیل کی آزادی میسر ہے اور رہی ہے۔ گزشتہ انتخابات کی بات نہ بھی کی جائے تو حالیہ انتخابات سب کے لیے قابل قبول ٹھہرے ہیں۔ دھاندلی کی شکایات اس پیمانے پر نہیں ہیں کہ الیکشن کے مجموعی نتائج کو چیلنج کرسکیں۔ اکثر نے زبانی بھی اور تقریباً سب نے عملاً نتائج کو تسلیم کرلیا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ چھیاسٹھ برس کی مسلسل جدوجہد کے بعد بھی کوئی مذہبی جماعت کہیں بھی کسی قسم کی اکثریت نہیں حاصل کرسکی؟ یہ وہ سوال ہے جو سنجیدہ جواب مانگتا ہے۔ ایسا جواب جو نعرے پر مشتمل نہ ہو، جس میں تڑی اور دھمکی نہ ہو‘ جس میں چیخ و پکار بھی نہ ہو‘ واویلا اور گریہ وزاری بھی نہ ہو!
ابوالحسن علی ندوی کے پائے کے علمائے کرام نے جب سید ابوالاعلیٰ مودودی کی اسلام کی سیاسی تعبیر کی مخالفت کی تھی تو وہ بلاسبب نہ تھی اور دلائل کے بغیر نہ تھی۔ پاکستان عالم اسلام کے ان دویاتین ملکوں میں سے ہے جہاں مذہبی جماعتوں نے بھرپور اور مسلسل سیاست کی ہے۔ لیکن صورت حال اس وقت نہ صرف دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز لگتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان برہنہ جنسی مناظر (پورنو گرافی) دیکھنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔ ایک اور زاویے سے جائزہ لیجیے۔ عالم اسلام کا کون سا ملک ہے جہاں پاکستان سے زیادہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور پاکستان سے زیادہ وعدہ خلافی کا ارتکاب کیا جاتا ہے ؟ شاید کوئی بھی نہیں! پاکستان ایسا ملک ہے جہاں ایک انتہائی قلیل تعداد کو چھوڑ کر ہر شخص صبح سے شام تک مسلسل جھوٹ بولتا ہے۔ بڑے معاملات میں بھی اور چھوٹے معاملات میں بھی۔ اولاد ماں باپ کے ساتھ، ماں باپ اولاد کے ساتھ، بیوی میاں کے ساتھ، میاں بیوی کے ساتھ۔ ملازم ماتحت کے ساتھ، ماتحت افسر کے ساتھ۔ وکالت، سیاست اور تجارت… یہ تین شعبے ایسے ہیں جو کلی طورپر دروغ گوئی کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ تجارت پر ان حضرات کا غلبہ ہے جو لباس اور شکل سے متشرع ہیں۔ مذہبی اور تبلیغی جماعتوں میں سرگرم کار ہیں۔ حج اور عمرے ادا کرتے ہیں۔ خیرات اور صدقہ دیتے ہیں لیکن عبرت ناک حقیقت یہ ہے کہ وہ سارے کام جو شریعت میں حرام ہیں، تجارت کے شعبے میں ہورہے ہیں۔ ناجائز نفع خوری، بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتانا،
ٹیکس چوری، ادویات، غذائی اجناس یہاں تک کہ معصوم بچوں کے دودھ تک میں ملاوٹ، تجاوزات اور تجاوزات کی آمدنی۔ یہ سب اس شعبے میں رات دن ہورہا ہے ! اور غالباً عالم اسلام میں اس وسیع وعریض پیمانے پر اور کہیں بھی نہیں ہورہا! یہی صورت حال وعدہ خلافی کی ہے ۔ اگر یہ کالم نگار بھول نہیں رہا تو غالباً کرسٹینا لیمب نے اپنی کتاب’’ ویٹنگ فاراللہ ‘‘ میں پاکستان کی تعریف (DEFINITION)کرتے وقت دوخصوصیات میں سے ایک یہ بتائی ہے کہ وقت (APPOINTMENT) طے کرکے اسے ایفا بالکل نہیں کیا جاتا! یہ اسی ملک کے باشندوں کا احوال ہے جواپنے وطن کو اسلام کا قلعہ کہتے ہیں۔ جوپوری دنیا کو اسلام کے زیرنگیں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جو ہروقت دوسرے ملکوں کی عموماً اور غیرمسلموں کی خصوصاً تحقیر کرتے ہیں۔ جو رسول اکرم ؐ کی عزت پر کٹ مرنے کے لیے ہروقت تیار ہیں لیکن رسولؐ کے طرز عمل کو اختیار کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ ایک شخص یہ کہہ کر گیا کہ آپ یہیں میرا انتظار کیجیے، میں ابھی آتا ہوں۔ وہ بھول گیا اور آپؐ تین دن اس کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ اسے یاد آگیا اور وہ پلٹ کر آیا۔
مذہبی جماعتوں کے ہاتھ اقتدار تو نہیں آیا، اوامرونواہی کا کام بھی گیا۔ مسلمانوں کو رذائلِ اخلاق سے بچانے کا فرض انہوں نے ادا کرنا تھا۔ اگر کرتیں تو آج جھوٹ، وعدہ خلافی، رشوت، غیبت اور اسراف جیسے رذائل عروج پر نہ ہوتے۔ ہمارے منتخب نمائندے سچائی اور ایفائے عہد کا نمونہ ہوتے۔ لیکن جوان کی اصلاح پر مامور تھے، وہ ان کے شانہ بشانہ اقتدار کی جدوجہد میں شامل ہوگئے۔ آج چھیاسٹھ برس کی طویل سعی وکاوش کے بعد مذہبی سیاسی جماعتیں کف افسوس مل کر زبان حال سے کہتی پھرتی ہیں:   ؎
دامن خالی‘ ہاتھ بھی خالی‘ دستِ طلب میں گردِ طلب
عمرگریزاں! عمرگریزاں! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو
مذہبی گروہوں کے، جو سیاست میں کارفرما رہے، ہمارے سامنے عمومی طورپر تین ماڈل ہیں۔ ایک جمعیت علمائے اسلام کا ہے۔ یہ جماعت آغاز میں ، جب مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے ہم عصروں کی تحویل میں تھی، محض اس حدتک دخیل سیاست تھی کہ پہلے مطالبۂِ پاکستان اور بعد میں اسلامی نظام کے لیے آواز بلند کررہی تھی اور قائداعظم کی حامی تھی۔ اب یہ جماعت کئی عشروں سے اقتدار کی جدوجہد کررہی ہے اور جزوی طورپر ایک یا دوصوبوں میں حکومت کا حصہ رہی بھی ہے لیکن آزادانہ حیثیت سے کبھی بھی حکومت نہیں بناسکی! دوسری طرف اس کی شہرت مثالی نہیں رہی ! اس کے سربراہ جوڑ توڑ اور بھائو تائو کے لیے ضرب المثل ہیں۔ ان کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ ہرحال میں اقتدار اور مراعات کے طالب ہیں اور اس نصب العین کے لیے ہر حدعبور کرسکتے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے بعد ٹیلی ویژن پر ان کے متعلق یہاں تک کہا گیا کہ جہاں وہ ہوں، وہاں سازش ضرور ہوگی! ایک مذہبی جماعت کے لیے یہ صورت حال ہرگز قابل رشک نہیں !
دوسرا ماڈل جماعت اسلامی کا ہے۔ 1941ء میں معرض وجود میں آنے والی یہ جماعت بہتر برسوں کی مسلسل سیاسی جدوجہد کے باوجود اقتدار سے بدستور کوسوں دور ہے۔ اس کی ذیلی تنظیم جو سیاست کو تعلیمی اداروں میں داخل کرنے والی اولین تنظیم ہے، مثبت شہرت نہیں رکھتی۔ پنجاب کی قدیم ترین یونیورسٹی اس کی سیاست کا بری طرح شکار ہوکر تعلیمی معیار کے لحاظ سے کہیں کی بھی نہیں رہی ۔ خوف کے مارے ہوئے اساتذہ اپنی اپنی روداد بیان کریں تو ایک عبرت ناک تصویر سامنے آئے گی۔ شرعی اور اخلاقی ’’بلندی‘‘ کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ طلبہ کے ہوسٹلوں میں قانونی طورپر طالب علم کے والد کو قیام کرنے کی اجازت حاصل رہی ہے۔ ایک استاد نے جو ہوسٹل کا انچارج تھا، ایک طالب علم سے نوجوان مہمان کے بارے میں استفسار کیا تو طالب علم نے کسی جھجک اور تامل کے بغیر جواب دیا کہ یہ میرے والد ہیں !  ع
قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا
تیسرا ماڈل افغانستان میں طالبان کی حکومت کا ہے ۔ یہ ایک طویل موضوع ہے جس کا متحمل ایک کالم نہیں ہوسکتا لیکن خود طالبان کے حامی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایک مثالی عہد نہیں تھا!
 کیا سیاست میں سرگرم مذہبی جماعتیں، جذباتیت سے ہٹ کر، صورت حال پر نظرثانی کریں گی ؟ یا عام سیاسی جماعتوں سے اقتدار کے لیے بھائوتائو کرنے کی پالیسی جاری رکھیں گی؟ اس سوال کا جواب جتنا سہل ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔

Tuesday, June 04, 2013

ایک جشن کی رُوداد

ہم لڑکی والوں کی طرف سے تھے۔
ساحل سمندر پر واقع عالی شان محلات شروع ہوگئے تھے۔ ایک ایک گھر اتنا بڑا تھا کہ اس میں کئی معقول رہائش گاہیں بن سکتی تھیں۔ محلات کے سامنے واقع شاہراہ اس قدر چوڑی تھی کہ چھ یا آٹھ گاڑیاں بیک وقت گزر سکتی تھیں۔گیٹ اور مکا ن پر آنکھوں کو چندھیا دینے والا چراغاں تھا۔ نہ جانے کیوں، گیٹ سے گزرتے ہوئے، میں نے اپنے آپ کو چھوٹا اور حقیر محسوس کیا۔ اگر میں اس گروہ میں شامل نہ ہوتا جو دعوت ولیمہ میں باقاعدہ مدعوتھا، تو عام حالات میں مجھے اس گیٹ کے نزدیک بھی کوئی نہ پھٹکنے دیتا۔
ہمیں پہلے ایک وسیع وعریض کمرے میں بٹھایا گیا ۔ دیواروں سے روشنی پھوٹ رہی تھی اور جو خواتین ادھر ادھر آجارہی تھیں، ان سے بھی!کھڑکیوں پر لگائے گئے پردے اپنے رنگ اور سٹائل کی وجہ سے اپنی طرف متوجہ کرتے تھے۔ کمخواب تھا یا زربفت یا شاید اطلس ۔ہر پردے کے درمیان میں ایک گول سنہری نشان تھا جو شاید پرانے وقتوں میں بادشاہوں کے تاج پر، سامنے کی طرف، پیشانی سے ذرا اوپر لگتا تھا۔ پھر ہمیں مشروبات پیش کیے گئے۔ بلور کے ساغر نما گلاس کو پکڑتے وقت میرے مرعوب ہاتھ کانپ رہے تھے۔ انار کا رس تھا۔ میں نے وسط ایشیا کے شہروں اور قریوں میں انار، شہتوت اور چیری کا رس کئی بار پیا ہے اور دوستوں کو میرا یہ شعر بہت زیادہ پسند ہے:
شہتوت کا رس تھا، نہ غزالوں کے پرے تھے
اس بار بھی میں جشن میں تاخیر سے پہنچا
لیکن وہاں تو قالین پر آلتی پالتی مارکر فارسی بولتے ہوئے رس کا اور ہی مزاتھا۔ یہاں یوں لگ رہا تھا جیسے میرا امتحان لیا جارہا ہے۔ آدھا گلاس پی کر گلاس رکھا اور خداکا شکرادا کیا کہ کسی باوردی ویٹر نے یہ حکم نہیں دے دیا کہ پورا گلاس ختم کرو!
ہم بہت دیر بیٹھے رہے۔ وسیع وعریض ہال نما کمرے میں خواتین اور مردوں کا آنا جانا لگارہا۔ ملبوسات سے دولت جھلکتی رہی اور خوشبوئوں کی لپٹیں نکلتی رہیں۔ دائیں طرف جو صاحب تشریف فرما تھے، معقول لگ رہے تھے۔ میں نے ہمت کرکے ان سے کہا کہ کھانے میں دیر ہے تو عشا کی نماز پڑھ لی جائے۔ انہوں نے عقل کی بات بتائی کہ حضرت ! موسیقی کے اس طوفان میں نماز کیسے ادا کریں گے۔ گھر جاکر اطمینان سے یہ کام کر لیجیے گا۔
پھر ہمیں ایک راہداری سے گزارا گیا جو طوالت اور پراسراریت میں غلام گردش لگتی تھی۔ یہاں سے ایک لان میں آئے۔ قدم رکھنے کے لیے گول گول پتھر لگے ہوئے تھے۔ نیچے سیڑھیاں جارہی تھیں۔ سیڑھیوں کے دونوں طرف پھولوں والے پودے تھے۔ پتوں پر ننھے ننھے چراغ شبنم کے قطروں کی طرح لگ رہے تھے۔ ایسے قطرے جو ستاروں کی طرح چمک رہے تھے۔ پھر ہم ایک پائیں باغ میں اترے۔ یہ کم ازکم بیس پچیس کنال پر محیط تھا۔ ایک طرف ایک مصنوعی پہاڑی بنی ہوئی تھی جس کے اندر سے پانی فواروں کی شکل میں اوپر جاکر واپس آرہا تھا اور دیدہ زیب نالیوں میں منقسم ہورہا تھا۔ پھوار ادھر ادھر پھیل کر مہمانوں سے اٹکھیلیاں کررہی تھی۔ کہیں جھولے لگے تھے، کچھ کے اوپر خوبصورت چھتیں تنی تھیں اور کچھ بغیر چھتوں کے تھے۔ کہیں حوض بنے ہوئے تھے جن میں مچھلیاں تیر رہی تھیں ۔ کہیں گول چھتوں والی سہ دریاں اور شش دریاں تھیں۔ روشنیاں دائیں بائیں جارہی تھیں اور ایک دوسرے کو قطع کررہی تھیں۔ سبزہ مخمل کی طرح بچھا تھا۔ باغ کے وسط میں مرصع سٹیج تھا جس پر عجیب وغریب نقش ونگار تھے اور اردگرد پھولوں کی بیلوں کا حاشیہ لگاتھا۔ دلہا، دلہن اور قریبی عزیزوں کے لیے جھولتی کرسیاں آگے پیچھے حرکت کررہی تھیں۔ کہیں پیڑوں کے جھنڈ تھے اور کہیں جھاڑیاں جنہیں کتر کر گول گنبدوں کی شکل دی گئی تھی۔
نشست گاہوں پر سفید براق کپڑے لگے تھے جن پر فیروزی رنگ کے ربن بندھے تھے۔ میزوں پر قسم قسم کے مشروبات پڑے تھے۔ کھانا کئی کورسوں پر مشتمل تھا۔ گوشت کی کئی اقسام تھیں۔ چار پیروں والے جانوروں کا بھی اور دوپنجوں والے پرندوں کا بھی، دریائوں میں تیرتی مخلوقات کا بھی اور ہوائوں میں اڑتے طیور کا بھی۔ میووں کے انبار دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے چہار دانگ عالم سے منگوائے گئے تھے۔ وردی پوش چست خدمت گار مہمانوں کی ایک ایک ضرورت کا خیال رکھ رہے تھے۔ سٹیج سے پھوٹتی ہوئی موسیقی اور موسیقی کے ساتھ اڑتے گیت ہوا میں پھیل کر کانوں میں میٹھا میٹھا سحر اتار رہے تھے۔
جس میز کے گرد میں بیٹھا ہوا تھا، وہاں پانچ مہمان اور تھے۔ ان میں سے چار، دو دو کے جوڑوں کی صورت میں، باہم محو گفتگو تھے۔ پانچویں صاحب جو میرے ساتھ تشریف فرما تھے، مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ تعارفی کلمات اور خوش ذائقہ عشائیے کے تنوع پر رسمی بات چیت ہوئی۔ پھر انہوں نے آگے کی طرف جھک کر مجھ سے پوچھا ’’کیا آپ نے یہ باغ اور اس کی وسعت دیکھی ہے ؟‘‘میں نے اثبات میں جواب دے کر ماشاء اللہ کہا اور تعریف کی ۔ انہوں نے دُور اشارہ کرکے کہا، درختوں کی قطار کے ساتھ قدرتی نالہ ہے۔ صاحب جب ایک بڑے ادارے کے سربراہ تھے تو انہوں نے یہ پلاٹ اپنے لیے مخصوص کرایا تھا۔ کیوں کہ یہ ساری زمین نالے کے ساتھ تھی اور مکان کے ساتھ لگتی تھی۔ یہ گرین ایریا کا حصہ تھی۔ یہ مکان کے ساتھ ہی لپیٹ میں آگئی۔ پھر انہوں نے مزید تشریح کی کہ ہرطاقت ور بااثر شخص کا یہ مشہورومعروف آزمودہ نسخہ ہے۔ نالے کے ساتھ پلاٹ حاصل کرلیجیے اور کنالوں اور بعض اوقات ایکڑوں پر مشتمل زمین ساتھ مفت میں مار لیجیے۔ اگر کوئی دیانت دار قسم کا اہلکار چوں چاں کرے تو ایک علامتی قسم کی رقم قیمت کے طورپر ادا کرکے معاملے کو قانونی جواز فراہم کردیجیے ۔
پھر وہ میری طرف مزید جھکے:’’کیا آپ کو معلوم ہے دُلہا کا باپ کہاں ہے ؟‘‘
’’میری ملاقات نہیں ہوئی لیکن یہیں کہیں مہمانوں کی آئوبھگت میں مصروف ہوں گے ۔‘‘
وہ صاحب مسکرائے :’’نہیں صاحب ! لگتا ہے آپ کی معلومات بہت کم ہیں۔ وہ تو یہاں موجود ہی نہیں !‘‘
مجھے تعجب ہوا۔ صاحبزادے کا ولیمہ ہے اور وہ بھی اس قدرتزک واحتشام سے اور صاحب خود موجود ہی نہیں!
ساری بے نیازی کے باوجود تجسس نے مجھے پوچھنے پر اکسایا: ’’وہ کہاں ہیں ‘‘؟
’’وہ بیرون ملک بھاگے ہوئے ہیں۔ کیا آپ نے اخبار میں فلاں کیس اور فلاں مقدمے کے بارے میں کہانیاں نہیں پڑھیں؟ ان کا نام بھی اس معاملے میں ملوث ہے اور تقریباً سرفہرست ہے، جب تک بادل چھٹ نہیں جاتے، وہ واپس نہیں آئیں گے۔ ‘‘
پھر انہوں نے خود ہی گفتگو کے سلسلے کو آگے بڑھایا :’’لیکن صاحب!کچھ بھی نہیں ہوگا، جوپہلے بھاگے ہوئے تھے، وہ گزشتہ حکومت میں واپس آکر ایسے ایسے عالی شان مناصب پر فائز ہوئے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ جواب بھاگے ہوئے ہیں کیا خبر اس حکومت کے دوران واپس آکر بلندتر مسندوں پر رونق افروز ہوجائیں ۔ ایسے لوگ ہرحکومت کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں۔‘‘
گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو بڑا محسوس کیا حالانکہ پورچ میں سات آٹھ بیش قیمت گاڑیاں کھڑی تھیں جن کے برانڈ تک میرے لیے اجنبی تھے۔ تب سے سوچ رہا ہوں کہ اگر پولیس سٹیشنوں سے بھاگے ہوئوں کو انتخابی ٹکٹ مل سکتے ہیں تو ملک سے بھاگے ہوئوں کو منصب کیوں نہیں ملیں گے !

Monday, June 03, 2013

کیا یہ فیصلہ درست ہے؟

جناب جاوید ہاشمی اسلام آباد کی نشست چھوڑ رہے ہیں اور ملتان کی رکھ رہے ہیں۔ اسلام آباد والی نشست پر دوبارہ الیکشن ہوگا۔
نہیں معلوم یہ فیصلہ تحریک انصاف کا ہے یا جاوید ہاشمی کا اپنا۔ غالب ظن یہ ہے کہ یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔ اگر بظاہر یہ فیصلہ ان کی جماعت کا ہے تب بھی اس میں اصل کردار ایک اندازے کے مطابق، ان کے اصرار اور خواہش کا ہوگا۔ اگر یہ مسئلہ کلّی طور پر پارٹی کے سپرد کردیا جاتا تو فیصلہ اس قدر غیردانش مندانہ نہ ہوتا۔
جناب جاوید ہاشمی کی شخصیت کا تجزیہ کیا جائے تو کئی دلچسپ پرتیں کھلتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ تجزیہ سیاسی حوالے سے ہے‘ ورنہ ان کی ذات میں دلچسپی لینے کا کیا جواز بنتا ہے! تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے سامنے دو ماڈل تھے۔ ایک علی برادران کا اور دوسرا اقبال اور قائداعظم کا۔ علی برادران کی سیاست جذبات اور ہنگاموں پر قائم تھی۔ اس میں گہرائی اور گیرائی تھی نہ زمانے کے اتار چڑھائو کے سامنے استقامت۔ یہ شعر ان دنوں زبان زدِ خاص و عام تھا:
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
جبکہ حالت یہ تھی کہ خود ترکی خلافت کی قبا اتار چکا تھا:
 یعنی من چہ می سرایم و طنبورۂ من چہ می سراید
سطحی اور جذباتیت سے بھرپور ہنگامہ خیز زمانوں میں کون پوچھتا کہ خلافت کہاں قائم ہوگی؟ کئی دن رات کمرے میں بند رہ کر، صرف سگریٹ پر گزارہ کرکے، مولانا محمدعلی جوہر نے اپنا شہرۂ آفاق اداریہ CHOICE OF TURKS تحریر کیا۔ اخبار پر مصیبتوں کی بارش برسی، قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے۔ یوسف زئی سپوت کیا خوبصورت انگریزی بولتا تھا۔ ایک انگریز نے متاثر ہو کر پوچھا، اتنی شستہ انگریزی کہاں سے سیکھی؟ بولے ایک چھوٹے سے گائوں میں۔ اس نے نام پوچھا تو مسکرا کر جواب دیا‘ آکسفورڈ! انگریزجج نے مقدمے کے دوران بکواس کی اور جوہر کو غنڈہ کہا۔ وہیں ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ہاں، میں غنڈہ ہوں لیکن اللہ میاں کا غنڈہ ہوں، ملکہ برطانیہ کا غنڈہ نہیں ہوں۔
اس سب کے باوجود وقت نے اس طرزِ سیاست کے حق میں فیصلہ دیا جو اقبال اور قائداعظم نے اپنایا تھا۔ حاشا وکلّا، مقصود‘ علی برادران کی قربانیوں سے صرف نظر کرنا نہیں! ہرگز نہیں! تاریخ نے جو تاج کسی کے سر پر پہنا دیا ہے، اسے اتارنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ نہ ہی محمدعلی جوہر اور اقبال یا محمد علی جوہر اور قائداعظم ایک دوسرے کے مد مقابل تھے۔ بات طرز سیاست کی ہورہی ہے۔ احرار ہی کو دیکھ لیجیے۔ جیلوں میں گئے، ناقابل بیان اذیتیں برداشت کیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ آخر کار دامن خالی تھا۔ اس کے مقابلے میں اقبال اور قائداعظم نے سوچ بچار سے کام لیا‘ منصوبہ بندی کی‘ جنگ قانون کے میدان میں لڑی اور جیت لی۔
جاوید ہاشمی کئی بار جیل گئے۔ اگر گستاخی پر محمول نہ کیا جائے تو اس میں جاوید ہاشمی کی افتاد طبع کا دخل زیادہ رہا اور سیاست کی مجبوریوں کا کم! بسا اوقات جو کام زہر سے نکلتا ہے‘ گڑُ سے بھی نکل سکتا ہے! گَھسُن مارنا ہر موقع پر بہادری نہیں کہلاتا۔
پھر یہ بھی ہے کہ قید و بند کی صعوبتوں اور جذباتی سیاست کے ساتھ سنجیدہ پروگرام بھی مطلوب ہوتے ہیں۔ بقول ضمیر جعفری   ؎
کچھ ہنر، کچھ سعی و کوشش اے مرے نور نظر!
صرف اک پتلون کس لینے سے کام آتا نہیں
سیاستدان لیڈر اس وقت بنتا ہے جب اس کے پاس مستقبل کا کوئی خاکہ بھی ہو۔ ہاشمی صاحب نے ملک کو درپیش مسائل پر کبھی بات نہیں کی۔ معلوم نہیں زرعی اصلاحات کے بارے میں ان کے کیا خیالات ہیں؟ سرداری نظام کو وہ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں جو دو رویں متوازی چل رہی ہیں اور ایک دوسرے سے مسلسل دور ہیں‘ ان کے حوالے سے وہ کیا سوچ رکھتے ہیں۔ صرف نوازشریف اور نون لیگ پر تنقید سے سیاسی میدان کب تک سجایا جائے گا۔ آصف زرداری کے مقابلے میں انہیں صدارتی امیدوار نہیں بنایا گیا، اس پر بھی رونا دھونا زیادہ دیر تک کام نہیں آسکتا۔ فراق گورکھپوری نے کہا تھا   ؎
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
غالباً تحریک انصاف کا کراچی میں جلسہ تھا۔جاوید ہاشمی صاحب کی تقریر کا ساٹھ ستر فیصد حصہ ’’میں باغی ہوں، میں باغی ہوں‘‘ کے نعرے پر مشتمل تھا۔ اس کے مقابلے میں تحریک کے کچھ دیگر ارکان کی تقریروں میں ٹھوس نکات تھے اور حکومت وقت پر منطقی تنقید تھی‘ محض نعرے نہیں تھے!
اسلام آباد کی جیتی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست تحریک انصاف اور جاوید ہاشمی دونوں کے لیے ایک بیش بہا اثاثہ تھی! اس نشست کی ایک علامتی اہمیت تھی۔ حریف سیاسی جماعت کے لیے اس نشست سے ہاتھ دھونا ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ ہاشمی اگر سنجیدگی سے گہرائی میں جا کر غورو فکر کرتے تو اس نشست کو ہرگز نہ چھوڑتے۔ یہ جن لوگوں کے ووٹوں سے جیتی گئی تھی ان کی اکثریت پہلی مرتبہ اپنے آئینہ خانوں سے نکلی تھی۔ ضروری نہیں کہ وہ بار بار نکلیں۔ یوں بھی اسلام آباد کی اپنی حرکیات (Dynamics) ہیں۔ یہ ملتان یا فیصل آباد کی طرح نہیں‘ نہ ہی یہاں پشاور یا لاہور کی طرح کوئی پرانا اسلام آباد واقع ہے۔ یہ تو خانہ بدوشوں کا شہر ہے۔ سرکاری ملازموں نے خیمے کاندھوں پر رکھے ہوئے ہیں اور ایف 6سے نکلتے ہیں تو کورنگ ٹائون جا نکلتے ہیں یا پی ڈبلیو ڈی کالونی یا پھر ذرا آگے ڈی ایچ اے میں۔ جن کروڑ پتیوں کے عالی شان سیکٹروں میں اپنے محلات ہیں وہ بھی ووٹ دینے آبائی علاقوں کو نکل جاتے ہیں۔
اسلام آباد کے مڈل کلاس اور اپرکلاس کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے تحریک انصاف کے لیے بے پناہ کام کیا۔ انتھک محنت کی۔ ڈی چوک پر جو دھرنے دیے اور جلوس نکالے، ان کی گونج پورے ملک میں سنائی دی۔ ان کی دلجوئی ضروری تھی۔ یہ نشست چھوڑ کر جاوید ہاشمی تو غلطی کر ہی رہے ہیں‘ تحریک انصاف بھی ایک بڑا خطرہ مول لے رہی ہے۔ ملتان کی نشست کو دوبارہ جیتنا اتنا مشکل نہ ہوتا۔ وہاں جاوید ہاشمی کا اثر کام آتا۔ اسلام آباد میں ان کا کوئی اثر ورسوخ نہیں۔ نہ ہی انہوں نے یہاں انتخابی مہم چلائی۔ یہ تو تحریک کے یا عمران خان کے ووٹ تھے اور یہ ووٹ ہر بار شاید نہ ملیں۔
 انتخابی غلغلہ اسلام آباد میں دوبارہ برپا ہوا تو کہیں تحریک انصاف ظفر اقبال کا یہ شعر نہ پڑھتی پھرے   ؎
دل نے خود پہلی محبت کو سبوتاژ کیا
دوسری کے لیے‘ اور دوسری ہے بھی کہ نہیں؟
 

powered by worldwanders.com