Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, April 30, 2016

ریکارڈ

جنرل ضیاء الحق نے جولائی1977ء کے پہلے ہفتے میں ذوالفقار علی بھٹو کو تخت سے اتارا اور اقتدار کا تاج اپنے سر پر رکھ کر تخت نشین ہوئے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے جنرل صاحب کا انٹرویو‘ جو ان کی تازہ کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ میں شامل ہے‘ اس کے دو ماہ بعد‘ ستمبر میں لیا۔ اس انٹرویو سے تاثر یہی ملتا ہے کہ انٹرویو لینے والے اور دینے والے کے درمیان مکمل نہیں تو اچھی خاصی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انٹرویو کے دوران ایسے مقامات آتے رہے جہاں جنرل صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا جا سکتا تھا۔
ایک طرف جنرل صاحب اس انٹرویو میں بار بار کہہ رہے تھے کہ’’ہم اقتدار پر قابض رہنے کے لیے نہیں اقتدار منتقل کرنے آئے ہیں۔ عام انتخابات انشاء اللہ 18اکتوبر کو ضرور منعقد ہوں گے۔‘‘
’’میرا موقف واضح اور غیر مبہم ہے‘ میں صرف آزادانہ انتخابات منعقد کرانے آیا ہوں۔ نوے دن کے بعد اقتدار عوام کے نمائندوں کے سپرد کر دوں گا!‘‘
دوسری طرف ایسے واضح اشارات بھی دیے جا رہے تھے کہ وہ ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔مثلاً ’’ہم اپنے معاشرے میں سزائوں کے نفاذ کے ساتھ ساتھ اقتصادی اصلاحات بھی نافذ کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد ایذا رسانی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی منشا نافذ کرنا ہے۔ کائنات کے رب ہماری رہنمائی فرماتے رہے تو ہم اپنی مراد ضرور پا لیں گے۔‘‘
اب یہاں ان سے پوچھا جانا چاہیے تھا کہ جناب! نوّے دن میں اقتصادی اصلاحات کیسے نافذ ہوں گی؟ یہ تو ایک طویل المیعاد کام ہے اور ’’اللہ تعالیٰ کی منشا‘‘ تین ماہ میں کس طرح نافذ ہو گی اور اس ’’منشا‘‘ کے خدوخال کیا ہیں؟
آگے چل کر ایک سوال کے جواب میں جنرل صاحب واشگاف الفاظ میں اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہیں۔’’میری خواہش ہے کہ اسلام کی ایسی خدمت کر جائوں کہ میری عاقبت سنور جائے۔ ہمارے انتخاب ہی سے آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ ہمارا ارادہ ٹھوس بنیادیں فراہم کرنے کا ہے۔‘‘
ٹھوس بنیادیں! اور نوّے دن! اس پر تبصرہ کرنے کی گنجائش ہی نہیں!
یہ انٹرویو سات ستمبر1977ء کو لیا گیا ۔قتل کے الزام میں بھٹو صاحب کو تین ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے تین دن بعد جنرل صاحب کو یقین ہو چلا تھا کہ قتل کا ارتکاب بھٹو صاحب نے کیا تھا! الطاف صاحب سوال پوچھتے ہیں: ’’کیا کسی عرب ملک نے مسٹر بھٹو کی گرفتاری پر احتجاج کیا؟‘‘ جنرل صاحب جواب میں کہتے ہیں:’’جی نہیں! یہ تو ہمارا اندرونی مسئلہ ہے۔ خالص قانونی مسئلہ! قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ جو شخص بھی قتل کا مرتکب ہو گا‘ عدالت میں اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی!‘‘ اس جواب سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ جنرل صاحب قتل کے اس کیس کو ’’انجام‘‘ تک پہنچانے کا ارادہ ابتدا ہی سے کر چکے تھے!
تاریخ بھی کیا کیا ستم ظریفیاں دکھاتی ہے! بھٹو صاحب نے قتل خود نہیں کیا تھا! مگر موت کی سزا ملی! اسی ملک میں اڑتیس برس بعد صولت مرزا قتل کے جرم میں پھانسی پر جھول گیا مگر جس کے کہنے پر اس نے ‘بقول اس کے‘ قتل کیا‘ اس کا بال بھی بیکا نہ ہوا   ع
تھا جو نا خوب‘ بتدریج وہی خوب ہوا
انٹرویو کے آخر میں الطاف صاحب نے جنرل صاحب کی شخصیت کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ تحلیل نفسی‘ ظاہر ہے ضیا صاحب کی زندگی کے دوران نہیں شائع ہوئی ہو گی۔ لگتا ہے اس باب کے آخری چار صفحات اب لکھے گئے ہیں۔ الطاف صاحب رقم طراز ہیں:’’ جنرل ضیاء الحق کو میں جب علماء و فضلاء کے درمیان بیٹھے اور حرم کعبہ میں ان کی خشوع و خضوع والی کیفیات دیکھتا تو ذہن میں سوال پیدا ہوتا کہ انہوں نے اس قدر سنگ دلی سے بھٹو صاحب کو کیسے پھانسی پر لٹکا دیا۔ جب میں نے گہرائی سے تجزیہ کیا تو محسوس ہوا کہ ان کی شخصیت دو حصّوں میں تقسیم تھی۔ شخصیت کا ایک پہلو وہ تھا جو اقتدار کے تحفظ سے تعلق رکھتا تھا* دوسرا وہ جس میں اسلامی نظام کو نافذ کرنے اور فوج اور معاشرے کے سدھار کی تڑپ پائی جاتی تھی۔ اقتدار کو بچانے کے لیے انہوں نے مسٹر بھٹو کو تختۂ دار پر لٹکایا اور پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے تمام ظالمانہ حربے استعمال کیے۔ 1984ء میں مضحکہ خیز ریفرنڈم کا ڈرامہ رچایا…‘‘
یہ سطور الطاف صاحب نے جب بھی لکھی ہوں‘ تجزیہ درست کیا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اقتدار کا تحفظ جنرل صاحب کی اوّلین ترجیح تھی!
یہ سطور لکھتے وقت ذہن میں ایک بلبلہ اٹھا! الطاف صاحب اب ریفرنڈم کو مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔ کیا اس وقت انہوں نے اسی رائے کا اظہار کیا تھا؟ اس کے بارے میں اس کالم نگار کو نہیں معلوم! مگر اعتراض کرنا آسان ہے اور آمر کے سامنے کچھ کہنا اور اس کے عہد کے دوران لکھنا اور بات ہے۔ ساتھ ہی ایک مشہور واقعہ بھی یاد آ رہا ہے۔ خرو شچیف ایک اجلاس میں سٹالن کے دور کی بھر پور مذمت کر رہا تھا۔ ایک گمنام چٹ موصول ہوئی جس پر لکھا تھا:’’سٹالن کے سامنے یہ سب کچھ کیوں نہ کہا؟‘‘۔ خرو شچیف نے کڑک کر پوچھا:’’چٹ کس نے بھیجی ہے؟‘‘ کوئی جواب نہ ملا ۔خرو شچیف نے قہقہہ لگایااور کہا :’’بس! میں بھی اسی طرح دب کر بیٹھتا تھا‘‘۔
ہم جب اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں موقع پر‘ فلاں کے سامنے یہ کیوں نہ کہا تو ہمیں اپنے آپ سے بھی پوچھنا چاہیے کہ کیا اگر ہم وہاں ہوتے تو کہتے؟
جنرل ضیاء الحق کے انٹرویو والے باب میں جن آخری چار صفحات کا الطاف صاحب نے اضافہ کیا ہے وہ خاصے دلچسپ اور معلوماتی ہیں۔ ان صفحات میں اس بات کی بھی تصدیق ہو جاتی ہے کہ تین صحافیوں کی مثلث جنرل ضیاء کے عہد میں طاقت ور تھی۔ اس قدر طاقت ور کہ یہ مثلث بادشاہت تو نہیں مگر بادشاہت گری ضرور کر رہی تھی۔ یہ تین طاقت ور صحافی جناب الطاف حسن قریشی‘ جناب مجیب الرحمن شامی اور جناب مصطفی صادق مرحوم تھے۔ الطاف صاحب لکھتے ہیں کہ جونیجو حکومت برطرف کرنے کا اشارہ جنرل صاحب نے الطاف صاحب کو ایک ہفتہ پہلے دے دیا تھا۔ اس سے قربت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قربت ہی سے طاقت پھوٹتی ہے۔ الطاف صاحب آگے چل کر بتاتے ہیں:’’راقم الحروف اور مجیب الرحمن شامی نے ایک رات انہیں (یعنی جنرل صاحب کو) جناب مصطفی صادق اور عزیزم حسین حقانی کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیا۔ مصطفی صادق وزیر مملکت بنا لیے گئے۔‘‘ الطاف صاحب کی تصنیف ’’ ملاقاتیں کیا کیا‘‘ کے ساتھ ایک اور اہم کتاب کا پڑھنا بھی ضروری ہے۔ مظفر محمد علی مرحوم کی تصنیف’’پاکستان کے راز دان صحافی‘‘ میں چودہ صحافیوں کے انٹرویو شامل ہیں۔ یہ کتاب مرحوم کے قریبی عزیز اور نوجوان صحافی اجمل شاہ دین نے 2011ء میں شائع کی۔ اس میں جناب مجیب الرحمن شامی اور جناب مصطفی صادق مرحوم کے طویل اور تفصیلی انٹرویو شامل ہیں۔ ان سے بھی اس تکون کی تصدیق ہوتی ہے اگرچہ کچھ اور اصحاب بھی جنرل ضیاء کے قریب تھے اور کار مملکت میں دخیل تھے جیسے مولانا ظفر احمد انصاری‘ مفتی زین العابدین‘ مولانا عبدالرحیم اشرف وغیرہ۔ مگر مثلث کی بات اور تھی!     (باقی صفحہ13پر )
جناب مجیب الرحمن شامی‘ مظفر محمد علی مرحوم کو دیئے گئے انٹرویو میں بتاتے ہیں:’’جنرل ضیاء الحق سے میری بہت دفعہ ملاقات ہوئی ۔ کئی چیزیں ایسی ہیں جو میری کوششوں سے ہوئیں۔ بہت سے معاملات ہیں۔ کہاں تفصیلات میں جائیں‘ بہرحال میں مختصراً بات کرتا ہوں۔ جاوید ہاشمی کے لیے وزارت میں میری کوشش کا سو فیصد دخل تھا۔ اس کے بعد جاتے جاتے مصطفی صادق صاحب وزیر بنے ‘اس میں بھی میری کوشش کا بڑا دخل تھا۔ اس کے علاوہ کئی فیصلے ایسے تھے جن پر میں اثر انداز ہوا۔ جیسے غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد…‘‘
اس مثلث میں الطاف حسین قریشی اور مجیب الرحمن شامی نے تو صحافت میں اپنے آپ کو منوایا مگر مصطفی صادق خالص جوڑ توڑ کے آدمی تھے۔ ان کا اخبار’’وفاق‘‘ اپنا کوئی مقام نہ بنا سکا۔ انٹرویو ان کا بہت دلچسپ ہے۔’’مہارت‘‘ اور ’’پی آر‘‘ کا یہ عالم تھا کہ بلا مبالغہ ہر حکمران کی قربت حاصل کرلیتے تھے۔
کیا جنرل ضیاء الحق کے قریب ہونا اور ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونا بری بات تھی؟ نہیں! ہرگز نہیں! شامی صاحب اس کا جواب پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’جب ہم ایک راستے پر چل نکلے‘ بھٹو صاحب نے ہمارا جینا دوبھر کر دیا۔ اس کے بعد ضیاء الحق صاحب آئے تو ہمیں ایک Reliefملا۔ اب Reliefملا تو دانستہ یا نادانستہ ہم ان کے ساتھAttachہو گئے‘‘۔ یہ ایک فطری امر تھا۔ بھٹو صاحب نے ان حضرات کو قید و بند میں ڈالا‘ ان کے اخبارات و جرائد کا گلا گھونٹا۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کے فارمولے کے مطابق جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ان حضرات کی قربت حالات کا منطقی نتیجہ تھا۔ مگر اس قربت اور اس طاقت کا انکار کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ غالباً جناب مجیب الرحمن شامی نے کسی ٹی وی پروگرام میں کہا ہے کہ ضیاء الحق ہماری باتیں مانتے تو دس سال کہاں گزار سکتے تھے!
شامی صاحب بلا کے حاضر جواب ہیں۔ تحریر کے ساتھ تقریر کا بھی بے پناہ ملکہ رکھتے ہیں۔ ان کی ادارت میں ستر کی دہائی والا ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ کسی بھی بڑے معیاری جریدے کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ اس کالم نگار کو کچھ عرصہ ’’زندگی‘‘ میں لکھنے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ شہرت‘ سنیارٹی اور بزرگی کے باوجود‘ ہم ایسے بے بضاعتوں سے بھی اس درجہ شفقت اور محبت سے پیش آتے ہیں کہ گھائل کر دیتے ہیں(انگریز ایسے مواقع پر کہا کرتے ہیں
Killing with kindness)
تاہم ریکارڈ سیدھا رہنا چاہیے۔ ضیاء الحق کے عہد کی تاریخ میں اس طاقت ور مثلث کا ذکر اور اس کی بادشاہ گری کا تذکرہ کوئی معیوب بات نہیں بلکہ ضروری ہے!
الطاف صاحب اور شامی صاحب میں ایک واضح فرق ہے۔ شامی صاحب نے بہادری سے اعتراف کر لیا کہ کچھ معاملات میں ان کی رائے صائب نہیں تھی‘ جیسے بھٹو صاحب کی پھانسی کا مسئلہ‘ مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن‘ صوبائی خود مختاری کے حوالے سے شیخ مجیب الرحمن کا نقطہ نظر! بے نظیر بھٹو کے بارے میں بھی انہوں نے اپنی رائے پر نظر ثانی کی۔ ایک مقام پر انٹرویو کے دوران کہتے ہیں:’’آج میرے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ بے نظیر کو میں ترجیح دوں یا نواز شریف کو میں ترجیح دوں‘‘۔
کیا عجب‘ جناب الطاف حسن قریشی بھی کسی دن اپنی کچھ آرا سے رجوع کر لیں!!

Wednesday, April 27, 2016

بانکے پہریدار!

خیانت نہ کرنا،
بد عہدی نہ کرنا،
چوری نہ کرنا،
مقتولوں کے اعضا نہ کاٹنا۔ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا،
کوئی بھی درخت نہ کاٹنا نہ جلانا،
تمہارا گذر ایسے لوگوں کے پاس ہوگا جو اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کیے گرجوں اور عبادت خانوں میں بیٹھے اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر رہے ہوں گے،انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا، ان سے کوئی تعرض نہ کرنا،
تمہیں ایسے لوگوں کے پاس جانے کا موقع ملے گا جو تمہارے لیے برتنوں میں ڈال کر مختلف قسم کے کھانے پیش کریں گے، تمہارا فرض ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کردو۔
یہ اُن ہدایات میں سے چند ہیں جو امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ نے لشکرِ اسامہ کی روانگی کے وقت حضرت اسامہؓ کو دی تھیں۔ درختوں کی حفاظت کے متعلق اور درخت نہ کاٹنے کے بارے میں متعدد احادیث میں بھی تلقین کی گئی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے یاد آ رہا ہے کہ کراچی میں بارہ سو درخت قتل کر دیے گئے ہیں۔ اشتہارات کی غرض سے بِل بورڈز کی جگہ بنانا تھی! اس بھیانک وحشیانہ جرم کے خلاف شہریوں کی ایک تنظیم سپریم کورٹ جا کر روئی ہے۔ سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پوچھا ہے کہ شاہراہ فیصل پر واقع کارساز روڈ کے نزدیک پیدل چلنے والوں کا پُل کس اتھارٹی کے دائرۂ اختیار میں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو زِچ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ وفاق اپنی ذمہ داری تسلیم کرے گا نہ صوبائی حکومت!
اس ملک میں یہ عام بات ہے کہ مقتول کی لاش پڑی رہتی ہے اور دو تھانے جھگڑے میں پڑ جاتے ہیں کہ جائے واردات کس کے علاقے میں ہے۔ اور یہ لاشیں تو انسانوں کی بھی نہیں، درختوں کی ہیں۔ یہ اور بات کہ درخت بھی جاندار ہوتے ہیں۔ اب تک بارہ سو درختوں کی لکڑی فرنیچر کی دکانوں پر اور ایندھن کے ذخیروں میں پہنچ چکی ہو گی!
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ درخت جاندار ہیں۔ کیا ہم نے کبھی اپنے بچوں سے اور گھر والوں سے اور ملازموں سے اور دوستوں سے یہ بات کی ہے کہ درخت سانس لیتے ہیں، ہوا اندر کھینچتے ہیں اور باہر نکالتے ہیں؟ ہر درخت کی اپنی الگ شکل ہے۔ اس کی اپنی عادتیں ہیں۔ اس کے اپنے دُکھ ہیں۔ اپنے کرب ہیں۔
مگر درختوں کی خوشیاں کوئی نہیں ہوتیں۔ ہاں! حوصلہ بلند رکھتے ہیں۔ ایک لحاظ سے درخت خوش قسمت ہیں کہ پاؤں سے محروم ہیں اور اُس زمین سے جدا نہیں ہو سکتے جس میں ان کی جڑیں ہوتی ہیں۔ یوں وہ ہجرت سے بچ جاتے ہیں۔ زمین۔۔۔اپنی زمین۔۔۔کٹ کر، مر کر ہی چھوڑتے ہیں۔ مگر آہ! اُن سے پیار کرنے والے، انہیں پانی دینے والے، ان کی شاخوں کی تراش خراش کرنے والے، لکڑہاروں کی دست برد سے بچانے والے اُن سے دور چلے جاتے ہیں!
جس طرح درختوں کی شکلیں الگ الگ ہیں اور عادتیں مختلف ہیں، اسی طرح ان کے حجم بھی اپنے اپنے ہیں۔ اگر کوئی غور سے دیکھے تو جان لے گا کہ درخت سراپا خلوص ہوتے ہیں۔ دل سوز! بازؤں کو ہمیشہ کھلا رکھنے والے! سسکیاں بھر کر رونے والے، کڑھنے والے! درخت سوتے نہیں، کبھی کسی درخت نے یہ نہیں کہا کہ میں آج چھاؤں نہیں دوں گا! یا میں اِس سال پھل نہیں دوںگا۔ ہاں! ان پر بیرونی عناصر حملہ آور ہوں تو اور بات ہے۔ جہاں تک درختوں کا تعلق ہے آج تک دنیا میں کوئی درخت مکار نہیں پایا گیا۔ کسی درخت نے اپنے دل میں بغض و عداوت کی پرورش نہیں کی! یہ صفات انسانوں میں ضرور پائی جاتی ہیں!
کبھی غور کرو! اللہ کے بندو، کچھ وقت نکالو! کسی جنگل میں جا کر دیکھو یا باغ میں کچھ دیر گردش کرو یا کھیتوں میں چل پھر کر مشاہدہ کرو! درختوں کی قسمیں لا تعداد ہیں۔ اونچے سرافراز درخت، جو پُرشکوہ قطاروں میں خوبصورت، قدآور شہزادوں کی طرح کھڑے ہیں۔ جیسے ایبٹ آباد کے گالف گراؤنڈ میں قطار باندھے، ایک سو برس سے زیادہ کی عمر کے درخت جو دیکھنے والے پر جادو کر دیتے ہیں! اور ایسے بھی ہیں جو پستہ قد ہیں، جُھکی ہوئی کمر والے، ٹیڑھے، جو اکیلی پگڈنڈیوں پر ثابت قدمی سے ڈٹے ہیں! خوش حال درخت بھی ہیں جن کی شاخوں کے نیچے چراغوں والی قبریں ہیں جن کے تنوں کو ہاتھ لگا کر ہاتھوں کو چوما جاتا ہے اور کچھ درخت مفلس ہوتے ہیں! جو جھاڑ جھنکار سے بھرے قبرستان میں رنگین چیتھڑے اوڑھے روتے رہتے ہیں! 
درخت زیتون کے ہوں یا بیر کے، انجیر کے ہوں یا شہتوت کے، کیکر کے ہوں یا پھُلاہی کے، شمشاد کے ہوں یا املتاس کے، میوہ دار ہوں یا بانجھ، میٹھا بُور لیے ہوں یا نوکیلے کانٹے، اُجڑے ہوئے صحن میں ہوں یا محل کے پائیں باغ میں، جیسے بھی ہوں، جہاں بھی ہوں، مقدس ہیں، ہمارے دوست ہیں اور ہماری زینت کا سامان ہیں!
درخت نبیوں کے ساتھی اور ولیوں کے مددگار رہے ہیں! درخت پرندوں کو سرچھپانے کی جگہ دیتے ہیں۔ معصوم بچوں کے امانت دار ہوتے ہیں! درختوں کی لاٹھیوں سے اندھوں نے راستہ پایا اور درختوں کے تنوں میں پناہ لینے والے پیغمبروں نے شہادت پائی۔ یہ درخت ہی ہیں جن کی چھاؤں میں مرنے کی بیعتیں اور محبت کے قول و قرار طے پاتے ہیں۔ درختوں کے پتے پانی میں ابال کر ماتم کرتے ہوئے لوگوں نے اپنے پیاروں کی میتیں نہلائی ہیں۔ درختوں کی چھال پر معشوقوں کے نام کھودے گئے۔ درختوں کی شاخوں سے رسے باندھ کر، آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو پھانسیاں دی گئیں اور ان درختوں کے علاوہ آزادی کے ان شہیدوںکوکسی نے یاد نہیں کیا!
مجھے آپ کا نہیں پتا، لیکن میں تو جتنے راستوں پر چلا ہوں اور میں نے جتنے دریا عبور کیے، اور میں جتنے پہاڑوں پر چڑھا اور میں جتنی راتوں کو جاگا ہوں اور میں نے جتنی خوشیاں کاشت کیں اور میں نے جتنے غم کاٹے اور میں نے جتنے پیاروں کو گم کیا، وہ سب مجھے درختوں ہی کے حوالے سے یاد ہیں، اس لیے کہ جتنے بھی معاملے طے ہوتے ہیں وہ درختوں کے ساتھ ٹیک لگا کر، اور درختوں پر ہاتھ رکھ کر، اور درختوں کے چلتے سایوں کے ساتھ ساتھ بان کی کھردری چارپائیاں گھسیٹ کر اور درختوں کو جھاڑ کر اور درختوں سے بغل گیر ہو کر طے ہوتے ہیں! کبھی غورکیجئے، شام کو جب چرواہے واپس بستیوں میں آتے ہیں تو کٹے ہوئے درخت، کبھی پورے، کبھی آدھے، ان کے سروں پر لادے ہوتے ہیں۔
ہم جب بستی سے چلتے تھے اور پکی سڑک کی طرف روانہ ہوتے تھے تو فاصلے کو درختوں ہی سے ماپتے تھے۔ ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ کھیت کے کنارے کھڑے درخت کے بعد کتنا فاصلہ رہ گیا ہے اور پہاڑی کے دامن میں جو درخت ہمارا انتظار کر رہا ہے، اس کے بعد کتنا چلنا پڑے گا!
ساری دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی کوشش ہے کہ جنگلات میں اضافہ ہو۔ ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔ جنگلات تین فیصد رہ گئے ہیں۔ عمارتی لکڑی کا مافیا جنگلات کا دشمن بنا ہوا ہے۔ ایندھن مافیا الگ درپے ہے۔ یہاں تو جنگلات کاٹنے اور چوری کرنے والوں کو وزارتیں تک ملتی ہیں! مری کے جنگلات لالچی ٹھیکیداروں کی نذر ہو گئے۔ وہاں اب لوہے اور سیمنٹ کے جنگل ہیں! شمالی علاقہ جات کی بربادی پر بین کرنے والا تک کوئی نہیں!
مدتوں پہلے مجید امجد نے درختوں کا نوحہ لکھا تھا        ؎
بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہریدار 
گھنے سہانے چھاؤں چھڑکتے بُور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بِک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ مہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل
کراچی کے بارہ سو درختوں کا سوداکتنے میں طے ہؤا؟ آہ! یہ نقصان روپوں میں نہیں ماپا جا سکتا! اس کی پیمائش صرف آنسوکر سکتے ہیں یا دل کا لہو!

Saturday, April 23, 2016

مزید دیر نہیں ہونی چاہیے!

ہائوسنگ سیکٹر ہی میں فوج اور سول کا موازنہ کر کے دیکھ لیجیے۔
پاکستان آرمی نے ریٹائر ہونے والے افسروں کے لیے مکان بنانے کی سکیم شروع کی جس کے مصارف افسر قسطوں میں ادا کرتے تھے۔ آج تک ہر افسر کو اپنی باری پر رہائش گاہ مل رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ چار یا چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سوائے بیوگان کے کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دی جا رہی۔ بریگیڈیر ہے یا میجر،رینک کے حساب سے ریٹائرمنٹ پر سر چھپانے کی جو جگہ اس کا استحقاق ہے‘ مل جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ مرکزی حکومت کی ہائوسنگ فائونڈیشن کی حالت دیکھیے۔ فائونڈیشن نے ان سرکاری ملازموں کے لیے جو 2007ء میں یا اس کے بعد ریٹائر ہوئے وفاقی دارالحکومت میں سیکٹر جی 14مختص کیا۔ نو سال ہو گئے، فائونڈیشن پوری قیمت وصول کر چکی، آج تک کسی کو قبضہ تک نہیں ملا۔ مضحکہ خیز حقیقت یہ ہے کہ جہاں ناجائز تعمیرات کو گرانا ہے‘ وہاں مزید تعمیرات ہو رہی ہیں۔ کئی سرکاری ملازم عمر بھر کی پونجی ہائوسنگ فائونڈیشن کے حوالے کر کے پلاٹ کا انتظار کرتے کرتے قبر میں جا رہائش پذیر ہوئے۔ ریٹائرڈ ملازمین کبھی ضلعی انتظامیہ کے پاس جا کر فریاد کر رہے ہیں، کبھی فائونڈیشن کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں مگر زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ زمین تو ہل سکتی ہے گل محمد کے ہلنے کی کوئی امید نہیں۔
سول میں انصاف کی کیا صورت حال ہے؟ اس کی وضاحت کے لیے سلیم بہادر خان کا ذکر ضروری ہے۔ ہائوسنگ فائونڈیشن غالباً 1988ء میں یا اس سے کچھ عرصہ پہلے تشکیل دی گئی۔ کہا گیا کہ جو افسر اسلام آباد میں پلاٹ یا گھر نہیں رکھتے‘ وہ پیسے جمع کرائیں اور اپنی باری پر بنا ہوا مکان لے لیں۔ سلیم بہادر خان اس وقت پاکستان ایئر فورس کے مشیرِ مالیات اور پشاور میں تعینات تھے۔ سی ایس ایس کے افسر تھے یعنی مقابلے کا امتحان پاس کر کے آئے تھے۔ رام پور کے پٹھان! نواب خاندان کے چشم و چراغ! پکے روہیلے! دسترخوان وسیع تھا۔ خاندانی روایت یہی تھی۔ آئے دن گھر میں دعوتیں کرتے اور احباب کی شکم پروری کر کے خوش ہوتے۔ برج کھیلنے کے ماہر تھے۔ فضائیہ کے کئی اعلیٰ ترین افسروں کو برج سکھائی۔ سرکاری گاڑی ملنا تھی مگر نہیں ملی تھی۔ ایک دن اس کالم نگار نے عرض کیا خان صاحب! فلاں بہت بڑی‘ یعنی بہت ہی بڑی اتھارٹی آپ کے ساتھ برج کھیلتی ہے اور آپ کے سامنے طفلِ مکتب ہے، اسی نے آپ کے لیے کار کی منظوری دینی ہے جو آپ کا بلحاظ منصب استحقاق ہے۔ اُسے اشارہ کر دیجیے۔ ہنسے کہنے لگے‘ اظہار میاں! ہم دستِ سوال نہیں دراز کرتے! ہائوسنگ فائونڈیشن نے مرکزی حکومت کے ملازمین سے درخواستیں مانگیں۔ خان صاحب نے درخواست دی۔ کچھ عرصہ بعد سرکاری چھٹی آئی کہ آپ کا تو اسلام آباد میں پہلے ہی مکان ہے، دوبارہ کے اہل نہیں! خان صاحب نے جواب میں لکھا کہ اس مکان کا مجھے فوراً ایڈریس دیا جائے کہ اس پر قبضہ کروں کیونکہ مجھے اپنے اس مکان کا علم ہی نہیں! اس کا جواب تو خیر کیا آتا، معلوم ہوا کہ وزیر صاحب نے خان صاحب کی درخواست ہٹا کر کسی اور کی رکھ دی تھی! یہی صورت حال ہے جس سے تنگ آ کر کسی دل جلے کا کچھ عرصہ قبل روزنامہ ڈان میں خط چھپا کہ یہ کام فوج کے سپرد کیا جائے!
مسلح افواج میں کام کیوں وقت پر ہو رہے ہیں اور صورتِ حال کیوں مختلف ہے؟ اس کی دو بڑی وجوہ ہیں! فوج کی ترقیوں اور تعیناتیوں میں سیاست دانوں‘ وزیروں اور عوامی نمائندوںکا کوئی کردار نہیں! اسی لیے مسلح افواج میں کوئی لاہور گروپ ہے نہ کشمیری برادری ہے۔ سول میں جس طرح ترقیاں ‘ تبادلے‘ تعیناتیاں اور بیرون ملک تقرریاں ہوتی رہی ہیں اور ہو رہی ہیں‘ اگر ان کی تفصیل یکجا کی جائے تو یہ نااہلی‘ اقربا پروری‘سفارش‘ سنگدلی‘ سفاکی‘ وطن دشمنی اور بے حسی کی ایسی داستان ہوگی جس کی مثال دنیا میں شاید ہی کوئی اور ملک پیش کر سکے۔ ہمارے دوست رئوف کلاسرا کو چاہیے کہ اس موضوع پر کتاب لکھیں!
دوسری بڑی وجہ مسلح افواج میں تعیناتی کی مدت
 (Tenure)
 پر پابندی سے عمل پیرا ہونا ہے۔ دو سال یا تین سال پورے ہونے پر تبادلہ ہو جاتا ہے۔ یوں مافیا بن سکتا ہے نہ کوئی گروپ! سول میں صورت حال عبرت ناک ہے۔ دو ماہ بعد‘ چھ ماہ بعد یہاں تک کہ ایک ہفتے بعد بھی تبادلہ ہو جائے گا۔ دوسری انتہا یہ ہے کہ سات سات سال، دس دس سال تعیناتی قائم رہتی ہے۔ 
Tenure 
کے ساتھ یہ ظلم جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے شروع ہوا۔ ان کا ایک ’’پسندیدہ‘‘ اہلکار مشرق وسطیٰ میں آٹھ نو سال’’قائم‘‘ رہا۔ ضیاء الحق کے بعد یہ روایت پختہ سے پختہ تر ہوتی گئی یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف نے اس ناانصافی کو درجہ کمال تک پہنچا دیا۔ وفاق کے شعبہ تعلیمات کو ایک سابق فوجی کے سپرد کیا جسے پانچ بار توسیع دی گئی۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان فوجی آمروں نے ظلم کی یہ روایات مسلح افواج کے اندر بھی قائم کیں؟ اس کا جواب تقریباً ’’نہیں‘‘ میں ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ افواج کے نظام کی ساخت مختلف ہے۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان آمروں کی نظر ان غیر قانونی کاموں کے لیے سول اداروں پر جمی رہی۔ افواج کو شاید وہ اپنا گھر سمجھتے تھے اور اپنے گھر کو کوئی نہیں خراب کرتا!
اس کالم نگار کو اندازہ ہے کہ اس تحریر کا ردِعمل کیا ہو گا! مگر   ع
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
مسلح افواج کا سول حکومت پر قبضہ کرنا غلط ہے۔ ہر مارشل لاء ہمیں پس ماندہ سے پس ماندہ تر کرتا رہا۔ یہ کالم نگار وہ آخری شخص ہو گا جو جمہوریت کی بساط الٹنے اور فوجی حکومت کے حق میں ہوگا۔ مگر سول اور فوج کے طریقہ کار میں جو فرق ہے اسے بھی واضح کرنا ضروری ہے۔ سول اداروں کو فوج سے میرٹ اور ’’اپنی باری‘‘ کا سلسلہ سیکھنا ہو گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو کچھ صدر ایوب خان ‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق‘ پرویز مشرف‘ جنرل اسلم بیگ‘ جنرل حمید گل اور کچھ اور فوجی افسر کرتے رہے، اس کی ذمہ داری افواج پر بطورِ ادارہ نہیں ڈالی جا سکتی!
یہ صرف ہائوسنگ‘ تعیناتیوں اور ترقیوں کا معاملہ نہیں‘ فوج ہر شعبے میں اپنی برتری منواتی جا رہی ہے۔ تازہ ترین مظاہر اس برتری کا گیارہ سینئر افسروں کی جبری ریٹائرمنٹ ہے۔ اس قسم کے اقدامات فوج میں ہمیشہ سے ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اب کے صرف یہ ہوا ہے کہ اس اقدام کی خبر عوام کو بھی دی گئی ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ احتساب کہاں ہوتا ہے اور کہاں نہیں ہوتا۔ کئی سال پہلے جب سندھ میں کچھ افراد کو ناروا قتل کیا گیا تو اس قصے میں فوجی افسر کے ساتھ سینئر پولیس افسر بھی ملوث تھے۔ فوج نے اپنے افسرکو سزائے موت دی۔ اس پر عمل بھی ہوا۔ رہا سینئر پولیس افسر‘ تو اس کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔
فوج کی اس برتری کا مطلب یہ نہیں کہ فوج وہ کام کرنا شروع کر دے جو سول نے کرنا ہے۔ فوج اپنے دائرہ کار سے باہر جب بھی آئے گی‘ فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا۔ آج اگر سندھ کی پولیس غیر سیاسی ہوتی اور میرٹ کی بنیادوں پر اس کا انتظام چلایا جا رہا ہوتا تو رینجرز کی ضرورت ہی نہ ہوتی!
فوج سے سول اداروں کو سبق سیکھنا چاہیے‘ بہت دیر ہو چکی، مزید دیر نہیں ہونی چاہیے! ایسا نہ ہو عوام یہ مطالبہ کر دیںکہ ماڈل ٹائون قتل عام سے لے کر پاناما لیکس تک اور نیب کے جوان افسر کے قتل سے لے کر ایان علی تک‘ سارے معاملات فوج کے سپرد کیے جائیں!

Wednesday, April 20, 2016

,لاچار بُڑھیا

47
 سال پہلے مراکش کے صدر مقام رباط میں یہ سب جمع ہوئے اور عہد کیا کہ مسلمان ریاستیں متحد ہو کر دنیا میں اہل اسلام کا نام بلند کریںگی۔ نام اس تنظیم کا آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس رکھا گیا۔ نشان میں تین علامات تھیں۔۔۔۔ کعبہ، کرۂ ارض اور ہلال۔ 2011ء میں نام تبدیل ہوکر آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن ہوگیا۔47 سال! تین سال اور جمع کریں تو نصف صدی! آہ! امّتِ مسلمہ کی بد قسمتی! اختر ہوشیارپوری نے ماتم توکسی اور حوالے سے کیا تھا مگر اس تنظیم پر صادق آ رہا ہے      ؎
دامن خالی، ہاتھ بھی خالی، دستِ طلب میں گردِ طلب
عمرِ گریزاں! عمرِ گریزاں! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو
ایک ہفتہ ہوا۔ استنبول میں اجلاس ہوا۔ آخری سیشن میں سعودی عرب اور اس کے حامی ملکوں نے ایران اور حزب اللہ کی مذمت میں قرار داد پیش کی۔ ایرانی صدر نے احتجاجاً آخری سیشن کا بائی کاٹ کیا۔ قرارداد میں افسوس ظاہرکیا گیا کہ ایران دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں الجھتا ہے۔ بحرین، شام، یمن اور صومالیہ کی مثالیں پیش کی گئیں۔ حزب اللہ کی مذمت بھی اسی حوالے سے ہوئی۔
سیاسی حوالے سے او آئی سی کی ناکامی کا اس قرار داد سے بڑا کیا ثبوت ہو سکتا ہے! ایران اور عرب کا جھگڑا یوں تو ہمیشہ سے ہے، مگر بحرین، شام، یمن اور صومالیہ کے سیاق و سباق میں معاملات کئی سالوں سے دنیا بھر میں توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ او آئی سی نے ان معاملات کو نمٹانے کی کوئی کوشش نہیںکی۔ ایران اور سعودی عرب میں کوئی ڈائیلاگ نہیں کرایا۔کسی ملک کو ثالث بنایا نہ خود ہی درمیان میں پڑی۔ مردہ بولے ہی نہیں، بولے تو کفن پھاڑے۔ اجلاس بلا کر اس کے آخری اعلامیہ میں ایران اور حزب اللہ کی مذمت کردی۔ بریں عقل و دانش بباید گریست، اس عقل اور دانش پر رونے کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔ دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ خدا کے بندو! یہ معاملات کانفرنس کے اجلاسوں کے اندر نمٹاتے۔ جھگڑا، بحث، دلائل، جوابی دلائل سب کچھ اندر ہی اندر کرتے۔ فائنل اعلامیہ میں اتحاد اور یگانگت کی بات کرتے اور ایسا بیان جاری کرتے جس پر سب متفق ہوتے۔ ایران کی طرف سے آخری اجلاس کا بائی کاٹ او آئی سی کی ناکامی ہے۔ اگر ایران اعلامیہ سے مطمئن نہ تھا تو سفارتی سرگرمیاں بروئے کار لائی جاتیں۔گفت و شنید سے کیا نہیں ہو سکتا۔ایسا نہیں کہ ایران نے دوسروں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیںکی۔ حزب اللہ جو کچھ کر رہی ہے، سب کے سامنے ہے۔ مگر کیا یہ لازم تھا کہ فائنل اعلامیہ میں، جو دنیا بھر میں پڑھا اورسنا گیا، اس کا ذکر ہوتا؟
پھر دوسری دخل اندازیوں کا ذکر بھی کیا جانا چاہیے تھا۔ پاکستان خود اِن دخل اندازیوں کا شکار ہے! بہت بُرا اور قابل رحم شکار! مشرقِ وسطیٰ میں وہ ملک بھی تو ہیں جو خود اپنے ہاں نجی شعبے میں کوئی مدرسہ قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتے، مگر پاکستان میں ایک دو نہیں، درجنوں نہیں، سیکڑوں مدارس کی کفالت کی جا رہی ہے! پاکستان کی حکومت میں اتنا دم خم کہاں کہ عرض کرے حضور! ہم پر رحم کیجیے، یہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ ایران اور عرب ممالک ہر دوکی طرف سے مدارس کی پشت پناہی ہو رہی ہے مگر ہم ایران کا نام تو بلا جھجک لیتے ہیں، عرب ملکوں کا نام لیتے ہوئے سو بار جھجکتے ہیں اور ہزار بار ڈرتے ہیں۔ مدرسہ نوازی تو ہو ہی رہی ہے، کم یاب پرندے بھی نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی شہزادوں اور بادشاہوں کے لیے شکار کے قوانین مختلف ہیں، پاکستانیوں کے لیے مختلف! واہ! واہ! سبحان اللہ! امریکہ تو امریکہ ہے، علاقے کے ملکوں کے سامنے بھی دست بستہ کھڑے ہیں اور ملک کی حالت اُن کے سامنے وہی ہے جو وڈیرے کے سامنے ہاری کی جھونپڑی کی ہوتی ہے!
یہ ممالک خود کس درجہ محتاط ہیں، اس کا ہم پاکستانی شاید تصور بھی نہ کر سکیں! ایک بار پاکستان کی ایک مذہبی تنظیم سے وابستہ کچھ افراد نے مشرق وسطیٰ کے ایک ملک میں، ایک گھر کے اندر درسِ قرآن کا اہتمام کیا۔ ریاست کو خبر ہوئی۔ اُسی گھر سے اُن افراد کو ایئرپورٹ لے جایا گیا اور ملک سے نکال دیا گیا۔ باقی کے خلاف بھی کارروائی ہوئی۔ ایک اور بڑے ملک میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔ یہ مثالیں جو پیش کی جا رہی ہیں، دو حوالوں سے اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے ہاں بھی ایسے ہی قوانین ہونے چاہئیں مگر دوسرا حوالہ یہ ہے کہ خود جو ممالک اِس درجہ محتاط ہیں، ہمارے ہاں سب کچھ کھلے عام کر رہے ہیں۔ مذہبی تنظیموں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ مدرسے چلا  رہے ہیں۔ اِن ملکوں میں کیا مجال ہے کہ ریاست کی اجازت کے بغیر کوئی مسجد بنے۔ یہاں کسی رہگزر پر، کسی نالے پر، کسی سرکاری قطعۂ زمین پر مسجد بن سکتی ہے اور بیرونِ ملک سے مقدس کفالت بھی حاصل کی جا سکتی ہے! پاکستان نہ ہوا، غریب کی جورو ہوئی!
او آئی سی کی طرف پلٹتے ہیں۔ تعلیم اور مالیات کے حوالے سے کچھ ادارے ضرور قائم ہوئے مگر گہری چھاپ کسی کی نہ پڑ سکی۔ 47 سال میں کوئی ایک یونیورسٹی اِس سطح کی نہ بنی جو ہارورڈ اور آکسفورڈ کی ٹکر کی ہو! کوشش تک نہ ہوئی۔ عرب شہزادے اربوں کے عطیات امریکی یونیورسٹیوں کو دیتے رہے، خود کچھ نہ کیا۔ کوئی ٹیلی ویژن چینل ایسا نہ بن سکا جو سی این این یا بی بی سی کے مقابلے کا ہوتا۔ الجزیرہ موجود ہے مگر کم و بیش ایک لسانی گروپ کی حمایت کرتا ہے اور انہی خبروں کی جگالی کرتا ہے جنہیں مغربی میڈیا اہمیت دے کر نمایاں کر چکا ہوتا ہے۔
نصف صدی میں، او آئی سی کے زیر انتظام مسلمان ملکوں کے سائنسدانوں نے کوئی ایک ایجاد بھی ایسی دنیا کے سامنے پیش نہیں کی جس کا انسانیت کو فائدہ ہوتا! پنسلین سے لے کر بائی پاس آپریشن اور گردوں اور جگر کی پیوندکاری تک، ٹیلی ویژن سے لے کر انٹرنیٹ تک، ریلوے سے لے کر طیاروں تک کہیں بھی عالمِ اسلام کا نام نہیں، نہ ہی او آئی سی نے اس میدان میں کچھ کیا۔ مسلمان ملکوں کے لیے اور خود او آئی سی کے لیے شرم کا مقام ہے کہ عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کے وزیراعظم کی طبیعت گزشتہ ہفتے خراب ہوئی تو 57 مسلمان ملکوں میں کہیں بھی ان کا علاج ممکن نہ ہوا۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اس قدر بدحال اور پس ماندہ ہے کہ اس کے وزیراعظم اپنے ملک میں اپنا علاج کرانا پسند نہیںکرتے۔ سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ طبی معائنہ کرانے اکثر و بیشتر ولایت جاتے ہیں! یہی رویہ دوسرے مسلمان ملکوں کے سربراہوں کا ہے!
فقہ اور اجتہاد کے میدان میں بھی او آئی سی کی کارکردگی صفر ہے۔ کوئی ایک ایسا مرکزی ادارہ نہ بن سکا جو فقہی معاملات میں جدید دور کے مسلمانوں کی رہنمائی کرتا۔ پاکستان کا سب سے بڑا فقہی ادارہ جو سرکار کے خرچ پر چل رہا ہے، کمسن بچیوں کی شادی کے مسئلے میں الجھا ہوا ہے۔ آج او آئی سی کے زیرانتظام کوئی تحقیقی مرکز ہوتا تو ان مسائل میں رہنمائی کرتا جن میں کم علم اور تنگ ذہن مُلا نے مسلمانوں کو جکڑ رکھا ہے۔
کسی ذہین سکالر نے اقوامِ متحدہ کے ضمن میں ایک نہایت دلچسپ فارمولا وضع کیا تھا کہ 
٭… اگر جھگڑا دو بڑے ملکوں کے درمیان ہو تو اقوامِ متحدہ درمیان سے غائب ہو جاتی ہے۔
٭… اگر جھگڑا ایک بڑے ملک اور ایک چھوٹے ملک کے درمیان ہو تو چھوٹا ملک غائب ہو جاتا ہے۔
٭… اگر جھگڑا دو چھوٹے ملکوں کے درمیان ہو تو وہ مسئلہ غائب ہو جاتا ہے جو حل کیا جانا ہے اور جھگڑے کا باعث ہے۔
او آئی سی کی حالت اِس سے بھی ابتر ہے! اکثر و بیشتر غائب رہتی ہے۔ یہ اُس بیمار اور لاچار بڑھیا کی طرح ہے جو اپنے روزمرہ کے اخراجات کے لیے اولاد کی محتاج ہے۔ اتنی سکت کہاں کہ جھگڑتے ہوئے بیٹوں میں صلح کرا سکے!

Monday, April 18, 2016

گرہ

اگر پاکستان‘ پاکستان نہ ہوتا‘ مراکش ہوتا‘ اردن ہوتا یا سعودی عرب ہوتا تو عوام کو معاف کیا جا سکتا تھا۔ ان ممالک  میں جمہوریت نہیں‘ خاندانی بادشاہتیں ہیں۔ پریس آزاد نہیں۔ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینل کام نہیں کر سکتے۔ انتخابات کی روایت نہیں‘ اسمبلیاں ناپید ہیں اور اگر ہیں تو برائے نام! ان ملکوں میں فرمانروائی کا تاج زرداری‘ نوازشریف اور شہبازشریف جیسے افراد کے سر پر رکھ دیا جائے اور عشروں تک حکومت کرتے رہیں تو اچنبھے کی کوئی بات نہیں!
پاکستان شام‘ لیبیا اور عراق بھی نہیں جہاں ایک حکمران آتا ہے تو تیس سال حکومت کرتا ہے اور پھر اس کا بیٹا تخت پر بیٹھ جاتا ہے۔ شام‘ لیبیا اور عراق کے مظلوم اور خوفزدہ عوام کو معاف کیا جا سکتا ہے مگر پاکستانی عوام کو معاف نہیں کیا جا سکتا!
اگر کسی کو یہ بات معلوم نہیں تو وہ جان لے کہ پاکستان جمہوریت کے بطن سے نکلا تھا۔ قائداعظمؒ کی مسلم لیگ نے تقسیم سے پہلے الیکشن لڑ کر اپنا وجود‘ اپنا استحقاق ثابت کیا تھا۔ برطانوی آقائوں کو اور کانگریس کو وزارت خزانہ تک مسلم لیگ کے حوالے کرنا پڑی۔ یہی پاکستانی عوام تھے جنہوں نے بقائمی ہوش و حواس‘ بہ رضا و رغبت قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر تسلیم کیا۔ قائداعظمؒ کو یہ قیادت وراثت میں نہیں ملی تھی۔ میرے منہ میں خاک‘ وہ بلاول تھے نہ حمزہ شہباز! وہ کوئی مولانا تھے نہ صنعتکار نہ فیوڈل! انہوں نے سندھ کارڈ کھیلا نہ جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا۔ مذہب کو فروخت کیا نہ یہ واویلا مچایا کہ اسلام کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ وہ ایک کھرے اور دل کی بات منہ پر کرنے والے لیڈر تھے۔ ان کی مخالفت میں مذہب کو استعمال کیا گیا اور وطنیت کو بھی! مگر آفرین ہے برصغیر کے مسلمانوں پر کہ قائداعظمؒ کے مقابلے میں وہ کسی کو خاطر میں نہ لائے۔ انہوں نے اُس شخص کو ووٹ دیئے جو انگریزی لباس پہنتا تھا اور انگریزی بولتا تھا۔ یہی عوام تھے جنہوں نے قائداعظمؒ کے مقابلے میں مذہب فروشوں کے اور وطنیت پرستوں کے بُرج الٹ ڈالے اور دو بڑی طاقتوںکو شکست دے کر الگ ملک حاصل کر لیا۔ یہ شکست بندوق اور توپ سے نہیں‘ ووٹ کی پرچی سے دی! ایسا کارنامہ مراکش سے لے کر ایران تک اور ترکی سے لے کر سوڈان تک کسی اور مسلمان ملک نے آج تک سرانجام نہیں دیا!
تو پھر کیا ہو گیا ہے انہی عوام کو کہ اب ووٹ کی وہی پرچی ہے مگر قائداعظمؒ جیسوں کے بجائے اب وہ کبھی زرداری کو منتخب کرتے ہیں‘ کبھی شہبازشریف اور نوازشریف کو‘ کبھی کسی عمامہ پوش مذہبی تاجر کو اور کبھی کوئی بات تک نہ کر سکنے والے ارب پتی کو!
حیرت ہے اس بات پر کہ وہی عوام جنہوں نے اپنوں اور غیروں کی بھرپور مخالفت کے باوجود پاکستان کو بنانے کے لیے قائداعظمؒ کا ساتھ دیا تھا‘ آج کئی عشروں سے ایسے ’’رہنمائوں‘‘ کو چُن رہے ہیں جو قائداعظم سے اتنی نسبت بھی نہیں رکھتے جتنی کنکر کو ہمالیہ سے ہے اور ذرے کو صحرا سے ہے اور چیونٹی کو چیتے سے ہے!
آپ پنجاب کے والی کو دیکھ لیجیے۔ سنجیدگی اور قناعت سے دور کا بھی تعلق نہیں! چند دن پہلے نذیر ناجی صاحب نے ان کے دس چیلنج نقل کئے۔ ہر چیلنج میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ نہ کر دوں تو میرا نام شہبازشریف نہیں اور وہ نہ کر دوں تو میرا نام شہبازشریف نہیں! ان میں سے کوئی ایک چیلنج بھی پورا نہیں کیا جا سکا! کیا لیڈر اس انداز کے دعوے کرتے ہیں‘ جیسے محلوں میں لڑنے اور جھگڑنے والے نیم تعلیم یافتہ افراد کہتے ہیں کہ یہ نہ کر دوں تو میرا نام بدل دینا؟ افسوس! پاکستانی عوام ان جیسے لوگوں کو ووٹ دے رہے ہیں اور مسلسل دے رہے ہیں!
یہ حقیقت اب مسلمہ ہو چکی ہے کہ والیٔ پنجاب کو امن و امان قائم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں! یہ ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں! وہ افتاد طبع سے صرف اور صرف وزیر مواصلات ہیں۔ ٹرینیں‘ بسیں‘ شاہراہیں اور پُل! اس کے علاوہ کسی شعبے میں دلچسپی ہے نہ کارکردگی کی کوئی رمق دکھائی دیتی ہے۔ وژن اتنا بھی نہیں کہ سوچ سکیں کون کون سے بیرونی عناصر صوبے کی آبادی کو کُلّی طور پر تبدیل کر رہے ہیں! انہیں اس بات سے غرض ہی نہیں کہ ڈاکوئوں‘ چوروں‘ بھتہ خوری اور اغواء کا انسداد کرنا ہے۔ چار دن پہلے ایک خاتون صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پانامہ لیکس پر بننے والا کمشن ملک میں ہونے والی ڈاکہ زنی کی بھی 
تحقیقات کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں ڈاکہ زنی کا انسداد حکومت کے فرائض میں شامل ہی نہیں! ارشاد عارف صاحب نے کل ہی بتایا ہے کہ والیٔ پنجاب راجن پور گئے تو ریاض چنگوری نامی شخص نے اغوا برائے تاوان کے حوالے سے فریاد کی اور مدد مانگی! وزیراعلیٰ نے یقین دہانی کرائی اور کچھ بھی نہ ہوا۔کیا کسی اور ملک میں بھی اتنے غفلت شعار اور وعدہ شکن حکمران بار بار ووٹ لینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟ کوئی مہذب ملک ہوتا تو یہ واقعہ پڑھ کر حکمران فریادی سے اور قوم سے معافی مانگتا اور ناکامی کا اعتراف کرتا۔ ایک واقعہ اس کالم نگار کے ذاتی علم میں ہے۔ کچھ عرصہ قبل لاہور کے ایک نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ بزنس مین کو بھتے کی پرچیاں ملنا شروع ہو گئیں۔ وہ پولیس کے اعلیٰ افسر تک پہنچا۔ کامیابی نہ ہوئی‘ پھر اس کے کچھ احباب نے صوبے کے حکمران اعلیٰ تک رسائی دلوائی۔ اُسی پولیس افسر کو طلب کیا گیا۔ ایک تقریر کی گئی جس کا لُب لباب یہ تھا کہ ایسی کوئی چیز برداشت نہیں کروں گا۔کوئی نظام ہے نہ سسٹم! جس سے فریادی سے رابطہ رکھا جائے یا معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے! پھر انہی احباب نے نوجوان کو مشورہ دیا کہ وہ بیرون ملک چلا جائے!
یہ صرف ایک صوبے کا معاملہ نہیں! ایک پارٹی کا بھی قصّہ نہیں! ذہنی تنزل اس قدر تیزی سے آیا کہ قائداعظمؒ لیاقت علی خان اور عبدالرب نشتر جیسے رہنمائوں کو منتخب کرنے والی قوم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو چننے لگی۔ اب اس کے لیڈر قائم علی شاہ‘ رحمن ملک اور شرمیلا فاروقی ہیں!
فقہ کی بلند ترین مسند پر مولانا شیرانی تشریف فرما ہیں‘ مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں اور ان دنوں کشمیر آزاد کرانے سرکاری خرچ پر جنوبی افریقہ گئے ہوئے ہیں! یہ سارے حضرات مُنتخَب ہیں!
اس دلیل میں کہ جمہوریت صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ اقوام کے لیے ہے‘ زیادہ وزن نہیں! قبائلی معاشروں میں جہاں ہرکام مشورے سے ہوتا ہے‘ کتنی تعلیم ہوتی ہے؟ اگر یہ دلیل مان لی جائے تو ہر غیر تعلیم یافتہ یا ناخواندہ شخص بھوک سے مر رہا ہو۔ عقل کا ڈگری سے یا سند سے کیا تعلق؟ کیا یہی ناخواندہ ووٹر کروڑوں کے کاروبار نہیں کر رہے؟ کیا یہی نیم تعلیم یافتہ افراد وسیع جائیدادوں اور جاگیروں کا انتظام کامیابی سے نہیں چلا رہے؟ کیا یہ ناخواندہ اور غیر تعلیم یافتہ پاکستانی اپنے مکان بناتے وقت‘ کاروبار کرتے وقت اور بچوں کے رشتے طے کرتے وقت غلط معمار‘ غلط نقشہ نویس‘ غلط ملازم اور غلط سمدھی کا انتخاب کرتے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں؟ یہ سب گانٹھ کے پکے ہیں‘ اپنے اپنے میدانوں میں کمال ہوشیاری دکھا رہے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ووٹ دیتے وقت ظلم ڈھاتے ہیں؟ انہیں چُنتے ہیں جو حکمرانی کے اہل نہیں! جانتے بوجھتے ہوئے کیا عجب 2018ء میں بھی بیلٹ بکسوں سے یہی حکمران نکلیں!
عوام کے ذوق میں یہ پستی کیسے آئی؟ ان کا معیار انتخاب کیونکر اس قدر گر گیا؟ کیا افتاد پڑی؟ ستر سالوں میں چوٹی سے گر کر پاتال میں قوم کس طرح گری؟ 
ہے کوئی سکالر‘ کوئی تجزیہ کار‘ سوشیالوجی کا کوئی ماہر؟ جو اس گرہ کو کھولے؟

Saturday, April 16, 2016

غالب چھٹی شراب…

اب یہ تعداد اور یہ مقدار کچھ اتنی زیادہ بھی نہیں تھی۔ صبح، پھر چاشت کے وقت، پھر دوپہر کے کھانے کے فوراً بعد، پھر سہ پہر کو، پھر مغرب کے لگ بھگ، پھر رات کے کھانے کے فوراً بعد، پھر رات کو ایک یا دو بار!
ڈاکٹر صاحب کو جو دوست بھی ہیں، یہ تعداد اور یہ مقدار خوش نہ آئی۔ بریگیڈیئر ڈاکٹر شاہد رانا کا اپنا ہی سٹائل ہے۔ لہجہ نرم اور دھیما مگر ایڈوائس سنجیدہ اور اٹل۔ ’’یہ تو زیادہ ہے!‘‘ اور پھر انہوں نے وہ ایڈوائس لڑھکائی جو مریض کو خوش نہ آئی۔ ’’پانچ بجے شام کے بعد چائے نہیں پینی‘‘۔
منیر نیازی نے کہا تھا  ع
نہ میں پڑھی نماز تے نہ میں جام شراب دا پیتا
جام شراب کا تو کیا پیتے کہ عمر خیام تھے نہ غالب! ہم تو عدمؔ بھی نہ تھے۔ رہی نماز، تو وہ بھی بے رنگ، بے ذائقہ! سوز نہ گریہ! جیسے چھلکا ہو اور مغز نہ ہو! جیسے قالب ہو اور روح نہ ہو! بس یہ ہے کہ حاضری دے رہے ہیں۔
زندگی میں یہ ایک ہی تو رنگینی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے پرہیز کی نذر کر ڈالی! فراغتی و کتابی و گوشۂ چمنی تو اب میسر نہیں، لے دے کر رات ہوتی ہے اور کوئی دامنِِ دل کھینچنے والی کتاب یا کوئی نظروں کو جکڑ لینے والی فلم اور ساتھ ایک سستی، کم داموں والی پیالی میں چائے، ایک کے بعد دوسری! اس کے علاوہ رنگینی کون سی تھی؟ تمباکو نوشی نہ مے گساری، تمباکو نوشی کا شوق کچھ دن یونیورسٹی کے دنوں میں ہوا مگر انگلیوں سے جو بو آتی تھی، اس نے بد دل کر دیا۔
ڈاکٹر صاحب کی دلیل تھی کہ پانچ بجے شام کے بعد چائے رات کو بار بار اٹھائے گی، یوں نیند پوری نہ ہو گی! مگر ڈاکٹر صاحب سے کون پوچھے کہ کون سی نیند؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ یونیورسٹی کے زمانے سے بہت پہلے شب بیداری کی عادت پختہ ہو چکی تھی۔ پھر یونیورسٹی پہنچے تو وہ کوئی عام یونیورسٹی نہ تھی، ڈھاکہ یونیورسٹی تھی جسے مغربی بنگال کے ہندو طنز سے مکہ یونیورسٹی اور مشرقی بنگال والے آکسفورڈ آف ایسٹ کہتے تھے۔ رت جگے ڈھاکہ یونیورسٹی کے وجود میں رچے بسے تھے۔ یہ ملک کی واحد یونیورسٹی تھی جس کی (عظیم الشان) لائبریری چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ رات کے دس گیارہ بجے پڑھاکُو طلبہ آنا شروع کرتے۔ سفید کرتوں سفید پاجاموں میں ملبوس، پیروں میں چرم کی سیاہ چپلیں۔ ناشتے کا وقت ہوتا تو انگڑائی لیتے اور اٹھتے۔ اسی لائبریری کی لمبی مستطیل میزوں کے گرد بیٹھ کر بنگالی دوستوں سے طویل بحثیں ہوئیں۔ ’’ڈھاکہ یونیورسٹی لائبریری دی اک شام‘‘ کے عنوان سے چار سطروں کی پنجابی نظم بھی اسی زمانے میں ہوئی:
باہر ہوا دیاں چیکاں، اندر پکھے گھوں گھوں کردے
لیچی تے اِملی دے پَتر شیشیاں تے پے تردے
مٹی دے بُت، لکڑی دی میزاں دے آسے پاسے
یا پتھر دے کتبے نے قبراں دے آسے پاسے
یوں بھی ہوا کہ کمرۂ طعام سے عشائیہ کھا کر نکلے، برآمدے میں دوست مل گئے۔ باتیں شروع ہو گئیں، تھوڑی دیر کے بعد وہ موضوع آ گیا جس نے آنا ہوتا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان عدم مساوات، مشرقی پاکستان کی آبادی کو گھٹانے والا ون یونٹ اور مارشل لا کے نہ ڈھلنے والے سائے، ہم لنگی پوش وہیں کھڑے کھڑے صبح کر دیتے!
ایک بار تو امتحان میں فیل ہونے سے بال بال بچے۔ ایم اے کے پہلے سال کا فائنل امتحان تھا۔ دوسرے دن بینکنگ اور پبلک فنانس کا پرچہ تھا۔ سرِشام یونیورسٹی لائبریری سے ظہور نظر کی نظموں کا نیا چھپا ہوا مجموعہ ’’ریزہ ریزہ‘‘ ہاتھ آ گیا۔ نظموں نے ایسا جکڑا کہ صبح تک کتاب کا تین چوتھائی حصہ حفظ ہو چکا تھا۔ پروگرام ذہن میں یہ طے کیا تھا کہ پرچہ گیارہ بجے شروع ہو گا، ناشتے کے بعد دو گھنٹے مل جائیں گے جو تیاری کے لیے کافی ہیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں امتحانی پرچوں کا وقت تین گھنٹے نہیں بلکہ چار گھنٹے ہوتا تھا۔ گیارہ بجے سے تین بجے تک وقت مقرر چلا آ رہا تھا اور کیا نظمیں تھیں ظہور نظر کی!
اے دلِ زار و زبوں…اے دلِ ویران و خموش…آ ترا خون کریں…آ تجھے بے تاب کریں
ایک نظم ’’التجا‘‘ تھی: 
بیتی رُت…بیتے دنوں کی راہ میں…اے ہوائے وادیٔ امروز! آہستہ چلو
اور ہاں وہ نظم جس کا عنوان ’’حفظِ مراتب‘‘ تھا:
لیکن اُس نے …عجب انداز میں صرف اتنا کہا…اس بھری بزم میں ہم دونوں کو سب جانتے ہیں…اپنی توہین نہ کر، میرا تماشا نہ بنا…تیرا غم تیرا ہے…میرا، میرا…مجھ کو نزدیک نہ کر!…میرے نزدیک نہ آ
صبح ناشتے کے بعد پبلک فنانس کی کتاب کھولی ہی تھی کہ کمرے کے کھلے دروازے میں بھائی آصف زمان انصاری نمودار ہوئے، آپ راجشاہی یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ کہنے لگے ’’میرے امتحان تو ختم ہو گئے، سوچا ایک دو دن کے لیے تمہارے پاس ڈھاکہ آ جائوں!‘‘ اسے کہتے ہیں ’تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ‘ ، وہ دو گھنٹے جو بچا کر پرچے کی تیاری کے لیے رکھے تھے، انصاری سے گپ شپ میں اور چائے پینے پلانے میں کٹ گئے۔ اب کمرۂ امتحان میں بیٹھے ہیں اور پڑھا ایک لفظ نہیں! پرچہ سامنے آیا تو ٹیکنیکل قسم کے سوال تو حل کرنے کا سوال ہی نہ تھا۔ مُڑ جُڑ کر مضمون نگاری کی لت کام آئی۔ جنرل نیچر کے سوالوں کے جواب لکھے اور ملک کی بینکاری اور پبلک مالیات کو ترقی دینے کی ایسی ایسی تجاویز پیش کیں کہ ممتحن کو پاس کرتے ہی بنی! مضمون نگاری کی یہی لت مقابلے کے امتحان میں مدد کو آئی۔ سو نمبر کا
 essay
 لکھنا تھا۔ 74نمبر آ گئے۔ صرف ایک صاحب تھے جن کے نمبر اِس پرچے میں اِس نالائق سے زیادہ تھے۔
پھر ازدواج کی دہلیز پار کی! بَری میں شب بیداری بھی ساتھ آئی! یاد ہے اُن دنوں 
Gone with the wind 
پڑھ رہا تھا۔ بیگم کی رات کو جب بھی آنکھ کھلتی دیکھتیں کہ ٹیبل لمیپ جل رہا ہے اور پڑھ رہا ہوں۔ صبح حیران ہو کر پوچھا: ’’رات بھر جاگتے رہے؟‘‘ کہا ’’ہاں! پڑھتا رہا، نیند آئی ہی نہیں!‘‘ خیر ناشتہ کیا، ویسپا نکالا اور دفتر پہنچ گئے۔ بیگم توقع کر رہی تھیں کہ ’’لڑکا‘‘ شام کو گھر آئے گا تو سو جائے گا۔ مگر دن کو سونے کا سوال ہی نہ تھا۔ دوسری رات پھر پڑھتے اور جاگتے گزری۔ اگلی صبح بدستور تازہ دم اور پھر دفتر! تین دن اور تین راتوں کے بعد ایک رات اور دن کا کچھ حصہ سو بھی لیتے تھے۔ گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی میں بی اے کا زمانہ تھا۔ ہم دو دوست مشاعروں کے لیے بھیجے گئے۔ پہلا مشاعرہ بورے والا تھا، دوسرا اسلامیہ کالج لاہور میں ’’شمعِ تاثیر‘‘ کا مشاعرہ! سرمد صہبائی نے کہ گورنمنٹ کالج لاہور سے تھے اور ہم سے سینئر، غزل میں پہلا انعام لیا۔ کہاوت یہ تھی کہ لاہور سے باہر انعام نہیں جا سکتا مگر تیسرا انعام لے ہی لیا۔ لیکن یہ تذکرہ ضمنی ہے۔ بات یہ بتانا ہے کہ روانہ ہونے سے پہلے پنڈی میں سوئے تھے۔ ملتان، بورے والا پھر لاہور تک کے سفر کے دوران نیند سے پرہیز رہا، واپس پنڈی پہنچ کر ہی آنکھ لگی۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
بہ شغلِ انتظارِ مہ وشاںن در خلوتِ شب ہا
سرِ تارِ نظر شد رشتۂ تسبیحِِ کوکب ہا
کہ راتوں کی تنہائی میں چاند جیسے لوگوں کا انتظار کرتے رہے، اس شغل میں نظر کا تار وہ دھاگہ بن گیا جس میں ستارے تسبیح کے دانوں کی طرح پرو دیئے گئے۔
’’برگِ نے‘‘ میں کمال کی ایک غزل ناصر کاظمی نے ہم جیسے شب بیداری کے مارے ہوئوں کے لیے لکھی ہے؎
دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو
منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو
تھک گئے ناقہ و سارباں، تھم گئے کارواں
گھنٹیوں کی صدا سو گئی سو رہو سو رہو
دور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو بھی گم گئے
چاند میں سو گئی چاندنی سو رہو سو رہو
گھر کے دیوار و در راہ تک تک کے شل ہو گئے
اب نہ آئے گا شاید کوئی سو رہو سو رہو
سست رفتار تارے بھی آنکھیں جھپکنے لگے
غم کے مارو گھڑی دو گھڑی سو رہو سو رہو
ہمارے دوست، انگریزی کے صاحبِ طرز ادیب پروفیسر معظم منہاس کہا کرتے ہیں کہ مرنا اچھی بات نہیں، یہ بھی کیا کہ انسان آنکھیں بند کر کے پڑا رہے۔ سو کچھ کو سونا بھی پسند نہیں۔ سونے سے مفر بھی کہاں ہے؟ زندگی بھر نہ ہونے والے بھی آخرکار سو جاتے ہیں   ع
عِوَضِ یک دو نفس قبر کی شب ہائے دراز!
غالب نے مے نوشی چھوڑی مگر کہاں چھوڑی۔ ایک دن اعتراف کر ہی لیا؎
غالب چھُٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں
تاہم چائے نوشی کا ابر آلود دن اور چاندنی رات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق تو اُس موسم سے ہے جو اندر ہے اور ہر دم بدلتا ہے۔ ایک شام ڈاکٹر صاحب کی ہدایت پر سختی سے عمل کیا۔ کل رات کے کھانے کے بعد بغاوت کر دی۔ آج دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ ذوقؔ نے تو ڈاکٹر صاحب کو نسخہ لکھنے سے ہی روک دیا تھا ؎
نسخہ پر لکھنے نہیں پاتا ہوالشافی طبیب 
کہتا ہے بیمار بس کر! مجھ کو بالکل ہے شفا

Friday, April 15, 2016

گیارہ کروڑ پنجرے

ایک انداز ے کے مطابق خواتین کی تعداد ہمارے ملک میں کم از کم پچپن فی صد ہے۔ فرض کیجیے اس وقت آبادی بیس کروڑ ہے تو خواتین گیارہ کروڑ بنتی ہیں۔
گیارہ کروڑ خواتین کی سرپرستی، ان کی حفاظت، ان کے حقوق کا تحفظ آسان کام نہیں۔ ملک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے جتنے ادارے تھے، نجی یا سرکاری، نیم سرکاری یا این جی اوز، سب ناکام ثابت ہوئے۔ خواتین مایوس ہو چکی تھیں۔ خدا خدا کر کے روشنی کی ایک کرن نظر آئی ہے۔ مولانا کے روپ میں خواتین کا ایک محافظ، قومی اسمبلی میں ظہور پذیر ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں غیرت کے نام پر قتل اور جبری آبرو ریزی کے حوالے سے بلوں کو مؤخر کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر نے مؤخر کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ ایک طاقت ور مولانا کو اس بل پر تحفظات ہیں۔ ان کی مشاورت ضروری ہے اور وہ شہر میں موجود نہیں؛ چنانچہ بل التوا میں ڈال دیئے گئے۔
اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ مولانا اور ان کی طاقت ور جماعت کے نمائندے جن علاقوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں، وہاں خواتین ووٹ ڈالتی ہیں نہ ڈالنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ تو یہ اعتراض بے معنی ہے، مولانا کی جماعت اگر کل ووٹوں کا دو یا تین فی صد حاصل کرتی ہے اور ان میں بھی خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کے باوجود گیارہ کروڑ خواتین کے حقوق کے بل صرف اس لیے مؤخر کر دیئے جاتے ہیں کہ مولانا کو تحفظات ہیں تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ مولانا گیارہ کروڑ خواتین کے واحد کفیل ہیں۔
اقبال نے کہا تھا    ؎
نے پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد
اقبال غلط ثابت ہوئے۔ اب معلوم ہوا کہ عورتوں کے نگہبان مرد نہیں، مولانا حضرات ہیں۔ یوں بھی اقبال خوش قسمت ہیں۔ بچ کر نکل گئے۔ ورنہ اِس زمانے میں یہ شعر کہتے تو کفر کے فتوے سے بچنے کی کوئی صورت نہ تھی! غور کیجیے، اقبال کہہ رہے ہیں کہ پردہ بھی نسوانیتِ زن کا نگہبان نہیں۔
کچھ عرصہ ہوا سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو کی دھوم تھی۔ ایک اور مولانا تھے۔ انہیں اپنے وطن کی مٹی سے اتنا پیار تھا کہ وطن کی مٹی پر جان قربان کرنے والے قومی عساکر کو شہید کہنے سے انکار فرماتے تھے۔ ویڈیو میں اینکر ان سے پوچھتا ہے کہ جس مظلوم عورت کی جبراً آبرو ریزی ہوئی ہو، اس کا کیا قصور ہے کہ اسے حوالۂ زنداں کیا جائے۔ اس کا گول مول جواب جو وہ دیتے ہیں، اس سے ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس کا قصور ہے اور بالکل ہے! آج کل حضرت پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ مسلسل بیزاری اور ہر شے کو رد کرنے کے عارضہ کا علاج کرا رہے ہوں گے۔ 
ایک خاتون نے کل دلچسپ بات کی کہ غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل اصل میں بے غیرتی ہے۔ بہر حال، غیرت ہے یا بے غیرتی، یہ تو بعد کا معاملہ ہے۔ اس وقت تو خوشی اس بات کی ہے کہ گیارہ کروڑ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی بل پیش ہو تو اسے ایسی جماعت کا سربراہ منظور یا منسوخ کرے گا جس کے ووٹروں میں خواتین سرے سے موجود ہی نہیں۔
اور خواتین کو اور چاہیے بھی کیا؟ غیرت کے نام پر قتل ہوتی رہیں، آخر قوم کی غیرت کے لیے قربانی ہی تو دے رہی ہیں۔ اس سے بڑا مقام کیا ہو سکتا ہے۔ جبری زیادتی کے ’’جرم‘‘ میں جیل میں سالہا سال تک پڑی رہیں۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے کہ زیادتی کرنے والا مرد تو چھوٹ جائے اس لیے کہ گواہ کوئی نہ تھا اور عورت پکڑی جائے اس لیے کہ اس نے فریاد کی تھی۔ یہ فریاد اس کے لیے ’’اعتراف‘‘ بن گیا۔ اب آپ خود انصاف کیجیے، اعتراف کر لیا تو پھر جیل میں تو رہنا پڑے گا۔
عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا جو ماڈل ان عالی قدر حضرات کے ذہن میں ہے اس کے خدوخال کچھ اس طرح کے ہیں۔
اسے سکول کالج اور یونیورسٹی سے دور رکھا جائے۔(یہ حضرات اس ملک میں کچھ عرصہ قبل خواتین کو پڑھنا سکھانے کے روا دار تھے لیکن لکھنا نہیں سیکھنے دیتے تھے۔ یہ خدشہ باقاعدہ کتابوں میں مرقوم کیا گیا کہ لکھنا سیکھ گئیں تو پڑوسی مردوں سے خط و کتابت کریں گی) 
اسے بازار نہ جانے دیا جائے۔ محلے کے بازار میں بھی جانا ہو تو ’’محرم‘‘ ساتھ ہو۔
شادی کے موقع پر اس کی اجازت یا رضا مندی ضروری نہیں۔ اس ضمن میں اگر عہدِ رسالت کا حوالہ دیا جائے تو اس کا اِن عالی مرتبت حضرات کے پاس کوئی جواب نہیں۔
عورتوں کو وراثت میں حصہ دینا لازم نہیں، ایسا ہوتا تو یہ حضرات کوئی بل ہی پیش کر دیتے۔
ملازمت کرنے کا عورتوں کو کوئی حق نہیں، اس طرح وہ معاشی طور پر خود مختار ہو سکتی ہیں جو کچھ خاص ذہنیت کے مردوں کے لیے قابل قبول نہیں۔
عورتیں ڈرائیو نہیں کر سکتیں۔ تازہ ترین خبر کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ایک بہت بڑے مفتی صاحب نے ڈرائیونگ پر پابندی کا دفاع کرتے ہوئے دو اہم وجوہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اول یہ کہ اس سے ’’خواتین کی شیطانیت عیاں ہو جائے گی، گویا شیطانیت عورتوں کے اندر موجود ہے مگر نہاں ہے۔ ڈرائیونگ کریں گی تو یہ عیاں ہو جائے گی، دوم یہ کہ اگر وہ ڈرائیونگ کریں گی تو ’’فیملی کے ارکان کے لیے یہ انتہائی مشکل ہو جائے گا کہ وہ ان کی موجودگی سے متعلق معلوم کر سکیں‘‘! دوسرے لفظوں میں اگر عورت گاڑی لے کر گھر سے نکلتے وقت ’’فیملی کے ارکان‘‘ کو بتا بھی دے کہ میں فلاں سکول یا فلاں دفتر یا فلاں مارکیٹ جا رہی ہوں تو مفتی صاحب کے خیال میں اس پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ موبائل فون کا زمانہ ہے، اگر اس سے، اس کی ڈرائیونگ کے دوران فون پر مسلسل رابطہ رہے تب بھی ’’فیملی کے ارکان کے لیے یہ انتہائی مشکل ہو جائے گا کہ وہ ان کی موجودگی سے متعلق معلوم کر سکیں‘‘۔ مفتی صاحب اور ان کے ہم خیال علما اگر عہدِ رسالت یا عہدِ صحابہ یا گزرے ہوئے دوسرے ادوار میں ہوتے تو عورتوں کو گھوڑ سواری کی یقیناً اجازت نہ دیتے۔ ان گزرے زمانوں کے علماء پر ’’عورتوں کی شیطانیت عیاں‘‘ نہ ہو سکی۔ افسوس، صد افسوس!
اُس عہدِ زریں کا تصور کیجیے جب اس ملک کے کسی گلی، کسی کوچے میں کوئی عورت نظر نہیں آئے گی، کسی دفتر، کسی بازار، کسی سکول، کسی ہسپتال میں کوئی عورت ملازمت نہیں کر رہی ہو گی۔ صدیوں سے ہمارے دیہات میں عورتیں کھیتوں میں فصل کاٹ رہی ہیں۔ پُھٹی(کپاس) چن رہی ہیں۔ کنوئوں، تالابوں سے پانی بھر کر لا رہی ہیں، مویشیوں کو پانی پلانے لے جا رہی ہیں، چھتوں، منڈیروں اور دیواروں پر گارا لیپ رہی ہیں، پوچے سے سفید کر رہی ہیں۔دو دو تین تین عورتیں، کسی مرد کے بغیر، دوسرے قریوں تک پیدل سفر کر رہی ہیں۔ ہل چلانے والے مردوں کو دوپہر کا کھانا پہنچانے جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ جس اصول کے تحت عورتوں کا دوسرے مردوں کے ساتھ سکولوں ہسپتالوں، دفتروں، کارخانوں اور بازاروں میں کام کرنا منع ہو گا، اسی اصول کی رو سے دوسرے مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنا بھی ناجائز ہو جائے گا۔
مشرق وسطیٰ کے اسی ملک کا جہاں بہت بڑے مفتی صاحب نے عورتوں کی شیطانیت عیاں ہونے کی بات کی ہے، ایک واقعہ ہے جو کچھ عرصہ قبل رپورٹ ہوا۔ ایک خاتون نے قانون کی ’’خلاف ورزی‘‘ کر کے، چھپ کر، ڈرائیونگ سیکھ لی، وہ اپنے میاں کے ساتھ کار میں سفر کر رہی تھی۔ میاں کو دل کا دورہ پڑا اور بے ہوش ہو گیا۔ خاتون نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور نزدیک ترین آبادی تک، جو بہت دور تھی، گاڑی کو لے آئی جہاں اس کے شوہر کو بروقت طبی امداد مل گئی۔ اِسی پاکستان میں ہزاروں بیٹیاں ہیں جو بوڑھے ماں باپ کی خدمت کر رہی ہیں۔ گاڑی چلا کر انہیں ہسپتالوں میں لاتی ہیں۔ واپس لے جاتی ہیں۔ گھر کا سودا سلف خریدنے جاتی ہیں۔ بیمار شوہروں کو ڈاکٹروں تک پہنچاتی ہیں۔ بچوں کو سکولوں تک لے جانے اور واپس لانے میں مصروف و مجبور شوہروں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ مگر افسوس! یہ سب کام کرنے کے لیے جب وہ گاڑی چلاتی ہیں تو ان کی شیطانیت عیاں ہو جاتی ہے، اِنّا للہ وانا الیہ راجعون!
آغا خان یونیورسٹی کی حلف برداری کی تقاریب میں رفیدہ اسلمیہ کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ آئر لینڈ کا ’’رائل کالج آف سرجری‘‘ ہر سال یونیورسٹی آف بحرین کے شعبۂ نرسنگ کے بہترین طالب علم کو ’’رفیدہ اسلمیہ پرائز‘‘ دیتا ہے۔ یہ رفیدہ کون تھیں؟ عہدِ رسالت کی مشہور نرس تھیں، جن کا ہر خیمہ ہر جنگ میں ’’موبائل ہسپتال‘‘ کا کام دیتا تھا۔ سعدؓ بن معاذ زخمی ہوئے تو رسالت مآب نے انہیں رفیدہؓ کے خیمے میں بھجوایا ،رفیدہؓ خزرج قبیلے سے تھیں۔ سعدؓ اوس سے تھے۔ کیا وہاں یہ بحث ہوئی تھی کہ محرم ہیں یا غیر محرم؟
گیارہ کروڑ پنجروں کا آرڈر دیجیے، کمیشن کی رقم اچھی خاصی بنے گی!

Wednesday, April 13, 2016

یہ ہے میری کہانی

زینب تین چار سال کی تھی تو ایک گانا اسے یاد ہو گیا تھا۔ بیٹھ کر آگے پیچھے جھومتی اور آنکھیں بند کر کے گاتی، کہیں کہیں سے بول تبدیل ہو جاتے، کہیں کچھ لفظ کسی اور شکل کے ہو جاتے جیسے بچے کرتے ہیں۔ ہم سب اس سے فرمائش کرتے اور وہ سنانا شروع ہو جاتی! گانے کے درمیان ایک بول تھا… ’’یہ ہے میری کہانی‘‘۔ آج یہ بول شدت سے یاد آ رہا ہے۔ اگر اس ملک کے منہ میں، جسے دنیا پاکستان کہتی ہے، زبان ہوتی تو آج یہ ضرور کہہ رہا ہوتا ’’یہ ہے میری کہانی‘‘!
پاکستان کی کہانی آج کے اخبارا ت میں شائع ہوئی ہے۔ یہ صرف دو فقروں پر مشتمل ہے۔ ایک فقرہ اعتزاز احسن نے کہا:
’’وزیر اعظم بتائیں پیسہ کہاں سے آیا‘‘
دوسرا فقرہ مشاہد اللہ خان نے کہا ہے:
’’جس کے لیڈر زرداری ہوں وہ کسی پر کرپشن کا کیا الزام لگائے گا؟‘‘
بس! یہ ہے پاکستان کی کہانی، دو فقروں پر مشتمل کہانی۔
یہ کہانی سچی ہے۔ اس قدر سچی کہ جھٹلائی نہیں جا سکتی۔ یہ دو ایسی پارٹیوں کے رہنمائوں نے بیان کی ہے جو برے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتی رہی ہیں۔ ایک دوسرے کو بچاتی رہی ہیں۔ جس آصف زرداری کو وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف خود کار ڈرائیو کر کے رائے ونڈ انپی رہائش گاہ پر لے گئے ہوں، جس کے اعزاز میں شریف برادران نے ستر سے زیادہ پکوانوں پر مشتمل تاریخ ساز ضیافت کی ہو، اس آصف زرداری کی پارٹی کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا لیڈر قومی اسمبلی میں کھڑا ہو کر، آصف زرداری کے میزبانوں کے بارے میں کیسے غلط بات کہہ سکتا ہے؟ جس پارٹی نے عمران خان کے دھرنے کے دوران صدقِ دل سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی مدد کی ہو، ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوئی ہو، ان کے لیے ڈھال بن گئی ہو، وہ پارٹی تہمت کیسے لگا سکتی ہے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کل وہ سیسہ پلائی دیوار بن گئی تھی جس سے میاں نواز شریف کے دشمن ٹکرا کر پاش پاش ہو رہے تھے اور آج وہ ان پر جھوٹے الزامات لگا رہی ہو؟ نہیں! یہ ایک دوسرے کے حق میں اتنے مخلص ہیں کہ سچ کے سوا ان کی زبانوں پر کچھ آہی نہیں سکتا۔
مشاہد اللہ خان آخر اُس پیپلز پارٹی کے بارے میں غلط بات کیسے کہہ سکتے ہیں جس کے کسی ایک ملزم کو بھی مسلم لیگ نون نے اقتدار میں آ کر سزا نہ دی ہو۔ جولائی  2014ء کی بات ہے جب کراچی کی اینٹی کرپشن عدالت نے سابق وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی کی کرپشن کے بارہ مقدموں میں ضمانت منظور کی تھی۔ ایف آئی اے نے اس ضمانت کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ میاں نواز شریف کی حکومت یوسف رضا گیلانی کو بچانے کے لیے اتنی سرگرم اور مخلص تھی کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل ذاتی طور پر سندھ ہائی کورٹ پہنچے اور ایف آئی اے کی اپیل واپس لی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے جو جو کچھ کیا، ہر شخص کو معلوم ہے۔ مگر سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ کرنے والے پیپلز پارٹی کو بچانے میں لگ گئے۔ اس ملک پر بڑے بڑے ظلم ہوئے مگر اس ظلم کی مثال نہیں جب ایک ’’مشہور و معروف‘‘ اسی سالہ وفادار کو زرداری صاحب نے ایک بہت بڑے آئینی منصب پر فائز کیا۔ کوئی اور حکومت ہوتی تو آ کر سب سے پہلے اس ظلم پر توجہ دیتی اور اس ظلم کو مٹاتی۔ مگر میاں نواز شریف کی حکومت نے نہ صرف اِس ظلم کو قبول کیا اور جاری رکھا بلکہ جہاں بھی ہو سکا، ’’امدادِ باہمی‘‘ کا بہترین مظاہرہ کیا۔ جس پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ نون کی حکومت نے اتنی خدمت کی ہو، اُس پیپلز پارٹی کے لیڈر کے بارے میں مشاہد اللہ خان غلط بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔ 
’’وزیر اعظم بتائیں پیسہ کہاں سے آیا‘‘
اور’’جس کے لیڈر زرداری ہوں وہ کسی پر کرپشن کا کیا الزام لگائے گا؟‘‘۔ یہ دو ایسی حقیقتیں ہیں جن سے پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر ہر کوئی واقف ہے۔ یہ اس ملک کا اصل پرچم ہے جو پھڑ پھڑا رہا ہے۔ یہ دونوں لیڈر ہماری قوم کی شناخت ہیں، یہ ہمارا فخر ہیں، آج ہم اپنے بچوں کے بارے میں سر اٹھا کر پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر آصف زرداری بنیں گے اور نواز شریف بنیں گے۔
آپ یاد کیجیے، کیا اِن دو لیڈروں کی کوئی ایسی تقریر، کوئی ایسا انٹرویو، کوئی ایسی تحریر آپ کی نظر سے کبھی گزری ہے جس میں انہوں نے ملک کو درپیش مسائل کا تذکرہ کیا ہو؟ یا حل پیش کیا ہو؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آصف زرداری زرعی اصلاحات کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہوں؟ بلوچستان میں رائج پانچ ہزار سالہ قدیم سرداری سسٹم کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہوں۔ ملک سے جو ڈاکٹر سائنس دان اور ٹیکنالوجی کے ماہرین بھاگ بھاگ کر دوسرے ملکوں میں جا رہے ہیں، ان پر دکھ درد کا اظہار کیا ہو۔ کیا آپ اِس بات پر یقین کر سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف تعلیمی نظام کے نقائص پر دس منٹ، صرف دس منٹس، اثرانگیز گفتگو کر رہے تھے؟ اگر آپ کو کوئی بتائے کہ میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان بیورو کریسی کی سیاست زدگی اور پولیس کے غلط استعمال پر رنجیدہ ہیں اور اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ یقین کر لیں گے؟
یہ ہیں ہمارے لیڈر، ایک جب بھی بولتا ہے صرف یہ کہتا ہے کہ ہم سیاسی لوگ ہیں یا بی بی شہید کے خون کا پرچم لہراتا ہے۔ دوسرا قوم سے خطاب کر کے اپنے خاندان کی کاروباری تاریخ بیان کرتا ہے یوں کہ پہلے سے بھی زیادہ سوالات جنم لیتے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے لیڈر جو دنیا کے کسی وزیر اعظم یا صدر سے دس منٹ ڈھنگ کی گفتگو نہیں کر سکتے۔ کسی تھنک ٹینک، کسی یونیورسٹی، کسی پارلیمنٹ کو اپنے خیالات سے متاثر نہیں کر سکتے۔ ان کا ذوق کیا ہے؟ ان کے شوق کیا ہیں؟ اڑھائی کروڑ ڈالر کی گھڑی، کسی کے لہلہاتے کھیت دیکھ کر شوگر مل لگانے کا خیال، کسی کا اچھا محل دیکھ کر اسے اپنی ملکیت میں لے لینے کا جنون، پراپرٹی، پراپرٹی، پراپرٹی، پیسہ، پیسہ، پیسہ۔ اس دکاندار کا قصہ یاد آ رہا ہے جس پر نزع کا عالم طاری تھا اور وہ کہے جا رہا تھا دکان کو تالا لگائو۔ دکان کو تالا لگائو۔ لوگ اسے کلمہ پڑھنے کی تلقین کرتے کرتے تھک گئے مگر اس نے تالہ لگانے ہی کی رٹ جاری رکھی۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس کی زندگی اسی فکر اسی ذکر میں گزری تھی۔
کیا مسلم لیگ نون سے وابستہ کوئی شخص، قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر دعویٰ کر سکتا ہے کہ وزیر اعظم فائلیں خود پڑھتے ہیں اور ان پر فیصلے اپنے قلم سے لکھتے ہیں؟ یہ ملک کس طرح چل رہا ہے؟ ایک اہلکار فائلیں 
Discuss

کرتا ہے۔ پھر آ کر لکھتا ہے کہ وزیر اعظم نے یہ فیصلہ کیا۔ کیا ملک اس طرح چلتے ہیں؟
اے اہلِ وطن! روئو! ماتم کرو! تمہارا آغاز یہ تھا کہ قائد اعظم بیت المال کا ایک پیسہ بھی خاندان تو دور کی بات ہے، اپنی ذات پر نہیں لگاتے تھے۔ تمہارا آغاز یہ تھا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان آخری سفرِ شہادت کے دوران حالات حاضرہ پر شائع شدہ تازہ ترین کتاب پڑھ رہے تھے۔ تمہارا انجام سامنے ہے، تمہارا انجام لندن کے فلیٹ، جدہ کی ملیں، سرے محل، فرانس کی حویلیاں، آف شور کمپنیاں اور دبئی میں بلائے گئے پارٹی اجلاس ہیں۔ کتنا بڑا جھوٹ بولا ہے عمران خان نے کہ یہ لوگ چھینک آنے پر بھی چیک اپ کرانے کے لیے لندن روانہ ہو جاتے ہیں۔ چھینک؟ چھینک تو بہت آگے کا معاملہ ہے، یہ تو جھر جھری آنے پر لندن جاتے ہیں۔
پس نوشت، مولانا نے فرمایا ہے کہ وکی و پاناما لیکس نے ثابت کر دیا ہے کہ مذہبی طبقے شفاف ہیں۔ اس پر تبصرہ کرنا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ یکم جون 2011ء کے اخبارات میں امریکی سفیر اینی پیٹرسن کا بیان سب نے پڑھا تھا جس میں ایک مذہبی جماعت کے ووٹوں کا ذکرکر کے اس نے لکھا تھا:
’’Up For Sale‘‘
یوں بھی، دو دن پہلے ایک نوجوان لکھاری نے لکھا ہے…’’قاضی حسین احمد صاحب نے اعتراف کیا کہ جب وردی اتارنے کی ڈیڈلائن ختم ہونے پر ہم نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو مولانا اپنے وعدے سے پھر گئے۔ میں نے پوچھا اس کے عوض مولانا نے پرویز مشرف سے جو زمین الاٹ کروائی تھی اس پر آپ کیا کہیں گے؟ کہنے لگے زمینوں کے الزامات کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مولانا کی پرویز مشرف سے کوئی ڈیل ہوئی تھی‘‘۔

Tuesday, April 12, 2016

سُرمہ ڈالنے والی سلائی اور ہاتھی

رات کو امریکی ایبٹ آباد آئے۔ کس طرح آئے؟ ہماری سرحدوں کے محافظ کہاں تھے؟ اتنا عرصہ اسامہ بن لادن کیسے چھپا رہا؟ یہ سب سوال ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور اُس صبح کی بات کرتے ہیں جو اُس رات کے بعد طلوع ہوئی تھی۔
ایک ہنگامہ تھا، تہلکہ تھا، حیرتیں تھیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر شعلے تھے، دھواں تھا، بھانت بھانت کی آوازیں تھیں۔ کالم نگار چینل پر چینل بدل رہا تھا۔ قرار نہیں آ رہا تھا۔ بنیادی انفارمیشن وہی تھی جو پہلے ہی سے موجود تھی! اب جو کچھ میڈیا پر ہو رہا تھا، وہ اندازوں پر مشتمل تھا۔ اندازے، مزید اندازے؛ تبصرے، مزید تبصرے۔
ایک چینل نے روک لیا۔ عوام کا ردِعمل پیش کیا جا رہا تھا۔ ٹی وی والا مختلف لوگوں کے سامنے مائک لے جاتا اور پوچھتا کہ آپ کا کیا خیال ہے؟ ان میں راہگیر تھے، دکاندار تھے، گاہک تھے۔ مولانا لوگ تھے، بے ریش افراد تھے۔ پڑھے لکھے تھے، نیم تعلیم یافتہ تھے، ان پڑھ تھے۔ جوابات اِس طرح کے تھے:
یہ امریکی سازش ہے۔
حکومت نے اسے خود ہی چھپایا ہوا تھا۔
اسامہ بن لادن اس مکان میں موجود ہی نہیں تھا، سب جھوٹ ہے۔
ایسا واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔
یہ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کا پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ ہے۔
اسامہ بن لادن ہمارا ہیرو ہے، جو کچھ ہوا غلط ہوا۔
اسامہ زندہ ہے اور کہیں روپوش ہے۔
اسامہ افغانستان کے پہاڑوں میں چھپا ہوا ہے۔
اچانک ٹیلی ویژن والے کا مائک ایک سفید فام شخص کے سامنے آیا۔ کوئی غیر ملکی تھا۔ اُس نے جو کچھ انگریزی میں بتایا اُس کا مطلب تھا: ’’میرے پاس ابھی کوئی 
Evidence
نہیں، اس لیے رائے نہیں دے سکتا‘‘!
یہ انٹرویو ختم ہو گئے۔ چینل بدل گیا۔ وہ دن گزر گیا۔ مگر ایک موازنہ ذہن پر ثبت ہو گیا جو مدھم ہونے میں برسوں بعد بھی نہیں آ رہا۔ ہمارا اندازِ فکر! اور اُن کا اندازِ فکر جو آگے بڑھ گئے! یہ اور بات کہ ہم ان کی سبقت تسلیم نہیں کرنا چاہتے!رائے دیتے وقت شہادت دیکھنی، ثبوت پر غور کرنا، صرف وہ بات نہ کہنی جو پسند ہو، یہ ہے وہ اندازِ فکر جو ہمیں ساری دنیا سے الگ کر رہا ہے۔ دنیا آنکھوں سے بقائمیء ہوش و حواس جو کچھ دیکھ رہی ہے، وہ ہمیں نظر نہیں آتا، اس لیے کہ ہم اسے دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ آنکھیں بند کر کے، فیصلہ اگر کر چکے ہیں کہ کل عید منانی ہے تو آنکھیں کھولنے پر نفسیاتی حوالے سے دُور، افق سے کچھ اُوپر، چاند ضرور نظر آئے گا!
اِس اندازِ فکر، اس رویے کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ سر پھرے کوشش کر رہے ہیں۔ ہدفِ ملامت انہیں خوب بنایا جا رہا ہے۔ کوئی امریکی ایجنٹ کہتا ہے۔ کوئی دشمن دین، کوئی کہتا ہے بِکے ہوئے ہیں، کوئی لبرل کہہ کر دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔ مگر یہ سر پھرے اپنے کام میں مگن ہیں۔ لوگوں کو سوچنے کی، 
evidence 
دیکھنے کی اور انصاف کرنے کی تلقین کیے جا رہے ہیں۔ یاسر پیرزادہ بھی انہی سرپھروں میں سے ایک ہے۔ اس کی تازہ تصنیف ’’بیانیے کی جنگ‘‘ اسی اندازِ فکر کے خلاف ایک قلمی جہاد ہے۔ رَو کے مخالف بہنا آسان نہیں ہوتا۔ سچائی عام ہوتی تو جھگڑا ہی کیا تھا۔ ہجوم آنکھیں بند کر کے، ایک دوسرے کے پیچھے چلنے والوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ کوئی کوئی ہوتا ہے جو چیخ کر بتاتا ہے کہ غلط سمت جا رہے ہو، راستہ دوسرا ہے ۔
قرطاس و قلم سے تعلق یاسر کو ورثے میں ملا ہے مگر یہ ورثہ اس کے والد عطاء الحق قاسمی تک محدود نہیں۔ جدِّ امجد اور ان کے بزرگ علماء دین تھے۔ آج کی نسل کو یہ سن کر اور جان کر تعجب ہو گا کہ ایک زمانہ تھا جب علماء واقعی علما تھے۔ دین کا علم انہیں کیا سکھاتا تھا؟ لاجِک! سوچنے کا منطقی انداز
Rational 
اندازِ فکر!
 Evidence
کے بغیر رائے نہ دینا! حوالے اور ثبوت کے بغیر فتویٰ دینے سے اجتناب کرنا اور اختلاف کرنے والے کو اُس کا حق دینا۔ یاسر پیرزادہ کی تازہ تصنیف بتاتی ہے کہ وہ اس ورثے کو نبھا رہا ہے۔ کتاب کا مرکزی موضوع دہشت گردی کے حوالے سے ہمارا عمومی رویہ ہے۔مثلاً ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی ڈرون حملوں کی وجہ سے شروع ہوئی۔ یاسر اعداد و شمار اور تاریخ و ارواقعات سے اس تاثر کی تردید کرتا ہے ۔
یاسر کے یہ مضامین ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بنیادی نکتہ غور کرنے کا یہ ہے کہ ایک ملک میں فوج ایک ہی ہو گی۔ کسی نے کہا تھا کہ ہر ملک کو ایک فوج رکھنا ہی پڑتی ہے۔ اپنی نہیںتوکسی دوسرے ملک کی! ہمارے ہاں معاملہ اس کے الٹ جا رہا ہے۔
یوں تو ملک میں اس قدر اسلحہ ہے کہ لشکروں کے لشکر مسلح کیے جا سکتے ہیں مگر فوج کے علاوہ لشکر حقیقت میں بھی موجود ہیں۔ بعض گروہوں نے اپنے نام تبدیل کر لیے ہیں مگر عوام الناس کو ان کے پرانے یعنی اصل نام یاد ہیں۔
کسی بھی ایسے ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا جہاں قومی فوج کے علاوہ بھی مسلح گروہ موجود ہوں! خلفائِ راشدین کے زمانے میں بھی یہ ناممکن تھا کہ کوئی گروہ اٹھے اور اپنی طرف سے جہاد کا کوئی محاذ کھول لے۔ ڈیگال کا فرانس کے بارے میں دلچسپ قول ہے کہ اُس ملک کو آپ کیسے چلا سکتے ہیں جس میں 246اقسام صرف پنیر کی ہوں! بالکل اسی طرح اُس ملک میں امن کیسے قائم ہو سکتا ہے جہاں نجی لشکروں کی بھر مار ہو۔ ملک وہی پھل پھول سکتے ہیں ہیں جن میں ایک حکومت ہو ایک فوج ہو‘ ایک پارلیمنٹ ہو اور ایک عدلیہ ہو! حکومت قوم کی توقعات پر پوری نہ اترے تو اس کا حل یہ نہیں کہ ایک متوازی حکومت قائم کر لی جائے۔ اسی حکومت کو ‘ اُسی بیورو کریسی کو‘ اُسی پولیس کو درست کرنا ہو گا۔ جن ملکوں نے دوسرے ملکوں سے شکست کھائی انہوں نے بھی یہ نہیں کہا کہ ایک متوازی فوج بنالیں جو دشمن کا مقابلہ کرے۔ ہاں!سزائیں دی جاتی ہیں !تطہیر کی جاتی ہیں۔
ترائن کی جنگ میں شکست ہوئی تو محمد غوری نے شکست خوردہ کمانڈوں کے مونہہ پر تو بڑے باندھ دیے جو گھوڑوں کے مونہہ پر باندھے جاتے ہیں مگر فوج وہی رہی! ہم اپنی پارلیمنٹ سے مطمئن نہیں! ہمارے عوامی نمائندوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو ٹیکس نہیں ادا کرتے‘ گوشوارے غلط پیش کرتے ہیں۔ کچھ مجرموں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ کچھ کے ڈیرے مفروروں کو پناہ دیتے ہیں۔ کچھ تعلیم یافتہ تک نہیں‘ مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم شریف‘ قانون پسند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں پر مشتمل ایک متوازی پارلیمنٹ بنا لیں! عدلیہ میں خامیاں ہیں تو وہ دور کرنا ہوں گی! متوازی عدالتیں! خواہ انہیں جو نام بھی دیا جائے‘ انارکی کو جنم دیں گی! آخر کسی نجی عدالت یا دارالقضا کو مبینہ طور پر سمن جاری کرنے اور فون کر کے لوگوں کو طلب کرنے کا حق کیسے دیا جا سکتا ہے؟ اگر ہر مکتب فکر‘ ہر ہر فرقہ اپنی الگ عدالتیں یا ’’مصالحتی پنچایتیں‘‘ قائم کرنا شروع کر دے تو معاملہ کہاں جا پہنچے گا؟ بجائے اس کے کہ پہلے سے قائم پنچایتیں جو چھ چھ سال کی بچیوں کے نکاح ستر ستر سال کے بوڑھوں سے کرتی پھرتی ہیں‘ ختم کی جائیں‘ مزید متوازی نظام کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ ملک میں وفاقی شرعی عدالت پہلے سے موجود ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کام کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں علماء کی کثیر تعداد تشریف فرما ہے جو ہر مسئلے پر شرعی نقطہ نظر بے خوفی سے واضح کر رہی ہے!

پانی نکلنا شروع ہو تو شاید آنکھ میں سرمہ ڈالنے والی سلائی سے بھی بند ہو جائے مگر جب پتلی دھار‘ چشمہ بن جائے‘ جب چشمہ ندی کی اور ندی دریا کی شکل اختیار کر جائے تو پھر ہاتھی کے لیے بھی گزرنا مشکل ہو جائے گا!

Monday, April 04, 2016

قارئین کی خدمت میں دست بستہ

آپ نے وہ کہانی کئی بار سنی ہو گی جس میں ایک دادا‘ ایک پوتا اور ایک ان کا گدھا‘ لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے رہے اور سراسر ناکام ہوئے۔ دادا پوتا دونوں گدھے پر سوار جا رہے تھے۔ راہگیروں نے کہا‘ دو مشٹنڈے غریب جانور پر سوار ہیں۔ ایک پیدل چل لے تو کیا حرج ہے‘ یہ سن کر دادا اتر پڑا اور پیدل چلنے لگا۔ اس پر راہگیروں نے پوتے پر اعتراض کیا کہ بوڑھے دادا کو تھکا رہا ہے اور خود مزے سے سواری پر بیٹھا ہے۔ اب پوتا نیچے اتر گیا اور دادا کو گدھے پر بٹھایا۔ مگر جو راہگیر اب ملے‘ انہوں نے دادا پر نفرین بھیجی کہ ذرا سا بچہ جا رہا ہے اور سخت دل بابا سواری کے مزے لے رہا ہے۔ اب دونوں پیدل چلنے لگے۔ نیا اعتراض یہ ہوا کہ عقل کے اندھوں کو سواری میسر ہے اور دونوں میں سے ایک بھی فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ اب ایک ہی صورت بچی تھی کہ دونوں گدھے کو سر پر اٹھا لیتے مگر اس پر راہگیروں نے انہیں دنیا کے بے وقوف ترین دادا پوتا کا خطاب دے دینا تھا!
کچھ کچھ یہی تعلق کالم نگار اور قارئین کا ہے۔ قارئین کسی حال میں خوش نہیں ہو سکتے۔ آپ اگر کالم نگار ہیں تو آپ اپنی خوش دامن کو خوش کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ اپنی بیگم کو خوش کر سکتے ہیں مگر قارئین کو خوش رکھنا آپ کے بس کی بات نہیں!
ایک زمانہ تھا کہ قارئین اور کالم نگار کا تعلق پوسٹ مین کا محتاج تھا۔ خطوط اخبار کے دفتر میں آتے تھے۔ جو لکھنے والے دفتر میں بیٹھ کر کام کرتے تھے‘ خطوط روز کے روز وصول کر لیتے تھے۔ جو کالم نگار دفتر کا چکر کبھی کبھار لگاتے تھے‘ انکے خطوط انتظار کرتے رہتے تھے۔ اب انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ۔دنیا سمٹ کر مٹھی میں آ گئی ہے۔ کالم نگار کی آنکھ جس وقت کھلتی ہے‘ بہت سے ملکوں میں اس وقت دوپہر ہو رہی ہوتی ہے۔ وہ میل کھولتا ہے تو کالم کا ردعمل آ چکا ہوتا ہے۔ جن قارئین نے گزشتہ کالم پر اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے‘ اب انہوں نے اس کے گردے اور انتڑیاں نکال کر تار پر لٹکا دیے ہیں!
آپ نے اگر کالم میں لکھا ہے کہ پاکستان کو یمن کے تنازعہ پر غیر جانبدار رہنا چاہیے اور اپنی فوج کو اس معاملے سے باہر رکھنا چاہیے تو چاند ماری کے لیے تیار ہو جائیے۔ جو ای میلز وصول ہوئی ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ آپ کئی نسلوں سے شیعہ ہیں۔ کچھ نے تو باقاعدہ (نعوذ باللہ) گستاخ صحابہ کا لقب عطا کیا ہے! کچھ کے نزدیک آپ (معاذ اللہ) حرمین شریفین سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں‘ کچھ کو یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ آپ کو فلاں ملک نے کتنی رقم اس غداری کے صلے میں دی ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ آپ کو رقم ملی بھی نہیں!
اگر آپ نے ایران اور بھارت کے روز افزوں تعلقات پر ناخوشی کا اظہار کیا ہے اور چاہ بہار کے جاسوسی کا مرکز ہونے پر تشویش ظاہر کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ سلفی ہو گئے ہیں۔ آپ عرب لابی کے ہاتھ فروخت ہو چکے ہیں۔ آپ نے اگر ماضی قریب میں نصف درجن کالم ایران اور پاکستان کے اٹوٹ ثقافتی اور لسانی رشتوں کی تعریف میں لکھے بھی ہیں تو قارئین کے نزدیک وہ صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ آپ جاہل مطلق ہیں۔ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ فارسی کی برصغیر کے مسلمانوں کے حوالے سے کیا اہمیت ہے اور اگر آپ نے یہ لکھ دیا ہے کہ عراق اور شام کے جنگ کے میدانوں میں پاکستانی نوجوان دونوں طرف سے لڑ رہے ہیں تو پھر نصف قارئین کے نزدیک آپ سعودی ایجنٹ ہیں اور باقی نصف کو یقین ہے کہ آپ کی زندگی کا واحد مقصد ایرانی مفادات کا تحفظ ہے!
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے حوالے سے جتنی تنقید وفاق اور پنجاب کی پالیسیوں اور طریق حکومت پر اس کالم نگار نے کی ہے‘ شاید ہی کسی نے کی ہو۔ مگر جب نوازشریف کو لبرل ہونے کی پاداش میں کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور ہولی کے تہوار میں شرکت کرنے پر ہدف ملامت بنایا گیا تو وزیراعظم کا دفاع بھی کیا۔ بس توپوں کا رخ فوراً بدل گیا۔ کئی قارئین نے اطلاع دی کہ کالم نگار بادشاہ سلامت کا باقاعدہ درباری ہے اور سالہا سال سے شریف خاندان کا خدمت گار ہے! 
افسوس ناک رویہ قارئین کی اکثریت کا جو سامنے آیا ہے یہ ہے کہ وہ کسی بھی کالم نگار کے متعلق اس کے صرف ایک کالم کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں۔ مثلاً اگر عمران خان کے بارے میں آپ نے چھ مثبت کالم لکھے ہیں مگر ایک کالم میں اس پر تنقید کی ہے تو پہلے چھ کالم کالعدم سمجھے جائیں گے۔ اب آپ تبدیلی کے دشمن ہیں۔ کرپشن کے حامی ہیں۔ مسلم لیگ نون کے حاشیہ بردار ہیں۔ آپ کا خاندانی پس منظر قابل نفرین ہے۔ جہالت آپ کا طرۂ امتیاز ہے۔ لکھنا آپ کو آتا ہی نہیں!
کم از کم مستقبل قریب میں اس بات کا امکان دور دور تک نہیں کہ ہم ایک متوازن اور 
RATIONAL
 قوم بن سکیں۔ کئی سو سالوں سے ہمارا رویہ یہی چلا آ رہا ہے۔ ہماری جذباتیت اور ہمارے غیر عقلی رویے کی سب سے بڑی مثال سرسید احمد خان ہیں۔ آدھی قوم انہیں محسن گردانتی ہے اور باقی آدھی کافر! درمیان میں کوئی مقام ہی نہیں! جو نصف محسن سمجھتی ہے وہ یہ کہنے سے ہچکچاتی ہے کہ کلام پاک کی تفسیر میں ان سے لغزشیں ہوئیں۔ مذہبی معاملات میں انہیں اتھارٹی نہیں سمجھنا چاہیے۔ جو انہیں دشمن دین کہنے پر مصر ہیں وہ یہ ماننے سے گریزاں ہیں کہ تعلیمی میدان میں سرسید احمد خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ایک بے لوث اور بے غرض خادم تھے۔ جائیداد تک بیچ ڈالی۔ جھولی تک پھیلا دی! پھر یہ بھی ہے کہ مذہب کے کچھ معاملات میں جو موقف انہوں نے اختیار کیا‘ وہی موقف کئی دیگر مسلمان ملکوں کے مشاہیر نے بھی ان سے پہلے اور ان کے بعد اختیار کیا۔
یہی رویہ ہمارا مدارس کے بارے میں ہے۔ ایک فریق تمام مدارس کو دہشت گردی کے حوالے سے ملزم ٹھہراتا ہے اور یہ دیکھنے سے قاصر ہے کہ کئی مدارس میں علوم دین کی جو خدمت ہو رہی ہے‘ لائق صد تحسین ہے۔ بے شمار علما فرش پر بیٹھ کر‘ روکھی سوکھی کھا کر‘ قرآن و حدیث کی اور علوم اسلامیہ کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ دوسرا فریق یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کچھ مدارس کا کردار دہشت گردی کے حوالے سے واقعتاً قابل اعتراض ہے۔ مدارس کا استحصال مسلسل ہو رہا ہے۔ کچھ سیاسی قبیل کے نام نہاد علما آئے دن جو خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں اور کہے جا رہے ہیں کہ مدارس کے خلاف سازش ہو رہی ہے‘ سچ یہ ہے کہ وہ خود مدارس سے مخلص نہیں اور اولین ترجیح وہ اپنے شخصی اور سیاسی مفادات کو دیتے ہیں!
چنانچہ قارئین کا انتہا پسندانہ رویہ‘ قوم کے مجموعی رویے کے اعتبار سے ہرگز باعث تعجب نہیں ‘یہ اور بات ہے کہ تکلیف دہ ضرور ہے! ابوسعید ابوالخیر کی رباعی یاد آ رہی ہے   ؎
گفتی کہ فلان زیادِ ما خاموش است
از بادٔہ عشقِ دیگران مدہوش است
شرمت بادا! ہنوز خاکِ درِ تو 
از گرمئی خونِ دلِ من در جوش است
تو تم نے یہ شکوہ کیا کہ فلاں میری یاد سے غافل ہے اور کسی اور کے عشق میں پڑ گیا ہے۔ شرم کرو! ابھی تو تمہاری دہلیز کی مٹی میرے دل کے خون کی گرمی میں جوش کھا رہی ہے!

Saturday, April 02, 2016

47 ہزار روپے !

اٹھائیس مارچ کے کالم میں ہم بتا رہے تھے کہ سابق سفارت کار جمشید مارکر نے اپنے مشاہدات اور تجربات پر مشتمل تازہ ترین تصنیف میں کیا لکھا ہے۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو جب ایک خوشامدی درباری نے مشورہ دیا کہ اپنے ساتھ ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی تعینات کریں تو انہوں نے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ وہ ایک عوامی شخصیت ہیں اس لیے ان تکلفات سے ماورا ہیں۔ سالہا سال تک کسی سربراہ ملک نے یہ روگ نہ پالا۔ جب بھٹو صاحب صدر سے وزیر اعظم بنے تو یہ روایت انہوں نے توڑی۔ جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ بھٹو کو احساس تفاخر کے دورے پڑتے تھے۔ انہی میں سے ایک دورہ پڑا تو ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی رکھ لیے۔ جمشید مارکر نے بھٹو کے حوالے سے
 Megalomania
کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا ترجمہ ہم نے احساس تفاخر کیا ہے۔ عربی میں اسے جنون العظمتہ کہا گیا ہے۔ یعنی شان و شوکت اور عظمت کا خبط ! دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ لیاقت علی خان کا پس منظر نواب خاندان کا تھا۔ جمشید مارکر صاحب کو فارسی کا ذوق ہوتا تو لکھتے  ع
نہد شاخِ پُر میوہ سر بر زمین
پھلوں سے بھری ٹہنی جُھکی ہوئی ہوتی ہے۔
فیملی بیک گرائونڈ ایک حقیقی فیکٹر ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عبدالمنعم خان کو جب صدر ایوب خان نے گوشۂ گمنامی سے نکال کر مشرقی پاکستان کی گورنری کے تخت پر بٹھایا تو احساس کمتری اس قدر شدید تھا کہ ایک روایت کے مطابق آبائی علاقے سے آنے والے رشتہ داروں کو گورنر ہائوس میں اپنے بستر کی چادریں تک دکھا کر فخر کیا کرتے۔ لیکن اس موضوع پر فردوسی نے قلم توڑ کر رکھ دیا ہے۔ محمود غزنوی نے شاہنامہ نظم کرنے پر فردوسی کو وعدہ کے مطابق سونے کی اشرفیوں کے بجائے چاندی کے درہم دیے تو فردوسی نے اس کم ظرفی اور وعدہ خلافی کو بادشاہ کے گھٹیا فیملی بیک گرائونڈ پر محمول کیا:
شنیدم کہ شہ مطبخی زادہ است
بہ جایٔ طلا نقرہ ام دادہ است
سنتے ہیں کہ بادشاہ ایک باورچی کی اولاد ہے جبھی تو سونے کے بجائے مجھے چاندی دی۔
اگر شاہ را شاہ بودی پدر 
بہ سر برنہادی مرا تاجِ زر
بادشاہ‘ بادشاہ کی اولاد ہوتا تو میرے سر پر سونے کا تاج رکھتا۔
وگر مادرِ شاہ بانو بُدی
مرا سیم و زر تابہ زانو بُدی
اور اگر اس کی ماں شاہی خاندان سے ہوتی تو مجھے اس قدر دولت دیتا کہ گھٹنوں تک آ جاتی!
پرستار زادہ نیاید بہ کار
وگر چند دارد پدر شہر یار
کنیز زادہ کے شجرۂ نسب میں بادشاہ شامل ہو جائیں تب بھی وہ کنیز زادہ ہی رہتا ہے!
قیامِ پاکستان کے بعد‘ ابتدائی برسوں میں اداروں کی کس قدر حرمت تھی‘ اس کا ذکر کرتے ہوئے جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ ورلڈ بینک کے سربراہ کی آمد پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے عشائیہ دیا۔ ڈنر سے پہلے مہمانوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ ادھر ادھر کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ وزیر اعظم سب سے مل رہے تھے۔ جمشید مارکر کے گروپ میں آئے تو برسبیل تذکرہ بتایا کہ انہوں نے چیف جسٹس کو بھی مدعو کیا تھا مگر چیف جسٹس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ چیف جسٹس کو سربراہ حکومت کی تقاریب میں شریک نہیں ہونا چاہیے! وزیر اعظم نے اس کے بعد جو جملہ بولا یہ تھا:’’چیف جسٹس کو دعوت دینا میرا فرض تھا۔ ان کا نہ آنا بھی بالکل درست ہے‘‘۔
یہ روایت بھی ٹوٹ گئی۔ اس کالم نگار نے ایک عبرت ناک منظر اس حوالے سے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔2006ء میں پاکستان ایئر فورس کے سربراہ ایئر چیف مارشل کلیم سعادت ریٹائر ہوئے تو وزیر اعظم شوکت عزیز نے پرائم منسٹر ہائوس میں ان کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ دیا۔ یہ کالم نگار اُس وقت ایڈیشنل سیکرٹری ملٹری فنانس کے طور پر کام کر رہا تھا اور اسی حوالے سے عشائیہ میں مدعو تھا۔ کھانے سے پہلے بڑے کمرے میں مہمان‘ حسب روایت ٹولیوں میں بٹے محو گفتگو تھے۔ اس لکھنے والے نے نوٹ کیا کہ ایک صاحب آگے بڑھ بڑھ کر مہمانوں سے مصافحہ کر رہے تھے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ وقت کے قاضی القضاۃ ہیں!
اُس عہد کے پاکستانی حکمران علم سے کتنا شغف رکھتے تھے اور اپنے آپ کو تازہ ترین کتابوں سے کس قدر باخبر رکھتے تھے‘ اس کا بھی حسرت بھرا ذکر مارکر صاحب کرتے ہیں۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے چند دن بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان کے گھر میں چند قریبی احباب سوگوار بیٹھے تھے۔ بیگم صاحبہ نے ایک کتاب نکالی۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ جمشید مارکر سے کہنے لگیں‘ یہ دیکھو‘ راولپنڈی کے سفر کے دوران لیاقت کیا پڑھ رہے تھے۔ یہ اس وقت کے معروف مصنف اور صحافی 
Arthur Koestler
کی کتاب
The God That Failed 
 تھی۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم کا راولپنڈی کا آخری سفر اکتوبر1951ء میں پیش آیا جب کہ یہ کتاب اس سے کچھ عرصہ پہلے ہی 1950ء میں شائع ہوئی تھی۔ آرتھر کوئسلر نے اس تصنیف میں اُن مشہور صاحبانِ علم و ادب کے مضامین جمع کیے تھے جو پہلے کمیونسٹ ہوئے مگر بعد میں تلخ تجربات اور افسوسناک مشاہدات کی بنا پر کمیونزم کو چھوڑ دیا۔ اس کا مطلب ہے وزیر اعظم ایک ایسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے جو نئی نئی شائع ہوئی تھی اور اس زمانے کے (سرد جنگ وغیرہ)کے حوالے سے بہت مناسب 
(Relevant)
 تھی! زمانے کی گردش نے اس کے بعد ہمیں کیسے کیسے سربراہانِ ریاست اور سربراہانِ حکومت دیے اور وہ مطالعہ کے کس قدر‘‘شائق‘‘ تھے؟ اس سوال کا جواب ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں!  ؎
بھرم کُھل جائے ظالم! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرّۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
وزیر اعظم کی شہادت کے بعد کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مرحوم وزیر اعظم کی بیوہ کے لیے پنشن ‘ ایک پی اے‘ ایک گاڑی مع ڈرائیور اور ایک سرکاری رہائش گاہ کی منظوری دی گئی۔ جن چند دوستوں نے سامان شفٹ کرنے میں مدد دی ان میں جمشید مارکر اور ان کی اہلیہ ڈیانا بھی شامل تھیں۔ جمشید مارکر کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کا ’’سازو سامان‘‘ دیکھ کر رحم آ رہا تھا! چند کپڑے‘ کتابیں اور ایک چھوٹی سی کیبنٹ جس میں چند سگرٹ لائٹر جمع تھے! وزیر اعظم کو سگرٹ لائٹر جمع کرنے کا شوق تھا اور یہ ایک لحاظ سے ان کی ہابی تھی۔ بینک اکائونٹ میں کل سرمایہ سینتالیس (47) ہزار روپے تھا!!
چین کے ساتھ دوستی کے آغاز کا سہرا جمشید مارکر، حسین شہید سہروردی کے سر باندھتے ہیں۔1956ء میں جب کمیونسٹ بلاک سے باہر چین کا کوئی دوست نہ تھا‘ وزیر اعظم سہروردی پاکستانیوں کا ایک بہت بڑا وفد لے کر بیجنگ پہنچے۔ چواین لائی کا 1967ء کا دورہ اسی دورہ کے جواب میں تھا۔ اس دوستی کے آغاز کا دعویٰ بھٹو صاحب نے بھی کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سہروردی کے وژن کا نتیجہ تھا کہ آج پاکستان اور چین کی دوستی مثالی ہے!

 

powered by worldwanders.com