Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, May 30, 2015

نافرمان لوگ!


شام ڈھل رہی تھی جب ہم قصبے میں پہنچے۔ کھانا کھایا۔ میزبان سے گپ شپ کی اور سو رہے!
دوسرے دن علی الصبح اس کام کیلئے نکلے جس کیلئے بلائے گئے تھے۔ ساتھ ایک معروف معمار تھا جو اس قلمکار کا دوست تھا۔ ہمارے میزبان کی، جو دوست بھی تھا، آبائی حویلی کو معمار نے دیکھنا تھا۔ مالک چاہتا تھا کہ تھوڑی بہت مرمت ہو جائے اوررنگ روغن سے اس کی شان و شوکت پلٹ آئے۔
معمار دیکھتا رہا۔ ایک ایک دالان کو، ایک ایک راہداری کو، ایک ایک خواب گاہ کو، ایک ایک ستون کو، ایک ایک چھت کو، ایک ایک ڈیوڑھی کو۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ بہت دیر کے بعد اس نے چائے کی فرمائش کی۔ ہم ڈیوڑھی میں بیٹھ گئے۔ بوسیدہ برقی پنکھے کو ایک طویل ڈنڈا چھت سے جوڑے ہوئے تھا!
’’جناب! یہ صرف معمولی مرمت اور رنگ روغن کا مسئلہ نہیں! سالہا سال آپ نے اس حویلی کو اپنی توجہ سے محروم رکھا۔ اس کی چھتیں سجدہ ریز ہونے والی ہیں۔ اس کے ستون ہل رہے ہیں۔ دیواروں کے پتھر باہر آنے کیلئے بے تاب ہیں۔ اب تو کوئی تجربہ کار مجرم بھی نقب لگائے تو دیوار اس کے اوپر آن گرے‘‘۔
پوری کی پوری حویلی خستہ اور شکستہ ہوچکی ہے۔ کیا دالان کیا برآمدے! تاجروں کو حکومت نے ایک معقول حکم دیا کہ آٹھ بجے کاروبار بند کرو۔ ساری دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ نہ مانے۔ بلیک میلنگ شروع ہوگئی۔ حکومت وقت بہرطور، اس طبقے کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ آٹھ سے دس بجے تک بات پہنچی۔ اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوا۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی اکثریت ٹیکس نہیں ادا کرتی یا لیت و لعل سے کام لیتی ہے۔ خالص خوراک اور خالص دوا خال خال ملتی ہے! تجاوزات ہیں‘ ناجائز قبضے ہیں۔ حلال حرام کی تمیز کم رہ گئی ہے۔ حکومت کی رٹ مانتے ہی نہیں!
کیا دالان کیا برآمدے! طلبہ جن کا تعلق علم سے ہے، ان کی حالت یہ ہے کہ کرایہ مانگا جائے تو کنڈکٹروں کو پیٹتے ہیں، شاہراہیں مسدود کر دیتے ہیں۔ اساتذہ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں جیسے وہ ان کے خاندانی ملازم ہیں۔ ان کے لیڈر یونیورسٹیوں میں کینٹینوں سے مفت خوری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مہمان کا ہوسٹل میں رات گزارنا منع ہو تو اپنے ہم عمر کو والد بتاتے ہیں اس لئے کہ والد کو ٹھہرنے کی اجازت ہے! علم انکسار اور تواضع سکھاتا ہے یہاں گدھوں کی پشت پر کتابوں کے انبار لدے ہیں!
کیا دالان کیا برآمدے، الیکٹرانک میڈیا ڈراموں کی آڑ میں ایسا خطرناک کھیل کھیل رہا ہے جس کے نتائج، اردگرد دیکھئے تو، صاف نظرآنے لگے ہیں، معاشقے اور طلاق کے علاوہ ان ڈراموں کا کوئی موضوع ہی نہیں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب انٹرٹینمنٹ کی فلموں میں بھابی کو ماں کہا، سمجھا اور دکھایا جاتا تھا۔ اب ڈراموں میں ہر تیسرا کردار ، بھابی سے عشق لڑا رہا ہے۔ شوہر، بیویوں کو پیٹ رہے ہیں۔ لڑکیاں والدین سے کہہ رہی ہیں ’’میری اپنی زندگی ہے‘‘ ذرا ذرا سی بات پر گھر اجاڑ دینا دکھایا جا رہا ہے۔ جتنے ناجائز تعلقات ہمارے ڈراموں میں فلمائے جا رہے ہیں اتنے تو لاس اینجلس میں ان لڑکیوں کے نہ ہوں گے جو فلمی دنیا میں قسمت آزمائی کرنے اور ہرحربہ آزمانے ہالی وڈ کے اردگرد منڈلاتی ہیں۔ ٹی وی چینلوں کو ریٹنگ اور لکھنے والوں کو معاوضے کے علاوہ کسی شے کی فکر نہیں۔ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نہ ہوئی، ساہوکارہ ہوا۔
کیا دالان کیا برآمدے! ضلع سیالکوٹ کے ستائیس تھانوں کے ایس ایچ اوز نے اجتماعی استعفوں کا اعلان کر دیا ہے۔ پولیس کا ایک اعلیٰ افسر بھاگا بھاگا پہنچا اور معاملہ موخر کرایا! یہ ’’مذاکرات‘‘ کئی گھنٹوں پر محیط تھے! ان تھانیداروں نے پولیس کے ساتھ روا رکھی جانے والی ’’ناانصافیوں‘‘ کا رونا رویا۔ یہی نہیں، ان حضرات نے تحریری درخواست میں مطالبہ کیا کہ انہیں اختیارات دیئے جائیں ورنہ کام نہیں کریں گے۔
یہ وہ پولیس فورس ہے جو آسمان گر پڑے یا زمین دھنس جائے، استعفوں کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ انہوں نے اس ظلم پر کبھی استعفے نہیں دیے کہ انہیں وی آئی پی کی حفاظت کے نام پر محلات کے دروازوں پر کیوں کھڑا کیا جاتا ہے۔ پولیس کے ہزاروں نوجوان رائیونڈ، ماڈل ٹائون، گلبرگ اور جی او آر کے محلات پر ڈیوٹیاں دے رہے ہیں جو کسی قانون کے زمرے میں نہیں آتیں۔ یہ جوان گھنٹوں… پہروں وی آئی پی موومنٹ کے وقت سڑکوں پر بھوکے پیاسے کھڑے رہتے ہیں مگر ان کے انچارج ایس ایچ اوز کو پروا ہی نہیں ہوتی، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری اس پولیس فورس سے کنٹرول ہونے کی بات تو چھوڑیے، چار دن پہلے دنیا ٹی وی پر اینکرپرسن کامران شاہد نے پوری ذمہ داری سے بتایا کہ فیصل آباد میں پولیس والے خود ان جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں اور یہ اطلاع خفیہ اداروں نے حکمرانوں کودی ہے! دارالحکومت کی ایک نواحی آبادی میں عوام نے متعلقہ ایس ایچ اوز کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ استعفے اس وقت نہیں دیئے جب ذوالفقار چیمہ جیسے دیانتدار پولیس افسروں کو کھڈے لائن لگایا جاتا ہے۔ اب جو قولنج کا درد اٹھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دو افراد کو ڈسکہ میں دن دیہاڑے قتل کرنے والے پولیس انسپکٹر کوگرفتار کرلیا گیا۔ اسی پر  ’’اختیارات‘‘ کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ اختیار سے مراد یہ ہے کہ قتل کرنے پر پوچھ گچھ نہ ہو۔ تھانیدار صاحب کی گرفتاری؟ یہ اس پولیس سٹیٹ میں کس طرح ممکن ہوئی !
آپ کا کیا خیال ہے، دو شہریوں کے قاتل کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی؟ آپ بھی اس ملک میں رہتے ہیں اور لکھنے والا بھی۔ جواب سب کو معلوم ہے! پنجاب پولیس کے افسران اعلیٰ زیادہ نہیں، صرف گزشتہ تین سال کے اعدادوشمار سے صوبے کے عوام کو آگاہ فرما دیں کہ تھانوں میں ’’تفتیش‘‘ کے دوران کتنے ملزم موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں اور کتنے ذمہ داروں کو آج تک سزا ملی ہے؟انسانی خون داروغہ فورس پر ہمیشہ معاف رہا ہے۔ اور اب استعفوں اور مطالبات کامقصد یہ ہے کہ آئندہ بھی معاف ہی رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شوروغوغا اتنا اٹھے کہ حکومت سزا دینے پر مجبور ہوجائے۔
ہم ارباب اختیار سے التماس کرتے ہیں کہ معصوم افسر کو رہا کردیا جائے اور مقتولوں کے لواحقین کو فوراً گرفتار کرکے قرارواقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی تھانیدار کے کسی ایکشن پر کسی کو اعتراض کرنے کی جرأت ہی نہ ہو۔
یار لوگوں کو شکایت ہے کہ نافرمان لوگ
خاندانوں سے الجھنے آ گئے شیطان لوگ؟

Friday, May 29, 2015

ہے کوئی؟


پاکستان کو وجود میں آئے چھ ماہ ہوئے تھے‘ فروری کی چودہ تاریخ تھی جب میں نے اس فانی مگر پیچیدہ دنیا میں آنکھ کھولی۔ تاریخ کے اندراج میں غلطی کا امکان اس لیے نہیں کہ دادا جان روزانہ ڈائری لکھتے تھے اور واقعات فوراً قلم بند ہو جاتے تھے۔ 
نہیں معلوم پیدائش کی یہ ساعت سعید تھی یا اُس وقت ستارے نحوست کا اشارہ دے رہے تھے۔ یوں تو ان چیزوں پر یقین ہی نہیں! بلکہ یہ کہہ کر تمسخر اڑایا ہے کہ   ؎ 
ستارے دیکھتا ہوں، زائچے بناتا ہوں 
میں وہم بیچتا ہوں، وسوسے بناتا ہوں 
مگر لگتا ہے کہ ملک سے باہر خصوصاً اہلِ مغرب نے اپنے علم و دانش سے اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے معلوم کر لیا کہ ایک جوہرِ قابل پیدا ہوا ہے۔ مجھے خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے انہوں نے چودہ فروری کے دن کو محبت کا عالمی دن قرار دے دیا۔ تاہم وطن میں اس موتی کی قدر نہ ہوئی۔ اندازہ لگایئے‘ جس شخص کا یوم پیدائش پوری دنیا میں پھولوں‘ گلدستوں اور تہنیتی کارڈوں کے تبادلے سے منایا جاتا ہے‘ رقص و سرود اور مے نوشی کی محفلیں برپا کی جاتی ہیں‘ اپنے وطن میں اُس کی پیدائش سے ہی حالات نے وہ رُخ اختیار کرلیا کہ کسی زاویے سے انہیں خوش آئند نہیں قرار دیا جا سکتا۔ نظیری نیشاپوری نے تو کئی سو سال پہلے ہی پیش گوئی کردی تھی   ؎ 
یک فالِ خوب راست نہ شد بر زبانِ ما 
شوئی چغد ثابت و یُمنِ ہما غلط 
الو کی نحوست واضح ہو گئی‘ ہما کی خوش بختی کا کوئی سراغ نہ ملا۔ کوئی نیک فال درست نہ ثابت ہوئی۔ 
جب سے ہوش سنبھالا‘ مجھے بتایا گیا کہ تمہاری پیدائش کے دن ہی سے یہ ملک خطرے میں ہے بلکہ اکثر و بیشتر یہ کہا گیا کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔ کل بھی پورا دن ٹیلی ویژن چینلوں پر اشتہار بازی کی صورت میں اعلانات ہوتے رہے‘ ملک خطرے میں ہے۔ ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا مگر یہ خطرہ ٹل نہیں رہا۔ حالتِ جنگ مسلسل جاری ہے۔ دلاور فگار یہ کہتے کہتے دنیا ہی سے رخصت ہو گئے کہ ع 
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے 
اس خطرے کے دوران بہت سے واقعات رونما ہوئے۔ خطرے سے نمٹنے کے لیے آمروں کی اولاد نے فوج کی ملازمت ہی چھوڑ دی اور توجہ کاروبار پر مبذول کردی۔ الطاف گوہر جیسے نابغوں نے بُوری گنگا اور میگنا میں ڈگمگاتی ہچکولے کھاتی کشتیوں پر ’’عشرۂ ترقی‘‘ یعنی 
Decade of development
 کے پھڑپھڑاتے بینر لگوا دیے۔ پھر ہم نے آدھا ملک کاٹ کر پرے پھینک دیا تاکہ خطرہ بھی آدھا رہ جائے۔ اس خطرے کے دوران ہی سرکاری ملازموں کے بچے چوٹی کے صنعت کار بن گئے۔ جدہ سے لے کر نیویارک تک اور پیرس کے مضافات سے لے کر لندن کے گراں بہا محلوں تک جائدادیں‘ کارخانے محلات اور کاروبار کھڑے ہو گئے۔ خطرے سے نمٹنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے اجلاس اور آئی ایم ایف سے مذاکرات دبئی میں کیے جانے لگے‘ میں نہیں سمجھتا کہ میری زندگی میں یہ ملک خطرے سے باہر آ سکتا ہے اور حالتِ جنگ ختم ہو سکتی ہے۔ 
میں جب بھی سرکاری دفتروں سے ایڈوانس لے کر‘ یا بیوی کے زیور بیچ کر یا اس کی کمیٹی کمیٹی جوڑے ہوئے پیسے اٹھائے پراپرٹی ڈیلروں کے پاس گیا کہ سر چھپانے کے لیے کوئی پلاٹ خرید لوں تو ہمیشہ کہا گیا کہ حضور! مہنگائی بہت ہے‘ جب سے آپ پیدا ہوئے ہیں‘ کاروبار میں تیزی ہے‘ قیمتیں آسمان پر ہیں‘ جو رقم آپ کے پاس ہے اس میں ڈھنگ کا کوئی مکان‘ کوئی قطعۂ زمین نہیں مل سکتا۔ اگر میں نے جوں توں کر کے کوئی قطعۂ زمین خرید بھی لیا اور کسی بچے کی شادی کے موقع پر اسے فروخت کرنے گیا تو معلوم ہوا جب سے پیدا ہوا ہوں‘ بازار میں مندا ہے۔ خریدوفروخت ہو ہی نہیں رہی۔ قیمتیں گر گئی ہیں۔ جو قیمت میں مانگ رہا ہوں‘ وہ ناممکن ہے۔ ساڑھے چھ دہائیوں سے یہ کسادبازاری‘ یہ Slump
 ملک پر طاری ہے اور اس سے نجات کی میری زندگی میں کوئی امید نہیں! 
میری پیدائش پر ایک اور نحوست یوں ظاہر ہوئی کہ پوری دنیا ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گئی۔ نصرانیوں‘ ہندوئوں‘ یہودیوں‘ اشتراکیوں‘ ملحدوں‘ زندیقوں‘ کالوں‘ گوروں نے سارے کام چھوڑ دیے۔ نہ اپنے اپنے ملک پر توجہ دی‘ نہ عوام پر‘ نہ اپنے اہل و عیال پر۔ سارا زور‘ سارا وقت‘ سارے وسائل ہمارے خلاف سازشیں بُننے میں جھونک دیے۔ ان بدبختوں نے ایسی ایسی سازشیں کیں کہ ہمارے امرا نے ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیا۔ تاجروں کا طبقہ ریاست کی رٹ ماننے سے منکر ہو گیا۔ حکومتوں نے زرعی اصلاحات نافذ کرنے سے انکار کردیا۔ سیاسی جماعتوں نے ساری توجہ اقتدار حاصل کرنے پر مرکوز کر دی۔ یہودو ہنود کی سازشیں اتنی قوت پکڑ گئیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں پر خاندانوں نے قبضے کر لیے۔ اقتدار بھائیوں‘ بھتیجوں‘ بیٹیوں‘ بہنوں میں یوں بٹنے لگا جیسے جوتیوں میں دال بٹتی ہے۔ ظلم کی انتہا ان دشمنوں نے یہ کی کہ آج تک کوئی سازشی پکڑا نہیں گیا۔ پتہ نہیں ان کمپنیوں کے پاس کون سی سلیمانی ٹوپی ہے کہ یہ آج تک کسی کو دکھائی ہی نہیں دیے۔ میں اب ناامید ہو چکا ہوں اور یقین ہو چلا ہے کہ میری زندگی میں شاید ہی کسی سازشی کا اتہ پتہ‘ حدود اربعہ‘ محل وقوع‘ ایڈریس معلوم ہو سکے۔ 
دوسرے ملکوں کے لیے میری پیدائش عید کا چاند ثابت ہوئی۔ برکتوں کے باب وا ہو گئے۔ ترقی کے دریچے کھل گئے۔ عطر بیز ہوائیں چل پڑیں۔ پھول کھل اٹھے۔ باغوں سے مہکار اٹھی اور سارے میں پھیل گئی۔ چین نے انگڑائی لی اور پوری دنیا کو اپنی مصنوعات کا قیدی بنا لیا۔ ملائیشیا نے آئی ایم ایف کو چلتا کردیا اور جاپان کے صنعت کاروں کو اپنے ہاں لا بٹھایا۔ مچھیروں کی گندی‘ بدبودار بستی سنگاپور بن گئی۔ جنوبی کوریا ٹائیگر بن گیا۔ ننھا منا تائیوان سیاحوں کے لیے بہشت کی صورت اختیار کر گیا۔ ہانگ کانگ نے پوری دنیا کو حیران کردیا۔ ہمارے وطن کے پاس ہی‘ ریگستانوں کے چرواہوں نے فلک بوس بُرج بنائے اور پوری دنیا کے تاجر‘ کمپنیاں ہر شعبے کے ماہرین‘ مکھیوں کی طرح ان کے اردگرد بھنبھنانے لگے۔ دبئی میں شاہی خاندان کے چشم و چراغ کی گاڑی کا چالان ہو سکتا ہے مگر میرے ملک میں اگر پولیس شاہی خاندان کے نوکر پر بھی قانون نافذ کرنا چاہے تو بھونچال آ جاتا ہے۔ درجنوں معطل ہو جاتے ہیں۔ پھر معافیاں مانگنا پڑتی ہیں۔ کچھ گردنیں جھک جاتی ہیں۔ کچھ تن جاتی ہیں۔ پھر پولیس کے سپاہی اور تھانیدار بے عزتی اور یاس کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے‘ اپنی قسمت کو کوستے‘ اُس خاکروب پر پل پڑتے ہیں جو چوری کے الزام میں پکڑا‘ تھانے میں بند ہے اور جس کا والی وارث کوئی نہیں! 
ہے کوئی منجم‘ کوئی زائچہ بنانے والا‘ کوئی فال نکالنے والا‘ کوئی علم الاعداد کا ماہر‘ کوئی دست شناس‘ جو بتائے کہ کیا میری آنکھ بند ہونے سے پہلے یہ نحوستیں ختم ہو سکتی ہیں۔ اگر کوئی بنگالی بابا ہے تو میں کالے بکرے کا کلیجہ‘ سفید مرغ کی سری‘ الو کا دل‘ بندر کا خون اور شکستہ قبر کی مٹھی بھر مٹی بھی پیش کر سکتا ہوں! ہے کوئی؟

Wednesday, May 27, 2015

فری لنچ

’’فری لنچ‘‘ کا محاورہ امریکہ سے شروع ہوا اور ساری دنیا میں پھیل گیا۔ مارکیٹنگ ایک باقاعدہ مضمون تو ماضی قریب میں بنا ہے‘ جس میں ایم بی اے سے لے کر پی ایچ ڈی تک ہو رہی ہے۔ مگر انسان نے جب سے کاروبار کا آغاز کیا‘ مارکیٹنگ (یعنی اشیا یا خدمات فروخت کرنے کا فن) ہمیشہ سے سرگرمِ کار رہا ہے۔ 1870ء میں امریکہ کے ریستورانوں نے ’’فری لنچ‘‘ کا نسخہ ایجاد کیا۔ ان ریستورانوں میں خوراک کے ساتھ انواع و اقسام کی شرابیں بھی میسر ہوتی تھیں۔ پیش کش یہ ہوتی تھی کہ اگر آپ مشروب خریدیں تو لنچ فری ملے گا۔ یہ لنچ سادہ اور برائے نام بھی ہوتا تھا اور بعض اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے اچھا خاصا بھی مہیا کرتے تھے۔ عملی طور پر یہ ہوتا تھا کہ اکثر گاہک ایک گلاس مشروب پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ یوں مشروبات خوب بکتے تھے۔ گاہکوں کی ریل پیل‘ شہرت‘ اشتہار بازی‘ کئی ضمنی فوائد اس کے علاوہ تھے۔ اسی زمانے میں عقل مندوں نے یہ محاورہ تراشا کہ کوئی لنچ مفت نہیں ہوتا: 
There is no such thing as a free lunch!!
یعنی ع 
نظر آتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے 
یہ دنیا دارالاسباب ہے۔ غور کیجیے تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہاں کوئی شے مفت نہیں ملتی۔ ہر شے کی‘ ہر خدمت کی‘ ہر سروس کی‘ ہر جنس کی‘ کچھ نہ کچھ قیمت‘ کہیں نہ کہیں ضرور ادا کرنا پڑتی ہے۔ ایک ریستوران نے اپنے دروازے پر بورڈ لگا دیا۔ اس پر لکھا تھا کہ یہاں آپ کو کھانا مفت ملے گا کیونکہ اس کا بل آپ کا پوتا ادا کرے گا۔ ایک صاحب کھا کر جانے لگے تو ویٹر بل لے آیا‘ انہوں نے اعتراض کیا کہ یہ بل آپ کے اعلان کی رُو سے میرے پوتے نے ادا کرنا ہے۔ ویٹر نے کہا کہ وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ اس کھانے کا بل ہے جو آپ کے دادا جان نے کھایا تھا۔ ہم صدقہ خیرات بھی مفت نہیں کرتے‘ ثواب کی خاطر کرتے ہیں۔ کسی کے ذہن میں چور ہے‘ کوئی شرابِ طہور کے لیے اور کوئی لحد میں روشنی اور آرام کے لیے نیک کام کر رہا ہے۔ مومنؔ نے کہا تھا   ؎ 
غضب سے تیرے ڈرتا ہوں‘ رضا کی تیری خواہش ہے 
نہ میں بیزار دوزخ سے‘ نہ میں مشتاق جنت کا 
لیکن سب تو مومنؔ کی طرح جزا سزا کے فلسفے میں نہیں پڑتے۔ 
’’فری لنچ‘‘ کے اس تصور کو اب ہم پولیس سٹیٹ سے جوڑتے ہیں۔ پولیس سٹیٹ کا مطلب ہے وہ حکومتیں جو اپنی بقا کے لیے پولیس کی طاقت کا سہارا لیتی ہیں۔ سوویت یونین اور اس سے ملحقہ حکومتیں‘ خاص کر مشرقی جرمنی کی مثالیں اس ضمن میں سب سے زیادہ دی جاتی تھیں۔ شمالی کوریا‘ شام‘ لیبیا‘ عراق سب پولیس سٹیٹس تھیں۔ پاکستان‘ بظاہر نظر آنے والے جمہوری لباس کے باوجود جوہری طور پر ایک پولیس سٹیٹ ہے۔ ’’انتخابات‘‘ میں محترمہ فاطمہ جناح کی ’’شکست‘‘ سے لے کر‘ کراچی میں طاقت 
کے اس مظاہرے تک جو صدر ایوب خان کے صاحبزادے نے کیا‘ بھٹو کے زمانے میں لیاقت باغ کے جلسے میں گرنے والی لاشوں سے لے کر‘ دلائی کیمپ تک‘ ماڈل ٹائون میں چودہ شہریوں کے قتل سے لے کر کراچی میں نقاب پوشوں کے حملے اور اب ڈسکہ میں ایس ایچ او کی فائرنگ تک… سارے واقعات جمہوریت کی نفی کرتے ہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ عملاً یہ ایک پولیس سٹیٹ ہے! 
اب جب کوئی حکومت اپنی بقا کے لیے اور اپنے دشمنوں کو ان کی اوقات میں رکھنے کے لیے پولیس کا سہارا لیتی ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا پولیس یہ کام مفت میں کرتی ہے؟ نہیں! بالکل نہیں! دنیا میں کوئی لنچ ایسا نہیں جو مفت میں ملے۔ پولیس اور پولیس سٹیٹ کے حکمرانوں کا ایک غیر مرئی‘ غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے جو مکمل طور پر کامن سینس کی بات ہے۔ پولیس کو بدلے میں حکومت دو چیزیں دیتی ہے۔ اول‘ پولیس کسی بھی قسم کے احتساب سے بالا ہوتی ہے۔ اگر پولیس سے ان اقدامات کا حساب کتاب کیا جانے لگے جو وہ حکومتوں کے حق میں اور حکومتوں کے مخالفین کے خلاف اٹھاتی ہیں تو وہ آئندہ یہ ’’خدمات‘‘ کیوں انجام دیں؟ آپ ماڈل ٹائون واقعے کو دیکھ لیجیے‘ چودہ انسان قتل ہو گئے‘ کسی کو سزا نہیں ملی۔ دوم‘ حکومتیں پولیس کو مراعات دیتی ہیں۔ پاکستان بھر میں بالعموم اور سب سے بڑے صوبے میں بالخصوص۔ پولیس کے ریٹائرڈ ملازموں کو مزید ملازمتیں سب سے زیادہ ملی ہیں۔ وجہ ظاہر ہے۔ حکمران ان کا سہارا لیتے ہیں۔ تعلقات سرکاری سے بڑھ کر ذاتی سطح پر آ جاتے ہیں۔ 
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان میں پولیس کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ ’’تفتیش‘‘ کے دوران اب تک کتنے ملزم ہلاک ہو چکے ہیں‘ کوئی شمار ہی نہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق صرف 2010ء کے دوران 338 افراد پولیس کے ہاتھوں مارے گئے اور 174 پولیس کے حبس بیجا سے نکالے گئے۔ درماندہ اور زیریں طبقات کے جو بے نوا افراد چوری وغیرہ کے الزام میں پکڑے جاتے ہیں اور تشدد کے نتیجہ میں ہلاک ہو جاتے ہیں‘ ان کا ذکر بے نام اعدادو شمار کے علاوہ اور کسی صورت میں ہوتا ہی نہیں! 
یہ صرف موجودہ حکمرانوں ہی کا وتیرہ نہیں‘ پاکستان میں ہر حکومت نے ان اعلانات کا سہارا لیا: 
’’مجرم بچ نہیں پائیں گے‘‘ 
’’غیر جانب دارانہ تحقیقات ہوگی‘‘ 
’’ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے‘‘ 
جن ملکوں میں قتل کے مجرموں کو سزائیں ملتی ہیں وہاں حکومتوں کے سربراہ رپورٹیں طلب کرتے ہیں نہ ’’واقعے کا نوٹس‘‘ لیتے ہیں۔ بھلا ایک قتل کے مقدمے کا وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کیوں نوٹس لے۔ کیا قتل کے ہر واقعے کے بعد جوڈیشل کمیشن بنتا ہے؟ قانون کی کارروائی کسی صوبائی یا وفاقی سربراہ کے نوٹس لینے کی محتاج نہیں ہوتی۔ کیا سنگاپور‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا یا برطانیہ میں انصاف اُس وقت ملتا ہے جب صوبائی یا وفاقی حکمران واقعے کا نوٹس لے؟ تصور ہی مضحکہ خیز ہے! اس کا ایک اور صرف ایک مطلب نکلتا ہے کہ اگر حکمران نوٹس نہیں لیں گے تو انصاف نہیں ملے گا۔ یعنی انصاف کا خود کار نظام مفقود ہے! 
تیرہ بختی کی انتہا یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور حزب ہائے اختلاف‘ کوئی بھی مستقل مزاجی سے پولیس کے نظام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ شاید اس لیے کہ کل یہ حکومت میں آئیں تو پولیس کے اسی نظام سے فائدہ اٹھائیں! 
اس سرطان کا علاج ناممکن نہیں۔ نہ ہی اس کے حل کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے۔ پولیس کے بہترین نظام صرف یورپ اور امریکہ کی سفید فام اقوام کے ہاں نہیں‘ ایشیائی ملکوں میں بھی موجود ہیں۔ جاپان‘ سنگاپور‘ ہانگ کانگ‘ یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات میں پولیس کے نظام ایسے ہیں کہ ماڈل کے طور پر اپنائے جا سکتے ہیں۔ ہاں! اس سے پہلے قومی سطح پر اس اجماع کی ضرورت ہے کہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے مکمل طور پر پاک کیا جائے گا!

Monday, May 25, 2015

اس گرم ماحول میں


شادی کے بعد پہلا رمضان آیا تو شہر سے تعلق رکھنے والی نئی نویلی بیگم صاحبہ پر حیرتوں کے جو باب وا ہوئے ان کا ذکر وضعدار خاتون نے کئی برس بعد کیا۔ بودوباش تو ہماری بھی اُس وقت شہر ہی میں تھی لیکن بابے ظفر اقبال نے کہا ہے   ؎ 
ظفر میں شہر میں آ تو گیا ہوں 
مری خصلت بیابانی رہے گی 
بابے کا جو پیار اس نابکار سے ہے‘ اس کے پیش نظر کیا عجب یہ شعر زیر دستخطی ہی کے لیے کہا گیا ہو! شہر کی بودوباش میں بھی اصلیت گائوں کی جھلک جھلک پڑتی تھی۔ سحری کے وقت‘ گھی میں تلے ہوئے دو پراٹھے۔ ایک معقول سائز کی قاب میں کناروں تک ڈالا گیا پگھلا ہوا گھی‘ اس کے درمیان میں شکر کی بڑی سی ڈھیری‘ یوں کہ اس کے اردگرد گھی‘ جیسے گول ناند میں بہہ رہا ہے‘ ساتھ ایک جگ لسّی کا‘ یاد رہے کہ اس جگ میں پورے چھ گلاس ہوتے تھے۔ یہ توند اُس وقت ظہور پذیر نہیں ہوئی تھی۔ دھان پان جسم تھا۔ ہڈیاں زیادہ اور ماس کم۔ کانگڑی پہلوان۔ عفیفہ حیران کہ آخر یہ چھ گلاس لسی کے جاتے کہاں ہیں! 
رمضان میں سحری کا یہ معمول چلتا رہا۔ پھر بچے بڑے ہوتے گئے۔ گھریلو ذمہ داریوں میں اضافہ۔ ساتھ سرکاری کلرکی کا بوجھ بڑھتا رہا۔ چودہ پندرہ برس بیت گئے۔ تب ایک رمضان میں بیماری نے حملہ کیا۔ شدید بخار‘ چھاتی جیسے بند دروازہ‘ حلق جیسے مسدود راستہ۔ خدا سلامت رکھے جنرل محمود اختر کو۔ آج تک کرم فرمائی کر رہے ہیں۔ جن دنوں مسلح افواج کے سرجن جنرل تھے‘ تب بھی کلینک جاری رہا اور فقیروں کے لیے دریائوں جیسی فیاضی بھی! کسی زمانے میں طبیب کو حکیم کہتے تھے اس لیے کہ طب کے لیے صرف کتابی علم نہیں‘ دانش و حکمت بھی لازم ہے۔ جنرل محمود اختر پر طب اور حکمت دونوں ناز کرتے ہیں۔ مدتوں ادویات کی کوالٹی کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کام کرتے رہے۔ لکھتے بھی رہے۔ جب بھی ان کے ہاں جانا ہوا‘ اپنے لیے‘ والدہ مرحومہ کے لیے‘ اہل و عیال کے لیے‘ ہمیشہ مجید امجد کی نظم ’’مسیحا‘‘ یاد آئی: 
سدا لکھیں/ انگلیاں یہ/ لکھتی رہیں/ انگلیاں یہ/ کاغذ پر/ رکی ہوئیں/ آنکھیں یہ/ کاغذ پر/ جمی ہوئیں/ گہری سوچ/ جذب عمیق/ سامنے اک/ پارۂ جاں/ درد ہی درد/ ٹیس کراہ بو/ تلچھٹ/ جرثومے/ آنکھیں فکر/ آنکھیں صدق/ آنکھیں کشف/ اک یہ طریق/ اک وہ اصول/ یہ مشروب/ وہ محلول/ کچھ کیپسول/ سطرِ شفا/ حرفِ بقا/ آنکھیں یہ/ سدا جیئیں/ سُکھ بانٹیں/ انگلیاں یہ/ سدا لکھیں/ لکھتی رہیں/ سطرِ شفا/ حرفِ بقا… 
اب ضعف اتنا ہے کہ سیڑھیاں نہیں اتر سکتے۔ برقی کرسی کے ذریعے کلینک کی سیڑھیاں اترتے ہیں مگر مسیحائی کا سلسلہ جاری ہے اور دریا دلی بھی! 
پوچھا‘ روزے رکھ رہے ہو؟ عرض کیا‘ جی ہاں! ’’سحری میں کیا کھایا؟‘‘ کہا‘ آج تو کچھ نہیں‘ مگر معمول یہ ہے۔ معمول بتایا تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ بس اتنا کہا ’’نومور‘‘۔ پھر سادہ چپاتی‘ سالن اور دہی‘ ساتھ زیادہ سے زیادہ ایک گلاس شربت تجویز کیا۔ 
لسی پورے پنجاب کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے مگر مغربی اضلاع کے قریوں میں تو دوپہر کو سالن کا تصور ہی نہ تھا۔ ملازم زیادہ تر وہی تھے جو فوج میں بھرتی ہوتے تھے۔ چھٹی آتے تو مائیں‘ دادیاں‘ نانیاں‘ کفِ افسوس مل مل کر کر کہتیں، ’’ہائے سالن کھا کھا کر بچے کا چہرہ اتر گیا ہے‘‘! کیا عیاشی کا زمانہ تھا۔ دہی‘ انڈوں اور پراٹھوں کا ناشتہ‘ (انڈے تب صرف انڈے تھے‘ کہ شیور کے تولد ہی نہیں ہوئے تھے) تھوڑی دیر کے بعد ادھ رڑکا‘ (اب اس کی کیا تشریح ہو!)۔ پھر تنور تپتے‘ روٹیاں لگتیں‘ گرم روٹیوں پر عورتیں انگلیوں سے گڑھے بناتیں تاکہ مکھن اندر رچ جائے۔ مگر اصل مزہ اُس لسی کا ہوتا تھا جو حلق سے اترتے ہی سینے میں ناقابل بیان ٹھنڈا ذائقہ بکھیرتی‘ معدے میں پہنچتی۔ آج بھی وہ منظر یاد ہے‘ مکان کی مرمت تھی‘ تب مزدوروں کا رواج نہ تھا۔ برادری کے ارکان اور دوست احباب ہی سارا کام کرتے۔ مٹی کے کٹوے میں خاص طریقے سے پکا ہوا بکرے کا نرم گوشت بھی تھا‘ گھی بھی‘ روٹیاں اور ساتھ مکھدی حلوے کے انبار بھی‘ مگر چاچے احمد خان نے‘ خدا اس کی قبر کو منور کرے‘ کہا کہ لسی کا خانہ ابھی تک خالی ہے! 
یہ عجیب و غریب خدائی نعمت صرف پنجاب میں نہیں‘ دنیا بھر میں مقبول ہے۔ دیارِ غیر میں ایک ترک ریستوران میں کھانا کھایا۔ لسی کو دل چاہا‘ کائونٹر پر بیٹھی خاتون کو انگریزی میں بتایا کہ یوگرٹ ڈرنک درکار ہے۔ وہ مسکرائی اور نمکین لسی کا گلاس لا کر میز پر رکھ دیا۔ دفعتاً یاد آیا کہ انقرہ‘ استنبول اور قونیہ میں‘ جہاں بھی جانا ہوا‘ صاف ستھری لسی بوتلوں میں بند‘ ہر ریستوران میں دیکھی تھی۔ چاول اور 
کباب کے ساتھ ترک ضرور پیتے ہیں۔ اسے اَئران کہتے ہیں۔ ترکی میں اسے قومی مشروب کا بلند مقام حاصل ہے۔ جس زمانے میں ترک خانہ بدوش تھے اور قازقستان سے لے کر اناطولیہ تک چلتے پھرتے تھے‘ گھوڑی کا دودھ ان کا پسندیدہ مشروب تھا۔ اسے کُومِس کہا جاتا تھا۔ دودھ خاصا عرصہ پڑا رہنے دیا جاتا تھا‘ جیسے سیال پنیرہو‘ یہ لسی کی قدیم شکل تھی۔ گمان غالب یہ ہے کہ یہ تھوڑا بہت نشہ بھی لاتی ہوگی۔ قفقار کے علاقے (آرمینیا‘ آذربائی جان اور جارجیا) میں لسی کو ترکوں ہی نے مقبول بنایا۔ مگر دلچسپ معاملہ یورپ اور امریکہ کے سفید فام لوگوں سے پیش آیا۔ ان کے ہاں مشروبات دو ہی اقسام کے تھے۔ یا تو سرور آور مشروبات یا کوکا کولا جیسے مشروبات جن میں کھانڈ افراط سے ڈالی جاتی ہے۔ نمکین لسی ان کے لیے نیا تجربہ تھا۔ سو انہوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ مگر اب ’’مینگو لسی‘‘ خوب مقبول ہے۔ نیوزی لینڈ سے لے کر وینکوور اور کیلی فورنیا تک پاکستانی اور بھارتی مینگو لسی فروخت کر رہے ہیں۔ (غالباً اس میں تازہ آم نہیں‘ آم کا جوہر ڈالا جاتا ہے) میلبورن سنٹرل ریلوے اسٹیشن پر ایک پرہجوم جنوبی ایشیائی ریستوران ہے جہاں جنوبی ہند کے کھانے مزے کے ملتے ہیں۔ سفید چمڑی والے ایک گاہک کو دیکھا جو ساتھ والی میز پر بریانی سے بھرا تھال لیے بیٹھا تھا اور بَیرے سے کہہ رہا تھا کہ مینگو لسی بھی لے آئو۔ تعجب ہے کہ پاکستان میں کہ مینگو افراط سے ہیں اور لسی بھی‘ مینگو لسی کا رواج نہیں پڑ رہا۔ جنوبی ایشیا کا ذکر چھڑ گیا ہے۔ جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کے ہاں کھانے پر جانے کا اتفاق ہوا تو میز پر 
جگ میں سبز رنگ کا مشروب پڑا تھا۔ اس نے بتایا کہ یہ چھاچھ ہے۔ اس میں نمک اور زیرے کے ساتھ پودینہ پڑا تھا اور سبز رنگ اُسی پودینے کا غلبہ تھا۔ راجستھان والے اس میں سبز مرچ اور پسی ہوئی ادرک بھی شامل کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں غالباً چھاچھ اس لسّی کو کہتے ہیں جس میں پانی کی آمیزش زیادہ ہو۔ پاکستانی پنجاب میں چھاچھ کا لفظ سننے میں نہیں آتا۔ غالباً بھارتی پنجاب میں بھی نہ ہوگا۔ صرف جنوبی ہند میں یہ نام مستعمل ہوگا۔ 
وسط ایشیا کا ہر وہ گوشہ چھان مارا جہاں فارسی کا چلن ہے مگر فارسی ادب کے اس طالب علم کو جہاں جانا تاحال مقدور نہیں ہوا وہ حافظ اور سعدی کی سرزمین ہے۔ یعنی پطرس بخاری کے بقول مرزا کی بائیسکل میں ہر پرزہ بجا سوائے گھنٹی کے‘ مگر اتنا معلوم ہے کہ ایران میں لسی کو دُوغ کہتے ہیں اور بزرگ جو ایران میں پڑھتے پڑھاتے رہے‘ بتاتے تھے کہ ذائقے میں اپنی مثال آپ ہے۔ یوں بھی ملاوٹ کی لعنت صرف اسلام کے اس قلعہ ہی میں ہے جہاں ہم رہتے ہیں! 
کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ماحول کس قدر گرم ہے۔ جھلسا دینے والی خبریں آ رہی ہیں اور مسلسل آئے جا رہی ہیں۔ ذوالفقار مرزا اقتدار کی بلند مسند سے پھسلے تو عدالت میں آن گرے۔ ماڈل ٹائون معاملے کی جے آئی ٹی رپورٹ پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیروکار کیا‘ سبھی انگشت بدنداں ہیں۔ ایگزیکٹ نے ایک اور تماشہ برپا کردیا ہے اور کارناموں کی گنتی تاحال جاری ہے۔ ہماری تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ آڈیٹر جنرل کو‘ کہ دستوری پوسٹ ہے‘ برطرف کردیا گیا ہے‘ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کا الگ انتظار ہے‘ اس گرم ماحول میں پیاس نہ لگے تو کیا ہو‘ آپ یہ کرم کیجیے کہ ٹھنڈی لسی کا ایک گلاس عنایت فرما دیجیے‘ اور ہاں! نمک کے بجائے چینی ڈال سکیں تو کیا ہی کہنا!

Saturday, May 23, 2015

ملازم شاہی


آپ کا ملازم درست ہی تو کہتا ہے۔ آپ چپ چاپ اس کی بات مان لیجیے۔ اسی میں آپ کی عافیت ہے! 
آپ نے اسے اپنے گھر میں ملازم رکھا تھا۔ ایک تنخواہ مقرر ہوئی تھی۔ اسے بتایا گیا تھا کہ اس نے فلاں فلاں کام کرنا ہوگا۔ کچھ کام باورچی خانے کا ہوگا‘ کچھ خواب گاہوں کی صفائی کا ہوگا۔ بازار سے سودا سلف لانا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ 
کچھ عرصہ یہ معاہدہ چلتا رہا۔ آہستہ آہستہ اُس نے پالیسی امور میں حصہ لینا شروع کردیا۔ فلاں کمرے میں پلنگ اسی طرح بچھانا ہے جیسا کہ وہ چاہتا ہے۔ چھوٹے صاحب بالائی منزل پر منتقل ہو جائیں۔ آج کریلے نہیں‘ شلغم پکیں گے۔ مہمان کے لیے مرغی کا نہیں‘ بکرے کاگوشت منگوایا جائے۔ کچھ دن آپ نے صبر کیا۔ پھر ہمت جواب دے گئی۔ ایک دن آپ نے اُسے آنے والے مہینے کی تنخواہ بھی دی اور بتایا کہ تم آج سے فارغ ہو۔ ایک ماہ کا معاوضہ زائد اس لیے دیا ہے کہ بندوبست کرنے کے لیے وقت مل جائے۔ آپ کے تعجب کی انتہا نہ رہی جب دو گھنٹے بعد ا ٓپ کے دروازے کی گھنٹی بجی۔ آپ باہر گئے تو دس بارہ افراد کھڑے تھے۔ یہ سب وہ تھے جو آپ کی گلی کے مختلف گھروں میں ملازم ہیں۔ وہ سب بیک زبان ہو کر آپ سے کہہ رہے تھے کہ آپ اپنے ملازم کو نوکری سے نہیں نکال سکتے ورنہ وہ گلی میں دھرنا دیں گے۔ نعرے لگائیں گے۔ آپ کا اور آپ کے اہلِ خانہ کا گھر سے نکلنا محال ہو جائے گا۔ آپ ایک شریف آدمی ہیں۔ آپ چپ چاپ یہ مطالبہ مان لیتے ہیں۔ آپ غالب کی طرح موت سے نہیں ڈرتے مگر فقدانِ راحت سے ڈرتے ہیں۔ 
یہ ہے وہ صورتِ حال جو آج اس ملک کے بڑے بڑے اداروں کو درپیش ہے۔ آپ جانتے ہیں ہر ملک کا ایک صدر یا وزیراعظم یا دونوں ہوتے ہیں۔ وہ جس شہر میں بیٹھ کر امورِ سلطنت چلاتے ہیں اسے اردو میں ملک کا صدر مقام یا دارالحکومت کہتے ہیں۔ انگریزی میں کیپٹل‘ فارسی میں پایۂ تخت اور عربی میں العاصمہ کہتے ہیں۔ پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد ہے۔ یہ سب بنیادی حقائق وہ ہیں جو دوسری تیسری جماعت کے بچوں کو بھی معلوم ہیں۔ مسئلہ اس سے آگے کا ہے۔ 
یہ دارالحکومت پورے ملک کا ہے۔ بیس بائیس کروڑ کی آبادی کا یہ واحد دارالحکومت ہے۔ پورے ملک کے ٹیکسوں سے اس پر اور اس میں مقیم حکمرانوں پر اٹھنے والے اخراجات ادا کیے جاتے ہیں۔ پورے ملک کی آبادی کو اس کی پالیسیوں پر اختیار ہے اور حق بھی ہے۔ اس کے بعد اس میں رہنے والوں کا اختیار اور حق ہے۔ اس میں بیس بائیس لاکھ افراد رہتے ہیں۔ تقریباً اتنے ہی اس سے ملحقہ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ دارالحکومت کا نظام کس طرح چلنا چاہیے‘ اس میں مقامی حکومت کے کیا خطوط ہوں گے‘ صفائی کا نظام کیا ہوگا‘ تعمیراتی قوانین کیا ہوں گے‘ مزید ترقی کیسے ہوگی۔ یہ سب امور وہ ہیں جن کا فیصلہ کرنے کا اختیار پورے ملک کی آبادی کو ہے۔ اس کے منتخب نمائندوں کو ہے۔ حکومت اور حکومت کے وزیروں کو ہے اور دارالحکومت میں رہنے والی تیس چالیس لاکھ آبادی کو ہے۔ 
مگر نہیں! اب یہ سارے اختیارات اُن پندرہ ہزار افراد کے ہاتھ میں آ گئے ہیں جنہیں دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو چلانے کے لیے ملازم رکھا گیا تھا۔ ان کی تنخواہیں مقرر کی گئی تھیں جو انہیں باقاعدگی سے مل رہی ہیں۔ ان کا اصل کام یہ تھا کہ عوام کے نمائندے جو پالیسی بنائیں گے‘ وہ اُس پالیسی کو نافذ کریں گے۔ مگر اب یہ ملازمین کہتے ہیں کہ نہیں‘ پالیسی بھی ہم خود بنائیں گے۔ اگر مقامی حکومت بنی تو پھر اختیارات مقامی حکومت کو نہیں ملنے چاہئیں۔ فرض کیجیے مقامی حکومت ترقیاتی منصوبے خود چلانے کا ارادہ رکھتی ہے تو یہ ادارے کے ملازمین کو منظور نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عوامی نمائندے بورڈ کے ارکان کی طرح ادارے کے ملازم بن کر کام کریں۔ 
ہم قارئین کو گواہ بن کر اعلان کرتے ہیں کہ ہم ادارے کے ملازمین کے ساتھ ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں دارالحکومت میں اس وقت پانی کی شدید قلت ہے۔ ہر گھر میں بور کرایا جا رہا ہے۔ سکیورٹی کا یہ عالم ہے کہ ہزاروں نجی گارڈ گلیوں میں پہرا دے رہے ہیں۔ جا بجا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پڑے ہیں۔ مگر یہ سب کام غیر اہم ہیں۔ اہم ترین کام یہ ہے کہ ترقیاتی ادارے کے ملازمین کا مستقبل ’’محفوظ‘‘ ہو۔ ان کی ہر بات مانی جائے۔ وزیراعظم ہیں یا وزیر داخلہ یا ترقیاتی امور کے وزیر‘ یا مقامی حکومت یا اسمبلیوں میں بیٹھے عوامی نمائندے‘ کوئی بھی کچھ کرنا چاہتا ہے تو پہلے ادارے کے ملازمین یا ان ملازمین کے نمائندوں کی خدمت میں حاضر ہو‘ مدعا بیان کرے اور اجازت لے۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو خوشی سے تالیاں بجائے ورنہ چون و چرا کے بغیر ان کے احکام کی پیروی کرے۔ بہترین حل مسئلے کا یہ ہے کہ مقامی حکومت یا میئر یا متعلقہ وزیر‘ سب حضرات ادارے کے ملازمین کے ماتحت ہو کر کام کریں۔ 
یہ وہ بہترین پالیسی ہے جو دوسرے اداروں میں بھی مشعلِ راہ ہونی چاہیے۔ سعد رفیق ریلوے کو اس کی گزشتہ شان و شوکت واپس دلوانا چاہتے ہیں‘ مگر انہیں چاہیے کہ ریلوے ملازمین کے نمائندوں کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ کہیں وہ خدانخواستہ ناراض نہ ہو جائیں۔ قومی ایئرلائن کو بھی چاہیے کہ جہازوں کی تعداد کے بارے میں کوئی فکر نہ کرے۔ تین چار جہاز بھی کافی ہوں گے‘ مگر یہ جو بیس ہزار ملازمین ہیں‘ ان کے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔ ہو سکے تو ان کے بچوں اور پھر ان کے بچوں کو بھی جانشینی کا حق ادا کرتے ہوئے اس ادارے میں ملازم رکھ لینا چاہیے۔ 
آخری گزارش یہ ہے کہ جو لوگ دارالحکومت کو خیرباد کہہ کر عسکری رہائشی کالونیوں میں آباد ہو رہے ہیں تو ان کالونیوں میں بھی ملازمین کی تنظیم بنائی جائے۔ پھر عسکری حکام بھی تنظیم سے اجازت لے کر سانس لیا کریں بالکل اسی طرح جیسے ترقیاتی ادارے کے مجبور اور مقہور افسر کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ عسکری رہائشی کالونیوں میں بھی اُسی ’’خوش انتظامی‘‘ کا دور دورہ ہوگا جس کی فصل آج ترقیاتی ادارہ کاٹ رہا ہے۔

Friday, May 22, 2015

دو زبانیں بولنے والا ٹائپسٹ پ

یدائشی نام اس کا ’’لاج رے منڈ‘‘ تھا۔ قلمی نام بہت سے تھے لیکن جس نام سے وہ دنیا میں مشہور ہوا‘ ہَیڈ لے چیز تھا۔ جیمز ہیڈلے چیز۔ اس کے پچاس ناول ایسے تھے جن پر فلمیں بنائی گئیں۔ 1906ء میں لندن میں پیدا ہوا۔ باپ ہندوستانی فوج میں حیوانات کا ڈاکٹر تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہیڈلے چیز امریکہ کبھی نہیں رہا۔ صرف دو بار چند ایام کے لیے گیا۔ مگر شکاگو کی زیر زمین جرائم کی دنیا پر اس کے ناول شہرۂ آفاق ہوئے۔ اُس نے نقشوں کی مدد سے ایک ایک شہر کے حصے سمجھے اور امریکیوں کی مخصوص مقامی زبان
 (Slang)
 کے لغات دیکھے۔ لندن کی جرائم کی دنیا پر اس نے ایک اور قلمی نام سے لکھا۔ جن دنوں اس کالم نگار کو ہیڈلے چیز کے ناول پڑھنے کا خبط ایک مرض کی طرح لاحق ہوا‘ راولپنڈی کی آرمی لائبریری میں اس کے ناولوں کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔ (آج کی صورت حال معلوم نہیں)۔ باقی کسر پرانی کتابوں کی دکانوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پوری کی۔ یارِ دیرینہ عارف منصور مرحوم نے ڈانٹا کہ وقت اور صلاحیت دونوں ضائع کرنے پر تُلے ہو۔ عارف منصور کی یاد آئے تو دل میں کسک اٹھتی ہے۔ اتنا ذہین اور خوبصورت انگریزی لکھنے والا بیوروکریٹ شاید ہی اس ملک کو پھر نصیب ہو۔ پرائیویٹائزیشن ڈویژن میں وفاقی سیکرٹری تھا جب بیگم کے ہمراہ عمرہ کے لیے گیا۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے حادثہ ہوا اور دونوں میاں بیوی نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ عارف منصور کے والد شفیع منصور معروف ماہرِ تعلیم تھے۔ جن دنوں دارالحکومت میں محب عارفی کے ہاں ہر ویک اینڈ پر شعرا جمع ہوتے تھے شفیع منصور باقاعدگی سے آتے تھے۔ ان کا یہ شعر ہر شاعر کی زبان پر تھا   ؎ 
ہے مرا اپنا ارادہ بھی سفر کا منصورؔ 
ورنہ یاروں کو بہت دور نہ جانے دیتا 
ہم ہیڈلے چیز کی طرف پلٹتے ہیں۔ اس کے ناولوں میں واقعات اس سرعت سے رونما ہوتے ہیں کہ دل دھک دھک کرنے لگتا ہے۔ مرکزی خیال یہ ہوتا ہے کہ مجرموں کا گروہ راتوں رات امیر بننے کے لیے سب کچھ کر گزرتا ہے۔ قتل کرنا تو معمولی بات ہے۔ مگر آخر میں مجرم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ کوئی ایک انہی میں سے راز فاش کر دیتا ہے۔ اکثر ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ 
جو کچھ ایگزیکٹ گروپ کے ساتھ ہوا اور ہو رہا ہے‘ اُس سے ہیڈلے چیز یاد آیا۔ اس کے ناولوں کے پلاٹ ذہن میں فلم کی طرح چلنے لگے۔ کہتے ہیں کہ تاریخ سے سبق کوئی نہیں سیکھتا مگر جرائم کی دنیا سے مجرموں کے انجام سے کس نے سبق سیکھا ہے؟ ہر جرم کرنے والا فرد اور گروہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ بچ جائے گا۔ مگر فطرت کا قانون ہے کہ سازش کیسی ہی چالاکی سے کیوں نہ کی گئی ہو اور جرم کیسی ہی رازداری سے سرزد کیوں نہ ہوا ہو‘ کسی نہ کسی طرح‘ کہیں نہ کہیں گرہ کھل جاتی ہے۔ گمان یہ ہے کہ اس کمپنی کے معاملے میں بھی کسی گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھائی ہے۔ 
سورہ مجادلہ کی ایک آیت پر غور کیا جائے تو پردہ داریوں کے اور سازشوں کے اور چھپ کر جرائم کرنے کے اور تدبیریں بُننے کے اور ترکیبیں ڈھالنے کے سارے اسرار کھل جاتے ہیں۔ 
’’تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم کی اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے‘ جہاں بھی وہ ہوں‘‘۔ 
کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ آصف زرداری اور ذوالفقار مرزا کے درمیان تعلقات ایسا رُخ اختیار کریں گے کہ گفتنی چھوڑ کر‘ ناگفتنی بھی سامنے آ جائے گا۔ ان کی بیگم کو زرداری صاحب نے ملک کے تیسرے بڑے منصب پر بٹھا دیا۔ قرضے معاف ہوئے۔ اُن کی سپیکر شپ کا عرصہ اس بدبخت ننگی بھوکی قوم کو کتنے میں پڑا؟ کبھی سارے اعداد و شمار سامنے آئیں تو حیرت سے زبانیں گنگ اور ذہن مائوف ہو جائیں۔ اب سارے ایک دوسرے کے راز کھول رہے ہیں۔ یہ جیمز ہیڈلے چیز کا جیتا جاگتا لائیو ناول ہے جس کے صفحے ہمارے سامنے پلٹے جا رہے ہیں۔ دیکھیے‘ کہانی کے آخر میں کیا ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ جرم کو جرم نہیں سمجھا جاتا اور لوٹ مار کو معمول کی کارروائی گردانا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ فلاں اور فلاں نے جیل کا پانی پیا نہ جیل کی گرمی برداشت کر سکیں گے۔ کوئی پوچھے کہ آپ کیا کسی جنگِ آزادی کی پاداش میں جیل گئے تھے؟ یا حکومتِ وقت کے خلاف کوئی تقریر کی تھی؟ کیا آپ بھگت سنگھ یا جعفر تھانیسری تھے؟ 
جرم کبھی نہیں چھپتا۔ کوئی مسعود محمود سامنے آ جاتا ہے۔ کوئی ذوالفقار مرزا بھانڈا پھوڑ دیتا ہے۔ کوئی صولت مرزا راز اُگل دیتا ہے۔ یہی کچھ ایک دن ماڈل ٹائون سانحہ کے ضمن میں بھی ہوگا۔ اس وقت تو صورتِ حال یہ ہے کہ   ؎ 
لگا ہے دربار‘ شمع بردار سنگ کے ہیں 
ہوا کے حاکم ہیں‘ موم کے ہیں گواہ سارے 
مگر یاد رہے کہ جہاں چار جمع ہوتے ہیں وہاں پانچواں ہوتا ہے اور جہاں پانچ ہوتے ہیں وہاں چھٹا موجود ہوتا ہے۔ یہ اور بات کہ پانچواں اور چھٹا نظر نہیں آ رہا ہوتا! یہی بھول ایگزیکٹ والوں سے ہوئی۔ یہی بھول سب سے ہوتی ہے۔ اقتدار کے عروج پر‘ حیرت ہے‘ سب سے زیادہ بے خبر وہی ہوتا ہے جو سب سے بلند بیٹھا ہوا ہے۔ کہیں کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ ہر شے پرفیکٹ اور اپنی جگہ پر انتہائی مناسب لگتی ہے   ؎ 
مری آنکھوں پہ بھی زرتار پردے جھولتے ہیں 
ترے بالوں میں بھی کچھ اِن دنوں ریشم بہت ہے 
مگر افسوس! بہت جلد پردے ہٹ جاتے ہیں اور ریشم جیسے بال برگد کی جٹائوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ 
کل ایک صاحب ایگزیکٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے ٹیلی ویژن پر اس انداز میں دفاع کر رہے تھے کہ ہنسی آ رہی تھی اور رونا بھی! ایک زمانہ تھا کہ ان صاحب کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ مگر اب ان کی ہنڈیا سے کچی سبزی کے علاوہ کچھ نہیں نکل رہا تھا۔ سب سے اہم ’’دلیل‘‘ بار بار یہ دے رہے تھے کہ کمپنی میں سینکڑوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کام کر رہے ہیں! آج کی خبر یہ ہے کہ پانچ سو ڈالر کے عوض کتے کو بھی ایم بی اے کی ڈگری دے دی گئی۔ اس کی بنیاد امتحان نہ تھا بلکہ محض سی وی تھا جو کتے کا بھیجا گیا تھا۔ 
یوں بھی انسانیت پر وہ زوال آیا ہے کہ کتے کا کردار نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ وہ نصیحت بھی کسی کتے ہی نے اپنے بچے کو کی تھی کہ بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا۔ 
چند برس قبل جب ایک امریکی صدر بھارت کے دورے پر آیا تو ایک ایک سراغ رساں کتے کو فائیو سٹار ہوٹل کے الگ الگ کمرے میں ٹھہرایا گیا۔ ایک کمپنی کو ٹائپسٹ کی ضرورت تھی۔ اس نے اخبار میں اشتہار دیا۔ امیدواروں میں ایک کتا بھی حاضر ہوا۔ اسے ٹائپ کرنے کے لیے ایک لکھا ہوا کاغذ دیا گیا۔ اس نے کاغذ منہ میں دبایا‘ کرسی پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور بالکل درست ٹائپ کر کے پیش کردیا۔ امتحان لینے والے نے کہا کہ یہ تو سب ٹھیک ہے مگر ہمیں ایسا ٹائپسٹ درکار ہے جو کم از کم دو زبانیں جانتا ہو۔ اس پر کتے نے… میائوں کی آواز نکالی۔

Monday, May 18, 2015

نصاب


’’آج میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اس سینیٹ میں تقریباً دس سے بارہ سال ہو چکے ہیں۔ لیکن جتنا شرمندہ میں آج ہوں شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ یہ ووٹ پارٹی کی امانت تھی جو میں نے پوری کی۔ ……… میں نے آج اپنے ضمیر کے خلاف ………‘‘ 
یہاں پہنچ کر جناب رضا ربانی کی آواز بھرا گئی۔ اور وہ سینیٹ میں اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ اپنے ضمیر کے خلاف یہ ووٹ انہوں نے اکیسویں ترمیم کے حق میں دیا تھا اس لیے کہ پارٹی کا حکم یہی تھا۔ 
رضا ربانی آئین کا دفاع کرنے والے نڈر سپاہی ہیں۔ آئین کی روح جب بھی کچلی جائے‘ ان کی آواز بھرا جاتی ہے۔ دلگیر ہو جاتے ہیں۔ آنکھیں چھلک چھلک اٹھتی ہیں۔ دستور کے لیے اتنی محبت‘ اتنا خلوص‘ اتنا سوزوگداز آج شاید ہی کسی اور دل میں ہو؟ انہیں اٹھارہویں ترمیم کا خالق سمجھا جاتا ہے جس نے بہت سے اختیارات مرکز سے لے کر صوبوں کو سونپ دیے‘ یہ ان کی بڑائی ہے کہ وہ اس کا کریڈٹ اپنے آپ کے بجائے ستائیس رکنی کمیٹی کو اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو دیتے ہیں! 
پرسوں ایک میڈیا ٹریننگ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ کو خطوط لکھے ہیں کہ آئین اور پارلیمانی تاریخ کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نوجوانوں کو یہ بھی معلوم ہو سکے کہ آئین کن مشکلات میں تیار کیا گیا اور اس کی کتنی اہمیت ہے؟ 
ہم سمجھتے ہیں کہ جناب رضا ربانی کے اس جذبے کی تفہیم اس کی اصل روح کے مطابق ہونی چاہیے۔ اور اس ضمن میں وہ تمام اقدامات‘ وہ تمام واقعات اور وہ تمام سانحے تاریخ کا حصہ بنانے چاہئیں جنہوں نے ہمارے آئین کا چہرہ وقتاً فوقتاً مسخ کیا۔ جناب رضا ربانی یہ بھی ضرور چاہیں گے کہ نوجوانوں کو آرڈیننسوں کی سیاہ تاریخ سے بھی آگاہ ہونا چاہیے۔ مثلاً جب 2007ء کے اکتوبر میں ایک آمر نے این آر او جاری کیا تو اگر میڈیا والے جناب رضا ربانی کی خدمت میں حاضر ہوتے تو وہ اُس وقت بھی ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کے موتی دیکھتے۔ ان کی آواز اس وقت بھی یقینا بھرا گئی ہو گی۔ نوجوانوں کے نصاب میں اس حقیقت کا تذکرہ ضرور ہونا چاہیے کہ اس آرڈیننس‘ یعنی این آر او کی رُو سے 1986ء اور 1999ء کے درمیان جن سیاست دانوں‘ جن سیاسی کارکنوں اور نوکر شاہی کے جن نمائندوں نے غبن‘ منی لانڈرنگ‘ قتل اور دہشت گردی سمیت جو جو جرائم کیے تھے‘ وہ سب معاف کر دیئے گئے۔ نصاب میں یہ بھی لکھا جانا چاہیے کہ اس عام معافی سے فائدہ اٹھانے والوں میں آصف علی زرداری‘ بے نظیر بھٹو‘ حاکم علی زرداری‘ رحمن ملک‘ سلمان فاروقی‘ سراج سلیم شمس الدین جیسے پارٹی کے زعما اور وفادار شامل تھے۔ 
جناب رضا ربانی نے بالکل درست فرمایا کہ جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کر کے صوبائی خودمختاری سلب کر لی اور صدارتی نظام کو مضبوط کر لیا۔ بالکل درست فرمایا آپ نے۔ صرف اتنی گزارش ہے کہ قوم کے نونہالوں کو مجلسِ شوریٰ کے اُن ارکان کے ناموں سے بھی آگاہ کیا جائے جنہوں نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔ پیپلز پارٹی کے افراد تو ان میں یقینا نہیں ہوں گے۔ 
اور پھر نوجوانوں کے نصاب میں صرف پارلیمانی تاریخ ہی کیوں؟ پوری کی پوری تاریخ کیوں نہ پڑھائی جائے۔ کہیں نوجوان یہ نہ سمجھ لیں کہ ملک میں جو کچھ ہوتا رہا‘ آئین کے خلاف ہوتا رہا کیونکہ جب ملک میں جناب رضا ربانی جیسے آئین کے سپاہی موجود تھے تو کس کی مجال تھی کہ آئین کی خلاف ورزی کرتا! مثلاً سوئٹزرلینڈ کا ہماری تاریخ میں کیا کردار رہا ہے؟ اس سے آئندہ نسل کو ضرور واقفیت ہونی چاہیے۔ سوئٹزرلینڈ کی عدالت میں مشہور مقدمہ کون سا تھا؟ اس کی بنیاد کیا تھی؟ یہ کون تھا جو لندن سے خفیہ طور پر سوئٹزرلینڈ آیا تھا؟ جو بارہ کارٹن سوئٹزرلینڈ سے پاکستانی سفارت خانے نے حاصل کیے ان میں کون کون سی دستاویزات تھیں؟ یہ کارٹن اس وقت کہاں ہیں؟ 
پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے نصاب میں یہ واقعہ بھی ضرور لکھا جانا چاہیے کہ 2010ء میں جب ملک میں سیلاب زوروں پر تھا‘ پندرہ سو سے زیادہ پاکستانی ہلاک ہو گئے 
تھے اور پچاس لاکھ افراد بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے پڑے تھے تو ملک کی کون سی اعلیٰ شخصیت فرانس کی ایئرفورس کے ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر اندرونِ فرانس تشریف لے گئی تھی۔ سولہویں صدی میں تعمیر کیا جانے والا یہ محل جو بادشاہ فلپ ششم کی بیوہ کے لیے بنایا گیا تھا‘ کس پاکستانی کی ملکیت تھا۔ موسم گرما وہاں کون باقاعدگی سے گزارتا تھا؟ پاکستان کی تاریخ میں سرے محل کی کیا اہمیت ہے؟ انٹرنیٹ کے وہ لنک بھی شامل نصاب ہونے چاہئیں جو دبئی کا ایک عظیم الشان‘ پرشکوہ‘ محل دکھاتے ہیں۔ محل تو شاید اس عمارت کے لیے مناسب نام بھی نہیں! یہ تو بادلوں سے اترا ہوا پرستان ہے۔ ایک ایک فانوس‘ ایک ایک چھت‘ ایک ایک دیوار‘ ایک ایک کرسی‘ ایک ایک ڈیکوریشن پیس ایسا ہے کہ انسانی آنکھ چندھیا سکتی ہے مگر بھرپور نظر سے دیکھ تک نہیں سکتی۔ نصاب میں سینئر صحافی انجم نیاز کا وہ مضمون ضرور شامل ہونا چاہیے جس میں اس پُراسرار‘ طلسماتی اپارٹمنٹ کا ذکر ہے جو سیما بوئسکی نے فروخت کیا تھا۔ نوجوان یوں بھی طلسماتی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہیں۔ مشہور تھا کہ اس اپارٹمنٹ کو خریدنے والا بچ نہیں پاتا۔ یہ ضرور بتانا چاہیے کہ یہ محل نما بے نظیر و بے مثال اپارٹمنٹ سیما سے کس نے خریدا تھا اور کتنے میں خریدا تھا؟ 
جناب یوسف رضا گیلانی اور جناب راجہ پرویز اشرف کے ادوارِ حکومت ہماری تاریخ‘ بالخصوص پارلیمانی تاریخ کے وہ درخشاں ابواب ہیں جو نصاب کا لازمی حصہ بننے چاہئیں۔ اس زمانے میں عجیب و غریب اصطلاحات وضع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بچے بچے کی زبان پر چڑھ گئیں مثلاً ایم بی بی ایس۔ جو مخفف تھا‘ میاں بیوی بچوں سمیت کا! کچھ واقعات وزارت حج میں بھی رونما ہوئے۔ زنداں کے ساتھیوں کو بھی کچھ ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ بالخصوص یہ مکالمہ جو کل جناب ہارون الرشید نے روایت کیا ہے‘ پرائمری جماعت سے لے کر پی ایچ ڈی تک ہر نصاب کا لازمی حصہ بنایا جانا چاہیے… 
’’شاہ محمود قریشی نے مجھ سے بیان کیا زرداری صاحب سے میں نے عرض کیا یوسف رضا گیلانی دھڑا دھڑ مال بنا رہے ہیں۔ ایشیا کے نیلسن منڈیلا کا جواب یہ تھا تو اس میں کیا حرج ہے؟‘‘ یہ واقعہ اگرچہ ہماری تاریخ کا سنگِ میل نظر آتا ہے مگر چونکہ اس میں اٹھارہویں ترمیم کی کوئی بے حرمتی نہیں ہوئی‘ اور آئین پر اس سے کوئی داغ نہیں لگا‘ اس لیے عین ممکن ہے جناب رضا ربانی کی آنکھوں میں موتیوں جیسے آنسو بھر آئیں نہ آواز بھر آئے مگر اس کے باوجود اس مکالمے کو نصاب میں مناسب مقام ضرور ملنا چاہیے! 
ستمبر 2008ء سے لے کر ستمبر 2013ء تک کا عرصہ پاکستانی تاریخ کے سلگتے ریگزار میں نخلستان کی طرح ہے۔ بہتے پانیوں کے چشموں سے بھرپور ہرا بھرا نخلستان! بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بعد اگر کوئی مخلص اور بے لوث قیادت اس ملک کو نصیب ہوئی تو وہ اسی مدت کے دوران ہوئی۔ آئین اور قانون سے اس عرصہ میں سرِ مو انحراف نہ کیا گیا۔ تمام تعلیمی اداروں میں اور تمام کلاسوں‘ تمام درجوں میں ان پانچ سالوں کی تاریخ کو نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔

Saturday, May 16, 2015

سودا بازی

شہر میں میٹرو بس متعارف ہو رہی تھی۔ یہ ٹرانسپورٹ کا جدید ترین نظام تھا۔ آمدو رفت کا‘ نقل و حمل کا سارا سسٹم ماڈرن خطوط پر ڈھالا جا رہا تھا۔ اب کوئی بھی شخص تھری پیس سوٹ پہن کر نکٹائی لگا کر بریف کیس ہاتھ میں لیے راولپنڈی صدر سے اسلام آباد اور نیشنل اسمبلی سے صدر تک ‘باعزت طریقے سے آ جا سکتا تھا۔ اب اس روٹ پر رہنے والوں کو اپنی گاڑی سے سفر کرنے کی ضرورت ہو گی نہ بسوں‘ ویگنوں اور سوزوکیوں میں دھکے کھانے پڑیں گے۔ لیکن ڈاکٹر نعیم خواجہ کے لیے یہ سہولت بے معنی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں پہلی بار ڈاکہ پڑا تو وہ کئی دن خاموش رہے۔ جس زمانے میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے‘ ان کے اکثر ہم جماعت بیرون ملک چلے جانے کی منصوبہ بندی اسی مرحلے پر کر چکے تھے۔ اکٹھے بیٹھتے تو یہی موضوع زیر گفتگو رہتا۔ کوئی امریکہ جانے کے لیے وہاں کے امتحان یو ایس ایم ایل ای کی تیاری کر رہا تھا‘ کوئی برطانیہ کا عزم رکھتا تھا اور اس امتحان کے پاس کرنے کی فکر میں تھا جو برطانیہ ہجرت کرنے والے ڈاکٹروں کے لیے لازمی تھا۔ جب وہ کہتے کہ انہوں نے یہیں رہنا ہے‘ اسی دھرتی پر جینا اور مرنا ہے‘ یہیں کے مریضوں کا علاج کرنا ہے تو ساتھیوں میں سے کچھ یہ سن کر خاموش رہتے‘ کچھ ہنس دیتے اور چند ایسے بھی تھے جو کہتے ’’بے وقوف! پچھتائو گے! ‘‘
ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں پہلی بار ڈاکہ پڑا تو وہ خود موجود نہ تھے۔ سٹاف کو اسلحہ دکھا کر لوٹ لیا گیا۔ لوٹ کیا لیا گیا‘ جو تھوڑی بہت نقدی تھی‘ وہ لے گئے‘ لیکن دونوں ملازم نفسیاتی مریض بن گئے۔
کچھ عرصہ بعد دوسرا ڈاکہ پڑا۔ ڈاکٹر صاحب کو وہ زمانہ خوب خوب یاد آیا جب ان کے ہم نشین دساور جانے کی باتیں کیا کرتے تھے اور وہ انہیں حب الوطنی کا درس دیا کرتے تھے۔ ان میں سے چند دوسرے ملکوں میں مستحکم حیثیتیں حاصل کر چکے تھے۔ لندن ‘ نیو یارک اور میامی میں خوبصورت گھروں میں رہتے تھے۔ اپنے اپنے آبائی علاقوں میں‘ کچھ نے خیبر پختون خوا میں اور کچھ نے پنجاب میں زرعی فارم خرید لیے تھے۔ ملازموں کی ریل پیل تھی۔ دو تین سال میں ایک بار آتے تو جاگیرداروں سی آن بان رکھتے۔
دوسرے ڈاکے کی بات ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے پائوں اب کے اکھڑ گئے۔ پائوں اس لیے کہ پہلے دل اکھڑا   ؎
دل کے ڈوبے سے مٹی دست شناور کی سکت
موج کی طغیانیوں سے ڈوبتا کوئی نہیں
ایک ہم جماعت کو لندن ٹیلی فون کیا اور ہجرت کے ارادے کا اظہار کیا۔ اس طعن و تشنیع اور ہنسی مذاق کے بعد‘ جو دیرینہ دوستوں کا شیوہ ہوتا ہے‘ اس نے رہنمائی کی‘ ضروری مراحل سے آگاہ کیا اور کچھ ایڈریس ای میل کیے جہاں سی وی بھیجنا تھا مگر بھنک ڈاکٹر صاحب کی والدہ کے کان میں پڑ گئی۔ بوڑھی ماں کے موتیوں جیسے آنسوچاندی جیسے رخساروں پر گرے تو ڈاکٹر صاحب کے پائوں ایک بار پھر اکھڑ گئے ۔ ’’نہیں! میں ماں کو روتا چھوڑ کر نہیں جا سکتا‘‘
مگر دوسرا ڈاکہ دوسرا تھا‘ آخری نہیں تھا۔
یہ گزشتہ جمعہ کا واقعہ ہے۔ شام کے ساڑھے آٹھ بجے تھے ڈاکٹر صاحب جس عظیم الشان سرکاری ہسپتال میں دن بھر کام کرتے تھے وہاں سے آئے ہی تھے۔ راولپنڈی کے پرانے شہر کا یہ علاقہ‘ جہاں ان کا کلینک ہے‘ پررونق ہے‘ گلی کوچے لوگوں سے چھلکتے ہوئے اور دکانیں گاہکوں سے لبریز۔ کلینک کے سامنے موٹر سائیکل رکا۔ تین آدمی اترے۔ ایک ریوالور تھامے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ دو نقاب پوش اندر آئے… اسرافیل جیسی بلند آواز نکالی۔ کیشئر سے نقدی چھینی‘ موبائل فون لیے اور جاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے‘ ان کے پاس ڈیڑھ دو لاکھ کی نقدی تھی جو فارمیسی کی ادویات خریدنے کے لیے رکھی تھی۔ آپ اندازہ لگائیے۔ایک میڈیکل سپیشلسٹ‘ وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار ‘ادھیڑ عمر مریضوں کی مسیحائی میں رات دن مصروف۔ ریوالور اس کے سر پر رکھا ہے۔ ’’تم‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جا رہا ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ ایک لمحے سے بھی کم تھا مگر والدہ کا دست دعا قدرت کو پیارا لگا   ؎
میانِ شہ رگ و شمشیر کچھ نہ تھا لیکن
میں بچ گیا کہ فرشتے مرے موافق تھے
جان بچ گئی۔ کلینک تیسری بار لوٹ لیا گیا۔ ملازم ایک بار پھر نفسیاتی مریض بن گئے۔ پولیس سٹیشن صرف چار سو گز کے فاصلے پر تھا۔ وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے۔ پولیس آئی ’’شواہد‘‘ جمع کیے گئے۔ ’’تفتیش‘‘ ہوئی۔ گھسے پٹے سوالات۔ چائے کا دور بھی یقیناً چلا ہو گا۔ محلے کے مکینوں نے احتجاج کیا گزشتہ دو ماہ کے دوران ڈکیتی کے کئی واقعات اسی علاقے میں ہو چکے تھے۔ایک پی سی او کا مالک بھی گولی کا نشانہ بن چکا تھا۔
ڈاکٹر صاحب اس بار ہجرت کر جانے میں کامیاب ہو جائیں گے یا والدہ ‘ خدا انہیں سلامت رکھے‘ اب کے بھی اجازت نہیں دیں گی؟اجازت مل گئی تو ڈاکٹر صاحب کے لیے میٹرو بس اور میٹرو بس کا لایا ہوا سارا نیا کلچر بے معنی ہو گا۔ وہ اس جھنجھٹ ہی سے چھوٹ جائیں گے۔ اجازت نہ ملی تو وہ حکمرانوں سے ایک سودا بازی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ٹوٹی ہوئی بسوں میں دروازوں سے لٹک کر سفر کرنے کو ترجیح دیں گے۔ استدعا ان کی صرف یہ ہے کہ ڈاکوئوں کا قلع قمع پہلے کیا جائے اس لیے کہ جو منظر نامہ اس وقت موجود ہے‘ اس میں میٹرو بس سے ڈاکو ہی فائدہ اٹھائیں گے۔ شہریوں کی جیب میں ڈاکوں کے بعد کرائے کی رقم ہی کہاں ہوگی!

Friday, May 15, 2015

پھانسی سے پہلے اور پھانسی کے بعد


نائن الیون سے پہلے کی دنیا اور تھی۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا اور ہے۔ بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جوتاریخ کی دھرتی پر مینار کی طرح نصب ہو جاتے ہیں۔ دور سے نظر آتے ہیںاور عام گفتگو سے لے کر دانشوروں کی تقریروں تک… ہر موقع پر ریفرنس کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔
صولت مرزا کی پھانسی عالمی تاریخ کے تناظر میں کسی خاص کیا، عام اہمیت کی بھی حامل نہیں… کہاں نائن الیون، کہاں انقلاب فرانس، کہاں 1917ء کا بالشیویک انقلاب، کہاں 1526ء میں مغلوں کی آمد کہ سلاطین دہلی کے تین سو سالہ اقتدار کی تدفین ہو گئی، کہاں پلاسی کی لڑائی جس نے فیصلہ کر دیا کہ اب کے حکومت کرنے والے درہ خیبر سے نہیں، کلکتہ کے راستے آئیں گے۔ کراچی کی حد تک اور پاکستان کی حد تک صولت مرزا کی پھانسی جس اہمیت کی حامل ہے وہ بظاہر ابھی تک ایک چھوٹے سے نقطے سے زیادہ نہیں۔ مگر ساحل پر کھڑے ہو کر دیکھنے والوں کو دور سے جو نقطہ نظر آتا ہے، وہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ ایک طویل و عریض اور بلند و بالا جہاز کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
سیاسی مسخروں کے وہ بیانات جوان کی اپنی پاکیزگی اور ان کی سیاسی پارٹیوں کی معصومیت کے بارے میں آئے دن سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں، کسی باہوش شہری کو کبھی بھی متاثر نہیں کرتے۔ سننے اور پڑھنے والوں کو تو خیر معلوم ہوتا ہے، خود بیان دینے والوں کو بھی بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور منافقت کی چوٹی پر کھڑے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کراچی 
کی سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ موجود ہیں (انہیں عسکری کا نام دینا بھی ستم ظریفی سے کم نہیں۔ ان کا نام پارٹیوں کے ’’مافیا ونگ‘‘ ہونا چاہیے۔) سب جانتے ہیں کہ مارنے والے جو بھی ہوں، مروانے والے بڑے بڑے مناصب پر بیٹھے ہیں، خواہ یہ مناصب سیاسی حوالے سے ہوں یا کسی اور حوالے سے۔ صولت مرزا کی پھانسی کے بعد کسی کے کہنے پر چوں چرا کہے بغیر کوئی کسی کو قتل نہیں کرے گا۔ کرے گا تو سو بار سوچے گا۔ صولت مرزا نے پھانسی چڑھنے سے کچھ دن پہلے مبینہ ویڈیو بیان کے ذریعے جن افراد کا ذکر کیا تھا، وہ معمولی افراد نہیں۔ قوت کا مرکز رہے ہیں اور ایک اعتبار سے اب بھی طاقت ور ہیں۔ یہ حقیقت کہ وہ سب صولت مرزا سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر سکے، کراچی کے مستقبل کے لیے ایک خوش آئند علامت ہے۔ قاتل، عمومی طور پر دواقسام سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک کرائے کے پیشہ ور قاتل… انہیں یہ تسلی دینے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ انہیں بچا لیا جائے گا۔ یہ ان کا اپنا درد سر ہوتا ہے۔ یہ خالص ’’بزنس‘‘ ہے اور اس میںمرکزی اہمیت اس ’’کرائے‘‘ کی ہوتی ہے جو قاتل کو دیا جاتا ہے۔ قاتلوں کی دوسری قسم وہ ہے جو کسی جماعت، کسی نظریے یا کسی گروہ سے وابستہ ہوتے ہیں اور اس گروہ کے چلانے والوں کے احکام کے پابند ہوتے ہیں۔ یہاں اہمیت رقم 
کی نہیں، گروہ سے وفاداری کی ہوتی ہے۔ حکم دینے والے اس امر کے ذمہ دار ہوتے ہیں کہ قاتل کی حفاظت کریں۔ صولت مرزا دوسری قبیل کا قاتل تھا۔ اس نے موت سے پہلے جو بیانات دیئے، وہ صحیح ہیں یا غلط، مگر یہ حقیقت تو جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ پندرہ سال تک صولت مرزا سزا سے بچا رہا۔ اینٹی ٹیررازم کورٹ نے مئی 1999ء میںصولت مرزا کو سزائے موت دی۔ سندھ ہائی کورٹ نے 21 جنوری 2000ء کو‘ سپریم کورٹ نے 14 ستمبر 2001ء کو اپیل نامنظور کر دی۔ 2006ء میں جیل کا ایک اہلکار امان اللہ نیازی قتل ہو گیا۔ یہ اسی جیل میں ڈیوٹی دے رہا تھا جس میں صولت مرزا کو رکھا گیا تھا۔ اگرچہ میڈیا میں یہ خبریں ریکارڈ پر ہیں کہ کس کس موقع پر کس کس کے درمیان بات چیت کا موضوع صولت مرزا کا ’’مستقبل‘‘ رہا۔ مگر پھر بھی کہنا یہی چاہیے کہ سپریم کورٹ کے 2001ء کے فیصلے اور 12 مئی کی پھانسی کے درمیان جو پندرہ سالہ عرصہ گزرا‘ اس میں مافوق الفطرت قوتیں، جنات، پریاں، اڑن کھٹولے اور فرشتے صولت مرزا کو بچانے کے لیے سرگرم کار رہے۔
ایک دلچسپ صورتحال یہ بھی ہے کہ 12 مئی صبح چار بجے صولت مرزا کو پھانسی دی جانی تھی۔ اس سے ایک دن پہلے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں گورنر سندھ سے استعفیٰ مانگ لیا گیا۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ وہ کارکنوں کا قتل عام رکوانے میں ناکام رہے۔ مبینہ ویڈیو پر صولت مرزا نے کہا تھا کہ گورنر سندھ کے ذریعے مجرموں کو تحفظ دلایا جاتا تھا اور ایک سیاسی جماعت کے عہد اقتدار میں جیل میں سہولیات بھی دی گئی تھیں۔ کیا گورنر سندھ سے مستعفی ہونے کے مطالبے کا کوئی تعلق صولت مرزا کو چندگھنٹوں بعد دی جانے والی پھانسی سے بھی تھا؟ اس سوال کا جواب تاریخ نفی یا اثبات میں ضرور دے گی‘ مگر یہ نہیں معلوم کہ کب دے گی!
صولت مرزا کی کے ای ایس سی کے ایم ڈی شاہد حامد اور ان کے سٹاف کے دو افراد سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ کبھی شاہد حامد سے ملا بھی نہ ہو گا۔ شاہد حامد کو بھی معلوم نہ تھا کہ صولت مرزا کون ہے۔ اسی طرح‘ بالکل اسی طرح میاں محمد عباس، رانا افتخار احمد، ارشد اقبال اور غلام مصطفی کی بھی نواب محمد احمد خان قصوری سے کوئی دشمنی نہیںتھی۔ گمان غالب یہی ہے کہ ان افراد کی نواب محمد احمد خان قصوری سے کبھی ملاقات بھی نہ ہوئی ہو گی نہ ہی مقتول نواب صاحب ان اشخاص کو جانتے ہی ہوں گے! ان چاروں کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی پھانسی دی گئی۔ عدالت نے اپنے طویل فیصلے میں ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں یہ بھی لکھا کہ
For his own personal ends he has turned those persons into criminals and hired assassins and thus corrupted them.
یعنی اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے اُس نے ان اشخاص کو مجرم اور کرائے کا قاتل بنا دیا اور یوں انہیں بدعنوان بنا دیا۔
قانون کے طالب علم کے ذہن میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا یہ اصول صرف ذوالفقار علی بھٹو کے لیے تھا؟ یا صولت مرزا نے جو قتل کیے تھے، وہ اس نے اپنے طور پر کیے تھے، کسی اور کے کہنے پر نہیں کیے تھے!
اصولی طور پر یہ سوال ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت کو اٹھانا چاہیے تھا‘ مگر تاریخ بھٹو کی سیاسی جماعت کو، جوکبھی تند کوہستانی ندی کی طرح تھی، میدان میں بہنے والے آہستہ رو نالے کی صورت دے چکی ہے۔ اب اس جماعت کی ترجیحات اور ہیں۔ اب اس جماعت کے نظریاتی کارکن آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالتے وقت آنکھیں چھلکا لیتے ہیں مگر کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے محلات دیکھ کر ان کی آنکھیں کسی بھی قسم کے تاثر سے خالی ہوتی ہیں! یکسر خالی!

Saturday, May 09, 2015

ہے کوئی زینل بیگ؟

اگرآپ برصغیر پاک و ہندکا نقشہ غور سے دیکھیں تو جنوبی حصے کے مغربی ساحل پر ایک ننھی منی ریاست نظر آئے گی جو پورے نقشے پر ایک نقطے سے زیادہ نہیں! رقبے کے اعتبار سے یہ سب سے چھوٹی بھارتی ریاست ہے۔ اس کے ایک طرف مہاراشٹر اور دوسری طرف کرناٹک ہے۔ یہ گوا ہے۔
گوا کی تاریخ دلچسپ ہے۔ کبھی اس پر دہلی کے سلاطین کا قبضہ تھا۔ پھر یہ جنوب کی دو طاقتوں کے درمیان فٹبال کی طرف لڑھکتا رہا۔ کبھی وجیانگر کی ہندو ریاست کا حصہ رہا اور کبھی بہمن مسلمان حکومت کا۔1510ء میں پرتگال کے بحری بیڑے نے اسے بیجاپور کے سلطان عادل شاہ سے چھین لیا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پرتگال کا قبضہ اس پر ساڑھے چار سو سال رہا۔ انگریزوں نے برما سے لے کر وزیرستان تک اور نیپال سے لے کر سری لنکا تک ایک ایک انچ پر قبضہ کرلیا مگر گوا کی پرتگالی ریاست کو نہ چھیڑا۔ یہاں تک کہ برصغیر تقسیم ہوگیا۔ 1961ء میں بھارت نے لشکر کشی کرکے اسے ضم کرلیا۔ 
ساڑھے چار سو سال تک گوا نصرانیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا اور جہاںتک ہوسکا ، جب بھی ہوسکا، علاقے کی سیاست میں بھی دخیل رہا۔ سترہویں صدی کا آغاز ہوا تو ایران کے شاہ عباس صفوی اور سلطنت عثمانیہ کی باہمی دشمنی عروج پر تھی۔ گوا کے بڑے پادری نے گوا کے پرتگالی حکمران کو حکم دیا کہ ایرانی بادشاہ کے پاس ایلچی بھیجے۔ اس مشہور ایلچی کا نام ڈی گووا تھا۔ ایران کے شاہ عباس نے یورپی طاقتوں سے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف مدد مانگی تھی۔ ڈی گووا کو یہ پیغام دے کر ایران بھیجا گیا کہ ہاں! یورپ ترکوں سے جنگ کرے گا! ڈی گووا کا یہ پہلا سفر 1602ء میں تھا۔1608ء میں اسے دوبارہ بھیجا گیا۔ اب کے اس کے پاس ہسپانیہ کے بادشاہ کا خط بھی تھا۔ اس خط میں ہسپانوی بادشاہ نے شاہ عباس کی تعریف کی تھی کہ اس نے ترکوں کا دماغ ’’درست‘‘ کیا ہے۔ شاہ عباس اب کے غصے میں تھا۔ اس کی توقع کے مطابق ہسپانیہ نے ترکوں پر حملہ نہیںکیا تھا۔
ڈی گووا نے دو سفرنامے لکھے جو اس زمانے کے ایران اور علاقائی سیاست کے متعلق بہت کچھ بتاتے ہیں۔ ہابس برگ کے جرمن شہنشاہ نے شاہ عباس سے پکا وعدہ کیا تھا کہ وہ سلطنت عثمانیہ پر حملہ کرے گا۔ ڈی گووا لکھتا ہے کہ اس ’’دوستی‘‘ کی وجہ سے شاہ عباس، جرمن شہنشاہ سے اس قدر محبت کرتا تھا کہ اس نے اپنی خوابگاہ کے دروازے پر اس کی تصویر آویزاں کی ہوئی تھی اور اندر جاتے وقت احتراماً اس کے سامنے سر جھکا لیتا تھا! جب پوپ نے شاہ عباس کے پاس اپنی سفارت بھیجی تو ساتھ ہی بائبل کا ایک دیدہ زیب نسخہ بھی بھیجا۔ اتفاق سے شاہ عباس نے جو صفحہ کھولا اس پر ایک تصویر تھی۔ اس تصویر میں سینٹ مائیکل نے جھکے ہوئے شیطان پر تلوار تانی ہوئی تھی۔ شاہ عباس نے پوچھا’’تلوار کس پر سونتی گئی ہے ’’پادری سفیر نے جواب دیا’’شیطان پر‘‘ اس پر شاہ عباس ہنسا اور کہنے لگا۔ میں سمجھا ’’ترک پر‘‘۔ ساتھ ہی اس نے دربار میں موجود ترک سفیر کو تمسخر سے دیکھا۔ ڈی گووا لکھتا ہے کہ شاہ عباس عثمانیوں کے سفیر کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا!
پوپ کے اس سفیر کے ہاتھ شاہ عباس نے جوابی مکتوب بھیجا۔ اس نے یورپی بادشاہوں کو ایک مکمل منصوبہ پیش کیا۔ اس کی تجویز یہ تھی کہ یورپ کے نصرانی بادشاہ مل کر سلطنت عثمانیہ پر حملہ کریں۔ شام کے ساحل پر اتریں۔ پھر حلب پر حملہ آور ہوں۔ مشرق سے شاہ عباس اناطولیہ پر حملہ کرے گا۔ یوں ترک دونوں طرف سے پھنس جائیں گے۔ ایران نے پوپ سے یہ بھی کہا کہ یورپی حکومتوں پر سلطنتِ عثمانیہ سے تعلقات ختم کرنے کیلئے زور ڈالے۔ یہ بھی کہ ہسپانیہ قبرص پر قبضہ کرلے اور پھر حلب پر لشکر کشی کرنے کیلئے اسے مرکز کے طور پر استعمال کرے۔
کتنی سیہ بختی تھی مسلمانوں کی کہ وہ ایک دوسرے کو ختم کرنے کیلئے کبھی پوپ سے مدد مانگتے تھے اور کبھی ہسپانیہ اور دیگر عیسائی حکومتوں سے۔ حقیقت یہ تھی کہ عیسائی طاقتیں ایران کی خیر خواہ نہیں تھیں۔ اور ترکوں سے تو وہ جنگ کر ہی رہی تھیں۔ عبرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ شاہ عباس نے ایک سفیر بھیجا جو چھ سال تک یورپی دارالحکومتوں میں سرگرم کار رہا کہ ترکوں کے خلاف مدد حاصل کی جائے۔ اس کا نام زینل بیگ تھا۔ 1609ء میں اس نے شاہ عباس کو صاف الفاظ میں لکھا کہ نصرانی بادشاہوںکے دوستی کے دعوے جھوٹے ہیں۔ ’’وہ صرف یہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ترک اور ایرانی آپس میں لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو نیست و نابود کردیں اور یوں مسلمانوںکا مذہب ہی مٹ جائے‘‘۔
زینل بیگ کے اس خط کو چار سو چھ سال ہو گئے ہیں۔ چار صدیاں! آپ کا کیا خیال ہے ان چار سو سالوں میں مسلمان زینل بیگ کی بات سمجھ سکے ہیں؟ آج بھی صورتحال وہی ہے۔ بلکہ بدتر ہے۔ اس وقت صرف ایران اور سلطنتِ عثمانیہ مدمقابل تھے۔ آج بدقسمتی سے ایران کے تعلقات ترکی کے ساتھ ساتھ عربوں سے بھی خراب ہیں اور اب ایران بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کی معیشت پر ضرب لگانا چاہتا ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ مل کر گوادر بندرگاہ قائم کر رہا ہے اور چین ہی کے ساتھ مل کر شمال سے جنوب تک وسیع و عریض جدید شاہراہ بھی بنا رہا ہے۔ اگر ایران بھارت کے بجائے پاکستان کے ساتھ مل کر گوادر سے فائدہ اٹھاتا تو وسط ایشیا، پاکستان اور ایران مل کر اپنی اپنی اقتصادیات کو آگے… بہت آگے… لے جا سکتے تھے۔ لیکن اس کے بجائے، ایران نے گوادر کے مقابلے پر، اس سے ذرا ہی دور، پاکستانی سرحد کے بالکل قریب چاہ بہار کی بندرگاہ کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے میں پشت پناہی بھارت کر رہا ہے۔ بھارت کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ وسط ایشیا گوادر کو استعمال کرکے پاکستان کو فائدہ نہ پہنچائے۔ اتحاد بین المسلمین کے نعرے تو سننے کو بہت ملتے ہیں لیکن اس کے عملی تقاضے کوئی نہیں پورے کرتا۔
یمن میں دیکھئے، صورتحال کتنی حوصلہ شکن ہے۔ حوثی بھی مسلمان ہیں۔ سعودی بھی مسلمان ہیں۔ مگر آپس میں سب دست و گریبان ہیں۔ مسلمان حکمرانوں پر لازم تھا کہ وہ درمیان میں پڑ کر یہ جنگ روکتے‘ لیکن پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ میجرجنرل محمد علی جعفری نے جو بیان جاری کیا ہے وہ حوصلہ شکن ہی نہیں، یاس انگیز بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حوثیوں کی کارروائی ایرانی انقلاب کی ایک نئی فتح ہے۔ تہران میں نئے کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے بتایا کہ ایرانی انقلاب کو بیرونِ ملک بطریقِ احسن برآمد کیا جا رہا ہے۔
اگر یہ انقلاب یورپ اور امریکہ کو برآمد کیا جاتا تو تمام مسلمانوں کیلئے باعث فخر ہوتا مگر یمن جیسے ملک تو پہلے ہی تار تار اور تباہ و برباد ہیں۔ مرے کو مارے شاہ مدار۔ اس برآمد میں آخر کیا حکمت ہے اور کس کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے؟
ہم ایران کے خلاف ہیں نہ کسی اور طاقت کے‘ ہم پاکستانی مسلمان تو اقبال کے لفظوں میں یہ خواب دیکھ رہے ہیں۔
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا 
شاید کرئہ ارض کی تقدیر بدل جائے
اس کے لئے ضروری ہے کہ ایران بیک وقت ترکوں، عربوں اور پاکستانیوں سے مخاصمت کا رویہ نہ رکھے۔ عربوں پر بھی لازم ہے کہ دشمنوں کی چال کو سمجھیں اور ترکی‘ ایران اور پاکستان کے ساتھ مل کر ، ایک میز کے گرد سر جوڑ کر بیٹھیں۔ دوریاں ختم ہوں، وگرنہ ہمارے جو دوست بار بار کہتے ہیں کہ چودہ صدیوں میں ملت متحد نہ ہوسکی تو اب کیسے ہوگی، ان کا کہنا درست ثابت ہوگا!
چار صدیاں گزر چکیں۔ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں تھے۔ خم ٹھونکے، ایک دوسرے کے گلے کو پکڑنے کے لئے پہلے سے زیادہ آمادہ ۔
ہے کوئی زینل بیگ جو ہمیں ایک بار پھر سمجھائے؟

Monday, May 04, 2015

بھنگی


نام نہ جانے اس کا کیا تھا۔ سب ڈوری کہہ کر پکارتے تھے۔ شاید بہری تھی اس لیے ڈوری کہلاتی تھی۔ چھوٹا سا قد‘ چہرے پر جھریوں کا جال۔ دائیں طرف ٹوکرے کو کمر اور بازو کے درمیان رکھے‘ بائیں ہاتھ میں جھاڑو۔ ڈوری صبح صبح آتی تھی۔ قصبے کی جس گلی میں ہم رہتے تھے‘ اُس کے سارے گھر اُسی کے ذمے تھے۔ میرا سِن کچا تھا۔ بہت سی باتیں اُس زمانے کی یادداشت کی گرد میں کھو گئی ہیں۔ مگر اُس بڑھیا کا ہر روز آنا‘ خاموشی سے سیڑھیاں چڑھ کر بالائی منزل پر جانا‘ دور ایک کونے میں واقع بیت الخلا کو صاف کرنا اور پھر قدموں کی آواز پیدا کیے بغیر سیڑھیاں اُتر کر باہر چلے جانا آج بھی یوں یاد ہے جیسے کل کی بات ہے۔ 
آج کے بہت سے بچوں‘ بلکہ شاید نوجوانوں کو بھی نہیں معلوم کہ فلش سسٹم سے پہلے کون سا ’’سسٹم‘‘ تھا اور اُس سسٹم میں بھنگی کی کیا اہمیت تھی۔ دو دن… صرف دو دن… بھنگی ہڑتال کرتے تو قیامت آ جاتی۔ سب معتبروں کو‘ اکڑی ہوئی گردنوں کو اور پھولی ہوئی توندوں کو دن میں تارے نظر آ جاتے۔ بھنگی کا کوئی نعم البدل نہ تھا۔ وہ معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی جیسا اہم تھا۔ 
کفار کی ایجاد‘ فلش سسٹم‘ ہم مسلمانوں کے ہاں بھی بالآخر پہنچ گئی۔ اس ایجاد کو انگریزوں نے کئی مراحل کے بعد وہ صورت بخشی جو آج رائج ہے۔ 1596ء میں ملکہ برطانیہ کے لیے یہ سسٹم لگایا گیا۔ لیکن ملکہ کو شکایت تھی کہ اس سے شور بہت برپا ہوتا ہے۔ وسیع کمرشل پیمانے پر اس کی پیداوار 1851ء کے بعد شروع ہوئی۔ جو علاقے اب پاکستان میں ہیں‘ ان میں اس ایجاد کو آتے آتے ایک صدی سے زیادہ لگ گئی۔ فربہ احباب اور کمزور بوڑھوں کے لیے یہ ایسی سہولت ہے جس کا اندازہ صرف وہی کر سکتے ہیں! 
آج کے بچے کو جہاں یہ نہیں معلوم کہ فلش سسٹم سے پہلے کیا ہوتا تھا‘ وہاں اُسے یہ بھی نہیں معلوم کہ بھنگی کسے کہتے ہیں۔ باتھ روموں کی صفائی کرنے والے کو اب خاکروب کہتے ہیں۔ سینیٹری ورکر بھی کہا جاتا ہے۔ اس پیشے کے لیے بھنگی کے علاوہ اور بھی الفاظ رائج تھے جو انسان کی عزتِ نفس کے اعتبار سے مستحسن نہیں تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اصطلاحات بدلتی گئیں۔ 
کیا کسی کو اُس کے پیشے کے لحاظ سے مخاطب کیا جا سکتا ہے؟ جب ہم کسی دکان میں داخل ہوتے ہیں تو کیا ہم یہ کہتے ہیں ’’دکاندار! تمہارے پاس فلاں شے ہے؟‘‘۔ گوشت خریدنے جائیں تو کیا ہم بات اس طرح کرتے ہیں۔ ’’قصائی! دو کلو گوشت دے دو!‘‘۔ اچھے زمانوں میں بچوں کو باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی کہ ملازم کو نام لے کر نہیں بلانا۔ اسے چاچا یا ماموں کہنا ہے۔ یہ شائستگی کی علامت تھی اور خاندانی پس منظر بھی بچے کا اُس کے طرزِ تخاطب سے معلوم ہو جاتا تھا! اب خاندانی پس منظر کو فیملی بیک گرائونڈ کہتے ہیں اور اچھے فیملی بیک گرائونڈ کے لیے شائستگی‘ نرم گفتاری اور مہذب اندازِ گفتگو ضروری نہیں رہا! اب اچھے بیک گرائونڈ کی پہچان کارخانوں‘ گاڑیوں کی تعداد اور بیرون ملک سرمایہ کاری سے ہوتی ہے۔ 
ہم اپنے سوال کی طرف پلٹتے ہیں۔ کیا کسی کو اُس کے پیشے کے لحاظ سے مخاطب کیا جا سکتا ہے؟ کیا بھنگی کو ’’اوئے بھنگی!‘‘ کہہ کر بلائیں گے؟ نہیں! بالکل نہیں! جو اس طرح کرے گا‘ وہ اپنے پست خاندانی پس منظر کو آشکارا کرے گا! 
اگر بھنگی کو بھی بھنگی کہہ کر بلانا شائستگی اور تہذیب کے خلاف ہے تو کسی شخص کو جو بھنگی نہیں ہے‘ بھنگی کیسے کہا جا سکتا ہے! ظاہر ہے یہ دشنام دہی کا اسلوب ہے۔ جھگڑا کرنے کا انداز ہر تہذیبی گروہ کا اپنا ہی ہوتا ہے۔ جھگڑا کرتے وقت‘ غضب ناک ہو کر‘ غصے میں کسی کی تحقیر کرنے کے لیے اسے بھنگی کہنا‘ صرف اُن لوگوں کا کام ہوتا ہے جنہیں گھروں میں مثبت تربیت نہیں دی گئی۔ یہ ایک خطرناک طرزِ عمل ہے۔ اس کے ڈانڈے اگر کوئی خاندانی پس منظر سے ملا بیٹھے تو پھر گالی دینے والے کو بھی چیں برجبیں اور سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں! فرمان یہ ہے کہ جھگڑا کرتے وقت گالی دینے والا منافق ہوتا ہے۔ یوں تو منافق کی اور بھی علامات بتائی گئی ہیں مثلاً وعدہ کرے گا تو پورا نہیں کرے گا‘ بات کرے گا تو دروغ گوئی کا ا رتکاب کرے گا اور امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے گا! اس کسوٹی پر پرکھا جائے تو ہم میں سے بھاری اکثریت منافقین کی ہے! 
ویسے یہ بھنگی تھے عجیب! معاشرے کی پست ترین سطح پر رہتے تھے۔ برتن ان کے الگ رکھے جاتے تھے۔ اگر کوئی انہیں کھانا دیتا تو دور بیٹھ کر کھاتے۔ کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ اس کا بیٹا بڑا ہو کر بھنگی بنے گا۔ یہاں تک کہ خود بھنگی بھی نہیں کہتے ہوں گے۔ مگر اس ساری پستی‘ ذلت اور بے پناہ غربت کے باوجود کچھ کام بھنگیوں نے بالکل نہیں کیے۔ مثلاً بوری بند لاشوں کا رواج بھنگیوں نے نہیں ڈالا۔ ڈرل مشینوں سے انسانی اجسام میں سوراخ کرنے کا فن بھی ان بھنگیوں کو نہ آیا! انہوں نے وطن عزیز میں بھتہ خوری بھی متعارف نہیں کرائی۔ خاص کر جو تاجر بھتہ دینے میں لیت و لعل یا تاخیر سے کام لیتا‘ آدھی رات کو یہ بھنگی اُس کی دکان اور دفتر جلانے کا مکروہ کام ہرگز نہ کرتے! بھنگی اس طرح کی فرمائش بھی کبھی نہ کرتے کہ میں فلاں کے سوئم میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔ بھنگی پرامن ہوتے ہیں۔ یہ اپنے ٹوکرے اور جھاڑو فروخت کر کے بچوں کو غلیلیں نہیں فراہم کرتے۔ یہ بھاگ کر بیرون ملک بھی نہیں جا بیٹھتے۔ اور چلے بھی جائیں تو محنت کر کے خود کماتے ہیں۔ اپنی پرورش و کفالت کا بوجھ دوسروں پر نہیں ڈال دیتے۔ پھر یہ زبان کے قابلِ اعتبار ہوتے ہیں۔ جو کہتے ہیں اُس پر قائم رہتے ہیں۔ یہ 
نہیں کہ صبح کچھ کہا اور شام کو کچھ اور۔ اسی لیے انہیں ہر بات کی صفائی دینا پڑتی ہے نہ معذرت ہی کرنا پڑتی ہے۔ 
ہاں! یاد آیا کہ بھنگی‘ بھنگ پینے والے کو بھی کہا جاتا ہے۔ بھنگ کو فارسی میں بنگ کہتے ہیں۔ رومی کا شعر ہے   ؎ 
رزق از حق جُو، مجو از زید و قمر 
مستی از حق جُو، مجو از بنگ و خمر 
یعنی رزق انسانوں سے نہیں‘ پروردگار سے مانگ‘ اور مستی وہ ڈھونڈ جو فنا فی اللہ ہو کر حاصل ہوتی ہے‘ وہ نہیں جو بھنگ اور شراب سے ملتی ہے! 
تاہم بھنگی ہمیشہ حقیر نہیں رہے گا۔ اس کا پیشہ ہمیشہ گالی نہیں بنا رہے گا۔ ایک دن آئے گا جب انسان پیشوں کے اعتبار سے نہیں‘ اعمال اور نیتوں کے لحاظ سے گروہوں میں تقسیم کیے جائیں گے۔ خاندانی پس منظر کو کوئی گھاس نہیں ڈالے گا۔ کوئی سرداری‘ کوئی سربراہی کام نہیں آئے گی   ؎ 
لباس بے آبرو، جواہر سیاہ سارے 
وہ دن کہ جب جمع ہوں گے عالم پناہ سارے 
محنت کر کے حلال کھانے والا اور بچوں کے منہ میں حلال کی چوگ ڈالنے والا بھنگی وہاں وی آئی پی ہوگا   ؎ 
جو مٹی پائوں کے نیچے آتی رہتی ہے 
کبھی ہو گی اُس کی داد رسی کوئی آئے گا 
اُس کے نامۂ اعمال میں قتل ہوگا نہ بھتہ خوری! اُس دن دوسروں کو حقارت سے بھنگی کہنے والے اور اپنے آپ کو سردار سمجھنے والے بھنگی پر رشک کریں گے۔

Friday, May 01, 2015

کراس کیجیے یا برداشت کیجیے!

’’بھارت کے جھاڑ جھنکار‘‘ کے عنوان سے چند روز پیشتر جو کالم لکھا اس کا ردعمل دلچسپ تھا اور متنوع بھی۔ اختلاف کرنے والوں کا انداز یلغار کا تھا۔ سوشل میڈیا پر اچھی خاصی بحث ہوئی۔ لکھنے والے میں تعصبات’’ دریافت‘‘ کیے گئے۔ تجارت میں سیلز مین شپ کا اولین اصول ہے کہ ’’گاہک ہمیشہ درست کہتا ہے‘‘ تو کیا اب لکھنے والے بھی یہ کہیں کہ قارئین ہی درست ہوتے ہیں؟ نہیں! اس لیے کہ یہ تجارت کا میدان نہیں۔ حوالوں اور دلائل کی دنیا ہے۔
بحث کا مرکزی نکتہ کالم کا یہ فقرہ تھا کہ ’’عملی طور پر بھارت تھیو کریسی کی تحویل میں ہے‘‘۔ 
پس منظر اس فقرے کا جھاڑکھنڈ کے وزیراعلیٰ رگھوبار داس کا یہ حالیہ بیان تھا کہ ہندوستانی قومیت کی بنیاد ہندوتوا ہے اور آر ایس ایس ہندوتوا کی سچی پیروکار ہے۔ رگھوبارداس صرف ایک ریاست کا وزیراعلیٰ نہیں‘ آر ایس ایس کی قومی یعنی مرکزی کمیٹی کا نائب صدر بھی ہے۔ 
اختلاف کرنے والوں کا یہ سوال بہرطور منطقی تھا اور وزنی تھا کہ بھارت میں آخر کتنے لوگ ہندوتوا کے علم بردار ہیں؟ اور کیا واقعی غیر ہندوئوں کو ختم کیا جا رہاہے؟ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اس وقت برسراقتدار جماعت بی جے پی‘ آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ ہے اور آر ایس ایس ہندوتوا نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عزمِ صمیم رکھتی ہے! 
یہ تو ہے معاملے کی مرکزی نوعیت‘ اب بحث جن دھاروں‘ پگڈنڈیوں‘ رَووں اور شاخچوں میں منقسم ہوئی‘ ان میں سے کچھ بہت اہم ہیں۔ پاکستان میں بھارت پر بحث کی جائے تو عمومی طور پر تین قسم کے گروہوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اوّل‘ وہ گروہ جو توازن کھو بیٹھتا ہے۔ پاکستان کی ہر مشکل کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیتا ہے۔ بھارت کے خلاف جنگی جذبات کو ابھارتا ہے۔ بھارت کو پارہ پارہ کرنے سے لے کر لال قلعہ پر سبز پرچم لہرانے کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہ گروہ اپنے جوہر میں وہی خصوصیات رکھتا ہے جو سرحد پار بھارتی انتہا پسندوں میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرا گروہ ایک اور انتہا پر ہے۔ یہ بھارت کے بارے میں تعریف و توصیف کے علاوہ کچھ نہیں سننا چاہتا۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ بھارت آئیڈیل ہونے کی حد تک قابل تقلید ہے۔ وہاں سیکولرازم کا دور دورہ ہے (یہاں ہم سیکولرازم کو اس کے اصل اور درست مفہوم میں لے رہے ہیں‘ یعنی وہ نظام جس میں تمام مذاہب سے رواداری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر سیکولرازم سے مراد اسلام دشمنی لی جاتی ہے۔ یہ معنی درست نہیں)۔ تیسرا گروہ وہ ہے جو اعتدال پر ہے۔ وہ تعریف کرتے وقت توصیف کا حق ادا کرتا ہے مگر منفی پہلوئوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ یہ اعتدال پسند گروہ اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ بھارت بہت سے میدانوں میں ہم سے سبقت لے چکا ہے مگر وہاں کے کچھ پہلو قابل مذمت بھی ہیں۔ 
بھارت کو ’’عملاً‘‘ تھیوکریسی کہنے پر جس گروہ نے یلغار کی وہ ان تین میں سے دوسرا ہے۔ یعنی وہ حضرات جو بھارت کے بارے میں کچھ بھی کہنے سننے کے روادار نہیں۔ بھارت کی کامیابیوں کے ہم بھی مداح ہیں۔ ادارے وہاں مضبوط تر ہیں۔ جمہوریت کا تسلسل ہے۔ عوام کی امنگوں کے سامنے طاقت نے سرتسلیم خم کیا اور نئی ریاستیں وجود میں لائی گئیں۔ الیکشن کمیشن واقعی الیکشن کمیشن ہے۔ آئی ٹی کو ملک کی ترقی کے لیے خوب خوب استعمال کیا گیا‘ بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تارکین وطن کا رُخ وطن کی طرف ہو چکا ہے۔ میڈیکل ٹورازم سے ڈھیروں زرمبادلہ کمایا جا رہا ہے۔ وزارتِ دفاع حفظِ مراتب کے اعتبار سے وزارت دفاع ہی ہے‘ محض ذیلی ادارہ بن کر نہیں رہ گئی۔ سب بجا مگر ناچتے مور کے پیروں پر بھی تو نظر ڈالیے۔ ذات پات کے حوالے سے ہندو مائنڈ سیٹ کا دفاع کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ دلت کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے؟ آئی ٹی میں ترقی ہوئی مگر قصبوں اور قریوں کو تو چھوڑیے‘ شہروں میں بھی شودر اور برہمن کی تفریق اسی طرح ہے جیسے کبھی تھی! اور یہ تو چند ہفتے پہلے کی بات ہے۔ پورا انٹرنیشنل میڈیا خبر دے چکا ہے کہ بھارت میں سرکاری سطح پر‘ گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ دیکھتی آنکھوں مکھی کیسے نگلی جا سکتی ہے؟ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ نے حال ہی میں ایک عجیب و غریب منطق پیش کی ہے جو ہمارے دوسرے گروپ سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے لیے توشۂ خاص ہے! وزیراعلیٰ کہتا ہے کہ گائے ذبح کرنے پر جو پابندی لگائی جا رہی ہے اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں! کوئی جان کی امان پائے تو عرض کرے کہ وہ سائنسی وجہ بھی تو بتایئے جس کی بنیاد پر آپ یہ پابندی لگا رہے ہیں۔ اس سائنسی وجہ سے لگے ہاتھوں یورپ‘ امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کو بھی آگاہ کر دیجیے۔ 
بھارت کی ہزار تعریفیں کر کے ایک معاملے پر بھی تنقید کی جائے تو ایک گھسا پٹا فقرہ ضرور سننے میں آتا ہے۔ ’’یہ چیزیں اردو پریس ہی میں چھپتی ہیں‘‘۔ کسی زمانے میں ایسا ہوتا ہوگا‘ اب نہیں۔ اس قلم کار سمیت بہت سے اردو پریس میں لکھنے والے انگریزی پریس میں لکھتے رہے ہیں اور اب بھی لکھتے ہیں۔ سینئرز کو چھوڑ بھی دیجیے‘ تو نوجوان لکھاریوں کی ایک کہکشاں ہے جو مکمل غیر جذباتی اسلوب سے حقائق اور دلیل کی بنیاد پر لکھ رہی ہے۔ انگریزی پریس میں اس معیار کے مضامین کم ہی شائع ہو رہے ہیں۔ خورشید ندیم‘ عامر خاکوانی‘ یاسر پیرزادہ‘ سلیم صافی اور وجاہت مسعود جیسے قلم کاروں پر جذباتیت یا تعصب کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ ہاں ایک نعمت سے اردو پریس ضرور محروم ہے اور اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ اردو میڈیا چلانے والے اور اس میں لکھنے والے احساس کمتری کا شکار نہیں۔ مغرب کی کسی تھرڈ کلاس یونیورسٹی میں زیر تعلیم کوئی مبتدی بھی چند صفحے سیاہ کردے تو انگریزی پریس اس کی نیم پختہ تحریر شائع کر کے نیچے فخر سے اعلان کرتا ہے کہ ’’مصنف‘‘ فلاں یونیورسٹی میں ’’ریسرچ‘‘ کر رہا ہے۔ اس ریسرچ کی حقیقت بقول غالب اس کے سوا کچھ نہیں کہ   ؎ 
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل سے سبق ہنوز 
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا 
انگریزی پریس کو انجمن ہائے ستائشِ باہمی کا ایک طویل و عریض نیٹ ورک ڈھانپے ہوئے ہے‘ ورنہ ’’ریسرچ‘‘ اور یونیورسٹیوں کی ثقاہت کا پردہ چاک ہو جائے   ؎ 
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا 
اگر اس طرۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے 
سارے اردو پریس کو مطعون کرنا اس لیے بھی ناروا ہے کہ صرف ایک آدھ اخبار اس حوالے سے ’’امتیازی‘‘ حیثیت رکھتا ہے‘ وہ بھی اس لیے کہ منڈی میں اس کی طلب اسی خصوصیت کی بنا پر قائم ہے۔ ایسے ایک آدھ اخبار کی وجہ سے پورے اردو پریس کو ایک خاص رنگ کا طعنہ دینا مناسب نہیں۔ اس اخبار کی حالت بھی اب یہ ہے کہ   ؎ 
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں‘ گئے دنوں کو بھلا رہا ہوں 
جو قافلہ میرا ہم سفر تھا‘ مثالِ گردِ سفر گیا وہ 
ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اور یہاں غیر مسلموں کو مثالی ماحول میسر ہے۔ اس موضوع پر اردو پریس میں تفصیل سے لکھا جا رہا ہے۔ گزارش دست بستہ صرف یہ ہے کہ اگر بھارت کے کسی پہلو کو موضوع بنایا جائے تو اُس وقت پاکستان کے مسائل کو درمیان میں لے آنا خلطِ مبحث کے سوا کچھ نہیں‘ بھارت مثالی حیثیت رکھتا ہے نہ پاکستان۔ اس لیے دونوں کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے اندھے سے راستہ پوچھا جائے اور گونگے سے سوال کیا جائے۔ دونوں کا رُخ ترکستان کی طرف ہے۔ یہی لیل و نہار رہے تو اعرابی کعبہ کیسے پہنچے گا؟

 

powered by worldwanders.com