Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, July 29, 2021

ساتھ وِیل چیئر بھی رکھی ہے



زمانے کی گردش ایک بار ہسپانوی شہر بارسلونا لے گئی۔ یہ سال کی آخری شام تھی۔ میزبان تین پاکستانی بھائی تھے۔ ان میں سے ایک مجھے بارسلونا کے مرکزی چوک پلازا ڈی کیٹالونا لے گیا۔ ابھی نیا سال شروع ہونے میں تقریباً ایک گھنٹہ رہتا تھا۔ لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے تھے۔ اس چوک کے ارد گرد بے شمار ریستوران، کیفے اور کافی ہاؤس تھے اور سب بھرے ہوئے تھے۔ بڑے کلاک نے رات کے بارہ بجائے تو ہسپانویوں نے اپنی روایت کے مطابق کلاک کے ہر ٹن کے ساتھ ایک انگور اپنے منہ میں ڈالا۔ یہ، اُن کے نزدیک، خوش بختی کی علامت ہے۔
یہ کئی عشرے پہلے کی بات ہے۔ تب سے ان تین بھائیوں سے دوستی ہے۔ کبھی رابطہ نہیں ٹوٹا۔ وقت گزرتا رہا۔ دو بھائی یورپی یُونین کے قانون کے طفیل انگلستان منتقل ہو گئے۔ جہلم اور گوجرانوالہ کے درمیان واقع جس قصبے سے ان کا تعلق ہے، تعطیلات میں وہاں اپنے ماں باپ کے پاس آتے۔ وقت کی چکی چلتی رہی۔ والد بوڑھے ہوئے اور انتقال کر گئے۔ اب بوڑھی اماں جی تنہا تھیں اور بیٹے‘ دو انگلستان اور ایک ہسپانیہ میں۔ ان بھائیوں نے آپس میں طے کیا کہ تین تین ماہ ہر بھائی اور اس کی بیگم، اماں جی کے پاس رہیں گی۔ یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ اب اماں جی کافی ضعیف اور نحیف ہو چکی ہیں۔ آفرین ہے ان بھائیوں پر! جس کی بھی باری ہوتی ہے، وہ اپنا کاروبار، دلچسپیاں، بچے، یورپ کی پُر آسائش زندگی سب کچھ چھوڑ کر، بیوی کو ساتھ لیے، اماں جی کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ پھر وہ چوبیس گھنٹے وہیں رہتا ہے۔ ہر لمحہ! ہر ثانیہ! گھر سے نہیں نکلتا! کہیں نہیں جاتا کہ کسی وقت بھی اماں جی سے دور نہ ہو۔ کیونکہ وہ اٹھ سکتی ہیں نہ خود کھا پی سکتی ہیں۔ تین ماہ ختم ہونے سے پہلے دوسرا بھائی پہنچ جاتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جس کی باری ہے، وہ بھائی تاخیر سے پہنچا ہو، یا اپنی باری کو آگے پیچھے کرنے کرانے کی کوشش کی ہو۔
میں ایک اور صاحب کو جانتا ہوں۔ ان کے والد جنرل ایوب خان کے زمانے میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہے۔ پھر سپریم کورٹ کے جج بنے! پھر وفاقی سیکرٹری ہوئے۔ صاحبزادے کی پرورش ناز و نعمت میں ہوئی‘ مگر والدہ کی خدمت اس طرح کی کہ مشقت کے ریکارڈ توڑ دیے۔ ایئرکنڈیشنر تو دور کی بات ہے، والدہ مرض اور ضُعف کے سبب پنکھے کی ہوا بھی برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ شدید گرمی میں یہ صاحب والدہ کے پاس، انہی کے کمرے میں سوتے کہ رات کو ہر وقت حاضر رہیں۔ کئی برس یہی معمول رہا۔ اتنی خدمت کی کہ جاننے والے حیران رہ گئے۔
ایک معروف شاعر، جو اردو نظم کے ٹاپ کے شعرا میں گِنے جاتے ہیں، سول سروس کے اعلیٰ منصب سے ریٹائر ہوئے، ایک عجیب اور انتہائی منفرد اعزاز رکھتے ہیں۔ اپنی پیدائش سے لے کر، والدہ کی وفات تک، ساٹھ سال، مسلسل والدہ کے پاس رہے یا والدہ ان کے پاس رہیں! دو تین دن کے لیے کہیں، کسی بیٹی کو ملنے چلی جاتیں مگر ہیڈ کوارٹر ہمیشہ بیٹے کے پاس ہی رکھا۔ بیٹے نے بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا مگر والدہ کو اپنے سے جدا نہیں کیا۔ ساری زندگی خدمت میں گزاری۔ایک اور صاحب نے جو ایک بڑے ترقیاتی ادارے میں بہت بلند منصب پر فائز ہیں۔ اپنے والد کی ایسی خدمت کی کہ ان کے بخت پر رشک آتا ہے۔ ان کی بیوی نے سسر کی دیکھ بھال یوں کی جیسے سگے باپ کی کوئی نہ کرے۔ ان پر خدا کی مہربانیاں غیب سے یوں اترتی ہیں اور نظر آتی ہیں کہ انسان حیرت میں گُم ہو جاتا ہے۔
یہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں جنت کے ٹکٹ کی پیشکش کی گئی اور انہوں نے آگے بڑھ کر یہ ٹکٹ لے لیا۔ یہ ٹکٹ پیش سب کو کیا جاتا ہے۔ کچھ لیتے ہیں کچھ ٹھکرا دیتے ہیں۔ آپ کے ارد گرد بھی ایسے خواتین و حضرات ہوں گے اور یقینا ہوں گے۔ فرمایا گیا: تمہیں رزق اس لیے ملتا ہے اور تمہاری مدد اس لیے کی جاتی ہے کہ تم اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتے ہو۔ اُس بوڑھے یا بوڑھی سے زیادہ حق دار کون ہو گا جو اپنے ہی گھر میں موجود ہو۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ جن عورتوں نے اپنے ساس اور سسر کی دیکھ بھال خلوص سے کی ان کی زندگی کا آخری حصہ سکون، عزت اور کامرانی کے ساتھ گزرا اور خدمت کرنے والے داماد اور بہوئیں ملیں۔ کسووو کی ایک سفید فام خاتون دیکھی جو اپنی صاحبِ فراش پاکستانی ساس کو اپنے ہاتھوں سے اٹھاتی۔ کھانا کھلاتی، ڈائپر تبدیل کرتی۔ منوں، ٹنوں کے حساب سے دعائیں لیں۔ یہ دعائیں دونوں دنیاؤں میں اس کے لیے انشورنس کا کام کریں گی۔ جن مردوں اور عورتوں نے قطع رحمی کا ارتکاب کیا، اپنے ارد گرد غور سے دیکھیے، بہت سوں کا انجام آپ کو خود ہی نظر آ جائے گا۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو کرتا ہے‘ تو یہ اصول صرف آخرت کے لیے نہیں، دنیا کے لیے بھی ہے!
آج کل مذہب کے نام پر خاندانوں میں خلفشار پیدا کیا جا رہا ہے اور معاشرے کا تار و پود بکھیرا جا رہا ہے۔ ایک واعظ  نے یہ کہنا شروع کیا تھا کہ عورت اپنے سسر اور ساس کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ دار نہیں‘ یعنی جہاز میں تین سو مسافروں کو کھانا کھلا سکتی ہے اور مشروبات پیش کر سکتی ہے مگر گھر کے دو یا چار افراد کی ذمہ دار نہیں۔ خیر، ان صاحب کو کسی نے قتل کر دیا۔ نہ جانے کیا معاملہ تھا۔ اب ایک واعظہ اپنے وسیع حلقۂ اثر میں یہی بیج بو رہی ہیں۔ کتنے ہی گھر ٹوٹ چکے۔ کتنے ہی خاندان منتشر ہوئے۔ کتنی ہی طلاقیں ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔ ایک خاتون نے جب میاں سے کہا کہ شریعت کی رُو سے میں تمہارے ماں باپ کی ذمہ دار نہیں‘ انہیں الگ گھر میں رکھو تو شریعت کا کچھ علم شوہر کو بھی تھا۔ اس نے کہا: جو حکم سرکار‘ مگر اسی شریعت نے مجھے چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ فی الحال میں ایک اور بیوی لا رہا ہوں۔ اس پر خاتون بولیں: میں نے تو یونہی ایک بات کر دی تھی۔ آپ کے ابو امی میرے ابو امی بھی تو ہیں‘ بس دوسری بیوی نہ لائیے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ معاشرہ عرب ہے نہ مغربی! یہاں اولڈ ہومز ہیں نہ مرد چار چار شادیاں رچاتے ہیں۔ تقریباً پچانوے فیصد مرد، یا شاید اس سے بھی زیادہ، یہاں ایک ہی خاتون کے ساتھ پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔ کمانے والی خواتین کا تناسب پاکستان میں، بہت بڑھا چڑھا کر بھی، نکالا جائے تو اکیس فی صد اور پچیس فی صد کے درمیان ہے۔ یعنی پچھتر فی صد مرد واحد کمانے والے ہیں۔ یہ ساری زندگی بیل کی طرح کام کرتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ ان کی شادیاں کرتے ہیں ۔ ان شادیوں میں خواتین کی طرف سے کیا گیا اسراف برداشت کرتے ہیں۔ ہمارے کلچر میں تو شادی شدہ اولاد کی بھی دیکھ بھال، کسی نہ کسی طریقے سے، جاری رہتی ہے۔ پھر، ایسے ایسے داماد دیکھے ہیں کہ سسر اور ساس کی مالی نگہداشت بھی کرتے ہیں اور وقت آنے پر جسمانی سہارا بھی بنتے ہیں۔ جو مرد اپنے بوڑھے سسر اور ساس سے بے اعتنائی برتتے ہیں وہ بھی زندگی میں اس کا بدلہ پا کر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ اس معاشرے کی کچھ خوبصورتیاں ہیں۔ انہیں ختم نہیں ہونا چاہیے۔ اس سماج کی کچھ قدریں ہیں اور مربوط خاندانوں کی کچھ روایتیں! بیوی کے ماں باپ شوہر کے بھی ماں باپ ہیں اور شوہر کے ماں باپ بیوی کے بھی ماں باپ ہیں۔ پھر، مکافات عمل سے بھی ڈرنا چاہیے۔آج آپ جوان ہیں اور اپنی ہوا میں ہیں مگر اگلے ہی موڑ پر بڑھاپا کھڑا ہے۔ اور مت بھولیے کہ ساتھ وِیل چیئر بھی رکھی ہے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, July 27, 2021

مثالی انصاف کی متعدد صورتیں



وفاقی دارالحکومت میں جس لڑکی کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور قتل سے پہلے جسے آہنی مُکوں کی ضربیں لگائی گئیں‘ اُس کے حوالے سے اگر آپ کا خیال ہے کہ انصاف ہو گا تو آپ کا خیال بالکل درست ہے۔ اس انصاف کی جھلکیاں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔فرنگی زبان کے مؤقّر روزنامہ کے مطابق‘ عدالت کی کارروائی کے دوران‘ سفید لباس میں ملبوس ایک پولیس اہلکار ملزم کے کان میں سر گوشیاں کرتا رہا۔ جب میڈیا کے نمائندوں نے ملزم سے بات کرنے کی کوشش کی تو ایک اے ایس آئی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ '' یہ ایک بہت ٹیلنٹڈ(Talented)نوجوان ہے‘‘۔ پولیس کی اس ''غیر جانبداری‘‘ سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امید کی روشن کرنیں بس اندھیرا چیرنے ہی والی ہیں۔ صرف یہی نہیں‘ پولیس نے انصاف کی طرف ایک اور جست بھی لگائی ہے۔ اس نے ایف آئی آر دفعہ 311کے تحت نہیں درج کی۔ اگر اس دفعہ کے تحت ایف آئی آر لکھی جاتی تو معاملہ قابلِ مصالحت نہ ہوتا۔ چونکہ کیس دفعہ 302کے تحت رجسٹر کیا گیا اس لیے قابلِ مصالحت ہے۔ اس دفعہ کا فائدہ یہ ہے کہ مظلوم پارٹی پر دباؤ ڈال کر عدالت سے باہر''مصالحت‘‘ کا ڈول ڈالا جا سکتا ہے۔ اس ملک میں عام طور پر کمزور کے پاس '' مصالحت‘‘ کے سوا چارہ بھی کوئی نہیں ہوتا۔ مصالحت نہیں کرے گا تو کیا کرے گا ؟ زبردست کو سزا تو ملنی نہیں۔ مصالحت خون بہا کی شکل میں بھی ہوتی ہے جیسا کہ ریمنڈ ڈیوس والے معاملے میں ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کے بارے میں ایک دلچسپ فارمولا ہے‘ اگر جھگڑا دو چھوٹے ملکوں کے درمیان ہو تو جھگڑے کی وجہ غائب ہو جاتی ہے۔ جھگڑا دو بڑے ملکوں کے درمیان ہو تو اقوام متحدہ منظر سے غائب ہو جاتی ہے۔اور اگر جھگڑا ایک چھوٹے اور ایک بڑے ملک کے درمیان ہو تو چھوٹا ملک غائب ہو جاتا ہے۔ اسی فارمولے کا اطلاق یہاں کر لیجیے۔ معاملہ ایک بڑی اور ایک چھوٹی پارٹی کے درمیان ہو تو چھوٹی پارٹی کی کوئی نہیں سنے گا۔ دو بڑی پارٹیوں کے درمیان ہو تو ریاست غائب ہو جائے گی۔ اور دو چھوٹی پارٹیوں کے درمیان ہو تو ریاست کی چاندی ہو جائے گی اور دونوں فریقوں کو'' سبق‘‘ سکھایا جائے گا۔ چھ سال ہوئے لاہور کی سڑک پر ایک لڑکے کے جسم میں گولی پیوست کر دی گئی تھی۔ قاتل کو کیا سزا ملی تھی؟ گواہ منحرف ہو گئے تھے یہاں تک کہ مدعی بھی! ایک جاگیردار کے چشم و چراغ نے کراچی میں ایک بہن کے بھائی کو ہلاک کیا تھا۔ '' سزا‘‘ جو ملی آپ کے سامنے ہے۔ اور کیا آپ بھول گئے کہ اسی برس فروری میں ایبٹ آباد کے اُن چار نوجوانوں کو ایک تیز رفتار گاڑی نے کچل دیا تھا جو تلاشِ روزگار میں آئے تھے۔ ان چار لاشوں کے ساتھ جو انصاف ہوا اس کے آپ اور ہم سب گواہ ہیں۔ اور وہ نوجوان‘ اسامہ ندیم‘ جسے پولیس اہلکاروں نے درجنوں گولیاں مار کر ختم کیا تھا‘ اس کی لاش بھی ابھی تک ہماری بد قسمت یادداشت میں سامنے رکھی ہے۔ اس کیس میں تو حکمران اعلیٰ نے مقتول کے والد کو باقاعدہ اپنے محل میں طلب کر کے تعزیت بھی کی تھی۔ یعنی ؎
وہ شہسوار بہت نرم دل تھا میرے لیے
چبھو کے نیزہ‘ زمیں سے اٹھا لیا مجھ کو
ریاست مدینہ کے والی ضرورت مندوں کے گھروں میں پہنچتے تھے۔ کبھی راشن پہنچانے‘ کبھی اپنے گھر کی خاتون کے ساتھ کسی کی بیمار بیوی کی خبر گیری کے لیے۔ کبھی منہ اندھیرے کسی ناچاربڑھیا کے گھر جھاڑو دینے! تاہم آج کل ریاست مدینہ کی پیروی کا جو دعویٰ اور وعدہ کرتے ہیں‘ لازم نہیں کہ وہ بھی ضرورت مندوں کے گھروں کو جائیں۔ نیا زمانہ ہے۔ نئے رنگ ڈھنگ ہیں۔ پیزے سے لے کر ملبوسات اور سبزی گوشت سے لے کر ادویات تک ہر شے‘ بازار جائے بغیر‘ گھروں میں پہنچ جاتی ہے تو پھر تعزیت کے لیے مقتولوں اور مظلوموں کے گھروں میں جانے کی کیا ضرورت ہے!
ریاست ہمارے ہاں کیا کیا رنگ بدلتی ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے کوئٹہ چلتے ہیں!ٹریفک سارجنٹ عطا اللہ‘ عین چوک پر‘ ایک تیز رفتار گاڑی کی زد میں آکر کچلا گیا۔ وہ ریاست کا نمائندہ تھا۔ مگر یہاں چونکہ دوسری طرف‘ مقابلے میں جو فریق تھا وہ ریاست سے زیادہ طاقتور تھا اس لیے ریاست غائب ہو گئی ؎
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا
اسامہ ندیم کے معاملے میں ایک طرف ریاست تھی اور دوسری طرف ایک کمزور خاندان ! چنانچہ یہاں ریاست نے وہی رول ادا کیا جو کوئٹہ میں ریاست کے بالمقابل زور آور فریق نے ادا کیا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں ایک صاحب حکیم کے سامنے مُلّا ہونے کا دعویٰ کرتے۔ مُلّا سامنے ہوتا تو حکیم بن جاتے۔ جہاں مُلّا اور حکیم دونوں نہ ہوتے وہاں ملا ہونے کا اعلان کرتے اور حکیم ہونے کا بھی! جہاں دونوں پہلے ہی موجود ہوتے وہاں خاموش بیٹھے رہتے۔ پیشِ حکیم مُلّا۔ پیشِ مُلّا حکیم۔ پیش ہیچ ہر دو۔ پیشِ ہر دو ہیچ! ہماری ریاست کا بھی یہی حال ہے۔ جہاں سامنے کوئی نہ ہو یا کوئی کمزور ہو‘ وہاں خوب شکوہ و جلال دکھائے گی۔جہاں سامنے جاگیر دار‘ بڑے بڑے ٹائیکون‘ یا حکومت کے حلیف ہوں گے وہاں دبک کر بیٹھ جائے گی ! چُوں کی آواز بھی نہیں نکالے گی۔
انصاف کی کئی اور صورتیں بھی یہاں رائج ہیں۔ بینکوں سے لیے گئے قرضوں پر نگاہ ڈال لیجیے۔کروڑوں اربوں کے قرضے طاقتور طبقات نے لیے اور پھر شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کر گئے۔ آپ اور ہم قرض لے کر واپس نہ کریں تو دیکھیے بینک کس طرح ببر شیر کی طرح دھاڑے گا اور پھر اچھل کر گردن دبوچ لے گا۔ اول تو قرض ملے گا ہی نہیں۔ ملا تو ایک ایک پائی مع سود ادا کرنا ہو گی۔چند سو یا چند ہزار روپے کریڈٹ کارڈ کے رہ جائیں تو بینک بندوق لے کر پہنچ جاتا ہے مگر کروڑوں کا قرض معاف کرایا ہو تو آپ تبدیلی لانے والی کابینہ میں وزیر بھی بن سکتے ہیں۔اور ہاں یہ قرضہ ''معاف‘‘کرانے کی اصطلاح بھی خوب ہے۔ جس طرح کمزور پارٹی طاقتور قاتل کو ''معاف‘‘ کر دیتی ہے‘ ٹھیک اسی طرح‘ طاقتور کے سامنے بینک بکری کی طرح ممیاتا ہے‘ کروڑوں اربوں کا قرضہ '' معاف‘‘ کر دیتا ہے اور پھر پوری کوشش کرتا ہے کہ قرضہ معاف کرانے والوں کے نام بھی خفیہ رکھے تا کہ معزز اٹھائی گیروں کی عزت پر حرف نہ آئے۔
ٹیکس وصول کرنے میں بھی یہاں پورا پورا انصاف کیا جاتا ہے۔ تنخواہ دارطبقہ سے ٹیکس انہیں بتائے بغیر‘ تنخواہوں سے ہی کاٹ لیا جاتا ہے۔ زیادہ کاٹیں تو '' ری فنڈ‘‘ قیامت تک نہیں ہو گا۔ مگر صنعتکار‘ جاگیر دار‘ تاجر سینہ تان کر ٹیکس دینے سے انکار کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے حکومتوں کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اسلحہ رکھنے کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں زبردست انصاف پایا جاتا ہے۔ عام شہری کے پاس زنگ آلود بیکار پستول بھی پایا جائے تو محشر بر پا ہو جاتا ہے۔ مگر طاقتور کے محافظ‘ کلاشنکوفیں لہراتے بلوچستان اسمبلی کی حدود میں بھی داخل ہو جائیں تو انہیں روکنے والی پولیس کے سینئر افسر کو معطل کر دیا جاتا ہے اور معطل کرنے والا کون ہے ؟ وہ وزیر اعلیٰ جو پہلا اور‘اب تک‘ آخری غیر سردار وزیر اعلیٰ ہے!! تاریخ کا یہ انصاف بھی ہمارے ساتھ عجیب ہے کہ جب کوئی مڈل کلاسیا اوپر آتا ہے تو انصاف کو پامال کرنے میں اپر کلاس کو بھی مات کر دیتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, July 26, 2021

…اک پیڑ تھا اور اُس پہ الوچے لگے ہوئے



ملبوسات کے بعد خواتین کو زیادہ شوق شاید باورچی خانے کے سامان کا ہوتا ہے۔ فرائی پین، پتیلے، دیگچیاں، برتن رکھنے کے لیے لوہے کی جالی دار مستطیل ٹوکریاں اور نہ جانے کیا کیا۔ ایک زمانے میں لکڑی کا ایک ڈبہ سا ہوتا تھا جس میں خانے بنے ہوتے تھے۔ ان خانوں میں نمک، مرچ، دھنیا، ہلدی وغیرہ رکھی جاتی تھی۔ اسے لُونکی کہتے تھے۔ (یہ لفظ یقینا لُون سے نکلا ہو گا کیونکہ پنجابی اور سندھی میں نمک کو لُون کہتے ہیں) مگر اب ان چیزوں کو رکھنے کے لیے سو طرح کی شیشیاں اور ڈبے بازار میں موجود ہیں۔ کوئی شیشے کی، کوئی پتھر کی، کوئی لکڑی کی اور کوئی پلاسٹک کی! ہم جیسے سادہ لوحوں کو ڈیکوریشن پیس دکھائی دینے والی شے اصل میں نمک دانی ہوتی ہے!
چنانچہ بیگم کیش اینڈ کیری سٹور کے اُس حصے میں تھیں جہاں کچن کی متفرقات پڑی تھیں اور میں اُس کارنر میں گھوم رہا تھا جہاں ٹیلی ویژن سیٹ رکھے تھے۔ جو ٹی وی سیٹ سستا سمجھ کر لیا تھا اب خراب تصویر دے رہا تھا۔ سو، کچھ مہینوں سے یہی شغل ہے کہ اچھے برانڈ کی قیمت دریافت کر کے آگے بڑھ جائیں کہ بقول فراق ؎
اپنی خریداری بازارِ جہاں میں ہے سو اتنی ہے
جیسے دکاں سے مفلس کوئی چیز اٹھائے پھر رکھ دے
اتنے میں اپنی ہی عمر کے ایک صاحب نظر آئے۔ ان کے ساتھ دس بارہ سال کا بچہ تھا جس نے ان کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ نظر اُس بچے پر ٹھہر گئی۔ دل کے اندر کئی تاروں میں یک دم ارتعاش پیدا ہوا ''یہ آپ کا پوتا ہے‘‘ غیر اختیاری طور پر پوچھا۔ ''جی!‘‘ انہوں نے جواب دیا‘ اور ساتھ ہی مسکراتے ہوئے کچھ اس قسم کی بات کی کہ دادا کو آگے لگایا ہوا ہے۔ اتنے میں بچے کی بات سنائی دی ''کھلونے اُس سائیڈ پر ہیں‘‘۔ جب ہم مال سے نکل رہے تھے تو وہ دادا پوتا بھی نکل رہے تھے۔ دادا نے پوتے کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ بچے کے ہاتھ میں شاپنگ بیگ تھا۔ اس میں یقینا کھلونے تھے۔ میں انہیں جاتا دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ بھیڑ میں کھو گئے۔
یہ ایک عام سا واقعہ ہے۔ ہر روز کتنے ہی دادے اور نانے، بچوں کو بازار لاتے ہیں اور شاپنگ کراتے ہیں‘ مگر جس دادا نے دو سال سے پوتوں اور پوتی کو سینے سے نہ لگایا ہو، انہیں بازار لے کر نہ گیا ہو، انہیں کھلونے، آئس کریم، چپس اور جوس لے کر نہ دیے ہوں، انہیں اپنے دائیں، بائیں، اوپر نہ سلایا ہو‘ انہیں کہانی نہ سنائی ہو، ان کے ساتھ پارک میں دوڑا نہ ہو، ان کے ساتھ کھیلتے ہوئے درختوں کے پیچھے نہ چھپا ہو، انہیں ان کے ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ سے نہ بچایا ہو، سکول جاتے ہوئے انہیں پاکٹ منی نہ دی ہو، چھٹی کے وقت اُن کی خواہش کے مطابق انہیں لینے خود نہ گیا ہو، اُس دادا کے لیے یہ واقعہ عام نہیں!
سکرین پر تو وہ ہر روز دکھائی دیتے ہیں، بات بھی کرتے ہیں، مگر سینہ ہے کہ اس کی تپش کم نہیں ہوتی، بھڑکتی آگ ہے کہ کلیجے میں ٹھنڈی نہیں ہوتی، اس لیے کہ سکرین پر آنکھیں نہیں چومی جا سکتیں، گود میں بٹھایا جا سکتا ہے نہ کندھے پر سوار کیا جا سکتا ہے نہ انگلی پکڑ کر کہیں لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک عجیب فراق ہے جو دادا کو گُھن کی طرح کھائے جا رہا ہے! جو راتوں کو سونے نہیں دیتا۔ دل کے باغ میں وہ جو لہلہاتا سبزہ تھا، سُوکھتا جا رہا ہے۔ بیٹوں کے فراق میں بھی زندگی ایک تپتا سلگتا ریگستان ہے‘ مگر پوتوں اور پوتی کی جدائی اس تپتے سلگتے ریگستان میں ایک بگولا ہے۔ ایک 'وا ورولا‘ ہے! ایک گُھمن گھیری ہے! بگولا مسلسل چکر کھا رہا ہے اور دادا اس بگولے میں پھنسا، آسانی سے سانس تک نہیں لے سکتا۔ انسان جب تک خود دادا یا نانا نہ بنے، اس درد کو جان نہیں سکتا۔ ماں کے پیٹ میں سانس لیتے بچے کو آپ کیسے سمجھائیں گے کہ باہر کی دنیا کیسی ہے۔ لغت میں ایسے الفاظ ابھی تک ایجاد ہی نہیں ہوئے جو پوتوں پوتیوں‘ نواسوں نواسیوں کی محبت کو بیان کر سکیں۔ کھیل کے سارے ایکٹ دلچسپ ہیں مگر اس آخری ایکٹ کا کوئی جواب ہے نہ نعم البدل! مصروف جوڑے کے پاس اتنا وقت کہاں کہ گھنٹوں بچوں کی باتیں سنیں! بوڑھے ماں باپ کی ضروریات تو پوری کرتے ہیں، محبت بھی کرتے ہیں اور ادب بھی، مگر زندگی کی دوڑ میں اتنا وقت نہیں کہ بیٹھ کر پہروں باتیں کریں! پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، دادا دادی اور نانا نانی کے فطری ساتھی ہیں! فطری حلیف! دونوں فریق ایک دوسرے کو پورا وقت دیتے ہیں۔ بچہ جب ایک بے ربط کہانی سناتا ہے تو دادا یا نانا ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں! دونوں ایک غیر مرئی زنجیر کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہیں۔ فریقین میں سے کوئی ایک نظر نہ آئے تو دوسرا فریق بے چین ہو جاتا ہے اور ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے۔ بچہ کہتا ہے کہ کھانا کھلائے تو دادا، پرَیم چلائے تو دادا، ساتھ سلائے تو دادا، سکول چھوڑنے جائے تو دادا، اسی لیے تو نوے فی صد والدین کو شکایت ہے کہ ہمارے بچوں کو ان کے نانا نانی یا دادا دادی خراب کر رہے ہیں۔ خراب کے لیے فرنگی زبان کا لفظ ''سپائل‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ ''ابو! آپ اسے سپائل کر رہے ہیں‘‘، اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہاں! کر رہے ہیں! کرتے رہیں گے کہ یہ رول ہمیں فطرت نے دیا ہے۔ ہم اپنے بچوں کے ساتھ سخت گیر تھے۔ اس لیے کہ تب والدین کا کردار ادا کر رہے تھے۔ اب دادا نانا کا کردار ہے۔ فطرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ بچوں کے لیے ان کے ماں باپ بھی سخت گیر ہوں اور دادا دادی‘ نانا نانی بھی سخت گیر ہوں!
بچوں کے لیے نانا‘ دادا ایک ثمر دار درخت کی طرح ہوتے ہیں۔ اس درخت کی چھاؤں انہیں خنک اور آرام دہ لگتی ہے۔ اس کی شاخوں سے وہ پھل توڑ کر کھاتے ہیں۔ اس بچپن میں یہ درخت ہی ان کی کل کائنات ہے۔ پھر ایک دن آتا ہے کہ یہ بچہ خود دادا بنتا ہے۔ تب اسے اپنا دادا یاد آتا ہے اور وہ پکار اٹھتا ہے: ؎
یوں تھا کہ میں بھی چاند تھا، دادا مِرا بھی تھا
اک پیڑ تھا! اور اُس پہ الوچے لگے ہوئے
اور مت بھولو کہ پوتا قدرت کی طرف سے اپنے باپ کا نگران بھی ہے۔ وہ ایک ایک چیز، ایک ایک بات نوٹ کر رہا ہے کہ اس کا باپ اس کے دادا کے ساتھ کیسا برتاؤ کر رہا ہے۔ یہی برتاؤ کل وہ اپنے باپ کے ساتھ کرے گا۔ اگر باپ اس کے دادا کے آنے پر ادب سے کھڑا ہو جاتا ہے تو کل وہ بھی کھڑا ہو گا۔ علاج معالجہ پوری تن دہی سے کرا رہا ہے تو کل وہ بھی کرائے گا۔ نا فرمانی کر رہا ہے تو کل وہ بھی نا فرمانی کرے گا۔ کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے!
اور ہاں! تم منیجر سے جی ایم بن گئے یا ٹیچر سے ہیڈ ماسٹر یا ڈی سی سے کمشنر یا دکان دار سے سیٹھ تو یہ کوئی پروموشن نہیں! تمہاری اصل پروموشن تو اس وقت ہو گی جب باپ سے دادا یا نانا بنو گے۔ یہ مقام انہی کو ملتا ہے جو خوش بخت ہوں۔ خدا کا شکر ادا کرو کہ یہ مقام زر یا زور سے نہیں ملتا
پوتوں، نواسیوں کے چمن زار! واہ! واہ!
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, July 20, 2021

ٹرین سروس ! تاشقند سے گوادر تک



اس نے سر پر بڑی سی پگڑی باندھ رکھی تھی۔چہرا سرخ اور بڑا تھا۔ایک عجیب کیفیت اس کی آنکھوں سے چھلک رہی تھی۔ لگتا تھا وہ ابھی ابھی گھوڑے پر ایک طویل سفر کر کے آیا ہے۔ فارسی میں مزاج پرسی کی تو کھِل اُٹھا اور شستہ فارسی میں پوچھنے لگا ''بدخشاں کا لاجورد دیکھو گے ؟‘‘۔ گرم چشمہ کے اس افغان ریستوران میں‘ جس میں میز کرسیاں نہیں تھیں‘اونچے چبوتروں پر دریاں بچھی تھیں‘ بدخشانیوں کے ساتھ قہوہ پیتے ہوئے‘فارسی اور ازبک میں گفتگو کرتے ہوئے‘لاجورد کی قیمت پر جھگڑتے ہوئے اور بدخشاں کے صدر مقام فیض آباد کا مختصر ترین راستہ پوچھتے ہوئے میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں بھولا کہ سنٹرل ایشیا کی جیو پالیٹکس (Geopolitics)کے حوالے سے چترال پاکستان کے لیے بدخشاں کے لعل و زمرد اور لاجورد سے کہیں زیادہ قیمتی ہے مگر افسوس صد افسوس! پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس کا کبھی احساس نہیں ہوا۔
چند سال پہلے تک چترال سال کے چھ ماہ بقیہ پاکستان سے کٹا رہتا تھا۔ برفباری کی وجہ سے لواری ٹاپ عبور کرنا ناممکن تھا۔ چترال کے عوام افغان علاقے نورستان سے ہو کر چترال جاتے تھے۔ خدا خدا کر کے2018ء میں لواری ٹنل بنی اور اب سرما میں بھی چترال آنا جانا ممکن ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ سرنگ کتنے عرصے میں مکمل ہوئی؟ تقریباً آدھی صدی میں! 1970ء کے لگ بھگ یہ منصوبہ شروع ہواتھا مگر اصل بات جو بتانی ہے‘ اور ہے۔
جن دنوں لواری سرنگ مکمل ہونے کے کوئی آثار نہ تھے‘ ایک وزیر صاحب نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت ( جو بھی اُس وقت تھی ) چترال کو وسطی ایشیا سے ملا نے لگی تھی۔ وزیر صاحب کو یہ کسی نے نہیں بتایا تھا کہ اس سے پہلے چترال کو باقی پاکستان سے ملانے کی ضرورت تھی۔کئی دہائیوں کے بعد آج پھر ویسی ہی صورتِ حال دکھائی دی ہے۔علاقائی روابط کانفرنس کے حوالے سے ایک وزیر صاحب نے تاشقند سے گوادر تک ٹرین سروس کی بات کی ہے۔ اللہ! اللہ! زبان ایک ایسی جادو کی شے ہے کہ کچھ بھی کہہ سکتی ہے۔ ہمارے بھوکے ننگے مفلوک الحال شعرا یمن اور شام کی مملکتوں کو اپنی ملکیت بتاتے رہے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ تاشقند سے گوادر تک ٹرین سروس کا کیا روٹ ہو گا؟ کیا افغانستان سے گزرے گا؟ تاشقند سے ترمذ تک ریل پہلے سے موجود ہے۔ ترمذ ازبکستان کا سرحدی شہر ہے۔ ترمذ سے چمن تک 1131کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ ترمذ سے چمن تک کون ریلوے لائن بچھائے گا؟ کیا ہم پاکستانی بچھائیں گے ؟ دوبارہ سوچیے! ہم پاکستانی؟ کیا ہم وہی پاکستانی نہیں جن سے ریل پچھتر سال میں حویلیاں سے ایبٹ آباد تک نہیں لے جائی جا سکی! حویلیاں تک تو انگریز بہادر لے آیا تھا! کیا ہم وہی نہیں جو سو سال پہلے چلائی گئی مندرہ تا چکوال ٹرین سروس کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں ؟ کیا ہم وہی نہیں جن سے انگریز وں کی فتح جنگ تک چلائی گئی ٹرین تلہ گنگ جیسے اہم شہر تک نہیں پہنچائی جا سکی جو ٹوٹل پچپن میل کا فاصلہ ہے۔ اس چمکدار قابلِ رشک ریکارڈ کے ساتھ ہم ترمذ سے چمن کو ٹرین کے ذریعے ملا دیں گے! پہاڑ‘ صحرا‘ متحارب قبیلے اور افغان مزاج‘ سب کچھ ہمارے لیے محض حلوہ ہو گا ! واہ ! کیا بات ہے ہماری !
پھر یہ دیکھیے کہ بر صغیر میں ریل1853ء میں چل پڑی تھی۔ وسط ایشیا میں 1879ء میں اور ایران میں بھی لگ بھگ اسی زمانے میں آگئی تھی۔ ڈیڑھ سو سال ہو گئے۔ اس سارے عرصہ میں افغانستان میں ایک گز ریلوے لائن نہیں بچھی۔ مگر آج ہمارے پاس جادو کا چراغ آگیا ہے۔ آج ہم افغانستان کو مشرّف بہ ریلوے کرنے لگے ہیں۔
کاش ہماے عمائدین بیانات دینے سے پہلے کبھی اٹلس بھی دیکھ لیا کریں! اگر افغانستان کے راستے نہیں تو کیا کرغزستان کے راستے تاشقند کو گوادر سے ملائیں گے ؟ تاشقند اوش سے ریل کے ذریعے جُرا ہوا ہے۔ اوش کرغزستان کا شہر ہے جو ازبک بارڈر کے ساتھ واقع ہے‘ یہ ریل فرغانہ وادی کے شہر اندجان سے ہو کر آتی ہے۔ اوش سے مشرق کو چلیں تو چین میں داخل ہو جائیں گے۔ بارڈر کی چینی چوکی کا نام ارکشتام ہے۔ تو کیا آپ ارکشتام سے خنجراب تک ٹرین چلائیں گے ؟ فرض کیجیے‘ چینی‘ جو کرشمے رونما کر نے کے عادی ہیں‘ آپ کو ارکشتام سے خنجراب تک ریلوے لائن بچھا بھی دیں تو آگے کیا کریں گے؟ خنجراب سے سست‘ ہنزہ‘ گلگت‘ تا حویلیاں تو ریل کا نام و نشان ہی نہیں۔ اوپر کی سطور میں نوحہ خوانی کی جا چکی ہے کہ ہم سے تو حویلیاں کو ایبٹ آباد سے نہیں ملایا جا چکا جو دس میل کا فاصلہ ہے۔ تو آپ تاشقند کو بذریعہ خنجراب گوادر تک ریل سے کیسے مربوط کریں گے ؟اگر آپ نے یہ معرکہ مار لیا تو ہتھیلی پر بال بھی اُگ آئیں گے اور بلی بچوں کے بجائے آئندہ انڈے بھی دیا کرے گی !!
ارے بھائی لوگو! غور کرو ترمذ کو چترال کے شمالی شہر گرم چشمہ سے بذریعہ ریل ملاؤ۔ گرم چشمہ سے اشکاشم۔ اور اشکاشم سے ترمذ۔ یہ وہ سبیل ہے جس میں افغانستان سے گزر کم سے کم ہو گا۔ اس کے بعد گرم چشمہ یعنی چترال کو ریل کے ذریعے پشاور سے جوڑو۔ یہ ایک ایسا محور(Hub)ہو گا جس پر سنٹرل ایشین ریاستیں مکھیوں کی طرح ٹو ٹیں گی۔ افغانستان بھی ٹرین کے ذریعے دنیا سے جُر جائے گا۔ چترال کی بھی قسمت جاگے گی۔ ( چمن تو پہلے ہی ٹرین سے بہرہ ور ہے) ازبکستان‘ ترکمانستان‘ تاجکستان‘ کرغزستان‘ سب کو یہ رُوٹ سہل ترین اور نزدیک ترین پڑے گا۔ پاکستان کی معیشت میں انقلاب آ جائے گا۔ اس تجویز پر جو رد عمل آئے گا اس سے کالم نگار پوری طرح آگاہ ہے۔ کہا جائے گا کہ اس کالم نگار کا دماغ خراب ہے۔ ترمذ سے اشکاشم اور اشکاشم سے گرم چشمہ مشکل ترین علاقہ( Terrain )ہے۔ پھر گرم چشمہ سے پشاور ؟ ایں خیال است و محال است و جنوں ! مگر کیا قراقرم ہائی وے کی تعمیر آسان تھی ؟ کیا مصریوں نے اسوان ڈیم نہیں بنا لیا‘ نہر سویز اور نہر پاناما کون سے آسان کام تھے ؟ ایکواڈور میں ایک ریلوے لائن کو '' شیطان کی ناک‘‘ کہا جاتا ہے۔ بالکل عمودی‘ آسمان کی طرف! اور پھر ڈھلان اور ایسی ڈھلان کہ خدا کی پناہ ! لندن کی زیر زمین ٹیوب سے اتریں اور برقی سیڑھیوں سے اوپر چڑھ کر باہر زمین پر نکلیں۔ دماغ گھوم جاتا ہے یہ سوچ کر کہ ہنستے بستے شہر کی زندگی میں خلل ڈالے بغیر کس طرح کھدائیاں کی ہوں گی ! اتنی زیادہ گہرائی ! اور یہ حیرت انگیز کام ڈیڑھ سو برس پہلے ہوا۔دیوارِ چین اور اہرامِ مصر بھی انسانی کارنامے ہی ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے برج خلیفہ کھڑا کر ڈالا جو روئے زمین کی بلند ترین عمارت ہے۔ کبھی سوچیے کہ انگلینڈ اور فرانس کے درمیان‘ سمندر کے نیچے‘ کس طرح سرنگیں بنائی گئیں جن کے ذریعے انگلش چینل کو اوپر سے نہیں‘ نیچے سے عبور کیا جاتا ہے۔
ایک تو ہماری رفتار اور پھر ہر آنے والی حکومت کا ہر جانے والی حکومت کے بغض میں منصوبوں کو روک دینا ! کیا کیا بلائیں ہمیں چمٹی ہوئی ہیں ! اسلام آباد ایئر پورٹ کو بننے میں دس سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ لواری ٹنل کو پچاس سال لگ گئے۔ صدی کے تین حصے بیت چکے۔ ٹرین مری پہنچی نہ مظفر آباد! سرحد پار جموں46سال پہلے ریل کی وساطت سے باقی ملک سے جُڑ چکا۔ بہت سن چکے وسط ایشیا کو گوادر اور کراچی سے ملانے کے بارے میں ! اگر صرف باتوں سے منصوبے مکمل ہو سکتے تو ہم گوادر سے آگے‘ مالدیپ اور ماریشس تک ٹرین چلا چکے ہوتے !

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, July 19, 2021

کبھی اس پہلو پر بھی غور فرمائیے



کمشنر کی سطح کے ایک افسر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاری روا ہے یا نا روا‘ اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی! یوں تو تاریخ بھی ایک عدالت ہی ہے! غیر رسمی عدالت! تاہم تاریخ کی عدالت کا فیصلہ دیر سے آتا ہے! یہ گرفتاری رنگ روڈ سکینڈل کا شاخسانہ ہے جو ہمارا آج کا موضوع نہیں! ہم تو اس گرفتاری کے حوالے سے ایک اور مضمون چھیڑنا چاہتے ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے‘ عساکرِ پاکستان کا حصہ ہونا ایک نوجوان کے لیے فخر کا باعث ہوتا ہے۔ یہ نوجوان سپاہی ہو یا کیڈٹ‘ دونوں صورتوں میں قابلِ رشک ہوتا ہے۔ اسے عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے! عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج! جسے پوری دنیا کی افواج میں بھی ممتاز مقام حاصل ہے! اس فوج میں لفٹین ہونا پھر کیپٹن‘ میجر‘ کرنل اور بریگیڈیر بننا کوئی معمولی بات نہیں! سخت تربیت کے مراحل پورے کیریئر میں جاری رہتے ہیں! موت ہر شخص کو آنی ہے مگر عساکرِ پاکستان میں جا کر شہادت کی موت حاصل ہونا ایک اعزاز ہے! شہید خود تو شہید ہے‘ شہید کی ماں‘ شہید کا باپ‘ شہید کے بچے اور شہید کی بیوہ کو بھی ہمارا معاشرہ عزت و احترام کا جو درجہ دیتا ہے‘ معاشرے کے دوسرے طبقات کو بہت کم نصیب ہوتا ہے! ہمارے عساکر کا تعلق صرف دنیا سے نہیں‘ آخرت سے بھی جڑا ہے اسی لیے اس پیشے کو مقدس کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ ہم اپنے گھروں کی محفوظ چھتوں کے نیچے‘ بستروں پر‘ جب محو استراحت ہوتے ہیں اس وقت یہ محافظ‘ کارگل اور سیاچن کے بے مہر برف زاروں پر کھڑے ہو کر پہرا دے رہے ہوتے ہیں۔ کتنے ہی مغربی سرحد پر شہید ہوئے۔ کتنے ہی مجاہد اور غازی اپاہج ہو کر اور کچھ مصنوعی اعضا کے ساتھ‘ زندگی گزار رہے ہیں۔ فوجی خاندان اپنے فوجی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ نسلوں تک اپنی اپنی یونٹ کا افتخار چلتا ہے۔ بیٹا اسی یونٹ میں ہو تو باپ فخر سے پھولا نہیں سماتا۔ ایک اعلیٰ فوجی افسر نے فخر سے بتایا کہ وہ‘ اس کا بیٹا‘ اس کا داماد اور داماد کا باپ‘ یعنی سمدھی‘ سب ایک ہی یونٹ سے ہیں۔ یونٹ کا یہ تعلق مضبوطی میں بعض اوقات خونی رشتے کا مقابلہ کرتا ہے۔ فوج کے نظم و نسق سے واقفیت رکھنے والے لوگوں کو معلوم ہے کہ ایک عام سپاہی اپنی یونٹ سے تعلق رکھنے والے جرنیل تک‘ وہ جہاں بھی ہو‘ ہر وقت رسائی رکھتا ہے۔ اور یہ تعلق ریٹائرمنٹ کے بعد بھی رہتا ہے۔ غرض دنیا اور آخرت‘ دونوں لحاظ سے فوج کا پیشہ بہترین ہے۔
عساکر پاکستان کا سول سروس میں دس فیصد قانونی کوٹہ ہے۔ اصولی طور پر اس کا طریقہ یہ تھا کہ عساکر کے اندر امتحان ہو یا میرٹ پر نامزدگی ہو۔ غالباً ابتدا میں یہ درست طریقہ رائج بھی رہا مگر پھر دو رخنے پڑ گئے۔ جنرل ضیاالحق نے باقی اداروں کی طرح یہاں بھی سفارش کی بنیاد رکھ دی۔ ابتدا تو جنرل ایوب خان ہی نے کر دی تھی کہ صاحبزادے کو فوج سے واپس بلا لیا۔ جنرل ضیاالحق نے اپنے اے ڈی سیز اور دیگر جاننے والوں کو فوج سے سول سروس میں لانا شروع کیا۔ بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اس نا قابلِ رشک عمل کو جاری رکھا۔ کس کو نہیں معلوم کہ میاں نواز شریف نے اپنے داماد کو‘ جو اُن کے اے ڈی سی تھے‘ اسسٹنٹ کمشنر بنا دیا۔ باقی با اثر اصحاب نے بھی اس عمل کی پیروی کی۔ یہ با اثر اصحاب عساکر سے بھی تھے اور اہلِ سیاست سے بھی۔ یہاں تک کہ میاں صاحب سے قریبی تعلق رکھنے والی ایک شخصیت نے بھی‘ جو عسکری تھی اور مذہبی بھی‘ اپنے فرزند کو فوج سے سول سروس میں منتقل کر دیا۔ دوسرا رخنہ یہ آن پڑا کہ اس راستے سے سول سروس میں آنے والے یہ نوجوان‘ با اثر خاندانوں سے تھے‘ اور کسی پروسیس کے ذریعے نہیں بلکہ بیک جنبشِ قلم لائے گئے تھے‘ ان سب کا انتخاب سول سروس کے صرف اُن تین گروپوں تک محدود رہا‘ جن میں حکمرانی کی لذت زیادہ ہے۔ یہ سب ضلعی انتظامیہ میں آئے یا پولیس سروس میں یا فارن سروس میں‘ جہاں سفیر بننے کا چانس تھا۔ سول سروس کے باقی گروپ ان کی نگاہ کرم سے محروم رہے۔ چلیے آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس‘ کسٹم اور ٹیکس تو مشکل اور ٹیکنیکل محکمے ہیں مگر عساکر کے کوٹے سے انفارمیشن سروس‘ ریلوے سروس‘ پوسٹل سروس‘ کامرس اینڈ ٹریڈ اور سیکشن افسری میں بھی کوئی نہیں آتا کیونکہ سول سروس کے ان شعبوں میں حاکمیت کا وہ طمطراق نہیں پایا جاتا جو ضلعی انتظامیہ اور پولیس کا نمایاں پہلو ہے!
شاید غزالی نے لکھا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتا! جو کچھ نظر آ رہا ہے‘ اسی کی بنیاد پر اس نے معاملات کا فیصلہ کرنا ہے۔ اور اس کے حق میں کیا بہتر ہے‘ یہ صرف قدرت ہی کو معلوم ہے۔ حافظ ظہورالحق ظہور کیا خوب کہہ گئے ہیں؎
کسی کو کیا خبر کیا کچھ چھپا ہے پردۂ شب میں
نہیں قدرت کے اسرارِ نہاں کا راز داں کوئی
اسی لیے فرمایا گیا کہ عجب نہیں کہ ایک چیز تمہیں بُری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ تمہارے لیے مضر ہو اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
ہم ایک صورت حال کو نا پسند کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ یہ صورت حال بدل جائے۔ کسی کی سفارش ڈھونڈتے ہیں۔ کسی کے آگے دستِ سوال دراز کرتے ہیں۔ ہماری خواہش اور کوشش کی وجہ سے وہ صورت حال بدل جاتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوتا ہے کہ نئی صورت حال تو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ گرفتار ہونے والے کمشنر صاحب پہلے فوج میں کپتان تھے۔ وہاں سے سول سروس میں آئے۔ خدا ان کی مشکلات آسان کرے‘ کیا عجب آج وہ سوچتے ہوں کہ اس سے بہتر تھا کہ فوج ہی میں رہتا۔ یونٹ کمانڈ کرتا۔ بریگیڈ کمانڈ کرتا۔ بخت یاوری کرتا تو جنرل ہو کر ڈویژن یا کور بھی کمانڈ کرتا۔ ہمارے دوست جناب ہاشم خاکوانی ایک چینی کہانی سنایا کرتے ہیں۔ ایک بوڑھے کے پاس قیمتی گھوڑا تھا جسے وہ کسی صورت فروخت کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ ایک دن گھوڑا غائب ہو گیا۔ لوگ افسوس کرنے آئے تو اس نے کہا افسوس کس چیز کا؟ یہ تو اصل واقعہ کا صرف ایک حصہ ہے۔ کچھ عرصہ بعد گھوڑا واپس آیا تو ساتھ اکیس گھوڑے اور بھی تھے۔ ہوا یہ تھا کہ گھوڑا خود ہی جنگل میں چلا گیا تھا۔ وہاں جنگلی گھوڑوں کے ساتھ اس کی دوستی ہو گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد واپس آیا تو وہ سب ساتھ آ گئے۔ اب لوگ مبارک دینے آئے کہ سدھائے جانے کے بعد یہ گھوڑے تمہیں دولت سے مالا مال کر دیں گے۔
مگر بوڑھے نے کہا کہ مبارک کیسی؟ یہ تو اصل واقعے کا صرف ایک ٹکڑا ہے۔ چند دن بعد گھوڑوں کو سدھاتے ہوئے اس کا نوجوان بیٹا گرا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اب کے لوگ افسوس کرنے آئے۔ بوڑھے نے پھر وہی بات کی کہ ابھی واقعہ مکمل نہیں ہوا۔ اب یہ ہوا کہ دوسرے ملک کے ساتھ جنگ چھڑ گئی۔ حکومت نے جبری بھرتی شروع کر دی اور نوجوانوں کو میدانِ جنگ بھیجا جانے لگا۔ بوڑھے کا بیٹا ٹوٹی ہوئی ٹانگ کی وجہ سے بچ گیا۔
اسی لیے اس دعا کی تعلیم دی گئی کہ “  اَصلِح لِی شانی “  میرے سارے معاملات درست ہو جائیں۔ سارے معاملات وہی ذات درست کر سکتی ہے جو دیوار کے دونوں طرف دیکھنے پر قادر ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, July 15, 2021

اس نوے فیصد میں کہیں آپ بھی تو شامل نہیں؟؟



میرے ساتھ ایک دوست تھے جن کے لیے زیادہ چلنا مشکل تھا۔ ان کا حکم تھا کہ گاڑی سے انہیں دکان کے بالکل سامنے اتارا جائے‘ مگر دکان کے سامنے کیسے اتارا جاتا؟ وہاں تو ایک بڑی سی قیمتی گاڑی پارک تھی۔
وفاقی دارالحکومت کا نقشہ جس نے بھی بنایا تھا، اچھا ہی بنایا تھا۔ بعد میں اس ماسٹر پلان کے ساتھ جو بیتی، اس کے بعد وہ ماسٹر تو رہا یا نہیں، پلان بالکل نہیں رہا۔ ہر مارکیٹ کے لیے وسیع و عریض پارکنگ ایریا مختص کیا گیا تھا‘ مگر، کم ہی لوگ اس پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کرنے کی تکلیف گوارا کرتے ہیں۔ عین دکان کے سامنے گاڑی کھڑی کریں گے تاکہ کم سے کم چلنا پڑے کہ زیادہ چلنے سے تنورِ شکم میں جو نہاری، پائے یا پراٹھے دھنسے ہیں، ہضم نہ ہو جائیں۔ خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں کا بس چلے تو دکان کے اندر بھی موٹر سائیکل لے آئیں۔ یہاں یہ بتانا نا مناسب نہ ہو گا کہ کچھ مارکیٹوں میں پارکنگ ایریا کو ہڑپ کر لیا گیا ہے۔ اس لوٹ مار میں دکان دار اور ترقیاتی ادارے کے اہلکار، دونوں فریق برابر کے شریک ہیں۔ ایک دکان کے سامنے ، پارکنگ ایریا میں کپڑے کا سٹال لگا تھا۔ سٹال والے سے تفصیل پوچھی تو اس نے بلا چون و چرا بتایا کہ جس دکان کے سامنے سٹال لگایا ہے، اسے بھی فیس دیتا ہے اور اہلکاروں کو بھی خوش کرتا ہے۔ خیر، بات یہ ہو رہی تھی کہ پارکنگ کرتے وقت ہمارے ذہن میں ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کم سے کم چلنا پڑے۔ غور کیجیے، پارکنگ کا کچھ تعلق ہماری صحت سے بھی ہے۔ کیا عجب، ترقی یافتہ ملکوں میں پارکنگ کے قوانین پر سختی سے اسی لیے عمل کرایا جاتا ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ چلنا پڑے۔ وہاں پارکنگ کے مخصوص مقامات ہیں۔ سڑکوں کے کنارے صرف اسی جگہ پارک کر سکتے ہیں جہاں اجازت ہے۔ پارکنگ مقررہ مدت کے لیے ہوتی ہے اور اس کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔ غلط جگہ پارک کریں گے تو جرمانہ ہو گا۔ خاص طور پر شہر کے جس حصے کو بزنس ڈسٹرکٹ کہا جاتا ہے، اور جہاں جگہ کی قلت ہے وہاں پارکنگ کے نرخ بھی اونچے ہوتے ہیں۔ شہر کے مرکزی حصے میں بھی، جسے کچھ ملکوں میں ڈاؤن ٹاؤن کہتے ہیں، پارکنگ گراں ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو کئی کئی فرلانگ چلنا پڑتا ہے۔ آٹو موبیل کی ایجاد کے بعد ان ملکوں نے ورزش کے کلچر پر خاص توجہ دی۔ جم بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ بہت سے جم چوبیس گھنٹے دستیاب ہیں۔ گاہک کو چابی دے دی جاتی ہے۔ رات دن میں جب چاہے، آ کر قفل کھولے اور ورزش کر لے۔ سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھوں پر، پارکوں، باغوں اور میدانوں میں، عورتیں اور مرد دوڑتے نظر آئیں گے۔
چار دن پہلے راولپنڈی میں صحت کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اس کانفرنس کے دوران اور اس کے اختتامی اجلاس میں ماہرین نے جو کچھ کہا، اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ ''لمحۂ فکریہ‘‘ کہہ دینا فیشن بن گیا ہے اور ایک عام سی بات! مگر یہ ہمارے لیے یقینا لمحۂ فکریہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نوے فی صد پاکستانی کسی قسم کی ورزش کرتے ہیں نہ سیر! صرف دس فی صد سیر کرتے ہیں یا ورزش۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دس سال کے دوران ایسے امراض میں اضافہ ہو گیا ہے جو غیر مواصلاتی یعنی Non Communicable Diseases ہیں۔ مثلاً دل کے امراض، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا، شوگر! (مکمل فہرست خاصی طویل ہے)
ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں اڑتالیس فی صد مرد اور آٹھ فی صد خواتین‘ تمباکو نوشی کا شوق رکھتے ہیں۔ پچھتر فی صد افراد روزانہ کی بنیاد پر سبزیاں اور پھل نہیں کھاتے۔ نوجوانوں میں کولیسٹرول کی بلند سطح روز افزوں ہے یہاں تک کہ چالیس فی صد تک پہنچ رہی ہے۔ ایک چوتھائی آبادی ہائی بلڈ پریشر کے نرغے میں ہے۔ تیرہ فی صد کو ذیابیطس نے گھیر رکھا ہے۔ ان امراض کا مقابلہ محض ادویات سے نہیں کیا جا سکتا۔ عادات و اطوار میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ خوراک میں کچھ چیزیں ترک کرنا ہوں گی اور کچھ اپنانا پڑیں گی۔
ماہرین نے جو کہنا تھا کہہ دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا۔ اب ہمارے لیے سوچنے کو بہت کچھ ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو اپنا اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔ طرز زندگی ایسا ہو گیا ہے کہ جسمانی حرکت کے مواقع کم سے کم ہو گئے ہیں۔ پہلے بچے ساری شام میدانوں یا گلیوں میں کھیلتے اور بھاگتے تھے۔ ٹیلی ویژن کے بعد انٹرنیٹ آ گیا ہے۔ سوشل میڈیا نے بڑوں کو مٹھی میں جکڑ لیا ہے اور سکرین پر کھیلے جانے والے کھیل بچوں کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ بڑوں کو اس میں سہولت نظر آتی ہے کہ بچہ کھانا نہیں کھاتا تو موبائل دے کر کھلائیے۔ رو رہا ہے تو چپ کرانے کی خاطر موبائل تھما دیجیے۔ نوجوانوں کی راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں۔ پھر کچھ ملازمتیں ایسی ہیں جن کے اوقات یورپ یا امریکہ سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ اوقات بھی صحت کے لیے مضر ہیں۔ یہ ایک نئی طرز کا استحصال ہے جو ترقی یافتہ ممالک، غریب ملکوں کا کر رہے ہیں یعنی کم معاوضوں پر ہمارے جیسے ممالک کے نوجوانوں سے کام پورا لیا جائے۔ بے روزگاری اتنی شدید ہے کہ ملازمت جیسی بھی ہو ، چھوڑی نہیں جا سکتی۔
کم ہمتی بھی آڑے آ رہی ہے۔ پندرہ منٹ کا پیدل فاصلہ کوئی نہیں چلتا۔ سواری کے لیے آدھا گھنٹہ انتظار قبول ہے۔ دکان یا بازار زیادہ دور نہیں مگر پیدل نہیں چلیں گے، گاڑی نکالیں گے یا موٹر سائیکل کو لات ماریں گے۔ کچھ علاقے اتنے گنجان ہیں اور ٹریفک کی وجہ سے قیامت خیز کہ خواتین کی چہل قدمی نا ممکن ہو گئی ہے۔ جنوبی ایشیا کی گرمی ایک اور عامل ہے۔ اس شدید گرمی میں بہت سے لوگ سیر نہیں کر سکتے خاص طور پر گردوں کے مریض! کیونکہ جسم میں پانی کی کمی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ معمر افراد بھی اس گرمی میں پیدل نہیں چل سکتے۔ اس کا نعم البدل جم ہیں جو ہمارے ہاں کم ہیں۔ رواج بھی زیادہ نہیں اور رکنیت کی فیس بھی بھاری رکھی جاتی ہے۔ ورزش والی سائیکلیں اور ٹرَیڈ ملیں اتنی مہنگی ہیں کہ آبادی کی بھاری اکثریت کی پہنچ سے کوسوں دور ہیں۔ طرہ یہ کہ خوراک میں پِزے، برگر، کڑاہیاں اور چرغے غالب ہیں۔ گلی گلی نہاری کی دکانیں کھل گئی ہیں۔ اسی تناسب سے نجی کلینک اور فارمیسی کی دکانیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
آٹھ فی صد خواتین کی تمباکو نوشی سے یاد آیا کہ کیا ان اعدادوشمار میں گاؤں کی حقہ نوش بیبیاں بھی شامل ہیں؟ ہمارے علاقے میں حقے کو چلم کہا جاتا ہے اور نسوار کی طرح چلم بھی خواتین میں مقبول ہے۔ اسے برا نہیں سمجھا جاتا۔ معمول کی چیز ہے۔ مگر شہر میں عورت سگریٹ پیے تو کئی ابرو سکڑ جاتے ہیں۔ صحت کے لحاظ سے دونوں مضر ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے۔ حلوے اور سالن سے بھرے ہوئے بڑے بڑے طباق لوگ چٹ کر جاتے تھے مگر ساتھ ہل چلاتے تھے۔ سامان کی بڑی بڑی گٹھڑیاں اٹھا کر کوسوں پیدل چلتے تھے۔ عورتیں تین تین گھڑے سر پر رکھے پانی بھرنے جاتی تھیں۔ گُھڑ سواریاں تھیں جو بجائے خود ایک ورزش تھی۔ پھر سائیکل آئی۔ آج ٹریفک کی جو صورت احوال ہے اس میں سائیکل چلانا، اقدامِ خود کشی سے کم نہیں۔ ادھر مستقبل کا کچھ پتہ نہیں۔ رہی سہی جسمانی حرکت بھی کہیں ختم نہ ہو جائے۔ آن لائن پڑھائی اس کی ایک جھلک ہے کہ بیدار ہو کر بستر سے اترنے کی بھی ضرورت نہیں

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, July 13, 2021

ہم آخری چھ میں ہیں



ہم آخری چھ میں ہیں!
آخری چھ میں ہمارے ساتھ اور کون کون ہے ؟ پہلے چھ والے کون ہیں؟ ہم آخری چھ میں کیوں ہیں ؟ پہلے چھ میں کیوں نہیں ؟ آخری چھ میں ہمارے دیگر پانچ ساتھی صومالیہ‘ یمن‘شام‘عراق اور افغانستان ہیں! پہلے چھ میں جاپان‘ سنگاپور‘ جنوبی کوریا‘ جرمنی‘ اٹلی اور فن لینڈ ہیں۔
یہ مقابلہ جس میں ہم سب سے پیچھے رہ جانے والوں میں شامل ہیں‘ گھوڑ دوڑ کا ہے نہ بیلوں کی دوڑ کا! کتوں کی لڑائی ہے نہ مرغوں کی! یہ بسنت کی پتنگ بازی بھی نہیں! یہ پاسپورٹوں کا مقابلہ ہے۔ پاسپورٹوں کی ریس ہے۔ اس مقابلے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ضعیف پاسپورٹ کس کس ملک کا ہے اور طاقتور پاسپورٹوں کے خوش بخت مالکان کون ہیں ؟
طاقتور پاسپورٹ وہ ہیں جن کا زیادہ سے زیادہ ممالک کھلی بانہوں اور ہنستے چہروں کے ساتھ استقبال کرتے ہیں ! اول تو ویزے کی ضرورت ہی نہیں اور اگر ویزا درکار بھی ہے تو آمد پر فوراً دے دیا جاتا ہے۔ جاپانی پاسپورٹ‘ تازہ ترین سروے کی رُو سے دنیا کا طاقتور ترین پاسپورٹ ہے۔ جاپانی باشندے 193ملکوں میں ویزے کے بغیر داخل ہو سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ تکلف ہو بھی تو بس اتنا کہ کچھ ملکوں میں جہاز سے اترنے کے بعد ویزا دے دیا جاتا ہے۔ کسی جاپانی کو سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ویزے کے لیے فارم بھر نا پڑتا ہے نہ ویزا فیس دینا ہوتی ہے نہ سفارت خانوں کے چکر لگانا پڑتے ہیں نہ انتظار کی کوفت اٹھانا پڑتی ہے۔ ٹریول ایجنٹ بھی ٹکٹ دیتے ہوئے ویزے کا نہیں پوچھتا۔ دوسرے نمبر پر سنگاپور کا پاسپورٹ ہے جسے192ملکوں میں ویزے کے بغیر خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد جنوبی کوریا اور جرمنی کا نمبر آتا ہے جن کے پاسپورٹ191ملکوں میں سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اٹلی اور فن لینڈ کا نمبر ہے۔اس خوش قسمت اور باعزت فہرست میں ملائیشیا کا تیرہواں نمبر ہے۔ یو اے ای پندرہویں نمبرپر ہے۔ ہمارا دوست ترکی چھپن نمبر پر ہے۔ترکی کا پاسپورٹ ایک سو گیارہ ملکوں میں ویزے کے بغیر قبول کر لیا جاتا ہے۔ بھارت کا نمبر کافی نیچے ہے مگر پھر بھی پاکستان سے بہتر پوزیشن میں ہے یعنی نوے90نمبر پر۔ اس کے پاسپورٹ کی ویزا فری قبولیت اٹھاون ملکوں میں ہے۔ آخری چھ نمبروں پر صومالیہ‘ یمن‘ پاکستان‘شام‘ عراق اور افغانستان ہیں۔ پاکستان ایک سو تیرہویں نمبر پر ہے۔ افسوسناک اتفاق دیکھیے کہ ملائیشیا کا نمبر تیرہ اور پاکستان کا ایک سو تیرہ ہے۔ پاکستانی صرف بتیس ملکوں میں ویزے کے بغیر جا سکتے ہیں یا پہنچنے پر ویزا دیا جا سکتا ہے۔ ان ملکوں میں کُک آئی لینڈز‘ ڈومی نیکو‘ ہیٹی‘ گمبیا‘ٹرینی ڈاڈ‘ وناتو‘کمبوڈیا‘ کینیا‘مڈغاسکر‘ ماریطانیہ‘ روانڈا‘ نیپال‘ صومالیہ‘ ٹوگو اور کچھ اور ملک شامل ہیں جن کے نام اس قدر غیر معروف‘ مشکل اور عجیب ہیں کہ لکھنا مشکل لگ رہا ہے۔ سو‘ اگر آپ ویزا حاصل کرنے کی تکلیف سے بچنا چاہتے ہیں اور سیر سپاٹا بھی کرنا چاہتے ہیں تو بیگ میں کپڑے ڈالیے اور ٹوگو‘ ہیٹی‘ یا صومالیہ وغیرہ کی طرف نکل جائیے۔ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ انجوائے کیجیے۔ ہاں قابلِ ذکر اور معروف ملکوں میں قطر واحد ملک ہے جہاں پاکستانیوں کو ایئر پورٹ پہنچنے پر ویزا دے دیا جاتا ہے۔بدترین پاسپورٹ افغانستان کا ہے‘ یعنی ضعیف ترین ! یہ بالکل آخری نمبر پر ہے۔اس کی پذیرائی چھبیس ملکوں میں ہوتی ہے اور یہ کسی بھی ملک کے حوالے سے سب سے کم تعداد ہے۔
اب آپ آخری چھ ملکوں پر غور کیجیے ! افغانستان‘ عراق‘ شام‘ پاکستان‘ یمن اور صومالیہ میں آپ کو قدر مشترک کیا نظر آتی ہے؟ سیاسی عدم استحکام ! امن و امان کا نہ ہونا! انسانی زندگی کی ناقدری ! انہی حوالوں سے پہلے چھ ممالک قابل رشک شہرت رکھتے ہیں۔ جاپان ہے یا سنگا پور‘ جرمنی ہے یا فن لینڈ‘ آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سیاسی استحکام‘ امن و امان اور انسانی جان کی اہمیت کے لحاظ سے یہ ملک کہاں کھڑے ہیں۔ آئر لینڈ‘ فرانس‘ سویڈن‘ یو اے ای‘ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا‘ نیدر لینڈڑ‘ آسٹریا وغیرہ بھی اسی خوش قسمت بریکٹ میں آتے ہیں۔
دلچسپ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ پاسپورٹ کے حامل کا اس قبولیت یا عدم قبولیت میں کوئی قصور ہے نہ کردار ! آپ شریف آدمی ہیں‘ دیانت دار ہیں‘ ٹیکس پورا ادا کرتے ہیں‘اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘مالدار ہیں‘ آپ کبھی جیل نہیں گئے‘ مگر چونکہ آپ صومالیہ کے ہیں یا افغانستان کے یا پاکستان کے یا عراق کے‘ اس لیے آپ کا پاسپورٹ کمزور ہے۔ یعنی
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
اس کے بر عکس آپ چور ہیں‘ مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں‘ آپ کو کوئی شریف آدمی منہ نہیں لگاتا مگر چونکہ آپ کا پاسپورٹ امریکہ کا ہے یا جنوبی کوریا کا‘ اس لیے آپ کے پاسپورٹ کی ہر ملک میں عزت ہو گی اور آپ کو سفر پر نکلنے سے پہلے ویزا لگوانے کی چکی میں پیسا نہیں جا سکے گا۔
اگر پاسپورٹ کے حامل کا کوئی قصور ہے نہ کردار تو پھر کون کون سے عوامل ہیں جو پاسپورٹوں کو طاقتور بناتے ہیں؟ ان عوامل میں پہلے نمبر پر بین الاقوامی معاہدے اور سفارتی سمجھوتے آتے ہیں۔ یورپی یونین کی مثال سر فہرست ہے۔ اٹھائیس ممالک یورپی یونین کے ممبر ہیں۔ ان اٹھائیس ممالک کے شہری ان اٹھائیس ملکوں میں ویزے کے بغیر سفر کر سکتے ہیں‘ مگر اس معاہدے کی وجہ سے ان ممالک کے پاسپورٹوں کی یورپ سے باہر بھی عزت کی جاتی ہے۔ بہت غیر یورپی ملک بھی یورپی باشندوں کو ویزے کے بغیر سفر کی اجازت دیتے ہیں یا پہنچنے پر ویزا دے دیتے ہیں۔ بدلے میں ان ملکوں کو یورپ میں بھی خوش آمدید کہا جاتا ہے؛ چنانچہ آسٹریلیا‘ ملائیشیا‘ برازیل اور جنوبی کوریا کو یورپ آنے جانے میں کسی ویزے کی ضرورت نہیں۔ کامن ویلتھ ممالک کو بھی یہی سہولت حاصل ہے‘ یعنی وہ ممالک جو پہلے برطانیہ کی عملداری میں رہے جیسے‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ۔ چھوٹے ملک جیسے فجی یا انٹیگو(Antigua)بھی اس گنگا میں اشنان کر رہے ہیں۔ بلا شبہ پاکستان بھی کامن ویلتھ کلب کا ممبر ہے۔ ہمیں بھی برطانوی غلامی کا 'اعزاز‘ حاصل رہا ہے‘ بلکہ ہم تو ذہنی طور پر آج بھی غلام ہیں۔ اس کے باوجود ہمارا پاسپورٹ اُس عزت سے محروم ہے جو دوسرے کامن ویلتھ ملکوں کو حاصل ہے۔ اس کا سبب اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہمارے ملک کی شہرت دھماکے ہیں اور نان سٹیٹ ایکٹر!
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
ہم تسلیم کریں یا نہ کریں‘ باہر کی دنیا میں ہمارا ایک امیج بن چکا ہے۔ ہم اس امیج کو بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب تک بھگتنا ہو گا!
پاسپورٹ کو طاقتور بنانے والا ایک اور اہم عامل مضبوط معیشت ہے۔ اس وقت دنیا کی ٹاپ کی دس معاشی قوتوں میں سے سات (امریکہ‘ برطانیہ‘ جاپان‘جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی‘ کینیڈا ) طاقتور ترین پاسپورٹ رکھتے ہیں۔ اقتصادی لحاظ سے مضبوط ممالک کے شہریوں پر ویزا کی پابندیاں اس لیے بھی نہیں لگائی جاتیں کہ ان شہریوں کی مالی حالت صحت مند ہوتی ہے۔ بزنس میں پیسہ لگاتے ہیں یا سیاحت پر! دونوں صورتوں میں میز بان ملک کو فائدہ ہے۔ پھر ان سے یہ ڈر بھی نہیں ہوتا کہ قابون شکنی کریں گے‘ واپس جانے کے بجائے یہیں چھپ جائیں گے اور ناجائز طور پر مزدوری کرتے پھریں گے۔ ایک امیر ملک کے باشندے کو یہ سب کرنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے ؟
اس آئینے میں ہم اپنا چہرا آسانی سے دیکھ سکتے ہیں!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, July 12, 2021

خوش گمانیاں



''پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘‘۔ اس خوش گمانی میں ہمیں بچپن ہی سے ڈال دیا جاتا ہے جس کا حقائق کی دنیا سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ اگر ملک زرعی ہوتا تو ہم اناج اور دیگر اشیائے خوردنی میں خود کفیل ہوتے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ کبھی ہم گندم درآمد کرتے ہیں کبھی چینی۔ بھارت سے ہم نے پیاز تک خریدے۔شہد خالص ملنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کوئی سچا اور مخلص دوست! بازار میں شہد کے جو مقامی برانڈ دستیاب ہیں انہیں خریدتے وقت شاید ہی کسی کو یقین ہو کہ یہ خالص ہو گا۔ دودھ کی جو صورت حال ہے سب کو معلوم ہے۔ نیوزی لینڈ کا دودھ بھی بازار میں دیکھا گیا ہے۔ رہے انسٹنٹ ملک کے ڈبے اور پیکٹوں میں بند دودھ، تو وہ بھی پکار پکار کر بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ بچوں کا دودھ الگ درآمد کیا جاتا ہے۔ گوشت بھی زراعت ہی کا حصہ ہے۔ اس میدان میں ہم گدھے تک کا گوشت بیچ اور کھا چکے۔ رہی کپاس تو اس کی پیداوار ماضی کی نسبت 34‘35 فی صد کم ہو چکی ہے۔ صنعت کار کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے جو مقامی کپاس سے پندرہ فی صد زیادہ مہنگی ہے۔ روز افزوں ہاؤسنگ سوسائٹیاں، زیر کاشت رقبے کو کم سے کم تر کر رہی ہیں۔ ریئل اسٹیٹ مافیا ایک عفریت بن چکا ہے جسے لگام ڈالنا بظاہر نا ممکن لگ رہا ہے۔ رہی سہی کسر شوگر ملیں اور دیگر کارخانے نکال رہے ہیں۔ زرعی زمینیں تیزی سے ہڑپ کی جا رہی ہیں۔ کسانوں کے لیے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہسپتال ہیں نہ حیوانات کے شفا خانے۔ ہمارے دیہات آج بھی ایسا زمانہ دکھا رہے ہیں جو کب کا گزر چکا۔ ایسے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ''پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘‘۔

''پاکستان اسلام کا قلعہ ہے‘‘۔ آج تک نہیں معلوم ہو سکا کہ یہ دعویٰ ہم کس بنیاد پر کرتے ہیں؟ اگر آبادی کے اعتبار سے کرتے ہیں تو انڈونیشیا کی آبادی پاکستان سے زیادہ ہے اور بھارت میں مسلمانوں کی تعداد ہم سے ذرا سی ہی کم ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کو معیار مانیں تو اُس لحاظ سے بھی ہماری کارکردگی ہرگز اس قابل نہیں کہ اپنے ملک کو اسلام کا قلعہ قرار دیں۔ صفائی کے لحاظ سے، مراکش سے لے کر ایران تک، تمام مسلم ممالک ہم سے کہیں بہتر ہیں۔ خوراک میں ملاوٹ ہمارے ہاں روزمرہ کا معمول ہے۔ کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ عہد شکنی، دروغ گوئی اور قطع رحمی ہمارے لیے بالکل نارمل ہیں۔ کرپشن اتنی ہے کہ صرف کرپشن کی بنیاد پر حکومت تک بدل گئی۔ عورت، وراثت اور اُن بے شمار دوسرے حقوق سے یہاں محروم ہے جو اسلام نے اسے دیے ہیں۔ قرآن فہمی تو دور کی بات ہے، اکثریت کو نماز تک کے معنی نہیں معلوم!

''افسروں کی بڑی بڑی سرکاری رہائش گاہیں‘‘۔ انگریزوں کے زمانے سے کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اور پولیس افسروں کی بڑی بڑی رہائش گاہیں چلی آ رہی ہیں۔ برطانیہ رقبے کے لحاظ سے چھوٹا ملک ہے۔ اس پر مستزاد وہاں کا بے رحم موسم سرما، نیم تاریک دن اور سرد سفاک راتیں؛ چنانچہ گھر چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے تا کہ آتش دان سے جلد گرم ہو جائیں۔ بر صغیر آ کر انگریزوں نے زمین کی فیاض وسعتیں دیکھیں تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بادشاہوں اور نوابوں کا تو ذکر ہی کیا، عام مڈل کلاس خاندانوں کی حویلیاں بھی بے حد کشادہ ہوتی تھی؛ چنانچہ انگریز افسروں نے اپنی رہائش گاہوں کے لیے بڑے بڑے رقبے قابو کر لیے۔ ریلوے کے انگریز افسروں نے بھی یہی کچھ کیا۔ ڈربوں میں رہنے والے انگریزوں کو ان وسیع و عریض گھروں اور بیس بیس نوکروں سے نفسیاتی تسکین ملتی تھی۔ انگریز گئے تو یہ گھر مقامی یعنی دیسی سول سرونٹس کو ملے۔ اب یہ حکومتوں کا فرض تھا کہ ان گھروں کو کسی بہتر استعمال میں لاتیں۔ تعلیمی اداروں میں تبدیل کرتیں یا ہسپتالوں میں۔ یہ حکمرانوں کے کرنے کا کام تھا۔ ایک کمشنر یا پولیس افسر اپنی سرکاری رہائش گاہ کی حیثیت بدلنے کا مجاز ہی نہیں۔ سینکڑوں ہزاروں ایکڑوں پر مشتمل گورنر ہاؤسوں کو بھی کسی بہتر مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ حکمران اس سلسلے میں نئی پالیسی اس لیے نہیں بناتے کہ ان کے اپنے سرکاری محلات پر زد پڑے گی۔

''ملکوں کی باہمی دوستی‘‘۔ ہم بہت معصوم لوگ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کو جذبات کے ترازو میں تولتے ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے خاندان میں رشتہ داریوں کو تولا جاتا ہے یا پُر خلوص دوستوں کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ اسی لیے ہم شکایت کرتے ہیں کہ امریکہ نے فلاں موقع پر ہمیں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا۔ فلاں ملک نے مودی کی آؤ بھگت زیادہ کی اور فلاں ملک نے اپنے ہاں مندر بنوا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی ملک کسی ملک کا سگا نہیں۔ امریکہ ہو یا روس، چین ہو یا یو اے ای، قطر ہو یا سعودی عرب، ترکی ہو یا ایران، سب کا دوستی یا دشمنی کا ایک ہی معیار ہے اور وہ ہے ملکی مفاد اور بس! یعنی
کوئی ہر جائی نہیں، کوئی وفادار نہیں
سب گرفتار ہیں ہر لحظہ دھڑکتے دل کے
ابھی نصف صدی پہلے ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ لگ رہا تھا۔ آج صورت احوال یکسر مختلف ہے اس لیے کہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں ملک مشکل وقت میں ہمارے کام آئے گا تو یہ سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر اس کا اپنا مفاد اس میں ہے تو ضرور ہمارے کام آئے گا ورنہ نہیں۔ ترکی کی مثال لے لیجیے۔ اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں اور تجارتی بھی۔ ہفتے میں کتنی ہی پروازیں ترکی ایئر لائن کی تل ابیب جاتی ہیں۔ بھارت کے چین کے ساتھ بھرپور تجارتی تعلقات ہیں۔ امریکہ اور چین کی تجارت جاری ہے۔ ہم جذبات کے حصار سے جس قدر جلد باہر نکل آئیں، بہتر ہے۔ جب ہماری معیشت بہتر ہو گی، دوسروں کی احتیاج ختم ہو گی، اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے تو دوسرے ممالک بھی ہمیں اہمیت دیں گے۔ جذباتیت کا یہ عالم ہے کہ دوسرے مسلمان ممالک اپنے اپنے مفادات کی خاطر اسرائیل سے تعلقات ہموار اور استوار کر رہے ہیں تو ہمارے سینے دُکھ سے چھلنی ہو رہے ہیں۔ بحرین کی مثال لے لیجیے۔ اس کی جغرافیائی پوزیشن پر غور کیجیے۔ اس کی آبادی کے اجزا کا تجزیہ کر کے دیکھیے۔ اس نے فیصلہ اپنے مفاد اور صرف اپنے مفاد کو دیکھ کر کیا ہے۔ بین الاقوامی سیاست شطرنج کا کھیل ہے۔ جس نے جو چال چلنی ہے، اپنی فتح کیلئے چلنی ہے۔ ہم اگر اپنی سرحدوں کو شاہراہِ عام بنا لیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوتا ہے، اس میں کوئی دوسرا ملک ہماری مدد آخر کس طرح کر سکتا ہے؟ المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں ابھی تک یہی نہیں معلوم کہ ہمارا مفاد ہے کیا؟ ہمارے معیار اس قدر سرعت سے بدلتے ہیں کہ دنیا تو کیا، خود ہم، اپنا ساتھ نہیں دے پا رہے۔

''افغانستان میں امن کی آمد آمد ہے‘‘ کہا جا رہا ہے کہ اب کے کچھ تاجک اور ازبک بھی طالبان کے ساتھ ہیں۔ مگر یہ قومیتیں تو احمد شاہ ابدالی کی فوج میں بھی تھیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا انہیں شریک اقتدار بھی کیا جائے گا؟ سوویت حملے کے بعد تاجک، ازبک اور ہزارہ پیش منظر پر آ چکے ہیں‘ دوبارہ انہیں پس منظر میں نہیں دھکیلا جا سکے گا۔ کیا ایک ہزارہ، تاجک یا ازبک، ملک کے سربراہ یا وزیر اعظم یا کمانڈر ان چیف کے طور پر قابل قبول ہو گا؟ اگر اس کا جواب ''نہیں‘‘ میں ہے تو اس ''نہیں‘‘ کا منطقی نتیجہ سول وار کی صورت میں ظاہر ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, July 08, 2021

مجید امجد سے ایک ملاقات



جب سے پاکستان ریاست مدینہ کی راہ پر چلنا شروع ہوا ہے کالم نگار اپنے طور پر اس امر کی تفتیش کر رہا ہے کہ ریاست اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے یا نہیں۔
ریاست مدینہ میں بھوکوں اور قلاشوں کی ذمہ داری حکمران وقت پر تھی۔ خلفائے راشدین خود روکھی سوکھی کھاتے تھے مگر فکر اس بات کی کرتے تھے کہ عوام کس حال میں ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ عید کے دن جَو کی سوکھی روٹی تناول فرما رہے تھے۔ زمانۂ قحط میں ایک دن حضرت عمرؓ کے پاس گھی والی روٹی آئی۔ آپؓ نے ایک اعرابی کو شریک طعام کیا۔ جس طرف گھی تھا اس طرف سے وہ بڑے بڑے نوالے کھانے لگا۔ آپؓ نے اسے کہا: معلوم ہوتا ہے تم نے گھی کبھی نہیں کھایا۔ اس نے کہا: ہاں میں نے فلاں تاریخ سے لے کر آج تک گھی یا تیل نہیں کھایا اور کسی کو کھاتے دیکھا بھی نہیں۔ آپؓ نے اسی وقت قسم کھائی کہ جب تک قحط ہے وہ گھی اور گوشت نہیں کھائیں گے۔ اپنی اس قسم کی اتنی پاس داری کی کہ چہرے کا رنگ سیاہ پڑ گیا۔ ہڈیاں نکل آئیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو خوف آنے لگا کہ آپ کہیں جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ ایک دن غلام نے بازار میں گھی اور دودھ بکتا دیکھا تو چالیس درہم میں خرید لیا۔ آ کر آپ کو بتایا کہ اللہ نے آپ کی قسم پوری کر دی‘ دودھ اور گھی بازار میں بِک رہا ہے۔ آپ نے یہ کہہ کر اسے خیرات کر دیا کہ مہنگا خریدا گیا ہے۔
للہ الحمد کہ جہاں تک ریاست مدینہ کے مطابق پاکستان کو ڈھالنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ کل ہی راولپنڈی سے اسلام آباد جاتے ہوئے ہر سگنل اور ہر چوک پر بھکاریوں نے گاڑی کے شیشے پر دستک دی۔ ایک چوک پر گاڑی سے نیچے اتر کر ان سب کو اکٹھا کیا اور پوچھا کہ اب جب پاکستان اس بے مثل ریاست کی پیروی کر رہا ہے تو تم بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ انہوں نے حکمرانوں کو دعائیں دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ ہم میں سے جو جسمانی طور پر تندرست ہیں انہیں روزگار دیا گیا ہے اور جو اپاہج ہیں انہیں سرکاری دارالامان میں جگہ دی گئی ہے جہاں طعام اور لباس کا انتظام کیا جاتا ہے۔ حیران ہو کر پوچھا کہ پھر تم بھیک کیوں مانگ رہے ہو! انہوں نے بیک آواز جواب دیا کہ بھیک تو ہم صرف اس لیے مانگ رہے ہیں کہ اس ریاست کو جو ریاست مدینہ کی اتباع ایک انوکھے طریقے سے کر رہی ہے کہیں نظر نہ لگ جائے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایسی بات نہیں۔ تم سچ بولنے سے ڈر رہے ہو۔ تمہیں گداگر مافیا کنٹرول کر رہا ہے اور یہ کہ میں جناب وزیر اعظم کی توجہ اس منحوس اور مکروہ مافیا کی طرف مبذول کراؤں گا۔ یہ سن کر وہ سب زار و قطار رونے لگے اور ہاتھ باندھ کر کہنے لگے کہ خدا اور رسول کا واسطہ ہے‘ جناب وزیر اعظم کی توجہ گداگر مافیا کی طرف نہ دلانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مافیا ہمیں جان سے مار دے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہ کہا کہ بے وقوفو! وہ تو اس مافیا کی گردن مروڑ کر رکھ دیں گے اور تم سب رہا ہو جاؤ گے۔ اس پر انہوں نے دوبارہ گریہ کیا۔ ان میں سے ایک معمر بھکاری نے مخاطب کیا اور کہنے لگا: اے عزیز! لگتا ہے تم اس ملک میں آج ہی وارد ہوئے ہو۔ کیا تم کسی دوسرے ملک میں رہتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ میں یہیں رہتا ہوں! اس پر وہ بزرگ ہنسے اور کہنے لگے: کیا تم بھول گئے کہ جناب وزیر اعظم نے آٹا مافیا، شوگر مافیا، پٹرول مافیا اور ادویات مافیا پر بھی توجہ دی تھی۔
اس کامیاب ریاست کے نقوشِ قدم پر چلنے کے اعلان کے بعد پہلی بار مری جانے کا اتفاق ہوا۔ جھیکا گلی چوک سے جی پی او مری کی طرف گاڑی موڑی تو گاڑی کے ساتھ ساتھ ایک چار سالہ بچہ دوڑنے لگا۔ اس نے ہاتھ گاڑی کے دروازے پر اس طرح رکھا ہوا تھا کہ آدھا ہاتھ گاڑی کے اندر تھا اور آدھا باہر۔ وہ گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتا رہا۔ گاڑی کی رفتار تیز ہوئی تو وہ پیچھے رہ گیا۔ گاڑی جی پی او چوک سے ابھی کافی دور تھی کہ ٹریفک زیادہ ہونے کے سبب رفتار آہستہ کرنا پڑی۔ اب ایک اور بچہ گاڑی کے دروازے پر ہاتھ رکھ کر دوڑنے لگا۔ اس کی عمر پانچ سال سے زیادہ نہ تھی۔ میں نے گاڑی ایک طرف کر کے روک دی۔ باہر نکلا اور بچے کو اپنے پاس بلا لیا۔ پوچھا: کیوں مانگ رہے ہو۔ کہنے لگا: ابو نہیں ہیں‘ مانگوں گا نہیں تو کھاؤں گا کہاں سے؟ حیرت ہوئی کہ اتنا، چھوٹا، معصوم بچہ کس قدر اعتماد سے جھوٹ بول رہا ہے۔ میں نے کہا: یہ نا ممکن ہے‘ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ بچے نے جواب دیا کہ نہیں! وہ سچ کہہ رہا ہے۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ اب جب پاکستان کو ریاست مدینہ کے طریقے پر چلایا جا رہا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یتیم ہونے کے باوجود اس کی دیکھ بھال نہ کی جا رہی ہو۔ اب کے بچے کی باری تھی مجھے جھوٹا کہنے کی۔ کہنے لگا: بابا، اتنے بوڑھے ہو کر بھی جھوٹ بول رہے ہو۔ اپنی سفید ریش ہی کا کچھ خیال کرو۔ کچھ دے نہیں سکتے تو اپنی عاقبت مزید برباد نہ کرو۔ ریاست مدینہ کا نام لینے کے بعد حکمران کس طرح میری کسمپرسی سے غافل، یا، بے نیاز، رہ سکتے ہیں؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے رات کے بعد دن نہ نکلے۔ ایسی بات کسی نے نہیں کی۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ اس مقبول ریاست کی پیروی کا دعویٰ ایک بار نہیں، بیسیوں بار کیا گیا ہے۔ پھر بچے نے ایک عجیب سوال پوچھا: کیا یہ سچ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نتھیا گلی آتے رہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں سچ ہے۔ اب اس کے چہرے پر اطمینان تھا۔ کہنے لگا: نتھیا گلی مری سے زیادہ دور نہیں‘ میں خود وزیر اعظم سے مل کر پوچھوں گا کہ کیا انہوں نے یہ بات کی ہے؟ میں نے اس کی طرف کچھ روپے بڑھائے مگر وہ پیچھے ہٹنے لگا۔ اس نے کہا کہ پہلے وہ نتھیا گلی جائے گا۔ اتنا کہہ کر وہ ایک اور گاڑی کے ساتھ دوڑنے لگا۔ سامنے ایک ڈھابا تھا۔ میں اس میں چلا گیا۔ ایک دس سالہ لڑکا برتن مانجھ رہا تھا۔ ایک طرف بنچ پر بیٹھا ایک عجیب سا شخص چائے پی رہا تھا۔ غور سے دیکھا تو وہ مجید امجد تھے۔ گھُٹنوں کو ہاتھ لگا کر ملا اور ملتمس ہوا کہ کوئی نظم سنائیں۔ انہوں نے نظم سنائی مگر یوں جیسے اپنے آپ کو سنا رہے ہوں۔

مرے دیس کی ان زمینوں کے بیٹے جہاں صرف بے برگ پتھر ہیں صدیوں سے تنہا 

جہاں صرف بے مہر موسم ہیں اور ایک دردوں کا سیلاب ہے عمر پیما 

پہاڑوں کے بیٹے 

چنبیلی کی نکھری ہوئی پنکھڑیاں سنگ خارا کے ریزے 

سجل دودھیا نرم جسم اور کڑے کھردرے سانولے دل 

شعاعوں ہواؤں کے زخمی 

چٹانوں سے گر کر خود اپنے ہی قدموں کی مٹی میں اپنا وطن ڈھونڈتے ہیں 

وطن ڈھیر اک ان منجھے برتنوں کا 

جسے زندگی کے پسینوں میں ڈوبی ہوئی محنتیں در بہ در ڈھونڈھتی ہیں 

وطن وہ مسافر اندھیرا 

جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے کناروں پہ شاداب شہروں میں رک کر 

کسی آہنی چھت سے اٹھتا دھواں بن گیا ہے 

ندی بھی زر افشاں دھواں بھی زر افشاں 

مگر پانیوں اور پسینوں کے انمول دھارے میں جس درد کی موج ہے عمر پیما 

ضمیروں کے قاتل اگر اس کو پرکھیں 

تو سینوں میں کالی چٹانیں پگھل جائیں

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, July 06, 2021

……کیا کھویا ہے‘ کیا پایا ہے؟


ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے ؟ یعنی افغانستان کے معاملے میں...؟ ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا ہو گا کہ کیا امریکہ ہم سے خوش ہے ؟ کیا افغان حکومت ہم سے خوش ہے ؟ کیا طالبان ہم سے خوش ہیں؟ اور کیا افغان عوام ہم سے خوش ہیں ؟
پاکستان نے جس امریکہ کی خوشنودی کی خاطر تن من دھن وار دیا‘ اُس امریکہ نے ہر فیصلہ پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر کیا۔ ہمارے وزیر اعظم سے ابھی تک امریکی صدر نے بات ہی نہیں کی۔ (ویسے امریکی الیکشن سے پہلے وزیر اعظم نے بھی اپنا وزن ٹرمپ صاحب کے پلڑے میں ڈال دیا تھا) امریکہ نے اس حقیقت پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی کہ اسامہ بن لادن کے خلاف ایکشن لیتے وقت پاکستان کو مکمل تاریکی میں رکھا گیا تھا۔
افغان حکومت کی پاکستان سے مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں۔ حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی نے ایک مضمون لکھا ہے۔ ذرا لہجہ دیکھیے'' اگر پاکستان طالبان کی حمایت اختیار کرتا ہے تو پاکستان افغان قوم کی دشمنی مول لے گا اور اپنے آپ کو اُن بہت سے معاشی فوائد سے محروم رکھے گا جو امن اور علاقائی ارتباط کا ثمر ہیں۔ پاکستان بین الاقوامی اعتبار سے اچھوت بن جائے گا کیونکہ امریکی انخلا کے بعد پاکستان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہے گا...۔‘‘ دو ماہ پہلے افغان صدر نے ایک جرمن جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ ''طالبان کے ذرائع نقل و حمل‘ ان کے مالیاتی معاملات اور ان کے لیے افرادی قوت کی بھرتی سب کچھ پاکستان میں ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ '' طالبان کی فیصلہ ساز تنظیموں کے نام ہیں کوئٹہ شوریٰ‘ میرن شاہ شوریٰ اور پشاور شوریٰ۔ یہ تنظیمیں انہی شہروں میں واقع ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی ریاست کے ساتھ ان کا گہرا تعلق ہے‘‘۔ افغان صدر نے اس کے علاوہ بھی کئی مواقع پر پاکستان کے خلاف بیانات دیے۔ ان کا بھارت کی طرف جھکاؤ ہمیشہ واضح رہا ہے۔
پاکستان نے اپنے ملک کا ہر دروازہ تیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کے لیے کھولا۔ رہائش گاہیں‘روزگار‘ کاروبار‘بازار‘ تعلیمی ادارے‘ ہسپتال‘ سب کچھ ان کے آگے حاضر کر دیا۔ سوویت حملے کے بعد افغانوں کی دو نسلیں پاکستان میں پروان چڑھیں۔ یہیں کھایا پیا۔یہیں کی دھوپ‘ یہیں کی چاندنی اور یہیں کی ہواؤں میں زندگیاں گزاریں۔ اس کالم نگار کو کل کی طرح یاد ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں پشاور موڑ والے بازار میں افغان نانبائیوں کی متعدد دکانیں تھیں‘ ہر روز کئی پاکستانی آکر انہیں اپنی اپنی بساط کے مطابق رقم عطیہ کرتے تھے تاکہ سامنے بیٹھی ہوئی افغان خواتین کو مفت روٹی فراہم کریں۔ یہ کوئی احسان نہ تھا‘ نہ جتانے والی بات ہے۔ یہ پاکستانیوں کا فرض تھا۔ لاکھوں افغان پاکستان کی وساطت سے‘ پاکستانی پاسپورٹوں پر بیرونِ ملک گئے اور اقامت اختیار کی۔ مگر پاکستان کی بد قسمتی کہ اس سب کچھ کے باوجود افغان پاکستان کے ساتھ عداوت ہی کا اظہار کرتے رہے۔ ابھی‘ اسی سال‘ مئی کے تیسرے ہفتے میں سینکڑوں افغانوں نے پاکستان ہائی کمیشن لندن کی عمارت پر ہلہ بولا ہے۔ 1995ء کے اواخر میں کابل میں واقع پاکستانی سفارت خانے پر ہزاروں مظاہرین نے حملہ کیا۔ ایک شخص ہلاک ہوا اور درجنوں‘ پاکستانی سفیر سمیت‘ زخمی ہوئے۔ جولائی2003ء میں ایک بار پھر پاکستانی سفارتخانے پر ہزاروں افغان شہریوں نے چڑھائی کی۔رہے طالبان‘ تو ان کا رویہ اور پالیسیاں غیر متوقع اور ناقابلِ پیش گوئی ہوتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد پاکستان نے انہیں اسامہ بن لادن کے معاملے میں قائل کرنے کی بہت کوشش کی مگر انہوں نے کوئی بات نہ مانی۔ اگر امریکہ‘ افغان عوام اور افغان حکومت سب ناخوش ہیں توکیا یہ سب غلط ہیں؟ اگر ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ کل طالبان کارویہ پاکستان کے ساتھ کیا ہو گا تو کیا اس میں طالبان کا قصور ہے ؟
کیا ساری دنیا غلط ہے اور صرف ہم صحیح ہیں ؟ نہیں! ہم نے اپنے پتے دانائی کے ساتھ نہیں بلکہ کوتاہ بینی کے ساتھ کھیلے۔ ہمارا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ دونوں مواقع پر ہمارے ملک میں جمہوریت کی نہیں بلکہ آمریت کی حکمرانی تھی۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی۔ نائن الیون رو نما ہوا تو جنرل پرویز مشرف بر سر اقتدار تھے۔دونوں دفعہ فیصلے کسی پارلیمان‘ کسی جمہوری ادارے یا سیاسی رہنماؤں نے نہیں کیے بلکہ فرد ِواحد کے فیصلے تھے جو قوم پر مسلط کیے گئے۔ چونکہ دونوں مواقع پر آمرانہ پالیسیاں امریکہ کو راس آرہی تھیں اس لیے امریکہ نے اپنی نام نہاد جمہوریت پسندی کو بالائے طاق رکھا اور ان آمرانہ حکومتوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائیں۔ ہر دو مواقع پر آمرانہ حکومتوں کے فیصلے پاکستانی مفاد کے خلاف تھے۔ افغان مجاہدین کی مددایک اور بات ہے اور اپنے ملک کا نقصان ایک بالکل دوسرا معاملہ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے عملاً پاکستانی سرحدوں اور پاکستانی ویزے کا خاتمہ کر دیا۔ مہاجرین تو تھے ہی‘ ساری دنیا سے جنگجو بھی لاکر پاکستاں میں اکٹھے کر لیے۔ انہیں علاقوں کے علاقے دیے گئے۔ہر طرف اسلحہ کی بھرمار ہو گئی۔ راکٹ تک بازاروں میں بکنے لگے۔ ساتھ ہی منشیات کے سیلاب نے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس پر طرہ یہ کہ افغان مہاجرین کو کیمپوں میں رکھنے کے بجائے پورے ملک میں آزاد چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے ٹرانسپورٹ اور متعدد دوسرے شعبوں پر قبضہ کر لیا۔ خیبر پختونخوا کے صوبے کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ مکانوں کے کرائے اتنے بڑھے کہ مقامی لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گئے۔ افغان لیبر نے پاکستانی مزدوروں کو عملاً لیبر مارکٹ سے بے دخل کر دیا‘ یہ افغان اور ان کی اگلی نسل آج بھی پاکستان میں موجود ہے۔
امریکہ ہم پر اعتبار نہیں کر رہا اس لیے کہ امریکہ گھاس نہیں‘ اناج کھاتا ہے۔ ہماری پالیسیاں دوغلی تھیں اور دو رُخی ! ہم کہتے کچھ تھے کرتے کچھ تھے۔کسی کے بظاہر دوست تھے مگر درپردہ مخالف۔ کسی کے بظاہر خلاف تھے مگر اندر خانے موافق! ہماری ہر لحظہ بدلتی پالیسیاں چھپی نہ رہ سکیں۔ دنیامیں کوئی پالیسی‘ کوئی اقدام‘ زیادہ دیر تک پردۂ اخفامیں نہیں رہ سکتا۔ نائن الیون کے بعد جب ایک فون کال پر ہم چاروں شانے چت ہو گئے تو طالبان کی دوستی کو بھی قربان کر دیا۔ طالبان حکومت کے سفیر ملا عبد السلام ضعیف کے ساتھ جو سلوک ہم نے کیا اور جس ناقابلِ یقین اور ناقابلِ بیان انداز کے ساتھ انہیں امریکیوں کے حوالے کیا وہ نہ صرف ہماری تاریخ میں بلکہ سفارت کاری کی تاریخ کا بھی ایک معیوب واقعہ تھا۔
حکومت اور اپوزیشن قومی مسائل کے لیے بھی مل کر نہیں بیٹھ سکتیں۔ یہ ایک اور بد قسمتی ہے۔ وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا تو دور کی بات ہے‘ ہاتھ ملانے اور سلام تک دینے کے روادار نہیں۔ ہر جمہوری ملک میں حساس پالیسیاں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف باہم اکٹھے بیٹھ کر تشکیل دیتے ہیں۔ یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ اسمبلی کے اندر لڑائی جھگڑے اور مجادلے ہیں اور اسمبلی سے باہر ٹاک شو اور جلسے! وزیراعظم کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ فارن آفس یا تو انہیں بریفنگ دیتا نہیں یا وہ فارن آفس کو پرِ کاہ کی حیثیت دینے کو تیار نہیں ! کاش افغان پالیسی کی تشکیل کے لیے تمام سٹیک ہو لڈر اکٹھے بیٹھ کر ایک مستقل‘ قابلِ عمل اور حقیقت پسندانہ پالیسی تشکیل دیں! اناؤں کے خول سے باہر نکلیں اور ذاتی دشمنیاں تج دیں۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, July 05, 2021

رات بھر میں بے پَروں کے پر نکل آئیں گے کیا ؟؟

تلخ نوائی…………

شام ہو رہی تھی۔ اسے دریا کے پار جانا تھا اور دریا ابھی دور تھا۔
اس نے تیز تیز چلنا شروع کردیا۔ اتنا تیز جیسے بھاگ رہا ہو۔ ہانپتاہوا دریا کے کنارے پہنچا تو لوگوں نے بتایا کہ آخری کشتی جا چکی ہے مگر ابھی آواز کی رسائی میں ہے۔ اس نے پوری قوت سے کشتی والوں کو پکارا۔ کندھے پر رکھی جانے والی چادر کو اونچا کر کے ہوا میں بار بار لہرایا۔ آخر کار کشتی والوں تک اس کی درخواست پہنچ گئی۔ ملاح نے کشتی کو واپس کنارے کی طرف پھیرا۔کچھ دیر میں کشتی کنارے آلگی۔ وہ سوار ہونے کو تھا کہ رُک گیا۔ اس نے کشتی میں سوار مسافروں اور ملاح سے کہا ''دوستو! معاف کرنا۔ میں اس کشتی میں سوار نہیں ہوں گا‘‘۔کشتی والے بھونچکے رہ گئے۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو اس نے وجہ بتانے سے انکار کر دیا۔ بس مسلسل معذرت کرتا رہا۔ کشتی والوں نے اسے لعن طعن کی اور واپس سفر پر چل نکلے۔ آدھے راستے میں کشتی ڈوب گئی۔ کچھ مسافر راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ کچھ تیرتے ہوئے‘ کچھ کسی تختے سے چمٹے ہوئے واپس کنارے آلگے۔ انہوں نے اس کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور کہا کہ یا شیخ! آپ ہمارے مر شد ہیں! آپ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ آپ نے اپنی روحانی طاقت سے معلوم کر لیا تھا کہ کشتی ڈوب جائے گی۔ وہ ہنسا اور کہا '' بھئی ! میں تو ایک غریب میراثی ہوں۔ کہاں روحانی طاقت اور کہاں میں چِٹا اَن پڑھ! رہی کشتی تو اس نے ڈوبنا ہی ڈوبنا تھا۔میں نے دیکھ لیا تھا کہ کشتی کے مسافروں میں بھینگامسخرہ بھی بیٹھا تھا۔ ایک مداری بھی اپنی بکری اور بندر سمیت سوار تھا اور کشتی کے درمیان میں ایک اونٹ بھی کھڑا تھا۔ میں نے دو اور دو جمع کیے۔ مجھے معلوم تھا کہ بھینگا مسخرا بندر کو ضرور چھیڑے گا۔ بندر تنگ آکر شرارت پر اتر آئے گا اور اونٹ پر سوار ہو کر اچھل کود کرے گا۔ اونٹ احتجاجاً جوابی اچھل کود کرے گا۔ کشتی کا توازن بگڑے گا اور کشتی ڈوب جائے گی۔
جو بزرجمہر دور بینیں آنکھوں سے لگائے‘ امریکی‘ پاکستانی اور افغان رہنماؤں کے بیانات کی کھال اتار کر‘ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں فرما رہے ہیں‘ افسوس کہ انہیں مسخرہ دکھائی دے رہا ہے نہ بندر اور نہ ہی اونٹ! اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اس میں تاجکوں‘ ازبکوں‘ ہزارہ‘ ترکمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ان کی آبادی‘ یا ان کی خواہش کے مطابق اقتدار میں حصہ ملے گا۔افغانستان کے جنوب کی شمال کے ساتھ اور مشرق کی مغرب کے ساتھ اور اقلیتوں کی اکثریت کے ساتھ اور کٹر مسلمانوں کی آزاد منش کے ساتھ چپقلش لازماً ہو گی جو خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لے گی۔ اس خانہ جنگی کے سارے لوازمات حاضر ہیں۔ اور اونٹ تو کشتی میں موجود ہی ہے۔
افغانستان کو‘ کم و بیش‘ موجودہ شکل اور موجودہ نام1747ء میں احمد شاہ ابدالی نے دیا۔ یہ بنیادی طور پر پختون ریاست تھی۔ ابدالی کی فوج میں ازبک‘ ہزارہ‘ تاجک اور دیگر قومیتیں شامل تھیں مگر تاج ہمیشہ اسی کے سر پر رہا جو پختون تھا۔ تقریباًاڑھائی سو سال تک پختونوں نے بلا شرکتِ غیرے افغانستان پر حکومت کی۔1979 ء میں افغانستان کو پہلا غیر پختون حکمران ببرک کارمل ملا جو تاجک تھا۔ اس کے بعدصدر برہان الدین ربانی بھی تاجک تھے۔ سوویت حملے نے ازبکوں اور تاجکوں کو گمنامی سے نکال کر تاریخ کے پیش منظر پر لا کھڑا کیا کیونکہ شمال میں انہوں نے ہی روسی جارحیت کا مقابلہ کیا تھا۔ احمد شاہ مسعود تاجک تھا۔ رشید دوستم‘ جو ہر طاقتور دھڑے کا ساتھ دیتا رہا ہے‘ ازبک ہے۔ اب ان غیر پختون قومیتوں کو دوبارہ پچھلی صفوں میں نہیں دھکیلا جا سکے گا۔ افغانستان میں پختون آبادی 47فیصد ہے۔ تاجک 23فیصد‘ ہزارہ 9 فیصد اور ازبک بھی 9 فیصد ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا امریکیوں کے جانے کے بعد ان غیر پختونوں کو اقتدار میں حصہ ملے گا؟ مختلف قومیتوں کا مسئلہ کسی لڑائی جھگڑے کے بغیر‘ جس طرح مغربی جمہوریتوں نے حل کیا ہے اس کا افغانستان جیسے ملک میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان تو افغانستان ہے‘ ہم پاکستانی جو اپنے آپ کو افغانوں سے زیادہ ترقی یافتہ سمجھتے ہیں‘ ہماری کارکردگی کون سی قابلِ رشک ہے ؟ بنگالیوں کو ہم نے آزردہ خاطر کر کے ہمیشہ کیلئے کھو دیا۔ہم انہیں ان کی آبادی کے لحاظ سے جمہوری نمائندگی دے سکے نہ اقتصادی اور عسکری وسائل! رہا باقی ماندہ پاکستان تو اس کے اندر بھی مختلف صوبوں اور مختلف لسانی اور نسلی اکائیوں کا عدم اطمینان کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کینیڈا میں فرانسیسی آبادی23 فیصد ہے۔قومی زبانیں دو ہیں۔ سوئٹزر لینڈ میں تین قومی زبانیں ہیں۔ جرمن‘ فرانسیسی اور اطالوی۔ کیا افغانستان کی پختون اکثریت دوسرے گروہوں کے ساتھ انصاف کر سکے گی ؟
افغانستان کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مقامی کلچر اور ثقافت کے مظاہر کو اسلام کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ سرحدوں سے نکل کر افغانستان سے باہر بھی جڑیں پکڑ چکا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ صوفی محمد نے سوات میں‘ ایک جلسے کے دوران‘ لاکھوں شرکا سے حلف لیا کہ وہ ہمیشہ سیاہ رنگ کی دستار باندھا کریں گے۔ غالباً یہ مسلم تاریخ کا پہلا حلف تھا جو کسی مخصوص رنگ کی پگڑی کے لیے لیا گیا۔ یہی حال شٹل کاک برقع اور بہت سے دوسرے مظاہر کا ہے جو مقامی کلچر کی پیداوار ہیں مگر مذہبی تقدس کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔
افغانستان کی سینکڑوں سالہ تاریخ جنگ و جدل سے عبارت ہے۔ قتل و غارت‘ سازشیں‘ بغاوتیں اور قبائلی مخاصمتیں خون میں رچی ہیں۔ یہ بھی ہوا کہ ایک حکمران نے اپنے درجنوں رشتہ دار ضیافت پر مدعو کیے اور انہیں بارود کے ڈھیر کی نذر کر دیا۔ آپ نے سوویت حملے سے پیشتر بھی کبھی نہیں سنا ہو گا کہ فلاں قمیص‘ فلاں سائیکل‘ فلاں کھلونا یا فلاں شے افغانستان کی بنی ہوئی ہے۔ سوائے قالینوں کے۔ پہلے جب تیر و شمشیر کا زمانہ تھا‘ تب یہاں سے ضروریات زندگی مالِ غنیمت کی شکل میں لے جائی جاتی تھیں۔ پنجاب میں تو گاؤں گاؤں محاورہ تھا کہ جو کھالیا جو پہن لیا وہ اپنا ہے باقی سب احمد شاہ ابدالی کا ہے۔ آج جب لشکروں اور مالِ غنیمت کا عہد نہیں ہے تو سمگلنگ کے ذریعے ہر شے جاتی ہے۔ سیمنٹ اور سریا سے لے کر گھی ،چینی ،گندم اور ادویات تک۔ آئندہ بھی منظر نامہ یہی رہے گا۔ اپنے بچوں کو دیارِ مغرب میں پڑھانے والے‘ چمکتے کاروبار کرانے والے اور خود عیش و آرام کی زندگی گزارنے والے آئندہ بھی افغانوں کو بہادر اور غیرت مند کہہ کہہ کر ان کے معصوم بچوں کے ہاتھوں میں کتاب اور لیپ ٹاپ کے بجائے بندوق دیتے رہیں گے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ افغانستان آگ اور خون کی ایک اور ہولی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ابھی ایک طویل عرصے تک افغانستان شاہراہوں‘ پلازوں‘ کارخانوں‘ یونیورسٹیوں‘ ہسپتالوں‘ جدید بازاروں‘ آرام دہ رہائشگاہوں اور مستحکم حکومتوں سے محروم رہے گا۔ کاش ایسا نہ ہو! کاش یہ سب کچھ غلط ہو۔ کاش ایک عام افغان کو اس کے بنیادی حقوق اور بنیادی ضروریات زندگی آسانی سے ملنا شروع ہو جائیں۔ مگر بندوق کی مدد سے روزی کمانے کی عادت کا چھوٹ جانا آسان نہیں۔ استاد قمر جلالوی یہی تو کہہ گئے ہیں ؎
کل بہار آئے گی یہ سن کر قفس بدلو نہ تم
رات بھر میں بے پَروں کے پر نکل آئیں گے کیا

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, July 01, 2021

پاکستان پوسٹ بمقابلہ کوریئر سروس



قومی ایئر لائن ‘ ریلوے اور سرکاری سٹیل مل جو ''بے مثال‘‘ کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں اور جس طرح دھڑا دھڑ '' منافع'' کما رہے ہیں ‘ اس کا حال تو ہم آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔آج ایک اور سرکاری ادارے پاکستان پوسٹ یعنی محکمہ ڈاک کا حال بھی سن لیجیے۔
ان سطور کے لکھنے والے کو اوسطاً تین سے چار کتابیں اور رسالے ہر روز وصول ہوتے ہیں یعنی ایک ماہ میں تقریباً ایک سو کے لگ بھگ۔ یہ بات خاص طور پر نوٹ کی جاتی ہے کہ کتاب پاکستان پوسٹ کے ذریعے بھیجی گئی ہے یا نجی کوریئر کمپنی کے ذریعے! دیکھا یہ گیا ہے کہ پچھتر‘ اسی فیصد کتابیں ارسال کرنے والے کوریئر سروس استعمال کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے ؟ یہ وجہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔حکومت ‘ خاص طور پر ہماری حکومت‘ جو بھی ہو اور جس پارٹی کی بھی ہو‘ بزنس نہیں کر سکتی۔ سست روی وہ بھی انتہا درجے کی!سرخ فیتہ‘ افسرشاہی کا مجرمانہ تغافل ‘ ناقابلِ رشک بے نیازی! ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والا رویہ ! یہ سب کچھ بزنس میں قابل قبول نہیں ہو تا۔ بزنس کا اصول ہے کہ گاہک ہمیشہ درست ہوتا ہے مگر جب کاروبار سرکار کر رہی ہو تو پھر گاہک رعایا بن جاتا ہے اور ہمیشہ سرکار ہی درست ہوتی ہے۔ آپ کا کسی کوریئر کمپنی کے ساتھ کوئی معاملہ ہو جائے ‘ کوئی جھگڑا یا شکایت ہو تو انٹر نیٹ پر ایک منٹ میں اس کے کسی سینئر ذمہ دار انچارج کا نمبر مل جائے گا۔ اسے بتائیں گے تو وہ آپ کو واپس جواب دے گا۔ میل کریں گے تو کوئی نہ کوئی آپ سے رابطہ کر کے مسئلے کو حل کرنے کی پوری کوشش کرے گا‘ مگر پوسٹ آفس کی شکایت آپ کس سے کریں گے ؟ دیوار کے ساتھ سر ٹکرانے سے در تو نہیں بنتا۔ خیبر پختونخوا کے ایک شہر میں ایک دوست کو چند دن پہلے کتاب بذریعہ پارسل بھیجی۔ پورے ٹکٹ لگائے۔پوسٹ مین نے کتاب ڈیلیور کی تو کچھ رقم بھی چارج کر لی۔ متعلقہ پوسٹ آفس سے شکایت کی کہ یہ رقم نہیں لینی چاہیے تھی۔ کیوں لی گئی؟ آج تک کسی نے مُڑ کر کچھ بتایا نہ خبر لی !
کوریئر کمپنیوں کی دیکھا دیکھی اب پاکستان پوسٹ نے بھی باکس کی پیشکش شروع کی ہے‘ یعنی پارسل بھیجنا ہے تو سامان ان کے فراہم کردہ باکس میں رکھ کر بند کر دیجیے۔ اچھی بات ہے۔ مگر آگے کیا ہو رہا ہے ؟ کوریئر کمپنی آپ سے اس باکس کی الگ سے قیمت نہیں لیتی۔ہاں! بھیجے جانے والے سامان کے ساتھ اس کا بھی وزن ہوتا ہے۔ کچھ دن پہلے اس کالم نگار نے اپنی پوتی کے لیے چند ملبوسات بیرونِ ملک بھیجنے تھے۔ کورونا کے سبب ملاقات تو دو سال سے ہو نہیں رہی۔ دادا دادی نے سوچا چلئے اسی طرح شوقِ ملاقات کو کچھ دیر کے لیے ‘ پراکسی کے ذریعے‘ داد دیجیے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے بجائے ریاستی ادارے کے پاس جائیں تاکہ فائدہ قومی خزانے کو ہو۔ پوسٹ آفس والوں نے باکس دیا کہ سامان اس میں ڈالیے۔ اس کی قیمت الگ سے لی۔ پھر وزن بھی سامان کے ساتھ اس کا کیا۔ وزن کا معاملہ یہ ہے کہ فرض کیجیے آپ کے سامان کا وزن چھ کلو پچاس گرام ہے تو آپ سے دام پورے سات کلو کے لیے جائیں گے۔ یہی ہمارے ساتھ ہوا۔ سامان کا وزن چھ کلو سے کم تھا۔ با کس کے ساتھ چھ کلو ایک سو گرام ہوا۔ بتایا گیا کہ یہ سات کلو شمار ہو گا۔ اس پر سوال پیدا ہوا کہ جب آپ بکس کی قیمت الگ سے لے رہے ہیں تو اس کا وزن تو نہیں ہونا چاہیے۔ پوسٹ ماسٹر صاحب کہنے لگے بات آپ کی سولہ آنے درست ہے مگر پاکستان پوسٹ کا رُول اسی طرح ہے۔ ساتھ ہی متعدد فارم بھی ہاتھ میں تھما دیے کہ یہ بھی بھریے۔ ایک طویل پراسیس ! پورا گھنٹہ صرف ہوا۔ اس کا موازنہ نجی شعبے سے کیجیے۔ کوریئر کمپنی یہی کام پندرہ بیس منٹ میں کر دے گی۔ سیکرٹری مواصلات (کمیونیکیشن) سے بات کی جو پاکستان پوسٹ کے حاکم ِاعلیٰ ہیں۔ ظفرحسن ایک خوش اخلاق افسر ہیں۔ پوری توجہ سے بات سنی۔ انہی کی ہدایت پر پاکستان پوسٹ کے سربراہ نے فون کر کے مسئلہ پوچھا۔ سربراہ نے بھی یقینا کسی کو آگے حکم دیا ہو گا۔ اب یہاں نجی شعبے اور سرکاری شعبے کا فرق عیاں ہوتا ہے۔ نجی شعبے میں حکم کی تعمیل ہوتی ہے اور اس کے بعد ''رپورٹ بیک‘‘ کا ایک مربوط نظام ہوتا ہے۔سرکاری شعبے میں حکم بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ اسے واپسی کی راہ نہیں ملتی۔حکم اور تعمیلِ حکم دونوں پروٹوکول کی راہداریوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ وہاں سے راستہ ملے تو درجہ بندی (Hierarchy )کی غلام گردشوں میں کھو جاتے ہیں۔
کسی بھی کوریئر کمپنی کی کسی بھی برانچ میں چلے جائیے‘ ایک چست سمارٹ نوجوان کمپیوٹر پر بیٹھا ہو گا۔ برق رفتار ی سے ‘ ٹھَک ٹھَک کام کر تا‘ کمپیوٹر سے رسید نکال کر آپ کے حوالے کرے گا۔ جتنی دیر میں آپ اس کی برانچ کے دروازے سے باہر نکلیں گے‘ اتنی دیر میں وہ اگلے کلائنٹ کو بھی فارغ کر چکا ہو گا۔ اس کے مقابلے میں پوسٹ آفس میں‘ ابھی تک کمپیوٹر کا کوئی عمل دخل نہیں۔ وہی رجسٹر‘ وہی کاربن پیپر‘ وہی بال پین! سہولتوں کی شدید کمی! کہولت کے مارے قابل ِرحم‘ مسکین سے ملازمین کبھی نئے پنکھے کے لیے اوپر درخواستیں بھیجتے ہیں تو کبھی ایئر کنڈیشنر کے لیے۔کوریئر کمپنیوں نے اپنے جہاز لے لیے مگر ہمارے پوسٹ مین ‘ بارش ہو یا دھوپ‘ آندھی ہو یا طوفان‘ بمشکل سائیکل سے موٹر سائیکل تک پہنچ پائے ہیں۔ کیا عجب‘ کسی دور دراز مستقبل میں ‘ کسی آنے والی صدی میں ‘ ان بے نوا درماندگان کو گاڑی کی ''لگژری ‘‘ نصیب ہو۔ کیا پتا‘ ہم نہیں تو ہمارے پوتے اور نواسے اپنی ضعیفی میں کمپیوٹر والے ڈاکخانے دیکھ لیں۔
ریل اور ڈاک سے ہمارا دو صدیوں پر پھیلا ہوا رومانس وابستہ ہے۔ ہمارے گاؤں میں ڈاکیا ہفتے میں دو بار آتا تھا اور رات ہماری مردانہ حویلی میں گزارتا تھا۔ کبھی اس نے ناغہ نہ کیا۔ یہ سلسلہ اٹھارہ برس رہا۔ اٹھارہ برس‘ ہفتے میں دو بار ‘ ہماری دادی جان نے اسے رات کا کھانا اور صبح کی چائے بھیجی۔ یہاں تک کہ گاؤں میں ڈاکخانہ کھل گیا۔ گاؤں کا ڈاکخانہ کیا ہوتا تھا‘ سکول ماسٹر کو یا کسی پڑھے لکھے دکاندار یا کسان کو ڈاکخانے کا چارج دے دیا جاتا تھا۔ بیس روپے ماہانہ اس ڈیوٹی کا معاوضہ ملتا تھا۔ رومانس وہیں رہا۔ وقت آگے نکل گیا۔ ہمارے ادارے وقت کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکے۔ کوریا اور جاپان کی کمپنیوں نے وقت کی مثالی پابندی کے ساتھ بسیں اس اہتمام سے چلائیں کہ ریل اور جہاز دونوں کو ڈینٹ ڈال دیے۔ موٹر وے نے بھی کردار ادا کیا۔ اسی طرح کوریئر کمپنیوں نے کپڑے کے سلے ہوئے پارسلوں کا زمانہ ختم کر دیا۔گتے کے خوبصورت باکس آگئے۔ اپنے پیاروں کو کیک بھیجنا ہے یا مٹھائی یا پھل یا گلدستہ‘ یا غبارے یا چاکلیٹ‘ کوریئر کمپنی کے نزدیک ترین دفتر جائیے‘ قیمت ادا کیجیے‘ دوسرے دن تحفہ پہنچ جائے گا۔ پاسپورٹ یا کوئی اور اہم دستاویز بھیجنی ہے تو اس کے لیے خصوصی مضبوط لفافے الگ سے موجود ہیں۔ بڑی بڑی کوریئر کمپنیوں کا ایک ایک آؤٹ لیٹ ہر بڑے شہر میں ‘ چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے جہاں سے رات دن میں کسی بھی وقت آپ ملک کے اندر یا باہر‘ پارسل یا خط بھیج سکتے ہیں۔ ریاستی اداروں سے پاکستانیوں کو محبت ہے مگر وہ ان اداروں کو یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ع
دوڑو! زمانہ چال قیامت کی چل گیا!

بشکریہ روزنامہ دنیا
 

powered by worldwanders.com