ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے ؟ یعنی افغانستان کے معاملے میں...؟ ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا ہو گا کہ کیا امریکہ ہم سے خوش ہے ؟ کیا افغان حکومت ہم سے خوش ہے ؟ کیا طالبان ہم سے خوش ہیں؟ اور کیا افغان عوام ہم سے خوش ہیں ؟
پاکستان نے جس امریکہ کی خوشنودی کی خاطر تن من دھن وار دیا‘ اُس امریکہ نے ہر فیصلہ پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر کیا۔ ہمارے وزیر اعظم سے ابھی تک امریکی صدر نے بات ہی نہیں کی۔ (ویسے امریکی الیکشن سے پہلے وزیر اعظم نے بھی اپنا وزن ٹرمپ صاحب کے پلڑے میں ڈال دیا تھا) امریکہ نے اس حقیقت پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی کہ اسامہ بن لادن کے خلاف ایکشن لیتے وقت پاکستان کو مکمل تاریکی میں رکھا گیا تھا۔
افغان حکومت کی پاکستان سے مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں۔ حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی نے ایک مضمون لکھا ہے۔ ذرا لہجہ دیکھیے'' اگر پاکستان طالبان کی حمایت اختیار کرتا ہے تو پاکستان افغان قوم کی دشمنی مول لے گا اور اپنے آپ کو اُن بہت سے معاشی فوائد سے محروم رکھے گا جو امن اور علاقائی ارتباط کا ثمر ہیں۔ پاکستان بین الاقوامی اعتبار سے اچھوت بن جائے گا کیونکہ امریکی انخلا کے بعد پاکستان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہے گا...۔‘‘ دو ماہ پہلے افغان صدر نے ایک جرمن جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ ''طالبان کے ذرائع نقل و حمل‘ ان کے مالیاتی معاملات اور ان کے لیے افرادی قوت کی بھرتی سب کچھ پاکستان میں ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ '' طالبان کی فیصلہ ساز تنظیموں کے نام ہیں کوئٹہ شوریٰ‘ میرن شاہ شوریٰ اور پشاور شوریٰ۔ یہ تنظیمیں انہی شہروں میں واقع ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی ریاست کے ساتھ ان کا گہرا تعلق ہے‘‘۔ افغان صدر نے اس کے علاوہ بھی کئی مواقع پر پاکستان کے خلاف بیانات دیے۔ ان کا بھارت کی طرف جھکاؤ ہمیشہ واضح رہا ہے۔
پاکستان نے اپنے ملک کا ہر دروازہ تیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کے لیے کھولا۔ رہائش گاہیں‘روزگار‘ کاروبار‘بازار‘ تعلیمی ادارے‘ ہسپتال‘ سب کچھ ان کے آگے حاضر کر دیا۔ سوویت حملے کے بعد افغانوں کی دو نسلیں پاکستان میں پروان چڑھیں۔ یہیں کھایا پیا۔یہیں کی دھوپ‘ یہیں کی چاندنی اور یہیں کی ہواؤں میں زندگیاں گزاریں۔ اس کالم نگار کو کل کی طرح یاد ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں پشاور موڑ والے بازار میں افغان نانبائیوں کی متعدد دکانیں تھیں‘ ہر روز کئی پاکستانی آکر انہیں اپنی اپنی بساط کے مطابق رقم عطیہ کرتے تھے تاکہ سامنے بیٹھی ہوئی افغان خواتین کو مفت روٹی فراہم کریں۔ یہ کوئی احسان نہ تھا‘ نہ جتانے والی بات ہے۔ یہ پاکستانیوں کا فرض تھا۔ لاکھوں افغان پاکستان کی وساطت سے‘ پاکستانی پاسپورٹوں پر بیرونِ ملک گئے اور اقامت اختیار کی۔ مگر پاکستان کی بد قسمتی کہ اس سب کچھ کے باوجود افغان پاکستان کے ساتھ عداوت ہی کا اظہار کرتے رہے۔ ابھی‘ اسی سال‘ مئی کے تیسرے ہفتے میں سینکڑوں افغانوں نے پاکستان ہائی کمیشن لندن کی عمارت پر ہلہ بولا ہے۔ 1995ء کے اواخر میں کابل میں واقع پاکستانی سفارت خانے پر ہزاروں مظاہرین نے حملہ کیا۔ ایک شخص ہلاک ہوا اور درجنوں‘ پاکستانی سفیر سمیت‘ زخمی ہوئے۔ جولائی2003ء میں ایک بار پھر پاکستانی سفارتخانے پر ہزاروں افغان شہریوں نے چڑھائی کی۔رہے طالبان‘ تو ان کا رویہ اور پالیسیاں غیر متوقع اور ناقابلِ پیش گوئی ہوتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد پاکستان نے انہیں اسامہ بن لادن کے معاملے میں قائل کرنے کی بہت کوشش کی مگر انہوں نے کوئی بات نہ مانی۔ اگر امریکہ‘ افغان عوام اور افغان حکومت سب ناخوش ہیں توکیا یہ سب غلط ہیں؟ اگر ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ کل طالبان کارویہ پاکستان کے ساتھ کیا ہو گا تو کیا اس میں طالبان کا قصور ہے ؟
کیا ساری دنیا غلط ہے اور صرف ہم صحیح ہیں ؟ نہیں! ہم نے اپنے پتے دانائی کے ساتھ نہیں بلکہ کوتاہ بینی کے ساتھ کھیلے۔ ہمارا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ دونوں مواقع پر ہمارے ملک میں جمہوریت کی نہیں بلکہ آمریت کی حکمرانی تھی۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی۔ نائن الیون رو نما ہوا تو جنرل پرویز مشرف بر سر اقتدار تھے۔دونوں دفعہ فیصلے کسی پارلیمان‘ کسی جمہوری ادارے یا سیاسی رہنماؤں نے نہیں کیے بلکہ فرد ِواحد کے فیصلے تھے جو قوم پر مسلط کیے گئے۔ چونکہ دونوں مواقع پر آمرانہ پالیسیاں امریکہ کو راس آرہی تھیں اس لیے امریکہ نے اپنی نام نہاد جمہوریت پسندی کو بالائے طاق رکھا اور ان آمرانہ حکومتوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائیں۔ ہر دو مواقع پر آمرانہ حکومتوں کے فیصلے پاکستانی مفاد کے خلاف تھے۔ افغان مجاہدین کی مددایک اور بات ہے اور اپنے ملک کا نقصان ایک بالکل دوسرا معاملہ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے عملاً پاکستانی سرحدوں اور پاکستانی ویزے کا خاتمہ کر دیا۔ مہاجرین تو تھے ہی‘ ساری دنیا سے جنگجو بھی لاکر پاکستاں میں اکٹھے کر لیے۔ انہیں علاقوں کے علاقے دیے گئے۔ہر طرف اسلحہ کی بھرمار ہو گئی۔ راکٹ تک بازاروں میں بکنے لگے۔ ساتھ ہی منشیات کے سیلاب نے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس پر طرہ یہ کہ افغان مہاجرین کو کیمپوں میں رکھنے کے بجائے پورے ملک میں آزاد چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے ٹرانسپورٹ اور متعدد دوسرے شعبوں پر قبضہ کر لیا۔ خیبر پختونخوا کے صوبے کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ مکانوں کے کرائے اتنے بڑھے کہ مقامی لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گئے۔ افغان لیبر نے پاکستانی مزدوروں کو عملاً لیبر مارکٹ سے بے دخل کر دیا‘ یہ افغان اور ان کی اگلی نسل آج بھی پاکستان میں موجود ہے۔
امریکہ ہم پر اعتبار نہیں کر رہا اس لیے کہ امریکہ گھاس نہیں‘ اناج کھاتا ہے۔ ہماری پالیسیاں دوغلی تھیں اور دو رُخی ! ہم کہتے کچھ تھے کرتے کچھ تھے۔کسی کے بظاہر دوست تھے مگر درپردہ مخالف۔ کسی کے بظاہر خلاف تھے مگر اندر خانے موافق! ہماری ہر لحظہ بدلتی پالیسیاں چھپی نہ رہ سکیں۔ دنیامیں کوئی پالیسی‘ کوئی اقدام‘ زیادہ دیر تک پردۂ اخفامیں نہیں رہ سکتا۔ نائن الیون کے بعد جب ایک فون کال پر ہم چاروں شانے چت ہو گئے تو طالبان کی دوستی کو بھی قربان کر دیا۔ طالبان حکومت کے سفیر ملا عبد السلام ضعیف کے ساتھ جو سلوک ہم نے کیا اور جس ناقابلِ یقین اور ناقابلِ بیان انداز کے ساتھ انہیں امریکیوں کے حوالے کیا وہ نہ صرف ہماری تاریخ میں بلکہ سفارت کاری کی تاریخ کا بھی ایک معیوب واقعہ تھا۔
حکومت اور اپوزیشن قومی مسائل کے لیے بھی مل کر نہیں بیٹھ سکتیں۔ یہ ایک اور بد قسمتی ہے۔ وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا تو دور کی بات ہے‘ ہاتھ ملانے اور سلام تک دینے کے روادار نہیں۔ ہر جمہوری ملک میں حساس پالیسیاں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف باہم اکٹھے بیٹھ کر تشکیل دیتے ہیں۔ یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ اسمبلی کے اندر لڑائی جھگڑے اور مجادلے ہیں اور اسمبلی سے باہر ٹاک شو اور جلسے! وزیراعظم کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ فارن آفس یا تو انہیں بریفنگ دیتا نہیں یا وہ فارن آفس کو پرِ کاہ کی حیثیت دینے کو تیار نہیں ! کاش افغان پالیسی کی تشکیل کے لیے تمام سٹیک ہو لڈر اکٹھے بیٹھ کر ایک مستقل‘ قابلِ عمل اور حقیقت پسندانہ پالیسی تشکیل دیں! اناؤں کے خول سے باہر نکلیں اور ذاتی دشمنیاں تج دیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment