میرے ساتھ ایک دوست تھے جن کے لیے زیادہ چلنا مشکل تھا۔ ان کا حکم تھا کہ گاڑی سے انہیں دکان کے بالکل سامنے اتارا جائے‘ مگر دکان کے سامنے کیسے اتارا جاتا؟ وہاں تو ایک بڑی سی قیمتی گاڑی پارک تھی۔
وفاقی دارالحکومت کا نقشہ جس نے بھی بنایا تھا، اچھا ہی بنایا تھا۔ بعد میں اس ماسٹر پلان کے ساتھ جو بیتی، اس کے بعد وہ ماسٹر تو رہا یا نہیں، پلان بالکل نہیں رہا۔ ہر مارکیٹ کے لیے وسیع و عریض پارکنگ ایریا مختص کیا گیا تھا‘ مگر، کم ہی لوگ اس پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کرنے کی تکلیف گوارا کرتے ہیں۔ عین دکان کے سامنے گاڑی کھڑی کریں گے تاکہ کم سے کم چلنا پڑے کہ زیادہ چلنے سے تنورِ شکم میں جو نہاری، پائے یا پراٹھے دھنسے ہیں، ہضم نہ ہو جائیں۔ خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں کا بس چلے تو دکان کے اندر بھی موٹر سائیکل لے آئیں۔ یہاں یہ بتانا نا مناسب نہ ہو گا کہ کچھ مارکیٹوں میں پارکنگ ایریا کو ہڑپ کر لیا گیا ہے۔ اس لوٹ مار میں دکان دار اور ترقیاتی ادارے کے اہلکار، دونوں فریق برابر کے شریک ہیں۔ ایک دکان کے سامنے ، پارکنگ ایریا میں کپڑے کا سٹال لگا تھا۔ سٹال والے سے تفصیل پوچھی تو اس نے بلا چون و چرا بتایا کہ جس دکان کے سامنے سٹال لگایا ہے، اسے بھی فیس دیتا ہے اور اہلکاروں کو بھی خوش کرتا ہے۔ خیر، بات یہ ہو رہی تھی کہ پارکنگ کرتے وقت ہمارے ذہن میں ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کم سے کم چلنا پڑے۔ غور کیجیے، پارکنگ کا کچھ تعلق ہماری صحت سے بھی ہے۔ کیا عجب، ترقی یافتہ ملکوں میں پارکنگ کے قوانین پر سختی سے اسی لیے عمل کرایا جاتا ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ چلنا پڑے۔ وہاں پارکنگ کے مخصوص مقامات ہیں۔ سڑکوں کے کنارے صرف اسی جگہ پارک کر سکتے ہیں جہاں اجازت ہے۔ پارکنگ مقررہ مدت کے لیے ہوتی ہے اور اس کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔ غلط جگہ پارک کریں گے تو جرمانہ ہو گا۔ خاص طور پر شہر کے جس حصے کو بزنس ڈسٹرکٹ کہا جاتا ہے، اور جہاں جگہ کی قلت ہے وہاں پارکنگ کے نرخ بھی اونچے ہوتے ہیں۔ شہر کے مرکزی حصے میں بھی، جسے کچھ ملکوں میں ڈاؤن ٹاؤن کہتے ہیں، پارکنگ گراں ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو کئی کئی فرلانگ چلنا پڑتا ہے۔ آٹو موبیل کی ایجاد کے بعد ان ملکوں نے ورزش کے کلچر پر خاص توجہ دی۔ جم بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ بہت سے جم چوبیس گھنٹے دستیاب ہیں۔ گاہک کو چابی دے دی جاتی ہے۔ رات دن میں جب چاہے، آ کر قفل کھولے اور ورزش کر لے۔ سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھوں پر، پارکوں، باغوں اور میدانوں میں، عورتیں اور مرد دوڑتے نظر آئیں گے۔
چار دن پہلے راولپنڈی میں صحت کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اس کانفرنس کے دوران اور اس کے اختتامی اجلاس میں ماہرین نے جو کچھ کہا، اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ ''لمحۂ فکریہ‘‘ کہہ دینا فیشن بن گیا ہے اور ایک عام سی بات! مگر یہ ہمارے لیے یقینا لمحۂ فکریہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نوے فی صد پاکستانی کسی قسم کی ورزش کرتے ہیں نہ سیر! صرف دس فی صد سیر کرتے ہیں یا ورزش۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دس سال کے دوران ایسے امراض میں اضافہ ہو گیا ہے جو غیر مواصلاتی یعنی Non Communicable Diseases ہیں۔ مثلاً دل کے امراض، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا، شوگر! (مکمل فہرست خاصی طویل ہے)
ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں اڑتالیس فی صد مرد اور آٹھ فی صد خواتین‘ تمباکو نوشی کا شوق رکھتے ہیں۔ پچھتر فی صد افراد روزانہ کی بنیاد پر سبزیاں اور پھل نہیں کھاتے۔ نوجوانوں میں کولیسٹرول کی بلند سطح روز افزوں ہے یہاں تک کہ چالیس فی صد تک پہنچ رہی ہے۔ ایک چوتھائی آبادی ہائی بلڈ پریشر کے نرغے میں ہے۔ تیرہ فی صد کو ذیابیطس نے گھیر رکھا ہے۔ ان امراض کا مقابلہ محض ادویات سے نہیں کیا جا سکتا۔ عادات و اطوار میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ خوراک میں کچھ چیزیں ترک کرنا ہوں گی اور کچھ اپنانا پڑیں گی۔
ماہرین نے جو کہنا تھا کہہ دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا۔ اب ہمارے لیے سوچنے کو بہت کچھ ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو اپنا اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔ طرز زندگی ایسا ہو گیا ہے کہ جسمانی حرکت کے مواقع کم سے کم ہو گئے ہیں۔ پہلے بچے ساری شام میدانوں یا گلیوں میں کھیلتے اور بھاگتے تھے۔ ٹیلی ویژن کے بعد انٹرنیٹ آ گیا ہے۔ سوشل میڈیا نے بڑوں کو مٹھی میں جکڑ لیا ہے اور سکرین پر کھیلے جانے والے کھیل بچوں کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ بڑوں کو اس میں سہولت نظر آتی ہے کہ بچہ کھانا نہیں کھاتا تو موبائل دے کر کھلائیے۔ رو رہا ہے تو چپ کرانے کی خاطر موبائل تھما دیجیے۔ نوجوانوں کی راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں۔ پھر کچھ ملازمتیں ایسی ہیں جن کے اوقات یورپ یا امریکہ سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ اوقات بھی صحت کے لیے مضر ہیں۔ یہ ایک نئی طرز کا استحصال ہے جو ترقی یافتہ ممالک، غریب ملکوں کا کر رہے ہیں یعنی کم معاوضوں پر ہمارے جیسے ممالک کے نوجوانوں سے کام پورا لیا جائے۔ بے روزگاری اتنی شدید ہے کہ ملازمت جیسی بھی ہو ، چھوڑی نہیں جا سکتی۔
کم ہمتی بھی آڑے آ رہی ہے۔ پندرہ منٹ کا پیدل فاصلہ کوئی نہیں چلتا۔ سواری کے لیے آدھا گھنٹہ انتظار قبول ہے۔ دکان یا بازار زیادہ دور نہیں مگر پیدل نہیں چلیں گے، گاڑی نکالیں گے یا موٹر سائیکل کو لات ماریں گے۔ کچھ علاقے اتنے گنجان ہیں اور ٹریفک کی وجہ سے قیامت خیز کہ خواتین کی چہل قدمی نا ممکن ہو گئی ہے۔ جنوبی ایشیا کی گرمی ایک اور عامل ہے۔ اس شدید گرمی میں بہت سے لوگ سیر نہیں کر سکتے خاص طور پر گردوں کے مریض! کیونکہ جسم میں پانی کی کمی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ معمر افراد بھی اس گرمی میں پیدل نہیں چل سکتے۔ اس کا نعم البدل جم ہیں جو ہمارے ہاں کم ہیں۔ رواج بھی زیادہ نہیں اور رکنیت کی فیس بھی بھاری رکھی جاتی ہے۔ ورزش والی سائیکلیں اور ٹرَیڈ ملیں اتنی مہنگی ہیں کہ آبادی کی بھاری اکثریت کی پہنچ سے کوسوں دور ہیں۔ طرہ یہ کہ خوراک میں پِزے، برگر، کڑاہیاں اور چرغے غالب ہیں۔ گلی گلی نہاری کی دکانیں کھل گئی ہیں۔ اسی تناسب سے نجی کلینک اور فارمیسی کی دکانیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
آٹھ فی صد خواتین کی تمباکو نوشی سے یاد آیا کہ کیا ان اعدادوشمار میں گاؤں کی حقہ نوش بیبیاں بھی شامل ہیں؟ ہمارے علاقے میں حقے کو چلم کہا جاتا ہے اور نسوار کی طرح چلم بھی خواتین میں مقبول ہے۔ اسے برا نہیں سمجھا جاتا۔ معمول کی چیز ہے۔ مگر شہر میں عورت سگریٹ پیے تو کئی ابرو سکڑ جاتے ہیں۔ صحت کے لحاظ سے دونوں مضر ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے۔ حلوے اور سالن سے بھرے ہوئے بڑے بڑے طباق لوگ چٹ کر جاتے تھے مگر ساتھ ہل چلاتے تھے۔ سامان کی بڑی بڑی گٹھڑیاں اٹھا کر کوسوں پیدل چلتے تھے۔ عورتیں تین تین گھڑے سر پر رکھے پانی بھرنے جاتی تھیں۔ گُھڑ سواریاں تھیں جو بجائے خود ایک ورزش تھی۔ پھر سائیکل آئی۔ آج ٹریفک کی جو صورت احوال ہے اس میں سائیکل چلانا، اقدامِ خود کشی سے کم نہیں۔ ادھر مستقبل کا کچھ پتہ نہیں۔ رہی سہی جسمانی حرکت بھی کہیں ختم نہ ہو جائے۔ آن لائن پڑھائی اس کی ایک جھلک ہے کہ بیدار ہو کر بستر سے اترنے کی بھی ضرورت نہیں
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment