Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, August 31, 2015

خواب لے لو! خواب!

گائوں سے کچھ فاصلے پر جوہڑ تھا۔ پانی اس کا گندہ تھا۔ بے حد گندہ! آنے جانے والی سوزوکیاں گوبر اور مٹی سے لتھڑے ہوئے پہیے تو دھوتی ہی تھیں‘ بھینسیں بھی پانی کی مقدار میںحسبِ توفیق ’’اضافہ‘‘ کرتی رہتی تھیں۔ مولوی صاحب نے یہ حال دیکھا تو مناسب سمجھا کہ فقہی مسئلہ واضح کر دیں؛ چنانچہ مسجد میں ایک دن جب لوگ جمع تھے تو انہوں نے سمجھایا کہ اس جوہڑ کے پانی سے وضو نہیں ہوتا۔ ایک کسان پچھلی صف سے اٹھا اور بلند آواز سے بولا۔ مولوی صاحب! میرا وضو تو وہاں ہو جاتا ہے۔ روز کرتا ہوں! 
آپ کا کیا خیال ہے مولوی صاحب اگر اُس کسان کے سامنے فقہ کی کتابیں کھول کر بیٹھ جائیں تو وہ کسان قائل ہو جائے گا؟ 
گندے جوہڑ اس ملک میں بے شمار ہیں۔ پچھلی صف سے اُٹھ کر مولوی صاحب کی فقہ کو چیلنج کرنے والے کسان بھی کم نہیں۔ ان میں سے کچھ پہلی صف میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کسان لکھاری اور دانش ور ہیں! ان دانش ور کسانوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کر کرپشن جتنی بھی ہے‘ جہاں بھی ہے جیسی بھی ہے‘ فوج اسے نہ چھیڑے۔ کرپشن کے خلاف ایکشن لینا سیاسی حکومت کا کام ہے۔ فوج کے آئینی کردار کا تقاضا نہیں کہ وہ کرپشن صاف کرے۔ کچھ تو کرپشن کو ہٹانے کے لیے خصوصی قوانین کے بھی خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عام قوانین‘ عام عدالتیں‘ عام کارروائیاں کرپشن کے لیے کافی و شافی ہیں۔ 
اب یہاں جوش کے بجائے ہوش کی ضرورت ہے۔ وہ یوں کہ جو دانشور یہ رائے رکھتے ہیں ان کی نیت پر شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کرپشن کے حامی نہیں‘ اصل میں یہ بات وہ جمہوریت کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ سارے مہذب ملکوں میں اور تمام ترقی یافتہ معاشروں میں ایسے معاملات سیاسی حکومتیں ہی نمٹاتی ہیں۔ ہمارے یہ دانش ور چاہتے ہیں کہ جمہوری حکومت ہی‘ جسے عوام نے منتخب کیا ہے‘ کرپشن کے انسداد کا کام کرے۔ مگر ع مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات… وہ یہ بھول گئے ہیں کہ لمحۂ موجود میں عوام‘ یعنی جمہور‘ کیا چاہتے ہیں؟ 
آپ کا کیا خیال ہے آج اگر عوام سے یہ سوال ریفرنڈم کی صورت میں کیا جائے کہ: 
’’کرپشن کے انسداد کا کام سیاسی حکومت پر چھوڑ دیا جائے یا فوج کے سپرد کیا جائے؟‘‘ 
تو عوام کا جواب کیا ہوگا؟ بچہ بھی جانتا ہے کہ عوام کا جواب کیا ہوگا؟ اس وقت کسی بھی ایشو پر عوامی رائے معلوم کرنے کے لیے سوشل میڈیا بہترین ذریعہ ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ہر روز لاکھوں کروڑوں پاکستانی سوشل میڈیا پر کرپشن کے حوالے سے‘ سیاسی حکومتوں پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ وہ ہر ممکن طریقے سے سیاست دانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ ان کی کرپشن پر طنز کرتے ہیں۔ اپنے دل کا درد‘ دکھاتے ہیں۔ اہلِ سیاست کی کرپشن پر اور کرپشن کی سرپرستی پر آنسو بہاتے ہیں اور فوج اور رینجرز جو کچھ کر رہے ہیں‘ اس کی تائید کرتے ہیں! 
سیاسی حکومت کن کی ہے؟ پانچ سال پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔ گزشتہ سوا دو سال سے مسلم لیگ نون برسراقتدار ہے۔ کرپشن کے معاملے میں ان حکومتوں کا ٹریک ریکارڈ کیا ہے؟ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کرپشن کا معاملہ ان حکومتوں پر چھوڑ دیا جائے اور پھر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کرپشن کو ختم ہونا چاہیے تو اس سے ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے! 
خواب دیکھنے پر پابندی ہے نہ ہی خواب دیکھنا قابلِ دست اندازی ٔپولیس۔ گلی گلی پھر کر ’’خواب لے لو خواب‘‘ کا آوازہ لگانے سے بھی کوئی نہیں روکتا۔ اگر کچھ لوگ خواب دیکھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی سیاسی حکومتوں جو کبھی یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں برسرِ کار تھیں اور کبھی راجہ پرویز اشرف کی رہنمائی میں چلائی جا رہی تھیں‘ کرپشن کے خلاف جہاد کر رہی تھیں اور اب مسلم لیگ کی حکومت کرپشن کو ختم کرنے کے در پے ہے‘ تو دنیا کی کوئی طاقت ایسے خواب دیکھنے سے اور ایسے خواب فروخت کرنے سے کسی کو نہیں روک سکتی   ؎ 
سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا 
دریچہ کھُل رہا تھا خواب میں‘ دیوار کر ڈالا 
خیر‘ پیپلز پارٹی کی حکومت کو تو جانے دیجیے۔ حکومتِ وقت کی خدمات بھی اس سلسلے میں کم نہیں! ماڈل ٹائون ہلاکتوں اور ڈسکہ میں دو وکیلوں کے دن دہاڑے پولیس کے ہاتھوں قتل کے کیسوں میں اب تک کتنوں کو سزا ہوئی‘ اس معاملے کو بھی جانے دیجیے کہ دلیل یہ سامنے آ جائے گی کہ قتل کے کیسوں کا کرپشن سے کیا تعلق ہے؟ ماڈل ٹائون ہلاکتوں کے قصے میں جس بیوروکریٹ کا نام سرفہرست تھا‘ اسے بین الاقوامی تجارتی ادارے میں سفیر مقرر کر کے ملک سے باہر بھیج دینا بھی کرپشن نہیں! 
گزشتہ برس کی جولائی کا وسط تھا۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ٹڈاپ) سے متعلقہ بارہ کرپشن کیسوں میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ضمانت کروالی۔ ایف آئی اے نے ضمانت کے اس فیصلے کو چیلنج کر دیا۔ ایف آئی اے کا مؤقف تھا کہ عدالت نے ضمانت منظور کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ ایف آئی اے نے یہ بھی بتایا کہ سابق وزیراعظم کے ملوث ہونے کا کافی و شافی ثبوت موجود ہے؛ چنانچہ ایف آئی اے نے استدعا کی کہ ضمانت منسوخ کر دی جائے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ اُن دانش وروں کو جو کرپشن کے انسداد کا کام سیاسی حکومت پر چھوڑ دینا چاہتے ہیں‘ اسی پر خصوصی غور فرمانا چاہیے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ جو کچھ ایف آئی اے کہہ رہی ہے‘ وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر کہہ رہی ہے اور ’’اب ایف آئی اے اپنی درخواست واپس لینا چاہتی ہے‘‘۔ چنانچہ ایف آئی اے نے رومال سے ماتھا پونچھا‘ ضمانت برقرار رہی اور سابق وزیراعظم سامنے نظر آنے والی بلا سے محفوظ ہو گئے۔ یہی وہ کیس ہے جس میں تین روز پہلے یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم کی گرفتاری کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہوئے ہیں۔ تو کیا اس کی پشت پر سیاسی حکومت کا انسدادِ کرپشن کا جذبہ ہے؟ 
قطر سے گیس کی خریداری ایک اور مثال ہے۔ دس مئی 2015ء کے کالم میں نذیر ناجی صاحب نے اس ضمن میں کچھ سوالات اٹھائے تھے مثلاً یہ کہ معاہدہ مارچ 2015ء میں ہو چکا تھا‘ پارلیمنٹ کو اس سے کیوں بے خبر رکھا گیا؟ 
مثالوں کی کوئی حد نہیں! بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہر ملک کے اپنے حالات ہیں‘ اپنا ماحول ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح ہر مریض کا اپنا الگ معاملہ ہے۔ کھانسی شدید ہو تو سنا ہے ہائی بلڈ پریشر کے مریض کو کف سیرپ نہیں پلانا چاہیے۔ اب اگر کوئی اصرار کرے کہ نہیں! کھانسی کے معاملے کو کف سیرپ ہی کے ذریعے حل کرنا چاہیے تو مریض کی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ سنگاپور پر جب مغربی میڈیا نے اعتراض کیا کہ محض گولی چلانے پر موت کی سزا کیوں‘ جب کہ گولی سے کوئی مرا نہ زخمی ہوا؟ تو وزیراعظم لی نے ہنس کر جواب دیا کہ تم اپنے بندوں کو مروانے کے بعد قاتل کو سزا دیتے ہو‘ ہم اسے پہلے ہی دے دیتے ہیں! 
اس میں ذرہ بھر اشتباہ نہیں کہ ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو بچاتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم اسی ملک میں تھے۔ سیاسی حکومت چاہتی تو انہیں اور دوسروں کو بھی‘ پکڑ سکتی تھی۔ ’’غیر سیاسی‘‘ قوتوں کو اس کارِ خیر کا موقع ہی نہ ملتا! یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم صرف حکومتِ وقت کی بات نہیں کر رہے۔ کم و بیش تمام سیاسی حکومتوں کا رویہ ایک سا ہی رہا ہے۔ 
سیاست دانوں کا طرزِ عمل اس سلسلے میں کیا ہے؟ اس کا اندازہ ایک خبر سے لگایئے جو روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے دو دن پہلے شائع کی ہے۔ 
’’وزیر پٹرولیم آج کرپشن اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار سابق وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی مبینہ آئل مارکیٹنگ کمپنی ایڈمور کے شکارپور ڈپو کا افتتاح کراچی کے مقامی ہوٹل میں کریں گے۔ ایڈمور کو ڈاکٹر عاصم کے فرنٹ مین علی چشتی چلا رہے ہیں۔ ذرائع نے روزنامہ ’’دنیا‘‘ کو بتایا کہ ایڈمور کا ڈپو صرف کاغذوں میں ہے۔ اور یہ صرف اوگرا کے پاس جمع کرائے فنانشل پلان کی خانہ پری کے لیے دکھایا جا رہا ہے تاکہ اتھارٹی کی طرف سے ڈپو نہ بنانے پر بھاری جرمانہ سے بچا جا سکے۔ پٹرولیم مارکیٹ کے ذرائع کے مطابق سابق وزیر پٹرولیم نے ایڈمور کے متعدد اجلاسوں کی صدارت بھی کی ہے۔ اس سلسلے میں جب وفاقی وزیر پٹرولیم کو ایس ایم ایس کیا گیا تو وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ ایڈمور ایک آئل مارکیٹنگ کمپنی ہے‘ کمپنی نے آئل سٹور قائم کرنے کے لیے کراچی میں ایک پروگرام کا اہتمام کیا ہے‘ میرا اس پروگرام میں شرکت کرنے کا پروگرام ہے۔ وزارت پٹرولیم کے ریکارڈ کے مطابق سابق وزیر پٹرولیم کے ایڈمور میں حصص نہیں ہیں۔ واضح رہے ایڈمور پٹرولیم وزیراعظم میاں نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری اور سوئی ناردرن گیس کمپنی کے چیئرمین سعید مہدی کی ملکیت تھی جسے ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنے فرنٹ مین اور دارالصحت کے مالک علی چشتی کے سپرد کیا ہوا ہے‘‘۔ 
اس خبر میں روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے کسی پر الزام نہیں لگایا۔ مگر اس خبر سے اُس کنفیوژن کا پتہ چلا ہے جو اہلِ سیاست نے پھیلائی ہوئی ہے۔ کیسے کیسے جال ہیں جو پھیلے ہوئے ہیں۔ کس نام سے معاملہ شروع ہوتا ہے اور کن کن ناموں تک پہنچتا ہے۔ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے‘ سب کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں جا ملتے ہیں!

خواب لے لو! خواب!

گائوں سے کچھ فاصلے پر جوہڑ تھا۔ پانی اس کا گندہ تھا۔ بے حد گندہ! آنے جانے والی سوزوکیاں گوبر اور مٹی سے لتھڑے ہوئے پہیے تو دھوتی ہی تھیں‘ بھینسیں بھی پانی کی مقدار میںحسبِ توفیق ’’اضافہ‘‘ کرتی رہتی تھیں۔ مولوی صاحب نے یہ حال دیکھا تو مناسب سمجھا کہ فقہی مسئلہ واضح کر دیں؛ چنانچہ مسجد میں ایک دن جب لوگ جمع تھے تو انہوں نے سمجھایا کہ اس جوہڑ کے پانی سے وضو نہیں ہوتا۔ ایک کسان پچھلی صف سے اٹھا اور بلند آواز سے بولا۔ مولوی صاحب! میرا وضو تو وہاں ہو جاتا ہے۔ روز کرتا ہوں! 
آپ کا کیا خیال ہے مولوی صاحب اگر اُس کسان کے سامنے فقہ کی کتابیں کھول کر بیٹھ جائیں تو وہ کسان قائل ہو جائے گا؟ 
گندے جوہڑ اس ملک میں بے شمار ہیں۔ پچھلی صف سے اُٹھ کر مولوی صاحب کی فقہ کو چیلنج کرنے والے کسان بھی کم نہیں۔ ان میں سے کچھ پہلی صف میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کسان لکھاری اور دانش ور ہیں! ان دانش ور کسانوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کر کرپشن جتنی بھی ہے‘ جہاں بھی ہے جیسی بھی ہے‘ فوج اسے نہ چھیڑے۔ کرپشن کے خلاف ایکشن لینا سیاسی حکومت کا کام ہے۔ فوج کے آئینی کردار کا تقاضا نہیں کہ وہ کرپشن صاف کرے۔ کچھ تو کرپشن کو ہٹانے کے لیے خصوصی قوانین کے بھی خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عام قوانین‘ عام عدالتیں‘ عام کارروائیاں کرپشن کے لیے کافی و شافی ہیں۔ 
اب یہاں جوش کے بجائے ہوش کی ضرورت ہے۔ وہ یوں کہ جو دانشور یہ رائے رکھتے ہیں ان کی نیت پر شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کرپشن کے حامی نہیں‘ اصل میں یہ بات وہ جمہوریت کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ سارے مہذب ملکوں میں اور تمام ترقی یافتہ معاشروں میں ایسے معاملات سیاسی حکومتیں ہی نمٹاتی ہیں۔ ہمارے یہ دانش ور چاہتے ہیں کہ جمہوری حکومت ہی‘ جسے عوام نے منتخب کیا ہے‘ کرپشن کے انسداد کا کام کرے۔ مگر ع مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات… وہ یہ بھول گئے ہیں کہ لمحۂ موجود میں عوام‘ یعنی جمہور‘ کیا چاہتے ہیں؟ 
آپ کا کیا خیال ہے آج اگر عوام سے یہ سوال ریفرنڈم کی صورت میں کیا جائے کہ: 
’’کرپشن کے انسداد کا کام سیاسی حکومت پر چھوڑ دیا جائے یا فوج کے سپرد کیا جائے؟‘‘ 
تو عوام کا جواب کیا ہوگا؟ بچہ بھی جانتا ہے کہ عوام کا جواب کیا ہوگا؟ اس وقت کسی بھی ایشو پر عوامی رائے معلوم کرنے کے لیے سوشل میڈیا بہترین ذریعہ ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ہر روز لاکھوں کروڑوں پاکستانی سوشل میڈیا پر کرپشن کے حوالے سے‘ سیاسی حکومتوں پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ وہ ہر ممکن طریقے سے سیاست دانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ ان کی کرپشن پر طنز کرتے ہیں۔ اپنے دل کا درد‘ دکھاتے ہیں۔ اہلِ سیاست کی کرپشن پر اور کرپشن کی سرپرستی پر آنسو بہاتے ہیں اور فوج اور رینجرز جو کچھ کر رہے ہیں‘ اس کی تائید کرتے ہیں! 
سیاسی حکومت کن کی ہے؟ پانچ سال پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔ گزشتہ سوا دو سال سے مسلم لیگ نون برسراقتدار ہے۔ کرپشن کے معاملے میں ان حکومتوں کا ٹریک ریکارڈ کیا ہے؟ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کرپشن کا معاملہ ان حکومتوں پر چھوڑ دیا جائے اور پھر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کرپشن کو ختم ہونا چاہیے تو اس سے ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے! 
خواب دیکھنے پر پابندی ہے نہ ہی خواب دیکھنا قابلِ دست اندازی ٔپولیس۔ گلی گلی پھر کر ’’خواب لے لو خواب‘‘ کا آوازہ لگانے سے بھی کوئی نہیں روکتا۔ اگر کچھ لوگ خواب دیکھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی سیاسی حکومتوں جو کبھی یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں برسرِ کار تھیں اور کبھی راجہ پرویز اشرف کی رہنمائی میں چلائی جا رہی تھیں‘ کرپشن کے خلاف جہاد کر رہی تھیں اور اب مسلم لیگ کی حکومت کرپشن کو ختم کرنے کے در پے ہے‘ تو دنیا کی کوئی طاقت ایسے خواب دیکھنے سے اور ایسے خواب فروخت کرنے سے کسی کو نہیں روک سکتی   ؎ 
سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا 
دریچہ کھُل رہا تھا خواب میں‘ دیوار کر ڈالا 
خیر‘ پیپلز پارٹی کی حکومت کو تو جانے دیجیے۔ حکومتِ وقت کی خدمات بھی اس سلسلے میں کم نہیں! ماڈل ٹائون ہلاکتوں اور ڈسکہ میں دو وکیلوں کے دن دہاڑے پولیس کے ہاتھوں قتل کے کیسوں میں اب تک کتنوں کو سزا ہوئی‘ اس معاملے کو بھی جانے دیجیے کہ دلیل یہ سامنے آ جائے گی کہ قتل کے کیسوں کا کرپشن سے کیا تعلق ہے؟ ماڈل ٹائون ہلاکتوں کے قصے میں جس بیوروکریٹ کا نام سرفہرست تھا‘ اسے بین الاقوامی تجارتی ادارے میں سفیر مقرر کر کے ملک سے باہر بھیج دینا بھی کرپشن نہیں! 
گزشتہ برس کی جولائی کا وسط تھا۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ٹڈاپ) سے متعلقہ بارہ کرپشن کیسوں میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ضمانت کروالی۔ ایف آئی اے نے ضمانت کے اس فیصلے کو چیلنج کر دیا۔ ایف آئی اے کا مؤقف تھا کہ عدالت نے ضمانت منظور کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ ایف آئی اے نے یہ بھی بتایا کہ سابق وزیراعظم کے ملوث ہونے کا کافی و شافی ثبوت موجود ہے؛ چنانچہ ایف آئی اے نے استدعا کی کہ ضمانت منسوخ کر دی جائے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ اُن دانش وروں کو جو کرپشن کے انسداد کا کام سیاسی حکومت پر چھوڑ دینا چاہتے ہیں‘ اسی پر خصوصی غور فرمانا چاہیے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ جو کچھ ایف آئی اے کہہ رہی ہے‘ وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر کہہ رہی ہے اور ’’اب ایف آئی اے اپنی درخواست واپس لینا چاہتی ہے‘‘۔ چنانچہ ایف آئی اے نے رومال سے ماتھا پونچھا‘ ضمانت برقرار رہی اور سابق وزیراعظم سامنے نظر آنے والی بلا سے محفوظ ہو گئے۔ یہی وہ کیس ہے جس میں تین روز پہلے یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم کی گرفتاری کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہوئے ہیں۔ تو کیا اس کی پشت پر سیاسی حکومت کا انسدادِ کرپشن کا جذبہ ہے؟ 
قطر سے گیس کی خریداری ایک اور مثال ہے۔ دس مئی 2015ء کے کالم میں نذیر ناجی صاحب نے اس ضمن میں کچھ سوالات اٹھائے تھے مثلاً یہ کہ معاہدہ مارچ 2015ء میں ہو چکا تھا‘ پارلیمنٹ کو اس سے کیوں بے خبر رکھا گیا؟ 
مثالوں کی کوئی حد نہیں! بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہر ملک کے اپنے حالات ہیں‘ اپنا ماحول ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح ہر مریض کا اپنا الگ معاملہ ہے۔ کھانسی شدید ہو تو سنا ہے ہائی بلڈ پریشر کے مریض کو کف سیرپ نہیں پلانا چاہیے۔ اب اگر کوئی اصرار کرے کہ نہیں! کھانسی کے معاملے کو کف سیرپ ہی کے ذریعے حل کرنا چاہیے تو مریض کی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ سنگاپور پر جب مغربی میڈیا نے اعتراض کیا کہ محض گولی چلانے پر موت کی سزا کیوں‘ جب کہ گولی سے کوئی مرا نہ زخمی ہوا؟ تو وزیراعظم لی نے ہنس کر جواب دیا کہ تم اپنے بندوں کو مروانے کے بعد قاتل کو سزا دیتے ہو‘ ہم اسے پہلے ہی دے دیتے ہیں! 
اس میں ذرہ بھر اشتباہ نہیں کہ ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو بچاتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم اسی ملک میں تھے۔ سیاسی حکومت چاہتی تو انہیں اور دوسروں کو بھی‘ پکڑ سکتی تھی۔ ’’غیر سیاسی‘‘ قوتوں کو اس کارِ خیر کا موقع ہی نہ ملتا! یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم صرف حکومتِ وقت کی بات نہیں کر رہے۔ کم و بیش تمام سیاسی حکومتوں کا رویہ ایک سا ہی رہا ہے۔ 
سیاست دانوں کا طرزِ عمل اس سلسلے میں کیا ہے؟ اس کا اندازہ ایک خبر سے لگایئے جو روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے دو دن پہلے شائع کی ہے۔ 
’’وزیر پٹرولیم آج کرپشن اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار سابق وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی مبینہ آئل مارکیٹنگ کمپنی ایڈمور کے شکارپور ڈپو کا افتتاح کراچی کے مقامی ہوٹل میں کریں گے۔ ایڈمور کو ڈاکٹر عاصم کے فرنٹ مین علی چشتی چلا رہے ہیں۔ ذرائع نے روزنامہ ’’دنیا‘‘ کو بتایا کہ ایڈمور کا ڈپو صرف کاغذوں میں ہے۔ اور یہ صرف اوگرا کے پاس جمع کرائے فنانشل پلان کی خانہ پری کے لیے دکھایا جا رہا ہے تاکہ اتھارٹی کی طرف سے ڈپو نہ بنانے پر بھاری جرمانہ سے بچا جا سکے۔ پٹرولیم مارکیٹ کے ذرائع کے مطابق سابق وزیر پٹرولیم نے ایڈمور کے متعدد اجلاسوں کی صدارت بھی کی ہے۔ اس سلسلے میں جب وفاقی وزیر پٹرولیم کو ایس ایم ایس کیا گیا تو وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ ایڈمور ایک آئل مارکیٹنگ کمپنی ہے‘ کمپنی نے آئل سٹور قائم کرنے کے لیے کراچی میں ایک پروگرام کا اہتمام کیا ہے‘ میرا اس پروگرام میں شرکت کرنے کا پروگرام ہے۔ وزارت پٹرولیم کے ریکارڈ کے مطابق سابق وزیر پٹرولیم کے ایڈمور میں حصص نہیں ہیں۔ واضح رہے ایڈمور پٹرولیم وزیراعظم میاں نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری اور سوئی ناردرن گیس کمپنی کے چیئرمین سعید مہدی کی ملکیت تھی جسے ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنے فرنٹ مین اور دارالصحت کے مالک علی چشتی کے سپرد کیا ہوا ہے‘‘۔ 
اس خبر میں روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے کسی پر الزام نہیں لگایا۔ مگر اس خبر سے اُس کنفیوژن کا پتہ چلا ہے جو اہلِ سیاست نے پھیلائی ہوئی ہے۔ کیسے کیسے جال ہیں جو پھیلے ہوئے ہیں۔ کس نام سے معاملہ شروع ہوتا ہے اور کن کن ناموں تک پہنچتا ہے۔ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے‘ سب کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں جا ملتے ہیں!


Saturday, August 29, 2015

وہ جو دودھ سے بھری بالٹیاں گھروں کو لے گئے

گیارہ دن اور گیارہ راتیں وہ بے ہوش رہا۔ 
گیارہ دن اور گیارہ راتیں اس کے پیارے دعائیں مانگتے رہے‘ آنسو بہاتے رہے‘ بارہویں دن بے ہوشی ختم ہوئی اور اس کی جگہ موت نے لے لی۔ ایک چھوٹی سی خبر اور وہ بھی ایک آدھ اخبار میں! فیض نے کہا تھا   ؎ 
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا 
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا 
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو 
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ 
نہ مدعی نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا 
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا 
لیکن یہ لہو یتیم تو نہ تھا۔ فیض صاحب کا خیال تھا کہ رزم گاہ میں بہنے والا خون معتبر ہوتا ہے‘ پرچموں پر لکھا جاتا ہے اور مشتہر ہوتا ہے۔ خدا اس سرزمین پر رحم کرے‘ اب رزم گاہ میں بہنے والا خون بھی معتبر نہیں رہا۔ اب وہ خون بھی یتیم ہے جو میدانِ جنگ میں ہے۔ اب یہاں صرف وہ خون معتبر ہے جو کسی بڑے آدمی کا ہو۔ اب خون کا پاک صاف ہونا بھی ضروری نہیں۔ اب خون کا کسی شہید کا خون ہونا بھی لازم نہیں! بے شک گندا خون ہی کیوں نہ ہو‘ بس کسی گردن بلند کا ہو‘ کسی کج کلاہ کا ہو‘ کسی متکبر کا ہو‘ کسی مقتدر کا ہو‘ پھر دیکھیے‘ کیا توقیر اور کیا تکریم ہوتی ہے اُس کی! 
غریب نواز صرف نام کا غریب نہیں تھا! اصل میں بھی غریب تھا۔ وہ کرنل شجاع خانزادہ شہید کا ڈرائیور تھا۔ 16 اگست کو جب نڈر کرنل (پنجاب پولیس‘ جس کا وہ سربراہ تھا! اُس کی حفاظت نہ کر سکی) خودکش حملے میں شہید ہوا تو غریب نواز کے سر پر بھی چوٹیں آئیں۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔ گیارہ دن ہولی فیملی ہسپتال میں کوما میں رہا۔ 
المیہ یہاں ختم نہیں ہو رہا۔ یہاں سے کہانی شروع ہو رہی ہے۔ بے حسی‘ منافقت‘ سنگدلی‘ تکبر اور رعونت کی کہانی۔ ڈاکٹروں نے درخواست کی تھی کہ اسے امریکہ لے جایا جائے۔ پاکستانی ڈاکٹر بیرونِ ملک بھیجنے کی تجویز صرف اور صرف اُس وقت پیش کرتے ہیں جب انہیں وہاں جان بچنے کی امید ہو۔ خبر کا جو حصہ دل میں چھید کر دینے والا ہے یہ ہے کہ ’’علاج امریکہ میں کروانے کی تیاری کی جا رہی تھی‘‘… اگر غریب نواز حاکم ہوتا‘ کسی صوبے کا وزیراعلیٰ ہوتا‘ کسی اسمبلی کا رکن ہوتا‘ کسی حکمران کا رشتہ دار ہوتا‘ حرام کے مال سے اُس کی تجوریاں اور بینک بھرے ہوئے ہوتے تو گیارہ دن تو ایک طویل عرصہ ہے‘ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ’’تیاری‘‘ مکمل ہو جاتی۔ کاغذات بھی بن جاتے۔ بیرون ملک ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے بھی رابطے ہو جاتے‘ ایئر ایمبولینس کا بندوبست بھی ہو جاتا۔ مگر غریب نواز تو ایک غریب ڈرائیور تھا! ایسے ہی کسی سیاق و سباق میں کسی نے بددعا دی تھی   ؎ 
ان ظالموں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں 
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم 
کیا کوئی وفاقی یا صوبائی اہلکار بتائے گا کہ اب تک کتنے حکمران اور حکمرانوں کے کتنے گماشتے سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کرا چکے ہیں۔ یہاں تو کسی بڑے کو چھینک بھی آ جائے‘ زکام بھی لگ جائے‘ بسیار خوری کی وجہ سے دھماکہ خیز ڈکار بھی آ جائے تو فوراً سرکاری جہاز پر سوار ہو کر سرکاری خرچ پر بیرونِ ملک ’’علاج‘‘ کے لیے چلا جاتا ہے۔ کل جب غریب نواز کی شہادت کی خبر آئی‘ تو ساتھ ہی ایک معروف سیاستدان اور سابق وزیر کے بارے میں بھی خبر چھپی ہے کہ لندن کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اہل خانہ بھی پہنچ گئے ہیں۔ اگر ترازو میں اس ملک کے لیے ایک طرف غریب نواز کی خدمات رکھی جائیں اور دوسری طرف لندن میں علاج کروانے والے اس سیاستدان جیسے اشخاص کی ’’کارکردگیاں‘‘ اور ’’خدمات‘‘ رکھی جائیں تو کیا عجب غیب کی قوت ترازو کا ایک پلڑا کہاں اور دوسرا کہاں لے جائے!! پوری پوری زندگیاں اس ملک کو کھاتے بھنبھوڑتے کاٹتے‘ پھینکتے‘ روندتے گزر جاتی ہیں۔ کبھی ان کے بینک اکائونٹوں میں چار چار کروڑ روپے پراسرار طریقے سے جمع ہوتے ہیں‘ کبھی ان کی اولادیں بغیر کسی مقابلے کے امتحان کے اور بغیر کسی اہلیت اور میرٹ کے‘ بیرون ملک پاکستان کے سفارت خانوں میں بڑی بڑی افسریاں سنبھال کر بیٹھ جاتی ہیں۔ کبھی یہ خود وفاق میں ہوں تو ان کے فرزندانِ گرامی صوبوں میں ’’موروثی‘‘ اقتدار سنبھال لیتے ہیں۔ پھر جب اس ملک کی خاک کو خون دینے والے غریب نواز‘ امریکہ لے جانے کی ’’تیاری‘‘ کے دوران اپنے غریب بچوں کو چھوڑ کر آنکھیں موند لیتے ہیں تو اُس وقت‘ جی ہاں عین اُس وقت‘ ہمارے صبر کا امتحان لینے کے لیے‘ ہماری توہین کرنے کے لیے‘ یہ خبریں چھپتی ہیں کہ فلاں یورپ کے فلاں شہر میں زیر علاج ہے! اب بھی اگر دوپہر کے وقت اس ملک پر گھٹا ٹوپ اندھیرا نہیں چھا جاتا تو کب چھائے گا اور اب بھی اگر آسمان سے پتھر نہیں برستے تو کب برسیں گے!! 
کرگس ہی کرگس ہیں جو پروں کو پھیلائے فضا پر چھائے ہوئے ہیں۔ اندازہ لگایئے‘ جام معشوق علی وزیراعظم کے مشیر لگائے جا رہے ہیں۔ یہ جام صاحب جام صادق کے نورِ نظر ہیں جن کی ’’خدمات‘‘ بصورتِ کرپشن اس ملک کی تاریخ کا سرمایۂ افتخار ہیں۔ یہ جو وزیراعظم نے قوم کو خوشخبری دی ہے کہ ’’اب خاندانی سیاست نہیں ہوگی بلکہ پارٹی سیاست ہوگی‘‘ تو یہ غیرخاندانی سیاست کا آغاز ہے! چلیں وزیراعظم صاحب نے کم از کم یہ اعتراف تو کر لیا کہ اب تک یعنی (پچیس تیس سال سے) خاندانی سیاست ہوتی رہی ہے! 
کرگسوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ سید خورشید شاہ کے اعلانِ جنگ پر تو کسی کو بھی تعجب نہیں ہو سکتا۔ اقبال نے یہ شعر یوں ہی تو نہیں کہہ دیا تھا   ؎ 
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں 
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘ اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے 
مگر تعجب کائرہ صاحب پر ہوتا ہے اور تعجب سے زیادہ افسوس! پیپلز پارٹی کے اُن چند رہنمائوں میں سے ہیں جن کا آج تک کوئی سکینڈل نہیں سنا۔ انہیں پیپلز پارٹی میں دیکھ کر اتنا ہی افسوس ہوتا ہے جتنا نصیر اللہ بابر کو اس پارٹی میں دیکھ کر ہوتا تھا۔ عرصہ ہوا‘ پہلی بار پبلک اکائونٹس کمیٹی کے رکن کے طور پر‘ اجلاس میں بولتے سنا تو حیرت ہوئی۔ ٹھوس دلیل‘ منطقی گفتگو‘ نپا تُلا انداز۔ مگر آہ! پاکستان جیسے ملکوں میں سیاست جبر کا دوسرا نام ہے۔ کیا کیا مجبوریاں ہیں! جو لوگ سیاست میں رہنا چاہتے ہیں‘ بعض اوقات بلکہ اکثر ان کے پاس چوائس ہی نہیں ہوتا۔ یہ جبر ہی تو ہے جو خواجہ آصف اور چودھری نثار علی جیسے سینئر اور سفید سر سیاستدانوں کو حمزہ شہباز جیسے بچوں کے سامنے بٹھا دیتا ہے اور کائرہ صاحب جیسوں کو ڈاکٹر عاصم‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور امین فہیم جیسوں کا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ دفاع کرتے وقت دل پر کیا گزرتی ہوگی! 
پاکستان میں سیاسی جماعتیں گائے کی طرح ہیں۔ اُس گائے کی طرح جس کے لیے دو افراد مامور تھے۔ ایک اپنے پلے سے چارہ کھلاتا تھا اور دوسرا دودھ دوہ کر دودھ سے بھری بالٹی اپنے گھر لے جاتا تھا! بے چارے سیاستدان! کچھ صرف چارہ کھلانے کے لیے ہیں اور کچھ دودھ سے بھری بالٹیاں گھروں کو لے جانے کے لیے۔ 
قسامِ ازل نے بھی کیا تقسیم کی ہے!

Wednesday, August 26, 2015

افیونچی

ا جہاندیدہ اور خوش گفتار خاتون تھی اور کیا کیا فارمولے تھے اس کی زنبیل میں۔ کئی سال پہلے کی بات ہے‘ چند دوستوں نے میریٹ ہوٹل کراچی کے ریستوران میں کھانے پر مدعو کیا۔ پندرہ بیس معززین‘ کچھ بیوروکریٹ اور کچھ صحافی اور دانشور۔ انہی میں یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت تھی‘ جنوبی ہند سے ہجرت کر کے امریکہ گئی ہوئی۔ دو باتیں اس کی نہیں بھولتیں‘ جو اُسے اس کے باپ نے یاد رکھنے کو کہی تھیں۔ 
اوّل‘ پہلی نظر جوتوں پر پڑتی ہے۔ اس لیے کسی کو ملنے جائو تو جوتے بہترین ہوں! دوم: غریب امیر ہو جائے تو غربت پچاس سال تک اس کے اندر سے نہیں نکلتی اور خوشحالی مفلسی میں تبدیل ہو جائے تو رنگ ڈھنگ اور اندازِ فکر نصف صدی تک امیرانہ ہی رہتا ہے۔ عمرکوٹ میں ہمایوں اور اس کے بچے کھچے ساتھیوں کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ وقت تھا کہ گوشت مل جاتا تو خود (ہیلمٹ) میں ابالتے۔ جو شخص اکبر کی پیدائش کی خبر لایا‘ اسے خالی ہاتھ کیسے جانے دیتا! مفلسی تھی لیکن انداز امیرانہ تھا۔ صرف نافۂ مشک تھا اس کے پاس۔ کستوری کی پوٹلی! اور کچھ بھی نہ تھا! مشک کے ٹکڑے کیے۔ ایک خبر لانے والے کو پیش کیا اور باقی حاضرینِ مجلس میں تقسیم کیے! 
پچاس سال ہوں یا ساٹھ یا سو سال۔ قبیلوں‘ گروہوں اور قوموں کے خصائل تبدیل نہیں ہوتے۔ متحدہ عرب امارات کی تاریخ دلچسپ ہے اور اس میں فکر والوں کے لیے نشانیاں ہیں! تیل 1950ء میں نکلا۔ برآمد تیل کی سب سے پہلے ابوظہبی نے 1962ء میں آغاز کی! آج یو اے ای کا بڑا نام ہے! گردن بلندوں کے ساتھ آج اُس کی ہمسری ہے! قربِ قیامت کی نشانیوں میں یہ بھی تو ہے کہ بکریاں چرانے والے سربفلک عمارتیں بنائیں گے۔ مودی نے جس طرح یو اے ای میں پاکستان کو تکبر‘ طنز اور نامناسب گفتگو کا نشانہ بنایا ہے اور جس طرح خلیج کے حکمرانوں نے اس کے سامنے مرعوبیت کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس سے تاریخ اور عالمی سیاست کے طالب علم کے ذہن میں ریت‘ بے ثمر جھاڑیوں‘ خیمے‘ اونٹ اور بدّو کے سوا کیا آ سکتا ہے!! 
اللہ اللہ! ایک زمانہ وہ تھا جب خلیج فارس کے جنوبی ساحل کو انگریز ’’قزاقوں کا ساحل‘‘ کہتے تھے۔ سترہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک القاسمی قبائل کی کشتیاں بحری جہازوں کو ہراساں کرتیں۔ لوٹ مار‘ طرزِ زندگی کا دوسرا نام تھا۔ راس الخیمہ ان سرگرمیوں کا گڑھ تھا۔ برصغیر کی تجارت کو بچانے کے لیے برطانیہ نے 1809ء اور پھر 1819ء میں چڑھائی بھی کی۔ دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی تو خلیج کی ریاستوں کا گزران (سمندر سے نکالے گئے) موتیوں کی فروخت پر تھا۔ آج یو اے ای کو یاد نہیں رہا کہ انگریزوں کے رخصت ہونے کے بعد بھارتی حکومت نے خلیج فارس سے آنے والے موتیوں پر اتنا بھاری ٹیکس لگایا کہ آمدنی کا یہ ذریعہ ہی ختم ہو گیا اور ریاستوں کی اقتصادی حالت ابتر ہو گئی۔ 
نہیں! تاریخ میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں! مطلب کی بات پر آتے ہیں۔ آج بھارت میں گھی کے چراغ جلائے جا رہے ہیں۔ میڈیا بھنگڑے ڈال رہا ہے کہ پاکستان کو ’’کیے‘‘ کی سزا ملی ہے! پاکستان نے کیا کیا؟ یمن میں فوج نہیں بھیجی۔ پاکستان بنیا نہیں کہ صرف سکّے شمار کرے۔ دکاندار نہیں کہ سودا بیچنے کے علاوہ اسے کوئی فکر نہ ہو۔ فوج اس لیے نہیں بھیجی کہ دو برادر ملک لڑ رہے تھے اور وہ فریق نہیں بننا چاہتا تھا! پاکستان کی پارلیمنٹ نے حکومت کو غیرجانبدار رہنے کے لیے کہا تھا۔ اپریل میں یو اے ای کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور ڈاکٹر انور محمد غارغش نے پاکستان اور ترکی پر کڑی تنقید کی کہ وہ کھل کر عرب بادشاہوں کا ساتھ نہیں دے رہے۔ وزیر صاحب نے پاکستان کو متنبہ کیا کہ اسے (پاکستان) ’’بھاری قیمت‘‘ ادا کرنا پڑے گی! 
دوسروں سے عسکری حفاظت مانگنا یو اے ای کی تاریخ ہےاور شاید فطرت بھی! 1971ء میں جب برطانیہ نے ’’عسکری حفاظت‘‘ کا معاہدہ ختم کیا تو دبئی کی حکومت نے برطانیہ کی منت سماجت کی کہ ایسا نہ کرے اور بے شک امارات میں متعین اپنی فوج کے تمام اخراجات وصول کر لے۔ عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو امارات امریکہ کے ساتھ تھیں۔ 1994ء میں یو اے ای نے امریکہ کے ساتھ ’’دفاعی‘‘ معاہدہ کیا۔ ایسا ہی معاہدہ ایک برس بعد فرانس سے بھی کیا گیا اور جنوری 2008ء میں تو فرانس کو ابوظہبی میں مستقل ملٹری بیس بھی دے دی گئی۔ 2011ء میں لیبیا میں ’’بین الاقوامی فوجی آپریشن‘‘ کیا گیا تو یو اے ای بھی اس میں شامل تھا! یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ آپریشن مڈل ایسٹ کو غیرمستحکم کرنے کے امریکی منصوبے کا حصہ تھا! 
’’بھاری قیمت‘‘؟ تو جو کچھ مودی نے اگست (2015ء) کے وسط میں یو اے ای میں کیا اور کہا‘ اس ’’بھاری قیمت‘‘ کا حصہ ہے؟ مودی نے دبئی کرکٹ سٹیڈیم میں بھارتیوں سے خطاب کے دوران دھمکی آمیز لہجے میں کہا: 
’’مجھے یقین ہے کہ جن کے متعلق ہم یہاں (یو اے ای میں) گفت و شنید کر رہے ہیں انہیں اس گفت و شنید کا معلوم ہے‘‘۔ مودی نے جنوبی ایشیا پر بھارتی حاکمیت جتاتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’افغانستان سے لے کر بنگلہ دیش تک‘ جنوبی ایشیا کا ہر ملک بھارتی ترقی میں ’’حصہ دار‘‘ ہے اور جو ہمارے ساتھ نہیں ملنا چاہتے‘ اپنا راستہ پکڑیں‘‘۔ 
تو مودی اور یو اے ای کے حکمرانوں نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا‘ کیا وہ اس ’’بھاری قیمت‘‘ کا حصہ ہے؟ اس اعلامیے میں پاکستان کی طرف کئی جلی اور خفی اشارے تھے! اشارے کیا تھے‘ انگلیاں تھیں جو اٹھائی گئیں۔ 
’’دونوں ممالک انتہا پسندی کے خلاف ہیں اور کسی بھی ایسے تعلق کو قبول نہیں کرتے جو مذہب اور دہشت گردی کو جوڑتا ہے۔ دونوں ممالک ایسے ملکوں کی مذمت کرتے ہیں جو سیاسی مسائل کو مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہیں‘‘۔ 
درست فرمایا! پاکستان میں جو دہشت گردی ہے اسے تو پاکستانی ریاست‘ پاکستانی حکومت‘ پاکستانی مسلح افواج اور پاکستانی عوام ختم کرنے کی کامیاب کوشش کر رہے ہیں۔ مگر اُس دہشت گردی کا یو اے ای نے کیا سوچا ہے جو بھارت میں حکومتی سطح پر کی جا رہی ہے؟ کیا مودی نے گجرات میں نہیں کہا تھا کہ ’’ہندوئوں کو دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملنا چاہیے‘‘۔ کیا بی جے پی‘ ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ نہیں ہے؟ کیا خود ہندو پنڈت‘ مودی جی کی مسلم کُش پالیسیوں سے بلبلا نہیں اُٹھے؟ سوشل میڈیا پر ایک دو نہیں‘ کئی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ جب سے مودی سرکار آئی ہے سنت دہشت میں ہیں۔ یہ پنڈت کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ مودی سرکار‘ رام کا سودا کر رہی ہے اور گنگا کو بیچنا چاہتی ہے۔ 
رہے وہ مشترکہ ’’ثقافتی‘‘ تعلقات جن کا ذکر بار بار مشترکہ اعلامیے میں کیا گیا ہے‘ تو یہ کون سی ثقافت ہے؟ بھارت میں مسلمانوں کے آثار کا اصل وارث تو پاکستان ہے۔ بھارت میں تو اب یہ ثابت کیا جانے لگا ہے کہ تاج محل کسی ہندو نے بنوایا تھا۔ گزشتہ یومِ آزادی کے جلوس میں جو دہلی میں نکالا گیا‘ کرناٹک کی ریاست کی طرح سے ٹیپوسلطان کو بطور ہیرو پیش کیا گیا تو چند گھنٹوں میں دس ہزار مذمتی پیغام ٹوئٹر پر سامنے آ گئے۔ یو اے ای کس مشترکہ ثقافت کی بات کر رہا ہے؟ کیا اس مشترکہ ثقافت میں گجرات کے مسلمانوں کا خون اور ایودھیا کی بابری مسجد کا ملبہ بھی شامل ہے؟ کیا اس مشترکہ ثقافت میں بندے ماترم کا وہ گیت بھی شامل ہے جو مسلمان بچوں کے لیے سکولوں میں گانا لازم ہے؟ افسوس! صد افسوس! چونتیس برسوں میں پہلا بھارتی وزیراعظم یو اے ای میں گیا تو وہ مودی تھا۔ صرف اس لیے کہ پاکستان سے ’’بھاری قیمت‘‘ وصول کی جائے! ع 
ببین کہ از کہ بریدی و با کہ پیوستی؟ 
کس سے آپ ٹوٹے ہیں اور کس سے جُڑ رہے ہیں؟ 
یو اے ای بھارت کے ساتھ صرف ثقافتی‘ تعلیمی‘ تجارتی‘ صنعتی اور خلائی میدانوں میں دستِ تعاون نہیں بڑھا رہا‘ یو اے ای بھارت کو انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے صرف 75 ارب ڈالر نہیں دے رہا‘ یو اے ای بھارت کے ساتھ مشترکہ دفاعی اور عساکر کے تربیتی معاہدے بھی کر رہا ہے! بھارت کا سارا میڈیا بشمول ڈیلی ہندو‘ ڈیلی ہندوستان ٹائمز اور ڈیلی ٹائمز آف انڈیا ایک ہی بات کہہ رہا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ اصل میں ایک پیغام ہے جو پاکستان کو دیا جا رہا ہے! 
جوش ملیح آبادی نے بنیے پر ایک نظم لکھی تھی جس کا آغاز یوں تھا   ؎ 
قد کی لمبائی سے اک حد تک کمر جھولی ہوئی 
سر پہ چُٹیا مردہ چوہے کی طرح پھولی ہوئی 
بنیے کے ساتھ کاروبار کرنے کے ثمرات بہت جلد ہمارے یو ا ے ای کے دوستوں کو معلوم ہو جائیں گے۔ ہمارے ان دوستوں کو شاید معلوم نہیں کہ پاکستان بھارت کی راہ میں حائل نہ ہوتا تو آج مڈل ایسٹ کے ممالک بھی بھوٹان‘ سکم‘ نیپال اور بنگلہ دیش کی طرح بھارت کی ذیلی ریاستیں ہوتیں! 
لیکن اصل رونا مودی کے بارے میں ہے نہ یو اے ای کے دوستوں کے متعلق! رونا تو یہ ہے کہ بھارت کی حد درجہ مستعد خارجہ سرگرمیوں کے مقابلے میں پاکستان کے خارجہ ا مور سردخانے میں پڑے ہیں۔ چند روز پہلے انہی صفحات میں ہم نے مودی کے اُس برق رفتار دورے کا ذکر کیا تھا جس میں وہ روس سے واپسی پر وسط ایشیا کی تمام ریاستوں میں گیا اور کئی معاہدے کیے جب کہ ہمارے وزیراعظم لاہور ایئرپورٹ کی توسیع کے متعلق متفکر تھے اور روس سے واپس آ کر فوراً بنفس نفیس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ ہم نے وزارتِ خارجہ سے پوچھا تھا کہ مودی کے اِن ہمہ گیر دوروں کے بارے میں اس کا کیا ردِّ عمل ہے؟ لگتا ہے وزارتِ خارجہ کو پروا ہے نہ خبر! اگر مودی دبئی کرکٹ سٹیڈیم میں پچاس ہزار بھارتیوں سے خطاب کر سکتا ہے تو پاکستان کے وزیراعظم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا وزیراعظم اس بارے میں متفکر ہیں؟ اگر وزارتِ خارجہ میں بیٹھے ہوئے افیونچی کسی وقت جاگ پڑیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ قوم کو مودی کے حالیہ دورۂ یو اے ای کے متعلق اعتماد میں لیں؟؟

Monday, August 24, 2015

مکڑی کا گھر

ایاز صادق مکڑی کے گھر میں رہ رہے تھے۔ بیت العنکبوت میں! مکڑی کا گھر کب تک سہارتا! انّ اوہن البیوت لبیت العنکبوت! سب گھروں میں بودا‘ کمزور ترین گھر‘ مکڑی کا ہوتا ہے! یہ سب مکڑی کے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ یہ سارے گھر ٹوٹیں گے۔ قدرت کی تعمیر میں نظم ہے تو تخریب اور پھر تعمیرِ نو میں بھی ترتیب ہے۔ اقلیم سات ہیں تو آسمان بھی سات ہیں! ہفت اقلیم پر ہفت آسمان ترتیب سے گریں گے۔ دیکھتے جایئے   ؎ 
یہ کھیل اب منطقی انجام کو پہنچے گا اظہارؔ 
ذرا اک صبر! عزت کے نشاں گرنے لگے ہیں 
لاکھوں شہیدوں کا خون اس مٹی میں اس لیے نہیں سمایا تھا کہ زرداری‘ شریف‘ چودھری‘ سردار اور ان کے گماشتے ازمنۂ وسطیٰ کے بادشاہوں کے انداز میں اپنی زندگیوں کو عشرت گاہوں میں بدل لیں۔ کبھی فہمیدہ ذوالفقار آ کر کروڑوں کے قرضوں پر خطِ تنسیخ پھیر دیں اور کبھی ایاز صادق اور ان کے فرزند ارجمند اعلان کریں کہ ٹربیونل کا فیصلہ درست ہے مگر دھاندلی تو نہیں ہوئی نا! کیا دلیل ہے! کیا یہ دلیل یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ یہ مکڑی کے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ ان کے پیروں تلے سے ساحل کی لہریں ریت سرکاتی ہیں تو یہ زمین کو الزام دیتے ہیں! ریت کو نہیں! 
مکڑی کے سارے گھر گریں گے۔ موسم بدلے گا۔ رُت گدرائے گی۔ دیوسائی کے فلک بوس میدان میں آسمانی رنگوں والے ہزاروں پھول کھلیں گے۔ شمالی علاقوں میں پہاڑوں کی ترائیوں پر لگے درختوں کی شاخیں سرخ سیبوں کے بوجھ سے جھک جائیں گی۔ راکاپوشی کی چوٹی پر چمکنے والی برف اپنی سفیدی کو میدانوں میں سفیر بنا کر بھیجے گی تاکہ بخت کی سیاہی چھٹ جائے۔ 
کوئٹہ میں شگفتِ گلِ بادام کی رُت آئے گی۔ سندھ کے ریگستانوں میں ریت سے چمکتا ہوا سونا نکلے گا! قبائلی علاقوں کے سر سے سیاہ رات ہٹے گی! خانوں اور ملکوں اور ان میں قوم کی خون پسینے کی کمائی بانٹنے اور آدھی جیبوں میں ڈالنے والے کرپٹ پولیٹیکل ایجنٹوں کا یومِ حساب آئے گا۔ وزیرستان میں اور پہاڑوں اور پتھروں سے بھری ہوئی ویران ایجنسیوں میں کالج اور یونیورسٹیاں بنیں گی‘ سب کچھ ہوگا! ضرور ہوگا! یہ مضمون آرائی ہے نہ شاعری! خوش فہمی ہے نہ رنگین عینک کا دھوکا! اس لیے کہ دعویٰ یہ نہیں ہے کہ بادلوں سے روپے گریں گے اور درختوں پر سونے کے پھل لگیں گے! تبدیلی ایک طویل عمل ہے۔ ایک 
Process 
ہے۔ اس طویل عمل کا آغاز ہو چکا ہے! یہ
 Process
 شروع ہو چکا ہے! اسے روکا نہیں جا سکتا! اسے کہیں بھی روکا نہیں گیا! اسے سنگاپور میں نہیں روکا جا سکا۔ اسے جنوبی کوریا میں‘ تائیوان میں‘ یو اے ای میں‘ کہیں بھی نہیں روکا جا سکا! آج کے چین کا تیس سال پہلے کے چین سے موازنہ کر لیجیے! 
نہیں! یہ طویل عمل ہماری زندگیوں میں مکمل نہیں ہوگا! مگر ہوگا ضرور   ؎ 
چراغِ زندگی ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں گے 
چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ہم نہیں ہوں گے 
ہمارے ڈوبنے کے بعد ابھریں گے نئے تارے 
جبینِ دہر پر چھٹکے گی افشاں ہم نہیں ہوں گے 
اس لیے کہ تبدیلی کا یہ محض آغاز ہے اور نااہلی‘ بددیانتی اور کرپشن پورے ملک پر ایک وسیع و عریض سائبان کی طرح تنی ہوئی ہے۔ یہ جو الیکشن ٹربیونل نے لکھا ہے کہ این اے 122 میں اور پی پی 147 میں الیکشن قانون کے مطابق نہیں ہوا۔ عملے کی کارکردگی ناقص تھی۔ ترانوے ہزار سے زیادہ فائلوں کی تصدیق نہیں ہو سکی کیونکہ انگوٹھے لگانے والی مقناطیسی سیاہی ناقص تھی۔ چھ ہزار سے زیادہ کائونٹر فائلوں پر درج شناختی کارڈ نمبر نادرا کے جاری کردہ ہی نہیں تھے۔ اڑھائی ہزار ووٹوں کی کائونٹر فائلوں پر عملے کے کسی کارکن کے دستخط ہی نہیں پائے گئے۔ ساڑھے سات سو ووٹوں پر پریذائیڈنگ افسر کی مُہر ہی ندارد تھی! تو یہ اور بہت کچھ کیا ثابت کرتا ہے؟ نااہلی! جہاں نااہلی کا دور دورہ ہو‘ دھاندلی وہیں ہوتی ہے اس لیے کہ چیک اور بیلنس‘ جانچ اور پڑتال‘ کچھ بھی نہیں ہوتا! 
کیا آپ کو یاد ہے بھوجا ایئرلائن کا جہاز کچھ سال پہلے چک لالہ ایئرپورٹ کے پاس گر کر تباہ ہوا۔ کیوں؟ اس لیے کہ جس ٹیکنیکل عملے نے جہاز کو فِٹ قرار دیا تھا‘ وہ نااہل تھا! جہاز فِٹ نہیں تھا! عملے اور پائلٹ کو بھرتی کرنے والے نااہل تھے! کل کے پریس میں رونا رویا گیا ہے کہ لاہور پنڈی موٹروے کی تازہ مرمت اور رینوویشن معیار سے کہیں نیچے ہے۔ کیوں؟ نااہلی! لاکھوں غیر ملکی ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ کیوں؟ متعلقہ محکموں کی نااہلی! لاکھوں شناختی کارڈوں اور پاسپورٹوں کا اجرا! وجہ؟ نااہلی! یہ درست ہے کہ یہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ثبوت لے کر جاری کیے گئے مگر رشوت لے کر جاری کرنے والوں کے اوپر جو بیٹھے ہوئے ہیں وہ نااہل ہیں! انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ نیچے کیا ہو رہا ہے۔ 
نااہلی کا سبب کیا ہے؟ کام چوری‘ نگرانی کی کمی! ایک چھوٹی سی مثال دیکھیے! پاکستان سول سروس کا ایک سینئر افسر‘ محکمے سے چھپ چھپا کر‘ کسی بہانے سے طویل رخصت منظور کروا کر‘ کینیڈا ہجرت کر گیا۔ وہاں وہ کاریں بنانے والی ایک کمپنی میں ملازم ہو گیا۔ ایک دن وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد اسے طلب کیا گیا اور متنبہ کیا گیا کہ اخبار بینی ذاتی کام ہے دفتری اوقات میں اس کی اجازت نہیں! اس نے کہا کہ اُس وقت وہ فارغ تھا۔ اسے بتایا گیا کہ یہ دوسرا جرم ہے۔ فراغت کیا معنی؟ کام تو پیدا
 (Create) 
کرنا ہوگا! نیوزی لینڈ میں ملازمت کرنے والے ایک صاحب نے بتایا کہ دفتری اوقات میں چند منٹ کے لیے انہوں نے یوٹیوب پر کوئی ڈرامہ یا فلم دیکھی۔ دوسرے دن انہیں نکال دیا گیا! اس کے مقابلے میں ہم اگر اپنا جائزہ لیں تو نااہلی کی وجوہ صاف معلوم ہو جاتی ہیں‘ حکومت میں کیا افسر اور کیا سٹاف! اکثریت دس بجے کے بعد آتی ہے۔ کیفے ٹیریا اور کینٹینیں اوقاتِ کار کے اندر ’’گاہکوں‘‘ سے چھلک رہی ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کے ہسپتالوں میں‘ پرائیویٹ اور سرکاری دونوں اقسام کے ہسپتالوں میں‘ بڑے ڈاکٹر صبح سات بجے آ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ لوگ اپنی مرضی سے آتے ہیں۔ پھر کبھی چائے کے لیے اور کبھی ’’میٹنگ‘‘ کے لیے غائب ہو جاتے ہیں‘ آپ کسی ادارے کو دیکھ لیں‘ ان کے صحن‘ برآمدے‘ لان‘ کیفے ٹیریا‘ سارا دن اُن ملازمین سے بھرے رہتے ہیں جنہیں اپنی نشستوں پر ہونا چاہیے۔ گھنٹوں کھڑے ہو کر دھوپ سینکی جاتی ہے۔ تمباکو نوشی ہوتی ہے اور سیاست پر بحث مباحثے ہوتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں! ریلوے‘ واپڈا‘ پی ڈبلیو ڈی‘ سی ڈی اے‘ ایل ڈی اے‘ کے ڈی اے‘ پی ٹی سی ایل‘ سوئی گیس‘ شفاخانے‘ کچہریاں‘ تھانے‘ ایجوکیشن کے دفاتر‘ کہیں چلے جایئے‘ متعلقہ شخص شاید ہی میسر ہو! نمازوں پر زور! دوسروں کی برائیاں! غیر مسلموں سے نفرت اور حقارت‘ بشارتوں‘ خوابوں‘ نشانیوں‘ کرامتوں کا ہجوم! اور تنخواہیں حرام کی! 
یہ سب کچھ بدلنا ہوگا! یہ سب کچھ بدلے گا! یہ ایک راحیل شریف اور ایک عمران خان کے بس کی بات نہیں! ہمیں پے در پے ایسی لیڈر شپ درکار ہوگی! ہمیں بھارت کی طرح پے در پے کئی حکمران ایسے چاہیے ہوں گے جن کے بینک بیلنس‘ محلات اور کارخانے ملک سے باہر نہ ہوں! یہ ناممکن نہیں! ہرگز نہیں! اگر بلاول ہائوس کے اردگرد پھیری گئی دیوار‘ جس نے شاہراہ کو مسدود کر رکھا تھا‘ گر سکتی ہے! اگر سندھ کے محکمے بتا سکتے ہیں کہ ’’رقوم‘‘ کہاں پہنچائی جاتی ہیں‘ اگر گیلانی اور امین فہیم کے مقدمے ازسرنو زندہ ہو سکتے ہیں اگر ایسے سپیکر کا خیمہ اکھڑ سکتا ہے جس کی پشت پر پوری وفاقی حکومت اور پوری پنجاب حکومت کھڑی ہو تو اور بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے اور ہوگا! یہ ملک کرپٹ سیاستدانوں کا ترنوالہ ہے نہ مذہب کے نام پر لوگوں کو الجھانے والے چرب زبانوں کی جاگیر! عوام اُن سیاست دانوں کو پہچان چکے ہیں جن کا اول آخر اقتدار اور صرف اقتدار ہے۔ لوگ اُن گدی نشینوں سے اکتا چکے ہیں جو کروڑوں میں کھیلتے ہیں اور اُن مبلغین پر ہنستے ہیں جو تشہیر کے بھوکے ہیں! عام آدمی اگر پہلے نہیں تھا تو اب سیانا ہوچکا ہے! سیانا ہونے کو کافی سمجھا جائے۔ اُسے جارحیت پر مجبور نہ کیا جائے   ؎ 
اپنا حق شہزاد ہم چھینیں گے مانگیں گے نہیں 
رحم کی طالب نہیں بے چارگی جیسی بھی ہے

Saturday, August 22, 2015

شاہراہ اور پگڈنڈیاں


’’گاندھی جی اسلام کی بہت تعریف کرتے ہیں‘‘ محمد علی جوہر سُن کر مسکرائے اور جواب دیا‘ ’’اگر اسلام گاندھی جی کو اتنا ہی پسند ہے تو مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے؟‘‘ 
ملا عمر کے شیدائیوں سے بھی یہی سوال پوچھنا چاہیے۔ سب سے نہیں‘ مگر اُن سے ضرور جو بیٹھتے ملا عمر کے کیمپ میں ہیں اور کرتے وہ سب کچھ ہیں جو ملا عمر کو پسند نہیں! 
ملا عمر کے طرفدار دو قسم کے تھے۔ ایک تو اہلِ مدارس! ان کے بارے میں اور جو کچھ بھی کہیں‘ ملا عمر کے حوالے سے انہیں منافق نہیں کہا جا سکتا۔ چند سال پہلے کی بات ہے۔ سکردو کی ایک مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے داخل ہوا۔ خطیب صاحب تقریر کر رہے تھے جو ملا عمر کے فضائل پر تھی۔ وہ ان کے لیے امیر المومنین کا لقب استعمال کر رہے تھے۔ دل میں سوچا اگر پاکستان میں ملا عمر کی حکومت قائم ہو تو خطیب صاحب کو کیا فرق پڑے گا؟ کچھ بھی نہیں! پگڑی باندھ رکھی ہے۔ باریش ہیں۔ حجرے میں رہتے ہوں گے یا سادہ سے کچے مکان میں‘ بیگم بیٹیاں سختی سے پردہ کرتی ہوں گی۔ باہر نکلتی ہوں گی تو میاں یا بھائی یا باپ ساتھ ہوتا ہوگا۔ صاحبزادے مدرسہ میں زیر تعلیم ہوں گے۔ رہیں بین الاقوامی امور کی گہرائیاں یا ملکی معیشت کی نزاکتیں یا صنعتی اور زرعی پالیسیوں کی تہہ در تہہ مشکلات… تو ان سے لینا دینا ملا عمر کو ہے نہ اُن کے اُن متبعین کو جو زندگی اپنے امیر کی طرح گزار رہے ہیں! 
مگر عجیب و غریب طرزعمل اُن حضرات کا ہے جو ملا عمر کی حیات میں بھی ان کی شان میں رطب اللسان رہے اور ان کی وفات پر بھی ان کے طرزِ زندگی اور طرزِ حکومت کے حوالے سے ناسٹیلجیا سے چھلکتے مضامین لکھے۔ بعض نے تو ڈانڈے قرونِ اولیٰ تک سے ملا دیے! مگر ان کی عملی زندگیوں پر ملا عمر کا کوئی اثر نہ تھا! 
ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے‘ افغانستان پر اپنی عمل داری قائم کرنے کے بعد ملا عمر مشرق کا رُخ کرتے اور اسلام آباد میں بیٹھ کر پورے پاکستان پر حکومت کرنا شروع کردیتے تو اُن سب حضرات پر کیا گزرتی جو انہیں عالم اسلام کا نجات دہندہ قرار دے رہے تھے۔ ان میں صحافی‘ بیوروکریٹ اور جرنیل سب تھے۔ کچھ تھری سٹار جرنیل دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کچھ فورسٹار ابھی حیات ہیں۔ تصور کیجیے‘ انہیں داڑھیاں رکھائی جاتیں‘ پھر لالٹین کے شیشے سے ماپی جاتیں‘ سروں پر پگڑیاں ہوتیں۔ بیگمات شٹل کاک برقعے پہنتیں۔ سینکڑوں تھری پیس سوٹ‘ ریشمی نکٹائیاں‘ ارمانی اور باس کی فرنگی قمیضیں‘ پتلونیں‘ خواتین کے ملبوسات سے بھرے وارڈ روب‘ سب کا کیا ہوتا؟ شاپنگ کرنے والیوں کی سرِ بازار پٹائیاں ہوتیں! 
یہ موازنہ تو ہم ایک تنگ دائرے میں کر رہے ہیں! یہ سوال تو پوچھ ہی نہیں رہے کہ سیکرٹریٹ میں کیا ہوتا؟ سپریم کورٹ پر کیا گزرتی؟ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو کون چلاتا۔ سٹیٹ بینک سے لے کر ضلعی اکائونٹس کے دفتروں تک…سینکڑوں اداروں کا کیا بنتا؟ 
دارالحکومت کے ایک مقام‘ پشاور موڑ کے قریب بازار کے وسط میں ایک افغان نانبائی تھا۔ صدقہ خیرات کرنے والے رقم اس کے حوالے کر جاتے۔ وہ حساب کر کے روٹیاں ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتا۔ ایک بار یہ منظر آنکھوں سے دیکھا۔ دکان کے سامنے درجنوں افغان خواتین کچھ چہروں کو ڈھانپے اور کچھ شٹل کاک برقعوں میں ملفوف‘ سڑک کے کنارے انتظار میں بیٹھی تھیں۔ دکاندار نے بلایا تو اُن کا ہجوم تھا۔ ایک ایک روٹی کے لیے ہاتھ آگے کر رہی تھیں! عقیدت مندی ہمیشہ شخصیت پرستی تک لے جاتی ہے۔ حیرت کی انتہا نہ رہی‘ ملا عمر کا ذکر کرتے ہوئے امیر المومنین عمر فاروقؓ اور عمر بن عبدالعزیزؓ تک کو اُسی قطار میں رکھ دیا گیا! خدا اِس قوم کی حالت پر رحم کرے‘ مرحوم کے لیے عمر ثالث کے الفاظ اِن آنکھوں نے پڑھے۔ کہاں در بدر‘ ماری ماری پھرتی دستِ سوال پھیلاتی‘ ہزاروں لاکھوں افغان خواتین! اور کہاں یہ فرمان کہ فرات کے کنارے کتا بھی مر گیا تو جواب دہی ہوگی! پیٹھ پر راشن لاد کر‘ ایک ایک عورت کے گھر پہنچانا۔ شیرخوار بچوں کے وظائف مقرر کرنا! کہاں وہ طرزِ فکر کہ غیر مسلموں کے قبول اسلام پر محکمۂ مال نے کمنٹ دیا کہ جزیہ کی وصولی کم ہو جائے گی تو عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا کہ پیغمبرِ اسلام کو اس لیے مبعوث نہیں کیا گیا تھا کہ مال اکٹھا کریں۔ کہاں یہ مائنڈ سیٹ کہ ہمارے علاوہ کوئی مسلمان ہی نہیں! اسلام کے دائرے کو نہ صرف اپنی فقہ‘ بلکہ اپنے مسلک تک محدود کر دیا! 
خدا ملا عمر کو اپنی بے پایاں رحمتوں سے ڈھانپ لے اور اُن کی قبر کو مغفرت کے نور سے منور کرے۔ مسلمانوں کو پستی کی ذلت اور زوال کے گڑھے سے نکالنے والا لیڈر اُن جیسا نہیں ہوگا۔ ہرگز نہیں! اُسے عصرِ حاضر کے تقاضوں کا پورا ادراک ہوگا۔ وہ عسکری پہلوئوں کے ساتھ ساتھ معاشرتی‘ سیاسی اور اقتصادی گتھیوں کو بھی سلجھائے گا۔ اس کے پاس کرۂ ارض کے ملکوں‘ ان کی پالیسیوں اور ان کی قوت اور کمزوریوں کے بارے میں تازہ ترین معلومات ہوں گی۔ اس کا فہمِ اسلام اپنے مسلک اور چند ظاہری امور تک محدود نہیں ہوگا۔ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو وہی اہمیت دے گا جو دینی چاہیے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جو مخلوقِ خدا اُس کے دائرۂ اختیار کے اندر بستی ہوگی‘ وہ اس کی فلاح‘ بقا‘ مسرت اور ا طمینان کا ذمہ دار ہوگا! وہ نیکر پہن کر فٹ بال کھیلنے والے غیر ملکیوں کے سر مونڈنے کا مضحکہ خیز حکم نہیں دے گا۔ وہ خواتین کو سرعام مارنے کی اجازت کبھی نہیں دے گا نہ ہی وہ ان کی ملازمتیں چھڑوا کر انہیں بے دست و پا جانوروں کی طرح کھونٹوں سے باندھ دے گا! نہ ہی وہ اپنے لوگوں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر چھُپ جائے گا اور سامنے آنے سے اتنا گریز کرے گا کہ لوگوں کو کچھ اس کی زندگی کے بارے میں معلوم ہو نہ اس کی موت کی خبر ہو‘ نہ کسی کو پتہ ہو کہ وہ کہاں تھا اور دفن کہاں ہوا؟ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے پیروکاروں کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اور ساتھ مرتا ہے! 
عمر فاروقؓ کے بارے میں ہم یہ بات سنتے ہیں کہ کسی ملک کا سفیر آیا اور اس نے دیکھا کہ وہ مسجد نبوی کے قریب زمین پر لیٹے آرام کر رہے تھے۔ سر کے نیچے اینٹ دھری تھی! فرض کیجیے‘ حضرت عمرؓ کے دامن میں فتوحات‘ اصلاحات‘ اجتہاد میں سے کچھ بھی نہ ہوتا تو کیا محض سادہ زندگی انہیں وہ عمر فاروق بنا پاتی جسے دنیا عظیم مدبروں اور Statesmen میں شمار کرتی ہے؟ لیڈرشپ کہیے یا مسلمانوں کی امارت یا خلافت‘ جو نام بھی دے دیجیے‘ اس کا انحصار محض اس بات پر نہیں کہ کمرے میں چارپائی بان کی ہے اور دیوار کے ساتھ اوپر نیچے ٹرنک رکھے ہیں۔ نہ ہی محض تلوار اور بندوق پر ہے۔ نہ ہی اس بات پر کہ کسی کے بھی مشورے کو تسلیم نہ کیا جائے! اس کے لیے ذہن کی وسعت اور خیال کی رفعت درکار ہے! عورت جو زنا کے جرم میں لائی گئی‘ اُس سے پس منظر پوچھا گیا۔ اس نے بتایا کہ جنگل میں جہاں وہ مویشیوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی‘ شدید پیاس کا شکار ہوئی۔ ساتھی چرواہے کے پاس پانی تھا۔ اس نے شدید مجبوری سے فائدہ اٹھا کر جسم مانگا۔ زندگی بچانے کا اور کوئی طریقہ نہ تھا۔ حضرت علیؓ پاس تشریف فرما تھے۔ انہوں نے رائے دی‘ یہ مجبور تھی! عمر فاروقؓ نے اسے چھوڑ دیا۔ ایک لمحے کے لیے سوچیے‘ کیا یہ طالبان کی حکومت میں ممکن تھا؟ قحط کے دوران قطعِ ید کی سزا ختم کردی۔ مفتوحہ علاقوں کی زرعی زمینیں مالِ غنیمت کی طرح بانٹنے سے انکار کردیا! 
عمر بن عبدالعزیزؓ کو اڑھائی برس ملے۔ شیرشاہ سوری کو صرف پانچ سال۔ ان کی سلطنتوں کی وسعتیں اور آبادی کوئی کھیل نہ تھی۔ پھر بھی قلیل عرصے میں وہ کام کیے کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اثرات اور مظاہر موجود ہیں۔ ملا عمر نے اپنے دورِ امارت میں مفتوح شہروں کے عوام کے لیے کوئی ایسا کام نہ کیا جسے بعد کے حکمران اپنانے پر مجبور ہو جاتے۔ کوئی اقتصادی پالیسی! جو غریب عورتوں‘ بوڑھوں اور بچوں کی زندگی سہل کر دیتی! کوئی تعلیمی ادارے! جو نوجوانوں کو دنیا کے سامنے کھڑے ہو جانے کے قابل بنا دیتے! کوئی ایسی سرگرمی! جو بیکار افراد کو مصروف کرتی اور قلیل ہی سہی‘ آمدنی کا ذریعہ بنتی! آس پاس کے ملکوں سے کوئی تجارتی معاہدہ! جو افغانوں کو فائدہ دیتا! دو ملک‘ سعودی عرب اور پاکستان‘ ان کی حکومت کو تسلیم کر رہے تھے۔ ان سے یہی معاہدہ کر لیتے کہ اپنے تعلیمی اداروں میں ہمارے اتنے سو لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم دو‘ انہیں دین کے علوم کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر‘ انجینئر یا ماہرِ زراعت بنا دو تاکہ واپس آ کر ملک کی حالت بدل سکیں۔ یہ درست ہے کہ پوست کی کاشت ختم کی اور لوگوں سے ہتھیار رکھوائے مگر تاریخ کا طالب علم یہ بھی تو سوچتا ہے کہ اپنی سلطنت میں عوام کے آرام اور خوشحالی کے لیے ان کا وژن کیا تھا اور انہوں نے کیا کیا کام کیے! ان کا فہمِ دین کیا کہتا تھا کہ مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا اور وہ دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس اعتبار سے ملا عمر اور ہمارے مولانا صوفی محمد کے وژن میں کتنا فرق ہوگا؟ مولانا صوفی محمد نے ایک جلسے میں حاضرین سے حلف اٹھوایا کہ وہ ہمیشہ سیاہ رنگ کی پگڑی باندھیں گے۔ مولانا فضل اللہ ان کے شاگرد‘ دست راست اور داماد تھے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ اُس زمانے کے ہر اخبار نے لکھا تھا اور ہر ٹی وی چینل نے بتایا تھا کہ مولانا فضل اللہ کو طالبان کی قیادت ملا عمر کے فیصلے کے مطابق سونپی گئی تھی! پھر یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ پشاور سکول پر حملہ مولانا فضل اللہ نے کرایا تھا۔ شاہراہ کو دیکھنے والے یہ بھی تو دیکھیں کہ کون کون سی پگڈنڈیاں کہاں کہاں سے آ کر شاہراہ میں ضم ہو رہی ہیں!

Monday, August 17, 2015

پلنگ کے نیچے کوئی سو رہا ہے!

بالآخر فیصلہ اس کے حق میں ہوگیا۔ یہ ایک دلچسپ مقدمہ تھا‘ بلکہ عجیب و غریب۔ امریکی ریاست مسوری میں ایک پاکستانی ڈرائیور نے انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ تمام لائسنس یافتہ ٹیکسی ڈرائیوروں کو قانون کی روسے سفید قمیض اور سیاہ رنگ کی پتلون پہننا ہوتی ہے۔ اس ڈرائیور نے انکار کردیا۔ پھر وہ انتظامیہ کو عدالت میں لے گیا۔ اس نے دلیل یہ دی کہ شلوار قمیض میرا مذہبی لباس ہے۔’’یہ لباس میرے مذہب نے تجویز
 (Prescribe)
 کیا ہوا ہے‘‘۔ اس نے عدالت میں کہا: ’’میں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں‘‘۔
مقدمہ چلتا رہا۔ ڈرائیور کے وکیل نے عدالت کو قائل کرلیا کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ شلوار قمیض اسلام کی طرف سے متعین ہے۔ جج صاحب نے ڈرائیور کے حق میں فیصلہ دیا اور لکھا کہ انتظامیہ مدعی کے مذہبی حقوق پر ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے۔
یہ واقعہ دو ماہ پہلے رونما ہوا۔ لگ بھگ انہی دنوں، امریکی ریاست مسوری سے گیارہ ہزار آٹھ سو ستاون کلومیٹر دور، راولپنڈی کے ایک کالج میں ایک اور واقعہ رونما ہو رہا تھا۔ تقریباً اتنا ہی دلچسپ، بلکہ عجیب و غریب۔ کالج کو اردو کے لیکچرر درکار تھے۔ منتخب امیدواروں کو کہا گیا کہ آ کر اپنی قابلیت کا اظہار کریں اور کلاس میں لیکچر دیں تاکہ منتخب کرنے والوں کو آسانی ہو جائے۔ کسی نے سوٹ پہنا ہوا تھا اور ٹائی لگائی ہوئی تھی۔ کسی نے پتلون اور قمیض پہنی ہوئی تھی۔ کسی نے سفاری سوٹ پہنا ہوا تھا۔ ایک امیدوار کی باری جب لیکچر دینے کی آئی اور اسے بلایا گیا تو اس نے شلوار قمیض پر بند گلے کی واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔ چہرے پر شرعی داڑھی تھی۔ سر پر ٹوپی تو تھی ہی! یہ خوش شکل نوجوان صاف ستھرے اجلے لباس میں تھا اور سمارٹ بھی لگ رہا تھا۔ جانے خیال کی کونسی رو، بلانے والوں کے دماغ میں اس وقت دوڑی‘ انہوں نے یا ان میں سے کسی نے امیدوار کو یاد دلایا کہ یہ پوسٹ اسلامیات کے لئے نہیں، اردو زبان و ادب کے لئے ہے۔ امیدوار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں! اردو زبان و ادب ہی کے سلسلے میں میں بھی حاضر ہوا ہوں۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اس امیدوار نے جو لیکچر دیا‘ اس نے دوسروں سے زیادہ نمبر لئے(یقینا اس کا سبب اس کا لباس اور اس کی ظاہری شکل و صورت نہیں تھی۔)
یہ دو واقعات جو ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور رونما ہوئے،ہمی سے متعلق ہیں اور ہمارے خاص مائنڈ سیٹ اور ہمارے مخصوص طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بظاہر یہ دومختلف رویے ہیں‘ مگر اصلاً جو کچھ مسوری میں ہوا اور جوکچھ راولپنڈی میں پیش آیا، ایک ہی رویہ ہے۔ ہمارے پاس ثبوت کوئی نہیں، مگر لاشعوری طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شلوار قمیض اسلامی لباس ہے۔ دوسری طرف کسی کو داڑھی، ٹوپی اور واسکٹ میں دیکھتے ہیں تو دل میں فیصلہ کرلیتے ہیں کہ یہ صاحب کسی مسجد کے امام یا زیادہ سے زیادہ اسلامیات کے استاد ہوں گے!
امریکی بھی عجیب مخلوق ہیں۔ ظلم اتنا کرتے ہیں کہ افغانستان سے لے کر عراق تک لوہے اور آگ کے لاکھوں بیج بو ڈالے اور مہربانی پر آئیں تو ایک ڈرائیور کی ایسی بات مان لی جس کا کوئی سر پیر نہیں! دنیا میں لاکھوں کروڑوں مسلمان دن میں پانچ مرتبہ پتلون، سوٹ، قمیض میں ملبوس نمازیں پڑھتے ہیں۔ سعودی عرب کے فوجی جوان اور افسر پتلون پہنتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں۔ احمد دیدات ساری زندگی اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ عیسائیت اوراسلام ان کا خاص موضوع تھا‘ اس حد تک کہ انہی کا حصہ تھا، پتلون پہنتے تھے۔ ڈرائیور کو پورا حق تھا عدالت میں جانے کا، مگر دلیل اس کی یہ ہونی چاہیے تھی کہ میرا لباس میری ثقافتی پہچان ہے۔ میرے ملک کا لباس ہے۔ میری ذاتی پسند کا مسئلہ ہے۔ مجھ پر کسی دوسرے لباس کو ٹھونسا نہیں جا سکتا! اپنے لباس کو، جو صرف اسی کے ملک میں پہنا جاتا ہے، اسے اسلامی کہنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اور یورپ‘ امریکہ‘ جاپان‘ مشرق بعید اور آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ میں کروڑوں مسلمان شلوار قمیض سے آشنا ہی نہیں! ہر ملک کا اپنا کلچر ہے۔ اسلام مقامی ثقافتوں کا مخالف نہیں۔ انڈونیشیا کے مسلمان اپنا مقامی لباس پہنتے ہیں۔ کیرالہ کے مسلمان حرم کے مبارک صحن میں، سفید تہمد میں ملبوس، چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ تہمد‘ معلوم نہیں کیرالہ میںاسے کیا کہتے ہیں، ہمارے پنجاب کے تہمد سے مختلف ہے!
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی عدالت کو معلوم ہو کہ یہ اسلامی لباس نہیں، اور اس نے ڈرائیور کا دعویٰ اس لئے مان لیا ہو کہ بہتر ہے یہ لوگ انہی ’’حقوق‘‘ کے لئے اپنی صلاحیتیں خرچ کرتے رہیں! ارمغان حجاز میں اقبال نے ایک نظم لکھی ہے۔’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ الحمدللہ! اس نظم سے ہماری غالب اکثریت محفوظ ہے۔ ابلیس اپنے مشیروں کی رہنمائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بہتر ہے مسلمان انہی بحثوں میں پڑے رہیں کہ خدا کی صفات، اس سے الگ ہیں یا عین ذات ہیں؟ آنے والا مسیح ناصری ہوگا یا محض مجدد؟ قرآن پاک کے الفاظ حادث ہیں یا قدیم۔ پھر وہ فیصلہ دیتا ہے کہ   ؎
ہے یہی بہتر الہٰیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ ترکر دو مزاج خانقاہی میں اسے
ہمارے دونوں رویے انتہا پسندانہ ہیں۔ ہم میں سے کچھ پتلون اور سوٹ کو مغربی یا انگریزی لباس سمجھ کراس سے نفرت کرتے ہیں۔ بعض اعلانیہ اس کی برائی اور اس سے پرہیز کی تلقین کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پتلون، کھانے کی میز اور کئی اور تہذیبی و ثقافتی مظاہرہسپانیہ اور ترکی کے مسلمانوں نے یورپ کو دیئے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو بھی اسلام کا کوئی مخصوص لباس نہیں۔ مولانا محمد منظور نعمانی اپنی کتاب معارف الحدیث حصہ ششم میں لکھتے ہیں: ’’ہر علاقے اور ہر زمانے کے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ شرعی حدود و احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا علاقائی و قومی پسندیدہ لباس استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے ان اصحاب صلاح و تقویٰ نے بھی جن کی زندگی میں اتباع سنت کا حددرجہ اہتمام تھا‘ یہ ضروری نہیں سمجھا کہ بس وہی لباس استعمال کریں جو رسول اللہ ﷺ استعمال فرماتے تھے۔ دراصل لباس ایسی چیز ہے کہ تمدن کے ارتقا کے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ شریعت نے کسی خاص قسم اور خاص وضع کے لباس کا پابند نہیں کیا ہے‘‘۔
دوسری طرف، ہم میں سے کچھ، پگڑی اور واسکٹ دیکھ کرناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ کم از کم دل میں ضرور منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو یہ حق نہیں کہ آپ کی پتلون کو برا سمجھے اوراعتراض کرے تو آپ کو بھی ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ آپ پگڑی، ٹوپی، واسکٹ، شلوار قمیض کو حقارت سے دیکھیںاور اس میں ملبوس ہر شخص کو امام مسجد یا اسلامیات کا استاد سمجھیں! امام مسجد یا اسلامیات کا استاد ہونا کم تر ہونے کی نشانی نہیں! مگر ع اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ یوں بھی سعدی نے متنبہ کیا تھا   ؎
ہر گوشہ گماں مبرکہ خالیست
شاید کے پلنگ خفتہ باشد!
اس کا مطلب یہ نہیں کہ پلنگ کے نیچے کوئی سو رہا ہے۔ پلنگ چیتے کو کہتے ہیں۔ جس گوشے کو آپ خالی سمجھ رہے ہیںوہاںچیتا محو خواب ہوسکتا ہے۔ پگڑی اور واسکٹ میں ملبوس شخص ایک سائنسدان ہوسکتا ہے یا انجینئر یا کمال کی انگریزی لکھنے اور بولنے والا پروفیسر۔ اقبال پھر یاد آ گیا   ؎
حکمت از قطع و برید جامہ نیست
مانعِ علم و ہنر عمامہ نیست
لباس کی تراش خراش کا دانش سے کیا تعلق؟ عمامہ علم و ہنر کی راہ میں رکاوٹ نہیں!
اقبال آج کے دور میں ہوتے تو یہ بھی ضرور بتاتے کہ عمامہ علم کی گارنٹی بھی نہیں! بارعب دستار میں ملبوس ایک شخص کو ایک بڑھیا نے اپنے بیٹے کا خط دیا کہ اسے پڑھ کر سنادے۔ دستار پوش نے  بتایا کہ وہ تو ان پڑھ ہے۔ بڑھیا کو غصہ آ گیا: ’’اتنی بڑی پگڑی باندھی ہوئی ہے اور پڑھنا نہیں آتا؟‘‘ اس شخص نے پگڑی اتار کر بڑھیا کے سر پر رکھ دی اور کہا لو، تم خود پڑھ لو!

Friday, August 14, 2015

اُٹھو!اہل کراچی! اُٹھو

جمال احسانی مرحوم یارِ طرح دار تھا اور شاعر نغزگو‘ کیسے کیسے شعر کہہ گیا   ؎
تمام تیشہ بدست حیرت میں گم ہوئے ہیں
چراغ سے کاٹ دی ہوا کی چٹان میں نے
اوریہ بھی   ؎  
یہ لالٹین ہے کہ چوکیدار کے
نحیف ہاتھ میں کوئی ستارہ ہے
مزے لے لے کر واقعہ سنایا کرتا کہ ایک صاحب کراچی میں اپنے آپ کو مغل خانوادے کا آخری چشم و چراغ کہتے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے لال قلعہ قسم کی جائیدادوں کی وراثت کا دعویٰ بھی کیا ہوا تھا۔ ایک دن جوش ملیح آبادی کے پاس آئے اور شعر سنانے شروع کیے ۔ بے وزن‘ بے ہنگم اور مضحکہ خیز شاعری تھی۔ جوش صاحب کہاں تک برداشت کرتے‘ زچ ہو کر ملازم سے کہا اسے باہر نکال دو۔ وہ صاحب باہر نکلتے ہوئے جوش صاحب کو کہے جا رہے تھے:’’جوش صاحب! دم خم ہے تو شاعری میں مقابلہ کیجیے ۔ غنڈہ گردی پر کیوں اترآئے ہیں؟‘‘
زوال کی مثال دینے کے لیے یہ کوئی زیادہ موزوں واقعہ نہیں‘ اس لیے کہ واقعہ کم اور لطیفہ زیادہ ہے۔ زوال آتا ہے تو ہمہ گیر ہوتا ہے۔ آندھی آتی ہے تو گلاب ہو یا نسترن‘ کسی کو نہیں چھوڑتی   ؎
تم اپنی شمع تمنا کو رو رہے ہو فراز
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے
زوال آیا ہے تو ایسا ہمہ گیر کہ کچھ نہیں بچا۔ یونیورسٹیاں سیاست کے اکھاڑے بن گئیں اور سیاسی جماعتیں ڈیروں پر پرورش پانے والے گروہ! بلندی کیسی تھی اور پستی کیسی ہے! کہاں ذوالفقار علی بھٹو ‘ اور کہاں زرداری خاندان! کہاں قائد اعظم اور کہاں میاں محمد نواز شریف‘ کہاں مولانا مودودی اور کہاں منور حسین اور سراج الحق ! کہاں وزیر اعظم لیاقت علی خان اور کہاں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف ۔ ہمہ گیرزوال ہے کچھ بھی نہیں بچا۔ لیکن جو زوال اردو بولنے والی آبادی پر آیا ہے‘ اسے دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ کمر سے پٹکا باندھ کر بال کھول لیے جائیں ‘ اورسینہ کوبی وہ کی جائے کہ  ؎
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو ہٹ جائو دے دو راہ جانے کے لیے
یہ جو خطہ ہے کرنال سے پٹنہ تک کا۔1206ء میں دہلی کے پہلے سلطان قطب الدین ایبک کی تخت نشینی سے لے کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے عروج نامسعود تک۔ برصغیر کے مسلمانوں کی نہ صرف عسکری اور سیاسی قیادت کرتا رہا۔تعلیمی ثقافتی اور سماجی رہبری بھی اسی کے پاس تھی ! تغلقوں کا عہد تھا یا مغلوں کا دنیا کے چوٹی کے علماء ‘ دانش ور اور اہل کمال اسی خطے میں تھے ٹھیک ہے زوال کا ذمہ دار بھی یہی خطہ تھا لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ زوال کے زمانے میں بھی ڈھارس بندھی تو یہیں سے! بریلی ہی کے سید احمد شہید اور پٹنہ ہی کے ولایت علی اور عنایت علی برادران نے تحریک مجاہدین چلائی۔ غلام رسول مہر‘تحریک مجاہدین کی تاریخ میں جن مجاہدوں کے نام گنواتے ہیں ان میں میانوالی کے اعوان بھی تھے لیکن قیادت شمالی ہند ہی کی رہی! مسلمانوں کو جدید تعلیم و ترقی کی راہ پر لانے والے سر سید سے لے کر مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی تک رہنما یہیں سے اٹھے۔ ابو الکلام آزاد‘ علی برادران‘ حکیم اجمل خان ‘ حسرت موہانی‘ سب یہیں سے تھے قائد اعظم جنوب سے تھے مگر مسلم لیگ کی جدوجہد کا مرکز یو پی تھا! قائد اعظم کے ساتھ کھڑے ہونے والے علماء‘ مولانا اشرف علی تھانوی‘ شبیر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع یہیں سے تھے اور تو اور قیام پاکستان کے بعد اس ملک کی علمی ثقافتی اور تنظیمی باگ ڈور حکیم سعید‘ پروفیسر محمود حسین ‘ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور پروفیسر کرار حسین جیسوں کے ہاتھوںمیں رہی۔
مگر افسوس! صد افسوس ! آج ایم کیو ایم جس طرح اپنے آپ کو تضحیک کا سامان بنا رہی ہے‘ دماغوں اور دلوں میں اپنے بارے میں جو تاثر قائم کیے جا رہی ہے‘ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی تعلیمی اور ثقافتی قیادت کرنے والوں نے اپنا کیا حال کر لیا ہے   ؎
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جوگوشِ نصیحت نیوش ہے
ایک زمانہ تھا جب ان حضرات کے آبائو اجداد اپنی عزت کے بارے میں اس قدر حساس تھے کہ غربت میں بھی وقار قائم رکھتے تھے‘ فاقوں سے مر جاتے تھے کسی کے سامنے دست سوال درازنہیں کرتے تھے‘ فکر یہ ہوتی تھی کہ لوگ کیا کہیں گے۔
اب حالت یہ ہے کہ کون سی بات ہے جو نہیں کی جا رہی اور کون سی تضحیک ہے اور پھبتی‘ جو اڑائی نہیں جا رہی ! بلیک میلنگ کا الزام لگ رہا ہے۔ دہشت گردی‘ قتل و غارت اورجسموں میں ڈرلنگ کرنے کے الزامات تو پرانے ہو چکے ’’بوری بند‘‘ ایسا محاورہ بنا کہ نتھی ہی ہو گیا۔
جب بھی الطاف بھائی قیادت سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہیں لوگ ہنسنا شروع کر دیتے ہیں ۔ جس بے بسی اور بے کسی کے عالم میں بیٹھ کر ٹیلی فونک تقریریں سنی جاتی ہیں‘ اس کے لیے کیا کیا تشبیہیں نہیں تراشی گئیں۔ اب جو قومی اسمبلی میں استعفے دیئے گئے ہیں تو خلق خدا کہہ رہی ہے کہ انہیں استعمال کیا جا رہا ہے اور مقصد استعمال کرنے والوں کا کراچی میں لیے گئے ایکشن کی کشتی میں سوراخ کرنا ہے۔ کثیر تعداد لوگوں کی یہ بھی رائے رکھتی ہے کہ یہ بلیک میلنگ ہے جو اس گروہ کا وتیرہ ہی بن چکا ہے!
اردو بولنے والی آبادی کے ساتھ دو المیے ہوئے اور دونوں المیے ایسے کہ مُہر پر مُہر لگتی گئی! سندھی وڈیروں‘ بلوچی جاگیرداروں اور اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے کے بجائے پٹھان پنجابی کشمیری کہلانے والوں نے اردو سپیکنگ حضرات کو دیوار سے لگایا یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو مہاجر کہلانے پر مجبور ہو گئے ۔ استبدادی کوٹہ سسٹم تو ناانصافی کی طویل داستان کا محض ایک باب ہے ! اس المیے نے انہیں پاکستانی سے مہاجر بنا دیا؟ دوسرا المیہ یہ ہوا کہ مڈل کلاس کے نام پر ایم کیو ایم بنی تو اس کے رہنمائو ں کی کثیر تعداد مڈل کلاس کو خیر باد کہہ کر اپر کلاس میں منتقل ہو گئی۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ کراچی اور حیدر آباد کے لوگ جانتے بوجھتے ہوئے اور سب کچھ سامنے دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہے اور ساتھ رہے! ورنہ کیا انہیں نہیں معلوم تھا کہ لندن میں براجمان قیادت‘ ہاتھوں سے ایک پتہ توڑے بغیر‘ قابل رشک معیار زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہے! کیا وہ نہیں جانتے کہ کن کن لیڈروں کے کنبے امریکہ میں کہاں کہاں رہ رہے ہیں! دیکھتے دیکھتے اثاثے کروڑوں اربوں تک پہنچ گئے۔ وہ جو اداکارائیں ہمیشہ پچیس برس ہی کی رہتی ہیں‘ تو لیڈر بھی مڈل کلاس ہی میں رہے! دوسری طرف شہرت اس قدر خراب ہوئی کہ حکیم سعید‘ رئیس امروہی اور صلاح الدین  جیسے مشاہیر‘ جو انہی کے چشم و چراغ تھے‘ خلق خدا نے انہیں کے کھاتے میں ڈالے۔ ثبوت ہو نہ ہو‘ زبان خلق کو کون روک سکتا ہے!!
ایک سوال ہے جو رہ رہ کر ذہن میں اٹھتا ہے۔ دماغ میں چبھتا ہے اور دل میں گرہ ڈالتا ہے۔ جب قائد تحریک ٹیلی فونک خطاب کے دوران‘ گانے گاتے ہیں اور عجیب و غریب کیفیتوں کے مظاہرے کرتے ہیں تو اس وقت تحریک کے رہ نما‘ اکثریت جن کی سنجیدہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ کیا نہیں سوچتی کہ صورتحال مضحکہ خیز ہے سخت مضحکہ خیز اور یہ کہ تحریک سے باہر کے لاکھوں کروڑوں لوگ ہمارے بارے میں اور ہمارے قائد کے بارے میں کیا کہیں گے اور کیا رائے رکھیں گے؟کیا برصغیر کے مسلمانوں کی علمی اور دینی قیادت کرنے والوں کے قابل فخر جانشینوں میں سے کسی کو بھی نہیں معلوم کہ زکوٰۃ ‘ فطرانے اور کھالیں سیاست چلانے کے لیے نہیں ہوتیں؟
اُٹھو! اے اہل کراچی اُٹھو! خدا کے لیے انگڑائی لو! اپنے اوپر بلیک میلنگ جیسے پست الزامات لگنے کے اسباب رفع کرو! خدا کی قسم ! جن لوگوں کی جدوجہد چند وزارتوں کے حصول پر موقوف رہی‘ وہ تمہارے نمائندے نہیں ہو سکتے! کسی کے ہاتھ میں نہ کھیلو! مضحکہ خیز گیت گانے والوں کی پرورش کا تم کیوں سامان بنتے ہو؟ جن کے اہل و عیال بحراوقیانوس کے پار ہیں‘ انہیں وہیں بھیجو‘ اٹھو‘ انگڑائی لو‘ استعفوں کا کھیل تمہاری قامت سے بہت نیچے اور تمہاری شان سے بہت کم ہے! اپنے عالی مرتبت نام کے ساتھ ’’بوری بند‘‘ جیسے مکروہ سابقے اور لاحقے لگانے والوں کی نام نہاد لیڈری کو بوری میں بند کر کے بحیرہ عرب میں پھینک دو! قیادت ایسی چنو جو سر سید احمد خان‘ علی برادران ‘ حکیم اجمل خان‘ لیاقت علی خان‘ حکیم محمد سعید‘ پروفیسر کرار حسین مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کے پائے کی ہو! اپنا رشتہ پورے ملک کی مڈل کلاس سے جوڑو! سب تمہارے اپنے ہیں اور تمہیں مایوس نہیں کریں گے!

Wednesday, August 12, 2015

شیر اور سرگوشی

آپ کا کیا خیال ہے مصر کے ظالم بادشاہ نے، جو خدائی کا دعویدار تھا، بنی اسرائیل کے لڑکوں کو مارنے اور لڑکیوں کو چھوڑنے کا پروگرام بنایا تو اس پروگرام کی کامیابی کے لئے کسے مامور کیا تھا؟ 
اور جب اہرامِ مصر بن رہے تھے اور ہزاروں، لاکھوں غلام اس مشقت میں لگے ہوئے تھے اور ان کی جسمانی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے انہیں مسلسل پیاز کھلائے جاتے تھے، تو اتنی بڑی بیگار فورس کو کنٹرول کرنے کے لئے اور ان کی سرینوں پر لاٹھیاں برسانے کے لئے کس کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی؟ 
اور چنگیز خان جب شہر اور بستیاں جلاتا آگے بڑھ رہا تھا تو مفتوحہ علاقوں میں اُن لوگوں کو کیسے تلاش کر لیتا تھا جنہوں نے تاتاریوں کے خلاف لڑنے کے لئے مقامی آبادیوں کو ابھارا تھا؟ 
اور روم کے کلوسیم میں جب انسانوں کو بھوکے شیروں کے آگے ڈالا جاتا تھا تو اِس وحشیانہ کھیل کا انتظام کس کے سپرد تھا؟ 
اور جب شیر نے جنگل میں ایک شخص کو کھانے کا ارادہ کیا اور اُس شخص نے شیر کے کان میں سرگوشی کی اور سرگوشی سن کر شیر سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا تو اُس نے شیر کے کان میں کیا کہا تھا؟ 
آپ کو ان سوالوں کے جواب اچھی طرح معلوم ہیں لیکن آپ بتاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ آپ کا رنگ زرد پڑ رہا ہے۔ آپ کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ آپ کے گھر میں مائیں بہنیں ہیں۔ آپ ایک عزت دار شہری ہیں۔ آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ پنجاب پولیس کا نام لیں! آپ کو یہ بھی اچھی طرح پتہ ہے کہ اس شخص نے شیر کے کان میں کہا تھا کہ یہ علاقہ پنجاب پولیس کا ہے اور اگر تم نے مجھے کھایا تو تمہیں مستقل نذرانہ دینا پڑے گا اور اس کے علاوہ جو شکار بھی کرو گے اس کا سر، دھڑ، رانیں، پنڈلیاں، بازو اور کلیجی نزدیک ترین تھانے میں جمع کرانا ہو گا اور تمہیں صرف انتڑیاں، اوجھڑی اور ناقابلِ بیان حصے ملیں گے! 
روبینہ بی بی کہتی ہے کہ اس کا تیرہ سالہ بیٹا قصور سکینڈل کے ناقابلِ بیان ظلم کا شکار ہوا ہے۔ ڈیڑھ ماہ قبل وہ تھانے میں گئی تھی۔ ڈیوٹی پر متعین پولیس اہلکار نے اُسے کہا کہ وہ دفان ہو جائے۔ اسے تھانے سے باہر نکال دیا گیا۔ پھر وہ بتاتی ہے کہ اس کے بیٹے کی وڈیو بنائی گئی مگر پولیس والے اسی سے مجرموں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔ شکیلہ بی بی کہتی ہے کہ وہ فریاد کرنے پولیس سٹیشن گئی مگر الٹا اسی کے مظلوم بیٹے کو پکڑ لیا گیا۔ اس کا پندرہ سالہ بیٹا ابھی تک جیل میں ہے۔ گاؤں کے امام مسجد کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کچھ لوگ آئے اور کہا کہ زیادتی کیس میں احتجاج کرنے اور انصاف لینے کے لئے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیر اعلیٰ کے پاس جانے کا اعلان کرو۔ اس کے بعد پولیس والے جوتوں سمیت مسجد میں گُھس آئے، اسے گریبان سے پکڑ کر نیچے گرایا اور داڑھی سے پکڑ کر پوچھا کہ یہ اعلان کیوں کیا؟ پھر اسے مارتے ہوئے چوکی لے گئے، اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو ڈاکوؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جس پولیس والے نے اُسے دھمکی دی کہ وہ (یعنی پولیس والا) اُسے (یعنی امام مسجد کو) ’’مقابلے‘‘ میں مار دے گا، اُس پولیس والے کا نام بھی امام نے پریس کو بتایا ہے۔ 
یہ سب کچھ کسی خفیہ تفتیش کا نتیجہ نہیں، نہ ہی سکاٹ لینڈ یارڈ نے یہ سربستہ ’’راز‘‘ کھولے ہیں۔ سب کچھ میڈیا میں چھپ چکا ہے اور کہا جا چکا ہے۔ متاثرین کا وکیل ٹیلی ویژن چینل پر آیا اور کروڑوں ناظرین کو اس نے بتایا کہ ملزمان کو گزشتہ پندرہ سال سے حلقے میں جیتنے والی سیاسی جماعت کی سرپرستی حاصل ہے۔ وکیل کو ایک عورت نے بتایا کہ وہ پانچ بھائیوں کا جنسی تشدد پچیس برسوں سے برداشت کر رہی ہے۔ اب ان لوگوں کے بچے اس کے بچے کے ساتھ یہی سلوک کر رہے ہیں۔ وکیل نے عورت سے پوچھا کہ کیا تم تھانیدار کے پاس گئیں؟ عورت نے جواب دیا کہ وہ گئی تھی۔ اس کی موجودگی میں تھانیدار نے ملزموں کو بلا لیا۔ ایک ملزم نے (اس کا نام بھی عورت نے بتایا) تھانیدار کے سامنے اُسے بالوں سے پکڑا، تھپڑ مارے اور پوچھا کہ پچیس برسوں سے تمہارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ تمہارے بچے کے ساتھ ہو گیا تو کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے؟ وکیل نے ٹی وی پر بتایا کہ فحاشی کے خلاف تقریر کرنے والے مولوی کو چوکی کے انچارج نے (اس انچارج کا نام وکیل نے ٹیلی ویژن پر بتایا) مسجد سے نکالا اور تشدد کر کے اس کا بازو توڑ دیا۔ جب مظلوم شکایت کنندگان فریاد کرنے تھانے گئے تو ایس ایچ او نے ان کی وڈیو بنائی اور ملزمان کو بھیج دی۔ جب یہ بے کس اور بے بس لوگ واپس گاؤں پہنچے تو ملزموں نے انہیں مارا۔ ڈی ایس پی نے سماجی کارکن مبین غزنوی پر ڈی پی او کے سامنے تشدد کیا اور اسے کہا کہ فلاں ایم پی اے کو (وکیل نے اس ایم پی اے کا نام ٹیلی ویژن پر بتایا) فون کرو۔ اگر وہ کہیں گے تو تمہیں (یعنی مبین غزنوی کو) چھوڑ دیا جائے گا! 
دو ہی امکانات ہیں! یہ سب کچھ… جو پریس میں چھپا ہے اور ٹیلی ویژن پر عوام اور خواص نے سنا ہے… جھوٹ ہے یا سچ ہے۔ اگر جھوٹ ہے تو پولیس والے اور حکومت وضاحت کیوں نہیں کرتے۔ روبینہ بی بی بھی موجود ہے، شکیلہ بی بی بھی، اس کا بیٹا بھی۔ امام مسجد بھی۔ امام مسجد کو ’’مقابلے‘‘ میں مارنے کی دھمکی دینے والا پولیس مین بھی! جس عورت کو تھانے میں تھپڑ مارے گئے، وہ بھی زندہ ہے، جن پانچ بھائیوں کا وکیل نے ذکر کیا، وہ بھی اسی ملک میں ہیں۔ اگر یہ سب جھوٹ ہے تو پریس والوں پر اور وکیل پر اور الیکٹرانک میڈیا والوں پر مقدمہ کیوں نہیں دائر کیا جاتا؟ انہیں اس جھوٹ پر معافی مانگنے کے لئے کیوں نہیں کہا جاتا؟ آخر وہ ہتک عزت کے مرتکب ہوئے ہیں! اور اگر یہ سب سچ ہے تو حکومت نے کیا ایکشن لیا ہے؟ پولیس والے شکایت کرنے والوں کی وڈیو بناتے ہیں، امام مسجد کو داڑھی سے پکڑ کر اس کا بازو توڑ دیتے ہیں، سماجی کارکن کو مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایم پی اے سے فون کرواؤ… اور حکومت کچھ بھی نہیں کرتی۔ یہ وہی حکومت ہے جو حکمرانِ اعلیٰ کے پروٹوکول قافلے میں ذرا سی گڑبڑ ہو جانے پر ایس پی سطح کے افسر کو معطل کر دیتی ہے! 
ناقابلِ بیان زیادتی بچوں کے ساتھ سالہاسال سے ہو رہی ہے۔ وڈیو پھیلائی جاتی رہیں، اگر کوئی کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ پولیس والوں کو اس سب کچھ کا علم نہیں تھا تو وہ بے وقوف ہے یا دوسروں کو بے وقوف سمجھتا ہے! پولیس کی رضامندی کے بغیر شاید ہی کوئی جرم پنپ سکتا ہو! یہ وہی پولیس ہے جس کے بل بوتے پر انگریزوں نے ایک صدی تک صوبے پر حکومت کی۔ پولیس مجرموں کو پکڑنے میں، سراغ رسانی میں، انتظامی معاملات میں دنیا کی کسی بھی پولیس سے پیچھے نہیں۔ جاپان سے لے کر کینیڈا تک اور امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک کسی پولیس فورس سے اس کا مقابلہ کرا کے دیکھ لیں۔ اس پولیس کا المیہ یہ ہے کہ سیاست دان اور حکمران طبقات اسے قومی فورس نہیں، خاندانی نوکر سمجھتے ہیں! اس سے جرائم کرائے جاتے ہیں، مخالفین کا ناطقہ بند کرایا جاتا ہے، بچوں اور بیگمات اور ان کے دوستوں اور سہیلیوں کی خدمت کرائی جاتی ہے۔ گھروں پر پہرے دلوائے جاتے ہیں۔ گھنٹوں شاہراہوں پر کھڑا رکھا جاتا ہے تاکہ شاہی سواریاں اور خاندانی بگھیاں گزریں تو شان و شوکت کا اور تزک و احتشام کا مظاہرہ ہو اور حکمرانی کی تیز و تند روشنی سے عوام کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں! 
یہ سب کچھ پولیس کرے تو بدلے میں وہ آزادی مانگتی ہے۔ دنیا میں فری لنچ کہیں نہیں ہوتا، پولیس بھی یہ سب کچھ مفت میں نہیں کرتی۔ غیر اعلانیہ معاہدہ یہ ہے کہ پولیس حکمران خاندانوں کی حفاظت کرے‘ اپنے آپ کو ان کا ذاتی ملازم سمجھے، اہلِ اقتدار کے اقتدار کی پاسبانی کرے اور بدلے میں اُسے کھلی چھٹی ہے عوام کے ساتھ جو چاہے کرے! چاہے تو ملزموں کو چھوڑ دے‘ مظلوموں کی ہڈیاں توڑ دے‘ چاہے تو بے یار و مددگار ملزموں کو تشدد سے ہلاک کر دے‘ چاہے تو غنڈوں، بدمعاشوں اور بلیک میلروں سے دوستیاں نبھائے۔ 
کیا کسی کو معلوم ہے گزشتہ پانچ یا دس یا پندرہ یا بیس برسوں کے دوران پولیس کے کتنے ریٹائرڈ افسروں کو اعلیٰ ملازمتوں سے نوازا گیا ہے؟ اگر اعداد و شمار میسر ہوں تو نتیجہ حیرت انگیز نکلے گا۔ اس لئے کہ جس طرح جاگیرداروں کی جان پٹواریوں اور تحصیلداروں میں ہے، اسی طرح شہروں سے تعلق رکھنے والے شاہی خاندانوں کی ’’سیاسی‘‘ بقا کا انحصار پولیس افسروں کے ساتھ ذاتی دوستیوں پر ہے! اِس صورتِ حال میں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ہماری پولیس کا کام جرائم کی بیخ کنی ہے تو اُسے ماہرِ نفسیات کے پاس جانا چاہئے! 
اگر ہمارے حکمران تاریخ سے آشنا ہوتے، اگر وہ کتابیں پڑھتے، اگر ان کی پرورش، ان کے ماحول اور ان کے گھروں میں علم کا اور لائبریریوں کا عمل دخل ہوتا، اگر ان کے ارد گرد لطیفہ گو مسخروں کے بجائے بے لوث اہلِ علم ہوتے تو حکمرانوں کو معلوم ہوتا کہ کامیاب حکمرانی کی بنیاد صرف اور صرف امن و امان ہے! اگر تاجر اور ڈاکٹر اغوا برائے تاوان کی نذر ہو جائیں، اگر موبائل فونوں کو بچاتے ہوئے عام شہری ڈاکوؤں کی گولیوں کی نذر ہو جائیں، اگر بچے اور ان کے والدین بلیک میلنگ کے ڈر سے گھروں میں چھپ جائیں، اگر دکاندار بھتہ خوروں کے جبڑوں میں پھنسے ہوں تو میٹرو بسوں اور ٹرینوں پر کون سوار ہو گا؟ چور، ڈاکو، اغواکار، بھتہ خور، موبائل فون اور پرس چھیننے والے اور ہاں پولیس والے!!

Monday, August 10, 2015

خلا جو جنوب میں پیدا ہو رہا ہے

الطاف حسین کا زمانہ لد چکا۔ تو کیا جنرل پرویز مشرف کا عہدِ ہمایونی نہیں ختم ہو رہا؟ 
عہدِ ہمایونی سے کوئی شہنشاہ ہمایوں کا عہد نہ مراد لے لے۔ ہمایوں کم از کم اتنے کام کا تو نکلا کہ اس کی وفات کے بعد اس کا مقبرہ اس کی نسلوں کے لیے پناہ گاہ رہا۔ آخری چشم و چراغ‘ شاعرِ ماتم کناں‘ بہادر شاہ ظفر نے قلعے سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے ہی میں پناہ لی۔ تاریخ کا عجیب اتفاق ہے کہ دونوں آخری بادشاہ‘ بہادر شاہ ظفر اور شہنشاہِ اودھ واجد علی شاہ‘ ادب شاعری‘ ثقافت اور فنونِ لطیفہ کی خدمت کر رہے تھے جبکہ انتظامِ سلطنت دہلی اور لکھنؤ میں بیٹھے ہوئے انگریز ریذیڈنٹ چلا رہے تھے۔ طبلہ نوازی اور رقص کی حد تک تو جنرل صاحب بھی فنون لطیفہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ 
جنرل پرویز مشرف نے ایک تاثر اپنے بارے میں یہ دیا ہوا ہے کہ وہ انڈیا کے معاملے میں کڑی کمان کا تیر ہیں۔ سخت اور غیر لچکدار! مگر حقائق یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جہاں الطاف حسین کا معاملہ آ جائے وہاں جنرل صاحب اپنی نام نہاد بھارت دشمنی کو بڑی صفائی سے گول کر جاتے ہیں۔ الطاف حسین کی ’را‘ کے ساتھ سازباز اب کسی اشتباہ سے بالاتر ہے۔ یہ کہنا کہ انڈیا اتنا بے غیرت ہے کہ پاکستان میں مہاجروں کی مدد نہیں کرتا‘ پھر نیٹو کی افواج کو پکارنا‘ یہ ساری باتیں صریحاً غداری کے ضمن میں آتی ہیں مگر جنرل صاحب کا پیار بھرا بیان ملاحظہ ہو: ’’الطاف حسین کے بھارت سے مدد مانگنے کے بیان کو کوئی بھی اچھا نہیں کہہ سکتا‘‘۔ اگر خدانخواستہ اس قسم کا سلسلہ میاں نوازشریف کے حوالے سے سامنے آتا تو جنرل صاحب فصاحت اور حب الوطنی کے دریا بہا دیتے! 
آفاق احمد نے درست کہا ہے کہ جب جنرل صاحب کے دور حکومت میں الطاف حسین نے بھارت میں قیام پاکستان کو غلط قرار دیا تھا تو انہوں نے نوٹس کیوں نہ لیا اور الطاف حسین کی جماعت کو اس کے باوجود حکومت میں کیوں شامل کیا اور شامل رکھا؟ نومبر 2004ء میں جب الطاف حسین دہلی ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو راستے ان کی قد آدم تصاویر سے مزین تھے! جیسے وہ کوئی ہیرو ہوں! تاج محل ہوٹل میں تقریر کرتے وقت انہوں نے اعلان کیا کہ برصغیر کی تقسیم تاریخ کی عظیم ترین غلطی تھی! پھر انہوں نے چلاّ کر کہا: ’’مہاجر ہونے کے سبب پاکستان میں ہمارے ساتھ بدسلوکی ہوتی ہے۔ اب اگر ایسا ہوا تو ہم آپ لوگوں کی پناہ لیں گے‘‘۔ پھر انہوں نے پوچھا… ’’دلّی والو! بولو! ہمیں پناہ دو گے؟‘‘ 
اس تقریر کی مکمل رپورٹ پاکستانی سفارت خانے نے حکومت کو ارسال کی۔ جب کچھ دنوں کے بعد پاکستانی سفیر نے الطاف حسین کی دعوت کی تو ان کے رفقائے کار نے احتجاج کیا۔ اس پر سفیر نے بتایا کہ ’’یہ اوپر سے حکم ہے‘‘۔ جنرل صاحب کی جماعت کے ترجمان نے تردید کی ہے مگر پانچ دن پہلے جس صحافی نے یہ سارا قصہ شائع کیا ہے وہ اس ’’تردید‘‘ کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم ہے۔ جنرل صاحب سے کون پوچھے کہ اُس وقت آپ کی حب الوطنی اور بھارت دشمنی گھاس چرنے کہاں چلی گئی تھی؟ آپ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف دشمن ملک میں یاوہ گوئی کی اور آپ نے نہ صرف یہ کہ اس یاوہ گوئی کا نوٹس نہ لیا بلکہ اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایسے شخص کے لیے دعوت کا انتظام کرایا۔ کیا وردی کو کھال قرار دینے والے پاکستان اور بھارت کے معاملے میں ایسے جذبات رکھتے ہیں؟ اس میں شک ہی کیا ہے کہ وردی سے محبت اور بھارت سے دشمنی کا سارا پاکھنڈ اقتدار کو طول دینے کے لیے تھا! 
اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ الطاف حسین کی جانشینی کے ضمن میں جنرل صاحب کا نام سننے میں آ رہا ہے! کیا حالات اس حد تک ابتر ہو چکے ہیں کہ اب ایم کیو ایم کی قیادت جنرل صاحب جیسے افراد کے سپرد کردی جائے گی؟ مصطفی کمال کی بات اور ہے۔ اس کی کارکردگی بطور میئر قابلِ رشک تھی۔ پھر اس نے پارٹی کی قیادت سے اختلاف کرنے کی جرأت بھی کی اور اس کی پاداش میں اسے ملک چھوڑ کر باہر جانا پڑا۔ 
موجودہ سیاسی جماعتوں میں ایسی کون کون سی ہیں جو ایم کیو ایم کے کارکنوں کو اپنی آغوش میں لے سکیں؟ پیپلز پارٹی کا وہ زمانہ ختم ہو چکا جب وہ چاروں صوبوں کی زنجیر تھی۔ اب تو وہ بہن بھائی کی جاگیر ہے اور اندرون سندھ تک سمٹ چکی ہے۔ مسلم لیگ نون‘ اصلاً پنجاب کی بلکہ وسطی پنجاب کی جماعت ہے۔ اس کی وفاقی حکومت میں اندرون سندھ کی قابل ذکر نمائندگی تک نہیں‘ نہ ہی خیبر پختونخوا یا بلوچستان ہی میں اس کی جڑیں ہیں۔ رہا ہزارہ کا علاقہ تو وہ خاندانی حوالے سے لاہور ہی کی توسیع ہے! پیچھے رہ گئیں اے این پی اور جے یو آئی جیسی جماعتیں‘ تو اے این پی جیسی لسانی اور نسلی بنیادوں پر کام کرنے والی جماعتوں ہی نے تو پاکستانیوں کو مجبور کیا کہ وہ بھی مہاجر بن کر سامنے آئیں۔ اس تلخ حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ پہلے ہم پٹھان‘ پنجابی‘ بلوچی‘ کشمیری اور سندھی بنے تو کراچی اور حیدرآباد کے لوگ بعد میں مہاجر بنے۔ یہ بات اس سے پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ جب کراچی یونیورسٹی میں آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا 
ڈول ڈالا گیا تو یونیورسٹی میں لسانی‘ نسلی اور علاقائی حوالے سے دس سے زیادہ طلبہ تنظیمیں کام کر رہی تھیں۔ جس جماعت میں خیبر پختونخوا کے غیر پختون باشندوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو‘ وہ ایم کیو ایم کو کیا منہ دکھائے گی! رہی جے یو آئی‘ تو اس ملک کا المیہ ہے کہ عقائد اور فرقہ واریت کی بنیاد پر بھی سیاست کی جا رہی ہے اور ڈٹ کر‘ دوسروں کے سینے پر مونگ دل کر کی جا رہی ہے! 
کیا عمران خان اور اس کی جماعت کے اربابِ حل و عقد نے جنوب کی صورتِ حال پر غور کیا ہے؟ تمام کمزوریوں اور نقائص کے باوجود تحریکِ انصاف ہی وہ خلا پُر کر سکتی ہے جس کا ایم کیو ایم سامنا کر رہی ہے کیونکہ تحریک انصاف پر کسی زبان‘ کسی علاقے‘ کسی نسل یا کسی عقیدے کی چھاپ نہیں لگی ہوئی۔ خاندانی جماعتوں کے قصیدہ خوان تحریک انصاف میں ہر وہ برائی تلاش کر رہے ہیں جو روئے زمین پر ممکن ہے۔ کوئی تبدیلی کو ہیجان کا نام دے رہا ہے‘ کسی کے نزدیک عمران خان سیاست کے لیے بنے ہی نہیں‘ کوئی انتظار کر رہا ہے کہ پارٹی کا اندرونی خلفشار پارٹی کو کس وقت دفناتا ہے یعنی اونٹ کا نچلا ہونٹ کس وقت نیچے گر پڑے گا؟ مگر یہ سب اندھیری رات میں لکڑیاں چننے والی باتیں ہیں۔ تحریک انصاف کو چاہیے کہ کراچی اور حیدرآباد کے عوام کے مسائل پر توجہ دے۔ اُن اسباب پر غور کرے جو ایم کیو ایم کی تشکیل کا اور پھر اس کے انتہا پسندانہ ردعمل کا باعث بنے۔ ایم کیو ایم کے مخلص رہنمائوں سے رابطہ قائم کرے اور ہو سکے تو اپنا ایم کیو ایم وِنگ قائم کرنے کی کوشش کرے۔

Friday, August 07, 2015

خواب اور خطابت

مولانا، قائداعظم کے مزار پر کھڑے تھے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھے ہوئے تھے۔ فاتحہ خوانی کر کے باہر نکلے تو میڈیا والوں نے گھیر لیا۔ ’’کیا بات ہے مولانا؟ آپ اور بانیٔ پاکستان کے مزار پر حاضری اور فاتحہ خوانی؟ ایسا تو آج تک نہ ہوا تھا‘‘ مولانا اپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئے ’’تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کبھی بھی نہ ہو گا! آخر دیکھیے، ہم پاکستان سے فائدہ اٹھانے والوں میں سرفہرست ہیں۔ وزارتیں ہماری! کمیٹیاں ہماری! پروٹوکول، گاڑیاں، مراعات، اسمبلیاں، سب کچھ پاکستان ہی کے طفیل ہے تو پھر اس ہستی کے ہم احسان مند کیوں نہ ہوں جس کی جدوجہد کے باعث یہ ملک وجود میں آیا۔‘‘
اس کے بعد مولانا نے ایک خصوصی پریس کانفرنس کو خطاب کیا جس میں لندن بیٹھے ہوئے اس سیاست دان کو آڑے ہاتھوں لیا جو پاکستان کے بارے میں مسلسل ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔ مولانا نے بھرپور مذمت کرتے ہوئے اس بیان پر احتجاج کیا جس میں انڈیا کو اشتعال دلایا گیا اور کہا گیا کہ انڈیا میں غیرت ہوتی تو پاکستان کی سرزمین پر مہاجروں کا خون نہ ہونے دیتا! مولانا نے پوچھا کہ جو انڈیا گجرات میں مسلمانوں کا خون بہاتا ہے اس سے آپ کس برتے پر مدد مانگ رہے ہیں۔ مولانا نے یہ بھی پوچھا کہ نیٹو کی فوج کو کشمیر بھیجنے کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟
مگر افسوس! صد افسوس! واحسرتا! یہ سب خواب تھا۔ چار سالہ پوتے نے اخبارات کا بنڈل مجھ پر پھینکتے ہوئے کہا۔ ابو اٹھیے! اخبار پڑھیے، اسے یقینا اس کی دادی نے ایسا کرنے کو کہا ہو گا!ع خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا! کہاں مولانا اور کہاں قائداعظم کے مزار پر فاتحہ خوانی! اور لندن سے جاری ہونے والے پاکستانی دشمن بیانات کی وہ کیوں مذمت کریں، وہ تو ابھی عمران خان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مصروف ہیں اور اس کارخیر میں حکومتی پارٹی، بالواسطہ، پوری طرح نہ صرف ممدومعاون ہے بلکہ لطف اندوز بھی ہو رہی ہے۔ عام غیر معیاری زبان میں، جیسے دہلی کی کرخنداری زبان تھی، اسے چسکے لینا کہتے ہیں! اسمبلی کو بھارت نواز بیانات کی تو فکر نہیں مگر عمران خان کے لیے سبحان اللہ! کیا کوثر و تسنیم سے دُھلی ہوئی زبان استعمال ہورہی ہے۔
’’انہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ کے بارے میں کہا کہ وہ خیرات بھی مانگتے ہیں اور غنڈہ گردی بھی کرتے ہیں۔ اس پر سپیکر نے مسکراتے ہوئے (’’مسکراتے ہوئے‘‘ پر غور فرمایئے) اعلان کیا کہ وہ لفظ غنڈہ گردی کو کارروائی سے حذف کرتے ہیں۔ اس پر مولانا نے کہا کہ بدمعاشی سے مانگتے ہیں۔ سپیکر نے کہا کہ اس لفظ کو بھی دیکھنا پڑے گا تو انہوں نے اسی لہجے میں کہا کہ خیرات بھی مانگتے ہیں اور دہشت گردی بھی کرتے ہیں۔ اس پر ایوان کشتِ زعفران کا منظر پیش کرنے لگا اور وزیراعظم بھی قہقہہ بار ہو گئے‘‘
بغداد پر چڑھائی ہو رہی تھی تو وہاں کے فقہا کوے کی حِلت و حرمت پر بحث کر رہے تھے۔ لندن سے بھارت اور نیٹو کو پکارا جا رہا ہے اور ہمارا منتخب ایوان تحریک اِنصاف کی مشکیں کسنے میں مصروف ہے!
ایک معاصر نے حضرت مولانا کی تقریر کی روانی اور زور خطابت کو ابوالکلام کے مرتبے پر فائز قرار دیا۔ یہ الگ بات کہ خطابت کے لیے ابو الکلام آزاد کی نسبت سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری زیادہ مشہور ماڈل ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد تقریر کے میدان کے شہسوار بھی تھے لیکن اصلاً ان کی شہرت ان کی تصانیف کی وجہ سے ہے۔ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ نکالا، پھر ’’تذکرہ‘‘ جیسی کتاب لکھی۔ تاہم ایک بات ضرور مشترک ہے۔ قیام پاکستان کی مخالفت جہاں مولانا ابوالکلام آزاد نے کی وہاں جمعیۃ العلماء ہند نے بھی کی۔ قائداعظم نے مولانا آزاد کو کانگریس کا شو بوائے کہا تھا۔ تقسیم کے بعد مولانا مرکزی حکومت ہند میں وزیر رہے مگر بھارتی مسلمانوں کے لیے کوئی قابل ذکر خدمات سرانجام نہ دے سکے۔ روزنامہ دنیا کے لیے ’’مکتوب دہلی‘‘ لکھنے والے صحافی جناب افتخار گیلانی نے گزشتہ ہفتے ایک اہم حقیقت بیان کی۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’بی جے پی کے ایک مسلم وزیر نے مجھے بتایا تھا کہ بھارت میں چاہے کانگریس ہو یا بی جے پی، ان کو نمائشی مسلمان عہدوں کے لیے درکار ہوتے ہیں جن کا کمیونٹی کے ساتھ دور کا بھی ربط نہ ہو اور جو اپنی کمیونٹی کے لیے پاور میں حصہ داری کے لیے کوشاں بھی نہ ہوں‘‘
شورش کاشمیری مولانا ابوالکلام آزاد کے بہت بڑے عقیدت مند اور مداح تھے۔ سالہاسال پہلے شورش کاشمیری کی مولوی حضرات سے قلمی جنگ چھڑ گئی۔ یہ جنگ معرکے کی تھی۔ ان کا ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ اس جنگ کا خاص میدان تھا۔ قبولیت کا یہ عالم تھا کہ آٹھ آنے کا پرچہ پانچ روپے میں خریدا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ایک صاحب کو، کہ خطابت میں شہرہ پایا تھا، ابو الکلام کہا جاتا تھا۔ شورش کاشمیری نے اس پر طنز کیا اور کہا   ؎
اک وہ ابوالکلام تھا اک یہ ابوالکلام
وہ شہسوارِ علم تھا، یہ خنگِ بے لگام
کالم نگار اس وقت سکول کا طالب علم تھا۔ اس جنگ کے دوران قبولیت عامہ حاصل کرنے والے شورش کاشمیری کے کچھ دلچسپ اشعار اب بھی حافظے میں محفوظ ہیں   ؎
حاشیہ ادرک کی چٹنی کا، پھریری دال پر
قورمہ، فرنی، پلائو، کیا یہی اسلام ہے؟
نوشگفتہ کونپلوں کو خواہش اولاد پر
اپنے پہلو میں بٹھائو، کیا یہی اسلام ہے؟
بپھر گئے ہو مزاروں کی روٹیاں کھا کر
تمہارے پیٹ کمر سے لگا کے چھوڑوں گا
باعث رسوائی دینِ حنیفہ ہو گیا
مفتیٔ لاہور آوارہ لطیفہ ہو گیا
ویسے الطاف حسین کے ’’حب الوطنی‘‘ میں ڈوبے ہوئے بیانات پر صرف مولانا ہی خاموش نہیں، جنرل پرویز مشرف بھی منقار زیر پر ہیں! یوں تو وہ بھارت کے حوالے سے خوب چوکس اور چوکنے رہتے ہیں مگر مفادات اور وابستگیوں کے بندھن بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ ہر شخص کو کسی نہ کسی موقع پر، جلد یا بدیر، برہنہ ضرور کر دیتے ہیں اور عکس اپنے اصل سے جدا ہو کر رہتا ہے! جنرل پرویز مشرف کے تذکرے سے ذہن این ایل سی سکینڈل کی طرف مڑ گیا ہے۔ یہ جنرل صاحب ہی کے عہدِ ہمایونی کے سلسلے ہیں جن کے کفارے اب ادا کیے جا رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے سالہاسال سے زیر التوا اس معاملے پر دو ٹوک فیصلہ کر کے تاریخ میں اپنا نام ایک ایسے صفحے پر لکھوا لیا ہے جو تابناک ہے اور ہمیشہ تابناک رہے گا! کیا عجب یہ بارش کا پہلا قطرہ ہو!
این ایل سی کے معاملے میں منصوبہ بندی کمیشن نے ابتدائی انکوائری کے لیے اس فقیر کو مقرر کیا تھا مگر بیرون ملک پابہ رکاب ہونے کی وجہ سے معذرت کر دی تھی اور سابق وفاقی سیکرٹری جناب مرزا حامد حسین کا نام تجویز کیا تھا۔ یہ نام منظور کر لیا گیا اور ابتدائی انکوائری مرزا حامد حسن صاحب ہی کی قیادت میں ہوئی۔ یہ چھ سات سال پہلے کی بات ہے۔ نیک نام جنرل امتیاز اس وقت این ایل سی کے سربراہ تھے۔ اس ضمن میں کچھ اور بھی راز تو نہیں، واقعات ضرور ہیں۔ کچھ دلچسپ شخصیات کا تذکرہ بھی اس ضمن میں آتا ہے تاہم اس کی تفصیل زیر تالیف خود نوشت میں آئے گی کہ ایک اخباری کالم تفصیلات کا متحمل نہیں ہو سکتا!۔

Wednesday, August 05, 2015

ابھی اُفق سلامت ہے


تو پھر کیا ہم تھک ہار کر بیٹھ جائیں؟ تو پھر کیا چراگاہ کو بھیڑیوں کے حوالے کر کے پہاڑوں کی طرف نکل جائیں؟
ہم ایک دو نہیں! ایک دو ہزار نہیں! ایک دو لاکھ نہیں! ایک دو کروڑ نہیں! ہم بیس کروڑ ہیں! جن چند سو افراد نے اس ملک پر قبضہ کر رکھا ہے وہ تو چاہتے ہی یہی ہیں! کیا یوسف رضا گیلانی نے نہیں کہا تھا کہ جو جانا چاہتا ہے چلا جائے روکتا کون ہے؟ نفرت کا یہ اظہار اس نے صرف اپنی طرف سے نہیں، اپنے پورے طبقے کی طرف سے کیا تھا۔ یہ تو چاہتے ہی یہی ہیں۔ ان کا بس چلتا تو یہ افریقہ یا عرب کا صحرا خریدتے اور بیس کروڑ لوگوں کو وہاں دھکیل دیتے تاکہ ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے والا کوئی نہ رہے!۔
گزشتہ کالم کے ردعمل میں، جس میں عرض کیا تھا کہ کوئی ضرور آئے گا اور سب کچھ بدل دے گا، پڑھنے والوں نے یاس کے مرجھائے ہوئے پھول بھیجے ہیں۔ بے یقینی کے پژ مردہ سندیسے! بیرون ملک سے لوگ پوچھتے ہیں کیا وہ اپنے بچوں کو اس وطن میں واپس بھیج دیں جہاں چند سو افراد کی حکمرانی ہے؟ جہاں سیاسی جماعتوں پر چند خاندانوں کی آمریت چمگادڑوں کی طرح لٹک رہی ہے! کچھ نے کرب کا اور دل برداشتگی کا اظہار یہ کہہ کر کیا ہے کہ کالم نویس اپنے آپ کو بھی فریب دے رہا ہے اور پڑھنے والوں کو بھی! کون آئے گا؛ اب تک کوئی نہیں آیا تو آئندہ ستر سالوں میں بھی یہی کچھ ہو گا!
نہیں ! ہم مایوس نہیں ہوں گے! ابھی افق سلامت ہے جس پر شفق پھولے گی! ابھی اس ملک میں اکل حلال کھانے والے، کم سہی، موجود ہیں! ابھی اس ملک میں، گنتی کے سہی، ایسے مسلمان پائے جاتے ہیں جو اسلام کو مسجد اور خانقاہ کے باہر بھی اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں! ہم مایوس نہیں ہوں گے، اگرچہ حالات شرمناک حد تک حوصلہ شکن ہیں۔ ملک میں وہ کام ہو رہے ہیں اور دن دیہاڑے ڈنکے کی چوٹ ہو رہے ہیں جو دنیا کے کسی بھی اور ملک میں ناقابلِ تصور ہیں! پیپلز پارٹی کے مالکوں نے سندھ کے وزیراعلیٰ کو ایک بار پھر دبئی طلب کیا ہے وہ کتنے پھیرے لگا چکے ہیں؟ کیا اس حاضری اور دوسری حاضریوں اور دوسرے ’’رہنمائوں‘‘ کے لاتعداد پھیروں کے سفری اخراجات یہ معززین اپنی جیبوں سے ادا کر رہے ہیں؟ کیا وہ وضاحت کریں گے؟ گمان غالب یہ ہے کہ سندھ کے اصل دارالحکومت دبئی تک کے آنے جانے کے اخراجات قومی خزانہ بھر رہا ہے جو ظلم کی انتہا ہے۔ وژن کی ’’وسعت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ اپوزیشن لیڈر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ وزیراعظم پورے ملک کے وزیراعظم ہیں۔ سندھ کیوں نہیں آتے؟ یہاں یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ وزیراعظم اپنے قافلے کے ساتھ پروٹوکول کی وسیع و عریض نزاکتوں سمیت اب تک کتنی بار لاہور تشریف لے جا چکے ہیں اور اس آمدورفت پر اب تک قومی خزانہ کس قدر خرچ ہو چکا ہے؟ وسائل کے ساتھ اس سنگدلانہ سلوک میں دونوں جماعتیں، یوں لگتا ہے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہیں۔ یوں بھی جوہری اعتبار سے پاکستان پر ایک ہی گروہ حکومت کرتا چلا آ رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا اختلاف اور نام نہاد جمہوری اور غیر جمہوری ادوار کا فرق اصل میں کوئی فرق نہیں! ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کا انتخاب کیا جو مبنی برانصاف بھی نہ تھا۔ جنرل صاحب کی ژرف بیں نگاہوں نے میاں صاحب کو تلاش کیا اور منصب پر بٹھایا۔ میاں صاحب نے جنرل پرویز مشرف کو اٹھایا اور نیچے سے اوپر لے آئے۔ جنرل پرویز مشرف نے این آر او کا ڈول ڈالا اور پیپلز پارٹی کو اقتدار میں واپس لائے۔ یوں دائرہ مکمل ہو گیا۔
کیا تسلسل ہے! غالب کا تصرف شدہ شعر صادق آتا ہے   ؎  اصل میں سارے ایک ہیں۔ موت سے پہلے آدمی ’’ان‘‘ سے نجات پائے کیوں؟ ان دوچار بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ دائرے میں باقی بھی حسب توفیق شریک ہیں۔ کیا جے یو آئی! کیا ایم کیو ایم، کیا قاف لیگ، کیا ان سرکاری ملازموں کی باقیات جو اوجڑی کیمپ کے بعد اور ’’جہاد‘‘ کے بعد ارب پتی صنعتکار بن کر ابھریں اور کیا آمروں کے خاندان! ٹیلی ویژن پر سنی ہوئی پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کی وہ تقریر نہیں بھولتی جو انہوں نے ہزارہ کے ایک حلقے میں کی۔ مضحکہ خیز اور بے معنی تقریر تھی۔!
ہم مایوس نہیں‘ ہوں گے اس لیے بھی کہ اس ملک کو دلدل سے نکال کر پکے راستے پر لانے کے لیے بھاری مشینری کی ضرورت نہیں فقط ایک ایسے دھکے کی ضرورت ہے جس کے پیچھے دیانتدار ہاتھ ہوں۔ ہم چاند نہیں مانگ رہے، نہ ہی باغ ارم ہمارا ہدف ہے۔ اگر مچھیروں کے گندے جزیرے کو لی جیسا معمار مل سکتا ہے جس نے اسے سنگاپور بنا دیا اور ملائیشیا کو مہاتیر مل سکتا ہے تو بے لوث لیڈر شپ کا ہمارے ہاں ظہور پذیر ہونا ناممکنات میں سے نہیں! آخر بھارت میں بھی تو ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ واپس آ رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران تین لاکھ بھارتی واپس وطن آ گئے ہیں۔ ایسی پیشہ ورکمپنیا ںبن گئی ہیں جن کا کام ہی بیرون ملک رہنے والوں کے لیے ان کی خواہش اور معیار کے مطابق بھارت کے اندر ملازمتیں تلاش کرنا ہے۔ اگر ایسا بھارت میں 
ہو سکتا ہے تو پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے۔ ہمیں ایسی لیڈر شپ کی ضرورت ہے جو کم از کم چار کام کرے اور بغیر ڈنڈی مارے، بغیر کسی استثنا کے، بغیر کسی سے رعایت برتنے کے، پورے ملک میں یکساں طور پر کرے۔ اول: ٹیکس نہ دینے والوں سے ٹیکس وصول کیا جائے خواہ کوئی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ زراعت کو صنعت کا درجہ دے کر وہ حقوق دیے جائیں جو صنعتوں کو حاصل ہیں اور اس کے بعد زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس لگایا جائے۔ دوم: بیورو کریسی کو بشمول پولیس سیاسی آلودگی سے مکمل طور پر پاک کیا جائے اور
 Tenure
 (ایک جگہ پر تعیناتی کی مدت) پر اس طرح عمل کیا جائے جیسے مسلح افواج میں ہوتا ہے۔ جس طرح ہر چند ماہ کے بعد بیورو کریسی میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کی مچلتی خواہشوں کو تسکین پہنچانے کے لیے تبادلے کیے جاتے ہیں اور جس طرح بیرون ملک تعیناتیاں چشم و ابرو کے اشاروں پر ہوتی رہی ہیں اور مسلسل ہو رہی ہیں، اس طرح تو جانوروں کے باڑے بھی نہیں چل سکتے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی حیثیت ڈاکخانے کے پوسٹ ماسٹر سے زیادہ نہیں۔ صوبوں میں اندھیر نگری چوپٹ راج سے بھی بدتر حالات ہیں! ہمیں ایسی لیڈر شپ درکار ہے جو اہل حکومت اور اہل سیاست کی مقدس تھوتھنیاں بیورو کریسی کی دیگچی سے باہر نکالے۔ سوم: پروٹوکول، محلات، گاڑیوں، ذاتی عملے کی افراط۔ ان سب کو ختم کرے اور حکمرانوں کے خاندانوں کی سرکاری خرچ پر پرورش و کفالت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ عوام کو سڑکوں پر روکنا کہ شاہی سواری گزر رہی ہے، غلامی کی بدترین قسم ہے اور شرق اوسط میں رائج کفیل سسٹم کی طرح ہے۔ گائوں کے غریب میراسی کی ماں حج کر کے آئی تو چودھری کی ماں بھی حج کر کے واپس پہنچ گئی۔ سب لوگ 
مبارک باد دینے چودھری کی ماں کے پاس جا رہے تھے۔ میراسی کی ماں کو کسی نے گھاس نہ ڈالی۔ ایک دن آمنا سامنا ہوا تو میراسی نے چودھری صاحب سے پوچھا کہ آپ کی والدہ محترمہ کیا طواف میں اول آئی تھیں؟ تو کیا لوگوں کی نقل و حرکت روک دینے والے حکمران شاہراہوں کے لیے خصوصی ٹیکس دیتے ہیں؟ چار دن پہلے شاہی قافلے کی اجارہ داری میں خلل ڈالنے کے جرم میں ایک ریٹائرڈ ایئر کموڈور صاحب کو پکڑ لیا گیا۔ ظاہر ہے آپ خلق خدا کو شاہراہوں پر چلنے سے روک دیں گے تو اسی قسم کی ’’گستاخیاں‘‘ سرزد ہوں گی۔ چہارم: جہاں جہاں مدارس کی اجارہ داری ہے، وہاں عوام کو جدید تعلیم، کم خرچ پر مہیا کی جائے اور نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اقدامات تو بہت سے اور بھی ضروری ہیں مگر یہ چند اقدامات ایسے ہیں جو ہماری سمت بدل سکتے ہیں!
تاہم لازم ہے کہ عوام کا سیاسی شعور بھی بیدار ہو۔ وہ چپ رہ کر ’’گزارہ کرنے‘‘ والے رویے کو خیرباد کہیں اور اپنے حقوق کو غصب ہوتا دیکھیں تو تشدد کو اپنائے بغیر پوری قوت سے آواز بلند کریں۔ فرانس کی حالیہ مثال سے سبق سیکھنا چاہیے۔ شرق اوسط کے ایک حکمران تعطیلات گزارنے فرانس آئے تو ساحل اور رہائش گاہ کے ارد گرد کے راستے عوام کے لیے بند کر دیے گئے۔ اس پر احتجاج ہوا۔ اس قدر کہ ایک لاکھ فرانسیسی شہریوں نے احتجاجی درخواست پر دستخط کیے۔ بظاہر تو یہ کہا جا رہا ہے کہ حکمران اپنے ایک ہزار مصاحبین کو لے کر خود ہی واپس چلے گئے مگر کیا عجب کہ فرانس کی حکومت نے سفارتی زبان میں عوام کے جذبات پہنچا کر معذرت کی ہو۔ ہمارے شعور کی ’’پختگی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ہمارے قیمتی اور نادر پرندے سالہاسال سے غیر ملکیوں کے ذوقِ شکار کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں مگر ہم عوام احتجاج کرنے کی ہمت ہی نہیں کرتے   ؎
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو، زمانہ چال قیامت کی چل گیا

 

powered by worldwanders.com