بالآخر فیصلہ اس کے حق میں ہوگیا۔ یہ ایک دلچسپ مقدمہ تھا‘ بلکہ عجیب و غریب۔ امریکی ریاست مسوری میں ایک پاکستانی ڈرائیور نے انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ تمام لائسنس یافتہ ٹیکسی ڈرائیوروں کو قانون کی روسے سفید قمیض اور سیاہ رنگ کی پتلون پہننا ہوتی ہے۔ اس ڈرائیور نے انکار کردیا۔ پھر وہ انتظامیہ کو عدالت میں لے گیا۔ اس نے دلیل یہ دی کہ شلوار قمیض میرا مذہبی لباس ہے۔’’یہ لباس میرے مذہب نے تجویز
(Prescribe)
کیا ہوا ہے‘‘۔ اس نے عدالت میں کہا: ’’میں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں‘‘۔
مقدمہ چلتا رہا۔ ڈرائیور کے وکیل نے عدالت کو قائل کرلیا کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ شلوار قمیض اسلام کی طرف سے متعین ہے۔ جج صاحب نے ڈرائیور کے حق میں فیصلہ دیا اور لکھا کہ انتظامیہ مدعی کے مذہبی حقوق پر ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے۔
یہ واقعہ دو ماہ پہلے رونما ہوا۔ لگ بھگ انہی دنوں، امریکی ریاست مسوری سے گیارہ ہزار آٹھ سو ستاون کلومیٹر دور، راولپنڈی کے ایک کالج میں ایک اور واقعہ رونما ہو رہا تھا۔ تقریباً اتنا ہی دلچسپ، بلکہ عجیب و غریب۔ کالج کو اردو کے لیکچرر درکار تھے۔ منتخب امیدواروں کو کہا گیا کہ آ کر اپنی قابلیت کا اظہار کریں اور کلاس میں لیکچر دیں تاکہ منتخب کرنے والوں کو آسانی ہو جائے۔ کسی نے سوٹ پہنا ہوا تھا اور ٹائی لگائی ہوئی تھی۔ کسی نے پتلون اور قمیض پہنی ہوئی تھی۔ کسی نے سفاری سوٹ پہنا ہوا تھا۔ ایک امیدوار کی باری جب لیکچر دینے کی آئی اور اسے بلایا گیا تو اس نے شلوار قمیض پر بند گلے کی واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔ چہرے پر شرعی داڑھی تھی۔ سر پر ٹوپی تو تھی ہی! یہ خوش شکل نوجوان صاف ستھرے اجلے لباس میں تھا اور سمارٹ بھی لگ رہا تھا۔ جانے خیال کی کونسی رو، بلانے والوں کے دماغ میں اس وقت دوڑی‘ انہوں نے یا ان میں سے کسی نے امیدوار کو یاد دلایا کہ یہ پوسٹ اسلامیات کے لئے نہیں، اردو زبان و ادب کے لئے ہے۔ امیدوار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں! اردو زبان و ادب ہی کے سلسلے میں میں بھی حاضر ہوا ہوں۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اس امیدوار نے جو لیکچر دیا‘ اس نے دوسروں سے زیادہ نمبر لئے(یقینا اس کا سبب اس کا لباس اور اس کی ظاہری شکل و صورت نہیں تھی۔)
یہ دو واقعات جو ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور رونما ہوئے،ہمی سے متعلق ہیں اور ہمارے خاص مائنڈ سیٹ اور ہمارے مخصوص طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بظاہر یہ دومختلف رویے ہیں‘ مگر اصلاً جو کچھ مسوری میں ہوا اور جوکچھ راولپنڈی میں پیش آیا، ایک ہی رویہ ہے۔ ہمارے پاس ثبوت کوئی نہیں، مگر لاشعوری طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شلوار قمیض اسلامی لباس ہے۔ دوسری طرف کسی کو داڑھی، ٹوپی اور واسکٹ میں دیکھتے ہیں تو دل میں فیصلہ کرلیتے ہیں کہ یہ صاحب کسی مسجد کے امام یا زیادہ سے زیادہ اسلامیات کے استاد ہوں گے!
امریکی بھی عجیب مخلوق ہیں۔ ظلم اتنا کرتے ہیں کہ افغانستان سے لے کر عراق تک لوہے اور آگ کے لاکھوں بیج بو ڈالے اور مہربانی پر آئیں تو ایک ڈرائیور کی ایسی بات مان لی جس کا کوئی سر پیر نہیں! دنیا میں لاکھوں کروڑوں مسلمان دن میں پانچ مرتبہ پتلون، سوٹ، قمیض میں ملبوس نمازیں پڑھتے ہیں۔ سعودی عرب کے فوجی جوان اور افسر پتلون پہنتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں۔ احمد دیدات ساری زندگی اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ عیسائیت اوراسلام ان کا خاص موضوع تھا‘ اس حد تک کہ انہی کا حصہ تھا، پتلون پہنتے تھے۔ ڈرائیور کو پورا حق تھا عدالت میں جانے کا، مگر دلیل اس کی یہ ہونی چاہیے تھی کہ میرا لباس میری ثقافتی پہچان ہے۔ میرے ملک کا لباس ہے۔ میری ذاتی پسند کا مسئلہ ہے۔ مجھ پر کسی دوسرے لباس کو ٹھونسا نہیں جا سکتا! اپنے لباس کو، جو صرف اسی کے ملک میں پہنا جاتا ہے، اسے اسلامی کہنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اور یورپ‘ امریکہ‘ جاپان‘ مشرق بعید اور آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ میں کروڑوں مسلمان شلوار قمیض سے آشنا ہی نہیں! ہر ملک کا اپنا کلچر ہے۔ اسلام مقامی ثقافتوں کا مخالف نہیں۔ انڈونیشیا کے مسلمان اپنا مقامی لباس پہنتے ہیں۔ کیرالہ کے مسلمان حرم کے مبارک صحن میں، سفید تہمد میں ملبوس، چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ تہمد‘ معلوم نہیں کیرالہ میںاسے کیا کہتے ہیں، ہمارے پنجاب کے تہمد سے مختلف ہے!
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی عدالت کو معلوم ہو کہ یہ اسلامی لباس نہیں، اور اس نے ڈرائیور کا دعویٰ اس لئے مان لیا ہو کہ بہتر ہے یہ لوگ انہی ’’حقوق‘‘ کے لئے اپنی صلاحیتیں خرچ کرتے رہیں! ارمغان حجاز میں اقبال نے ایک نظم لکھی ہے۔’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ الحمدللہ! اس نظم سے ہماری غالب اکثریت محفوظ ہے۔ ابلیس اپنے مشیروں کی رہنمائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بہتر ہے مسلمان انہی بحثوں میں پڑے رہیں کہ خدا کی صفات، اس سے الگ ہیں یا عین ذات ہیں؟ آنے والا مسیح ناصری ہوگا یا محض مجدد؟ قرآن پاک کے الفاظ حادث ہیں یا قدیم۔ پھر وہ فیصلہ دیتا ہے کہ ؎
ہے یہی بہتر الہٰیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ ترکر دو مزاج خانقاہی میں اسے
ہمارے دونوں رویے انتہا پسندانہ ہیں۔ ہم میں سے کچھ پتلون اور سوٹ کو مغربی یا انگریزی لباس سمجھ کراس سے نفرت کرتے ہیں۔ بعض اعلانیہ اس کی برائی اور اس سے پرہیز کی تلقین کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پتلون، کھانے کی میز اور کئی اور تہذیبی و ثقافتی مظاہرہسپانیہ اور ترکی کے مسلمانوں نے یورپ کو دیئے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو بھی اسلام کا کوئی مخصوص لباس نہیں۔ مولانا محمد منظور نعمانی اپنی کتاب معارف الحدیث حصہ ششم میں لکھتے ہیں: ’’ہر علاقے اور ہر زمانے کے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ شرعی حدود و احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا علاقائی و قومی پسندیدہ لباس استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے ان اصحاب صلاح و تقویٰ نے بھی جن کی زندگی میں اتباع سنت کا حددرجہ اہتمام تھا‘ یہ ضروری نہیں سمجھا کہ بس وہی لباس استعمال کریں جو رسول اللہ ﷺ استعمال فرماتے تھے۔ دراصل لباس ایسی چیز ہے کہ تمدن کے ارتقا کے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ شریعت نے کسی خاص قسم اور خاص وضع کے لباس کا پابند نہیں کیا ہے‘‘۔
دوسری طرف، ہم میں سے کچھ، پگڑی اور واسکٹ دیکھ کرناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ کم از کم دل میں ضرور منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو یہ حق نہیں کہ آپ کی پتلون کو برا سمجھے اوراعتراض کرے تو آپ کو بھی ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ آپ پگڑی، ٹوپی، واسکٹ، شلوار قمیض کو حقارت سے دیکھیںاور اس میں ملبوس ہر شخص کو امام مسجد یا اسلامیات کا استاد سمجھیں! امام مسجد یا اسلامیات کا استاد ہونا کم تر ہونے کی نشانی نہیں! مگر ع اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ یوں بھی سعدی نے متنبہ کیا تھا ؎
ہر گوشہ گماں مبرکہ خالیست
شاید کے پلنگ خفتہ باشد!
اس کا مطلب یہ نہیں کہ پلنگ کے نیچے کوئی سو رہا ہے۔ پلنگ چیتے کو کہتے ہیں۔ جس گوشے کو آپ خالی سمجھ رہے ہیںوہاںچیتا محو خواب ہوسکتا ہے۔ پگڑی اور واسکٹ میں ملبوس شخص ایک سائنسدان ہوسکتا ہے یا انجینئر یا کمال کی انگریزی لکھنے اور بولنے والا پروفیسر۔ اقبال پھر یاد آ گیا ؎
حکمت از قطع و برید جامہ نیست
مانعِ علم و ہنر عمامہ نیست
لباس کی تراش خراش کا دانش سے کیا تعلق؟ عمامہ علم و ہنر کی راہ میں رکاوٹ نہیں!
اقبال آج کے دور میں ہوتے تو یہ بھی ضرور بتاتے کہ عمامہ علم کی گارنٹی بھی نہیں! بارعب دستار میں ملبوس ایک شخص کو ایک بڑھیا نے اپنے بیٹے کا خط دیا کہ اسے پڑھ کر سنادے۔ دستار پوش نے بتایا کہ وہ تو ان پڑھ ہے۔ بڑھیا کو غصہ آ گیا: ’’اتنی بڑی پگڑی باندھی ہوئی ہے اور پڑھنا نہیں آتا؟‘‘ اس شخص نے پگڑی اتار کر بڑھیا کے سر پر رکھ دی اور کہا لو، تم خود پڑھ لو!
(Prescribe)
کیا ہوا ہے‘‘۔ اس نے عدالت میں کہا: ’’میں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں‘‘۔
مقدمہ چلتا رہا۔ ڈرائیور کے وکیل نے عدالت کو قائل کرلیا کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ شلوار قمیض اسلام کی طرف سے متعین ہے۔ جج صاحب نے ڈرائیور کے حق میں فیصلہ دیا اور لکھا کہ انتظامیہ مدعی کے مذہبی حقوق پر ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے۔
یہ واقعہ دو ماہ پہلے رونما ہوا۔ لگ بھگ انہی دنوں، امریکی ریاست مسوری سے گیارہ ہزار آٹھ سو ستاون کلومیٹر دور، راولپنڈی کے ایک کالج میں ایک اور واقعہ رونما ہو رہا تھا۔ تقریباً اتنا ہی دلچسپ، بلکہ عجیب و غریب۔ کالج کو اردو کے لیکچرر درکار تھے۔ منتخب امیدواروں کو کہا گیا کہ آ کر اپنی قابلیت کا اظہار کریں اور کلاس میں لیکچر دیں تاکہ منتخب کرنے والوں کو آسانی ہو جائے۔ کسی نے سوٹ پہنا ہوا تھا اور ٹائی لگائی ہوئی تھی۔ کسی نے پتلون اور قمیض پہنی ہوئی تھی۔ کسی نے سفاری سوٹ پہنا ہوا تھا۔ ایک امیدوار کی باری جب لیکچر دینے کی آئی اور اسے بلایا گیا تو اس نے شلوار قمیض پر بند گلے کی واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔ چہرے پر شرعی داڑھی تھی۔ سر پر ٹوپی تو تھی ہی! یہ خوش شکل نوجوان صاف ستھرے اجلے لباس میں تھا اور سمارٹ بھی لگ رہا تھا۔ جانے خیال کی کونسی رو، بلانے والوں کے دماغ میں اس وقت دوڑی‘ انہوں نے یا ان میں سے کسی نے امیدوار کو یاد دلایا کہ یہ پوسٹ اسلامیات کے لئے نہیں، اردو زبان و ادب کے لئے ہے۔ امیدوار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں! اردو زبان و ادب ہی کے سلسلے میں میں بھی حاضر ہوا ہوں۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اس امیدوار نے جو لیکچر دیا‘ اس نے دوسروں سے زیادہ نمبر لئے(یقینا اس کا سبب اس کا لباس اور اس کی ظاہری شکل و صورت نہیں تھی۔)
یہ دو واقعات جو ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور رونما ہوئے،ہمی سے متعلق ہیں اور ہمارے خاص مائنڈ سیٹ اور ہمارے مخصوص طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بظاہر یہ دومختلف رویے ہیں‘ مگر اصلاً جو کچھ مسوری میں ہوا اور جوکچھ راولپنڈی میں پیش آیا، ایک ہی رویہ ہے۔ ہمارے پاس ثبوت کوئی نہیں، مگر لاشعوری طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شلوار قمیض اسلامی لباس ہے۔ دوسری طرف کسی کو داڑھی، ٹوپی اور واسکٹ میں دیکھتے ہیں تو دل میں فیصلہ کرلیتے ہیں کہ یہ صاحب کسی مسجد کے امام یا زیادہ سے زیادہ اسلامیات کے استاد ہوں گے!
امریکی بھی عجیب مخلوق ہیں۔ ظلم اتنا کرتے ہیں کہ افغانستان سے لے کر عراق تک لوہے اور آگ کے لاکھوں بیج بو ڈالے اور مہربانی پر آئیں تو ایک ڈرائیور کی ایسی بات مان لی جس کا کوئی سر پیر نہیں! دنیا میں لاکھوں کروڑوں مسلمان دن میں پانچ مرتبہ پتلون، سوٹ، قمیض میں ملبوس نمازیں پڑھتے ہیں۔ سعودی عرب کے فوجی جوان اور افسر پتلون پہنتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں۔ احمد دیدات ساری زندگی اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ عیسائیت اوراسلام ان کا خاص موضوع تھا‘ اس حد تک کہ انہی کا حصہ تھا، پتلون پہنتے تھے۔ ڈرائیور کو پورا حق تھا عدالت میں جانے کا، مگر دلیل اس کی یہ ہونی چاہیے تھی کہ میرا لباس میری ثقافتی پہچان ہے۔ میرے ملک کا لباس ہے۔ میری ذاتی پسند کا مسئلہ ہے۔ مجھ پر کسی دوسرے لباس کو ٹھونسا نہیں جا سکتا! اپنے لباس کو، جو صرف اسی کے ملک میں پہنا جاتا ہے، اسے اسلامی کہنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اور یورپ‘ امریکہ‘ جاپان‘ مشرق بعید اور آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ میں کروڑوں مسلمان شلوار قمیض سے آشنا ہی نہیں! ہر ملک کا اپنا کلچر ہے۔ اسلام مقامی ثقافتوں کا مخالف نہیں۔ انڈونیشیا کے مسلمان اپنا مقامی لباس پہنتے ہیں۔ کیرالہ کے مسلمان حرم کے مبارک صحن میں، سفید تہمد میں ملبوس، چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ تہمد‘ معلوم نہیں کیرالہ میںاسے کیا کہتے ہیں، ہمارے پنجاب کے تہمد سے مختلف ہے!
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی عدالت کو معلوم ہو کہ یہ اسلامی لباس نہیں، اور اس نے ڈرائیور کا دعویٰ اس لئے مان لیا ہو کہ بہتر ہے یہ لوگ انہی ’’حقوق‘‘ کے لئے اپنی صلاحیتیں خرچ کرتے رہیں! ارمغان حجاز میں اقبال نے ایک نظم لکھی ہے۔’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ الحمدللہ! اس نظم سے ہماری غالب اکثریت محفوظ ہے۔ ابلیس اپنے مشیروں کی رہنمائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بہتر ہے مسلمان انہی بحثوں میں پڑے رہیں کہ خدا کی صفات، اس سے الگ ہیں یا عین ذات ہیں؟ آنے والا مسیح ناصری ہوگا یا محض مجدد؟ قرآن پاک کے الفاظ حادث ہیں یا قدیم۔ پھر وہ فیصلہ دیتا ہے کہ ؎
ہے یہی بہتر الہٰیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ ترکر دو مزاج خانقاہی میں اسے
ہمارے دونوں رویے انتہا پسندانہ ہیں۔ ہم میں سے کچھ پتلون اور سوٹ کو مغربی یا انگریزی لباس سمجھ کراس سے نفرت کرتے ہیں۔ بعض اعلانیہ اس کی برائی اور اس سے پرہیز کی تلقین کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پتلون، کھانے کی میز اور کئی اور تہذیبی و ثقافتی مظاہرہسپانیہ اور ترکی کے مسلمانوں نے یورپ کو دیئے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو بھی اسلام کا کوئی مخصوص لباس نہیں۔ مولانا محمد منظور نعمانی اپنی کتاب معارف الحدیث حصہ ششم میں لکھتے ہیں: ’’ہر علاقے اور ہر زمانے کے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ شرعی حدود و احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا علاقائی و قومی پسندیدہ لباس استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے ان اصحاب صلاح و تقویٰ نے بھی جن کی زندگی میں اتباع سنت کا حددرجہ اہتمام تھا‘ یہ ضروری نہیں سمجھا کہ بس وہی لباس استعمال کریں جو رسول اللہ ﷺ استعمال فرماتے تھے۔ دراصل لباس ایسی چیز ہے کہ تمدن کے ارتقا کے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ شریعت نے کسی خاص قسم اور خاص وضع کے لباس کا پابند نہیں کیا ہے‘‘۔
دوسری طرف، ہم میں سے کچھ، پگڑی اور واسکٹ دیکھ کرناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ کم از کم دل میں ضرور منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو یہ حق نہیں کہ آپ کی پتلون کو برا سمجھے اوراعتراض کرے تو آپ کو بھی ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ آپ پگڑی، ٹوپی، واسکٹ، شلوار قمیض کو حقارت سے دیکھیںاور اس میں ملبوس ہر شخص کو امام مسجد یا اسلامیات کا استاد سمجھیں! امام مسجد یا اسلامیات کا استاد ہونا کم تر ہونے کی نشانی نہیں! مگر ع اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ یوں بھی سعدی نے متنبہ کیا تھا ؎
ہر گوشہ گماں مبرکہ خالیست
شاید کے پلنگ خفتہ باشد!
اس کا مطلب یہ نہیں کہ پلنگ کے نیچے کوئی سو رہا ہے۔ پلنگ چیتے کو کہتے ہیں۔ جس گوشے کو آپ خالی سمجھ رہے ہیںوہاںچیتا محو خواب ہوسکتا ہے۔ پگڑی اور واسکٹ میں ملبوس شخص ایک سائنسدان ہوسکتا ہے یا انجینئر یا کمال کی انگریزی لکھنے اور بولنے والا پروفیسر۔ اقبال پھر یاد آ گیا ؎
حکمت از قطع و برید جامہ نیست
مانعِ علم و ہنر عمامہ نیست
لباس کی تراش خراش کا دانش سے کیا تعلق؟ عمامہ علم و ہنر کی راہ میں رکاوٹ نہیں!
اقبال آج کے دور میں ہوتے تو یہ بھی ضرور بتاتے کہ عمامہ علم کی گارنٹی بھی نہیں! بارعب دستار میں ملبوس ایک شخص کو ایک بڑھیا نے اپنے بیٹے کا خط دیا کہ اسے پڑھ کر سنادے۔ دستار پوش نے بتایا کہ وہ تو ان پڑھ ہے۔ بڑھیا کو غصہ آ گیا: ’’اتنی بڑی پگڑی باندھی ہوئی ہے اور پڑھنا نہیں آتا؟‘‘ اس شخص نے پگڑی اتار کر بڑھیا کے سر پر رکھ دی اور کہا لو، تم خود پڑھ لو!
No comments:
Post a Comment