Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, August 26, 2015

افیونچی

ا جہاندیدہ اور خوش گفتار خاتون تھی اور کیا کیا فارمولے تھے اس کی زنبیل میں۔ کئی سال پہلے کی بات ہے‘ چند دوستوں نے میریٹ ہوٹل کراچی کے ریستوران میں کھانے پر مدعو کیا۔ پندرہ بیس معززین‘ کچھ بیوروکریٹ اور کچھ صحافی اور دانشور۔ انہی میں یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت تھی‘ جنوبی ہند سے ہجرت کر کے امریکہ گئی ہوئی۔ دو باتیں اس کی نہیں بھولتیں‘ جو اُسے اس کے باپ نے یاد رکھنے کو کہی تھیں۔ 
اوّل‘ پہلی نظر جوتوں پر پڑتی ہے۔ اس لیے کسی کو ملنے جائو تو جوتے بہترین ہوں! دوم: غریب امیر ہو جائے تو غربت پچاس سال تک اس کے اندر سے نہیں نکلتی اور خوشحالی مفلسی میں تبدیل ہو جائے تو رنگ ڈھنگ اور اندازِ فکر نصف صدی تک امیرانہ ہی رہتا ہے۔ عمرکوٹ میں ہمایوں اور اس کے بچے کھچے ساتھیوں کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ وقت تھا کہ گوشت مل جاتا تو خود (ہیلمٹ) میں ابالتے۔ جو شخص اکبر کی پیدائش کی خبر لایا‘ اسے خالی ہاتھ کیسے جانے دیتا! مفلسی تھی لیکن انداز امیرانہ تھا۔ صرف نافۂ مشک تھا اس کے پاس۔ کستوری کی پوٹلی! اور کچھ بھی نہ تھا! مشک کے ٹکڑے کیے۔ ایک خبر لانے والے کو پیش کیا اور باقی حاضرینِ مجلس میں تقسیم کیے! 
پچاس سال ہوں یا ساٹھ یا سو سال۔ قبیلوں‘ گروہوں اور قوموں کے خصائل تبدیل نہیں ہوتے۔ متحدہ عرب امارات کی تاریخ دلچسپ ہے اور اس میں فکر والوں کے لیے نشانیاں ہیں! تیل 1950ء میں نکلا۔ برآمد تیل کی سب سے پہلے ابوظہبی نے 1962ء میں آغاز کی! آج یو اے ای کا بڑا نام ہے! گردن بلندوں کے ساتھ آج اُس کی ہمسری ہے! قربِ قیامت کی نشانیوں میں یہ بھی تو ہے کہ بکریاں چرانے والے سربفلک عمارتیں بنائیں گے۔ مودی نے جس طرح یو اے ای میں پاکستان کو تکبر‘ طنز اور نامناسب گفتگو کا نشانہ بنایا ہے اور جس طرح خلیج کے حکمرانوں نے اس کے سامنے مرعوبیت کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس سے تاریخ اور عالمی سیاست کے طالب علم کے ذہن میں ریت‘ بے ثمر جھاڑیوں‘ خیمے‘ اونٹ اور بدّو کے سوا کیا آ سکتا ہے!! 
اللہ اللہ! ایک زمانہ وہ تھا جب خلیج فارس کے جنوبی ساحل کو انگریز ’’قزاقوں کا ساحل‘‘ کہتے تھے۔ سترہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک القاسمی قبائل کی کشتیاں بحری جہازوں کو ہراساں کرتیں۔ لوٹ مار‘ طرزِ زندگی کا دوسرا نام تھا۔ راس الخیمہ ان سرگرمیوں کا گڑھ تھا۔ برصغیر کی تجارت کو بچانے کے لیے برطانیہ نے 1809ء اور پھر 1819ء میں چڑھائی بھی کی۔ دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی تو خلیج کی ریاستوں کا گزران (سمندر سے نکالے گئے) موتیوں کی فروخت پر تھا۔ آج یو اے ای کو یاد نہیں رہا کہ انگریزوں کے رخصت ہونے کے بعد بھارتی حکومت نے خلیج فارس سے آنے والے موتیوں پر اتنا بھاری ٹیکس لگایا کہ آمدنی کا یہ ذریعہ ہی ختم ہو گیا اور ریاستوں کی اقتصادی حالت ابتر ہو گئی۔ 
نہیں! تاریخ میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں! مطلب کی بات پر آتے ہیں۔ آج بھارت میں گھی کے چراغ جلائے جا رہے ہیں۔ میڈیا بھنگڑے ڈال رہا ہے کہ پاکستان کو ’’کیے‘‘ کی سزا ملی ہے! پاکستان نے کیا کیا؟ یمن میں فوج نہیں بھیجی۔ پاکستان بنیا نہیں کہ صرف سکّے شمار کرے۔ دکاندار نہیں کہ سودا بیچنے کے علاوہ اسے کوئی فکر نہ ہو۔ فوج اس لیے نہیں بھیجی کہ دو برادر ملک لڑ رہے تھے اور وہ فریق نہیں بننا چاہتا تھا! پاکستان کی پارلیمنٹ نے حکومت کو غیرجانبدار رہنے کے لیے کہا تھا۔ اپریل میں یو اے ای کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور ڈاکٹر انور محمد غارغش نے پاکستان اور ترکی پر کڑی تنقید کی کہ وہ کھل کر عرب بادشاہوں کا ساتھ نہیں دے رہے۔ وزیر صاحب نے پاکستان کو متنبہ کیا کہ اسے (پاکستان) ’’بھاری قیمت‘‘ ادا کرنا پڑے گی! 
دوسروں سے عسکری حفاظت مانگنا یو اے ای کی تاریخ ہےاور شاید فطرت بھی! 1971ء میں جب برطانیہ نے ’’عسکری حفاظت‘‘ کا معاہدہ ختم کیا تو دبئی کی حکومت نے برطانیہ کی منت سماجت کی کہ ایسا نہ کرے اور بے شک امارات میں متعین اپنی فوج کے تمام اخراجات وصول کر لے۔ عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو امارات امریکہ کے ساتھ تھیں۔ 1994ء میں یو اے ای نے امریکہ کے ساتھ ’’دفاعی‘‘ معاہدہ کیا۔ ایسا ہی معاہدہ ایک برس بعد فرانس سے بھی کیا گیا اور جنوری 2008ء میں تو فرانس کو ابوظہبی میں مستقل ملٹری بیس بھی دے دی گئی۔ 2011ء میں لیبیا میں ’’بین الاقوامی فوجی آپریشن‘‘ کیا گیا تو یو اے ای بھی اس میں شامل تھا! یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ آپریشن مڈل ایسٹ کو غیرمستحکم کرنے کے امریکی منصوبے کا حصہ تھا! 
’’بھاری قیمت‘‘؟ تو جو کچھ مودی نے اگست (2015ء) کے وسط میں یو اے ای میں کیا اور کہا‘ اس ’’بھاری قیمت‘‘ کا حصہ ہے؟ مودی نے دبئی کرکٹ سٹیڈیم میں بھارتیوں سے خطاب کے دوران دھمکی آمیز لہجے میں کہا: 
’’مجھے یقین ہے کہ جن کے متعلق ہم یہاں (یو اے ای میں) گفت و شنید کر رہے ہیں انہیں اس گفت و شنید کا معلوم ہے‘‘۔ مودی نے جنوبی ایشیا پر بھارتی حاکمیت جتاتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’افغانستان سے لے کر بنگلہ دیش تک‘ جنوبی ایشیا کا ہر ملک بھارتی ترقی میں ’’حصہ دار‘‘ ہے اور جو ہمارے ساتھ نہیں ملنا چاہتے‘ اپنا راستہ پکڑیں‘‘۔ 
تو مودی اور یو اے ای کے حکمرانوں نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا‘ کیا وہ اس ’’بھاری قیمت‘‘ کا حصہ ہے؟ اس اعلامیے میں پاکستان کی طرف کئی جلی اور خفی اشارے تھے! اشارے کیا تھے‘ انگلیاں تھیں جو اٹھائی گئیں۔ 
’’دونوں ممالک انتہا پسندی کے خلاف ہیں اور کسی بھی ایسے تعلق کو قبول نہیں کرتے جو مذہب اور دہشت گردی کو جوڑتا ہے۔ دونوں ممالک ایسے ملکوں کی مذمت کرتے ہیں جو سیاسی مسائل کو مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہیں‘‘۔ 
درست فرمایا! پاکستان میں جو دہشت گردی ہے اسے تو پاکستانی ریاست‘ پاکستانی حکومت‘ پاکستانی مسلح افواج اور پاکستانی عوام ختم کرنے کی کامیاب کوشش کر رہے ہیں۔ مگر اُس دہشت گردی کا یو اے ای نے کیا سوچا ہے جو بھارت میں حکومتی سطح پر کی جا رہی ہے؟ کیا مودی نے گجرات میں نہیں کہا تھا کہ ’’ہندوئوں کو دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملنا چاہیے‘‘۔ کیا بی جے پی‘ ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ نہیں ہے؟ کیا خود ہندو پنڈت‘ مودی جی کی مسلم کُش پالیسیوں سے بلبلا نہیں اُٹھے؟ سوشل میڈیا پر ایک دو نہیں‘ کئی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ جب سے مودی سرکار آئی ہے سنت دہشت میں ہیں۔ یہ پنڈت کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ مودی سرکار‘ رام کا سودا کر رہی ہے اور گنگا کو بیچنا چاہتی ہے۔ 
رہے وہ مشترکہ ’’ثقافتی‘‘ تعلقات جن کا ذکر بار بار مشترکہ اعلامیے میں کیا گیا ہے‘ تو یہ کون سی ثقافت ہے؟ بھارت میں مسلمانوں کے آثار کا اصل وارث تو پاکستان ہے۔ بھارت میں تو اب یہ ثابت کیا جانے لگا ہے کہ تاج محل کسی ہندو نے بنوایا تھا۔ گزشتہ یومِ آزادی کے جلوس میں جو دہلی میں نکالا گیا‘ کرناٹک کی ریاست کی طرح سے ٹیپوسلطان کو بطور ہیرو پیش کیا گیا تو چند گھنٹوں میں دس ہزار مذمتی پیغام ٹوئٹر پر سامنے آ گئے۔ یو اے ای کس مشترکہ ثقافت کی بات کر رہا ہے؟ کیا اس مشترکہ ثقافت میں گجرات کے مسلمانوں کا خون اور ایودھیا کی بابری مسجد کا ملبہ بھی شامل ہے؟ کیا اس مشترکہ ثقافت میں بندے ماترم کا وہ گیت بھی شامل ہے جو مسلمان بچوں کے لیے سکولوں میں گانا لازم ہے؟ افسوس! صد افسوس! چونتیس برسوں میں پہلا بھارتی وزیراعظم یو اے ای میں گیا تو وہ مودی تھا۔ صرف اس لیے کہ پاکستان سے ’’بھاری قیمت‘‘ وصول کی جائے! ع 
ببین کہ از کہ بریدی و با کہ پیوستی؟ 
کس سے آپ ٹوٹے ہیں اور کس سے جُڑ رہے ہیں؟ 
یو اے ای بھارت کے ساتھ صرف ثقافتی‘ تعلیمی‘ تجارتی‘ صنعتی اور خلائی میدانوں میں دستِ تعاون نہیں بڑھا رہا‘ یو اے ای بھارت کو انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے صرف 75 ارب ڈالر نہیں دے رہا‘ یو اے ای بھارت کے ساتھ مشترکہ دفاعی اور عساکر کے تربیتی معاہدے بھی کر رہا ہے! بھارت کا سارا میڈیا بشمول ڈیلی ہندو‘ ڈیلی ہندوستان ٹائمز اور ڈیلی ٹائمز آف انڈیا ایک ہی بات کہہ رہا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ اصل میں ایک پیغام ہے جو پاکستان کو دیا جا رہا ہے! 
جوش ملیح آبادی نے بنیے پر ایک نظم لکھی تھی جس کا آغاز یوں تھا   ؎ 
قد کی لمبائی سے اک حد تک کمر جھولی ہوئی 
سر پہ چُٹیا مردہ چوہے کی طرح پھولی ہوئی 
بنیے کے ساتھ کاروبار کرنے کے ثمرات بہت جلد ہمارے یو ا ے ای کے دوستوں کو معلوم ہو جائیں گے۔ ہمارے ان دوستوں کو شاید معلوم نہیں کہ پاکستان بھارت کی راہ میں حائل نہ ہوتا تو آج مڈل ایسٹ کے ممالک بھی بھوٹان‘ سکم‘ نیپال اور بنگلہ دیش کی طرح بھارت کی ذیلی ریاستیں ہوتیں! 
لیکن اصل رونا مودی کے بارے میں ہے نہ یو اے ای کے دوستوں کے متعلق! رونا تو یہ ہے کہ بھارت کی حد درجہ مستعد خارجہ سرگرمیوں کے مقابلے میں پاکستان کے خارجہ ا مور سردخانے میں پڑے ہیں۔ چند روز پہلے انہی صفحات میں ہم نے مودی کے اُس برق رفتار دورے کا ذکر کیا تھا جس میں وہ روس سے واپسی پر وسط ایشیا کی تمام ریاستوں میں گیا اور کئی معاہدے کیے جب کہ ہمارے وزیراعظم لاہور ایئرپورٹ کی توسیع کے متعلق متفکر تھے اور روس سے واپس آ کر فوراً بنفس نفیس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ ہم نے وزارتِ خارجہ سے پوچھا تھا کہ مودی کے اِن ہمہ گیر دوروں کے بارے میں اس کا کیا ردِّ عمل ہے؟ لگتا ہے وزارتِ خارجہ کو پروا ہے نہ خبر! اگر مودی دبئی کرکٹ سٹیڈیم میں پچاس ہزار بھارتیوں سے خطاب کر سکتا ہے تو پاکستان کے وزیراعظم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا وزیراعظم اس بارے میں متفکر ہیں؟ اگر وزارتِ خارجہ میں بیٹھے ہوئے افیونچی کسی وقت جاگ پڑیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ قوم کو مودی کے حالیہ دورۂ یو اے ای کے متعلق اعتماد میں لیں؟؟

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com