Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, October 30, 2012

چٹائی اور دربار

Tuesday, October 23, 2012

انتقام

آکسفورڈ یونیورسٹی کب شروع ہوئی؟ تاریخ کا تعین آج تک نہیں ہوا لیکن اتنا معلوم ہے کہ 1096ءمیں یہاں تدریس ہو رہی تھی۔ 2010ءمیں یونیورسٹیوں کی ریٹنگ میں آکسفورڈ یونیورسٹی یورپ میں دوسرے نمبر پر رہی۔ ایک سال بعد یعنی 2011ءمیں اس کا نمبر پوری دنیا میں چوتھا آیا۔ یونیورسٹی 38 کالجوں پر مشتمل ہے۔ ہر کالج بذات خود ایک مکمل ادارہ ہے جس کی روایات سینکڑوں سال سے چلی آ رہی ہیں۔ یونیورسٹی میں ایک سو دو لائبریریاں ہیں۔ مرکزی لائبریری میں ایک کروڑ دس لاکھ کتابیں ہیں اور اگر الماریوں کی تمام شلفیں جمع کی جائیں تو ایک سو بیس میل لمبائی بنتی ہے۔ یونیورسٹی کا عجائب گھر 1683ءمیں وجود میں آیا اور دنیا کا قدیم ترین یونیورسٹی عجائب گھر ہے۔

برطانیہ کے 26 وزرائے اعظم آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ تیس عالمی رہنما اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان کے پانچ وزیراعظم (لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، فیروز خان نون، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو) یہیں کے پڑھے ہوئے تھے۔ صف اول کے کئی شاعر اور ادیب آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے۔ آسکر وائلڈ، آلٹرس ہکسلے، وکرم سیٹھ، شیلے، ڈبلیو ایچ آڈن، ٹی ایس ایلیٹ، آدم سمتھ، آئن سٹائن اور کئی دوسرے عالمی شہرت یافتہ دانشور اس درس گاہ کی دہلیز پر گھٹنے ٹیکتے رہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا سنجیدہ طالب علم ہو جس کے دل میں یہ شوق چٹکیاں نہ لے رہا ہو کہ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخل ہو۔

کیمبرج یونیورسٹی 1231ءسے یعنی 781 سال سے علم کی شمع جلائے ہوئے ہے۔ نیوٹن سترھویں صدی میں یہاں طالب علم رہا۔ شہرہ آفاق شعرا ملٹن، بائرن اور ٹینی سن کا تعلق اسی یونیورسٹی سے تھا۔ 23 بین الاقوامی رہنما یہاں سے پڑھ کے نکلے کئی
سائنسی ایجادات اور دریافتوں کا سہرا یہاں کے فارغ التحصیل سائنس دانوں کے سر ہے۔ قانون حرکت، الیکٹرون کی دریافت، ایٹم کو توڑنے کا کارنامہ، ہائیڈروجن کی دریافت اور ڈی این اے ان کارناموں میں سے محض چند ہیں جو اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل سائنس دانوں نے انجام دیئے۔ یونیورسٹی 31 کالجوں پر مشتمل ہے جن میں سے تین خواتین کے لیے مختص ہیں۔ ایک سو پچاس شعبے ان 31 کالجوں کے علاوہ ہیں۔ یونیورسٹی میں ایک سو چودہ لائبریریاں ہیں جو ہر وقت طلبا سے بھری رہتی ہیں۔ مرکزی لائبریری میں اسی لاکھ کتابیں ہیں۔ یونیورسٹی سے ملحقہ ٹرنٹی کالج کی لائبریری میں دو لاکھ کتابیں ایسی ہیں جو 1800ءسے پہلے شائع ہوئی تھیں۔ ایک اور لائبریری میں چھ سو مخطوطے عہد قدیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ کرسٹی کالج کی لائبریری میں ایک کروڑ بیس لاکھ کتابیں ہیں۔ یونیورسٹی کی تحویل میں آرٹ، ثقافت اور سائنس کے موضوعات پر مشتمل آٹھ عجائب گھر ہیں اور ایک نباتیاتی گارڈن ہے۔ یونیورسٹی میں چھ ہزار اساتذہ رات دن کام کرتے ہیں۔ طلبا کی تعداد اٹھارہ ہزار سے زیادہ ہے۔

آج ادب، سائنس اور فلسفہ و تاریخ میں برطانیہ کا جو مقام ہے اس میں ان دونوں یونیورسٹیوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ جس ٹیکنالوجی کی وجہ سے برطانیہ کے چھوٹے چھوٹے جزیروں نے اپنی بحری طاقت کو اس وقت عروج پر پہنچایا جب ہمارے مغل بادشاہوں نے سمندر کی شکل ہی نہیں دیکھی تھی۔ وہ ٹیکنالوجی برطانیہ کی یونیورسٹیوں کی عنایت تھی اور ان یونیورسٹیوں میں آکسفورڈ اور کیمبرج کا مقام اسی طرح ممتاز ہے جیسے ستاروں میں سورج اور چاند کا ہے۔

اب ہم امریکہ میں واقع ہارورڈ یونیورسٹی کی طرف آتے ہیں۔ یہ ریاست ہائے متحدہ کا قدیم ترین، علمی، تحقیقی اور تدریسی ادارہ ہے۔ یونیورسٹی کے تین کیمپس ہیں۔ پرانا کیمپس 210 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ میڈیکل کے طلبا کے لئے الگ کیمپس ہے جو 22 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ تیسرے کیمپس کا رقبہ 360 ایکڑ ہے۔ 1636ءمیں معرض وجود میں آنے والی یہ یونیورسٹی اس وقت دنیا میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی قیادت کر رہی ہے۔ یہاں سے ایم بی اے کرکے نکلنے والے طالب علم کو امریکہ، یورپ اور جاپان کی کوئی بھی ملٹی نیشنل کارپوریشن ہاتھوں ہاتھ لینے کو تیار ہوتی ہے۔ تحقیق کے میدان میں اس وقت اس یونیورسٹی کا کوئی ثانی نہیں۔ کمپیوٹر، میڈیکل، اقتصادیات، عمرانیات، افریقن سٹڈیز، نفسیات، مکانوں کی تعمیر اور قانون پر تحقیق کرنے والے تقریباً دو درجن عظیم الشان ریسرچ سنٹر یونیورسٹی کے ساتھ ملحق ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ کی سائنسی، اقتصادی، کاروباری، علمی اور سیاسی قوت کا یہ یونیورسٹی سرچشمہ ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔

امریکہ اور برطانیہ ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ امریکہ افغانستان پر قبضہ کرکے پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ آج عالم اسلام کا سب سے بڑا دشمن امریکہ ہی ہے۔ برطانیہ سے بھی ہماری دشمنی میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ تین سو سال اس نے ہمیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا اور عالم اسلام کے دیگر حصوں پر بھی قبضہ کئے رکھا۔

ہم اگر امریکہ اور برطانیہ سے انتقام لینا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی یونیورسٹیوں کو تباہ کر دینا چاہئے۔ یہ ان کی شہ رگ پر حملہ ہوگا۔ ہم نے دھماکے کرکے دیکھ لیا۔ جہادی گروہ ترتیب دے کر بھی ہم کوئی خاص کامیابی نہ حاصل کر سکے۔ برطانیہ اور امریکہ کی قوت کا راز سائنس اور ٹیکنالوجی ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے مراکز اور عقل گاہیں ان یونیورسٹیوں میں ہیں۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ان یونیورسٹیوں کو نشانہ بنائیں۔ اس کے لیے ہمیں اسلحہ اور جنگی تربیت کی ضرورت نہیں۔ کرنا ہمیں صرف یہ ہے کہ جو کچھ ہماری اپنی یونیورسٹیوں میں ہو رہا ہے، وہ کسی نہ کسی طرح آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ یونیورسٹی میں کروانا شروع کر دیں۔ اس ضمن میں پنجاب یونیورسٹی ہمارے لیے ماڈل کا رول ادا کر سکتی ہے۔ آپ چار پانچ دن پہلے کی خبر جو روزنامہ ”دنیا“ میں چھپی ہے، ملاحظہ کیجئے:

”ایک طلبا تنظیم کے کارکنوں نے پنجاب یونیورسٹی کے اسٹیٹ افسر پر حملہ کرکے شدید زخمی کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق ہوسٹل نمبر چار میں پشتون طلبا نے نئے آنے والے بلوچی طلبا کے لیے چائے کا اہتمام کیا تھا۔ اس پر طلبا تنظیم کے ارکان نے کینٹین والے کو چائے دینے سے منع کر دیا اور سامان بھی اٹھا کر پھینک دیا جس پر طلبا کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔ رات گئے تنظیم کے کارکنوں نے ایک بار پھر ہوسٹل نمبر 1 پر حملہ کرکے طالب علم زکریا پر تشدد کیا۔ معاملہ رفع دفع کروانے والے اسٹیٹ افسر پر بھی حملہ کر دیا گیا اور اس کی گاڑی تباہ کر دی گئی۔ اے ایس اے کے قائم مقام صدر نے کہا ہے کہ ایک تنظیم نے پنجاب یونیورسٹی کو ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ دوسری طرف تنظیم کے ناظم نے کہا ہے کہ ان کی تنظیم پنجاب یونیورسٹی کے امن کو تباہ کرنے کی انتظامیہ کی ہر سازش کو ناکام بنا دے گی۔“

ہم اگر ان برطانوی اور امریکی یونیورسٹیوں میں لسانی اور علاقائی بنیادوں پر طلبا کی تنظیمیں بنوا دیں اور طلبا کو افریقی، چینی، ہسپانوی اور دیگر گروہوں میں تقسیم کر دیں اور اگر ہر گروہ دوسرے گروہ کی چائے کی تقریب پر حملہ آور ہو جائے تو ان یونیورسٹیوں کی ممتاز علمی حیثیت تھوڑے ہی عرصہ میں نفاق اور جنگ و جدل کی نذر ہو جائے گی۔ ہمارے پاس اگر ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو یونیورسٹی کے امن کو تباہ کرنے کی انتظامیہ کی کسی بھی سازش کو ناکام بنا سکتی ہیں تو ہمیں ان تنظیموں کی شاخیں آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ کی یونیورسٹیوں میں بھی قائم کرنی چاہئیں۔ یہ تنظیمیں ان یونیورسٹیوں میں بھی کتاب میلے منعقد کریں۔ یہ اپنے ماہر طلبا کو وہاں کے پروفیسروں کے دماغ ”درست“ کرنے اور وہاں کی انتظامیہ کے افسروں کی ”مرمت“ کرنے پر بھی مامور کریں تو یہ یونیورسٹیاں کچھ ہی عرصہ میں پنجاب یونیورسٹی کی سطح پر اتر آئیں گی اور انتقام کا اس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں!

Facebook.com/izharulhaq.net

Sunday, October 21, 2012

تذلیل



ہ پرسوں کا واقعہ ہے۔ 19اکتوبر کی شام تھی۔ میں پونے آٹھ بجے اسلام آباد کلب سے نکلا۔ کلب کے صدردروازے سے نکلتے ہی گاڑی بائیں طرف موڑ لی۔ چند گز کے فاصلے کے بعد دائیں طرف کنونشن سنٹر کی جانب مڑنا تھا۔ جیسے ہی موڑ پر پہنچا سامنے بڑی بڑی فولادی، خاردار تاروں والی رکاوٹیں نظر آئیں۔ رکاوٹوں کے پاس ایک پولیس والا سینہ تان کر کھڑا تھا۔ ٹریفک رک گئی۔ چند منٹ میں چاروں سڑکوں پر ان گنت گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں کھڑی ہو گئیں۔ شاید بلکہ یقینا کسی وی وی آئی پی نے گزرنا تھا؛ تاہم دور دور تک کسی سرکاری قافلے کا تاحال کوئی نشان نہ تھا۔ دو تین بار کچھ من چلوں کی گاڑیوں نے پیں پیں کی آوازیں نکالیں اور پھر ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ میں نے گاڑی کا انجن بند کر دیا اور سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر، راضی برضا ہوکر جسم کے تنے ہوئے پٹھے ڈھیلے چھوڑ دیے۔

اب مجھے یاد نہیں کہ میں کتنی دیر آنکھیں بند کرکے، ٹیک لگا کر بیٹھا رہا۔ ٹک ٹک کی آواز آئی تو پہلے تو میں نے کوئی توجہ نہ دی۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ آواز کسی اور گاڑی سے آ رہی ہے۔ لیکن جب آواز تسلسل کے ساتھ آنے لگی تو میں نے آنکھ کھول کر دیکھا۔ ایک عجیب سا ہاتھ میرے ہی دروازے کے شیشے پر دستک دے رہا تھا۔ میں نے دستک دینے والے کو دیکھا تو ایک بار تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ آدمی تھا یا ہڈیوں کا ڈھانچہ، جیسے کسی بھی لمحے بکھر جائے گا۔ گال پچکے ہوئے، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، بال جیسے سر پر گوند سے چپکے ہوئے، گلے اور کندھوں کے درمیان ہڈیاں باہر کو نکلی ہوئیں۔ اس کا لباس دیکھ کر حیرت کے ساتھ خوف بھی مجھ پر حملہ آور ہونے لگا۔ اس نے لمبا گھگرا نما کرتا پہنا ہوا تھا، جو ٹخنوں سے ذرا ہی اوپر تھا۔ پنڈلیوں کا جو حصہ کرتے کے نیچے نظر آ رہا تھا، اس پر چوڑی دار پاجامے جیسا تنگ ملبوس دکھائی دے رہا تھا۔ پاﺅں میں سلیم شاہی جوتا تھا جو حد سے زیادہ بوسیدہ ہو چکا تھا۔

وہ شیشے پر مسلسل دستک دے رہا تھا۔ پہلے تو میں نے شیشہ نیچے نہ کرنے کا ارادہ کیا لیکن اب کھٹکھٹانے کے ساتھ ساتھ وہ کچھ کہہ بھی رہا تھا۔ غیر اختیاری طور پر میں نے شیشہ نیچے کر دیا۔ اس کا لہجہ عجیب سا تھا۔ یہ لہجہ میں نے پورے ملک میں کبھی نہ سنا تھا۔ ”کیا اعلیٰ حضرت شہنشاہ ہند کی سواری گزر گئی؟“ پوچھا تو اس نے اردو ہی میں تھا لیکن یوں لگتا تھا جیسے کوئی اور ہی زبان بول رہا ہو۔ میں ہونقوں کی طرح اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ اس نے پھر پوچھا۔ ”کیا اعلیٰ حضرت شہاب الدین محمد شاہ جہان کی مبارک سواری گزر گئی ہے؟“ ”کون سے اعلیٰ حضرت شاہ جہان؟ تم کس کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟“ ”بھلے آدمی! تمہیں میری بات کیوں سمجھ میں نہیں آ رہی۔ میں شاہی جلوس کے متعلق استفسار کر رہا ہوں جس نے گزرنا تھا؟“

”کون سا شاہی جلوس؟“

”اعلیٰ حضرت شہنشاہ دوراں شاہ جہاں شکار کے لئے نکلے تھے۔ پولیس کے گھڑ سوار دستے راستہ صاف کر رہے تھے۔ ان کے پیچھے چوبدار بھاگے چلے آ رہے تھے۔ میں سڑک کے کنارے کھڑا تھا۔ سوچا ایک جھلک شہنشاہ ہند کی دیکھ لوں۔ اچانک چوبدار کا عصا، جس کا سرا چاندی کا تھا، میرے سر پر لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ میں سر کے بل پیچھے کی طرف گرا۔ اگر آگے کی طرف سڑک پر گرتا تو ہراول دستے کے ہاتھیوں کے پیروں تلے آ کر کچلا جاتا۔ اب ہوش آیا ہے تو چوبدار ہیں نہ ہاتھی۔ یہ عجیب پالکیاں سی کھڑی دیکھیں جن کے نیچے پہئے لگے ہوئے ہیں۔ اب مجھے بتاﺅ کہ کیا شاہی سواری گزر چکی ہے یا ابھی گزرنی ہے؟“

میرا سر گھوم رہا تھا۔ کیا شاہ جہان کے زمانے کا مردہ اٹھ کھڑا ہوا ہے؟ میں نے چیخ ماری جو گاڑی کے اندر ہی گم ہو گئی۔ بہت کوشش سے حواس مجتمع کئے اور اس سے بات کی۔ ”شاہ جہان کو گزرے تو ساڑھے تین سو سال ہو چلے ہیں۔“ لیکن میری آواز اتنی مدھم تھی جیسے میں اپنے آپ سے بات کر رہا تھا۔ ” سواری تو ہمارے وزیراعظم کی یا صدر صاحب کی گزرنے والی ہے۔“

”لگتا ہے میں کچھ زیادہ دیر ہی بے ہوش رہا۔ زمانے ہی گزر گئے، بادشاہی تبدیل ہو گئی۔ بھائی، مغلوں کے زمانے میں تو ہم یوں سمجھو غلام تھے۔ جب شہنشاہ کی سواری نے گزرنا ہوتا تھا تو ہمارا راستہ چلنے کا بنیادی حق سلب ہو جاتا تھا۔ اعلیٰ حضرت کے نکلنے سے پہلے پولیس کے دستے آ کر سب کو راستے سے ہٹا دیتے تھے۔ بغلی سڑکوں پر خاردار فولادی رکاوٹیں رکھ دی جاتی تھیں۔ جو جہاں ہوتا تھا وہیں رک جاتا تھا۔ بیمار وہیں کھڑے کھڑے دم توڑ دیتے تھے۔ طلبا مدرسوں میں نہیں پہنچ پاتے تھے۔ مسافر قافلوں سے رہ جاتے تھے۔ ہم اس زمانے میں حیرت سے سنا کرتے تھے کہ تین ساڑھے تین سو سال بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ بادشاہتیں ختم ہو جائیں گی۔ کوئی کسی کا راستہ نہیں روک سکے گا۔ حکمران عوام کی طرح بغیر کسی ہٹو بچو کے شاہراہوں پر سفر کیا کریں گے۔ لیکن حیرت ہے کہ تم لوگ اتنی دیر سے اپنی سواریاں روکے کھڑے ہو۔ ایک گھنٹے سے تو میں دیکھ رہا ہوں۔“

”ہاں! تم نے ٹھیک سنا تھا۔“

مجھے اب اس مردہ نما شخص سے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔

”بادشاہتیں واقعی ختم ہو چکی ہیں۔ لیکن صرف سمندر پار۔ کافروں کے ملکوں میں۔ ہم مسلمانوں کے ہاں ابھی شہنشاہی

نظام بدستور چل رہا ہے۔ ہم شاہراہوں پر چل رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں اچانک کتّوں بلّوں کی طرح ”ہش“ کرکے روک دیا جاتا ہے۔ سامنے خاردار فولادی رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ چوبداروں کا زمانہ نہیں رہا۔ اب بندوق بردار سپاہی سنگینیں تانے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سب حقوق معطل ہو جاتے ہیں۔ ہماری حیثیت زمین پر رینگنے والی چیونٹیوں جیسی ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی آگے بڑھ کر اپنا راستہ چلنے کی کوشش کرے تو کچل دیا جاتا ہے۔ بیمار اب بھی رکی ہوئی ٹریفک میں دم توڑ تے ہیں۔ حاملہ عورتیں گاڑیوں میں بچے جنم دے کر موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ دل کے مریض قے کرکے ہاتھ سینے پر رکھے روح کو جسم سے نکال دیتے ہیں۔ ہوائی اڈوں پر پہنچ کر جہاز پکڑنے والے یہیں رہ جاتے ہیں۔ کمرہ ¿ امتحان میں جانے والے طالبعلم غیر حاضر رہنے کی پاداش میں فیل کر دےئے جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ بھی نہیں۔ اصل اذیت وہ ذلّت ہے جو ہم لوگوں کے چہروں پر ملی جاتی ہے۔ فراٹے سے گزرنے والے یہ حکمران ہمارے ہی خون پسینے کی کمائی سے ان عالی شان سواریوں میں بیٹھے ہیں اور ہمیں ہی تزک و احتشام دکھا رہے ہیں۔ ہم غلاموں کی طرح راستوں پر کھڑے کر دےئے جاتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں ہم سولہویں صدی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمیں اس طرح روک کر رکھا جاتا ہے جیسے ہم ریوڑ کے جانور ہوں۔ انسانیت کی اس سے زیادہ تذلیل نہیں ہو سکتی۔“

Facebook.com/izharulhaq.net

Friday, October 19, 2012

شہرِ لاہور! تری رونقیں دائم آباد

میاں محمد شہبازشریف صاحب سے دشمنی ہے نہ چوہدری پرویز الٰہی صاحب سے دوستی۔ آج تک ملاقات

ہوئی نہ خدشہ ہے۔ شعر پامال ہے لیکن کارآمد ہے

حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی

نہ ان کی دشمنی اچھی، نہ ان کی دوستی اچھی

احمد جاوید نے کہ تصو ّف کی نذر ہو گئے، اس موضوع کو مزید نکھارا ہے

اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفیل سے

لنگر سے روٹی لیتے ہیں پانی سبیل سے

اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر

دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے

جناب شہبازشریف نے لاہور پر اپنی ساری محبت نچھاور کر دی ہے۔ اس محبت میں وسائل بھی شامل ہیں۔ لاہور ان کے لئے وہی مقام رکھتا ہے جو تیمور کے لئے سمرقند رکھتا تھا۔ تیمور نے بھی جو کچھ مفتوحہ شہروں سے ملا، سمرقند پر نچھاور کر دیا۔ پوری سلطنت سے معمار، نقاش، شیشہ گر اور زین ساز سمرقند میں اکٹھے کر لیے۔ لاہور بھی سمرقند کی طرح خوش بخت ہے۔ کہیں پل بن رہے ہیں اور کہیں شاہراہیں۔ معمار اور کاریگر رات دن کام کر رہے ہیں۔ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ لاہور کی محبت میں صوبے بھر کے وسائل کا معتدبہ حصہ لاہور پر خرچ ہونے لگا ہے۔ جناب حسن نثار نے لکھا ہے کہ سستی روٹی سکیم پر دی گئی مجموعی سبسڈی کا 45 فیصد صرف لاہور میں خرچ کیا گیا۔ میٹرو بس سروس بھی لاہور ہی میں چلائی جا رہی ہے۔ اس سارے عرصہ میں جب لاہور میں بیسیوں منصوبے مکمل ہوئے، راولپنڈی میں صرف ایک اوور ہیڈ پل (چاندنی چوک پر) بنا۔ ایک اور سکستھ روڈ پر اب آغاز ہو رہا ہے۔ صوبے کے دوسرے علاقے‘ وزیراعلیٰ کو شاعر کی زبان میں پکار پکار کر کہہ رہے ہیں

ترے کچھ گدا بھی ہیں فاختائیں بھی ہیں تری

ترے شاہ اور ترے شاہباز سدا رہیں

پنجاب کے باقی حصے ایڑیاں اٹھا اٹھا کر جناب وزیراعلیٰ کی نظرِ کرم کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن جناب وزیراعلیٰ کی ساری توجہ اپنے شہر پر ہے۔ بقول ظفر اقبال

ہم اُس کے، وہ ہور کسی کا، پکّی پختہ ڈوری

اپنا دل اپنا مذہب، کیا جھگڑا چوں چناں کا

ایسے میں چوہدری پرویز الٰہی کا یہ کہنا کہ کس آئین میں لکھا ہے کہ صرف رائے ونڈ اور لاہور ہی میں ترقیاتی کام کروائے جائیں اور یہ کہ کیا دیگر 36 اضلاع میں لوگ نہیں بستے؟ کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا ہوگا لیکن سچی بات یہ ہے کہ صوبے کے باقی اضلاع نے اس پر سر اثبات میں ہلایا ہوگا۔ ایسی ہی صورت حال ہوتی ہے‘ جب محروم التفات علاقے نئے صوبوں کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ اگر ہمارے سیاست دان دور اندیش ہوں تو ایسے مطالبوں کی پیش بندی اپنی پالیسیوں سے کریں نہ کہ بیانات سے۔

پنجاب کی حکومت وقت جو تغافل دوسرے اضلاع سے برت رہی ہے، اس کا ایک تجربہ اس کالم نگار کے ذاتی علم میں بھی ہے۔ ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ میں ایک گاﺅں جھنڈیال ہے۔ موجودہ حکومت سے پہلے ضلعی حکومتوں کا نظام تھا۔ اس وقت کی ضلعی حکومت نے اس گاﺅں کے لئے ڈسپنسری منظور کی۔ گاﺅں کے محل وقوع کی وجہ سے اردگرد کے دیہات نے بھی اسی ڈسپنسری سے رجوع کرنا تھا۔ گاﺅں کے ایک صاحب حیثیت شخص سردار تاج محمد خان نے چار کنال اراضی اس مقصد کے لئے ضلعی حکومت کے نام کی اور اس کا باقاعدہ انتقال بھی ہو گیا۔ ابھی بجٹ مختص ہونے کے مراحل طے ہو رہے تھے کہ ضلعی حکومتوں کی بساط الٹ گئی اور مسلم لیگ نون کی حکومت نے صوبے کا انتظام سنبھال لیا۔ وہ دن اور آج کا دن۔ یہ ڈسپنسری نہیں بن رہی۔

تین سال ہوئے اس کالم نگار نے اپنے کالم میں جناب وزیراعلیٰ سے دست بستہ گزارش کی کہ

گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ براندازِ چمن! کچھ تو ادھر بھی

کالم چھپا تو کالم نگار لاہور سے راولپنڈی کی طرف سفر کر رہا تھا۔ آدھے راستے میں پہلے تو ڈی سی او اٹک شکیل احمد صاحب کا فون آیا کہ ہم یہ کیس تلاش کر رہے ہیں۔ پھر کالم نگار کے چالیس سالہ پرانے دوست کا فون آیا جو وزیراعلیٰ کے پریس کے معاملات کے مدار المہام تھے۔ انہوں نے سرکاری دفاع میں ایک ایسی بات کہہ دی جو انہیں نہیں کہنی چاہئے تھی۔ اس بات کا ذکر اس لئے کرنا مناسب نہیں کہ ایک تو خلط مبحث کا اندیشہ ہے کہ اصل معاملہ چھپ ہی نہ جائے، دوسرے حسابِ دوستاں در دل! کچھ ہفتوں کے بعد ڈی سی او صاحب نے مطلع فرمایا کہ ڈسپنسری کے لئے مطلوبہ بجٹ کا کیس بنا کر لاہور بھیج دیا گیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے حاکمِ ضلع نے اس محروم التفات بستی کی ڈسپنسری کے لئے کتنا زرِ خطیر مانگا ہوگا؟ ایک کروڑ روپے؟ یا دو کروڑ؟ نہیں! صرف بیس لاکھ یعنی دو ملین روپے! اور یہ بھی چوتھا سال ختم ہونے کو ہے نہیں دےئے جا رہے!

سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم

بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے

لیکن یہاں تو پیاسے کو شبنم بھی نہیں مل رہی۔ یہ رقم ان اخراجات کا ہزارواں حصہ بھی نہیں جو صوبے کی مقتدر شخصیت کے لندن کے لاتعداد اسفار اور علاج معالجے پر صرف کیے جا رہے ہیں۔ یہ تو چند ٹکڑے ہیں جو لاہور میں بیٹھی حکومت نے اپنی میز سے پھینکنے تھے لیکن امیر تیمور کو سلطنت کے دوسرے حصوں کی پرواہ ہے نہ ہوش!

اس معاملے کے طے نہ ہونے کی تین ہی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ اس لئے تغافل برتا جا رہا ہے کہ ڈسپنسری کی منظوری مسلم لیگ (ق) کے ضلعی ناظم نے دی تھی۔ یا اس لئے کہ بدقسمت بستی کا ایک ایسے کالم نگار سے تعلق ہے جو حکومت پر تنقید کرتا رہتا ہے (جن پر تنقید کی جائے وہ تنقید کو کبھی تعمیری قرار نہیں دیتے)۔ خدا کرے ان دونوں
وجوہ کا وجود نہ ہو۔ تیسری وجہ ایک ہی رہ جاتی ہے، نااہلی اور نظام کی خرابی! جس کا دائرہ کار صوبے کے چیف سیکرٹری کے زیر نگرانی ہے۔ چیف سیکرٹری صاحب ایک تو چیف سیکرٹری ہیں، دوسرے جنوبی پنجاب کے سردار ہیں۔ یعنی دو آتشہ، ان تک رسائی مشکل نہیں ناممکن ہے۔ انہیں بیرون ملک سے بھی ٹیلی فون کیا۔ ان اہلکاروں کے نام بھی نوٹ کر لیے جنہوں نے ٹیلی فون سنا اور وعدہ کیا کہ رنگ بیک کرائیں گے۔ لیکن پنجاب میں پٹواری اور ایس ایچ او سائل کا فون نہیں سنتا، چیف سیکرٹری تو بادشاہ ہے وہ بھی ایسا جس کے تخت کے نیچے پایوں کے بجائے‘ صوبے کے غریب اضلاع کھڑے ہیں۔

اسی پاکستان میں صوبہ خیبر پختون خواہ ہے جس کی روایت اتنی عالیشان ہے کہ صوبے کا چیف سیکرٹری، جو کوئی بھی ہو، ہر شخص کے لئے میسر ہے، ہر سائل کا فون خود سنتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے۔ یہ روایت اس  سرحدی صوبے میں بہت دیرینہ ہے۔ بیوروکریسی جس سطح کی بھی ہو، عام شہری سے ملاقات کرتی ہے اور کوئی پروٹوکول کوئی افسرانہ ذہنیت درمیان میں مانع نہیں ہوتی! ایک شاندار روایت وہاں یہ بھی ہے کہ ڈرائیور اور خدام دسترخوان پر ساتھ بیٹھتے ہیں۔ کاش ان روایات کی بنیاد پنجاب میں بھی پڑ جاتی!

بہرطور! ناصر کاظمی نے کہا تھا

شہرِ لاہور! تری رونقیں دائم آباد

ہم لاہور کے عاشق ہیں اور اس کی سلامتی کے لئے دعاگو، مگر ع لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر! کیا کیجے! ابن الحسن سید مرحوم کا شعر یاد آ گیا

خوبصورت بہت ہو تم لیکن

دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو

facebook.com/izharulhaq.net

Thursday, October 18, 2012

فضا بھی مقدس ہے اور زمین بھی

شمالی وزیرستان پرفوج کشی ایک لاحاصل مہم ہوگی اور کوئی کوتاہ اندیش ڈرون حملوں کے حق میں ہے تو وہ ملک کی سالمیت گروی رکھنے کا حامی ہے!

پاکستانی عساکر کوشمالی وزیرستان میں جھونکنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ اس لیے کہ اتحادیوں کی افواج قاہرہ ان علاقوں میں امن قائم کرنے میں بدستور ناکام ہیں‘ جو شمالی وزیرستان کی سرحد کے پار افغانستان میں واقع ہیں۔ مولانا فضل اللہ اور اس کے ساتھی افغانستان میں کمین گاہیں بناکر بیٹھے ہوئے ہیں اور پاکستان میں مسلسل دراندازی کررہے ہیں۔ کافرستان کی سیرگاہیں غیرمحفوظ ہوچکی ہیں۔ وہاں اب کسانوں اور چرواہوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ سرحدیں پامال ہورہی ہیں۔ پاکستان کے مسلسل احتجاج کے باوجود امریکہ اور نیٹو کے لشکر صورت حال کو جوں کا توں رکھ رہے ہیں۔ نیچے جنوب میں ان علاقوں میں جو شمالی وزیرستان سے متصل ہیں، نیٹو کے ٹینک غلبہ پانے میں بدستور ناکام ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان سے لشکر کشی کا مطالبہ دھاندلی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ایک دلدل ہے جس میں پاکستانی فوج اتر گئی تو نکلنا مشکل ہوگا اور غالباً مطالبہ کرنے والوں کا مطلوب و مقصود بھی یہی ہے۔

اور ڈرون حملے؟ اگر ان حملوں کے نتیجہ میں دہشت گرد مارے جارہے ہیں تو آخر میڈیا کو وہاں کیوں نہیں جانے دیا جارہا ؟ لیکن اصل مسئلہ ہماری فضاﺅں کی حرمت کا ہے۔ کسی غیرملکی طاقت کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ پاکستان کی حدود کے اندر دندناتی پھرے۔ جس طرح بھارت ہماری مشرقی فضاﺅں میں نہیں داخل ہوسکتا بالکل اسی طرح مغرب میں بھی کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

پاکستان کی فضائیں مقدس ہیں۔ بالکل اسی طرح پاکستان کی زمین کا ایک ایک انچ مقدس ہے اور ہمارا اپنا ہے۔ ہم کسی امریکی کسی افغان اور نیٹو کے کسی اطالوی‘ جرمن یا ہسپانوی سپاہی کو پاکستان کی سرزمین پر قدم دھرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ بالکل اسی طرح ہم کسی عرب، کسی ازبک اور کسی چیچین کو بھی اپنی سرزمین کا تقدس پامال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ آخر کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ قانونی اجازت نامے کے بغیر ہماری سرزمین میں گھس آئے۔ یہاں رہنا شروع کردے۔ مسلح ہوکرعسکری سرگرمیاں شروع کردے اور ہماری حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے لگے۔

افسوس ہے ان قلم کاروں پر جو پاکستانی فضاﺅں کی تقدیس پر تو الفاظ کے دریا بہا دیتے ہیں لیکن پاکستانی زمین کی حرمت پر لکھتے ہوئے ان کا سانس پھول جاتا ہے۔ کیسے محب وطن ہیں جو اپنی سرزمین غیرملکیوں کے حوالے کردینے پر تیار ہیں۔ مسلح غیرملکی ہمارے علاقوں میں آبادکاری کرنے لگ جائیں ، ہمارے لوگوں کو یرغمال بنالیں، ان پر تسلط قائم کرنے لگ جائیں اور پاکستانی اس پر تشویش کا اظہار نہ کریں، کتنی عجیب بات ہے!

ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پاکستان اسلامی مملکت ہے اس لئے دنیا بھر کے مسلمان یہاں آسکتے ہیں بالکل درست دلیل ہے۔ ضرور آئیں۔ سرآنکھوں پر ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں

درین  خانہ  ہر کس  کہ  پا می  نہد

قدم  بر سر و چشم  ما  می       نہد

اس گھر میں جوکوئی پاﺅں رکھتا ہے، وہ ہمارے سراور آنکھوں پر رکھتا ہے ۔ہم تو وہ ہیں جو اپنے مہمان سے اس
طرح مخاطب ہوتے ہیں

یا   ضیفنا   لو  زُرتنا     لوجدتنا
نحن الضّیوف  وانت رب المنزل 
اے مہمان! تو اگر ہمارے ہاں آتا تو تجھے معلوم ہوتا کہ ہم تو خود مہمان بن جاتے ہیں اور مہمان کو گھر کا مالک بنادیتے ہیں!

لیکن اگر کوئی مسلمان بھائی آنا چاہتا ہے تو سامنے کے دروازے سے آئے‘ پچھواڑے کی دیوار سے چھلانگ لگاکر نہ آئے۔ ہمارے قانون کی پابندی کرے اور وہ دستاویزات دکھائے جو سرحد پار کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔

اہم ترین اسلامی ملک سعودی عرب ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیا وہاں کوئی مسلمان سفری دستاویزات کے بغیر اندر آسکتا ہے؟ کیا وہاں مسلح لوگوں کو اجازت دی جارہی ہے کہ وہ سرحدی علاقوں میں حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے پھریں؟ کیا وہاں جہاد کے لئے نجی لشکروں کی حوصلے افزائی کی جاتی ہے؟ مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے قبضہ سے آزاد کرانا تو ہرمسلمان پر فرض ہے تو آخر جہادی لشکر سعودی عرب میں کیوں نہیں جمع ہوجاتے؟ اس لیے کہ ہرملک کے قوانین ہیں اور کوئی ملک اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کے قوانین کو پامال کرکے لوگ سرحدیں پھلانگنا شروع کردیں اور اسلحہ کے زورپر حکومت وقت کو چیلنج کرنے لگ جائیں ۔ سعودی عرب میں تو تبلیغی جماعت کے وفود بھی نہیں جاسکتے۔ کیا اس بنیاد پر آج تک کسی عالم دین نے سعودی حکومت کے خلاف کوئی فتویٰ دیا ہے؟ نہیں! اس لئے کہ یہ سعودی حکومت کی اپنی صوابدید ہے۔ جس کو چاہے اپنے ملک کے اندر آنے کی اجازت دے۔ جس کو چاہے روک لے۔ چند سال پہلے پاکستان کی ایک ”تنظیم“ نے متحدہ عرب امارات میں، ایک گھر کے اندر، درس قرآن کا سلسلہ شروع کرنے کی کوشش کی۔ وہاں کی حکومت کے کارندے اس سرگرمی کے ذمہ دار افراد کو اس گھر سے سیدھا ایئرپورٹ پر لائے اور ملک سے نکال دیا۔ ان کا قانون یہ ہے کہ درس اور وعظ کے لئے مسجدیں بنائی گئی ہیں۔ ان مسجدوں میں سرکارکی طرف سے واعظ، خطیب اور علما مقرر ہیں۔ کسی کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ یہ سلسلے گھروں میں شروع کردے۔ یہ کالم نگار عینی شاہد ہے کہ ملائشیامیںحکومت کی اجازت کے بغیر کوئی قرآن پاک نہیں پڑھا سکتا‘ یہاں تک کے اپنے گھر میں بھی نہیں۔ بچے صرف ان اساتذہ سے کلام پاک پڑھنا سیکھ سکتے ہیں جنہیں حکومت کی طرف سے لائسنس ملا ہوا ہے۔

یواے ای اور ملائیشیا کی بات چل نکلی ہے تو یہ بھی عرض کردیا جائے کہ ان سارے ملکوں میں، اور ترکی میں بھی، مسجدیں نجی شعبے کی تحویل میں نہیں۔ بلکہ ریاست کی تحویل میں ہیں۔ آئمہ اور خطیب حکومت کی طرف سے مقرر ہوتے ہیں۔ انہیں موضوعات بھی ہدایت کیے جاتے ہیں۔ کسی کو اجازت نہیں کہ فرقہ واریت پھیلائے۔ دوسروں کے عقیدے پر طعن و تشنیع کرے یا من گھڑت داستانیں مذہب کے نام پر سناتا پھرے۔ نہ ہی حکومت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ باپ رخصت ہوتو بیٹا مسجد کو وراثت کے طورپر سنبھال لے۔ یہ تو صرف ہمارے ملک میں ہورہا ہے کہ مسجدیں خاندانوں کے لئے وقف ہوکر رہ گئی ہیں اور مختلف مسالک‘ مسجدیں فتح کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں! اگر ایک طریق کار سعودی عرب، متحدہ امارات ، ترکی اور ملائشیا میں رائج ہے اور اس پر کسی عالم دین کو اعتراض نہیں تو پاکستان میں کیوں رائج نہیں ہوسکتا!

پاکستان کی فضا مقدس ہے۔ کسی ڈرون کو اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان کی زمین بھی مقدس ہے۔ کسی غیر ملکی کو، خواہ وہ سفید فام ہے یا گندمی رنگ رکھتا ہے، یا زرد ہے یا سیاہ چمڑی والا ہے، پاکستان کی زمین پر، قانونی دستاویزات کے بغیر، قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی!

Tuesday, October 16, 2012

مقناطیس اور دھات کے بکھرے ذرّے

سابق وزیراعظم کے صاحبزادے نے وزیر مملکت بننے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ توقع کر رہے تھے کہ انہیں مکمل وفاقی وزیر کا عہدہ پیش کیا جائے گا۔

نیو ساﺅتھ ویلز آسٹریلیا کی ریاست ہے، سڈنی جس کا صدر مقام ہے۔ وہاں ایک وزیر کو اس لئے مستعفی ہونا پڑا کہ اس نے سرکاری لیٹر پیڈ پر ایک سفارشی چٹھی لکھ دی تھی۔ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ اس کے صاحبزادے کو وزارت کی پیشکش کی جائے گی؟

حیرت ہے ان دوستوں پر جو کبھی زلزلے کو عذاب کہتے ہیں اور کبھی ڈرون حملوں کو.... یہ تو آزمائشیں ہیں۔ عذاب تو ان پر اترے گا جو حملے کر رہے ہیں اور کروا رہے ہیں۔ لیکن جو عذاب اترا ہوا ہے اس کی کسی کو پروا نہیں۔ برائی کو قبول کر لیا گیا ہے۔ اس کی ساری آلودگیوں اور تمام مضمرات کے ساتھ! کون سی بہتی گنگا ہے جس میں سابق وزیراعظم نے ہاتھ نہیں دھوئے۔ اپنے من پسند، داغدار شہرت رکھنے والے افسروں کو تعینات کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے مسلسل گتکا کھیلتے رہے۔ حج کے نام پر کیا نہیں ہوا۔ بھارت، خلیج اور برطانیہ کے اخبارات میں ڈیزائنر سوٹوں سے بھرے ہوئے کارٹنوں اور ٹرکوں کی کہانیاں شائع ہوتی رہیں‘ جو ڈیفنس لاہور کے گھروں میں سامان اتارتے رہے۔ پھر ایفی ڈرین کا کیس جسے مذاق بنا دیا گیا۔ اخبارات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اربوں روپے کمائے گئے۔ اسّی ارب کا ہندسہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ کہاں وہ وقت کہ گھر کا خرچ چلانے کے لئے دستی گھڑی فروخت کرنا پڑی اور کہاں یہ بیش بہا ملبوسات جو دوسری بار پہنے جانے کے الزام سے بری تھے! لیکن قوم یہ سب کچھ قبول کر چکی ہے۔ صدر اور وزیراعظم نے تو سابق وزیراعظم کی تالیف قلب کرنا ہی تھی کہ ایک ہی طبقہ ہے اور حمام میں سب ننگے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ عوام نے جانتے بوجھتے ہوئے ان کے صاحبزادوں کو منتخب کیا۔ وہی عوام جنہوں نے جعلی ڈگریاں رکھنے والے نااہل امیدواروں کو دوبارہ چن لیا!

انسان ورطئہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے اور عوام کے رویے کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے یہ اٹھارہ کروڑ دھات کے ذرّے ہیں جنہیں کوئی بھی ہاتھ، مقناطیس پکڑ کر، اکٹھا کر سکتا ہے۔ بے روزگاری اور گرانی کے مارے ہوئے ہجوم کہیں کا بھی رخ کر سکتے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کے جلسے ہیں تو وہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر دکھاتے پھرتے ہیں۔ ان جلسوں کے سٹیج سے وہ سابق وزیر بھی ڈرون حملوں کے خلاف شعلہ فشاں تقریریں کر رہے ہیں جو دس سال تک کابینہ میں بیٹھ کر ڈرون حملوں کی تائید کرتے رہے، فیصلوں پر صاد کرتے رہے اور میڈیا پر ان کا بھرپور دفاع کرتے رہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ اب کس منہ سے مخالفت کر رہے ہیں۔

تھا جو نا خُوب، بتدریج وہی خُوب ہُوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

کوئی نہیں پوچھتا کہ دوسروں کے بچوں کو شہادت کا شوق دلوانے والوں کے اپنے لخت ہائے جگر، ناز و نعمت کے نہاں خانوں میں بیٹھ کر کاروبار چلا رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ جنگ کا ہنر رکھنے والے محاذ پر کیوں نہیں جاتے؟ شہادت بہت بڑا انعام ہے۔ مومن کا مقصود اور مطلوب ہے۔ تو میدان جنگ کے بجائے جلسہ ہائے عام کے مورچے کیوں؟ امریکیوں اور نیٹو کے خلاف جان کی بازی لگانے والے تو سرحد پار ہیں۔ وہاں جانے سے کون منع کر رہا ہے؟

عوام کی فراغت اور ساتھ ہی بے بسی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سکھر میں جے یو آئی (ف) کے جلسے کو تاریخی اجتماع قرار دیا گیا ہے۔ وہی ہاتھ میں مقناطیس اور وہی دھات کے بکھرے ہوئے ذرّے جو بھاگے چلے آتے ہیں۔ اندھی عقیدت کی افیون کھائے ہوئے عوام! نشے میں جھومتے! کسی کے پاس منطق ہے نہ دلیل۔ ناخواندگی اور لاعلمی کے دبیز کُہرے میں لپٹے ہوئے! اگر ایسا نہ ہوتا تو مولانا فضل الرحمن یہ کہتے ہوئے سو بار سوچتے کہ حکومت کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں!

سعدی نے کہا تھا ع

یکے برسرِ شاخ و بُن می برید

ایک شخص جس شاخ پر بیٹھا تھا، اسی کی بنیاد کاٹ رہا تھا۔ مولانا کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ کشمیر ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔ پوری خارجہ پالیسی اس کے گرد گھومتی ہے۔ اگر خارجہ پالیسی کا کوئی وجود ہی نہیں تو آپ اس کمیٹی کے سربراہ کیوں ہیں؟ استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ کیا قوم کو بتایا جائے گا کہ آج تک مولانا کو اس حیثیت میں پروٹوکول دینے پر، افرادی قوت پر اور گاڑیوں پر ملکی خزانے کا کتنا حصہ خرچ ہو چکا ہے۔ کتنے غیر ملکی دورے کئے گئے ہیں؟ کتنا زرمبادلہ صرف ہوا ہے؟

مولانا نے فرمایا ہے کہ امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ عوام کی بے بسی اور لاعلمی پر رحم ہی کیا جا سکتا ہے۔ غالباً اس ”تاریخی اجتماع“ میں ایک فی صد کو بھی وکی لیکس سے آشنائی نہ تھی! ابھی تواس خبر کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی!۔ امریکی سفیر سے مولانا نے التماس کی تھی کہ مجھے وزیراعظم بنواﺅ، پارلیمنٹ کو میں سنبھال لوں گا۔ پھر فرماتے ہیں کہ ملک کا ہاری جاگیردار کے شکنجے میں ہے۔ کوئی جسارت کرے تو پوچھے کہ حضرت! آپ ایک عرصہ سے پارلیمنٹ میں تشریف فرما ہیں۔ کتنے بل جاگیردارانہ نظام کے خلاف پیش کئے؟ کتنی دفعہ زرعی اصلاحات کا مسودہ آپ نے ترتیب دیا؟ لیکن انتہا درجے کی غیر منطقی بات مولانا نے مدارس کے بارے میں ارشاد فرمائی۔ ”آج مدارس کے آڈٹ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ہم سے پوچھا جا رہا ہے کہ مدارس میں کتنے طلبا ہیں؟ کتنے اخراجات ہیں؟ کہاں سے اخراجات آ جاتے ہیں؟ ہم ایسے لوگوں کو یہ تفصیلات کیوں بتائیں۔؟“

مولانا سے بصد احترام، دست بستہ، کوئی پوچھے کہ حضرت! یہ اعداد و شمار تو آپ حضرات کو خود ہی بتا دینے چاہئیں۔ ملک میں جتنی پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں، ان کے حسابات کی چارٹرڈ اکاﺅنٹینٹ کمپنیاں چھان بین کرتی ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی بھی ایک ایک پائی کا حساب ہوتا ہے۔ آخر مدارس کا آڈٹ کیوں نہ ہو۔؟ ان مدارس میں پڑھانے والوں کا جس طرح استحصال ہو رہا ہے اور پڑھانے والوں کے مقابلے میں مدارس کے مالک حضرات اور ان کے صاحبزادگان جس معیار زندگی سے متمتع ہو رہے ہیں، اس کے بارے میں یہ کالم نگار ایک الگ مضمون لکھنا چاہتا ہے۔ یہ کہنا کہ طالبان ریاست کے اندر ریاست بنا رہے ہیں تو مدارس کے اعداد و شمار جمع کرنے والے بھی ریاست کے اندر ریاست بنائے بیٹھے ہیں۔ ایک کمزور دلیل ہے۔ اگر یہ مطالبہ ان کے سیاسی حریف الطاف حسین نے کیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ الطاف حسین واحد شخص ہیں جنہوں نے یہ سوال اٹھایا ہے۔ آخر ہمارے علماءکرام اپنے مدارس کا حساب کتاب منظرعام پر لانے سے کیوں انکار کرتے ہیں؟ کوئی وجہ تو ہوگی!

اس سے بھی زیادہ تعجب حافظ حسین احمد کی قافیہ آرائی پر ہوا ”سلالہ پر حملہ ہوا تو ملالہ پر بھی حملہ ہونا تھا۔“ مولانا حاضر جوابی کے لئے مشہور ہیں۔ لیکن یہاں مار کھا گئے۔ قافیہ مل گیا لیکن بات نہ بن سکی۔ ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا کہ آپ قاضی حسین احمد کے ساتھ ایک سٹیج پر تشریف فرما تھے۔ احمد ندیم قاسمی کا مصرع یاد آ گیا

کٹی پتنگ ہے ساری دنیا کی نظروں میں سمائی ہوئی

Sunday, October 14, 2012

تنبے کا درخت اور انجیر


ہم نے جوکچھ بویا وہی کاٹ رہے ہیں، تنبے کا درخت انجیر کا پھل نہیں دیتا۔

روسیوں کو وسط ایشیا ہڑپ کرنے میں دوسوسال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ ان کا پہلا ہدف خیوا تھا ۔ کتنی ہی مہمات اس برفانی راستے کی نذر ہوگئیں جو ماسکو سے خیوا تک بچھا ہوا ہے۔ ایک بار تو پوری فوج راستے میں ختم ہوگئی۔ ایسی ظالم سردی کہ ہاتھ یاپاﺅں برہنہ ہوتا تو جھڑ جاتا۔
 1860
میں روسیوں نے تاشقند پر قبضہ کرلیا۔ برطانوی ہندکو
صاف نظر آرہا تھاکہ روسی رکیں گے نہیں۔جنوب کی طرف بڑھیں گے۔ برطانوی جاسوس دریائے آمو کے پار پھیل گئے۔ کوئی جڑی بوٹیوں کی تلاش میں اور کوئی کسی اور بھیس میں۔ یہ گریٹ گیم تھی۔ برطانیہ کی کوشش کہ روس جنوب کی طرف نہ آئے اور روس کا ہدف کہ برطانیہ وسط ایشیا کے دروازے پر دستک نہ دینے لگے۔ جب روس نے سمرقند‘ بخارا اور ترمذ بھی چھین لیے تو برطانوی ہند نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی لیکن یکے بعد دیگرے کئی جنگی مہمات ناکام ہوئیں۔ ایسی ہی ایک مہم تھی جس میں کابل سے واپس آنے والی انگریزی فوج پوری کی پوری افغانوں نے نیست و نابود کردی۔ صرف ایک فوجی ڈاکٹر زندہ جلال آباد پہنچ سکا۔ تاریخ نے انگریزوں کو بھی سبق سکھایا اور روسیوں نے بھی نجات اسی میں سمجھی کہ افغانستان درمیانی (بفر) ریاست ہو۔ روسی افغانستان کے شمال پر رک جائیں اور انگریز طورخم اور چمن سے آگے نہ بڑھیں۔ لیکن انگریز روسیوں سے زیادہ سمجھدار تھے۔ انہوں نے برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان بھی محفوظ علاقوں کی ڈھال رکھ لی۔ ان علاقوں کو انہوں نے اندرونی خودمختاری دے دی۔ ان کے خوانین اور سرداروں کو خوش رکھنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ ان علاقوں میں وہ قوانین نافذ نہیں ہوں گے جو باقی ہندوستان میں جاری وساری تھے۔ یہ علاقے قبائلی علاقے کہلائے۔ انگریزوں کا مفاد اسی میں تھا کہ یہاں تعلیم ہو نہ روزگار۔ اور یہاں کے کھڑپینچ جو ملک اور خان کہلواتے تھے، اس رقم پر انحصار کریں جو انگریزی حکومت ”پولیٹیکل ایجنٹ“ کے ذریعے تقسیم کرتی تھی۔ اگر کبھی روس افغانستان پر چڑھ دوڑے تو یہ قبائلی علاقے افغانستان اور برطانوی ہندکے درمیان غیرجانبدار پٹی کا کام دیں!
قسیم ہوئی۔ پاکستان بن گیا۔ اس کے بعد جوکچھ ہوا وہ کوتاہ اندیشی کی بدترین مثال ہے۔ وژن ناپیدا تھا ۔ اوپر سے نااہلی اور کرپشن۔ نتیجہ وہ نکلا جو آج اہل پاکستان بھگت رہے ہیں۔ جو بویا تھا، کاٹا جارہا ہے۔ تنبے کے درخت پر انجیر کا پھل نہیں لگتا۔
پینسٹھ سال۔ نصف صدی اور پندرہ سال اس کے اوپر۔ یہ کم مدت نہیں۔ بیس سال میں چین نے پوری دنیا کی منڈیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ سنگاپور اور ملائشیا نے قیام پاکستان کے بعدانگڑائی لی اور آج ان کا شمار باعزت قوموں میں ہورہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی کمپنیاں امریکی بزنس کے لئے بولی دے رہی ہیں اور جیت رہی ہیں۔ نصف صدی اور پندرہ سال اس سے بھی زیادہ! پاکستان نے مظلوم قبائلی علاقوں میں وہی پالیسی جاری رکھی جو غاصب اور دشمن انگریز نے بنائی تھی۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ ان کے خوانین میں روپیہ بانٹو۔ انہیں تعلیم کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں سمگلنگ کرنے دو۔
کراچی لاہور پشاور میں دھڑا دھڑ سکول کالج بننے لگے۔ کارخانے لگنے لگے۔ ان سکولوں کالجوں سے فارغ التحصیل ہونے والی لڑکیاں اور لڑکے آکسفورڈ اور ہارورڈ پہنچ گئے۔ کچھ واپس آئے۔ جو وہیں بس گئے انہوں نے اپنے اعزہ اور احباب کو بھی بلالیا۔ ایک سلسلہ چل نکلا۔ مگر قبائلی جہاں تھے وہیں رہے۔ آخر کتنے پشاور اور لاہور جاسکتے تھے؟ برائے نام۔ بالکل انگلیوں پر گنے جانے والے۔ اکثریت اپنے خشک پہاڑوں پر ہی رہی۔ جب پشاور لاہور اور کراچی کے بچے کیلکولیٹر سے لیپ ٹاپ تک کا سفر طے کررہے تھے، قبائلیوں کے بچے غلیل اور بندوق سے آگے نہ
بڑھ سکے۔ کیا اس سے زیادہ شرمناک حقیقت کوئی اور ہوسکتی ہے کہ شمالی وزیرستان جنوبی وزیرستان، خیبر، باجوڑ، مہمند ۔کہیں کوئی یونیورسٹی نہیں۔ کوئی کارخانہ نہیں۔ حیااور عقل سے عاری لوگ جو لاہور کراچی اور اسلام آباد میں شاپنگ مال اور محلات اور یونیورسٹیاں اور صنعتی زون بنانے میں لگے رہے، یہ نہ سمجھ سکے کہ قبائلی ایک دن ایسی پالیسی کا انتقام لیں گے۔ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ خشک پہاڑوں، غلیلوں اور بندوقوں سے، پولیٹیکل ایجنٹوں کے تقسیم کردہ روپے سے اور ان پڑھ اور راشی خوانین کی آمریت سے بیت اللہ محسود ہی پیدا ہوتے ہیں۔ برٹرنڈر رسل نہیں پیدا ہوتے۔ آج ہم نے آسمان سرپر اٹھا یا ہوا ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔ یہ حملہ آور‘ یہ مولانا فضل اللہ ہماری اپنی پالیسیوں کی پیداوار ہیں۔ ہم نے جتنی توجہ ساٹھ سال میں کراچی اور لاہور پر دی، اس کا نصف بھی سوات پر دیتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔ اس سارے عرصہ میں سوات میں کتنی یونیورسٹیاں بنیں؟ایک بھی نہیں! جن عورتوں کو ہم نے جہالت کے غلاف میں لپیٹ کر رکھا، انہوں نے اس مولانا فضل اللہ کے قدموں میں زیورات ڈھیر ہی کرنے تھے جس نے سکول کالج کی شکل ہی نہیں دیکھی تھی اور مدرسہ میں بھی ایک دوسال ہی پڑھا تھا !
کل کو اگر جنوبی پنجاب میں نئے فضل اللہ اور نئے محسود پیدا ہوتے ہیں اور وہاں کی ملالہ یوسف زئیوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں توتعجب کیسا! غربت کا یہ عالم ہے کہ ماں باپ تین تین چار چار سال کے بچوں کو دوڑنے والے اونٹوں پر باندھے جانے کے لئے مشرق وسطیٰ بھیج دیتے ہیں۔ ساٹھ فی صد سے زیادہ آبادی ہیپی ٹائٹس بی اور سی کا شکار ہے۔ تہمینہ درانی نے لکھا ہے کہ جاگیردار نوکروں کو قتل کرکے ان کے جسم دیگوں میں پکا کر اونٹوں کو کھلا دیتے ہیں۔ گیلانی قریشی کھوسے مزاری لغاری اسی سامراجی ذہنیت سے حکومت کررہے ہیں‘ جس سے کرزن اور ہیٹنگز نے کی تھی۔ ملتان سے لے کر بہاولپور تک۔ ڈیرہ غازی خان، کوٹ ادو ، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ساٹھ سالوں میں کتنے کالج اور کتنی یونیورسٹیاں بنی ہیں؟ خواندگی اور تعلیم میں کس شرح سے اضافہ ہوا ہے؟ ہاں بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ اور بچوں اور عورتوں کی شرح اموات میں بھی اور ان مدارس کی تعداد میں بھی جہاں غربت کے مارے ہوئے بے بس بے کس والدین اپنے لخت ہائے جگر کو چھوڑ جاتے ہیں، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ خواہ وہاں سے وہ عالم بن کر نکلیں یا نیم تعلیم یافتہ ملا یا خودکش بمبار!
جس ملک میں کچھ ملزم منتخب اداروں میں جابیٹھیں اور کچھ ملزموں کو بے گناہی ثابت کرنے کے لئے جلتے انگاروں پر چلنا پڑے اور جس ملک میں کچھ لڑکیوں کو حق حکمرانی ورثے میں ملے اور کچھ کو ونی کردیا جائے، وہاں فضل اللہ اور بیت اللہ محسود ہی پیدا ہوتے ہیں اور وہاں کی ملالہ یوسف زئیوں کے سروں میں گولیاں ہی اترتی ہیں۔

Friday, October 12, 2012

ملالہ پر حملہ ۔ صرف مذمت یا اسباب کا تعیّن بھی ؟؟


ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ہوا میں نہیں ہوا۔ اس ملک کی زمین پر ہوا ہے۔ حملہ کرنے والے اچانک غیب سے نمودار نہیں ہوئے، ان کی موجودگی اور ان کے خیالات سے ہر شخص آگاہ ہے۔ یہ واقعہ افسوسناک تو ہے ہی، اس کے بعد جو کچھ ہورہا ہے عبرت ناک بھی ہے۔ مذمت کا ایک سیلاب ہے جو ہر طرف بہہ نکلا ہے لیکن اس واقعہ کے اسباب کی طرف کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کررہا۔ اکثر مذمتی بیانات‘ سیاسی اور نمائشی ہیں۔

یہ واقعہ تین حقیقتوں کی طرف نشاندہی کررہا ہے۔ تین برہنہ اور تلخ حقیقتیں!! افسوس! کچھ حضرات کو ان حقیقتوں کا بخوبی ادراک ہے لیکن وہ .... بوجوہ منقار زیر پر ہیں۔

اول۔ اس ملک میں نہ صرف یہ کہ دو مختلف نظام ہائے تعلیم چل رہے ہیں بلکہ ان کے نتیجہ کے طور پر دو مختلف ثقافتیں، دو مختلف طرز ہائے زندگی اور مذہب کے حوالے سے دو یکسر مختلف گروہ ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہیں۔ ان دو گروہوں کا لباس، رہنے سہنے کا طریقہ، انداز گفتگو، زیر مطالعہ اخبارات سب کچھ مختلف ہے۔ یہ بعُد المشرقین ہے‘ جس کے دور ہونے کی کوئی صورت ہے نہ امکان۔ آپ اس بچے کو ذہن میں رکھیے جو پانچ یا سات سال کی عمر میں ایک مدرسہ میں داخل ہوتاہے۔ یہ مدرسہ اقامتی
 (Residential)
ہے یعنی یہاں وہ رات دن رہے گا۔ یہ مدرسہ ایک خاص مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے ملحقہ مسجد بھی، قدرتی طور پر، اسی مکتب فکر کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بچے اگلے آٹھ نو سال تک اس مکتب فکر کے نمائندوں کے علاوہ اور کسی سے درس لے گا نہ اس کا ملنا جلنا دوسرے لوگوں سے ہوگا۔ آٹھ نو سال کا عرصہ کم عرصہ نہیں۔ یہ تقریباً ایک سو مہینے کا عرصہ ہے اور اس کے تین ہزار دن بنتے ہیں اس کا کھانا پینا سونا جاگنا سب اور تفریح جو کچھ بھی ہے‘ اسی مکتب فکر ہی کے حوالے سے ہے۔

یہاں سے فارغ ہو کر وہ باہر کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو اسے دو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا سامنا ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جو اس کے مکتب فکر سے نہیں بلکہ کسی اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسے آٹھ سال کے دوران یہ مسلسل بتایا جاتا رہا ہے کہ صرف اس کا مکتب فکر حق پر ہے اور باقی مکاتب باطل ہیں۔ پھر عملی زندگی میں اب اس کی مڈبھیڑ ایسے لوگوں سے بھی ہونے لگتی ہے جو بظاہر مذہبی لگتے ہی نہیں۔ وہ باریش نہیں، پتلون پہنتے ہیں، انگریزی لکھتے اور بولتے ہیں اور ان کے نزدیک سماجی میل جول میں کسی دوسرے مکتب فکر سے تعلق رکھنا کوئی عیب نہیں۔ مدرسہ سے فارغ ہو کر عملی زندگی میں داخل ہونے والا شخص ان ”اجنبی“ گروہوں کو دل سے تسلیم نہیں کرتا نہ ہی وہ کرسکتا ہے۔ آٹھ سالہ طویل تعلیم و تربیت نے ان گروہوں کو برداشت کرنے کی تلقین ہی نہیں کی۔

دوم: ان مدارس میں سے ایک مخصوص مکتب فکر کے مدارس کو جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں افغان جہاد کے حوالے سے عسکری تربیت دی گئی اور مسلح کیا گیا۔ روسی چلے گئے پھرکشمیر کے جہاد کا سلسلہ چل نکلا۔ یوں میدان کار زار اور حرب و ضرب کا ذائقہ ان جہادیوں کے رگ و پے میں داخل ہوگیا۔ برسر پیکار رہنا ان کی سرشت کا حصہ بن گیا۔ بظاہر غیرمذہبی لوگ اور دوسرے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد ذہنی طور پر ناقابل قبول تو تھے ہی، اسلحہ نے اس نفرت کو نیا رنگ دے دیا۔ حربی پس منظر کی وجہ سے یہ ممکن ہوگیا کہ مخالف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے کو گولی مار دی جائے اور وہ جو بظاہر غیر مذہبی لگتے ہیں، پتلون پہنتے ہیں اور انگریزی ذریعہ تعلیم کی پیداوار ہیں انہیں بھی اسلحہ کے زور پر ختم کردیا جائے۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں مزاروں پر حملے ہوئے، مخالف مکتب فکر کے مذہبی رہنما کی لاش قبر سے نکال کر لٹکا دی گئی، کوئٹہ اور چلاس میں دوسرے مکتب فکر کے پیروکاروں کو قتل کیا جانے لگا۔ پشاور میں وارننگ جاری کی گئی کہ کوئی شخص پتلون میں ملبوس نہ نظر آئے۔

اس دوسرے نکتے میں ایک نیا ضمنی نکتہ در آتا ہے اور وہ یہ کہ جارح مکتب فکر کے علم برداروں میں ایک لسانی اکائی نظر آتی ہے۔ مولانا صوفی محمد نے سوات میں ہزاروں کے مجمع سے حلف لیا کہ وہ آئندہ صرف سیاہ رنگ کی پگڑی پہنیں گے۔ ٹوپی والے برقع (شٹل کاک) کو خالص اسلامی پردے کا نام دیا گیا۔ مخصوص مکتب فکر اور مخصوص لسانی ثقافت.... یوں معاملات پیچیدہ تر ہوگئے!

تیسری حقیقت جس کی طرف یہ قاتلانہ حملہ اشارہ کرتا ہے، بہت خوفناک ہے۔ اس مخصوص مکتب فکر کے سر خیل علماءکرام اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرسکے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سوات‘ وزیرستان اور ملک کے باقی حصوں میں واقع ہونے والی عسکری سرگرمیاں ایک مخصوص مکتب فکر کے دعویداروں کی طرف سے تھیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس مکتب فکر کے سےنئر علماءکرام، ان سرگرمیوں سے اعلان برا¿ت کرتے لیکن وہ خاموش رہے۔ یوں سوات کے مولانا فضل ا للہ اور وزیرستان کے بیت اللہ محسود اس مکتب فکر کے نمائندہ قرار پائے۔ یہ عسکری کمانڈر عالم نہ تھے۔اگر علماءکرام ان کی رہنمائی کرتے تو عین ممکن تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیاں، تعمیری نہ بھی ہوتیں تو اس درجہ ہلاکت خیز نہ ہوتیں۔ لیکن اس مکتب فکر کے علما نے حیرت انگیز خاموشی اپنے اوپر طاری کرلی۔ سارے پاکستان نے سنا کہ جب ٹیلیویژن پر مولانا تقی عثمانی صاحب سے دہشت گردی کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ فتنوں کا دور ہے اور اس میں خاموشی بہتر ہے؛ تاہم اس کے کچھ ہی عرصہ بعد کراچی کے جوڑیا بازار میں دہشت گردی ہوئی تویہ خاموشی ٹوٹ گئی اور برملا مذمت کی گئی۔ ملک کے باقی حصوں میں برپا ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر بھی یہی ردعمل اختیار کیا جاتا تو شاید حالات اس نہج پر نہ پہنچتے۔

اس مکتب فکر کی مسلح جارحیت کا ایک اور ردعمل یہ ہوا کہ دوسرا مکتب فکر بھی، جو روایتی طور پر غیر مسلح اور غیر جہادی رہا ہے، منظم اور مسلح ہونے لگا ہے۔ اب عقیدے کا اختلاف سیاست میں بھی در آنے لگا ہے۔ آپ اس صورت حال کا تصور کیجے‘ جب انتخابات میں ایک امیدوار سنی تحریک کا ہوگا، دوسرا سپاہ صحابہ کا، تیسرا تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا اور چوتھا تحریک طالبان کا!

ملالہ یوسف زئی پر حملہ ایک علامت ہے اس خلیج کا جو پاکستان کے دو گروہوں کے درمیان پائی جاتی ہے اور جو دن بدن وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ ایک گروہ پتلون اور انگریزی کو دشمنی کی نظر سے دیکھتا ہے اور لڑکیوں کی تعلیم کوبرداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ دوسرا گروہ پگڑی، داڑھی اور برقعہ کو اجنبی نظروں سے دیکھتا ہے اور اب ایک گروہ دوسرے گروہ کو اسلحہ کے زور پر ختم کرنا چاہتا ہے۔

کاش! آج اہل پاکستان کو‘ خاموش رہنے والے علماءکے بجائے سید سلمان ندویؒ جیسے علما ملتے۔ سید صاحب نے 1925
ء
میں جنوبی ہند کی ”اسلامی تعلیمی انجمن“ کی فرمائش پر مدراس میں آٹھ خطبے دیئے۔ یہ خطبے خطبات مدراس کے نام سے چھپے (ایک اینکر پرسن اسے بہ تکرار خطبات مدارس کہہ رہے تھے!) دیباچے میں سید سلمان ندوی لکھتے ہیں.... ”علماءپر آج انگریزی کا جاننا بھی فرض ہوگیا ہے۔ خدا کرے وہ دن آئے جب ہمارے علما خدا کا پیغام خدا کی بنائی ہوئی ہر زبان میں دنیا کو پہنچا سکیں۔“

اس تلقین کو ستاسی سال گزر گئے۔ آج ہمارے کتنے علما انگریزی زبان میں خطاب کرسکتے ہیں؟ شاید ایک فی صد بھی نہیں! تاہم جو مسلمان بچیاں اور بچے دوسری زبانیں پڑھنا چاہتے ہیں انہیں ختم کیا جانے لگا ہے!

Thursday, October 11, 2012

ایسانہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم

نون لیگ اور فضل الرحمن گروپ جتنا بھی زور لگا لیں ایک اعزاز عمران خان سے نہیں چھین سکتے۔ اور وہ ہے اس کا اب تک اقتدار میں نہ ہونا۔ کوئی مانے نہ مانے، عمران خان کے حمایتیوں کی کثیر تعدد ایک ہی بات کہتی ہے: سب کو آزما لیا ہے۔ عمران کو بھی موقع ملنا چاہیے۔ آخر آزمانے میں کیا حرج ہے؟

جولوگ پوچھ رہے ہیں کہ وزیرستان مارچ سے کیا حاصل ہوا۔ وہ یا تو بچے ہیں یا تجاہل عارفانہ کے عارضے میں مبتلا۔ اس مارچ سے اور کچھ حاصل ہوا ہو یا نہیں، پاکستانی سیاست کے ٹھہرے ہوئے پانی میں کوئی کنکر تو پڑا ہے اور کچھ دائرے تو بنے ہیں۔ ایک انگریزی معاصر کا دعویٰ ہے کہ جلوس چودہ کلومیٹر طویل تھا اور گاڑیوں کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ رہی یہ بات کہ شمالی وزیرستان کیوں نہیں گئے یا یہ اعتراض کہ قبائلی دستار کیوں اچھالی، تو یہ اس ہمیشہ منفی بات کرنے والی جھگڑالو عورت کے اعتراض کی طرح ہے جو بھرپور دعوت کے بعد خلال کرتے ہوئے تنقید کرتی ہے کہ کھانے میں نمک زیادہ تھا۔ جو حضرات شور برپا کررہے ہیں کہ پہلے شمالی وزیرستان کا کہا گیا تھا، کیا ان سے عمران خان نے شمالی وزیرستان جانے کا کوئی تحریری معاہدہ کیا تھا؟ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ایک علامتی مارچ تھا۔ دنیا کو ڈرون حملوں سے آگاہ کرنے کے لئے۔ اور ضمنی نکتہ اس میں یہ ثابت کرتا ہے کہ طالبان کے مخصوص علاقوں میں دوسری طاقتیں بھی جا سکتی ہیں۔ کچھ قلم کار حضرات نے یہ درست لکھا ہے کہ جلسے اس علاقے میں ہوتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں حالیہ جلسوں کی مثالیں بھی دی گئی ہیں جو اکرم خان درانی‘ مولانا عطاالرحمن اور ڈپٹی سپیکر کنڈی صاحب نے منعقد کیے ہیں۔ لیکن جلسے میں مقامی آبادی کو اکٹھا کرنا اور پورے پاکستان اور بیرون ملک سے مارچ کے شرکا کو اس علاقے میں لانا، دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

پمفلٹ بانٹ کر مارچ کے شرکا کو ڈرانے پر فضل الرحمن گروپ کو معاف کردینا چاہیے۔ ان کے یہ حیلے اور تدبیریں بالکل فطری تھیں۔ یہ علاقہ ان کی محفوظ جائے پناہ تھی۔ اگر عمران خان کے بجائے کوئی اور جماعت یا کوئی اور طاقت بھی اس محفوظ جائے پناہ کے اندر گھسنے کی کوشش کرتی تو ردعمل یہی ہونا تھا۔ اپنی اقلیم کی حفاظت کرنا ہر فرد اور ہر گروہ کا حق ہے۔ گزشتہ انتخابات میں نوجوان کنڈی نے مولانا کو چیلنج کیا۔ ابھی وہ مصیبت سر پر ہی ہے کہ اوپر سے عمران خان کئی ہزار لوگوں کے ساتھ، دندناتا ہوا، مولانا کی کچھار میں گھس آیا۔ اس بلائے بے درماں کو وہ یہود و ہنود کا نمائندہ نہ کہتے تو کیا کہتے۔ ویسے یہ یہودو ہنود والا نسخہ بھی لاجواب ہے۔ کچھ سال پہلے اسلام آباد کے ایک معروف صحافی نے جب یہ خبر دی تھی کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے گردو نواح میں کچھ زمینیں محکمہ دفاع سے ”حاصل“ کی گئی ہیں تو اس نمازی صحافی کو بھی یہودیوں کا ایجنٹ کہا گیا تھا! یہود و ہنود بہت برے ہیں۔ خدا انہیں غارت کرے لیکن اگر وزیراعظم بننے کیلئے امریکیوں کی منت سماجت کرنا پڑے تو یہ عمل غالباً فقہی اعتبار سے اضطراری ہوگا، اس لیے جائز ہے۔

پہلے بھی کہا ہے  ع

بارہا گفتہ ام و بار دگر می گویم

نظام گل سڑ چکا ہے۔ تعفن اتنا ہے کہ ناک پر کپڑا رکھ کر بھی چلنا مشکل ہے۔ ایسے میں خلق خدا کو عمران خان کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا۔ کیا اس نظام کو مولانا فضل الرحمن یا نوازشریف یا پیپلزپارٹی والے درست کریں گے؟ گویا بلّی دودھ کی حفاظت کرے گی اور بھیڑیئے ریوڑ کی رکھوالی کریں گے!

وفاق کی حالت یہ ہے کہ وفاقی حکومت کا وجود ہی کوئی نہیں۔ صرف ایک مثال سے اندازہ لگایئے کہ نظام کس طرح منہدم ہوچکا ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ موجود ہے۔ کروڑوں روپے تنخواہوں اور دفتروں پر ماہانہ خرچ ہورہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ سے چند کلومیٹر دور‘ شاہ پور کی بستی ہے جو اسلام آباد ضلع کا حصہ ہے۔ اس میں سڑکیں ناپید ہیں، مکین گڑھوں اور کھڈوں میں رہ رہے ہیں۔ چیف کمشنر اسلام آباد سڑک بنانے کا حکم دیتا ہے لیکن پتا تک نہیں ہلتا۔ کوئی نظام ہے نہ سسٹم۔ وفاقی حکومت کیا ہے۔ چند کھنڈر ہیں جن کے اوپر آرائش کرکے دفتروں کے بورڈ لگا دیئے گئے ہیں۔

دنیا کہاں جا پہنچی ہے اور اس ملک کے باشندوں کو کن تہہ خانوں میں رکھا جارہا ہے؟ کیا طلال بگتی سے بغل گیر ہونے والے نوازشریف کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ بگتی قبائل کے عام لوگ جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ تو کل کا واقعہ ہے کہ جرگے نے سات کم سن معصوم بچیوں کو ونی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اس جرگے کی صدارت ایک بگتی سردار نے کی‘ جو بلوچستان اسمبلی کا رکن بھی ہے۔ کیا یہ سرداری نظام جس کی جنوبی ایشیا کیا پوری مہذب دنیا میں کوئی مثال نہیں، قیامت تک قائم رہے گا؟

اس نظام کے تعفن کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پنجاب میں، جو سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور سیاسی لحاظ سے باشعور صوبہ ہے، تین تو وزیراعلیٰ کی سرکاری قیام گاہیں ہیں۔ بڑے بھائی جو سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، ان کے پروٹوکول کے اخراجات بھی صوبائی حکومت کے ذمے ہیں۔ صاحبزادے کا پروٹوکول اس کے علاوہ ہے۔ درجنوں اہلکار جو صوبائی حکومت کے تنخواہ دار ہیں، ڈیوٹی کہیں اور سرانجام دے رہے ہیں اور یہ تو مُشتے نمونہ از خروارے ہے۔

اس گلے سڑے سسٹم میں جو لوگ سانس لینے پر مجبور ہیں، وہ آخر کس کی طرف دیکھیں؟ انہیں عمران خان کے علاوہ اور کوئی نظر نہیں آرہا!

اب یہ ان بے سہارا‘ بے بس اور چند خاندانوں کی حکومتوں میں گھرے ہوئے لوگوں کی قسمت پر منحصر ہے کہ خود عمران خان ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ اس سے پہلے انہی بے بس لوگوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے امیدیں باندھیں تھیں۔ انہوں نے کھمبوں کو بھی بھٹو کے نام پر ووٹ دے ڈالے تھے لیکن قسمت خراب تھی۔ بھٹو اقتدار میں آیا تو اس نے اپنے کھر، اپنے جتوئی، اپنے لغاری اور اپنے مخدوم عوام سے الگ کیے اور ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ عمران خان بھی اپنے ترین اور اپنے قریشی ساتھ لے کر نکلا ہے۔ دیکھئے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے یا عوام کے ساتھ۔

ابھی تو عمران خان دو دو کشتیوں میں سوار ہے لیکن بہت جلد اسے ایک کشتی چھوڑنا ہوگی۔ کھرب پتیوں کا مائنڈ سیٹ کبھی ایسے فیصلوں کی اجازت نہیں دیتا جو عوام کیلئے ہوں۔ یہ جو مغربی درسگاہوں کے پڑھے ہوئے نوجوان، کمرں میں بند ہو کر لیپ ٹاپوں پر، پالیسیاں تصنیف کررہے ہیں، کبھی توانائی کی اورکبھی تعلیم کی، ان کا پاکستان کے حقائق سے دور کا بھی تعلق نہیں! ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی گاﺅں ہی نہیں دیکھا۔

طالبان کے حوالے سے بھی عمران خان دو کشتیوں میں سوار ہیں۔ خودکش حملوں کے بارے میں ان کا نکتہ نظر کیا ہے؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ چودہ سالہ ملالہ پر حملے کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ وہ قبائلی جرگہ نظام کے مداح ہیں تو کیا ونی جیسے جرائم کا بھی دفاع کریں گے؟

پیش منظر میں عوام کو عمران خان کے علاوہ کوئی اور دکھائی نہیں دے رہا اور عمران خان عوام کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ یہ وقت بتائے گا! کہ بقول میر

آئے تو   ہو  طبیباں!  تدبیر  گر  کرو  تم

ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم

Tuesday, October 09, 2012

چھُپا ہئوا مجرم

وہ جو اصل مجرم ہے وہ ہر بار بچ نکلتا ہے۔

کبھی اس ملک میں سیاست دان پر الزام لگتا ہے کہ وہ تباہی کا ذمہ دار ہے۔ ایوب خان ایبڈو کا پھندہ سیاست دانوں کے گلے میں ڈالتا ہے۔ ان کی خوب کردارکشی ہوتی ہے۔ انہیں ہر بڑائی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے لیکن وہ جو اصل مجرم ہے بچ نکلتا ہے۔

پھر جرنیلوں کی باری آتی ہے۔ سقوط ڈھاکہ سے لے کر بلوچستان کی صورتحال تک ہر خرابی کا کیچڑ ان کے چہروں پر ملا جاتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنائی ہوئی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ دفاع کا بجٹ ایک سطری بجٹ ہے اور پارلیمنٹ اس ضمن میں بے اختیار ہے۔ یہاں بھی اسے جو ہر خرابی کا ذمہ دار ہے، کوئی نہیں پوچھتا۔
کبھی بیورو کریسی پر تان ٹوٹتی ہے۔ الزام لگتا ہے کہ سیاست دانوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہیں ہوتے۔ ان کے غلط احکام کو مان لیتے ہیں۔ کرپشن کرتے ہیں اور کرپشن کرنے والوں کو تحفظ دیتے ہیں۔ کبھی مذہبی طبقات کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے اور معاشرے کی برائیوں کا انہیں ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس! اس عام آدمی کو کوئی کچھ نہیں کہتا جو ہر برائی کرتا ہے اور ہر قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسے کوئی پکڑتا ہے نہ وہ کسی کو نظر آتا ہے!
کیا کبھی کسی نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ایک عام پاکستانی.... جو دکاندار ہے، سکول کالج کا استاد ہے، ریڑھی لگاتا ہے، مستری ہے، آڑھتی ہے، سرکاری ملاز م ہے، کسان یا مزدور ہے، طالب علم ہے، بس ویگن اور ٹیکسی چلاتا ہے۔ اس کا روزمرہ کی زندگی میں کیا رویہّ ہے؟ وہ دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک کررہا ہے اور قانون کی اس اس کے نزدیک کیا اہمیت ہے؟

یہ وہی عام آدمی ہے جس نے ایوب خان کے مارشل لا کو خوش آمدید کہا تھا۔ اس لیے کہ مٹھائی کی دکانوں پر جالیاں لگ گئی تھیں۔ اسے بھٹو اس لیے پسند تھا کہ وہ اچھا سوٹ پہنتا تھا اور انگریزی اچھی بولتا تھا۔ جب اسے بتایا جاتا کہ بھٹو نے اتنے بندے پھڑکا دیئے ہیں، شلواروں میں چوہے ڈلوا دیئے ہیں اور دلائی کیمپ کھل رہے ہیں تو یہ عام آدمی ایک شان بے نیازی سے کندھے اچکا کر کہتا تھا۔ ”تو کیا ہوا، بادشاہ اس طرح کرتے ہی رہتے ہیں۔“

پھر اس عام آدمی نے ضیاالحق کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کردیئے۔ وہ نماز پابندی سے پڑھتا ہے۔ اس نے دفتروں میں نماز شروع کرا دی ہے۔ وہ روس کے خلاف جہاد کررہا ہے۔ وہ ہر ستائیسویں رمضان کو عمرے پر جاتا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ وہ افغان مہاجر‘ جنہیں ایران نے خاردار تاروں کے کیمپ سے باہر نہیں نکلنے دیا، عملی طور پر پاکستان کے مالک بنے ہوئے ہیں اور مذہبی جماعتیں عقیدے کی بنیاد پر انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے کی تیاریاں کررہی ہیں۔

یہ درست ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی۔ یہ بھی سچ ہے کہ پولیس فرض شناس نہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ سیاست دان دیانت سے عاری ہے اور اس میں بھی کلام نہیں کہ جرنیل اور سول بیورو کریٹ ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام نہیں دے رہے لیکن خود عوام کیا کررہے ہیں؟

ٹھارہ کروڑ عوام کے اوپر اٹھارہ کروڑ پولیس والے تو مامور نہیں کیے جاسکتے۔ نہ ہی اٹھارہ کروڑ واعظ ہر شخص کو خدا اور آخرت سے ڈرا سکتے ہیں۔

دکاندار کی مثال لے لیجئے۔ اسے معلوم ہے کہ اس نے صحیح تولنا اور ماپنا ہے۔ وہ صحیح تولتا ہے نہ ماپتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کی دکان کے سامنے تجاوزات نہیں ہونے چاہئیں۔ لیکن وہ فٹ پاتھ پر سامان لگا کر پیدل چلنے والوں کا راستہ بند کردیتا ہے اور چند سو روپے معاوضہ لے کر اپنی دکان کے سامنے ایک ریڑھی والے کو جگہ دیتا ہے۔ اب وہاں پارکنگ کی جگہ ہے نہ پیدل چلنے کی!
سرکاری ملازم کو دیکھئے۔ چلیے، وہ دفتر دیر سے پہنچتا ہے اس لیے کہ اس کا افسر بھی دیر سے آتا ہے لیکن دن بھر وہ جو کچھ کررہا ہے اس کا حساب تو مرنے کے بعد اسے خود دینا ہے۔ وہ اپنی نشست پر کم ہی بیٹھتا ہے۔ سائل آتا ہے تو اسے چکمہ دیتا ہے۔ نماز کے نام پر دو گھنٹوں کیلئے غائب ہوجاتا ہے۔ پھر سائل شام ڈھلے اس کے گھر آتا ہے تو تب اس کا کام کرتا ہے۔

الب علم کو دیکھئے، وہ بس یا ویگن میں بیٹھتا ہے تو کرایہ ادا کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ دھمکیاں دیتا ہے۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں کو بلا کر ہنگامہ بپا کرتا ہے۔ ٹریفک روک دیتا ہے۔ خلق خدا کو پریشان کرتا ہے۔ چند اوباش لڑکوں کا ساتھ دیتا ہے اور کالج میں ہڑتال کرا دیتا ہے۔ استاد کی توہین کرتا ہے۔ اس سارے عمل میں ریاست کا قصور ہے نہ پولیس کا۔

آپ بس ویگن اور ٹرک کے ڈرائیور کے طرز عمل پر غور کیجئے۔ سر پیٹ لیں گے۔ وہ پولیس کو رشوت دینے پر تیار ہے لیکن گاڑی کے کاغذات درست نہیں کراتا۔ وہ بس اور ویگن کو ہر اس جگہ روکتا ہے جہاں نہیں روکنا چاہیے۔ ٹریفک کے قوانین کے پرخچے اڑاتا ہے۔ چند روپوں کے لالچ میں زیادہ سواریاں بٹھا کر لوگوں کو ذہنی اذیت دیتا ہے۔ بغیر ضرورت کے ہارن بجاتا ہے۔ اگر وہ ٹرک ڈرائیور ہے تو سامنے سے آنے والی چھوٹی گاڑی کو کبھی راستہ نہیں دیتا۔ چھوٹی گاڑی کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ کچے ّپر اترے اور سڑک ٹرک کیلئے چھوڑ دے۔

اس خوش حال تاجر کے رویئے پر غور کیجئے جو سپر مارکیٹ یا لبرٹی میں بیٹھا ہے۔ وہ گاہک کو رسید نہیں دیتا۔ بیچتے وقت شے کا نقص نہیں بتاتا۔ اس نے دکان پر بورڈ لگایا ہوا ہے کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا ،حالانکہ اسے معلوم ہے کہ یہ بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہ یہ سب کچھ کرتا ہے اور اس کے باوجود ٹیکس تک ادا نہیں کرتا۔ اس کا ساتھی تاجر ارتکابِ جرم کرتا ہے تو وہ انصاف سے کام نہیں لیتا۔ جرم کرنے والے ساتھی کو بچانے کیلئے پوری مارکیٹ بند کرکے ہڑتال کرا دیتا ہے ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بلیک میل کرتا ہے۔

ستاد کو دیکھیے، وہ وقت پر کالج نہیں آتا۔ پرنسپل کی اسے پرواہ نہیں۔ میں ایک ایسے معزز پروفیسر کو جانتا ہوں جو ایک طویل عرصہ تک کلاس نہ لینے کیلئے مشہور تھا۔ استاد کو معلوم ہے کہ وہ جن طلبا کا ساتھ دے رہا ہے وہ حق پر نہیں اور کسی سیاسی جماعت کا ساتھ دینے کیلئے تعلیمی ادارے کے ماحول میں زہر پھیلا رہے ہیں لیکن وہ اپنا مقام بھول کر، اپنی ذمہ داری کو تارتار کرکے، فسادی طلبا کا ساتھ دیتا ہے۔
آج اینکر پرسن پر الزام ہے کہ وہ ہارے ہوئے سیاست دان کو بلا کر ٹی وی سکرین پر بازی گری کا تماشا دکھا رہے ہیں تاکہ ریٹنگ اوپر جائے۔ لیکن یہ ریٹنگ کون اوپر لے جارہا ہے؟ وہی عام آدمی جو ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھ کر تماشا دیکھ رہا ہے۔ اینکر پرسن تو دکاندار ہے۔ اس نے وہی شے بیچنی ہے جس کی طلب کی جارہی ہے۔ یہ عام آدمی مکروہ چہروں کو دیکھ کر چینل بدل کیوں نہیں دیتا؟
یہ عام آدمی جب ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرتا ہے، جب اپنے مکان یا دکان کے سامنے غلاظت پھینکتا ہے، جب پیر سپاہی، نجومی، ہاتھ دیکھنے والے اور زائچہ بنانے والے کے فریب میں آتا ہے، جب محلے کی مسجد میں فساد پھیلانے والے مذہبی شخص کا ساتھ دیتا ہے اور جب نالائق، بیٹے کے نمبر کم ہونے کے باوجود اسے میڈیکل یا انجینئرنگ کالج میں داخل کرانے کیلئے غلط راستہ اختیار کرتا ہے تو کیا اس میں بھی حکومت یا پولیس کا قصور ہے؟

لیکن پھر بھی یہ ہر بار صاف بچ نکلتا ہے!







Sunday, October 07, 2012

گرجنے والے اور برسنے والے

دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو دنیا نے فیصلہ کیا کہ جو ہوا‘ اسے بھلا دیا جائے اور زندگی کا قافلہ آگے کی طرف بڑھے۔ خاص طور پر امریکہ چاہتا تھا کہ مغربی جرمنی میں جلد از جلد حالات معمول پر آ جائیں تاکہ اس ملک کو روسی بلاک کے خلاف بننے والے اتحاد کا حصہ بنایا جائے۔ لیکن یہودی جنگجوﺅں کے خیال میں ابھی امن کا وقت نہیں آیا تھا۔ ابھی انہوں نے ان نازی جرمنوں سے انتقام لینا تھا جو بقول ان کے‘ یہودیوں کے قتلِ عام میں ملوث تھے۔

اس وقت‘ شکست کھانے کے بعد‘ جرمن اپنی حیثیت کھو چکے تھے۔ یہودی اگر چاہتے تو پورے جرمنی میں نازیوں کے خلاف جلوس نکال سکتے تھے۔ جلسے کر سکتے تھے۔ انتقام انتقام کے نعرے لگا لگا کر آسمان میں شگاف ڈال سکتے تھے۔ ہر روز شاہراہوں پر رکاوٹیں رکھ کر آبادیوں کا جینا حرام کر سکتے تھے۔ اتحادیوں کی حکومت کے خلاف ہڑتالیں کر سکتے تھے اور مطالبہ کر سکتے تھے کہ ایک ایک نازی کو پھانسی دی جائے۔ وہ ہر سنیچر کے دن‘ جو ان کا مقدس دن  ہے‘ شہروں اور قصبوں میں‘ بازاروں اور کارخانوں میں‘ سکولوں اور دفتروں میں چلتی ہوئی زندگی کا پہیہ روک سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ انہوں نے انتہائی رازداری سے ”انتقامی دستے“ تیار کیے۔ ان دستوں کا کام نازیوں سے انتقام لےنا تھا اور اس انتقام کے بارے میں کسی سے کوئی بات نہیں کرنا تھی۔ جرمنی کو امریکی‘ فرانسیسی اور برطانوی فوجی کنٹرول کر رہے تھے۔ یہودی انتقامی دستوں کے ارکان نے ان فوجیوں کی وردیاں پہنیں اور ان نازی ”مجرموں“ کو تلاش کرنا شروع کیا جو سول آبادیوں کے ہجوم میں گھُل مل کر گم ہو چکے تھے۔ وہ انہیں گرفتار کر کے لے جاتے۔ کچھ کو گلا گھونٹ کر مار دیتے۔ کچھ کو پھانسی دے دیتے اور کچھ کو اس طرح موت کے گھاٹ اتارتے کہ موت خودکشی لگتی۔ وہ ”مجرم“ کو گیراج میں کار کی چھت پر کھڑا کرتے۔ گلے میں رسی ڈال کر‘ رسی کا دوسرا سرا چھت کی کڑی سے باندھ دیتے۔ پھر کار کو گیراج سے باہر نکال لیا جاتا ا ور نازی شکار چھت سے لٹک جاتا۔ کچھ نازی سڑکوں کے کنارے مردہ پائے گئے۔ یوں لگتا جیسے انہیں کسی شرابی ڈرائیور نے گاڑی کی ٹکر ماری ہو۔ کچھ کی گاڑیوں کے انجن میں ”پراسرار“ نقائص پیدا ہو گئے اور گاڑیاں حادثوں کا شکار ہو گئیں! گسٹاپو (ہٹلر کی خفیہ فوجی تنظیم) کا ایک رکن ہسپتال میں داخل تھا۔ اس کا ایک چھوٹا سا آپریشن ہونا تھا۔ لیکن اسے مٹی کے تیل کا انجکشن لگا دیا گیا۔ کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ انجکشن لگانے والا کون تھا۔ یہ انتقامی دستے ہسپانیہ اور پھر پورے یورپ میں پھیل گئے۔ پھر انہوں نے بحرِ اوقیانوس پار کیا اور جنوبی امریکہ اور کینیڈا جا پہنچے۔ جن نازیوں نے اپنی شناخت تبدیل کر کے نئی زندگی شروع کی تھی‘ انہیں بھی ڈھونڈ نکالا گیا۔ کینیڈا میں انہوں نے ایک مجرم الیگزنڈر لاک کو جا لیا۔ اس کی بیوی جیسے ہی کسی کام کو نکلی‘ انتقامی دستے نے اسے اس کے گھر میں پکڑا اور بزور گلے میں رسی ڈلوا کر خودکشی کرائی۔
یہ سلسلہ سالہا سال جاری رہا۔ ایک ایک نازی ”مجرم“ کو تلاش کیا گیا اور قتل کیا گیا خواہ اس میں کتنے ہی سال کیوں نہ لگ گئے۔ دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ انتقامی دستوں کے ارکان نے اپنا بھید کسی پر نہ کھولا۔ اپنا منہ بند رکھا حتیٰ کہ ان کی موت کے بعد بھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ کس نے کس کو قتل کیا تھا!

تاہم پوری دنیا کو معلوم ہو گیا کہ یہودی انتقام لیتے ہیں اور کسی صورت بھی اپنے مجرموں کو معاف نہیں کرتے۔

افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں

لیکن  اسے  جتا   تو دیا  جان  تو  گیا

نتیجہ یہ نکلا کہ کسی یہودی فرد یا یہودی ادارے یا یہودی ریاست کے خلاف کچھ کرنے والا کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچنے پر مجبور ہو گیا!

اس کے برعکس‘ مسلمانوں کا طرزِ عمل کھوکھلا‘ غیر موئثر اور شکست خوردہ ہے! انہوں نے یہ محاورہ سچ ثابت کردکھایا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔ ملعون سلمان رشدی ہی کی مثال لے لیجئے۔ اس کے خلاف جلوس نکالے گئے‘ جلسے کئے گئے۔ دھمکیاں دی گئیں۔ اسے قتل کرنے کا فتویٰ صادر کیا گیا۔ لیکن کسی مسلمان تنظیم یا مسلمان حکومت سے یہ نہ ہو سکا کہ اسے قتل کرنے کے لئے کوئی خفیہ منصوبہ بناتی اور شور و غوغا برپا کئے بغیر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو کسی کو آئندہ توہین کی جرءات نہ ہوتی۔ لیکن عملی طور پر جو کچھ ہوا‘ اس سے سلمان رشدی ملعون کی لاٹری نکل آئی۔ اس کی غیر معیاری کتابیں شہرت کے آسمان پر پہنچ گئیں۔ اسے ”سر“ کا خطاب مل گیا۔ وہ پورے مغرب میں وی آئی پی بن گیا اور آج تک وی آئی پی ہے!

اسی طرح گستاخانہ خاکوں کا معاملہ دیکھیے۔ یہ خاکے کسی کی توجہ حاصل نہ کر سکے۔ قریب تھا کہ یہ اپنی موت آپ مر جاتے کہ ڈنمارک کے ایک عرب امام مسجد نے مشرقِ وسطیٰ آ کر ان خاکوں کی تشہیر شروع کردی۔ یہ امام مسجد ایک طویل عرصہ سے ڈنمارک میں تھا لیکن کوئی نمایاں مقام حاصل نہ کر سکا تھا۔ خاکوں کی تشہیر سے اس کا اصل مقصد کیا تھا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اس کے بعد دو چیزیں رونما ہوئیں۔ وہ مشہور ہو گیا اور گستاخانہ خاکے ان تک بھی پہنچ گئے جو ان سے مکمل بے خبر تھے۔ یہاں تک کہ جرمنی اور دوسرے ملکوں کے اخبارات نے انہیں کئی بار شائع کیا! حرمتِ رسول کا تقاضا تو یہ تھا کہ خاکے بنانے والے کو قتل کردیا جاتا۔ یوں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی!

گستاخانہ فلم مکمل طور پر ناکام ہو گئی تھی۔ فلم بنانے والے مردود نے اشتہار لگائے۔ پوسٹر بانٹے لیکن کسی نے فلم پر توجہ نہ دی۔ پھر اس نے اسے یوٹیوب پر چڑھایا لیکن کسی نے نوٹس نہ لیا۔ مہینے گزر گئے۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ پھر کسی ملعون نے نیا طریقہ سوچا۔ اس کا عربی ترجمہ یوٹیوب پر لگایا اور لِنک مصر کے کچھ صحافیوں کو بھیج دیا۔ سب سے پہلے ایک مصری سیاست دان نے اس کی مذمت کی پھر معاملہ علما کے ہاتھ آ گیا۔ فیس بُک اور ٹوئٹر کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو احتجاج کے لئے کہا گیا۔ لیبیا میں امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوا۔ سوڈانی مسلمانوں نے برطانوی اور جرمن سفارت خانے پامال کر دیے۔ مصر میں ہالینڈ کے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ناپاک فلم کو ایک ارب سے زیادہ افراد نے دیکھا اور فلم بنانے والے اس طرح محفوظ جیسے بتیس دانتوں میں زبان!! یہ فلم اگر یہودیوں کے خلاف ہوتی تو اسرائیل میں کوئی جلوس نکلتا نہ کوئی نعرہ لگتا نہ ہی واشنگٹن یا نیویارک میں کوئی یہودی اس کا تذکرہ کرتا۔ بس ایک خفیہ دستہ لاس اینجلس پہنچتا اور فلم کے مصنف‘ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر‘ تینوں پراسرار موت مر چکے ہوتے۔ کوئی غسل خانے میں مردہ پایا جاتا اور کوئی ناشتے میں کافی کا کپ پی کر ڈھیر ہو جاتا۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ جو کچھ کیا‘ یہودیوں کے مذہبی طبقات نے اسے اپنی سیاسی طاقت بڑھانے کے لئے بالکل استعمال نہیں کیا۔ یاد رکھیے جب احتجاج کا ہتھیار ایسے مذہبی گروہوں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے جو انتخابات میں ہمیشہ ہارتے آئے ہیں تو وہ احتجاج کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ پھر ٹریفک تو بند ہو جاتی ہے۔ مریض ہسپتالوں میں اور طلبہ امتحان گاہوں میں تو نہیں پہنچ پاتے لیکن گستاخانہ خاکے اور گستاخانہ فلم بنانے والے ملعونوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا!!

Facebook.com/izharulhaq.net

Friday, October 05, 2012

نئے کلائیو


آئیے! حکومت کیجئے۔ ایک ملک دستیاب ہے! آپ جوکوئی بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں، اس ملک پر کسی بھی وقت حکومت کرسکتے ہیں!

اس صلائے عام کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یہ ملک کوئی معمولی ملک ہے۔ وسائل کے اعتبار سے یہ دنیا کے ان خوش قسمت خِطّوں میں سے ہے جنہیں قدرت نے سب کچھ عطا کیا ہے اور وافر عطا کیا ہے۔ موسم ایسے کہ سال میں تین فصلیں بھی ہوجاتی ہیں۔ پہاڑ بھی ہیں۔ ریگستان اور سمندر بھی۔ زرخیز میدان بھی ہیں اور برف پوش چوٹیاں بھی۔ دریاﺅں کا جال بچھا ہے۔ میوے کثرت سے ہیں۔ لوگ ذہین ہیں اور مواقع میسر ہوں تو حیران کردیتے ہیں! آپ کو ایسا ملک روئے زمین پر نہیں ملے گا۔ آئیے! اس پر حکومت کیجئے۔ یہ ملک حکومت کرنے کیلئے دستیاب ہے!

آپ اگر ہچکچا رہے ہیں تو اس ملک کی تاریخ پر ایک نظر دوڑائیے، یہاں ہر گدھے گھوڑے نے حکومت کی ہے۔ ڈٹ کر کی ہے اور کوئی اس کا بال تک بیکا نہیں کرسکا۔ آپ بھی آئیے اور قسمت آزمایئے!

ابھی اس ملک کو وجود میں آئے مشکل سے دس سال ہوئے تھے کہ ایک وردی پوش سرکاری ملازم نے اس کی حکومت سنبھال لی۔ وہ دس سال تک سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ کسی نے چوں تک نہ کی۔ جتنے الطاف گوہر تھے‘ اس کے قدموں میں جھکے رہے اور جتنے تسبیح بدست قدرت اللہ شہاب تھے، ہاتھ باندھے قیام میں رہے۔ اس نے کنونشن مسلم لیگ بنائی تو سیاست دان دم ہلاتے آئے۔ اس نے ،اپنے بیٹے کو فوج کے مقدس پیشے سے نکالا اور لوگوں کی گردنوں پر مسلط کردیا۔ آج اس کے پوتے بھی حکمران ہیں۔

پھر ایک مرد مومن آیا اور دس سال تک ہر چیز میں اسلام کو داخل کرتا رہا۔ ادارے تہس نہس کردیئے اس کے زمانے میں قلاش کروڑ پتی بن گئے اور اہل عزت کونوں کھدروں میں چھپ گئے۔ پھر دو ہاتھوں میں کتے کے دو پلے پکڑے ایک اور وردی پوش سرکاری ملازم آیا ۔ اس نے ہر چیز سے اسلام کو نکالنا شروع کردیا۔ سب اس کے آگے سر بسجود ہوگئے۔ کوئی اسے ادب سے سید پرویز مشرف کہتا اور کوئی سینے پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھاتا کہ اسے وردی سمیت دس بار منتخب کرائے گا۔

اس ملک پر صرف ان وردی پوش سرکاری ملازموں ہی نے حکومت نہیں کی، بہت سے دوسرے گروہ بھی برسراقتدار رہے اورآج بھی ہیں۔ پشتینی جاگیردار اس پر حکومت کرررہے ہیں۔ منتخب ادارے ان خاندانوں کیلئے چشم براہ رہتے ہیں۔ باپ رخصت ہوتا ہے تو بیٹا نشست سنبھال لیتا ہے۔ ایک بھائی وزارت کو خیرباد کہتا ہے تو دوسرا اچھلتا کودتا آجاتا ہے۔
مذہبی طاقتیں بھی اس پر حکومت کررہی ہیں۔ ظاہر میں بھی اور غیر مرئی طریقے سے بھی۔ وہ مسجدیں جو اللہ کیلئے تھیں مذہبی خاندانوں کیلئے وقف ہوچکی ہیں۔ باپ کے بعد بیٹا مسجد سنبھالتا ہے اور پھر اس کا بیٹا۔ یہ لوگ عصا بدست، آلئہ مکبرالصوت کے ذریعے سماج پر حکومت کررہے ہیں۔ یہ اگر عوام کوآگ لگانے کا حکم دیںتو عوام آگ لگا دیتے ہیں ۔اگر شاہراہوں پر قبضہ کرنے کا فرمان جاری کریں تو عوام شاہراہوں پر قابض ہوجاتے ہیں۔

اب ایک اور طبقہ اس ملک پر حکومت کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جو پاکستان کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا بسے ہیں۔ ان میں سے کوئی امریکہ کا شہری ہے اور کوئی کینیڈا کا۔ کسی کی جیب میں برطانیہ کا پاسپورٹ ہے اور کوئی فرانس سے وفاداری کا حلف اٹھا چکا ہے۔ یہ اب تک چھپ کر پاکستان پر حکومت کرتے رہے ہیں۔ یہ پارلیمنٹ میں جا بیٹھے لیکن متعلقہ اداروں سے اپنی غیر ملکی شہریتیںچھپائے رکھیں۔ یہاں تک کہ عدالت عظمیٰ نے انہیں پکڑ لیا اور حکم دیا کہ ایسے لوگ وفاقی یا صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بننے کے اہل نہیں ۔لیکن افسوس! یہ طبقہ اس قدر طاقت ور ہے کہ عدالت عظمیٰ کے احکام کو مسلسل پس پشت ڈال رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے واضح احکام کے باوجود نیشنل اسمبلی اور سینٹ دونوں نے ارکان سے دوبارہ حلف لینے سے انکار کردیا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے غیرملکی شہریت رکھنے والوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ سے باہر نکلنے کا حکم کیوں دیا ہے؟ اس کی وجہ وہ حلف ہے جو ان لوگوں نے دوسرے ملکوں میں جا کر اٹھایا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی شہریت حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل حلف اٹھانا پڑتا ہے:۔

”میں حلف اٹھاتا ہوں اس بات کا کہ میں اب تک جس ملک کا شہری تھا، اس سے مکمل اور کلی طور پرانحراف کرتا ہوں اوراس سے ہر قسم کی وفاداری اور تعلق کو خیرباد کہتا ہوں ۔ اور اس بات کا کہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئین اور قوانین کی حمایت کروں گا ۔ اور اس بات کا کہ تمام دشمنوں کے خلاف، خواہ وہ غیرملکی ہوں یا مقامی۔ اس آئین اور ان قوانین کا دفاع کروں گا ۔ اور اس بات کا کہ کہ میں آئین اور قوانین کے ساتھ مکمل وفاداری اور وابستگی رکھوں گا۔ اور اس بات کا کہ  جب بھی قانون کی رو سے ضرورت پڑی، میں ریاست ہائے متحدہ کی طرف سے ہتھیار اٹھا لوں گا اور جب بھی قانون نے تقاضا کیا تو میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مسلح افواج میں غیر فوجی خدمات سرانجام دوں گا ۔جب بھی قانون نے تقاضا کیا تو سول ہدایات کے تحت قومی اہمیت کی خدمات سر انجام دوں گا ۔میں یہ حلف، مکمل آزادی کے ساتھ، کسی ذہنی تحفظ کے بغیر اور کسی گریزپائی کے بغیر اٹھا رہا ہوں۔“

کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک کے حلف بھی کم و بیش انہی الفاظ اور اسی عہدنامے پر مشتمل ہیں۔ یہ طبقہ جو پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی اور وفاداری کو خیرباد کہہ چکا ہے اور دوسرے ملکوں کے ساتھ اپنی غیرمشروط وفاداری کی قسمیں کھا چکا ہے، اب واپس آ کر اس ملک پر حکومت کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس انداز کے ساتھ کہ جب پارلیمنٹ کی رکنیت ختم ہوجائے تو یہ بیگ اٹھائے اور جہاز میں بیٹھ کر اپنے ملک واپس چلا جائے۔ یہ نئے لارڈ کلائیو ہیں جوسمندر پار سے آ کر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔
درآں حالیکہ ان کے اہل خانہ، ان کی اولاد، اس کی وفاداریاں اور ان کے قبرستان ‘سب دوسرے ملکوں میں واقع ہیں!
آپ بھی آیئے، آپ کیوں پیچھے رہ جائیں، آپ بھی حکومت کیجئے، ایک ملک دستیاب ہے۔ اس پر ہر کوئی حکومت کرسکتا ہے اور حکومت کرکے واپس جاسکتا ہے!

Facebook.com/izharulhaq.net

Thursday, October 04, 2012

صرف زکوات اور صدقات ؟

یہ قطار جو میں نے دیکھی، ایوان صدر سے صرف چار کلومیٹر دور تھی۔

ایوان صدر جہاں ہر روز دو کالے بکرے ذبح کئے جاتے ہیں۔ جس کے مکین سنگ و آہن کی بنی ہوئی ناقابل عبور رکاوٹوں کے پار رہتے ہیں۔ لندن ہو یا نیویارک، آکسفورڈ ہو‘ پیرس یا دبئی۔ ان کے لئے وہاں جانا ایسا ہے جیسے ہم آپ گلی کی نکڑ تک جاتے ہیں۔ دریاست کہ صحرا ست، تہہ بال و پر ماست۔ ہر جگہ ان کے محلات ہیں۔ ایک عام پاکستانی ان کے طرز زندگی کا تصور تک نہیں کر سکتا۔

یہ قطار جو میں نے دیکھی، پارلیمنٹ لاجز سے صرف پونے چار کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ اگر آپ کو معلوم نہیں کہ پارلیمنٹ لاجز کسے کہتے ہیں تو یہ جان لیجئے کہ یہ  وہ خصوصی رہائش گاہیں ہیں جو پارلیمنٹ کی بغل میں عوامی نمائندوں کے لئے تعمیر کی گئی ہیں۔ ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کے بعد پورے ملک میں یہ اہم ترین محلات ہیں۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے زمانے میں زیر زمین راستوں یعنی سرنگوں کی تعمیر کا سوچا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ عوامی نمائندے خفیہ راستوں کے ذریعے، زمین کے نیچے نیچے، پارلیمنٹ لاجز سے نکل کر پارلیمنٹ پہنچ جائیں۔

ان پارلیمنٹ لاجز میں رہنے والے عوامی نمائندے ٹیکس نہیں ادا کرتے۔ ان پر کسی قاعدے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ جعلی ڈگریوں کے ذریعے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو ایک عام پاکستانی اصلی ڈگری کے ساتھ بھی نہیں کر سکتا۔ ان پارلیمنٹ لاجز میں رہنے والے چاہیں تو پندرہ کروڑ روپے لے کر کسی کو سینیٹر بنوا دیں۔ کسی کو کسی بڑے ادارے کا سربراہ مقرر کرا دیں۔ کسی کو بیرون ملک تعینات کرا دیں۔ وہ نہ صرف کالے شیشوں والی گاڑیاں چلا سکتے ہیں، بلکہ اسلحہ کی سربازار نمائش کر سکتے ہیں۔

ہاں! اسی ایوان صدر اور انہی پارلیمنٹ لاجز سے چار، پونے چار کلومیٹر کے فاصلے پر میں نے وہ قطار دیکھی۔

آب پارہ دارالحکومت کا سب سے قدیم بازار ہے۔ اس کے ایک طرف دو رویہ شاہراہ ہے جو زیرو پوائنٹ سے ڈپلومیٹک اینکلیو تک جاتی ہے۔ دوسری طرف پچاس سالہ پرانے سرکاری کوارٹر ہیں جو بوسیدگی کی انتہا کو پہنچ چکے۔ لیکن وفاقی ملازمین کے لئے نعمت سے کم نہیں۔ ان کوارٹروں اور آب پارہ کی دکانوں کے درمیان ایک انتہائی مصروف سڑک ہے۔ یہاں گاڑی کی پارکنگ مشکل سے ہاتھ آتی ہے۔ میں نے اسی سڑک پر گاڑی پارک کی۔ بہو اپنے ایک ماہ کے بچے کو لئے گاڑی ہی میں بیٹھی رہی۔ میں اور میری بیوی نکلے کہ جلدی سے ایک دو ضروری چیزیں خرید لیں۔ میں دکان کی طرف بڑھ رہا تھا کہ میں نے وہ قطار دیکھی۔ تقریباً پندرہ کے قریب افراد کھڑے تھے۔ میں نے آج تک اتنے خاموش اور اتنے معصوم افراد کی قطار نہیں دیکھی۔ تقریباً وہ سب کے سب سفید پوش تھے۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ لوگ دوسروں سے مختلف کیوں لگ رہے ہیں۔ ”یہاں کوئی بنک تو نہیں“ یہ فقرہ میں نے اپنے آپ سے کہا لیکن آواز اس قدر اونچی تھی کہ بیوی نے سن لی اور بتایا کہ یہاں لنگر ہے۔ وہ کھانا لینے کے لئے کھڑے ہیں۔ میں نے قطار کے سب سے اگلے شخص کو دیکھا۔ اس کے قریب ایک شخص زمین پر بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے ایک بہت بڑا دیگچہ تھا۔ بس اتنی ہی جھلک میں نے دیکھی‘ پھر ہم نے سودا سلف خریدا اور بھاگم بھاگ واپس گاڑی میں جا بیٹھے۔ رش بہت تھا۔ اس بات کا امکان تھا کہ ہماری گاڑی کے پیچھے کوئی دوسری
گاڑی یا موٹرسائیکل پارک ہو جائے۔

وہ سارا منظر وہیں رہ گیا لیکن وہ قطار، وہ دیگچہ اور دیگچے کے پاس زمین پر بیٹھا ہوا وہ شخص‘ مسلسل میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ وہ بھکاری نہیں تھے۔ پیشہ ور گداگر نہیں۔ وہ یقینا محنت مزدوری کرنے والے ہوں گے۔ کہیں کوئی گارڈ ہوگا۔ چار پانچ ہزار مہینے کی تنخواہ لینے والا۔ ہو سکتا ہے کچھ بچے بھی ہوں جو کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے کاغذ چنتے ہیں اور پھر انہیں بیچتے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے مزدور بھی ہوں گے جنہیں کئی دن سے مزدوری نہ ملی ہوگی۔ یک دم میرے ذہن میں ایک چنگاری اٹھی اور اس نے آگ لگا دی۔ مجھے اللہ کے کتاب کی وہ آیتیں یاد آئیں جن میں مسکین کو کھانا کھلانے کی تلقین ہے۔ اس کے بعد آنکھوں کے سامنے سے حجابات اٹھتے گئے اور ذہن کی پرتیں ایک ایک کرکے ہٹتی گئیں۔ اللہ نے اپنی کتاب میں زکوٰة کا الگ ذکر کیا۔ صدقات کی الگ تلقین کی۔ انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب دینے والی آیتیں الگ اتاریں۔ ان سب کے علاوہ ”طعام المسکین“ کا ذکر کیا اور مسکین کو پکا پکایا کھانا کھلانے کا حکم دیا۔ مجھے یہ سوچ کر تعجب ہوا کہ میں نے آج تک جمعہ کے کسی خطبے میں، کسی تبلیغی جلسے میں‘ کسی عالم دین سے، کسی واعظ سے یہ نہیں سنا کہ زکوٰة، صدقات اور خیرات کے احکام الگ ہیں اور طعام المسکین کی آیات ان کے علاوہ ہیں۔ مسکین کو کھانا نہ کھلانا.... یا کھلانے کی ترغیب نہ دینا‘ اتنا بڑا جرم ہے کہ آخرت کو جھٹلانے کے ساتھ بیان کیا گیا۔ ”کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے۔ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا۔“ گویا کھانا مسکین کا اپنا ہے اور دینے والا مسکین کو مسکین کا اپنا کھانا کھلا رہا ہے۔

کیا یہ ایک معمولی حکم ہے؟ کیا یہ ایک عام سی بات ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں! ذرا تیور دیکھئے

 ”پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو۔ پھر اسے جہنم میں جھونک دو پھر اسے ستر ّ ہاتھ لمبی زنجیر میں پرو دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔“

ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ ہم کس قدر کھانا ضائع کر دیتے ہیں۔ ہمارے دسترخوانوں پر کئی قسم کے سالن ہوتے ہیں۔ ہمارے ریفریجریٹروں میں بچے ہوئے سالن، الگ الگ برتنوں میں، کئی کئی دن پڑے رہتے ہیں۔ تنگ آ کر خاتون خانہ انہیں پھینک دیتی ہے۔ ہم ہوٹلوں ریستورانوں میں جاتے ہیں اور ہزاروں روپے خرچ کرکے وہ سب کچھ کھاتے ہیں جس کی ہمیں ضرورت نہیں۔ واپس آتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ ہم جو کھانا بچا آئے ہیں اور جسے ریستوران والے پھینک دیں گے۔ اس سے کم از کم دو تین بھوکے افراد کا پیٹ بھر سکتا۔ ایسے بھوکے افراد ہمیں گھر جانے تک راستے میں ضرور ملیں گے!

کیا یہ ناممکن ہے کہ ہم میں سے ہر شخص، اپنے محلے کے ایک بھلے مانس کو ایک مقررہ رقم ادا کرے۔ بے شک وہ رقم تھوڑی ہی کیوں نہ ہو.... اور وہ بھلے مانس، ہر روز نہ سہی، ہفتے میں ایک یا دو بار کھانا تیار کرا کے ان محنت کشوں کو کھلا دے‘ جن کی آمدنی میں ان کا گزارا نہیں ہو رہا۔ کیا یہ ناممکن ہے؟

سبزی منڈی میں ٹوکرا اٹھانے والا

پھل بیچنے والا جس کی ریڑھی پر تین چار سو روپے سے زیادہ کا مال ہی نہیں!

دور دراز کے گاﺅں سے آ کر اپنے مریض کا علاج کرانے والا جو رات کو ہسپتال میں برآمدے کے فرش پر سوتا ہے۔

گھروں میں جھاڑو دینے اور برتن مانجھنے والی وہ بڑھیا جسے اس کا بیٹا اور بہو کچھ نہیں دیتے۔

زیر تعمیر محل کا چوکیدار جسے تیس دن بعد سات ہزار روپے ملتے ہیں۔ اس میں سے پانچ ہزار وہ پس ماندگان کو بھیج دیتا ہے۔

بخیل اور بدبخت سرکاری افسر کا وہ ڈرائیور۔ جسے صبح سے شام تک روٹی کا نوالہ ملتا ہے نہ چائے کا گھونٹ۔

ہوٹل کی پارکنگ میں کھڑا ہوا وہ مشقتی جو ہر ایک منٹ بعد آنے والی کار کے لئے رسی کھینچ کر رکاوٹ ہٹاتا ہے اور پھر دوبارہ رسی کھینچ کر رکاوٹ کو اپنی جگہ واپس لاتا ہے۔

اور جم خانہ کے باہر گھاس پر بیٹھی ہوئی وہ خادمہ جسے انگریز کی کالی اولاد جم خانہ کے اندر جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ سب اور ایسے کتنے ہی لوگ ہیں جو طعام المسکین کے حقدار ہیں!

طعام المسکین! اللہ کے بندو! طعام المسکین! لوگوں کو کھانا کھلاﺅ! ان سفید پوش مسکینوں کو کھانا کھلاﺅ جو بھیک بھی نہیں مانگ سکتے۔ کہیں اس غلط فہمی میں نہ رہنا کہ زکوٰة اور صدقات دے کر تم سبکدوش ہو چکے!!

facebook.com/izharulhaq.net

Tuesday, October 02, 2012

بلوچستان----ہاتھی اندھوں کے نرغے میں



جولائی یا اگست تھا۔ آدھی رات تھی۔ کہ  ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری رات ہو یا دن، چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ باہر تیز طوفانی ہوا تھی۔ املی کے پیڑ، یوں لگتا تھا، ٹوٹ کرلائبریری کی کھڑکیوں کے شیشوں پر آن گریں گے۔ اندر، دوطالب علم، گھنٹوں سے بحث کررہے تھے۔ ان کے سامنے اکنامکس کی کتابیں کھلی تھیں۔ کاغذات ایک طرف پڑے تھے۔ چند دن بعد امتحان تھا لیکن وہ جیسے مغربی اور مشرقی پاکستان کے باہمی مسائل ابھی اور اسی وقت حل کرنا چاہتے تھے۔

یہ ساٹھ کی دہائی کا آخری حصہ تھا۔ ان دو طالب علموں میں سے ایک ڈھاکہ ہی سے تھا اور دوسرا طالب علم یہ کالم نگار تھا جو بین الصوبائی (انٹرونگ) سکالر شپ پر ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات میں ایم اے کررہا تھا۔ اُس طالب علم کی بہت سی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا تھا۔ ایک کے بعد دوسرا مارشل لا، جاگیردارانہ نظام، برادری کا تانا بانا جوانتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا تھا اور یہ حقیقت کہ مشرقی پاکستان میں خواندگی اور تعلیم.... دونوں کا تناسب زیادہ تھا!

آج چالیس سال بعد بلوچستان کو مشرقی پاکستان سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ یوں لگتا ہے ہاتھی اندھوں کے ہاتھ آگیا ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں ہیں، کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی۔ سارے ہنگامے میں اگر کسی شے پر توجہ نہیں دی جارہی تو وہ بلوچستان کے حقیقی مسائل ہیں۔

مشرقی پاکستان اور بلوچستان کو ایک دوسرے کے مماثل قرار دینے کاکوئی جواز نہیں۔ جغرافیائی طور پر نہ ہی سماجی لحاظ سے۔ بلوچستان اور باقی پاکستان کے درمیان زمینی بُعد نہیں جیسا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان تھا۔ مشرقی پاکستان اس بدترین سرداری اور جاگیردارانہ نظام کاسوچ بھی نہیں سکتا تھا جس نے بلوچستان کو ایک خوفناک اژدھے کی طرح اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات دفاع، خارجہ امور، کرنسی، مالیاتی پالیسی اور تجارتی حسابات کے بارے میں تھے جبکہ سردار اختر مینگل کے چھ نکات لاپتہ افراد، لاشوں اور بے گھر افراد سے متعلق ہیں۔

بلوچستان کے مسائل کا حل پیش کرنے والوں میں اکثریت ان بُزر جمہروں کی ہے جنہیں بلوچستان کے جغرافیے، آبادی کی تقسیم، سرداری نظام کی حرکیات اور فرقہ وارانہ زاویوں کا شاید ہی پورا علم ہو۔ جو کچھ سردار مینگل اور زہری کہہ رہے ہیں‘ وہی پیش منظر پر چھایا ہوا ہے۔ چالیس فیصد پشتون آبادی کا کہیں ذکر نہیں۔ ہزارہ قبیلے کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے‘ اس سے آنکھیں چرائی جارہی ہیں۔ پنجابی آباد کاروں کو جس طرح قتل کیا جارہا ہے‘ اس کی پرواہ صوبائی حکومت کو ہے نہ وفاق کو۔ بلوچستان کو ایک اکائی  سمجھنا  حقائق سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ مکران، خاران اور چاغی جیسے علاقوں کے مسائل کی اپنی نوعیت ہے۔ وہاں سرداری نظام نہیں پایا جاتا۔ اس کے برعکس سندھ سے ملحقہ علاقوں پر مگسی، جمالی، عمرانی اور کھوسوں جیسے بڑے زمیندار چھائے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں کے مسائل الگ نوعیت کے ہیں۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ خود بلوچستان کے سرداروں نے بلوچستان کے ساتھ کیا کیا؟ کیا وہ اس حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں کہ وہ صوبے کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ اقتدار پر ان کی گرفت ہر طرح اور ہر لحاظ سے مضبوط رہی ہے۔ گزشتہ چالیس سال کے وزرائے اعلیٰ ہی کے نام دیکھئے۔ سردار عطااللہ مینگل۔ جام غلام قادر خان (دو مرتبہ) سردار محمد خان باروزئی، ظفر اللہ خان جمالی (دو مرتبہ)، سردار خدا بخش مری، نواب اکبر خان بگتی، میر ہمایوں خان مری، سردارتاج محمد جمالی، ذوالفقار علی مگسی (دو مرتبہ)، سردار محمد نصیر مینگل، سردار اختر مینگل، جان محمد جمالی، جام محمد یوسف، سردار محمد صالح بھوٹانی اور موجودہ وزیراعلیٰ نواب سردار اسلم ریئسانی۔

اس فہرست میں ایک آدھ پختون کو چھوڑ کر تمام کے تمام وزرائے اعلیٰ بلوچ ہیں۔ آپ موجودہ گورنر ذوالفقارمگسی کی طاقت کا اندازہ لگائیے۔ وہ خود گورنر ہیں، ان کے ایک بھائی مرکز میں سینیٹر ہیں،  ان کے صاحبزادے بھی سینیٹر ہیں اور دوسرے بھائی سندھ میں وزیر ہیں۔ اسی طرح جھلوان کے نواب سردار ثناءاللہ زہری، نون لیگ میں ہیں اور بلوچستان میں وزیر ہیں جبکہ ان کے بھائی اسرار زہری پیپلزپارٹی میں ہیں اور مرکز میں وزارت کے مزے لے رہے ہیں۔

کیا ان طاقت ورسرداروں سے یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ آپ نے اپنے طویل اقتدار کے دوران بلوچ عوام کیلئے کیا کیا ہے؟ کتنے سکول کالج اور کتنی یونیورسٹیاں کھولی ہیں؟ کتنے کارخانے لگائے ہیں، کتنی شاہراہیں تعمیر کی ہیں؟ آخر ان کاموں میں مرکز کیا رکاوٹ ڈال سکتا تھا؟ اور اگران کاموقف یہ ہے کہ مرکز نے انہیں یہ کام نہیں کردیئے توانہوں نے یا ان میں سے کسی ایک نے بھی کبھی استعفیٰ کیوں نہیں دیا؟ احتجاج کیوں نہیں کیا؟

وہ تلخ حقیقت جسے یہ سردار تسلیم کرنے پر کبھی تیار نہ ہوں گے‘ یہ ہے کہ یہ اپنے اپنے علاقے میں، اپنے اپنے قبیلے میں  خدا بنے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے سرداری نظام کی کوئی مثال شاید ہی دنیا میں پائی جاتی ہو۔ قبیلے کو سرداری جال میں اس طرح جکڑ کر رکھا جاتا ہے کہ کوئی شخص انکار یا بغاوت کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ ان قبیلوں کے سردار اسلام آباد آتے ہیں تو ایسی ایسی مثالیں بھی دیکھنے میں آئیں کہ اڑھائی سو کلاشنکوف بردار پہریدار ساتھ تھے۔ یہ سردار قبیلے کے کسی عام فرد کو تعلیم یافتہ یا خوش حال نہیں دیکھ سکتے۔ کوئی حساب کتاب ہوتا تو معلوم ہوتا کہ آج تک کتنے افراد کو ان غاروں میں پھینکا گیا ہے جہاں لاکھوں چیونٹیوں کا بسیرا ہے اور جو ان برہنہ جسموں کا انتظار کرتی ہیں جن پر شہد ملا ہوا ہوتا ہے۔ ذہنیت کا اندازہ  اس سے لگائیے کہ کچھ عرصہ قبل ایک بگتی سردار لاہور تشریف لائے۔ پریس کانفرنس میں ان سے سوال کیا گیا کہ اس زمانے میں بھی بلوچستان میں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے کیلئے ملزم کو جلتے کوئلوں پر ننگے پاﺅں کیوں چلایا جاتا ہے تو انہوں نے شدومد سے اس غیرانسانی رسم کا دفاع کیا۔

ان قبیلوں کے عام افراد جوسردار کے رشتہ دار نہیں، عملی طور پر غلامی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، بچوں کے رشتے طے کرنا، سب کچھ سردار کی رضا سے ہوتا ہے۔ تعلیم، علاج، ووٹ، یہ وہ ممنوعہ اشجار ہیں جن کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ سردار کے بعد اس کا بیٹا ان کا حکمران ہے اور اس کے بعد اس کا پوتا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ سردار کی اجازت اور اشیرباد کے بغیر‘ اس کے علاقے میں مرکزی یا صوبائی حکومت کا کوئی ملازم کام کرسکتا ہے نہ رہ سکتا ہے۔ اکثر و بیشتر ان سرکاری ملازموں کو ماہانہ تنخواہ وصول کرنے کیلئے سردار کی پرچی دکھانا پڑتی ہے۔۔ قبیلے کے ارکان کو سردار حکم دیتا ہے کہ اسلحہ لے کر پہاڑوں پڑ چڑھ جاﺅ۔ وہ ہتھیار بند ہو کر پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ جب حکم دیتا ہے کہ کارسرکار میں مداخلت کرو تو وہ باقاعدہ جنگی بنیادوں پر مداخلت کرتے ہیں۔

سرداراختر مینگل کے چھ نکات سے ہر وہ شخص متفق ہے‘ جسے پاکستان اور بلوچستان سے محبت ہے۔ لاپتہ افراد بازیاب ہونے چاہئیں اور ضرور ہونے چاہئیں۔ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اکبر بگتی کے قاتل کیفر کردار کو پہنچنے چاہئیں؛ تاہم اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ یہ بیماری کی علامات ہیں، بیماری کے اسباب نہیں۔ جب تک سرداری اورجاگیردارانہ نظام میں اصلاحات نہیں کی جاتیں، بلوچ عوام عملی طور پر غلامی ہی کی زندگی گزارتے رہیں گے۔ ہر پڑھے لکھے پاکستانی کو یہ سوال اپنے آپ سے اور اس کے بعد دانشوروں سے کرنا چاہیے کہ آخر بھارت کو کیا پڑی تھی کہ اس نے 1951ءمیں زرعی اصلاحات نافذ کرکے جاگیرداروں، زمینداروں، شہزادوں اور نوابوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جان چھڑا لی۔   اور پرویز مشرف کے وزیراعظم ظفر اللہ جمالی نے وزیراعظم کی حیثیت سے یہ بیان کیوں دیا کہ پاکستان میں زمینداری اور جاگیرداری کا کوئی وجود نہیں  اور زرعی اصلاحات کی کوئی ضرورت نہیں۔

کیا بلوچستان کی اسّی لاکھ کی آبادی میں قبائلی سرداروں کے علاوہ کوئی ایک شخص بھی اس قابل نہیں کہ صوبے کا وزیراعلیٰ بن سکے؟

 

powered by worldwanders.com