Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, December 31, 2020

ہم چاہیں یا نہ چاہیں

مشہور شاعر جناب انور مسعود کی ایک نظم ہے: سوچی پئے آں ہُن کی کریے۔ یعنی سوچ رہے ہیں کہ اب کیا کریں! اس نظم میں ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ جی چاہتا تھا مارشل لا سے جان چھڑائیں اور حکومت کی بنیاد ووٹوں پر رکھیں‘ مگر افسوس! ووٹوں کا مزا بھی چکھ لیا!!
ہم نے بھی سب کچھ کر کے دیکھ لیا۔ مڈل کلاس کے اوپر آنے کی حسرت تھی۔ سو، مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی جماعت کا مزہ بھی چکھ بیٹھے ہیں۔ ہمیں وہ سیاسی پارٹیاں بُری لگتی تھیں جن پر خاندانوں کے موروثی قبضے ہیں۔ سو ایک ایسی پارٹی بھی بھگتا بیٹھے ہیں جس پر موروثی قبضہ نہیں ہے۔ یہ اور بات کہ بائیس چوبیس سال سے اس کا سربراہ تبدیل نہیں ہوا۔ ہمیں مغربی ممالک کی مثالیں دی گئی تھیں اور یہ تاثر دیا گیا تھا کہ ویسی ہی جمہوریت رائج کی جائے گی‘ مگر وہاں تو سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہر چند برس بعد تبدیل ہو جاتے ہیں۔ تھریسا مے صرف تین سال کنزرویٹو پارٹی کی لیڈر رہیں۔ ڈگلس ہوم دو سال سے بھی کم عرصے کے لیے سربراہ رہے۔ بعض اوقات تو پارٹی ارکان ووٹ کی طاقت سے چند ماہ بعد ہی لیڈر کو چلتا کر دیتے ہیں۔ تو کیا ہم تحریک انصاف پر اب اعتراض کریں کہ چوبیس برس سے ایک ہی لیڈر پارٹی پر مسلط ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اعتراض کرنے سے روک تو کوئی نہیں سکتا‘ اس لیے کہ اعتراض کرنا قابل دست اندازیٔ پولیس نہیں ہے مگر یہ اعتراض ہوا میں ہو گا۔ اس کا زمینی حقائق سے دور کا تعلق بھی نہیں۔
جی ہاں! زمینی حقائق! پاکستان کے زمینی حقائق! جنوبی ایشیا کے زمینی حقائق! جن سے اعراض ممکن نہیں! کانگرس کی قیادت بہتر سال بعد بھی نہرو فیملی کے پاس ہے۔ مغربی ملکوں کی سیاسی جماعتوں کے اندر جو جمہوری نظام رائج ہے اس سے ہم صدیوں نہیں تو سالہا سال ضرور پیچھے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں پر شخصی چھاپ ہی ان جماعتوں کو زندہ رکھتی ہے۔ آج پی ٹی آئی کی لیڈر شپ عمران خان صاحب سے لے کر کسی اور پارٹی ممبر کے حوالے کریں تو چند ہفتوں میں پارٹی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی۔ ہمارے کلچر میں پارٹی ارکان کو مجتمع رکھنا سب سے مشکل کام ہے۔ یہ مینڈکوں کو تولنے والا کام ہے اور یہ کام ہر لیڈر نہیں کر سکتا۔ برطانیہ میں اگر پارٹی کے اندر ایک لیڈر جیتتا ہے تو ہارنے والا پارٹی نہیں چھوڑے گا چہ جائیکہ وہ اپنی الگ شاخ قائم کر کے اس کا لیڈر بن جائے۔ امریکہ کو دیکھ لیجیے۔ پارٹی کے اندر صدارتی امیدواری کے لیے ہلیری کلنٹن اور بارک اوبامہ کے درمیان مقابلہ ہوا۔ اوبامہ جیت گئے۔ ہمارے ہاں ایسا مقابلہ ہونے کا امکان ہی نہیں‘ مگر فرض کیجیے ہو بھی، تو ہارنے والا پارٹی کو تین طلاق دے کر کسی اور پارٹی میں چلا جائے گا‘ یا اپنا فیکشن الگ بنا لے گا۔ ہلیری ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ ہارنے کے بعد اُسی اپنے حریف، اوبامہ، کی کابینہ میں وزیر بن گئی۔ ہمارا سیاسی کلچر اور ہماری رگوں میں دوڑتی شخصیت پرستی، پارٹی کے اندر جینوین انتخابات کے راستے میں سدِ راہ ہیں۔ پارٹی لیڈر کے مقابلے میں الیکشن لڑنا! ایں خیال است و محال است و جنوں! جے یو آئی کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ مولانا شیرانی نے اختلاف کیا۔ کوئی مغربی ملک ہوتا تو مولانا فضل الرحمن اور مولانا شیرانی کے مابین مقابلہ ہوتا۔ جس کے ووٹ زیادہ ہوتے وہ پارٹی کا لیڈر بن جاتا۔ اسی طرح جب جسٹس وجیہ الدین کا پارٹی لیڈر سے اختلاف ہوا تو فیصلہ ووٹ سے نہ ہوا۔ مولانا شیرانی اور جسٹس صاحب دونوں کو بیک بینی دو گوش باہر نکال دیا گیا۔ بعینہ یہی صورت حال ان باقی پارٹیوں کی ہے جن پر ہم موروثی کنٹرول کا آوازہ کستے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو لے لیجیے۔ ہم اکثر افسوس کرتے ہیں کہ قمر زمان کائرہ، رضا ربانی اور اعتزاز احسن جیسے ٹیلنٹڈ، خوش شہرت لیڈر کل کے بچے کی قیادت میں کام کر رہے ہیں مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ ان کے پاس متبادل راستہ کیا ہے؟ اگر وہ اعلان کریں کہ بلاول کے مقابلے میں پارٹی چیئرمین شپ کا الیکشن لڑیں گے تو آپ کا کیا خیال ہے‘ کتنے ووٹ لے لیں گے؟ جواب آپ کو بھی معلوم ہے اور کالم نگار کو بھی۔ دوسرا متبادل یہ ہے کہ وہ پارٹی کو چھوڑ دیں۔ ایسا کریں گے تو ان کا سیاسی کیریئر اپنی موت آپ مر جائے گا۔ بھٹو خاندان نے پارٹی کو سالم، ون پِیس، رکھا ہوا ہے۔ اب یہ بات مغرب میں آمریت یا موروثی اقتدار کہلائے گی مگر ہماری مجبوری ہے۔ اسی طرح شریف خاندان نے نون لیگ کے وجود کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ آپ آج شاہد خاقان عباسی یا خواجہ آصف یا مشاہداللہ خان کو پارٹی قیادت سونپیں، صبح تک پارٹی کی دیواروں میں شگاف اتنے پڑ چکے ہوں گے کہ شمار ممکن نہ ہو گا۔ الطاف حسین کو دیکھ لیجیے۔ گرفت ڈھیلی پڑی تو پارٹی کا کس طرح تیا پانچہ ہوا۔
اب جب زمینی حقائق پارٹیوں کی موروثی لیڈرشپ کو اس خطے میں، اس ملک میں، ناگزیر بنا رہے ہیں تو یہ امر بھی فطری ہے کہ جب تک ہم مغرب کی جمہوری قدروں تک نہیں پہنچ پاتے تو ہم نے انہی پارٹیوں کے ساتھ گزر بسر کرنا ہے۔ ہمارے پاس کوئی متبادل موجود نہیں۔ اگر پارٹی پر، الیکشن کے بغیر، عمران خان صاحب کی قیادت اڑھائی عشروں پر مسلط ہے تو یہ ہمارے حالات کا تقاضا ہے۔ اس میں عمران خان صاحب کا کوئی قصور نہیں۔ اگر نون لیگ کی قیادت نواز شریف کے بعد مریم نواز کو منتقل ہو رہی ہے تو یہ بھی ہمارے حالات کا تقاضا ہے۔ یہی حال بلاول کی سربراہی کا ہے۔ دوسرا راستہ کوئی نہیں!
اس مجبوری میں، اس اضطرار میں، امید کی ایک کرن دکھائی دے رہی ہے۔ اہل فرنگ اس کرن کو سلور لائننگ Silver lining کہتے ہیں۔ ان مورو ثی پارٹیوں کی نئی نسل، یعنی نئی لیڈرشپ، اپنے پیشروئوں سے بہتر نظر آ رہی ہے۔ بلاول جب جلسوں میں لکھی ہوئی تقریر کرتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں ذرا ناٹک کا رنگ ہوتا ہے مگر فی البدیہہ بولتے ہیں تو معقول انداز میں بات کرتے ہیں۔ اسی طرح پریس کانفرنس میں سوال و جواب کے سیشن کو بخوبی نمٹاتے ہیں۔ مریم نواز کی بھی قوت تقریر اور ادائیگی کا اسلوب نواز شریف کے سٹائل سے بہتر ہے۔ جس طرح لاہور میں انہوں نے عوام کو موبلائز کیا، جس طرح جلسوں میں مؤثر تقریریں کیں اور جس طرح پریس کانفرنسوں کو ہینڈل کیا‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تربیت کا دور مکمل کر کے اب وہ پختگی کے دور میں داخل ہو چکی ہیں۔ مریم نواز کی ایک اضافی صفت بے خوفی کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ نو گو ایریا میں جس آزادی، اعتماد، اصرار اور تکرار کے ساتھ وہ گھوم پھر رہی ہیں، چاہے وہ مناسب ہے یا نا مناسب، اس کی کوئی اور مثال شاید ہی ہماری تاریخ میں ملے۔ پارٹی کو اس وقت مجتمع بھی مریم نواز ہی نے رکھا ہوا ہے۔ کیا عجب، سیاسی جماعتوں کی یہ نئی لیڈر شپ رفتگاں سے مختلف ہو۔ ہوسِ زر سے پاک ہو۔ نئے تقاضوں کا احساس رکھتی ہو اور ملک کو کیچڑ بھرے نشیب سے نکال سکے۔
مصطفیٰ زیدی نے کہا تھا: ؎
ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ
ہم چاہیں یا نہ چاہیں، ہمیں گزر بسر انہی پارٹیوں پر کرنا ہو گی خواہ کسی پارٹی کی لیڈر شپ چوبیس برس سے نہیں بدلی، خواہ کسی پارٹی کی قیادت موروثی ہے!

Monday, December 28, 2020

دو قہقہے خطرناک ہوتے ہیں



ایسا اس سے پہلے نہ کبھی دیکھا‘ نہ سنا۔ وزیر اعظم کہہ رہے تھے کہ ہمیں تو تین مہینے صرف سمجھنے پہ لگ گئے‘ڈیڑھ سال تک ہمیں Actual Figuresیعنی اصل اعدادوشمار کا ہی نہیں پتہ چل رہا تھا۔ ان کے سامنے جو لوگ بیٹھے تھے ان میں کچھ ایسے تھے جو گزشتہ ادوار میں کئی کئی بار حکومتوں کا حصہ رہے تھے۔ کتنی ہی وزارتیں چلا چکے تھے۔ کبھی پیپلز پارٹی کے ساتھ‘ کبھی پرویز مشرف کی کابینہ میں ‘ کبھی مسلم لیگ کے دورِ اقتدار میں ! ایسی شخصیات بھی اُس فنکشن میں موجود تھیں جو بیرون ملک کاروبار چلا رہی ہیں اور ہر اونچ نیچ کو سمجھتی ہیں۔ ایسے بیورو کریٹ بھی بیٹھے ہوئے تھے جو ساری ساری زندگی اُن اعداد و شمار سے کھیلتے رہے تھے جن کے بارے میں وزیر اعظم کہہ رہے تھے کہ ڈیڑھ سال تک اُن کاپتہ ہی نہیں چلا۔ ان کے ایک مشیر ایسے بھی ہیں جو بیس سال تک ورلڈ بینک کے اعلیٰ مناصب پر رہے۔ پھر سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ڈیڑھ سال تک وزیر اعظم کو ‘ بقول ان کے‘ اصل اعدادو شمار کا پتہ ہی نہیں چلا تو یہ مشیر صاحب کہاں تھے؟
لیکن اس منظر کے مضحکہ خیز ہونے کی وجہ یہ نہیں تھی۔ وجہ یہ تھی کہ یہ سب لوگ ‘ یہ سب تجربہ کار وزرا‘ یہ سب منجھے ہوئے سیاستدان ‘ یہ سب سرد و گرم چشیدہ بیوروکریٹ‘ یہ مشیرانِ کرام ‘ یہ معاونین خصوصی‘ وزیر اعظم کے سامنے بیٹھے ہوئے بظاہر تابع اور ماتحت لگ رہے تھے مگر اصل میں شاید ایسا نہیں تھا۔معاملہ اغلباً الٹ تھا۔ ان سب نے ماسک پہن رکھے تھے‘ جس کے باعث ان کے چہروں کے تاثرات پڑھے نہیں جا سکتے تھے۔ یہ سب بے حس و حرکت بیٹھے تھے۔ وزیر اعظم بول رہے تھے اور لگتا تھا یہ ان کی باتیں سن کر مسکرا رہے تھے۔ ان میں سے جو وزیر دوسری پارٹیوں سے ادھار لیے گئے تھے وہ گویا یہ کہنا چاہتے تھے کہ جناب ِوزیر اعظم ! یہ کاروبارِ مملکت ہم تو خوب سمجھتے ہیں‘ آپ کو ڈیڑھ سال سمجھنے میں لگ گیا کیونکہ آپ پہلی بار حکومت میں آئے ہیں۔ ہمیں تو اول روزِ ہی سے سب سمجھ میں آرہا تھا اس لیے کہ ہم نے کئی حکومتیں بھگتائی ہیں‘ کئی بار وزارتوں میں کام کیا ہے۔ مگر ہم سمجھنے سمجھانے میں آپ کی مدد کیوں کرتے ؟ ہمیں آپ سے کیا ہمدردی ہے؟ ہمارا مقصد تو تحریک انصاف کی حکومت میں شامل ہوکر اقتدارکا مزالوٹنا تھا۔ ہماری آپ سے کوئی نظریاتی وابستگی ہے نہ سیاسی ہم آہنگی ! ہمارا آپ سے اتنا ہی اخلاص ہے جتنا آپ کے اُس وعدے میں تھا جس کی رُو سے آپ نے جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانا تھا۔ ہمیں معلوم تھا یہ صوبہ نہیں بننا مگر آپ نے حکومت تشکیل دینا تھی اور ہم اس حکومت کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ نہ آپ نے صوبہ بنانا تھا نہ ہم نے معاملات سمجھنے میں آپ کی مدد کرنا تھی۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
جو بیرون ملک سے آئے ہوئے مشیر اور معاونین تھے وہ بھی وزیر اعظم کا اعتراف سن کر دل ہی دل میں ہنس رہے تھے۔ شاید وہ کہنا چاہتے تھے کہ جہاں پناہ ! ہم بیرون ملک اپنے بڑے بڑے بزنس کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ اس ملک کے معاملات ہمارے لیے بہت آسان ہیں۔ اس کا مالی پھیلاؤ تو کسی ملٹی نیشنل کمپنی یا ادارے کے مالی پھیلاؤ سے بھی کم ہے۔ مگر ہمیں کیا پڑی تھی کہ آپ کی مدد کرتے اور معاملات کی تفہیم میں آپ سے تعاون کرتے۔ ہمیں جو کرسیاں آپ نے دی ہیں وہ تو ہماری اُن خدمات کا صلہ ہیں جو ہم ماضی میں سر انجام دے چکے ہیں۔ ذرا یاد کیجیے جب آپ بیرون ملک تشریف لاتے تھے تو ہم استقبال کرتے تھے۔ جب تک قیام ہوتا تھا ہمیں ہمرکابی کا شرف حاصل ہوتا تھا۔ ہم میں سے کچھ فنڈز بھی اکٹھا کرتے تھے۔ اگر ہماری خدمات نہ ہوتیں تو ہمیں یہ مناصب کہاں ملنے تھے کیونکہ جہاں تک لیاقت کا تعلق ہے تو ہم سے کہیں زیادہ لائق لوگ ملک میں میسر ہیں۔ ہمارا چھکا تو ذاتی تعلقات کی وجہ سے لگا ہے۔ اس میں میرٹ کا عمل دخل اتنا ہی ہے جتنا انصافی حکومت میں انصاف کا ہے۔
گنتی کے جو چند وزیر ‘ تعداد کے لحاظ سے آٹے میں نمک کے برابر ‘ پی ٹی آئی کے وہاں بیٹھے تھے وہ وزیر اعظم کی درد انگیز باتیں سن کر مغموم ہو رہے تھے اور صرف وہی تھے جن کے دل رو رہے تھے۔ گویا وہ کہنا چاہتے تھے کہ ہمارے تو حوصلے ہی ٹوٹ گئے کہ اٹھارہ ‘بیس‘ بائیس سال ساتھ ہم نے دیا ‘ جدو جہد ہم نے کی ‘ دھرنے ہم نے دیے ‘ مگر کابینہ پر آکر وہ چھا گئے جن کا پارٹی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ تو جناب ِوزیر اعظم !ذہنی نا آسودگی کے اس عالم میں ہم آپ کی کیا مدد کرتے اور اصل اعداد و شمار سمجھنے میں ہم آپ کی رہنمائی کس طرح کرتے ؟ وہ یہ سب کچھ کہنا چاہتے تھے مگر مجبوری اور بے بسی کہ کہہ نہیں سکتے تھے۔ رہے اتحادی پارٹیوں کے وزرا تو اِن کی لاتعلقی قابل فہم تھی۔حکومت کی ناکامی تحریک انصاف کے کھاتے میں جا رہی تھی۔ اتحادی جماعتیں فائدے میں حصہ دار تھیں ‘ نقصان میں نہیں !
وزیر اعظم کے سامنے چیدہ چیدہ‘ بلند و بالا مقامات پر فائز‘ بیوروکریٹ بھی ان کا اعترافِ عجز سُن رہے تھے۔ ماسک کی وجہ سے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ان کے چہروں پر کیا تاثرات تھے۔ غالباً مسکرا رہے تھے۔ یہ سول سروس کے ایک مخصوص طائفے سے تھے۔ حقیقی حکمرانی ان کی تھی۔ اصل اقتدار ان کے ہاتھ میں تھا۔ جن لسانی اور علاقائی بنیاد وں پر انہیں چُن کراوپر لایا گیا تھا ‘ انہی بنیادوں پر وہ آگیاپنے ماتحتوں کو نواز رہے تھے وہ اپنے ساتھیوں (Batch Mates)کو‘ بطور خاص‘ کلیدی اسامیوں پر بٹھا رہے تھے۔ ان کی پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں تھے۔ یہ کیوں وزیر اعظم کی مدد کرتے؟ یوں بھی ان ''بہادروں‘‘ کو یہ خوف تھا کہ فیصلے کیے تو بعد میں کسی نہ کسی مرحلے پر دھر لیے جائیں گے۔ اس لیے ٹالنے اورمعاملات لٹکانے کی پالیسی انہیں خوب راس آرہی تھی۔ بانس ہی نہیں ہو گا تو بانسری کیسے بجے گی!
ڈیڑھ سال وزیر اعظم اذیت میں رہے۔ کتنی ہی راتیں انہوں نے بے خواب بسر کی ہوں گی! کتنے ہی دن گہری سوچوں میں گزارے ہوں گے! مگر یہ موم کے پتلے‘ جوچہروں پر ماسک نما ڈاٹھے باندھے ان کے سامنے بے حس و حرکت بیٹھے تھے‘ وزیراعظم کی پریشانیوں اور امنگوں سے بے نیاز تھے۔ ان میں سے ہر ایک اس قابل تھا کہ انہیں ڈیڑھ سال کے عرصے میں ‘ 
یعنی اٹھارہ مہینوں میں ‘ اصل اعداد و شمار سمجھنے میں مدد دے سکے‘ مگر یہ سب موجود ہوتے ہوئے بھی عملاً لاتعلق تھے۔ مجھے یوں لگا جیسے ان سب وزیروں‘ مشیروں ‘ معاونین اور ٹاپ بیوروکریسی کے ہوتے ہوئے بھی وزیراعظم تنہا تھے۔وزیراعظم کے غم کو ‘ بانٹنا تو دور کی بات تھی‘ سمجھنے والا ہی کوئی نہ تھا !ترس آتا ہے! کچھ کرنے کی امنگ دل میں پالنے والا وزیراعظم! لیکن کسی مخلص رفیقِ کار کے بغیر ! تنہا ! بالکل تنہا ! مجید امجد نے شاید ہمارے وزیر اعظم ہی کے بارے میں یہ المناک شعر کہے تھے؎
دل نے ایک ایک دُکھ سہا تنہا
انجمن انجمن رہا تنہا
ڈوبتے ساحلوں کے موڑ پہ دل
اک کھنڈر سا رہا سہا تنہا
گونجتا رہ گیا خلاؤں میں
وقت کا ایک قہقہہ تنہا
کوئی وزیر اعظم صاحب کی خدمت میں عرض کرے کہ دو قہقہے خطرناک ہوتے ہیں۔ایک وقت کا۔ دوسرا تاریخ کا!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, December 24, 2020

چہرے پر چہرہ



صوفی تھے یا عالم، محدث تھے یا مجذوب یا کوئی پہنچے ہوئے بزرگ، ہر وقت اپنے کمرے ہی میں رہتے۔ باہر نکلتے تو نظریں جھکا کر چلتے، یوں کہ کسی پر نظر نہ پڑے۔ جو بھی کام ہوتا، درس و تدریس کا یا مریدوں، عقیدت مندوں سے ملنے کا، انجام دیتے، اور نظریں جھکا کر چلتے ہوئے پھر اپنے حجرے میں واپس! ایک طویل عرصہ یوں ہی گزرا۔ آخر کار کسی پیروکار نے پوچھ ہی لیا کہ حضرت! کسی کی طرف دیکھتے نہیں! ملتے ملاتے بھی کم ہیں، بہت ہی کم! حجرے میں عبادت اور مطالعہ کے لیے اتنا زیادہ وقت! آخر اس کنارہ کشی میں کیا حکمت ہے اور کون سی مصلحت ہے؟ حضرت نے کچھ تامل فرمایا‘ پھر کہا کہ میں کیا کروں؟ چہروں پر نظر پڑے تو کوئی بندر نظر آتا ہے، کوئی بھیڑیا، کوئی خُوک اور کوئی سگ! اس صورت حال سے بچنے کے لیے صرف اُس وقت ہی باہر نکلتا ہوں جب ناگزیر ہو اور نکلتا بھی ہوں تو اس طرح کہ کسی چہرے پر نظر نہ پڑے!
یہ حکایت یا روایت، جو بھی ہے، ہم نے بزرگوں سے سنی! دوسرے لوگوں نے بھی سنی ہو گی! معلوم نہیں کتنا اس میں سچ ہے اور کتنا مبالغہ! مگر اس سے ذہن قرآن پاک میں بیان کردہ اُس واقعہ کی طرف ضرور جاتا ہے‘ جس میں ایک نافرمان گروہ کو حکم دیا گیا کہ تم ذلیل بندر ہو جاؤ۔ اس کی تشریح میں کچھ کی رائے ہے کہ جسمانی طور پر بندر بنا دیے گئے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ان کی عادات بندروں جیسی کر دی گئیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ان بد بختوں کو اپنی شکل آئینے میں انسانوں جیسی دکھائی دیتی تھی مگر لوگوں کو وہ جانور نظر آتے تھے۔ اس سے دو نتیجے صاف نکلتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان، اپنی انسانی شکل رکھتے ہوئے بھی، عادات و خصائل میں، اخلاق اور رویے میں جانور کے مشابہ ہو سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی ولی اللہ کو، کسی صاحبِ کشف و کرامت کو، قدرت کی طرف سے کچھ افراد کے چہرے جانوروں کی شکل میں دکھائے جا سکتے ہیں! دست قدرت کیا کیا کر سکتا ہے، اس کی کوئی حد ہے نہ نہایت! قدرت جب چاہے کسی کو غیر معمولی ملکہ عطا کر سکتی ہے!
مگر اصل مسئلہ اور ہے! وہ جو شاعر نے کہا تھا کہ ع
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اور یہ فقرہ جو بچوں کو بھی معلوم ہے کہ مین از اے سوشل اینیمل تو یہ حیوان جسے ہم آدمی کہتے ہیں، کیا انسان بن پاتا ہے؟ اپنے ارد گرد دیکھیے! کیا یہ سب انسان ہیں؟ کیا ہم سب انسان ہیں؟ سچ یہ ہے کہ ہم سانپوں کی طرح وحشت میں پھنکارتے ہیں اور اپنے کسی بھائی کو سانپ ہی کی طرح ڈس بھی جاتے ہیں۔ اونٹ کی طرح سینے میں کینہ پال لیتے ہیں! انسان پر بربریت سوار ہو جائے تو آخر اس میں اور بھیڑیے میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ باہر سے وہ انسان دکھائی دے تو اس سے کیا ہوتا ہے! اندر ایک خونخوار بھیڑیا بیٹھا ہوتا ہے۔ لوگ اس سے اسی طرح خائف ہوتے ہیں جیسے بھیڑیے سے! کچھ لوگ اندر سے لومڑی ہوتے ہیں۔ ان کی چالاکی کا کوئی توڑ نہیں ہوتا۔ کچھ عظیم الجثہ افراد، دیکھنے میں طاقتور لگتے ہیں مگر اصل میں بکری ہوتے ہیں۔ ڈرپوک اور چُھپ جانے والے۔ فرض کیجیے قدرت ایسا نظام وجود میں لاتی کہ اس قسم کے افراد، دیکھنے والوں کو سانپ، بھیڑیا، لومڑی اور بکری نظر آتے تو کتنی آسانی ہوتی! لوگ ان سے بچتے۔ ان کے ساتھ کوئی معاملہ نہ کرتے۔ مگر قدرت نے یہ جانور ان کے اندر بٹھائے اور باہر سے انہیں انسان بنا دیا۔ کیوں؟ تاکہ فہم و فراست استعمال کر کے خلقِ خدا انہیں خود جانچے، ان سے اعراض کرے اور دوسروں کو متنبہ کرے کہ یہ انسان نہیں جانور ہیں، ان سے بچو! ایک وجہ ان جانوروں کو انسانی شکل عطا کرنے کی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قدرت ساری سزا اسی دنیا میں نہیں دینا چاہتی ہو گی۔ جس طرح شیطان کو اجازت دے دی گئی کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا رہے اسی طرح ان جانوروں کو بھی کُھلا چھوڑ دیا گیا ۔ جس طرح شیطان کچھ لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے‘ اسی طرح یہ انسان نما جانور بھی کچھ لوگوں کو ڈسنے، کاٹنے، بھنبھوڑنے اور دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
بد ترین گالی ہمارے ہاں، کسی کو کتے سے تشبیہ دینا ہے۔ یہ اور بات کہ انسانی خون ارزاں ہوا تو ایک کتے نے دوسرے کتے کو تنبیہ کی کہ... بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا!
اس نُکتے پر بھی غور فرمائیے کہ نافرمان گروہ کو بندر بن جانے کا حکم دیا گیا مگر یہ نہیں کہا گیا کہ کتے بن جاؤ۔ مالک کے ساتھ وفاداری میں کتا ضرب المثل ہے‘ مگر جب بھونکتا ہے، کاٹنے کو دوڑتا ہے، لالچ کرتا ہے تو ارذل الخلائق بن جاتا ہے۔ کتے کی بد قسمتی یہ ہے کہ بے مثال وفاداری اور مالک کی خاطر جان لڑا دینے کے باوجود دشنام کے حوالے سے کتا ہی سر فہرست ہے۔ فرنگی زبان میں بھی بُرے اور قابل نفرت شخص کو سَن آف بِچ ہی کہا جاتا ہے۔ لالچی شخص کو بھی دنیا کا کتا کہتے ہیں۔ عرفی نے رقیبوں کو کتوں سے تشبیہ دی۔ 
عرفی تو میندیش ز غوغائی رقیبان
آواز سگان کم نہ کند رزقِ گدا را
کہ رقیبوں کے شور و غوغا کی پروا نہ کرو اس لیے کہ کتوں کے بھونکنے سے گداگر کا رزق کم نہیں ہوتا۔
کتے کے بعد، دوسرے نمبر پر گدھا ہے جس سے نا انصافی ہو رہی ہے۔ ساری زندگی ڈنڈے کھاتا ہے، دولتی مارتا بھی ہے تو تنگ آ کر، خاموشی سے مالک کا بوجھ ڈھوتا ہے یہاں تک کہ بوڑھا ہو جاتا ہے، مگر ہر بے وقوف اور احمق کوگدھا کہا جاتا ہے۔ ہاں کچھ بد بخت ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں گدھا کہہ کر گدھے سے معذرت کرنا پڑتی ہے۔ مثلا؎
ترا خر خواہم و گشتم پشیمان
کہ آن بیچارہ را بد نام کردم
تجھے گدھا کہہ کر پچھتا رہا ہوں کہ بیچارے گدھے کو مفت میں بد نام کیا۔ ایک زمانے میں یہ کہاوت بھی عام تھی: خراسانی! خرِ ثانی! نگیرد خوئے انسانی! بہ آسانی! کہ خراسانی، دوسرا گدھا ہے جو آسانی سے انسانی خُو نہیں پکڑتا! شیخ سعدی جیسے نیک بزرگ نے بھی گدھے کے ساتھ نا انصافی کی اور کتے کی طرف داری کی۔ ایک طرف کہتے ہیں:؎
خرِ عیسیٰ اگر بمکہ روَد/ چون بیاید ہنوز خر باشد
کہ عیسیٰ علیہ السلام کا گدھا اگر مکہ سے بھی ہو آئے تو گدھے کا گدھا ہی رہے گا۔ مگر دوسری طرف کہتے ہیں:؎
سَگ اَصْحابِ کَہْف روزے چَنْد
پئے نیکاں گِرِفْت و مُرْدَُم شُد
کہ اصحاب کہف کا کتا چند روز نیکو کاروں کے پیچھے چلا تو گویا آدمی ہو گیا۔ مقصد تو شیخ سعدی کا اچھی صحبت کی تلقین ہے مگر اس سارے چکر میں معصوم اور بے ضرر گدھے کے ساتھ زیادتی ہو گئی۔
جانور ہمیں گوشت، اون اور کھالیں تو مہیا کرتے ہیں، دودھ مکھن اور گھی تو ان کی بدولت ملتا ہے، سواری اور باربرداری کے کام تو آتے ہیں، چڑیا گھروں میں رونق کا باعث تو بنتے ہیں مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے مزاج اور اخلاق و عادات کے حوالے سے بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ کاش ہم سمجھ جائیں کہ ہمیں انسان بنایا گیا ہے تو انسان ہی رہنا چاہیے، سانپ، سگ، بھیڑیا، بچھو، لومڑی، اونٹ اور طوطا نہیں بننا چاہیے۔ یہ بھی دھیان رہے کہ کوئی اللہ والا ہمارے چہرے پر کوئی اور چہرہ نہ دیکھ لے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, December 22, 2020

………قسمت تھی کھوٹی



صوفی تبسم کو نہیں دیکھا۔ان کی سوانح بھی نظر سے نہیں گزری۔ کشور ناہید بتاتی ہیں کہ صوفی صاحب کی پوتی نے ان پر کوئی کتاب لکھی ہے۔ مصنفہ کا نام معلوم ہے نہ کتاب کا۔ صوفی صاحب ایک لیجنڈ تھے۔ اردو ادب کا کون ایسا دلدادہ ہو گا جس نے اس شعر پر سر نہ دھنا ہو ؎
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
صوفی صاحب کا ایک عظیم الشان کارنامہ ان کی وہ نظمیں ہیں جو انہوں نے بچوں کیلئے لکھیں۔ٹوٹ بٹوٹ کا جو کیریکٹر انہوں نے تخلیق کیا اور پھر اس حوالے سے جو شاعری کی اس کی شاید ہی کوئی مثال کسی اورزبان میں موجود ہو۔ ٹوٹ بٹوٹ کی زندگی کے مختلف پہلو جو شاعر نے دکھائے ہیں ‘ بچوں کیلئے مزیدار تو ہیں ہی‘ بڑوں کو بھی آئینہ دکھاتے ہیں۔ اس کتاب کی شرح میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ افسوس! ادب کے نام نہاد‘ یک چشم نقاد اس سے غافل رہے۔ اب تو یہ کتاب بازار میں دستیاب ہے‘ جس وقت اس کالم نگار کے بچے چھوٹے تھے ‘ یہ نایاب تھی۔ کوئٹہ کی ایک بُک شاپ سے‘ جس کا نام یاد نہیں‘ ایک نسخہ اتفاق سے ملا تو گویا لاٹری نکل آئی۔ یہ‘ ہر عمر کے '' بچوں ‘‘ کیلئے یکساں پُر کشش ہے۔ ان '' بچوں ‘‘ میں جوان اور بوڑھے سب شامل ہیں۔
ان سدا بہار نظموں میں سے ایک نظم میں مُنے کی اماں انڈا ابالنے کیلئے انڈا ہنڈیا میں ڈالتی ہے۔ پھر جب انڈا نکالنے کیلئے ڈھکنا اٹھاتی ہے تو انڈا غائب ہوتا ہے۔ بدقسمتی اسی پر بس نہیں کرتی ‘ چمچا بھی ٹیڑھا ملتا ہے اور تھالی بھی اوندھی ہوتی ہے۔ اُس شام گھر میں کوئی بھی نہیں کھانا کھاتا۔سب دل کھول کر روتے ہیں اور انجامِ کار بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔اس سارے المیے کی وجہ صوفی صاحب اسی نظم میں بتا دیتے ہیں اور وہ یہ کہ قسمت کھوٹی تھی!
اپنے آپ کو اور اپنے جیسے کئی اور قانون پسند آئیڈیلسٹوں کی خاک ہوتی امیدوں کو دیکھ کر دھیان اس نظم کی طرف چلا جاتا ہے۔ ہم نے جاگیرداروں کے خلاف لکھا‘ وڈیروں کی بُرائیاں کیں۔صنعتکاروں کو استحصال کے طعنے دیے۔ مڈل کلاس کا نعرہ لگایا۔ ہم نے کئی سال‘ تواتر کے ساتھ لکھا کہ ملک میں جتنی بدحالی ہے ‘ جتنا ظلم ہے‘ جتنی ناانصافی ہے‘ وہ سب اس لیے ہے کہ ہمیشہ اَپرکلاس کی حکومت رہتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں ہوں یا منتخب ادارے‘ وزارتیں ہوں یا دیگر مراعات یافتہ مناصب‘ ہر طرف اُمرا ہی نظر آتے ہیں۔ قوم کودرپیش مسائل کا حل ہمارے نزدیک یہ تھا کہ مڈل کلاس سیاست میں در آئے ‘ اسے اقتدار ملے تاکہ استحصالی طبقات سے نجات مل سکے؛ چنانچہ جب الطاف حسین نے مڈل کلاس پر مشتمل نئی سیاسی جماعت کا ڈول ڈالا تو ہم خوش ہوئے کہ اب تعلیم یافتہ لوگ اوپر آکر سارا نقشہ بدل دیں گے۔ میرٹ کا بول بالا ہو گا۔قانون کی حکمرانی ہوگی! مگر اس مڈل کلاس نے وہ مزا چکھایا کہ مڈل کلاس کا سارا بھوت اُتر گیا۔ سیکٹر کمانڈر‘ بوری بند لاشیں ‘ ڈرل کیے گئے انسانی اجسام‘ بھتہ‘ قربانی کی کھالیں ‘ ہڑتالیں‘ ہڑتالوں کے دوران مرنے والے مریض‘ یرغمال میڈیا‘ جبری ووٹ‘ فرضی ملازمین‘ جعلی تعیناتیاں‘ روبوٹ بنے ہوئے جلسوں کے سامعین اور بہت کچھ اور بھی۔ اس مڈل کلاس سیاست کا نقطۂ عروج تو بہت ہی زبردست تھا۔ بھاری اکثریت اس مڈل کلاس کی ‘ مڈل کلاس کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر ‘ اَپر کلاس میں شامل ہو گئی۔ ان سیاست دانوں کے خاندان لاس اینجلز ‘ ہیوسٹن ‘ نیویارک ‘ واشنگٹن اور لندن منتقل ہو گئے۔سیاست ملک میں ہی رہی اور بزنس مغربی ملکوں میں شفٹ ہو گیا۔ ہم نے جو خواب دیکھا اور دکھایا تھا ‘ تعبیر اُس خواب کی بھیانک نکلی!
پھر ہم نے ایک اور امید باندھی۔ ہم نے سیاسی پارٹیوں کی موروثی حیثیت پر تنقید کی اور عوام کو بتایا کہ برطانیہ‘ امریکہ اور دوسرے جمہوری ملکوں میں سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ہر چند سالوں کے بعد نئے منتخب ہوتے ہیں۔ ہم نے چیخ چیخ کر کہا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی بُنت آمریت کے سوت کی مرہونِ احسان ہے۔ یہ پارٹیاں نہیں ‘ خاندانی اجارہ داریاں ہیں۔ دوست نوازی ‘ اقربا پروری‘ خزانے کی لوٹ مار‘ بیرونی قرضے‘ آئی ایم ایف کی غلامی‘ گرانی‘ سب ا ن پارٹیوں کی حکومتوں کا طرۂ امتیاز ہے اور رہا ہے۔ ہم تبدیلی چاہتے تھے۔ ہم نے اپنا زور تبدیلی کے پلڑے میں ڈالا اور دامے‘ درمے‘ سخنے‘ قلمے اس مہم میں شامل ہو گئے۔ہمیں یقین تھا کہ اب وہی شفافیت یہاں بھی آئے گی جو ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں رائج ہے۔ جہاں حکمران بازار سے سودا سلف خود خریدتے ہیں ‘قطاروں میں کھڑے ہو کر برگر خریدتے ہیں اور عام سے گھروں میں رہتے ہیں۔مگر جلد ہی یہ پٹی بھی آنکھوں سے اُتر گئی۔ پارٹی کے اندر انتخابات ہوئے مگر سربراہ لیول پر نہیں ! وہی شخصی سٹیمپ! وہی مضبوط گرفت! وہی نامزدگیاں ! جتنے وجیہ الدین تھے اور تسلیم نورانی اور حامد خان ‘ سب غائب ہو گئے۔ جتنی فوزیہ قصوری تھیں ‘ اپنے اپنے گھروں کو سدھار گئیں۔ دوست نوازی نئے عنوان سے آئی اور خوب زور شور سے ‘ شہنائیوں اور نقاروں کے جلو میں آئی۔
اُنہی ارب پتیوں کو دربار میں کرسیاں ملیں جو موروثی پارٹیوں کی حکومتوں میں کرسیوں پر بیٹھا کرتے تھے۔ وہی چہرے۔وہی پتھر کی آنکھیں ! وہی موم کے پُتلے ! وہی مرغانِ باد نما ! وہی زمانہ ساز! وہی موقع شناس ! وہی ابنائے وقت ! آئی ایم ایف بھی کمبل لپیٹے اندر آگیا اور کرسی کھینچ کر یوں بیٹھ گیا جیسے یہیں قیام کرے گا اور طویل قیام کرے گا! بائیس برس کی گرجتی برستی جدو جہد کا نتیجہ ؟دو درجن کے لگ بھگ کابینہ کے ارکان ان بائیس برسوں میں ساتھ ہی نہ تھے۔ منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے۔ مہنگائی پہلے سے زیادہ ! بے روزگاری پہلے سے زیادہ ! ڈالر کا ریٹ پہلے سے زیادہ !جرائم پہلے سے زیادہ ! وہی پرویزی حیلے ! وہی اشتہار کے نتیجے میں انٹرویو‘ اور تعیناتی پہلے ہی کی طرح اُن کی جو امیدوار تھے نہ انٹرویو دیا۔ وہی پٹوار خانے وہی کچہریاں! وہی رشوتیں ! سرکاری تعمیرات پر وہی اپنے ماں باپ کے ناموں کی تختیاں ! احتجاجی جلوسوں پر وہی ڈنڈے‘ وہی شیلنگ ! وہی ہر چوک پر گداگروں کے ہجوم ! ٹریفک کی وہی قاتلانہ لاقانونیت ! تاجروں کی وہی چیرہ دستیاں‘پولیس کا وہی مائنڈ سیٹ کہ حاکموں کی کنیز اور عوام پر حاکم ! وہی اکڑتی ‘خود غرض بیورو کریسی جس کا عوام سے کوئی ربط ہے نہ ہمدردی نہ ہم آہنگی! وہی دولت شاہی ‘وہی دھن راج‘ وہی چند ثروت مندوں کا اقتدار جسے زبانِ فرنگ میں کبھی اولی گارکی(Oligarchy)کہتے ہیں اور کبھی پلوٹوکریسی(Plutocracy)کا خوبصورت نام دیتے ہیں !جو ترقیاتی منصوبے چل رہے تھے ان سے بھی گئے! سڑکیں ‘ پُل‘ انڈر پاس‘ اوور ہیڈ برج جہاں جہاں تعمیر کیے جا رہے تھے ‘ وہیں وہیں ٹھہر گئے! موروثی پارٹیوں کے زمانے میں کچھ تو ہو رہا تھا۔ ہمارے اس خواب کی تعبیر بھی اُلٹ نکلی۔ یا شاید تعبیر درست تھی‘ خواب غلط تھا۔
صوفی تبسم کی نظم پڑھتا ہوں اور روتا ہوں ! یہ بچوں کیلئے نہیں لکھی گئی ! یہ تو ہماری روداد ہے! ہم جیسے آئیڈیلسٹوں کی! جو اس زمانے میں سیاست دانوں کو جانچنے کا پیمانہ قائد اعظم والا رکھتے ہیں! بات یہ ہے کہ قصور کسی کا نہیں ! ہماری قسمت ہی کھوٹی نکلی! ورنہ انڈا ہم نے بقائمی ہوش و حواس ہنڈیا میں ڈالا تھا۔ نیچے آگ بھی جلائی تھی۔ آہ ! ہمارے نصیب ! ! نہ صرف یہ کہ انڈا ہنڈیا سے غائب ہے‘ ہمارا چمچہ بھی ٹیڑھا ہے! تھالی بھی اوندھی ہے! آؤ! جی بھر کے روئیں ! اور روتے روتے سو جائیں

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, December 21, 2020

اک پیڑ تھا اور اُس پہ الوچے لگے ہوئے


جزیرہ سر بمہر ہے۔ کوئی وہاں سے باہر نکل سکتا ہے نہ اندر داخل ہو سکتا ہے۔
یہ گئے وقتوں کی طلسماتی داستان نہیں جس میں پریاں اور شہزادے جزیرے میں قید کر دیے جاتے تھے۔ ان داستانوں میں ایک بھاری بھرکم، ڈراؤنا، دیو، بھی ہوتا تھا۔ یہ دیو، کبھی ولن کا کردار ادا کرتا تھا اور کبھی مددگار ثابت ہوتا تھا۔ ایک فقیر قسم کا کریکٹر بھی ہوتا تھا جو مشکلات حل کرتا تھا۔ پیر تسمہ پا بھی ہوتا تھا جو دھوکے سے گردن پر سوار ہوتا اور پھر اترنے کا نام نہ لیتا۔ کوہ ندا بھی ہوتا تھا جہاں آواز سن کر، پیچھے دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا تھا۔ ان داستانوں میں سب کچھ ممکن تھا۔ تپتے سلگتے صحراؤں میں، عین سراب کے بیچ، پانی کے چشمے ابل پڑتے، گھوڑے پرندوں کی طرح اُڑتے اور سمندر جادو کے زور سے پار کیے جاتے۔
مگر یہ سب داستانیں تھیں۔ خیالی! تصوّراتی! آج جزیرے حقیقت میں سر بمہر ہیں۔ سِیل کر دیے گئے ہیں۔ جنوبی بحرالکاہل اور بحرِ ہند کے درمیان اور ایشیا کے جنوب مشرق میں واقع، دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ، مقفل کر دیا گیا ہے۔ جو وہاں ہیں وہ جزیرے سے نکل نہیں سکتے۔ جو باہر ہیں وہ اندر نہیں جا سکتے۔ عجیب ڈرپوک ہیں اس جزیرے والے! لکڑی کے بنے ہوئے آئٹم اور کھانے پینے کی اشیا لے جانے پر پہلے ہی پابندی تھی۔ اب انسان بھی نہیں جا سکتے۔ وہاں سے بھی نہیں آ سکتے۔ جزیرے سے باہر جانا ہو تو پہلے ہوم آفس کو درخواست دیں۔ جانے کی وجہ بتائیں۔ وہ فیصلہ کریں گے کہ یہ ایمرجنسی کا معاملہ ہے یا نہیں! اور جس نے سچ بولنا ہو کہ ماں باپ سے ملنے جانا ہے تو اسے تو اجازت ملنے کا امکان بھی نہیں۔ یہ لوگ والدین کو خاندان کا حصہ شمار ہی نہیں کرتے۔ یہ مرتبہ صرف بیوی اور بچوں کو حاصل ہے۔ جزیرہ چھوڑنے کی اجازت مل جائے تو واپسی پر قرنطینہ میں رکھتے ہیں جس کے لیے فی کس زر کثیر وصول کرتے ہیں۔ چار پانچ افراد کے کنبے کو یہ ''سرکاری‘‘ قرنطینہ خاصا کمر توڑ پڑتا ہے۔
مجھے اس جزیرے سے کوئی دلچسپی نہیں سوائے اس کے کہ وہاں کچھ سنہری پرندے ہیں۔ ان پرندوں میں میری جان ہے بالکل اسی طرح جس طرح داستانوں میں شہزادے یا شہزادی کی جان توتے میں ہوتی تھی۔ رواں سال، اپریل میں جانا تھا! کورونا کا ڈراؤنا دیو، گرز ہاتھ میں پکڑ کر راستے میں کھڑا ہو گیا۔ پوتی اور پوتوں کو ملے ڈیڑھ سال ہونے کو ہے۔ کمپیوٹر پر ہر روز با تصویر بات ہوتی ہے مگر انہیں چھوا نہیں جا سکتا۔ گود میں نہیں بیٹھ سکتے۔ کندھے پر نہیں چڑھ سکتے۔ ہاتھ سے قلم نہیں چھین سکتے۔ قیمتی کاغذات پر لکیریں نہیں ڈال سکتے۔ کتابوں سے کھیل کھیل کر ان کے ٹائٹل نہیں پھاڑ سکتے۔ وہ مطالبے پورے نہیں کرا سکتے جن کی ان کے ماں باپ اجازت نہیں دیتے۔ پارک، ریستوران، بازار جانے کی ضد نہیں کر سکتے۔ نئے کھلونے نہیں خرید سکتے۔ رات سونے سے پہلے کہانی نہیں سن سکتے۔ عالم یہ تھا کہ ایک طرف زہرا لیٹتی تھی‘ دوسری طرف حمزہ۔ ہر ایک چاہتا کہ رُخ اس کی طرف ہو۔ کمپیوٹر پر ملاقات بھی کیا ملاقات ہے۔ سراب سے پانی پینے والی بات ہے۔ بقول فراز:؎
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
ہر عمر کے بچے کا اپنا چارم اور اپنا مزا ہوتا ہے۔ ایک بار عمر کا جو مرحلہ گزر جائے، واپس نہیں آتا۔ اگر آپ نے اپنے پوتے یا نواسے یا پوتی یا نواسی کی عمر کا ایک سٹیج مِس کر دیا تو یوں سمجھیے، فلم کے ایک حصے سے بہرہ مند نہیں ہو سکے۔ کہانی مکمل نہیں ہو سکے گی۔ چھ سالہ سمیر جب کہانی سناتا ہے، فتح جنگ پنڈی گھیب کی خالص ہندکو آمیز پنجابی میں، مگر انگریزی لہجے میں، تو اس کا اپنا ذائقہ، اپنا لطف اور اپنا سرور ہے۔ تین سالہ سالار کی گفتگو کا اپنا رنگ ہے۔ اس کے گھر میں سب اردو بولتے ہیں مگر کارٹونوں کا کرشمہ کہ وہ زبانِ فرنگ کی طرف مائل ہے۔ ماں کو تلقین کر رہا تھا کہ آپ کو سوری کہنا چاہیے۔ ماں نے سوری کیا تو فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ''اِٹ اِز او کے‘‘۔ اس کا بڑا بھائی، آٹھ سالہ تیمور، جب بھی کوئی مضمون لکھتا ہے تو ماں کو کہتا ہے کہ یہ ابو (دادا) کو بھیجیں۔ اسے یاد ہے کہ یہ کام کون کراتا تھا۔ جب بھی ہم سیر سے، یا لائبریری سے، یا آئس کریم کھا کر، واپس آتے تو میں اسے کہتا اب سارا حال لکھو۔ فوراً بیٹھ کر، جتنی انگریزی آتی، اسے بروئے کار لاتے ہوئے لکھتا اور آ کر دکھاتا۔ اردو وہاں، دیار غیر میں، ان کے ماں باپ پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حمزہ اور زہرا کے باپ نے، شدید مصروفیت کے باوجود ان کے لیے وقت نکالا، مشقت کی، اور اردو لکھنے پڑھنے میں انہیں رواں کر دیا۔ اب وہ اردو میں کہانیوں کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں۔ کچھ مشقیں میں یہاں سے بھیج دیتا ہوں جو وہ کر کے مجھے میل یا وٹس ایپ کر دیتے ہیں۔ رہی فارسی، اِس خانوادے میں کئی نسلوں سے چلا آتا تہذیبی نشان، تو اُس کی اِس نسل میں پذیرائی کی امید ہے نہ حالات ہی اس کے موافق ہیں۔ یہ سلسلہ آگے موقوف ہی لگتا ہے۔ زینب، گرما کی تعطیلات گزارنے لاہور سے یہاں اسلام آباد آتی ہے۔ دو سال پہلے، جب وہ ساتویں میں تھی، اسے فارسی شروع کرائی‘ مگر اگلی گرمیوں میں آئی تو صاف صاف کہہ دیا کہ نانا ابو! میں یہاں آرام کرنے آتی ہوں، پڑھنے نہیں آتی۔ میں ہنسا اور کہا تو صرف یہ کہا کہ آپ کی اماں تو ایسا کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی! چند روز پڑھنے کا بھی فائدہ ہو گیا۔ کلاس میں ایک دن استانی نے پوچھا علامہ اقبال کی کتابوں کے نام کون بتائے گا! سخت افرنگ زدہ کلاس میں وہ واحد بچی تھی جو بتا سکی۔ استانی نے اس ''علم‘‘ کا ذریعہ پوچھا تو اس نے بتایا کہ کتابوں کے نام نانا ابو نے یاد کرائے تھے۔
بچوں کا دادا دادی اور نانا نانی سے اتحاد فطری اور قدرتی ہے۔ ان کی وہ باتیں جو ان کے والدین نہیں سنتے، والدین کے والدین سنتے ہیں اور بہت دلچسپی سے سنتے ہیں۔ بچوں کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ بعض اوقات بچوں کی معقول باتیں بھی اس مصروف اور ہنگامہ خیز، تیز، زندگی میں والدین نہیں مانتے۔ بزرگ ایسے مواقع پر ''سفارت کاری‘‘ کا ہنر استعمال کرتے ہوئے یہ باتیں منوا لیتے ہیں۔ یوں بچوں کی داد رسی ہو جاتی ہے۔
ایک باریک نکتہ اس سارے قصے میں یہ ہے کہ اس پھل کی مٹھاس وہی جانتا ہے جو اسے کھاتا ہے۔ دنیا کی کسی زبان، کسی لغت میں اتنی صلاحیت نہیں کہ جو شخص ابھی دادا یا نانا نہیں بنا، اسے یہ سمجھا سکے کہ اس رشتے میں کیا طلسم ہے اور کیسا افسوں ہے؟ یہ تعلق الفاظ سے ماورا ہے۔ ماں اور بیٹی کی طرح یہ رشتہ بھی شاید بہشت سے براہ راست اترا ہے۔ عمر کے اُس حصے میں جب انسان اپنے آپ کو زائد از ضرورت اور ایکسٹرا سمجھنے لگتا ہے، پوتے نواسے اور پوتیاں نواسیاں، سب اپنی محبت اور وابستگی سے، اور ہر معاملے میں طرف داری کر کے، باور کراتے ہیں کہ ''آپ بہت اہم ہیں۔ اتنے کہ ہماری تو ساری دنیا آپ ہی کے گرد گھومتی ہے‘‘۔ ایسے میں دادا کو اپنا دادا یاد آتا ہے! کیا بادشاہی تھی اور کیا عیش و طرب تھا:؎
یوں تھا کہ میں بھی چاند تھا، دادا مرا بھی تھا
اک پیڑ تھا اور اُس پہ الوچے لگے ہوئے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, December 15, 2020

……یہ لوگ ! جوہمارے لیے امتحان ہیں


اس بہت بڑی دکان پر اڑتیس چالیس برس سے آنا جانا ہے۔ تاجر یعنی مالک سے دوستی تھی۔ کیش کاؤنٹر پر ایک بزرگ بیٹھا کرتے‘ کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہو گیا تو یہ سیٹ ان کے نوجوان بیٹے نے سنبھال لی۔اب تو خیر اس کی داڑھی بھی سفید بالوں سے بھرتی جا رہی ہے۔ جب بھی جا نا ہوتا پہلے اس سے دعا سلام ہوتی‘پھر اوپر تیسری منزل پر جا کر اپنے دوست یعنی مالک کے پاس بیٹھ جا تا۔ گپ شپ ہوتی‘ چائے کا دور چلتا۔ ایک دن دکان میں داخل ہوا تو نوجوان خلافِ معمول کاؤنٹر سے باہر آگیا۔ ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گیا‘ اس کی آنکھوں میں آج غیر معمولی چمک تھی۔ کہنے لگا : صاحب نے چالیس لاکھ روپے میں مجھے مکان خرید کر دیا ہے۔ اب میں گھر والوں کو گاؤں سے لے آؤں گا اور بچوں کو پڑھاؤں گا۔ بہت خوش ہوں اسی لیے آپ کو بتا رہا ہوں۔ میں نے اسے مبارک دی۔ وہ اپنے صاحب کو دعائیں دینے لگ گیا۔ میں اوپر گیا تو اپنے دوست سے اس بات کا کوئی ذکر نہ کیا۔ اس کی عادت کا پتا تھا۔ ذکر کرتا بھی تو مسکرا کر بات ٹال دیتا۔ کئی برس اور گزر گئے۔ ایک دن موت کھڑکی کے راستے آئی‘ ہارٹ اٹیک ہوا اور میرا دوست بزنس کی ایک پوری ایمپائر یہیں چھوڑ کر‘موت کے ہمراہ‘ دروازے سے باہر نکل گیا۔ 
مری کی گھاٹیوں سے لے کر دارالحکومت کے مختلف سیکٹروں تک اس کی جائدادیں تھیں۔ نہیں معلوم‘ اپنے باقی ملازموں پر اس کی کیا کیا توجہات تھیں‘ مجھے تو ایک کارِ خیر ہی کا معلوم تھا۔ اس کی وفات کے بعد کئی دن تک‘ جب بھی اس کے بارے میں سوچتا ساتھ ہی اس کے کاؤنٹر والے ملازم کی شبیہ ذہن میں ابھر آتی۔مرحوم کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہو گا ؟ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں‘ مگر یہ یقینی بات ہے کہ اس کے اس ایک کام سے اُس کے ملازم کی آنے والی ساری نسلوں پر اثر پڑے گا۔پڑھنے والے پڑھ لکھ جائیں گے۔ جن کا رجحان کاروبار کی طرف ہو گا وہ شہر میں ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ کیا عجب کوئی فوج میں جرنیل بن جائے‘ بینکار ہو جائے‘ سول سروس میں چلا جائے‘ صحافت میں نام پیدا کرلے۔ یہ صرف چالیس لاکھ روپے کی امداد نہیں تھی‘ یہ کئی نسلوں کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا‘ ایک ایسا موڑ جس سے آگے کی مسافت‘ پیچھے کے سفر سے یکسر مختلف تھی۔ 
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جن چند روپوں کی آپ کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں‘ وہ کسی اور کے لیے خزانہ ہوں گے۔ایک دوست کا نجی تعلیمی ادارہ ہے۔ اس میں ایک نائب قاصدہ تھی۔ میاں کئی عشرے پہلے جہاد کے لیے افغانستان گیا اور کبھی واپس نہ آیا۔ چار بیٹیوں کی ماں سکول میں نائب قاصدہ ہو گئی۔ اللہ کا نام لے کر اس نے بیٹیوں کو پڑھانا شروع کردیا۔ ادارے کا مالک اس کی مدد کرتا رہا۔ اس کے دوست بھی معمولی معمولی رقوم دیتے رہے مگر باقاعدگی کے ساتھ۔ اگر کوئی پانچ ہزار روپے ماہانہ بھی دیتا تھا تو اس غریب لیکن باہمت خاتون کے لیے گنجِ قارون سے کم نہ تھا۔ آج اس کی ایک بیٹی پروفیسر ہے‘ دوسری نرس ہے‘ تیسری ڈاکٹر ہے اور چوتھی ہیڈ مسٹریس ہے۔ ایک بار ٹیلی وژن پر لاہور کی ایک معمر خاتون کا انٹر ویو سننے کا اتفاق ہوا۔ خاندان کا واحد کفیل ایک لڑکا تھا جس کی ماہانہ آمدنی ( یہ بیس سال پہلے کی بات ہو گی ) دس ہزار روپے تھی۔ اُس خاتون کا ایک فقرہ ذہن پر کھد گیا اور کبھی اترا نہ شاید اتر سکے گا۔وہ یہ کہ گوشت اس کے گھر میں صرف عید کے موقع پر پکتا تھا‘وہ بھی بڑا! ذرا تصور کیجیے جو کنبے ہر ہفتے پورے پورے بکرے خر یدتے ہیں اگر مہینے میں ایک بار کسی ایسے مستحق خاندان کو کلو نہ سہی‘ آدھا کلو گوشت ہی خرید دیں تو ان محروموں کے لیے کتنی بڑی نعمت ہو گی۔ آپ جب پھل خریدتے ہیں تو ایک کلو انگور اگر اپنے ڈرائیور کے بچوں کے لیے بھی خرید لیں تو آپ کا بجٹ کریش نہیں کر جائے گا۔ سردیاں آتی ہیں تو بیگم‘ صاحب‘ بچے‘ سب گرم کپڑوں کی خریداری کرتے ہیں۔ کوٹ‘ جیکٹیں‘ مفلراور نہ جانے کیا کیا۔ ساتھ ہی اپنے ملازموں کو بھی ایک ایک گرم چادر یا ایک ایک سویٹر لے دیا کیجیے۔ ہمارے ایک دوست اپنے بچوں کے لیے جب بھی برگر‘ پیزا یا آئس کریم ڈیلیور کراتے ہیں تو گھر میں کام کرنے والے لڑکے کا حصہ بھی برابر کا ہوتا ہے۔ اس سے ان کے بچوں کی بھی تربیت ہوئی ہے۔ اب وہ بھی ملازم کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں ! پنڈی اسلام آباد میں حلوائیوں کی ایک بہت بڑی چین ہے۔ ایک برانچ اُس آبادی میں بھی موجود ہے جہاں ہم رہتے ہیں۔ دکان پر جائیں تو وردی پو ش لڑکے گاڑی کے پاس آکر پوچھتے ہیں کہ کیا پسند کریں گے۔ لوگ باگ گاڑی میں بیٹھ کر ہی سموسے‘ قلفی‘ رس ملائی یا گاجر کا حلوہ کھاتے ہیں۔ ایک بار ان لڑکوں سے پوچھا کہ کتنی تنخواہ لیتے ہیں؟ جواب حیرت انگیز اور افسوس ناک تھا۔ چھ ہزار روپے ماہانہ! مالک کا خیال ہے کہ یہ ٹِپ سے بہت کچھ کما لیتے ہیں جبکہ لڑکوں نے بتایا کہ صرف پچیس فیصد یعنی ایک چوتھائی گاہک ٹِپ دینا پسند کرتے ہیں۔ اگر ایسے بزنس مین‘ جن پر پیسہ ہُن کی طرح برس رہا ہے‘ ان لڑکوں کو دس یا بارہ یا پندرہ ہزار ماہانہ دے دیں تو گھاٹا پھر بھی نہیں ہو گا مگر ان بچوں کے کنبوں کو بہت فرق پڑے گا۔ 
سقوطِ ڈھاکہ کے وقت جو مغربی پاکستانی طالب علم وہاں کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے‘ انہیں جنگی قیدی بنا کر بھارت‘ مختلف کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ان میں کچھ ہمارے دوست بھی تھے۔ ایک دوست بتاتے ہیں کہ فرش پر لگے ہوئے بستروں میں ساتھ والا بستر ایک بزنس مین کا تھا۔ نام شاید قاضی عبد السلام تھا۔ عمر اسّی سال تھی۔ قید کا سارا عرصہ مسلسل روزے رکھتے رہے۔ مگر بتانے والی بات اور ہے۔ قاضی صاحب کے ایک ساتھی بھی ان کے ہمراہ ہی قید میں تھے۔ انہوں نے ہمارے دوستوں کو بتایا کہ قاضی صاحب تقسیم سے پہلے کلکتہ میں تھے جہاں ان کا وسیع وعریض‘ عظیم الشان کاروبار تھا۔ معمول ان کا یہ تھا کہ جمعہ کے دن نئے کپڑوں سے گاڑی بھر لیتے اور سِحری کے وقت گھر سے نکل پڑتے۔ کلکتہ کے فٹ پاتھوں پر جو نیم برہنہ افراد سورہے ہوتے ان کے پاس کپڑے رکھتے جاتے اور ساتھ ایک ایک روپیہ۔( یاد رہے یہ ایک روپیہ تقسیم سے پہلے کا تھا)۔ یہاں تک کہ دن نکل آتا۔ 
غالب نے کہا تھا؎ 
رہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے 
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو مے خانہ خالی ہے 
آج اہلِ ہمت کم رہ گئے ہیں۔ تجوریاں بھری پڑی ہیں۔ مدد کے مستحق اصل میں وہ لوگ ہیں جو بھکاری نہیں بلکہ سفید پوش ہیں اور کم آمدنی والے ! ریڑھی پر رکھے ہوئے کیلوں کے چند گْچھے بیچنے والا بوڑھا‘ ردی جمع کرنے والا لڑکا‘ چند ہزار ماہانہ پانے والا گارڈ‘ پارکنگ میں ہر آتی جاتی گاڑی کا دروازہ کھولنے اور بند کرنے والا معمر شخص‘ سبزی منڈی اور فروٹ مارکیٹ میں سر پر ٹوکرا لیے ہوئے محنت کش‘ گلی کے موڑ پر ٹھیّا لگانے والا موچی‘ فٹ پاتھ کے کنارے درخت کے نیچے '' دکان‘‘ لگانے والا حجام‘ سکول کے گیٹ پر کھڑا ہوا چوکیدار‘ یہ سب وہ لوگ ہیں جو ہمارے لیے اس دنیا میں امتحان ہیں۔ اب یہ ہمارا اپنا چوائس ہے کہ اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, December 14, 2020

دامن خالی، ہاتھ بھی خالی



''اٹھارہ مہینے پہلے یہاں کوئی برطانوی مسافر طیارہ نہیں آتا تھا! آج ایک ہفتے میں بیس سے زیادہ پروازیں آ رہی ہیں۔ یہ پاکستان پر ہمارے اعتماد کی نشانی ہے‘‘ یہ بیان برطانیہ کے محترم سفیر کا ہے۔ پہلے برٹش ایئر ویز کی پروازیں شروع ہوئیں۔ اب ایک اور برطانوی ایئر لائن کے جہازوں نے آنا جانا شروع کیا ہے۔ اس کی پہلی پرواز کی مناسبت سے اسلام آباد ایئر پورٹ پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ سفیر صاحب نے یہ اظہارِ مسرت اسی موقع پر کیا۔
کیا زبردست کامیابی ہے پاکستان کی! اپنی ایئر لائن کو، جس کا شہرہ ایک زمانے میں چار دانگِ عالم میں تھا اور جو امریکی‘ برطانوی اور یورپی مسافروں کی اولین چوائس ہوتی تھی، نوچ نوچ کر، بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر، کھا کھا کر، ہڈیوں کے پنجر میں تبدیل کیا اور اب بے حمیتی کا یہ عالم ہے کہ جس برطانیہ کی فضاؤں میں پی آئی اے کے اوپر کَندہ، پاکستانی پرچم چمکتا تھا وہاں پی آئی اے پر پابندی ہے، اور پاکستانیوں اور پاکستانی تارکین وطن کا سارا انحصار بدیشی ایئر لائنوں پر ہے۔ کیا کمال ہے ہمارا! مکمل چھان بین کیے بغیر ہم نے سرکاری سطح پر یہ ''خوشخبری‘‘ دنیا بھر کو سنائی کہ ہمارے پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہیں۔ اپنے گندے کپڑے سب کو دکھا کر، چوک پر دھوئے۔ رائی کا پہاڑ بنایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری سرکاری شہادت کی بنیاد پر امریکہ، برطانیہ، یورپ، ہر جگہ سے، ہماری ایئر لائن کو بیک بینی دو گوش نکال باہر کیا گیا۔ اب ہم تدفین سے فارغ ہو کر، دعائے مغفرت کر کے، غیر ملکی ایئر لائنوں کی آمد کی خوشی میں جشن مناتے پھر رہے ہیں! واہ! کیا بات ہے ہماری! آفرین ہے ہم پر!
اڑھائی سو سال پہلے بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ بر صغیر دنیا بھر کی صنعتی پیداوار کا ایک چوتھائی پیدا کر رہا تھا۔ ٹیکسٹائل کی صنعت میں یہ لیڈر تھا۔ مصنوعات برطانیہ میں جاتی تھیں تبھی تو چھینٹ، شال، پاجامہ،خاکی، کمربند اور کئی دوسرے الفاظ انگریزی لغت کا حصہ بنے۔ میکسیکو تک ہندوستان کی مصنوعات پہنچیں اور وہاں کی مقامی صنعتیں پیچھے ہٹ گئیں۔ 1586ء اور 1605ء کے درمیانی عرصے میں یورپ سے اٹھارہ مِیٹرک ٹن چاندی ہر سال بر صغیر میں پہنچتی رہی۔ اس کے بدلے میں مصنوعات خریدی جاتی تھیں۔ مغل (Mogul) کا لفظ آج بھی انگریزی میں وی آئی پی، سیٹھ اور بڑے آدمی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پھر ہماری گردنوں پر استعمار بیٹھ گیا۔ ہمارے کاریگروں کے انگوٹھے کاٹ دیے گئے۔ ہماری صنعتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ خام مال برطانیہ بھیجا گیا۔ وہاں سے مصنوعات آئیں جو ہمیں مہنگے داموں بیچی گئیں اور ہماری خریداری سے جمع شدہ روپیہ پھر برطانیہ جا پہنچا مگر یہ سب تو کلائیو اور اس کے جانشینوں نے کیا تھا‘ جو دشمن تھے۔ آج قومی ایئر لائن کی تباہی اپنوں نے کی۔ ہمارے اپنے نمائندے نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ لائسنس جعلی ہیں۔ دنیا الرٹ نہ ہوتی تو کیا کرتی؟ سب ہماری طرح اندھے تھوڑی ہیں۔ خاموشی سے ایکشن لیا جاتا! بگاڑ کی اصلاح کی جاتی۔ ڈھنڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت تھی؟ گھر کو آگ گھر کے چراغ سے نہیں لگی‘ گھر والوں نے گھر پر پٹرول انڈیل کر آگ لگائی۔ ہوا بازی کا اربوں کا کاروبار ہم نے پلیٹ میں رکھ کر دوسروں کو پیش کر دیا اور خود بے حس ہو کر بیٹھ گئے! اگر کوئی شرم دلانے کیلئے جتاتا ہے کہ پشت پر درخت اُگائے بیٹھے ہو تو پلک تک نہیں جھپکاتے اور تنک کر جواب دیتے ہیں کہ اچھا ہے۔ چھاؤں میں بیٹھیں گے!
اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت کے آنے سے بہت پہلے قومی ایئر لائن تباہی کے راستے پر روانہ ہو چکی تھی‘ مثلاً بنکاک ہماری پروازیں عام جاتی تھیں‘ وہ ختم ہوئیں۔ پورا سیکٹر ہاتھ سے نکلا۔ اسی طرح بہت سے دوسرے سیکٹر چھن گئے۔ کئی برسوں سے پاکستانی مسافر مشرق وسطیٰ کی ایئر لائنوں کے محتاج ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اس میدان میں کیا تیر مارا؟ کیا حاصل کیا؟ پنجابی محاورے کی رُو سے سواہ تے مٹی! یعنی راکھ اور خاک! حاصل تو خیر کیا ہوتا مغربی ممالک سارے ہی، بیک جنبش زبان، ہم نے کھو دیے۔ ''تبدیلی‘‘ اس ضمن میں کچھ بھی نہ تبدیل کر سکی۔ ایک حل یہ تھا کہ یونینوں کو ترغیب اور تحریص سے قائل کر کے ڈوبتی ایئر لائن کو سیدھے سبھاؤ نجی شعبے کے حوالے کر دیا جاتا۔ حکومت یہ نہ کر سکی۔ دوسرا حل یہ تھا کہ زائد از ضرورت ملازمین کو پُر کشش پیکیج دے کر فارغ کیا جاتا۔ دنیا میں فی جہاز ہماری افرادی قوت شاید سب سے زیادہ ہے۔ اس کو ڈاؤن سائز کیا جاتا۔ یہ بھی نہ کیا گیا۔ غرض کچھ بھی نہ کیا گیا۔ اوپن مارکیٹ سے پروفیشنلز نہ لیے گئے۔ الٹا کمرشل ایئر لائن کو جنگی جہازوں کے ماہرین کے سپرد کر دیا گیا۔ کیا سنگا پور ایئر لائن، اتحاد، ایمیریٹس اور دوسری کامیاب ایئر لائنوں کو ان ملکوں کے جنگی ہوا بازوں نے سنبھالا ہوا ہے؟ کہیں بھی نہیں! یاد رہے کہ ایئر مارشل (ر) اصغر خان اور ایئر مارشل (ر) نور خان مستثنیات تھے۔ ان میں اتنی جرأت تھی کہ طاقت ور ترین شخصیت کے لیے بھی پرواز میں ایک منٹ تاخیر کی اجازت نہیں دیتے تھے، بزنس یا تو پیور، خالص بزنس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ جن ایئر لائنوں کے نام اوپر لیے گئے ہیں‘ ان کے سربراہ اور شعبوں کے ہیڈ خالص اور خالص پیشہ ورانہ بنیادوں پر چُنے اور تعینات کیے جاتے ہیں جب کہ پاکستان میں اکثر و بیشتر تعیناتیاں اقربا پروری، دوست نوازی یا سفارش کی بنیاد پر ہوئیں۔ یہ حضرات یونینوں کے عفریت کو بھی کنٹرول نہ کر سکے۔
دوسرا سفید ہاتھی سٹیل مل تھی۔ وہاں بھی حالات دگرگوں ہیں۔ کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جس بھونڈے طریقے سے ملازمین کو نکالا گیا ہے‘ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ یگانہ چنگیزی نے شاید اسی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
شش جہت میں ہے ترے جلوۂ بے فیض کی دھوم
کان مجرم ہیں مگر آنکھ گنہگار نہیں
انگریزی میں ایک لفظ ہے Mercenary اس کے معنی ہیں‘ کرائے کے سپاہی‘ جو جذبے سے نہیں لڑتے بلکہ معاوضے کی خاطر لڑائی میں شریک ہوتے ہیں! کبھی کسی فوج نے کرائے کے سپاہیوں کی بنیاد پر فتح نہیں پائی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے، بد قسمتی سے، اپنی جماعت کے ارکان کے بجائے، دوسروں پر بھروسہ کیا۔ مالیات، داخلہ، اقتصادی امور، قانون، بین الصوبائی امور، توانائی، پٹرولیم، تجارت، صنعت، ٹیکسٹائل، بیوروکریسی میں اصلاحات، اوورسیز پاکستانی، سیاحت، صحت، غرض تمام اہم معاملات ان افراد کے ہاتھوں میں ہیں جو پارٹی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ بہت سے تو الیکشن کے راستے آئے بھی نہیں، ان کا تعلق عوام سے ہے نہ حکومت سے! کوئی ورلڈ بینک کا پنشنر ہے، کوئی آئی ایم ایف سے درآمد شدہ اور کوئی کسی اور ملک کا شہری! یہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں نہ کسی سیاسی جماعت کے نظم سے وابستہ ہیں۔ ان کے یہاں، ملک کے اندر Stakes ہی نہیں ہیں۔ کل کو بساط الٹی تو وہ شوکت عزیز کی طرح جہاز پر بیٹھیں گے اور اپنے اپنے اصلی وطن کی راہ لیں گے۔ اس کے بعد پاکستانیوں کو کبھی دکھائی ہی نہ دیں گے۔ امداد آکاش نے کیا خوب کہا ہے:
مجھ میں مقیم شخص مسافر تھا دائمی
سامان ایک روز اٹھایا، نکل گیا
افسوس! صد افسوس! ایک سنہری موقع تھا جو کچھ خوئے انتقام کی بھینٹ چڑھ گیا اور کچھ نا اہلی اور نا تجربہ کاری کی نذر ہو گیا! 
دامن خالی ہاتھ بھی خالی، دست طلب میں گرد طلب
عمر گریزاں! عمر گریزاں! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, December 10, 2020

ملین ڈالر سوال: ذمہ دار کون ہے؟



میرے دوست کی آنکھوں میں چمک تھی۔
وہ مجھے مدعو کرنے آیا تھا۔ بیٹی کی شادی تھی۔ پہلے دن ان کے اپنے گھر میں ڈھولکی کا پروگرام تھا۔ دوسرے دن دلہن کے چچا کے گھر میں۔ تیسرے دن ماموں کے ہاں۔ چوتھے دن دلہن کی بڑی بہن کے گھر میں۔ پانچویں دن دلہن کی ایک قریبی اور عزیز سہیلی کے ہاں، جہاں سب سہیلیوں نے جمع ہونا تھا۔ چھٹے دن مایوں تھی جس میں خاندان بھر کے ڈیڑھ دو سو افراد نے شرکت کرنا تھی۔ ساتویں دن مہندی کا فنکشن تھا جو باقاعدہ ایک ہال میں منعقد کیا جا رہا تھا۔ آٹھویں دن برات کی آمد تھی جو شادی کا اصل اور بڑا فنکشن تھا۔ نویں دن لڑکے والے ولیمہ کی تقریب کر رہے تھے۔ اس میں پانچ سو کے لگ بھگ مہمان متوقع تھے۔ یہ تفصیل بتاتے ہوئے میرے دوست کی آنکھوں میں چمک تھی۔ خوشی کی تھی یا سفاکی کی؟ نہیں معلوم! میں نے کہا یار! خدا کا خوف کرو! سادگی سے فرض ادا کرو۔ کورونا کی سطح دن بدن بلند سے بلند تر ہو رہی ہے‘ جتنا زیادہ میل ملاپ ہو گا‘ اتنا زیادہ خطرہ ہو گا۔ اس کی آنکھوں کی چمک تیز تر ہو گئی۔ اس نے مجھے لا جواب کر دیا یہ کہہ کر کہ روز روز تو شادی نہیں ہونی‘ ہم نے اپنے ارمان، اپنے شوق، اپنی حسرتیں پوری کرنی ہیں۔ موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کورونا کی کیا مجال ہے! اس دلیل کا بقراط کے پاس بھی کوئی توڑ نہیں۔ شادی سے پہلے جو چکر بازاروں کے لگتے ہیں، خواتین اور بچوں کے ملبوسات کے لیے، وہ الگ ہیں۔ زیورات، میک اپ، لیس اور گوٹے کناری کی دکانیں گاہکوں سے چھلک رہی ہیں۔ شادیاں ہے یا معاشرتی جبر کی بد ترین مثال؟ نہ جائیں تو ناراضگیاں، مقاطعے، بیٹیوں بہوؤں کو طعنے۔ جائیں تو جان کا خطرہ!
یہ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ اِسی ہفتے اطلاع ملی کہ ایک جاننے والے کے ہاں شادی کی تقریب تھی۔ جتنے افراد آئے تھے، سب کو کورونا ہوا۔ یہ اُس طبقے کی بات ہو رہی ہے جو پڑھا لکھا ہے۔ ایک دوست کی بیگم اتوار بازار پھرتی رہیں۔ بازاروں‘ مارکیٹوں میں شاپنگ کرتی رہیں۔ کورونا ہوا۔ ٹھیک ہو گئیں مگر بیٹی اور میاں بستر پر پڑے ہیں۔ ماسک کوئی نہیں لگاتا۔ جو لگاتے ہیں، منہ اور ناک پر نہیں، ٹھوڑی کو ڈھانک رہے ہیں۔ سماجی فاصلے کی ایسی تیسی ہو رہی ہے۔ ہاتھ ملائے جا رہے ہیں۔ معانقے ہو رہے ہیں۔ لوگ بیمار پڑ رہے ہیں۔ وینٹی لیٹر کم ہیں۔ اموات ہو رہی ہیں مگر ایس او پیز کے پرخچے اُڑ رہے ہیں۔
ہم عجیب قوم ہیں۔ بہادر ہیں یا حد سے زیادہ احمق! ہدایت تو یہ دی گئی تھی کہ اونٹ باندھ کر توکل کرو۔ ہم کہتے ہیں کہ رسی کی کیا مجال اور طاقت کہ ہمارے اونٹ کی حفاظت کرے۔ یہ جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان، کورونا کے آغاز سے لے کر اب تک ہزاروں مرتبہ بتایا، سنایا اور پڑھایا گیا ہے کہ وبا کے علاقے سے باہر نہ نکلو اور باہر سے وبا زدہ علاقے میں جاؤ مت‘ تو اگر یہ ایس او پی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ کسی ایک صحابیٔ رسول نے بھی کیا آگے سے یہ دلیل دی کہ وبا زدہ علاقے میں داخل نہ ہونے سے اور وہاں سے باہر نہ آنے سے کیا ہوتا ہے‘ موت اور زندگی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے؟
رہا حکومت کا کردار تو ہر چند کہ ہے مگر نہیں ہے۔ حکومت کا سارا زور این آر او نہ دینے پر ہے۔ اپوزیشن کا بھی یہی رویہ ہے۔ جلسوں میں لاکھوں لوگوں کو ایک دوسرے سے بیماری لگے گی! اصل میں تو دونوں کی کلاس ایک ہے۔ حکومتی عمائدین ہیں یا حزب اختلاف کے زعما، دونوں کا تعلق معاشرے کے بلند ترین طبقے سے ہے۔ کل، ہجوم میں کسی کارکن کا ہاتھ محترمہ مریم نواز کو ٹچ کر گیا تو گارڈ نے اس کی خوب ٹھکائی کی۔ دوسری طرف وزیر اعظم صاحب سادگی اور کفایت شعاری کے سارے دعووں اور وعدوں کے باوجود اسی سٹائل سے حکمرانی کر رہے ہیں جو ان کے پیشروئوں کا تھا۔ پرسوں اسلام آباد سے پنڈی آنے کا اور پھر واپس جانے کا سفر آپ نے ہیلی کاپٹر پر کیا۔ کیا ہوا جو اِس وقت کچھ امرا حکومت میں اور کچھ اپوزیشن میں ہیں۔ کل یہ ترتیب الٹ جائے گی‘ مگر طبقاتی تفاوت جوں کا توں رہے گا۔ تحریک انصاف، اقتدار میں آنے سے پہلے مغربی ملکوں کی مثال دیتی تھی۔ مغربی ملکوں میں وزیر اعظم ہو یا ملکہ، یا کابینہ کا رکن، بازار سے سودا سلف خود لیتا ہے۔ قطار میں کھڑے ہو کر کافی خریدتا ہے۔ سائیکل پر سوار ہو کر دفتر جاتا ہے یا ٹرین پر بیٹھ کر! آسٹریلیا کے لیڈر آف دی اپوزیشن نے کچھ عرصہ پہلے سیکنڈ ہینڈ ریفریجریٹر خریدا۔ ہمارے ہاں ایک خاص کلاس ہے جو حکومت کی باگ ڈور باہر جانے دیتی ہے نہ اپوزیشن کی! عوام سے دونوں بے نیاز ہیں۔ حکومت لاک ڈاؤن نہیں لگاتی اور ایس او پیز پر سختی سے عمل نہیں کراتی۔ اپوزیشن جلسوں سے باز نہیں آ رہی۔ دونوں کی پالیسی عوام دشمن ہے۔
ہاں ایک فرق گزشتہ اور موجودہ حکمرانوں میں ضرور ہے۔ گزشتہ حکمران تبدیلی کا نعرہ لگاتے تھے نہ ریاست مدینہ کا! موجودہ حکمران وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو ان کے پیش رو کرتے تھے مگر نعرہ لگاتے ہیں دیانت و امانت کا، میرٹ کا اور سب سے بڑھ کر ریاست مدینہ کا! ابھی تو پرسوں ہم نے رونا رویا ہے کہ کس طرح سول ایوی ایشن اتھارٹی کا سربراہ چننے کیلئے اشتہار دیا گیا، چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ اٹھارہ کا انٹرویو ہوا‘ اور تعیناتی گورنر سندھ کے سیکرٹری کی کی گئی جو امیدوار تھے نہ اہل! بالکل یہی کچھ پہلے بھی ہو رہا تھا۔ اب بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اب ریاست مدینہ کے استعارے کی چھتری کے نیچے ہو رہا ہے۔
بڑے مضبوط اعصاب ہیں ان افراد کے جو ریاست مدینہ کا نام لیتے ہیں۔ ہما شما پر تو ریاست مدینہ کا سوچ کر بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ قحط پڑا تو امیرالمومنین عمر فاروقؓ کا رنگ سیاہ پڑ گیا کیونکہ گھی، دودھ اور گوشت انہوں نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ کثرت سے فاقے کرنا شروع کر دیے۔ لوگ کہا کرتے کہ اگر اللہ قحط دور نہ فرماتا تو امیرالمومنینؓ مسلمانوں کے غم میں جان ہی دے دیتے۔ آج جب عوام وبا کا شکار ہیں تو حکمران ہیلی کاپٹروں پر اُڑے پھرتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بڑے بڑے مناصب پر بٹھا رہے ہیں۔ ان کے روزمرہ کے روٹین میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
بات عوام کے اُس رویے سے شروع ہوئی تھی جو وہ وبا کے حوالے سے روا رکھے ہوئے ہیں۔ عوام کا بھی قصور ہے مگر حکومت کی بے اعتنائی کا بہت بڑا کردار ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ، جو پچاس سے زیادہ امرا پر مشتمل ہے، دونوں عوام کی فکر میں رات دن ایک کر دیتے۔ ایس او پیز پر عمل پیرا کرانے کیلئے جدوجہد کرتے، ایک ایک ہسپتال میں یہ لوگ جاتے، شہروں اور قصبوں میں عوام کے درمیان ہوتے‘ مگر یہ اپنے عشرت کدوں سے نکلے ہی نہیں۔ آج کی ریاست مدینہ کے دعویدار حکمران کسی گلی‘ کسی بازار، کسی ہسپتال میں کسی کو نظر نہیں آئے۔ تو پھر تعجب ہی کیا اگر آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے نصف درجن مریض ایک ہی جگہ، ایک ہی ہلے میں مر گئے۔ فرات کے کنارے کتا مرتا تو ذمہ دار ریاست مدینہ کا حکمران ہوتا مگر آدم کے چھ بیٹے مرے تو کے پی حکومت کہتی ہے: ذمہ دار نہیں بچیں گے۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ ذمہ دار ہے کون؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, December 08, 2020

صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے



آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پاکستان کے ایک ادارے‘ سول ایوی ایشن اتھارٹی‘ کا پاکستان سے یا پاکستان کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں !
ہے نا حیرت کی بات ! مگر جب آپ کو اس اجمال کی تفصیل معلوم ہو گی تو نہ صرف حیرت اُڑ جائے گی بلکہ ہاتھوں کے طوطے بھی اُڑ جائیں گے ! سول ایوی ایشن اتھارٹی میں نیا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا گیا ہے۔ اس تعیناتی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ وجہ ؟ وجہ درخواست گزار نے یہ بیان کی ہے کہ اس اسامی کو مشتہر کیا گیا۔چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ اٹھارہ کو شارٹ لسٹ کیا گیا اور ان کا انٹرویو ہوا۔ اس کے بعد‘ ایک ایسے شخص کو تعینات کر دیا گیا جو ان چھ سو یا ان اٹھارہ میں شامل ہی نہیں تھا۔ درخواست دہندہ کے بیان کے مطابق یہ شخص اس پوسٹ کا اہل بھی نہیں۔ سیکرٹری ایوی ایشن نے کابینہ کو بتایا کہ چھ سو امیدواروں میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ ملا جو مناسب ہو۔ درخواست دہندہ کے مطابق سیکرٹری کا یہ بیان جھوٹا‘ من گھڑت اور پوچ (False, fabricated and frivolous)ہے کیونکہ شارٹ لسٹ کیے گئے اٹھارہ کے اٹھارہ امیدوار‘ تعینات کیے گئے شخص سے کہیں زیادہ اہل ہیں۔
عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے؟ یہ خدا جانے اور عدالت! مگر اتنی دھاندلی‘ اتنا ظلم اور میرٹ کا اتنا کھلم کھلا سفاکانہ قتل تحریک انصاف کی حکومت میں کس طرح ممکن ہے ؟ تحریک انصاف نے تو حکومت ہی اس وعدے پر حاصل کی تھی کہ ایسا کوئی غلط کام نہیں ہو گا۔ ہر گز ہر گز نہیں ہو گا۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ عمران خان وزیر اعظم ہوں اور چھ سو امیدواروں کو پسِ پشت ڈال کر گورنر سندھ کے سیکرٹری کو ڈی جی سول ایوی ایشن اٹھارٹی کی ٹیکنیکل پوسٹ پر‘ کسی درخواست‘ کسی انٹرویو کے بغیر لگا دیا جائے۔ نئے پاکستان میں یہ ممکن ہی نہیں۔ اب ایک ہی صورت باقی ہے اور وہ یہ کہ یقینا یہ ادارہ پاکستان میں نہیں‘ کسی اور ملک میں واقع ہے جہاں تحریک انصاف کی حکومت کی رِٹ نہیں ! اس وقت یورپ امریکہ اور برطانیہ میں پاکستانی ہوائی جہازوں کے آنے جانے پر پابندیاں عائد ہیں۔ تعجب ہے کہ ہمارے ہاں جب ہر کام میرٹ اور خالص میرٹ پر ہو رہا ہے اور نئے پاکستان میں قانون اور ضابطے کی حکمرانی ہے تو یورپ اور امریکہ اس عظیم تاریخی تبدیلی کی قدر کیوں نہیں کر رہے؟
بات انصاف کی کرنی چاہیے۔ اس وقت سول ایشن اور قومی ایئر لائن کا جو حال ہے وہ ظاہر ہے موجودہ حکومت کے اڑھائی سالوں میں تو نہیں ہوا۔ اداروں کو اس قابل رحم‘ رسوا کُن حال تک پہنچانے میں عشرے لگتے ہیں اور عشرے لگے۔ گزشتہ ساری حکومتوں نے حسبِ توفیق اس بربادی میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ تباہی کے اس کارِ خیر میں جمہوری اور غیر جمہوری‘ ساری حکومتیں شامل رہیں ! سالہا سال‘ تعیناتیاں چور دروازے سے کسی اشتہار‘ کسی مقابلے‘ کسی میرٹ کے بغیر ہوتی رہیں۔سیاسی‘ خاندانی‘ قبائلی‘ لسانی‘ علاقائی ساری بنیادوں پر بھرتیاں اور ترقیاں ہوتی رہیں۔ اگر نہیں ہوئیں تو صرف میرٹ کی بنیاد پر نہیں ہوئیں۔ آج پی ڈی ایم کی صورت میں اپوزیشن کی جماعتیں اکٹھی ہو کر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جدو جہد کر رہی ہیں مگر سب سے پہلے ان جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ تحریک انصاف کی حکومت آئی کیسے ؟۔ اے بادِ صبا ! این ہمہ آوردہ تُست ! صدیوں کا مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ کچھ غلط کام ایسے ہیں جن کا بدلہ دنیا میں بھی ملتا ہے اور یوں ملتا ہے کہ انسان نشانِ عبرت بن جاتا ہے۔ مثلاً ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی اور گستاخی۔ مثلاً کسی اندھے‘ لنگڑے‘ گونگے‘ بہرے‘کوڑھی کا مذاق اڑانا! پاکستانیوں کو قدرت ایک مدت سے سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ میرٹ کے قتل اور ناانصافی کی سزا‘ آخرت میں تو ملے گی ہی‘ اس دنیا میں بھی ملتی ہے۔ پیپلز پارٹی والے میرٹ کو نظرانداز کر کے جنرل ضیا الحق کو نیچے سے اوپر لائے تھے۔ وہی ضیا الحق پیپلز پارٹی والوں کو پھانسیاں دیتا رہا اور ان پر کوڑے برساتا رہا۔ مسلم لیگ (ن) والوں نے انصاف کو بالائے طاق رکھ کر جنرل مشرف کو نوازا۔ اسی نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو دس سال ملک کی سرزمین پر پیر نہ دھرنے دیا۔ پیپلز پارٹی اور(ن) لیگ کی حکومتوں نے جس طرح حکومت کی اور جو سلوک عوام کے ساتھ کیا‘ اس کا بدلہ انہیں عمران خان صاحب کی حکومت کی شکل میں ملا ہے۔ کون سی ناانصافی تھی جو ان کی حکومتوں نے روا نہ رکھی۔ نوکریاں‘ تعیناتیاں‘ترقیاتی منصوبے‘ وزارتیں‘ سینیٹ کی نشستیں‘ ہر جگہ دھاندلی اور بد ترین دھاندلی! کہیں بیٹی کی بادشاہی‘ کہیں بہن کی مطلق العنانیت‘ کہیں صوبے کا صوبہ بھتیجے کی نذر ! مرکز میں ایک اہم وزارت جو جے یو آئی کے پاس تھی‘ اُس کے وزیر صاحب ہفتے میں ایک دن‘ جی ہاں صرف ایک دن‘ دفتر آتے تھے۔ پوری وزارت خالص لسانی بنیادوں پر چلائی جا رہی تھی اور وقت کا وزیر اعظم مکمل طور پر لا تعلق اور بے نیاز !کوئی بازپرس تھی نہ کنٹرول ! قومی ایئر لائن کے جہاز جس طرح اپنی ذات اور خاندان کے لیے‘ ٹیکسیوں کی طرح استعمال ہوتے رہے‘ اس کی تفصیل ڈھکی چھپی نہیں! پراپرٹی ٹائکون‘ سرکاری زمینوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے اور حکومتیں موم کی ناک بنی رہیں! غرض‘ قانون‘ قواعد و ضوابط‘ رولز آف بزنس‘ سب کو پاؤں کے نیچے روندا گیا۔ اقربا پروری اور دوست نوازی ان حکومتوں کا بنیادی ستون تھی۔ جیل میں کسی ڈاکٹر نے مہربانی کی تو اسے ''نفع آور‘‘ وزارت دے دی ! کسی افسر نے ماڈل ٹاؤن ہلاکتوں میں کردار ادا کیا تو اسے بیرونِ ملک سفیر لگا دیا ! تحریک انصاف نے ان شہنشاہانہ اور مجرمانہ رویوں کے خلاف جھنڈا اٹھایا تو مڈل کلاس‘ خاص طور پر پڑھا لکھا طبقہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ساتھ آملے۔
تحریک انصاف کی حکومت سراب ثابت ہوئی! مکمل سراب! وہی دوست نوازی‘ وہی میرٹ کے ساتھ دھینگا مُشتی ! ایک ایک وعدے کی باقاعدہ خلاف ورزی ! کابینہ کا حجم‘ بجلی کے ہر بل میں پی ٹی وی کا جگا ٹیکس‘ آئی ایم ایف‘ کروڑوں نوکریاں‘ لاکھوں مکانات‘ غرض ہر وعدے کو پاؤں کے نیچے روندا جا رہا ہے۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ جو خاندان اور افراد گزشتہ ادوار میں جمہوریت کے لبادے میں بادشاہت کے مزے اڑاتے رہے ان کی مُشکیں خوب کسی جا رہی ہیں !
مگر کسی کو غلط فہمی نہ رہے کہ موجودہ حکومت اور اس کے کارپرداز بچ جائیں گے۔ یہ کائنات ایک نظم‘ ایک سسٹم کے تحت چلائی جا رہی ہے! پاکستان اسی کائنات کا حصہ ہے! منظر بدلتے دیر نہیں لگتی! قدرت تحریک انصاف کی حکومت کے ذریعے ماضی کے حکمرانوں کو ناکوں چنے چبوا رہی ہے تو کوئی بعید نہیں کہ ماضی کے حکمرانوں کے ذریعے تحریک انصاف کے کارناموں کا حساب کروائے ! چھ سو امیدواروں اور اٹھارہ شارٹ لسٹ کیے گئے اور انٹر ویو لیے گئے امیدواروں کو بھاڑ میں جھونک کر جس طرح تعیناتی کسی اور کی کر دی گئی ہے‘ اس قبیل کی بے شمار مثالیں قالین کے نیچے چھپی پڑی ہیں۔ منظر بدلا تو بہت کچھ سامنے آئے گا۔تب کچھ تو بیگ اٹھا کر واپس امریکہ‘ برطانیہ اور آئی ایم ایف ہیڈ کوارٹر چلے جائیں گے اور کچھ یہاں خمیازہ بھگتیں گے ۔
دربارِ وطن میں جب اک دن سارے جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے‘ کچھ اپنی جزا لے جائیں گے !
وہ جو کہتے ہیں کہ چراغ سب کے بجھیں گے‘ ہوا کسی کی نہیں‘ تو قدرت کسی کی رشتہ دار نہیں ! گنبدِ نیلو فری کو رنگ بدلتے دیر نہیں لگتی 
بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, December 07, 2020

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں



گْل گئے، گلشن گئے، جنگلی دھتورے اور تُنبے رہ گئے! زرق برق پروں والے طائر اُڑ گئے! اب خزاں زدہ شاخوں پر زاغ و زغن بیٹھے ہیں۔ اس مفہوم کا شعر شاید حماسہ میں ہے کہ کیسا المیہ ہے! جو اہل تھے وہ چلے گئے اور اب سرداری ہم جیسوں کے سر آ پڑی! ارشاد حقانی کے بعد عبدالقادر حسن کا کوچ کالم نگاری کے فن کے لیے زوال ہے اور بہت سخت دھچکا! یہ کتنے بڑے لوگ تھے! ہم جیسے بے بضاعت بے ہنروں کو بھی اہتمام سے ملتے تھے اور پیار سے پاس بٹھاتے تھے۔ عبدالقادر حسن کی تحریر میں شکوہ تھا! شکوہِ خسروی! بلا شبہ قلم کی قلمرو کے وہ بادشاہ تھے! کالم نہیں تھا دبستان تھا! ان کا اپنا ڈکشن تھا۔ اپنا اسلوب! لغت کے اسرار بھی تھے کالم میں اور ادب کا ذائقہ بھی! انہی کے کالموں کی بدولت عزیز حامد مدنی کا یہ شعر مقبول ہوا:
طلسمِ خوابِ زلیخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
چند ہی ملاقاتیں رہیں۔ وسط ایشیائی ریاستیں سوویت یونین کے دامِ تزویر سے رہا ہوئیں تو یہ کالم نگار شروع شروع کے مسافروں میں شامل تھا۔ مختار حسن مرحوم نے رہنمائی کی اور پاکستان دوست ازبکوں کے ریفرنسز دیئے۔ واپس آ کر شاعری میں نوحہ خوانی کی۔ یہ شاعری عبدالقادر حسن نے بہت پسند کی۔ خاص طور پر یہ شعر کئی بار کالموں میں لکھا۔
جدائی کے ستر برس تھے ہزاروں برس پر محیط
بخارا کی مٹی گلے سے لگا کر بہت روئی تھی
کیا افتاد آن پڑی! تھوڑے ہی عرصے میں اس طالب علم کے تین اساتذہ اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ کڑکتی دھوپ میں برہنہ سری کا احساس ہو رہا ہے! کیا لوگ تھے! علم و فن کے دریا! گفتگو میں تربیت کے خزانے! صرف انہیں دیکھنے ہی سے بہت کچھ سیکھ لیا جاتا تھا۔ لباس کیسا پہننا ہے؟ کس طرح کا پہننا ہے؟ بات کیسے کرنی ہے؟ مجلس کے کیا آداب ہیں؟ پروفیسر مختار صدیقی سے سیٹلائٹ ٹاؤن کے گورنمنٹ کالج میں اکنامکس پڑھی۔ فرسٹ ائیر میں ایسی مضبوط بنیاد باندھ گئے کہ ایم اے تک کام آئی۔ ایک ایک لفظ لیکچر کا کانوں پر نہیں براہ راست دل پر پڑتا۔ وجیہہ ‘ خوش پوش! نرم گفتار! شاید ہی کبھی کسی کو ڈانٹا ہو۔ راولپنڈی سے گورنمنٹ کالج اٹک گئے جہاں ان کا گھر تھا۔ پھر وہیں رہے۔ آرٹلری سنٹر اٹک میں ایک نیم سرکاری تقریب تھی جس میں شہر کے معززین بھی بڑی تعداد میں مدعو تھے۔ یہ بے بضاعت سٹیج پر مہمان خصوصی کے طور پر بیٹھا ہوا تھا۔ دیکھا کہ حاضرین میں پروفیسر صاحب تشریف فرما ہیں۔ اٹھ کر میزبانوں سے کہا کہ استاد نیچے بیٹھے تو شاگرد، اونچی جگہ، سٹیج پر، کیسے بیٹھ سکتا ہے؟ پروفیسر صاحب کو زحمت دی گئی کہ اوپر تشریف لا کر سٹیج کو اعزاز بخشیں! تشریف لے آئے یہ اور بات کہ یہ نقل مکانی پسند نہ فرمائی۔ چند دن بعد ان کا فون آیا۔ فرمانے لگے: یہ تم مجھے کس مصیبت میں ڈال گئے ہو تمہارے محکمے کے ملازمین اپنے کاموں کے لیے میرے پاس آنا شروع ہو گئے ہیں کہ تم میرے شاگرد ہو۔ پھر ہنسے۔ اٹک جب بھی جانا ہوتا، قدم بوسی کے لیے حاضر خدمت ہوتا۔ خوش ہوتے۔ دیر تک نشست رہتی۔ پھر ایک دن اطلاع ملی کہ اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں داخل ہیں۔ حاضر ہوا۔ افسوس! پہچان نہ پائے۔ تعلیم اور تربیت کا چراغ گل ہو گیا۔ تہذیب کا ایک خزانہ تھا جو زیر زمین چلا گیا۔
چند ہفتے پہلے برادرم شاہد مسعود ملک کی معرفت، کہ پی ٹی وی کے ایک عالی مرتبت منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں، خبرِ وحشت اثر ملی کہ استاد مکرم پروفیسر سجاد حیدر ملک بھی چلے گئے۔ محرومی نے غم کے ریگستان میں ایک اور اجاڑ خیمہ نصب کر ڈالا۔ اصغر مال کالج کے در و دیواراور شب و روز یادوں کے افق سے آندھی کی طرح اٹھے اور دل و دماغ کی دنیا کو زیر و زبر کر گئے۔ پروفیسر سجاد حیدر ملک ہمیں بی اے میں انگریزی شاعری پڑھاتے تھے۔ نہ جانے ان کے اسلوبِ تعلّم کا طلسم تھا یا کسی اسم کی تاثیر تھی، آج تک ایک ایک نظم حافظے پر نہیں، لا شعور پر کُھدی ہوئی ہے۔ ڈبلیو ایچ آڈن سے لے کر ٹی ایس ایلیٹ تک، ہر شاعر کو یوں پڑھایا جیسے پڑھانے کا حق تھا۔ دماغوں میں اعلیٰ ذوق کے بیج بوئے، پھر آبیاری کی یہاں تک کہ ہم ٹاٹ سکولوں سے آئے ہوئوں کو انگریزی ادب کا ایسا شناور کیا اور اتنا اعتماد بخشا کہ ان کے قدموں سے اٹھے تو پھر کسی مقابلے میں ہارے نہ کہیں خفت اٹھانا پڑی۔ کئی بار دیکھا کہ کسی کمرے میں تنہا بیٹھے کسی کتاب یا رسالے کا مطالعہ فرما رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے فون پر بات ہوئی تو عجیب فرمائش کی۔ فرمانے لگے: آج کل خط لکھنے کا رواج نہیں رہا، تم ایسا کرو کہ مجھے خط لکھو! افسوس! انگریزی لٹریچر کے ایک بہت عظیم استاد، انگریزی ادب کے ایک بڑے غوّاص، ہمیں چھوڑ کر چل دیے۔
جیسے یہ سب کچھ کافی نہ تھا! گزشتہ ہفتے استاد گرامی پروفیسر اقبال بخت نے بھی جان، جان آفرین کے سپرد کر دی اور اپنے تلامذہ کو گریہ کناں چھوڑ گئے۔ اصغر مال کالج میں ڈگری کلاس میں ہمیں اقتصادیات پڑھائی۔ کیا دل کش شخصیت تھی۔ گرمیوں میں ہمیشہ سفید براق قمیص اور سفید ہی پتلون زیب تن ہوتی۔ سرما میں بہترین سوٹ یا کمبی نیشن! تازہ ترین فیشن کے کالر! اس پر دیدہ زیب نکٹائی! گھنے خوبصورت بال! پہلی نظر میں لگتا شوبز کے سٹار ہیں مگر لیکچر دیتے تو مبہوت کر دیتے۔ نظر ان پر ٹھہر جاتی! ایک ایک لفظ دل پر نقش ہو جاتا۔ یوں محسوس ہوتا انگریزی زبان ان کے سامنے دست بستہ کھڑی ہے۔ ایک دن معلوم ہوا کہ اکنامکس کی جو کلاس اردو میں ہوتی ہے اسے بھی سر اقبال بخت ہی پڑھاتے ہیں۔ وہاں سنا تو یوں لگا جیسے اردو ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کی شاگردی میں گریجویشن کر کے اکنامکس میں ایم اے کرنے ڈھاکہ یونیورسٹی گیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے اکنامکس، کامرس، اور ریاضی کے شعبے، مغربی پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی سے بہت آگے تھے۔ ہندو طلبہ ان مضامین میں بہت تیز تھے۔ سخت مقابلہ تھا مگر بنیاد سر اقبال بخت نے باندھی تھی۔ ان کی جوتیوں کا صدقہ کہ
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو، آئے کرے شکار مجھے
ماں باپ کے بعد اس زمین پر استاد سے بڑھ کر کون ہے جس کا سب سے زیادہ ادب کیا جائے، جس کے جوتے چومے جائیں، جس کے حضور دست بستہ کھڑا ہوا جائے! گوشت پوست اور ہڈیوں پر مشتمل اس جانور کو استاد ہی تو انسان بناتا ہے۔ ورنہ کھانے پینے، سونے جاگنے اور دیگر حیوانی تقاضوں سے عہدہ برآ تو مویشی بھی ہو جاتے ہیں۔ افسوس! صد افسوس! اساتذہ کے پردہ کرنے کے بعد اب احساس محرومی کھائے جا رہا ہے۔ ان کی خدمت نہ کر سکے۔ جس قدر تواتر حاضری میں ہونا چاہیے تھا، مکروہاتِ دنیا کے سبب نہ ہو سکا۔ یوں تو ساری زندگی ان کے مقدس پاؤں پر جھکے رہنے سے ایک لفظ سکھانے کا احسان بھی نہیں اتر سکتا۔ یہ بے خرد اور نا کس آج جو کچھ بھی ہے اُن چند ریزوں کی بدولت ہے جو اساتذہ کے دستر خوان سے گرے اور انہیں اٹھا کر کھا لیا۔ علم و آگہی کے ان سمندروں سے جتنی پیا س بجھانی چاہیے تھی نہ بجھا سکے مگر حرف و قلم کے پروردگار کی سوگند! وہ چند ریزے جواٹھا لیے، زر و سیم کے خزینوں سے بڑھ کر ہیں! خوش بختی تھی کہ ایسے اساتذہ ملے۔
مرا ہر موئے تن استاد کے حق میں دعا گو ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, December 01, 2020

جسم کا زوال



سترہویں صدی کے آغاز میں فلپ سوم ہسپانیہ کا بادشاہ تھا۔ اس کی موت کی وجہ عجیب تھی۔ آتشدان کے پاس بیٹھا رہا۔ بیٹھا رہا۔ حرارت اس کے جسم میں نفوذ کرتی رہی۔ بخار تیز ہوتا گیا۔ جس ملازم کی ڈیوٹی آتشدان ہٹانے کی تھی ‘ وہ مل نہیں رہا تھا۔ خود اُٹھ کر ہٹنا بادشاہ کی شان کے خلاف تھا۔اسی حال میں مر گیا۔
فلپ سوم آج کے زمانے میں ہوتا تو کم از کم اس وجہ سے نہ مرتا۔ اس کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول ہوتا۔ اپنی جگہ سے اٹھے بغیر ‘ گرم ہوا پھینکنے والے ایئر کنڈیشنر کو بند کر دیتا۔ آج اکثر کام اپنی جگہ سے اُٹھے بغیر کیے جا رہے ہیں!انسانی جسم زوال کے راستے پر چل رہا ہے۔
انسانی جسم پر پہلی افتاد ریل کی صورت میں پڑی‘ مگر اصل دشمن کار ثابت ہوئی۔کار ایجاد تو پہلے ہو چکی تھی مگر بڑی مقدار میں پروڈکشن بیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہوئی۔1913 ء اور 1927 ء کے درمیان‘فورڈ کمپنی نے ڈیڑھ کروڑ کاریں بنا ڈالیں۔ جیسے جیسے گاڑیاں عام ہوئیں‘ لوگوں نے چلنا چھوڑ دیا۔ پھر بسیں اور ویگنیں آگئیں۔ اس کالم نگار کو وہ دن یاد ہیں جب گاؤں سے لڑکے دوسرے گاؤں میں واقع سکول جانے کے لیے کچے ٹریک پر چلتے اور کچھ ہی دیر میں پہنچ جاتے۔ اب وہ اپنے گاؤں سے سوزوکی میں بیٹھتے ہیں‘ دو جگہ سواری تبدیل کرتے ہیں تب دوسرے گاؤں پہنچتے ہیں۔ پرانی بات یاد آرہی ہے۔ دفتر جانے کے لیے نکلا‘ ایک طالب علم نے ہاتھ دیا۔ اسے بٹھا لیا۔ کہنے لگا: آدھ گھنٹے سے لفٹ کے انتظار میں کھڑا ہوں حالانکہ پیدل چلتا تو پندرہ منٹ کا رستہ تھا۔ ٹریکٹر اور ٹرالیاں گاؤں گاؤں داخل ہو چکیں ! بجلی سے چلنے والے پنکھے جاپانیوں نے 1909ء میںاپنے ملک میں فراہم کرنے شروع کر دیے تھے۔ اگلے تیس برسوں میں برصغیر میں عام بننے لگے۔ دستی پنکھے سے بازوؤں کی جو ورزش ہوتی تھی ‘ ختم ہو گئی۔ رہی سہی کسر ایئر کنڈیشنر نے نکال دی۔ صحن میں یا چھت پر ‘یا باہر گلی میں سونے کا تصور ہی نہیں رہا۔ پہلے لوگ باگ‘ لڑکے بالے‘ شام کو باہر جا کر کھیلتے تھے۔ پھر ٹی وی آگیا۔ پوری شام اس کے حضور گزرنے لگی۔وڈیو گیمز نے بچوں کی جسمانی اچھل کود پر قدغن لگا دی۔ لفٹ آنے کے بعد سیڑھیاں چڑھنے اترنے کا عمل ختم ہو گیا۔ بیت الخلا چھت پر‘ یا آخری منزل پر ہوتے تھے۔ سیڑھیاں چڑھنا پڑتی تھیں ! اب یہ کام خواب گاہ کے اندر ہی ہو جاتا ہے۔یہاں تک بھی خیریت تھی‘ مگر جو آج کی صورتحال ہے‘ ہولناک ہے۔ اب گھرسے باہرقدم رکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی ! گھنٹی بجے تو لازم نہیں کہ باہر جا کر دیکھیں کون آیا ہے۔ انٹر کام پر آنے والے سے بات کر لیجیے۔ صبح اٹھیں تو باہر دروازے پر جا کر اخبار اٹھانے کی ضرورت نہیں‘ بستر پر لیٹے لیٹے ‘آئی پیڈ پر دنیا بھر کے اخبارات کھنگال لیجیے۔ پنکھے کو تیز یا آہستہ کرنے والا ریموٹ کنٹرول بھی آچکا۔ کھانا کھانے ریستوران جانا لازم نہیں ‘ کھانا گھر ڈیلیورکرا سکتے ہیں۔ رات رات بھر یہ '' سہولت‘‘ میسر ہے۔ گھر کا سودا سلف خریدنا ہے تو وٹس ایپ پر مطلوبہ اشیا کی فہرست سٹور والے کو بھیج دیجیے۔ کچھ ہی دیر میں سودا پہنچا دیا جائے گا۔ نہلے پر دہلا یہ دیکھیے کہ اگر ادائیگی کریڈٹ کارڈ سے کرنی ہے تو کریڈٹ کارڈ والی مشین بھی گھر بھیج دی جاتی ہے۔ اب بات دال گھی اور چینی سے آگے جا چکی ہے۔ آن لائن شاپنگ کی کوئی حدود و قیود نہیں۔ خواتین کو شاپنگ مال جانے کی حاجت ہی نہیں۔ کون سی شے ہے جو گھر بیٹھے بیٹھے آن لائن نہیں منگوائی جا سکتی۔ ملبوسات‘ جوتے‘ بستر کی چادریں‘ تکیوں کے غلاف‘ہینڈ بیگ‘ مصنوعی جیولری‘ کتابیں ‘ یہاں تک کہ برقی پنکھے اور ایئرکنڈیشنر بھی ! پہلے بچے سکول جانے کے لیے باقاعدہ تیار ہوتے‘ نہا دھو کر یونیفارم پہنتے‘ ناشتہ کرتے ‘ غضب خدا کا ‘ اب منہ ہاتھ دھوئے بغیر‘ بہتی رال کے ساتھ‘ بستر پر نیم دراز ‘ کلاس اٹینڈ کر رہے ہیں۔ دفتر جانے کی بھی ضرورت نہیں ‘ گھر سے ہی ڈیوٹی سرانجام دی جا نے لگی ہے۔ سْستی کا یہ عالم ہے کہ گیٹ کھولنے کے لیے گاڑی سے نیچے نہیں اُترنا‘ ریموٹ کنٹرول سے‘ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے‘ گیٹ کھول لیجیے۔ کیا آپ نے نوٹ نہیں کیا کہ لیٹر بکس غائب ہو گئے ہیں؟ پہلے خط لکھ کر پوسٹ کرنے جاتے تھے یا رجسٹری کرانے ڈاکخانے جاتے تھے۔ اب گھر بیٹھے بیٹھے ای میل کیجیے۔ ای میل کے بعد وٹس ایپ آگیا ہے۔ اس کا خرچہ بھی برائے نام ہے‘ گھر کے کسی فرد سے بات کرنی ہے تو دوسرے کمرے میں یا بالائی منزل پر جانے کی بھی ضرورت نہیں‘ وٹس ایپ سے بات ہوتی ہے۔ شادی کے دعوتی کارڈ پہلے گھر گھر جا کر دیے جاتے تھے۔ اعزہ و احباب سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی۔ مگر اب نہیں! وٹس ایپ پر کارڈ کی فوٹو بھیج دیجیے۔ اللہ اللہ خیر صلّا!سنیما ہاؤس وفات پا چکے۔ ٹیلی فون بوتھ ختم ہو گئے۔ سب کچھ گھرکے اندر منتقل ہو چکا۔ ٹیکسی ڈھونڈنے کے لیے چوک پر یا بازار کی طرف کیا جانا! گھر بیٹھے بیٹھے اَیپ سے سلسلہ جنبانی کیجیے‘ دروازے پر حاضر ہو جائے گی۔ جہاز یا ٹرین کا ٹکٹ لینے کے لیے کہیں مت جائیے‘ سب کام آن لائن ہو سکتا ہے۔
یہ سب کیا ہے؟ انسانی جسم کے ساتھ دشمنی !جسم زوال پذیر ہے۔ حرکت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ جسمانی فٹنس ہمارے ہاں پہلے بھی ترجیحات میں شامل نہ تھی‘ آبادی کا قلیل حصہ ہی اس کی طرف راغب تھا؛ تاہم کچھ کام سرانجام دینے کے لیے باہر نکلنا پڑتا تھا۔ اب اُس سے بھی گئے۔ غضب یہ ہوا کہ ساتھ انواع و اقسام کے کھانے بھی میسر ہیں۔ اور افراط سے میسر ہیں۔ایک عزیز رات دن فوڈ والی وڈیوز دیکھتے رہتے ہیں۔دلی‘ کراچی لاہور کے چٹ پٹے کھانے‘ نہاری کی اقسام! بریانی اور پلاؤ کی تاریخ۔ اب ماشاء اللہ مندی بھی تشریف لے آئی ہے۔ ایک دن میں لاکھوں مرغے ‘ بکرے‘ بیل‘ مچھلیاں تنور ہائے شکم میں جھونکی جاتی ہیں ! پورا سرما گاجر کا حلوا چلے گا۔ گھی اور کھوئے سے بھرا ہوا۔ وہی گاجر جو صحت کے لیے تیر بہدف ہے اور اس کا رس از حد مفید ہے‘ ہمارے ہاں‘ شوگر‘ کولیسٹرول اور وزن بڑھانے کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ دوسرے ملکوں میں پارکنگ کے قوانین سخت ہیں۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد اچھا خاصا چلنا پڑتا ہے‘ ہمارے ہاں اس ضمن میں مکمل اور شرمناک لا قانونیت کا دور دورہ ہے۔ عین دکان کے سامنے گاڑی پارک ہو گی۔ راستہ بے شک بلاک ہو جائے! پارکنگ کی جگہ بے شک کھلی کیوں نہ ہو ! موٹر سائیکل والوں کا بس چلے تو موٹر سائیکل باتھ روم کے اندر لے چلیں ! کسی کے گھر جانا ہو تو پھل یا کوئی اور شے لے جانے کا رواج نہیں ! کیک اور مٹھائیوں پر زور ہے۔ چائے میں چینی نہیں بلکہ چینی میں چائے ڈالی جاتی ہے۔ چین سے لے کر مراکش تک ‘ تاشقند سے لے کر ترکی تک ہر جگہ قہوہ یا سبز چائے پھیکی پینے کا معمول ہے‘ ہمارے ہاں نہیں! اتنا بھی نہیں ہو سکتا کہ سفید چینی کے بجائے گُڑ ہی استعمال کر لیں ! دنیا میں دوپہر کا کھانا کھانے کی عادت ختم کی جا رہی ہے۔ پھل‘ سلاد یا ایک آدھ سینڈوچ سے کام چلایا جاتا ہے۔ یہاں جاڑے کے چھوٹے دنوں میں بھی باورچی خانہ سارا دن رنگا رنگ سرگرمیوں کا مرکز بنا رہتا ہے۔ ڈاکٹروں ‘ طبیبوں اور اتائیوں کے مزے ہیں

بشکریہ روزنامہ دنیا
 

powered by worldwanders.com