میرے دوست کی آنکھوں میں چمک تھی۔
وہ مجھے مدعو کرنے آیا تھا۔ بیٹی کی شادی تھی۔ پہلے دن ان کے اپنے گھر میں ڈھولکی کا پروگرام تھا۔ دوسرے دن دلہن کے چچا کے گھر میں۔ تیسرے دن ماموں کے ہاں۔ چوتھے دن دلہن کی بڑی بہن کے گھر میں۔ پانچویں دن دلہن کی ایک قریبی اور عزیز سہیلی کے ہاں، جہاں سب سہیلیوں نے جمع ہونا تھا۔ چھٹے دن مایوں تھی جس میں خاندان بھر کے ڈیڑھ دو سو افراد نے شرکت کرنا تھی۔ ساتویں دن مہندی کا فنکشن تھا جو باقاعدہ ایک ہال میں منعقد کیا جا رہا تھا۔ آٹھویں دن برات کی آمد تھی جو شادی کا اصل اور بڑا فنکشن تھا۔ نویں دن لڑکے والے ولیمہ کی تقریب کر رہے تھے۔ اس میں پانچ سو کے لگ بھگ مہمان متوقع تھے۔ یہ تفصیل بتاتے ہوئے میرے دوست کی آنکھوں میں چمک تھی۔ خوشی کی تھی یا سفاکی کی؟ نہیں معلوم! میں نے کہا یار! خدا کا خوف کرو! سادگی سے فرض ادا کرو۔ کورونا کی سطح دن بدن بلند سے بلند تر ہو رہی ہے‘ جتنا زیادہ میل ملاپ ہو گا‘ اتنا زیادہ خطرہ ہو گا۔ اس کی آنکھوں کی چمک تیز تر ہو گئی۔ اس نے مجھے لا جواب کر دیا یہ کہہ کر کہ روز روز تو شادی نہیں ہونی‘ ہم نے اپنے ارمان، اپنے شوق، اپنی حسرتیں پوری کرنی ہیں۔ موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کورونا کی کیا مجال ہے! اس دلیل کا بقراط کے پاس بھی کوئی توڑ نہیں۔ شادی سے پہلے جو چکر بازاروں کے لگتے ہیں، خواتین اور بچوں کے ملبوسات کے لیے، وہ الگ ہیں۔ زیورات، میک اپ، لیس اور گوٹے کناری کی دکانیں گاہکوں سے چھلک رہی ہیں۔ شادیاں ہے یا معاشرتی جبر کی بد ترین مثال؟ نہ جائیں تو ناراضگیاں، مقاطعے، بیٹیوں بہوؤں کو طعنے۔ جائیں تو جان کا خطرہ!
یہ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ اِسی ہفتے اطلاع ملی کہ ایک جاننے والے کے ہاں شادی کی تقریب تھی۔ جتنے افراد آئے تھے، سب کو کورونا ہوا۔ یہ اُس طبقے کی بات ہو رہی ہے جو پڑھا لکھا ہے۔ ایک دوست کی بیگم اتوار بازار پھرتی رہیں۔ بازاروں‘ مارکیٹوں میں شاپنگ کرتی رہیں۔ کورونا ہوا۔ ٹھیک ہو گئیں مگر بیٹی اور میاں بستر پر پڑے ہیں۔ ماسک کوئی نہیں لگاتا۔ جو لگاتے ہیں، منہ اور ناک پر نہیں، ٹھوڑی کو ڈھانک رہے ہیں۔ سماجی فاصلے کی ایسی تیسی ہو رہی ہے۔ ہاتھ ملائے جا رہے ہیں۔ معانقے ہو رہے ہیں۔ لوگ بیمار پڑ رہے ہیں۔ وینٹی لیٹر کم ہیں۔ اموات ہو رہی ہیں مگر ایس او پیز کے پرخچے اُڑ رہے ہیں۔
ہم عجیب قوم ہیں۔ بہادر ہیں یا حد سے زیادہ احمق! ہدایت تو یہ دی گئی تھی کہ اونٹ باندھ کر توکل کرو۔ ہم کہتے ہیں کہ رسی کی کیا مجال اور طاقت کہ ہمارے اونٹ کی حفاظت کرے۔ یہ جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان، کورونا کے آغاز سے لے کر اب تک ہزاروں مرتبہ بتایا، سنایا اور پڑھایا گیا ہے کہ وبا کے علاقے سے باہر نہ نکلو اور باہر سے وبا زدہ علاقے میں جاؤ مت‘ تو اگر یہ ایس او پی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ کسی ایک صحابیٔ رسول نے بھی کیا آگے سے یہ دلیل دی کہ وبا زدہ علاقے میں داخل نہ ہونے سے اور وہاں سے باہر نہ آنے سے کیا ہوتا ہے‘ موت اور زندگی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے؟
رہا حکومت کا کردار تو ہر چند کہ ہے مگر نہیں ہے۔ حکومت کا سارا زور این آر او نہ دینے پر ہے۔ اپوزیشن کا بھی یہی رویہ ہے۔ جلسوں میں لاکھوں لوگوں کو ایک دوسرے سے بیماری لگے گی! اصل میں تو دونوں کی کلاس ایک ہے۔ حکومتی عمائدین ہیں یا حزب اختلاف کے زعما، دونوں کا تعلق معاشرے کے بلند ترین طبقے سے ہے۔ کل، ہجوم میں کسی کارکن کا ہاتھ محترمہ مریم نواز کو ٹچ کر گیا تو گارڈ نے اس کی خوب ٹھکائی کی۔ دوسری طرف وزیر اعظم صاحب سادگی اور کفایت شعاری کے سارے دعووں اور وعدوں کے باوجود اسی سٹائل سے حکمرانی کر رہے ہیں جو ان کے پیشروئوں کا تھا۔ پرسوں اسلام آباد سے پنڈی آنے کا اور پھر واپس جانے کا سفر آپ نے ہیلی کاپٹر پر کیا۔ کیا ہوا جو اِس وقت کچھ امرا حکومت میں اور کچھ اپوزیشن میں ہیں۔ کل یہ ترتیب الٹ جائے گی‘ مگر طبقاتی تفاوت جوں کا توں رہے گا۔ تحریک انصاف، اقتدار میں آنے سے پہلے مغربی ملکوں کی مثال دیتی تھی۔ مغربی ملکوں میں وزیر اعظم ہو یا ملکہ، یا کابینہ کا رکن، بازار سے سودا سلف خود لیتا ہے۔ قطار میں کھڑے ہو کر کافی خریدتا ہے۔ سائیکل پر سوار ہو کر دفتر جاتا ہے یا ٹرین پر بیٹھ کر! آسٹریلیا کے لیڈر آف دی اپوزیشن نے کچھ عرصہ پہلے سیکنڈ ہینڈ ریفریجریٹر خریدا۔ ہمارے ہاں ایک خاص کلاس ہے جو حکومت کی باگ ڈور باہر جانے دیتی ہے نہ اپوزیشن کی! عوام سے دونوں بے نیاز ہیں۔ حکومت لاک ڈاؤن نہیں لگاتی اور ایس او پیز پر سختی سے عمل نہیں کراتی۔ اپوزیشن جلسوں سے باز نہیں آ رہی۔ دونوں کی پالیسی عوام دشمن ہے۔
ہاں ایک فرق گزشتہ اور موجودہ حکمرانوں میں ضرور ہے۔ گزشتہ حکمران تبدیلی کا نعرہ لگاتے تھے نہ ریاست مدینہ کا! موجودہ حکمران وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو ان کے پیش رو کرتے تھے مگر نعرہ لگاتے ہیں دیانت و امانت کا، میرٹ کا اور سب سے بڑھ کر ریاست مدینہ کا! ابھی تو پرسوں ہم نے رونا رویا ہے کہ کس طرح سول ایوی ایشن اتھارٹی کا سربراہ چننے کیلئے اشتہار دیا گیا، چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ اٹھارہ کا انٹرویو ہوا‘ اور تعیناتی گورنر سندھ کے سیکرٹری کی کی گئی جو امیدوار تھے نہ اہل! بالکل یہی کچھ پہلے بھی ہو رہا تھا۔ اب بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اب ریاست مدینہ کے استعارے کی چھتری کے نیچے ہو رہا ہے۔
بڑے مضبوط اعصاب ہیں ان افراد کے جو ریاست مدینہ کا نام لیتے ہیں۔ ہما شما پر تو ریاست مدینہ کا سوچ کر بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ قحط پڑا تو امیرالمومنین عمر فاروقؓ کا رنگ سیاہ پڑ گیا کیونکہ گھی، دودھ اور گوشت انہوں نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ کثرت سے فاقے کرنا شروع کر دیے۔ لوگ کہا کرتے کہ اگر اللہ قحط دور نہ فرماتا تو امیرالمومنینؓ مسلمانوں کے غم میں جان ہی دے دیتے۔ آج جب عوام وبا کا شکار ہیں تو حکمران ہیلی کاپٹروں پر اُڑے پھرتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بڑے بڑے مناصب پر بٹھا رہے ہیں۔ ان کے روزمرہ کے روٹین میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
بات عوام کے اُس رویے سے شروع ہوئی تھی جو وہ وبا کے حوالے سے روا رکھے ہوئے ہیں۔ عوام کا بھی قصور ہے مگر حکومت کی بے اعتنائی کا بہت بڑا کردار ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ، جو پچاس سے زیادہ امرا پر مشتمل ہے، دونوں عوام کی فکر میں رات دن ایک کر دیتے۔ ایس او پیز پر عمل پیرا کرانے کیلئے جدوجہد کرتے، ایک ایک ہسپتال میں یہ لوگ جاتے، شہروں اور قصبوں میں عوام کے درمیان ہوتے‘ مگر یہ اپنے عشرت کدوں سے نکلے ہی نہیں۔ آج کی ریاست مدینہ کے دعویدار حکمران کسی گلی‘ کسی بازار، کسی ہسپتال میں کسی کو نظر نہیں آئے۔ تو پھر تعجب ہی کیا اگر آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے نصف درجن مریض ایک ہی جگہ، ایک ہی ہلے میں مر گئے۔ فرات کے کنارے کتا مرتا تو ذمہ دار ریاست مدینہ کا حکمران ہوتا مگر آدم کے چھ بیٹے مرے تو کے پی حکومت کہتی ہے: ذمہ دار نہیں بچیں گے۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ ذمہ دار ہے کون؟
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment