گْل گئے، گلشن گئے، جنگلی دھتورے اور تُنبے رہ گئے! زرق برق پروں والے طائر اُڑ گئے! اب خزاں زدہ شاخوں پر زاغ و زغن بیٹھے ہیں۔ اس مفہوم کا شعر شاید حماسہ میں ہے کہ کیسا المیہ ہے! جو اہل تھے وہ چلے گئے اور اب سرداری ہم جیسوں کے سر آ پڑی! ارشاد حقانی کے بعد عبدالقادر حسن کا کوچ کالم نگاری کے فن کے لیے زوال ہے اور بہت سخت دھچکا! یہ کتنے بڑے لوگ تھے! ہم جیسے بے بضاعت بے ہنروں کو بھی اہتمام سے ملتے تھے اور پیار سے پاس بٹھاتے تھے۔ عبدالقادر حسن کی تحریر میں شکوہ تھا! شکوہِ خسروی! بلا شبہ قلم کی قلمرو کے وہ بادشاہ تھے! کالم نہیں تھا دبستان تھا! ان کا اپنا ڈکشن تھا۔ اپنا اسلوب! لغت کے اسرار بھی تھے کالم میں اور ادب کا ذائقہ بھی! انہی کے کالموں کی بدولت عزیز حامد مدنی کا یہ شعر مقبول ہوا:
طلسمِ خوابِ زلیخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
چند ہی ملاقاتیں رہیں۔ وسط ایشیائی ریاستیں سوویت یونین کے دامِ تزویر سے رہا ہوئیں تو یہ کالم نگار شروع شروع کے مسافروں میں شامل تھا۔ مختار حسن مرحوم نے رہنمائی کی اور پاکستان دوست ازبکوں کے ریفرنسز دیئے۔ واپس آ کر شاعری میں نوحہ خوانی کی۔ یہ شاعری عبدالقادر حسن نے بہت پسند کی۔ خاص طور پر یہ شعر کئی بار کالموں میں لکھا۔
جدائی کے ستر برس تھے ہزاروں برس پر محیط
بخارا کی مٹی گلے سے لگا کر بہت روئی تھی
کیا افتاد آن پڑی! تھوڑے ہی عرصے میں اس طالب علم کے تین اساتذہ اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ کڑکتی دھوپ میں برہنہ سری کا احساس ہو رہا ہے! کیا لوگ تھے! علم و فن کے دریا! گفتگو میں تربیت کے خزانے! صرف انہیں دیکھنے ہی سے بہت کچھ سیکھ لیا جاتا تھا۔ لباس کیسا پہننا ہے؟ کس طرح کا پہننا ہے؟ بات کیسے کرنی ہے؟ مجلس کے کیا آداب ہیں؟ پروفیسر مختار صدیقی سے سیٹلائٹ ٹاؤن کے گورنمنٹ کالج میں اکنامکس پڑھی۔ فرسٹ ائیر میں ایسی مضبوط بنیاد باندھ گئے کہ ایم اے تک کام آئی۔ ایک ایک لفظ لیکچر کا کانوں پر نہیں براہ راست دل پر پڑتا۔ وجیہہ ‘ خوش پوش! نرم گفتار! شاید ہی کبھی کسی کو ڈانٹا ہو۔ راولپنڈی سے گورنمنٹ کالج اٹک گئے جہاں ان کا گھر تھا۔ پھر وہیں رہے۔ آرٹلری سنٹر اٹک میں ایک نیم سرکاری تقریب تھی جس میں شہر کے معززین بھی بڑی تعداد میں مدعو تھے۔ یہ بے بضاعت سٹیج پر مہمان خصوصی کے طور پر بیٹھا ہوا تھا۔ دیکھا کہ حاضرین میں پروفیسر صاحب تشریف فرما ہیں۔ اٹھ کر میزبانوں سے کہا کہ استاد نیچے بیٹھے تو شاگرد، اونچی جگہ، سٹیج پر، کیسے بیٹھ سکتا ہے؟ پروفیسر صاحب کو زحمت دی گئی کہ اوپر تشریف لا کر سٹیج کو اعزاز بخشیں! تشریف لے آئے یہ اور بات کہ یہ نقل مکانی پسند نہ فرمائی۔ چند دن بعد ان کا فون آیا۔ فرمانے لگے: یہ تم مجھے کس مصیبت میں ڈال گئے ہو تمہارے محکمے کے ملازمین اپنے کاموں کے لیے میرے پاس آنا شروع ہو گئے ہیں کہ تم میرے شاگرد ہو۔ پھر ہنسے۔ اٹک جب بھی جانا ہوتا، قدم بوسی کے لیے حاضر خدمت ہوتا۔ خوش ہوتے۔ دیر تک نشست رہتی۔ پھر ایک دن اطلاع ملی کہ اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں داخل ہیں۔ حاضر ہوا۔ افسوس! پہچان نہ پائے۔ تعلیم اور تربیت کا چراغ گل ہو گیا۔ تہذیب کا ایک خزانہ تھا جو زیر زمین چلا گیا۔
چند ہفتے پہلے برادرم شاہد مسعود ملک کی معرفت، کہ پی ٹی وی کے ایک عالی مرتبت منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں، خبرِ وحشت اثر ملی کہ استاد مکرم پروفیسر سجاد حیدر ملک بھی چلے گئے۔ محرومی نے غم کے ریگستان میں ایک اور اجاڑ خیمہ نصب کر ڈالا۔ اصغر مال کالج کے در و دیواراور شب و روز یادوں کے افق سے آندھی کی طرح اٹھے اور دل و دماغ کی دنیا کو زیر و زبر کر گئے۔ پروفیسر سجاد حیدر ملک ہمیں بی اے میں انگریزی شاعری پڑھاتے تھے۔ نہ جانے ان کے اسلوبِ تعلّم کا طلسم تھا یا کسی اسم کی تاثیر تھی، آج تک ایک ایک نظم حافظے پر نہیں، لا شعور پر کُھدی ہوئی ہے۔ ڈبلیو ایچ آڈن سے لے کر ٹی ایس ایلیٹ تک، ہر شاعر کو یوں پڑھایا جیسے پڑھانے کا حق تھا۔ دماغوں میں اعلیٰ ذوق کے بیج بوئے، پھر آبیاری کی یہاں تک کہ ہم ٹاٹ سکولوں سے آئے ہوئوں کو انگریزی ادب کا ایسا شناور کیا اور اتنا اعتماد بخشا کہ ان کے قدموں سے اٹھے تو پھر کسی مقابلے میں ہارے نہ کہیں خفت اٹھانا پڑی۔ کئی بار دیکھا کہ کسی کمرے میں تنہا بیٹھے کسی کتاب یا رسالے کا مطالعہ فرما رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے فون پر بات ہوئی تو عجیب فرمائش کی۔ فرمانے لگے: آج کل خط لکھنے کا رواج نہیں رہا، تم ایسا کرو کہ مجھے خط لکھو! افسوس! انگریزی لٹریچر کے ایک بہت عظیم استاد، انگریزی ادب کے ایک بڑے غوّاص، ہمیں چھوڑ کر چل دیے۔
جیسے یہ سب کچھ کافی نہ تھا! گزشتہ ہفتے استاد گرامی پروفیسر اقبال بخت نے بھی جان، جان آفرین کے سپرد کر دی اور اپنے تلامذہ کو گریہ کناں چھوڑ گئے۔ اصغر مال کالج میں ڈگری کلاس میں ہمیں اقتصادیات پڑھائی۔ کیا دل کش شخصیت تھی۔ گرمیوں میں ہمیشہ سفید براق قمیص اور سفید ہی پتلون زیب تن ہوتی۔ سرما میں بہترین سوٹ یا کمبی نیشن! تازہ ترین فیشن کے کالر! اس پر دیدہ زیب نکٹائی! گھنے خوبصورت بال! پہلی نظر میں لگتا شوبز کے سٹار ہیں مگر لیکچر دیتے تو مبہوت کر دیتے۔ نظر ان پر ٹھہر جاتی! ایک ایک لفظ دل پر نقش ہو جاتا۔ یوں محسوس ہوتا انگریزی زبان ان کے سامنے دست بستہ کھڑی ہے۔ ایک دن معلوم ہوا کہ اکنامکس کی جو کلاس اردو میں ہوتی ہے اسے بھی سر اقبال بخت ہی پڑھاتے ہیں۔ وہاں سنا تو یوں لگا جیسے اردو ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کی شاگردی میں گریجویشن کر کے اکنامکس میں ایم اے کرنے ڈھاکہ یونیورسٹی گیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے اکنامکس، کامرس، اور ریاضی کے شعبے، مغربی پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی سے بہت آگے تھے۔ ہندو طلبہ ان مضامین میں بہت تیز تھے۔ سخت مقابلہ تھا مگر بنیاد سر اقبال بخت نے باندھی تھی۔ ان کی جوتیوں کا صدقہ کہ
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو، آئے کرے شکار مجھے
ماں باپ کے بعد اس زمین پر استاد سے بڑھ کر کون ہے جس کا سب سے زیادہ ادب کیا جائے، جس کے جوتے چومے جائیں، جس کے حضور دست بستہ کھڑا ہوا جائے! گوشت پوست اور ہڈیوں پر مشتمل اس جانور کو استاد ہی تو انسان بناتا ہے۔ ورنہ کھانے پینے، سونے جاگنے اور دیگر حیوانی تقاضوں سے عہدہ برآ تو مویشی بھی ہو جاتے ہیں۔ افسوس! صد افسوس! اساتذہ کے پردہ کرنے کے بعد اب احساس محرومی کھائے جا رہا ہے۔ ان کی خدمت نہ کر سکے۔ جس قدر تواتر حاضری میں ہونا چاہیے تھا، مکروہاتِ دنیا کے سبب نہ ہو سکا۔ یوں تو ساری زندگی ان کے مقدس پاؤں پر جھکے رہنے سے ایک لفظ سکھانے کا احسان بھی نہیں اتر سکتا۔ یہ بے خرد اور نا کس آج جو کچھ بھی ہے اُن چند ریزوں کی بدولت ہے جو اساتذہ کے دستر خوان سے گرے اور انہیں اٹھا کر کھا لیا۔ علم و آگہی کے ان سمندروں سے جتنی پیا س بجھانی چاہیے تھی نہ بجھا سکے مگر حرف و قلم کے پروردگار کی سوگند! وہ چند ریزے جواٹھا لیے، زر و سیم کے خزینوں سے بڑھ کر ہیں! خوش بختی تھی کہ ایسے اساتذہ ملے۔
مرا ہر موئے تن استاد کے حق میں دعا گو ہے!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment