Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, November 30, 2012

بادشاہ‘ لڑکا اور پبلک اکائونٹس کمیٹی

بادشاہ کو خوفناک مرض لاحق تھا۔ بچنے کی امید کم ہی تھی۔ حاذق حکما کا پورا گروہ سر جوڑ کر بیٹھا۔ آج کل کے زمانے میں اسے ڈاکٹروں کا بورڈ کہا جاتا ہے۔ متفقہ رائے یہ تھی کہ جس شخص میں چند خاص صفات ہوں‘ اس کے جگر سے دوا بنائی جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی علاج کارگر نہ ہوگا۔ وزیراعظم کو وہ صفات بتائی گئیں۔ جاسوس سلطنت کے اطراف و اکناف میں پھیل گئے۔ ایک غریب کسان کے بیٹے میں یہ خاص صفات موجود پائی گئیں۔ اسے پکڑ کر لے آئے۔ بادشاہ نے لاکھوں روپے ماں باپ کو دیے تو وہ خاموش ہو گئے۔ گویا رضامندی کا اظہار کر دیا۔ قاضی نے ’’مفاد عامہ‘‘ کے پیش نظر فتویٰ دیا کہ سلطنت کی بقا اور لوگوں کی فلاح کے لیے ایک شخص کی قربانی جائز ہے۔ جلاد لڑکے کو قتل کرنے لگا تو لڑکے نے آسمان کی طرف دیکھا اور ہنس پڑا۔ بادشاہ نے جلاد کو روک دیا اور لڑکے سے پوچھا کہ تلوار تمہاری شہ رگ پر پڑنے والی ہے اور تم ہنس رہے ہو۔ آخر کیوں؟ لڑکے نے جواب دیا کہ بچے کے ناز اس کے ماں باپ اٹھاتے ہیں۔ وہ میرے قتل پر دولت کی خاطر خاموش ہو گئے ہیں۔ مقدمہ قاضی کی عدالت میں لے جایا جاتا ہے۔ قاضی نے پہلے ہی میرے قتل کو جائز قرار دے دیا ہے۔ انصاف‘ بادشاہ سے مانگتے ہیں، وہ اپنی صحت کی خاطر خود ہی میری جان کا طلب گار ہے۔ اب صرف خدا کی ذات ہے جو مجھے بچا سکتی ہے۔ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے، اس کا سوچا اور آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسی آ گئی۔

سعدی کی بیان کردہ اس حکایت میں اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس کا اس حکایت سے کوئی تعلق نہیں جو ہم بیان کرنے لگے ہیں۔ جسے پوری حکایت میں دلچسپی ہو وہ گلستان سعدی کا مطالعہ کرلے۔ ہم تو اس حکایت کی روشنی میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے ایک آڈیٹر جنرل کو تعینات کر رکھا ہے جو سرکاری محکموں کا آڈٹ کرکے سیاہ اور سفید سب پارلیمنٹ کو پیش کر دیتا ہے۔ پارلیمنٹ نے اپنی نمائندگی ایک کمیٹی کو سونپ رکھی ہے جسے پبلک اکائونٹس کمیٹی کہا جاتا ہے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی سرکاری محکمے خرچ کرتے ہیں تو آڈٹ کا فریضہ آڈیٹر جنرل سرانجام دیتا ہے اور ناروا اخراجات سرکاری محکموں کے تنور شکم سے پبلک اکائونٹس کمیٹی باہر نکالتی ہے۔

وزارت مذہبی امور کا ایک ذیلی محکمہ سعودی عرب میں کام کر رہا ہے جسے حج ڈائریکٹریٹ کہا جاتا ہے۔ اس ڈائریکٹریٹ نے 62 لاکھ روپے سے چار انتہائی اعلیٰ (لگژری) گاڑیاں خرید فرمائیں۔ ایک وزیر صاحب کے لیے تاکہ جب بھی حجاج کی خدمت کے لیے دورے پر جائیں تو سواری ’’شایانِ شان‘‘ ہو، ایک ڈائریکٹر جنرل کے لیے، ایک ڈائریکٹر صاحب کے لیے اور ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کے لیے کہ چھوٹا سہی لیکن ڈپٹی ڈائریکٹر بھی آخر بیوروکریٹ ہی ہے۔ ظفر علی خان یاد آ گئے ؎

بُدّھو میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ہیں

اک مَشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں

اس شاہانہ خریداری میں قانون کو دو لحاظ سے پائوں تلے روندا گیا۔ ایک تو لاکھوں روپے کا یہ سودا کسی ٹینڈر کے بغیر طے پا گیا، لیکن اصل ظلم یہ کیا گیا کہ اخراجات کی خطیر رقم ’’حج فنڈ‘‘ سے لی گئی۔ ہر حاجی سے کچھ رقم لے کر اس ’’فنڈ‘‘ میں ڈالی جاتی ہے۔ اس سے گاڑیاں خریدنے کی قانون میں اجازت نہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے خود اجلاس کو بتایا کہ قواعد میں ایسی کوئی

گنجائش نہیں کہ اس فنڈ سے سرکاری استعمال کے لیے عیاشانہ گاڑیاں خریدی جائیں۔ ابتدا میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ارکان نے بہت جاندار اعتراضات صادر کیے۔ جب وزارت کے سیکرٹری نے یہ آڑ لی کہ گاڑیاں وزرا اور پارلیمنٹ کے ارکان کے استعمال کے لیے ہیں تو کمیٹی کے سربراہ ندیم افضل چن صاحب نے سیکرٹری کو آڑے ہاتھوں لیا کہ ساری گاڑیاں افسر شاہی کے استعمال میں ہیں۔ لیکن آخر میں یہ ہوا کہ آڈٹ کے ڈائریکٹر صاحب نے خود ہی یہ سفارش کر دی کہ اس اعتراض کو نمٹا دیا جائے۔ نمٹانے کا مطلب آڈٹ کی زبان میں معاف کر دینے کو کہتے ہیں، پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اس سفارش کو فوراً مان لیا اور اعتراض کو معاف کر دیا۔ اشک شوئی کے لیے یہ حکم دے دیا گیا کہ سیکرٹری صاحب لکھ کر دیں گے کہ آئندہ یہ گاڑیاں حجاج کے استعمال میں رہیں گی! گویا ماں باپ، قاضی اور بادشاہ سب لڑکے کے قتل کے لیے متحد ہو گئے۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ گاڑیاں واقعی حاجیوں کے کام آئیں گی؟ ؎

خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھایئے قسمیں

مجھے یقین ہوا مجھ کو اعتبار آیا

سیکرٹری صاحب نے یہ اطلاع بھی بہم پہنچائی کہ جدہ میں واقع حج ڈائریکٹریٹ کے پاس بائیس گاڑیاں ہیں۔ یہ حالت اس حکومت کی ہے جس کے عوام کی اکثریت ریل گاڑیوں اور بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرتی ہے۔

اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز تماشا یہ ہوا کہ بھرے اجلاس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنے ہی ڈائریکٹر کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ نرمی برت رہا ہے اور غلط مثال قائم کر رہا ہے اور یہ کہ قواعد اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ’’حجاج فنڈ‘‘ سے گاڑیاں خریدی جائیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اجلاس میں آنے سے پہلے آڈیٹر جنرل صاحب اور ان کے ڈائریکٹر صاحب نے معاملے پر غور ہی نہیں کیا۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب اجلاس میں آنے سے پہلے آڈیٹر جنرل ایک ایک معاملے پر غور کرتا تھا اور اپنے متعلقہ افسروں اور عملے سے بحث کرتا تھا اور ایک متفقہ حکمت عملی تیار کی جاتی تھی کہ یہ اخراجات ناروا ہیں یا جائز… معاف کیے جا سکتے ہیں یا وصول کرکے سرکار کے خزانے میں ڈالے جانے ہیں۔ آج یہ حالت ہے کہ آڈیٹر جنرل خود اس خریداری کو ناروا قرار دے رہا ہے لیکن اس کا ماتحت افسر سفارش کر رہا ہے کہ کوئی بات نہیں، معاف کر دیجئے۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ ؎

من چہ می سرایم و طنبورۂ من چہ  می سراید

Facebook.com/izharulhaq.net

Thursday, November 29, 2012

1870 سے لے کر اب تک… (2)

سرسید احمد خان نے 1870ء میں جس برصغیر کا رونا رویا تھا آج کے پاکستان کی حالت اس سے کئی گنا بدتر ہے۔ اس حقیقت کا ادراک اگر نہیں ہے تو مینڈک کو نہیں ہے لیکن مچھلی خوب جانتی ہے کہ ایسا ہی ہے۔ کنوئیں کی تنگی کا احساس اسی کو ہو سکتا ہے جس نے دریا دیکھا ہوا ہو۔ جو لوگ بیرون ملک زندگی کے کچھ ماہ و سال گزار کر واپس آتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ یورپ، کینیڈا، امریکہ اور جاپان کا تو ذکر ہی کیا، پاکستان‘ متحدہ عرب امارات، ترکی اور ملائیشیا سے بھی کم از کم سو سال پیچھے ہے۔

سرسید نے اس وقت کے ہندوستانیوں کو وحشی جانور کہا تھا، تو آخر وہ کون سی خصوصیات تھیں جنہوں نے ’’لندن کے مسافر‘‘ کو یہ لقب دینے پر مجبور کیا تھا؟ وحشی جانور میں کم از کم تین خصوصیات ایسی ہیں جو اسے انسانوں سے الگ کرتی ہیں۔ ایک طاقت کا فیصلہ کن ہونا، جو طاقتور ہوتا ہے وہ دوسرے کو چیر پھاڑ دیتا ہے۔ دوسری خصوصیت لاقانونیت ہے۔ جنگل میں کوئی قانون نہیں ہوتا اور وحشی جانور کسی قانون کے تابع نہیں ہوتا۔ تیسرے یہ کہ اس کا صفائی سے اور ہائی جین سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔

آپ آج کے پاکستان کو کسی بھی زاویے سے دیکھ لیں، یہ ’’خصوصیات‘‘ ہم میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ’’طاقت‘‘ فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ جس کے پاس اسلحہ ہے اسی کا راج ہے۔ اکبر بگتی آج تو ہیرو ہیں لیکن وہ وقت بھی تھا کہ وہ اسلام آباد میں اڑھائی سو اسلحہ بردار محافظوں کے ساتھ جلوہ فگن ہوتے تھے۔ آج بھی ہمارے سیاسی لیڈر اور ایم این اے مسلح محافظوں کے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔ یہ منظر کس مہذب ملک میں دکھائی دیتا ہے؟ کہیں بھی نہیں! جس کے پاس طاقت ہے وہ اغوا کرکے کروڑوں روپے تاوان میں لے رہا ہے۔ ہر روز سینکڑوں کاریں اسلحہ کے زور پر اغوا ہو رہی ہیں اور اس ’’کاروبار‘‘ سے کروڑوں کمانے والوں میں اچھی خاصی تعداد باریش نمازیوں کی ہے۔ جس کے پاس طاقت ہے وہ کم سن بچی کو اپنے یا اپنے ہم قبیلہ کے نکاح میں لے لیتا ہے۔ کوئی چاہے تو لڑکیوں کو صحرا میں زندہ درگور کر دے اور یہ حال ہی میں ہوا ہے۔ ملوث حضرات اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں۔ کراچی کیا ہے؟ آج کا کراچی وحشی جانوروں کے پنجے میں ہے۔ اسلحہ طاقت ہے اور طاقتور قتل بھی کر رہے ہیں اور بھتہ بھی لے رہے ہیں۔ اب بھتہ صرف تاجروں اور دکانداروں ہی سے نہیں، گلستان جوہر کے فلیٹوں میں رہنے والوں سے بھی وصول کیا جا رہا ہے۔ قربانی کے ایک ایک جانور پر چھ چھ بار بھتہ لیا گیا ہے۔ جو لوگ اب بھی اس ملک کو مہذب اور اسلامی کہنے پر مصر ہیں انہیں مریض سمجھ کر مرفوع القلم ہی قرار دیا جا سکتا ہے!

رہا قانون… تو وہ اس ملک میں صرف اس کے لیے رہ گیا ہے جو پولیس کو ٹیلی فون نہیں کرا سکتا۔ جنگل میں کم از کم اتنا قانون تو ہے کہ درخت کوئی نہیں کاٹتا اور دریا کا پانی گدلا نہیں کیا جاتا، اس ملک میں اتنا بھی نہیں!

ہماری ٹریفک اس حقیقت کی بہت بڑی شاہد ہے کہ ہم وحشی جانور ہیں۔ کیا آپ دن رات نہیں دیکھتے کہ لوگ گاڑی وہاں سے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں قانون تو دور کی بات ہے، گزارنے کی جگہ ہی نہیں ہوتی۔ آپ کسی خالی جگہ گاڑی پارک کرنے لگتے ہیں تو اچانک ایک وحشی جانور آتا ہے اور یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ایک شخص پہلے سے پارک کرنے لگا ہے، پھرتی دکھا کر پارک کر دیتا ہے اور آپ کی طرف دیکھتا بھی نہیں۔ ایک اور وحشی جانور آپ کے دیکھتے دیکھتے سرخ بتی کو عبور کر جاتا ہے۔ ایک اور طرف سے ایک ایسا وحشی جانور آ جاتا ہے جس کی گاڑی کے نہ آگے بتیاں ہیں اور نہ پیچھے، اسے خوف ہے نہ حیا۔ اور یہی وحشی جانور کی خصوصیت ہے جو اسے بنی نوع انسان سے الگ کرتی ہے۔ جنگل کے جانور قطار بنانے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں اس پر کوئی یقین نہیں رکھتا۔ آپ زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کو دیکھ لیجئے، وہ امداد میں ملنے والے سامان کو کس طرح ’’حاصل‘‘ کرتے ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد کے ریلوے اسٹیشن پر، ہوائی اڈے پر اور ڈائیوو جیسے ماڈرن بس سٹاپوں پر آج بھی قطار بنانے کا کوئی تصور نہیں! ہمارے حکمران قانون پر کتنا یقین رکھتے ہیں کل کی خبر دیکھ لیجے روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے بتایا ہے کہ ’’وزارت تجارت نے بیرون ملک کمرشل قونصلروں کی تعیناتی سے پہلے ہی ان تقرریوں کی بندر بانٹ کر لی ہے۔ وزیر تجارت کی سربراہی میں آج ہونے والے انٹرویو محض خانہ پری کے طور پر ہو رہے ہیں۔‘‘ خبر کا آخری حصہ پڑھیے اور ہو سکے تو وحشی جانوروں کی ’’قانون پسندی‘‘ پر ماتم کیجیے۔

’’ان کمرشل قونصلروں کو منتخب کرنے کے لیے امتحان لاہور کی ایک یونیورسٹی نے لیا تھا اور 278 امیدواروں میں سے 206 کی کامیابی کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم ان کامیاب امیدواروں کے نہ تو نمبر جاری کیے گئے اور نہ ہی ان کی فہرست شائع کی گئی۔ آڈٹ اینڈ اکائونٹس گروپ کے افسر نے دعویٰ کیا ہے کہ امیدواروں کی فہرست پہلے ہی سے تیار کی جا چکی ہے اور ہر سیٹ کی قیمت لی جا چکی ہے۔ اس سے پہلے 2009ء میں بھی کمرشل قونصلروں کی اسامیوں پر من پسند افراد بھیجے گئے تھے جبکہ ٹیسٹ اور انٹرویو میں نمایاں پوزیشن لینے والے امیدوار تقرریوں سے محروم رہے تھے اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان تعیناتیوں کو چیلنج کیا گیا تھا اور ابھی تک معاملہ زیر سماعت ہے۔‘‘

کیا ان وحشی جانوروں کو کسی قانون کی پروا ہے؟ اور قانون ہے تو کہاں ہے؟ ابھی تو چند ہی دن پہلے ایک سابق وزیراعظم کے فرزند نے اسمبلی میں اعلان کیا ہے کہ اگر قانون نے ان کے والد محترم کی طرف دیکھا تو وہ نہ صرف اسمبلی بلکہ ملک چھوڑ جائیں گے۔ اس پر دوسرے قانون پسندوں نے اس افسر کو ہتھکڑی لگانے کی تجویز پیش کی جو قانون نافذ کرنا چاہتا تھا۔

صفائی کے میدان میں ہم وحشی جانوروں کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستان میں جتنے لوگ ایک دن میں شاہراہوں اور گلی کوچوں میں تھوکتے ہیں اور دوسروں کے سامنے انگلیوں سے ناک کی کھدائی کرتے ہیں، جنگل میں جانور سو سال میں بھی نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کسی ملک کی تہذیب دیکھنا ہو تو اس کے غسل خانوں کو دیکھیے، ہماری مقدس مسجدوں کے وضو خانے غلاظت کا گڑھ ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں، بس سٹاپوں اور ریستورانوں کے غسل خانے دیکھ لیجیے۔ ٹخنوں تک فرش پر پانی ہوتا ہے۔ فلش کھینچنے کا رواج ہی نہیں! کیا کسی مہذب ملک میں سڑک کے کنارے دوسروں کے سامنے شلوار میں ہاتھ ڈال کر چلتے پھرتے طہارت کرنے کا تصور پایا جاتا ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار!!

دارالحکومت کے عین وسط میں ایک پررونق جگہ ہے جسے ’’سوک سنٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔ (سوک کا ایک ترجمہ شہری ہے اور دوسرا مہذب) اس میں پلازوں کے نمبر ہیں۔ پانچ نمبر پلازا کے ایک سرے پر ایک بنگالی کی مٹھائی، سموسوں اور جلیبی کی دکان ہے۔ یہ ایک گزرگاہ ہے اور دو بلاکوں کے درمیان واقع ہے۔ اس گزرگاہ سے ایک دن میں ہزاروں لوگ گزرتے ہیں۔ اس گزرگاہ کے عین درمیان میں، پلازے کی اوپر والی منزل سے، غلیظ پانی کا پرنالہ گرتا ہے جس کے چھینٹے سموسوں اور جلیبی کے علاوہ اردگرد کے دکانداروں پر گرتے ہیں اور گزرنے والوں کے سر پر بھی… یہ پانی ہر روز گھنٹوں گرتا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک دکاندار کو کھانا کھاتے دیکھا جس کی روٹی سالن پر یہ چھینٹے پڑ رہے تھے۔ ان لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے نہایت بے پروائی سے جواب دیا کہ ہوٹل والے سے پوچھیں، یہ پانی اسی کے ہاں سے آتا ہے۔ ہوٹل والے کا کہنا تھا کہ کبھی کسی نے کوئی شکایت نہیں کی۔ وہ تعجب سے پوچھ رہا تھا کہ آپ تو یہاں نہیں رہتے تو پھر آپ کو کیا تکلیف ہے؟

یہ دارالحکومت کے وسط کا حال ہے۔ مضافات کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ریڑھیوں پر کھڑے ہو کر کیلے اور مالٹے کھانے کا رواج عام ہے۔ کیا آج تک کسی نے وہاں کوڑے کی ٹوکری دیکھی ہے؟ سبزی والا سارا گندا اپنی دکان کے سامنے ڈالتا ہے یہاں تک کہ گندی سبزیوں کی تہہ زمین پر جم جاتی ہے اور گاہک اس کے اوپر سے گزرتے ہیں۔ گزرتے وقت اس تہہ سے گندا پانی رس رس کر باہر آتا ہے۔

یہ کہانی کبھی ختم نہیں ہونے والی۔ ایک کالم کی جگہ ہی کتنی ہے اور حیثیت بھی کیا ہے! 1870ء میں مسلمانوں کی جو حالت تھی اس پر سرسید روئے تھے۔ آج ہماری جو حالت ہے اس پر رونے والا بھی کوئی نہیں! آیئے! اور کچھ نہیں تو ہم اپنے آپ کو بددعا ہی دیں ؎

ہم ظالموں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں

نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم

Facebook.com/izharulhaq.net

Tuesday, November 27, 2012

1870 سے لے کر اب تک

دس اپریل 1869ء کی شام تھی جب ایک بحری جہاز بمبئی سے روانہ ہوا۔ اس کی منزل لندن تھی۔ اس میں دوسرے مسافروں کے علاوہ سرسید احمد خان بھی سوار تھے۔ سرسید احمد خان ایک سال اور پانچ مہینے لندن میں رہے اور 4 ستمبر 1870ء کو واپس روانہ ہوئے۔ اس سفر کی یادداشتیں سرسید نے ’’مسافرانِ لندن‘‘ کے عنوان سے لکھیں۔

میں نے یہ کتاب کئی سال پہلے کراچی سے خریدی اور بغیر پڑھے اپنے کتب خانے میں رکھ دی۔ 2005ء میں کچھ عرصہ انگلستان میں رہنے کا موقعہ ملا۔ واپس آ کر سب سے پہلے یہ کتاب پڑھی اور اب تک کئی بار پڑھ چکا ہوں۔ عربوں کا قول ہے کہ انسان کی بڑائی پر ایک چیز یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ لوگ اس کے بارے میں مختلف اور متضاد آراء رکھتے ہیں۔ یہ سفرنامہ ہندوستان میں مضامین کی صورت میں چھپا تو کچھ لوگوں نے مشہور کر دیا کہ سرسید عیسائی ہو گئے ہیں۔ آج بھی بے شمار لوگ سرسید کو برصغیر کے مسلمانوں کا محسن سمجھتے ہیں اور ان کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں!

اس سفر کے دو مقاصد تھے۔ ان دنوں ولیم میور نے ’’لائف آف محمدؐ‘‘ کے عنوان سے چار جلدوں میں ایک کتاب لکھی جس میں بہت سے نامناسب اعتراضات کیے گئے۔ سرسید اس کا جواب لکھنا چاہتے تھے اور جن کتابوں سے وہ استفادہ کرنا چاہتے تھے وہ صرف یورپ کے کتب خانوں میں میسر تھیں۔ دوسرا مقصد ان کے اپنے الفاظ میں یہ تھا کہ وہ ’’مغربی ملکوں کی ترقی کا بچشم خود مشاہدہ کریں اور ان مفید اور عمدہ باتوں کو ہندوستان کی بھلائی کے واسطے سیکھیں۔‘‘

زادِ راہ کے لیے سرسید نے اپنے نایاب اور بیش بہا کتب خانے کو فروخت کیا اور آبائی مکان کو گروی رکھ دیا۔ اس سفر میں چار افراد ان کے ساتھ تھے۔ ان کے دو بیٹے سید حامد اور سید محمود، مرزا خداداد بیگ اور سرسید کا پرانا خدمت گار چھجّو۔

اس وقت کے برصغیر میں غسل خانے کے شاور اور بیت الخلاء کے کموڈ کا کوئی تصور نہ تھا۔ بحری جہاز کے باتھ روم کے متعلق سرسید لکھتے ہیں کہ ’’سر کے اوپر ایک چھلنی لگی ہوئی ہے اور دیوار میں ایک پیچ ہے۔ جہاں اس پیچ کو پھرایا اور چھلنی میں سے مینہ برسنا شروع ہوا۔ اس کے نیچے کھڑے ہو کر خوب نہا لیے۔‘‘ بیت الخلاء کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’کموڈ کے ظرفِ چینی میں پانی آیا اور سب کچھ بہا لے گیا اور وہ ظرفِ چینی بالکل صاف ہو گیا۔‘‘

جہاز عدن میں رکا۔ وہاں کے بازار کے بارے میں سرسید لکھتے ہیں ’’یہاں دکاندار اور تمام لوگ نہایت کثیف اور میلے کچیلے ہیں اور صومالی تو بالکل وحشی جنگلی معلوم ہوتے ہیں۔ نان بائیوں اور قہوہ والوں کی دکانیں ایسی خراب بدبودار ہیں کہ پائوں رکھنے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘ مصر میں ریل کا سفر کیا تو سرسید افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ریل کا تمام سامان فرانس اور برطانیہ کا بنا ہوا ہے اور کوئی چیز بھی مصریوں کی بنائی ہوئی نہیں! جنوبی فرانس کے ساحلی شہر مارسیلز کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کارخانوں میں سات ہزار افراد ملازم ہیں۔ ہر سال سولہ لاکھ اسی ہزار من صابن بنتا ہے۔ ایک لاکھ بارہ ہزار من سالانہ تیل تیار ہوتا ہے اور ہر سال سرخ ترکی ٹوپی پچاس ہزار تیار ہوتی ہے! ریڈی میڈ ملبوسات یورپ میں اس وقت بھی عام تھے۔ پیرس میں سرسید کے ہم سفر مرزا خداداد بیگ کو کپڑے لینے پڑے۔ سرسید لکھتے ہیں ’’دکان میں گئے۔ دکاندار نے دریافت کرکے کہ کس قسم کا کپڑا خریدنا ہے، مرزا کا ناپ لیا اور اپنے اسسٹنٹ سے کہا کہ فلاں نمبر کا کوٹ پتلون لائو پھر ایک آراستہ کمرہ بتایا۔ مرزا اس میں گئے اور کپڑے بدل کر برش آئینہ کنگھی کرکے خوبصورت جوان بنے ٹھنے نکل آئے۔‘‘

لندن سے سرسید کا برسٹل جانا ہوا جو لندن سے ایک سو اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ برسٹل کے مشہور پل کی سرسید نے داستان بیان کی ہے۔ 1753ء میں ایک تاجر مسٹر وِک نے مرتے وقت دس ہزار پائونڈ پل کے لیے عطیہ دیا۔ شہریوں نے یہ رقم تجارت

میں لگا دی۔ 1834ء میں یہ رقم اسی ہزار ہو گئی۔ تین لاکھ ستر ہزار پائونڈ چندے میں جمع کیے گئے۔ پھر کمپنی بنائی گئی اور شیئر (حصص) جاری ہوئے اور یوں کمپنی نے پل بنایا۔ سرسید لکھتے ہیں… ’’اب میں اپنے ہم وطنوں سے نہایت دستہ بستہ اور ادب سے پوچھتا ہوں کہ یہ لوگ آدمی ہیں یا ہم؟ جو صرف حیوانوں کی طرح اپنی خودغرضی میں مبتلا ہیں۔ اور ہر کام میں کہتے ہیں کہ گورنمنٹ بندوبست کرے۔ لڑکوں کے پڑھانے کا کام بھی گورنمنٹ کرے۔ ان کو ان کا مذہب سکھانے کا بھی گورنمنٹ ہی بندوبست کرے۔ افسوس صد افسوس ہزار افسوس! حقیقت میں ڈوب مرنے کی جگہ ہے۔ ہم اس قابل بھی نہیں کہ کسی تربیت یافتہ ملک کے لوگوں کو اپنا منہ بھی دکھلاویں!‘‘

سرسید نے قیام برطانیہ کے دوران اپنے وطن کو ایک لمحہ کے لیے بھی فراموش نہیں کیا۔ وہ ہر وقت انگلستان کا برصغیر سے موازنہ کرتے تھے اور انگریزوں کی طاقت اور اپنے ہم وطنوں کی غلامی کے اسباب پر غور کرتے رہتے تھے۔ وہ نوابوں اور لارڈز کی محفلوں میں بھی شریک ہوئے۔ ان سے کم درجہ کے امرا سے بھی ملے۔ متوسط درجے کے اشراف سے بھی ملاقات کی۔ عورتوں کو بھی دیکھا۔ لوئر کلاس کے انگریزوں کے رہن سہن کا بھی مشاہدہ کیا۔ کارخانے، دکانیں اور بازار بھی دیکھے۔ اسباب رکھنے، سودا بیچنے اور خریداروں کے ساتھ پیش آنے کے طریقے بھی دیکھے۔ محلات اور عجائب گھروں کی سیر بھی کی۔ جہاز بنانے، توپیں بنانے اور تار برقی بنانے کے کارخانے بھی دیکھے۔ جنگی جہازوں کا بھی مشاہدہ کیا۔ سوسائٹیوں اور کلبوں کے اجلاسوں اور کھانوں میں بھی شریک ہوئے۔ اس کے بعد وہ کس نتیجے پر پہنچے؟ ان کے اپنے الفاظ میں پڑھیے۔

’’ان سب باتوں کا جو نتیجہ حاصل ہوا وہ یہ ہوا کہ ہم جو ہندوستان میں انگریزوں کو ایک نہایت بداخلاقی کا ملزم ٹھہرا کر (اگرچہ اب بھی میں اس الزام سے انگریزوں کو بری نہیں کرتا) یہ کہتے تھے کہ انگریز ہندوستانیوں کو بالکل جانور سمجھتے ہیں اور نہایت حقیر جانتے ہیں، یہ ہماری غلطی تھی۔ وہ ہم کو سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ درحقیقت ہم ایسے ہی ہیں! میں بلامبالغہ نہایت سچے دل سے کہتا ہوں کہ تمام ہندوستانیوں کو اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک، امیر سے لے کر غریب تک سوداگر سے لے کر اہل حرفہ تک، عالم فاضل سے لے کر جاہل تک انگریزوں کی تعلیم و تربیت اور شائستگی کے مقابلے میں درحقیقت ایسی ہی نسبت ہے جیسے نہایت لائق اور خوبصورت آدمی کے سامنے نہایت میلے کچیلے وحشی جانور کو… پس تم کسی جانور کو قابل تعظیم یا لائق ادب کے سمجھتے ہو؟ کچھ اس کے ساتھ اخلاق اور بداخلاقی کا خیال کرتے ہو؟ ہرگز نہیں کرتے۔ پس ہمارا کچھ حق نہیں ہے (اگرچہ وجہ ہے) کہ انگریز ہم ہندوستانیوں کو ہندوستان میں کیوں نہ وحشی جانور کی طرح سمجھیں؟‘

سرسید یہ موازنہ اس جغرافیائی اور موسمی فرق کی وجہ سے نہیں کر رہے جو مختلف ملکوں کے درمیان قدرت نے رکھا ہے بلکہ اخلاقی، تعلیمی اور معاشرتی حوالوں سے کرتے ہیں اور صفائی سلیقے اور ہنر اور تربیت و تعلیم کا رونا روتے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ ان کے ہم وطن ان کی تحریر کو سخت اور جارحانہ قرار دیں گے لیکن ان کا موقف یہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے برطانیہ میں دیکھا وہ ان کے ہم وطنوں کے تصور میں بھی نہیں۔ پھر وہ مچھلی اور مینڈک کی مثال دیتے ہیں۔ ایک مچھلی کنویں میں گر پڑی۔ اس نے کنوئیں کے مینڈکوں کو بتایا کہ دریا کتنا بڑا اور چوڑا ہوتا ہے۔ یہ سن کر ایک مینڈک کنوئیں کی دیوار سے ذرا سا پیچھے ہٹ گیا اور پوچھا کہ کیا دریا اتنا بڑا ہوتا ہے جتنا میں کنوئیں کی دیوار سے پیچھے ہوں۔ مچھلی نے کہا اس سے بھی زیادہ۔ مینڈک پیچھے ہٹتا گیا یہاں تک کہ دوسری دیوار سے جا لگا۔ جب مچھلی نے کہا کہ اس سے بھی بڑا تو مینڈک نے اس کا مذاق اڑایاکہ تم جھوٹ بول رہی ہو۔ اس سے زیادہ کس طرح ہو سکتا ہے!اس پر مچھلی نے کہا کہ جس چیز کو تم نے دیکھا نہیں وہ تمہارے خیال میں کس طرح آ سکتی ہے؟

برصغیر کی عورتوں کی ناخواندگی کے متعلق انہوں نے عجیب مثال دی۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر ہندوستان میں کوئی خاتون بازار سے برہنہ گزرے تو ہمارے ہم وطنوں کو کتنا تعجب ہوگا! اسی طرح جب انگلستان کی عورتیں سنتی ہیں کہ ہندوستان کی عورتیں پڑھنا لکھنا نہیں جانتیں تو انہیں ایسا ہی تعجب ہوتا ہے! بنگالیوں اور پارسیوں کی ترقی کی تعریف کرتے ہوئے مسلمانوں کی حالت پر افسوس کرتے ہیں… ’’شاید مسلمان تو اتنے دنوں تک پڑے رہیں کہ پھر وقت اور زمانہ ان کی ترقی کا باقی نہ رہے اور جو مرض ہے وہ علاج پزیر نہ رہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو جہلِ مرکب نے گھیرا ہے۔ اپنے باپ دادا کے قصے یاد کرتے ہیں اور جو باغ ان کے سامنے ہے اور گل پھول کھل رہے ہیں اسی جہل مرکب نے ان کی آنکھوں کو اس کے دیکھنے سے اندھا کر رکھا ہے…‘‘

سرسید جتنا عرصہ انگلستان میں رہے اپنی قوم کے تعصب اور تنزل پر کڑھتے رہے۔ کتاب بھی تصنیف کرتے رہے۔ وسائل کی سخت کمی تھی ’’ادھر جب حساب کتاب دیکھتا ہوں تو جان نکل جاتی ہے کہ الٰہی لکھنا اور چھپوانا تو شروع کر دیا روپیہ کہاں سے آئے گا۔ مسلمان آستینیں چڑھا کر اس باب میں تو لڑنے کو تیار ہوں گے کہ انگریزوں کے ساتھ کھانا مت کھائو مگر جب کہو کہ مذہبی تائید میں کچھ روپیہ خرچ کرو تو جان بچائیں گے۔‘‘

ایک اضطراب تھا جس میں سرسید مسلسل مبتلا رہے۔ اپنے وطن کے مسلمانوں کے بارے میں ان کی پریشانی اس باپ کی پریشانی کی طرح بے لوث اور بے غرض تھی جس کا بیٹا بیمار ہو۔ ایک ہی دھن تھی کہ مسلمان پستی سے نکلیں اور ترقی کے زینے پر چڑھیں۔ ان کا خلوص ان سطور سے ظاہر ہوتا ہے جو انہوں نے ایک خط میں مہدی (غالباً مہدی الافادی) کو لکھیں… ’’افسوس کہ مسلمان ہندوستان کے ڈوبے جاتے ہیں اور کوئی ان کا نکالنے والا نہیں۔ ہائے افسوس! امرت تھوکتے ہیں اور زہر اگلتے ہیں۔ ہائے افسوس! ہاتھ پکڑنے والے کا ہاتھ جھٹک دیتے ہیں اور مگرمچھ کے منہ میں ہاتھ دیتے ہیں۔ اے بھائی مہدی! فکر کرو اور یقین جان لو کہ مسلمانوں کے ہونٹوں تک پانی آ گیا ہے، اب ڈوبنے میں بہت ہی کم فاصلہ باقی ہے۔ اگر تم یہاں آتے تو دیکھتے کہ تربیت کس طرح ہوتی ہے اور تعلیم ِاولاد کا کیا قاعدہ ہے اور علم کیوں کر آتا ہے اور کس طرح پر کوئی قوم عزت حاصل کرتی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ میں یہاں سے واپس آ کر سب کچھ کہوں گا اور کروں گا مگر مجھ کافر، مردود، گردن مروڑی مرغی کھانے والے، کفر کی کتابیں چھاپنے والے کی کون سنے گا؟‘‘

مسلمانوں کے جو حالات 1870ء میں تھے اور جن کی وجہ سے سرسید احمد خان پریشان تھے۔ کیا اب وہ حالات بدل گئے ہیں؟ سرسید احمد خان نے آخر وحشی جیسا سخت لفظ اپنے ہم وطنوں کے لیے کیوں استعمال کیا؟ ان سوالوں کا جواب ہم اگلی نشست میں دیں گے۔

Facebook.com/www.izharulhaq.net



Thursday, November 22, 2012

غزہ… جرمِ ضعیفی

رابرٹ فسک معروف کالم نگار ہے جو اکثر و بیشتر اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں لکھتا ہے اور بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ’’حماس‘‘ اسرائیل کے بچھائے ہوئے جال میں آ گیا ہے۔ اسرائیل نے مشہور حماس کمانڈر احمد جباری کو اس کی کار میں شہید کر دیا۔ جباری ’’القساّم بریگیڈ‘‘ کا کمانڈر تھا۔ اس کے بعد حماس نے راکٹوں سے جواب دیا جس سے اسرائیل نے بمباری کا جواز تلاش کر لیا۔

لیکن لگتا ہے رابرٹ فسک کو مغالطہ ہوا۔ اسرائیل نے جب احمد جباری پر حملہ کیا تو اس کے بعد حماس کے جواب کا انتظار نہیں کیا بلکہ اس کے فوراً بعد بیس ہوائی حملے کیے جس میں کئی شہری شہید ہو گئے۔ ان میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔

جب شہریوں کی ہلاکت کا ذکر کیا جاتا ہے اور اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کی مذمت کی جاتی ہے تو مغربی میڈیا یہ نکتہ ضرور اٹھاتا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی فوجوں نے ہزاروں مسلمان شہریوں کو شہید کیا ہے۔ حلب کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔ پاکستان میں مسلمان خود کش حملہ آوروں نے لاتعداد بچوں، عورتوں اور بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے لیکن مسلمان ان پر احتجاج نہیں کرتے۔ اس نکتے پر ہم مسلمانوں کے سر شرم سے جھک جانے چاہئیں لیکن اس ساری بحث کے باوجود اسرائیل کی خون آشامی کا کوئی جواز نہیں۔

یہاں دو پہلو ایسے ہیں جن پر ہم مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے۔ اول… اسرائیل کا موقف کیا ہے؟ یہ بھی تو ہمارے علم میں ہونا چاہیے! اسرائیل کا موقف یہ ہے کہ غزہ کی پٹی سے حماس کے فوجی دستے جنوبی اسرائیل پر ایک طویل عرصہ سے راکٹ داغ رہے ہیں جس سے اسرائیل کے فوجیوں کے ساتھ ساتھ شہری بھی ہلاک ہوتے رہے ہیں۔ یہ تقریباً وہی صورتحال ہے جو ایک عشرہ قبل مقبوضہ کشمیر میں تھی۔ گوریلے بھارتی فوج کے خلاف کارروائی کرتے تھے۔ جواب میں بھارتی فوج پوری بستی جلا دیتی تھی!

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قبیل کی جدوجہد میں سول آبادی کی حفاظت کس قدر ضروری ہے؟ اس ضمن میں دو مکاتب فکر پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ جدوجہد میں سول اور ملٹری کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔ جب دشمن کے سویلین ہلاک ہوں گے تو ہمارے شہری بھی ہلاک ہونے کے لیے تیار رہیں۔ دوسرا مکتب فکر یہ ہے کہ جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہے۔ سب سے قیمتی متاع مسلمانوں کی جان ہے۔ ایک ایک بچے ایک ایک عورت اور ایک ایک بوڑھے کی حفاظت‘ آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کا فرض ہے۔ جن کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی جا رہی ہے، وہی موت کے گھاٹ اترتے رہیں تو یہ تو دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے والی بات ہوئی۔ اگر جنگی نکتہ نظر سے ہم کمزور ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ بمبار جہازوں کے مقابلے میں چند راکٹ کچھ حیثیت نہیں رکھتے تو جدوجہد کو قانونی جنگ میں تبدیل کر دینا چاہیے۔ قائداعظمؒ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے طویل جدوجہد کی۔ اس طرح کہ برطانوی حکومت کو مذاکرات پر مجبور کیا۔ بہرطور اس نکتہ نظر سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کا بالعموم، اور عرب ممالک کا بالخصوص کیا کردار ہے؟ کیا وہ فلسطینیوں کی حمایت کر رہے ہیں؟ اس کا جواب حالیہ تاریخ سے واقف لوگوں کے لیے مشکل نہیں ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ عرب ملکوں کا کردار ناقابل اعتبار اور دوغلا رہا ہے۔ خفیہ تعلقات اسرائیل سے تقریباً سب نے رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ مراکش کے بادشاہ کے باڈی گارڈ اسرائیل میں تربیت پاتے رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق جب بریگیڈیئر تھے تو اردن میں فلسطینیوں کو ’’سبق‘‘ سکھانے پر حکومت اردن کی طرف سے مامور کیے گئے تھے۔ یہ ’’سبق‘‘ انہوں نے کامیابی سے سکھایا۔ قطر اور بحرین میں امریکی فوجیں تعینات ہیں۔ عراق پر حملے یہیں سے ہوتے تھے۔ کویت اپنی بقا کے لیے امریکہ کا شکر گزار ہے کہ صدام کے خونی پنجے سے امریکہ ہی نے اسے چھڑایا تھا۔ سعودی عرب میں امریکی افواج موجود ہیں۔ اسامہ بن لادن کا سعودی حکومت سے جھگڑا ہی اسی وجہ سے ہوا تھا۔ اسامہ کا مطالبہ تھا کہ امریکی افواج کو مقدس سرزمین سے نکال باہر کر دیا جائے۔ عراق پالیسی بنانے میں خود مختار ہی نہیں۔ شام شکست و ریخت سے دوچار ہے اور وہاں مسلمان مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ لیبیا ابھی ابھی لہو کی نہر سے گزرا ہے اور اس حال ہی میں نہیں کہ اِدھر اُدھر دیکھے۔ رہے غیر عرب مسلمان… تو ایران اور عرب شدید اختلافات کا شکار ہیں۔

شام ہی کے معاملے کو لے لیجیے۔ ایران بشار الاسد کا حامی ہے اور عربوں کی اکثریت باغیوں کے ساتھ ہے۔ پاکستان افغانستان میں امریکہ کا (سرکاری سطح پر) طرف دار ہے جب کہ پاکستانی عوام دوسری طرف ہیں۔ یوں بھی پاکستان کے اندر عدم استحکام کا دور دورہ ہے۔ کراچی اور بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور پاکستانی افواج جس طرح وزیرستان میں الجھی ہوئی ہیں، اس پس منظر میں پاکستان فلسطین کے لیے کیا کر سکتا ہے؟ رہ گیا ترکی… تو ترکی کی موجودہ حکومت اسرائیل کے خلاف عربوں کے ساتھ ہے لیکن عملی طور پر کیا کرے گی؟ اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے!

اس سارے مسئلے کو اب ایک اور زاویے سے دیکھنا چاہیے۔ ان دنوں عرب سپرنگ (عرب بہار) کی اصطلاح سننے میں بہت آ رہی ہے۔ اس سے مراد عرب دنیا میں وہ تبدیلی ہے جو تیونس سے شروع ہوئی اور لیبیا سے ہوتی ہوئی مصر میں رونما ہوئی اور اب شام اس سے گزر رہا ہے۔ دو دن پہلے کی خبر ہے کہ اردن میں بھی بادشاہ کے خلاف احتجاجی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ عرب ملکوں کے حکمران عزت سے اقتدار نہیں چھوڑتے۔ قذافی، زین العابدین اور حسنی مبارک عبرت کی دردناک مثالیں ہیں۔ بشار الاسد اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل کو دیکھیے۔ باقاعدگی سے الیکشن ہوتے ہیں۔ سب کچھ پارلیمنٹ کے اختیار میں ہے، تین چار سال سے زیادہ کوئی وزیراعظم کرسی سے چمٹتا نہیں دکھائی دیتا۔ ایک نظام ہے جو ہموار طریقے سے اپنے راستے پر چل رہا ہے۔ ’’اسرائیل بہار‘‘ کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی۔ اس میں شک نہیں کہ امریکہ اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اسرائیل، اس کے جواب میں، امریکہ کا دست بستہ غلام نہیں ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اسرائیل نے امریکہ کے ’’احکام‘‘ ماننے سے انکار کر دیا۔

تاریخ بہت ظالم ہے۔ جو کچھ اس کے صفحات پر رقم ہو جاتا ہے، مٹ نہیں سکتا۔ اسرائیل کا پودا عربوں نے خود لگایا تھا تاکہ ترکوں کی ’’غلامی‘‘ سے ’’نجات‘‘ پا سکیں۔ اردن کے شاہ حسین کے دادا نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ ’’نجات‘‘ بہت مہنگی پڑی۔ یہ بھی تاریخ کا عجوبہ ہے کہ آج وہی ترکی عربوں کا سب سے بڑا حامی ہے۔

دلّدر بہت سے ہیں! مسلمان ممالک تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، جمہوریت… ہر شے میں پیچھے ہیں۔ بھارت ہو یا اسرائیل، مسلمانوں ممالک سے کوسوں آگے ہیں۔ احتجاج کمزوروں کا ہتھیار ہے۔ طاقت ور طاقت استعمال کرتا ہے ؎

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

Facebook.com/izharulhaq.net

Tuesday, November 20, 2012

پنجاب کراچی کے نقش قدم پر



 دوماہ پہلے کا واقعہ ہے۔ میں شام کی ریل کار سے لاہور سے اسلام آباد جارہا تھا۔ اچانک ملک مقصود (اصل نام مصلحتاً نہیں لکھا جارہا ) نظر آئے۔ ان کی نشست میری نشست کے بالکل پیچھے تھی۔ گاڑی چلی تو میں کچھ دیر کے لئے ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ وہ امریکہ سے دوسال پہلے واپس آئے تھے۔ وہ وہاں کئی سال سے مقیم تھے اور کاروبار خوب چل رہا تھا۔ پھر انہوں نے واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے پوچھا کہ اپنے ملک میں واپس آکر وہ کیسا محسوس کررہے ہیںاور کاروبار کیسا چل رہا ہے۔ ان کی داستان الم ناک تھی اور عبرت ناک بھی۔ انہوں نے مناسب سائز کی ایک فیکٹری لگائی تھی۔ کام چل پڑا تھا۔ ایک دن انہیں ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔ انہیں ان کے بنک اکائونٹس کے بارے میں وہ معلومات دی گئیں جو یا تو خود ان کے پاس تھیں یا بنک کے پاس ہوسکتی تھیں۔ پھر ایک مخصوص رقم کا مطالبہ کیا گیا۔ چند روز کے بعد ان کے ملازموں نے فیکٹری کے گیٹ پر گرنیڈ بندھا ہوا دیکھا۔

میں نے ان سے اظہار ہمدردی کیا لیکن شک کی ایک لہر اٹھی اور میرے دماغ سے دل کی طرف سفر کرنے لگی۔ کہیں ملک صاحب مبالغہ آرائی تو نہیں کررہے؟ کہیں یہ داستان طرازی تو نہیں؟یہ توکراچی کی صورت حال ہے۔ پنجاب میں تو اس طرح نہیں ہوسکتا۔

لیکن دودن پہلے اخبار میں ایک رپورٹ کا تذکرہ پڑھ کر ملک صاحب یاد آئے اور ان کی داستان خوف بھی! یہ رپورٹ حکومت پنجاب کی اپنی ترتیب دی ہوئی رپورٹ ہے جو صوبائی محکمۂ داخلہ نے ڈویژنوں اور شہروں کے انچارج پولیس افسروں کو ارسال کی ہے۔ رونگٹے کھڑے کردینے والی یہ سرکاری رپورٹ بتارہی ہے کہ پنجاب کراچی کے نقش قدم پر چل پڑا ہے اور اب منزلوں پر منزلیں مارتا مسلسل ’’آگے‘‘ بڑھ رہا ہے۔ اس رپورٹ میں دہشت گردوں کے ان گروہوں کا ذکر ہے جو پنجاب میں دولت مند لوگوں سے مال بٹوررہے ہیں۔ وہ صاحب ثروت پاکستانی جو قبائلی علاقوں سے ہجرت کرکے پنجاب کے شہروں میں آن بسے ہیں، ان گروہوں کا خاص نشانہ ہیں۔ راولپنڈی کی صورت حال کا اس رپورٹ میں خصوصی تذکرہ ہے۔ یہاں ماضی قریب میں تقریباً ایک سو افراد سے بیس لاکھ سے لے کر ستر لاکھ روپے تک کی رقوم دھمکیاں دے کر لی گئی ہیں۔ ان سو افراد میں پختونوں کی تعداد زیادہ تھی خاص کروہ جو سپیئر پارٹس کا کاروبار کرتے ہیں یا فیکٹریوں کے مالک ہیں۔ کچھ پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں اس امر پرتشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ طالبان کے حمایتی دن بدن زیادہ ہورہے ہیں اور رقمیں بٹورنے والے کچھ گروہ مری میں ٹھکانے بنائے بیٹھے ہیں۔ چند ماہ پہلے دو اشخاص گوجر خان کے نواح میں قتل کیے گئے۔ ان دونوں نے رقم ادا کرنے سے انکار کیا تھا یا ادا نہیں کرسکے تھے۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ لاہور کی تاجر برادری بھی متاثر ہورہی ہے بالخصوص وہ تاجر جوفرنیچر، گارمنٹس اور لوہے کا کام کررہے ہیں۔ لاہور ہی میں چار پختون تاجر مطالبات پورے نہ کرنے کی وجہ سے قتل کردیئے گئے۔ ایک تاجر راوی روڈ پر اور دوسرا سمن آباد میں ہلاک کیا گیا۔ یہ بدقسمت پانچ کروڑ روپے کی رقم کا انتظام نہ کرسکے۔ رپورٹ کے مطابق لاہور میں کام کرنے والے زیرزمین گروہوں کا افغانستان اور وزیرستان کے جہادی گروپوں سے قریبی تعلق ہے۔ تقریباً ایک سو ثروت مند پختونوں کے نام پیسے وصول کرنے والے گروہوں کو پہنچائے گئے ہیں۔ یہ ثروت مند پختون افغانستان اور قبائلی علاقوں سے ہجرت کرکے لاہور میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ کچھ مجرم جیل سے بھی یہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں متعلقہ افسروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ کو صورت حال کی نزاکت سے آگاہ کیاجائے اور مشترکہ حکمت عملی تیار کی جائے۔

اس رپورٹ کے چیدہ نکات ایک معروف انگریزی معاصرنے شائع کیے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جدیدترین مواصلاتی سہولیات ہونے کے باوجود ابھی تک صورت حال کو قابو میں نہیں کیا جاسکا۔ آج کے دور میں ٹیلی فون کالوں کی مددسے ملزموں تک پہنچنا مشکل نہیں۔ جوپختون سرمایہ کار صوبے میں سرمایہ لائے ہیں،ان کی حفاظت صوبائی حکومت کے فرائض میں شامل ہے اور اگر معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ تاجر دھمکیوں سے خوف زدہ ہوکر گھٹنے ٹیک رہے ہیں اور مطالبات پورے نہ کرنے والے موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں اور اس کا اعتراف محکمۂ داخلہ کی اپنی رپورٹ میں کیا جارہا ہے تو اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ حالات قابو سے باہر ہیں اور پنجاب کراچی کے نقش قدم پر بگٹٹ بھاگا جارہا ہے!

دوسری طرف پنجاب حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟ پنجاب حکومت کے پسندیدہ اخبار نے لکھا ہے کہ بارانی یونیورسٹی راولپنڈی میں جن طلبہ وطالبات کو انٹرن شپ خطوط دیئے گئے وہ وزیراعلیٰ کے نام کے نعرے لگاتے رہے۔ لیکن زیادہ دلچسپ یہ خبر ہے کہ ۔’’وزیراعلیٰ کی تقریر کے بعد محمد حنیف عباسی نے حاضرین سے سوال کیا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ زیرتعمیر فلائی اوور کا نام کیا رکھا گیا ہے؟ تو تمام طلبا نے بیک زبان کہا کہ میاں شہباز شریف فلائی اوور‘‘

خودنمائی کے اس طوفان میں یہ کون مشورہ دیتا کہ اگر قائداعظم، فاطمہ جناح، لیاقت علی خان، اقبال یا عبدالرب نشتر کا نام نہیں پسند تو چلو’’مسلم لیگ نون فلائی اوور‘‘ ہی نام رکھ دو۔ اقبال نے خوب کہا تھا ؎

فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں

خبر  نہیں   روشِ   بندہ   پروری     کیا      ہے!

صوبائی حکومت کا اولین فرض یہ ہے کہ جو تعلیمی ادارے برسوں سے ناکافی بجٹ کی وجہ سے مفلوک الحال ہورہے ہیں، انہیں سنبھالا جائے۔ ان تعلیمی اداروں کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے؟ صرف ایک مثال ملاحظہ کیجئے:گورنمنٹ کالج برائے خواتین کلرسیداں کی پرنسپل اپنے کالج کے بارے میں بتاتی ہیں کہ
1
۔ ایک ہزار طالبات کے لیے صرف دولیکچرار اور پرنسپل میسر ہیں۔ باقی اسامیاں سالہا سال سے خالی چلی آرہی ہیں۔

2۔ کالج میں لیبارٹری کا کوئی تصور نہیں۔

3۔ خواتین کے اس کالج کی حفاظتی دیوار ٹوٹی ہوئی ہے جس کی وجہ سے جانور کالج کے اندر آزادانہ داخل ہوکر گھومتے پھرتے ہیں۔

4۔ اساتذہ اور طالبات کے لیے فرنیچر تک موجود نہیں۔

5۔ پینے کے پانی کا کوئی بندوبست نہیں۔

یہ اس صوبے کے سرکاری کالج کی حالت ہے جس میں دانش سکولوں پر اور لیپ ٹاپ تقسیم کرنے پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں اور وزیراعلیٰ اور ان کے خاندان کے افراد کی تشہیر پر کروڑوں روپے کے اشتہار شائع ہورہے ہیں۔ لوک محاورہ ہے کہ ماں بھیک مانگ رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداری میں مصروف ہے۔ اس سے بھی زیادہ عبرت ناک خبر یہ ہے کہ اس کالج کے فرنیچر کے لیے دو افراد نے ذاتی طورپر پچاس پچاس ہزار عطیہ کے طورپر دیے ہیں اور اسمبلی کے رکن نے پانی پینے کا کولر بخشش میں دیا ہے۔ یعنی جوسرکاری ادارے پنجاب حکومت کی اولین اور بنیادی ذمہ داری ہیں وہ خیرات صدقات اور عطیات پر چل رہے ہیں، خواتین کے کالج چاردیواری تک سے محروم ہیں۔ جن لیبارٹریوں میں کمپیوٹر ہونے چاہیں وہ بھائیں بھائیں کررہی ہیں لیکن سرکاری خزانے سے لیپ ٹاپ

ملکیتی بنیادوں پر افراد میں بانٹے جارہے ہیں ؎

وہ شاخ گل پہ زمزموں کی دھن تراشتے رہے

نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزرگیا

Monday, November 19, 2012

بھنگڑے اور لڈی


گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا تو میرے بچپن کے لنگوٹیے مولوی حسین احمد اور چودھری منور کھڑے تھے۔ ہم تینوں پرائمری سکول سے کالج تک اکٹھے بیٹھے اور اکٹھے کھیلے تھے۔ رزق کے ذرائع قدرت نے تینوں کے مختلف رکھے۔ مولوی حسین احمد کاروبار کی طرف گیا اور خوب کامیاب ہوا۔ چودھری منور کالج میں استاد ہوا۔ لیکچردینے کا اسے بچپن ہی سے چسکا تھا۔ دماغ کھاتا رہتا تھا۔ میں صحافت کی منشی گیری کی طرف نکل آیا۔

گھر میں داخل ہونے کے لیے انہیں اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ مجھے ایک طرف دھکیلتے ہوئے اندر آگئے۔ گھر کا لائونج کافی وسیع ہے۔ میں بیٹھ گیا لیکن وہ کھڑے رہے۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے مولوی حسین احمد نے منور کی طرف دیکھا اور کہنے لگا ’’تو ہوجائے پھر؟‘‘ منور مسکرایااور جواب دیا۔’’ہاں۔ ہوجائے‘‘۔ آناً فاناً دونوں بھنگڑا ڈالنے لگے۔ یوں لگتا تھا سرمستی کے عالم میں ہیں۔ پائوں کی دھمک کے ساتھ ایک ہی آہنگ میں بازوئوں کو اوپر نیچے کرتے تھے۔ پھر دیکھتے دیکھتے بھنگڑا لڈی میں تبدیل ہوگیا۔ اب وہ بازوئوں کو آگے پیچھے کررہے تھے۔ اندر سے بچے بھی آگئے اور محظوظ ہونے لگے۔

کافی دیر کے بعد انہوں نے رقص بند کیا اور بیٹھ گئے۔ چھجوکو میں نے چائے لانے کے لیے کہا۔ مولوی حسین احمد اور چودھری منور سے پوچھا کہ یہ بھنگڑے اور لڈیاں کس خوشی میں ڈالی جارہی ہیں؟دونوں بیک وقت بولے’’ کیا تم نے آج کا اخبار نہیں دیکھا؟‘‘

’’دیکھا تو ہے‘‘ میں نے جواب دیا ’’لیکن اس میں تم دونوں کے بارے میں تو کوئی خبر نہیں!‘‘

’’ہم دونوں کے بارے میں تو نہیں لیکن پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے!تعجب ہے تم نے نوٹ نہیں کیا! بھائی! اللہ کے فضل سے امریکہ کے ٹکڑے ہورہے ہیں۔ اللہ نے ہماری دعائیں سن لیں۔ امریکہ کی بیس ریاستوں نے امریکی وفاق سے الگ ہونے کی درخواست دے دی ہے۔ اگر درخواست پر پچیس ہزار افراد کے دستخط ہوجائیں تو امریکی صدر اس درخواست پر غور کرنے کا پابند ہے۔‘‘

’’یہ تو بہت اہم خبر ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

’’ہاں ! بہت بڑی خبر ہے‘‘۔ مولوی حسین احمد نے اپنی ٹوپی کو ذرا سا ترچھا کیا اور سفید ریش مبارک پر ہاتھ پھیرا۔ ’’کل سوویت یونین کے بھی ہم ہی نے ٹکڑے کیے تھے اور آج انشاء اللہ امریکہ بھی ہمارے ہاتھ ہی سے لخت لخت ہوگا‘‘۔

چھجو پیالیوں میں چائے ڈال رہا تھا۔ اس نے ایک پیالی مولوی حسین احمد کے سامنے رکھی۔ رکھنے کے بعد ایک طرف کھڑا ہوگیا اور مولوی صاحب کو غور سے دیکھنے لگا۔ پھراچانک بولا۔

’’مولوی صاحب !گستاخی نہ ہوتو کچھ عرض کروں؟‘‘

مولوی حسین احمد نے اسے تعجب سے دیکھا اور کہنے لگا ’’ہاں! بھئی!چھجو! بولو، کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘

’’مولوی صاحب!سوویت یونین توڑنے کے بہت سے دعویدار ہیں۔ سب سے بڑا مدعی تو امریکہ ہے۔ پھر افغان مجاہدین کا دعویٰ ہے۔ کچھ لوگ یہ سہرا جنرل ضیاء الحق کے سر باندھتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین اپنی کرپشن اور نااہلی سے ٹوٹا اور یہ تاریخ کی مرحلہ وار صورت تھی۔ لیکن فرض کریں یہ آپ ہی نے توڑا تو آپ کو اس سے کیا فائدہ ہوا؟ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسلم وسط ایشیا کی ریاستیں آزاد ہوگئیں تو یہ آپ کا خیال تو ہوسکتا ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں!ان ریاستوں پر وہی روس زدہ حکمران مسلط ہیں جو سوویت یونین کے زمانے میں حکومت کررہے تھے۔ اکثر کی بیگمات روسی ہیں۔ روسی فوجیں ان ریاستوں میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ان ریاستوں کے تقریباً ایک ہزار معاہدے اسرائیل سے ہوئے۔ اسی طرح تجارت‘ تعلیم اور صنعت کے شعبوں میں ان ریاستوں پر بھارت چھایا ہوا ہے۔ اردو سیکھنے کے لیے وسط ایشیائی مسلمان طالب علم اب بھی دلی اور لکھنو جاتے ہیں۔ ہوٹل بھارت تعمیر کر رہا ہے۔ جوتوں سے لے کر فلموں تک‘ منڈی میں ہرمال بھارت سے آرہا ہے۔ ایک ہفتے میں بیسیوں پروازیں ان ریاستوں کو بھارت سے جاتی ہیں۔ دوسری طرف ان ریاستوں کا نام پاکستان میں کوئی لیتا ہے نہ پاکستان کی اہمیت ان ریاستوں میں ہے!

رہا امریکہ کا ٹوٹنا تو اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ بس ٹوٹا ہی ٹوٹا تو آپ کی عقل کے کیا کہنے! جہاں امریکہ کے سفید فام مرد اوباما کے دوسری بار صدر منتخب ہونے پر چیں برجبیں ہیں وہاں یہ بھی نہ بھولیے کہ سفید فام امریکی عورتوں کی اکثریت نے اوباما کو ووٹ ڈالا ہے ۔ اور یوں حساب برابر ہوگیا ہے۔ ووٹ ڈالنے والی امریکی آبادی میں سے 53فی صد عورتیں اور 47فی صد مرد ہیں۔ اکیلی رہنے والی (غیر شادی شدہ، بیوہ اور مطلقہ) عورتوں کی بھاری اکثریت اوبامہ کی طرفدار تھی ۔ لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں!فرض کریں کہ امریکہ واقعی مستقبل قریب میں ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے تو اس سے مسلمانوں کو اور بالخصوص پاکستانیوں کو کیا فائدہ ہوگا؟ دوسروں کی تباہی سے زیادہ اہم اپنی نجات ہے۔ فرض کریں آج ریاست ہائے متحدہ امریکہ سمندر میں غرق ہوکر صفحۂ ہستی سے مٹ جاتا ہے تو کیا اس سے پاکستان کے مسائل حل ہوجائیں گے؟ پاکستان کی آبادی تیزی سے خط غربت کو عبورکرتی جارہی ہے۔ خواندگی کا تناسب دن بدن کم ہورہا ہے۔ صنعتیں روبہ زوال ہیں۔ سرمایہ کار ملائیشیا ، بنگلہ دیش ، ویت نام اور کینیڈا میں منتقل ہورہے ہیں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کی وبا ایک شہرسے دوسرے شہر میں پھیلتی جارہی ہے۔ ملک میں اسلحہ کے انبار لگے ہیں۔ ہرچوتھا شخص مسلح ہورہا ہے ۔ بجلی اور گیس ناپیدہورہی ہیں۔ قتل‘ دھماکے اور خودکش حملے روزمرہ کا معمول ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کو صومالیہ ، افغانستان اور زمبابوے کے ساتھ بریکٹ کیا جارہا ہے۔ ڈالر سوروپے سے اوپر جانے کے لئے پرتول رہاہے۔ پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی کرنسی پاکستانیوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ ریلوے، پی آئی اے اور کئی دوسرے ادارے موت کے دروازے پردستک دے رہے ہیں اور مولوی صاحب!آپ امریکہ ٹوٹنے کی خوشی میں بھنگڑے ڈال رہے ہیں!واہ جی واہ!‘‘

چھجو نے چائے کی دوسری پیالی چودھری منور کو پیش کی اور اپنی بات جاری رکھی۔ ’’آپ نے وہ واقعہ کئی بار سنا ہوگا کہ میراثی کے بچے نے اپنی ماں سے پوچھا کہ چودھری کے مرنے کے بعد نمبردار کون ہوگا۔ ماں نے جواب دیا کہ ایک اور چودھری ، بچے نے پوچھا کہ وہ مرگیا تو پھر؟ ماں نے بتایا کہ اگر سارے چودھری مرگئے تب بھی تمہاری باری نہیں آسکتی۔ سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ مسلمان اس کے بعد بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سوویت یونین کی موجودگی میں کھڑے تھے۔ امریکہ ٹوٹ گیا تو سپرپاور بننے کے لئے چین بھی تیار ہے اور یورپی یونین بھی !جاپان بھی اس دوڑ میں شامل ہے اور بھارت کا شمار بھی طاقت ور اورترقی یافتہ ملکوں میں ہونے لگا ہے۔ بھارتی بھاری تعداد میں بیرون ملک سے واپس اپنے ملک میں آرہے ہیں لیکن مسلمانوں کی قطاریں غیرملکی سفارت خانوں کے سامنے طویل سے طویل ترہوتی جارہی ہیں۔ پچپن مسلمان ملکوں میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں مسلمان جاکر آباد ہوسکیں۔ ان پچپن ملکوں کے مسلمان آسٹریلیا ،یورپ، امریکہ اور کینیڈا جارہے ہیں اور واپس نہیں آنا چاہتے۔
 کیا عقل کا تقاضا یہ نہیں کہ دوسروں کے خاتمے پر ڈھول پیٹنے کے بجائے اپنی فکر کی جائے؟

Friday, November 16, 2012

ہجومِ مومنین


آپ مسلمانوں کی بدقسمتی کا اندازہ لگایئے کہ ”ملی یکجہتی کونسل“ کے زیراہتمام منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی ”عالمی اتحاد امت کانفرنس“ میں عالم اسلام کو درپیش  مسائل میں سے کسی مسئلے پر غور نہیں کیا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ ان معزز حضرات کو ان مسائل کا ادراک ہی نہ تھا!

کانفرنس کے شرکا کو دیکھ کر کئی سوالات ذہن میں اٹھے۔ بین الاقوامی اتحاد کا بیڑہ اٹھانے والے اندرون ملک اتنا اتحاد بھی پیدا نہ کر سکے کہ کانفرنس میں دو دن کے لیے ہی تمام مکاتب فکر کے نمائندے مل کر بیٹھ جاتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اکثریت بریلوی مکتب فکر کے پیروکاروں کی ہے۔ اس مکتب فکر کی سب سے بڑی مذہبی اور سیاسی تنظیم سُنّی تحریک ہے جس کے سربراہ ثروت قادری صاحب ہیں۔ انہیں اس کانفرنس میں یا تو بلایا نہیں گیا یا انہوں نے شریک ہونا پسند نہ کیا۔ اسی طرح سُنّی اتحاد کونسل کے حاجی فضل کریم‘ جو مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں میں بہت فعال ہیں‘ کانفرنس میں نہیں دیکھے گئے۔ مولانا سمیع الحق بھی غیر حاضر تھے۔ اہل تشیع میں سے مولانا ساجد نقوی موجود تھے لیکن علامہ موسوی اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔

مشترکہ اعلامیہ کا سب سے بڑا نکتہ یہ تھا کہ توہین رسالت کے قانون میں کسی بھی قسم کی ترمیم کو مسترد کر دیا جائے گا۔ تعجب کی بات اس میں یہ ہے کہ اس قانون میں ترمیم کا دور دور تک کوئی امکان نہیں‘ نہ ہی کسی نے ایسی جرات کی ہے۔ کوئی ایسی افواہ بھی سننے میں نہیں آئی کہ خدانخواستہ کسی ترمیم کا سوچا جا رہا ہے۔

اخبارات میں اس کانفرنس کی جو روداد شائع ہوئی‘ اسے پڑھ کر مندوبین کی ذہانت اور مبلغ علم پر حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً قاضی حسین احمد نے ارشاد فرمایا :”ہمیں چاہئے کہ وسیع تر مفادات کے لیے اکٹھے ہو جائیں۔ اگر تمام تنظیمیں اکٹھی ہو جائیں تو کسی کی جرات نہیں کہ وہ دینی مدارس پر چھاپے مارے اور طلبا کو ہراساں کرے۔“

گویا تمام تنظیموں کے اتحاد کا مقصد یہ ہے کہ دینی مدارس پر چھاپے نہ مارے جائیں۔ یوں لگتا ہے کہ کانفرنس دینی مدارس سے باہر نہیں دیکھنا چاہتی اور اسے ان لاکھوں کروڑوں مسلمانوں سے کوئی سروکار نہیں جو کالجوں، یونیورسٹیوں اور سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔

جماعت اسلامی کے سربراہ سید منور حسن نے ارشاد فرمایا : ”امت مسلمہ میں اتنی قوت ہے کہ اگر انہیں شعور دیا جائے اور مقاصد متعین کیے جائیں تو صرف اشارہ کی ضرورت ہے۔ وہ ہر طرح کے لیے تیار ہیں۔“

گویا سید منور حسن صاحب کے نزدیک پوری امت مسلمہ شعور سے محروم ہے! یہ تو ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ وہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ شعور کیسے پیدا کیا جائے گا؟ اگر وہ یہ بھی بتا دیتے کہ امت اشارہ پانے کے بعد کیا کچھ کرنے کے لیے تیار ہے تو لوگوں کے علم میں اضافہ ہو جاتا!

ایک غیر ملکی مندوب نے مطالبہ کیا : ”امت مسلمہ کو سپر پاور بنانے کے لیے دنیا کے 60 اسلامی ممالک میں اسلامی انقلاب لایا جائے اور تمام ممالک کا ایک امیر مقرر کیا جائے۔“

اس مطالبے سے کانفرنس کی ”سنجیدگی“ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے! یعنی جو ممالک پہلے ہی اسلامی ہیں ان میں اسلامی انقلاب لایا جائے! اموی سلطنت کے خاتمے کے بعد، آج تک، ساڑھے تیرہ سو سال کے عرصہ میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا کہ تمام عالم اسلام کا ایک امیر مقرر ہوا ہو! نہ جانے یہ ”مطالبہ“ کس سے کیا گیا ہے؟

سب سے زیادہ دلچسپ تقریر ایک ایسے مذہبی رہنما کی تھی جو میدان سیاست کے معروف اور تجربہ کار کھلاڑی ہیں اور انہیں اس ضمن میں از حد ذہین قرار دیا جاتا ہے! ان کی تقریر کے دو نکات اہم تھے۔ اول: اسلامی دنیا کے حکمران امت مسلمہ کی ترجمانی نہیں کر رہے! دوم: اسلامی دنیا کے تمام حکمران امریکہ کے سامنے سرنگوں نظر آتے ہیں!

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ یہ مذہبی سیاسی رہنما خود ایک طویل عرصہ سے حکمرانوں کی صف میں شامل ہیں۔ آج بھی ان کا عہدہ وزیر کے منصب کے برابر ہے اور مراعات بھی ماشاءاللہ اسی حساب سے ہیں۔ جہاں تک امریکہ کے سامنے سرنگوں ہونے کا تعلق ہے تو وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ ان مولانا صاحب نے امریکی سفیر سے استدعا کی تھی کہ کسی نہ کسی طرح انہیں پاکستان کا وزیراعظم بنوایا جائے۔ آپ نے امریکی سفیر کو یہ تسلی بھی دی تھی کہ پارلیمنٹ کو وہ خود سنبھال لیں گے!

”اتحاد“ کا ایک اور عبرت ناک مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں مولانا فضل الرحمن نے حال ہی میں ایم ایم اے کا احیا کیا ہے اور جماعت اسلامی کو اس میں شامل نہیں ہونے دیا (یا جماعت اسلامی نے خود احتراز کیا)۔ اس احیا کے بعد ایک طرف جماعت کے امیر اور دوسری طرف مولانا فضل الرحمن اور ان کے رفقا کے درمیان مخالفانہ بیانات کا گولہ بارود وسیع پیمانے پر چلتا رہا۔ کانفرنس کے دوسرے روز تقریباً تمام اخبارات میں ایک تصویر نمایاں انداز میں شائع ہوئی۔ اس تصویر میں سید منور حسن اور مولانا فضل الرحمن مصافحہ کر رہے ہیں اور دونوں کے درمیان قاضی حسین احمد مسکراتے نظر آ رہے ہیں! اس تصویر سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ دونوں رہنماﺅں کے درمیان مخاصمت ختم ہو گئی ہے لیکن اس کے ٹھیک ایک دن بعد سید منور حسن کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ.... ”ایم ایم اے کا باب ختم ہو گیا ہے۔“انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایم ایم اے کی بحالی کا پیغام لانے والوں سے انہوں نے یعنی منور حسن صاحب نے، دوسرے نکات کے علاوہ ”پیپلزپارٹی اور جمعیت علماءاسلام (ف) کے درمیان فاصلے“ کا نکتہ بھی پیش کیا!!

”ملی یکجہتی کونسل“ کی قیادت، بذات خود مجموعہء اضداد ہے۔ اس کے صدر قاضی حسین احمد ہیں جو بائیس سال جماعت کے امیر رہے اور اب کسی فورم کی تلاش میں ہیں۔ جنرل سیکرٹری حافظ حسین احمد ہیں جو اپنی جماعت، جمعیت علماءاسلام (ف) سے برگشتہ ہیں۔ گویا احمد فراز کے بقول

اپنے اپنے بے وفاﺅں نے ہمیں یکجا کیا

ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا!!

عالم اسلام کو آج دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک یہ کہ تعلیم کے میدان میں مسلمان افسوس ناک حد تک پیچھے ہیں۔ گزشتہ پانچ چھ سو سال کے دوران عالم اسلام نے کسی دریافت، کسی ایجاد کا سہرا اپنے سر نہیں باندھا۔ مسلمانوں کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ جتنی کتابیں پورے عالم اسلام میں ایک سال میں چھپتی ہیں، اتنی صرف برطانیہ یا صرف فرانس یا صرف امریکہ میں چھپ جاتی ہیں۔ کوئی ایک یونیورسٹی بھی ایسی نہیں جو آکسفورڈ، کیمبرج یا ہارورڈ کے معیار کی ہو۔ رہے مدارس تو ان کا نصاب تین سو سال سے تبدیل نہیں ہوا۔ برّصغیر پاک و ہند کے مدارس سے فارغ التحصیل علما اردو کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھ سکتے ہیں نہ تقریر کر سکتے ہیں۔ الا ماشاءاللہ۔ دوسرا بڑا مسئلہ مسلمان ملکوں میں قانون کی پامالی کا ہے۔ رول آف لا شاید ہی کہیں ہو۔ اکثر ملکوں میں آمریت اور شہنشاہیت کا راج ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں مسلمان ان ملکوں سے ہجرت کرکے غیر مسلم مغربی ممالک میں آباد ہو گئے ہیں اور کروڑوں آباد ہونے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر مسلمان ملکوں میں رول آنف لا ہو تو لوگوں کو اپنی اہلیت کے حساب سے روزگار مل سکتا ہے اور شخصی آزادی میسر آ سکتی ہے۔ لیکن روزگار اور شخصی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں مسلمان مغربی دنیا کا رخ کر رہے ہیں۔

”ملی یکجہتی کونسل“ کی کانفرنس کے شرکا کو ان مسائل کا ادراک ہی نہ تھا۔ ان کی بلندیفکر مدارس پر پڑنے والے چھاپوں سے آگے نہ جا سکی۔ یہ فقرہ خوب خوب دہرایا گیا کہ عالم اسلام میں اتحاد ہونا چاہئے۔ کس طرح ہونا چاہئے؟ لائحہ عمل کیا ہوگا؟ طریق کار کیسے طے ہوگا؟ کون کون سے عوامل اتحاد کے راستے میں رکاوٹ ہیں اور یہ رکاوٹیں کیسے دور کی جائیں گی؟ ان میں سے کسی سوال کا جواب تو دور کی بات ہے، ان خطوط پر سوچا تک نہ گیا‘ نہ ہی بحث مباحثہ یا مکالمہ ہوا۔

اقبال نے کہا تھا

عیدِ آزادان شکوہِ مُلک و دین

عیدِ محکومان ہجومِ مومنین!

تو یہ کانفرنس بھی ہجومِ مومنین تھا!

Facebook.com/izharulhaq.net

Thursday, November 15, 2012

وہ ماہِ کراچی

کراچی کو اگر کوئی منی پاکستان کہتا ہے تو وہ تاریخ سے نابلد ہے اور اگر کراچی کو کوئی منی برصغیر کا خطاب دیتا ہے تو وہ بھی کوئی خاص تیر نہیں مار رہا۔ سوال یہ ہے کہ برصغیر کے جن شہروں سے اُٹھ اُٹھ کر لوگ کراچی آ بسے وہ شہر بسانے والے کون تھے اور کہاں کہاں سے آئے تھے؟

میں اگر آج کراچی میں ہوں تو کل کہاں تھا؟ اور جہاں بھی تھا، کہاں سے آیا تھا؟

میں نے برّصغیر کے دمکتے شہروں کو صرف اپنا کلچر اپنی تہذیب اور اپنا مذہب نہیں دیا، اپنا خون بھی دیا۔ میں صرف عراق سے یا حجاز ہی سے نہیں، بلکہ چاروں اطراف سے آیا اور زمین کے اس خطّے کو جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان واقع ہے، دنیا کا نامور ترین حصّہ بنا دیا۔ میں ترکستان سے چلا اور خراسان اور غزنی سے ہوتا ہوا دہلی آیا اور قطب مینار بنایا۔ میں سوداگروں کے ہاتھوں بکتا ہوا پہنچا اور بہار کو تاریخ میں پہلی بار الگ صوبہ بنایا۔ میں نے آگرہ کو دارالحکومت قرار دیا۔

میں نے ہندوستان کو پھلوں اور پھولوں سے لاد دیا۔ ڈھاکہ سے پشاور تک، آگرہ سے برہان پور تک، آگرہ سے جودھپور تک اور لاہور سے ملتان تک شاہراہیں بنوائیں اور زمین کا ایسا بندوبست کیا کہ آج بھی وہی رائج ہے۔

میں چاروں طرف سے آیا اور اُمڈ کر آیا اور ٹوٹ کر برسا اور زمین کے اُس مختصر ٹکڑے کو جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان واقع ہے دنیا کا نامور ترین خطّہ بنا دیا۔

میں شہرِ سبز سے آیا اور سمرقند سے آیا اور بخارا سے آیا،

میں ترمذ سے، بلخ سے، مرو سے اور رے سے،

بدخشاں، ہرات اور قندھار سے،

نیشاپور، شیراز اور اصفہان نصف جہان سے،

ہمدان، مشہد اور تبریز سے،

فرغانہ اور خوارزم سے اور ہر ولایت اور ہر اقلےم سے آیا اور ان شہروں اور قصبوں اور قریوں میں آباد ہوتا گیا جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان کچھ تو پہلے سے بس رہے تھے اور کچھ کو میں نے بسایا۔

جتنے سپہ سالار، منتظم، دانشور، علما، فقہا، محدّثین، شعرا اور نثر نگار زمین کے اس مختصر ٹکڑے نے جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان واقع ہے، پیدا کیے عالم اسلام میں زمین کے کسی اتنے مختصر ٹکڑے نے شاید ہی پیدا کیے ہوں۔ نامور مورخ ضیاءالدین برنی لکھتا ہے کہ علاﺅ الدین خلجی کے دور میں جو علما دہلی میں پائے جاتے تھے ان کی مثال اُس وقت کی اسلامی دنیا یعنی بخارا، سمرقند، مصر، خوارزم، دمشق، تبریز اصفہان، رے اور شیراز میں نہیں ملتی تھی۔ یہاں تک کہ بقول برنی:

”بعض علما امام غزالی اور رازی کی ٹکر کے تھے اور فقہ کے بعض ماہرین کو امام ابو یوسف اور امام محمد شیبانی کا درجہ حاصل تھا۔“

امیر خسرو نے دہلی کو قبہاسلام لکھا۔ محمد تغلق کے دسترخوان پر دو سو فقہا موجود ہوتے تھے۔ سکندر لودھی کی قیام گاہ میں روزانہ رات کو ستر علما تبادلہخیالات کے لیے جمع ہوتے تھے۔ صرف دہلی میں ایک ہزار کالج تھے۔ آگرہ کے کئی تعلیمی اداروں میں دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے سکالر پڑھاتے تھے۔ جونپور سے، ہاں اُسی جونپور سے جس کا آج نام بھی کوئی نہیں جانتا سیّد عبدالاوّل جونپوری نے پہلی بار صحیح بخاری کی شرح فیض الباری لکھی۔ یہیں سے دیوان عبدالرشید اور ملا محمد جونپوری پیدا ہوئے جن کے بارے میں شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ علامہ تفتازانی اور علامہ جرجانی کے بعد اس پائے کے دو علما کبھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ مغلوں کے آخری زمانے میں صرف نجیب الدولہ کے ہاں نو سو علما تھے۔ سرہند کے فرزند مجدد الف ثانی نے تو سلطنتوں کی کایا پلٹ دی اور مجدّدی سلسلہ آج بھی شام، ترکی اور افغانستان میں موجود ہے۔ دہلی کے شاہ ولی اللہ خاندان نے علما اور مجاہدین کی جتنی نسلیں اور جتنے گروہ پیدا کیے ان پر آج تک کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی۔

دہلی اور پٹنہ کے درمیان واقع زمین کے اس مختصر ٹکڑے نے سیّد احمد شہید بریلوی کی تحریک کو جتنا خون دیا اتنا خون بارشوں نے زمین کو نہ دیا ہوگا۔ اکوڑہ کی جنگ میں جو چھتیس مجاہد شہید ہوئے ان میں سے پچیس سے زیادہ کا تعلق لکھنوملیح آباد، عظیم آباد، دہلی، روہیل کھنڈ، پرتاب گڑھ، رام پور، مظفر نگر، اعظم گڑھ اور ملحقہ علاقوں سے تھا۔ یہ درست ہے کہ سیّد احمد شہید کی تحریک میں شہید ہونے والے کچھ لوگ پنجاب کے اُن مغربی ضلعوں سے تعلق رکھنے والے اعوان بھی تھے جو سندھ کے کنارے آباد ہیں اور سندھی بھی تھے اور پٹھان بھی لیکن خال خال۔ پٹنہ کے صرف ایک محلے صادق آباد نے اس تحریک کو کئی شہید دیے۔ مولانا ولایت علی اور عنایت علی‘ جن کا شمار بہار کے رئیسوں میں ہوتا تھا، فقیر اور مہاجر ہو گئے۔ ان کی حویلیوں پر ہَل چلا دیے گئے۔ بہت سوں کو توپوں کے دہانوں پر باندھ کر اُڑا دیا گیا۔ بہت سی قبریں کالے پانی میں بنیں۔

پھر جب شمال میں زوال آیا تو علم اور فیاضی اور تونگری کے ان دریاﺅں نے جنوب کا رخ کیا اور حیدر آباد دکن دو سو سال تک اہل علم اور اہل ہنر کی پناہ گاہ رہا۔ نہ صرف دہلی، لکھنواور لاہور بلکہ وسط ایشیا، افغانستان اور ایران سے آنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ آج بھی حیدر آباد دکن میں ایرانی گلی موجود ہے، ولیم ڈال رمپل نے ”وائٹ مغلز آف انڈیا“ میں حیدر آباد دکن کا جو نقشہ کھینچا ہے، پڑھ کر حیرت ہوتی ہے!

پھر ان لوگوں نے جو حجاز اور عراق سے آئے تھے، مشہد اور قُم سے آئے تھے، شہر سبز اور فرغانہ سے آئے تھے، بخارا، خیوا اور اصفہان نصف جہان سے آئے تھے، پٹنہ اور دہلی اور لکھنوکو خیرباد کہا، جونپور، مراد آباد، رامپور اور امروہہ کو الوداع کہا اور کراچی کا رخ کیا۔ کراچی منی پاکستان نہیں، کراچی منی برّصغیر نہیں، کراچی منی وسط ایشیا ہے، کراچی منی حجاز ہے، کراچی منی ایران ہے اور کراچی منی خراسان اور افغانستان ہے، کراچی میں آ کر بس جانے والے رسا چغتائی نے غلط نہیں کہا ہے

لڑ  رہا    ہوں   رسا    قبیلہ  وار

میر و مرزا کے خاندان سے دُور

تاشقند کے چغتائی محلہ میں، میں اس شعر کا ورد کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ برصغیر نے کہاں کہاں کی مٹی جذب کی اور کہاں کہاں کا پانی اپنے چشموں میں انڈیلا اور یہ سب کچھ آج کراچی میں ہے۔

لیکن میں جو ہر طرف سے آیا اور اُن شہروں میں آباد ہوا جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان واقع ہیں اور پھر حیدر آباد دکن میں جا آباد ہوا، میں، جس نے برّصغیر ہی کو نہیں عالم اسلام کو دماغ دیے، دل دیے اور خون دیا۔ مجھے کیا ملا؟ کچھ کو تو جاگیریں مل گئیں اور کچھ کو گدیاں، کچھ کو تمغے اور کچھ کو خطابات، لیکن مجھے کیا ملا؟ ہجر اور ہجرتیں! کبھی عراق اور حجاز سے ہجرت، کبھی ترکستان سے ہجرت، کبھی پٹنہ دہلی لکھنواور حیدر آباد سے ہجرت اور کبھی ڈھاکہ سے ہجرت!

اور جو تھوڑا سا بچ گیا ہوں تو اب کراچی میں مجھ پر عرصہحیات تنگ کیا جا رہا ہے، میرے بچوں کو مارا جا رہا ہے، میری عورتوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے، میرے بزرگ نوحہ خواں ہیں۔ کراچی کی گلیاں لاشوں سے اَٹ گئی ہیں۔ کراچی کے قبرستان بھر گئے ہیں۔ کراچی کی ہوا میں خون کی خوشبو اس قدر رچ چکی ہے کہ پھولوں نے خوشبو کو بکھیرنا بند کر دیا ہے، سانس نہیں لیا جا سکتا۔ خدا کے لیے اس قتل و غارت کو بند کرو۔ موت کے اس کاروبار کو ختم کرو۔ یاد رکھو، اب اگر ہجرت کا سلسلہ چل نکلا تو صرف کراچی سے ہجرت نہیں ہوگی! یہ سلسلہ دور تک جائے گا اس لیے کہ کراچی صرف برّصغیر کا وارث نہیں، یہاں صرف لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے لوگ نہیں، یہاں پورے عالم اسلام کے وارث موجود ہیں۔ کراچی پاکستان ہی کا نہیں کراچی پورے عالم اسلام کا دل ہے۔ یہ تو ہماری نااہلی ہے اور ہماری کرپشن ہے ورنہ کراچی نے تو دبئی ہونا تھا، جدہ بننا تھا۔ اس پر سنگاپور اور ہانگ کانگ نے رشک کرنا تھا۔ افسوس! صد افسوس! ہم نے اس شہر کو، جو ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ تھا، تباہی کی نذر کر دیا! مسلمانوں کا اتنا خون تو تاتاریوں کے وحشیانہ عہد میں بھی نہیں بہا تھا!

ہیہات! ہیہات! جس خوبصورت شہر میں یورپ کے لوگ آباد ہونے کی آرزو کرتے تھے اور عشاق جس کے حسینوں کے لیے کہا کرتے تھے

جس کے لیے اک عمر کنوئیں جھانکتے گزری

وہ ماہِ کراچی مہِ کنعاں کی طرح ہے

اُسے ہم نے اتنا ہیبت ناک کر دیا ہے کہ غولِ بیاباں بھی پناہ مانگ رہا ہے!

Facebook.com/izharulhaq.net

Tuesday, November 13, 2012

شہنشاہی

ہمارے صنعت کار ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ کئی کروڑ روپے کا سرمایہ صرف کراچی سے ملائیشیا منتقل ہوا ہے۔ ملائیشیا نے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ایک خصوصی سکیم شروع کی ہے جس کا نام ”ملائیشیا مائی سیکنڈ ہوم“ ہے۔ اگر مطلوبہ مقدار میں سرمایہ منتقل کیا جائے تو دس سال کے لیے شہریت دے دی جاتی ہے۔ سینکڑوں سرمایہ کار کینیڈا چلے گئے ہیں اور ہزاروں قطار میں کھڑے ہیں۔ یہی حال ڈاکٹروں، پروفیسروں، انجینئروں اور چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹس کا ہے۔ ان پیشوں سے تعلق رکھنے والے اس لیے بھی جا سکتے ہیں کہ یہی کام جو وہ اپنے ملک میں کر رہے تھے، بیرون ملک بھی جا کر جاری رکھ سکتے ہیں۔

لیکن ایک شعبہ ایسا ہے کہ اس سے وابستہ لوگ بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ اگر چلے جائیں تو وہاں اپنے شعبے سے منسلک نہیں رہ سکتے۔ یہ ان حضرات کی مجبوری ہے۔ یہ شعبہ سیاست کا ہے۔ سیاست دان بیرون ملک ہجرت کرے تو وہاں جا کر سیاست نہیں کر سکتا۔ سیاست کا تعلق عوام سے ہوتا ہے اور عوام کا تعلق علاقے سے ہوتا ہے۔ حلقہ انتخاب اپنے ملک میں بھی تبدیل کرنا ایک خطرناک کام ہے۔ یہ ایک درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگانے والا معاملہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن ڈیرہ اسماعیل خان سے باہر سیاست نہیں کر سکتے۔ اسفند یار ولی آبائی حلقہ چھوڑ کر ایبٹ آباد سے الیکشن لڑیں تو ہار جائیں۔ چوہدری نثار بہاولپور کے ووٹروں کے لیے اجنبی ہیں اور ایم کیو ایم کوشش کے باوجود کراچی حیدر آباد سے شمال کی طرف سفر نہیں کر سکی۔

بالکل اسی طرح بعض اہل سیاست کے لیے اس پارٹی کو خیرباد کہنا ممکن نہیں ہوتا جس کے ساتھ انہوں نے ایک عمر گزاری ہو۔ ہمارے ہاں پارٹیاں تبدیل کرنا ایک عام سیاسی سرگرمی سمجھی جاتی ہے۔ سیماب صفت سیاست دان ان گنت بار ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں جانے کے لیے پگڈنڈیاں عبور کر چکے ہیں لیکن وہ رہنما جو خوددار ہیں، عزت نفس رکھتے ہیں اور اپنے حلقہ انتخاب میں باوقار رہنما بن کر زندہ رہنا چاہتے ہیں، گھوڑوں کی طرح بِکنا پسند نہیں کرتے۔ وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے۔ مومن خان مومن نے یہ مضمون عجیب لطیف پیرائے میں باندھا ہے

عمر ساری تو کٹی عشق بُتاں میں مومن

آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

یہ قصہ ہم نے بلا سبب نہیں چھیڑا۔ ایک عبرت ناک خبر پڑھی اور ان شرفا پر رحم آیا جو مجبور ہیں۔ یہ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ خادم اعلیٰ نے فیصل آباد کے طلبہ اور طالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے تھے۔ تقریب کے لیے ہزار اہتمام کیے گئے تھے۔ سٹیج، پھول، محافظ، استقبال کرنے والے اور نہ جانے کیا کیا۔ پہلے تو گھنٹوں انتظار کرایا گیا۔ غالباً پانچ گھنٹے! لیپ ٹاپ وصول کرنے کے شائق طلبا اور طالبات صبر سے بیٹھے رہے۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ خادم اعلیٰ نہیں تشریف لا رہے اور یہ کہ ان کی نمائندگی ان کے فرزند جناب حمزہ شہبازشریف کریں گے۔ جناب حمزہ تشریف لائے اور جو پروٹوکول خادم اعلیٰ کے لیے مختص تھا، ان کی نذر کیا گیا۔

اگر عقل گھاس چرنے نہ گئی ہو تو پوچھتی ہے کہ کیا پوری حکومت پنجاب میں اور پوری نون لیگ میں اور کوئی رجل رشید نہ تھا؟ اصولی طور پر اس تقریب کا تعلق نون لیگ سے نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ لیپ ٹاپ کسی سیاسی جماعت کے فنڈ سے نہیں بلکہ حکومت پنجاب کی طرف سے تقسیم کیے جا رہے تھے۔ جہاں تک ہماری ناقص معلومات کا تعلق ہے، جناب حمزہ شہباز کے پاس پنجاب حکومت کا کوئی عہدہ نہیں۔ قاعدے کی رو سے وزیراعلیٰ کی جگہ نائب وزیراعلیٰ یا سینئر وزیر یا متعلقہ شعبے کے وزیر کو جانا چاہئے تھا۔ اسی ہفتے بھارتی پنجاب سے دورے پر نائب وزیراعلیٰ آئے ہوئے تھے۔ وہاں کے وزیراعلیٰ مصروف ہوں گے۔ انہوں نے اپنی نمائندگی کے لیے اپنے صاحبزادے کو نہیں بھیجا۔ پاکستانی پنجاب کی ایک مجبوری بہرطور سمجھ میں آتی ہے۔ نائب وزیراعلیٰ تو دور کی بات ہے، یہاں وزیر ہی ناپید ہیں کیونکہ اٹھارہ، اور ایک اور روایت کے مطابق بیس وزارتوں کا بوجھ خادم اعلیٰ نے خود اپنے توانا کندھوں پر اٹھا رکھا ہے





آسمان بارِ امانت نتوانست کشید

قرعہ ء فال بنامِ منِ دیوانہ زدند

سیاست کی مجبوریاں دیکھیے کہ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق جیسے خوددار اور بے خوف رہنما، جن کی پوری پوری زندگیاں مسلم لیگ سے وابستگی میں گزر گئیں، آج حمزہ شہباز کی قیادت قبول کرنے پر تیار ہیں۔ خدا میاں نوازشریف اور شہبازشریف کو صحت اور سلامتی کے ساتھ طویل عمریں عطا کرے، آثار یہی بتاتے ہیں کہ قیادت خاندان ہی میں رہے گی! کچھ حضرات اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ آخر باقی سیاسی جماعتوں پر بھی تو خانوادوں ہی کی حکومت ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عذر گناہ بدتر از گناہ، مسلم لیگ نون والے تو اپنی جماعت کو قائداعظمؒ کی مسلم لیگ کا جانشین کہتے ہیں اور قائداعظمؒ نے اپنی زندگی میں کوئی ایسا تاثر نہیں دیا کہ ان کے بعد پارٹی کی قیادت ان کی بہن کے پاس یا ان کے خاندان میں رہے گی!

اصل مسئلہ یہ ہے کہ سارے دعوﺅں کے باوجود جب امتحان کا وقت آتا ہے۔ (اور اصل امتحان اولاد ہے) تو آدمی پھسل جاتا ہے۔ ایک مذہبی تنظیم کے مرحوم رہنما نے دعوے بہت کیے لیکن وقت آیا تو اپنے صاحبزادے کو جانشین بنا گئے۔ ایک اور نے اپنی دختر نیک اختر کو عوامی نمائندگی کی نشست پر بٹھا دیا۔ شہبازشریف بھی بات تو خونی انقلاب کی اور عوام کی کرتے ہیں لیکن ان کے صاحبزادے عملی طور پر شہزادے ہیں اور پارٹی ہے یا صوبائی حکومت، شہزادے کے سامنے سب دست بستہ ہیں۔

ہمارے ہاں جمہوریت اصل میں بادشاہی ہے۔ اس کی ایک اور مثال ایک حالیہ واقعہ ہے جو ”دنیا نیوز“ کے ایک کیمرہ مین کے ساتھ پیش آیا۔ میاں شہبازشریف بہاولپور کے نواحی علاقے میں ٹریفک حادثے میں جاںبحق ہونے والوں کی تعزیت کے لیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے وہاں دعائے مغفرت کی۔ لوٹنے لگے تو ایک شخص نے کہا کہ ہم صبح آٹھ بجے سے ایک بند کمرے میں بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں اور ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپ متاثرہ خاندانوں میں امدادی چیک تقسیم کریں گے مگر آپ تو واپس جا رہے ہیں۔ اس پر وزیراعلیٰ ضلعی اہلکاروں پر برس پڑے۔ انہوں نے حکام سے کہا کہ کہاں ہے تمہاری کوآرڈی نیشن اور چیک دینے تھے تو کہاں ہیں؟ کس نے چیک لانے تھے اور کس نے کہا تھا؟ دنیا نیوز کے کیمرہ مین کا قصور یہ تھا کہ وہ اس سارے منظر کو کیمرے میں محفوظ کر رہا تھا۔ اس پر وزیراعلیٰ نے ڈی سی او سے پوچھا کہ یہاں سرکاری میڈیا کے علاوہ دوسرے افراد کیوں ہیں؟ پھر انہوں نے حکم دیا کہ دنیا نیوز کے کیمرہ مین سے ڈیوائس لے لیجئے جس پر ڈی سی او بہاولپور نے دنیا نیوز کے کیمرہ مین کے کیمرے سے فلم نکال لی!

”بادشاہی“ کا ایک اور واقعہ جو دو تین ماہ پہلے پنجاب ہی میں پیش آیا، افسوس ناک ہے اور عبرت ناک بھی۔ سول سروس کے ایک نوجوان پولیس افسر سید شہزاد ندیم بخاری نے ایک عوامی نمائندے کی کالے شیشوں والی گاڑی، قانون پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بند کر دی۔ نوجوان افسر کا کہنا تھا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور یہ کہ وہ قانون پر بلاتخصیص عمل درآمد کرائے گا۔ ہاں کوئی استثنیٰ چاہتا ہے تو قانون میں ترمیم کرالے۔ پنجاب کے بادشاہ پر یہ گستاخی بار خاطر گزری۔ قانون پسند نوجوان افسر کو پہلے لاہور اور پھر پنجاب کے دور افتادہ آخری سرکل جنڈ ضلع اٹک میں تعینات کر دیا گیا!

حبیب جالب کی انقلابی شاعری جلسوں میں گا کر حاضرین کا خون گرمانا اور بات ہے لیکن دعوﺅں اور وعدوں کی پاسداری کردار کی مضبوطی مانگتی ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا

تیرے وعدے، میرے دعوے

ہو گئے باری باری مٹی!!

صوبے کے ایک غریب گاﺅں کی ڈسپنسری کے بیس لاکھ روپے روک لینا۔ بادشاہی اور شہنشاہی نہیں تو اور کیا ہے!

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

ہوس سینوں میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں

Facebook.com/izharulhaq.net

Saturday, November 10, 2012

اگر رومنی میں عقل ہوتی

مٹ رومنی میں عقل ہوتی تو اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ میں نے اسے پورا پلان بنا کر دیا تھا اور ایک ڈالر لیے بغیر فی سبیل اللہ یہ کام کیا تھا۔ افسوس! اس نے میری محنت پر پانی پھیر دیا۔

اس نے پہلی غلطی یہ کی کہ جن جن علاقوں میں اس کی مقبولیت کم تھی وہاں اس نے الیکشن کے دن توجہ نہیں دی۔ اسے چاہئے تھا کہ پولنگ سٹیشنوں کے باہر مسلح جتھے بٹھاتا اور ووٹروں کو گاڑیوں میں بھر بھر کر لاتا۔ یہ ووٹر کسی بھی ریاست سے لائے جا سکتے تھے۔ ضروری نہیں تھا کہ ان کے پاس اصلی شناختی کارڈ ہی ہوتے۔ مسلح حمایتی پولنگ سٹیشنوں کے اندر داخل ہو کر ہوائی فائرنگ کرتے اور دوسر وں کو عبرت دلانے کے لیے ایک آدھ بندہ پھڑکا بھی دیتے۔ یوں کسی کو جرات نہ ہوتی کہ ووٹ رومنی کو نہ ڈالے۔

اس کے بعد رومنی نے غلطی پر غلطی کی۔ اگر وہ ہار گیا تھا تو اسے اپنی شکست تسلیم نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اس نے اوباما کو فاتح مان کر اپنے پاﺅں پر خود کلہاڑی ماری۔ وہ ری پبلکن پارٹی کا خفیہ اجلاس بلاتا اور وہاں پوری منصوبہ بندی کرتا۔ اس کے بعد وہ ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں دھاندلی کا الزام لگاتا۔ یہ دھاندلی کا الزام اس لیے درست لگتا کہ حکومت تو اس کے مخالف اوباما کی تھی۔ وہ الزام لگاتا کہ پوری سرکاری مشینری اوباما کے لیے کام کر رہی تھی۔ سرکاری گاڑیاں، سرکاری جہاز اور سرکاری فنڈ۔ سب اسے شکست دینے کے لیے استعمال کئے گئے۔ وہ مطالبہ کرتا کہ الیکشن کے نتائج کالعدم قرار دیئے جائیں اور از سر نو انتخابات کرائے جائیں۔ وہ یہ تجویز بھی پیش کرتا کہ نئے الیکشن فوج یا عدلیہ کی نگرانی میں منعقد ہوں۔

ظاہر ہے ڈیموکریٹک پارٹی اس کے الزامات رد کر دیتی اور اوباما اصرار کرتا کہ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ یہاں رومنی یہ نکتہ پیش کرتا کہ الیکشن سے چند دن پہلے سینڈی کا تباہ کن طوفان آیا تھا اور یہ کہ اس کے پاس اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ جو لوگ طوفان کی وجہ سے نقل مکانی کر گئے تھے ان کے جعلی ووٹ بھگتائے گئے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اوباما کے جیتنے کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا۔

اس کے بعد کا کام آسان تھا۔ پورے امریکہ میں مظاہرے کرانے تھے۔ پیشہ ور مظاہرین میں فنڈ تقسیم کرنے تھے۔ بسوں میں لوگوں کو بھر بھر کر لانا تھا۔ دیہات اور قصبوں میں جو فارغ لوگ دن بھر بسوں کے اڈوں پر بیٹھے رہتے ہیں یا کھیل تماشوں میں لگے رہتے ہیں انہیں شہر کی مفت سیر کا لالچ دینا تھا۔ انہیں مفت کھانا کھلایا جانا تھا پھر ان میں رومنی کی بڑی بڑی تصویریں تقسیم کرنا تھیں۔ یوں بڑے بڑے شہروں میں مظاہرے ہوتے اور ٹریفک روک دی جاتی۔ ان مظاہروں میں کچھ لوگ مسلح ہوتے۔ پہلے بسیں کاریں اور عمارتیں جلائی جاتیں۔ لوٹ مار کی جاتی پھر فائرنگ ہوتی اور کچھ لوگوں کو ہلاک کر دیا جاتا۔ اس کے بعد۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ یہ آگ پورے امریکہ میں پھیل جاتی۔ تعلیمی ادارے بند ہو جاتے۔ جو بند نہ ہوتے ان پر حملہ کرکے زبردستی بند کرا دیئے جاتے۔ دفتروں میں حاضری خال خال رہ جاتی۔ ایک یا دو نجی اداروں پر گرنیڈ پھینکے جاتے۔ باقی خود بخود بند ہو جاتے۔ کارخانے ٹھپ ہو جاتے۔ دکاندار شٹر ڈاﺅن ہڑتال کرتے۔ عوام کو اشیائے خوردونوش ملنا بند ہو جاتیں۔ یوں لوگوں کے جذبات حکومت وقت کے خلاف ہو جاتے۔

اگلا مرحلہ حلف اٹھانے کی تقریب کو کینسل کرانے کا ہوتا۔ اگر ان سارے ہنگاموں کے باوجود امریکی حکومت اصرار کرتی کہ نومنتخب صدر اگلے چار سال کے لیے صدارت کا حلف اٹھائے گا تو رومنی لانگ مارچ کا اعلان کر دیتا۔ یہ لانگ مارچ ملک کے مختلف حصوں سے شروع ہوتا اور واشنگٹن ڈی سی پہنچ کر ختم ہوتا۔ چاروں کونوں سے یلغار ہوتی۔ ایک گروہ لاس اینجلز سے چلتا۔ دوسرا سیاٹل سے، تیسرا فلوریڈا سے اور چوتھا امریکہ کی اس شمال مشرقی سرحد سے جو کینیڈا سے ملتی ہے۔ یہ لانگ مارچ ٹرینوں، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے ذریعے پیش قدمی کرتا۔ جوں جوں لانگ مارچ میں شامل مظاہرین دارالحکومت کی طرف بڑھتے، عوام کی سراسیمگی میں اضافہ ہوتا۔ لوگ واشنگٹن ڈی سی میں اپنے گھروں کو مقفل کرتے اور دوسری ریاستوں میں پناہ لینے چل پڑتے۔

اس موقع پر رومنی کو رات کے اندھیرے میں بری فوج کے ہیڈ کوارٹر میں جا کر آرمی چیف کو ملنا تھا۔ ایسی ملاقاتیں دو یا تین ہوتیں۔ لانگ مارچ جاری رہتا۔ جب مظاہرین واشنگٹن کی حدود کے باہر آ کر جمع ہو جاتے اور شہر محصور ہو جاتا تو فوج کی کچھ جیپیں وائٹ ہاﺅس میں داخل ہوتیں۔ اوباما کے سامنے ایک کاغذ رکھا جاتا۔ اسے کہا جاتا کہ اس پر دستخط کر دے۔ وہ اگر ہچکچاہٹ سے کام لیتا تو اسے مجبور کیا جاتا۔ یوں صدارت سے اس کی چھٹی ہو جاتی۔ ٹیلی ویژن پر آ کر آرمی چیف قوم سے خطاب کرتا۔ یہ خطاب ”میرے ہم وطنو“ سے آغاز ہوتا۔ وہ تفصیل سے بتاتا کہ کس طرح سیاست دانوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا تھا۔ وہ کتنے بدعنوان تھے۔ الیکشن میں کس کس طرح دھاندلی ہوئی اور یہ کہ حب الوطنی کا تقاضا تھا کہ فوج عوام کی مدد کو پہنچتی اور اپنا فرض ادا کرتی۔ آرمی چیف خدا کو حاضر ناظر جان کر بائبل پر ہاتھ رکھ کر قوم سے وعدہ کرتا کہ وہ نوے دن کے اندر اندر نئے انتخابات کرائے گا اور یہ کہ نئے انتخابات مکمل طور پر صاف اور شفاف ہوں گے۔

ابھی رومنی کا کام ختم نہ ہوتا۔ اب وہ ایک نئی تحریک چلاتا۔ یہ تحریک فوجی آمریت کے خلاف ہوتی۔ ظاہر ہے نوے دن کے بعد کس نے انتخابات کرانے تھے اور کون سے انتخابات کرانے تھے! آرمی چیف کے منہ کو سول اقتدار کے خون کا مزا لگ چکا ہوتا اور وہ آئے دن اقتدار کو طول دینے کے بہانے پیش کرتا۔ رومنی جمہوریت کا چمپئن بن کر سامنے آتا۔ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک بار پھر مظاہرے شروع کرائے جاتے۔ ہڑتالیں ہوتیں۔ بسیں کاریں اور املاک کو نذر آتش کیا جاتا۔ حکومت کچھ علاقوں کو ”ریڈ زون“ قرار دیتی۔ مظاہرین ان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے۔ گولی چلتی اور یوں تحریک زور پکڑتی۔

بالآخر فوجی حکومت گھٹنے ٹیک دیتی۔ مارشل لاءایڈمنسٹریٹر قوم سے ایک بار پھر خطاب کرتا اور رومنی کو عبوری حکومت کا سربراہ بنانے کا اعلان کرتا۔ یہ عبوری حکومت آٹھ سال کے عرصہ پر محیط ہوتی۔ یوں رومنی قصر صدارت میں داخل ہو جاتا اور اپنا ہدف حاصل کر لیتا۔

لیکن رومنی نے میرے پیش کردہ منصوبے پر عمل نہ کرکے اپنے پاﺅں پر خود ہی کلہاڑی ماری اور اپنی شکست کو تسلیم کر لیا!

Facebook.com/izharulhaq.net

Friday, November 09, 2012

آوے کا آوا

مسافر کاﺅنٹر کے سامنے قطار باندھے کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں پاسپورٹ اور ٹکٹ تھے۔ ہر مسافر اپنی باری پر کاﺅنٹر والے کے پاس پہنچتا اور بورڈنگ کارڈ لیتا پھر سب نے دیکھا کہ ایک آدمی ہال میں داخل ہوا۔ وہ قطار میں کھڑا ہونے کے بجائے سیدھا کاﺅنٹر پر گیا۔ کاﺅنٹر والے نے اس شخص سے جو قطار میں تھا اور جس کی باری تھی، اپنی توجہ ہٹالی اور اس کا کام کرنے لگ گیا جو اب آیا تھا۔ اس شخص کا کام شاید پیچیدہ تھا۔ بہت دیر لگ گئی۔ قطار میں کھڑے شخص نے جو عربی روانی سے بول سکتا تھا، کاﺅنٹر والے سے احتجاج کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ قطار میں کھڑے افراد کا حق مقدم ہے اور نئے آنے والے شخص کو قطار میں کھڑا ہونا چاہئے۔ نئے آنے والے شخص کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے حقارت سے کہا.... ”اس لیے کہ میں یہاں کا ہوں اور تم غیر ملکی ہو۔“ قطار میں کھڑے ہونے والے نے ترکی بہ ترکی جواب دیا.... ”تو تم کیا آسمان سے اترے ہو؟ یا فرشتے ہو....؟“ ”مقامی“ شخص نے قطار میں کھڑے شخص کے ہاتھ سے اس کا پاسپورٹ لے لیا اور کہا ”میں دیکھتا ہوں تم کس طرح جہاز پر سوار ہوتے ہو!“۔ تب کاﺅنٹر والوں نے اس کی منت سماجت کی کہ حضور! درگزر کر دیجئے، یہ حاجی ہے۔“ کافی رد و قدح کے بعد ”مقامی“ شخص نے مسافر کا پاسپورٹ واپس کیا۔
 یہ سو فیصد سچا واقعہ پانچ نومبر کو صبح صادق کے وقت پیش آیا۔ ہم اس مقدس ملک کا نام نہیں لکھ رہے جہاں یہ پیش آیا بس تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیے اور دو جمع دو کا حساب خود کر لیجئے۔
یہ واقعہ اس لیے لکھنے کو دل چاہا کہ بحرِ اوقیانوس کے اس پار سینڈی طوفان آیا تو کچھ دانشوروں نے امریکی انتخابات کے التوا کا مژدہ سنایا لیکن انتخابات مقررہ وقت پر ہوئے اور ہارنے والے امیدوار نے دھاندلی کا الزام لگانے کے بجائے اپنی شکست خوشدلی سے تسلیم کر لی۔

دونوں واقعات کا بظاہر آپس میں کوئی منطقی تعلق نہیں لیکن غور کیا جائے تو بہت گہرا تعلق ہے۔ ہمارے لیے ان میں عبرت کے کئی سامان ہیں۔ ہاں، اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے اصرار کریں کہ ہم برتر ہیں اور دوسرے مغضوب اور مقہور ہیں تو اس کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں! ایک طرف حج کا مقدس موقع اور مقدس مقام ہے جہاں لاکھوں لوگ سفید چادریں اوڑھے اللہ کے آخری رسول کا یہ فرمان یہ رولنگ سنتے ہیں کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر فوقیت نہیں دی جا سکتی اور برتری کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے لیکن عملی طور پر ہر پاکستانی گواہ ہے کہ عربی کو غیر عربی پر اور مقامی کو غیر ملکی پر بالخصوص پاکستانی پر فوقیت دی جاتی ہے۔ سڑک پر دو گاڑیوں کے ٹکرانے سے حادثہ پیش آئے تو مقامی ڈرائیور بے شک اس کی غلطی ہو، صاف چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کماتا پاکستانی ہے اس کی کمائی پر عیش ”کفیل“ کرتا ہے۔ پوری زندگی وہاں گزار دینے کے باوجود اسے شہریت نہیں دی جاتی۔ دکان ہے یا کاروبار یا ٹیکسی، کچھ بھی اس کے اپنے نام پر نہیں! یہ رویہ پتھر کے زمانے کا ہے اور جن اقوام کے رویے ایسے ہوں وہ دنیا میں ڈالر تو کما سکتی ہیں، ترقی نہیں کر سکتیں نہ مہذب کہلانے کا حق رکھتی ہیں۔

دوسری طرف بحرِ اوقیانوس کے اس پار، وہ قوم، جس کے آگے ہم گڑگڑا رہے ہیں کہ ڈرون ٹیکنالوجی ہمیں پلیٹ میں رکھ کر خیرات کر دے، آج کرہ ¿ ارض کی طاقتور ترین حکمران ہے اس لیے کہ وہاں افراد نہیں، ادارے اہم ہیں۔ ہلاکت خیز طوفان کے باوجود انتخابات مقررہ وقت پر ہوئے۔ انتخابات تو بہت بڑی بات ہے، وہاں کی یونیورسٹیوں میں داخلوں کی تاریخ اور امتحان کے دن کئی کئی سو سال سے مقرر کردہ چلے آ رہے ہیں اور ان میں تقدیم ہوتی ہے نہ تاخیر۔ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں اور طے شدہ طریق کار کے مطابق کام کر رہے ہیں کوئی وزیر کوئی امیر کوئی اسمبلی کا رکن یہاں تک کہ ملک کا صدر بھی یہ طریق کار، یہ تاریخ، یہ دن، تبدیل نہیں کر سکتا!

ہم کہاں کھڑے ہیں اور وہ کہاں کھڑے ہیں، اس کی ایک اور مثال دیکھئے۔ چند ماہ پہلے کا واقعہ ہے۔ دو پروفیسر ایک گاڑی میں امریکی ریاست ایلاباما سے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی طرف سفر شروع کرتے ہیں۔ انہیں واشنگٹن پہنچنے کے لیے جارجیا، شمالی کیرولینا اور پھر ورجینیا سے گزرنا ہے۔ پروفیسر وقار امریکہ ہی میں رہتے ہیں۔ دوسرے پروفیسر، نصیر صاحب، پاکستان سے تشریف لائے ہیں۔ شمالی کیرولینا کی ریاست میں ایک جگہ پولیس انہیں روکتی ہے اور رفتار زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کا چالان کرتی ہے۔ چالان کا ٹکٹ وصول کرنے کے بعد یہ گاڑی سٹارٹ کرتے ہیں۔ پروفیسر نصیر اس موقع پر ڈبے سے ایک ٹشو پیپر نکالتے ہیں، ناک صاف کرکے گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہیں اور استعمال شدہ ٹشو پیپر گاڑی سے باہر پھینک دیتے ہیں۔ پولیس کی کار، جو ابھی وہیں موجود ہے، دوبارہ سرخ بتی روشن کرکے پروفیسروں کی گاڑی روک لیتی ہے۔ پروفیسر وقار جو گاڑی چلا رہے ہیں، نیچے اتر کر حیرت سے پوچھتے ہیں کہ چالان تو ہمارا ہو چکا، اب پھر کیوں روکا جا رہا ہے؟ پولیس بتاتی ہے کہ آپ کی گاڑی سے ٹشو پیپر باہر پھینکا گیا ہے۔ یہ ہائی وے ہے اور شمالی کیرولینا کی ریاست میں ہائی وے پر یا اس کے دونوں کناروں پر کوڑا کرکٹ پھینکنے کی سزا چار سو ڈالر کا جرمانہ ہے۔ یہ آپ کو ادا کرنا پڑے گا۔ اس سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ آپ یہ کوڑا واپس اٹھائیں اور اپنی گاڑی میں رکھیں۔ پروفیسر نصیر شرمندہ ہوتے ہیں۔ اب وہ ٹشو پیپر ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ مل نہیں رہا۔ پولیس والا ڈھونڈنے میں مدد کرتا ہے۔ نصیر صاحب استعمال شدہ ٹشو پیپر اٹھا کر گاڑی میں ڈالتے ہیں اور سفر دوبارہ شروع ہوتا ہے!

آپ امریکہ، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا، جاپان اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں سفر کرکے دیکھ لیجئے، شاہراہیں ہر وقت دھلی ہوئی لگتی ہیں اور ان کے کناروں پر، دونوں طرف، کوئی گندگی، کوئی غلاظت اور کوئی کوڑا کرکٹ نہیں دکھائی دیتا۔ شاہراہیں صاف رکھنے کا اصول انہوں نے کہاں سے لیا ہے؟ ”ابو داﺅد کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ تین چیزوں سے بچو کہ ان کا کرنا لعنت ہے۔ پانی کے چشموں کے پاس اور شاہراہوں کے پاس اور سایہ دار درختوں کے پاس گندگی اور کوڑا کرکٹ پھینکنا۔“بنو امیہ کے دور حکومت میں اس حدیث کی بنیاد پر ماہرین قانون (فقہا) نے شاہراہوں پر یا شاہراہوں کے اردگرد گندگی پھیلانے والوں کے لیے باقاعدہ سزائیں مقرر کی تھیں۔

یہ دہائی دینا کہ ہم اپنی برائی کیوں کرتے ہیں، شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے والی بات ہے۔ آج ہماری گلیاں ہماری شاہراہیں ہمارے قصبے اور ہمارے شہر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔ ہماری سبزی منڈیاں، ہمارے غسل خانے یہاں تک کہ ہماری مسجدیں بھی صاف نہیں ہیں۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلوں کی تاریخ سے لے کر امتحان کی تاریخ تک کچھ بھی یقینی نہیں ہے۔ انتخابات کب ہوں گے؟ ہوں گے بھی یا نہیں؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں! عربی کو عجمی پر برتری حاصل ہے۔

غرض عیب کیجئے بیاں اپنے کیا کیا

کہ بگڑا ہوا یاں ہے آوے کا آوا

فقیہہ اور جاہل، ضعیف اور توانا

تاسف کے قابل ہے احوال سب کا

مریض ایسے مایوس دنیا میں کم ہیں

بگڑ کر کبھی جو نہ سنبھلیں وہ ہم ہیں

Facebook.com/izharulhaq.net

Thursday, November 08, 2012

تُرکوں اور تاتاریوں کو اکٹھا کرنے سے پہلے

صورت حال دلچسپ ہے۔ قاضی حسین احمد نے ایک روزنامے میں مضمون لکھا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ان کی ”ملی یکجہتی کونسل“ گیارہ نومبر کو اسلام آباد میں علما اور مشائخ کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کر رہی ہے۔ اس میں بڑی بڑی درگاہوں کے سجادہ نشین اور ان کے متعلقین شرکت کریں گے۔ قاضی صاحب کے بقول اس کنونشن کا مقصد یہ ہے کہ.... ”امت مسلمہ کے چہرے سے فرقہ بندی اور تعصبات کے داغ صاف کرکے امت کا ایک متحدہ صاف و شفاف چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔“ اس کنونشن میں سعودی عرب، ایران، ترکی، مصر، افغانستان، تیونس، مراکش، ملائیشیا، انڈونیشیا، تاجکستان، فلسطین، کویت، اردن، لبنان، قطر، بوسنیا، سوڈان، نیپال، ہندوستان، بنگلہ دیش، شام اور برطانیہ سے ممتاز اسلامی شخصیات کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ جس روز قاضی صاحب کا یہ مضمون شائع ہوا ہے، ٹھیک اسی روز یعنی 6نومبر کو جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اتحاد کے خواہاں ہیں جبکہ سید منور حسن ”وحدت کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں“!

”ملی یک جہتی کونسل“ کا احیا چند ماہ پیشتر ہوا۔ قاضی حسین احمد اس کے صدر اور جے یو آئی فضل الرحمن گروپ کے حافظ حسین احمد سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ قاضی صاحب جماعت اسلامی کی بائیس سالہ سربراہی سے سبکدوشی کے بعد اب بھی اتنے ہی سرگرم ہیں جتنے پہلے تھے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت کا فورم ان کی دسترس میں تھا‘ اب وہ کسی فورم کی تلاش میں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک تھنک ٹینک کا ڈول بھی ڈالا جس کے ایک اجلاس میں کچھ ریٹائرڈ جرنیل اور متنوع نظریات رکھنے والے کچھ اصحاب شامل ہوئے لیکن غالباً وہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ گویا قاضی صاحب کا حال بقول غالب یہ ہے

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

اگست میں ملی یکجہتی کونسل کا ایک اجلاس جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ میں بھی منعقد ہوا۔ اس میں اخباری اطلاعات کے مطابق جماعت کے موجودہ امیر سید منور حسن کو بطور خاص مدعو کیا گیا؛ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ کونسل میں امیر جماعت کی کیا حیثیت ہوگی اور قاضی صاحب کونسل کی سرگرمیاں جماعت کی طرف سے جاری رکھے ہوئے ہیں یا اپنی نجی حیثیت میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ اس میں ابہام ہے۔ اگر کونسل کا اجلاس منصورہ میں منعقد ہوا ہے تو پھر یہ سرگرمی جماعت کے کھاتے میں پڑتی ہے اور اس کا انچارج امیر جماعت کو ہونا چاہئے اور اگر قاضی صاحب یہ نیک کام اپنی نجی حیثیت سے کر رہے ہیں تو جماعت کا اس سے تعلق سمجھ نہیں آتا۔ اس سے بھی زیادہ پیچیدہ صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو سابق امیر جماعت اور فضل الرحمن گروپ کے حافظ حسین احمد ملی یکجہتی کونسل میں شانہ بہ شانہ کام کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے کا جو احیا کیا ہے اس میں جماعت کو شامل نہیں کیا اور مولانا اور سید منور حسن باہم مخالفانہ بیانات زور و شور سے دے رہے ہیں گویا ع

پا بدستِ دگری، دست بدستِ دگری

مولانا فضل الرحمن نے یہاں تک کہا ہے کہ جماعت کو شامل کیا تو ایسے ہی ہوگا جیسے الکحل کو شامل کر لیا جائے۔ سمیع الحق گروپ نے خود ہی نئی ایم ایم اے میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ دوسری طرف جماعت کے رہنما مسلسل یہ الزام لگا رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کا رویہ اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس سارے پس منظر میں قاضی صاحب کا دنیا بھر کے ملکوں سے مسلمان رہنماﺅں کو بلا کر اتحاد امت کا پیغام دینا بہت عجیب لگتا ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں علامہ اقبالؒ کی فارسی شاعری سے متعدد اشعار پیش کیے ہیں۔ انہوں نے یقینا سعدی کو بھی پڑھا ہوگا اور اس کا یہ شعر ان کی نظروں سے ضرور گزرا ہوگا

تو کارِ زمین را نکو ساختی؟

کہ باآسمان نیز پرداختی!

کیا زمین کے معاملات نمٹ گئے ہیں کہ آسمان کا رخ کیا جا رہا ہے؟ ان کی آنکھوں کے سامنے نئی ایم ایم اے اور جماعت اسلامی دست و گریباں ہیں۔ مولانا ابو الخیر صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سید منور حسن اتحاد کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ یہ ایک سنگین الزام ہے۔ کیا عالم گیر کنونشن منعقد کرنے سے کہیں زیادہ ضروری کام یہ نہیں کہ قاضی صاحب اپنی کوششیں اور اپنے وسائل اپنے ملک کی مذہبی جماعتوں کے اختلافات ختم کرنے پر صرف کریں اور سب کو ایک چھت کے نیچے بٹھائیں؟ ملک کے اندر مذہبی قوتوں کے ”اتحاد“ کا یہ عالم ہے کہ جہاں بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ حضرات کے مدارس الگ الگ ہیں اور ان مدارس کے بورڈ الگ الگ ہیں‘ وہاں جماعت اسلامی کے مدارس اور بورڈ بھی الگ ہیں گویا جماعت بھی ایک الگ فرقہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جماعت کے وابستگان اپنے مدارس الگ قائم کرنے کے بجائے بریلوی یا دیوبندی یا اہل حدیث یا شیعہ مدارس سے استفادہ کر لیتے! اس ضمن میں بھی یہ منتشر قوم قاضی صاحب کی غیر معمولی صلاحیتوں کو آواز دے رہی ہے کہ

گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ براندازِ چمن! کچھ تو اِدھر بھی

ہمیں نہیں معلوم کنونشن پر اٹھنے والے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے لیکن اگر اسے گستاخی پر محمول نہ کیا جائے تو عرض کریں کہ محترم قاضی صاحب کے جتنے ملفوظات پرنٹ میڈیا میں مضامین کے طور پر شائع ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ملک کو درپیش مسائل کے متعلق نہیں ہے۔ وہ زیادہ تر اپنی ان خدمات کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے افغان جہاد کے سلسلے میں سرانجام دیں۔ کبھی وہ ان غیر ملکی جنگ جوﺅں کا ذکر کرتے ہیں جو بھیس بدل بدل کر ان کے پاس آتے رہے اور کبھی وہ ترکی، مصر اور دوسرے اسلامی ملکوں کے زعما سے اپنے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ عرب ممالک میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کو بھی انہوں نے موضوع بنایا ہے تاہم پاکستان کو گھن کی طرح کھا جانے والے صدیوں پرانے جاگیردارانہ اور سرداری نظام کے بارے میں وہ کیا خیالات رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک زرعی اصلاحات کی کیا صورت ہونی چاہئے، ان کی تحریروں کے شائقین اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اسی طرح ہمارا تعلیمی نظام طبقاتی تقسیم پر مشتمل ہے اور بیک وقت چار پانچ تعلیمی نظام چل رہے ہیں۔ اس کے متعلق بھی ان کے خیالات ان کی تحریروں میں کبھی نظر نہیں آتے۔ یوں لگتا ہے کہ ان کی ساری دلچسپیاں سرحدوں سے باہر مرکوز ہیں۔ اسی لیے وہ اس انتشار اور تفرقہ بازی پر کوئی توجہ نہیں دے رہے جس کا شکار ملک کے اندر کام کرنے والی مذہبی تنظیمیں ہیں۔

مذہبی گروہوں کی محاذ آرائی نے ایک خطرناک موڑ اس وقت لیا جب مزاروں پر، بالخصوص لاہور میں سید علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخش کے مزار پر، ہلاکت خیز دھماکے ہوئے۔ ایک گروہ دہشت گردوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے۔ دوسرا گروہ ان کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کے مطالبے کر رہا ہے۔ یہ محاذ آرائی دن بدن زیادہ زور پکڑ رہی ہے پھر ایک ہی مکتب فکر کے اندر تین گروہ (فضل الرحمن گروپ، سمیع الحق گروپ اور جماعت اسلامی) ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونکے کھڑے ہیں۔ تفرقہ بازی کا یہ عالم ہے کہ دستاروں کے رنگ تک الگ الگ ہو گئے ہیں۔ ایک دوسرے کی مسجد میں نماز پڑھنے کا تو خیر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ درست ہے کہ ع’نہ افغانیم و نی تُرک و تتاریم‘ لیکن قاضی صاحب کی خدمت میں مودبانہ گزارش ہے کہ ترکوں اور تاتاریوں کو اکٹھا کرنے سے پہلے اپنے سیکرٹری جنرل حافظ حسین احمد کے قائد مولانا فضل الرحمن اور اپنی جماعت کے امیر سید منور حسن کو تو ایک فورم پر اکٹھا کر دیں

شہرت سنی ہے علمِ ریاضی میں آپ کی

طولِ شبِ فراق ذرا ماپ دیجیے

Facebook.com/izharulhaq.net

 

powered by worldwanders.com