Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, November 13, 2012

شہنشاہی

ہمارے صنعت کار ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ کئی کروڑ روپے کا سرمایہ صرف کراچی سے ملائیشیا منتقل ہوا ہے۔ ملائیشیا نے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ایک خصوصی سکیم شروع کی ہے جس کا نام ”ملائیشیا مائی سیکنڈ ہوم“ ہے۔ اگر مطلوبہ مقدار میں سرمایہ منتقل کیا جائے تو دس سال کے لیے شہریت دے دی جاتی ہے۔ سینکڑوں سرمایہ کار کینیڈا چلے گئے ہیں اور ہزاروں قطار میں کھڑے ہیں۔ یہی حال ڈاکٹروں، پروفیسروں، انجینئروں اور چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹس کا ہے۔ ان پیشوں سے تعلق رکھنے والے اس لیے بھی جا سکتے ہیں کہ یہی کام جو وہ اپنے ملک میں کر رہے تھے، بیرون ملک بھی جا کر جاری رکھ سکتے ہیں۔

لیکن ایک شعبہ ایسا ہے کہ اس سے وابستہ لوگ بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ اگر چلے جائیں تو وہاں اپنے شعبے سے منسلک نہیں رہ سکتے۔ یہ ان حضرات کی مجبوری ہے۔ یہ شعبہ سیاست کا ہے۔ سیاست دان بیرون ملک ہجرت کرے تو وہاں جا کر سیاست نہیں کر سکتا۔ سیاست کا تعلق عوام سے ہوتا ہے اور عوام کا تعلق علاقے سے ہوتا ہے۔ حلقہ انتخاب اپنے ملک میں بھی تبدیل کرنا ایک خطرناک کام ہے۔ یہ ایک درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگانے والا معاملہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن ڈیرہ اسماعیل خان سے باہر سیاست نہیں کر سکتے۔ اسفند یار ولی آبائی حلقہ چھوڑ کر ایبٹ آباد سے الیکشن لڑیں تو ہار جائیں۔ چوہدری نثار بہاولپور کے ووٹروں کے لیے اجنبی ہیں اور ایم کیو ایم کوشش کے باوجود کراچی حیدر آباد سے شمال کی طرف سفر نہیں کر سکی۔

بالکل اسی طرح بعض اہل سیاست کے لیے اس پارٹی کو خیرباد کہنا ممکن نہیں ہوتا جس کے ساتھ انہوں نے ایک عمر گزاری ہو۔ ہمارے ہاں پارٹیاں تبدیل کرنا ایک عام سیاسی سرگرمی سمجھی جاتی ہے۔ سیماب صفت سیاست دان ان گنت بار ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں جانے کے لیے پگڈنڈیاں عبور کر چکے ہیں لیکن وہ رہنما جو خوددار ہیں، عزت نفس رکھتے ہیں اور اپنے حلقہ انتخاب میں باوقار رہنما بن کر زندہ رہنا چاہتے ہیں، گھوڑوں کی طرح بِکنا پسند نہیں کرتے۔ وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے۔ مومن خان مومن نے یہ مضمون عجیب لطیف پیرائے میں باندھا ہے

عمر ساری تو کٹی عشق بُتاں میں مومن

آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

یہ قصہ ہم نے بلا سبب نہیں چھیڑا۔ ایک عبرت ناک خبر پڑھی اور ان شرفا پر رحم آیا جو مجبور ہیں۔ یہ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ خادم اعلیٰ نے فیصل آباد کے طلبہ اور طالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے تھے۔ تقریب کے لیے ہزار اہتمام کیے گئے تھے۔ سٹیج، پھول، محافظ، استقبال کرنے والے اور نہ جانے کیا کیا۔ پہلے تو گھنٹوں انتظار کرایا گیا۔ غالباً پانچ گھنٹے! لیپ ٹاپ وصول کرنے کے شائق طلبا اور طالبات صبر سے بیٹھے رہے۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ خادم اعلیٰ نہیں تشریف لا رہے اور یہ کہ ان کی نمائندگی ان کے فرزند جناب حمزہ شہبازشریف کریں گے۔ جناب حمزہ تشریف لائے اور جو پروٹوکول خادم اعلیٰ کے لیے مختص تھا، ان کی نذر کیا گیا۔

اگر عقل گھاس چرنے نہ گئی ہو تو پوچھتی ہے کہ کیا پوری حکومت پنجاب میں اور پوری نون لیگ میں اور کوئی رجل رشید نہ تھا؟ اصولی طور پر اس تقریب کا تعلق نون لیگ سے نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ لیپ ٹاپ کسی سیاسی جماعت کے فنڈ سے نہیں بلکہ حکومت پنجاب کی طرف سے تقسیم کیے جا رہے تھے۔ جہاں تک ہماری ناقص معلومات کا تعلق ہے، جناب حمزہ شہباز کے پاس پنجاب حکومت کا کوئی عہدہ نہیں۔ قاعدے کی رو سے وزیراعلیٰ کی جگہ نائب وزیراعلیٰ یا سینئر وزیر یا متعلقہ شعبے کے وزیر کو جانا چاہئے تھا۔ اسی ہفتے بھارتی پنجاب سے دورے پر نائب وزیراعلیٰ آئے ہوئے تھے۔ وہاں کے وزیراعلیٰ مصروف ہوں گے۔ انہوں نے اپنی نمائندگی کے لیے اپنے صاحبزادے کو نہیں بھیجا۔ پاکستانی پنجاب کی ایک مجبوری بہرطور سمجھ میں آتی ہے۔ نائب وزیراعلیٰ تو دور کی بات ہے، یہاں وزیر ہی ناپید ہیں کیونکہ اٹھارہ، اور ایک اور روایت کے مطابق بیس وزارتوں کا بوجھ خادم اعلیٰ نے خود اپنے توانا کندھوں پر اٹھا رکھا ہے





آسمان بارِ امانت نتوانست کشید

قرعہ ء فال بنامِ منِ دیوانہ زدند

سیاست کی مجبوریاں دیکھیے کہ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق جیسے خوددار اور بے خوف رہنما، جن کی پوری پوری زندگیاں مسلم لیگ سے وابستگی میں گزر گئیں، آج حمزہ شہباز کی قیادت قبول کرنے پر تیار ہیں۔ خدا میاں نوازشریف اور شہبازشریف کو صحت اور سلامتی کے ساتھ طویل عمریں عطا کرے، آثار یہی بتاتے ہیں کہ قیادت خاندان ہی میں رہے گی! کچھ حضرات اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ آخر باقی سیاسی جماعتوں پر بھی تو خانوادوں ہی کی حکومت ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عذر گناہ بدتر از گناہ، مسلم لیگ نون والے تو اپنی جماعت کو قائداعظمؒ کی مسلم لیگ کا جانشین کہتے ہیں اور قائداعظمؒ نے اپنی زندگی میں کوئی ایسا تاثر نہیں دیا کہ ان کے بعد پارٹی کی قیادت ان کی بہن کے پاس یا ان کے خاندان میں رہے گی!

اصل مسئلہ یہ ہے کہ سارے دعوﺅں کے باوجود جب امتحان کا وقت آتا ہے۔ (اور اصل امتحان اولاد ہے) تو آدمی پھسل جاتا ہے۔ ایک مذہبی تنظیم کے مرحوم رہنما نے دعوے بہت کیے لیکن وقت آیا تو اپنے صاحبزادے کو جانشین بنا گئے۔ ایک اور نے اپنی دختر نیک اختر کو عوامی نمائندگی کی نشست پر بٹھا دیا۔ شہبازشریف بھی بات تو خونی انقلاب کی اور عوام کی کرتے ہیں لیکن ان کے صاحبزادے عملی طور پر شہزادے ہیں اور پارٹی ہے یا صوبائی حکومت، شہزادے کے سامنے سب دست بستہ ہیں۔

ہمارے ہاں جمہوریت اصل میں بادشاہی ہے۔ اس کی ایک اور مثال ایک حالیہ واقعہ ہے جو ”دنیا نیوز“ کے ایک کیمرہ مین کے ساتھ پیش آیا۔ میاں شہبازشریف بہاولپور کے نواحی علاقے میں ٹریفک حادثے میں جاںبحق ہونے والوں کی تعزیت کے لیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے وہاں دعائے مغفرت کی۔ لوٹنے لگے تو ایک شخص نے کہا کہ ہم صبح آٹھ بجے سے ایک بند کمرے میں بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں اور ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپ متاثرہ خاندانوں میں امدادی چیک تقسیم کریں گے مگر آپ تو واپس جا رہے ہیں۔ اس پر وزیراعلیٰ ضلعی اہلکاروں پر برس پڑے۔ انہوں نے حکام سے کہا کہ کہاں ہے تمہاری کوآرڈی نیشن اور چیک دینے تھے تو کہاں ہیں؟ کس نے چیک لانے تھے اور کس نے کہا تھا؟ دنیا نیوز کے کیمرہ مین کا قصور یہ تھا کہ وہ اس سارے منظر کو کیمرے میں محفوظ کر رہا تھا۔ اس پر وزیراعلیٰ نے ڈی سی او سے پوچھا کہ یہاں سرکاری میڈیا کے علاوہ دوسرے افراد کیوں ہیں؟ پھر انہوں نے حکم دیا کہ دنیا نیوز کے کیمرہ مین سے ڈیوائس لے لیجئے جس پر ڈی سی او بہاولپور نے دنیا نیوز کے کیمرہ مین کے کیمرے سے فلم نکال لی!

”بادشاہی“ کا ایک اور واقعہ جو دو تین ماہ پہلے پنجاب ہی میں پیش آیا، افسوس ناک ہے اور عبرت ناک بھی۔ سول سروس کے ایک نوجوان پولیس افسر سید شہزاد ندیم بخاری نے ایک عوامی نمائندے کی کالے شیشوں والی گاڑی، قانون پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بند کر دی۔ نوجوان افسر کا کہنا تھا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور یہ کہ وہ قانون پر بلاتخصیص عمل درآمد کرائے گا۔ ہاں کوئی استثنیٰ چاہتا ہے تو قانون میں ترمیم کرالے۔ پنجاب کے بادشاہ پر یہ گستاخی بار خاطر گزری۔ قانون پسند نوجوان افسر کو پہلے لاہور اور پھر پنجاب کے دور افتادہ آخری سرکل جنڈ ضلع اٹک میں تعینات کر دیا گیا!

حبیب جالب کی انقلابی شاعری جلسوں میں گا کر حاضرین کا خون گرمانا اور بات ہے لیکن دعوﺅں اور وعدوں کی پاسداری کردار کی مضبوطی مانگتی ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا

تیرے وعدے، میرے دعوے

ہو گئے باری باری مٹی!!

صوبے کے ایک غریب گاﺅں کی ڈسپنسری کے بیس لاکھ روپے روک لینا۔ بادشاہی اور شہنشاہی نہیں تو اور کیا ہے!

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

ہوس سینوں میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں

Facebook.com/izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com