”ہم وہ کچھ کر رہے ہیں جو ناممکن ہے اور ان لوگوں کی خاطر کر رہے ہیں جو ناشکرگزار ہیں۔ ہم نے اتنا کچھ کیا ہے، اتنا طویل عرصہ کیا ہے اور بے سروسامانی میں کیا ہے۔“
یہ قول اس نوجوان کی ڈائری میں لکھا ہے جو صفر سے بہت کم ٹمپریچر میں رہ کر دفاع وطن کا مقدس فریضہ ادا کر رہا ہے لیکن اس کے جذبوں میں حرارت ہے۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ قول مدر ٹریسا کا ہے۔ اس کی منگنی حال ہی میں ہوئی ہے جس کے ذکر سے وہ شرما جاتا ہے۔ میں یہاں گزشتہ رات پہنچا ہوں لیکن وہ میرا دوست بن چکا ہے۔ برف کے گالوں میں اور ہوا میں ایسی تاثیر ہے کہ انسان خود کلامی کرنے لگتا ہے۔ نہ ختم ہونے والی خود کلامی! اور اگر کوئی ساتھی ہو تو انسان وہ باتیں بھی کرنے لگتا ہے جو ”مہذب دنیا“ میں نہیں کرتا؛ مثلاً اپنے راز، اپنی شخصیت کے خفیہ گوشے!“
”میرا کمرہ کیا ہے؟ بس ایک مورچہ ہے۔ چودہ فٹ لمبا، دس فٹ چوڑا اور دس فٹ اونچا۔ ایک طرف خالی کارٹن جوڑ کر اوپر پٹ سن کی بوری بچھا دی ہے اور اس کے اوپر جائے نماز۔ یہاں نماز آرام سے پڑھنے کا اور سوچنے کا موقع مل جاتا ہے۔ کچھ اور خالی کارٹن دوسری دیوار کے ساتھ جوڑ کر رکھے ہیں ان کے اوپر گد ّا بچھا ہے۔ اس کے اوپر سلیپنگ بیگ پڑا ہے۔ کمرے کے ایک حصے میں بیت الخلا بنایا گیا ہے۔ کف سیرپ کی پرانی شیشی میں مٹی کا تیل ڈال کر چراغ بنا لیا ہے اگرچہ اس کے ساتھ بھی کچھ نہیں دکھائی دیتا! گھی کے خالی ڈبے گیزر کا کام دیتے ہیں۔ خالی کارٹن میز کا کام دیتے ہیں اور مٹی کے تیل کے خالی کنستروں کو سٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کمرے میں ایک ریڈیو ہے، کچھ کتابیں ہیں جو تم نے بھیجی ہیں اور ایک فوجی ٹیلیفون۔ جو ضروری نہیں کام کرے۔ برف، تیز ہوا، بادل اور بجلی، سارے عناصر اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ ہماری کسی سے بات نہ ہو سکے۔“
”ایک اور دن گزر گیا۔ سنتریوں نے ڈیوٹی بدل لی۔ گھروں سے دور، کسی فون کال، کسی ایس ایم ایس پیغام کے بغیر، یہ جوان جو کام کر رہے ہیں، اس کی قیمت کبھی بھی متعین نہیں کی جا سکتی۔ موسم ان کا بدترین دشمن ہے۔ یہ موسم زندگی اور موت کے درمیان ایک کمزور دھاگے پر لٹکائے رکھتا ہے۔ معمولی سا سردرد شروع ہوتا ہے اور دماغ کی رگ پھٹ جاتی ہے۔ پیچھے وطن کے شہروں‘ قصبوں اور بستیوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ہم سے محبت کرتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جن کی وجہ سے ہم یہاں بیٹھے ہیں۔“
یہ خط ایک فوجی افسر نے سیاچین کی اکیس ہزار فٹ بلندی سے اپنی رفیقہ¿ حیات کو لکھا۔ اکیس ہزار فٹ کی بلندی جہاں درجہ حرارت ستر درجے منفی ہوتا ہے۔ جہاں ابلتا ہوا پانی لمحوں میں برف بن جاتا ہے۔ ہاتھ اور پاﺅں شل ہو جاتے ہیں۔ حدنگاہ تک پھیلی ہوئی برف اندھا کر دیتی ہے۔ سورج کی کرنیں آنکھوں کو جلا دیتی ہیں۔ چیخ کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ٹوتھ پیسٹ ٹیوب کے اندر منجمد ہو جاتی ہے۔ مالٹا لکڑی کے بال کی طرح سخت ہو جاتا ہے۔ آلو ہتھوڑے سے بھی نہیں ٹوٹتا۔ جن جوانوں کو واپس لایا جاتا ہے ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کی سماعت اور بینائی متاثرہو جاتی ہے۔ یادداشت کم ہو جاتی ہے اور فراسٹ بائٹ سے ہاتھ اور پاﺅں جھڑ چکے ہوتے ہیں۔
یہ پاک فوج کا صرف ایک محاذ ہے۔ کتنے ہی محاذ اور ہیں۔ سوات سے لے کر وزیرستان تک اور کشمیر کے پہاڑوں سے لے کر قبائلی علاقوں کی بنجر بے رحم چٹانوں تک۔ دہشت گردوں کے دھماکوں سے ہمارے جوانوں اور افسروں کے جسموں کے پرخچے اڑ جاتے ہیں۔ جوان بیوائیں افق کو گھورتے گھورتے بال سفید کر لیتی ہیں۔ مائیں روتے روتے قبروں میں جا لیٹتی ہیں۔ بچے زندگی بھر باپ کو ترستے رہتے ہیں۔ اس فوج کے جوانوں نے چونڈہ کے کارزار میں ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر اپنی کڑکڑاتی ہڈیوں سے دشمن کو پسپا کیا تھا۔
کیا چند سابق جرنیل.... چند طالع آزما.... اس عظیم فوج کی شہرت کو داغ دار کر دیں گے؟ کیا ان جرنیلوں کو اس کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ کیا چند تکبر مآب، چند گردن بلند، جو کروڑوں میں کھیل رہے ہیں، جو عالم اسلام کی نامور ترین فوج کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے، یوں ہی چھوڑ دیئے جائیں گے؟
سینئر صحافی جناب مجیب الرحمن شامی کے بقول، ایک سابق سالار نے اس وقت کے وزیراعظم سے فنڈز میں اضافے کے لئے منشیات کی تجارت کی اجازت مانگی۔ معروف صحافی جناب رﺅف کلاسرا نے لکھا ہے کہ مہران بنک سے ریٹائرڈ سالار صاحب اپنی این جی او کے لئے مالی مدد حاصل کرتے رہے۔ ایک بہت بڑا معاملہ این ایل سی کا چل رہا ہے۔ اس وقت کے وزیراعظم کی واضح ہدایات کے باوجود کروڑوں روپے سٹاک ایکسچینج میں جھونک دیئے گئے یہاں تک کہ ملازمین کا پنشن فنڈ بھی نہ چھوڑا گیا۔ پونے دو ارب روپے کا نقصان ادارے کو اٹھانا پڑا۔
ادارے افراد سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ پھر وہ ادارے جو مقدس ہیں، سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں، وطن کی تاریخ کو غازی اور شہید دے رہے ہیں اور جن کے جوان اور افسر مورچوں میں، بمباری اور گولیوں کی بوچھاڑ کے درمیان سربسجود ہیں، ان اداروں کی تقدیس کو چند افراد پر آخر کس طرح قربان کیا جا سکتا ہے؟
حال ہی میں ترکی کی جمہوری حکومت نے عدالتی کارروائی کے بعد 325 فوجی افسروں کو سزائیں سنائی ہیں۔ یہ سزائیں چھ سال سے لے کر بیس سال تک کے عرصہ پر محیط ہیں۔ ان افسروں میں دو سابق جرنیل اور ایک امیر البحر بھی شامل ہیں۔ اس مقدمے کو ترکی کی تاریخ میں ایک اہم موڑ قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک پیغام ہے جو ترکی کی مسلح افواج کے ارباب بست و کشاد کو دیا گیا ہے۔ پیغام یہ ہے کہ افواج کا دائرہ کار ملک کا دفاع ہے۔ حکومت میں دخل اندازی نہیں!
بھارت میں تھری سٹار جرنیل لیفٹیننٹ جنرل پرکاش کا کورٹ مارشل کیا گیا اور سخت سزا سنائی گئی۔ اسے ملازمت سے برطرف کیا گیا۔ وہ پنشن، طبی سہولیات، پراویڈنٹ فنڈ اور دیگر تمام ریٹائرمنٹ مراعات سے محروم ہو گیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے مغربی بنگال میں سرکاری زمین ایک نجی ادارے کو دلوانے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور اپنی بلند مرتبہ حیثیت سے ناروا فائدہ اٹھایا۔ جرم ثابت ہو گیا اور جرنیل کو عبرت ناک سزا دی گئی۔ اس وقت کے بھارتی آرمی چیف نے اعلان کیا تھا کہ وہ فوج کے ادارے میں ”صفائی“ کرے گا۔ اس نے کہا تھا کہ ”ہم اپنا کلچر درست کرنا چاہتے ہیں اور ادارے کی اندرونی صحت بحال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ فوجی اقدار سول سوسائٹی کی اقدار سے مختلف ہونی چاہئیں!“ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جنرل پرکاش جنوری 2010ءمیں ریٹائر ہو چکا تھا اور یہ کیس 2008ءسے تعلق رکھتا تھا۔ جنرل پرکاش فوج کے ہیڈ کوارٹر میں ملٹری سیکرٹری کے منصب پر فائز تھا۔ ملٹری سیکرٹری فوجی نظام میں اہم ترین پوسٹ ہے کیونکہ ترقیاں اور تعیناتیاں اس کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں۔ اس پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پرکاش نے جنرل راتھ کو‘ جو مغربی بنگال میں کور کمانڈر تھا‘ ایک نجی ادارے کو زمین دینے کے لئے کہا۔ جنرل راتھ کی مدت ملازمت میں سزا کے طور پر پنشن کے حساب سے سولہ سال اور سینیارٹی کے حساب سے دو سال کی کمی کر دی گئی ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ دونوں بھارتی جرنیلوں پر مالی بدعنوانی کا کوئی الزام نہ تھا۔ ایک کا جرم یہ تھا کہ اس نے اپنی پوزیشن کو غلط استعمال کیا۔ دوسرے کو سزا اس لئے ملی کہ اس نے غلط این او سی جاری کیا!
قانون پسند قومیں اپنے مجرموں کو اس لئے نہیں چھوڑ دیتیں کہ وہ طاقت ور ہیں۔ یہ اصول اسلام نے بتایا تھا۔ اللہ کے رسول نے فرمایا تھا کہ تم سے پہلی ملّتیں اس لئے ہلاک ہوئیں کہ طاقت ور مجرموں کو چھوڑ دیتی تھیں اور کمزور مجرموں کو سزا دیتی تھیں۔ ہمیں شرم آنی چاہئے کہ یہ اصول غیر مسلم اقوام نے اپنا لیا ہے اور ہم پہلی ملّتوں کی طرح ہلاکت کے راستے پر بگٹٹ رواں ہیں!
عدلیہ کا یہ فیصلہ کہ ”1990ءکے انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی عمل کو آلودہ کرنے پر“ سابق جرنیلوں کے خلاف وفاق‘ قانونی کارروائی کرے، ایک امتحان ہے۔ یہ فیصلہ جہاں وفاقی حکومت کے لئے امتحان ہے‘ وہاں فوج کے لئے بھی امتحان ہے۔ آرمی کے موجودہ چیف جنرل کیانی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے فوج کو پیشہ ورانہ امور تک محدود کیا ہے اور سیاست کی آلودگی سے نکالا ہے۔ یہ امتیاز بھی لائق تحسین ہے۔ کاش ان کے پیشرو بھی اسی طرح کرتے! یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ ان کے جانشین یہ پالیسی جاری رکھیں گے۔
Facebook.com/izharulhaq.net
1 comment:
بہت اچھا لکھا بھائی۔
سیاچن، گیاری یا سوات میں سپاہیوں کے مرنے یا شہید ہونے سے جرنیلوں کو حرام کھانے یا ڈی ایچ اے میں بڑے بڑے بنگلے کھڑے کرنے کا جواز کہاں سے آ گیا۔ کیا اس کو بھی بھٹو خاندان کی مانند لاشوں پہ سیاست نہیں کہیں گے۔
Post a Comment