Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, August 20, 2012

دو ارب یا پونے دو ارب


ایک آزاد بین الاقوامی ادارے کی تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق   کرہء ارض پر مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ساٹھ کروڑ ہو گئی ہے تاہم کچھ اور ذرائع اس تعداد سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی اصل آبادی دو ارب سے تجاوز کر چکی ہے اور بھارت، چین، نائیجریا، تنزانیہ اور کچھ اور ممالک مسلمانوں کی تعداد اصل سے کم ظاہر کرتے ہیں!
یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی اپنی جگہ دونوں رپورٹیں درست ہوں اور وہ ادارہ جو مسلمانوں کی آبادی کو ایک ارب ساٹھ کروڑ بتا رہا ہے، خوف کا شکار ہو۔ دو ارب کی تعداد میں سے اگر آپ اُن مسلمانوں کو باہر نکال دیں جو سُنّی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، سلفی وغیرہ ہیں تو ہو سکتا ہے۔ دو ارب کے اعداد ایک ارب ساٹھ ستر کروڑ تک آ جائیں۔ اس لیے کہ یہ سارے گروہ ایک دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے ان میں سے اکثر، ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھی گریز کرتے ہیں اور اگر ان کا موقف تسلیم نہ کیا جائے تو تشدد پر بھی اُتر آ تے ہیں ۔ ان گروہوں کو نکال کر جو تعداد باقی بچتی ہے اُس میں سے تحریکِ طالبان پاکستان کے تازہ ترین موقف کی رُو سے اُن مسلمانوں کو بھی نکالنا پڑے گا جو الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور اُنہیں بھی جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں، اس موقف کا اظہار تحریکِ طالبان پاکستان نے حال ہی میں اُس وقت کیا ہے جب عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کے طور پر وزیرستان میں ایک لاکھ لوگوں کے ہمراہ مارچ کرنے کا اعلان کیا ۔ جو تعداد اب بچ گئی ہے اس میں سے میڈیا میں کام کرنے والے لوگوں کو بھی نکالنا پڑے گا کیونکہ جس صحافی یا کالم نگار کی رائے بھی مسلمان قارئین کو پسند نہیں آتی، وہ ایک لمحہ تامل کئے بغیر اُسے یہودی، کافر، قادیانی یا غیر مسلم قرار دے دیتے ہیں، اب مشکل یہ ہے کہ یہ سارے لوگ اگر مسلمانوں میں سے خارج کر دیے جائیں تو جو تعداد باقی بچتی ہے وہ نہ جانے بچتی بھی ہے یا نہیں!
بہرطور، یہ تعداد دو ارب ہے یا پونے دو ارب، یہ حقیقت ہے کہ یہ انسانوں کی ایک بہت بڑی جماعت ہے۔ اس سیارے کی کی کل آبادی کا یہ کم از کم ایک تہائی حصہ ہے۔ اگر آپ ان دو یا پونے دو ارب مسلمانوں کے حالات پر غور کریں اور ٹھنڈے دماغ سے تجزیہ کریں تو آپ چند عجیب و غریب نتائج پر پہنچتے ہیں۔
 پہلا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان عسکری حوالے سے طاقتور ہیں نہ اقتصادی لحاظ سے، لیکن اس کے باوجود غیر مسلم طاقتیں ان سے خوفزدہ ہیں۔ یہ ایک دلچسپ صورت حال ہے۔ اگر آپ دنیا کے عیسائی، یہودی، ہندو اور بُدھ اکٹھے کر لیں تو وہ مسلمانوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں اور ان کی عسکری اور اقتصادی قوت بھی ہزاروں گُنا نہیں، تو سینکڑوں گُنا ضرور زیادہ ہے لیکن پھر بھی یہ سارے گروہ مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں، ان گروہوں کا یہ خیال ہے، یا کم از کم وہ اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ مسلمان اُن کے ممالک پر یعنی دوسرے لفظوں میں پوری دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا نتیجہ جس پر آپ پہنچتے ہیں یہ ہے کہ دنیا کے یہ سارے مسلمان، خواہ جو زبان بھی بولتے ہیں اور جس ملک میں بھی رہتے ہیں، اپنے مذہب کے بارے میں  بے حد حسّاس ہیں    کسی صورت میں بھی وہ اپنے مذہب کی، اپنی آسمانی کتاب کی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ مسلمان اپنی جان قربان کر سکتے ہیں، اپنے بچوں کو بھی قربان کر سکتے ہیں، اپنا مال یہاں تک کہ اپنی عزت سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں لیکن اپنے مذہب پر، قرآن کے احترام پر اور اپنے پیغمبر کی شان پر ایک انچ کیا، ایک ذرّہ کیا ، ذرّے کے ہزارویں حصے کے برابر بھی لچک دکھا سکتے ہیں نہ سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔
 تیسرا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی عزت پر جان مال، آبرو، اولاد قربان کر دینے والا مسلمانوں کا یہ دو ارب کا جمّ غفیر، اسلام اور اسلامی تعلیمات کی سب سے زیادہ مخالفت خود کرتا ہے۔ آپ کو اس نتیجہ پر یقین نہ آئے تو آپ ایک لمحے کے لیے غور کیجیے۔
 مسلمانوں کے رسول نے انہیں حکم دیا تھا کہ ”علم سیکھنا ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض ہے“ لیکن اس وقت ناخواندگی میں مسلمان دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ رسول کریم کے حکم کی واضح نافرمانی میں یہ اپنی عورتوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔
ان کی آسمانی کتاب میں درجنوں بار حکم دیا گیا ہے کہ کائنات پر غور کرو۔ چاند اور سورج کے آنے جانے اور ہَوائوں کے چلنے پر تدبر کرو لیکن اس کے باوجود کائنات کے بارے میں مسلمانوں کا علم نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ سارا کام غیر مسلم کر رہے ہیں۔
ان کے رسول  نے فرمایا تھا کہ مجھے علم الابدان (یعنی میڈیکل سائنس) اور علم الادیان (مذاہب کا علم) پسند ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے بادشاہ، صدر، وزیر اور امرا سب علاج کے لیے امریکہ اور یورپ کا رُخ کرتے ہیں، بائی پاس سے لے کر پنسلین تک، ہیپاٹائٹس کے انجکشن سے لے کر ٹی بی کے علاج تک ....گذشتہ پانچ سو برس کے دوران مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
 ان کے رسول کا واضح ارشاد تھا کہ بیماری کی صورت میں کوالیفائیڈ (یعنی اہل) طبیب کے پاس جا ئو۔ اس کی مخالفت میں مسلمان ہر عطائی، ہر تعویذ فروش، ہر جعلی پیر اور ہر فراڈ کرنے والے کے پاس جاتے ہیں اور جوق در جوق جاتے ہیں۔
 ان کی مقدس کتاب میں بیسیوں بار حکم دیا گیا ہے کہ امانتوں اور عہد کا خیال رکھو لیکن عہد شکنی میں اس وقت مسلمانوں کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ نوّے فیصد مسلمان وعدہ نہیں ایفا کرتے، آپ ایک ہزار مسلمانوں سے وعدہ لیں کہ وہ آپ کے پاس شام پانچ بجے پہنچ جائیں گے، شاید سو بھی یہ وعدہ پورا نہ کریں اور  شاید پچاس بھی معذرت  نہ کریں اس لیے کہ ان کے نزدیک وعدہ شکنی کوئی بُرائی نہیں۔ آپ مکان بنا کر دیکھ لیں، بچے کی شادی کی تقریب برپا کر کے دیکھ لیں، تجارتی مال کا آرڈر دے کر دیکھ لیں، عملی زندگی میں مسلمان عہد شکنی میں بے شرمی کی حد تک پست ترین سطح پر اُترے ہوئے ہیں۔
ان کے پیغمبر نے فرمایا تھا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اس وقت مسلمان ملکوں میں ملاوٹ سب سے زیادہ ہے۔ جو ملک اپنے آپ کو اسلام کا سب سے بڑا علمبردار سمجھتا ہے اس میں لائف سیونگ ادویات سے لے کر معصوم بچوں کے دودھ تک، خوراک سے لے کر تعمیراتی سامان تک، ہر شے میں ملاوٹ ہے اور المیہ یہ ہے کہ تاجر حضرات کی اکثریت ”مذہبی“ ہونے کا اظہار بھی کرتی ہے اور دعویٰ بھی۔
ان کے رسول نے حکم دیا تھا کہ غیب کا حال پوچھنا بھی منع ہے لیکن مسلمان ہر اُس شخص سے مستقبل کا حال پوچھتے پھرتے ہیں جو قرآن کی ایک آیت بھی درست نہیں پڑھ سکتا اور اُس کے بے ریش ہونے کو خوبی کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
 چوتھا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان، بدقسمتی سے عزتِ نفس سے بھی محروم ہو گئے ہیں،  پچاس اسلامی ممالک کو چھوڑ کر آباد ہونے کے لیے یہ گروہ در گروہ  اُن ملکوں کا رُخ کر رہے ہیں جنہیں یہ کافر قرار دیتے ہیں۔ غیر مسلم، ترقی یافتہ ملکوں میں لاکھوں مسلمان آباد ہیں اور ان غیر مسلم حکومتوں سے مساجد کی تعمیر سے لے کر بیروزگاری الائونس تک، ہر سہولت لے رہے ہیں یہاں تک کہ متشرع حضرات کی ایک کثیر تعداد،  سوشل سیکورٹی (یعنی بے روزگاری الائونس) لے کر تبلیغ کے کام میں مصروف ہے!

Thursday, August 09, 2012

سرطان

صوبائی اسمبلی کے رکن کی کالے شیشے والی گاڑی بند کرنے پر پولیس افسر کا تبادلہ کر دیا گیا۔ سول سروس کے نوجوان اے ایس پی سید شہزاد ندیم بخاری نے اپنے تبادلے کی تصدیق کی اور بتایا کہ 27 جولائی جمعہ کے روز رکن صوبائی اسمبلی کی کرولا کار کو، جس کے شیشے کالے تھے، انہوں نے قانون کےمطابق بند کر دیا۔ اے ایس پی نے کہا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے۔ ہمارا کام قانون پر بلاتخصیص عمل درآمد کرانا ہے اور اسی بات کا ہم نے حلف اٹھایا ہے۔ اگر کسی کو کوئی استثنیٰ دینا ہے تو اس کےلئے قانون میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اے ایس پی شہزاد کا تبادلہ آئی جی پولیس پنجاب نے پہلے نولکھا سرکل لاہور کیا اور بعد میں اسے منسوخ کر کے جنڈ سرکل ضلع اٹک میں تعینات کیا گیا۔


یہ خبر چار دن پہلے تقریباً تمام اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے سیاستدان، جن کی عمریں دشت سیاست میں سفر کرتے، خیمے گاڑتے اور طنابیں اکھاڑتے گزری ہیں، جب حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ عمران خان میں آخر نوجوانوں نے کیا دیکھا ہے تو ان کا مائنڈ سیٹ انہیں زمینی حقائق دیکھنے ہی نہیں دیتا۔ یہ صرف ایک خبر ہے لیکن اس سے اس سرطان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے جو ہر طرف پھیل چکا ہے اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ  اس سرطان کو  ہرلمحہ زیادہ پھیلا  رہی ہے۔
 خدائے بزرگ و برتر کی قسم! اس کالم نگار نے عمران خان سے کچھ لینا ہے نہ مسلم لیگ سے اور نہ پیپلز پارٹی سے۔ ہم جیسے طالب علموں کو سوائے اسکے کہ دھوپ کھلی چھوڑ دیں، یہ بیچارے اور دے بھی کیا سکتے ہیں! طارق نعیم کا شعر یاد آ گیا ....

یوں ہی تو کنج قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں

خسروی، شاہ جہانی، مِری دیکھی ہوئی ہے

عمران خان کی سینکڑوں کنال پر محیط رہائش گاہ کا مسئلہ سب سے پہلے اس کالم نگار ہی نے اٹھایا تھا۔ بخدا  لوگ اس وقت پوچھتے تھے کہ یہ مکان کہاں ہے؟ آج بھی یہ کالم نگار برملا کہہ رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی جیسے پشتینی جاگیردار اور آصف احمد علی، خورشید محمود قصوری اور سرور خان جیسے سیاسی خانہ بدوش عمران خان کیلئے گھاٹے کا سودا ہیں۔ پارٹیاں نووارد گلوکاروں کو عہدے دینے سے نہیں بلکہ ورکرز کو ان کا مقام دینے سے مضبوط ہوتی ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود اس حقیقت کا کیا علاج کہ عمران خان کو ابھی تک حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا اور یہی حقیقت اسکی سب سے بڑی مددگار ہے۔ آخر اسے کیوں نہ آزما لیا جائے؟ کیا خبر وہ اس طبقے سے نجات دلا دے جو تعداد میں تین چار ہزار سے زیادہ نہیں لیکن سراسر سرطان ہے! آخر اسکے والد صاحب شوکت خانم ہسپتال  میں دوسرے مریضوں کےساتھ قطار میں کھڑے رہے! بس یہی وہ حقیقت ہے جو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے شاہانہ دماغوں کو نظر نہیں آ رہی! جہاں دیدہ ہونا  اور شے ہے لیکن ضعف بصارت آخر تجربہ کار عقل مندوں ہی کو تو لاحق ہوتا ہے!

 کیا کیا امیدیں تھیں متوسط طبقے کو مسلم لیگ ن سے! 2008ءکے الیکشن کے روز وہ لوگ بھی گھروں سے نکلے تھے جنہوں نے کبھی کسی کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ انکی زبانوں پر ایک ہی فقرہ تھا ”مسلم لیگ نون.... وہی عدلیہ کو بچا سکتی ہے!“ پھر اس جماعت کو پنجاب کی حکومت ملی جو بہت بڑی کامیابی تھی اور کیوں نہ ہوتی‘ آخر پنجاب ساٹھ ستر فیصد پاکستان ہی تو ہے لیکن آج چار سال بعد۔۔۔ کوئے مانے نہ مانے۔۔۔۔  عام پاکستانی اس  المیے سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا کہ مسلم لیگ نون  مراعات یافتہ طبقے سے  نہ صرف یہ کہ جان نہیں چھڑا سکی بلکہ مراعات یافتہ طبقے کا دست و بازو بن کر رہ گئی ہے۔
وسطی پنجاب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پنجاب مسلم لیگ (ن) سے مایوس نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ  نون کا پنجاب فیصل آباد سے شروع ہوتا ہے۔ اور رائے ونڈ میں شان دکھاتا، لاہور سے گذرتا، گوجرانوالہ میں پڑائو کرتا سیالکوٹ پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ حقیقت اس سے ایک ذرہ زیادہ ہے نہ کم! مانا کہ سردار دوست محمد کھوسہ نے جو کچھ کہا ہے، ذاتی وجوہات سے کہا ہے اور وہ تو خود اس بندوبست کا حصہ رہا ہے لیکن خدا کے بندو! اس نے جو کہا اس پر غور تو کر لو۔ عربی کا معروف مقولہ ہے ”  اُنظر الیٰ ما قال ولا   تَنظُر الیٰ من قال“۔ (یہ دیکھو کہ کہا کیا ہے۔ یہ نہ دیکھو کہ کہنے والا کون ہے؟)
 کھوسہ جب کہتا ہے کہ بیس  و زارتیں فردِواحد کے پاس  اور یہ کہ بیورو کریسی نے حشر برپا کر رکھا ہے  تو کیا یہ سچ ہے یا نہیں ؟ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے  کہ ایک  ریٹائرڈ  بیوروکریٹ  صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ اس قبیل کے مشیر اگر مخلص ہوتے تو نواز شریف پرویز مشرف کو آرمی چیف بناتے نہ  ضیا ءالدین بٹ کو اس کا جانشین مقرر کرتے۔ جیو کے  معروف پروگرام "" جواب دہ"" میں صاف بتایا  گیا ہے کہ  نواز شریف نے برملا کہا تھا کہ  "" میں نے پرویز مشرف کو  فلاں کے کہنے پر ہٹایا ہے"۔ ایک عام پڑھے لکھے شخص کو بھی معلوم ہے کہ فوج کا سربراہ اُن شعبوں سے چُنا جاتا ہے جو جنگ کے براہ راست ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جیسے  توپ خانہ۔ انفینٹری۔ آرمرڈ کور  اور ائر ڈیفنس۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر کے  سب سے بڑے افسر کو  یہ معلوم نہ تھا۔
پھر یہ کہنا کہ جب  ضیا ءالدین بٹ کو آرمی چیف بنایا گیا تو انہوں نے    ""  سارے کور مکانڈروں کو کال کیا ، میری موجودگی میں،اور وہ آگے سے مبارک بادیں دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ  سر مبارک ہو   ، ہم پھر کب آئیں  مبارک باد دینے کو " تو آخر اس دعوے کا کیا ثبوت ہے؟ ٹیلی فون تو جنرل بٹ کے کان کے ساتھ لگا تھا۔ دوسرے شخص نے یہ بات کیسے سن لی؟ اور کیا جنرل بٹ نے کبھی خود  بھی یہ بات بتائی ہے؟  
مسلم لیگ نون   نے صوبے کے  دوسرے حصّوں کے ساتھ  منصفانہ سلوک نہیں کیا۔ ۔ حکومت چلانا بلہے شاہ کی شاعری نہیں کہ ایک اور صرف ایک ہی شہر کے  بوہے باریاں گنی جاتی رہیں ۔  پنجاب حکومت کا یہی وہ رویّہ ہے   جس کی وجہ سے پنجاب میں  صرف سرائیکی  صوبہ نہیں اور بھی صوبے بنیں گے۔رہے مسلم لیگ   نون سے وابستہ عوامی نمائندے تو وہ بیچارے تو اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اٹک کے ایم این اے شیخ آفتاب احمد کو ضرور معلوم ہوتا کہ ان کے ضلع کے کس حصے میں کونسا منصوبہ چار سال کے دوران سورج کی روشنی نہ دیکھ سکا اور اس کی وجہ کیا ہے؟

شفیق الرحمن نے لکھا ہے کہ بچے نے ماں کو بتایا کہ میں نے صحن میں خرگوش دیکھا ہے۔ ماں نے کہا کہ ننھے! یہ تمہارا وہم ہے۔ ننھے نے پلٹ کر پوچھا کہ کیا وہم سفید رنگ کا ہوتا ہے اور کیا اسکے چار پاﺅں ہوتے ہیں؟   تو حضور نفاق وہم نہیں! نہ ایسا جانور ہے جس کے چار پاﺅں ہوتے ہیں۔ نفاق یہی تو ہے کہ  باتیں رات دن خونی انقلاب کی کی  جائیں لیکن مراعات یافتہ طبقے کی گرفت اتنی مضبوط کر دی جائے کہ قانون کی برتری کےلئے کام کرنےوالے پولیس افسر   کو پہلے لاہور اور پھر فوراً دوسرا حکم جاری کر کے صوبے کے دور افتادہ ترین گوشے میں پھینک دیا جائے تاکہ منتخب نمائندوں پر قانون نافذ کرنے کا آئندہ کوئی سوچ بھی نہ سکے۔

اور صرف مسلم لیگ (ن) ہی کے عوامی نمائندوں کا کیوں ذکر ہو، عوامی نمائندے جس جماعت کے بھی ہیں، قانون شکنی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ عوام کے وہ نمائندے ہیں جو عوام میں سے نہیں! یہ پیران تسمہ پا کا وہ گروہ ہے جو قوم کی گردنوں پر سوار ہے! حدیقہ کیانی نے پشتو میں ایک دلآویز گیت گایا ہے جس کے بول ہیں جاناں جاناں جاناں۔ ایک مغنی بادلوں سے پرے بیٹھا ایک اور گیت گا رہا ہے جس کے بول ہیں سرطان، سرطان، سرطان!

Thursday, August 02, 2012

عطاءالحق قاسمی صاحب سے ۔ احترام کے ساتھ

ساحری، ساحری کا توڑ، استخارے اور بہت کچھ اور بھی الیکٹرانک میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس لیے کہ سارا مسئلہ ریٹنگ کا ہے اور یہ موضوعات ایسے ہیں جو ریٹنگ کو یوں اوپر اٹھاتے ہیں جیسے پٹرول آگ کو۔ اخباری صفحات میں بھی روحانی شخصیات کا ذکر زوروں پر ہے۔ زیادہ تذکرے پیش گوئیوں کے ہوتے ہیں۔ 
اس میں اچنبھے کی بات بھی نہیں۔ برصغیر میں یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ فرانسیسی ڈاکٹر فرانکوئس برنئیر جو شاہ جہان اور اورنگ زیب کے درباروں میں بارہ سال رہا اور پورا برصغیر گھوما، لکھتا ہے کہ ہندوستان کے بادشاہ، امرا اور عوام ہر مسئلے میں نجومیوں سے رہنمائی لیتے ہیں۔ جنگ شروع کرتے وقت، سپہ سالار کی تعیناتی کرتے وقت، شادی کی تاریخ اور سفر کا وقت طے کرتے وقت، ہر موقع پر ”نیک ساعت“ کا دریافت کرنا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ غلام خریدتے وقت اور نئی پوشاک پہنتے وقت بھی ساعت کا التزام کیا جاتا ہے۔
ہم جیسے ”محروم“  اور " گستاخ '' طالب علموں نے الیکٹرانک میڈیا اور اخباری کالموں میں روحانی شخصیات کےان روز افزوں تذکروں کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ لیکن اور تو اور میرے محترم دوست اور بہت ہی سینئر کالم نگار جناب عطاالحق قاسمی نے بھی گذشتہ ہفتے اس روحانیت کی سرپرستی شروع کر دی ہے۔ اس پر صدمہ اس لئے ہوا کہ قاسمی صاحب کے بزرگوں کا تعلق علماءحق کے جس مکتب فکر سے رہا ہے، اس مکتب فکر نے انہی واہموں اور وسوسوں کےخلاف تو جہاد کیا تھا۔ ان علماءکرام نے دار و رسن اور قید و بند کو لبیک کہا لیکن اس موقف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے کہ روحانیت اور تصوف جو کچھ بھی ہے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور تعلیمات کے سوا کچھ نہیں
بہ مصطفی ا  ،  برسان خویش  را کہ دین  ہمہ  اوست
اگر     بہ    او    نہ    رسیدی    تمام      بو لہبی  ست
اس مکتب فکر نے ایک طویل جدوجہد کے بعد عوام الناس کو زائچوں، ساعتوں، پیش گوئیوں اور اس قسم کے آلاتِ شرک سے نکالا اور سورة لقمان کی اس آیت (”کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کل کیا کرےگا“) کے حوالے سے سمجھایا کہ جسے خود اپنا معلوم نہیں،  وہ دوسروں کے مستقبل کا کیا بتائے گا۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جناب عطاالحق قاسمی سے میرا نیاز مندی کا تعلق کئی عشروں پر محیط ہے، اس نابکار کی شاعری کی انہوں نے ہمیشہ کمال فیاضی سے حوصلہ افزائی کی۔ وہ ایک طویل عرصہ نوائے وقت کے ادبی صفحہ کے انچارج رہے بلکہ اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو اخبارات میں ادبی صفحے کا آغاز نوائے وقت ہی سے ہوا تھا اور قاسمی صاحب نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس سارے عرصے میں میری شاعری کو اس صفحے پر شائع ہوتے رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔ یہاں ایک اور واقعہ کا ذکر بھی نامناسب نہ ہو گا۔ نوّے کے عشرے کا آغاز تھا۔ میں نے ایک نیم سیاسی اور نیم صحافتی لیکن غایت درجہ شاطرانہ شخصیت کے حق میں ایک کالم لکھ دیا۔ یقیناً یہ ایک کمزور لمحہ تھا جس میں مَیں نے یہ کام کیا۔ اس شام وہ شخصیت اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہمارے گھر بھی آئی۔ یار لوگوں نے منہ پر تعریف کی اور پیٹھ پیچھے درگت بنائی کہ اب یہ ضرور کوئی کام کرائے گا کیونکہ وہ شخصیت وزیراعظم کی دستِ راست تھی۔ کام تو کرانے کی نیت ہی نہیں تھی، ہاں منہ چھپاتے پھرے۔ نام نہاد کالم نگاری کے پورے کیرئر میں یہ واحد کالم ہے جس پر آج بھی تاسف ہے۔ قاسمی صاحب واحد سینئر صحافی تھے جنہوں نے پیٹھ پیچھے کچھ کہنے کے بجائے، بڑے بھائی کی طرح سمجھایا۔ ان کا یہ فقرہ کبھی نہیں بھولا ”کوئی اور یہ کام کرتا تو کرتا، کم از کم تمہیں زیب نہیں دیتا تھا۔“ اس تعلق کے باوصف اگر میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو وجہ ظاہر ہے کہ صدمہ زیادہ ہے۔
 روحانیت کے حوالے سے کچھ اصولی باتیں یہ ہیں :
اوّل ۔ روحانیت کا دعویٰ کرنےوالوں کے کمالات سے انکار کوئی بھی نہیں کرتا اس لیے کہ ماضی کے واقعات ڈھونڈ لانا اور بسااوقات درست پیش گوئیاں کرنا، حقائق سے ثابت ہے۔ لیکن قاسمی صاحب نے خود یہ کہہ کر کہ ”علم صرف وہ ہے جو نافع بھی ہے“ مسئلے کو  حل کر دیا۔ اگر کوئی صاحب اپنے کمال فن سے یا روحانیت سے یا پُراسرار علوم سے میرا ماضی مجھے بتاتے ہیں تو مجھے اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مجھے تو اپنا ماضی پہلے ہی معلوم ہے، رہا میرے مستقبل کے بارے میں درست پیش گوئی تو یہ اگر میرے لیے مفید ہوتی تو جس پروردگار نے انسان کو اعلیٰ ترین صلاحیتیں دیں، مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت بھی دے سکتا تھا لیکن اس کا مجھے فائدہ نہیں، نقصان ہے۔ فرض کریں مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ میں کسی ہسپتال میں مروں گا تو اسکا جو اثر میری زندگی پر پڑےگا، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ میں عزیز ترین ہستیوں کو دیکھنے کےلئے بھی کسی ہسپتال میں جانے سے گریز کروں گا اور اگر مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ میری قسمت میں کامیابی یا بیرون ملک کا سفر نہیں ہے تو میں اُسی وقت سے دل شکستہ ہو کر، ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جائوں گا۔ میرے مستقبل کا علم کسی کو ہے تو میں اس سے انکار نہیں کرتا لیکن میرے لیے یہ علم  ہرگزنافع نہیں۔
دوم ۔ اس فن کا اسلام یا اسلامی تصوف سے کوئی تعلق نہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ غیر مسلم بھی پیش گوئیاں کرتے ہیں اور درست کرتے ہیں، ہندوئوں نے ماضی میں جھانکنے کے فن کو کمال تک پہنچا دیا ہے۔ سبزواری صاحب بہت مشہور سول سرونٹ گزرے ہیں، انہیں اور انکے ایک بنگالی رفیق کار کو لندن کے ایک عیسائی گورے نے انکے مستقبل کے بارے میں باتیں بتائیں۔ بنگالی افسر نے اپنی موت کی جگہ جاننے پر اصرار کیا، گورے نے مغربی پاکستان کے ایک شہر کا نام بتایا، وہ بنگالی ٹھیک اسی شہر میں دنیا سے رخصت ہوا۔
سوم ۔ جن ہستیوں کو اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور وہ مستجاب الدعوات ہوتی ہیں، وہ اپنی تشہیر کبھی نہیں کرتیں، انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے جو آسان نہیں ہوتا۔ احسان دانش صاحب کو ایک مستجاب الدعوات ہستی کا علم تھا۔ ایک صاحب کے اصرار پر لے گئے۔ اندرون لاہور کی پُرپیچ گلیوں میں سے گذر کر وہ اُس شخصیت کے پاس پہنچے- وہ بزرگ موچی تھے اور جوتے گانٹھ رہے تھے۔ ایسی ہستیاں تشہیر سے مکمل گریز کرتی ہیں اور ایسے اکلِ حلال کا التزام کرتی ہیں جس میں کسی بے احتیاطی کا شائبہ بھی نہ ہو۔ اب اگر یہ فیصلہ ہمارے اینکر حضرات نے کرنا ہے کہ کون سی شخصیت روحانی ہے تو ہو چکا کام ۔
گر  ہمیں  مکتب  و ملّا
کارِ طفلاں تمام خواہد شد
مجھے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ کسی صاحب نے اپنے گھر کے باہر" ادارہء ترقیاتِ روحانیات“ کا بورڈ لگا دیا اور اسکی تشہیر حضرت بہاءالحق قاسمیؒ کے فرزند کر رہے ہوں!
چہارم ۔ کائنات میں منفی اور ابلیسی قوتیں بھی کارفرما ہیں۔ قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ شیاطین غیب کی خبریں لینے آسمانوں کا رُخ کرتے ہیں اور ستارے انہیں بھگاتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا مشہور واقعہ ہے کہ آپ کہیں جا رہے تھے کہ اچانک آسمان روشنی سے بھر گیا، آواز آئی کہ جو کچھ اسلام میں منع ہے، تمہارے لیے تمہارے رب نے حلال کر دیا ہے۔ آپؒ شیطان کو پہچان گئے اور دھتکار دیا۔ پھر آسمان تاریک ہو گیا۔ اب ایک اور آواز آئی کہ میں نے اس طریقے سے ستر اولیاءاللہ کو گمراہ کیا لیکن اے عبدالقادر! تمہارے تقویٰ نے تمہیں بچا لیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم ایک اور حملہ کر رہے ہو، مجھے میرے تقویٰ نے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے بچایا ہے۔ سو ”غیبی آوازیں“ اگر بغداد میں آ سکتی ہیں تو دنیا کے کسی شہر میں بھی آ سکتی ہیں۔
پنجم ۔ یہ درست ہے کہ داڑھی کفر اور اسلام کا معیار نہیں لیکن بہرطور داڑھی شعائر اسلام میں سے ہے۔ بدقسمتی سے آج کل کی روحانی شخصیات کے بے ریش ہونے کو ایک مثبت پہلو کے طور پر اچھالا جاتا ہے جو کسی طور بھی مستحسن نہیں۔
رہا ہزاروں پریشان حال لوگوں کا جمع ہو جانا تو یہ ہماری قومی نفسیات کا حصہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ کرنا نہ پڑے اور بیٹھے بٹھائے کام ہو جائیں۔ ”پیر سپاہی“ اور اسکے لاکھوں وارفتگان کا واقعہ زیادہ پرانا نہیں۔ تلہ گنگ کے ایک گائوں میں دیگیں پکانے والے نے جس تکنیک سے دنیا بھر سے لاکھوں لوگ جمع کیے، وہ تو حال ہی کا واقعہ ہے۔
کھرا اور کھوٹا، سفید اور سیاہ، باہم آمیز ہو چکے ہیں۔ صرف محمد عربی کی تعلیمات کھرے کو کھوٹے سے اور سفید کو سیاہ سے الگ کرنے میں مدد دے سکتی ہیں.... ع
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست
 

powered by worldwanders.com