Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, June 29, 2021

فرشتہ جو گھر میں تھا



روتا جاتا تھا اور بات کرتا جاتا تھا۔ بات کر تا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ داڑھی آنسوؤں سے بھیگ گئی تھی۔ گلا رندھ گیاتھا۔ ہم نے اسے دلاسا دیا مگر سسکیاں تھیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔
ہم چار دوست تھے۔ معمّر۔ سارا دن فارغ!شام پڑتی تو قریب کے ایک پارک میں جا بیٹھتے۔ رات گئے تک باتیں کرتے رہتے۔ حالاتِ حاضرہ پر بحث ہوتی۔ ملکی سیاست کو اپنی اپنی عقل کی چھلنی میں چھانتے مگر زیادہ وقت عمرِ رفتہ کو آواز دینے میں گزرتا۔ کبھی بچپن اور سکول کا زمانہ یاد کرتے۔ کبھی اپنے اپنے پروفیشن کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ کرتے۔ کبھی پچھتاووں کا شکار ہوتے تو کبھی خوش ہوتے۔ اُس دن شاید پچھتاووں اور ندامتوں کی باری تھی۔ شاہد خاموش تھا۔ یہ بات معمول کے خلاف تھی۔ہم میں سے سب سے زیادہ باتونی اور زندہ دل وہی تھا۔ کریدنے پر اس نے بتایا '' بیٹے کو ایک بزنس ڈیل سے منع کیا تھا مگر وہ نہ مانا۔ ‘‘ تو اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ ہم نے پوچھا۔ کہنے لگا: اس لیے نہیں رو رہا کہ بیٹے نے میری رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ رو اس لیے رہا ہوں کہ وہ سارے مواقع یاد آرہے ہیں جب میں نے ا پنے باپ کا کہا نہیں مانا تھا۔ وہ روتا رہا ‘ بات کرتا رہا اور ہم سنتے رہے۔ یہ حیرتوں کے باب تھے جو ایک ایک کر کے کھل رہے تھے۔'' آج اتنے برسوں بعد‘ جب میری مونچھیں سفید ہو چکی ہیں یوں جیسے پرانے سویٹر کی اُدھڑی ہوئی اون ہو ‘ جب میرے رخساروں پر ‘ داڑھیں گرنے کی وجہ سے‘ گڑھے پڑ چکے ہیں‘ جب میرے کاندھے سکڑ گئے ہیں اور کمر میں خم آگیا ہے ‘ آج اتنے برسوں بعد مجھے معلوم ہوا ہے کہ باپ‘ جو بھی ہو‘ جیسا بھی ہو‘ اپنی اولاد کے لیے اوتار کا درجہ رکھتا ہے۔ بیٹے کے لیے اس کے باپ سے بڑا سوامی‘ بڑا پیر ‘ بڑا سالک کوئی نہیں۔ باپ میں قدرت نے جیسے کوئی خاص چِپ ڈال رکھی ہوتی ہے۔وہ بیٹے کو آنے والے طوفانوں کی بر وقت خبر دیتا 
ہے۔ اس سے بڑا مستقبل بین کوئی نہیں ہوتا۔ رومی نے کہا تھا:
اے حج پر پر گئی ہوئی قوم! کہاں ہو ؟ کہاں ہو؟ معشوق تو یہاں ہے! ادھر آؤ ادھر آؤ! ارے معشوق تمہارے ہمسایے میں مقیم ہے۔ اس کی دیوار ‘ تمہاری دیوار کے ساتھ لگتی ہے اور تم ہو کہ صحراؤں اور جنگلوں میں سر گشتہ ٹھوکریں کھا رہے ہو۔ دوسرے گھر میں تو دور والے راستے سے دس بار گئے ہو ‘ ارے اس اپنے گھر ہی میں ایک بار چھت کی منڈیر پر آکر دیکھ لیتے‘‘۔
شاہد بول رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آواز آسمان کے دریچوں سے آرہی ہو۔ '' میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا جس دن میرے والد میرے بزنس ہیڈ کوارٹر میں آئے۔ہم دونوں میرے دفتر میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ میرا ایک ملازم ایک یا زیادہ سے زیادہ دو منٹ کے لیے میرے پاس آیا۔ میرے والد نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انہیں اس کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔ اس کے جانے کے بعد انہوں نے مجھے کہا ‘یہ شخص خطر ناک ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا! میں نے بات سنی اَن سنی کر دی۔چند سال ہی گزرے تھے کہ اُس شخص نے ‘ ہاں اسی شخص نے‘ مجھے دھوکا دیا اور نقصان پہنچایا۔ میں وہ دن بھی نہیں بھول سکتا جب میں ایک دن شام کو گھر لَوٹنے کے بعد ڈاک دیکھ رہا تھا۔ یہ روز کا معمول تھا۔ جو خطوط گھر کے ایڈریس پر آتے تھے وہ اسی طرح‘ ہر روز‘ شام کو دیکھتا تھا۔ والد وہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے کسی خط کے بارے میں کبھی نہیں پوچھا کہ کس کا ہے یا اس میں کیا لکھا ہے‘ نہ ہی ان خطوط کو دیکھتے تھے۔ اُس دن جس کی میں بات کر رہا ہوں‘ میں نے ایک لفافہ کھولا۔ وہ کافی دور کھڑے تھے۔ پوچھا‘یہ کیا ہے؟ پھر کہا: اللہ تمہاری حفاظت کرے۔ ان کے چہرے پر پریشانی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے انہیں نہیں بتایا کہ وہ کیا تھا۔ وہ ایک مقدمے کا نوٹس تھا جو میرے ایک ملازم نے مجھ پر دائر کر دیا تھا۔ میں نے اس مقدمے کو بھگتا۔ آخر میں فتح یاب بھی ہوا مگر آج تک مجھے نہیں معلوم ہوا کہ میرے والد کو کیسے پتا چلا یہ کاغذ خیریت کا نہیں ہے اور یہ کہ مجھے اللہ کی حفاظت درکار ہو گی۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ باپ‘ اولاد کے حوالے سے ‘ مافوق الفطرت علم کا اور مافوق الفطرت طاقت کا ما لک ہوتا ہے۔ اس کے لیے اس کا عالم فاضل ہونا‘ نیک پرہیز گار ہونا‘ ڈگری یافتہ ہونا لازم نہیں۔ وہ اگر کھیت میں ہل چلا رہا ہے‘ وہ اگر ریڑھی لگاتا ہے ‘ وہ اگر مزدور ہے‘ وہ اگر اعلیٰ منصب پرفائز ہے‘ قلاش ہے یا ثروت مند ہے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جب فرمایا گیا کہ اللہ کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور اللہ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے تو یہ شرط کہاں لگائی گئی کہ باپ پڑھا لکھا ہو یا پرہیز گار ہو یا مالدار ہو ؟ اب جب میں اپنے بیٹوں کی حماقتوں پراور غلطیوں پر اور نافرمانیوں پر خاموش رہتا ہوں جبکہ مجھے حقیقت حال کا پورا ادراک ہوتا ہے ‘ تو یہ سوچ کر خون کے آنسو روتا ہوں کہ میرے والد کو بھی سب کچھ معلوم ہوتا ہو گا مگر وہ ہر بار ٹوکنے کے بجائے خاموش رہتے ہوں گے۔ کیا اس روئے زمین پر‘ باپ کے علاوہ کوئی ایک شخص بھی ایسا ہے جو یہ چاہتا ہو کہ میں زندگی کی دوڑ میں ‘ یا کسی بھی معاملے میں اس سے آگے نکل جاؤں؟ یہ صرف باپ ہوتا ہے جس کی خواہش ‘ شدید خواہش ‘ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا اس سے بھی آگے نکل جائے۔ باپ صوبیدار ہے تو بیٹے کو کپتان دیکھنا چاہتا ہے۔ باپ کلرک ہے تو بیٹے کو افسر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ باپ معمولی دکاندار ہو تو چاہتا ہے کہ بیٹا ٹائیکون بنے۔ اس کے علاوہ بھائی ہو یا دوست‘ سب کا‘ کہیں نہ کہیں‘ کوئی نہ کوئی‘ اپنا پیچ ‘ بیچ میں ہوتا ہے اور ضرور ہوتا ہے۔ ‘‘
اب شاہد کے ساتھ ہم بھی رو رہے تھے۔ ہماری سفید داڑھیاں آنسوؤں سے تر ہو رہی تھیں۔ وہ بولے جا رہا تھا ''آہ! انسان کتنا کور چشم اور کتنا سیاہ بخت ہے! باپ کی زندگی میں وہ باپ کوTaken for grantedلیتا ہے۔سنی اَن سنی کرتا ہے۔ سمجھتا ہے کہ اسے معاملات کا اور زندگی کی باریکیوں کا اور راستوں کے پیچ و خم کا اور غلط اور صحیح کا اور سیاہ اور سفید کا ‘ باپ سے زیادہ معلوم ہے۔ مگر جس دن اس کا باپ رخصت ہوتا ہے اسے اچانک معلوم ہوتا ہے کہ سر سے چادر سرک گئی‘ سائبان گر پڑا‘ بادل تحلیل ہو گیا۔ اب اسے پتا چلتا ہے کہ کڑی چلچلاتی دھوپ کیا ہے؟اپنوں کی منافقت اور بیگانوں کی دشمنی کیا ہے اور یہ زندگی‘ یہ دنیا کتنی خطرناک ‘ پیچیدہ ‘ فریب کار اور محسن کُش ہے۔ اب وہ روتا ہے مگر اب اس کا رونا بیکار ہے۔ اب وہ چیختا ہے اور دھاڑیں مار کر کہتا ہے کہ وہ جو تھکا ہارا بوڑھا شخص گھر میں تھا وہ تو انسان کے روپ میں فرشتہ تھا۔ اسے تو میرے امتحان کے لیے بھیجا گیا تھا۔ یہ تو میری جانچ تھی۔ ہائے مجھ سے بہت غلطیاں ہوئیں! تو کیا میں کامیاب ٹھہرایا جاؤں گا ؟ ‘‘
پھر شاہد نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا'' کہاں کی کامیابی ! بس یہی معجزہ ہو جائے کہ تُو فیل ہونے سے بچ جائے اور تیرے مقدر میں رسوائی نہ ہو !‘‘

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, June 28, 2021

انہاں فارسیاں گھر پٹیا



“” ایرانی خفیہ ایجنسی کا نمائندہ حاجی ناصر جو کہ پاکستان میں کاروباری شخصیت بن کر آتا جاتا رہتا ہے، سے رابطہ کیا۔ حاجی ناصر کے ساتھ ایران گیا اور اس نے ایرانی خفیہ ایجنسی کے افسران سے ملاقات کرائی۔ ایرانی خفیہ ایجنسی نے میری حفاظت کی ضمانت دی۔ اور بدلے میں مجھ سے معلومات دینے کا مطالبہ کیا جس پر میں راضی ہو گیا۔ ایرانی انٹیلی جنس کو میں نے کراچی میں آرمڈ فورسز کے اعلیٰ افسران کے نام اور رہائش گاہوں کی معلومات بھی دیں۔ کراچی میں قائم حساس اداروں کے دفاتر اور تنصیبات کے نقشے دیے اور تصاویر دینے کا وعدہ کیا۔ اہم تنصیبات کے داخلی و خارجی راستوں کی نشاندہی کرائی اور سیکیورٹی پر مامور لوگوں کی تعداد، رہائش اور آمد و رفت کا بھی بتایا۔ کراچی اور کوئٹہ کی آرمی کی تنصیبات سے متعلق معلومات دینے کا وعدہ کیا۔“

جاسوسی اور غداری کے یہ اعترافات کسی سول یا ملٹری ملازم کے نہیں۔ یہ کسی عام پاکستانی کے بھی نہیں۔ ایسا ہوتا تو یہ اعترافات کرنے والا آہنی گرفت میں ہو تا۔ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ملک کی سالمیت پر خشخاش کے دانے کے برابر بھی سمجھوتا نہیں کرتے۔ اس ضمن میں کوئی سویلین بچ سکتا ہے نہ کوئی فوجی! یہاں تک کہ بڑے سے بڑے جرنیل کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ سیکیورٹی ادارے اس سلسلے میں بڑے بڑے سے افسر کا نام بھی خفیہ رکھنے کے روادار نہیں نہ کسی کو رعایت دیتے ہیں۔

پاکستان کے معروف ترین اور قدیم ترین انگریزی معاصر نے اپنی تیس مئی 2019 ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل خبر شائع کی

” چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو سینئر ریٹائرڈ آرمی افسروں اور ایک سول افسر کی سزاؤں کی توثیق کر دی۔ ان کے خلاف چارج یہ ہے کہ انہوں نے جاسوسی کی اور حساس اطلاعات غیر ملکی ایجنسیوں کو دیں جو قومی سیکیورٹی کے خلاف ہے۔ یہ بیان آئی ایس پی آر نے دیا ہے۔ افسروں پر مقدمہ پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت چلایا گیا۔ مندرجہ ذیل تفصیل تینوں افراد کے نام اور سزاؤں کو بیان کرتی ہے۔

1۔ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال چودہ سال قید با مشقت
2۔ ریٹائرڈ بریگیڈیر راجہ رضوان۔ سزائے موت
3۔ ڈاکٹر وسیم اکرم ( جو ایک حساس ادارے میں ملازم تھا ) سزائے موت۔ ”

”آئی ایس پی آر نے ایک وڈیو بھی ریلیز کی ہے جس میں میجر جنرل آصف غفور نے دو نوں افسروں کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کی تصدیق کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر ہم نے ان افراد کو پکڑ لیا ہے اور مسئلے کی شناخت کر لی ہے، تو یہ ہماری کامیابی ہے“ ۔

یہ واقعی پاکستان کی کامیابی تھی۔ اس کا اعتراف بھارت نے بھی کیا ہے۔ ابھی جیت آئر مترا ایک سینئر دفاعی محقق ہیں۔ انڈین خارجہ پالیسی بھی ان کا خاص میدان ہے۔ ابھی جیت آئر مترا، مشہور بھارتی تھنک ٹینک Institute of Peace and Conflict Studies میں سینئر ریسرچ فیلو ہیں۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے جب یہ تینوں مجرم پکڑ لیے اور سزاؤں کا اعلان کیا تو ابھی جیت نے واضح طور پر پاکستان کی تعریف کی۔ ان کے الفاظ دیکھیے

” اس میں ( یعنی پاکستان کے اس ایکشن میں) بھارت کے لیے ایک سبق ہے اور وہ ہے ایک طاقتور سیکیورٹی پروگرام! جو ٹاپ کے افسروں کو بھی شک و شبہ سے بالا نہیں سمجھتا اور یہی بہترین اور موثر ترین کاؤنٹر انٹیلی جنس ہتھیار ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بھارت میں ’سروس وفاداری‘ اور وی آئی پی کلچر، جو سرایت کر چکا ہے، ایسا نہیں ہونے دیتا“ ۔

آپ نے دیکھا کہ ہمارا مضبوط نظام سینئر سے سینئر اور بڑے سے بڑے عسکری یا سول شخصیت کی غداری کو نہیں برداشت کرتا۔ بھارت تک نے ہمارے اس سسٹم کی تعریف کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس تحریر کی ابتدا میں جو اعترافی بیان عزیر بلوچ کا ہے اس پر اسے اور اس کے سہولت کاروں کو کیا سزا ملے گی؟ ملے گی یا نہیں؟ یہ انفارمیشن اگرچہ بالکل نئی نہیں ہے مگر پرسوں کے تمام اخبارات میں یہ اعترافات ایک بار پھر تفصیل سے شائع ہوئے ہیں۔ جارج آرویل کا یہ قول اب تو مشہور عالم ہو چکا ہے اور کچھ کچھ پامال بھی۔ کہ سب برابر ہیں مگر کچھ زیادہ برابر ہیں۔ بے یقینی کی کیفیت اس لیے ہے کہ ہمارے ہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بالخصوص جب بڑے لوگوں کے ساتھ کنکشن ہو۔

اس سے پہلے بھارت میں ایک صاحب نے پاکستان کے خلاف زہر بکھیرا اور دل کھول کر بکھیرا۔ یہ نومبر 2004 کی بات ہے۔ ملک کی قسمت کہ اس وقت ان صاحب کا کنکشن بڑے لوگوں کے ساتھ تھا۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ زہریلی تقریر کے بعد پاکستانی سفارت خانے کو یہ حکم بھی موصول ہوا کہ ان صاحب کے اعزاز میں ضیافت کا انتظام بھی کیا جائے! واہ! آسمان بھی کیا کیا انہونیاں دکھاتا ہے۔ عزیر بلوچ نے ہماری عسکری تنصیبات، آرمی افسروں کی تفصیلات اور دیگر حساس معلومات ایک دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی کو فراہم کیں۔ اس بھیانک جرم کا وہ خود اقرار کر رہا ہے! کہیں ایسا نہ ہو کہ جو اسے استعمال کرتے رہے، اسے بچا لے جائیں!

یہ جو اوپر عرض کیا ہے کہ ہمارے ہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے تو اس میں رمق بھر شائبہ نہیں۔ نہ صرف یہ کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، بلکہ جو نہیں ہو سکتا وہ بھی ہو جاتا ہے۔ کچھ دنوں سے ہم ایک صحافی کا وی لاگ دیکھ رہے تھے۔ آرا سے اختلاف تو ہوتا ہی ہے مگر اب تازہ ترین خبروں کے لیے سوشل میڈیا کی طرف دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ وی لاگر صاحب اچھے خاصے معقول سوشل میڈیا پرسن معلوم ہوتے ہیں۔ متین اور سنجیدہ! گفتگو میں ادبی ٹچ بھی ہے۔ بیچ بیچ میں پنجابی کے دلچسپ محاورے بھی ٹانکتے ہیں جس سے گفتگو دلچسپ ہو جاتی ہے، موثر بھی اور کچھ کچھ زعفران زار بھی۔ مگر ساری ثقاہت دھری کی دھری رہ گئی جب تین دن پہلے ایک ایسے نام نہاد مفتی کا انٹرویو لے رہے تھے جسے مفتی کہنا اس باعزت لقب کی توہین ہے۔ کبھی کسی خواجہ سرا سے نکاح، جہیز اور حق مہر کے معاملات طے کر رہا ہے اور کبھی کسی لڑکی سے تھپڑ کھا رہا ہے۔

ایسے شخص کی پروجیکشن اپنے اچھے بھلے معتبر وی لاگ کے ذریعے کر دی۔ گویا ریٹنگ کا ساہوکارہ الیکٹرانک میڈیا سے سفر کرتا ہوا سوشل میڈیا تک بھی آ پہنچا ہے۔ ایک لڑکا دو دن ایران کیا رہا، آپے سے باہر ہو گیا۔ گھر واپس آیا تو بیمار پڑ گیا۔ آب آب پکارتا رہا مگر بیچاری ماں کو کیا پتہ تھا کہ آب کیا ہوتا ہے۔ پیاس سے مر گیا تو ماں نے وہ جملہ کہا جو زندہ جاوید ہو گیا۔ آب آب کریندا مویا بچڑا، انہاں فارسیاں گھر پٹیا! اس ریٹنگ نے بھی خوش گمانیوں کے ہنستے بستے گھر اجاڑ دیے۔ اب تو ریٹنگ ہی سٹیٹس سمبل ہے۔ یعنی گھوڑا اور پرچم! سب اس ریٹنگ کے پیچھے یوں دوڑ رہے ہیں جیسے اسی میں کامیابی ہے۔ مگر کامیابی اور وہ بھی ایسی! مل بھی گئی تو پھر کیا! نظیر اکبر آبادی یاد آ گئے

گر تاج سر پہ رکھ کر افسر ہوا تو پھر کیا
اور بحر سلطنت کا گوہر ہوا تو پھر کیا

ماہی، علم، مراتب، پر زر ہوا تو پھر کیا
نوبت، نشاں، نقارہ، در پر ہوا تو پھر کیا

سب ملک سب جہاں کا سرور ہوا تو پھر کیا!



بشکریہ۔ ہم سب 

Thursday, June 24, 2021

کیا حارث سکّہ اچھال کر فیصلہ کرے گا؟


حارث میرا بچپن کا دوست ہے۔ یہ کئی برس پہلے کی بات ہے جب ایک دن وہ غصے میں آ گیا۔ اس سے پہلے میں نے اسے اتنا غضبناک کبھی نہ دیکھا تھا۔ بولے جا رہا تھا۔
جب بھی کوئی کام کرنے لگو، بجلی چلی جاتی ہے۔ تنخواہ ہے کہ بیس تاریخ کو وفات پا جاتی ہے۔ بیس سال ہو گئے ملازمت کرتے، تا حال دور دور تک کوئی امکان نہیں کہ چھت اپنی ہو جائے۔ سرکاری ہسپتال جائیں تو کتوں‘ بلیوں جیسا سلوک ہوتا ہے۔ پرائیویٹ کلینک جائیں تو کھال کھینچ کر تجوری میں ڈال لیتے ہیں۔ یہ کیسا ملک ہے یار؟
وطنِ عزیز کے بارے میں اس نے نازیبا گفتگو کی۔ دوسرے دن وہ ایک کنسلٹنٹ کے پاس گیا جو امیگریشن کے شعبے میں تھا۔ اس کے بعد حارث گویا ایک گھمن گھیری میں آ گیا۔ اس نے رات دیکھا نہ دن! بارش دیکھی نہ دھوپ۔ گرمی دیکھی نہ جاڑا۔ امیگریشن والا کنسلٹنٹ کہتا: فلاں دستاویز درکار ہے۔ حارث اس دستاویز کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس نے کچہریوں، بینکوں، یونین کونسلوں، تھانوں، اور نہ جانے کہاں کہاں کے چکر لگائے۔ بارہا اپنے آبائی گاؤں گیا۔ پٹوار خانوں کی خاک چھانی۔ چھ ماہ میں اس نے کنسلٹنٹ کے سارے تقاضے پورے کر دیے۔ ڈھیر ساری فیس ادا کی۔ ڈیڑھ سال مزید گزرے اور اسے امریکہ کا ویزا مل گیا۔ لمبی چوڑی شرطیں تھیں۔ پہلے گرین کارڈ ملے گا۔ پھر شہریت مل جائے گی۔ قصہ کوتاہ، ایک ٹھٹھرتی صبح تھی جب حارث اپنے نئے وطن روانہ ہو گیا۔ میں بھی اس کے رشتے داروں کے ہمراہ ایئر پورٹ پر اسے رخصت کرنے کے لیے موجود تھا۔ فرط مسرت سے اس کا چہرا دمک رہا تھا۔
یہ ہماری جوانی کی شام تھی اور ادھیڑ عمری کی صبحِ کاذب! اس کے جانے کے بعد میں بھی لیل و نہار کی چکی میں پستا رہا۔ وہ بھی وہاں جا کر جدوجہد میں پڑ گیا۔ کئی اَوکھی (Odd) نوکریاں بھی اسے کرنا پڑیں۔ بہر طور آہستہ آہستہ وہ جگہ پکڑتا گیا۔ اس کے حالات بہتر ہوتے گئے۔ ایک دن اس نے خوشخبری سنائی کہ اسے شہریت مل رہی ہے۔ ایک تقریب ہوئی اور اس نے امریکی شہریت کا حلف اُٹھا لیا۔ اس نے قسم اٹھا کر عہد کیا کہ میں حلفاً اعلان کرتا ہوں کہ میں قطعیت کے ساتھ اور پوری طرح، ایسے کسی بھی غیر ملکی شہزادے، حکمران، ریاست یا خود مختار ملک کو، جس کی میں اب سے پہلے رعایا یا شہری تھا، چھوڑتا ہوں، ترک کرتا ہوں اور اس سے لا تعلق ہوتا ہوں۔
میں نے اسے مبارکباد تو دی مگر سوچتا رہا کہ کیا اس نے پاکستان کو Renounce and abjure کرنے کے لیے قسم کھا لی؟؟ یہی دو لفظ حلف میں استعمال ہوئے تھے۔ میری قلاش لائبریری میں جتنی لغات تھیں، ساری کھنگال ڈالیں۔
Renounce کا مطلب لکھا تھا: لا تعلق ہونا، دست بردار ہونا۔ چھوڑ دینا یا ترک کر دینا۔ رد کر دینا۔ پھینک دینا۔ نامنظور، مسترد کر دینا، طلاق دے دینا۔ انکار کرنا۔ Abjure کے معنی لکھے تھے: حلفاً دست بردار یا منکِر ہونا۔ قسم کھا کر انکار کرنا۔ حلفاً مسترد کرنا۔ با ضابطہ انکار کرنا، تائب ہونا، ترک کرنا، دست کَش ہونا، توبہ کرنا۔
موجودہ حکومت حارث کو اجازت دے رہی ہے کہ پاکستان میں انتخابات ہوں تو وہ بھی آ کر اپنی پسند کے، قومی اور صوبائی اسمبلی کے، امیدواروں کو ووٹ دے۔ تو کیا حارث اس ملک میں آ کر ووٹ ڈالے گا جسے، وہ حلفاً مسترد کر چکا ہے؟ جس سے لا تعلق ہو چکا ہے؟
جس سے دست برادر ہو چکا ہے؟ حارث امریکی شہری ہے۔ آج اگر وہ حلف اٹھا کر امریکہ سے لا تعلق ہو جائے، امریکہ سے دست کَش ہو جائے اور امریکہ کو مسترد کر دے، تو کیا اسے امریکی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت ملے گی؟ یقینا نہیں! تو پھر کیا پاکستان ایسا ہی بے وقعت ملک ہے کہ کل آپ اسے مسترد کریں اور آج اس کی حکومت سازی میں دخل دینے لگیں؟ کیا پاکستان کی کوئی عزت نہیں؟ کیا پاکستانی عزت نفس سے اس قدر محروم ہو چکے ہیں کہ پاکستان سے لا تعلقی کا حلفاً اعلان کرنے والوں کو ووٹ ڈالتا دیکھیں گے؟
حارث چالیس سال سے امریکہ میں رہ رہا ہے۔ اسمبلی کے ممبر نے، حکومتی پارٹی نے، حکومت نے جتنے انتخابی وعدے کیے تھے، وہ پاکستان کے بارے میں تھے۔ امریکہ کے بارے میں نہیں تھے۔ یہ میں جانتا ہوں کہ پارٹی نے کون کون سے وعدے پورے کیے؟ یہ مجھے معلوم ہے کہ جس ایم این اے اور جس ایم پی اے کو میں نے ووٹ دیے تھے، اس نے میرے ساتھ، میرے شہر کے ساتھ، میرے ضلع کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا ہے؟ میں اس برتاؤ کی بنیاد پر اس بار اسے ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کروں گا! مگر حارث کس بنیاد پر ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرے گا؟ کیا اس کا سابقہ یہاں کی گرانی، یہاں کی ٹریفک، یہاں کی بے روزگاری، یہاں کی چوریوں، یہاں کی وارداتوں، یہاں کی سڑکوں، یہاں کے تھانوں، یہاں کی کچہریوں، یہاں کے گیس، بجلی اور ٹیلی فون کے محکموں سے پڑا ہے؟ کیا حارث کو معلوم ہے کہ میرے گھر کے سامنے جو اسلام آباد ایکسپریس وے گزر رہی ہے، اس کی تعمیر و توسیع کے لیے گزشتہ حکومت نے دس ارب روپے الاٹ کیے تھے جو موجودہ حکومت نے آ کر واپس لے لیے۔ نتیجہ یہ کہ میرے سمیت خلق خدا دھکے کھا رہی ہے اور ذلیل و رسوا ہو رہی ہے! جہلم‘ چکوال اور گوجر خان سے لے کر فیض آباد تک سینکڑوں بستیوں کے لاکھوں مکین جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہے ہیں۔ کیا حارث کو معلوم ہے کہ میرٹ کے وعدوں کے باوجود اس حکومت نے سول ایوی ایشن کا سربراہ ایسے فرد کو تعینات کیا‘ جس نے اپلائی کیا نہ انٹرویو دیا جبکہ چھ سو درخواست دہندگان اور اٹھارہ شارٹ لسٹڈ امیدوار زخم چاٹ رہے ہیں؟ کیا حارث کو معلوم ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنے پسندیدہ افسر کو ایک سال پہلے ریٹائر کیا اور ایک زبردست پوسٹ پر لگا دیا جبکہ کئی ریٹائرڈ افسران دستیاب تھے؟ کیا حارث کو معلوم ہے کہ ایک خاص صوبے میں اے سی، ڈی سی، اور کمشنر کی اسامیاں، مبینہ طور پر، قسطوں پر بِک رہی ہیں۔ کئی ٹاک شو اور کئی وی لاگ اس پر شاہد ہیں۔ کوئی تردید نہیں ہو رہی۔ کیا حارث جانتا ہے کہ ایک حکمران نے سرکار کے پیسے سے بنے ہوئے ہسپتال کا نام اپنے والد کے نام پر رکھا ہے اور یہی کام جب شریف برادران کرتے تھے تو یہی لوگ ان کی مذمت کرتے تھے؟ کیا حارث کو یاد ہے کہ کابینہ کی تعداد سترہ تک محدود کرنے کا عہد علی الاعلان کیا گیا تھا اور اب یہ تعداد نصف سنچری تک پہنچ چکی ہے؟ کیا حارث کو معلوم ہے کہ جتنے مشیر بر طرف کیے گئے، کسی ایک کو بھی سزا نہیں دے گئی۔ بے قصور تھے تو بر طرف کیوں کیے گئے؟ قصور وار تھے تو ان کے خلاف کیا کیا گیا؟ کیا حارث کو خبر ہے کہ تین سال ہو گئے، سول سروس ریفارمز کی الف بے سامنے نہیں آئی‘ اور جو صاحب اس کام پر مامور ہیں، وہ یہی کام جنرل مشرف صاحب کے زمانے میں بھی کرتے رہے جس کا کوئی نتیجہ تب بھی نہیں نکلا تھا۔
مجھے حارث سے پوچھنا ہے کہ یہاں کی کارکردگی، یہاں کی گورننس، یہاں کی معیشت اور یہاں کی وعدہ وفائی کا تو اسے کچھ معلوم نہیں کیونکہ اس کا سامنا تو امریکی حکومت کی کارکردگی، امریکی گورننس، امریکی معاشی پرفارمنس اور امریکی وعدہ وفائی سے ہے۔ تو پھر کیا وہ پاکستان میں ووٹ سکہ اچھال کر، ٹاس کی بنیاد پر دے گا؟؟

Tuesday, June 22, 2021

پاکستان کیلئے احمد شاہ مسعود کی ’’ خدمات”



وزیر اعظم تو معصوم ہیں۔ مگر کیا سیکرٹری وزارتِ خارجہ کو بھی نہیں معلوم کہ احمد شاہ مسعود کون تھا ؟
احمد شاہ مسعود کے بھائی ولی مسعود نے وزیراعظم عمران خان سے فرمائش کی کہ اسلام آباد کی کسی شاہراہ کو احمد شاہ مسعودکے نام منسوب کر دیجیے۔وزیر اعظم نے ہامی بھر لی۔ چلیے ! اسے رسمی تواضع سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ مگر کیا سیکرٹری وزراتِ خارجہ بھی نہیں جانتے تھے کہ بھارت ‘ احمد شاہ مسعود کو فنڈز اسی ولی مسعود کے ذریعے فراہم کرتا تھا؟ کیا وزارتِ خارجہ کا کام صرف یہ تھا کہ تجویز وزارتِ داخلہ کو بھیج دے ؟ کیا وزارتِ خارجہ محض ڈاکخانہ ہے ؟ ارے بھائی! آپ ایک طویل تجربے کے بعد وزارت ِخارجہ کے مدارالمہام مقرر ہوئے ہیں۔ یہ آپ کا فرضِ منصبی تھا کہ وزیراعظم کی خدمت میں فوراً ایک نوٹ بھیجتے جس میں تفصیل سے بتاتے کہ احمد شاہ مسعود آخر وقت تک بھارت کے ساتھ یک جان دو قالب رہا۔ اور جب بھارت کی حکومت نے تاجکستان میں تعینات بھارتی سفیر موتھو کمارسے پوچھا کہ احمد شاہ مسعود کی مدد کر کے بھارت کو کیا ملے گا ؟ تو موتھو کمار نے جواب دیا تھا کہ''احمد شاہ مسعود اُن سے لڑ رہا ہے جن سے ہمیں لڑنا چاہیے ! جب مسعود طالبان سے لڑتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان سے لڑتا ہے ‘‘۔
احمد شاہ مسعود اور بھارت کی خفیہ داستانِ محبت کسی پاکستانی ذریعے نے فاش نہیں کی۔یہ کہانی تو خود بھارت ہی کے مشہور و معروف اخبار '' دی ہندو‘‘ نے بتائی اور تفصیل سے بتائی! لگتا ہے کہ وزارتِ خارجہ کے موجودہ براؤن بابو اخبارات میں صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے کس ملک میں سیٹل ہوں گے ؟ نیویارک میں فلیٹ کتنے میں بک رہے ہیں اور یہ کہ ریٹائر منٹ کے بعد وہ کس مغربی شہر میں قیام فرما ہوں گے۔ واہ صاحب واہ ! کیا بے نیازی ہے ! اور کیا تنزل ہے ! کہاں صاحبزادہ یعقوب اور آغا شاہی جیسے نابغے! اور کہاں آج کی وزارتِ خارجہ ! قریب کے زمانے میں بھی شمشاد احمد‘ توحید احمد مرحوم‘ جاوید حفیظ اور کامران نیاز جیسے ماہرین موجود تھے جو اپنی ذمہ داریاں سمجھتے تھے اور نبھاتے تھے۔ مگر آج ؟ آج تو جگر کے بقول ؎
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
اب دل تھام کر سنیے روزنامہ ''دی ہندو ‘‘ کیا بتاتا ہے ! یہ ستمبر1996ء کی بات ہے جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا۔ ٹھیک انہی دنوں تاجکستان میں تعینات افغان نمائندے امراللہ صالح نے بھارتی سفیر سے رابطہ کیا کہ احمد شاہ مسعود ملنا چاہتا ہے۔ تاجکستان میں تعینات اس بھارتی سفیر کا نام موتھو کمار تھا۔ موتھو کمار نے فوراً اپنی حکومت سے پوچھا۔ حکومت نے اجازت دے دی۔تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں احمد شاہ مسعود کے تصرف میں ایک مکان تھا جس کی دیکھ بھال صالح ریگستانی کرتا تھا۔ اس مکان میں احمد شاہ مسعود اور بھارتی سفیر کی ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ احمد شاہ مسعود انگریزی میں گفتگو نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے امر اللہ صالح ہی ترجمانی کا کام کرتا تھا۔ یہی امراللہ صالح بعد میں افغان انٹیلی جنس کا سربراہ بنا۔ پہلی ملاقات میں مسعود نے ڈرامائی طریقے سے اپنی چترالی ٹوپی میز پر رکھی اور کہا کہ جتنی جگہ یہ ٹوپی گھیرتی ہے بس اتنی جگہ مجھے درکار ہے کہ اپنی بیس بناؤں اور لڑوں۔ پھر اس نے واشگاف الفاظ میں بھارتی مدد چاہی اور مطلوبہ ''اشیا‘‘کی فہرست بھی پیش کر دی۔ اسی فہرست کے جواب میں بھارت نے پوچھا کہ بدلے میں بھارت کو کیا ملے گا۔ بھارتی سفیر کا جواب ہم اوپر نقل کر چکے ہیں۔ بھارت میں اُس وقت جسونت سنگھ وزیر خارجہ تھا۔ اس نے مسعود کو یقین دہانی کرائی کہ اس کے مطالبات پورے کیے جائیں گے؛ چنانچہ شمالی اتحاد کو بھارتی مدد شروع ہو گئی۔ اور یہ وسیع پیمانے پر تھی۔ وردیاں‘ آرڈیننس‘مارٹر‘ کلاشنکوفیں‘ چھوٹے ہتھیار‘ ڈبوں میں بند خوراک‘ کپڑے‘ ادویات‘ سرما کا سامان‘ سب کچھ بھیجا جانے لگا، جہاں تک پیسے کی بات تھی تو پیسہ مسعود کے بھائی ولی مسعود کے ذریعے دیا جاتا تھا جو لندن میں مقیم تھا۔سامان باقاعدگی سے آنے لگا۔ دوشنبہ میں سامان پہنچتا۔ تاجکستان کے کسٹم حکام فوراً کلیئر کرتے اور پھر فرخور پہنچا دیا جاتا۔ فرخور کی فضائی بیس پر عملاً بھارت کا کنٹرول تھا۔ تاجکستان کا یہ شہر افغان سرحد پر واقع ہے۔ مسعود کے دس ہیلی کاپٹر بھی یہیں تھے۔ اس اثنا میں بھارت نے بھی دو جنگی ہیلی کاپٹر مسعود کو دیے۔ شمالی اتحاد کے زخمی فوجی فرخور ہی لائے جاتے۔ جن زخمیوں کو نسبتاً طویل علاج کی ضرورت ہوتی انہیں فوراً سے پیشتر ویزا دے کر بھارت روانہ کر دیا جاتا‘ باقی کیلئے فرخور ہی میں بھارت نے چوبیس بیڈ کا ہسپتال بنا رکھا تھا۔ اس میں دو آپریشن تھیٹر تھے۔ آئی سی یو کیلئے آٹھ بیڈ اس کے علاوہ تھے۔ ہسپتال میںچھ ڈاکٹر اور عملے کے چوبیس افراد تعینات تھے۔اس سارے طبی منصوبے پربھارت پچھتر لاکھ ڈالر خر چ کر رہا تھا۔ تاجکستان کی عینی ایئر بیس بھی بھارت کے پاس ہے۔یہاں بھارتی فضائیہ کا گروپ کیپٹن‘ بیس کا انچارج ہے۔یہ بیس پہلے روسیوں کے پاس تھی۔ ان کے انخلا کے بعد بھارت نے اس کی توسیع کی۔ مسعود پر جب قاتلانہ حملہ ہوا تو اسے فرخور ہی میں لایا گیا۔ موتھو کمار اس وقت تک بیلا روس کے دارالحکومت منسک میں تعینات ہو چکا تھا۔ ریگستانی نے موتھو کووہیں اطلاع دی۔ اس دن موتھو کی شادی کی سالگرہ تھی اور اس نے ایک ضیافت کا بندوبست کر رکھا تھا۔ مسعود پر حملے کی خبر پہنچی تو موتھو نے ضیافت کینسل کر دی۔اپنی موت سے تین ماہ پہلے مسعود بھارت گیا جہاں وہ چار دن ٹھہرا۔ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب '' اے کال ٹَو آنر ‘‘ میں اس دورے کے بارے میں لکھا کہ بہت سخت احتیاط کی ضرورت تھی کیونکہ افغانستان یا پاکستان سے کوئی بھی دہشت گرد آکر مسعود پر حملہ کر سکتا تھا۔بھارت کے ساتھ قربت کا یہ احوال صرف احمد شاہ مسعودکے حوالے سے ہے ورنہ مجموعی طور پر بھارت نے شمالی اتحاد کی جس قدر مدد کی ‘ وہ اس سے کہیں زیادہ تھی اور یاد رہے کہ یہ مدد بھار ت نے اس لیے نہیں کی کہ شمالی اتحاد اس کی پھپھی کا بیٹا تھا۔ یہ مدد صرف اور صرف پاکستان دشمنی میں کی گئی۔
سیکرٹری خارجہ نے شاہراہ والا معاملہ مبینہ طور پر ‘ وزارتِ داخلہ کو بھیج دیا۔ وزارتِ داخلہ نے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو ارسال کر دیا۔ وہ تو بھلا ہو ترقیاتی ادارے کا جس نے یہ قانونی نکتہ سمجھانے کی کوشش کی کہ شاہراہ صرف کسی سربراہ ریاست کے نام ہی منسوب ہو سکتی ہے اور احمد شاہ مسعود کبھی کسی ریاست کا سربراہ نہیں رہا؛ چنانچہ اب اگر ولی مسعود کی ''معصومانہ ‘‘ خواہش کی تکمیل نہ ہو سکی تو اس کا کریڈٹ سی ڈی اے کو جائے گا‘ ورنہ وزارتِ خارجہ نے تو کوشش کی ہے کہ مسعود کا نام یہاں زندہ جاوید ہو کر رہے ! قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ایم این اے غلام علی تالپور نے بجا طور پر پوچھا کہ را کے ساتھی احمد شاہ مسعود کے نام تو سڑک کررہے ہو ‘ کیا پاکستان کے اتحادی ملا عمر کے نام بھی کوئی شاہراہ کی ہے ؟
ویسے ایک بات اور ہے۔انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی سڑک کا نام احمد شاہ مسعود کے نام پر رکھا جائے تو موتھو کمار اور جسونت سنگھ کے ناموں پر بھی غور کر لیا جائے کیونکہ پاکستان دشمنی میں یہ دونوں بھی مسعود کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, June 21, 2021

ہم شریف لوگ ہیں



پیڑ ہوں تو ان پر پھل بھی لگتے ہیں۔ پھل لگیں تو پتھر بھی آتے ہیں۔ اسی طرح جہاں بیٹیاں ہوں وہاں رشتے بھی آتے ہیں۔ بخت اچھا ہو تو اچھے رشتے آتے ہیں۔ کبھی کبھی ماں باپ خود ہی راستے کی دیوار بن جاتے ہیں۔ بہت زیادہ چھان بین! کُرید! عقل مند ماں باپ شرافت دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد روزگار! باقی سب چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں!
ہمارے دوست چوہدری رشید بھی ایک بیٹی کے باپ ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو بیٹی کو قدرت کا انعام سمجھتے ہیں اور اللہ کی رحمت! کیا بد قسمتی ہے کہ ابھی تک اس معاشرے میں کچھ بد قسمت بیٹی کو بوجھ گردانتے ہیں اور لڑکوں سے کم تر! وراثت میں بیٹی کو حصہ دینے کا وقت آئے تو کہیں گے: اس طرح تو جائیداد غیروں میں چلی جائے گی۔ بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے تو کہیں گے: تم نے کون سی نوکری کرنی ہے۔ جدید سنگا پور کے معمار لی کوان ییو نے سنگا پور کے لوگوں سے کہا تھا: تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں بلند پایہ قوم دوں گا۔ جو بد نہاد، بیٹی کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلاتے کہ کون سی نوکری کرنی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم اس لیے نہیں دلوانی چاہیے کہ انہوں نے ملازمتیں کرنی ہیں۔ خدا کے بندو! اعلیٰ تعلیم اس لیے ضروری ہے کہ وہ اچھی مائیں بن سکیں۔ ملازمت ضروری نہیں مگر اچھی ماں بننا ضروری ہے۔ کتنی ہی ایسی مثالیں ہمارے ارد گرد پائی جاتی ہیں جن میں سگے بھائیوں کی اولادوں میں اس لیے زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے کہ ایک کے گھر میں بیوی تعلیم یافتہ تھی اور دوسرے کے گھر میں بیوی ان پڑھ تھی یا نیم تعلیم یافتہ! سعدی نے کہا تھا: ؎
باران کہ در لطافتِ طبعش خلاف نیست
در باغ لالہ روید و در شورہ بوم خس
بارش کی فیاضی میں تو کوئی شک نہیں‘ مگر یہ دیکھنا ہو گا کہ بارش برستی کہاں ہے؟ وہی بارش باغ میں پھول اگاتی ہے مگر بنجر زمین میں جھاڑ جھنکار!
اب یہ ہماری سوچ کا معاملہ ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو پھولوں سے بھر رہے ہیں یا خس و خاشاک سے!
کچھ عرصہ ایک بہت معتبر اور با حیثیت کلب کے انٹرویو بورڈ میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ کلب کی ممبرشپ کے سلسلے میں میاں بیوی دونوں انٹرویو کے لیے پیش ہوتے تھے۔ ایسے انٹرویو صرف ملاقات کی خاطر ہوتے ہیں جن میں دیکھا جاتا ہے کہ طور اطوار کیسے ہیں اور رنگ ڈھنگ کیسا ہے۔ کچھ جوڑے ایسے تھے کہ آنکھوں کو یقین نہیں آتا تھا۔ بیوی ڈاکٹر تھی تو نیم تعلیم یافتہ میاں زمینیں اور جائیداد بیچنے کا کام کرتا تھا۔ بیوی پروفیسر تھی تو میاں جی محض فیوڈل! کمرے میں داخل ہوئے تو فاتح کی طرح! کرسی پر بیٹھے تو ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر نیم دراز ہونے کی کوشش کی اور پھر چھت کی طرف دیکھنے لگے۔ رشتہ داری کی ترجیح اور ذات برادری کا التزام بہت سی لڑکیوں اور بہت سے لڑکوں کی زندگیاں تباہ کر دیتا ہے۔ ہمیں ہدایت تو یہ کی گئی تھی کہ رشتے کُفو میں کرو۔ (یہ لفظ وہی ہے جو ہم سورہ اخلاص میں بھی پڑھتے ہیں)۔ اس کا مطلب ہے برابری یعنی مناسبت یا موافقت یا مطابقت! اسے سازگاری بھی کہہ سکتے ہیں‘ مگر ہم نے کفو کو محض ذات برادری تک محدود کر دیا۔ اس ضمن میں جامعہ اشرفیہ کا ایک فتویٰ نظر سے گزرا جس میں بہت متوازن اور مناسب رہنمائی کی گئی ہے کہ... کفو کے معنی یہ ہیں کہ مرد، پیشے، ذہن، دیانت اور مال میں بیوی کے برابر ہو... اب لڑکی اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور چچا زاد ہل چلاتا ہے تو کیا شادی مناسب ہو گی؟ ایک ہی خاندان کے دو گھروں کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہو سکتا ہے۔ لڑکے نے ڈاکٹر کے گھر میں پرورش پائی۔ لڑکی نے مستری کے گھر میں! مستری ہونا کوئی عیب نہیں۔ مستری بھی کسبِ حلال کرتا ہے اور اللہ کو محبوب ہے‘ مگر دونوں گھروں کے ماحول، رہن سہن، معاشرت اور معیارِ زندگی میں بہت فرق ہو گا۔ زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے، رشتے داری کی وجہ سے لڑکے کو یہاں باندھ دینا اسے زندگی بھر صحبت نا جنس میں قید کر دینے کے مترادف ہو گا۔ اسی طرح یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ملازمت پیشہ (سروس سیکٹر کے) لوگوں اور کاروباری طبقے میں موافقت، عام طور پر، نہیں ہوتی۔ دونوں طبقوں کی نفسیات میں بہت فرق ہے اور سوچنے کا انداز الگ لگ ہے۔ عسکری خاندان ایک دوسرے کو زیادہ راس آتے ہیں۔ ایک کرنل صاحب، ان کے سمدھی، اور سمدھی کا بیٹا یعنی کرنل صاحب کا داماد، تینوں ایک ہی یونٹ سے تھے اور یہ ان کے لیے بجا طور پر ایک خوش آئند عامل تھا۔ سول اور خاکی بیوروکریٹ میں بہت فرق ہے۔ سول بیوروکریٹ کا اپنے ماتحت کے ساتھ جذباتی تعلق کم ہی دیکھنے میں آتا ہے مگر ایک ہی یونٹ کا جرنیل اور سپاہی آپس میں مضبوط بندھن رکھتے ہیں۔ اس کالم نگار نے کئی بار دیکھا کہ جرنیل، سپاہی کے کام کے لیے کوشش کر رہا ہے کیونکہ دونوں کی مادری یونٹ ایک ہی تھی۔
چوہدری رشید کی طرف واپس آتے ہیں۔ صنعت کار! اعلیٰ تعلیم یافتہ!! ٹیکس پورا دیتے ہیں۔ اپنے ملازمین کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔ بچوں کو دیانت کا سبق پڑھایا۔ آداب اور تمیز سکھائی۔ اکل حلال کے فوائد اور اکل حرام کے مضمرات سمجھائے۔ بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ صنعتی امور میں وہ بھائی کے شانہ بشانہ پورے اعتماد اور کامیابی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ اس کے لیے رشتے بہت آئے مگر ان میں سے اکثر چوہدری صاحب کو بے جوڑ لگے۔ بیٹی سے بھی اس سلسلے میں ضرور مشورہ لیتے۔ انہیں اس کی پسند، نا پسند کا پورا خیال تھا اور بیٹی کو باپ کے انتخاب پر پورا اعتماد! کچھ خاندان مالی لحاظ سے ہم مرتبہ تھے مگر تعلیم کے حوالے سے پیچھے تھے۔ کچھ لڑکے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے مگر خاندانی پس منظر موافق نہ تھا۔ کچھ کی مالی حیثیت بہت کمزور تھی۔ ایسے داماد احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور قسم قسم کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔ بالآخر ایک ایسا پروپوزل آیا جو ہر لحاظ سے مناسب معلوم ہوا۔ ذات برادری بھی ایک ہی تھی۔ مالی لحاظ سے بھی برابری تھی۔ لڑکا اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ لڑکی سے تھوڑا زیادہ ہی! یہ فرق بھی مناسب تھا۔ چوہدری صاحب جہاندیدہ انسان تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس معاشرے میں، شوہر زیادہ تعلیم یافتہ ہو تو بیوی تو برداشت کر لیتی ہے مگر بیوی زیادہ تعلیم یافتہ ہو تو مرد کو، اکثر و بیشتر، سبکی کا احساس رہتا ہے جس کے نتائج بیوی کے حق میں زیادہ خوش گوار نہیں ثابت ہوتے۔ تمام کوائف سے مطمئن ہو کر، چوہدری صاحب نے، رشتہ لانے والے دوست کو تجویز پیش کی کہ لڑکے والے آئیں تا کہ بات چیت اور ملاقاتوں کا سلسلہ آگے چلے۔ مقررہ دن آیا تو چوہدری رشید نے بہت فراخ دلی کے ساتھ، استقبال اور دعوت کا لمبا چوڑا بند و بست کر رکھا تھا جو دونوں خاندانوں کے شایان شان تھا۔ قریبی دوست ہونے کے وجہ سے میں بھی مدعو تھا۔ بات چیت ہو رہی تھی۔ باتوں باتوں میں لڑکے کے باپ نے ذکر کیا کہ ان کا بیٹا اسمبلی کا ممبر بھی ہے۔ یہ سننا تھا کہ چوہدری رشید کے چہرے پر ایک سایہ سا پڑا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر کہا: معاف کیجیے گا‘ ہم شریف لوگ ہیں! یہ رشتہ نہیں ہو سکتا!
پسِ نوشت: اس کہانی کے کردار فرضی ہیں۔ کسی شخص یا واقعے سے مماثلت محض اتفاق ہو گا ۔

Thursday, June 17, 2021

ہمارے کلچر میں ایسا شخص کیا کہلاتا ہے؟

پہلا منظر۔ مسافر غرناطہ سے ٹرین میں بیٹھتا ہے۔ ڈبے میں کل تین افراد ہیں۔ مسافر اور ایک یورپی میاں بیوی۔ منزل بارسلونا ہے۔ تقریبا آٹھ نو گھنٹے کا سفر ہے۔ اس دوران میاں بیوی کھانا کھاتے ہیں اور کافی پیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے، وہ مسافر سے مکمل بے نیازی برتتے ہیں۔ مسافر کھانا کھاتے وقت انہیں دعوت دیتا ہے۔ اپنے تھرموس سے چائے بھی پیش کرتا ہے۔
دوسرا منظر۔ قیام یورپ کے دوران، مسافر کی ایک مصور سے دوستی ہو جاتی ہے۔ یہ مصور، سویڈش زبان کا پروفیسر بھی ہے۔ اس کا تعلق سسلی کے دارالحکومت پالرمو سے ہے۔ کئی مہینے ایک دوسرے سے ملاقاتیں رہتی ہیں۔ اچھے خاصے تعلقات بن جاتے ہیں۔ مسافر پالرمو جانے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔ مصور دوست اپنے گھر ٹھہرانے کی پیشکش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ رہائش کا معاوضہ نہیں لے گا مگر کھانے پینے کے دام دینے ہوں گے۔n
تیسرا منظر۔ مسافر، شام ڈھلے، تاشقند سے ٹرین میں بیٹھتا ہے۔ یہ نائٹ ٹرین سمرقند کے راستے بخارا جاتی ہے۔ ڈبے میں مسافر کے علاوہ ایک ازبک فیملی ہے۔ میاں بیوی اور دو بچے۔ سونے کے علاوہ، سارا وقت یہ خاندان مسافر کی ضیافت میں مصروف رہتا ہے۔ کبھی پھل کھانے پر اصرار کرتے ہیں تو کبھی مرغ روسٹ کھلاتے ہیں۔ نان کا ایک ذخیرہ ان کے ہمراہ ہے۔ خشک پھل وافر مقدار میں ہیں۔ ٹرین میں انتظامیہ کی طرف سے سماوار پڑے ہیں جن میں گرم پانی ہر وقت موجود ہے۔ ازبک پانی نہیں پیتے۔ بغیر دودھ کی چائے پیتے ہیں اور مسلسل پیتے ہیں۔ اپنی چینک میں پتی ڈالیے۔ اوپر، سماوار سے گرم پانی ڈالیے۔ چائے تیار ہے۔ چائے پلا پلا کر اور انواع و اقسام کے پکوان اور میوہ جات بصد اصرار کھلا کھلا کر اس ازبک خاندان نے مسافر کا حشر کر دیا۔
چوتھا منظر۔ مسافر ایک اور موقع پر بخارا سے ٹرین میں سوار ہوا۔ اہلیہ ہمراہ تھیں۔ یہ بھی نائٹ ٹرین تھی۔ ڈبے میں یہ تھے اور ایک روسی میاں بیوی! پورا راستہ روسیوں نے کچھ کھایا نہ ان سے کوئی بات کی۔ انہوں نے آپس میں بھی کوئی بات نہ کی۔ اب یاد نہیں کہ انہوں نے اس اثنا میں ووڈکا نوش کی یا نہیں۔ یہ جب بھی کچھ کھاتے پیتے تو انہیں دعوت دیتے تاہم روسی جوڑے نے یہ تاثر واضح طور پر دیا کہ وہ اپنی خاموشی میں کسی قسم کا خلل پسند نہیں کرتے۔
پانچواں منظر۔ ایک مغربی ملک میں ایک عزیز کے گھر میں چند دن کا قیام تھا۔ ان کے گھر میں ایک سفید فام پلمبر مرمت کا کچھ کام کر رہا تھا۔ سہ پہر کی چائے پیتے وقت، ایک کپ چائے اسے بھی پیش کی گئی۔ حیران ہو کر پوچھنے لگا کہ یہ کیوں؟ بتایا گیا کہ ہم چائے پی رہے ہیں اور آپ گھر میں موجود ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کو پیش نہ کی جائے!
ایسے لاتعداد مناظر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ قارئین کے مشاہدات، یقینا اس سے بھی زیادہ ہوں گے۔ مغرب اور مشرق میں خور و نوش کے حوالے سے زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مہمان نوازی کی اصطلاح مفہوم کے لحاظ سے بہت محدود ہے۔ جب آپ ٹرین یا بس میں ساتھ بیٹھے ہوئے ہم سفر کو اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دیتے ہیں یا گھر میں کام کرنے والے پلمبر یا الیکٹریشن کو چائے پیش کرتے ہیں تو یہ تکنیکی طور پر مہمان نوازی نہیں ہے مگر ہمارے خمیر میں، ہمارے مزاج میں، ہماری اٹھان میں اور ہماری ثقافت میں کسی کے سامنے کچھ کھانے پینے، اور اسے نہ پوچھنے کا کوئی تصور ہی نہیں اور نہ گنجائش ہے۔ مسلمان کو یہ اصول از بر کرایا گیا ہے کہ ایک فرد کا کھانا دو افراد کے لیے کافی ہے۔ گویا آپ نے اپنے کھانے میں دوسرے شخص کو لازماً شامل کرنا ہے۔ مشہور نو مسلم سکالر اور قرآن پاک کے انگریزی میں مترجم، علامہ محمد اسد کو اسلام کی طرف جن محرکات نے کھینچا ان میں مسلمانوں کی یہ عادت بھی شامل تھی۔ وہ صحرائے سینا میں ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ گاڑی ایک سٹیشن پر رکی۔ روٹی، انجیر اور اُبلے ہوئے انڈے بیچنے والے لڑکے اندر آ گئے۔ اسد کے سامنے بیٹھے ہوئے بدو نے ایک روٹی خریدی۔ اس کے دو برابر حصے کیے۔ ایک حصہ انہیں پیش کیا۔ اسد نے اس پیشکش پر تعجب کیا اور روٹی لینے میں تردد کیا‘ بالکل اسی طرح جس طرح سفید فام پلمبر نے پوچھا تھا کہ اسے چائے کیوں پیش کی جا رہی ہے۔ بدو نے، سادہ الفاظ میں انسانیت کا سب سے بڑا اصول بتا دیا... آپ بھی مسافر ہیں‘ میں بھی مسافر ہوں۔ ہم دونوں کا راستہ ایک ہے۔ مغرب کا ایک باشندہ جب دیکھتا ہے کہ دو پاکستانی یا دو ترک یا دو عرب ریستوران میں جھگڑ رہے ہیں۔ ایک مُصِر ہے کہ کھانے کا بل وہ دے گا جب کہ دوسرا اسے نہیں دینے دے رہا‘ ان میں چھینا جھپٹی بھی ہوتی ہے تو وہ اس جھگڑے کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس کے ذہن میں اس جھگڑے کا تصور ہی نہیں۔ اسے تو یہ سکھایا گیا ہے کہ
You pay for yourself. I pay for myself .
تم اپنا بل ادا کرو میں اپنا ادا کروں گا۔ دوستوں کی منڈلی وہاں جب ریستوران میں کھاتی پیتی ہے تو سب اپنا اپنا بل الگ ادا کرتے ہیں۔ اس طریقے کا نام ہی امریکن سسٹم پڑ گیا ہے۔ یہ محاورہ بھی وہاں عام ہے کہ مفت لنچ کوئی نہیں ہوتا۔ یہی مغربی ثقافت کی روح ہے۔ معروف ماہر اقتصادیات کیمپ بیل میک کونن نے تو یہاں تک کہا ہے کہ یہ محاورہ علمِ معاشیات کی کلید ہے!
اب ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ مغرب کا کوئی باشندہ مشرق میں رہ کر مہمان نوازی کی یہ عادت اپنا لے؟ 1800ء سے پہلے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازم ہندوستانیوں میں گھُل مل جاتے تھے۔ کُرتا، انگرکھا، پاجامہ پہنتے تھے۔ پان کھاتے تھے۔ حقہ پیتے تھے۔ قالینوں پر بیٹھتے تھے۔ مقامی عورتوں سے شادیاں کرتے تھے۔ انہیں وائٹ مغل کہا جاتا تھا۔ مگر کیا ضیافتیں بھی کرتے تھے؟ اس بارے میں کوئی سند نظر سے نہیں گزری۔ یہ رچرڈ ولزلے تھا جو وائسرائے بن کر آیا تو سفید فام حاکموں کو حکم دیا کہ مقامی لوگوں سے اپنے آپ کو الگ رکھو تاکہ فاتح اور مفتوح میں فرق برقرار رہے۔ فرانسیسی طبیب، برنئیر، جو شاہ جہان اور اورنگ زیب کے درباروں سے منسلک تھا، اپنے سفر نامے میں ایسا کوئی واقعہ نہیں بیان کرتا کہ اس نے بادشاہ یا امرا کی دعوت کی ہو۔ کم از کم اس کالم نگار کی نظر سے نہیں گزرا۔ ہاں یہ دیکھا ہے کہ جو مسلمان سالہا سال سے مغرب میں رہ رہے ہیں انہوں نے اپنی روایتی مہمان نوازی ہرگز ترک نہیں کی‘ مگر کیا ایسا ہوا ہے کہ کوئی مغرب میں بہت طویل عرصہ رہا ہو، یا عمر کے اُس حصے میں وہاں رہا ہو جو شکل گیر (Formative Phase) ہوتا ہے اور، اہل مغرب کی طرح، چائے کا پوچھتا ہو نہ پانی کا اور نہ کھانے کا؟ ہمارے کلچر میں ایسا شخص کنجوس کہلاتا ہے۔ عربی ادب میں کنجوسوں کے قصے بہت پڑھے پڑھائے جاتے ہیں۔ ایک کنجوس شہد کے ساتھ روٹی کھا رہا تھا کہ ملاقاتی اندر آ گیا۔ اس نے روٹی فوراً چھپا لی مگر شہد نہ چھپا سکا۔ اس کا خیال یہ بھی تھا کہ روٹی کے بغیر یہ شہد نہیں کھائے گا۔ یہی سوچ کر اس سے پوچھا کہ کیا تم روٹی کے بغیر شہد کھاؤ گے؟ ملاقاتی نے کہا ہاں! کھا مر لوں گا۔ با دل نخواستہ کنجوس نے پیالہ اسے تھما دیا۔ ملاقاتی انگلیوں سے شہد چاٹنے لگا اور چاٹتا ہی رہا۔ کنجوس کی حالت غیر ہو گئی۔ کہنے لگا: بھائی صاحب! ذرا رُکیے! شہد دل جلا دیتا ہے۔ ملاقاتی نے جواب دیا درست کہا‘ مگر میرا نہیں یہ تمہارا دل جلا رہا ہے

Tuesday, June 15, 2021

کون سے اعداد و شمار میں لپیٹو گے



کیا دلکش وادی تھی اور کیا بہار آفریں فضا تھی!
چاروں طرف پہاڑ۔ پہاڑوں کی ترائیوں پر سیب کے درخت۔ گھاس سے بھرے میدان میں بکریاں چر رہی تھیں۔ دونوں طرف چشمے تھے۔ ان سے بہتے پانی کی مترنم آواز جیسے جادو جگا رہی تھی۔ ایک درخت کے نیچے گڈریا پتھروں سے ٹیک لگائے بانسری بجا رہا تھا۔ اس کا کتا پاس بیٹھا‘ آنکھیں مُوندے یوں بیٹھا تھا جیسے بانسری سے نکلتے ہوئے زیر و بم کو سمجھتا ہو ! اور کیا عجب! واقعی سمجھتا ہو۔ انسان کو کیا معلوم اس کے علاوہ دیگر حیوانات کو قدرت نے کیا کیا صلاحیتیں اور کیسے کیسے دماغ عطا کیے ہیں۔
گڈریا اپنی زندگی آرام سے گزار رہا تھا۔ جیسا بھی تھا‘ کسی کا محتاج نہ تھا۔ اس کی بکریاں تھیں جن سے وہ امیر تھا۔ اس کا کتا تھا جو دکھ درد میں اس کا ساتھ دیتا تھا۔ اس کی چراگاہیں تھیں‘ سبزہ زار تھے‘ پہاڑ تھے‘ درخت تھے‘ پھل پھول تھے‘ پانی کی فراوانی تھی۔ وہ شام و سحر پروردگار کا شکر ادا کرتا تھا۔ مگر شومئی قسمت ! ہائے افسوس! ایک دن وہ آن پہنچا!
اُس دوپہر ‘ وہ درخت کے سائے میں نیم دراز تھا جب ایک مہنگی‘ جہازی سائز کی لینڈ کروزر چراگاہ کے کنارے آکر رکی۔ اس میں سے ایک جوان اترا‘ پچیس تیس کے پیٹے میں ہو گا۔تازہ ترین فیشن کے سوٹ میں ملبوس! سی کے کی قمیص! باس کی نکٹائی! کلارک کے جوتے! گُچی کے سن گلاسز! ہاتھ میں ڈیلسی کا خوبصورت ‘ سمارٹ بریف کیس! چراگاہ کو پار کرتا وہ گڈریے کے پاس آکر رکا۔
'' سلام ! جناب ! میں اپنی مہارت اور علم کو بروئے کار لا کر آپ کو یہ بتاؤں گا کہ آپ کے پاس کتنی بکریاں ہیں؟ معاوضے میں آپ سے ایک بکری لوں گا ! صرف ایک بکری ! کیا آپ کو یہ معاہدہ منظور ہے ؟‘‘

گڈریے کے چہرے پر حیرت کا تاثر ابھرا۔ اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر رضامندی کا اظہار کر دیا۔ نوجوان نے گاڑی سے فولڈ کی ہوئی کرسی نکالی۔ اس پر بیٹھ کر گود میں لیپ ٹاپ کھولا۔ وہ کئی گھنٹے کام کرتا رہا۔ شام ہونے کو آئی تو اٹھا۔ اس کا چہرہ کامیابی کے خیال سے گلنار ہو رہا تھا۔ اس نے گڈریے کو بکریوں کی تعداد بتائی۔ گڈریے نے بتایا کہ بالکل ٹھیک ! اتنی ہی ہیں! جیسا کہ طے ہوا تھا‘ تم ایک بکری لے لو! نوجوان نے بکری اٹھائی اور گاڑی میں لاد دی۔ جانے لگا تو گڈریے نے کہا کہ میں کوئی معاوضہ لیے بغیر تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو! نوجوان نے کہا ٹھیک ہے۔ بتائیے! گڈریے نے کہا تم ایک کنسلٹنٹ ہو اور ورلڈ بینک سے آئے ہو! نوجوان حیران ہوا اور پریشان کہ بالکل صحیح بتایا ہے ! گڈریے سے پوچھنے لگا کہ یہ خفیہ بات تم کیسے جان گئے ؟ گڈریے نے جواب دیا کہ تین نشانیوں کی وجہ سے ! پہلی نشانی یہ کہ تم بن بلائے آئے ہو ! دوسری نشانی یہ کہ تم مجھے وہ اطلاع دینا چاہتے ہو جو میرے پاس پہلے سے موجود ہے۔ یعنی بکریوں کی تعداد! ظاہر ہے مجھے معلوم ہے میرے پاس کتنی بکریاں ہیں۔ تیسری نشانی یہ کہ تم اس شعبے کا بنیادی علم تک نہیں رکھتے اور چل پڑے ہو کنسلٹنسی کو! اب میرا کتا واپس کرو جسے تم نے بکری سمجھ کر گاڑی میں ڈال لیا ہے !
یہ دردناک کہانی آپ میں سے کچھ نے‘ ہو سکتا ہے‘ پہلے بھی سنی ہو۔ مگر آج پھر اس لیے سنانا پڑی کہ ہم پاکستانیوں کو کبھی کوئی شیخ صاحب تو کبھی کوئی اور صاحب وہ اطلاعات بہم پہنچا رہے ہیں جو ہمیں پہلے سے معلوم ہیں! کبھی اکنامک سروے آف پاکستان کے ذریعے ہمیں ہماری معیشت کا احوال بتایا جاتا ہے۔ کبھی ایک لمبی چوڑی بجٹ تقریر سنائی جاتی ہے۔ کبھی تمام اقتصادی بزرجمہر مل کر پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ سوال جواب ہوتے ہیں جن کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ معیشت بہتری کی طرف رواں ہے۔ فی کس آمدنی میں اتنا اضافہ ہوا ہے۔ شرحِ نمو اتنی زیادہ ہو ئی ہے۔موبائل فونوں کی تعداد یہ ہو چکی اور گاڑیاں اتنی ہو گئیں ! ارے بھئی ! ہم بھی اسی ملک میں رہتے ہیں ! ہم بھی یہیں کے باشندے ہیں ! آج سے نہیں ‘ صدیوں سے اور نسلوں سے یہاں رہ رہے ہیں ! اب کیا آپ ہمیں بتائیں گے کہ ہماری معیشت کیسی ہے ؟ کیا ہے ؟ اورکتنے پانی میں ہے ! آپ ہماری ہی معیشت سمجھانے تشریف لائے ہیں اور وہ بھی ہمیں! تین نشانیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم اپنی معیشت کو بہتر سمجھتے ہیں۔ پہلی نشانی پرسوں کے ایک معروف انگریزی معاصر کے اُس صفحے پر عیاں ہے جو دارالحکومت کی خبروں کے لیے مخصوص ہے۔ ایک بچہ جو یقینا نو دس سال سے زیادہ عمر کا نہیں ہے ‘ پیچ کس سے گاڑی کا کوئی پرزہ کھول رہا ہے۔ نام بچے کا صغیر ہے۔ علاقہ ''ریاست مدینہ‘‘ کے دارالحکومت کا سیکٹر جی سیون ہے۔ بال‘ اس بچے کے ‘گرد سے مٹیالے ہو چلے ہیں۔ ہاتھ اس کے چھوٹے چھوٹے ہیں اور کاربن اور مٹی سے جیسے ان کی اصل رنگت گْم ہو چکی ہے۔ بچہ انتہائی خوبصورت ہے۔ جانے کس کا بیٹا ہے! کس کا پوتا ہے ! صبح سے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں! جس مکینک کی نگرانی میں مشقت کر رہا ہے‘ پتا نہیں وہ کس مزاج اور کس قماش کا ہے ؟ بھلا مانس ہے یا آوارہ ؟ کیسا سلوک کرتا ہو گا!
دوسری نشانی بھی پرسوں کے اخبار ات ہی میں شائع ہوئی ہے۔ یہ نشانی سیکرٹ تھوڑی ہی ہے۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک لاکھوں کروڑوں نے اسے دیکھا ہے‘ اس نشانی نے پہلی نشانی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ نشانی یہ ہے'' اسلام آباد ( نیٹ نیوز) ملک کی ایک اعلیٰ شخصیت دو دن کی چھٹیاں گزارنے سیاحتی مقام نتھیا گلی پہنچ گئی۔ ذرائع کے مطابق یہ شخصیت موسم کی خرابی کے باعث اسلام آباد سے ایبٹ آباد ہیلی کاپٹر پر پہنچی جہاں سے وہ برا ستہ سڑک نتھیا گلی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس شخصیت کا معاون عملہ اور سکیورٹی سٹاف بھی نتھیا گلی میں موجود ہے جبکہ گورنر کے پی بھی نتھیا گلی میں ہیں ‘‘۔
تیسری نشانی بھی واضح ہے۔ اس میں بھی کوئی ابہام ہے نہ شک۔ اسے بھی سوشل میڈیا پر بہت سوں نے دیکھا۔ ریاست پاکستان کے ایک بڑے منصب دار اپنے گاؤں والد محترم کی قبر پر حاضر ہوتے ہیں۔ پورے پروٹوکول ‘ پورے تزک و احتشام‘ پورے جاہ و جلال کے ساتھ۔ ہیلی کاپٹر اترتا ہے۔ اس کے پنکھے بہت دیر تک چلتے رہتے ہیں۔ بالآخر پنکھوں کو قرار آجاتا ہے۔ منصب والی شخصیت ہیلی کاپٹر سے اترتی ہے۔ آگے گاڑیاں ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں! گاڑیوں اور ہیلی پیڈ کے درمیان چند قدم کا فاصلہ ہے۔ اس فاصلے پر سرخ قالین بچھے ہیں۔ آگے پیچھے‘ دائیں بائیں اہلکار اور ماتحت نظر آرہے ہیں۔ کوئی چلتا ہوا! کوئی بھاگتا ہوا! شخصیت کا کوئی قدم زمین پر نہیں پڑتا۔ سرخ کار پٹ سے ہوتے ہوئے‘ شخصیت گاڑیوں میں سے ایک گاڑی پر سوار ہوتی ہے۔
کون سا اکنامک سروے ؟ کون سا بجٹ ؟ کیسی شرحِ نمو ؟ کہاں کی فی کس آمدنی ؟ ہم بھی اسی ملک کے باشندے ہیں۔ کیا ہوا اگر ہم نے اکنامکس امریکی یونیورسٹیوں میں نہیں پڑھی! کیا ہوا اگر ہم اصل معیشت کے چہرے پر اعداد و شمار کی کوچی نہیں پھیرتے۔ ایک معیشت مرکزی سیکرٹریٹ کے برآمدوں اور خوبصورت سجے سجائے کمروں میں ہے۔ ایک معیشت گلیوں‘ بازاروں‘ بستیوں اور قصبوں میں ہے۔ ہم ان گلیوں اور ان بازاروں کے اصل باسی ہیں۔ ہم نے یہیں رہنا ہے۔ یہیں مرنا ہے۔ ہم سے بہتر ہماری معیشت کو کون جان سکتا ہے؟ نو دس سالہ صغیر کو‘ اس کے ہاتھ میں رکھے پیچ کس کو‘ فضاؤں میں اڑتے ‘ پنکھے گھماتے ہیلی کاپٹر وں کو کون سے اعدادو شمار میں لپیٹو گے 

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, June 14, 2021

……میں کیا چاہتا ہوں؟


مجھے آج تک نہیں معلوم ہوا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ کس بات پر خوش ہوتا ہوں اور کس پر مغموم ہوتا ہوں؟
دُکھ کی بات ہے کہ اسلامو فوبیا کے ایک مریض نے‘ ایک دہشت گرد نے کینیڈا میں ایک پورے مسلمان خاندان کو روند کر شہید کر ڈالا۔ اس کا جتنا ماتم کیا جائے کم ہے‘ مگر میں اس حقیقت کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں کہ کینیڈا کے ہزاروں غیر مسلم شہریوں نے اس دہشت گردی کی مذمت میں جلوس نکالا اور سات کلو میٹر چلے۔ ایسے احتجاجی جلوس وہاں کے کئی شہروں میں نکالے گئے۔ قومی ٹیلی وژن پر اذان نشر کی گئی۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ 
“اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ کینیڈا میں نسل پرستی اور نفرت کا وجود نہیں ہے تو میں کہتا ہوں کہ ہسپتال میں پڑے ہوئے بچے کے سامنے ہم اس قتل و غارت کی کیا تشریح کریں گے؟ ہم ان خاندانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلامو فوبیا کوئی چیز نہیں!”
اور پولیس نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ 
“ڈرائیور نے جان بوجھ کر اس خاندان کو مارا کیونکہ وہ مسلمان تھے‘ یہ ناقابل بیان نفرت کا شاخسانہ ہے اور اسلاموفوبیا کا! مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔”
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب یہاں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو میں ایسا اعتراف کیوں نہیں کر پاتا؟ جب سندھ کے کئی خاندان بارڈر پار کر کے چلے گئے تو میں نے کیوں کچھ نہ کہا؟
صادق خان لندن کا میئر بنتا ہے تو میں گھی کے چراغ جلاتا ہوں۔ میں بار بار شمار کرتا ہوں کہ برمنگھم میں، اور بریڈ فورڈ میں، اور اولڈ ہیم میں اور بلیک برن میں، اور آکسفورڈ اور لیڈز میں، اور شیفیلڈ میں اور کئی دوسرے شہروں اور قصبوں میں کتنے مسلمان میئر اور کونسلر رہے ہیں اور ہیں۔ میں فخر سے بتاتا ہوں کہ امریکی صدر کے فلاں مشیر اور فلاں ساتھی مسلمان ہیں۔ مگر کیا ایسی پوزیشنیں میں اپنے ہاں غیر مسلموں کو دینے کے لیے تیار ہوں؟ اپنی فتوحات گنواتے وقت میں فخریہ اعلان کرتا ہوں کہ آسٹریلیا میں اور نیوزی لینڈ میں اور امریکہ میں اور یورپ میں اتنی مسجدیں ہیں اور اتنے اسلامی مدارس چل رہے ہیں‘ مگر جب یہاں کوئی مندر بننے لگتا ہے تو میں آسمان سر پر اٹھا لیتا ہوں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسا رویّہ میرا کیوں ہے؟ دوسرے ملک ایک کام کریں تو میرا سر فخر سے تن جاتا ہے۔ یہی کام میں اپنے ملک میں نہیں کرنا چاہتا۔ کیا یہ ڈر ہے؟ یا نفاق ہے؟ یا تعصب؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ جس مغرب کی رات دن میں مذمت کرتا ہوں، جس پر رات دن الزام لگاتا ہوں کہ میرے خلاف سازشیں کرتے ہیں، بیمار ہو جاؤں تو علاج وہاں کے ہسپتالوں میں کراتا ہوں۔ بچے میرے وہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں۔ زندگی کی سب سے بڑی خواہش وہاں جا کر مقیم ہونا ہے۔ پانچ کروڑ سے زیادہ کی تعداد میں مَیں وہاں آباد ہوں۔ ہر مغربی ملک کے سفارت خانے کے باہر میں قطار میں کھڑا ہوں کہ ویزا مل جائے یا ہجرت کی اجازت دے دی جائے۔ روزمرہ کے اخراجات تک کے لیے قرضے اسی مغرب کے مالی اداروں سے لیتا ہوں۔ لائف سیونگ ادویات وہاں سے منگواتا ہوں۔ جہاز، آب دوزیں، کاریں، کمپیوٹر، موبائل فون، یہاں تک کہ ریفریجریٹرز کے کمپریسرز تک انہی سے خریدتا ہوں۔ وبا پھوٹ پڑے تو ویکسین وہی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی اترن میرے بازاروں میں ہزاروں لاکھوں ٹنوں کے حساب سے بکتی ہے جس سے میں اپنا تن ڈھانکتا ہوں۔ شہر شہر ان کے پہنے ہوئے جوتے فروخت ہوتے ہیں جنہیں میں شوق سے خریدتا ہوں۔

جو ماہرینِ اقتصادیات، پلاننگ کمیشن، وزارت خزانہ، وزارت اقتصادی امور، وزارت تجارت اور سٹیٹ بینک میں بیٹھے ہیں اور جو میری معیشت کی گاڑی کو چلا رہے ہیں‘ وہ سب کے سب اسی مغرب کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی مصر سے یا عرب سے یا برونائی سے یا سمرقند سے پڑھ کر نہیں آیا۔ معاشیات کی جتنی تھیوریاں ہیں خواہ ٹرمز (Terms) آف ٹریڈ کی تھیوری ہے یا قانونِ طلب (لا آف ڈیمانڈ) ہے یا روسٹو صاحب کی پانچ مراحل والی تھیوری ہے، سب مغرب سے آئی ہیں۔ ابھی تک میں کوئی ایسا معیشت دان پیدا نہیں کر سکا جو ایڈم سمتھ یا لارڈ کینز، یا پال سیموئل سن، یا الفریڈ مارشل، یا اِروِنگ فشر کے نظریات کا توڑ پیش کر سکے یا جواب ہی دے سکے۔ میرے تعلیمی اداروں میں پبلک ایڈمنسٹریشن ہو یا بزنس ایڈمنسٹریشن، فزکس ہو یا حیاتیات، کمپیوٹر سائنس ہو یا سوشل سائنسز، سب کچھ وہیں سے آیا ہے۔ میرے جس طالب علم نے سائنس میں یا ٹیکنالوجی میں یا کمپیوٹر میں یا اقتصادیات میں پی ایچ ڈی کرنی ہو یا بیرسٹر بننا ہو یا سرجن بننا ہو یا فزیشن بننا ہو وہ تیونس یا کویت یا تہران یا رباط یا خرطوم یا ریاض یا بخارا یا سکندریہ نہیں جاتا، وہ لندن یا آکسفورڈ یا بوسٹن یا ٹورنٹو یا پیرس یا میونخ یا سڈنی جاتا ہے۔ میں ان کفار کی تباہی کے لیے صبح شام دعائیں مانگتا ہوں مگر لطیفہ یہ ہے کہ پنسلین سے لے کر اینٹی بایوٹک ادویات تک، بائی پاس آپریشن سے لے کر گردوں، جگر، آنکھوں اور دل کی پیوند کاری تک میرے سارے کام یہی کفار ہی تو کر رہے ہیں۔ میں ٹی بی سے روز مرتا تھا، ان کم بختوں نے اس کی دوا بھی ایجاد کر ڈالی۔ آنکھ میں اترا ہوا موتیا اچھا بھلا اندھا کر دیتا تھا مگر فرانس کے ایک کافر نے 1784ء میں اس کا علاج بھی ڈھونڈ نکالا اور آج یہ سرجری گھنٹوں میں نہیں منٹوں میں ہوتی ہے۔ میں چراغ کی روشنی میں پڑھتا تھا، اہل مغرب نے مجھے بلب دیا۔ میرے گھر کی چھت سے کپڑے کا بنا ہوا پنکھا لٹکا ہوتا تھا‘ جسے میرا ملازم رسی سے کھینچ کر مجھے ہوا پہنچاتا تھا۔ ان مغربیوں نے مجھے برقی پنکھا بنا کر دیا۔ میں اپنی شاعری میں جام جمشید کے مزے لیتا تھا انہوں نے مجھے ٹیلی وژن بنا کر دیا جو اصل میں دنیا کے مناظر دکھاتا ہے۔ میں حج کرنے گھوڑوں‘ اونٹوں یا بادبانی جہازوں سے جاتا تھا اور کئی کئی سال کے بعد واپس آتا تھا یا وہیں مر جاتا تھا یا راستے میں ڈاکوئوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتا تھا۔ ان سفید فام لوگوں نے ہوائی جہاز بنایا جس کے بعد حج ہفتوں کا معاملہ ہو گیا ہے۔ میں لاہور سے دلی یا دلی سے لکھنؤ بیل گاڑی سے جاتا تھا، ان کرسٹانوں نے ٹرین چلا دی۔ وسطی ہند میں جب ٹرین پہلی بار چلی تو میں ڈانگیں اور سوٹے لے کر اس بلا سے لڑنے آ گیا تھا۔
میں بڑ تو ہانکتا ہوں کہ ناسا سے لے کر مغرب کے بڑے بڑے ہسپتالوں اور آئی ٹی کی کمپنیوں تک میرے بندے بھی کام کر رہے ہیں اور سائنسی پیش رفت میں اس طرح میرا بھی حصہ ہے مگر میرے پاس، سچ پوچھو تو، اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ یہ بندے میرے ملک میں یا دوسرے مسلمان ممالک میں یہی کام کیوں نہیں کر رہے یا کیوں نہیں کر سکتے؟
اس سب کچھ کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ میں برگزیدہ ہوں اور اہل مغرب مجھ سے کمتر ہیں۔ یہ میرا دعویٰ ہے۔ یہ اور بات کہ میرے پاس اس دعوے کی دلیل کوئی نہیں۔ میں نے شروع میں بتایا تھا نا کہ مجھے معلوم نہیں میں کیا چاہتا ہوں!!!
بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, June 10, 2021

History Made Easy


کچھ سوال ہر امتحان میں ضرور پوچھے جاتے ہیں۔ مغل سلطنت کے زوال کے اسباب کیاتھے؟ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاؤں کیسے جمے؟ انگریزوں کی حکومت کیسے قائم ہوئی؟

آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا اسباب تھے؟ درسی کتابوں میں کچھ اسباب رٹائے جاتے ہیں۔ رہےمؤرّخ تو سب نے اپنی اپنی ڈفلی بجائی ہے۔ انگریز مؤرخ اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں، ہندواپنامسلمانوں کی لکھی ہوئی کتابیں تعداد میں نسبتاً کم ہیں۔ ان کا موقف الگ ہے مگر آج ہمآپ کے لیے تاریخ کا یہ باب آسان کیے دیتے ہیں۔ آپ کو ضخیم کتابیں چھاننے کی ضرورتنہیں۔ صرف عبدالحلیم شرر کا تحریر کردہ سلطنت اودھ کا حال پڑھ لیجیے۔ یہ احوال تاریخ کیکئی کتابوں پر بھاری ہے۔ مولانا عبدالحلیم شرر مؤرخ سے زیادہ ناول نگار، صحافی، مترجم،ڈرامہ نگار اور مضمون نگار تھے؛ تاہم لکھنؤ کا حال جس طرح شرر نے لکھا ہے اسے پڑھ کرانسان صرف ایک نتیجہ نکالتا ہے اور وہ یہ کہ اگر زوال نہ آتا تو یہ ایسے ہی ہوتا جیسے گندمبونے سے آم کے درخت اُگ آئیں!

ہماری تاریخ میں منحوس ترین دن وہ تھا جب 1764ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بکسر کی جنگجیت لی۔ دہلی کا بادشاہ شاہ عالم‘ اودھ کا نواب شجاع الدولہ اور بنگال کا حکمران میر قاسمتینوں مشترکہ فوج لے کر آئے مگر پھر بھی ہار گئے۔ مغل سلطنت کے تین انتہائی خوش حالصوبوں بنگال، بہار، اڑیسہ میں عوام سے براہ راست ٹیکس لینے کی اتھارٹی انگریزوں کو ملگئی۔ لکھنؤ (اودھکے نواب شجاع الدولہ نے انگریز کی سرپرستی قبول کر لی۔ اس کے بعدبانوے سال (یعنی تقریباً ایک صدیاودھ کے نوابوں نے مکمل عیاشی میں گزارے جس کیتفصیل میں جائیں تو حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اصل حکومت انگریز ریذیڈنٹ کے ہاتھمیں تھی۔ بنیادی طور پر اودھ کے حکمران تین قسم کی لذتوں میں غرق تھے۔ موسیقی، خوراککا چٹخارہ اور جنسی چٹخارہ۔ جانوروں کی لڑائیاں دیکھنا بہت بڑا مشغلہ تھا۔ شیر کی لڑائی، چیتےکی لڑائی، تیندوے کی لڑائی، ہاتھی کی لڑائی، اونٹ کی لڑائی، گینڈے کی لڑائی‘ بارہ سنگھے کیلڑائی، مینڈھے کی لڑائی، طیور کی لڑائی۔ یہ سب لڑائیاں بادشاہ اور امرا کی سرپرستی میں کرائیجاتی تھیں۔ بازیاں اس کے علاوہ تھیں جن میں مرغ بازی، بٹیر بازی، تیتر بازی، کبوتر بازی اورپتنگ بازی پر بادشاہ اور رعایا یکساں طور پر جان دیتے تھے۔ موسیقی کا الگ سلسلہ تھا۔کتھک اور دوسرے ناچ شرفا کے گھروں تک پہنچ گئے تھے۔ بھانڈ اور ڈومنیاں عالی مرتبت ہوگئی تھیں۔ جو عیاشیاں کھانے پینے کے حوالے سے تھیں ان کا ذکر پڑھ کر دماغ چکرانے لگجاتا ہے۔ انتظام سلطنت انگریز کے پاس تھا۔ کٹھ پتلی بادشاہ اور پست ذہن امرا و عمائدینپیٹ پوجا کے نئے نئے تجربے کر رہے تھے۔ نواب اور بیگم کے لیے کھانا ہر روز چھ مختلفباورچی خانوں سے آتا۔ واجد علی شاہ نے دہلی کے شہزادے کی دعوت کی۔ دستر خوان پر مربہرکھا گیا۔ مہمان نے لقمہ کھایا تو چکرا گیا۔ یہ اصل میں قورمہ تھا۔ اب شہزادے نے بدلہ لیناتھا۔ جوابی دعوت ہوئی۔ پلاؤ، بریانی، قورمہ، کباب، چپاتیاں، اچار، چٹنیاں، پراٹھے سب شکرکے بنے ہوئے تھے۔ سالن بھی شکر کا، چاول بھی شکر کےایک شہزادے کی شادی پر سترقسم کے چاول پکائے گئے۔ کھچڑی جو دیکھنے میں چاول کی لگتی اصل میں بادام اور پستے کیہوتی۔ باورچی تو تھے ہی، ایک خاص پیشہ رکاب دار تھا‘ یعنی چھوٹی مگر حد درجہ نفیس ہانڈیاںپکانے والےنواب غازی الدین کے لیے چھ پراٹھے تیس سیر گھی میں پکتے۔ وزیر ذرا با ضمیرتھا۔ اس نے گھی کی مقدار کم کروا دی۔ نواب کو معلوم ہوا تو وزیر کو تھپڑ اور گھونسے رسیدکیے۔ ایک رئیس صاحب کے خاصے کا پلاؤ 43 سیر گوشت کی یخنی میں پکتا۔ شیر مال کو لکھنؤ کینیشنل روٹی قرار دیا گیا۔ ایک خاص پلاؤ ایجاد ہوا جسے موتی پلاؤ کہا گیا۔ ترکیب یوں تھی کہچاندی اور سونے کے ورق انڈے کی زردی میں حل کیے جاتے۔ پھر اس محلول کو مرغ کےنرخرے میں بھر کر نرخرے کے ہر ہر جوڑ پر باریک دھاگا باندھ دیا جاتا۔ پھر جوش دیا جاتا۔پھر چاقو سے نرخرے کی کھال چاک کی جاتی۔ اس میں سے موتی نکل آتے جو پلاؤ میں گوشتکے ساتھ دم کیے جاتے۔ کچھ رکاب دار پنیر کے موتی بناتے اور ان پر چاندی کے ورق چڑھادیتے۔ یہ بھی ہوا کہ گوشت کی چھوٹی چھوٹی چڑیاں بنا کر اس طرح پکائی گئیں کہ صورت نہبگڑے۔ انہیں پلیٹ میں بٹھا دیا گیا۔ چاولوں کی شکل دانے جیسی کر دی گئی۔ یوں معلومہوتا جیسے مہمان کے سامنے پلیٹ میں چڑیاں دانہ چُگ رہی ہیں۔ کریلے دیکھنے میں کچے لگتےمگر کاٹ کر کھائے جاتے تو عجیب لذت اور ذائقہ ہوتا۔بہت سے کھانوں کے مجموعے کو لکھنؤمیں تورا کہا جاتا۔ ایک تورے میں مندرجہ ذیل غذائیں لازمی طور پر ہوتیںپلاؤ۔ متنجن، شیرمال‘ سفیدہ (میٹھے چاول بغیر رنگ کے)‘ قورمہ‘ تلی ہوئی اروی گوشت کے ساتھ‘ شامی کباب‘ کئی اقسام کے مربے، اچار اور چٹنیاں۔ اس زمانے میں لکھنؤ نے عالم‘ یا سپاہی، یا سائنسدان نہیں، صرف باورچی پیدا کیے۔ ہندوستان بھر میں لکھنؤ کے باورچیوں کی دھوم تھی۔دکن، بھوپال، رام پور، بنگال غرض ہر جگہ باورچی لکھنؤ کے ہوتے۔ لکھنؤ والوں نے ملائی کانام بدل کر بالائی رکھا۔ بالائی کی تہہ پر تہہ ایک خاص طریقے سے بٹھائی جاتی۔ باقر خانی بھیوہیں کی ایجاد ہے۔

ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنے مضمون گزشتہ لکھنؤ میں منشی پریم چند کے ایک افسانے کا اقتباسنقل کیا ہے... “


“”نواب واجد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ لکھنؤ عیش و عشرت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ چھوٹےبڑے سب رنگ رلیاں منا رہے تھے۔ کہیں نشاط کی محفلیں آراستہ تھیں۔ کوئی افیون کیپینک کے مزے لیتا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے میں رندی و مستی کا زور تھا۔ امور سیاست میں،شعر و سخن میں، طرز معاشرت میں، صنعت و حرفت میں، تجارت و تبادلہ میں، سبھی جگہ نفسپرستی کی دُہائی تھی۔ اراکین سلطنت مے خواری کے غلام ہو رہے تھے۔ شعرا بوس و کنارمیں مست، اہل سیف تیتر بازی میں، ہر کوئی سرمہ و مسّی، عطر و تیل کی خرید و فروخت کادلدادہ، غرض سارا ملک نفس پرستی کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ سب کی آنکھوں میں ساغر وجام کا نشہ چھایا ہوا تھا۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، علم و حکمت کن کن ایجادوں میں مصروفہے، بحر و بر پر مغربی اقوام کس طرح حاوی ہوتی جا رہی ہیں، اس کی کسی کو خبر نہ تھی۔ بٹیرلڑ رہے ہیں۔ تیتروں کی پالیاں ہو رہی ہیں۔ کہیں چوسر ہو رہی ہے۔ کہیں شطرنج کےمعرکے چھڑے ہوئے ہیں۔ نواب کا حال اس سے بھی بد تر تھا۔ حظِ نفس کے لیے نئےنئے نُسخے سوچے جاتے تھے یہاں تک کہ فقرا خیرات کے پیسے پاتے تو روٹیاں خریدنے کےبجائے مدک اور چنڈو کے مزے لیتے۔ رئیس زادے حاضر جوابی اور بذلہ سنجی کی تعلیمحاصل کرنے کے لیے ارباب نشاط سے تلمذ کرتے تھے۔ فکر کو جولاں، عقل کو رسا اور ذہنکو تیز کرنے کے لیے شطرنج کو کیمیا سمجھا جاتا تھا—“”


۔ دلی کا حال اس سے مختلف نہ تھا۔ جامع مسجد کی سیڑھیوں کے کباب سے لے کر افیون کیپینک تک سب کچھ مست کر دینے والا تھا۔ سات سمندر پار سے آئے ہوئے انگریز مکار اورظالم تو تھے، جفاکش اور محنتی بھی تھے۔ ہماری لکھی ہوئی تاریخ میں ان کی مکاری کا ذکر توبہت ہے، ان کی جفا کشی اور شدید محنت کا کوئی ذکر نہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے ہوئےکلائیو کا مقابلہ پالکی میں سوار، تکیے پر ٹیک لگانے والے سراج الدولہ کرتے بھی تو کیسے کرتے

بشکریہ روزنامہ دنیا




 

powered by worldwanders.com