Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, June 03, 2021

رانجھا رانجھا کردی میں آپے رانجھا ہوئی


اس نے ایک گڑھا کھودا اور وہ گڑھا اس کے لیے جان کا عذاب بن گیا۔
سوال یہ تھا کہ گڑھا کھودتے ہوئے جو مٹی باہر نکلی تھی، اس کا کیا کیا جائے؟ خوب سوچ بچار کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ ایک اور گڑھا کھودا جائے اور اسے اس مٹی سے بھر دیا جائے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ مگر اب وہ مٹی سامنے پڑی تھی جو دوسرا گڑھا کھودتے ہوئے باہر نکالی گئی تھی۔ تب سے وہ گڑھے کھود رہا ہے اور بھر رہا ہے اس امید پر کہ ایک ایسا گڑھا بھی آئے گا جس کی اپنی مٹی نہیں ہو گی۔
اسے نشے کی لت تھی۔ نشہ نہ ملنے کی صورت میں بدن ٹوٹنے لگتا۔ تشنّج کی سی کیفیت پیدا ہوتی۔ ایک دوست اسے ایک حکیم صاحب کے پاس لے گیا۔ انہوں نے اسے ''نشہ چھوڑ گولیاں‘‘ دیں۔ گولیوں سے نشے کی عادت چھوٹ گئی اور گولیوں کی عادت پڑ گئی۔ پہلے جس طرح جسم نشہ مانگتا تھا اسی طرح، بالکل اسی طرح، اب گولیاں مانگنے لگا۔
ایک مکروہ صفت شخص اسے بلیک میل کر رہا تھا۔ کسی طرح جان ہی نہیں چھوٹ رہی تھی۔ کبھی کیا مطالبہ کرتا، کبھی کیا۔ اس نے ایک اجرتی قاتل ڈھونڈا اور بلیک میلر کو ٹھکانے لگوا دیا۔ اب یہ اجرتی قاتل بلیک میل کرنے لگا۔ اسے یقین ہے کہ اگر اس کا بھی بندوبست کر دے تب بھی یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔
وہ ملک کو چمٹے ہوئے مافیاز سے تنگ آیا ہوا تھا۔ یہ عوام کا خون چوس رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ جڑیں ان کی زمین کے نیچے دور تک گئی ہوئی تھیں۔ تنا بے حد موٹا تھا۔ شاخیں ہر شعبۂ زندگی تک پہنچ رہی تھیں۔ کوئی حکومت، کوئی پارٹی، ان ہولناک مافیاز کا علاج تو کیا کرتی، ان کے ذکر ہی سے بدکتی تھی۔ کبھی کسی کے منشور میں، کسی کی انتخابی مہم میں، مافیاز کو کچلنے کا پروگرام نہ سنا گیا۔ یہ حکومتیں خود مافیاز سے عبارت تھیں۔ کچھ مافیاز کی پیداوار تھیں اور کچھ اپنی بقا کے لیے مافیاز کی مرہونِ منت! خلق خدا ان مافیاز کی اس طرح عادی ہو چکی تھی جیسے ایک اپاہج اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کا عادی ہو جاتا ہے۔ کوئی شکایت نہ فریاد! جیسے محسوس کرنے کی طاقت ختم ہو چکی ہو۔ ایک نئی پارٹی نے جب مافیاز کے خلاف نعرہ لگایا تو اس کی توجہ فوراً اُدھر مبذول ہو گئی۔ یہ نعرہ اس کے کانوں کو بھلا لگا۔ ایک امید نے نہاں خانۂ دل میں، کہیں دور، بہت دور، انگڑائی لی۔ اس نے اس نئی پارٹی کے لیے کام کیا۔ رات دن محنت کی‘ اور پھر پارٹی حکومت میں آ گئی۔
امیدوں کی فصل دور تک لہلہا رہی تھی۔ شروع شروع میں آثار اچھے تھے مگر افسوس! آخر میں وہی ہوا جو گڑھا کھودنے والے اور نشہ چھوڑنے والے اور بلیک میلر کو ختم کروانے والے کے ساتھ ہوا تھا۔ چینی مافیا کو ختم کرنے کی کوشش میں چینی مافیا تو ختم نہ ہوا‘ ہاں اس چکر میں ایک اور مافیا وجود میں آ گیا جس نے چینی مافیا کے کچھ حصوں کو پکڑا اور کچھ کو چھوڑ دیا۔ دواؤں کا مافیا اپنے انجام کو نہ پہنچا ہاں اس کی کوکھ سے ایک اور مافیا نے جنم لیا جس نے ادویات کو سینکڑوں گنا زیادہ مہنگا کر دیا۔ سب سے بڑے صوبے سے وسطی پنجاب کے حکمران مافیا کو ختم کرتے کرتے جنوبی پنجاب کا حکمران مافیا وجود میں آ گیا۔ پہلے سرکاری عمارتوں پر پرانے حکمرانوں کے والدین کے نام لکھے جاتے تھے اب نئے حکمران کے والد کا نام لکھا جانے لگا۔ ایک قبضہ گروپ ختم کرنے کی کوشش میں کئی نئے قبضہ گروپ وجود میں آتے گئے۔ زمینوں کی طرف توجہ ہوئی تو رنگ روڈ مافیا خم ٹھونک کر سامنے کھڑا ہو گیا۔ وزیروں مشیروں کے نام لیے جانے لگے جن میں سے کچھ چارٹرڈ پروازوں میں ملک سے باہر جاتے دیکھے گئے۔ بیوروکریسی کے مافیا کو، جو گزشتہ حکومت نے ذات برادری کی بنیاد پر کھڑا کیا تھا، توڑنے کی کوشش کی گئی تو لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ایک اور بیوروکریٹک مافیا وجود میں آ گیا جو پہلے والے مافیا سے بھی زیادہ طاقت ور نکلا۔ جس نامی گرامی شخصیت کی خدمات پنجاب پولیس کا مافیا منتشر کرنے کے لیے حاصل کی گئیں، وہ شخصیت مافیا کی قلعہ بندی اور مافیا کے سرپرستوں کو دیکھ کر خود ہی پسپا ہو گئی۔ اینٹی میرٹ مافیا کیا ختم ہوتا، ایک نیا مافیا ابھرا جو اتنا طاقت ور ثابت ہوا کہ چھ چھ سو درخواست دہندگان اور اٹھارہ اٹھارہ شارٹ لسٹڈ امیدواروں کو رد کر کے ایسے ایسے افراد کو تعینات کیا جانے لگا جو درخواست دہندہ تھے نہ امیدوار۔ ان کا ''میرٹ‘‘ صرف اور صرف یہ تھا کہ کسی طاقت ور شخصیت کے سیکرٹری تھے۔ درجنوں قابل افراد کی موجودگی میں کسی خاص فرد کو اس کی ریٹائرمنٹ سے ایک سال پہلے، پیشگی ریٹائر کر کے، تعینات کیا جاتا ہے تاکہ خالی اسامی ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا‘ مگر ساتھ ساتھ مسلسل دعویٰ کیا جاتا رہا کہ میرٹ کا بول بالا ہے۔ نئے نئے مافیا بنتے گئے، بن بن کے پنجے مضبوط کرتے گئے مگر مافیا دشمنی کے اعلانات میں کوئی کمی نہ آئی۔ سننے والے حیران کہ مافیا شکنی کہاں ہے؟ اور میرٹ کس طرف ہے؟ ہائے افسوس!
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے
مہنگائی بذات خود ایک بہت بڑا مافیا ہے جو کئی مافیاز کا مجموعہ ہے مگر یہ مافیا بھی مزید مضبوط ہوا۔ چار فی صد سے گرانی دس فی صد تک پہنچ گئی۔ ریلوے، قومی ایئر لائن، سٹیل ملز، کسی کو بھی مافیا سے رہائی نہ مل سکی۔ ایک اور مافیا ہے جو بینکوں سے کروڑوں‘ اربوں کے قرضے لیتا ہے اور واپس کبھی نہیں کرتا۔ اس مافیا کی گردن توڑی جانی تھی۔ ایک ایک پیسہ بینکوں کو لوٹایا جانا تھا۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ جن مردوں اور عورتوں نے کروڑوں کے قرضے ہضم کیے ہوئے تھے، انہیں اس ''مافیا شکن‘‘ دور میں بھی وزارتیں مل گئیں! ایک اور انتہائی طاقت ور مافیا جاگیرداروں اور سرداروں کا ہے جو جنوبی پنجاب سے شروع ہوتا ہے تو سندھ کے میدانوں اور ریگ زاروں سے ہوتا ہوا بلوچستان کے پہاڑوں تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ شاید ہی دنیا کے کسی جدید، مہذب اور جمہوری ملک میں اتنا قدیم اور عظیم الجثہ مافیا موجود ہو۔ ہاری عملی طور پر غلام ہیں۔ ان کی نسلیں زمینداروں کی حویلیوں سے بندھی ہوئی ہیں۔ ان کی عورتیں بھیڑ بکریوں سے کم درجہ رکھتی ہیں۔ جاگیردار ہالہ کا ہے یا کیٹی جتوئی کا، ووٹ بستیوں کی بستیاں اس کے حکم کے مطابق ڈالیں گی۔ رہا سرداری مافیا تو چاہے غلاموں کو جلتے کوئلوں پر چلنے کا حکم دے اور چاہے پورے قبیلے کو حکم دے کہ بندوقیں پکڑو اور پہاڑوں پر چڑھ جاؤ۔ چاہے تو گیس اور تیل کی پائپ لائنوں کو بارود سے اڑانے کا آرڈر دے دے اور چاہے تو بجلی اور ٹیلی فون کی تاریں کٹوا دے۔ اس مافیا کی طاقت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک صرف ایک شخص ایسا وزیر اعلیٰ بنا ہے جو سردار نہیں تھا۔ تبدیلی کا دعویٰ کرنے والی اس حکومت نے ایک بار بھی زرعی اصلاحات کا نام نہیں لیا۔ ایک بار بھی سرداری سسٹم پر بات نہیں کی۔ ایک بار بھی لاکھوں ہاریوں اور ان کے نسل در نسل غلام کنبوں کا ذکر نہیں کیا۔ حالات کا علم نہیں؟ یا علم ہے مگر مسئلے کی نوعیت کا ادراک نہیں؟
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے؟ جو مافیا پہلے سے سرگرم تھے ان میں سے زیر دام کوئی نہیں آیا! ہاں! نئے مافیا ضرور پیدا ہوئے ہیں۔ مافیا مافیا کردی میں آپے مافیا ہوئی۔

بشکریہ محمد اظہارالحق

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com