زہر میں بجھے الفاظ کا کوئی ایسا ذخیرہ ہو جس سے اِن کی ہجو لکھی جائے اور اطمینان پایا جائے۔ کوئی صلواتیں ان کے لیے ایسی گھڑی جائیں کہ کلیجہ ٹھنڈا ہو۔ خنک پانی کا کوئی چشمہ ایسا ہو جس سے سینے پر لوٹتے شعلے بجھائے جا سکیں‘ لیکن نفرت کے اظہار کا وہ طریقہ بنی نوع انسان کے علم میں ابھی آیا ہی نہیں جو ان کے لیے موزوں ترین ہو۔
یہ چہرے اور لباس بدل بدل کر آتے ہیں۔ یہ جرائم پیشہ ہیں۔ ظالم اور جابر ہیں۔ یہ بے حد عیّار، مکّار، سنگدل اور بے رحم ہیں۔
یہ ملک و قوم کے جن مسائل کو حل کرنے کے لیے ظاہری طور پر ذمہ دار ہیں، خود اُن مسائل سے کبھی نہیں گزرے۔ جن حالات کی تبدیلی کے لیے قوم نے ان سے امیدیں باندھ رکھی ہیں، وہ حالات خود ان پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ انہوں نے غربت دیکھی ہے نہ بھوک۔ ان کے جان و مال کو خطرہ ہے نہ انہیں مہنگائی سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ ان کے پاس ضروری اور غیر ضروری ہر آسائش‘ ہر نعمت موجود ہے۔ انہیں پینے کے پانی کے لیے کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرنا پڑتی۔ انہیں سڑکوں پر ٹریفک کے جہنم سے نہیں گزرنا پڑتا۔ انہیں علاج کے لیے غیر معیاری ہسپتالوں میں اناڑی ڈاکٹروں کے ہاتھوں ذلیل نہیں ہونا پڑتا۔ ان کے بچے‘ پوتے اور نواسے حالات سے مجبور ہزاروں میل دور‘ سمندر پار‘ نہیں رہتے لیکن ہم یہ خواہش رکھتے ہیں کہ یہ لوگ ان تمام مسائل کو ہمارے لیے حل کر دیں۔
عجیب بات ہے۔ پاکستانی ملک کے اندر اور باہر ہر میدان میں سالہا سال سے کامیابیوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ بڑے بڑے کاروبار مہارت سے چلا رہے ہیں۔ ہر ماہرانہ شعبے میں دنیا کے شانہ بشانہ اپنا نام بنا چکے ہیں۔ دنیا کے بڑے سے بڑے اداروں میں، یونیورسٹیوں میں، ہسپتالوں میں‘ حتیٰ کہ دوسرے ممالک کی حکومتوں میں ہر نوعیت کے امور خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ نہیں چلا سکتے تو اپنے ملک کی حکومت۔ یہ کیسی بات ہے کہ اندرون اور بیرونِ ملک کامیابی کے جوہر دکھانے والے اپنے ملک کے کارہائے ریاست چلانے میں مکمل طور پر ناکام ہیں‘ اور یہ فقط سیاسی تنظیموں کے کارکنان کا ذکر نہیں ہے۔ ہمارے عساکر ساری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں لیکن شومئی قسمت کہ یہ بھی ملک کا رُخ تنزل سے ترقی کی جانب نہیں موڑ سکے۔ نجانے کیا کہانی ہے۔ کیسا معمہ ہے۔ حکومتی اراکین کی بھاری اکثریت خود صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات پر مشتمل ہے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سارے کے سارے ماہرین، صنعت کاراور دوسرے حضرات نالائق ہوں۔ کوئی تو بات ہے۔
عقل نہ چاہتے ہوئے بھی اِس نتیجے کی طرف راغب ہوتی ہے کہ بربادی اور تنزل کا یہ نظام قصداً تخلیق کردہ ہے۔ چہرے اور لباس بدلتے رہے مگر نظام نہ بدلا۔ مسلسل گرتا ہوا گراف سنبھالا نہ جا سکا۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ شاید یہ سب کچھ بے ایمانی اور بد عنوانی کا نتیجہ ہے۔
بہر طور وجہ جو بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ ہمارا نظام نا انصافی اور ظلم پر مبنی ہے۔ جس سمت دیکھیے، نا انصافی نظر آئے گی۔ انفرادی، اجتماعی حتیٰ کہ ریاستی سطح پر بھی نا انصافی ہے۔ ہر طرف ظلم ہے، ہر سمت اقتدار اور اختیار کے پنجے آپ کا گوشت نوچ رہے ہیں۔ وطن عزیز میں میرے آپ کے بچوں کا مقام ترقی یافتہ دنیا میں پالتو جانوروں کی حیثیت کا ایک چوتھائی بھی نہیں۔ اِس سے زیادہ کوئی کیا کہے۔ کیا آمریت، کیا جمہوریت‘ عام آدمی ذلیل و رسوا ہی رہا۔ عوام ریاستی ناانصافیوں کی سولی پر لٹکے ہی رہے۔ قانون یا نظام کا کیا رونا‘ یہاں بنیادی ترین انسانی حقوق کا فقدان ہے۔ کروڑوں تو وہ ہیں جن کو یہ اندازہ تو ہے کہ وہ انسان ہیں، لیکن یہ نہیں جانتے کہ انسان ہونے کے ناتے اُن کے کیا حقوق اور کیا ذمہ داریاں ہیں۔ تھر کے مکینوں، مزدوروں، اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کا ذکر ہی کیا‘ پڑھے لکھے ملازم پیشہ لوگوں کی بات کر لیجیے۔ انہیں ٹیکس کے بدلے میں کون سے حقوق مل رہے ہیں؟ روپے کی بوریاں چھکڑوں پر لاد لاد کر سکولوں کی بھٹیوں میں جھونکنے کے باوجود تعلیم کے مقصد کا تعین نہیں ہو سکا۔ ٹرانسپورٹ کا کیا رونا‘ یہاں تو جان بچا کر سڑک پار کرنے کا طریقہ ہی نہ نصیب ہوا۔ کیا تحفظ، کیا صحت، کیا تعلیم، کیا ٹریفک‘ کچھ بھی تو نہیں۔ دنیا مریخ پر زندگی کے وجود کا سامان کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ خالص دودھ کہاں سے حاصل کریں؟ دکاندار نے کتنے گلے سڑے پھل تھیلے میں ڈال دیے؟ پٹرول کے میٹر کے ہندسے تیز گھوم رہے ہیں یا آہستہ؟ تمام تر توانائی مسلسل گرتی ہوئی صورتحال کے ساتھ نمٹنے میں صرف ہوتی ہے۔ ہر روز نئے سمجھوتے، ہر لمحہ نئی قربانیاں۔ ایسے میں ترقی کہاں سے ہو۔
ہم بد قسمت انسانوں کا ایسا جتھا ہیں جن کے ساتھ سیاست دان مخلص ہیں نہ کوئی اور! اور یہ تو فرش کا معاملہ ہے۔ عرش سے بھی آہوں کا جواب نہیں آ رہا۔ مائیں ہسپتالوں کے باہر سڑک پر بچے جن رہی ہیں۔ غریب کے معصوم بے گناہ بچے راتوں کو بھوک سے کسمسا کر روتے ہیں۔ طبّی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث کسی کا نومولود اُس کی بانہوں میں چیختے چلاتے دم توڑ دیتا ہے۔ مہنگائی کا وہ عالم ہے کہ خدا کی پناہ! ایک شکنجہ ہے جس میں خلق خدا کی ہڈیاں سُرمہ ہو گئیں اور گودا باہر رس رہا ہے۔ ایڑیاں بچی ہی نہیں جنہیں رگڑیں۔ آبادی کا آتش فشاں پہاڑ لاوا اگلنا بند ہی نہیں کر رہا۔ تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ اُس پر مستزاد یہ کہ جہالت اور جذباتی دیوانگی کا حشر بپا ہے۔ ایک سکول میں چند گھنٹوں میں سینکڑوں لخت ہائے جگر شہید کر دیے جاتے ہیں مگر ترجیحات ملاحظہ کیجیے:
پارلیمان اور کابینہ کے اراکین خود ہی اپنی موٹی تنخواہوں پر مزید بڑھاوا منظور کر رہے ہیں۔ نوکر شاہی زخمی معیشت کو بھنبھوڑ رہی ہے۔ بچوں کے پیٹ کاٹ کر جمع کئے گئے ٹیکس سے عیش و عشرت ہو رہی ہے۔ اُدھر جانیں جا رہی ہیں، اِدھر نئی کاریں آ رہی ہیں۔ یہ ہے آپ کی حیثیت اور آپ کے لئے ایوانوں سے آنے والا انصاف! لیکن دیکھیے اللہ کی لاٹھی ہے کہ حرکت میں نہیں آ رہی۔ سسکتے بلکتے عوام کی آہ و بکا فلک تک نہیں پہنچ رہی‘ اور افلاکی نظام عدل سے اُمید بھی کیونکر ہو؟ وہ تمام برائیاں جن میں سے ایک ایک کی وجہ سے پوری پوری قوموں کو عذاب سے مٹا دیا گیا‘ ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ عجیب امتزاج ہے۔ ہم بیک وقت مظلوم بھی ہیں اور ظالم بھی۔ جرائم، عصیان اور سیاہ کاریوں کا بازار گرم ہے۔ معاشرہ بیمار ہے اور وطن کو اِس سب کا گہوارہ بنا کر ہم اُس کا نام کلمے سے جوڑتے ہیں۔ شکایت یہ ہے کہ حکمران برے ہیں۔ کیا وہ بھی ہم میں سے اور ہمارے جیسے ہی نہیں؟ایسے عوام کے لیے کیا حکمران آسمان سے اتریں گے؟
ظلم اور نا انصافی کا یہ نظام ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ گمانِ غالب یہ ہے کہ جو کچھ ہے‘ بالآخر مسمار ہو جائے گا۔ ایسا کون سا دور گزرا ہے جس میں آپ نے کسی سے یہ سنا ہو کہ پہلے بڑا مشکل تھا‘ اب بہت بہتر ہے۔ ہمارا ہر آج گزرے ہوئے کل سے بد تر ہی رہا۔ تو ایسا کب تک ہو سکے گا؟ کوئی تو اختتام آئے گا۔
Every pit has its bottom!
ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم مسلسل گرتے ہی رہیں۔ قدرت کے اصولوں کے تحت یہ ممکن نہیں۔ اور قدرت کا یہ قانون بھی یاد رکھیے کہ گرتی ہوئی شے فرش سے ٹکرا کر ضرب کھاتی ہے اور اکثر پاش پاش ہو جاتی ہے۔ شاید مسمار شدہ ملبے کے ڈھیر ہی سے تبدیلی کی کونپلیں پھوٹیں۔
No comments:
Post a Comment