“” ایرانی خفیہ ایجنسی کا نمائندہ حاجی ناصر جو کہ پاکستان میں کاروباری شخصیت بن کر آتا جاتا رہتا ہے، سے رابطہ کیا۔ حاجی ناصر کے ساتھ ایران گیا اور اس نے ایرانی خفیہ ایجنسی کے افسران سے ملاقات کرائی۔ ایرانی خفیہ ایجنسی نے میری حفاظت کی ضمانت دی۔ اور بدلے میں مجھ سے معلومات دینے کا مطالبہ کیا جس پر میں راضی ہو گیا۔ ایرانی انٹیلی جنس کو میں نے کراچی میں آرمڈ فورسز کے اعلیٰ افسران کے نام اور رہائش گاہوں کی معلومات بھی دیں۔ کراچی میں قائم حساس اداروں کے دفاتر اور تنصیبات کے نقشے دیے اور تصاویر دینے کا وعدہ کیا۔ اہم تنصیبات کے داخلی و خارجی راستوں کی نشاندہی کرائی اور سیکیورٹی پر مامور لوگوں کی تعداد، رہائش اور آمد و رفت کا بھی بتایا۔ کراچی اور کوئٹہ کی آرمی کی تنصیبات سے متعلق معلومات دینے کا وعدہ کیا۔“
جاسوسی اور غداری کے یہ اعترافات کسی سول یا ملٹری ملازم کے نہیں۔ یہ کسی عام پاکستانی کے بھی نہیں۔ ایسا ہوتا تو یہ اعترافات کرنے والا آہنی گرفت میں ہو تا۔ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ملک کی سالمیت پر خشخاش کے دانے کے برابر بھی سمجھوتا نہیں کرتے۔ اس ضمن میں کوئی سویلین بچ سکتا ہے نہ کوئی فوجی! یہاں تک کہ بڑے سے بڑے جرنیل کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ سیکیورٹی ادارے اس سلسلے میں بڑے بڑے سے افسر کا نام بھی خفیہ رکھنے کے روادار نہیں نہ کسی کو رعایت دیتے ہیں۔
پاکستان کے معروف ترین اور قدیم ترین انگریزی معاصر نے اپنی تیس مئی 2019 ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل خبر شائع کی
” چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو سینئر ریٹائرڈ آرمی افسروں اور ایک سول افسر کی سزاؤں کی توثیق کر دی۔ ان کے خلاف چارج یہ ہے کہ انہوں نے جاسوسی کی اور حساس اطلاعات غیر ملکی ایجنسیوں کو دیں جو قومی سیکیورٹی کے خلاف ہے۔ یہ بیان آئی ایس پی آر نے دیا ہے۔ افسروں پر مقدمہ پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت چلایا گیا۔ مندرجہ ذیل تفصیل تینوں افراد کے نام اور سزاؤں کو بیان کرتی ہے۔
1۔ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال چودہ سال قید با مشقت
2۔ ریٹائرڈ بریگیڈیر راجہ رضوان۔ سزائے موت
3۔ ڈاکٹر وسیم اکرم ( جو ایک حساس ادارے میں ملازم تھا ) سزائے موت۔ ”
”آئی ایس پی آر نے ایک وڈیو بھی ریلیز کی ہے جس میں میجر جنرل آصف غفور نے دو نوں افسروں کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کی تصدیق کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر ہم نے ان افراد کو پکڑ لیا ہے اور مسئلے کی شناخت کر لی ہے، تو یہ ہماری کامیابی ہے“ ۔
یہ واقعی پاکستان کی کامیابی تھی۔ اس کا اعتراف بھارت نے بھی کیا ہے۔ ابھی جیت آئر مترا ایک سینئر دفاعی محقق ہیں۔ انڈین خارجہ پالیسی بھی ان کا خاص میدان ہے۔ ابھی جیت آئر مترا، مشہور بھارتی تھنک ٹینک Institute of Peace and Conflict Studies میں سینئر ریسرچ فیلو ہیں۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے جب یہ تینوں مجرم پکڑ لیے اور سزاؤں کا اعلان کیا تو ابھی جیت نے واضح طور پر پاکستان کی تعریف کی۔ ان کے الفاظ دیکھیے
” اس میں ( یعنی پاکستان کے اس ایکشن میں) بھارت کے لیے ایک سبق ہے اور وہ ہے ایک طاقتور سیکیورٹی پروگرام! جو ٹاپ کے افسروں کو بھی شک و شبہ سے بالا نہیں سمجھتا اور یہی بہترین اور موثر ترین کاؤنٹر انٹیلی جنس ہتھیار ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بھارت میں ’سروس وفاداری‘ اور وی آئی پی کلچر، جو سرایت کر چکا ہے، ایسا نہیں ہونے دیتا“ ۔
آپ نے دیکھا کہ ہمارا مضبوط نظام سینئر سے سینئر اور بڑے سے بڑے عسکری یا سول شخصیت کی غداری کو نہیں برداشت کرتا۔ بھارت تک نے ہمارے اس سسٹم کی تعریف کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس تحریر کی ابتدا میں جو اعترافی بیان عزیر بلوچ کا ہے اس پر اسے اور اس کے سہولت کاروں کو کیا سزا ملے گی؟ ملے گی یا نہیں؟ یہ انفارمیشن اگرچہ بالکل نئی نہیں ہے مگر پرسوں کے تمام اخبارات میں یہ اعترافات ایک بار پھر تفصیل سے شائع ہوئے ہیں۔ جارج آرویل کا یہ قول اب تو مشہور عالم ہو چکا ہے اور کچھ کچھ پامال بھی۔ کہ سب برابر ہیں مگر کچھ زیادہ برابر ہیں۔ بے یقینی کی کیفیت اس لیے ہے کہ ہمارے ہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بالخصوص جب بڑے لوگوں کے ساتھ کنکشن ہو۔
اس سے پہلے بھارت میں ایک صاحب نے پاکستان کے خلاف زہر بکھیرا اور دل کھول کر بکھیرا۔ یہ نومبر 2004 کی بات ہے۔ ملک کی قسمت کہ اس وقت ان صاحب کا کنکشن بڑے لوگوں کے ساتھ تھا۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ زہریلی تقریر کے بعد پاکستانی سفارت خانے کو یہ حکم بھی موصول ہوا کہ ان صاحب کے اعزاز میں ضیافت کا انتظام بھی کیا جائے! واہ! آسمان بھی کیا کیا انہونیاں دکھاتا ہے۔ عزیر بلوچ نے ہماری عسکری تنصیبات، آرمی افسروں کی تفصیلات اور دیگر حساس معلومات ایک دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی کو فراہم کیں۔ اس بھیانک جرم کا وہ خود اقرار کر رہا ہے! کہیں ایسا نہ ہو کہ جو اسے استعمال کرتے رہے، اسے بچا لے جائیں!
یہ جو اوپر عرض کیا ہے کہ ہمارے ہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے تو اس میں رمق بھر شائبہ نہیں۔ نہ صرف یہ کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، بلکہ جو نہیں ہو سکتا وہ بھی ہو جاتا ہے۔ کچھ دنوں سے ہم ایک صحافی کا وی لاگ دیکھ رہے تھے۔ آرا سے اختلاف تو ہوتا ہی ہے مگر اب تازہ ترین خبروں کے لیے سوشل میڈیا کی طرف دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ وی لاگر صاحب اچھے خاصے معقول سوشل میڈیا پرسن معلوم ہوتے ہیں۔ متین اور سنجیدہ! گفتگو میں ادبی ٹچ بھی ہے۔ بیچ بیچ میں پنجابی کے دلچسپ محاورے بھی ٹانکتے ہیں جس سے گفتگو دلچسپ ہو جاتی ہے، موثر بھی اور کچھ کچھ زعفران زار بھی۔ مگر ساری ثقاہت دھری کی دھری رہ گئی جب تین دن پہلے ایک ایسے نام نہاد مفتی کا انٹرویو لے رہے تھے جسے مفتی کہنا اس باعزت لقب کی توہین ہے۔ کبھی کسی خواجہ سرا سے نکاح، جہیز اور حق مہر کے معاملات طے کر رہا ہے اور کبھی کسی لڑکی سے تھپڑ کھا رہا ہے۔
ایسے شخص کی پروجیکشن اپنے اچھے بھلے معتبر وی لاگ کے ذریعے کر دی۔ گویا ریٹنگ کا ساہوکارہ الیکٹرانک میڈیا سے سفر کرتا ہوا سوشل میڈیا تک بھی آ پہنچا ہے۔ ایک لڑکا دو دن ایران کیا رہا، آپے سے باہر ہو گیا۔ گھر واپس آیا تو بیمار پڑ گیا۔ آب آب پکارتا رہا مگر بیچاری ماں کو کیا پتہ تھا کہ آب کیا ہوتا ہے۔ پیاس سے مر گیا تو ماں نے وہ جملہ کہا جو زندہ جاوید ہو گیا۔ آب آب کریندا مویا بچڑا، انہاں فارسیاں گھر پٹیا! اس ریٹنگ نے بھی خوش گمانیوں کے ہنستے بستے گھر اجاڑ دیے۔ اب تو ریٹنگ ہی سٹیٹس سمبل ہے۔ یعنی گھوڑا اور پرچم! سب اس ریٹنگ کے پیچھے یوں دوڑ رہے ہیں جیسے اسی میں کامیابی ہے۔ مگر کامیابی اور وہ بھی ایسی! مل بھی گئی تو پھر کیا! نظیر اکبر آبادی یاد آ گئے
گر تاج سر پہ رکھ کر افسر ہوا تو پھر کیا
اور بحر سلطنت کا گوہر ہوا تو پھر کیا
ماہی، علم، مراتب، پر زر ہوا تو پھر کیا
نوبت، نشاں، نقارہ، در پر ہوا تو پھر کیا
سب ملک سب جہاں کا سرور ہوا تو پھر کیا!
بشکریہ۔ ہم سب
No comments:
Post a Comment