Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, February 28, 2012

اور تم دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہو

چھ فٹ لمبے رشید کمال نے میرا سوال سنا‘ آنکھیں بند کیں اور ایک لمحے بعد کھولیں تو کرب اسکے چہرے پر چھایا ہوا تھا۔
”آٹھ سال ہو گئے‘ وطن نہیں گیا“۔
”کب پھیرا لگانے کا ارادہ ہے؟“ ..
..”جب حالات ٹھیک ہونگے“
آٹھ سال پہلے وہ وہیں تھا‘ دارالحکومت میں بیوی بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر کہیں جا رہا تھا‘ پولیس کی گاڑی نے اسے پریشان کیا‘ اس نے احتجاج کیا تو پولیس نے اسکی کار قبضے میں لے لی اور یہ بھی بتایا کہ کار کی ڈگی میں چرس رکھی ہوئی ہے۔ اسکی قسمت اچھی تھی‘ ایک اعلیٰ افسر اس کا دوست تھا اور اس سے رابطہ بھی ہو گیا۔ جان چھوٹ گئی لیکن اسکے اندر کوئی چیز کرچی کرچی ہو چکی تھی۔ آپ اندازہ لگایئے‘ بیوی اور دو بچے سڑک پر کھڑے ہیں‘ کار پولیس کے قبضے میں اور کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ زیادہ احتجاج کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ بیوی بچوں کی موجودگی میں اسکی پسلیاں توڑی جاتیں اور پھر تھانے میں بند کر دیا جاتا۔ رشید کمال نے ایک فیصلہ کرلیا‘ پناہ کے دروازے انٹرنیٹ پر کھل رہے تھے۔ وہ انٹرنیٹ پر بیٹھ گیا۔ کچھ عرصہ بعد بیوی بچوں کو لیا اور پولیس سٹیٹ کو خیرباد کہہ آیا۔
”حالات کب ٹھیک ہونگے‘ میں نے پوچھا۔
”جب مائنڈ سیٹ تبدیل ہو گا‘ جب ذہنیت بدلے گی؟“
میں نے اسے سمجھایا کہ بچوں کا ملک سے ملک کی ثقافت سے رابطہ ضروری ہے‘ وہ زیادہ وقفے سے سہی‘ جایا ضرور کرے‘ اس نے موضوع تبدیل کر دیا۔
 پرسوں اتوار تھا‘ 26 فروری تھی‘ دروازے پر دستک ہوئی‘ بابر رشید کمال کھڑا تھا۔ آکر بیٹھتے ہی بولا ”انکل! آپکا لیپ ٹاپ کہاں ہے؟“ اس نے لیپ ٹاپ کھولا‘ کی بورڈ پر کچھ ٹائپ کیا اور کہنے لگا“ آپ مجھے نصیحت کر رہے تھے کہ بچوں کا ملکی ثقافت سے ہم آہنگ رہنے کیلئے وطن جانا ضروری ہے‘ ذرا سنیئے۔
”ضمنی انتخابات میں پولنگ کے دوران لڑائی جھگڑوں کے دوران ملتان اور مردان میں کئی افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ ملتان میں وزیراعظم کے بیٹے کی کامیابی کی خوشی میں ریلی نکالی گئی۔ مخالف امیدوار کے حامیوں نے فائرنگ کی‘ ایک ہلاکت موقع پر ہو گئی‘ اندرون شہر کئی پولنگ سٹیشنوں پر اتنا جھگڑا‘ اتنی مار کٹائی ہوئی کہ پولنگ منسوخ کرنا پڑی۔ اسلحہ کی کھلے عام نمائش‘ صبح سے شام تک جاری رہی۔ مردان میں اے این پی کے امیدوار کی کامیابی کی خوشی میں اندھا دھند فائرنگ سے پورا علاقہ گونجتا رہا اور اس ہوائی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ ٹنڈومحمد خان میں خاتون امیدوار نے الیکشن کمشن کے عملے کی خواتین پر مکوں‘ تھپڑوں اور چانٹوں کی بارش کر دی۔ یہ منظر ٹی وی پر اور یو ٹیوب پر پوری دنیا میں دیکھا گیا اور دیکھا جا رہا ہے۔ وہاڑی میں پولنگ کے دوران گروہوں کے درمیان تصادم ہوا‘ پولنگ رک گئی اور رینجر بلا لئے گئے۔ بہاولپور میں خواتین کے پولنگ سٹیشن میں مرد عملہ گھس گیا۔ ناتھا سنگھ میں دو گروپوں کے درمیان پولنگ سٹیشن کے اندر ہی فائرنگ ہوتی رہی۔ یونین کونسل موچھ میں پولنگ سٹیشن کے اندر فائرنگ ہوئی اور دس سالہ لڑکا شدید زخمی ہو گیا۔ چیک لالہ میں دس پولنگ سٹیشنوں پر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا۔ میانوالی میں پولنگ سٹیشن پر ایک شخص دل کا دورہ پڑنے سے وہیں پر جاں بحق ہو گیا۔ کامیاب امیدواروں نے جشن منائے‘ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ہوئے اور مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ سنگھڑپور میں ووٹرز نے پولیس کے جوان پر تشدد کیا۔“
رشید کمال سے میں نے کوئی بحث نہیں کی لیکن میں نے یہ ضرور سوچا کہ آج اگر پڑھے لکھے پاکستانیوں کو رشید کمال کی طرح باہر بھاگ جانے کا موقع ملے تو کتنے لوگ بھاگنے کیلئے تیار ہوجاِئیں گے‘ اور پھر کتنے ہیں جو واپس آئینگے؟
کوئی مانے یا نہ مانے‘ سچی بات یہ ہے کہ اس ملک کے رہنے والے گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں‘ ایک طبقہ وہ ہے جس کا پڑھائی لکھائی‘ کتاب‘ مطالعہ‘ متانت‘ شائستگی اور برداشت سے دور کا تعلق بھی نہیں‘ اس میں حکمران ہیں‘ سیاست دان اور انکے حامی جو بلاشبہ لاکھوں کروڑوں میں ہیں۔ آپ اگر سیاسی جماعتوں سے گنتی کے مشاہد حسین‘ اعتزاز احسن‘ صدیق الفاروق اور فرحت اللہ بابر نکال دیں تو معاملے کو سمجھنا زیادہ آسان ہو جائیگا۔ بندوقوں کی چمکتی ہوئی نالیاں‘ کلاشنکوفوں کا لوہا‘ جہازی سائز کی گاڑیاں‘ لکڑی کی طرح کھڑکھڑاتی پوشاکیں اور سونے کی انگوٹھیاں‘ ڈیرے‘ خوفناک کتے‘ گن مین‘ محلات‘ یہ ہے حکمران طبقہ اور اس میں حکومت یا حزب اختلاف کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ان سیاستدانوں کے حامی بھی اسی قماش کے ہیں‘ ان کا علم سے دیانت یا متانت سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ لوگوں کو کھینچ کر یا مارپیٹ کر پولنگ سٹیشنوں پر لانا ہے۔ جلوس نکالنے ہیں‘ بھنگڑے ڈالنے ہیں‘ تھانوں کچہریوں کے معاملات طے کرنے ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو دن بدن سکڑ رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نرم گفتار ہیں‘ پڑھے لکھے ہیں‘ دیانت دار حکمرانوں کی حسرت میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں اور عزت بچا کر کونوں کھدروں میں چھپے ہوئے ہیں۔
آپکا کیا خیال ہے‘ آپ کو اگر موقع ملے تو کیا آپ اپنے بچوں کو اس معاشرے میں رکھنا پسند کرینگے‘ جہاں خوشی منانے کیلئے وحشی جانور ہوائی فائرنگ کریں اور اس قدر کریں کہ انسان موت کے گھاٹ اتر جائیں۔ جہاں سیاسی جماعتوں کے نمائندے خاتون پولنگ افسروں کے چہروں پر تھپڑ اور مکے رسید کریں اور جہاں عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا جائے؟ تو پھر رشید کمال کو موقع ملا ہے تو وہ بھی تو یہی چاہتا ہے کہ اسکے بچے اس معاشرے میں پلیں‘ بڑھیں جہاں کوئی کسی کو اوئے نہیں کہتا۔ جہاں کوئی فرش پر نہیں تھوکتا‘ جہاں کوئی ناک میں انگلی نہیں مارتا‘ جہاں جیتنے والے امیدوار جلوس نکالنے کا سوچ بھی نہیں سکتے‘ جہاں ہوائی فائرنگ کا کوئی تصور نہیں‘ جہاں اسمبلیوں کی رکنیت موروثی نہیں‘ جہاں وزیر سرکاری دورے پر آئے تو ایئرپورٹ سے اتر کر تنہا‘ اکیلا آتا ہے اور اسکے استقبال کیلئے کوئی ایک شخص بھی اپنے دفتر سے باہر نہیں نکلتا۔ جہاں آپ دس سال بھی رہیں تو آپکو کسی بازار میں‘ کسی دفتر میں‘ کسی سڑک پر کوئی شخص فوجی وردی میں نہیں نظر آتا اور جہاں کوئی شخص بھی لین دین کرتے ہوئے  جھوٹ نہیں بولتا۔
کوئی مانے یا نہ مانے‘ سچی بات یہ ہے کہ یہ ملک ”دوگروہوں میں منقسم ہو چکا ہے‘ تھپڑ کھانے والے اور تھپڑ مارنے والے‘ کیا آپ نے اس سوال پر غور کیا ہے کہ آخر کسی ایک سیاست دان نے بھی‘ کسی ایک سیاسی جماعت نے بھی‘ خاتون پولنگ افسر کو تھپڑ مارے جانے پر کیوں احتجاج نہیں کیا۔ احتجاج تو دور کی بات‘ کیوں اعتراض تک نہیں کیا؟ اسلئے کہ تھپڑ مارنے والے سب ایک طبقے سے ہیں اور تھپڑ کھانے والے سب‘ دوسرے طبقے سے۔ جس پر تھپڑوں اور مکوں کی بارش ہوئی‘ وہ استاد تھی‘ سکول یا کالج میں پڑھاتی تھی اور تھپڑ مارنے والے طبقے کو اطمینان ہے کہ اسکا اور اسکی آئندہ نسلوں کا پڑھنے پڑھانے اور سکول کالج سے کوئی تعلق نہیں اور اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ تبدیلی آئیگی تو وہ دیکھ لے اور اچھی طرح دیکھ لے کہ تھپڑ مارنے والوں سے اس عمران خان کی پارٹی بھر چکی ہے جو تبدیلی کا نعرہ لگا رہا ہے۔

Tuesday, February 21, 2012

لکڑی کا بیل

اپنی ننھی سی انگلی سے اس نے بٹن آن کیا۔ بیٹری والی کار چلنے لگی۔جہاں رکاوٹ ہوتی، کار ذرا سا رُک کر، واپس ہوتی اور پھر کسی دوسرے رخ چل پڑتی۔ اب وہ اس شور مچاتی کار کو روکنا چاہتا تھا لیکن اس سے بٹن آف نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اسے پکڑ کر میرے پاس لے آیا اور اس زبان میں جسے صرف وہ سمجھتا تھا اور فرشتے، مجھے بند کرنے کےلئے کہا اور میں نے بیٹری کا بٹن آف کر د یا۔

لیکن ڈیڑھ سالہ پوتے کے ساتھ کھیلتے ہوئے میں کہیں اور جا پہنچا تھا۔ مجھے لکڑی کا بیل یاد آ رہا تھا۔ لکڑی کا وہ بیل جو مجھے میرے نانا اور ماموں نے بنوا کر دیا تھا اور جو میرے ننھیالی گاﺅں بکھوال کے ترکھان نے بنایا تھا۔ میں اپنے نانا نانی کا پہلا نواسہ تھا۔اس وقت ان کا پوتا بھی نہیں پیدا ہوا تھا۔ میں وی آئی پی تھا اور وی آئی پی کی پہلی نشانی یہ ہوتی تھی کہ گاﺅں کے ترکھان سے، جسے سرکھجانے کی فرصت نہیں ہوتی تھی ،  خصوصی طور پر لکڑی کا بیل بنوایا جاتا تھا۔ بیل کے پیچھے ننھا سا چھکڑا تھا۔ نیچے پہیے لگے ہوئے تھے۔ آگے رسی تھی اور میں اسے صحن بھر میں بھگاتا پھرتا تھا۔
ستائیس سال کے بعد میرا بیٹا پیدا ہوا تو میں اسلام آباد میں تھا اور سول سروس میں تھا۔ کھلونوں کے ڈھیر لگ گئے لیکن میری سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔ گاﺅں ماموں کو خط لکھا کہ اسرار کےلئے لکڑی کا بیل بنوا کر بھیجیں۔ کہنے لگے یار، وہ ترکھان مر کھپ گئے۔ آج کل بیل کون بنواتا ہے۔ میں نے ضد کی۔ میں بیٹے کو اس عیاشی سے محروم نہیں رکھنا چاہتا تھا ۔چنانچہ لکڑی کا بیل بن کر آیا اور اسرار اس سے کھیلا۔
اسرار کے ڈیڑھ سالہ بیٹے نے اپنی کار کی بیٹری مجھ سے بند کروائی تو مجھے پہلے تو لکڑی کا بیل یاد آیا اور پھر اسکے بعد بہت کچھ اور یاد آیا اور یاد آتا چلا گیا۔ اسکے پاس وہ سارے کھلونے ہیں جو کسی بچے کے پاس ہو سکتے ہیں۔ اسکی دادی‘ چاچوں، پھپھیوں‘ مامے، اور اسکے چین نژاد نانا اور نانی کے دیئے ہوئے کھلونوں سے اس کا کمرہ بھرا پڑا ہے اور چھلک رہا ہے لیکن مجھے اس پر ترس آ رہا ہے۔ پاکستان میں اس کا ضدی، روایت پرست دادا، کسی نہ کسی طرح لکڑی کا بیل بنوا لیتا لیکن یہ تو میلبورن ہے۔ ترکھان ڈھونڈوں تو کیسے ڈھونڈوں اور کہاں سے ڈھونڈوں؟
لکڑی کا بیل تو صرف ایک لگژری ہے جس سے یہ بچہ محروم ہے۔ عیاشی اور تفریح کا ایک جہان ہے جسے یہ نہیں حاصل کر سکتا اور جس میں اس کا خوش قسمت دادا خوشیوں کے ہلکورے لیتا رہا۔ رات کو دودھ والی چاٹی میں نانی یا دادی تنور کی روٹی کا ایک بڑا سا ٹکڑا ڈال دیتی تھیں۔ صبح یہ نرم ہو چکا ہوتا تھا اور مٹی کے بڑے سے پیالے میں دہی کے ساتھ ملتا تھا اور مزے لے لے کر کھایا جاتا تھا ۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد چینی ملا میٹھا ادھ رِڑکا دیا جاتا تھا۔ روٹی پر مکھن کا بڑا سا پیڑا ہوتا تھا۔ ساتھ شکر ہوتی تھی اور لسی اور یہ گاﺅں کی اپر کلاس کا کھانا تھا! رات کی بچی ہوئی کھیر، مٹی کی پلیٹ میں جو ٹھنڈک بھرا ذائقہ دیتی تھی، اسکے بعد کہیں نہیں ملا۔
سہ پہر کو ٹوکری میں چنے یا مکئی کے دانے ڈال کر بھٹیارن کے پاس جا کر بھنواتے تھے۔ یہ SNACKS آج میرے پوتے کے نصیب میں کہاں! کوئی فاسٹ فوڈ، کوئی چاکلیٹ، بھٹیارن کے بھُنے ہوئے دانوں کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ دوپہر کو جب دادی سوئی ہوتی تھیں تو چھپر میں گھڑونجی کے نیچے، ٹھنڈی گیلی ریت پر پڑی، کڑھے ہوئے دودھ سے بھری دیگچی میں سے بالائی اتار کر کھانے کا کیا لطف تھا اور چونکہ یہ واردات چوری کی ہوتی تھی اس لئے اس کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا۔
کیا آج میں اپنے پوتے اور نوا سی کو قائل کر سکتا ہوں کہ اس وقت ریفریجریٹر کا نام و نشان نہ تھا۔ جو گوشت پکنے سے بچ جاتا تھا اسے محفوظ رکھنے کی ایک ہی صورت تھی کہ صحن کے درمیان میں کپڑے سکھانے والی تار کے ساتھ باندھ کر لٹکا دیا جاتا۔ تار کے عین نیچے چارپائی پر کوئی نہ کوئی سو رہا ہوتا پھر بھی مہم جو بلی رات کے کسی حصے میں ضرور اس لٹکتے گوشت پر حملہ کرتی۔ کسی کی آنکھ کھل جاتی تو شور برپا ہو جاتا اور ایک ہنگامہ مچ جاتا!
لاﺅنج، ڈرائنگ روم اور بیڈ روموں میں قید، ان بچوں کو کیسے بتایا جائے کہ عصر کے بعد، جب سائے خوب ڈھل جاتے تو بڑے بڑے صحنوں میں صفائی کے بعد پانی کا چھڑکاﺅ ہوتا۔ چارپائیاں باہر نکالی جاتیں، ان پر گدے (تلائیاں) اور گدوں پر چھیبی ہوئی چادریں بچھائی جاتیں۔ ساتھ کڑھے ہوئے غلافوں والے تکیے ہوتے۔ ان بستروں پر لیٹ کر، اچھل کر اور قلابازیاں کھا کر کتنا لطف آتا۔ دوسرے صحن میں بکریوں کےلئے بیری کی کٹی ہوئی جھاڑیاں پڑی ہوتیں جو اسی شام باہر سے چرواہے نے لا کر رکھی ہوتیں۔ ان جھاڑیوں سے میٹھے بیر چن چن کر کھانے میں کیا مزا تھا! اور مویشیوں والے صحن میں کیا مہک ہوتی! میمنے کی خوشبو! جسے ہم بوسہ دیا کرتے۔ گھوڑی کی کھال سے نکلنے والی خوشبو اور تازہ کٹی ہوئی گندم سے نکلنے والی عجیب مست کر دینے والی مہک! کیا خوشبوئیں تھی جو زندگی بھر ساتھ رہیں۔ مٹی کے کورے پیالے سے نکلنے والی سوندھی خوشبو! تنور سے اترنے والی گرم روٹی کی خوشبو! سرسوں کے پھولوں بھرے کھیت میں سے گزرنے وقت ناک سے ٹکرانے والی خوشبو اور گاﺅں سے تھوڑی دور بہنے والی ندی کے مٹیالے پانی کی خوشبو.... وہ پانی جو کسی بھی منرل (Mineral)واٹر سے زیادہ میٹھا ا ور زیادہ صاف تھا!
ہم رات کو سوتے وقت سینکڑوں ہزاروں تارے دیکھتے تھے جو آسمان پر جگمگا رہے ہوتے تھے۔ یہ وہ منظر ہے جسے میرا پوتا شاید ہی دیکھ سکے۔ ہم گاﺅں کے جنوب میں پہرہ دیتی پہاڑیوں کے پار کھلے میدان میں گلی ڈنڈا کھیلتے تھے۔ واپس آتے تھے تو تھکاوٹ اتارنے کےلئے ٹھنڈے میٹھے ستو پیتے تھے۔ ہاتھوں سے بنی ہوئی سویاں کھاتے تھے۔ باجرے کے خوشے ہمارے لئے تنور میں رکھے جاتے تھے تاکہ دانے بھن جائیں۔ گندم کے اور مکئی کے اور جوار کے اور چنوں کے مرنڈے کھاتے تھے۔ کھیتوں سے نکالے ہوئے چنوں کے پودوں سے سبز چنے کھاتے تھے۔ موٹھ اور مونگ کی ادھ پکی پھلیاں کھاتے تھے۔ بیلوں میں چھپے ہوئے اور زمین پر لیٹے ہوئے خربوزے اور تربوز اپنے ہاتھوں سے توڑتے تھے۔ شہر سے ہمارے لئے چاکلیٹیں نہیں بلکہ گنوں کے گٹھے آتے تھے جنہیں ہم دانتوں سے چھیل چھیل کر کھاتے تھے۔
بڑے بڑے شاپنگ مالوں میں آج میرا پوتا، خود کار سیڑھیوں پر خود ہی سوار ہوتا ہے اور خود ہی اتر آتا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ اس کا دادا جب گھوڑی کو پانی پلانے، گاﺅں سے باہر، تالاب کی طرف لے جانے لگتا تو اس پر زین نہیں صرف تہہ کیا ہوا کمبل ہوتا تھا جس پر اس کا دادا اچھل کر سوار ہوتا اور اپنے نانا کی ہدایت کے بالکل برعکس، گھوڑی کو بھگا کر لے جاتا۔ اسلام آباد کے ایک گھر میں ڈیڑھ سالہ حمزہ کی آبائی زینیں ایک ڈرائنگ روم کی زینت ہیں۔ وہ زینیں جن پر اس کا دادا، پردادا اور لکڑدادا سوار ہوتے رہے‘ آج ANTIQUEبنی ایک کونے میں پڑی ہیں!

Tuesday, February 14, 2012

اسے مسجد کے دروازے پر جوتے مارے جائینگے

ایک چھوٹی سی خبر.... کسی نے دیکھی کسی نے نہیں.... لیکن اگر ذہن کھلا ہو اور نیت صاف ہو تو یہ چھوٹی سی خبر ہی بیماری کی تشخیص بھی ہے اور علاج بھی۔ ہاں‘ اگر کوئی حیرت سے یہ پوچھے کہ کون سی بیماری؟ ہم تو بالکل تندرست ہیں ، بالکل نرول‘ تو پھر علاج کی ضرورت ہے نہ تشخیص کی!

الحمد للہ! پہلے کی نسبت ہماری مسجدیں زیادہ آباد ہیں۔ باریش چہروں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ نقاب اوڑھنے والی اور حجاب کرنے والی بیٹیوں اور بہنوں کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ نماز پڑھ کر باہر نکلنے والے لوگ‘ صحن میں دھری ہوئی صندوقچی میں ضرور کچھ نہ کچھ ڈالتے ہیں۔ دعوت دینے والے بھائیوں کے اجتماع آئے دن برپا ہوتے ہیں اور لاکھوں میں حاضری ہوتی ہے۔ احرام کی چادریں‘ ٹوپیاں‘ اور عبائیں‘ تسبیحیں‘ جائے نمازیں اور مسواکیں بیچنے والوں کے ہاں رونقیں لگی ہیں۔ الحمد للہ آج پہلے کی نسبت مذہب کا ہماری زندگیوں میں کہیں زیادہ عمل دخل ہے!

بس ایک ذرا سا مسئلہ ہے۔ سندھ حکومت نے بتایا ہے کہ چالیس ہزار ایسے افراد کا پتہ چلا ہے۔ جو تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن کبھی ڈیوٹی پر نہیں آئے۔ لاکھوں افراد اور سینکڑوں ہزاروں کاروباری مراکز بجلی چوری کر رہے ہیں۔ لاکھوں دکاندار اپنی دکانوں کے سامنے فٹ پاتھ یا سڑک استعمال کرکے تجاوزات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ جانتے بوجھتے ہوئے ٹریفک کے قوانین توڑے جا رہے ہیں۔ مسجدوں ہسپتالوں بازاروں کے سامنے گاڑیوں کے پیچھے گاڑیاں کھڑی کرکے دوسروں کو اذیت پہنچائی جا رہی ہے۔ کروڑوں تاجر کم تول رہے ہیں۔ کم ماپ رہے ہیں۔ شے بیچتے وقت شے کا نقص نہیں بتایا جاتا۔ خرید و فروخت میں دھوکے دئیے جا رہے ہیں۔ ایک کلو سیب لیں تو چپکے سے گندے سڑے ہوئے سیب دئیے جاتے ہیں۔ منڈی سے پھلوں کی پوری پیٹی خریدیں تو آدھی خالی نکلتی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاءمیں ملاوٹ کی جا رہی ہے۔ جعلی دوائیں بنائی جا رہی ہیں فروخت کی جا رہی ہیں۔ ہسپتالوں سے ادویات چوری کی جا رہی ہیں۔

 کارپوریشنوں اور خود مختار اداروں میں‘ تحصیلوں اور ضلعوں میں‘ صوبائی اور مرکزی دارالحکومتوں میں ہر روز جعلی بل‘ جعلی رسیدیں‘ جعلی وائوچر‘ جعلی گوشوارے‘ جمع کرا کر کروڑوں اربوں روپے کی خیانت کی جا رہی ہے۔ عدالتوں میں ہر روز جھوٹی شہادتیں دی جا رہی ہیں۔ جھوٹی قسمیں کھائی جا رہی ہیں۔ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر سچ سے انحراف کیا جا رہا ہے اربوں روپے کی رشوت دی جا رہی ہے اور وصول کی جا رہی ہے۔ ہر شہر‘ ہر قصبے ہر گائوں میں‘ دکانوں کارخانوں منڈیوں‘ بندرگاہوں دفتروں میں ٹیکس کی چوری کی جا رہی ہے۔

ہر شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ اولاد ماں باپ سے ماں باپ بچوں سے‘ بیوی شوہر سے‘ شوہر بیوی سے‘ ماتحت افسر سے اور افسر ماتحتوں سے جھوٹ بول رہا ہے۔ اسمبلیوں میں‘ بازاروں میں‘ عدالتوں میں گھروں میں‘ یہاں تک کہ جنازہ گاہوں میں جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ رات دن وعدہ خلافی کی جا رہی ہے۔ وقت طے کر کے اسکی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ معاہدوں پر دستخط کرکے انحراف کیا جاتا ہے۔

یہ سب کچھ کرنے والے باقاعدگی سے مسجدوں میں حاضری دے رہے ہیں۔ برے سے برا مسلمان جمعہ کی نماز ضرور پڑھتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق نوے فیصد پاکستانی جمعہ کی نماز ضرور پڑھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر سات دن کے بعد وعظ سنتے ہیں اور یہ ہفتہ وار وعظ یہ سب لوگ بچپن سے سن رہے ہیں۔ تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا؟

یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص پوری زندگی ہر ہفتے یہ نصیحت سنے کہ تم نے جھوٹ نہیں بولنا‘ حرام نہیں کھانا‘ وعدہ خلافی نہیں کرنی‘ دھوکا نہیں دینا‘ جعل سازی نہیں کرنی.... اور اس کے باوجود وہ ایسا کرے! نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ ہفتہ وار وعظ میں اسے یہ تلقین نہیں کی جا رہی۔ اسے کچھ اور بتایا جا رہا ہے! اور اس بات کی گواہی وہ چھوٹی سی خبر دے رہی ہے جس کا ذکر اس تحریر کے آغاز میں ہوا ہے۔

خبر یہ ہے کہ پاکستان کے ایک بڑے شہر میں‘ ایک اسلامی مدرسہ کے ناظم نے پولیس کو رپورٹ کی کہ اس کے مدرسہ میں بچے قرآن پاک کا سبق پڑھ رہے تھے کہ پڑوس کے گھر سے قرآن پاک پر اینٹیں پھینکی گئیں۔ چنانچہ سیکشن 295 بی کے تحت ایف آئی آر کٹ گئی۔ پڑوس کے مکان میں ایک بیوہ رہتی تھی۔ پولیس نے اسکی ملازمہ اور ڈرائیور کو گرفتار کر لیا۔ خبر اس قدر پھیلی کہ میڈیا کا نمائندہ بھی پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ ناظم مدرسہ کے پاس ایک سابق کونسلر بھی موجود ہے ۔ ان دونوں نےمیڈیا کو بتایا گیا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ ناظم صاحب نے مقدمہ واپس لے لیا ہے اور اس کے بدلے میں پڑوسن بیوہ نے ڈیڑھ مرلہ زمین مدرسہ کو دے دی ہے۔ جب اخباری نمائندے نے بیوہ سے ملنا چاہا تو ناظم اور کونسلر نے سمجھایا کہ اسے ملنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ معاملہ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن اخباری نمائندہ نے بیوہ سے ملاقات کی۔ عمر رسیدہ بیوہ زار و قطار روئی اور بتایا کہ ایک مسلمان عورت اپنی جان تو دے سکتی ہے کلام پاک پر اینٹ نہیں پھینک سکتی۔ میں تو ہمیشہ سے اس مدرسہ کو کچھ نہ کچھ دیتی ہی رہی ہوں۔ بات صرف اتنی ہے کہ مدرسہ کے ناظم میری کچھ زمین مدرسے میں شامل کرکے توسیع کرنا چاہتے تھے اور میں اس پر رضامند نہیں تھی۔ یہ مقدمہ اسی سلسلے میں ”تصنیف“ کیا گیا۔

اخباری نمائندے نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ پولیس کے فلاں شخص کو ناظم صاحب نے چالیس ہزار روپے اس خدمت کے ”معاوضہ“ کے طور پر دئیے ہیں!

حاشا وکلا۔ مقصود یہ نہیں کہ کسی کی دل آزاری کی جائے۔ اچھے بُرے عناصر ہر شعبے میں ہیں۔ مدارس چلانے والے بھی اسی معاشرے سے ہیں۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور خراب بھی‘ جو بات یہاں سمجھ میں آتی ہے یہ ہے کہ ناظم مدرسہ‘ سابق کونسلر اور پولیس.... کوئی بھی جھوٹ اور فریب دہی کو برا نہیں سمجھ رہا۔ اہل محلہ مولوی صاحب کی مذمت تو کریں گے لیکن یہ نہیں کہیں گے کہ جھوٹ بولنے والے یا فریب دہی کرنےوالے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ ہاں اگر بیچارے مولوی صاحب فلم دیکھتے پکڑے جاتے‘ پتلون میں ملبوس دیکھ لئے جاتے‘ ان کی بیگم صاحبہ کے سرسے دوپٹہ اترا ہوا دریافت کر لیا جاتا‘ انکی بیٹی بیچاری اپنے کالج کے کسی تفریحی ڈرامے میں اداکاری کر لیتی تو یہ جرم ناقابل معافی ہوتا اور پورا محلہ فتویٰ دیتا کہ ”فحاشی“ کرنے یا پھیلانے والے مولوی کے پیچھے ہم نماز نہیں پڑھ سکتے!

اللہ نے اس قوم کی اصلاح کا جتنا موقع جمعہ کے دن وعظ کرنےوالے عالم دین اور محلے کی مسجد کے امام کو دیا ہے‘ کسی کو بھی نہیں دیا۔ آج اگر ہمارے مولوی صاحبان خوف اور مصلحت سے بے نیاز ہو کر لوگوں کو ظاہری حلیہ بدلنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا شروع کر دیں کہ جھوٹ بولنا‘ جھوٹی گواہی دینا‘ کم تولنا‘ حرام کھانا‘ ٹیکس چوری کرنا بھی اسی طرح غلط ہے جس طرح داڑھی مونڈنا اور حجاب نہ کرنا غلط ہے تو اس معاشرے کا رنگ ہی بدل جائے۔ آج اگر ہمارے علماءمدرسوں اور مسجدوں کےلئے عطیات قبول کرنے سے پہلے دینے والے کی آمدنی کا جائز ہونا بھی کنفرم کرا لیں‘ آج اگر وہ یہ طے کر لیں کہ رشوت دینے اور لینے والے کو ہم اہل محلہ کے سامنے ذلیل کرکے رہیں گے‘ آج اگر وہ منبر پر کھڑے ہو کر ٹیکس چوری کرنےوالے‘ کم تولنے والے اور جعلی دوائیں بنانے اور بیچنے والے کے سماجی بائیکاٹ کا حکم دے دیں اور آج اگر وہ یہ اعلان کر دیں کہ پبلک کی سڑک یا فٹ پاتھ پر تجاوزات قائم کرنےوالے کو مسجد کے دروازے پر جوتے مارے جائیں گے کیوں کہ یہ ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے تو خدا کی قسم! اس ملک کے سیاستدان بھی تیر کی طرح سیدھے ہو جائیں۔

Tuesday, February 07, 2012

فرشتوں کی زاری

پہلا منظر: -- بوڑھے بچے جوان مرد عورتیں جمع ہیں، لوگ نعرے لگا رہے ہیں، لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان، مقرر تقریر کر رہا ہے۔ ”ہم مسلمانوں کو ہندوﺅں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، ہندو بنیے کے پاس دولت ہے، متحدہ ہندستان میں ہندو بنیا اپنی دولت کی بنیاد پر مسلمانوں کا جینا حرام کر دے گا۔ ہمیں ہندو بنیے سے انصاف کی توقع نہیں، مسلمانوں کو انصاف چاہیے، عزت کی زندگی چاہیے، مسلمانوں کو مناصب وزارتیں اور اسمبلیوں کی ممبریاں  اہلیت کی بنیاد پر چاہئیں، دولت کی بنیاد پر نہیں“۔

لوگ مقرر کو داد دے رہے ہیں، نعرے ایک بار پھر لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔

دوسرا منظر: -  قافلہ جا رہا ہے سامان بیل گاڑیوں پر لدا ہے لوگوں نے سروں پر بھی گٹھڑیاں صندوق اور بستر اٹھائے ہوئے ہیں۔ عورتوں سے چلا نہیں جا رہا، بوڑھے تھک تھک کر گر رہے ہیں بچے بھوک اور پیاس سے بلک رہے ہیں لوگ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں:

”سرحد کتنی دور ہے“۔

”پاکستان کس وقت پہنچیں گے؟“

”قائد اعظم کا پاکستان ہمیں اپنی پناہ میں کب لے گا“۔

اچانک ایک طرف سے شور برپا ہوتا ہے، نعرے لگتے ہیں بھارت کی جے بھارت کی جے، کرپانیں چمکتی ہیں حملہ ہو گیا ہے۔ مرد لاٹھیوں سے کرپانوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور شہید ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو کرپانوں کی نوک پر اچھالا جاتا ہے۔ عورتیں رات کے اندھیرے میں بھاگ اٹھتی ہیں لیکن تعاقب کرکے انہیں پکڑ لیا جاتا ہے ۔لاکھوں مسلمان ٹرینوں میں قتل ہو جاتے ہیں۔ قافلے لٹتے ہیں۔ لاشیں روندی جاتی ہیں۔ دوشیزائیں کنوﺅں میں چھلانگیں لگاتی ہیں۔ محتاط اندازے کےمطابق ایک لاکھ سے کہیں زیادہ مسلمان عورتیں مشرقی پنجاب میں روک لی جاتی ہیں۔ انہیں زبردست سکھ بنا کر بیویوں کی طرح رکھا جاتا ہے۔ بہت سی چھپ چھپ کر نمازیں پڑھتی ہیں۔ انہیں اذیتیں دی جاتی ہیں۔ انکے پیٹ سے سکھ بچے پیدا ہوتے ہیں۔

پاکستان کے طول و عرض میں مہاجر کیمپ بنتے ہیں۔ لوگ اپنے  خاندانوں کے گمشدہ افراد کو  ڈھونڈتے ہیں۔ بیٹا کراچی میں ہے تو ماں لاہور میں، باپ راستے میں قتل ہو گیا ، بہن کا سراغ ہی نہیں مل رہا۔

تیسرا منظر:

زمانہ ۔ سنیچر۔ چار فروری 2012ئ

مقام ۔ رائے ونڈ

ہمایوں اختر اور سینیٹر ہارون خان رائے ونڈ جاتے ہیں اور مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کو اپنی وفاداریاں پیش کرتے ہیں اور مطالبات بھی۔ میاں محمد نواز شریف ہمایوں اختر کو لاہور سے ٹکٹ دینے کے بجائے فیصل آباد سے الیکشن لڑنے کا کہتے ہیں جہاں سمندری میں ہمایوں اختر کی شوگر مل ہے۔ ہمایوں اختر مان جاتے ہیں لیکن مطالبہ کرتے ہیں کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف انکے نئے انتخابی حلقے کیلئے ترقیاتی سکیم منظور کریں۔ ہارون اختر خان۔ ذرائع کے مطابق سینٹ کے ٹکٹ کی فرمائش کرتے ہیں۔ یہ ٹکٹ وہ ٹیکنو کریٹ کے طور پر چاہتے ہیں۔
جس معروف ویب سائٹ نے پانچ فروری  ۲۰۱۲ ء  کو یہ خبر  دی ہے اس کے مطابق گنے کی فصل کے آغاز میں دونوں بھائیوں نے پانچ کروڑ روپے کا   " عطیہ "   نون لیگ کو دیا ہے۔ ویب سائٹ کا دعوا ہے کہ  کہ دونوں بھائیوں میں سے ایک نے خود بتایا ہے کہ اس نے  شہباز شریف کو سیلاب فنڈ میں  دس کروڑ روپے اس کےعلاوہ دیے ہیں۔
ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ  اسحاق ڈار اس حق میں ہیں کہ ہارون خان  کو ٹیکنو کریٹ کے طور پر سینٹ کی نشست دی جائے۔ معاملہ کچھ عرصے کیلئے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ التوا کی وجہ یہ ہے کہ اختر برادران کے ماموں  فاروق خان کو سینٹ کی عمومی نشستوں (جنرل کیڈر) کیلئے زیر غور رکھا جا رہا ہے جو فیصل آباد ڈویژن کے امیر ترین صنعت کار ہیں،  ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ذرائع کےمطابق مسلم لیگ نون، سینٹ کے انتخابات کے موقع پر، اپنی نشستیں مہنگے داموں بیچنے پر  تیار  ہے۔ اس پارٹی کی چار عمومی نشستوں میں سے دو نشستیں سینیٹر اسحاق ڈار اور سردار ذوالفقار خان کھوسہ کو دیئے جانے کا امکان ہے۔ باقی نشستیں "" فروخت  کی جائیں گی۔"""   
چوتھا منظر:
فرشتے سر بسجود ہیں، گریہ و زاری کر رہے ہیں۔ بارِ الٰہا! وہ لاکھوں مسلمان عورتیں جو مشرقی پنجاب میں سکھوں نے رکھ لیں، وہ بچے جو کرپانوں کی نوک پر اچھالے گئے، وہ لاکھوں مسلمان مرد جو کٹ مرے،  وہ کنوﺅں میں چھلانگیں مارنے والی دوشیزائیں جو تیرے حبیب کی نام لیوا تھیں۔ وہ بوڑھے جن کے ہاتھوں میں تسبیحیں تھیں اور جو ٹرینوں میں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے گئے۔  وہ مائیں جو بیٹیوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ رحم کر ِ الٰہی، تو  بستیاں انڈیل دینے کا حکم دے سکتا ہے۔
!

فرشتے حکم کا انتظار کر رہے ہیں۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو شخص بھی یہ کالم پڑھے  ازراہ کرم۔ کم   از کم پانچ دوستوں کو ضرور  بھیجے  تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ سینیٹ کے انتخابات میں کیا ہو رہا ہے  ۔

Wednesday, February 01, 2012

دونوں میں سے ایک----صرف ایک

سڈنی سے ہم شمال کی طرف چلے۔ یوں کہ دائیں طرف کچھ فاصلے پر سمندر تھا۔ یہ سمندر بحرالکاہل ہے۔اگرچہ اہلِ آسٹریلیا بحرالکاہل کے اُس حصے کو جو آسٹریلیا کے مشرقی ساحلوں سے ٹکراتا ہے،بحرِ تسمان کہتے ہیں۔
بحرالکاہل بھی کیا کیا نظارے اور بہاریں دکھاتا ہے۔ مغربی کینیڈا جائیں تو بحر الکاہل کے دم سے رونقیں ہیں۔لاس اینجلز جائیں تو بحرالکاہل کی کرم فرمائیاں ہیں۔ آسٹریلیا، جاپان، فجی، ہوائی، فلپائن اور نیوزی لینڈ جیسے ہوشربا جزیرے بحرالکاہل کی آغوش ہی میں سرمستیاں کر رہے ہیں۔
تو سڈنی سے ہم شمال کی طرف چلے اور ڈیڑھ گھنٹہ کی ڈرائیو کے بعد تقریباً اسّی کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے
Gosford گاس فرڈ
پہنچے
جب ہوائی جہاز نہیں تھے تو ہمارے لیے سب کچھ برصغیر ہی تھا اور برصغیر بھی پورا نہیں بلکہ صرف شمالی حصہ اسی لیے کشمیر کے بارے میں ہم نے کہا تھا کہ
اگر فردوس بر روئی زمین است ....
اگر فردوس بر روئی زمین است
ہمین است و ہمین است و ہمین است
مغلوں کو تو کشمیر بہت ہی پسند تھا۔ جہانگیر کشمیر ہی سے واپسی کے دوران لاہور میں چل بسا اور وہیں دفن ہوا ۔ لیکن کرہ ارض پر بے شمار ایسے علاقے ہیں، ساحلی بھی اور کوہستانی بھی،صحراﺅں کے درمیان نخلستانوں میں بھی اور سمندروں کے درمیان جزیروں میں بھی جنہیں جنت سے موسوم کیاجاتا ہے اور گاس فرڈ بھی انہی میں سے ایک ہے!
اس کا محلِ وقوع بھی عجیب ہی ہے۔ تین قسم کے پانی اسے فیض یاب کر رہے ہیں۔ اس کے جنوب میں سمندر کا وہ ٹکڑا ہے جو بحرالکاہل کا حصہ ہے اور جگہ جگہ خشکی پر قبضہ کرتا ،خلیجیں، آبنائے اور ڈیلٹا بناتا، دور تک آگیا ہے۔اسے برزبن واٹرز کہتے ہیں،مغرب سے دریائے ہاکس بری لہراتا ہوا آتا ہے اور یہاں گم ہوجاتا ہے ذرا اور نیچے جنوب کی طرف ”خلیج شکستہ“
(BROKEN-BAY)
ہے جو بحرالکاہل سے بچھڑی اور یہاں آباد ہوئی۔
اس خوبصورت محلِ وقوع میں آباد   گاس فرڈ  صُوَری حسن اور اقتصادی استحکام کی ایک علامت ہے۔ پارکوں اور باغوں سے اٹا ہوا۔ کہیں جاپانی طرزِ تعمیر کے باغات ہیں اور کہیں میلوں پھیلے ہوئے سبزہ زار ، کہیں پنیر بنانے کی فیکٹریاں ہیں اور کہیں شہد کے فارم، ہر گھر کا اپنا باغ ہے۔ درختوں پودوں پھولوں اور پھلوں سے لدا ہوا،کھڑکیاں سمندر کی طرف کھل رہی ہیں....
بنی ہوئی ہیں کنارِ دریا پہ خواب گاہیں
ُکھلے ہوئے ہیں وصال کے در سفر کی جانب

جو گھر سمندر کے کنارے بنے ہیں اُن کے صحن سے ایک چوبی پُل سمندر کے اندرچلا گیا ہے۔ پُل کے اختتام پرلکڑی کا بڑا سا تخت ہے جس پر بیٹھنے کیلئے کرسیاں اور بنچ رکھے ہیں۔ یہاں شام کی کافی پی جاتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے تخت سمندر پر تیر رہا ہے۔ کہیں ساحل پر ہجوم ہے کہ بطخوں، بگلوں، سارسوں اور پیلی کن کو خوراک کھلائی جارہی ہے۔ میلے کا سماں ہے۔مچھلی پھینکی جاتی ہے اور پیلی کن دوڑ کر آتے ہیں اور اسے ہوا ہی میں پکڑ کر کھاجاتے ہیں۔ کہیں چھوٹے چھوٹے حوض ہیں صرف بچوں کے نہانے کیلئے ۔ اتنا کم پانی ہے کہ کوئی بچہ ڈوب نہیں سکتا۔ ڈیڑھ ڈیڑھ سال کے بچے پانی میں کھڑے ہوکر،بیٹھ کر،دوڑ کر، کھیل رہے ہیں۔ کہیں ساحلوں پر گہما گہمی ہے۔ کچھ مہم جو تختے لیکر لہروں کے اوپر تیر رہے ہیں کچھ کمر کمر تک پانی میں ڈوبے کھڑے ہیں اور کچھ ریت پر دراز ٹھنڈی ہوا اور گرم دھوپ سے اپنا اپناحصہ لے رہے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے یہ لوگ کیوں آسودہ ہیں؟ اور ہمارے بخت کیوں کالے ہیں؟ ہم بھی محنت کرتے ہیں۔ہمارے بھی دماغ تیز اور جسم مشقت کرنے کے اہل ہیں، ہمارے تصرف میں بھی وہی چوبیس گھنٹے ہیں جو انکے پاس ہیں پھر آخر کیوں، اسی کرہ ارض پر،اسی نیلے آسمان کے نیچے ہمارے حالات عبرت ناک اور انکے روز و شب قابل رشک ہیں؟!
آپ جتنے انسائیکلو پیڈیا اب تک چھپے ہیں ،چھان ماریں، گذری ہوئی تاریخ کا مطالعہ کریں، سیانوں سے پوچھ لیں۔آپ کو ایک ہی اصول بتایاجائےگا اور وہ یہ کہ جس قوم کے رہنما چوکنے ہوں، جاگ رہے ہوں، زیر نگرانی ہوں اور محاسبے سے خوف زدہ ہوں،اُس قوم کے عوام آسودہ حال ہوتے ہیں ۔ بے فکر ے ہوتے ہیں، گھوڑے بیچ کے سوتے ہیں اور مزے کی زندگی گزارتے ہیں اور جس قوم کے رہنما آسودہ حال ہوں، خوابِ استراحت میں ہوں، مزے کی زندگی گزار رہے ہوں،اُس قوم کے عوام رات کو سو سکتے ہیں نہ دن کو آرام کرسکتے ہیں اور زندگی ان کیلئے پشیمانی اور موت ان کیلئے مہنگی ہوتی ہے۔
آپ اُن تمام ملکوں کا مطالعہ کریں جو مالی استحکام، امن و امان،انصاف اور خود اعتمادی سے بھرپور ہیں اور کرپشن سے پاک ہیں۔آپ فن لینڈ، کینیڈا، امریکہ،آسٹریلیا، سوئٹز ر لینڈ اور جاپان کی حکومتوں کوبے شک خوردبین سے دیکھ لیں۔ ان کے رہنماایک ٹیڈی پیسہ بھی ناجائز کما سکتے ہیں نہ چھپا سکتے ہیں اور نہ ہی ہضم کرسکتے ہیں۔ان ملکوں میں صدر کٹہرے میں کھڑا کردیاجاتا ہے اور وزیراعظم کی بیوی ٹرین میں بے ٹکٹ سفر کرے تو دھرلی جاتی ہے۔ان لیڈروں کے پاس نوکروں کی فوج ہے نہ گاڑیوں کے ہجوم ، یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ انکے ڈیفنس والے گھر میں مہنگے سوٹوں سے بھرے ہوئے چالیس کارٹن آئینگے ۔ یہ کسی میٹر ک پاس کو او جی ڈی سی کا حاکم تو دور کی بات ہے اپنی مرضی سے پرائمری سکول کا کلرک تک نہیں لگا سکتے۔ان کیلئے خواب میں بھی یہ ناممکن ہے کہ سرکاری خرچ پر کسی دوسرے ملک کے دورے پر جائیں تو سرکاری تقریب میں ایک طرف انکی بیٹی اور دوسری طرف ان کا بیٹا بیٹھا کھڑا ہو۔ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ اقتدار میں آئیں تو ان کے لوہے کے کارخانوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ایف ۔بی۔ آر سے ایک ایک دن کیلئے حکم نامے جاری ہوں۔ ان ملکوں میں ممکن ہی نہیں کہ چیف منسٹر کا بیٹا پولٹری کے بزنس پر اپنی اور صرف اپنی اجارہ داری قائم کر لے۔ان ملکوں کے بے کس اور مجبور لیڈر لندن اور پیرس تو دور کی بات ہے،نائیجریا اور سری لنکا تک میں کارخانے محلات اور اپارٹمنٹ نہیں لے سکتے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ ان ملکوں کے لیڈر دوسرے ملکوں میں جاکر وہاں کی شہریت لے لیں اور پھر وہیں رہیں اور سیاست بھی کریں؟ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ان ملکوں سے کوئی جرنیل بہت سے جرائم کرکے ملک سے بھاگ جائے اور دنیا میں گھوم پھر کر تقریریں کرتا پھرے اور ایک بینک اکاﺅنٹ میں اسکے ایک کروڑ ستر لاکھ درہم جمع ہوں اور ایک بینک اکاﺅنٹ میں اسکے پانچ لاکھ پینتیس ہزار ڈالر ہوں اور ایک اور اکاﺅنٹ میں اسکے چھہتر لاکھ درہم جمع ہوں اور ایک اور اکاﺅنٹ میں اسکے اسّی لاکھ درہم ہوں اور ایک اور اکاﺅنٹ میں اسکے اسّی لاکھ ڈالر ہوں اورایک اور اکاﺅنٹ میں تیرہ لاکھ ڈالر ہوں اور انکے علاوہ بھی اسکے اکاﺅنٹ ہوں اور ان میں ڈالر اور پاﺅنڈ اور درہم ہوں اور میڈیا میں تفصیلات موجود ہوں، پھر بھی اُسے پکڑا نہ جائے اور اس ساری دولت کی تفصیل نہ پوچھی جائے؟
ہمیں اپنے ماضی پر فخر ہے ۔ ہم ہرخطبے اور ہر مضمون میں یہ ضرور بتاتے ہیں کہ حضر ت عمرؓ سے بڑھیا نے یہ پوچھا تھا اور حضرت علیؓ عدالت میں حاضر ہوگئے تھے لیکن ہم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا ہماراحال بھی کوئی ایسی مثال دے سکتا ہے ؟
تو پھر اگر مزے کی میٹھی نیند ہمارے حکمرانوں اور سیاسی رہنماﺅں کے حصے میں ہے تو ہم عوام اُسی حالت میں رہیںگے جس میں ہم اس وقت ہیں ۔اس لیے کہ اصول کسی ایک قوم کیلئے نہیں بدلتے! لیڈر یا عوام، دونوں میں سے صرف ایک عیش کرسکتا ہے! دونوں نہیں۔



 

powered by worldwanders.com