Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, September 28, 2010

فرانس سے ایک خط

بہت سے دوسرے مسلمان خاندانوں کے ساتھ میں بھی ہجرت کر کے فرانس آئی تھی۔یہ دس سال پہلے کی بات ہے۔بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے میں نے اور میرے شوہر نے اپنا آبائی مسلمان چھوڑا اور یہاں آ کر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔کچھ عرصہ بعد ہمیں شہریت مل گئی۔ 
دن ڈھل چکا ہے۔شام کے سائے لمبے ہو رہے ہیں۔پیرس کے مرکز میں رونق لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے۔سامنے ایفل ٹاور نظر آرہا ہے۔ ایفل ٹاور کے ساتھ
ریستورانوں اور چائے خانوں کی ایک قطار ہے۔وہیں ایک چائے خانے میں بیٹھ کر میں یہ خط لکھ رہی ہوں۔
جمہوریت کے عالمی دن پر میرے نئے وطن فرانس  کی پارلیمنٹ نے نقاب پر پابندی کا بل پاس کیا ہے۔اس بل نے مجھے دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کیا مجھے ایک ایسے ملک میں رہنا چاہیےجہاں رہ کر میں اسلامی شعائر  سے وابستگی نہیں نبھا سکتی۔ میرے رہنما مجھے بتاتے ہیں کہ مخلوط معاشرے میں حجاب کے بغیر رہنا ایک غیر مستحسن امر ہو گا۔ مجھے بتایا جا رہا ہے کہ "" مسلمان عورت اپنی روایات اور اپنی اقدار پر کسی کا زبردستی تسلط تسلیم نہیں کرے گی چاہے اس کے لیے اسے قربانی ہی کیوں نہ دینے پڑے""۔میں سوچتی ہوں۔ زندگی کے گوشوارے میں لکیریں کھینچ کر خانے بناتی ہوں اور حساب کرتی ہوں۔ بالآخر میں ایک نتیجے پر پہنچتی ہوں۔میں اپنے رہنمائوں کی آواز پر لبیک کہتی ہوں۔ میں فرانس کی پارلیمنٹ سے لڑ تو نہیں سکتی لیکن میں فرانس کو چھوڑ تو سکتی ہوں۔ میں ہجرت کر کے کسی مسلمان ملک میں تو جا   سکتی ہوں۔میں یہ فیصلہ کرتی ہوں اور میرے تنے ہوئے اعصاب کو جیسے سکون مل جاتا ہے۔ زمیں بہت وسیع ہے۔ پچاس سے زیادہ اسلامی ملک دنیا کے نقشے پرنظر آرہے ہیں۔اپنے فیصلے پر میرا اعتماد   بڑھ جاتا ہے۔
میری نظر مشرق وسطی ا کی طرف اٹھتی ہے۔خوبصورت  پیاری پیاری ریاستیں،تیل کی دولت سے مالا مال،میرے مقدس مذہبی مقامات بھی وہیں ہیں۔وہاں دنیا بھی ہے اور دین بھی۔
لیکن مجھے بتایا جاتا ہے کہ یہ ریاستیں کسی کو بھی ہجرت کی اجازت نہیں دیتیں۔جو مسلمان وہاں بیس بیس  چالیس چالیس سال رہتے ہیں وہ بھی  شہری نہیں بن سکتے۔ کوئی غیر مقامی مسلمان وہاں اپنے نام سے بزنس نہیں کر سکتا۔دکان نہیں خرید سکتا۔ٹیکسی ہو گی تو وہ بھی کفیل کے نام پر۔کاروبار ہو گا تو وہ بھی کفیل کے نام پر۔جو کچھ کمانا ہو گا آدھا کفیل کو دینا ہو گا۔ بے شمار مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے ان ملکوں میں پوری زندگی کام کیا لیکن آخر کار امیگریشن  کینیڈا آسٹریلیا  یا یورپ میں لینا پڑی۔ایسی مثالیں بھی لا تعداد ہیں  کہ سالہا سال تک بزنس کرنے والوں کے کفیل ناراض ہوئے تو وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئے۔
 اب میری نظر پاکستان پر پڑتی ہے۔ یہ ملک تو بنا ہی اسلام کے نام پر ہے۔یہ واحد مسلمان ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہے۔ میں اسی ملک میں رہنا پسند کروں گی۔مملکت خداداد سے بہتر ٹھکانا ایک مسلمان کو کہاں ملے گا؟
 میں اپنے بچوں سے ذکر کرتی ہوں تو ان کے رنگ زرد پڑ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں شدید گرمی کے باوجود سارا سارا دن بجلی نہیں ہو تی۔پٹرول اور سی این جی کا قحط ہے۔ آٹا اور چینی غائب ہیں۔لوگ ایک دوسرے کو سر عام ڈنڈوں اور اینٹوں سے ہلاک کر دیتے ہیں اور مجرم  گرفتار تک نہیں ہوتے۔ حکمرانوں کی اولاد نو نو کروڑ کی گاڑیاں چلاتی ہے اور عوام کے لیے زیر زمین ریلوے تو دور کی بات ہے بسیں تک نہیں۔ ملازمت  سفارش کے بغیر  نہیں مل سکتی۔ملک کو بین الاقوامی پریس میں کھلم کھلا کرپٹ کہا جا رہا ہے۔ ہر پاکستانی ملک چھوڑ کر بھاگنا چاہتا ہے۔


کاش   باون مسلمان  ملکوں میں  کم از کم دس ملک ایسے ہوتے جہاں وہ سہولیات ،وہ معیار زندگی اور قانون کی وہ حکمرانی ہوتی جو آج فرانس اور دوسرے مغربی ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ دس نہ سہی  پانچ ایسے ملک ہوتے۔پانچ نہ سہی ایک ہی ہوتا۔ آج اگر  مسلمان ملکوں کے باشندوں کو موقع ملے  اور پابندیاں نرم ہوں تو یہ سارے کے سارے  فرانس،کینیڈا،برظانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کو بھاگ جائیں۔ آج پونے چار لاکھ مسلمان ہجرت کر کے آسٹریلیا میں رہ رہے ہیں۔ تقریباً تین لاکھ بیلجیئم میں ہیں ساڑھے چھ لاکھ کینیڈا میں ہیں۔ 35 لاکھ فرانس میں ہیں چالیس لاکھ سے زیادہ جرمنی میں ہیں۔ پونے دس لاکھ ہالینڈ میں ہیں، ساڑھے چھ لاکھ ہسپانیہ میں ہیں، ساڑھے سولہ لاکھ برطانیہ میں اور 25 لاکھ امریکہ میں ہیں۔ نیوزی لینڈ، جاپان، سویڈن، ڈنمارک، ناروے، یونان، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا اور کئی دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں ہجرت کرکے جانیوالے اسکے علاوہ ہیں۔ ان سب کی تعداد ساڑھے تین چار کروڑ سے کم کیا ہو گی جبکہ پورے کینیڈا کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے کم اور آسٹریلیا کی اڑھائی کروڑ سے کم ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ غیر مسلموں کے ملکوں میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان ہجرت کر کے گئے ہیں اور کسی مسلمان ملک میں نہیں گئے یا نہیں جا سکے؟




میں اپنے رہنماؤں سے خاص کر مذہی رہنماؤں سے پوچھنے کی جسارت کرتی ہوں کہ کیا اسلام میں بلند معیارِ زندگی، جدید زندگی کی سہولیات اور سائنس اور ٹیکنالوجی منع ہیں؟ آج تمام مسلمان انٹرنیٹ، کار، بجلی، ٹیلی ویژن، جہاز، ادویات، سرجری، موبائل فون اور بے شمار وہ چیزیں استعمال کر رہے ہیں جو سو فیصد غیر مسلموں نے ایجاد کیں، دریافت کیں اور وہی بنا رہے ہیں۔ دنیا کی پانچ سو، بلکہ ایک ہزار ٹاپ کی یونیورسٹیوں میں ایک بھی کسی مسلمان ملک کی یونیورسٹی کا نام نہیں آتا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی اتنی کثیر تعداد غیر مسلم ملکوں میں کیوں گئی ہے جہاں کبھی انہیں داڑھی رکھنے اور نماز پڑھنے کی وجہ سے ذلیل کیا جا رہا ہے اور کبھی ان کی عورتوں کو حجاب نہیں اوڑھنے دیا جا رہا ہے؟ اس لئے کہ ان ملکوں میں انسان کی عزت ہے۔ پولیس ضرورت مند کے پاس آتی ہے ضرورت مند کو تھانے نہیں جانا پڑتا۔ اس لئے کہ ان ملکوں میں حکمران اس سادگی اور دیانتداری سے زندگی گزارتے ہیں جو اسلامی تاریخ کے آغاز میں مسلمان حکمرانوں کا وطیرہ تھی۔ حکمرانوں کی ایک ایک بات اور ایک ایک پائی کو چھانا پرکھا اور تولا جاتا ہے‘ اس لئے کہ ان ملکوں میں رشوت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان پڑھ جاگیردار اور ٹیکس چرانے والے صنعت کار بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ امن وامان ہے گھر، چار دیواری کے بغیر اور کار گیراج کے بغیر بھی محفوظ ہے۔ برطانیہ میں ایک معمولی مزدور کی بیٹی سعیدہ وارثی ایک بڑی پارٹی کی سربراہ بن سکتی ہے لیکن کسی مسلمان ملک میں مزدور کی بیٹی اس کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ آج سعیدہ وارثی کا یہ بیان سارے مسلمان ملکوں کیلئے تازیانہ عبرت ہے۔ ’’برطانیہ میں اسلامی اصولوں پر عمل ہوتا ہے، پاکستان میں بھی ہونا چاہیے، برطانیہ میں سب کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہیں اور اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ وہاں عورت کی عزت محفوظ ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ برطانیہ میں ان اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے جو ہمارے مذہب اسلام نے ہمیں بتائے ہیں ان اصولوں پر پاکستان میں بھی عمل ہونا چاہیے۔‘‘


کروڑوں مسلمان غیر مسلم ملکوں میں ہجرت کر کے خوشی سے نہیں گئے اپنے وطن کی مٹی، اپنے آباؤاجداد کی قبروں کو چھوڑ کر آسانی سے نہیں گئے‘ اس لئے گئے ہیں کہ نہ جاتے تو حسنی مبارک، حافظ الاسد، شاہی خاندانوں، بھٹوخاندان، شریف خاندان ، چودھری خاندان، جاموں، بگتیوں، گیلانیوں، قریشیوں، کھوسوں، مزاریوں، لغاریوں ، اسفند یاروں اور فضل الرحمانوں سے ان کی جان نہ چھوٹتی۔ جو بے بس، بے کس، مجبور، مقہور ان ملکوں میں پس رہے ہیں اور کہیں نہیں جا سکتے۔ انکی اور انکی آنیوالی نسلوں کی زندگیاں انہی خاندانوں کی غلامی میں گزریں گی۔ آج ہم ڈرون حملوں سے اس لئے مر رہے ہیں کہ ہمارے سرکاری سکول چھتوںاور اساتذہ کے بغیر ہیں اور ہمارے مدرسوں میں پڑھائی جانیوالی ’’تازہ ترین‘‘ کتاب تین سو سال پرانی ہے۔ ہجرت کرنیوالے چار کروڑ مسلمان اور ہجرت کیلئے قطار میں کھڑے کروڑوں مسلمان اپنے بچوں کو ان یونیورسٹیوں میں پڑھانا چاہتے ہیں جہاں سے پڑھ کر نکلنے والوں نے ڈرون ایجاد کئے اس لئے میں نہایت ادب سے دست بستہ اپنے مذہبی رہنماؤں کی خدمت میں گزارش کروں گی کہ یہ کہہ کر ہمارا خون ضرور گرمائیں کہ مسلمان عورت اپنی روایات اور اپنی اقدار پر کسی کا زبردستی تسلط تسلیم نہیں کریگی چاہے اس کیلئے اسے کتنی ہی قربانی کیوںنہ دینی پڑے لیکن ساتھ ہی اس پر بھی غور فرمائیں کہ اتنی کثیر تعداد میں مسلمانوں کو اپنے ملکوں سے کیوں نکلنا پڑا؟ اور از راہ کرم کچھ وعظ اور تلقین یہ بھی کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بغیر کشکول نہیں ٹوٹیں گے اور یہ بھی کہ سیاسی پارٹیاں ہوں یا حکومتیں، خاندانوں کی اجارہ داری کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور ہاں مذہبی جماعتوں کو بھی بڑوں کی اولاد سے محفوظ رکھا جائے!   

Tuesday, September 21, 2010

نو بار پیسا‘ دس بار چھانا

قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف واپس آئینگے یا نہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ وہ اپنے سیاہ کارناموں کے پیش نظر پاکستان کا رخ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے‘ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں سب کچھ ممکن ہے اگر ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں اپنا ریوالور دشمن کو پیش کرنیوالا جرنیل واپس آ کر بقیہ زندگی آرام سے گزار سکتا ہے اور فوجی اعزازات کے ساتھ دفن ہو سکتا ہے تو پرویز مشرف کیوں نہیں آ سکتے بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کراچی آکر اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹی کے طفیل انتخابات لڑیں اور جیت بھی جائیں!

لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اگر پرویز مشرف واپس آ جاتے ہیں اور حکومت بھی سنبھال لیتے ہیں تو کیا وہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال سکتے ہیں؟ اس کا جواب تو یہ ہے کہ اگر وہ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے تو نو سال کے عرصہ میں کر گزرتے! یہ ایک الزامی جواب ہے اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ اس وقت پرویز مشرف ایک ڈکٹیٹر تھے۔ اب حکومت میں آئے تو کوئی منشور کوئی پروگرام لے کر آئیں گے!

خوش گمانی ایک ایسی بیماری ہے جو وہم سے زیادہ مہلک ہے۔ وہم کا مریض بچ نکلتا ہے کیونکہ وہم حفاظتی اقدامات پر اکساتا رہتا ہے۔ خوش گمانی کا مریض ’’سب اچھا ہے‘‘ کہتا ہے اور سو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی صورتحال ایسی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر صومالیہ اور افغانستان کے برابر سمجھا جا رہا ہے۔ جمہوریت اور خواندگی کے حوالوں سے جو سروے سامنے آ رہے ہیں ان میں ہم سری لنکا اور بنگلہ دیش سے بھی نیچے ہیں۔ سیاست دان جو کچھ کر رہے ہیں اور جتنے پانی میں ہیں‘ سب کے سامنے ہے۔ ہنسی اور رونا ایک ساتھ آتے ہیں۔ ایک طرف خبر ہے کہ مسلم لیگوں کا اتحاد اور ادغام ہو رہا ہے۔ وہی لوگ جو 9سال پرویز مشرف کیساتھ رہے‘ ملک ’’بچانے‘‘ کیلئے پیر صاحب پگارا کو نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں۔ اس خبر کیساتھ ہی ایک خبر ہے کہ غربت سے مجبور ہو کر باپ نے بچوں کو مار ڈالا اور خود کشی کر لی۔ یوں لگتا ہے مسلم لیگ کے رہنما ایک اور ہی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے کہ ایم این اے حضرات تین گنا زیادہ امیر ہو چکے ہیں اور ان کے اثاثے کھربوں میں ہیں۔ دوسری طرف ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات کو وزیر خزانہ بے نقط سناتے ہیں اور انہیں ایک پائی دینے کو تیار نہیں۔ تیسری طرف آزاد کشمیر کی حکومت لاکھوں روپے اشتہاروں پر خرچ کر رہی ہے جن میں وزیر اعظم اپنے مجاہدِ اول والد گرامی کی تصاویر کو نمایاں طور پر شائع کرا رہے ہیں! لاقانونیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایف سی کے اہلکار ایک بس ڈرائیور اور کنڈکٹر کو مارتے پیٹتے ہیں ڈرائیور پولیس کو مدد کیلئے پکارتا ہے پولیس والے آتے ہیں لیکن ایف سی کے اہلکار پولیس کے ایس ایچ او ہی کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ گویا بقول غالب …؎

ہوئی جن سے توقع خستگی میں داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے

وکیل ایک امید بن کر ابھر رہے تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے پاتال سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ ابھی لاہور والا سانحہ لوگوں کی یاد سے محو نہیں ہوا جس میں پوری وکیل برادری اپنے بھائی کی ’’مدد‘‘ کیلئے قانون کو پامال کرنے پر تل گئی تھی پھر خبر آئی کہ ایک وکیل صاحب نے جج کو جوتا دے مارا کیونکہ ان کے موکل کا کام نہیں ہو رہا تھا۔ اب تازہ مژدہ سننے میں یہ آیا ہے کہ وکیلوں نے اینٹیں مار مار کر گجرات میں ایک شخص کو جان سے دے مارا۔ پورے ملک میں وکیلوں کی کسی تنظیم نے احتجاج میں چوں تک نہیں کی!

مذہبی لحاظ سے لوگوں کو محنت اور اکل حلال کے بجائے یہ افیون کھلائی جا رہی ہے کہ روحانی شخصیات نے کہہ دیا ہے کہ حالات ٹھیک ہونیوالے ہیں۔ اللہ کی کتاب کہتی ہے کہ غیب کا علم وہ صرف اپنے رسولوں پر ظاہر کرتا ہے اور یہ بھی کہ صرف اسی قوم کی حالت بدلے گی جس کو اپنی حالت خود بدلنے کی دھن ہو گی لیکن بزعمِ خویش روحانیت کے مالک اس سے اتفاق نہیں کرتے پھر ہر روحانی شخصیت نے پریس میں اپنے اپنے ٹھیکے دار چھوڑ رکھے ہیں جو مسلسل تشہیر کر رہے ہیں اور بے چارے عوام یہ تک نہیں جانتے کہ روحانی شخصیات وہ ہوتی ہیں جو اپنی تشہیر کرتی ہیں نہ اپنی روحانیت کا اعلان کرتی ہیں۔ مبلغین کی حالت یہ ہے کہ عام پاکستانیوں سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے لیکن فنکاروں‘ کھلاڑیوں اور اداکاروں کے آگے پیچھے پھر رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا جہاں مثبت کردار ادا کر رہا ہے وہاں زیادتی بھی کر رہا ہے۔ ہارے ہوئے سیاست دانوں کو جن سے لوگ نفرت کرتے ہیں بار بار سامنے لایا جا رہا ہے ایک صاحب جو نو سال تک پرویز مشرف کا پاندان یا اگالدان رہے‘ ٹی وی پر یہ کہتے سنے گئے کہ جب سے پاکستان بنا ہے عوام کو بار بار بے وقوف بنایا جا رہا ہے!

ملک کو زبوں حالی کے اندھے غار سے نکالنے کیلئے ایک ایسی قیادت درکار ہے جو کم از کم پانچ اقدامات کرے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو کم سے کم ہیں اور حل کے بغیر سنبھلنا ناممکن ہے۔ اول زرعی اصلاحات‘ جو بھارت نے 1951ء میں ہی کر ڈالی تھیں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جنوبی پنجاب اور سندھ کے وڈیروں اور بلوچستان کے سرداروں کی موجودگی میں یہ ملک جہنم سے جنت بن سکتا ہے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہئے۔ ایک ایسی قیادت جو غداروں کے خاندانوں سے برطانیہ کی دی ہوئی جاگیریں واپس لے‘ لے گی ملک کی نجات دہندہ ہو گی۔ دوم‘ دولت کا حساب‘ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کھرب پتیوں نے قوم کو نصیحتیں کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔ سیاست دان ہوں یا بیورو کریٹ یا سابق جرنیل‘ صنعت کار ہوں یا تاجر سب سے ایک ایک پائی کا حساب لئے بغیر حالات میں کوئی تغیر نہیں آ سکتا۔ ملک ایسی قیادت کا انتظار کر رہا ہے جو باہر رکھی ہوئی دولت کو واپس منگوائے اور انکم ٹیکس نہ دینے والوں کے گلے میں پٹے ڈالے۔ سوم‘ تعلیم کے میدان میں طبقاتی تقسیم ختم کر کے پورے ملک میں متوازن تعلیمی نظام کا اجرائ۔ ایک طرف امراء کے گراں بہا ادارے ہیں اور دوسری طرف مدارس جن میں غریب طبقات کے بچے زمین پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں۔ چار نظام ہائے تعلیم کو ختم کر کے ایک نظامِ تعلیم اپنانے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں۔ چہارم‘ مذہبی لاقانونیت کا خاتمہ‘ مذہبی لاقانونیت اس صورت حال کو کہتے ہیں جس میں کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ مدرسہ کھول سکتا ہے‘ مسجد بنا سکتا ہے۔ اپنے نئے فرقے کا ڈول ڈال سکتا ہے اور مسلح یا غیر مسلح گروہ تشکیل کر سکتا ہے۔ پاکستان کو اس سلسلے میں سعودی عرب‘ ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات کا ماڈل اپنانا ہو گا جہاں مسجدیں ریاست کے انتظام میں ہیں اور فرقہ واریت مکمل طور پر کنٹرول میں ہے۔

پاکستان میں عدم توازن کا یہ عالم ہے کہ مذہبی مدارس کے مالکان عیش کرتے ہیں لیکن مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں مضحکہ خیز حد تک کم ہیں۔ پنجم‘ حکمرانوں کا عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنا۔ خلفائے راشدینؓ کی یہ سنت آج تقریباً سارے مغربی اور ترقی یافتہ ملکوں میں رائج ہے۔ سوئٹرز لینڈ سے لے کر ڈنمارک تک اور برطانیہ سے لیکر نیوزی لینڈ تک حکومتوں اور ملکوں کے سربراہ چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں اور خزانے پر گاڑیوں‘ جہازوں‘ سکیورٹی اور عیاشی کا کوئی بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ ان پر خرچ کیا جانیوالا ایک ایک پیسہ دیکھا جا سکتا ہے اور جس طرح میڈیا اور اپوزیشن ان کی نگرانی کرتی ہے اس کا تصور بھی پاکستان میں اس وقت ناممکن ہے۔

یہ وہ پانچ اقدامات ہیں جن کے بغیر پاکستان موجودہ صورتحال سے ہر گز نہیں نکل سکتا۔

اب ہم واپس اس سوال کی طرف پلٹتے ہیں جس سے کالم کا آغاز ہوا تھا۔ تو کیا پرویز مشرف اس قسم کے اقدامات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ انکے نو سالہ دورِ اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کسی خوفِ تردید کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ انہیں قوم کو درپیش مسائل کا ادراک ہی نہیں۔ انکے پاس وژن ہے نہ اتنی ذہنی استعداد کہ وہ زرعی اصلاحات یا نظام تعلیم جیسے مسائل کو سمجھ سکیں۔ وہ اگر سیاست میں آ بھی گئے تو فاروق لغاری صاحب کی طرح ایک اور سابق صدر ہونگے۔ بس اس سے زیادہ نہ کم!

افسوسناک سچائی یہ ہے کہ بظاہر کوئی ایسا رہنما نظر نہیں آتا جو قوم کو درپیش مسائل کا ادراک کر سکے۔ حکومت کو تو چھوڑ ہی دیجئے کہ اس کا ذکر ہی کیا‘ کیا آپ کو دوسرے رہنماؤں میں کوئی ایسا شخص دکھائی دیتا ہے جو برسرِ اقتدار آنے کے علاوہ کچھ اور سوچ سکے۔ کیا آپکو یاد پڑتا ہے کہ شریف برادران‘ چودھری برادران‘ اعجاز الحق‘ ہمایوں اختر‘ ظفر اللہ جمالی‘ اسفند یار ولی‘ مولانا فضل الرحمن‘ عمران خان‘ منور حسن‘ مشاہد حسین‘ احسن اقبال‘ مولانا ساجد میر‘ یا کسی اور سیاستدان نے زرعی اصلاحات یا نظامِ تعلیم پر کبھی کوئی بات کی ہو؟ ذہن پر زور ڈالئے‘ نہیں کبھی نہیں … یہ سب وہ رہنما ہیں جو قابلِ احترام ہیں لیکن یہ برسرِ اقتدار آنے اور حریف کو چت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکتے۔ ان میں سے اکثریت وہ ہے جسے لکھنے پڑھنے سے نفرت ہے۔ ان کا تاریخ کا مطالعہ ہے نہ بین الاقوامی امور کا … ان میں سے اکثر کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کتنے فیصد زرعی زمین آبادی کے کتنے حصے کے پاس ہے؟ آپ ان سے پوچھیں کہ
’’REVERSE BRAIN DRAIN‘‘
 کیا ہے؟ بھارت کے تارکین وطن بھارت واپس کیوں آ رہے ہیں؟ بنگلور‘ مدراس اور حیدر آباد دکن پوری ترقی یافتہ دنیا میں کیوں مشہور ہیں؟ گمان غالب یہ ہے کہ آپ کا سوال سن کر ان رہنماؤں کے مسلح باڈی گارڈ‘ اپنی خوفناک مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے آپ پر پل پڑیں گے!! رہے ایم کیو ایم کے رہنما تو وہ کچھ ہفتوں سے جاگیرداری کیخلاف باتیں تو کر رہے ہیں لیکن ایک طویل عرصے سے ہر حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود آج تک انہوں نے زرعی اصلاحات پر کوئی بل یا قرار داد لانے کی بات تک نہیں کی۔ ہمارے دوست فاروق گیلانی کہا کرتے ہیں کہ ایک خشخاش کا دانہ … نو بار پیسا‘ دس بار چھانا‘ اس کا دسواں حصہ کھایا … پیٹ پھول گاگر سا آیا … اس وقت جو قیادت ہمیں میسر ہے اسے ہم نو بار پیس چکے ہیں اور دس بار چھان چکے ہیں اور اب اس فقیر کے بقول …؎

فلک کو بار بار اہل زمیں یوں دیکھتے ہیں

کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے

Tuesday, September 14, 2010

اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر

سچی بات یہ ہے کہ میں اس معاملے میں سابق وزیر کے ساتھ ہوں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی سے میرا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔

یہ کوئی ایسا معاملہ بھی نہیں تھا کہ اس پر طوفان کھڑا کیا جاتا۔ بادشاہ اور وزیر ایسے کام کرتے ہی رہتے ہیں اس لئے کہ وہ عام لوگوں میں سے نہیں ہوتے۔ ہمارے دوست شاعر احمد جاوید نے جو خود اب عام لوگوں میں سے نہیں رہے، کیا خوب کہا ہے۔ …؎

اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر

گویا  نہیں   ہیں   دونوں   ہماری   قبیل   سے

اگر بادشاہوں اور وزیروں کے ہر کام پر تنقید شروع ہو جائے تو ہو چکی سیاست اور چل لی حکومت۔ ہم تو وہ فراخدل قوم ہیں کہ جب ایک عوامی وزیراعظم نے مخالفین پر قَتَلَ یَقتُلُ کی گردان شروع کی تو عوام نے ایک ادائے بے نیازی سے اُس کے اقدامات کی منظوری یہ کہہ کر دی کہ بادشاہ بندوں کو مرواتے رہتے ہیں۔ اس میں آخر کیا برائی ہے!

پبلک اکائونٹس کمیٹی نے چائے کی جس پیالی میں طوفان اٹھایا ہے اُس کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ ایک سرکاری اہلکار وزارتِ تجارت میں وزیر صاحب کے ذاتی معاون تھے۔ ذاتی معاون کو سٹاف افسر بھی کہتے ہیں۔ کسی صدر، وزیراعظم یا وزیر کا سٹاف افسر صحیح معنوں میں بڑا آدمی ہوتا ہے۔ وہ جو چاہے کرواتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں جہاں اکثر وزیر ’’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘‘ ہوتے ہیں، سٹاف افسر پر ان کا انحصار حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ وزیر تجارت کے یہ ذاتی معاون یعنی سٹاف افسر برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں کمرشل سیکرٹری تعینات ہو گئے۔ (کمرشل سیکرٹری کا کام دوسرے ملکوں سے تجارت کو فروغ دینا ہے) مانچسٹر پہنچ کر ذاتی معاون نے فیصلہ کیا کہ وہ گالف کھیلا کرینگے۔ اب اتفاق دیکھئے کہ مانچسٹر کے گالف کلب نے اُن سے فیس کا مطالبہ کر دیا۔ یہ فیس گالف کلب کا رکن بننے کیلئے لازمی تھی۔ سابق سٹاف افسر نے وزیر سے درخواست کی اور وزیر نے فیس کی یہ رقم سرکاری خزانے سے ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ صرف چھ ہزار پونڈ کی بات تھی۔ اگر ایک برطانوی پونڈ فرض کریں ایک سو تیس روپے کا ہے تو کل رقم سات لاکھ اسی ہزار روپے بنتی ہے۔ گویا وزیر تجارت کو اتنا حق بھی نہیں حاصل کہ وہ اپنے ایک سٹاف افسر کو بیرون ملک متعین کرنے کے بعد گالف کھیلنے کیلئے سات آٹھ لاکھ روپے عنایت کریں۔

اس معمولی واقعے پر پبلک اکائونٹس کمیٹی نے مصالحے چڑھانے شروع کئے۔ ایک مصالحہ، اُس پر دوسرا، پھر تیسرا۔ کبھی کہا گیا کہ یہ رقم سرکاری خزانے کے اُس حصے سے دی گئی جو برآمدات کے فروغ کیلئے مختص تھا اور کبھی اِس قسم کے اشارے دئیے گئے کہ بیرون ملک یہ تعیناتی ہی میرٹ کی خلاف ورزی تھی۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے صدر چودھری نثار علی خان اُس روز موجود نہیں تھے۔ انکی جگہ ایم این اے یاسمین رحمن اجلاس کی صدارت کر رہی تھیں۔ انہوں نے حکم دیا کہ یہ رقم واپس لیکر قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔ خواجہ آصف کا کہنا یہ تھا کہ جس وزیر نے یہ رقم عنایت کی تھی، اُس سے وصولی کی جائے۔
خواجہ آصف مجھے اس لیے بھی نہیں پسند کہ مسلم لیگ نون میں وہ گنتی کے ان چند رہنمائوں میں سے ہیں جو نواز  شریف کے رشتہ دار نہیں۔آئیڈیل صورت تو یہ ہے کہ  شہباز شریف،حمزہ شہباز،اسحاق ڈار،کیپٹن صفدر اور عابد شیر علی کے علاوہ  باقی رہنما بھی سارے رشتہ دار ہوں۔ دوسری وجہ خواجہ آصف کو ناپسند کرنے کی یہ ہے کہ ایک بار ٹی وی کے ایک پروگرام میں لاہور کے ایک وکیل کے بارے میں  انہوں نے کمال کا فقرہ کہا۔یہ وکیل سیاست بھی کرتے ہیں۔خواجہ صاحب نے کہا "" وہ تو جنم جنم کا لوٹا ہے،""  لوٹوں کی تحقِیر مجھے اچھی نہیں لگتی۔ اگر لوٹوں کی اس طرح بے حرمتی ہوتی رہی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت عزت دار ہی نہیں۔    
سابق وزیر آخر کس خوشی میں پونے آٹھ لاکھ روپے کی یہ رقم واپس کریں؟ انہوں نے کون سا غلط کام کیا ہے؟ بلکہ انہوں نے تو مفلوک الحال سرکاری ملازموں کی مدد کرنے کا ایک باعزت راستہ دریافت کیا ہے۔ اگر ایک سفارت خانے میں تعینات کمرشل سیکرٹری عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں سے گالف کلب کا ممبر بن سکتا ہے تو اُسی سفارت خانے میں فرسٹ سیکرٹری بھی کام کرتا ہے۔ وہاں ایک پریس قونصلر بھی ہوتا ہے۔ وہاں لیبر اتاشی بھی ملازمت کرتا ہے۔ وہاں ایک فوجی افسر ڈیفنس اتاشی کے فرائض بھی سرانجام دیتا ہے۔ یہ سب غریب سرکاری ملازم گالف کھیلنا چاہتے ہیں۔ سابق وزیر نے کمرشل سیکرٹری کو گالف کلب کارکن بنانے کیلئے سرکاری خزانے سے چھ ہزار پائونڈ عنایت کر کے سب کیلئے راستہ کھولا ہے۔ پریس اتاشی، کمرشل اتاشی، ڈیفنس اتاشی، لیبر اتاشی اور فرسٹ سیکرٹری کے اوپر سفیر صاحب بھی متعین ہوتے ہیں اور سرکاری ملازم ہوتے ہوئے ان کا بھی اتنا ہی حق ہے۔ فرض کریں ایک سفارت خانے میں پانچ افسروں کو چھ چھ ہزار پائونڈ دیکر حکومت پاکستان گالف کھیلنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس وقت دنیا میں ویٹیکن سٹی اور کسووو کو شامل کر کے ایک سو چورانوے (194) ممالک ہیں۔ ہم 94 کو چھوڑ دیتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ صرف ایک سو ملکوں میں پاکستان کے سفارت خانے ہیں۔ اور ہر سفارت خانے میں پانچ افسروں نے گالف کھیلنا ہے تو کل پانچ سو افسر ہوئے۔ پانچ سو افسروں کی گالف رکنیت پر صرف 39 (انتالیس) کروڑ روپے خرچ ہونگے۔ اب جو افسران کرام ملک کے اندر موجود ہیں اگر انہیں یہ مدد مہیا نہ کی گئی تو اُن کے ساتھ دو ظلم ہوں گے۔ ایک تو انہیں یہ سزا ملی کہ چونکہ وہ کسی وزیر کے سٹاف افسر نہ تھے اس لئے ملک سے باہر تعیناتی نہ ہو سکی، دوسرے گالف کلب کی فیس نہیں دی جا رہی۔ وزیر موصوف نے اس طرح اُن تمام افسروں کی گالف کلبوں کی سرکاری رکنیت کا جواز فراہم کیا ہے جو مرکزی حکومت، صوبائی حکومتوں، مسلح افواج، ریلوے، واپڈا اور بے شمار کارپوریشنوں اور خودمختار اداروں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ چند لاکھ افسروں کیلئے اگر سرکاری خزانے سے چند ارب کھرب روپے تفریح کی مد میں خرچ کرنے پڑ جائیں تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ اس سے پہلے پبلک اکائونٹس کمیٹی نے دو اور سیاست دانوں کو بھی کچھ معاملات میں رقم سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا لیکن کسی نے بھی حکم کی تعمیل نہیں کی۔ ایک صاحب [ وسیم سجاد] تو اُس وقت کے حاکم پرویز مشرف کے پاس چلے گئے اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کی شکایت کی۔ پرویز مشرف نے کمیٹی سے رائے لئے بغیر رقم معاف کر دی۔

چند دن پہلے کرکٹ کے کھلاڑی برطانیہ میں پکڑے گئے تو بین الاقوامی پریس نے پاکستان پر منظم کرپشن کے الزامات لگائے۔ لندن کے اخبار روزنامہ ٹیلی گراف نے لکھا کہ ’’کرکٹ کے کھلاڑی بھی اُسی معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں جس سے ان کا تعلق ہوتا ہے! پاکستان تقریباً شروع ہی سے کرپشن کا شکار رہا ہے‘‘

آسٹریلیا کے اخبار ’’دی ایج‘‘ نے لکھا کہ کرکٹ کے پاکستانی کھلاڑی ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جہاں کرپشن منظم انداز میں کی جاتی ہے۔

کچھ بے وقوف حضرات سیاست دانوں کی اس قسم کی عنایات کو، جن کا ذکر اوپر گالف کے ضمن میں کیا جا چکا ہے، منظم کرپشن قرار دیتے ہیں۔ منظم کرپشن پاکستان میں ضرور موجود ہے لیکن اس میں کوئی سیاستدان ملوث نہیں۔ اس میں پاکستان کے عام شہری ملوث ہیں۔ جیسے سیلاب زدگان، جیسے وہ لوگ جو خودکش دھماکوں میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جیسے وہ لوگ جو مہنگی چینی اور مہنگا آٹا نہیں خرید سکتے۔ یا وہ لوگ جو بے گھر ہیں۔ یہ سب لوگ کرپشن کے مجرم ہیں انہیں سزا ملنی چاہئے۔ رہے وہ لوگ جو سیلاب زدگان کے نام پر آئی ہوئی امداد اپنے پسندیدہ افراد کو دے رہے ہیں یا جو اپنی جاگیریں بچانے کے لئے بستیوں کی بستیاں ڈبو دیتے ہیں یا جو دھماکوں کے ذمہ دار مجرموں کو رہا کر دیتے ہیں یا اسمبلیوں میں بیٹھ کر چینی اور آٹا مہنگا کر دیتے ہیں یا عوام کے سروں سے چھتیں چُرا کر محلات بناتے ہیں اُن کا منظم کرپشن سے کوئی تعلق نہیں۔

Tuesday, September 07, 2010

بڑا بھائی

یوں لگتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، ایک ماہ بعد یا ایک سال بعد دو ماہ بعد یا دو سال بعد بقول میر…ع
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا
رواں ماہ ستمبر کی یکم کو صدر اوباما نے عراق سے اپنے فوجی دستے نکال لینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کارِ خیر امریکہ نے خرابی بسیار کے بعد کیا ہے۔ عراق میں ساڑھے چار ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور زخمیوں کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ ہے۔ امریکہ نے جو عراق اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ اندھیروں میں ڈوبا ہوا عراق ہے۔ نسلی گروہوں میں بٹا ہوا۔ فرقہ واریت کا شکار۔ کربلا سے لیکر بغداد تک دھماکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ یہ ہے وہ ’’آزادی‘‘ اور یہ ہے وہ ’’جمہوریت‘‘ جو امریکہ نے عراق کو دی ہے۔
کیا امریکہ نے عراق سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ یا افغانستان میں اپنے مزید فوجیوں کو جہنم رسید کرا کر رخصت ہو گا؟ اس وقت تک افغانستان سے بارہ سو تابوت امریکہ جا چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد اسکے علاوہ ہے۔ امریکہ نے جو اہداف اپنے لئے طے کئے تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوا۔ افغانستان میں ’’جمہوریت‘‘ آئی نہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے کی امریکی خواہش پوری ہوئی۔ امریکہ آج رخصت ہوتا ہے یا ایک سال بعد یا دو سال بعد صورت حال یہی رہے گی۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ امریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان میں کیا ہو گا؟ یہ ہے وہ سوال جس پر کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا۔ اس کیلئے تجزیہ بھی چاہیے اور ٹھنڈے دل و دماغ سے افغانستان کے اندر کی سیاسی اور گروہی صورتحال اور حرکیات
(Dynamics)
 سے پوری واقفیت بھی!لیکن ہم ایک جذباتی قوم ہیں اور علم اور تجزیہ ہمارے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتا۔ ""  افغان باقی  کہسار  باقی ""  قسم کے مضامین[ روزنامہ جنگ          15    اگست   2010 ]  لکھنے سے اور بار بار یہ کہنے سے کہ امریکہ کو شکست ہو رہی ہے  سوائے ایک رومانویت کے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان میں کون سی اور کس کی حکومت ہو گی؟ شمالی افغانستان (یا سابقہ شمالی اتحاد) اور جنوبی افغانستان کے پختونوں کے درمیان معاملات کس طرح طے ہونگے؟ امریکہ کے نکلنے کے بعد والا افغانستان پاکستان نواز ہو گا یا بھارت نواز؟ کاش جذباتی مضامین لکھنے  کے بجائے  پاکستان کو لاحق مستقبل کے ان خدشات کو موضوع بنایا جائے۔
ایک اور المیہ یہ ہے کہ نعرے مارنے والے اکثر حضرات کو افغانستان کی تاریخ کا علم ہے نہ یہ معلوم ہے کہ اسکے اندر کون کون سی قومیتیں آباد ہیں اور ان کے باہمی روابط کیا ہیں؟ کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ شمالی افغانستان کو ترکستان صغیر کہا جاتا ہے جہاں ازبک آباد ہیں ۔ دوسری بڑی آبادی تاجکوں کی ہے جب کہ جنوب اور مشرقی حصے میں پختون رہتے ہیں جن کی ملک میں غالب اکثریت ہے۔
امریکیوں کے شکست خوردہ انخلاء کے بعد افغانستان میں کیا ہو گا؟ اس کا اندازہ لگانے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ موجودہ افغانستان کب وجود میں آیا؟ اکثر مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ موجودہ افغانستان کا بانی احمد شاہ ابدالی ہے جس نے 1747ء میں تاریخ میں پہلی بار پختونوں کو مجتمع کیا۔ نادر شاہ درانی کا یہ افسر غیر معمولی ذہانت کا مالک تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ دلی کو تاراج کرتے وقت نادرشاہ نے احمد شاہ ابدالی کو بتا دیا تھا کہ اسکے بعد وہ بادشاہ بنے گا۔ اس وقت موجودہ افغانستان، خراساں کا حصہ تھا اور افغانستان کا نام وجود  ہی میں نہیں آیا تھا۔ بہر طور نادرشاہ کے قتل کے بعد 1747ء میں قندھار کے مقام پر احمد شاہ بادشاہ بنا اس نے پختونوں کو اکٹھا کیا۔ درانی، قزلباش اور یوسف زئی سارے اسکے ساتھ تھے جلد ہی اس نے غزنی پر قبضہ کر لیا۔ پھر کابل چھینا تین سال بعد ہرات بھی اس کا تھا۔
اگرچہ احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ازبک ، تاجک اور ہزارہ بھی تھے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔احمد شاہ ابدالی کی حکومت سر سے لے کر پائوں تک ایک پختون حکومت تھی۔ابدالی کے بعد جو صورت ِ حال بھی افغانستان کو پیش آئی،خواہ ابدالی کے کمزور جانشینوں کے زمانے میں،یا بعد میں سکھوں اور انگریزوں کے ساتھ لڑائیوں میں، ان میں فیصلے ہمیشہ پختونوں نے کیے۔یہ صورت حال 1747 کے بعد دو سو بتیس سال تک برقرار رہی۔لیکن1979
میں منظر بدل گیا۔ سوویت یونین شمال کے راستےافغانستان میں داخل ہوا اور پہلی مزاحمت شمالی افغانستان کے ازبکوں اور تاجکوں نے کی۔ گویا دو سو بتیس سال بعد پہلی مرتبہ ازبک اور تاجک اقلیتیں پس منظر سے نکل کر پیش منظر پر آ گئیں۔ انہیں رشید دوستم اور احمد شاہ مسعود جیسے لیڈر میسر آ گئے۔ روسیوں کے انخلاء کے بعد برہان الدین ربانی صدر بنے جو احمد شاہ ابدالی کے بعد پہلے غیر پختون، سربراہ ریاست تھے۔ برہان الدین ربانی کا تعلق فارسی بولنے والے تاجکوں کے ساتھ تھا دیگر اہم مناصب بھی پہلی بار شمالی افغانستان کے حصے میں آئے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اڑھائی سو سال تک غالب رہنے والے پختون یہ صورت حال قبول کر سکتے تھے؟ انکے بابا احمد شاہ ابدالی نے یہ سلطنت پختونوں کیلئے بنائی تھی۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ اقتدار پلیٹ میں رکھ کر برہان الدین ربانی کی پارٹی ’’جمعیت اسلامی‘‘ کو دے دیتے۔’’جمعیت اسلامی‘‘ میں تو ازبکوں اور تاجکوں کی اکثریت تھی۔
جب ہم تاریخ کا اور بین الاقوامی سیاست کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس میں ہماری ذاتی وفاداریاں اور جذباتی وابستگیاں دراندازی نہیں کرسکتیں۔ کچھ حضرات طالبان کے بارے میں تجزیہ برداشت نہیں کر سکتے۔ طالبان میں بہت سی خوبیاں تھیں لیکن وہ گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان تھے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انکے ساتھ عرب، چیچن اور ازبکستان کے ازبک تو تھے اور ہیں لیکن افغانستان کے ہزارہ، ازبک اور تاجک انکے ساتھ نہیں۔ چنانچہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ طالبان نسلی لحاظ سے پختونوں کی ایک جماعت ہے۔
تو کیا افغانستان کے ازبک اور تاجک اتنے اچھے مسلمان نہیں جتنے پختون طالبان ہیں؟ کیا افغانستان میں اسلام پر کسی ایک گروہ کی اجارہ داری ہے؟ اس کا جواب منطق اور دانش کی صورت میں جو ہو سکتا ہے وہ واضح ہے۔ ازہر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تاجک برہان الدین ربانی  نے سید قطب شہید کی کتابوں کا پہلی بار فارسی میں ترجمہ کیا۔ اسلام پر اگر عربوں کی اجارہ داری ممکن نہیں تو اور کسی نسلی گروہ کی اجارہ داری کس طرح ممکن ہے؟
بہرحال پختون طالبان نے غیر پختونوں کی حکومت ختم کر دی۔شمالی افغانستان کے ازبکوں اور تاجکوں نےطالبان پرقتل و غارت کے الزامات لگائے۔جواب میں طالبان نے شمالی اتحاد کے مظالم سے دنیا کو آگاہ کیا۔مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان یہ تصادم تاریخ کا بدقسمت باب ہے۔ شمالی اتحاد نے طالبان کو کنٹینروں
containers
میں بند کر کے گرمی کی شدّت سے ہلاک کیا۔دوسری طرف شمالی اتحاد کا دعوا ہے کہ یہ انوکھا آلہء قتل طالبان کی ایجاد تھا۔
یہ ہے وہ نسلی جھگڑا جو افغانستان میں برپا ہے۔ سوویت یونین کے جانے کے بعد ازبکوں اور تاجکوں نے اقتدار کا مزہ پہلی بار چکھا۔ تو کیا اب امریکیوں کے جانے کے بعد وہ پھر پس منظر میں چلے جانا گوارا کرینگے؟ یا اقتدار میں برابر کا حصہ چاہیں گے؟ اور کیا طالبان جو نو سال کی جدوجہد کے بعد آج پھر ایک اہم طاقت ہیں شمال والوں کے ساتھ کوئی قابل عمل سمجھوتہ کر لیں گے؟ گزشتہ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا بہت مشکل ہے اسکی تائید جماعت اسلامی کے سابق امیر اور طالبان کے حامی قاضی حسین احمد نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کی ہے۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں 
""
ملا عمر نے جنگ شروع ہونے سے پہلے بھی القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ جس مزاج کا آدمی ہے اس سے اگر مذاکرات کئے جائینگے تو وہ آج بھی کسی درمیانی راستے کی طرف آنے کی بجائے اپنے اس موقف پر اصرار کریگا کہ افغانستان کے تمام دوسرے فریق اسے بلا شرکت غیرے امیر المومنین تسلیم کر کے اس کی بیعت کر لیں۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ طرزِ فکر صرف ملا عمر کا نہیں، کوئی بھی پختون ہو، وہ یہی سمجھتا ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے یہ سلطنت پختونوں کیلئے بنائی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ملا عمر کا مزاج ایسا ہے۔ ہو سکتا ہے ملا عمر دوسرے کئی پختونوں کی نسبت نرم دل ہوں اور اسلامی اخوت اور مساوات پر زیادہ یقین رکھتے ہوں۔
 کاش قاضی حسین احمد اور دوسرے حضرات  صرف امریکہ کے انخلاء پر بات کرنے کے بجائے کوئی ایسا فارمولا پیش  کریں جو مستقبل کے افغانستان کو پرامن بنانے میں ممد ثابت ہو سکے۔ گزشتہ نو سالوں میں ازبکوں اور تاجکوں کے بچے پرامن شہروں میں رہ کر تعلیمی لحاظ سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ آخر پختون بچوں کی قسمت میں قتل وغارت کیوں ہو؟ طالبان عددی لحاظ سے بڑے بھائی ہیں انہیں چاہیے کہ ایک بار وہ آگے بڑھ کر ازبکوں تاجکوں اور ہزارہ کو گلے سے لگائیں اور ساتھ بٹھا کر اقتدار کا کوئی قابل عمل حل تجویز کریں تاکہ افغانستان کو خانہ جنگی سے نجات ملے۔ اگر طالبان کی اس محبت کا جواب محبت سے نہ دیا گیا تو پھر طالبان پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکے گا اور دنیا کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ طالبان امن کے خواہاں ہیں۔
 

powered by worldwanders.com