Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, April 29, 2019

اس سے زیادہ صاف تو مردار کا گوشت ہے



‎کیا فرق ہے ہم میں اور کسی دور افتادہ‘ جنگل کے درمیان واقع ایک وحشی قبیلے میں! 

‎اگر ترقی کا مطلب وسیع شاہراہیں‘ میلوں لمبے شاپنگ مال اور جدید ترین ہوائی اڈے ہوتا تو ایک دنیا شرق اوسط کے ملکوں میں زندگی بسر کرنے کی خواہش مند ہوتی! یہ سب کچھ وہاں موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ!مگر کسی کے دل میں امنگ نہیں اٹھتی کہ وہاں جا کر بسے۔ اس لئے کہ ٹریفک کا حادثہ ہو گیا تو پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ مقامی کون ہے اور غیر مقامی کون؟ 

‎ایک پاکستانی نژاد امریکی نے جو واقعہ سنایا وہ ہزار کتابوں اور تقریروں پر بھاری ہے یہ سمجھانے کے لئے کہ ترقی کیا ہے؟ مدینہ منورہ سے پاکستان آنے کے لئے یہ پاکستانی نژاد امریکی‘ ہوائی اڈے پر قطار میں کھڑا تھا۔ پاسپورٹ چیک ہو رہے تھے، بورڈنگ کارڈ ایشو ہو رہے تھے۔ دھاندلی میں لپٹا ایک عرب آیا‘ قطار سے گزر کر سیدھا کائونٹر پر گیا۔ کائونٹر والے نے قطار والوں کو پس پشت ڈال کر پوری توجہ اس پر مرتکز کی اور پھر کیے رکھی۔ اس پاکستانی نژاد امریکی نے کہ عربی میں قدرتِ کلام رکھتا تھا۔ احتجاج کیا، شدید احتجاج! کائونٹر والا اس پر چلایا! تب مسافروں نے اسے سمجھایا کہ میاں! پکڑ کر جیل میں ڈال دیں گے۔ وہ جو قطارکو روند کر گیا ہے‘کوئی بڑا آدمی ہے! خاموش رہو اور گزارا کرو! ان ریاستوں میں اگر سونے کی شاہراہیں بن جائیں‘ ٹیکسیوں کی جگہ ہیلی کاپٹر لے لیں! صحرا کے دور درازگوشوں میں جدید ترین فاسٹ فوڈ دکانیں کھل جائیں‘ پھر بھی ترقی یافتہ نہیں کہلائیں گی! 

‎ڈھیلے ڈھالے کسرتی لباس میں ملبوس ایک شخص ورزش کے لئے دوڑ رہا تھا۔ شرطے نے پاسپورٹ مانگا۔ اس نے کہا میں جاگنگ کے لئے نکلا ہوں۔ پاسپورٹ گھر پر ہے اور میں فلاں ملک کا سفیر ہوں! شرطے نے اسے زنداں میں ڈال دیا۔ ایک دن گزرا۔ پھر دو دن۔ بیگم نے شور مچایا۔ حکومت نے حکومت سے رابطہ کیا۔ سفیر کو ڈھونڈا جائے۔ تب شرطے کو یاد آیا کہ ایک گہرے سانولے رنگ کا پستہ قد شخص سفیر ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا! 

‎نہیں! یہ ترقی نہیں! پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے! ہر سرکاری ادارہ‘ عام پاکستانی سے وہی سلوک کرتا ہے جو شرطہ غیر ملکی سے کرتا ہے بشرطیکہ غیر ملکی کے بدن پر چمڑی سفید نہ ہو! 

‎کیا اس سے بھی زیادہ بے کسی اور بے بسی ہو سکتی ہے کہ ایک پاکستانی اپنے سر پر دو ہتھڑ مارتا ہے! ہتھکڑیوں بھرے دو ہتھڑ! وہ اپنا سر پیٹتا ہے۔ زخمی ہو جاتا ہے! اس پر اسے مارا جاتاہے! یہ ایک قیدی ہے جسے اڈیالہ جیل سے پیشی کے لئے دارالحکومت میں لایا جاتاہے۔ جہاں رکھا جاتا ہے وہاں بلیک ہول کا منظر ہے۔ جانوروں کی طرح ٹھونسے گئے انسان! پنکھا تک نہ تھا، دم گھٹنے لگا، اس نے اہلکار سے فریاد کی، اہلکار نرم دل تھا۔ چنگیز خان سے کسی نے پوچھا کبھی رحم بھی کیا کسی پر؟ کہا! ہاں! ایک عورت کا بچہ زمین پر تڑپ رہا تھا۔ اسے نیزے میں پرو کر عورت کو دے دیا ؎ 

‎وہ شہسوار بہت نرم دل تھا میرے لیے 
‎چبھو کے نیزہ زمیں سے اٹھا لیا مجھ کو 

‎نرم دل اہلکار نے کہا کہ مٹھی گرم کرو تو ایسی جگہ کھڑا کروں گا جہاں ہوا لگے۔ افسوس! ہتھکڑی لگے قیدی کے پاس رقم نہ تھی! شور وہ مچاتا رہا کہ اس کا دم گھٹ رہا ہے۔اس پر نرم دل اہلکار نے اسے تھپڑ مارے پھر اس کی ملاقات آئی۔ پانچ منٹ کی ملاقات کے عوض پھر’’خدمت‘‘ طلب کی گئی۔ خدمت کرنے سے وہ قاصر تھا ہی‘ اس پر انکار کر دیا گیا۔ اب اس نے احتجاجاً اپنے سر کو لوہے کی ان ہتھکڑیوں سے پیٹ ڈالا جو اس کی کلائی میں پڑی تھیں اس پرنرم دل اہلکاروں نے دو ایکشن فوری لئے ایک تو اسے مزید مارا۔ سر پر مکے اور چہرے پر چانٹے۔ دوسرے اس کے خلاف ایک اور مقدمہ اس جرم کا دائر کر دیا گیاکہ اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی کوشش کر کے یہ بدبخت کارِ سرکار میں مداخلت کا مرتکب ہوا ہے!۔ 

‎یہ وہی کچہری تھی جہاں کچھ عرصہ پیشتر سینیٹ کے ایک سابق چیئرمین سے پولیس والے نے شناخت مانگی اور چیک کرنے کی کوشش کی تو پولیس والے کو تھپڑ رسید کئے گئے۔ وہ 2016ء تھا۔ آج 2019ء ہے۔ تب مسلم لیگ نون کی حکومت تھی۔ آج تحریک انصاف مقتدر ہے۔ اس وقت میاں نواز شریف وفاق کے سربراہ تھے۔ آج عمران خان حکمران ہیں! تب بھی پتھر کا زمانہ تھا۔ آج بھی پتھر کا زمانہ ہے! تب بھی ہم پس ماندہ اور وحشی تھے۔ آج بھی ہم پس ماندہ اور وحشی ہیں۔ ایک نہیں لاکھ سی پیک آ جائیں۔ ایک ارب نہیں‘ کھربوں درخت لگا دیے جائیں‘ ایک موٹر وے نہیں‘ سارے ملک کے ایک ایک گائوں کو موٹر وے سے منسلک کر دیجیے۔ ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر میں ہوائی اڈہ تعمیر کر دیجیے۔ ہم پھر بھی وحشی رہیں گے۔ اس لئے کہ افریقہ کے وحشی قبائل میں صرف سردار مراعات یافتہ ہوتا ہے‘ باقی کسی کی جان مال عزت کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں! 

‎وہ جو کفار کے ملک ہیں‘ ان میں پولیس آپ کو ہاتھ نہیں لگا سکتی! گرفتار کرنے کے بعد ملزم یا مجرم کو سب سے پہلے اس کے حقوق پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ اسے وارنٹ دکھا کر گرفتار کیا جاتا ہے۔ وارنٹ بغیر گھر کی تلاشی نہیں لی جا سکتی؟ جیل میں اس کے الگ حقوق ہیں۔ کھانا اسے صاف ستھرا دیا جاتا ہے! مسلمان ہے تو جمعہ اور عید کی نماز باجماعت کا انتظام کرنا جیل والوں کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ نصرانی ہے تو پادری اس کے پاس آئے گا۔ اسے چرچ لے جانے کا انتظام کیا جائے گا! اگر وہ مشقت کرتا ہے تو اس کا معاوضہ دیا جائے گا۔ 

‎ڈیڑھ سوبرس پہلے اس سفید ریش شخص نے کہ اپنی قوم کے لئے مجنوں بنا پھرتا تھا، رات دن کڑھتا تھا اور خون کے آنسو روتا تھا، کہا تھا کہ ہم ہندوستانی وحشی ہیں۔ اس پر اسے نفرین بھیجی گئی تھی۔ تعصب کی کمان سے فتوئوں کے زہر آلود تیر اس کے بوڑھے سینے میں پیوست کئے گئے تھے ہائے افسوس! بات اس کی سچ تھی! سفید سچ۔ موتیوں جیسا چمکدار سچ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہم آج ڈیڑھ سو برس بعد بھی وحشی ہیں! پلس والا ملاقات کے لئے رشوت مانگتا ہے۔ کچہری والا انتقال زمین کے لئے کہتا ہے میرے منہ میں ہڈی ڈالو! گیس والا کہتا ہے میرے منہ میں سؤر کا ٹکڑا ڈالو، رات کو آ کر کنکشن دے جائوںگا۔ اس پروردگار کی قسم! جو اس ملک کی بستیوں کو آن کی آن میں اوپر لے جا کر اوندھے منہ گرا سکتا ہے۔ اس ملک میں پھانسی چڑھنے والے ملزم کے لواحقین سے ’’خدمت‘‘ مانگی جاتی ہے کہ جان جلدی نکلوانی ہے یا دیر سے! پھانسی کے رسے اور نیچے پڑے ہوئے تختے کے درمیان فاصلے کا مسئلہ ہوتا ہے! 

‎نفرت سے ناک سکوڑ کر کہتے ہیں کہ فلاں ملک میں سانپ کھاتے ہیں۔ زندہ بندر کا مغز کھاتے ہیں۔ چیونٹیوں کا سُوپ پیتے ہیں کتے اور گدھے کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ خنزیر کھاتے ہیں! تو اس ملک میں کیا کھایا جا رہا ہے؟؟ 

‎اُس سپاہی سے لے کر جو قیدی کو جیل سے کچہری لاتا ہے‘ اُس گیس والے سے لے کر جو آدھی رات کوکنکشن مہیا کرتا ہے‘ اہلکار سے لے کر جو انتقال کے کاغذات تیارکرتا ہے، اس کھڑ پنچ تک جو ملک کے اندر اور باہر ہر جائیدادوں اور فیکٹریوں کے انبار جمع کر رہا ہے۔ سب کتے اور سؤر کا گوشت کھا رہے ہیں! پس ماندگی ایک نرم لفظ ہے۔ ہم اسفل السافلین سے بدتر ہیں! 

‎ترقی انفراسٹرکچر کا نام ہے نہ شرحِ نمو کا! ترقی یافتہ ملک وہ ہیں جہاں عام انسان کو حقوق حاصل ہیں۔ اسے ہاتھ کوئی نہیں لگا سکتا!!

Sunday, April 28, 2019

قربان تیرے پھر مجھے کہہ لے اسی طرح


‎یہ حقیقت ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ثابت ہو چکی ہے کہ سوقیانہ زبان استعمال کرنے کے لئے جہالت ضروری نہیں!

‎ان سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کون ہو سکتا تھا۔ تاہم سیاسی حریفوں کو وہ آلو اور ڈبل بیرل کہہ دیتے تھے۔ عوامی جلسوں میں بھی متانت کی سطح سے نیچے اترنا ان کا معمول تھا۔ 

‎عمران خان پر بھی برطانوی تعلیم اور ولایت میں قیام کا ٹھپہ لگا ہوا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے خاندانی وارث کو انہوں نے صاحب کے بجائے صاحبہ کہا۔ اس جماعت کے وابستگان کا ردعمل فطری ہے۔ احتجاج ان کا حق ہے! انہیں بُرا منانا چاہیے تھا جو انہوں نے منایا۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی مرد کی تنقیص کرنی ہو تو انگریزی میں یہ کہنا عام ہے کہ? 

Who is She 

‎بھٹو صاحب اور عمران خان کے درمیان والے عرصہ میں کیا کچھ ہوتا رہا۔ اس کا درست ادراک کیا جائے تو بھٹو صاحب اور عمران خان کے الفاظ جو انہوں نے حریفوں کے لئے استعمال کیے‘ پھول لگیں گے۔ بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک معروف اور نمایاں سیاست دان نے ایک خاتون کے لئے بھری محفل میں کیا الفاظ استعمال کئے تھے کس قبیل کا اشارہ کیا تھا اور شرکائے محفل کس بے دردی سے ہنسے تھے! وہ خاتون اس وقت سیاست میں تھیں۔ مشہور تھیں۔ اب وہ پیش منظر پر نہیں! یہ منظر یوٹیوب پر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے! 

‎جنرل مشرف صاحب کے وزیر قانون غالباً وہی صاحب تھے جن کے ساتھ‘ کراچی ایئر پورٹ پر ایک مسافر کو زدوکوب کرنے یا کرانے کا واقعہ وابستہ ہے۔ سارا پاکستان گواہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر انہوں نے گالی دی اورزبان سے کم اوربازو سے زیادہ دی! کچھ بھی نہ ہوا۔ آسمان ٹوٹا نہ زمین دھنسی۔ پتھر برسے نہ آندھی چلی۔ گمان غالب یہ ہے کہ کوئی مہذب ملک ہوتا تو سربراہ حکومت ایسی متبذل حرکت پروزیرسے استعفیٰ لے لیتا یا کم از کم معافی مانگنے پر ضرور مجبور کرتا۔ 

‎پھر وسطی پنجاب کی حکومت آئی۔ اس عہد ہمایونی میں خواتین کو ٹریکٹر ٹرالیوں کے خطاب دیے گئے۔’’شرو حیا‘‘ نہ ہونے کے طعنے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر خوب برسائے گئے۔ پھر مسلم لیگ نون کے اہل سیاست کا ایک پورا گروہ سامنے آیا جن کا ’’تخصص‘‘ ہی مخالفین کی کردارکشی تھا۔ یہ تقریباً سارے نوجوان تھے۔ دختر نیک اختر کی کمان میں ایک اطلاعاتی ٹیم شب و روز الگ مصروف ’’عمل‘‘ تھی۔ شورش کاشمیری نے ایک بار مولانا مودودی کی تعریف میں ایک نظم کہی۔ اس کا ایک شعر اس موقع پر یاد آ رہا ہے ؎ 

‎تونے اک حلقۂ ارباب قلم باندھا ہے 
‎جس کے افکار پہ پر تو تری زنجیر کا ہے

‎ (ہو سکتا ہے یادداشت نے شعر کے کچھ الفاظ ادھر ادھر کر دیے ہوں)

‎یہ جو گروہ تھا اہل سیاست کا اور سوشل میڈیا کے ماہرین کا جو حریفوں کو دھول چٹانے میں رات دن منہمک تھا۔ ظاہر ہے کہ اس پر مسلم لیگ اعلیٰ قیادت کا پر تو تھا! 

‎سچ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے نوجوان وابستگان نے بھی اس حوالے سے کمی کوئی نہیں چھوڑی۔ دشنام طرازی کا ایک عمومی کلچر جو سیاست میں سکہ رائج الوقت ہے۔ تحریک انصاف نے اس میں اپنا پورا حصہ ڈالا! 

‎مگر اس سلسلے میں کیا صرف اہل سیاست مجرم ہیں؟ یہ درست ہے کہ اہل سیاست ہمیں حکمران دیتے ہیں۔ حکمرانوں پر ایک ذمہ داری یہ بھی عائد ہے کہ تہذیب اور شائستگی کے میدان میں قوم کی تربیت کریں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے پوری قوم کا طرز عمل کیا ہے؟ سچ پوچھیے تو گالی گلوچ کا جو کلچر اجتماعی طور پرپورے معاشرے میں جاری و ساری ہے اس کے مقابلے میں سیاست دانوں کی زبان نسبتاً بہت شائستہ ہے! ادیبوں شاعروں سیاست دانوں اور اینکر حضرات کوتو چھوڑیے‘ کبھی مذہبی رہنمائوں کی گفتگو ان کی نجی مجالس میں سنیے تو چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ یہ وفاقی دارالحکومت کا واقعہ ہے۔ ایک سو دس فیصد مبنی بر حقیقت! ایک عالم دین نماز کی امامت کرا رہے تھے۔ کسی نے آمین بالجہر کے ’’گناہ‘‘ کا ارتکاب کیا۔ سلام پھیرنے کے بعد حضرت نے سجادۂ امامت ہی سے پوچھا کہ یہ کس نے…‘‘۔ 

‎قرطاس و قلم اجازت نہیں دیتے کہ غلیظ گالی کو یہاں لکھا جائے! 

‎سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ ابھی شہلا رضا صاحبہ نے ایک تنازعہ کھڑا کیا ہے اس کی مخالفت اور دفاع میں جو اندازِ گفتگو اور معیارِ بحث دونوں طرف سے سامنے آ رہا ہے اس پر جتنا ماتم کیا جا سکے‘ کم ہے۔ ذکر اصحابِ رسولؐ کا اوریہ لہجہ ! ظاہر ہے یہ تنازعہ آج کا نہیں‘ سینکڑوں برس سے چلا آ رہا ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ مگر وہ طبقہ جو اس تنازعہ میں اپنے آپ کو نہیں الجھا رہا اور لاتعلق ہے۔ اسے سیکولر کہہ لیجیے یا غیر جانب دار‘ اس کے سامنے آپ کون سا ماڈل رکھ رہے ہیں؟ 

‎عوام کی زبان کتنی شائستہ ہے؟ ٹریفک کا کوئی حادثہ ہو جائے تو دست و گریباں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے لئے فریقین جو زبان استعمال کرتے ہیں‘ وہ ہماری اجتماعی ’’تہذیب‘‘ کی نمائندگی کرتی ہے! وکیلوں کے طرزِ عمل پر ایک نگاہ دوڑا لیجیے۔ جج کا سر کرسی سے پھاڑنے والے وکیل نے زبانی کیا کچھ نہیں کہا ہو گا! اب تو یو ٹیوب نے سارے پردے چاک کر دیے ہیں ؎ 

‎اٹھ گیا پردہ نصیحت گر کے لگ پڑنے سے میرؔ 
‎پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت 

‎تمام حجابات اٹھ گئے ہیں۔ اہلِ مذہب اپنی ’’تقریروں‘‘ میں گالی دینے کا جو نیا انداز متعارف کرا رہے ہیں وہ بھی دیکھا جا سکتا ہے! ٹوکے اور تلواریں لہرائی جا رہی ہیں۔ گھروں کے جھگڑے بھی فلم بند ہو کر پھیل گئے ہیں۔ ہماری عورتیں جھگڑتے وقت کون سی زبان استعمال کرتی ہیں۔ ہماری پولیس کا رویہ کیا ہے؟ دوران تفتیش کون سی زبان استعمال کی جاتی ہے؟ 

‎اس سارے سیاق و سباق میں اہل سیاست کو معاف نہ کیا جائے توکیا کیاجائے ؟ وہ اسی قوم کے نمائندے ہیں ایک بھائی پولیس میں ہے۔ دوسرا وکالت کر رہا ہے۔ تیسرا سیاست کے میدان میں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم سب جھگڑتے وقت دشنام طرازی کا سہارا لیں اور اہل سیاست یہی کام کریں تو مطعون ٹھہریں! 

‎ارشاد نبویؐ تو یہ ہے کہ جو جھگڑا کرتے وقت گالی دے وہ منافق ہے مگر اس پر خود اہلِ مذہب عمل نہیں کر رہے تو دوسرے کیا کریں گے۔ 

‎ویسے سیاست دانوں کو شاعری کا ضرورمطالعہ کرنا چاہیے۔ گالی کے جواب میں گالی نہ دیں بلکہ مومنؔ کے بقول یہ کہا کریں ؎ 
‎لگتی ہیں گالیاں بھی ترے منہ سے کیا بھلی 
‎قربان تیرے! پھر مجھے کہہ لے اسی طرح

Saturday, April 27, 2019

‎ایک امیر شہر جسے نوچنےوالوں نے فقیر کر دیا



‎خزاں ہے اور ایسی کہ درخت بجھ گئے ہیں۔ 

‎احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا …

‎خزاں دلوں میں جڑیں چھوڑنے کی دُھن میں ہے 
‎کہاں   گیا     مرا       پروردگار       موسمِ      گُل 

‎سبزہ پیلا پڑ گیا ہے۔ نامراد عاشق کے رخسار کی طرح 

‎رومی نے شمس تبریز کے نام پر پورا دیوان لکھ ڈالا۔ دیوان شمس تبریز! اور عاشق کے زرد رنگ کی طرف معشوق کی توجہ دلائی ؎ 

‎آخر تو شبی رحمی نہ کُنی
‎بر رنگِ رُخِ ہمچون زرِ من 

‎ایک رات بھی تو میرے سونے جیسے رنگ پر رحم نہیں کرتا۔ 

‎رنگ عاشق کا پیلا ہوتا ہے اور اس ضعیف کا بھی جو عمر کی سرحد پر پہنچتا ہے۔ ناصر کاظمی یاد آ گیا ؎ 

‎رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی 
‎بال چاندی ہو گئے سونا ہوئے رخسار بھی! 

‎شاعروں نے بالوں میں چاندی بھی ڈھونڈی اور برف بھی!افتخار عارف نے کہا ؎ 

‎ابھی سے برف الجھنے لگی ہے بالوں میں 
‎ابھی تو قرضِ مہ وسال بھی اتارا نہیں 

‎سعدی نے ابراہیم خلیل اللہ کی مہمان نوازی کا بیان جس حکایت میں کیا اس میں ’’برفِ پیری‘‘ کی ترکیب استعمال کی! شاید اس کے بعد ہی یہ تشبیہ فارسی شعرا نے کثرت سے برتی! یارِ دیرینہ‘ محققِ دوراں‘ فارسی داں حضرت پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی ہی یہ رہنمائی کریں گے کہ سعدی سے پہلے بھی بڑھاپے کے سفید بالوں کو برف کا ہم رنگ کہا گیا یا نہیں! 

‎اور آہ ! کیکر کے پیلے پھول! شہر کے باسی کیا جانیں! گائوں کے شاعر نے کہا تھا ؎ 

‎گُلِ کیکر میں خوشبو تو نہیں تھی 
‎مگر چہرے کو اُس کا رنگ بھایا 

‎خزاں ہے اور ایسی کہ درخت بجھ گئے ہیں -سبزہ پیلا پڑ گیا ہے۔ کنارِ بحرالکاہل ‘ اس شہر میں کہ جہاں ان دنوں اِس ابن السبیل کا قیام ہے‘ ہوا زور سے چلتی ہے تو ایک ایک مسام کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ یہاں اُن پیڑوں کی بھی کمی نہیں جو سدا بہار ہیں۔ جن کے پتے ہر رُت میں سبز رہتے ہیں! سورج بادلوں سے باہر بھی جھانکتا ہے! سنہری دھوپ قالین کی طرح بچھ جاتی ہے‘ مگر ایسی نہیں جو ہمارے جاڑوں میں ہوتی ہے جس میں‘ باہر بیٹھ کر ہم دھوپ تاپتے ہیں! اس لئے کہ یہاں سائیں سائیں کرتی ہوا‘ چین نہیں لینے دیتی ! تھوڑی ہی دیر میں دیواروں کے بیچ! چھت کے نیچے پناہ لینا پڑتی ہے! 

‎پت جھڑ کی اِس رُت میں بھی‘ فٹ پاتھ‘ شاہراہیں‘ کھیل کے میدان ‘ گرے ہوئے کھڑکھڑاتے پتوں سے ہرگز    اٹے ہوئے نہیں! صفائی کا انتظام اِن ملکوں میں جادوگری سے کم نہیں! ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ ہو چلا جب سرسید احمد خان گھر کا مال و اسباب فروخت کر کے‘ بحری جہاز کے راستے‘ فرانس سے ہوتے‘ لندن پہنچے! گھوڑا گاڑیوں کا زمانہ تھا۔ حیران ہوئے کہ اِدھر گھوڑے نے لید کی‘ اُدھر صفائی ہو گئی! 

‎ہر تیسری بی بی اور ہر تیسرا مرد خواجہ سگ پرست ہے! شام کو اپنے اپنے سگِ وفادار کے ساتھ باہر نکل آتے ہیں۔ اپنی ورزش کی کم اور ان کی صحت کی زیادہ فکر کرتے ہوئے! مگر مجال ہے کہ کسی جگہ طبیعت کو مکدر کرنے والی کوئی شے نظر آ جائے اور یہ کہنا پڑے کہ جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے! تربیت کا کمال ہے! پالتو جانوروں سے لے کر انسانوں تک!! 

‎اس کرہ ارض پر حیرتوں کے بہت سے در جو انسان پر وا ہوتے ہیں موسموں کا تغیر و تبدل ان میں سر فہرست ہے!

‎ ’’ بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور دن اور رات کے بدلنے میں‘ اور جہازوں میں جو پانیوں پر
‎لوگوں کو نفع دینے والی چیزیں لے کر چلتے ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمان سے نازل کیا ہے‘ پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور ہر قسم کے چلنے والے جانور اس میں پھیلاتا ہے اور ہوائوں کے بدلنے میں اور بادل میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر ہے۔ نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لئے‘‘ 

‎منیر نیازی نے کس دلکش پیرائے میں اسے شعر کی صورت دی ؎ 

‎رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا 
‎فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت 

‎ایک خیالی خط‘ زمین کے درمیان‘ شرقاً غرباً کھینچا گیا جسے خط استوا کہا گیا۔ خطِ استوا کے شمال میں واقع کرہ ارض کے حصے کو ’’شمالی نصف کرہ ارض‘‘ اور جنوب میں واقع حصے کو ’’جنوبی نصف کرہ ارض‘‘ کا نام دیا گیا۔شمال اور جنوب کے نصف کرہ ہائے ارض کے موسم الٹ ہو گئے۔ شمال میں جب شدید سردی ہے تو اُس وقت جنوب میں شدید گرمی! 

‎ادب کے ساتھ عجیب واقعہ رونما ہوا۔ انگریزی ادب میں بہار کا ذکر آتا تو ذہن میں مارچ اور اپریل کے مہینے آتے۔ خزاں کا موسم سال کے آخری مہینوں سے وابستہ تھا۔ کیٹس تھا یا ورڈز ورتھ‘ یا برونٹی بہنوں کے ‘ ڈی ایچ۔ لارنس کے اور دوسرے ادیبوں کے ناول‘ سب میں موسم سال کے انہی حصوں کے لئے مختص تھے۔ 

‎پھر انگریز ننھے منے جزیرے سے نکلے اور کرہ ارض پرہر چہار طرف پھیل گئے۔ بحرِ اوقیانوس پار کیا اور کینیڈا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ پر قبضہ کر لیا۔ پھر اوقیانوس کے جنوب میں گئے۔ وہاں سے اپنے بحری جہازوں کا رخ مشرق کی طرف موڑااور راس امید سے ہوتے ہوئے ہندوستان کے مشرقی حصے پر لنگر انداز ہوئے۔ کلکتہ اور ہگلی کو مرکز بنایا اور پھر افغانستان کی سرحد تک ملکہ کا پرچم لہرا دیا۔ 

‎پھر ایک جہاز سڈنی رکا ۔ چند عشرے ہی گزرے تھے کہ آسٹریلیا سے لے کر نیوزی لینڈ تک برطانوی سلطنت اردگرد کے سمندروں کی طرح ٹھاٹھیں مارنے لگی۔ 

‎عسکری قبضہ ہوا تو انتظامی امور بھی انگریزی تصرف میں در آئے۔ اب ادب بھی پیچھے پیچھے آیا۔ کہ ادب بھی انہی کا غلبہ پاتا ہے جن کے تصرف میں اقلیمیں ہوتی ہیں۔ کینیڈا ‘ امریکہ اور برصغیر ہند میں تو خیریت گزری کیونکہ ورڈز ورتھ کی شاعری میں جہاں بہار‘ مارچ اپریل کے ساتھ وابستہ تھی۔ ان ملکوں میں بھی ایسی ہی رہی۔ تاہم انگریز جب اپنے ادب عالیہ کو لے کر جنوبی افریقہ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں وارد ہوئے تو معاملہ مختلف تھا۔ کلاس روموں میں استاد موسم بہار کی شاعری مارچ اپریل کے تناظر میں پڑھاتا اور باہر‘آنکھوں کے سامنے خزاں کے جھکڑ چل رہے ہوتے اور زرد پتے سینہ کوبی کرتے‘ درختوں سے ٹوٹ کر‘ زمین سے گلے مل رہے ہوتے۔ لندن مانچسٹر اور آئر لینڈ میں تخلیق شدہ ادب‘ جنوبی افریقہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں پڑھا پڑھایا جاتا تو کتابوں کے برعکس سرما دسمبر جنوری میں نہیں‘ جون جولائی میں ہوتا۔ 

‎پھر ان لوگوں نے اپنا ادب تخلیق کیا۔ شاعری کی۔فکشن لکھا۔ خزاں کو مارچ اپریل اور بہار کو ستمبر اکتوبر کے ساتھ وابستہ کیا۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی‘ شیکسپیئر تو انگریزی ادب میں ایک ہی ہے - چارلس ڈکنز روز روز نہیں پیدا ہوتا۔ ازرا پائونڈ امریکی تھا مگر عروج کے بارہ سال برطانیہ میں گزارے۔ ٹی ایس ایلیٹ امریکہ سے ہجرت کر کے انگلینڈ آ گیا۔ امریکی پاسپورٹ کو خیر باد کہا اور برطانیہ ہی میں دفن ہوا۔ سچ یہ ہے کہ انگریزی ادب جو انگلینڈ آئر لینڈ سکاٹ لینڈ اور ویلز میں تخلیق ہوا۔ کینیڈا‘ امریکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ مل کر اس کا عشر عشیر بھی نہیں پیدا کرسکے! 

‎خزاں زورں پر ہے! ہوا چل رہی ہے‘ اس سرد‘ زرد‘ اداس سہ پہر کو میرا جی یاد آ رہا ہے ؎ 

‎لچکتی ہوئی ٹہنیوں کی گھنی پتیوں میں ہوا سرسرانے لگی ہے 
‎ہوا سرسرانے لگی ہے 
‎ہوا کس لئے سرسرانے لگی ہے 
‎کہیں دور۔غول بیاباں کی دل کو مسلتی ہوئی چیخ جاگی۔ 
‎کہیں دور… 

‎کیا خوبصورت صاف ستھرا شہر ہے۔ درختوں باغوں پارکوں سے بھرا ہوا۔ مگر دل کو مسلتی ہوئی۔ چیخ ابھرتی ہے۔ 
‎اس لئے کہ کبھی اسلام آباد بھی ایسا ہی تھا۔ خوبصورت صاف ستھرا۔ درختوں باغوں پارکوں سے بھرا ہوا۔ پھر یہ عفریتوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ عفریت حکمران۔ عفریت بیورو کریٹ! اب یہ شہر 
Slums
‎کا مجموعہ ہے۔ میں ایک نیم خواندہ شخص ہوں۔ مجھے نہیں معلوم 
Slums
‎کو  اردو میں کیا کہیں گے۔ہاں فارسی میں محلہ ہائے فقیر نشین کہیں گے۔ امرا نے شہر کو نوچ نوچ کر فقیر کر دیا۔

Thursday, April 25, 2019

موخر کرسکتے ہیں - روک نہیں سکتے



وہ گاؤں کا غریب آدمی تھا ۔نسل در نسل ایک ایسے پیشے سے منسلک جو سماجی ڈھانچے میں زیریں سطح پر تھا۔معجزہ یہ ہوا کہ اس کے بیٹے نے گریجوایشن کرلی۔نوکری بھی مل گئی یہ اور بات کہ پکی نہیں تھی۔ 

یہ وہ زمانہ ہے جب سرکاری کاغذوں میں ایک اصطلاح کنٹریکٹ کی نوکری ہے۔ یعنی لٹکائے رکھو۔لٹکائے رکھو ۔ کام لیتے رہو ۔ تنخواہ بڑھانی پڑتی ہے نہ ترقی دینے کا جھنجھٹ، پینشن تو کنٹریکٹ ملازمین کی ہوتی ہی نہیں ۔ 

پاس کے گاؤں سے رشتہ داروں کے ہاں اس لڑکے کی شادی ہوئی۔اس کی دلہن نے بہ ہزار دقت  سینکڑوں تکلیفیں جھیل کر گرتے پڑتے،افتاں خیزاں ایم اے کر رکھا تھا ۔ایسی نچلی سطح کی ذاتوں میں ایم اے۔ وہ بھی لڑکی! مگر ذرائع آمدورفت کی تیزی نے بہت سی انہونیوں کو ممکن بنادیا ہے - 

یوں بھی ذہانت اگرزمین ، زر ، جائیداد، اور اقتدار کی بنیادپر ملتی تو دنیاکا نقشہ مختلف ہوتا۔ غلام بادشاہ نہ بنتے اور تخت وتاج کے وارث گلیوں میں خس و خاشاک کی طرح نہ بھٹکتے پھرتے۔ذہانت کی بنیاد دولت ہوتی تو حسن نواز اور حسین نواز جیسے پیدائشی کھرب پتی سالہا سال برطانیہ میں رہ کر آکسفورڈ کیمرج یا لندن سکول آف اکنامکس سے کم از کم ایک آدھ ڈگری ضرور لے لیتے۔دور افتادہ  بھوکی ننگی افریقی  ریاست ملاوی کا لڑکا، چارلز فلپ کافی ، ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا ۔ اور میرا دوست! جب وہ کہتا لندن سکول آف اکنامکس کے دروازے کو دیکھنا اس کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہے تو اس کی اداس آنکھوں ابھرنے والی چمک دیدنی ہوتی۔آب حیات کے کنارے پہنچ کراس سے محروم ر ہنا ، شاعری میں تو لائق تحسین ہوگا۔عملی زندگی میں اسے بدقسمتی ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔میر نے کہا تھا: 

اپنے جی ہی نے نہ  چاہا کہ پییں آب حیات 
ورنہ ہم میر اسی چشمے پہ بے جان ہوئے

 غریب گاؤں کی غریب ایم اے پاس لڑکی شادی کے بعد سسرال منتقل ہوگئی ۔یہ ہماراگاؤں تھا ۔ایک دن اس کا سسر میرے پاس آیا کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن نے ملازمتوں کا اشتہار دیا تھا۔بہو نے بھی عرضی دی ہے۔کسی طرح صرف یہ معلوم کرا دیجیے کہ انٹرویو کیلئے کال لیڑجاری ہونے کا امکان ہے یانہیں ؟ 

ایک سابق وفاقی سیکرٹر ی سے جو ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن کے رکن تعینات تھے خاصی سلام دعا اور علیک سلیک تھی۔ایک دو مشترکہ دوست بھی تھے ۔کبھی اعدادو شمار نکال کر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اس کمیشن کے زیادہ ترارکان لاہور سے ہیں  یا وسطی پنجاب کے دیگر علاقوں سے۔بہت سے ایسے ہیں جنہیں آل شریف کے ساتھ وفادار ی نبھانے کے صلہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد یہاں نصب کیا جاتاہے۔بہرطور ٹیلی فون پر گزارش کی اور کہا کہ عرضی کی نقل آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں ازراہ کرم کچھ اتاپتہ کرا دیجیے!  بھیجی! مگر ریت پر پانی کی دھار ڈالنے والی بات تھی۔

لاہور کا جغرافیائی محل وقوع ! اس پر سونے کا سہاگہ صوبائی حکومتوں کے کارپردازوں کی  دور  کی نظر کا ضعف! دور افتادہ بستیوں کے عرض گزار بے وقعت تنکوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے!! یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے بھی مسلم لیگ نون کے اس بل کی حمایت کی جس میں جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے دو الگ الگ صوبوں کی تجویز پیش کی گئی ہے! 

مسلم لیگ نون نے یہ بل کس نیت سے پیش کیا ہے اس پربحث کرنا کارِلاحاصل ہے یہ بہر طور طے ہے کہ ایک مقصد حکومت کو مشکل میں ڈالنا بھی ہے۔کوئی ان سے پوچھے کہ دس برس مسلسل صوبے پر آپ کا راج تھا اور پانچ برس وفاق پر تو کیوں نہ اس قرارداد کو مرکز میں کامیاب کرایا جو اپنے زمانے میں آپ نے پنجاب اسمبلی میں پاس کرائی تھی؟

نون لیگ کا اس بل سے جو بھی مقصد ہے فارسی کا مصرع اس پر صادق آتا ہے ۔ 

عُدوشرے برانگیزد، کہ خیر مادرآں باشد 

مخالف جو تدبیر پراگندہ کرنے کیلئے اختیارکرتا ہے اس میں خیر کا پہلو  پنہاں ہوتا ہے ۔

 عدو کے جتنے تھے حربے مرے موافق تھے 
کہ اس کے قلب کے دستے مرے موافق تھے 

اگر تحریک انصاف جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے صوبے اپنے عہد اقتدار میں بنوادیتی ہے،تو تاریخ اور جغرافیہ دونوں اس کے ہوں گے ۔ 

ان کالموں میں کئی بار یہ رونا رویا جاچکا ہے کہ تقسیم کے بعد بھارت میں کئی نئے صوبے بنے ۔ یہ عمل آج تک جاری ہے۔ ہربار اس کی تفصیل بیان کرنا۔ لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔ فیصلہ کن آخری نکتہ (باٹم لائن ) اس ضمن میں یہ ہے کہ پاکستان کے ہر صوبے سے نئے صوبے نکالنے ہوں گے۔ اس پروسیس کو التوا میں ڈالا جاسکتا ہے۔ روکا نہیں جاسکتا۔وسطی پنجاب کا رویہ مغربی اور جنوبی حصوں کے حق میں ہمدردانہ اور حقیقت پسندانہ نہیں ۔ یہ اور بات کہ وسطی پنجاب کو، بالخصوص دانش وران لاہور کو یہ تلخ حقیقت دکھائی نہیں دیتی - خداانہیں خوش رکھے اور عینک کے شیشے بدلوانے کی ذہنی استطاعت بخشے، ان کا پنجاب، گھنٹہ گھر سے شروع ہوتا ہے اور بھنے ہوئے چڑوں پر ختم ہو جاتا ہے۔

نیا صوبہ صرف جنوبی پنجاب اور بہاولپور کیلئے نہیں بلکے مغربی اضلاع کیلئے بھی بننا چاہیئے۔ عیسی خیل لاوہ، ٹمن ، فتح جنگ ، مری اور دیگر ایسے مقامات کے غریب عوام کو آپ نے ہرکام کیلئے لاہور کا دست نگر کیا ہوا ہے!! کچھ تو انصاف کیجیے۔ 

یہی حال باقی صوبوں میں ہے۔مانسہرہ اور چلاس کا صوبائی دارالحکومت پشاور ہے اور یہ پنجاب سے گزر کر اپنے صوبائی دارالحکومت پہنچتے ہیں! کون سا من وسلوی اترتا ہے ایبٹ آباد اور شنکیاری میں جس کی خاطر پشاور نے ان دور افتادہ علاقوں کو اپنے ساتھ پابند کررکھا ہے؟ 

فاٹا کے انضمام کی مخالفت کرنے والے مولانا صاحب کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ بنوں ، لکی مروت ، ٹانک اورڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کا اپنے کامو ں کیلئے پشاور جانا کتنا پُرصعوبت ہے اگر بنوں ایک نئے صوبے کا صدر بنے تو ہنگو ، کرک ۔ لکی مروت، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں کی زندگی کس قدر آسان ہو جائے گی! مگر آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھی ہو تو کون سے عوام ؟ 

جب مولانا اور اچکزئی صاحب فاٹا کے انضمام کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ فاٹا میں کوئی انفراسٹرکچر ہے نہ کو ئی سہولت! کے پی کیساتھ ملنے سے وہ ان ساری سہولیات کے حق دار ہو جائیں گے جو فاٹا میں عنقا ہیں ۔جیسے  ہسپتال اور تعلیمی ادارے ہیں! ہاں جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فاٹا ایک خود کفیل علاقہ بن جائے تو اسے ضرور الگ صوبے کی شکل دینی چاہیے۔ 

بلوچستان اور سندھ کو بھی دیر تک مصنوعی اکائیوں میں قید نہیں رکھا جاسکتا۔ اس کی صورتیں کیا کیا ہیں اور اس تنی ہوئی رسی پر کس طرح چلا جاسکتا ہے اس پر بات پھر کبھی سہی ۔

Tuesday, April 23, 2019

وہ فرشتہ ہے نہ ساحر


‎یہ آج نہیں ہو رہا۔ صدیوں سے ایسا ہوتا چلا آ رہا ہے۔ 

‎جس زمانے میں عرب پرتگال کی سرحد سے لے کر ماورا النہر تک چھائے ہوئے تھے جیسے پرزور گھٹا افق تا افق چھا جاتی ہے، اس زمانے سے محاورہ چلا آ رہا ہے من صنّف فقداستھدف۔ جو بھی نیا راستہ نکالے گا، طنزو تشنیع کے تیروں سے چھلنی کر دیا جائے گا۔ 

‎یہی بات اہل ایران نے کہی ؎ 

‎ازان کہ پیرویٗ خلق گمرہی آرد

‎ نمی رویم براہی کہ کاروان رفتست 

‎اس راستے پر نہیں چلیں گے جس پر ہجوم چل رہا ہے اس لئے کہ اندھا دھند پیروی گمراہی کا پیش خیمہ ہے! 

‎آج عمران خان میدان میں کھڑا ہے۔ اس پر تیروں کی بارش ہو رہی ہے۔ ہرچہار طرف سے! زہر میں بجھے ہوئے تیر! غیروں کی طرف سے اور اپنوں کی طرف سے! کوئی کہہ رہا ہے غیر منتخب مشیر اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔ گویا اسحاق ڈار، سرتاج عزیز رضا ربانی اور کئی اور، ون مین ون ووٹ سے آئے تھے! کوئی الزام لگا رہا ہے کہ فلاں پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وزیر تھا۔ جیسے وہ پاکستانی نہیں؟ ایک طرف سے یہ شہنائی بجائی جا رہی ہے کہ پنجاب میں شہباز شریف کی بیورو کریت ٹیم واپس لے آئے ہیں۔ اس قبیل کے اعتراضات کا جواب ایک مزاحیہ شاعر نے خوب دیا تھا۔ جس زمانے میں یہ غلغلہ برپا ہوا تھا کہ ہم سن آف سائل
 (Son-of Soil) 
‎ہیں تو اس شاعر نے تنگ آکر، تنک کر پوچھا تھا  سب
Sons-of soil 
‎ ہیں کوئی 
Son of his Father 
‎بھی ہے یا نہیں؟ کوئی شباز شریف کا ہے کوئی پیپلز پارٹی کا -خدا کے بندو! کوئی پاکستان کا بھی ہے یا نہیں! کیا زرداری یا شہباز شریف کے ساتھ کام کرکے انسان ہمیشہ کیلئے نااہل ہو جاتا ہے؟ اگر واپس کوئی لایا بھی گیا ہے تو شہباز توقیرشاہوں، فوادوں اور احد چیموں کو تو نہیں لایا گیا۔ سرکاری ملازم ریاست کا ملازم ہوتا ہے اگروہ احد چیمہ، توقیر شاہ یا فواد حسن فواد نہ بن جائے تو اس نے ہر حکومت کے دوران ریاست کی خدمت کرنی ہے! وہ کسی کا ذاتی خدمت گار نہیں! 

‎اس ملک کے ساتھ ایک المیہ یہ ہوا کہ آل شریف کے طویل اقتدار نے لکھاریوں کی ایک ایسی ’’کہکشاں‘‘ پیدا کی جو اب تک ہمارے سروں پر چاندی جیسی روشنی بکھیر رہی ہے اور نہ جانے کب تک بکھیرتی رہے گی! ان لکھاریوں کی تین نمایاں خصوصیات ہیں۔ 

‎اوّل ان کے نزدیک کرپشن کوئی برائی نہیں! ان کی تحریروں کو محدب عدسہ لگا کر دیکھ لیجیے، کرپشن کا ذکر ہی نہیں! یہ برائی ان کے نزدیک برائی نہیں! یہ زرداروں اور شریفوں کا حق تھا جو انہوں نے استعمال کیا۔ حمزہ شہباز نے 2001 ء میں دو کروڑ بیس لاکھ روپے کے اثاثے ظاہر کیے۔ یہ اثاثے 2017 ء میں اکتالیس کروڑ سے بڑھ گئے۔ وراثت میں ایک فیکٹری ملی۔ پھر ایک سے گیارہ ہو گئیں۔ اکاؤنٹ میں 2005 ء سے 2008ء تک اٹھارہ کروڑ روپے دساور سے منتقل ہوئے، اپنی فیکٹری کو فائدہ پہنچانے کیلئے نالہ تعمیر کرایا۔ قومی خزانے سے اس پر بیس کروڑ سے زاید رقم ادا کی گئی۔ لیکن یہ سب کچھ ہمارے ان لکھاریوں کیلئے نارمل ہے! اس کا ذکر ہے نہ افسوس! عمران خان کی آنکھ کا بال تو دکھائی دیتا ہے دوسروں کی آنکھوں میں شہتیر بھی نظر نہیں آتے۔ 

‎جمہوریت کے یہ مجاہد اس وقت نہ جانے کیا پی کر سو رہے تھے جب دختر نیک اختر عملاً بادشاہی کر رہی تھیں۔ جب وہ سرخ قالین پر چلتی تھیں اور منتخب سپیکر، اس غلامانہ انداز سے ساتھ چلتا تھا کہ قالین پر پاؤں نہ پڑے کہ کہیں شہزادی کے جاہ و جلال پر آنچ نہ آ جائے! ان خاندانوں کے شاہانہ اخراجات جو بیت المال سے پورے کیے جاتے تھے ان بزرجمہروں کو کبھی نہیں چبھے۔ 

‎دوم۔ یہ لکھاری ہر حال میں کرپٹ ٹولے کی واپسی کے خواہاں ہیں، اس لئے کہ ان کے بقول انہوں نے ڈیلیور کیا ہے۔ یہ وہی غلامانہ ذہنیت ہے کہ بادشاہ آخر مخالفین کو قتل کراتے ہی ہیں۔ یہ وہی پست انداز فکر ہے کہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں! ہر چوتھے دن پھوہڑی ڈال کر یہ دانشور بیچ چوک کے بیٹھ جاتے ہیں کہ احد چیمہ کو واپس لاؤ۔ فواد کے بغیر دنیا تاریک ہے۔ شہباز شریف کا ہمسر کوئی ہے نہ ہو گا! کوئی ان سے پوچھے کہ فائدے تو قدرت نے بچھو اور سانپ میں بھی رکھے ہیں پھر انہیں بھی پالتو جانوروں کی طرح گھروں میں پالنا شروع کر دو۔ پھر انگریزوں کو بلا کر برطانوی راج کو بھی ازسرنو زندہ کرو کہ فائدے تو برٹش استعمار کے بھی بہت تھے۔ آخر انہوں نے ریلوے تعمیر کی لوکل گورنمنٹ سسٹم دیا۔ آڈٹ اور اکاؤنٹس کا ایک نظام دیا۔ امن و امان کے دور میں مجموعی طور پر مثالی تھا۔ حالانکہ یہ سارے فوائد ضمنی تھے۔ یعنی
By Default. 
‎، ہندوستانیوں کے مفاد کیلئے انہوں  نے  اپنے ارادے سے 
By Design 
‎کچھ نہیں کیا۔ یہاں بھی کرپٹ ٹولے سے اگر کوئی تعمیری کام ہوا تو وہ ضمنی تھا، اصل مقصود اور مطلوب وہ کمائی تھی جو کی گئی۔ یہ 
‎حضرات کبھی بھولے سے بھی اس طرف نہیں آتے کہ یہ سب کھرب پتی کیسے ہو گئے۔ کیا فواد اور احد چیمہ کے ساتھ کے سرکاری ملازم
 (Batch Mate) 
‎بھی اتنی ہی جائدادوں گاڑیوں، پلازوں اور بنک بیلنس کے مالک ہیں؟ آخر مریم گیلانی بھی احد چیمہ ہی کی بیچ میٹ ہے۔ دھان پان سی لڑکی وقت کے وزیر ریلوے کے سامنے ڈٹ گئی کہ ملازمتیں میرٹ پر دینی ہیں۔
‎ کوئی سفارش نہیں مانوں گی۔ معطل کر دی گئی برطرفی کا آرا چلا۔ ڈٹی رہی۔ اعلیٰ عدالتوں میں اپنا مقدمہ خود لڑی۔ باعزت بحال ہوئی۔ تاریخ رقم کردی۔ وزیر صاحب وضعدار تھے۔ اس سب کچھ کے بعد اس کے گھر تشریف لائے۔ کتنے اثاثے ہیں مریم گیلانی کے؟ 

‎رانا شکیل اصغر جو آج پاکستان ریلوے کے حسابات کا مدارالمہام ہے اور مشیر مالیات، اسی احد چیمہ کا بیچ میٹ ہے۔ اس کے اثاثے کتنے ہیں؟ کیا اتنے ہی جتنے چیمہ صاحب کے اور فواد صاحب کے ہیں؟ چنیوٹ میں آبائی جائداد فروخت کرکے شکیل نے گاڑی خریدی! یہ سب اور اس جیسے بے لوث بیوروکریٹ ،لکھاریوں کی اس ’’کہکشاں‘‘ کو کبھی نظر نہیں آتے، ان کی سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے۔ 

‎سومْ یہ عمران خان کی ہر پالیسی، ہر اقدام۔ ہر ایکشن پر معترض ہیں۔ گویا کہ آٹا گوندھتے وقت ہل کیوں رہی ہو؟ 

‎ایک ایسا شخص جس کا اپنا کوئی مفاد وابستہ نہیں، وہ اس قوم کو راس نہیں آ رہا! وہ جو پوری دنیا میں اپنے اثاثے تعمیر کر رہے تھے، وہ یاد آ رہے ہیں۔ اسحاق ڈار اینڈ کمپنی نے معیشت کو وینٹی لیٹر پر رکھا ہوا تھا۔ مصنوعی تنفس پر تندرستی کا گمان ہو رہا تھا۔ نئی حکومت نے آ کر وینٹی لیٹر ہٹایا۔ قرضوں کی صورحال معلوم ہوئی۔ عیاش نوابوں کے زمانے میں نواب مرتا تھا تو جانشین کو ساہوکار آ کر بتاتے تھے کہ اتنا قرضہ ہے تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی تھیں۔ کتنی رقم واگذار کرا کر خزانے میں جمع کی گئی، اس کی کوئی نہیں بات کر رہا۔ قسطیں کس طرح ادا کی جا رہی ہیں، کسی کو پروا نہیں! آج اگر لوٹ مار کرنے والے پلٹ آئیں، لکھاریوں کی مراعات بحال ہو جائیں، ہیلی کاپٹروں پر حکمرانوں کی معیت نصیب ہو جائے۔ غیرملکی دوروں پر مصاحبت مل جائے تو سب اچھا ہو جائے گا۔
‎پہلے زمانے میں کچھ لوگ دسترخوان حضرت امیر معاویہؓ کا پسند کرتے تھے اور نماز امیر المومنین علی المرتضیٰؓ کے پیچھے پڑھتے تھے مگر خدا کی پناہ! آج کے زمانے میں جہاں دستر خوان ہے، نمازیں بھی وہیں پڑھی جا رہی ہیں۔ 

‎کابینہ میں تبدیلیاں کی گئیں! کسی احساس کمتری کے بغیر ۔ کسی خوف لومتہ لائم کے بغیر۔ کیا اس سے پہلے بھی کسی حکمران نے یہ جرأت کی کہ ذاتی تعلقات کو خاطر میں لائے بغیر قلم دان واپس لے لئے؟؟

‎عمران خان فرشتہ ہے نہ ساحر! مگر چار دہائیوں کا مقابلہ چند مہینوں کے ساتھ؟ 

‎اے مری قوم ترے حسن کمالات کی خیر 
‎تونے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشہ دیکھا

Saturday, April 20, 2019

نسل‘زبان اور مسلک کے پھندے

 

  


چودہ مزید پنجابیوں کو بلوچستان میں قتل کر دیا گیا ہے۔ سفاکی اور بربریت کا وحشیانہ مظاہرہ


زمین کے کسی خطے کو اگر چند قبائلی سردارچند نوابچند خانچند ملکزیرنگیں رکھنا چاہیں تو اس کا کامیاب ترین طریقہجو صدیوں سے آزمایا جا رہا ہےیہی ہے کہ مقامی اور غیر مقامی کی تفریق پیدا کی جائےاس طریقے کا ایک ’’جزو،ب‘‘ بھی ہے۔ یعنی دوسرا حصہ۔ کسی قوم کو اگر معاشی اور سیاسی حوالے سے پس ماندہ رکھنا ہو تو اسے مادری زبان اور ’’اپنی ‘‘ ثقافت کی خار دار جھاڑیوں میں الجھا دیجیے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ جائے گییہ مادری زبان اور ’’اپنی‘‘ ثقافت کی جھاڑیوں میں الجھے رہیں گے


یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ بلوچستان میں یہ خونیں کھیل جو کھیلا جا رہا ہے اس میں ہمارے دشمن ممالک اپنا اپنا حصہبقدر جثہ ڈال رہے ہیں۔ تاہم مقامی بنیاد کے بغیرغیر ملکی امداد کی دیوارتعمیر نہیں ہو سکتی۔ جہاں دھواں اٹھتا ہے وہاں چنگاری ضرور ہوتی ہے۔ 


بلوچستان کے قبائلی سردار۔ سب نہیں۔ کچھصدیوں کی بالادستی سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتے۔ قبیلہقبیلہ نہیںرعیت ہے! یہاں تک کہ اہل قبیلہ کے نجی معاملات بھی سردار کی مداخلت سے طے ہوتے ہیں۔ جس طرح ابلیس نے اپنے حواریوں سے کہا تھا ؎ 


اس سے بہتر ہے الٰہیات میں الجھا رہے


 یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے


 بالکل انہی خطوط پر قبائلی سرداررعایا کو قبائلی روایات کا اسیر بنا کر رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ریکارڈ پر ہے کہ لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران جب ایک بلوچ سردار سے پوچھا گیا کہ اس زمانے میں بھی سچ اور جھوٹ کا فیصلہ آپ جلتے انگاروں پر چلا کر کر رہے ہیںیہ کون سا انصاف اور کون سی ترقی ہے تو نوجوان بلوچ سردار نے فخر کے ساتھ اور کمال خود اعتمادی کے ساتھ جواب دیا تھا کہ کیوں نہیں! یہ ہماری روایات کا حصہ ہے! یہ واقعہ بھی اپنے قارئین سے شیئر کیا جا چکا ہے کہ دارالحکومت کی ایک وقیع یونیورسٹی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لیکچرار حضرات سے گفتگو کے دوران لاہور کی اس پریس کانفرنس کا ذکر کیا گیا تو تقریباً نصف حاضرین نے برملا کہا کہ وہ سردار کے خلاف کوئی بات نہیں سننا چاہتے۔ 


پنجابیوں پر جو گزر رہی ہےسو گزر رہی ہے مگر غیر بلوچیوں کو بلوچی علاقوں سے ختم کرنے کا طویل المیعاد اثر ان علاقوں پر کیا ہو گا؟ پس ماندگی! جہالت اور غربت! اس لئے کہ ڈاکٹر انجینئرپروفیسرمزدور جو پنجابی ہیں یا اردو سپیکنگقتل کردیے جائیں گےباقی بھاگ جائیں گے تو تعلیم سائنس اور تعمیر و ترقی کا کام رک جائے گا! پس ماندگی اور جہالت جتنی زیادہ ہو گیقبائلی سرداری نظام اتنا ہی دیرپا ہو گا! امریکہ کی مثال لیجیے۔ اسے 

Melting Pot


کہتے ہیں، یعنی کٹھالی

آئر لینڈ سے جرمنی سےفرانس سےڈنمارک سےہسپانیہ سے تارکین وطن آئے اور آ کر ضم ہو گئے۔ کسی نے مطالبہ نہ کیا کہ تعلیم مادری زبان میں ہو یا امریکی ثقافت کے مقابلے میں اس کی ثقافت کو برتر تسلیم کیا جائے۔ چنانچہ سب طبقات آگے بڑھے۔ سب نے ترقی میں اپنا حصہ ڈالا اور پھر ثمرات سے بھی سب نے فائدہ اٹھایا۔ 


پنجابی یا اردو سپیکنگ اقتصادی دوڑ میں آگے نکل گئے۔ اسباب بہت سے ہیں مگر یہ اپنے خول میں بند نہیں ہوئے۔یونیورسٹیوں میں انہوں نے اپنے نسلی گروہ سب سے کم بنائے۔’’ثقافتی شامیں‘‘ نہیں منائیں۔ اپنی دو اینٹ کی مسجد الگ نہیں بنائی۔ اس کے مقابلے میں دیکھیے وفاقی دارالحکومت کی قائد اعظم یونیورسٹی ہو یا لاہور کی پنجاب یونیورسٹیچھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے طلبہ لسانی نسلی اور ثقافتی تنظیموں میں ذہنی طور پر قید ہیں۔ خول سے باہر نہیں نکل رہے! احساس کمتریاحساسِ تفاخر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ترجیحات مختلف ہو جاتی ہیں۔ الگ شناخت اور انفرادیت قائم رکھنے کی امنگ پابہ زنجیر بن جاتی ہے!شاہ لطیف بھٹائی، رحمن بابا اور بلّہے شاہ سے معاملہ آگے بڑھتا نہیں! نتیجہ یہ کہ ؎ 


چلنے والے نکل گئے ہیں 


جو ٹھہرے ذرا نکل گئے ہیں 


ریاست پاکستان کا سب سے بڑا قصور بلوچستان کے حوالے سے قبائلی نظام کا دوام ہے۔ ستر برس گزر گئے۔ آج بھی سرکاری ملازموں کو تنخواہمقامی سردار کی پرچی کے بغیر نہیں ملتی، تعلیمی اداروں کی عمارتیں ان سرداروں کے مویشی خانوں اورغلے کے گوداموں میں بدل دی جاتی ہیں۔ کوئی پڑھ لکھ جائے تو سردار کی نگاہوں میں کھٹکنے لگتا ہے۔ اس غلامی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج عام بلوچی برہمداغوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس قتل و غارت کی پشت پر چند قبائلی سردار ہیں جو بھارتی اور افغانی مدد سے یہ خونی کھیل کھیل رہے ہیں۔ اگر ریاست پاکستان شروع ہی سے توجہ دیتی اور بلوچستان کو قبائلی نظام کے پنجوں سے نکال کر تعلیم صنعت و حرفت اورجدید زراعت و تجارت سے ہم کنار کرتی تو آج صورت حال یکسر مختلف ہوتی


یہی جرم ریاست پاکستان نے وزیرستان اور خیبر پختون خواہ کے دیگر قبائلی علاقوں میں کیا۔ خانوں اور ملکوں کی چیرہ دستیاں جاری رہیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ ان کے ساتھ مل گئے۔ عام قبائلی کو کچھ نہ ملا اور اس نے بندوق اٹھاکر کبھی کسی منگل باغ کا ساتھ دیا اور کبھی کسی بیت اللہ محسود کے جتھے میں شامل ہو گیا۔ کوئی یونیورسٹی نہ بنی۔ کوئی انڈسٹری نہ لگی۔ زراعت کو مشینی نہ کیا گیا۔عملاً قبائلی علاقوں میں لوگ پتھر کے زمانے میں رہے۔ جب اقتصادی سرگرمیاں عنقا ہوںصنعت و حرفت نہ ہوملازمتیں کوئی نہ ہوں تو اغوا برائے تاوان باقاعدہ پیشے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ 


پس نوشت۔ امام کعبہ کے حالیہ دورہ پاکستان کے حوالے سے ہم یہ حقیقت ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ امام کعبہ کا تعلق تمام مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ تمام پاکستانی مسلمانخواہ جس مسلک سے بھی ان کا تعلق ہوحرمین شرمین میں حاضر ہوتے ہیں اور وہاں امام صاحبان کی اقتدا رمیں نمازیں ادا کرتے ہیں! اس کے برعکس جب بھی یہ مقدس شخصیات پاکستان تشریف لاتی ہیں تو ایک خاص مسلک انہیں عملی طور پر یرغمال بنا لیتا ہے۔ ہم سرکاری تقاریب کی بات نہیں کر رہے! 16اپریل کو امام صاحب صوبائی دارالحکومت میں تشریف لائے۔ تو انہیں راوی روڈ پر ایک خاص مسلک کے مرکز میں خصوصی طور پر لے جایا گیا۔اسی مسلک سے تعلق رکھنے والے ملک بھر سے آئے ہوئے ذمہ داران سے خطاب کیا گیا۔ پھر جس مدرسہ میں تشریف لے گئے وہ بھی ایک خاص مسلک کا تھا۔ ایک مقامی ہوٹل میں بھی جس تقریب کا انعقاد کیا گیا وہ بھی ایک خاص مسلک کے زیر اہتمام تھا۔ 


یہ صورت حال ہرگزہرگز قابل رشک نہیں! اگر اصلاً میزبانحکومت پاکستان ہے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ ایسا یک طرفہ منظر نامہ ترتیب نہ دیا جائے۔ سعودی سفیرکو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر مولانا طارق جمیل شیعہ اور بریلوی مراکز میں جاتے ہیں اور ان کا کشادہ بازوئوں کے ساتھ استقبال کیا جاتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امام کعبہ کا استقبال ان مراکز میں خوش دلی سے نہ کیا جائے؟ مشرق وسطیٰ میں مسلکی بنیادوں پر جس خون ریزی کا ہم رونا رو رہے ہیںاس کی بنیادوں میں اسی قسم کی تفرقہ بازی ہے جس کا حال ہم ان سطور میں بیان کر رہے ہیں


امام صاحب اور ایسی دیگر شخصیات کسی خاص مسلک کی نہیںتمام پاکستانیوں کی مہمان ہوتی ہیں۔ ایسے دوروں کو مسلکی اور فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے تو اس میں سب کی بھلائی ہے

 

powered by worldwanders.com