یہ صرف چار پانچ خاندانوں کی کرپشن نہیں جس کا رونا رویا جائے!
ایک عمران خان نہیں‘ ایسے دس عمران خان بھی آ جائیں تو تبدیلی نہیں آئے گی!
آپ اُس باغ کو کیسے ہرا بھرا کر سکتے ہیں جس میں ہر پودے کو کیڑا لگا ہے۔ جس کی نہر کا پانی زہریلا ہے۔ جس میں طوطے ہے نہ بلبلیں۔ جہاں ہر طرف گدھ‘ کوے اور چیلیں منڈلا رہے ہیں۔ جس کے سبزے میں سانپ سرسرارہے ہیں۔ جس کے درختوں پر لکڑ ہاروں کی یلغار ہے۔ جس کی چار دیواری جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہے اور ہر کوئی اندر آ کر چیرہ دستی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ زرداری‘ نواز شریف‘ جنرل مشرف‘ جنرل ضیاء آسمان سے نہیں اترے تھے۔ وہ ہم میں سے تھے۔
ہم بحیثیت مجموعی جس کردار کے مالک ہیں‘ وہی کردار ہمارے منتخب نمائندوں کا اور ہمارے حکمرانوں میں پایا جائے گا۔ یہ منتخب نمائندے ‘ یہ حکمران‘ یہ پیپلز پارٹی کے سیاستدان‘ یہ نون اور قاف لیگ کے عمائدین ‘ یہ تحریک انصاف کی حکومت کے وزراء اور مشیر‘ یہ برازیل یا چلی سے درآمد نہیں کئے گئے‘ یہ تھائی لینڈ سے نہیں آئے‘ یہ اسی ملک کے فرزند ہیں۔ یہ ہمی جیسے ہیں!
میں اور آپ کون سے جنیدؒ اور بایزیدؒ ہیں کہ ہمارے حکمران خوف خدا سے کانپیں ۔ہمی وہ دودھ ہیں جس پر یہ بالائی آئی ہے۔ ہمی وہ لسّی ہیں جس پر مکھن کے یہ پیڑے تَیر رہے ہیں۔
افسوس! ہم میں سے کوئی بھی اپنا فرض نہیں ادا نہیں کر رہا۔ ہم جہاں بھی بیٹھے ہیں‘ ہماری کارگزاری مجرمانہ ہے۔ غفلت کی دلدل میں ہم سب گلے گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کے لئے تیار نہیں! ہم رات دن حکمرانوں کو کوستے ہیں‘ سیاست دانوں کی کردار کشی کرتے ہیں۔ بیورو کریسی پر چڑھائی کرتے ہیں۔ جرنیلوں کو الزام دیتے ہیں۔ مگر ہم خود۔ دکاندار ہیں یا استاد‘ ٹرانسپورٹر ہیں یا دفتر کے افسر یا بابو‘ والدین ہیں یا اولاد‘ پڑوسی ہیں یا محلے دار‘ آجر ہیں یا مزدور‘ صنعت کار ہیں یا لیبر‘ زمیندار ہیں یا کسان‘ بینکر ہیں یا میونسپل کمیٹی کے عہدیدار‘ہم وہ کچھ نہیں کر رہے جو ہمیں کرنا چاہیے۔ ہم اپنا اپنا فرض نہیں ادا کر رہے! ہم تنخواہیں حرام کر رہے ہیں! ہم معاوضوں کا حق نہیں ادا کر رہے ہیں! ہم منافع کما رہے ہیں۔ مگر گاہک کو دھوکا دے کر! ہم انڈسٹری چلا رہے ہیں مگر معیار سے نیچے گر کر! ہم پڑھاتے ہیں مگر جذبے سے عاری ہو کر! ہم طالب علم ہیں مگر طلب دلوں میں علم کی نہیں‘ ہر اس شے کی ہے جس کا علم سے دور کا بھی تعلق نہیں!
آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے جہاں ہاتھ ڈالیں گے وہیں بچھو کاٹے گا۔قالین کو جس جگہ سے اٹھائیں گے‘ نیچے کوڑا کرکٹ ملے گا۔
حکومت اثاثے فروخت کرنا چاہتی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اثاثے فروخت کرنے چاہئیں یا نہیں! مگر ایک لمحے کے لئے فرض کر لیتے ہیں کہ یہ فیصلہ درست ہے۔ اب ملاحظہ کیجیے کہ اثاثے کون سے بیچے جا رہے ہیں۔
حکومت نے ایک بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دی جس نے مختلف وزارتوں اور وزارتوں کے ذیلی محکموں سے پوچھا کہ کون کون سی سرکاری زمینیں تمہاری تحویل میں ہیں جو نجی شعبے کو فروخت کی جا سکتی ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس ہوا ۔یوں تو پورے ملک سے سرکاری جائیدادوں کی تفصیل دی گئی مگر صرف وفاقی دارالحکومت سے سرکاری زمین کے سات قطعات فروخت کرنے کے لئے پیش کئے گئے۔ پہلا قطعہ زمین سیکٹر جی 6میں 583مربع گز کا ہے۔ دوسرا قطعہ زمین تقریباً دو کنال پر مشتمل ہے یہ سیکٹر جی 7میں ہے۔ زمین کے یہ دونوں ازحد قیمتی ٹکڑے ترقیاتی ادارے نے وزارتِ انسانی حقوق کو الاٹ کئے تھے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان دونوں پر ملازمت کرنے والی خواتین کے ہوسٹل اور بے گھر بچوں کے لئے دارالامان تعمیر کئے جائیں! بقیہ پانچ پلاٹ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو الاٹ کئے گئے تھے کہ شہر کے مختلف حصوں میں لائبریریاں بنائی جائیں۔ تین کنال سے بڑا پلاٹ لائبریری کے لئے سیکٹر جی 11میں‘ سوا کنال کا سیکٹر ایف 11میں اور تین پلاٹ سیکٹر آئی ایٹ کے مختلف حصوں میں دیے گئے۔
دونوں وزارتوں نے یہ پلاٹ کمیٹی کو پیش کر دیے کہ جناب! ہم نے ان قطعہ ہائے زمین پر ملازمت پیشہ خواتین کے ہوسٹل تعمیر کرنے ہیں نہ بے گھر بچوں کے لئے پناگاہیں‘ اور نہ ہی لائبریریاں قائم کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ ہے۔ آپ بے شک انہیں نجی شعبے کو فروخت کر دیجیے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری !
وہ تو وفاقی ترقیاتی ادارے کو شرم آئی۔ ادارے کے نمائندوں نے کمیٹی کو باور کرایا کہ حضور! یہ پلاٹ عوام کی ملکیت ہیں۔ یہ ان سہولیات کے لئے ہیں جو حکومت نے پبلک کو فراہم کرنی ہیں۔ اس لیے انہیں فروخت کرنے سے احتراز کیا جائے۔ راوی کہتا ہے کہ کمیٹی نے اس درخواست کو فی الحال قابل اعتنا گردانا ہے۔ کیا عجب!عوامی ملکیت کے یہ قیمتی قطعہ ہائے زمین بچ جائیں!
یہ پلاٹ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وزارت انسانی حقوق کو کب دیے گئے؟ نہیں معلوم! مگر ظاہر ہے کہ کل یا پرسوں تو نہیں الاٹ کئے گئے ہوں گے۔ انہیں طویل عرصہ ہو چکا ہو گا جبھی تو وزارتیں انہیں سر سے اتارنا چاہتی ہیں!
اب آئیے! معاملے کی جڑ کی طرف!کیا ان وزارتوں اور محکموں کو زرداری صاحب نے یا میاں نواز شریف صاحب نے حکم دیا تھا کہ ان پلاٹوں کو رکھے رکھو اور جو کام کرنے کا ہے نہ کرو!نہیں! یہ کوئی بابو تھا‘ کوئی افسر تھا‘ جو ان پلاٹوں کی فائلوں پر آلتی پالتی مار کر بیٹھا رہا! مدتوں بیٹھا رہا! کئی سال!کئی مہینے! کسی افسر اعلیٰ نے کسی سیکرٹری نے‘ کسی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ نے‘ پرواہ ہی نہیں کی کہ اس کے نیچے کون کون سے معاملات زیر التوا ہیں! کون کون ‘ کس کس فائل پر بستر بچھا کر خراٹے لے رہا ہے!
جو بھی تھا‘ پہلے تو اسے شرم کرنی چاہیے کہ وہ قومی خزانے سے تنخواہ لیتا رہا اور کار منصبی سے یا غفلت برتتا رہا یا نیت بد سے مسئلے کو لٹکاتا رہا! دوسرے‘ حکومت میں اگر کوئی ذمہ دار شخصیت اس معاملے کو اہم سمجھتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ ذمہ داروں کو ایسی سزا دے کہ آئندہ کسی کو غفلت برتنے یا بدنیتی روا رکھنے کی ہمت نہ ہو! اگر وزارتیں ذمہ دار نہیں اور اگر ہائر ایجوکیشن کمیشن مجرم نہیں تو اصل مجرم کا کھوج لگایا جائے۔
یہ صرف چند زرداریوں ‘چند شریفوں ‘چند چوہدریوں اور چند مولانائوں کا مسئلہ نہیں۔ اس باغ میں ہر شاخ پر اُلّو بیٹھا ہے۔ ہم سب مجرم ہیں! قوم مجرم! ریڑھی والے سے لے کر‘ نائب قاصدسے لے کر چوٹی تک۔ سارا راستہ گڑھوں سے اٹا پڑا ہے! ہم میں سے ہر عورت ہر مرد جب تک اپنا محاسبہ نہیں کرے گا‘ ہمارے حالات عبرت ناک ہی رہیں گے!
No comments:
Post a Comment