خ۔م۔صاحب سے اس وقت سے شناسائی تھی جب ہم دونوں کالج پڑھتے تھے۔ نہیں معلوم وہ آگے تھے یا پیچھے۔ بہر طور کلاس فیلو نہیں تھے۔ ہم دونوں چک لالہ سے سائیکلوں پر آتے تھے۔ زیادہ تر ملاقات راستے میں ہی ہوتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شاہراہوں پر ٹریفک کی وحشت نہ تھی۔ ناصر کاظمی کی ’’برگِ نے‘‘ یا احمد ندیم قاسمی کی ’’دشت وفا‘‘ کھول کر سائیکل کے ہینڈل پر رکھی ہوتی تھی اور چلتے جاتے تھے۔
اس کے بعد زمانے بیت گئے۔ دوبارہ ملاقات اس وقت ہوئی جب ہم دونوں سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے مرکزی اعلیٰ ملازمتوں کا حصہ بن چکے تھے۔ معلوم ہوا انہوں نے ایم اے کرنے کے بعد قرآن پاک حفظ کیا۔ پھر مقابلے کے امتحان میں بیٹھے اور افسر بن گئے۔
حافظ صاحب تبلیغی جماعت کے سرگرم رکن تھے اور جماعت کے مراحل اور مدارج طے کر چکے تھے۔ مسجد ذکریا میں بھی ملاقات ہوتی جہاں اس زمانے میں شب جمعہ بسر کرنے میں بھی جاتا۔ دیکھ کر خوش ہوتے۔ اچھی طرح یاد ہے ایک بار میری منحنی داڑھی کو ہاتھ لگا کر کہنے لگے کتنی سخت ہے۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طویل ریش پر لگایا کہ دیکھیے‘ کتنی نرم ہے اسے لمبا ہونے دیں۔ ایسی تمام نصیحتوں میں ان کی محبت اور شفقت شامل ہوتی۔ غالباً زیادہ وقت ان کی ملازمت کا وزارت خزانہ میں کٹا جہاں نماز بھی پڑھاتے اور ’’تعلیم‘‘ بھی دیتے ۔اسلام آباد کے قلب میں میلوڈی مارکیٹ ہے۔ وہاں کی مسجد میں جمعہ کا خطبہ بھی دیتے۔ ایک دوبار وہاں ان کی خطابت اور امامت سے استفادہ بھی کیا۔
ان کی وفات کا جسے آٹھ دس برس ہو چکے ہیں معلوم تھا مگر تفصیل سے بے خبر تھا یہ کالم لکھتے ہوئے اپنے دوست سابق وفاقی سیکرٹری جناب احمد محمود زاہد سے ان کا تذکرہ کیا انہوں نے بتایا کہ حافظ صاحب تبلیغ کے سلسلے میں ایک جماعت کے ساتھ جنوبی امریکہ گئے تھے۔ وہاں پیغام اجل آ گیا۔ وما تدری نفس بای ارض تموت۔ کسی کو نہیں معلوم کہ ڈھیری کہاں بنے گی؟شاعر نے کہا تھا ؎
بنے گی اب تو کہیں پانیوں پہ ہی تربت
افق پہ آج یہ پھر بادبان کیسے ہیں
یہ سارا تذکرہ ضمنی تھا۔ اصل بات جو پڑھنے والوں سے شیئر کرنی ہے اور ہے! حافظ صاحب مرحوم کے والد صاحب سے میرے والد گرامی کی بہت اچھی علیک سلیک تھی۔ غالباً یہ شناسائی اس وقت سے تھی جب دونوں خاندان‘ اسلام آباد منتقل ہونے سے پہلے چک لالہ رہتے تھے جہاں ’’عبوری‘‘ دارالحکومت کے دفاتر تھے اور ملازمین کے رہائشی کوارٹر ۔ حافظ صاحب مرحوم تبلیغی جماعت کے سرگرم اور سینئر رکن تھے۔ گھر میں ٹیلی ویژن رکھنے کے حوالے سے ان کا اپنے والد صاحب سے اختلاف ہوا جو بدقسمتی سے تلخی میں بدلا اور پھر بات بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اتنا معلوم ہوا کہ ان کے والد گرامی مرحوم اس ضمن میں رنجیدہ خاطر تھے۔ ان کا دل حافظ صاحب مرحوم کے رویے کی وجہ سے دکھا تھا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ بیٹے نے اسی موقع پر الگ رہائش رکھ لی تھی یا اس کے بعد۔ بہر طور خدا سے دعا ہے کہ حافظ صاحب مرحوم کی اس سخت گیری کو اور والد کا دل دکھانے کو معاف کر دے۔ ہم سب سے اپنے زندہ اور مرحوم والدین کے حق میں جو کوتاہیاں ہوئیں‘ خدا ان سے درگزر فرمائے۔ یہ بہت نازک معاملہ ہے۔ جن کے ماں باپ حیات ہیں وہ جنت کے اس ٹکٹ کو غنیمت جانیں جو محروم ہو چکے ہیں ان پر لازم ہے کہ ہر نماز میں اور اس کے علاوہ بھی کثرت سے ان کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعا مانگتے رہیں!
یہ داستان پارینہ یوں یاد آئی کہ حضرت مولانا کو یو ٹیوب نے اپنا خاص اعزاز’’گولڈن پلے بٹن‘‘ دیا ہے ان کے سبسکرائبر ایک ملین سے زیادہ ہونے پر یہ اعزاز ملا ہے۔ پلے بٹن کو مولانا نے خود کھولا۔ ویڈیو شیئر کی۔ ایک انگریزی معاصر کے مطابق انہوں نے یہ خبر ٹوئٹر پر دی اور فرمایا کہ یہ ان کے لئے مسرت کا لمحہ ہے اور یہ کہ اس گراں قدر ایوارڈ سے وہ
Blessed
ہیں۔
جو زمانہ حافظ خ۔م۔ صاحب مرحوم نے پایا تھا اس میں علماء بالعموم اور تبلیغی جماعت بالخصوص ٹیلی ویژن کی شدید مخالف تھی۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ اسے ناجائز کہیں نہیں قرار دیا گیا مگر سب جانتے ہیں کہ عملاً ناجائز تھا۔ جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت گھر میں ٹیلی ویژن رکھنے کے خلاف تھی۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ باپ اور بیٹوں میں‘ بیٹوں اور مائوں میں‘ بھائی بہنوں میں اس وجہ سے شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ طلاقیں ہوئیں۔ گھر ٹوٹے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر صورت حال یہی تھی۔
پھر حالات تبدیل ہو گئے موسیقی کی دنیا کا ایک معروف نام حضرت مولانا کی برکت سے تبلیغ کی طرف مائل ہوا۔ سابق گلو کار (خدا ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے) ٹیلی ویژن پر رمضان میں باقاعدہ پروگرام کرنے لگے۔ اب حالات یکسر مختلف ہیں۔ ٹیلی ویژن اور ٹیلی ویژن کی بیٹی یوٹیوب نے مولانا کو اعزاز دیا ہے۔ کہاں یہ کہ گھروں میں جھگڑے ہوتے تھے کہاں یہ کہ حضرت مولانا شوبزنس کے باقی اصحاب کی طرح پلے بٹن کے ساتھ اعزاز اٹھائے ہوئے کھڑے ہیں اور مبارکیں وصول کر رہے ہیں۔
نکتہ صرف اتنا ہے کہ اگر ہمارے دینی رہنما ویژن رکھتے اور شروع ہی میں کہہ دیتے کہ ٹیلی ویژن کی حلت اور حرمت مطلقاً نہیں ہو سکتی اس کے استعمال کی نوعیت پر ہو گی تو جھگڑے نہ ہوتے اور حافظ صاحب جیسے متقی اصحاب ان آزمائشوں سے بچ جاتے۔
خدا کا شکر ہے کہ حضرت مولانا روشن خیال ہیں۔ وہ اس جماعت کے واحد عالم ہیں جو حقوق العباد کی تلقین کر رہے ہیں۔مزاج بھی ان کا کچھ کچھ شوبز اور پی آر سے مناسبت رکھتا ہے۔ جن شعبوں سے علماء متنفر ہیں‘ مولانا نے ان شعبوں کے افراد کو گلے لگایا اور حکمت عملی سے دین کے نزدیک کر دیا۔ انہوں نے اس اصول کا عملی مظاہرہ کر کے دکھایا کہ نفرت گنہگار سے نہیں‘ گناہ سے کرنی چاہیے ؎
یہ سبھی زمین کا حسن ہیں سبھی اپنے ہیں
یہ گناہ گار یہ پاک باز سدا رہیں
مگر اصل نکتہ اور ہے ! اور وہ یہ کہ ہمارے ارباب دین ہر مسئلے پر ابتدا میں جو موقف اختیار کرتے ہیں بعد میں اسے تبدیل کر لیتے ہیں اس سے خلق خدا عذاب جھیلتی آئی ہے۔ پریس آیا تو جہانگیر کے دربار سے لیکر سلطنت عثمانیہ کے ’’بابِ عالی‘‘ تک علماء نے اسکی مخالفت کی اور شدید مخالفت کی! ٹیلی فون آیا تو سعودی بادشاہ عبدالعزیز کے مفتی صاحب نے ہذا صوت الشیطان کا نعرہ لگایا۔ بادشاہ نے اس پر تلاوت سنوائی تو راضی ہوئے۔ لائوڈ سپیکر پر نماز کو حرام قرار دیا گیا‘ اب اس کے بغیر کوئی مسجد مکمل نہیں! یہی حال تصویر کا، ٹیلیویژن کا، فلم کا‘ ٹیلیویژن کا‘ ہوا۔ ان ارباب دین کے لاکھوںمتعبین ان ایجادات سے پرہیز کرتے رہے۔ اب سب کچھ جائز ہے۔ یہی رائے شرو ع میں قائم کر لی جاتی تو لوگ مشکلات میں نہ گھرے رہتے۔ ہر نئی ایجاد‘ ہر نئی تبدیلی‘ ہمارے ارباب تفقہ کو دیر سے راس آئی اور مشکل سے ہضم ہوئی! اور آخر میں ع
تھا جو نا خوب‘ بتدریج وہی خوب ہوا
آج ہر مسجد میں نمازوں کا پورے سال کا نظام الاوقات دیوار پر آویزاں ہے۔ بارش ہو یا آندھی‘ اس نظام الاوقات کی مدد سے نماز ادا ہوتی ہے۔ عید کا چاند ابھی حلق میں اٹکا ہوا ہے کچھ ہی عرصہ گزرے گا کہ عیدین کا تعین بھی کیلنڈر سے ہو گا۔ شروع میں ہم گھونگھٹ نکال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ گزرتا ہے تو اوڑھنی بھی پھینک دیتے ہیں وہی آلہ مکبر الصوت جو کل ناجائز تھا‘ آج مریضوں، طالب علموں اور شیر خوار بچوں کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے!
حکم یہ ہے کہ دین کے حوالے سے آسانیاں پیدا کرو۔ مشکلات مت پیدا کرو۔ ایک مفتی صاحب جن کے ویڈیو کلپ عام ہیں فرماتے ہیں کہ میز کرسی پر کھانا کھانا جائز ہے مگر خلاف سنت ہے! مفتی صاحب سے کوئی پوچھے کہ کیا عینک لگانا خلاف سنت نہیں ہے۔؟ جس لائوڈ سپیکر پر وہ تقریر کر رہے ہیں کیا اس کا استعمال سنت ہے؟ کیا پاکستانی لباس سنت کے مطابق ہے؟ کیا گھڑی دیکھ کر نماز پڑھنا سنت ہے؟ اگر عہد رسالت میں میز کرسی کا وجود ہوتا اور آقاﷺ اس سے اجتناب کرتے تو پھر تو اور بات تھی۔ مگر میز کرسی تو تھی ہی نہیں! اس زمانے میں جہاز تھا نہ کار نہ ٹرین! تو کیا ہواء جہاز ٹرین اور کار پر سفر کرنا خلاف سنت ہے؟ کسی ایسے ہی مولوی صاحب نے کہا کہ چاول ہاتھ سے کھانا سنت ہے۔ اس پر مولانا طارق جمیل صاحب نے وضاحت کی کہ چاول تو عہد رسالت میں تھے ہی نہیں! آقا ﷺ نے چاول نوش ہی نہیں فرمائے! حجاز میں چاول بہت بعد میں پہنچا۔ گزارش ہے کہ ع
ہم یہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
No comments:
Post a Comment