Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, January 31, 2013

ویلکم ٹُو پاکستان


ماتھا تو میرا اُسی وقت ٹھنک گیا تھا جب شاہ رخ خان نے بھارت کے حوالے سے اپنی مشکلات کا ذکر کیا۔ پھر جب ہمارے ایک مسلّمہ مذہبی رہنما نے بہت ثقہ قسم کی دعوت بھی خان کو دے ماری تو ماتھا ٹھنکنے کے ساتھ ساتھ آنکھ بھی پھڑکنے لگی اور پھر …وہی ہوا جس کا ڈر تھا    ؎
آسماں بارِ امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنامِ منِ دیوانہ زدند
شاہ رخ خان نے مجھے ٹیلی فون کیا کہ اس نے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
’’مملکت خداداد ہی اب میرا وطن ٹھہرے گا۔ تم یہ بتائو کہ میں کس شہر کو اپنا ٹھکانہ بنائوں۔‘‘
میں نے اپنی طرف سے اور مسلمہ رہنما کی طرف سے اور پوری قوم کی طرف سے خان کو خوش آمدید کہا اور خوب غور کرنے کے بعد اُسے کراچی آباد ہونے کا مشورہ دیا۔ خان نے شکریہ ادا کرنے کے بعد یہ بھی کہنا ضروری سمجھا کہ میری رائے معلوم کرنے کے بعد اب وہ کسی اور سے اس ضمن میں ہرگز رجوع نہیں کرے گا۔ میری رائے اس کے نزدیک صائب تھی۔ میں نے بہرحال یہ راز اپنے تک ہی رکھا۔ مجھے ضرورت بھی کیا تھی کہ ایک شخص نے اگر میری عقل و دانش اور فہم و فراست پر اعتماد کرکے مشورہ لیا ہے تو اس کی تشہیر کرتا پھروں۔ چاند چڑھے گا تو پوری دنیا دیکھ لے گی۔ شاہ رخ کی کراچی کی طرف ہجرت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوگا کہ چھپا رہے گا۔
لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ مشورہ ایسے بے شمار مشوروں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور یہ سلسلہ بالآخر میرے لیے آزار بن جائے گا۔ دوسرے ہی دن خان کا پھر فون آیا کہ کون سا علاقہ رہنے کے لیے موزوں ہوگا۔ لگتا تھا اس نے پاکستان کا نیا ثقافتی رُجحان اِدھر اُدھر سے معلوم کر لیا تھا۔ کہنے لگا ’’تمہارے ملک میں یعنی میرے نئے وطن میں اغوا برائے تاوان تازہ ترین ثقافتی پیش رفت ہے‘ اس لیے ظاہر ہے کہ ڈیفنس جیسے امیر کبیر علاقے مناسب نہیں ہوں گے۔ ایسے علاقے میں آباد ہونے کا مطلب ہوگا کہ آ بیل مجھے مار۔ میں نے اس کی تحقیق کی تصدیق کی اور یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے گلستانِ جوہر کا محلہ مناسب رہے گا کیونکہ یہ ڈیفنس کی طرح مالدار ہے نہ لالو کھیت کی طرح قلّاش‘‘۔
شاہ رخ خان کو کراچی آباد ہوئے دس دن گزرے ہوں گے کہ اس کا ٹیلی فون آیا۔ کہنے لگا ’’ایک بات پوچھنی ہے، اعتبار چونکہ تمہاری ذکاوت اور ذہانت پر ہے‘ اس لیے تمہی سے پوچھ رہا ہوں۔ بازار کام سے گیا تھا۔ واپس آیا تو گھر والوں نے بتایا کہ کوئی آدمی ایک پرچی دے گیا ہے‘ جس پر پیغام لکھا ہے کہ دس لاکھ روپے تیار رکھو‘ ہم کل دوپہر بعد از نمازِ ظہر آئیں گے اور وصول کر لیں گے‘‘۔
سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے شاہ رخ خان کو کراچی آباد
ہونے کا مشورہ دیا تھا تو مجھے اس پرچی کے بارے میں سب کچھ پتہ تھا۔ وہ اس طرح کہ ایک دوست نے چند دن پہلے بتایا تھا کہ اب اس طرح کے پرچی نُما پیغام دکانوں کے علاوہ گھروں میں بھی بھیجے جاتے ہیں۔ ایک فلیٹ کے خود سر مکین نے اس پیغام پر عمل کرنے سے انکار کیا تو اسے وہیں، دن دہاڑے، دوسرے بہت سے مکینوں کے سامنے، مار مار کر لہولہان کر دیا گیا تھا۔ اس سے اس نے تو سبق حاصل کیا تھا، گواہوں نے بھی عبرت پکڑی تھی۔ لیکن بات یہ ہے کہ کراچی جیسے شہرِ بے مثال میں زندگی گزارنے کے لیے ان چھوٹے موٹے تازہ ترین ثقافتی رجحانات کا ساتھ دینا ہی پڑتا ہے؛ چنانچہ میں نے شاہ رُخ خان
کو سمجھایا کہ دیکھو خان! تم اگر ڈیفنس یا باتھ آئی لینڈ جیسے چمکدار علاقے میں رہتے اور اغوا ہو جاتے تو کروڑوں اربوں روپے دینے پڑتے۔ مڈل کلاس محلّے میں رہنے کا یہ فائدہ ہے کہ معاملہ دس پندرہ لاکھ سے آگے نہیں بڑھے گا۔ مہینے دو مہینے بعد اتنی رقم ادا کرنا تمہارے لیے کون سا مشکل ہے!
پندرہ سولہ دن بعد پھر خان کا فون آیا۔ بڑا کنفیوزڈ تھا۔ کہنے لگا ’’یار یہ عقیدے کا کیا چکر ہے؟ بھارت میں تو مجھ سے کبھی کسی نے میرا عقیدہ نہیں پوچھا تھا۔ یہاں مختلف قسم کی پوشاکوں، عبائوں اور مختلف رنگوں کی دستاروں میں ملبوس گروہ دروازے پر آ کر پوچھتے ہیں کہ آپ کا عقیدہ کیا ہے؟ تاکہ اسی عقیدے کی سیاسی پارٹی آپ کو اپنا ممبر بنائے۔ آخر عقیدے کا سیاسی پارٹیوں سے کیا تعلق ہے؟‘‘ میں نے اُسے سمجھایا کہ عوام کی آسانی کے لیے یہاں ہر عقیدے کی الگ سیاسی پارٹی ہے اور ماشاء اللہ سبھی کا انتخابات میں حصہ لینے کا مصمّم ارادہ ہے۔ تم اگر اہلِ حدیث ہو تو مولانا ساجد میر صاحب سے رجوع کرو۔ دیوبندی ہو تو مولانا فضل الرحمن صاحب کو ملو اور بریلوی ہو تو حاجی فضل کریم صاحب یا ثروت قادری صاحب کی خدمت میں حاضری دو۔ قادری صاحب کا سن کر وہ کہنے لگا کہ ’’تمہارے
ہاں ایک اور قادری صاحب بھی تو ہیں جو دساور سے آئے ہیں‘‘۔ میں نے سمجھایا کہ ان کی فکر تم مت کرو۔ ان کی فکر کرنے والے اور بہت ہیں اور سبھی طاقت ور ہیں۔
مشکل سے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ پھر شاہ رخ خان نے فون کیا۔ پوچھنے لگا ’’مہندر سنگھ کو کیوں قتل کر دیا گیا اور رگھبیر سنگھ کو کیوں اغوا کیا گیا ہے؟‘‘ میں جانتے بوجھتے ہوئے انجان بن گیا (علمائے کرام اسے تجاہلِ عارفانہ کہتے ہیں)۔ کون سا مہندر سنگھ؟ لیکن شاہ رخ خان بچہ نہیں تھا۔ کہنے لگا ’’تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ خیبر پختون خوا میں آباد سکھ برادری کے سینکڑوں افراد کو اغوا اور قتل کیا جا رہا ہے‘‘۔ میں نے اُسے بتایا کہ یہ یہود و ہنود کی سازش ہے اور اس میں امریکہ اور اسرائیل ملوث ہیں۔ پوچھنے لگا ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے سمجھایا کہ پاکستان میں رہنا ہے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ جو واقعہ بھی ہو‘ اس سے انکار کرکے اُسے سازش قرار دے دینا ہوگا!
یہ سلسلہ چلتا رہا۔ کبھی وہ ہزارہ برادری کے بارے میں مشکل مشکل سوالات کرتا، کبھی چلاس کے واقعات کا ذکر کرتا۔ ایک دن پوچھنے لگا کہ ’’یہ جو ہر ماہ کئی ہندو خاندان ہجرت کرکے بھارت جا رہے ہیں، کیوں جا رہے ہیں؟ اور جس محترم مذہبی رہنما نے مجھے پاکستان آنے کی دعوت دی تھی، کیا اسے ان ہندو خاندانوں کی ہجرت کے بارے میں معلوم ہے؟‘‘
میرا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا تھا۔ میں نے غصے سے فون پٹخ دیا۔

Tuesday, January 29, 2013

دوست کیا کہہ رہے ہیں؟


جس رات ایبٹ آباد میں امریکیوں نے اسامہ بن لادن ’’ایکشن‘‘ لیا، اس سے اگلے روز ایک ٹیلی ویژن چینل نے عوامی سروے کیا اور اس واقعہ کے متعلق عام پاکستانیوں کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔ اکثریت نے اسے امریکی سازش قرار دیا۔ کچھ نے اسامہ بن لادن کی تعریفیں کیں۔ چند افراد نے یہ بھی کہا کہ سب کچھ پاکستانی حکومت کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ وہیں ایک غیر ملکی بھی تھا۔ اس سے رائے مانگی گئی تو اس نے کہا : ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا، میرے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ یہ امریکی سازش ہے، امریکیوں نے اسامہ بن لادن کی لاش بھی نہیں دکھائی اس لیے میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اسے واقعی قتل کیا گیا ہے یا نہیں!
یہ ہے ایک جھلک اس فرق کی جو ہمارے انداز ِفکر اور باقی دنیا کے انداز ِفکر میں رونما ہو چکا ہے اور جو بدقسمتی سے دن بدن زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسے آپ مائند سیٹ کہہ لیجیے یا سوچ، یا کوئی اور نام دے دیجیے لیکن یہ ہمارا قومی ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔ ہم ثبوت مانگتے ہیں نہ شہادت، جو رائے ہمیں اچھی لگتی ہے ہم وہ مان لیتے ہیں۔ تحقیق یا تفتیش کو ضروری نہیں سمجھتے۔ پھر وہ رائے دوسروں پر ٹھونسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اختلاف کرنے والا غدّارِ وطن بھی ہو سکتا ہے اور کافر بھی۔ پھر یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا ہے اور ہم اختلاف کرنے والے کو گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ بالآخر اس کی گردن مار دی جاتی ہے۔
ہمارے اس انداز ِفکر کا تذکرہ ہمارے دشمن ہی نہیں، دوست بھی کرنے لگے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ’’عرب نیوز‘‘ نے حال ہی میں ایک تفصیلی مضمون شائع کیا ہے جس میں ہمارے اس اندازِفکر کو ہمارے مسائل کا اصل سبب قرار دیا گیا ہے۔
سعودی عرب سے شائع ہونے والا روزنامہ ’’عرب نیوز‘‘ بیک وقت جدہ، ریاض اور دمام سے نکلتا ہے۔ یہ کاروباری دنیا، سفارتی حلقوں اور بین الاقوامی کمپنیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات میں بے حد مقبول ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے بہت بڑے ادارے ’’سعودی ریسرچ اینڈ مارکیٹنگ گروپ (SRMG)‘‘ کے تیس کے لگ بھگ اخبارات و جرائد میں عرب نیوز کو ممتاز مقام حاصل ہے اور یہ متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، قطر، عُمّان، شمالی افریقہ اور امریکہ میں پڑھا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ متذکرہ بالا SRMG کو سعودی عرب کی حکومت کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔
اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب دو ملکوں کو از حد اہمیت دیتا ہے۔ مشرق میں پاکستان کو اور شمال مغرب میں مصر کو۔ اسی فلسفے پر سعودی عرب کی حفاظت اور سیکورٹی کا انحصار ہے۔ یہ دو ممالک سعودی عرب کے دو بازو ہیں۔ مصر میں حالیہ تبدیلی کے بعد جو ٹھہرائو آ گیا ہے اس سے سعودی عرب کو اطمینان حاصل ہوا ہے لیکن اصل مسئلہ سعودی عرب کے مشرقی بازو یعنی پاکستان کے ہر لحظہ بگڑتے ہوئے حالات ہیں۔
ان بگڑتے ہوئے حالات کی تشخیص کرتے ہوئے عرب نیوز کہتا ہے کہ پاکستان کا مسئلہ مالی مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ جتنا پیسہ پاکستان کو دیا جائے گا ،سارے کا سارا ضائع ہو جائے گا۔ اخبار امریکہ کی مثال دیتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے امریکہ پاکستان کو دو ارب ڈالر کی امداد دے رہا ہے لیکن کوئی معجزہ برپا نہیں ہوا اور تشدّد، غربت، کرپشن اور مسلسل ناکامی کا منحوس دائرہ مسلسل گھوم رہا ہے۔ مصر میں امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے لیکن ایسی کسی کرن کا پاکستان میں دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے۔ اگر کچھ روشنی ہے بھی تو اس آگ کی ہے جو خودکش بمبار لگاتے پھرتے ہیں اور جس کے شعلے چاروں طرف پھیل رہے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ اصل مسئلہ پاکستانیوں کے ذہن کی کیفیت یعنی مائنڈ سیٹ ہے۔ پھر وہ ان دوستوں سے معافی مانگتا ہے جو اس بات کو ناپسند کریں گے اور جو ’’سازش‘‘ کے نظریے پر سختی سے یقین رکھتے ہیں۔ مثلاً پاکستانیوں میں آیوڈین کی شدید کمی ہے لیکن وہ آیوڈین کا استعمال اس لیے نہیں کرتے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف مغربی ملکوں اور بھارت کی مشترکہ سازش ہے۔ دوسری طرف پاکستانی وزارت صحت اور اقوامِ متحدہ کے ادارۂ صحت کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ آیوڈین کی کمی کی وجہ سے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد متعدد بیماریوں کا سامنا کر رہی ہے۔ اسقاطِ حمل، ذہنی عدم ِصحت اور تھائی رائڈ غدودوں کی بیماری، ان میں نمایاں ہے۔ ذہنی اور جسمانی استعداد ِکار میں کمی اور کاہلی بھی آیوڈین کی کمی کا شاخسانہ ہیں اور اقتصادی حالات میں روز افزوں خرابی کا یہ بھی ایک سبب ہے۔
پھر اخبار پولیو کا ذکر کرتا ہے کہ مذہبی طبقات پولیو کی انسدادی مہم کو ناکام کرنے کے لیے قتل و غارت پر اُتر آئے ہیں۔ سعودی عرب، مصر اور دوسرے کئی مسلمان ملکوں میں یہ انسدادی مہم کامیابی سے ہمکنار ہو چکی ہے، لیکن پاکستان میں پولیو کا انسداد تو کیا ہوتا، دن بدن اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پولیو کے کارکنوں کے قتل کے بعد مہم کو روک دیا گیا ہے۔
سعودی اخبار لکھتا ہے کہ بہت سے لوگ اس صورت حال کے ڈانڈے جنرل ضیاء الحق سے ملاتے ہیں جس نے بنیاد پرستی اور جہادی افکار کی حوصلہ افزائی کی۔ دنیا بھر سے جہادی آ کر افغان سرحدوں پر آباد ہو گئے اور جہاد میں شامل ہوئے۔ اخبار کے بقول پھر یہ ’’تجربہ کشمیر میں دہرایا گیا۔‘‘ سعودی حکومت کے قریب سمجھے جانے والے اس اخبار کا مضمون نگار یہ بھی لکھتا ہے کہ اس نے نوے کی دہائی کے آخر میں ’’کشمیریوں کا ایک تربیتی کیمپ خود دیکھا۔‘‘
اخبار کا خیال ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ انتہا پسندی ہے جو حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ’’دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک کی نسبت یہ (انتہا پسندی) عقلی اور عملی لحاظ سے، اس قوم میں سب سے زیادہ پھیل چکی ہے۔‘‘ عراق کو چھوڑ کر خودکش آپریشن سب سے زیادہ یہیں ہو رہے ہیں۔ یہ خودکش سرگرمیاں مسجدوں، بازاروں اور عوامی مقامات پر کی جا رہی ہیں اور یہ صرف فوجیوں کے خلاف نہیں ہیں! اخبار کے بقول… ’’طالبان کے مفتی کے نزدیک اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ایک نوجوان بازار یا کسی عوامی مقام پر، یہاں تک کہ مسجد میں بھی، اپنے آپ کو اڑا کر خودکشی کر لے تاکہ اپنے ٹارگٹ کو مار سکے۔‘‘اس غیر معمولی مضمون کا آخری پیراگراف اس قابل ہے کہ اس کا لب لباب نہیں، بلکہ پورا پورا ترجمہ پیش کیا جائے:…
’’پاکستانی علما (اس ضمن میں) کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ جو آواز بلند کرتے ہیں اور طالبان پر تنقید کرتے ہیں، مار دیے جاتے ہیں۔ علما کا ایک اور بڑا گروہ موقع پرست ہے اور مذہب کو سیاست میں استعمال کرتا ہے۔ یہ علما طالبان کے جرائم کے بارے میں خاموش رہتے ہیں تاکہ حکومت کے ساتھ اپنے جھگڑے میں انہیں استعمال کریں۔ ایک تیسرا گروہ بھی ہے۔ اس نے عافیت کو چنا ہے اور سکوت اختیار کیے ہوئے ہے…‘‘
یہ ضروری نہیں کہ ہم سعودی روزنامے کے اس مضمون سے حرف بہ حرف اتفاق کریں۔ ہمیں اختلاف کرنے کا حق ہے۔ لیکن اس مضمون کی اصل اہمیت یہ ہے کہ یہ کسی مغربی، بھارتی یا اسرائیلی جریدے میں نہیں بلکہ جدہ اور ریاض سے شائع ہوا ہے اور اس اخبار میں شائع ہوا ہے جو سعودی حکومت کے قریب ہے۔ پھر یہ اخبار پورے مشرق وسطیٰ، مصر اور امریکہ میں پڑھا جاتا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ سعودیوں کی نئی نسل کثیر تعداد میں یورپ اور امریکہ سے تعلیم حاصل کر چکی ہے اور اب عرب نیوز جیسے انگریزی اخبارات کی اہمیت بہت زیادہ ہو چکی ہے!

Monday, January 28, 2013

بارہ ربیع الاوّل کے بعد


بارہ ربیع الاوّل کا مبارک دن گزر گیا۔ الحمد للہ ۔میں اپنے ضمیر سے مطمئن ہوں۔ میں نے اپنے مذہبی فرائض جوش وخروش سے ادا کیے۔ میں نے اس محبت کا اظہار احسن طریقے سے کیا جو مجھے آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ میں نے جلسے اور جلوس کے لیے دل کھول کر رقم دی۔ انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ میرے بچوں نے سبز جھنڈے پکڑ کر اور سبز ٹوپیاں پہن کر جلوس میں شمولیت کی اور کئی میل پیدل چلے۔ میں نے دودھ اور شربت کی سبیلیں لگائیں ، قورمے اور بریانی کی دس دیگیں پکاکر تقسیم کیں۔ منوں کے حساب سے شیر مال تھے۔ کپڑے کے بیسیوں تھان مستحقین میں بانٹے۔
الحمدللہ مجھے اطمینان ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے پوری امید ہے کہ میرا نام اُن مسلمانوں میں ضرور شامل ہوگا جو مدینہ منوّرہ کی خاکِ پاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں۔ سب سے نیچے سہی، فہرست میں اس حقیر پُرتقصیر کا نام تو ہوگا!انشاء اللہ !
میں نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریاں پوری کردیں۔ اب میں پورے سال کے لیے سرخروہوں اور آزاد بھی۔ میں اگرسرکاری ملازم ہوں تو اپنی مرضی کے وقت پر دفتر پہنچوں گا۔ پہنچ کر اخبارات کا مطالعہ کروں گا‘ پھر گھر کے کاموں کے لیے ادھر ادھر ٹیلی فون کروں گا۔ سائل آیا تو اسے اپنی صوابدید پر ملوں گا۔ نہ مل سکا تو باہر بٹھائے رکھوں گا۔ دوبارہ آنے کا کہہ دوں گا۔ ملازمین بھرتی کرنے ہوئے تو سفارش اور رشوت کو معیار بنائوں گا۔ اُوپر والوں نے جوکچھ کہا، بے چون وچرا مانوں گا۔ ماتحتوں کی ترقیاں تعیناتیاں کرتے وقت حالات کے تقاضے پیشِ نظر رکھوں گا۔ خالص میرٹ ایک ایسا تصور ہے جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ فیصلے طاقت ور گروہوں کو دیکھ کر کیے جاتے ہیں۔ بجلی، گیس ، پٹرول اور سی این جی کی قیمتیں، افراطِ زر کی شرح، بنکوں سے لیے گئے قرضوں کی معافیاں، یہ اور اس قبیل کے دوسرے مسائل میں بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے۔ عوام ہی سب کچھ نہیں، اس بات کا بھی تو خیال رکھنا ہے کہ میری اگلی تعیناتی بیرونِ ملک یا اندرونِ ملک کہاں ہوگی!
میں اگر تاجر ہوں تو ربیع الاوّل کے جشن میں ہر شخص جانتا ہے میرا حصہ سب سے زیادہ تھا۔ اب سال کے باقی ایّام آرام وسکون اور اطمینانِ قلب سے گزریں گے۔ خوراک، پانی، دوائیں، معصوم بچوں کا دودھ اور ملاوٹ، یہ سب کاروبار کی مجبوریاں ہیں، یہ حدیث تو ہے کہ جس شخص نے کوئی عیب والی شے فروخت کی اور خریدار کو وہ عیب نہیں بتلایا تو اللہ کے فرشتے ہمیشہ اس پر لعنت کرتے رہیں گے لیکن اللہ کی ذات گواہ ہے کہ میں نے میلادالنبیؐ میں تن من دھن۔ کسی قسم کی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ میں ٹیکس پورا نہیں دے سکتا۔ دکان کے سامنے ہٹ دھرمی سے میں نے فٹ پاتھ پر قبضہ کررکھا ہے، لیکن اس سے آخر میری آمدنی میں حرام کی ملاوٹ کیسے ہوسکتی ہے ؟سرکاری جگہ ہے، کسی فرد کی تو نہیں، رہا پیدل چلنے والوں کا حق ،تواگر انہیں ذرا سی اذیّت پہنچ رہی ہے تو آخر دنیا کا کاروبار بھی تو چلنا ہی ہے۔ توانائی کی شدید قلّت کے باوجود میں نے دکان دن کے بارہ بجے ہی کھولنی ہے اور رات کے دس بجے تک ہی کاروبار کرنا ہے۔ یہ تو ریاست کا کام ہے کہ توانائی کی قلّت پر قابو پائے۔
میں اگر سیاست دان ہوں تو پوری دنیا نے دیکھا ہے کہ بارہ ربیع الاوّل کے مبارک جلسے میں میں نے عشقِ رسولﷺ میں ڈوبی ہوئی تقریر کی۔ فرطِ جذبات سے میری آواز بھرّا گئی اور سننے والوں پر رقّت طاری ہوئی۔ رہیں سال بھر کی سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں تو وہ تو کاروبارِ دنیا ہے۔ سرکاری خرچ پر، عوام کے ٹیکسوں سے، میں نے اس برس بھی حج کرنا ہے۔ یہ جواخبار میں آیا ہے کہ ایک سیاست دان وزیر کے پاس اکاون (51)سرکاری کاریں ہیں تو یہ میڈیا کا پاگل پن ہے جو اس قسم کی خبروں کو اُچھال رہا ہے۔ ہم سیاست دان ہیں اور جب حکومت میں ہوتے ہیں تو ہمارے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔ جب سیاست دان وزیراعظم بنتا ہے تو اسے انتخابات سے پہلے پچاس ارب روپے اپنے صوابدیدی فنڈ میں ڈالنے پڑتے ہیں۔ اگر بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے تیس کروڑ روپے ہرایم پی اے کو دیئے ہیں تو یہ آخر سیاسی تقاضے ہیں جو پورے کرنے پڑتے ہیں۔ سب سے بڑے صوبے میں میرا بھائی اگر چیف منسٹر ہے اور میرے معاون اور خدمت گار صوبائی حکومت کے ملازم ہیں اور وہاں سے تنخواہ لے کر میری معاونت کررہے ہیں تو سیاست میں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آخر یہ بھی تو دیکھیے کہ عشقِ رسولﷺ میرے دل میں کس شان سے موجزن ہے۔!
میں تاجر ہوں یا سیاست دان، سرکاری ملازم ہوں یا صنعت کار، میری حیثیت پڑوسی کی ہے یا باپ کی، یاماں کی، میں شوہر ہوں یا رشتہ دار، میں جوکچھ ہوں، میں اپنے پیارے نبیﷺ پر جان تو قربان کرسکتا ہوں لیکن یہ ممکن نہیں کہ میں اپنی زندگی اس طرح بسر کروں جس طرح آپﷺ نے بسر فرمائی تھی۔ صبح سے شام تک ہرکام میں، ہر سودے میں، ہر قدم پر، آپﷺ کے احکام پر عمل پیرا ہونا، یہ تو جان قربان کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ آپ خود سوچیے، اگر ملاوٹ سے مجھے کروڑوں روپے کا فائدہ ہے، اگر سرکاری خزانے کے ناجائز استعمال سے میں الیکشن جیت لیتا ہوں اور اگر ’’تحائف‘‘ سے میرے لامتناہی اخراجات پورے ہورہے ہیں تو یہ سب کچھ نہ کرنا میرے بس سے باہر ہے۔ صلہ رحمی ہی کو لیجیے، اگر میں نے ناراض رشتہ داروں کے گھر جاکر ان سے صلح کرلی تو میری عزت کا کیا بنے گا؟ بیٹی کو جائداد میں سے حصہ دیا تو لڑکوں کو کیا ، منہ دکھائوں گا۔ یہ درست ہے کہ میرے آقاﷺ کا حکم ہے کہ بیٹی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر کہیں نہ کرو لیکن معاشرے میں سراُٹھا کر کس طرح چلوں گا؟ بھائی!آپﷺ کے احکام پر عمل کرنا اس زمانے میں مجھ جیسے گنہگار کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ میں زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہوں کہ اپنی ظاہری شکل وصورت اسلامی بنالوں۔ لباس ایسا پہن لوں کہ ہردیکھنے والا مجھے نیکوکار اور متقی سمجھے، ہاتھ میں تسبیح پکڑ لوں‘ حقوق اللہ یعنی نماز روزہ اور حج‘ پورے پورے ادا کروں، لیکن یہ جو میرے آقاومولاﷺ کے احکام حقوق العباد سے متعلق ہیں تو یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ تو خاردار جھاڑیوں والے راستے پر کپڑے سمیٹ کر چلنے کے مترادف ہے۔ میں یہ کروں گا کہ انشاء اللہ، زندہ رہا تو اگلے بارہ ربیع الاوّل کے جلسوں اور جلوسوں میں اور بھی زیادہ سرگرمی سے حصہ لوں گا۔ آپ حضرات دعا کرتے رہیے۔

Thursday, January 24, 2013

مائی لارڈ چیف جسٹس

سیاست دان ایک دوسرے کو بچانے کے لیے آخری حد تک جا سکتے ہیں!
وہ الزام جو ہزاروں اور کچھ لوگوں کے بقول لاکھوں کے مجمع میں لگائے گئے، درست تھے یا جھُوٹے‘ دونوں صورتوں میں اُنہیں اہمیت دینا چاہیے تھی لیکن افسوس! کسی کے کان پر جُوں تک نہ رینگی، انہیں پرِکاہ جتنی اہمیت نہ دی گئی۔ حکومت کے بارے میں تو چلیے اجماع ہے کہ اُسے اِن معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ‘ ملک کے صدر کو زر بابا کہتا ہے‘ لیکن اپوزیشن نے اس معاملے سے کیوں آنکھیں چرائیں؟ وہ سیاسی لیڈر جو سولہ جنوری کو لاہور میں جمع ہوئے اور جمہوریت بچانے کے لیے یک زبان ہو گئے، انہیں اُن مطالبات سے تو کوئی غرض نہ تھی جو ٹھٹھرتے دارالحکومت کے کھلے میدان میں پڑے ہوئے ہزاروں پاکستانی کر رہے تھے لیکن پہیلی یہ ہے کہ اُنہیں اُن الزامات کی بھی ذرہ بھر پرواہ نہیں تھی جو طاہر القادری نے سیاست دانوں پر لگائے اور جو عام الزامات نہیں تھے۔ اس ’’چشم پوشی‘‘ اور ’’بے نیازی‘‘ سے صرف ایک ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ مفادات کے تحفظ کے لیے جمع ہونے والے یہ سیاست دان سٹیٹس کو کے علم بردار تھے۔
باب ہاک کوئی ایرا غیرا نہیں جس کا الزام رد کر دیا جائے۔ تین بار آسٹریلیا کا وزیراعظم رہنے والے باب ہاک نے چار مرتبہ لیبر پارٹی کو فتح سے ہمکنار کیا۔ 1983ء، 1984ء، 1987ء اور 1990ء کے انتخابات اس نے بھاری اکثریت سے جیتے۔ طویل ترین عرصہ کے لیے وزیراعظم رہنے والوں میں اس کا تیسرا نمبر ہے۔ اس کے عہدِ اقتدار میں ملک اقتصادی لحاظ سے بڑی طاقت بن گیا۔ اس نے نہ صرف سرکاری صنعتیں نجی شعبے کے حوالے کیں بلکہ سرکاری بینک بھی نجی شعبے کو فروخت کر دیا۔ اس نے ٹیکس کے نظام میں اصلاحات نافذ کیں۔ تعلیمی اداروں کے بجٹ میں اضافہ کیا۔ طلبہ کے سرکاری وظائف کو بڑھایا اور مستحق شہریوں کو زیادہ سے زیادہ ریاستی سرپرستی بہم پہنچائی۔
پروفیسر طاہر القادری نے سولہ جنوری کو جب دھرنے سے چار گھنٹے کا طویل خطاب کیا تو اسی باب ہاک کے حوالے سے بتایا کہ جب وہ میلبورن میں تھے تو باب ہاک نے یہ افسوس ناک واقعہ خود ان سے بیان کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب وہ سرکاری دورے پر پاکستان گیا تو پاکستان کے لیے سرمایہ کاری کی تجاویز بھی پیش کیں۔ یہ سرمایہ کاری پاکستان میں ہونا تھی۔ لیکن ایک مقتدر شخصیت نے تیس فیصد کمیشن کا مطالبہ کیا۔ طاہر القادری نے یہ بھی بتایا کہ یہ تیس فی صد کمیشن پاکستان سے باہر کے بنکوں میں جمع کرانے کے لیے کہا گیا۔ ظاہر ہے باب ہاک اور اس کے وفد نے انکار کر دیا اور یوں ملک سرمایہ کاری سے محروم رہ گیا۔
دوسرا الزام بھرے مجمع میں پروفیسر طاہر القادری نے یہ لگایا کہ نیوزی لینڈ کے ایک بہت بڑے ریاستی منصوبے میں پچاس فی صد حصّہ ایک ایسے شخص کا ہے جو پاکستان میں وزیراعظم رہا۔
آخر طاہر القادری کے مخالفین اُس سے ان الزامات کا ثبوت کیوں نہیں مانگتے؟ کیا یہ سنہری موقع نہیں کہ طاہر القادری سے اِن ’’بے سروپا‘‘ الزامات کا ثبوت مانگا جائے؟
لیکن یہ معاملہ اس قدر سنجیدہ ہے کہ اسے سیاست دانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران فرانس کی قیادت کرنے والے وزیراعظم جارج کلیمنسو (George Clemenceau) نے کہا تھا کہ:
War is too serious a matter to entrust to military men .
’’ جنگ ایسا سنجیدہ معاملہ ہے جسے فوجیوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘‘۔ (یہ بات عام طور پر چرچل سے منسوب کی جاتی ہے جو غلط ہے)۔ بالکل اسی طرح طاہر القادری کے لگائے گئے الزامات اس قدر سنگین ہیں کہ معاملہ سیاست دانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کیا اس ملک کے عوام نے بارہا نہیں دیکھا کہ ایک دوسرے کا سر پھاڑنے والے اور بات بات پر گریبان پکڑ لینے والے سیاست دان صرف اُس وقت متحد ہوتے ہیں جب پارلیمنٹ میں اُن کی مراعات بڑھانے والا بِل پیش ہو یا اس وقت اکٹھے ہوتے ہیں جب اُن کے مفادات پر زد پڑنے والی ہو۔ سولہ جنوری کو لاہور میں جمع ہو کر ’’خطرے‘‘ کی نشان دہی کرنے والے اِن سیاسی لیڈروں نے کرپشن کو ختم کرنے کے لیے کبھی ایسے ’’مثالی‘‘ اتحاد کا مظاہرہ نہیں کیا۔ خلقِ خدا بجلی اور پانی کو ترس گئی ہے اور پٹرول اور سی این جی سٹیشنوں کے سامنے میلوں لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں لیکن یہ سیاست دان اس صورت حال کا ذکر تک نہیں کرتے۔ جب نیب کے چیئرمین نے رُونگٹے کھڑے کر دینے والا یہ بیان دیا کہ ملک میں بارہ ارب روپے کی کرپشن روزانہ ہو رہی ہے تو کسی سیاست دان نے دُہائی نہیں دی۔ ان سے آخر یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ طاہر القادری کے لگائے گئے انتہائی سنگین الزامات کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
ہم اس تحریر کے ذریعے چیف جسٹس پاکستان جناب افتخار محمد چودھری کی خدمت میں درخواست کرتے ہیں کہ وہ اِن الزامات کا از خود نوٹس لیں۔ پروفیسر طاہر القادری کو عدالتِ عظمیٰ میں طلب کیا جائے اور ان سے ان دونوں سیاسی لیڈروں کے نام پوچھ کر قوم کو بتائے جائیں۔ اگر یہ الزامات درست ہوں تو اس شخص پر‘ جس نے آسٹریلوی وزیراعظم سے تیس فی صد رشوت کا مطالبہ کیا تھا، غدّاری کا مقدمہ چلایا جائے اور اُسے سزا دی جائے۔ یہ ملک کی اقتصادی ترقی ہی کا نہیں، عزت اور ناموس کا بھی مسئلہ ہے۔ اگر طاہر القادری کا یہ الزام صداقت پر مبنی ہے تو باب ہاک نے یہ شرمناک بات جانے کہاں کہاں بیان کی ہوگی اور جانے کس کس کو بتائی ہوگی۔ اس رُسوائی کے ذمہ دار شخص کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
دوسرا الزام بھی معمولی الزام نہیں! جس پاکستانی وزیراعظم کا نیوزی لینڈ کے بڑے ریاستی پراجیکٹ میں پچاس فی صد حصّہ ہے اُس سے حساب لیا جائے کہ اس عظیم الشان سرمایہ کاری کا ذریعہ کیا تھا؟ یہ دولت کہاں سے آئی؟ اگر جائز تھی تو یہ سرمایہ کاری اپنے ملک میں کیوں نہ کی گئی؟ ایک عام شہری نہیں، ملک کا وزیراعظم دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کرے تو اُس کے اپنے ملک میں کون احمق سرمایہ لگائے گا؟ اور اگر یہ دولت ناجائز تھی تو اس کا حساب لیا جائے اور معاملات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

مائی لارڈ چیف جسٹس! قوم آپ سے اس معاملے میں دادرسی کی طالب ہے!


Tuesday, January 22, 2013

ایک دِن قائداعظمؒ کے ساتھ

قائداعظم صبح بیدار ہوئے تو باہر پامسٹ انتظار کر رہا تھا۔ انہوں نے اُسے ہاتھ دکھایا اور اس کی کہی ہوئی باتوں پر سر ہلایا پھر ایک نجومی آیا۔ اس نے قائداعظم کا زائچہ بنایا انہیں بتایا کہ کون سا ستارہ کہاں ہے اور کون سا سیارہ کس طرف جا رہا ہے۔ پھر اس نے انہیں ہدایات دیں کہ وہ سفر کی ابتدا کس دن سے کریں، کتنے دن پہاڑوں کے قریب رہیں اور کتنا عرصہ سمندر کے قریب بسر کریں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ کتنے سال وہ مزید گورنر جنرل رہیں گے۔ پھر سرکاری ہیلی کاپٹر آیا جس میں سرکاری پٹرول تھا اور سرکاری ہی پائلٹ تھا۔ قائداعظم سوار ہوئے۔ اے ڈی سی بھی ساتھ تھا۔ ہیلی کاپٹر شمال کے پہاڑوں کی طرف روانہ ہوا اور ایبٹ آباد کے قریب ایک بستی میں اترا۔ سرکاری کار منتظر تھی۔ آپ سوار ہوئے اور بابا جی کی خدمت میں پہنچے۔ باباجی نے قائداعظمؒ کی پیٹھ پر ڈنڈوں کی نوازش کی۔ واپسی پر قائداعظم نے حکم دیا کہ سڑک جو باباجی کے گائوں کو جا رہی ہے، پختہ کی جائے اور باباجی کو سرکاری خرچ پر حج کرایا جائے۔ دوسرے دن قائداعظم اسمبلی پہنچے (یہاں یہ سوال نہ اٹھایئے کہ گورنر جنرل اسمبلی میں نہیں تشریف لے جاتے تھے کہ ہمارا موضوع مختلف ہے) تو ارکان اسمبلی درخواستیں لیے ان کے اردگرد جمع ہو گئے اور آپ نے ان درخواستوں پر دستخط کرنا شروع کر دیے۔ باہر نکلے تو ایک ممبر اسمبلی نے عرض کیا کہ اس کے عزیز کو ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت دی جائے آپ نے سپیکر سے بات کی کہ افسر کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں کسی بڑے منصب پر رکھ لیا جائے۔ گورنر جنرل ہائوس پہنچ کر آپ نے حکم دیا کہ آپ کی برادری کے جو لوگ بمبئی سے پاکستان آ گئے ہیں، انہیں اکٹھا کیا جائے۔ پھر آپ نے ان سے خطاب کیا اور بتایا کہ انہیں اپنی برادری کے لوگوں کی مشکلات کا احساس ہے۔ وہ جلد ایک تنظیم بنا رہے ہیں اور برادری کی بنیاد پر فلاحی کاموں کا ایک لمبا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ پھر آپ کے سامنے کچھ کاغذات رکھّے گئے۔ آپ نے حکم دیا کہ صوبے کے وزیراعلیٰ کی صاحبزادی کو پی آئی اے میں ڈاکٹر تعینات کیا جائے اور مسلم لیگ کے کارکنوں کو ایسی کارپوریشنوں میں ملازمتیں دی جائیں جہاں تنخواہ کے ساتھ مراعات کا پیکیج ضخیم ہو۔ شام کو آپ نے بمبئی سے تعلق رکھنے والے اٹھائیس نیم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ایف آئی اے میں بھرتی کرنے کے کاغذات پر دستخط کیے۔ 


کیا آپ کو ان اطلاعات پر یقین آ رہا ہے؟ ظاہر ہے آپ کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہیں۔ قائداعظم کے بدترین دشمن بھی ایسی کسی بات پر یقین نہیں کر سکتے۔ ہمارے بخت کی سیاہی یہ ہے کہ آج ہمارے سیاستدان یہ سب کچھ کر رہے ہیں، دن دہاڑے کر رہے ہیں، ببانگ دہل کر رہے ہیں، مسلسل کر رہے ہیں اور ہماری ذلّت کی انتہا یہ ہے کہ سیاستدانوں کی ان شرمناک سرگرمیوں کا دفاع کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں!

جب بھی سیاست دانوں کا کردار زیر بحث لایا جاتا ہے تو جواب یہ ملتا ہے کہ آخر بیوروکریٹ اور جرنیل کہاں کے فرشتے ہیں۔ لیکن دفاع کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ تحریک پاکستان کی قیادت کسی بیوروکریٹ یا کسی جرنیل کے ہاتھ میں نہیں تھی، ایک سیاست دان کے پاس تھی۔ آخر سیاست دان اور سیاست دانوں کے دفاع میں صفحوں کے صفحے کالے کرنے والے، سیاست دانوں کو جرنیلوں اور نوکر شاہی کی سطح پر کیوں لاتے ہیں؟ سیاست دان پالیسی ساز ہوتے ہیں۔ وہ سمت کا تعین کرتے ہیں۔ رہے بیوروکریٹ اور جرنیل تو وہ پالیسیوں کا نفاذ کرتے ہیں۔ وہ قوم کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتے۔ 

ہمارے آج کے سیاست دان نہ صرف یہ کہ وژن سے محروم ہیں بلکہ ان کا آئی کیو شرمناک حد تک ضعیف ہے۔ کچھ نیم تعلیم یافتہ ہیں اور کچھ چٹے ان پڑھ۔ آپ قائداعظم اور ان کے رفقائے کار کی تعلیم، ذہانت اور آئی کیو کو ذہن میں رکھیے اور پھر ان سچے واقعات پر غور کیجیے جو بعد میں آنے والے سیاست دانوں سے منسوب ہیں۔ ایک صاحب نے اپنے ماتحت بیورو کریٹ سے پوچھا کہ میں اس فائل پر کیا لکھوں، بیوروکریٹ نے ہاتھ سینے پر باندھ کر جواب دیا کہ حضور! آپ اس پر SEEN لکھ دیجیے۔ وزیر صاحب نے اردو کا ’’س‘‘ ڈال دیا۔ بھٹو کے زمانے میں پاکستان نیشنل کونسل برائے قومی یکجہتی بنائی گئی، اس کا ایک کام تقاریب کا اہتمام بھی تھا۔ متعلقہ وزیر نے ماتحتوں سے مشورہ کیا کہ کس موضوع پر تقریب منعقد کی جائے۔ کسی پڑھے لکھے منشی نے تجویز پیش کی کہ ابن خلدون کے بارے میں تقریب کرتے ہیں۔ وزیر صاحب نے بغل میں پڑے ہوئے میز سے موٹی ٹیلی فون ڈائرکٹری اُٹھا کر منشی کے آگے پٹخی اور حکم دیا کہ اسی وقت ابن خلدون سے میری بات کرائی جائے۔ یہ بھی سچا واقعہ ہے کہ شمالی علاقہ جات میں ایک وزیر ہسپتال میں نئے تعمیر شدہ لیبر روم کا افتتاح کر رہا تھا۔ تقریر میں اس نے یہ ارشاد فرمایا کہ ہماری حکومت نے لیبر کے لیے اتنا کام کیا ہے کہ ہسپتالوں میں بھی لیبر روم بنا دیے ہیں۔ 

آج کے سیاست دانوں کی ذہنی ساخت پر غور کیجیے تو آپ پکار اٹھیں گے۔ حیران ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ ایک سیاست دان نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کینیڈا میں مقیم پختونوں کے مسائل حل کرنے کے لیے جدوجہد کرے گی۔ پھر انہوں نے ہدایت جاری کی کہ کینیڈا میں مقیم تمام پختونوں کو متحد کرکے موثر تنظیم تشکیل دی جائے تاکہ وہاں پر آباد پختونوں کو مشکلات کے حل کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم فراہم کیا جائے۔ ہمارے سیاست دان کی اعلیٰ ذہانت کو یہ نہیں معلوم کہ کینیڈا اور اس قبیل کے ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں تمام شہریوں کی مشکلات یکساں طور پر حل کی جاتی ہیں اور لسانی یا علاقائی بنیادوں پر کچھ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ یہی تو ممالک ہیں جہاں پختون، پنجابی اور تمام پاکستانی متحد ہو کر رہ رہے ہیں جو بدقسمتی سے اپنے ملک میں ممکن نہیں! ہاں! اگر سیاست دان صاحب یہ فرماتے کہ کینیڈا میں پختونوں کو متحد کرکے خیبر پختونخواہ میں ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کے لیے آمادہ کیا جائے تو ایک بات بھی تھی۔ 

ہمارے آج کے سیاست دان کن خطوط پر سوچتے ہیں اور ان کے ذہن کس طرح کام کرتے ہیں، اس کا اندازہ ایک تازہ ترین خبر سے لگایئے… ’’ایڈیشنل سیکرٹری کو گریڈ اکیس سے ریٹائرمنٹ کے بعد سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے گریڈ بائیس میں سپیشل سیکرٹری لگا دیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری نے مدت ملازمت میں توسیع کے لیے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اور چیئرمین ریلوے کمیٹی کا دامن پکڑا تھا۔ انہوں نے میاں نوازشریف سے بات کی جنہوں نے سپیکر کو توسیع کا کہا جس پر فہمیدہ مرزا نے گریڈ اکیس کے ایڈیشنل سیکرٹری کو گریڈ بائیس میں تعینات کرکے کنٹریکٹ میں چھ مہینے کی توسیع کر دی۔ 

ذرا سوچئے، آج قائداعظم زندہ ہوتے تو کیا ہماری قسمت میں تھانے، کچہری سطح کے یہ سیاستدان ہوتے جن کا ذہن سفارش، اقربا پروری اور موروثی ’’سیاست‘‘ کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ اس لیے کہ کچھ اور سوچنے کی اہلیت ہی نہیں! پاکستان کا سفر سیاست کی کن بلندیوں سے آغاز ہوا تھا اور آج سیاست کن پستیوں میں لڑھک رہی ہے!!


Monday, January 21, 2013

دو گروہ


معصوم جانور کھلے میدان میں جمع ہوئے اور کئی دن تک بیٹھے رہے۔
ان میں پرندے بھی تھے اور چوپائے بھی ۔ طوطے ، بلبلیں ، بطخیں ، چڑیاں، خرگوش، ہرن اور بے شمار دوسرے جانور۔ یہ سب وہ تھے جو سالہا سال سے جنگل میں خاموش رہ کر، دب کر، رہ رہے تھے۔ جنگل پر اصل قبضہ بھیڑیوں ، چیتوں، شیروں، گینڈوں ، سانپوں اور مگرمچھوں کا تھا۔ خونخوار درندوں کا یہ گروہ جنگل کے ہرگوشے پر قابض تھا۔ اس گروہ کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ معصوم اور مظلوم جانوروں کی ایک بدقسمتی یہ تھی کہ ان کے کچھ بھائی جنہیں ان کا ساتھ دینا چاہیے تھا، خونخوار گروہ کے خدمت گار بنے ہوئے تھے۔ ان میں لومڑی ، گیدڑ اور بکرے سرفہرست تھے۔ یہ دن بھر خونخوار گروہ کے ساتھ رہتے۔ ان کی ہرطرح کی خدمت بجالاتے۔ جب یہ درندے آپس میں لڑائی جھگڑا کرتے تو لومڑی ان کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتی۔ کبھی اس طرف بھاگ کر آتی اور کبھی بغل میں کچھ کاغذات دباکر دوسرے گروہ کی طرف جارہی ہوتی۔ گیدڑوں کی قسمت بھی عجیب تھی۔ دو تین گیدڑ پڑھے لکھے تھے۔ ہرگیدڑ نے ایک خونخوار درندہ پکڑا ہوا تھا۔ یہ اس کے لیے تقریر یں لکھتا، مذاکرات میں مدد کرتا، اگر زبان فرنگ بولنا پڑتی تو ان کی ترجمانی کرتا۔ گیدڑوں کو اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ سالہا سال درندوں کی خدمت کرنے کے باوجود ان کی حیثیت نوکروں، مشقتیوں حاشیہ برداروں، اٹیچی کیسوں اور حقہ پکڑنے والوں سے زیادہ نہ تھی۔ لیکن یہ تھا کہ راتب اچھا مل جاتا۔ بچا کھچا سہی، پر تھا تو گوشت، اور وہ بھی کثیر مقدار میں!
بکروں کا کردار گھنائونا تھا لیکن دلچسپ بھی۔ انہیں اصل میں معصوم گروہ کا ساتھی ہونا چاہیے تھا لیکن لالچ کی وجہ سے یہ خونخوار گروہ میں شامل ہوچکے تھے۔ یہ بظاہر پارسا بنتے تھے۔ ہاتھوں میں تسبیحیں تھیں۔ معصوم گروہ کے ارکان کو جمع کرکے وعظ کرتے رہتے تھے۔ لیکن تھے پرلے درجے کے منافق۔ اندر سے کچھ، باہر سے کچھ، بسیار خوری کی وجہ سے ان کے پیٹ پھول چکے تھے اور تن وتوش سے درندے ہی لگتے تھے لیکن خونخوار گروہ کے ثقہ ارکان ان منافقوں کو ہمیشہ اپنے سے کم تر سمجھتے تھے ۔
جنگل کی تمام پیداوار پر خونخوار گروہ اپنا حق جتاتا تھا۔ درختوں پر لگنے والے پھل، جڑی بوٹیاں، سبز پتے، رہائش کے لیے خوشگوار علاقے، تجارت سے ہونے والی آمدنی، غرض ایک ایک شے پر اسی گروہ کا قبضہ تھا۔ کچھا رایک ایک درندے کی اتنی بڑی تھی کہ اس میں ہزاروں جانور سما سکتے تھے ،دریا بھی انہی کے تصرف میں تھا اور مگرمچھ اسی گروہ کے رکن تھے۔ معصوم جانوروں کو ہمیشہ گدلا پانی ملتا۔ مستقبل میں بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔ اب بھیڑیوں ، گینڈوں، تیندوئوں اور سانپوں کی اگلی نسل بھی حکمرانی کے لیے پرتول رہی تھی۔ طوطے، چڑیاں، بطخیں، بلبلیں ، تیتر، خرگوش اور ہرن ہاتھ پائوں مارتے تھے مٹھیاں بھینچتے تھے، ترکیبیں لڑاتے تھے، منصوبے بناتے تھے لیکن خونخوار گروہ سے جنگل کا قبضہ چھڑانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔
یہ ہاتھی تھا جس نے معصوم گروہ کے مظلوم ارکان کو اکٹھا کیا۔ ہاتھی کا قصہ دلچسپ بھی تھا اور کچھ کچھ پراسرار بھی، یہ ہاتھی اسی جنگل میں رہتا تھا لیکن کچھ عرصہ ہوا، ایک اور جنگل کو ہجرت کرگیا تھا۔ اب اچانک واپس آیا تو اس نے معصوم گروہ کے پرندوں اور چوپایوں کو ایک کھلے میدان میں اکٹھا کیا اور اعلان کیا کہ وہ انہیں ان کے حقوق دلوائے گا۔ درندوں سے جنگل واگزار کرائے گا۔ ایک ایسا نظام لائے گا جس میں صرف بھیڑیے ، تیندوے، سانپ اور مگرمچھ ہی حکمران نہ ہوں، طوطوں، بلبلوں ، بطخوں ، خرگوشوں اور ہرنوں کو بھی ان کا حصہ ملے۔ ہاتھی نے یہاں تک کہا کہ وہ ان خونخوار درندوں کے پیٹ پھاڑ دے گا، ان کی توندیں کمر سے لگا دے گا اور پھلوں اور پانی کی تقسیم اس طرح کرے گا کہ ہرایک کو اس کا حق ملے۔
پانچ دن یہ معصوم چوپائے اور پرندے کھلے آسمان کے نیچے جمع رہے اور ہاتھی ان کی قیادت کرتا رہا۔ یہ بات درست تھی کہ ہاتھی کئی سال ایک اور جنگل میں رہ کر آیا تھا اور پراسرار سا لگتا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ وہ باتیں پتے کی کررہا تھا۔ اس کا ایک ایک نکتہ دل میں جاگزیں ہوتا تھا۔ وہ معصوم گروہ کے حقوق کا رونا روتا تھا اور درندوں کے ظلم کی کہانیاں سناتا تھا۔ اس نے خونخوار گروہ کو چیلنج کیا کہ جنگل پر اپنی اجارہ داری ختم کرے اور معصوم پرندوں اور چوپایوں کو، جو جنگل کے اصل مالک ہیں، زمامِ اقتدار سونپ دے۔
ہاتھی کوتو خونخوار گروہ کچھ اہمیت نہیں دیتا تھا لیکن جب اس نے معصوم گروہ کے ارکان اپنے اردگرد اکٹھے کرلیے تو خونخوار گروہ ہوشیار ہوگیا۔ گروہ کے ارکان نے اپنا اور اپنی اگلی نسلوں کا مستقبل محفوظ سے محفوظ تر کرنے کے لیے ایک دوسرے سے رابطے شروع کردیے۔ لومڑیاں ادھر سے ادھر بھاگنے لگیں۔ پیغام رسانیاں ہوئیں، خطرے کی علامات ایک دوسرے کو دکھائی گئیں اور یوں سارے درندے جنگل کے ایک گوشے میں اکٹھے ہوگئے۔ تقریریں ہوئیں، بظاہر ہاتھی اور معصوم جانوروں کا ذکر نہ کیا گیا لیکن درپردہ یہ معصوم جانوروں کی یکجہتی ہی تھی جس نے انہیں اپنی اپنی کچھاروں سے نکل کر اجلاس منعقد کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ اجلاس کے آخر میں سارے درندے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ جنگل کا نظام وہی رہے گا جو چلتا آیا ہے۔ حق حکمرانی طاقت وروں ہی کا ہوگا، ہاں معصوم گروہ کے ارکان کو بھی چوگا شو گا ملتا رہے گا۔ اس اجلاس کے بعد جب خونخوار گروہ کے ارکان جمع ہوئے اور تصویریں بنوائی گئیں تو دلچسپ منظر یہ تھا کہ حسب سابق تین چار منافق بکرے بھی ساتھ تھے۔ ہاتھوں میں تسبیحیں تھیں، پیٹ پھولے ہوئے، دہانوں سے گوشت کی بو کے بھبکے اٹھ رہے تھے !
خونخوار گروہ نے، حتمی فیصلہ یہ کیا کہ کسی نہ کسی طرح معصوم گروہ کے ارکان کو میدان سے اٹھا کر، ان کا اجلاس منتشر کردیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ہاتھی سے مذاکرات کا ڈول ڈالا، کچھ باتیں مانیں ، کچھ نہ مانیں،ہاتھی نے بہرطور معصوم چوپایوں اور پرندوں کو یہی بتایا کہ ان کی جدوجہد کامیاب ہوگئی ہے ۔ طوطے ،تیتر، بلبلیں، بطخیں ، خرگوش ، ہرن ،سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
لیکن انہیں معلوم ہے کہ جنگل میں نظام وہی ہوگا جواب تک چلتا آیا ہے۔ پیداوار پر خونخوار گروہ ہی کا قبضہ رہے گا۔ دریا کے کنارے بدستور مگرمچھوں کی زمینداریاں ہوں گی۔ پھل اور سبز پتے انہی کے تنورنما معدوں میں اترتے رہیں گے۔ معصوم چوپایوں اور پرندوں کا استحصال جاری رہے گا۔ انہیں بچی کھچی خوراک ہی پرگزارا کرنا پڑے گا۔ لومڑیاں ادھر سے ادھر بھاگتی رہیں گی۔ گیدڑ کفش برداری کا کام کرتے رہیں گے اور منافق بکروں کی توندیں پھولتی رہیں گی۔ 

Friday, January 18, 2013

سوجی کا خصوصی حلوہ

مانا کہ طاہر القادری ملکہ کی وفاداری کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں، ان کا ماضی قابلِ رشک نہیں ہے اور وہ ایک زمانے میں شریف فیملی کے اور بعد میں پرویز مشرف کے حلقہ دوستی میں رہے ہیں لیکن وہ ہزاروں بچے اور عورتیں اور ہزاروں عام شہری، کیا وہ بھی کینیڈا سے آئے ہیں؟ اور کیا ان کا ماضی بھی غیر شفاف ہے؟ کیا پورے پاکستان کی اشرافیہ کے پاس اُس عورت کا سامنا کرنے کی جرأت ہے جس نے یہ کہہ کر اُن کے منہ پر طمانچہ مارا ہے کہ یہاں دھرنے میں سردی ہے تو ہمارے گھروں میں کون سی گیس اور بجلی ہمارا انتظار کر رہی ہے!
 
عربی کا محاورہ ہے اُنْظُرْ اِلیٰ مَا قاَلَ وَ لَا تَنظُر اِلٰی مَنْ قَالَ ۔ یہ نہ دیکھو کہ کہنے والا کون ہے، یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے؟ اللہ کے بندو! طاہر القادری کی نقل جنگل میں ایک درخت سے دوسرے درخت پر پھدکنے والے جانور کی طرح لگانے سے پہلے اُن باتوں کا تو ذکر کرو جو اس نے کہی ہیں۔ دھرنے کے شرکا ایک ہزار تھے یا ایک لاکھ اور گھروں میں ٹیلی ویژن پر سننے والے ایک لاکھ تھے یا ایک کروڑ، اس الزام کا جواب کون دے گا کہ اسمبلیوں میں ٹیکس چور براجمان ہیں اور جعلی ڈگریوں والے نوسرباز اشرافیہ کی صفوں میں سب سے آگے بیٹھے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ الیکشن کمیشن کا صرف چیئرمین اچھی شہرت کا مالک ہے، اس کا صرف ایک ووٹ ہے، باقی ارکان سیاسی پارٹیوں کے نامزد کردہ ہیں اور غیر جانبدار نہیں ہیں۔ پندرہ جنوری کو عمران خان نے جو سات نکات پیش کیے، ان میں بھی ایک نکتہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔ جاوید ہاشمی نے اُسی دن ٹیلی ویژن پر اس نکتے کی مزید وضاحت کی اور یہی دلیل دی کہ فخرو بھائی تو غیر جانبدار ہیں لیکن باقی ارکان کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ کیا عمران خان کا مطالبہ بھی غیر آئینی ہے؟ کیا اب یہ لوگ عمران خان اور جاوید ہاشمی کا بھی منہ چڑائیں گے؟ ؎
لگے مونہہ بھی  چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

 
زباں بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا
اس کالم نگار کی تحریریں گواہ ہیں کہ اسے طاہر القادری سے کوئی عقیدت نہیں، بلکہ کئی اعتراضات ہیں۔ وہ بسا اوقات شعبدہ بازی کے قریب آ جاتے ہیں، اس قدر قریب کہ شعبدہ بازی کو چھُو بھی سکتے ہیں، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ دھرنے کے دونوں دن اُن کی تقریر میں دلائل مضبوط تھے۔ نام نہاد عوامی نمائندوں پر ان کے اعتراضات سچائی پر مبنی تھے اور وہ جو کچھ کہہ رہے تھے، زیریں طبقات اس کے ایک ایک لفظ کی تصدیق کر رہے تھے۔
 
ذرا دھرنے کے شرکاء کا اُن امرا اور عمائدین سے موازنہ کیجیے جو لاہور میں اپنے اور اپنے طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے جمع تھے۔اخبارات میں ان شرکاء کا گروپ فوٹو شائع ہوا ہے۔ آپ ان کے چہروں کو غور سے دیکھیے، کیا آپ کو کسی چہرے پر اس تشویش کا اظہار نظر آتا ہے کہ ستر فیصد عوامی نمائندوں نے ٹیکس ریٹرن ہی جمع نہیں کرائی؟ کیا آپ کو کسی ایک چہرے پر بھی اس شرمناک حقیقت پر ندامت کی کوئی جھلک دکھائی دیتی ہے کہ ان جماعتوں کے نمائندے سفید جھوٹ بول کر جعلی ڈگریوں کے ساتھ حقِ ’’نمائندگی‘‘ ادا کرتے رہے؟
یہ عمائدین جو لاہور میں جمع ہو کر قوم کے غم میں بریانی، پالک، گوشت، حلیم، دیسی مرغی، پاستا اور گراں بہا چینی ماکولات تناول فرماتے رہے اور چوڈا پہلوان کا پکایا ہوا سوجی کا خصوصی حلوہ اپنے مقدس معدوں میں اتارتے رہے، ان میں سے کسی ایک نے بھی لوڈشیڈنگ کی اذیّت کبھی نہیں برداشت کی۔ ان میں سے کوئی ایک بھی تین گھنٹے تو دُور کی بات ہے، پندرہ منٹ بھی سی این جی یا پٹرول کے لیے قطار میں نہیں کھڑا ہوا۔ ان میں سے ایک بھی کسی سرکاری ہسپتال میں کبھی نہیں گیا یہ تو وہ حضرات ہیں جو چھینک آنے پر لندن کا رُخ کرتے ہیں، کھانسنے کے بعد دبئی کا ٹکٹ خریدتے ہیں اور ڈکار مارنے کے بعد چوڈا پہلوان کو نیا آرڈر دیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ کس کا بچہ یا پوتا سرکاری سکول میں پڑھ رہا ہے اور کس کے اہلِ خانہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر رہے ہیں؟ بخدا یہ معززین اُن ہزاروں افراد کی نمائندگی نہیں کرتے جو دھرنے میں جمع تھے اور اُن لاکھوں لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے جو گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹوں کے ساتھ جُڑ کر بیٹھے تھے۔ عمران خان اور طاہر القادری میں لاکھ برائیاں سہی، وہ کم از کم بات تو اُن عوام کی کر رہے ہیں زندگی جن کے لیے بوجھ بن گئی ہے۔ گروپ فوٹو میں کھڑے اِن عمائدین سے تو الطاف حسین ہی بازی لے گیا جو مانا کہ لندن میں ہزاروں پائونڈ ماہانہ خرچ کر رہا ہے لیکن اس نے طاہر القادری کے مطالبات کی تائید تو کی اور دھرنے کے شرکاء پر طاقت کے استعمال سے منع تو کیا۔ قوم کے غم میں حکومتِ پنجاب کے سرکاری جہاز پر سوار ہو کر آنے والے اور چوڈا پہلوان کا پکا خصوصی حلوہ کھانے والے ان شرفاء میں سے ایک نے طاہر القادری کو جے سالک سے تشبیہ دی اور اپنی دانست میں بذلہ سنجی کا مظاہرہ کیا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک معزز رہنما کا مذاق اُڑایا۔ یہ ایک غیر سنجیدہ حرکت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جے سالک نے جی ایچ کیو سے زرعی زمین کبھی نہیں حاصل کینہ ہی اس بیچارے نے کبھی فخر سے یہ اعلان کیا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں۔ ہمارے لیڈروں کے اعصاب اس قدر مضبوط ہیں کہ ایک طرف پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ ہونے کا فخریہ اعلان کرتے ہیں تو دوسری طرف پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ڈالتے ہیں۔ ایک بھائی وزیر تو دوسرے ناظم۔ ایک زمانے میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے پنجابی کے شاعر سعید الفت بہت مشہور تھے۔ اُن کی یہ نظم عام لوگوں کی زبان پر تھی جس کا ایک شعر یوں تھا۔ کھائی جائو بھئی کھائی جائو۔ ڈھڈاں نوں ودھائی جائو۔۔ اس موضوع پر کمال کی نظم تو منیر نیازی نے لکھی ہے جو تین سطروں پر مشتمل ہے ؎
بندے نہیں سَن، جانور سَن

روٹیاں کھائی جاندے سن
تے رولا پائی جاندے  سن

اس گروپ فوٹو میں سید منور حسن کو دیکھ کر ایک دردناک اور عبرت ناک واقعہ یاد آ گیا 
سید منور حسن کے عین پیچھے شیرِ پنجاب مصطفی کھر نظر آ رہے ہیں۔ ان کے دورِ اقتدار میں میاں طفیل محمد کے ساتھ جو غیر انسانی اور ناقابلِ بیان سلوک ہوا تھا، اسے یاد کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تعّجب ہے آج جماعت کے امیر، اسی مصطفی کھر کے ساتھ دیسی مرغی اور چوڈا پہلوان کا پکا ہوا خصوصی حلوہ تناول فرما رہے ہیں ع

ببین       

 
کہ از کہ بُریدی و با کہ پیوستی!
 
یعنی

غور تو فرمایئے آپ کہاں سے ٹوٹے اور کن کے ساتھ آ جُڑے!ہمیں نہیں معلوم ارب پتیوں کی اس انجمن تحفظِ مفادات میں سیّد صاحب کا جو ایک عام آدمی کی طرح رہتے ہیں، کیا کام تھا؟ ہمارا حسنِ ظن ہے کہ سیّد صاحب نے یہاں ضرور کلمۂ حق بلند کیا ہوگا اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو ضرور شرم دلائی ہوگی کہ ان کے ارکان ٹیکس نہیں دیتے اور دروغ گوئی کا ارتکاب کرتے ہیں۔



اُمراء


 
میں کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے درویش بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ کہیں یہ وہی درویش تو نہیں جن کے بارے میں ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎

 

سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب


ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیادار بھی
 

powered by worldwanders.com