یہ واقعہ نہ جانے سچ ہے یا یار لوگوں نے محض ضیافتِ طبع کے لیے داستان تراشی سے کام لیا تھا، بہرحال مشہور ہے کہ جب چودھری فضل الٰہی مرحوم ملک کے صدر تھے تو ان کے گائوں سے کوئی سائل آیا اور چودھری صاحب سے گزارش کی کہ واپڈا میں کام اٹکا ہوا ہے نکلوا دیجیے۔ چودھری صاحب نے تھوڑی دیر کے لیے سوچا اور پھر فرمایا یار، وہاں میرا کوئی جاننے والا نہیں ہے۔
وزیراعظم جناب راجہ پرویز اشرف کا تعلق گوجر خان سے ہے۔ جس طرح گوجر خان کو، مبینہ طور پر، نوازا جا رہا ہے، اس سے گمان ہوتا ہے کہ محترم وزیراعظم اپنے آپ کو نہ جانے پورے ملک کا وزیراعظم سمجھ رہے ہیں یا نہیں۔ ہم بصد احترام ان کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ حکومت کے سربراہ ہیں اور یہ حکومت وفاقی حکومت ہے جس کا سکّہ شمال میں خنجراب سے لے کر جنوب میں سمندر تک رواں ہے۔ صحراست کہ دریاست تہہِ بال وپرِماست۔ مانا کہ بلوچستان میں حکومت کی رِٹ مشکوک ہے، کراچی میں قاتلوں اور بھتّہ خوروں کا راج ہے، قبائلی علاقے طالبان کے رحم و کرم پر ہیں اور وزیرستان میں کیا غیر ملکی جنگجو اور کیا ڈرون، ہر کوئی اپنی طاقت منوانے کی فکر میں ہے، لیکن ’’قانونی طور پر‘‘ جسے عرف عام میں ’’کاغذی طور پر‘‘ کہا جاتا ہے، وفاقی حکومت ہی سب سے بڑی اتھارٹی ہے اور اس حکومت کے سربراہ کسی ایک علاقے یا ڈویژن یا ضلع یا تحصیل کے نہیں، بلکہ پورے ملک کے وزیراعظم ہیں۔
بہت ہی قابلِ احترام وزیراعظم کو یہ یاددہانی اس لیے کرانا پڑی کہ پریس میں ان کے صوابدیدی فنڈ کے بارے میں عجیب و غریب خبریں آ رہی ہیں۔ خدا کرے کہ وہ درست نہ ہوں۔ نیا مالی سال شروع ہوا تو پارلیمنٹ نے وزیراعظم کے صوابدیدی اخراجات کے لیے بائیس ارب روپے کی منظوری دی۔ یہ بائیس ارب پورے سال کے لیے تھے۔ لیکن عملی طور پر یہ ہوا کہ پہلے چھ ماہ کے دوران ہی 37 ارب روپے اس مد میں خرچ ہو گئے۔ صحافیوں نے حساب لگایا ہے کہ اگر صوابدیدی رقم جناب وزیراعظم اسی رفتار اور اسی انداز سے خرچ کرتے رہے تو دو ماہ بعد آنے والے مارچ تک پچاس ارب روپے اُڑائے جا چکے ہوں گے۔
موجودہ وزیراعظم نے عنانِ اقتدار سنبھالی تو خواہش ظاہر کی کہ ان کے صوابدیدی فنڈ میں دس ارب روپے کا اضافہ کیا جائے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس رقم کا زیادہ حصہ جن منصوبوں پر صرف ہوا ان میں گوجر خان کا حلقہ بھی شامل تھا۔ اس کے بعد وزیراعظم نے ’’مزید‘‘ کا مطالبہ کیا تو وزارتِ خزانہ نے دوسرے رواں منصوبوں کا پیٹ کاٹا اور وسائل کا رُخ صوابدیدی اختیارات کی طرف موڑ دیا۔ جن منصوبوں کی چمڑی اس مقصد کے لیے اُتاری گئی ان میں دیامیر بھاشا ڈیم کا منصوبہ بھی شامل ہے! بلوچستان کے منصوبوں میں سے بھی پانچ سو ملین (پچاس کروڑ) روپے واپس لے لیے گئے۔ کچھ رقوم لواری سُرنگ کے منصوبے سے اور کچھ پشاور کے شمالی بائی پاس سے کاٹی گئیں۔ سندھ میں جو کام ہو رہے تھے مثلاً دراوٹ ڈیم، وہ بھی اس مسلسل بڑھتی ہوئی صوابدید سے متاثر ہوئے۔
وزیراعظم کے معاونین نے ’’رُخ موڑنے‘‘ کی اس ساری مشق کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ قانون وزیراعظم کو ان تبدیلیوں کی اجازت دیتا ہے اور وہ مجاز ہیں۔ یہ وہ دلیل ہے جس کی آڑ لے کر ہمیشہ اختیارات کے غلط استعمال کو جائز قرار دیا جاتا ہے اور یہ موجودہ حکومت ہی نہیں، بدقسمتی سے ہر حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا اختیارات کا استعمال صحیح ہو رہا ہے یا نہیں؟ درست ہے کہ قانون نے صوابدیدی اختیارات سونپے ہیں لیکن صوابدیدی اختیارات منصفانہ طور پر استعمال ہونے چاہئیں۔ اگر پتھر مارنا صوابدیدی اختیار ہے تو کیا چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھی کو اُڑانے کے لیے بھی پتھر مارا جا سکتا ہے؟ جس مذہب کے ہم پیروکار ہیں اس میں تو اعتدال کی تلقین کی گئی ہے۔ اس اعتدال کا صوابدیدی اختیارات پر بھی اطلاق ہوتا ہے!
جناب وزیراعظم کو اپنے انتخابی حلقے پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔ یہ ان کا حق ہے اور ان کے حلقے کے عوام کا بھی۔ لیکن یہ حق بھی اعتدال ہی سے ادا کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ انگشت نمائی شروع ہو جائے اور خدانخواستہ راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی کا روپ دھار لیں۔ نئے دن کے سُورج کو یہ سوچنا چاہیے کہ ایک سورج کل بھی نکلا تھا جس کا آج نام و نشان کہیں نہیں ؎
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
ہم جناب وزیراعظم کی خدمت میں عرض کریں گے کہ جس جگہ تشریف فرما ہو کر وہ اپنے باوقار منصب کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، اس کے اردگرد بھی ضرور نگاہ دوڑائیں۔ گئے زمانوں کے بزرگ کہا کرتے تھے کہ اپنی مَنجی (چارپائی) کے نیچے ضرور ڈانگ پھیرنی چاہیے۔ وزیراعظم کے محل نما دفتر سے ذرا ہی فاصلے پر راول ڈیم کی جھیل واقع ہے جس سے جڑواں شہروں کے لاکھوں افراد پینے کا پانی لیتے ہیں۔ اس جھیل میں گرنے والے نالے غلاظت سے بھرا پانی لا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ نے متعلقہ محکموں کے اہلکاروں کو بلا کر پند و نصیحت کی تھی لیکن وہ نصیحت ہی کیا جو سُنی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ کورنگ نالہ جو بارہ کَہُو سے گزر رہا ہے، سینکڑوں ہزاروں ٹرالیوں اور سوزوکیوں کا روزانہ ہدف بنتا ہے، مٹی کھود کر پاٹ الگ چوڑا کیا جا رہا ہے اور غلاظت پانی میں الگ ملائی جا رہی ہے۔
اسی طرح وزیراعظم کو اپنی بغلی بستیوں کی حالتِ زار پر بھی نگاہِ کرم کرنی چاہیے۔ پلاسٹک کے بنے ہوئے وزیراعظم شوکت عزیز چونکہ بہادر بہت تھے اس لیے افتتاحی کارروائیاں بھی وزیراعظم آفس کے اندر ہی سرانجام دیتے تھے۔ موصوف نے اعلان کیا کہ ایک نواحی بستی کو سوئی گیس عطا کی جا رہی ہے۔ اس کی افتتاحی تقریب انہوں نے اپنے دفتر میں منعقد کرنے کا حکم دیا! شوکت عزیز، کروڑوں روپے کی مالیّت کے سرکاری تحائف جو بیت المال میں جمع کرانے تھے، سمیٹ کر رفوچکر ہو چکے ہیں لیکن نواحی بستی کو گیس آج تک فراہم نہیں ہوئی!
اسی طرح وزیراعظم، چیف کمشنر اسلام آباد کو حکم دیں کہ چیف کمشنر صاحب شاہ پور کی راجہ اختر روڈ پر خاص طور پر اس روڈ پر واقع سٹریٹوں پر ذرا گاڑی چلا کر دیکھیں یا پیدل ہی چل کر دیکھیں کہ وزیراعظم کے محل کی بغل میں خلقِ خدا کس طرح پتھر کے زمانے میں رہ رہی ہے۔ تعجب ہے کہ جو بستیاں آثارِ قدیمہ کے عجائب گھروں کی زینت ہونا تھیں، وہ ایوانِ وزیراعظم کے پڑوس میں ’’آباد‘‘ ہیں اور لوگ ان میں زندگی ’’بسر‘‘ کر رہے ہیں۔ لیکن زبانِ حال سے وزیراعظم کو کہہ رہے ہیں ؎
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ براندازِ چمن! کچھ تو ادھر بھی
No comments:
Post a Comment