قائداعظم صبح بیدار ہوئے تو باہر پامسٹ انتظار کر رہا تھا۔ انہوں نے اُسے ہاتھ دکھایا اور اس کی کہی ہوئی باتوں پر سر ہلایا پھر ایک نجومی آیا۔ اس نے قائداعظم کا زائچہ بنایا انہیں بتایا کہ کون سا ستارہ کہاں ہے اور کون سا سیارہ کس طرف جا رہا ہے۔ پھر اس نے انہیں ہدایات دیں کہ وہ سفر کی ابتدا کس دن سے کریں، کتنے دن پہاڑوں کے قریب رہیں اور کتنا عرصہ سمندر کے قریب بسر کریں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ کتنے سال وہ مزید گورنر جنرل رہیں گے۔ پھر سرکاری ہیلی کاپٹر آیا جس میں سرکاری پٹرول تھا اور سرکاری ہی پائلٹ تھا۔ قائداعظم سوار ہوئے۔ اے ڈی سی بھی ساتھ تھا۔ ہیلی کاپٹر شمال کے پہاڑوں کی طرف روانہ ہوا اور ایبٹ آباد کے قریب ایک بستی میں اترا۔ سرکاری کار منتظر تھی۔ آپ سوار ہوئے اور بابا جی کی خدمت میں پہنچے۔ باباجی نے قائداعظمؒ کی پیٹھ پر ڈنڈوں کی نوازش کی۔ واپسی پر قائداعظم نے حکم دیا کہ سڑک جو باباجی کے گائوں کو جا رہی ہے، پختہ کی جائے اور باباجی کو سرکاری خرچ پر حج کرایا جائے۔ دوسرے دن قائداعظم اسمبلی پہنچے (یہاں یہ سوال نہ اٹھایئے کہ گورنر جنرل اسمبلی میں نہیں تشریف لے جاتے تھے کہ ہمارا موضوع مختلف ہے) تو ارکان اسمبلی درخواستیں لیے ان کے اردگرد جمع ہو گئے اور آپ نے ان درخواستوں پر دستخط کرنا شروع کر دیے۔ باہر نکلے تو ایک ممبر اسمبلی نے عرض کیا کہ اس کے عزیز کو ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت دی جائے آپ نے سپیکر سے بات کی کہ افسر کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں کسی بڑے منصب پر رکھ لیا جائے۔ گورنر جنرل ہائوس پہنچ کر آپ نے حکم دیا کہ آپ کی برادری کے جو لوگ بمبئی سے پاکستان آ گئے ہیں، انہیں اکٹھا کیا جائے۔ پھر آپ نے ان سے خطاب کیا اور بتایا کہ انہیں اپنی برادری کے لوگوں کی مشکلات کا احساس ہے۔ وہ جلد ایک تنظیم بنا رہے ہیں اور برادری کی بنیاد پر فلاحی کاموں کا ایک لمبا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ پھر آپ کے سامنے کچھ کاغذات رکھّے گئے۔ آپ نے حکم دیا کہ صوبے کے وزیراعلیٰ کی صاحبزادی کو پی آئی اے میں ڈاکٹر تعینات کیا جائے اور مسلم لیگ کے کارکنوں کو ایسی کارپوریشنوں میں ملازمتیں دی جائیں جہاں تنخواہ کے ساتھ مراعات کا پیکیج ضخیم ہو۔ شام کو آپ نے بمبئی سے تعلق رکھنے والے اٹھائیس نیم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ایف آئی اے میں بھرتی کرنے کے کاغذات پر دستخط کیے۔
کیا آپ کو ان اطلاعات پر یقین آ رہا ہے؟ ظاہر ہے آپ کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہیں۔ قائداعظم کے بدترین دشمن بھی ایسی کسی بات پر یقین نہیں کر سکتے۔ ہمارے بخت کی سیاہی یہ ہے کہ آج ہمارے سیاستدان یہ سب کچھ کر رہے ہیں، دن دہاڑے کر رہے ہیں، ببانگ دہل کر رہے ہیں، مسلسل کر رہے ہیں اور ہماری ذلّت کی انتہا یہ ہے کہ سیاستدانوں کی ان شرمناک سرگرمیوں کا دفاع کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں!
جب بھی سیاست دانوں کا کردار زیر بحث لایا جاتا ہے تو جواب یہ ملتا ہے کہ آخر بیوروکریٹ اور جرنیل کہاں کے فرشتے ہیں۔ لیکن دفاع کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ تحریک پاکستان کی قیادت کسی بیوروکریٹ یا کسی جرنیل کے ہاتھ میں نہیں تھی، ایک سیاست دان کے پاس تھی۔ آخر سیاست دان اور سیاست دانوں کے دفاع میں صفحوں کے صفحے کالے کرنے والے، سیاست دانوں کو جرنیلوں اور نوکر شاہی کی سطح پر کیوں لاتے ہیں؟ سیاست دان پالیسی ساز ہوتے ہیں۔ وہ سمت کا تعین کرتے ہیں۔ رہے بیوروکریٹ اور جرنیل تو وہ پالیسیوں کا نفاذ کرتے ہیں۔ وہ قوم کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتے۔
ہمارے آج کے سیاست دان نہ صرف یہ کہ وژن سے محروم ہیں بلکہ ان کا آئی کیو شرمناک حد تک ضعیف ہے۔ کچھ نیم تعلیم یافتہ ہیں اور کچھ چٹے ان پڑھ۔ آپ قائداعظم اور ان کے رفقائے کار کی تعلیم، ذہانت اور آئی کیو کو ذہن میں رکھیے اور پھر ان سچے واقعات پر غور کیجیے جو بعد میں آنے والے سیاست دانوں سے منسوب ہیں۔ ایک صاحب نے اپنے ماتحت بیورو کریٹ سے پوچھا کہ میں اس فائل پر کیا لکھوں، بیوروکریٹ نے ہاتھ سینے پر باندھ کر جواب دیا کہ حضور! آپ اس پر SEEN لکھ دیجیے۔ وزیر صاحب نے اردو کا ’’س‘‘ ڈال دیا۔ بھٹو کے زمانے میں پاکستان نیشنل کونسل برائے قومی یکجہتی بنائی گئی، اس کا ایک کام تقاریب کا اہتمام بھی تھا۔ متعلقہ وزیر نے ماتحتوں سے مشورہ کیا کہ کس موضوع پر تقریب منعقد کی جائے۔ کسی پڑھے لکھے منشی نے تجویز پیش کی کہ ابن خلدون کے بارے میں تقریب کرتے ہیں۔ وزیر صاحب نے بغل میں پڑے ہوئے میز سے موٹی ٹیلی فون ڈائرکٹری اُٹھا کر منشی کے آگے پٹخی اور حکم دیا کہ اسی وقت ابن خلدون سے میری بات کرائی جائے۔ یہ بھی سچا واقعہ ہے کہ شمالی علاقہ جات میں ایک وزیر ہسپتال میں نئے تعمیر شدہ لیبر روم کا افتتاح کر رہا تھا۔ تقریر میں اس نے یہ ارشاد فرمایا کہ ہماری حکومت نے لیبر کے لیے اتنا کام کیا ہے کہ ہسپتالوں میں بھی لیبر روم بنا دیے ہیں۔
آج کے سیاست دانوں کی ذہنی ساخت پر غور کیجیے تو آپ پکار اٹھیں گے۔ حیران ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ ایک سیاست دان نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کینیڈا میں مقیم پختونوں کے مسائل حل کرنے کے لیے جدوجہد کرے گی۔ پھر انہوں نے ہدایت جاری کی کہ کینیڈا میں مقیم تمام پختونوں کو متحد کرکے موثر تنظیم تشکیل دی جائے تاکہ وہاں پر آباد پختونوں کو مشکلات کے حل کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم فراہم کیا جائے۔ ہمارے سیاست دان کی اعلیٰ ذہانت کو یہ نہیں معلوم کہ کینیڈا اور اس قبیل کے ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں تمام شہریوں کی مشکلات یکساں طور پر حل کی جاتی ہیں اور لسانی یا علاقائی بنیادوں پر کچھ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ یہی تو ممالک ہیں جہاں پختون، پنجابی اور تمام پاکستانی متحد ہو کر رہ رہے ہیں جو بدقسمتی سے اپنے ملک میں ممکن نہیں! ہاں! اگر سیاست دان صاحب یہ فرماتے کہ کینیڈا میں پختونوں کو متحد کرکے خیبر پختونخواہ میں ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کے لیے آمادہ کیا جائے تو ایک بات بھی تھی۔
ہمارے آج کے سیاست دان کن خطوط پر سوچتے ہیں اور ان کے ذہن کس طرح کام کرتے ہیں، اس کا اندازہ ایک تازہ ترین خبر سے لگایئے… ’’ایڈیشنل سیکرٹری کو گریڈ اکیس سے ریٹائرمنٹ کے بعد سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے گریڈ بائیس میں سپیشل سیکرٹری لگا دیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری نے مدت ملازمت میں توسیع کے لیے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اور چیئرمین ریلوے کمیٹی کا دامن پکڑا تھا۔ انہوں نے میاں نوازشریف سے بات کی جنہوں نے سپیکر کو توسیع کا کہا جس پر فہمیدہ مرزا نے گریڈ اکیس کے ایڈیشنل سیکرٹری کو گریڈ بائیس میں تعینات کرکے کنٹریکٹ میں چھ مہینے کی توسیع کر دی۔
ذرا سوچئے، آج قائداعظم زندہ ہوتے تو کیا ہماری قسمت میں تھانے، کچہری سطح کے یہ سیاستدان ہوتے جن کا ذہن سفارش، اقربا پروری اور موروثی ’’سیاست‘‘ کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ اس لیے کہ کچھ اور سوچنے کی اہلیت ہی نہیں! پاکستان کا سفر سیاست کی کن بلندیوں سے آغاز ہوا تھا اور آج سیاست کن پستیوں میں لڑھک رہی ہے!!
1 comment:
آپ کا سارا مضمون شرم سے پانی پانی کئیے دے رہا مگر آپکے یہ الفاظ ”اور ہماری ذلّت کی انتہا یہ ہے کہ سیاستدانوں کی ان شرمناک سرگرمیوں کا دفاع کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں!“ ڈوب مرنے کا مقام ہیں۔
Post a Comment