Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, January 17, 2013

مُک مُکا


 ایک تخت حیدر آباد میں بچھا تھا جس پر نظام بیٹھا تھا۔ ایک لکھنؤ میں تھا جس پر واجد علی شاہ متمکن تھے اور بھنگن سے عقد کرکے اُسے مصفّٰی بیگم کا خطاب دے رہے تھے۔ پٹیالہ، کپورتھلہ، اَلوَر، جے پُور اور دوسری ریاستیں الگ تھیں۔ کہیں گڈّے اور گڑیا کی شادی پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے تھے اور کہیں کُتّے اور کتیا کے بیاہ پر اکیس ہزار پائونڈ لگ رہے تھے۔
تخت آج بھی بچھے ہیں۔ ایک تخت بلاول ہائوس میں بچھا ہے۔ اس پر شہزادہ بلاول بیٹھا ہے۔ سامنے ہاتھ باندھے خورشید شاہ، کائرہ صاحب، میاں رضا ربانی اور دوسرے معمر سفید سر سیاستدان کھڑے ہیں۔ ایک تخت لاہور میں ہے۔ اس پر شہزادہ حمزہ شہباز جلوہ افروز ہے۔ خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، احسن اقبال دربار میں ایستادہ ہیں۔ ایک اور راجدھانی گجرات میں ہے۔ شہزادہ مُونس الٰہی وہاں تخت نشین ہے۔ امیر حیدر خان ہوتی اور شاہی سید بھی شاہی خاندان سے ہیں۔ فرق اس زمانے میں اور اس زمانے میں یہ ہے کہ اس وقت عوام کو معلوم ہو جاتا تھا کہ گڈّے اور گڑیا اور کتے اور کتیا کے بیاہ پر کتنی دولت خرچ ہو رہی ہے اور کس راجے کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں۔ مثلاً نواں نگر کے جام صاحب کے پاس ایک سو ستاون کاریں اور اس کی بیگم کے پاس ایک ہزار سات سو ساڑھیاں تھیں۔ لیکن آج پاکستان کے عوام کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں کہ شہزادہ بلاول، شہزادہ حمزہ اور شہزادہ مونس الٰہی کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں۔ ان کا روزمرہ کا بجٹ کتنا ہے۔ ان کا بزنس آج کہاں تک پھیلا ہوا ہے اور پانچ سال پہلے کتنا تھا؟ ان کے بیرونی سفر ایک سال میں کتنے ہوئے ہیں اور ان پر کس قدر اخراجات اٹھے ہیں؟
عوام کے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ وفاق میں سرکاری خزانے کا کسی قدر حصّہ حکومتی پارٹی یعنی پیپلزپارٹی پر صرف ہو رہا ہے اور صوبے میں خزانے کا کتنا حصّہ حکومتی پارٹی یعنی مسلم لیگ نون پر خرچ ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ کے کتنے معاون صوبائی حکومت کے خرچ پر پَل رہے ہیں؟ کتنے محلات کو ’’چیف منسٹر ہائوس‘‘ قرار دیا گیا ہے اور ہر ماہ سرکاری خزانے سے کتنی رقم پولیس کے ان ارکان پر صرف ہو رہی ہے جو رائے ونڈ سے لے کر لاہور شہر کی آبادیوں تک پھیلے ہوئے اِن محلات پر پہرہ دے رہے ہیں؟
یہ ساری اطلاعات، یہ سارے اعداد و شمار، عوام کے علم میں اس لیے نہیں آتے کہ ہمارے شاہی خاندان ایک دوسرے کو تحفُّظ دے رہے ہیں۔ اس کی صرف ایک مثال دیکھیے۔ کل کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ… ’’پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں نیا قائدِ ایوان (وزیراعظم) لائے گی تو وہ اسے اعتماد کا ووٹ دے گی۔ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کی طرف سے بالواسطہ طور پر صدر زرداری کو یہ پیغام بھیجا گیا ہے کہ نئے قائدِ ایوان کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے ارکان نئے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دیں گے۔‘‘
اس صورت حال کے لیے انگریز جو جملہ بولتے ہیں وہ یہ ہے کہ تم میری پیٹھ کھجلائو، میں تمہاری پیٹھ کھجلاتا ہوں۔ فارسی میں کہتے ہیں کہ من ترا حاجی بگویم تُو مرا حاجی بگو، اور جو لفظ آج اس ملک میں زبان زدخاص و عام ہے وہ مُک مُکا ہے۔ پاکستان میں مُک مُکا اس قدر مستحکم ہے کہ اسے جَڑ سے اُکھاڑ پھینکنا آسان نہیں ہے۔ اس مُک مُکا کا ایک ادنیٰ سا کرشمہ یہ ہے کہ ایسے وفاقی وزیر کو جن کے بارے میں پورے پاکستان کو معلوم ہے کہ ان کے صاحبزادے کی شادی پر کراچی میں کُنڈا لگا کر بجلی حاصل کی گئی تھی اور جو سفارشی تعیناتیاں کرانے کے لیے مشہور و معروف ہیں، نیا وزیراعظم بنانے کے لیے غور و فکر ہو رہا ہے۔ ایسے ایسے ’’دیانت دار‘‘ اصحاب وزیر بنے ہوئے ہیں کہ ان کے بنک اکائونٹ میں چار چار کروڑ روپے جمع کرائے گئے اور پھر نکلوائے گئے۔ کسی شاہی خاندان کو ایسی کسی ’’صفت‘‘ پر کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔
اس ملک میں، بھلا ہو انگریزوں کا، حکومت کا اعلیٰ افسر بننے کے لیے ایک مقابلے کا امتحان پاس کرنا پڑتا ہے یہ امتحان ایک اعلیٰ اختیاراتی بلند مرتبہ ادارہ منعقد کرتا ہے۔ اس ادارے کا نام فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہے۔ مقابلے کا یہ امتحان دو سال کے عرصہ پر محیط ہوتا ہے۔ پہلے تحریری امتحان لیا جاتا ہے جس میں بارہ سے زیادہ پرچے ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ آنے میں کئی مہینے لگتے ہیں جو امیدوار اس تحریری امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں، ان کا لمبا چوڑا زبانی امتحان لیا جاتا ہے۔ اس زبانی امتحان سے پہلے ہر امیدوار کو نفسیاتی لحاظ سے جانچا جاتا ہے۔ اس کے بعد آخر میں حتمی انٹرویو ہوتا ہے جس میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چار یا پانچ ارکان موجود ہوتے ہیں اور کمیشن کا سربراہ صدارت کر رہا ہوتا ہے۔ اس انٹرویو پر آدھا گھنٹہ بھی لگ سکتا ہے، ایک گھنٹہ بھی اور اس سے زیادہ وقت بھی! پھر جب حتمی نتیجہ نکلتا ہے تو کامیاب امیدواروں میں سے بھی صرف ان خوش نصیبوں کو اعلیٰ ملازمتیں دی جاتی ہیں جن کے نام پہلی بار ڈیڑھ یا دو سو پوزیشنوں میں آتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ کُل کتنے امیدوار یہ امتحان دیتے ہیں اور کتنے کامیاب ہوتے ہیں؟ اوسط تعداد اس امتحان میں ہر سال بیٹھنے والے امیدواروں کی سات یا آٹھ ہزار ہوتی ہے۔ ہزاروں کی اس تعداد میں سے صرف چھ یا سات سو تحریری امتحان میں کامیاب ہو پاتے ہیں اور ان میں سے صرف ڈیڑھ یا دو سو امیدوار ملازمتیں حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ان افسروں کی تربیت کا مرحلہ آتا ہے جو کم از کم ایک سال کے عرصہ پر محیط ہوتا ہے۔ فارن سروس کی مثال لے لیجیے، جو نوجوان فارن سروس کے لیے اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد منتخب ہوتے ہیں وہ ایک سال کی تربیت سول سروس اکیڈیمی میں حاصل کرتے ہیں اور پھر ایک سال کی مزید تربیت وزارت خارجہ کے اپنی تربیتی ادارے میں لیتے ہیں۔ بیرونِ ملک تعیناتی کم از کم تین چار سال کے بعد کی جاتی ہے۔ لیکن آپ مُک مُکا کا معجزہ دیکھیے کہ اگر کوئی وفاقی وزیر ہے تو اس کی صاحبزادی ان سارے مراحل سے گزرے بغیر، امتحان میں بیٹھنے والے ہزاروں امیدواروں کا مُنہ چڑاتے ہوئے، براہ راست اپنے پسندیدہ ملک میں تعینات ہو جاتی ہے۔ اور ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کے ارب پتی افراد اس دھاندلی اور بدعنوانی پر آمنا و صدقنا کہتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے یورپ میں جو صورت حال تھی اس پر اقبالؒ نے کہا تھا     ؎
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
یوں لگتا ہے آج پاکستانی عوام کو کچلنے کے لیے شاہی خاندان اور ان کی غلام سیاسی جماعتیں مُک مُکا کی زرہ میں دوش تا کمر ڈوب چکی ہیں۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com