Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, October 10, 2024

واہ! ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب واہ !


''مجھے بلایا اسلام آباد میں کہ یتیم بچوں کو ملو۔ میں بولا ٹھیک ہے۔ میں بہت بِزی تھا۔ دس منٹ دوں گا۔ تقریر ختم ہو گئی تو خواتین‘ میں خواتین ہی بولوں گا‘ بالغ تھیں سب‘ سٹیج کے اوپر آ گئیں۔ میں بولا کیا ہو رہا ہے؟ کہا ''بچیاں ہیں۔ میری بیٹیاں ہیں‘‘۔ یہ کدھر کا تصور ہے۔ لڑکی جب بالغ ہو جاتی ہے‘ 13سال‘ 14سال‘ 15سال‘ آپ اس کو چھو بھی نہیں سکتے۔ میں اسلام پر تقریر کر رہا ہوں۔ پوری فوج آجاتی ہے۔ لڑکی لوگوں کی۔ کیا ہے یہ؟ یتیم خانے کا جو مالک تھا کہنے لگا: ڈاکٹر صاحب یہ میری بچیاں ہیں۔ میں بولا تم کو بھی چھونا حرام ہے۔ تیری بیوی کے پیٹ سے اگر پیدا ہوئی تو جائز ہے۔ میں سٹیج سے نیچے اُتر گیا۔ سوشل میڈیا پر لوگ کہہ رہے ہیں ارے ڈاکٹر صاحب نے غلط کیا۔ بچوں سے نہیں ملا۔ کیا ہو گیا ہے اس دیش (پاکستان) کو! آپ نابالغ‘ نا محرم کو چھو بھی نہیں سکتے۔ اور یہ پاکستان میں ہو رہا ہے! انڈیا میں جب ہندو مجھے بلاتے ہیں تو احترام کرتے ہیں۔ ہندو جب مجھے بلاتے ہیں تقریر کرنے کے لیے‘ احترام کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک لڑکیوں کو نہیں چھوتے۔ دور رکھتے ہیں۔ یہاں تو میں جب اسلام آباد میں گیا تو ٹیلی ویژن کی جو ہوسٹ ہے‘ میرے نزدیک آئی‘ سوال پوچھنے‘ میں پیچھے جا (ہَٹ) رہا ہوں‘ وہ آگے آرہی ہے۔ کیا ہو رہا ہے۔ آپ اگر یتیم بچوں کو کھانا دے رہے ہیں‘ آپ کو چھونے کا حق نہیں۔ پیسے والے ہیں۔ پیسہ غریبوں میں بانٹتے ہیں اور چھو سکتے ہیں! کیا بولتے ہو! لا حول والا قوۃ!‘‘
یہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کی اس تقریر کا اقتباس ہے جو انہوں نے اسلام آباد میں کی۔ یہاں چھ پہلوؤں پر بات کرنی ضروری ہے۔ اول یہ کہ ڈاکٹر صاحب سے کس نے مطالبہ کیا کہ آپ انہیں چھوئیں؟ 
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
وہ بار بار چھونے کی بات کر رہے ہیں جس کا یہاں موقع ہے نہ محل! دوم: شیلڈ بچیوں کو چھوئے بغیر بھی دی جا سکتی ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ شیلڈ یا انعام دیتے وقت ڈاکٹر صاحب کیسے چھو لیں گے؟ سوم: ان کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ تمام بچیاں بالغ ہیں؟ ان میں بہت چھوٹی بچیاں بھی شامل تھیں۔ سب بچیوں نے سر بھی مکمل طور پر ڈھانپے ہوئے تھے۔ چہارم: یہ کہنا کہ ''پیسے والے ہیں۔ پیسہ غریبوں میں بانٹتے ہیں اور چھو سکتے ہیں‘‘۔ بہت نامناسب بات ہے۔ یہ یتیم گھر کے منتظمین پر اور عطیات دینے والوں پر الزام بلکہ تہمت لگانے والی بات ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے چھوٹی بات کی! پنجم: ٹی وی کی خاتون ان سے بات کرنا چاہتی تھی۔ وہ آگے اس لیے آ رہی تھی کہ مائیک ان کے منہ کے سامنے رکھے۔ ڈاکٹر صاحب غلط سمجھے کہ وہ ان کو چھونا چاہتی ہے یا ان پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔ ششم: اگر خواتین کی موجودگی پر اعتراض تھا تو جن جلسوں میں وہ تقریریں کرتے ہیں ان میں بھی خواتین موجود ہوتی ہیں اور ڈاکٹر صاحب سے سوال جواب بھی کرتی ہیں۔ بالکل اسی طرح ڈاکٹر صاحب ٹی وی ہوسٹ سے بھی بات چیت ک

ر سکتے تھے۔ یتیم بچیوں کو دیکھ کر سٹیج سے اُتر جانا اور ٹی وی ہوسٹ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنا‘ اس سائیکی کو 

Paranoia 

ہی کہا جا سکتا ہے یعنی دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا جنون!
اس سے بھی زیادہ افسوسناک واقعہ یہ ہوا کہ ایک خاتون کے بالکل سیدھے سادھے سوال کو ڈاکٹر صاحب نے حیرت انگیز طور پر غلط معنی پہنائے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ خاتون کیا کہنا چاہتی تھی۔ پہلے خاتون کا سوال سنیے ''میں جس جگہ سے تعلق رکھتی ہوں وہاں مکمل مذہبی سوسائٹی ہے۔ وہاں خواتین بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں جاتیں۔ مرد کوئی نماز قضا نہیں کرتے اور ہر شبِ جمعہ کو دعوت الی اللہ پر نکلے ہوئے لوگوں کا بیان ہوتا ہے۔ حال ہی میں ایک بہت بڑا تبلیغی اجتماع بھی ہوا ہے وہاں۔ ہمارے علاقے کے تمام لوگ 

Religious 

ہیں۔ سر! میرا سوال یہاں یہ ہے کہ آپ کی وِزڈم کے مطابق کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ وہاں پر منشیات کی لت‘ بدکاری‘ پیڈوفیلیا(بچوں کی ساتھ جنسی زیادتی) سود اور اس طرح کی برائیاں جڑ پکڑ چکی ہیں۔ آپ کے نزدیک کیا وجہ ہے کہ سوسائٹی کا وہاں انہدام ہو رہا ہے۔ ہمارے علما انہیں کال آؤٹ کیوں نہیں کرتے؟ خاص طور پر پیڈو فیلیا کو؟‘‘
اب ڈاکٹر صاحب کا جواب ملاحظہ کیجیے۔ ''آپ کے سوال میں تکرار ہے۔ آپ کہتی ہیں میرا معاشرہ اسلامی ہے پھر بولتی ہیں پیڈو فیلیا ہے‘‘۔ یہاں خاتون وضاحت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب جھڑ ک دیتے ہیں اور اسے بولنے نہیں دیتے۔ پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں ''آپ نے جو سوال کیا ہے میرے حساب سے اس میں کنٹرا ڈکشن (تضاد) ہے۔ آپ نے کہا میرا معاشرہ بہت اسلامک ہے اور میرے معاشرے میں پیڈوفیلیا ہے۔ اسلامی ماحول میں پیڈوفیلیا ہو ہی نہیں سکتا۔ یا آپ کا پہلا پارٹ غلط ہے‘ آپ کو ماننا پڑے گا کہ سوال میں خطا ہے۔ آپ کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ میرا معاشرہ سمجھتا ہے کہ وہ اسلامک ہے‘ تو مانوں گا۔ اسی لیے کبھی کسی پر الزام لگانے سے پہلے دس بار سوچو۔ اگر آپ اللہ کے دربار میں یہ سوال کریں گی تو پھنس جائیں گی میری بہن! آپ کو معافی مانگنی چاہیے کیونکہ آپ کا سوال غلط ہے‘‘۔ یہاں خاتون پھر کوشش کرتی ہے کہ وضاحت کرے مگر ڈاکٹر صاحب اسے نہیں بولنے دیتے اور کہتے ہیں ''پہلے آپ کو قبول کرنا پڑے گا۔ اگر آپ قبول نہیں کرتیں تو میرا جواب ختم‘‘۔ یہاں خاتون کہتی ہے۔ او کے سر! میرے سوال کی نوعیت غلط تھی۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ''نوعیت غلط نہیں۔ سوال غلط ہے۔ آپ غلط ہیں‘‘۔ پھر ڈاکٹر صاحب سورۃ الحجرات کی آیت چھ کا حوالہ دیتے ہیں جس کا اس واقعہ پر اطلاق ہی نہیں ہو رہا۔ اور کہتے ہیں ''آپ سارے مجمع میں دہرا رہی ہیں۔ آپ اسلام پر تہمت لگا رہی ہیں اور آپ معافی بھی نہیں مانگ رہیں!‘‘
ڈاکٹر صاحب نے سوال کرنے والی ہی کو مجرم بنا دیا حالانکہ اس بیچاری کا مطلب وہ سمجھ چکے تھے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلامی ہیں مگر عمل ان کا الٹ ہے۔ لگتا ہے عمر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی قوتِ برداشت کم ہو رہی ہے۔ وہ زود رنج ہو گئے ہیں۔ شاید ہائی بلڈ پریشر کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ ایک اور مجمع میں (پاکستان میں نہیں) وہ ایک پروفیسر کو بار بار کہتے ہیں 

Keep your mouth shut 

یعنی اپنا منہ بند رکھو۔
ڈاکٹر صاحب پی آئی اے پر بہت غضبناک ہیں۔ انہی کی زبان سے سنیے ''میرا سامان ہزار کلو تھا۔ میں نے سی ای او سے بات کی اور کہا: سامان پانچ چھ سو کلو زیادہ ہے۔ کہنے لگا: پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ دوں گا۔ میں نے بولا: بھائی دے گا تو فری‘ ورنہ مت دے‘ میں نے ٹھکرا دیا۔ ارے انڈیا میں کوئی غیر مسلم مجھے دیکھے گا تو فری میں چھوڑ دے گا۔ یہ ہے انڈیا! یہ پاکستان ہے‘ میں سٹیٹ گیسٹ ہوں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک! ارے نہیں چاہیے تیرا ڈسکاؤنٹ! یہ پاکستان کا حال ہے۔ جو عزت مجھے انڈیا میں ملتی ہے۔ ہندو بولتے ہیں یہ تو بھگوان کا آدمی ہے۔ یہاں میں سی ای او سے بات کرتا ہوں۔ یہ حال ہے پاکستان کا۔ اتنے افسوس کی بات ہے۔ جو مزا وہاں انڈیا میں آتا ہے۔ مجمع اس سے بڑا!‘‘۔ اس پر کسی کمنٹ کی ضرورت نہیں۔ یہ وہی رویہ ہے کہ ''تم نہیں جانتے میں کون ہوں؟‘‘ وہ اپنے آپ کو قانون سے مبرا سمجھتے ہیں۔ نرگسیت ہے یا تکبر!!
بہر طور ڈاکٹر صاحب کو بلانے والوں کا مقصد پورا ہو گیا۔ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ گئی اور خوب ہٹی!

Tuesday, October 08, 2024

ایک بیٹی کی فریاد



'' میری عمر اس وقت 35 سال ہے۔ میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے خاندان کی رسم ہے کہ خاندان سے باہر رشتہ کرنا نیچ حرکت ہے۔ خاندان کے بڑے بوڑھے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ سات پشتوں سے اب تک ہم نے کبھی خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا۔ میں عمر کے 35ویں سال میں پہنچی ہوں‘ اب تک میرے لیے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں آیا جبکہ غیر خاندانوں سے کئی ایک رشتے آئے لیکن مجال ہے کہ میرے والدین یا بھائیوں نے کسی سے ہاں بھی کی ہو۔ میں اندر سے گھٹ گھٹ کر زندہ لاش بن چکی ہوں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں جب اپنی ہمجولیوں کو اُن کے شوہروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہوں تو دل سے درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔ یاخدا! ایسے پڑھے لکھے جاہل ماں باپ کسی کو نہ دینا جو اپنی خاندان کے ریت ورسم کو نبھاکر اپنی بچوں کی زندگیاں برباد کردیں۔ میرے درد کو مسجد کا مولوی صاحب بھی جمعہ کے خطبے میں بیان نہیں کرتا...
اے مولوی صاحب ذرا تو بھی سن!!! رات کو جب ابا حضور اور اماں ایک کمرے میں سو رہے ہوتے ہیں‘ بھائی اپنے اپنے کمروں میں بھابیوں کے ساتھ آرام کر رہے ہوتے ہیں تب مجھ پر کیا گزرتی ہے وہ صرف میں اکیلی ہی جانتی ہوں۔ اے حاکمِ وقت! تو بھی سن لے فاروق اعظمؓ کے زمانے میں رات کے وقت جب ایک عورت نے درد کے ساتھ ہجر کے اشعار پڑھے تو فاروق اعظمؓ نے ملازم شوہروں کے لیے حکم جاری کیا کہ کوئی شوہر اتنی مدت سے زیادہ اپنی فیملی سے دور نہ رہے۔ اے حاکمِ وقت‘ اے میرے ابا حضور‘ اے میرے ملک کے علما‘ اے میرے محلے کی مسجد کے امام صاحب‘ اے میرے شہر کے پیر صاحب! میں کس کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش کروں؟
کون میرے درد کو سمجھے گا؟ میری 35 سال کی عمر گزر گئی لیکن میرے ابا کا اب بھی وہی رٹ ہے کہ میں اپنی بچی کی شادی خاندان سے باہر ہرگز نہیں کروں گا۔ اے خدا تو گواہ رہنا بے شک تونے میرے لیے بہت سے اچھے رشتے بھیجے لیکن میرے گھروالوں نے وہ رشتے خود ہی ٹھکرا دیے اب کچھ سال بعد میرا ابا تسبیح پکڑ کر یہی کہے گا کہ بچی کا نصیب ہی ایسا تھا۔ اے لوگو! مجھے بتاؤ کوئی شخص تیار کھانا نہ کھائے اور بولے تقدیر میں ایسا تھا تو وہ پاگل ہے یا عقلمند۔ اللہ پاک نوالے منہ میں ڈلوائے کیا؟؟ یونہی اس مثال کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ میرے اور میرے جیسی کئی اوروں کے لیے اللہ نے اچھے رشتے بھیجے لیکن والدین نے یا بعض نے خود ہی ٹھکرا دیے۔ اب کہتے پھرتے ہیں کہ جی نصیب ہی میں کچھ ایسا تھا...‘‘
نہیں معلوم یہ تحریر اصلاً کس کی ہے۔ میں عام طور پر سوشل میڈیا سے کوئی تحریر نہیں اٹھاتا مگر اس تحریر کو پڑھ کر جو حالت ہوئی اس کا تصور ایک باپ ہی کر سکتا ہے یا ایک عورت! یہ پاکستان کے لاکھوں یا غالباً کروڑوں گھروں کی کہانی ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔ خود پاکستان میں لاتعداد تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی مٹی اوپر کر دی ہے۔ مگریہ سماجی برائی بدستور تباہی پھیلا رہی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنے اردگرد دیکھے تو کئی گھر ایسے دکھائی دیں گے جہاں بیٹیوں کے بالوں میں چاندی اُتر آئی ہے مگر وہ ماں باپ‘ دادا دادی اور برادری کے جھوٹے تکبر اور نسلی رعونت کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔ یہ دور افتادہ پسماندہ قصبوں اور بستیوں کی بات نہیں‘ پنجاب کے پڑھے لکھے لوگوں کی بات کی جا رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں بیٹھی ہیں۔ والد صاحب کی یا والدہ محترمہ کی ایک ہی پالیسی ہے کہ لڑکا ہماری ذات ہی کا ہو۔ مغل ہی ہو۔ گجر ہی ہو‘ ارائیں ہی ہو‘ اعوان ہی ہو‘ سید ہی ہو! ورنہ بیٹی کی‘ بہن کی شادی نہیں ہو گی! ان سے کوئی پوچھے کہ اس کا کیا فائدہ ہو گا؟ کوئی دنیاوی فائدہ؟ کوئی اُخروی فلاح؟ کیا سائنسی تحقیق نے بتایا ہے کہ اپنی ہی ذات میں شادی کرنے سے بچے جینیس پیدا ہوں گے اور نوبیل انعام جیتیں گے؟ یا قوی ہیکل ہوں گے اور کشتی لڑنے کے ماہر نکلیں گے؟ یا ایسا کرنے سے عمریں طویل ہوتی ہیں؟ یا دولت ہن کی طرح برستی ہے؟ کوئی اور فائدہ ہے تو بتایا جائے! میں ایک ایسے خاندان کو جانتا ہوں جہاں چار بہنیں چالیس سے اوپر کی ہو چکی ہیں مگر کوئی سید رشتہ نہیں مل رہا۔ ایک مغل خاندان ہے جو مغل لڑکے کی تلاش میں بیٹی کی بددعائیں لے رہا ہے۔ ایک گجر فیملی ہے جو گجروں سے باہر نہ نکلنے پر مُصر ہے۔ ایک اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ سید خاندان ہے۔ سب بڑے بڑے افسر ہیں مگر بیٹیاں جوانی کی دہلیز عبور کر کے ادھیڑ عمر کی ہو چلی ہیں۔ ایک اور صاحب نے بیٹی کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ بیٹی ملازمت کرتی تھی۔ والدین سے مایوس ہو کر اس نے اپنے ایک رفیقِ کار سے شادی کر لی۔
اُس دن سے لے کر آج تک والد نے بیٹی کی شکل نہیں دیکھی۔ اس نے بھی دوسرے جاہلوں کی طرح وہی منحوس فقرہ کہا ''تم ہمارے لیے مر چکی ہو‘‘۔ غلط کام خود کیا اور نفرین بیٹی پر بھیج رہا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے ایسے پسندیدہ اشخاص بھی نظر آتے ہیں جو ان بے سروپا خیالات سے چپکے رہنے کے بجائے اُس فرض سے سبکدوش ہوئے جو مذہب اور معاشرے نے ان پر عائد کیا۔ ایک اردو بولنے والے سید خاندان نے ایک بیٹی سندھی فیملی میں بیاہی۔ دوسری سرائیکی خاندان میں۔ دونوں داماد غیر سید ہیں۔ بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں اور آسودہ حال۔ ان کے ماں باپ انہیں خوش دیکھ کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ان پر مزید نوازشیں کرتا ہے۔
آپ اندازہ لگایئے۔ یہ ملک یونیورسٹیوں‘ کالجوں اور مدرسوں سے اَٹا پڑا ہے۔کہنے کو یہ ایٹمی طاقت ہے۔ لاکھوں لوگ مغربی ملکوں میں رہ رہے ہیں۔ مسجدیں نمازیوں سے چھلک رہی ہیں۔ مگر لاکھوں لڑکیاں والدین کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث اپنے اس حق سے محروم ہیں جو اللہ نے انہیں دیا ہے۔ ان شقی القلب والدین میں تھری پیس سوٹ پہننے والے مسٹر صاحبان بھی شامل ہیں اور عمامے اور چُغے زیب تن کرنے والے مذہبی افراد بھی! اور ان حضرات کی دلیل کیا ہے؟ کبھی کہیں گے کہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں! کبھی فلسفہ جھاڑیں گے کہ قدرت کو یہی منظور تھا۔ اپنا رشتہ تو زمین پر طے ہوا۔ بیٹی کی باری آئی تو آسمان کے ذمے لگا دیا!
یہاں اُن لالچی لوگوں کا ذکر بھی ضروری ہے جو جہیز کے طلبگار ہیں۔ جہیز کی وجہ سے ایک لڑکی سے شادی نہ کرنا ظلم ہے اور جہالت بھی۔ منطق اور کامن سینس کہتا ہے کہ ایسے لوگوں سے آخرت میں ضرور باز پرس ہو گی۔ ایسے لڑکے جو جہیز طلب کرتے ہیں اور لیتے ہیں‘ گداگروں کی طرح ہیں۔ عزتِ نفس سے عاری ہیں۔ اور معاشرے میں فساد اور برائی کے ذمہ دار ہیں۔ اُن عورتوں کو جو بہوؤں کو طعنے دیتی ہیں کہ تمہارے باپ نے آخر تمہیں دیا کیا ہے‘ شرم آنی چاہیے۔ ایک باپ نے اپنی لخت جگر تمہارے حوالے کر دی۔ اس سے زیادہ قیمتی چیز کیا ہو گی؟ ایسی عورتوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی اپنی بیٹیاں بھی ہیں!
اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ شادی اپنے ''کفو‘‘ میں کرنی چاہیے۔ تو کفو سے مراد یہ نہیں کہ اگر آپ مغل ہیں یا ارائیں یا اعوان تو رشتہ صرف مغل یا ارائیں یا اعوان ہی میں ہو۔ اگر لڑکی مغل ہے اور کروڑ پتی باپ کی بیٹی ہے اور لڑکا مغل ہے مگر مزدور ہے تو یہ کفو ہرگز نہیں۔ مناسبت‘ یعنی کفو مال‘ دین‘شرافت‘ مزاج اور پیشوں میں بھی ضروری ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ لڑکیوں کو ذات برادری والی ضد سے بچانے کے لیے مناسب قانون سازی کرے!

Monday, October 07, 2024

ہم گنڈاپوری عہد میں جی رہے ہیں


جو کچھ ہونے والا ہے‘ اس کا سوچ کر آپ خلجی‘ تغلق‘ لودھی اور مغل خاندانوں کی عظیم الشان سلطنتوں کو بھول جائیں گے۔ آپ اس انگریزی یلغار کو بھی فراموش کر بیٹھیں گے جو جنوب سے شروع ہوئی تھی اور پورے ہندوستان پر چھا گئی تھی۔ جو کچھ ہونے والا ہے اس کے سامنے آپ کو راجہ پورس‘ سکندرِ اعظم‘ احمد شاہ ابدالی‘ نادر شاہ اور رنجیت سنگھ جیسے سورما چوہے نظر آئیں گے۔
گنڈاپوری لشکر چل پڑا ہے۔ جن توپوں کے ساتھ شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے ابراہیم لودھی کے لشکرِ جرار کو دھول چٹوا دی تھی‘ وہ توپیں اب گنڈاپوری لشکر کے جلو میں ہیں۔ ان توپوں کو 20ہزار بیل کھینچ رہے ہیں۔ توپوں کے پیچھے جنگجو ہاتھیوں کی سیسہ پلائی دیوار کھڑی ہے۔ ایک ایک ہاتھی کے کجاوے پر پانچ پانچ بندوقچی متعین ہیں۔ ان بندوقچیوں کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوا۔ جس ہاتھی پر بہت بڑا سنہری چترِ بادشاہی نصب ہے‘ اس پر بانیٔ سلطنتِ گنڈاپوری‘ جناب گنڈاپور صاحب‘ خود بنفس نفیس تشریف فرما ہیں۔ ہاتھ میں تلوار ہے۔ کمر کے ساتھ خنجرِ آبدار لٹک رہا ہے۔ تاج پر لگے ہیرے اور موتی چمک رہے ہیں۔ ان کے دائیں بائیں جلو میں اور عقب میں تیر اندازوں کے دستے ہیں۔ سورج مغرب سے نکل سکتا ہے مگر ان تیر اندازوں کا تیر غلطی نہیں کر سکتا۔ کل شام کو گنڈاپوری لشکر نے دریائے سندھ کو عین اس جگہ سے عبور کیا جہاں جلال الدین خوارزم نے چھلانگ لگائی تھی۔ دریا عبور کرنے کے بعد گنڈاپوری لشکر نے اکبرِ اعظم کے بنائے ہوئے قلعے پر قبضہ کر لیا۔ آخری خبریں آنے تک وہ حسن ابدال میں عین اس جگہ پڑاؤ ڈالے ہیں جہاں شہنشاہ اورنگزیب نے قیام کیا تھا۔ شہنشاہ گنڈاپور نے اس جگہ دربار لگایا۔ خلعتیں تقسیم کیں۔ شاعروں نے قصیدے پڑھے۔ مساجد میں ان کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ یہیں سے شہنشاہ عالی جناب نے پنڈی‘ جہلم‘ لاہور اور سیالکوٹ کے حکمرانوں کو خطوط لکھے اور متنبہ کیا کہ ہتھیار ڈال دیں ورنہ ان کی اس تلوار کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں جو دشمنوں کے سر پر صاعقہ بن کر کوندتی ہے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان شہروں کے والی‘ عالم پناہ کی غلامی قبول کر کے ان کا باجگزار بننا اپنی دنیاوی اور اُخروی سعادت سمجھیں گے۔ شہنشاہ گنڈاپور لاہور کی بادشاہی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیں گے۔ پھر شاہی قلعے میں استراحت فرمائیں گے۔ گنڈاپوری لشکر کی اگلی منزل پانی پت کا میدان ہو گا۔ قصور سے گزرتے ہوئے آپ ایک ذیلی لشکر کو‘ جناب علی احمد خان کی قیادت میں کشمیر کی فتح کے لیے روانہ فرمائیں گے۔ جیسے ہی شاہی لشکر پانی پت کے میدان میں خیمہ زن ہو گا‘ جناب علی احمد خان کشمیر فتح کر کے لشکر سے آن ملیں گے۔ دنیا بھر کے جنگی مبصرین کو یقین ہے کہ دہلی کا حکمران گنڈاپوری لشکر کا سامنا کرنے سے گریز کرے گا۔ اسے شکست صاف دکھائی دے رہی ہو گی۔ دہلی شہر کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ شہنشاہ گنڈاپور‘ جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر شمشیر بدست کھڑے ہو کر سہ روزہ قتلِ عام کا حکم دیں گے۔ تاہم ڈیرہ اسماعیل خان کے جید علما کی پُر زور سفارش پر یہ فرمان منسوخ کر دیں گے اور شمشیر کو نیام میں ڈال لیں گے۔ دہلی کے قلعے اور قطب مینار پر گنڈاپوری پرچم لہرا دیا جائے گا۔ دہلی کو سلطنتِ گنڈاپوری کا دارالحکومت قرار دے دیا جائے گا۔ یہاں سے مختلف سمتوں کو عساکر روانہ کیے جائیں گے۔ جناب سعد قیصر 20 ہزار مسلّح اسپ سواروں کے ساتھ چتوڑ‘ گوالیار اور آگرہ کے شہر فتح کرنے نکل جائیں گے۔ جناب عامر ایوب خان بنگال‘ بہار اور اڑیسہ فتح کرنے جائیں گے۔ جناب جوہر علی خان ایک لشکرِ جرار کی کمان سنبھالتے ہوئے حیدر آباد‘ بنگلور اور چنئی کا رُخ کریں گے۔ ایک اور لشکر جناب حمید اظہر کی سربراہی میں مہاراشٹرا فتح کرنے جائے گا اور بمبئی کی بندرگاہ پر قبضہ کرے گا۔ بالی وُڈ کی تمام سرگرمیوں کو فی الفور ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کیا جائے گا۔ بہت جلد جناب عامر ایوب خان‘ جناب سعد قیصر اور جناب جوہر علی خان فتوحات کے پھریرے لہراتے‘ ایک لاکھ اونٹوں پر مالِ غنیمت لادے دارالحکومت حاضر ہوں گے۔ فتوحات کی خوشی میں دس روز تک جشن برپا ہو گا۔ بہادر کمانڈروں کو انعامات سے نوازا جائے گا۔ جناب جوہر علی خان کو حکم دیا جائے گا کہ گوا اور کیرالہ کو بھی فتح کریں۔ گنڈاپوری فتوحات کی برق رفتاری سے خوف زدہ ہو کر سری لنکا‘ افغانستان‘ نیپال‘ بھوٹان اور سکم کی ریاستیں اطاعت قبول کر لیں گی۔ جیسا کہ انگریز کیا کرتے تھے‘ ان ریاستوں میں گنڈاپوری امرا کو ریزیڈنٹ کے طور پر تعینات کیا جائے گا۔ یوں پورا برصغیر گنڈاپوری عملداری میں آ جائے گا۔
شہنشاہ گنڈاپور نظم و نسق کو درست فرمائیں گے۔ مالیہ جمع کرنے کے لیے ایک مضبوط نظام وضع فرمائیں گے۔ پورے برصغیر کو امن و امان کا گہوارہ بنا دیں گے۔ دوسرے ملکوں سے برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ برتری کی بنیاد پر تعلقات قائم کریں گے۔ ایشیا کے تمام ملک گنڈاپوری سلطنت کو خراج میں گھوڑے‘ اونٹ اور کنیزیں پیش کریں گے۔ لیکن شہنشاہ معظم خراج پر اکتفا نہیں کریں گے۔ بہت جلد برما پر فوج کشی کا حکم دیں گے۔ کاکس بازار کے مقام پر ہولناک جنگ ہو گی۔ رنگون فتح کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد شہنشاہ گنڈاپور بنفس نفیس تھائی لینڈ پر حملہ کریں گے۔ تھائی لینڈ کے عوام اور افواج مقابلہ کریں گے مگر گنڈاپوری طریقِ جنگ کے سامنے بے بس ہو جائیں گے۔ بنکاک پر گنڈاپوری افواج کا قبضہ ہو جائے گا۔ بنکاک ایئر پورٹ کو ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کر دیا جائے گا۔ تھائی لینڈ کے بادشاہ کو پنشن دے کر منوڑا (کراچی) میں نظر بند کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد دربارِ عام لگے گا۔ شہنشاہ گنڈاپور تختِ شاہی پر نزولِ اجلال فرما کر استفسار فرمائیں گے کہ تھائی لینڈ سے آگے کون کون سی اقلیمیں اور ولایتیں واقع ہیں۔ دربار کے علما نقشہ پھیلا کر کچھ بتانے کی کوشش کریں گے مگر حکم صادر ہو گا کہ نقشہ ہٹا کر صرف ملکوں کے نام بتائے جائیں کہ نقشہ کا مطالعہ کرنے میں عالم پناہ کو کوفت ہوتی ہے۔ عرض کیا جائے گا کہ اس سے آگے کمبوڈیا‘ لاؤس اور ویتنام ہیں۔ حکم صادر ہو گا کہ ان ممالک کو فتح کر کے سلطنتِ گنڈاپوری کے صوبوں میں تبدیل کیا جائے۔ کچھ عرصہ کے بعد شہنشاہ گنڈاپور ایک اور انگڑائی لیں گے۔ لشکر لیے‘ منزلوں پر منزلیں مارتے ایک طرف برونائی کے تیل کے کنووں پر قبضہ کر لیں گے‘ دوسری طرف ملائیشیا اور سنگاپور پر گنڈاپوری پرچم لہرانے لگے گا۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرے گا کہ انڈو نیشیا اور ایسٹ تیمور کے ممالک اطاعت قبول کر لیں گے۔ شہنشاہ گنڈاپور اپنی ذات بابرکات کے لیے شہنشاہِ ہند و شرق الہند و مشرقِ بعید کا لقب پسند فرمائیں گے۔
یہ وہ وقت ہو گا جب سلطنتِ گنڈاپوری کا نام دنیا کی عظیم ترین طاقتوں میں شمار ہو گا۔ جاپان اور روس کے نمائندے اذنِ حضوری کے لیے ہفتوں انتظار کریں گے۔ بڑے بڑے ملکوں کے سربراہ فیصلے کرنے سے پہلے شہنشاہ گنڈاپور کی رائے اور مشورہ لینا ضروری سمجھیں گے۔ انہیں ہمہ وقت یہ خدشہ لاحق رہے گا کہ گنڈاپوری لشکر خدانخواستہ ان کے ملکوں کا رُخ نہ کر لے۔ آگ اور خون کے اس سیلِ رواں سے بڑی بڑی سلطنتیں لرزہ براندام ہوں گی!
ہم گنڈاپوری عہد میں جی رہے ہیں! ہم خوش قسمت ہیں! شہنشاہ گنڈاپور کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ رہے!

Thursday, October 03, 2024

نیوزی لینڈ

تلخ نوائی —- نیوزی لینڈ

جہاز میں داخل ہوا توکچھ مسافر ایشیائی شکل و صورت کے دکھائی دیے۔ ان کی جسامتیں بڑی تھیں اور وہ بھاری بھرکم تھے۔ مگر ایشیائی تو اس تن و توش کے مالک نہیں ہوتے۔ تو یہ کون تھے؟ نیوز ی لینڈ پہنچنے کے بعد اس نوع کے بہت سے مرد اور عورتیں دیکھیں۔ معلوم ہوا یہ وہ لوگ ہیں جو انگریزوں کی آمد سے پہلے سے نیوزی لینڈ میں رہ رہے تھے۔ ان کے آباؤ اجداد سینکڑوں سال پہلے تائیوان اور جنوب مشرقی ایشیا سے آئے تھے۔ یہ لوگ ماؤری کہلاتے ہیں اور نیوزی لینڈ کی کل آبادی کا 18 فیصد ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آسٹریلیا کے اصل باشندے ایبوریجنل 
(Aboriginal) 
کہلاتے ہیں۔ انگریز آئے تو ان اصل باشندوں پر بہت ظلم ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کے بچے تک اٹھائے جاتے رہے۔ جس طرح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ایک بنیادی فرق ہے‘ اسی طرح آسٹریلیا کے ایبوریجنل اور نیوزی لینڈ کے ماؤری باشندوں میں بھی بنیادی فرق ہے۔ آسٹریلیا میں بنیادی طور پر مجرموں اور سزا یافتہ انگریزوں کو آباد کیا گیا تھا جبکہ نیوزی لینڈ میں آنے والے انگریز آزاد تھے۔ اسی طرح آسٹریلیا کے ایبوریجنی لوگ ہمیشہ سے آسٹریلیا ہی میں رہتے ہیں۔ یہ شکل‘ رنگ اور نقوش سے کچھ کچھ جنوبی بھارت کے لوگوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ لاکھوں سال پہلے آسٹریلیا برصغیر ہند و پاک سے جڑا ہوا تھا۔ کسی بہت بڑے حادثے کے نتیجے میں آسٹریلیا الگ ہوا اور خشکی کا یہ بہت بڑا ٹکڑا جنوب مشرق کی طرف چلا گیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایبوریجنی افریقہ سے آئے۔ بہر طور ایبوریجنی لوگ آسٹریلیا کی اکثریتی آبادی میں آج تک گھل مل نہیں سکے۔ اس کے برعکس ماؤری خوش شکل لوگ ہیں۔ ان میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ یہ نیوزی لینڈ کے سماج سے جڑے ہوئے یعنی 
well integrated 
ہیں۔ میڈیا‘ سیاست اور کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی موجودہ گورنر جنرل بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ خوش شکل ماؤری خاتون ہے۔ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ نیوزی لینڈ اور گیارہ دوسرے ملکوں کا بادشاہ اور ریاست کا سربراہ آج بھی برطانیہ کا بادشاہ ہے۔ ان ملکوں میں گورنر جنرل بادشاہ ہی کا نمائندہ ہوتا ہے۔ موجودہ ماؤری خاتون گورنر جنرل سے پہلے بھی دو ماؤری مرد نیوزی لینڈ کے گورنر جنرل رہ چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں آسٹریلیا میں کوئی ایبوریجنی گورنر جنرل نہیں رہا۔ ہاں ایک ریاست کا گورنر ضرور ایبوریجنی رہا ہے۔ ماؤری لوگ جب کوئی تقریب کرتے ہیں یا خوشی مناتے ہیں تو بہت شور مچاتے ہیں۔ چیختے اور چنگھاڑتے ہیں۔ پوری زبان بار بار باہر نکالتے ہیں۔ اس ساری سرگرمی کو ''ہاکا‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ عورتیں ٹھوڑی پر نقش و نگار بناتی ہیں‘ یوں لگتا ہے فرنچ کٹ داڑھی رکھی ہوئی ہے۔
آج سے ہزار‘ نو سو سال پہلے نیوزی لینڈ میں کوئی آدم‘ آدم زاد نہیں تھا۔ ماؤری اسکے بعد آئے۔ 1642ء میں ڈَچ مہم جُو ایبل تسمان یہاں آیا۔ اسکے ملک یعنی نیدر لینڈز میں ایک علاقے کا نام زی لینڈ تھا۔ اس نسبت سے اس نے ان جزیروں کا نام نیوزی لینڈ رکھ دیا۔ نیوزی لینڈ کی آبادی صرف 53 لاکھ ہے۔ دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی چیزیں برآمدات کا 18 فیصد ہیں۔ کہیں بھی چلے جائیں‘ شاہراہوں کے دائیں بائیں گائیں چرتی نظر آتی ہیں۔ سبزہ زار اور چراگاہیں میلوں تک دکھائی دیتی ہیں۔ گائیں باندھی نہیں جاتیں‘ رات کو نہ دن کو۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ملک کا 80 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل تھا۔ انگریز آئے تو جنگلات کو کاٹا اور چراگاہیں بنائیں تاکہ مویشی پالے جا سکیں‘ چنانچہ اب جنگلات ملک کے کل رقبے کا صرف 23 فیصد رہ گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ دنیا کے ٹاپ کے کرپشن فری ملکوں میں گنا جاتا ہے۔ اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے‘ 1893ء میں اِسی نے عورتوں کو ووٹ کا حق دیا۔ تعلیم کا معیار بلند ہے۔ خواندگی 99 فیصد ہے۔ اس ملک کی آٹھ یونیورسٹیاں دنیا کی ٹاپ کی تین فیصد یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔ یہاں چین کے بعد طلبہ کی سب سے زیادہ تعداد بھارت سے تعلق رکھتی ہے۔ پاکستانی طلبہ اور طالبات کیلئے یہاں کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بہت مواقع ہیں۔
ہمارا جہاز آک لینڈ اُترا۔ آک لینڈ نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی 17 لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ دارالحکومت ویلنگٹن کی آبادی اڑھائی لاکھ سے زیادہ نہیں۔ آک لینڈ کے بازار‘ مال اور ریستوران دیکھنے کے بجائے‘ جو ہر شہر میں ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں‘ ہم نے اصل نیوزی لینڈ دیکھنے کا فیصلہ کیا اور تین گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ایک قصبے ''وائٹی اینگا‘‘ میں ڈیرے ڈال لیے۔ یہ ایک خوابیدہ‘ سرسبزو شاداب قصبہ تھا۔ پھولوں‘ درختوں اور پودوں سے بھرا ہوا۔ آدم‘ آدم زاد کوئی نہیں نظر آرہا تھا۔ نظر بھی کیا آتا‘ قصبے کی آبادی ہی ساڑھے چھ ہزار تھی۔ ہاں جب ہم ٹاؤن سنٹر میں گئے تو لوگ دیکھے۔ سمندر کے کنارے رونق تھی۔ پارکوں میں بچے کھیل رہے تھے۔
 Beach 
پر گئے تو رش تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہر مرد و زن نے بیلچہ اٹھایا ہوا تھا۔ ذرا آگے گئے تو دیکھا کہ سب بیلچے سے پانی کے نیچے ریت کھود کھود کر ایک طرف کر رہے ہیں۔ گڑھا سا بن جاتا تھا تو پانی میں بیٹھ جاتے تھے۔ شدید سردی کے باوجود یہ پانی گرم ہوتا تھا۔ قدرت کا کرشمہ تھا کہ اوپر سخت ٹھنڈا پانی اور نیچے گرم‘ آرام دہ! ایک سردار صاحب بچوں اور پوتوں کے ساتھ دکھائی دیے۔ بات چیت ہوئی تو پاکستان کی بے پناہ تعریفیں کرنے لگے۔ کہنے لگے کہ ننکانہ صاحب‘ حسن ابدال‘ لاہور‘ پنڈی‘ گوجرانوالہ‘ جہاں بھی گئے پاکستانیوں نے بہت خیال رکھا‘ مہمان نوازی کی اور عزت سے پیش آئے۔ بس پر بیٹھے تو بس کے منیجر (یا مالک) نے سب سے آگے والی سیٹ پر بٹھایا اور ڈرائیور کو تاکید کی کہ بس جہاں بھی رکے‘ سردار صاحب کی خاطر تواضع کرنی ہے۔ ان سردار صاحب کے ماموں اور خالائیں تقسیم کے وقت پاکستان ہی میں رہ گئے تھے۔ بعد میں مسلمان ہو گئے۔ یہ انہیں ملنے پاکستان آتے رہتے ہیں۔ وائٹی اینگا کے قصبے میں پاکستانی ریستوران نہیں دکھائی دیا۔ انڈین ریستوران موجود تھا۔ مرغی کا گوشت حلال تھا اور بکرے کا غیر حلال۔ سالن میٹھا تھا۔ ریستوران کا پنجابی منیجر کہنے لگا کہ گورے مرچیں نہیں کھاتے‘ اس لیے ہم سالن میں چینی بھی ڈال دیتے ہیں۔ شکر کیا کہ دال میٹھی نہیں تھی۔ کھائی اور بہت سی کھائی۔
نیوزی لینڈ کے 53 لاکھ افراد نے اپنے ملک کو سلامتی‘ امن اور اقتصادی خوشحالی کا گہوارا بنا رکھا ہے۔ کرپشن صفر ہے۔ جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ پہاڑوں‘ جھیلوں‘ دریاؤں اور سمندر کا حسن قدرت نے دیا ہے اور معاشرتی حسن کا کریڈٹ ملک کے باشندوں کو جاتا ہے۔ زراعت کو انڈسٹری کا درجہ دیا گیا ہے۔ گوشت‘ دودھ‘ مکھن‘ پنیر‘ پھل اور خشک میوے بر آمد کیے جاتے ہیں۔ امن و امان کی وجہ سے سیاح لاکھوں میں آتے ہیں اور ملکی آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ نیوزی لینڈ سے سبق ملتا ہے کہ ترقی یافتہ کہلانے کیلئے بھاری صنعتوں کا ہونا ضروری نہیں۔ عقل اور دیانت ہو تو زرعی ملک بھی ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے نظم‘ انصاف اور رُول آف لاء کی ضرورت ہے۔ جتنے دن نیوزی لینڈ میں گزرے‘ گمشدہ شاعر شبیر شاہد کے یہ اشعار مسلسل ذہن میں گونجتے رہے:
بہار کی دھوپ میں نظارے ہیں اس کنارے
سفید پانی کے سبز دھارے ہیں اس کنارے
وہاں کی صبحوں کا رنگ ہے فاختاؤں جیسا
دُھلے ہوئے آسمان سارے ہیں اس کنارے
کسان دل شاد کھیت آباد ہیں وہاں کے
سفید بھیڑیں ہیں سبز چارے ہیں اس کنارے

Tuesday, October 01, 2024

ہر الزام تحریک انصاف پر مت دھریے


لطیفہ ہے یا واقعہ۔ خاتون نے گاڑی سرخ سگنل پر روکی۔ بھکاری مانگنے آیا۔ خاتون نے اسے دیکھا تو کہا: تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ بھکاری نے دانت نکالے اور کہنے لگا ''باجی! ہم فیس بک پر ایک دوسرے کے دوست ہیں‘‘۔
یہ اگر لطیفہ ہے تو اسے لطیفہ نہیں‘ سانحہ کہنا چاہیے۔ اس لیے نہیں کہ بھکاری انسان نہیں۔ اس لیے کہ سوشل میڈیا نے باہمی پردے ہٹا دیے ہیں۔ طبقات ایک دوسرے کے ساتھ مکس ہو رہے ہیں۔ جو لوگ نرم گفتار‘ وضعدار اور مہذب ہیں‘ اب وہ ان لوگوں سے نہیں بچ سکتے جو گالیاں دیتے ہیں‘ آوازے کستے ہیں اور ایک خاص طرزِ زندگی رکھتے ہیں۔ آپ اُس محلے میں بچوں کو نہیں رکھنا چاہتے جس میں غنڈے اور بدمعاش رہتے ہیں۔ آپ کسی بہتر آبادی میں منتقل ہو جاتے ہیں‘ مگر آپ ان غنڈوں اور بدمعاشوں سے نہیں بچ سکتے۔ اب وہ سوشل میڈیا پر آپ کو آ ملتے ہیں۔ ساری احتیاط دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ میر تقی میر بیل گاڑی پر دلّی یا لکھنؤ جا رہے تھے۔ سارا راستہ ہم سفروں سے بات نہ کی کہ زبان پر برا اثر پڑے گا۔ کیا اچھا زمانہ تھا کہ خراب زبان بولنے والوں سے بچا جا سکتا تھا اور بچوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ میر صاحب آج کی دنیا میں ہوتے تو شاید کپڑے پھاڑ کر جنگل کو سدھار جاتے۔
پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت
ایسے گھرانوں کے لڑکے لڑکیاں‘ جو ''آپ‘‘ کے عادی ہیں‘ اور جنہیں ان کے ماں باپ نے کبھی ''تم‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا‘ اب ان بچوں سے فیس بک پر دوستیاں کر رہے ہیں جنہیں کھانے کی تمیز ہے نہ پہننے کی نہ بات کرنے کی‘ جنہیں بڑوں کا ادب کرنا سکھایا ہی نہیں گیا۔ میں اخبار کی ویب سائٹ پر اپنے کالم کے نیچے جب ان لوگوں کے کمنٹ پڑھتا ہوں جو گالیاں دیتے ہیں‘ بدتمیزی کرتے ہیں‘ ذاتی حملے کرتے ہیں اور موضوع سے ہٹ کر ناشائستہ کلمات لکھتے ہیں تو سوچتا ہوں ویب سائٹ سے پہلے کا زمانہ کتنا بھلا تھا‘ اس قماش کے لوگوں کو نزدیک پھٹکنے کا بھی موقع نہیں ملتا تھا! کس کی مجال ہے کہ آپ کو راہ چلتے روکے اور کھڑا کر کے بتائے کہ وہ کل لاہور جا رہا ہے جہاں فلاں شخص اسے لنچ کھلائے گا۔ مگر سوشل میڈیا آپ کھولتے ہیں تو یہی شخص آپ کو اپنی تمام مصروفیات سے مکمل طور پر آگاہ کر رہا ہوتا ہے جن سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ آپ سوشل میڈیا کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو سوشل میڈیا کے فوائد سے‘ مثبت پہلوؤں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں!
بیکری کے جس لڑکے نے چیف جسٹس کے ساتھ بدتمیزی کی‘ یہ بھی سوشل میڈیا ہی کا شاخسانہ ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ کچھ خاص پڑھا لکھا نہیں تھا۔ سوشل میڈیا نہ ہوتا تو اسے بھڑکایا نہ جا سکتا۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان ہونے والی بحثیں اَن پڑھوں یا نیم تعلیم یافتہ لوگوں میں پہنچ گئیں۔ مسلکی حوالے سے بات کی جائے تو یہ نکتہ آسانی سے سمجھ میں آ جائے گا۔ سوشل میڈیا سے پہلے مسلکی بحثیں علما کے درمیان ہوتی تھیں۔ زیادہ سے زیادہ جلسوں میں علما کی تقریریں ہو جاتی تھیں۔ ان جلسوں میں وہی لوگ جاتے تھے جن کی ان معاملات میں خاص دلچسپی ہوتی تھی‘ مگر اب مسلکی معاملات یوٹیوب اور وٹس ایپ کے ذریعے ہر اس شخص تک بھی پہنچ گئے ہیں جس کا علم انتہائی سطحی ہے اور وہ مشتعل بھی ہو رہا ہے۔ اسے گالی دینے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں۔ اس لیے وہ اپنے مخالف مسلک کو گالی دے کر اپنی دانست میں اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔
اس صورتحال سے کیسے نکلا جائے؟ سوشل میڈیا کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ ٹوپی چھوٹی ہے۔ سر کو چھوٹا کرنا ممکن نہیں۔ ٹوپی کو بڑا کرنا پڑے گا۔ جو سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں انہیں بدلنا ہو گا۔ انہیں سکھانا ہو گا کہ بات کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ شائستگی کسے کہتے ہیں۔ تہذیب کیا ہے؟ میں تحریک انصاف کا حامی نہیں۔ اگست 2018ء سے پہلے میں اس کا سخت حامی تھا مگر اس کے حکومت میں آنے کے بعد میری اُمیدیں خاک میں مل گئیں۔ اب میں اس کا مخالف ہوں‘ مگر میں یہ ماننے سے قاصر ہوں کہ بدتمیزی اور ناشائستگی انہوں نے سکھائی۔ کیا تحریک انصاف نے بدتمیزی سکھانے کے لیے خصوصی کورس کرائے؟ کیا گالیاں سکھانے کی کلاسیں لگائیں؟ نہیں ایسا نہیں! یہ تو ہمارے معاشرے کا وہ وصف ہے جو تحریک انصاف کی پیدائش سے پہلے کا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بحث ہمیشہ لڑائی اور دشنام طرازی پر ختم ہوتی آئی ہے۔ مسلکی بنیادوں پر خاندانوں میں جھگڑے ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں۔ ہمارا شعار ''جناب‘‘ کبھی بھی نہیں رہا۔ ہمیشہ ''اوئے‘‘ رہا ہے۔ جس سوسائٹی میں بات بات پر نکاح ٹوٹنے کی خوشخبری دینا عام چلن ہو‘ وہاں کوئی اور گالی سننے پر تعجب کیسا؟

Vulgarity

 ایسا وسیع لفظ ہے جس کا مجھ کم مایہ کو مترادف نہیں مل رہا۔ ہمارا معاشرہ 

Vulgarity  


کی انتہا پر پہنچ چکا ہے۔ اس لفظ کا مطلب بے ہودگی بھی ہے‘ اوچھا پن بھی‘ گنوار پن بھی‘ سفلہ پن بھی‘ ابتذال بھی‘ پستی بھی‘ رذالت بھی اور سوقیانہ پن بھی! یہ تمام اوصاف آج کے معاشرے میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ گالی دینا ہمارا تکیہ کلام ہے۔ بازار سے ایک بار گزر جائیں تو درجنوں گالیاں کانوں میں پڑتی ہیں۔ ہم آہستہ آواز میں بات ہی نہیں کر سکتے۔ ریل گاڑی میں ایک مسافر فون کرتا ہے تو پورا ڈبہ سنتا ہے۔ سونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ جب تہذیب ہماری زندگی میں کہیں بھی نہیں تو صرف بدزبانی اور دشنام دہی پر اعتراض کیسا؟ کیا ہماری ٹریفک مہذب ہے؟ کیا ہم دوسرے کی باری کا احترام کرتے ہیں؟ کیا ہم گاڑی کے پیچھے گاڑی پارک نہیں کرتے؟ کیا ہم ہسپتالوں‘ عدالتوں‘ تھانوں‘ مسجدوں پر حملے نہیں کرتے؟ کیا ہاتھا پائی ہمارے ہاں عام نہیں؟ کیا ہم دعوتوں میں ایسا مظاہرہ نہیں کرتے جس سے جانور شرما جائیں؟ تحریک انصاف کے نوجوانوں نے وہی گالیاں دہرائی ہیں جو ہمارے معاشرے میں پہلے سے عام ہیں اور جو بزرگوں کے منہ سے یہ نوجوان سنتے آئے ہیں۔
یہ والدین کا اور اساتذہ کا فرض ہے کہ اس کلچر کو تبدیل کریں۔ بچوں کو بتائیں‘ سکھائیں اور اپنے عمل سے دکھائیں کہ وہ آہستہ بولیں‘ چیخیں نہیں‘ گالی نہ دیں‘ اختلاف رائے میں دوسرے کا احترام کرنا نہ بھولیں‘ بحث میں طعن وتشنیع سے نہیں دلیل سے کام لیں‘ اپنی غلطی ماننا سیکھیں‘ زبان سے یا عمل سے دوسرے کو تکلیف نہ دیں۔ دعوتوں میں انسانیت اور تہذیب کا مظاہرہ کریں۔ بچوں کو یہ بھی سکھانا ہوگا کہ مذہبی‘ مسلکی اور سیاسی بحثوں سے پرہیز کریں۔ ایسی بحثیں سنیں نہ ان میں حصہ لیں۔ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ویلے ہیں یعنی فارغ! جن معاشروں میں وقت کی پابندی ہے اور مصروفیت‘ ان میں بحث اور لڑائی کے لیے لوگوں کے پاس وقت ہی نہیں! ہمارے ہاں صبح دفتر یا سکول کالج‘ یا کارخانے میں دیر سے پہنچنا عام ہے۔ اس لیے رات بحث‘ جنگ و جدل اور گالی گلوچ میں گزر جائے تو کیا غم ہے۔ کون سا صبح آٹھ بجے کام پر پہنچنا ہے؟ امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا‘ جاپان‘ ہر جگہ ڈنر غروبِ آفتاب کے وقت یا اس سے بھی پہلے ہوتا ہے۔ بازار سرشام بند ہو جاتے ہیں‘ لوگ نو بجے بستروں میں ہوتے ہیں! کیوں؟ اس لیے کہ صبح کام پر پہنچنا ہے اور وقت پر پہنچنا ہے۔ ہمارا تو دن ہی مغرب کے بعد شروع ہوتا ہے۔ راتیں جاگتی ہیں اور دن نکمے پن میں گزرتے ہیں۔ وقت وافر ہے۔ تین چار گھنٹے سیاسی یا مسلکی بحث میں گزر جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ ہمارے سیاستدان بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ وہ بھی ٹاک شو میں ایک دوسرے پر پل پڑتے ہیں۔ کروڑوں فارغ اور نکمے لوگ ایک دوسرے کو گالیاں نہ دیں تو وقت کیسے کٹے؟

 

powered by worldwanders.com