''مجھے بلایا اسلام آباد میں کہ یتیم بچوں کو ملو۔ میں بولا ٹھیک ہے۔ میں بہت بِزی تھا۔ دس منٹ دوں گا۔ تقریر ختم ہو گئی تو خواتین‘ میں خواتین ہی بولوں گا‘ بالغ تھیں سب‘ سٹیج کے اوپر آ گئیں۔ میں بولا کیا ہو رہا ہے؟ کہا ''بچیاں ہیں۔ میری بیٹیاں ہیں‘‘۔ یہ کدھر کا تصور ہے۔ لڑکی جب بالغ ہو جاتی ہے‘ 13سال‘ 14سال‘ 15سال‘ آپ اس کو چھو بھی نہیں سکتے۔ میں اسلام پر تقریر کر رہا ہوں۔ پوری فوج آجاتی ہے۔ لڑکی لوگوں کی۔ کیا ہے یہ؟ یتیم خانے کا جو مالک تھا کہنے لگا: ڈاکٹر صاحب یہ میری بچیاں ہیں۔ میں بولا تم کو بھی چھونا حرام ہے۔ تیری بیوی کے پیٹ سے اگر پیدا ہوئی تو جائز ہے۔ میں سٹیج سے نیچے اُتر گیا۔ سوشل میڈیا پر لوگ کہہ رہے ہیں ارے ڈاکٹر صاحب نے غلط کیا۔ بچوں سے نہیں ملا۔ کیا ہو گیا ہے اس دیش (پاکستان) کو! آپ نابالغ‘ نا محرم کو چھو بھی نہیں سکتے۔ اور یہ پاکستان میں ہو رہا ہے! انڈیا میں جب ہندو مجھے بلاتے ہیں تو احترام کرتے ہیں۔ ہندو جب مجھے بلاتے ہیں تقریر کرنے کے لیے‘ احترام کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک لڑکیوں کو نہیں چھوتے۔ دور رکھتے ہیں۔ یہاں تو میں جب اسلام آباد میں گیا تو ٹیلی ویژن کی جو ہوسٹ ہے‘ میرے نزدیک آئی‘ سوال پوچھنے‘ میں پیچھے جا (ہَٹ) رہا ہوں‘ وہ آگے آرہی ہے۔ کیا ہو رہا ہے۔ آپ اگر یتیم بچوں کو کھانا دے رہے ہیں‘ آپ کو چھونے کا حق نہیں۔ پیسے والے ہیں۔ پیسہ غریبوں میں بانٹتے ہیں اور چھو سکتے ہیں! کیا بولتے ہو! لا حول والا قوۃ!‘‘
یہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کی اس تقریر کا اقتباس ہے جو انہوں نے اسلام آباد میں کی۔ یہاں چھ پہلوؤں پر بات کرنی ضروری ہے۔ اول یہ کہ ڈاکٹر صاحب سے کس نے مطالبہ کیا کہ آپ انہیں چھوئیں؟
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
وہ بار بار چھونے کی بات کر رہے ہیں جس کا یہاں موقع ہے نہ محل! دوم: شیلڈ بچیوں کو چھوئے بغیر بھی دی جا سکتی ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ شیلڈ یا انعام دیتے وقت ڈاکٹر صاحب کیسے چھو لیں گے؟ سوم: ان کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ تمام بچیاں بالغ ہیں؟ ان میں بہت چھوٹی بچیاں بھی شامل تھیں۔ سب بچیوں نے سر بھی مکمل طور پر ڈھانپے ہوئے تھے۔ چہارم: یہ کہنا کہ ''پیسے والے ہیں۔ پیسہ غریبوں میں بانٹتے ہیں اور چھو سکتے ہیں‘‘۔ بہت نامناسب بات ہے۔ یہ یتیم گھر کے منتظمین پر اور عطیات دینے والوں پر الزام بلکہ تہمت لگانے والی بات ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے چھوٹی بات کی! پنجم: ٹی وی کی خاتون ان سے بات کرنا چاہتی تھی۔ وہ آگے اس لیے آ رہی تھی کہ مائیک ان کے منہ کے سامنے رکھے۔ ڈاکٹر صاحب غلط سمجھے کہ وہ ان کو چھونا چاہتی ہے یا ان پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔ ششم: اگر خواتین کی موجودگی پر اعتراض تھا تو جن جلسوں میں وہ تقریریں کرتے ہیں ان میں بھی خواتین موجود ہوتی ہیں اور ڈاکٹر صاحب سے سوال جواب بھی کرتی ہیں۔ بالکل اسی طرح ڈاکٹر صاحب ٹی وی ہوسٹ سے بھی بات چیت ک
ر سکتے تھے۔ یتیم بچیوں کو دیکھ کر سٹیج سے اُتر جانا اور ٹی وی ہوسٹ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنا‘ اس سائیکی کو
Paranoia
ہی کہا جا سکتا ہے یعنی دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا جنون!
اس سے بھی زیادہ افسوسناک واقعہ یہ ہوا کہ ایک خاتون کے بالکل سیدھے سادھے سوال کو ڈاکٹر صاحب نے حیرت انگیز طور پر غلط معنی پہنائے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ خاتون کیا کہنا چاہتی تھی۔ پہلے خاتون کا سوال سنیے ''میں جس جگہ سے تعلق رکھتی ہوں وہاں مکمل مذہبی سوسائٹی ہے۔ وہاں خواتین بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں جاتیں۔ مرد کوئی نماز قضا نہیں کرتے اور ہر شبِ جمعہ کو دعوت الی اللہ پر نکلے ہوئے لوگوں کا بیان ہوتا ہے۔ حال ہی میں ایک بہت بڑا تبلیغی اجتماع بھی ہوا ہے وہاں۔ ہمارے علاقے کے تمام لوگ
Religious
ہیں۔ سر! میرا سوال یہاں یہ ہے کہ آپ کی وِزڈم کے مطابق کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ وہاں پر منشیات کی لت‘ بدکاری‘ پیڈوفیلیا(بچوں کی ساتھ جنسی زیادتی) سود اور اس طرح کی برائیاں جڑ پکڑ چکی ہیں۔ آپ کے نزدیک کیا وجہ ہے کہ سوسائٹی کا وہاں انہدام ہو رہا ہے۔ ہمارے علما انہیں کال آؤٹ کیوں نہیں کرتے؟ خاص طور پر پیڈو فیلیا کو؟‘‘
اب ڈاکٹر صاحب کا جواب ملاحظہ کیجیے۔ ''آپ کے سوال میں تکرار ہے۔ آپ کہتی ہیں میرا معاشرہ اسلامی ہے پھر بولتی ہیں پیڈو فیلیا ہے‘‘۔ یہاں خاتون وضاحت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب جھڑ ک دیتے ہیں اور اسے بولنے نہیں دیتے۔ پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں ''آپ نے جو سوال کیا ہے میرے حساب سے اس میں کنٹرا ڈکشن (تضاد) ہے۔ آپ نے کہا میرا معاشرہ بہت اسلامک ہے اور میرے معاشرے میں پیڈوفیلیا ہے۔ اسلامی ماحول میں پیڈوفیلیا ہو ہی نہیں سکتا۔ یا آپ کا پہلا پارٹ غلط ہے‘ آپ کو ماننا پڑے گا کہ سوال میں خطا ہے۔ آپ کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ میرا معاشرہ سمجھتا ہے کہ وہ اسلامک ہے‘ تو مانوں گا۔ اسی لیے کبھی کسی پر الزام لگانے سے پہلے دس بار سوچو۔ اگر آپ اللہ کے دربار میں یہ سوال کریں گی تو پھنس جائیں گی میری بہن! آپ کو معافی مانگنی چاہیے کیونکہ آپ کا سوال غلط ہے‘‘۔ یہاں خاتون پھر کوشش کرتی ہے کہ وضاحت کرے مگر ڈاکٹر صاحب اسے نہیں بولنے دیتے اور کہتے ہیں ''پہلے آپ کو قبول کرنا پڑے گا۔ اگر آپ قبول نہیں کرتیں تو میرا جواب ختم‘‘۔ یہاں خاتون کہتی ہے۔ او کے سر! میرے سوال کی نوعیت غلط تھی۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ''نوعیت غلط نہیں۔ سوال غلط ہے۔ آپ غلط ہیں‘‘۔ پھر ڈاکٹر صاحب سورۃ الحجرات کی آیت چھ کا حوالہ دیتے ہیں جس کا اس واقعہ پر اطلاق ہی نہیں ہو رہا۔ اور کہتے ہیں ''آپ سارے مجمع میں دہرا رہی ہیں۔ آپ اسلام پر تہمت لگا رہی ہیں اور آپ معافی بھی نہیں مانگ رہیں!‘‘
ڈاکٹر صاحب نے سوال کرنے والی ہی کو مجرم بنا دیا حالانکہ اس بیچاری کا مطلب وہ سمجھ چکے تھے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلامی ہیں مگر عمل ان کا الٹ ہے۔ لگتا ہے عمر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی قوتِ برداشت کم ہو رہی ہے۔ وہ زود رنج ہو گئے ہیں۔ شاید ہائی بلڈ پریشر کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ ایک اور مجمع میں (پاکستان میں نہیں) وہ ایک پروفیسر کو بار بار کہتے ہیں
Keep your mouth shut
یعنی اپنا منہ بند رکھو۔
ڈاکٹر صاحب پی آئی اے پر بہت غضبناک ہیں۔ انہی کی زبان سے سنیے ''میرا سامان ہزار کلو تھا۔ میں نے سی ای او سے بات کی اور کہا: سامان پانچ چھ سو کلو زیادہ ہے۔ کہنے لگا: پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ دوں گا۔ میں نے بولا: بھائی دے گا تو فری‘ ورنہ مت دے‘ میں نے ٹھکرا دیا۔ ارے انڈیا میں کوئی غیر مسلم مجھے دیکھے گا تو فری میں چھوڑ دے گا۔ یہ ہے انڈیا! یہ پاکستان ہے‘ میں سٹیٹ گیسٹ ہوں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک! ارے نہیں چاہیے تیرا ڈسکاؤنٹ! یہ پاکستان کا حال ہے۔ جو عزت مجھے انڈیا میں ملتی ہے۔ ہندو بولتے ہیں یہ تو بھگوان کا آدمی ہے۔ یہاں میں سی ای او سے بات کرتا ہوں۔ یہ حال ہے پاکستان کا۔ اتنے افسوس کی بات ہے۔ جو مزا وہاں انڈیا میں آتا ہے۔ مجمع اس سے بڑا!‘‘۔ اس پر کسی کمنٹ کی ضرورت نہیں۔ یہ وہی رویہ ہے کہ ''تم نہیں جانتے میں کون ہوں؟‘‘ وہ اپنے آپ کو قانون سے مبرا سمجھتے ہیں۔ نرگسیت ہے یا تکبر!!
بہر طور ڈاکٹر صاحب کو بلانے والوں کا مقصد پورا ہو گیا۔ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ گئی اور خوب ہٹی!