Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, September 30, 2018

جب نیب تھی نہ سوئو،موٹو۔نوٹس

> میرے محترم اور پرانے دوست کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ جب ہم نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بڑے بڑے کام کیے‘ ڈیم بنائے‘ صنعتوں میں ترقی ہوئی‘ اس وقت نیب تھا نہ سوئو موٹو نوٹس!
> لیکن ایک اور شے بھی اُس وقت نہ تھی جو ہم بھول رہے ہیں!
> اُس وقت حکمرانوں کی آنکھ میں بُھوک نہ تھی! وہ سرکاری مال کو اپنی ذات اور اپنے خاندان پر خرچ کرنا حرام سمجھتے تھے۔ قائد اعظم سے لے کر عبدالرب نشتر تک۔ لیاقت علی خان سے لے کر چودھری محمد علی تک۔ ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک۔ کسی پر کرپشن کا الزام نہ تھا۔ چونکہ حکمران دیانت دار تھے اس لیے بیورو کریسی میں بھی خیانت کی جرأت تھی نہ رواج۔ وفاقی سیکرٹری‘ سرکاری گاڑی ذاتی استعمال میں لاتا تھا تو کرایہ سرکاری خزانہ میں جمع کراتا تھا!!
> سب سے بڑی بات یہ تھی کہ سیکرٹری خزانہ یا وزیر خزانہ اگر انکار کر دیتا تھا تو اسے وزیر اعظم یا گورنر جنرل‘ یا صدر فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا! غضب کا مالیاتی ڈسپلن تھا۔ سربراہ حکومت کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون نہیں بن جاتا تھا!
> مالیاتی ڈسپلن میں پہلا شگاف جنرل ضیاء الحق نے ڈالا۔ وہ فیصلہ کرتے وقت متعلقہ وزارت کو گھاس بالکل نہیں ڈالتے تھے۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے چشم دید واقعہ لکھا تھا کہ جنرل ضیاء الحق ترکی کے دورے پر تھے۔ ترکی کا حکمران اعلیٰ ترکی کی نامور شخصیات کا تعارف کرا رہا تھا۔ ایک فنکار تھا یا کھلاڑی‘ ترکی کے سربراہ نے جنرل ضیاء الحق کو بتایا کہ اس نامور فنکار(یا کھلاڑی) کو صحت کا کوئی خطرناک مسئلہ درپیش ہے جس کا علاج امریکہ میں ہو سکتا ہے مگر میری (یعنی ترکی کی) وزارت خزانہ مان نہیں رہی! صدر ضیاء الحق نے‘اُسی وقت‘ اپنی وزارت خزانہ کو خاطر میں لائے بغیر ۔ اُس کے بیرون ملک علاج کا فیصلہ کیا اور وہیں منظوری بھی دے دی!!
> جنرل ضیاء الحق کی اس بے ضابطگی کو شریفوں کی حکومت نے عروج پر پہنچا دیا۔ یہ درست ہے کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں نیب تھا نہ ازخود نوٹس۔ مگر اس وقت اتنی پست سطح کی حرکتیں بھی عنقا تھیں جو بعد کے حکمرانوں نے شروع کیں۔ ایف بی آر کا قانون بدلا جاتا۔ ایس۔ آر۔او 
(Statutory Regulatory Order) 
جاری ہوتا۔ شریف خاندان کا خاندانی کاروبار اس سے فائدہ اٹھاتا اور دوسرے دن یا تین چار دنوں بعد اس ایس آر او کو منسوخ کر دیا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ساٹھ اور ستر کے حکمران اتنی پست حرکتیں کرتے تھے؟ ان میں تو کوئی تاجر اور صنعت کار تھا ہی نہیں! کہاں شریفوں اور زرداری کی بے پناہ دولت! کہاں قائد اعظم‘ لیاقت خان اور اُس دور کے دیگر حکمرانوں کی دیانت داری! چودھری محمد علی نے علاج کے لیے بطور سابق وزیر اعظم حکومت سے قرض لیا۔ اٹھارہ ہزار یا شاید اٹھائیس ہزار روپے۔ اور ایک ایک پائی واپس کی! اور کہاں کمینے اور نو دولتیے حکمران۔ وزیروں کا گھٹیا پن یہاں تک پہنچا کہ سرکاری لنچ کے لیے بغیر کام کے بیٹھے رہتے اور لنچ سرکاری خزانے سے کر کے جاتے۔
> صحافت کو لفافے کی چاٹ بھی انہی نئے حکمرانوں نے لگائی! گھروں میں کمپیوٹر اور فیکس پہنچا دیں(جو اُس زمانے میں بہت بڑا ’’گفٹ‘‘ سمجھا جاتا تھا) فائیو سٹار ہوٹلوں میں صحافی بیٹوں کے ولیمے کرتے اور بِل کوئی ایسا حکمران یا سیاستدان ادا کرتا جو کاروبار بھی کر رہا ہوتا! پھر پلاٹوں کی بندر بانٹ شروع ہوئی۔ پھر چل سو چل۔ ادھر جاتی امرا میں محلات بنے۔ اُدھر شہر شہر بلاول ہائوس! برطانیہ میں سرے محل۔
> نیو یارک میں پینٹ ہائوس۔ دبئی میں بے مثال اور بے نظیر محل۔ جدہ میں کارخانے۔ لندن میں جائیدادیں! سرکاری جہاز راجہ بازار کے ٹانگوں کی طرح استعمال ہونے لگے۔ کبھی بھنڈی منگوانے کے لیے‘ کبھی کراچی سے مٹھائی لانے کے لیے۔ پکے ہوئے کھانے سرکاری ہیلی کاپٹروں پر مری جاتے۔ حمزہ شہباز۔ مریم صفدر اور بلاول زرداری کے لیے حکمرانوں جیسا پروٹوکول۔ تیس تیس چالیس چالیس گاڑیوں کے جلوس! زرداری صاحب دبئی ہوتے تو عملی طور پر سندھ کا دارالحکومت دبئی ہوتا۔ میاں نواز شریف لندن ہوتے۔ لندن جانے اور لندن آنے کے لیے وزیروں کی قطاریوں چلتی جیسے چیونٹیوں کی چلتی ہے‘ صبح لندن تو شام کوہستان مری کی آغوش میں!
> بالکل درست ہے کہ اُس وقت سوئو موٹو نوٹس تھا نہ نیب! مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ اُس وقت حکمران نیم تعلیم یافتہ نہ تھے۔ اُن میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کا بی اے کا امتحان اس کی جگہ کسی اور نے دیا ہو! وہ ہر فائل پڑھ کر اس پر فیصلہ اپنے ہاتھ سے تحریر کرتے۔ یہاں یہ حال ہوا کہ چار برس کی وزارت عظمیٰ میں ایک فائل بھی پڑھی نہ اس پر کچھ لکھا۔ اُس وقت حکومت‘ حکمران خود کرتے تھے۔ کسی فواد حسن فواد یا کسی سمدھی اسحاق ڈار کو ٹھیکے پر نہیں دیتے تھے!
> دنیا کی یہ عجیب و غریب منطق اُس وقت ایجاد نہ ہوئی تھی کہ کوئی کرپشن ثابت نہ ہو سکی۔ سوال یہ ہے کہ الزام کیوں لگا؟ ثابت نہ ہو سکنے کا مطلب یہ کیسے ہو گیا کہ کرپشن نہیں کی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہو! آخر کرپشن کا الزام قائد اعظم پر کیوں نہیں لگا۔ عدالتوں میں لیاقت علی خان کیوں نہ گھسیٹے گئے۔ عبدالرب نشتر۔ مولوی تمیزالدین خان۔ نور الامین۔ فضل القادر چودھری‘ صبور خان‘ ان سب پر کرپشن کے الزامات کیوں نہ لگے؟ ذوالفقار علی بھٹو پر کرپشن کا الزام کیوں نہ لگا۔ نصیر اللہ بابر پر کیوں نہ لگا؟ قمر زمان کائرہ‘ صدیق الفاروق اور راجہ ظفر الحق پر کرپشن کے الزامات کیوں نہ لگے؟ اس لیے کہ کرپشن کے الزامات انہی پر لگتے ہیں جو کرپشن کرتے ہیں! رہی بات ثابت ہونے اور نہ ہونے کی تو چور کو عدالت نے چھوڑ دیا تو اس کے وکیل نے پوچھا کہ اب تو بتا دو کہ تم نے کیا چوری کی تھی؟ چور نے جواب دیا کہ وکیل صاحب! چوری تو میں نے کی تھی مگر آپ کے دلائل سن کر شک ہونے لگا ہے!
> دیانت اور خیانت۔ دونوں نہیں چھپتیں! کبھی بھی نہیں! کہیں بھی نہیں! جب حکمرانوں کی دولت میں اضافہ ہونے لگے تو ملک غریب ہو جاتے ہیں۔ معیار زندگی عوام کا گر جاتا ہے۔ بیرونی قرضے بڑھ جاتے ہیں۔ پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ہاتھ میں چلی جاتی ہیں۔
> ملک اس صورت میں ترقی کرتے ہیں جب مارگریٹ تھیچر اپنا کھاناخود بناتی ہو۔ صدر کلنٹن کٹہرے میں کھڑا ہو۔ حکمران کو دولت جمع کرنے کی نفسیاتی بیماری نہ لاحق ہو۔
> جب شاہ محمود قریشی صدر مملکت سے کہے کہ آپ کا وزیر اعظم پیسے بنا رہا ہے اور صدر صاحب جواب دیں کہ پھر کیا حرج ہے تو ترقی خواب و خیال ہو جائے گی اور نیب اور سوئو موٹو نوٹس ناگزیر ہو جائیں گے!!
> Muhammad Izhar ul Haq
> www.izharulhaq.net

Saturday, September 29, 2018

ماں، ہنڈیا اور بچہ


کوئی تو ہے جو عمران خان کی پالیسیوں کو دانستہ یا نادانستہ، ناکام کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ایئرپورٹ پر، ٹریفک کے محکمے میں، وزارت تعلیم میں، وزارت خزانہ میں، ہر جگہ کوئی نہ کوئی قینچی پکڑ کر پالیسی کی دستاویز کو کاٹ رہا ہے۔ کاٹے جا رہا ہے۔ وزیراعظم علم غیب رکھتا ہے نہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ اس کے وزیر اور مشیر اس حقیقت سے بے خبر لگتے ہیں کہ ان کے نیچے کون کیا کررہا ہے۔

اس لیے کہ امیدوں کے مینار زمین بوس ہو رہے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ عوام میں آگہی کا شعور عمران خان نے پیدا کیا۔ تبدیلی کے معاملے میں عوام حساس ہو چکے ہیں۔ ازحد حساس! اب وہ حقیقی تبدیلی دیکھنے کے متمنی ہیں۔

چار دن پہلے ایک تعلیم یافتہ نوجوان دارالحکومت کے نئے ایئرپورٹ سے واپس آیا۔ وہ کسی کو رخصت کرنے گیا تھا۔ ایک جگہ ایئرپورٹ کے داروغے نے اس کی گاڑی روک لی کہ آگے جانا منع ہے۔ نوجوان نے ایک گاڑی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ گاڑی تو جا رہی ہے۔ داروغے نے قہقہہ لگایا کہ وہ ایم این اے کی گاڑی ہے۔ اس پر نوجوان نے اسے یاد دلایا کہ نئے پاکستان میں ایسا کیوں ہورہا ہے۔ اس کا جواب اس نیم تعلیم یافتہ داروغے نے جو دیا وہ کئی کالموں اور کئی مقالوں اور کئی رپورٹوں اور کئی تقریروں اور کئی کتابوں پر بھاری ہے۔ دروغے نے دوسرا نمکین قہقہہ لگایا اور نوجوان کو یہ کہہ کر خوابوں کے پرستان سے ایک جھٹکے کے ساتھ باہر نکالا ’’نیا پاکستان صرف میڈیا میں ہے۔ باہر وہی پرانا پاکستان ہے۔‘‘

چلئے، یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ ایسا بدصورت واقعہ ایئرپورٹ پر دن میں ایک ہی بار پیش آتا ہے۔ ہر ایئرپورٹ پر، ہر دفتر میں، ہر ریلوے اسٹیشن پر، ہر ہسپتال میں، تو حساب لگائیے، ایک دن میں کتنے لوگ خوابوں کے پرستان سے باہر دھکیلے جائیں گے؟ یہ تعداد ہر روز، ہر ہفتے بڑھتی جائے گی۔ یہ ہے وہ زیر زمین طریقہ جس سے پالیسیاں ناکام کی جاتی ہیں۔ عوام مایوس ہوتے ہیں۔ بائیس برس کی محنت پر چند کام چور، وزیر، چند بدنیت حکام، پانی پھیر دیتے ہیں۔ کوئی تو دارالحکومت کے ایئرپورٹ پر مامور ہوگا جس نے اس پروٹوکول کی، اس امتیازی سلوک کی اجازت دی ہوگی، کوئی اس کے اوپر بھی ہوگا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ایئرپورٹ سکیورٹی فورس میں۔ ہوابازی کی وزارت یا ڈویژن میں۔ اسے کون پکڑے گا؟ کون سزا دے گا؟ عبرت ناک سزا ملے گی تو پروٹوکول کا یہ کیڑا مرے گا ورنہ رینگتا رہے گا؟

سینکڑوں ہزاروں برس پہلے یہ حقیقت دریافت ہو چکی تھی کہ حکمران سب سے زیادہ بے خبر ہوتے ہیں۔ کم ہی ان میں علائوالدین خلجی اور شیر شاہ سوری ہیں جو باخبر رہتے ہیں۔ سلطنت کے دور افتادہ بازار میں بھی گندم کی فروخت سرکاری نرخ کا منہ چڑاتی تھی تو سلطان کو معلوم ہو جاتا تھا۔ کم تولنے والے کے جسم سے اتنا گوشت کاٹ لیا جاتا تھا جتنا وزن کم ہوتا تھا۔ آج شور مچایا جارہا ہے کہ موٹرسائیکل کا غریب مالک دو ہزار روپے کا جرمانہ کیسے دے گا؟ ویگن کا ڈرائیور غریب ہے، حالانکہ ان غریب ویگن ڈرائیوروں نے شیطان کا لباس پہنا ہوا ہے۔ ان موٹرسائیکل سواروں نے ٹریفک کے پورے نظام کو لعنت زدہ کیا ہوا ہے۔ یہ قانون کو اس منحوس دو چرخے کے ٹائروں کے نیچے ہمہ وقت روند رہے ہیں۔ کسی سرخ بتی کی، کسی ٹریفک لین کی، کسی ترتیب، کسی ضابطے کی ان موٹرسائیکل سواروں، ان وحشی ویگن ڈرائیوروں کو تمیز نہیں، ناخواندہ، انسان نما جانور، جو ڈمپر اور ٹرالیاں چلا رہے ہیں، ڈرائیور نہیں جلاد ہیں۔ خلیل حامدی سے لے کر پروفیسر طیب منیر تک۔ کتنے ہی قیمتی پاکستانی ان آدم خوروں کی نذر ہو چکے۔ جنہیں درختوں کے ساتھ باندھ کر خاردار شاخیں ان کی سرینوں پر مارنی چاہئیں، ان کی ہمدردی میں جرمانے کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ افسوس، صد افسوس۔

عمران خان نے افق کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ ’’نئے پاکستان کی آئیڈیالوجی‘‘ پر پورا اترتے ہیں۔ اس کالم نگار نے کئی ہفتے مشاہدہ کیا۔ تنقید سے گریز کیا۔ صبر کیا مگر تمے کے پودے پر انجیر کیسے لگے گا۔ جو اعتراض نوازشریف پر تھا بزدار صاحب پر اس کا اطلاق بدرجہ اتم ہورہا ہے۔ یہاں تو معاملہ کاغذی چٹوں سے بھی بدتر ہے۔ سب سے بڑے صوبے کا حکمران اعلیٰ، جو کسی بھی درجے میں متاثر نہیں کرتا، پنجاب کے حکمرانوں کو غیر ملکی سفیروں، حکمرانوں، تاجروں، کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسروں، صحافیوں سے بات کرنا ہوتی ہے۔ بزدار صاحب کیسے بات کریں گے؟ مافی الضمیر کیسے ادا کریں گے؟ اور کس کو خبر ہے کہ مافی الضمیر ہے بھی یا نہیں؟ مہاتیر کو یا اردوان کو یا ایرانی صدر کو یا کسی اور سربراہ حکومت یا امیر ریاست کو شاہی قلعے میں وزیراعظم دعوت دیں گے تو تعارف کراتے وقت وزیراعلیٰ کو لکڑی سے گوشت پوست میں کیسے تبدیل کریں گے؟

یہ گوہر نایاب، یہ بدخشاں کا موتی، یہ یمن کا عقیق، خان صاحب نے دریافت کیسے کیا؟ دھوئیں میں تحلیل ہو جانے والے کس جن نے اس کی نشان دہی کی؟ کون سا ہد ہد اس کی خبر لایا؟ یہ راز تب فاش ہوا جب وزیراعلیٰ نے پاکپتن ضلع کے پولیس افسروں کو طلب کیا اور ایک غیر متعلقہ شخص نے، وزیراعلیٰ کی موجودگی میں، ان پر حکم چلایا اور وزیراعلیٰ موم کا بت بنے بیٹھے رہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے، کسی کو برا لگے یا اچھا۔ یہ بات سن کر کسی کے شکم میں قولنج کے درد کی لہر اٹھے یا تنگ پیشانی پر رعونت کی شکن پڑے، بات سچی ایک ہی ہے کہ ایسا کرکے وزیراعلیٰ نے ثابت کردیا کہ وہ کٹھ پتلی ہیں اور انہیں کوئی بھی استعمال کرسکتا ہے۔ ایک ادنیٰ درجے کے افسر کوبھی یہ طریق کار منظور نہ ہوگا۔ وہ بھی غیر متعلقہ مداخلت کار کی بات خود سنے گا پھر اسے یہ کہہ کر رخصت کردے گا کہ اپنے ماتحتوں سے میں خود پوچھوں گا یا سمجھائوں گا۔ یہ تو نااہلی اور ناتجربہ کاری کی انتہا ہے کہ ایک غیر متعلقہ شخص جس کی بیگم کی خاتون اول سے دوستی ہے، پولیس کے اعلیٰ افسروں پر حکم چلائے یا چلانے کی کوشش کرے اور وزیراعلیٰ برخوردار بن کر سنتے رہیں اور دیکھتے رہیں۔ کیا وزیراعظم تک یہ عوامی ریمارک نہیں پہنچا کہ وزیراعلیٰ کو کوئی اور ریموٹ کنٹرول سے چلائے گا؟ کیا زبان خلق کا یہ نقارا ان کے کانوں تک نہیں گیا تھا کہ ترین صاحب کا انتظار کیا جائے گا اور وہ آئیں اور منصب سنبھالیں۔ وزیراعظم کو ایک غیر متعلقہ شخص کی مداخلت کے حوالے سے، ایسی تنبیہہ ضرور کرنی چاہیے تھی جس کا عوام کو علم ہوتا اور یہ کم از کم ہوتا۔

دوسری طرف عوام کو بھی دھاگہ ہر وقت کھینچ کر نہیں رکھنا چاہیے۔ کبھی ڈھیلا بھی چھوڑ دیں۔ زرداریوں اور شریفوں کو تیس چالیس برس دے دیئے تو عمران خان کو ایک دو یا تین چار برس تو دے دیجئے۔ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتی۔

یا شاید ہم اس بچے کی طرح ہیں جس کی ماں نے ہنڈیا چڑھا رکھی ہے اور بچہ مسلسل رو رہا ہے کہ کھانا فوراً دو۔



Thursday, September 27, 2018

تِلوں میں تیل ہے بھی یا نہیں؟


ہر آنے والا دن سوالیہ نشان بن کر طلوع ہو رہا ہے!

عمران خان نے لوگوں کو ایک راستہ دکھایا ایک زینے پر چڑھایا۔ کچھ وعدے کیے، کچھ امیدیں بندھوائیں مگر ہر آنے والا دن سوچنے والوں کو سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اب عوام پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ آپ نے انہیں صبح کے تارے کا وعدہ کیا۔ اب آپ انہیں بادلوں میں الجھانا چاہتے ہیں۔ نہیں! آپ انہیں تشدد پر اکسا رہے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد!

کوئی وعدہ پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اِکّا دُکّا اقدامات۔ مگر کسی ہوم ورک کے بغیر۔ سرکاری ریسٹ ہائوسز ہی کا مسئلہ لے لیجیے۔ ان کے کمرشل استعمال کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ مگر مچھ سائز کی بڑی کمپنیوں کو لیز پر دیئے جا رہے ہیں۔ بھائی لوگو! ہوم ورک تو کر لو۔ پہلے اعداد و شمار تو حاصل کرو کہ ان سرکاری ریسٹ ہائوسوں میں حکومت کے کتنے افسر سال بھر میں ٹھہرتے ہیں۔ حکومت انہیں ہوٹل کا کرایہ نہیں دیتی۔ جب ریسٹ ہائوس نہیں ہوں گے تو یہ افسر ہوٹلوں میں قیام کریں گے۔ پہلے حساب کتاب تو لگائو کہ ہوٹلوں میں خرچ کتنا ہو گا؟ کہیں آگے دوڑ پیچھے چوڑ والا حساب نہ ہو۔

دوسری مثال شیخ رشید کی لیجیے۔ ہمارے حلقۂ دوستاں میں ایک آتش زیر پا لڑکی ہے۔ بھتیجی ہی سمجھ لیجیے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ۔ مگر سیماب صفت۔ کہیں قرار نہیں۔ ہم اسے اَن گائیڈڈ میزائل کہتے ہیں۔ شیخ صاحب بھی وہ میزائل ہیں جسے کوئی کمپیوٹر، کوئی ریموٹ کنٹرول، کوئی الیکٹرانک نظام کنٹرول نہیں کر سکتا۔ غالباً منٹو نے لکھا تھا کہ راولپنڈی کا ٹانگہ کس طرف مڑے گا؟ خدا اور کوچوان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ حضرت نے اعلان کیا ہے کہ ریلوے میں دو ہزار ملازمین رکھیں گے۔ پہلے یہ تو دیکھ لیتے کہ اندرونی ایڈجسٹ منٹ سے مسئلہ حل ہوتا ہے یا نہیں۔ پہلے ہی ریل کے ڈبے، ریل کے ملازموں سے بھرے ہوتے ہیں۔ قلفی والے پر سکول کے بچوں نے حملہ کیا تو سب سے زیادہ قلفیاں، قلفی والے نے خود کھائیں۔ ریلوے کے مسافروں میں غالب تعداد نہیں، تو اچھی خاص تعداد ریلوے کے اپنے تنخواہ داروں کی ہے۔

شیخ صاحب کو ترجیح لاہور اور راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشنوں پر برقی سیڑھیاں لگانے کو دینی چاہیے تھی۔ سعد رفیق صاحب نے یہ تاثر تو کامیابی سے قائم کیا کہ محنت کر رہے تھے تا ہم ان بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کی طرف ان کا دھیان کبھی نہ گیا جو سامان اٹھائے، ہانپتے ہوئے، ڈیڑھ سو سال پرانی سیڑھیوں پر چڑھتے اترتے ہیں۔ اب تو عام قصباتی پلازوں میں بھی برقی سیڑھیاں نظر آنے لگی ہیں۔ مگر سعد رفیق ہوں یا شیخ رشید۔ اصل میں سارے ایک ہیں۔ ہاتھی کی دم کا شور اٹھتا ہے۔ ہر بار اٹھتا ہے۔ دیکھنے جاتے ہیں تو دوگز کی رسی نظر آتی ہے۔

سارے اقدامات سطحی! کوئی گہرائی نہیں،کوئی طویل المیعاد منصوبہ بندی نہیں، اب سنتے ہیں کہ بیورو کریسی میں تقرریوں اور تبادلوں کی نئی پالیسی وزیر اعظم نے منظور کی ہے۔ دس برس کے بعد صوبہ تبدیل ہو گا اور پانچ برس بعد پوسٹ۔ اصل سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جو ستر برس سے ڈاک خانہ… محض…ڈاکخانہ بنا ہوا ہے، اس کا کردار بدلا جا رہا ہے یا نہیں؟اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا اصل کام بیورو کریسی کی کیریئر پلاننگ ہے۔ یہاں تو کوئی ایسا چارٹ ہی نہیں کہ بیورو کریٹ کی گزشتہ اور مستقبل کی تعیناتیاں دکھا سکے۔ شعبوں کے لحاظ سے، صوبوں کے لحاظ سے، کام کی نوعیت کے اعتبار سے، اسے کہاں کہاں بھیجنا ہے اور کب کب؟ کسی کو معلوم نہیں۔ آرمی کی ملٹری سیکرٹری برانچ میں یہ منصوبہ بندی موجود ہے۔ بیرون ملک تعیناتیاں ستر برس سے ’’ذاتی واقفیت‘‘ اور سفارش کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ نظام کیوں نہیں وضع کیا جا رہا؟ یا توقیر شاہوں اور سراج شمس الدینوں کی لاٹریاں نکلتی رہیں گی۔

اور آخر وزیر اعظم کے ہر ریٹائر ہونے والے پرنسپل سیکرٹری کو گھی میں چُپڑی ہوئی روٹی کیوں پیش کی جاتی ہے؟ ایک صاحب خالد سعید تھے۔ اشتہار چھپا تو درخواستیں جنہوں نے دیں، وہ بیٹھے رہ گئے اور یہ صاحب ریٹائر ہو کر خود ایک ریگولیٹری اتھارٹی میں پانچ برس کے لیے فِٹ ہو گئے۔

عمران خان نے بیورو کریسی کو ضابطے کے اندر لانا ہے تو سائنٹفک بنیادوں پر کوئی نظام وضع کریں۔ ڈاکٹر عشرت حسین کو سول سروس ریفارمزکا سربراہ بنا کر پہلے ہی اپنی سادہ لوحی
(Naivety)
کا ثبوت دے چکے ہیں۔ میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب! اسی سے دوا لینے نکل کھڑے ہوئے! ہماری تاریخ ایسے عشرت حسینوں اور ایسے کمیشنوں سے بھری پڑی ہے جو کچھوے کی رفتار کم کرنے کے لیے دماغ لڑاتے رہے اور سرکاری خزانے پر بوجھ بنتے رہے۔

جس زمانے میں بین المذاہب اور بین المسالک مناظرہ بازی کا رواج عام تھا، مناظر حضرات یہ شعر ضرور پڑھا کرتے تھے ؎

نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں

ساتھ ساتھ ایک اور ڈرامہ چل رہا ہے۔ اس تماشے کو دیکھ دیکھ کر خلقِ خدا تنگ آ چکی ہے۔ ادھر زرداری صاحب ہر روز کسی عدالت میں حاضر ہوتے دکھائے جاتے ہیں یا حاضری کے بعد باہر نکلتے۔ دوسری طرف نواز شریف اور ان کی بیٹی۔ ساتھ، ایک ایکٹ کا جنرل پرویز مشرف کا کھیل بھی مسلسل چل رہا ہے۔ جو پہلو غور کرنے کا ہے یہ ہے کہ آج تک کسی سے ایک پائی تک واپس نہیں لی گئی۔ یا نہیں لی جا سکی، ڈاکٹر عاصم، ایان علی، شرجیل میمن، زرداری صاحب۔ ان کی خواہر نیک اختر، نواز شریف صاحب، ان کی دختر نیک اختر، ان کے دونوں ’’غیر ملکی‘‘ صاحبزادے کسی سے کوئی رقم وصولی گئی نہ وصولی جا رہی ہے۔ بندر بادشاہ بنا تو کاروبارِ سلطنت تباہ و برباد ہو گیا۔ سب جانور وفد بنا کر حاضر خدمت ہوئے اور مدعا بیان کیا۔ بندر ایک درخت پر چڑھتا۔ وہاں سے چھلانگ لگا کر دوسرے پر جاتا۔ پھر ایک اور زقند بھرتا اور پہلے درخت پر واپس آتا۔ کہنے لگا۔ یارو! کاروبارِ مملکت بھی ضروری ہے مگر میری ا ٓنیاں جانیاں تو دیکھو! کرپشن کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اداروں اور عدالتوں کی آنیاں جانیاں قوم کب سے دیکھ رہی ہے۔ خوش خبری کا کہیں کوئی نشان نہیں نظر آتا۔ عوام اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں ؎

افق کو دیدۂ حسرت سے دیکھنے والے
تری زمیں سے کہیں آسماں نہیں ملتا؟

جنرل پرویز مشرف ملک کے لیے، حکومت کے لیے، خود فوج کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں ع مارا خراب کردہ و خود مبتلا شدی ’’ہمیں بھی خراب کیا اور خود بھی مصیبت میں ہو‘‘! کون سی رسوائی ہے جو ان کی جھولی میں نہیں پڑی۔ عدالت جاتے ہوئے ہسپتال جا پہنچنا۔ کمر کا درد، بیرون ملک رقص و سرود۔ کئی اکائونٹس، کروڑوں ڈالر، لندن اور دبئی میں جائیدادیں۔ کہیں میچ دیکھتے نظر آتے ہیں کہیں کسی ٹیلی ویژن پر چہرہ کہولت کے لٹکے ہوئے آثار دکھاتا ہے۔ واپس آتے ہیں نہ کچھ بتاتے ہیں۔ سیاست کا شوق جا نہیں رہا۔ دن کو خواب دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جو اقتدار انہیں
 By Default
مل گیا تھا، اب کبھی 
By Design
نہیں ملنے کا۔

پھر سید بھی ہیں۔ عزتِ سادات کے پرخچے اُڑ رہے ہیں۔ انہیں بہت اہتمام سے ’’سید پرویز مشرف‘‘ کہنے والے اور وردی میں دس دس بار منتخب کرانے والے اگلی منزلوں میں پہنچ گئے۔ سانپ نکل گیا۔ جنرل صاحب لکیر پیٹ رہے ہیں۔ پیٹے جا رہے ہیں۔ جس قبیل کے ترجمان ملک میں ان کی نمائندگی کرتے ہیں اس سے جنرل صاحب کی سوچ کی ’’گہرائی‘‘ اور ’’دور اندیشی‘‘ اور زیادہ نمایاں ہو رہی ہے۔ کوئی ہے جو انہیں سمجھائے کہ سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل اب بند کریں اور کوئی نہیں تو فوج ہی انہیں کسی نہ کسی طرح باور کرائے کہ بہت ہو چکی، بہت اچھل کود کر لی۔ خدا کے لیے اب سٹیج سے نیچے اتر آئیں! دنیا بہت پھرتیاں دیکھ چکی!!


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Tuesday, September 25, 2018

سیاست کی دنیا کا جُوسف


کیا وجیہہ شخصیت عطا کی تھی قدرت نے! طویل قامت! بارعب چہرہ! مگر افسوس! بولتا تھا تو احساس ہوتا تھا کہ نہ ہی بولتا تو بھرم قائم رہتا! 

قدرت کے بھی نرالے کھیل ہیں ! کسی کو شخصیت ایسی دیتا ہے کہ بے بضاعت!موجود ہو تو موجودگی کا احساس ہی نہ ہو۔ نہ ہو تو کوئی کمی نہ نظر آئے! مگر بولے تو لوگ ہمہ تن گوش ہو جائیں۔ حیرت سے دہانے کُھل جائیں۔ لفظ سراپا تاثیر بن کر سینے میں اترتے جائیں! 

یہ قول امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب ہے کہ بات کرو تاکہ پہچانے جائو اس لیے کہ انسانی اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے! سعدی نے اسی قولِ زریں کی تشریح میں کہا تھا ؎ 

تا مرد سخن نگفتہ باشد 
عیب و ہنرش نہفتہ باشد 

جب تک کوئی شخص بات نہیں کرتا اس کے عیب و ہنر چھپے رہتے ہیں! پھر وہ بات کرتا ہے تو یا عزت پاتا ہے یا بے نقاب ہو جاتا ہے! اصلیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے! وہ حکایت ہو سکتا ہے سنی ہوئی ہو‘ مگر یہاں ایسی منطبق ہو رہی ہے کہ نہ سنانا ناروا ہو گا! 

مسجد کے فرش پر چٹائی بچھائے استاد پڑھا رہا تھا۔ سامنے طلبہ بیٹھے تھے۔ استاد نے دستار اتار کر رکھی ہوئی تھی۔ نیم دراز حالت میں تھا۔ طالب علم پڑھ رہا تھا۔ استاد تشریح کر رہا تھا ۔اتنے میں سامنے مسجد کے دروازے سے ایک طویل قامت وجیہہ شخص اندر داخل ہوا۔ عبا اس کی خوبصورت تھی! دستار سے معلوم ہو رہا تھا کہ فاضل ہو گا۔ اس نے حمام سے پانی کا کوزہ بھرا اور ناند پر بیٹھ کر وضو کرنے لگا۔ استاد نے گمان کیا کہ ضرور کوئی صاحبِ علم ہے! اس زمانے میں استاد پڑھا رہا ہوتا تھا تو کوئی بھی آ کر مجلس میں بیٹھ جاتا تھا اور سبق کی سماعت کر سکتا تھا! کچھ استفادہ کرتے تھے۔ کچھ غلطی نکالتے تھے۔ استاد ہوشیار ہو گیا۔ اُٹھ کر سیدھا ہو بیٹھا۔ دستار سر پر رکھ لی۔ طلبہ کو اشارہ کیا کہ مودب ہو کر ترتیب سے بیٹھیں۔ طویل قامت وجیہہ شخص آیا تو استاد اُٹھا مودب ہو کر ملا اور پوچھا۔ 

جناب کا اسم گرامی؟ 
مخاطب کے چہرے پر سوال ابھرا۔ پھر اس نے زبان سے کہا 
’’کیا؟‘‘ 
جہاں دیدہ استاد سب کچھ جان گیا۔ 
آپ کا نام؟
’’جُوسف‘‘ 
اس نے کہا! 
استاد نے دستار سر سے اتاری‘ نیم دراز ہوئے اور طلبہ کو کہا
’’اپنا اپنا کام کرو بھئی! یہ تو جوسف ہے! 

سابق وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی کا تازہ ترین بیان سن کر یہ سب کچھ یاد آ گیا۔ کہتے ہیں کہ ’’نواز شریف کے پاس خود مودی صاحب چل کر آئے لیکن عمران خان کی دعوت پر ملنے کو بھی تیار نہیں! چنانچہ پاکستان میں قیادت کا فرق ظاہر ہو گیا ہے! کیا شخصیت دی ہے قدرت نے جناب شاہد خاقان عباسی کو! شمشاد قد! مگر بولتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے! مملکت پاکستان کے حکمران اعلیٰ بنے تو ذاتی وفاداری پر ملک کے سسٹم کو قربان کر دیا۔ بارہا وزیر اعظم بننے سے عملی انکار کرتے ہوئے کہا کہ میرے وزیر اعظم نواز شریف ہی ہیں! تاریخ نے سنہری موقع دیا تھا کہ کچھ کر کے دکھائیں۔ کچھ اصلاحات ہی لے آتے۔ کوئی ایسا اقدام اٹھا جاتے کہ ملک کی تاریخ میں نام تابندہ کر جاتے۔ مگر ہز ماسٹرز وائس کے سوا کچھ نہ ہو سکے۔ کچھ نہ کر سکے! ایسے حکمرانوں کا نام تاریخ کے کسی صفحے پر آتا ہے تو ایک فٹ نوٹ سے زیادہ نہیں! 

اور فُٹ نوٹ میں بھی کہاں آتا ہے! اورنگزیب کے کتنے جانشینوں کے نام لوگوں کو یاد ہیں؟ شیر شاہ سوری کے بعد سوری خاندان کے اور بھی حکمران تخت پر بیٹھتے رہے‘یہاں تک کہ ہمایوں نے سلطنت چھین لی مگر ان کے نام ڈھونڈنے ہی سے ملتے ہیں! عباسی صاحب کا نام پاکستان کی تاریخ میں آیا بھی تو ایک عجوبے کی حیثیت سے آئے گا کہ سرکاری دستاویزات پر دستخط وزیر اعظم کے طور پر کرتے تھے مگر وزیر اعظم اپنے آپ کو مانتے نہ تھے۔ آقا بن کر بھی آقا نہ بن سکے! 

نون لیگ کے کتنے ہی ذی فہم ارکان نے دل ہی دل میں کہا ہو گا کہ سابق وزیر اعظم کاش یہ بیان نہ دیتے! چلیے!بیان دے دیا۔ 

اچھا کیا اپنا عیب و ہنر باہر نکال کر دکھا دیا۔ بتا دیا کہ میں کیا ہوں! مگر بات مکمل نہ کی! یہ نہ بتایا کہ یہ جو نواز شریف کے پاس حاضری دینے کے لیے مودی مارے مارے بے تاب پھرتے تھے اور یہ جو صورت حال کچھ اس قبیل کی تھی کہ ؎ جذبہ عشق سلامت ہے تو انشاء اللہ کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے تو اس کا سبب کیا تھا؟ سبب یہ تھا کہ نواز شریف تقسیم کو اور قیام پاکستان کو ایک بے معنی کام سمجھتے تھے۔ برملاکہتے تھے کہ ہم تو ایک تھے۔ ایک کلچر تھا بس درمیان میں لکیر آ گئی۔ دیکھیے۔ بھارتیوں کو خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کیا کہتے ہیں۔

’’میں بھی یہی کہتا ہوں کہ واجپائی صاحب کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا۔ آپ بھی رب کہتے ہیں۔ ہم بھی رب کہتے ہیں۔ ہندوستان نے ٹینک خریدے ہیں تو ہم نے بھی لازم کر دیا کہ ہم نے بھی ٹینک خریدنے ہیں… ہمارا ایک ہی کلچر تھا۔ ایک ہی heritage تھا۔ ایک ہی معاشرے کے ہم لوگ تھے… وہاں بھی لاہور سویٹ مارٹ ہے۔ یہاں پر بھی بمبئی سٹور تھا۔ یہ سب کیا ہے۔ یہ صرف بیچ میں بارڈر آ گیا ہے۔ باقی تو ہم آپ اسی سوسائٹی کے ممبران ہیں۔ آپ ‘ہم ایک ہی کلچر ہے۔ ایک ہی ہمارا بیک گرائونڈ ہے۔ کھانا بھی اسی قسم کا آپ کھاتے ہیں۔ ہم بھی اسی قسم کا کھانا کھاتے ہیں۔ آلو گوشت آپ بھی کھاتے ہیں۔ آلو گوشت مجھے بھی بڑا پسند ہے۔تو سب کچھ اتنا کامن ہے!‘‘ 

مسلم لیگ نون والے کبھی قائد اعظم کی تقریروں اور اقوال کا مطالعہ کرتے تو جان پاتے کہ پاکستان کی بنیاد اٹھاتے ہوئے قائد اعظم نے پہلی اینٹ ہی الگ کلچر اور الگ کھانے پینے کی لگائی تھی۔ نواز شریف کس کامن کلچر کی بات کر رہے ہیں؟ کیا ہولی‘ دسہرہ دیوالی‘ کرپان‘ کیس‘ شراب نوشی ہمارا کلچر ہے؟ کھانا پینا کون سا ایک ہے؟ سکھ اور ہندو تو گوشت کھاتے ہی نہیں! وہ تو اس برتن کو توڑ دیتے ہیں جس میں کسی مسلمان نے کھایا ہو۔ مرحوم بھارتی صدر ڈاکٹر عبدالکلام نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ سکول کے زمانے میں ایک کلاس فیلو کے گھر میں گئے تو ہندو فیملی نے کچن کے اندر نہ جانے دیا۔ 

نواز شریف ذہنی طور پر پنجاب سے نکل ہی نہ سکے۔ اوپر ان کی جس تقریر کا اقتباس نقل کیا گیا ہے‘ اسی میں کہتے ہیں کہ ’’یہاں امرتسری ہیں‘ لدھیانوی ہیں اور ہوشیار پوری ہیں اور وہاں لائل پوری ہیں‘ گجراتی ہیں‘ لاہوری ہیں اور سیالکوٹی ہیں!‘‘ ان کے نزدیک بھارت اور پاکستان کی قربت اگر ہو بھی تو اس سے مراد صرف بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کی قربت ہے۔اس سے آگے وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ پاکستان ان کی نظر میں صرف پنجاب ہے اور پنجاب ان کے نزدیک صرف لاہور ہے! 

مودی کیوں نہ چل کر نواز شریف کے پاس آئے ان کی خوشیوں میں کیوں نہ شریک ہو! ایسا پاکستانی وزیر اعظم اسے روز روز کہاں ملے گا جو افسوس کرے کہ ہم تو ایک ہی تھے‘ یہ تو بس درمیان میں لکیر آ گئی۔ ایسا پاکستانی وزیر اعظم!!جو اپنے ملک پر الزام لگائے کہ بھارت میں دہشت گرد بھیجتا ہے اور خود کلبھوشن کا نام تک زبان پر نہ لائے! جسے پرویز مشرف کی قید سے نکلوانے کے لیے بھارتی بزنس مین صدر کلنٹن سے سفارش کریں! 

اور نواز شریف صاحب کے چہرے پر کیا بشاشت اور انبساط ہوتا ہے جب وہ مودی کے ساتھ لمحۂ وصال سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ کوئی ایسے میں ان کی بدن بولی دیکھے! خوشی دیدنی ہوتی ہے! شاہد خاقان عباسی صاحب بات کو مکمل کرتے تو بہتر ہوتا! مودی اس لیے بلائیں لیتا ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے! تاکس نگوید بعدازاں من دیگرم تو دیگری!! نظریات ایک جیسے ہوں تو من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے!!



Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Sunday, September 23, 2018

شیر لومڑی کیسے بنتا ہے؟


‎بوڑھا لمبی گہری سانسیں لے رہا تھا۔

‎ڈاکٹر نے سٹیتھو سکوپ سے سینہ‘ پیٹھ اور کندھے چیک کئے۔ آوازیں سنیں‘ خلا میں دیکھا‘ پھر نبض ٹٹولی۔

‎آپ بظاہر ٹھیک ہیں۔ مسئلہ کیا ہے؟

‎ڈاکٹر صاحب نیند نہیں آتی۔ بھوک نہیں لگتی‘ دل ڈوبتا رہتا ہے۔

‎آپ کسی مقدمہ بازی میں تو مبتلا نہیں؟ رشتہ داروں‘ پڑوسیوں سے کوئی جھگڑا؟

‎نہیں! بالکل نہیں‘ اس لحاظ سے خوش بخت واقع ہوا ہوں۔

‎گھر میں بیگم سے کوئی کھٹ پٹ؟ کوئی ذہنی دبائو؟ کوئی ٹینشن؟

‎نہیں‘ ایسا بھی نہیں‘ ہمارے درمیان مکمل ہم آہنگی اور امن و سکون ہے؟

‎کوئی مالی مسائل؟

‎وہ بھی نہیں‘ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔

‎تو پھر دوا کیوں اثر نہیں کر رہی‘ کوئی اور بات جو آپ کے ذہن میں ہو؟

‎ڈاکٹر صاحب! ایک غم ہے جو کھائے جا رہا ہے‘ بیٹے بیٹیاں بیرون ملک ہیں‘ ان کی یاد میں تڑپتا رہتا ہوں۔ 

‎ڈاکٹر نے کیا تجویز کیا؟ عد

‎اس قصے کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں۔ غور اس بات پر کیجئے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے ساری نعمتوں‘ آسودگیوں کے باوجود یہ معمر شخص ایک کرب میں مبتلا تھا۔ یہ کرب کیا تھا؟ اسے ’’احتیاج‘‘ کہتے ہیں۔ سفید فام فرنگی اس احتیاج کو‘ انحصار کی کیفیت کو

Dependence

‎ کا نام دیتے ہیں۔ ہم روزمرہ کی زبان میں اسے ’’محتاجی‘‘ کہتے ہیں۔ بڑے بوڑھے یہ دعا اکثر دیتے ہیں‘ ’’اللہ تمہیں محتاجی سے بچائے‘ خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔ یہ دعا معمولی دعا نہیں ہے‘ بڑے بوڑھوں کو اس احتیاج کی ہولناکی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے یہ دعا بڑے ہی دیتے ہیں‘ شاید ہی کوئی جوان مرد یا عورت یہ دعا کسی کو دیتی ہو۔

‎احتیاج۔ انحصار۔ تین طرح کا ہوتا ہے تینوں بھیانک‘ ہولناک اور قابل رحم ہیں‘ ایک انحصار مالی ہے۔ بڑھاپے میں مالیات کمزور ہوں تو ؎

‎غرض دوگونہ عذاب است جان مجنوں را
‎بلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰ

‎مجنوں دو عذابوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایک لیلیٰ کے قربت کی مصیبت‘ دوسرا اس کا ہجر۔

‎بڑے میاں کو اپنی فکر نہیں۔ مکان بھی بچوں کے لیے بنانا ہے۔ پلاٹ بھی بچوں کے لیے چھوڑ کرجانے ہیں۔ بچے مرنے کے بعد دعائے مغفرت بھی کرتے ہیں یا نہیں‘ یہ نہیں معلوم۔ اپنے لیے کچھ نہیں بچانا نہ رکھنا ہے۔ یہاں تو ایسے ایسے حمقا بھرے پڑے ہیں کہ سرچھپانے کی جگہ‘ فرط محبت میں بیٹوں کے نام کرا دی۔ بہوئوں نے آ کر نکال دیا‘ بیٹوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ پھر توکل کا مطلب بھی غلط لیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کل کا اللہ مالک ہے۔ خدا کے بندو اللہ ہی نے دیا ہے۔ اپنے علاج معالجہ اور اخراجات کے لیے پس انداز کر کے رکھو تاکہ احتیاج نہ ہو۔ تاکہ انحصار سے بچ سکو۔ کیا عزت نفس یہ اجازت دے گی کہ کل اپنے علاج کے لیے‘ روزمرہ کے اخراجات کے لیے‘ بیٹے یا بہو یا بیٹی یا داماد کا منہ دیکھتے رہو۔ چنانچہ مالی احتیاج سے بچنے کی دعا بھی کرنی چاہیے اور دوا بھی۔ جو دعائیں بزرگوں سے منقول ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ آخری عمر میں مالی آسودگی نصیب ہو۔

‎اللھم اجعل اوسع رزقک علی عند کبر سنی وانقطاع عمری۔
‎یااللہ بڑھاپے میں اور عمر کے ختم ہونے کے وقت مجھ پر اپنا رزق وسیع کرنا۔

‎دوسرا انحصار جسمانی انحصار ہے۔ جسمانی احتیاج۔ اس سے پناہ مانگنی چاہیے اور اس سے بچنے کیلئے کچھ منصوبہ بندی بھی۔ ہر کام دوسروں سے کرانیوالے اس معاشرے میں جسمانی محتاجوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ پانی بھی پلائے تو نوکر یا کوئی بچہ یا بیوی۔ اٹھ کر دروازہ بھی نہیں بند کرنا۔ گاڑی یا موٹرسائیکل‘ پارکنگ کی مخصوص جگہ پر نہیں پارک کرنا۔ اس لیے کہ دو قدم چلنا پڑتا ہے۔ عین دکان کے سامنے گاڑی کھڑی کی جائیگی راستہ بے شک بند ہو جائے۔ ورزش کا کلچر ہی نہیں عام ہوسکا۔ شاید خواتین کی مکمل آ بادی میں پانچ یا زیادہ سے زیادہ دس فیصد ورزش اور جسمانی چستی کا خیال رکھتی ہوں۔ آپ بنکاک‘ لندن‘ نیویارک اور ٹورنٹو کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر دیکھئے‘ پاکستان اور بھارت کی معمر عورتیں مشکل سے چل رہی ہوں گی۔ ایک قدم آگے تو دو دائیں بائیں۔ جیسے ایک ٹیڑھی لکیر کھینچی جا رہی ہو۔ ان سے عمر میں کہیں بڑی یورپی چینی اور جاپانی عورتیں کھٹ کھٹ چلتی ہوئی یہ جا وہ جا۔ ان پاکستانی اور بھارتی عورتوں کا سفری سامان بھی ان کے شوہروں نے اٹھایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ جو مغربی یا مشرق بعید کی عمر رسیدہ عورت کھٹ کھٹ‘ تیزی سے گزر جاتی ہے اس کی پیٹھ پر بیک پیک بھی ہے اور ہاتھوں میں ٹرالی بیگ بھی۔ ایک نوے سالہ مغربی عورت کے کمرے میں ہم سب بیٹھے تھے۔ وہ اٹھی اور کمرے کا دروازہ خود بند کیا۔ حالانکہ وہ کسی سے بھی کہہ سکتی تھی۔ امریکہ کے ایک سپر سٹور میں ایک بہت عمر رسیدہ خاتون جو نوے کے پیٹے میں ہوگی‘ خریداری سے بھری ٹرالی دھکیلے لئے جا رہی تھی۔ اس کالم نگار کی بزرگوں کی خدمت کرنے والی رگ پھڑکی۔ اس سے پوچھا‘ خاتون‘ کیا میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں؟ اس نے ہاں یا نہیں یا شکریہ کے بجائے پوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘ جس کا کالم نگار کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

‎اپنے استعمال کی اشیائ‘ چارپائی کے گرد یا ایک کمرے میں جمع نہ کیجئے۔ دور دور رکھئے تاکہ آپ کو بار بار اٹھنا پڑے اور جسم کام کرتا رہے۔ اپنے ذاتی کام بیوی بچوں سے اور خدمت گاروں سے نہ کرائیے۔ اپاہج نہ بنیے۔ دوسروں کے لیے درد سر نہ ثابت ہوں۔ صرف وہ کام دوسروں سے کہیے جو آپ کے بس میں بالکل نہ ہو۔ اپنے اعضا کو اعضائے معطل نہ بنائیے۔ انہیں جیتے جی ریٹائر نہ کیجئے۔ سیر کو معمول بنائیے۔ مسجد تیز چل کر جائیے۔ جم ہے یا واکنگ ٹریک‘ اس میں جانا اپنا معمول بنا لیجئے۔ بستر رات کے لیے بنا ہے دن کے وقت اس کا استعمال جسمانی احتیاج کے راستے کی طرف لے جائے گا

‎اور ہاں کھانا کھاتے وقت ناامید نہ ہوں اور اسے اپنی زندگی کا آخری کھانا نہ گردانیے۔ شادی کی تقریب میں کھانا کھلنے کا اعلان ہو تو دور کھڑے ہو کر تماشا دیکھئے کہ کس طرح لباس ہائے فا خرہ میں ملبوس معززین‘ بھوکے بھیڑیوں کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان کی پلیٹوں میں بریانی کے مینار اور گوشت کے انبار دیکھ کر دل میں ان بدبختوں کے لیے رحم کے جذبات ابھارنے کی کوشش کیجئے اور جب یہ سب بھوکے ننگے امرا کھانا لے چکیں تو جو کچھ بچا ہے‘ تھوڑی سی مقدار میں لے کر تناول فرما لیجئے۔

‎رہی تیسری احتیاج! جذباتی‘ تو اس سے پرہیز کا سامان نہ کیا تو یہ مار ہی ڈالے گی۔ ایک تو یہ مثبت پہلو دیکھئے کہ یہ گھوڑوں‘ قافلوں‘ ڈاکوئوں‘ بحری جہازوں کا زمانہ نہیں۔ آپ کا عزیز یا عزیزہ جو بھی بیرون ملک ہے‘ چند گھنٹوں میں پہنچ سکتا ہے‘ آپ جا کر مل سکتے ہیں۔ سکائپ پر‘ واٹس ایپ پر اور فیس ٹائم پر دن میں کئی بار بات کرسکتے ہیں‘ دیکھ سکتے ہیں۔ خدا کا شکر ادا کیجئے کہ آپ اس زمانے میں پیدا ہوئے ورنہ آپ سے پہلے جو لوگ تھے‘ وہ اپنے پیاروں کے خطوں کا بندرگاہوں پر بیٹھ کر انتظار کرتے تھے اور ہر روز کرتے تھے

‎اور اگر باہر بیٹھے ہوئوں کو آپ کی یاد نہیں ستاتی تو آپ بھی یہی رویہ اپنائیے۔ جو بچے اور پوتے نواسیاں پاس ہیں‘ ان سے لطف اندوز ہوں۔ جو پرندہ ہاتھ میں ہے‘ اسے دیکھئے‘ جو دور ہے‘ اس کے لیے ہلکان نہ ہوں۔ حالی نے یہی تو سمجھایا تھا ؎

‎جب سے دل زندہ! تونے ہم کو چھوڑا
‎ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی

‎مصحفی نے جب کہا تھا کہ ؎

‎بھلا درستی اعضائے پیر کیوں کر ہو
‎ کہ جیسے رسی سے ٹوٹا کواڑ باندھتے ہیں

‎تو مصحفی کا اور زمانہ تھا۔ اب تو دانتوں سے لے کر گھٹنوں تک۔ ہر شے نئی مل جاتی ہے۔

‎اور آخر میں یہ بھی سمجھ لیجئے ؎

‎آنکہ شیراں را کند روبہ مزاج
‎احتیاج و احتیاج و احتیاج

‎یہ احتیاج ہے جو شیروں کو لومڑی بنا دیتا ہے۔


Thursday, September 20, 2018

واپس آ جائو! تلہ گنگ والو! تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا


سامنے دریا تھا!

تھکے ہارے اکبر کو سستانے کے لیے تھوڑا سا وقت ملا۔

’’کون سی غذا ہے جو ایک نوالے میں مکمل ہو جاتی ہے؟‘‘

اس نے خانخاناں سے پوچھا۔

’’انڈا! جہاں پناہ!‘‘

خانخاناں نے جواب دیا۔

بس اتنا ہی وقت تھا۔ پھر گرد تھی اور گھوڑا۔ اور لشکر اور جنگیں! سال گزر گیا یا اس سے بھی زیادہ عرصہ! سفر کی گردشیں بادشاہ کو ایک بار پھر اٹک لے آئیں۔ وہیں دریائے سندھ کے کنارے! خانخاناں ساتھ تھا۔ بادشاہ نے کسی تمہید‘ کسی یاددہانی ‘ کسی حوالے کے بغیر پوچھا۔

’’کس طرح؟‘‘

’’اُبال کر!جہاں پناہ!!‘‘

نہ جانے یہ روایت درست ہے یا نہیں!مگر یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ کابل آتے جاتے اکبر اٹک ٹھہرتا۔ پھر مقامی شورشوں کو دبانے کے لیے اور افغانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اس نے یہاں قلعہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اٹک کا قلعہ 1581ء میں بننا شروع ہوا۔ تقریباً تین برس لگے۔ راولپنڈی کی طرف سے جائیں تو قلعے سے پہلے‘ بائیں طرف‘ مُلاّ منصور کی بستی ہے۔ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد کا تعلق اس بستی سے ہے۔ نصیر صاحب عراق میں پڑھاتے رہے۔ پھر قائد اعظم یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے سربراہِ شعبہ رہے۔ ان کی آبائی زمینیں اٹک قلعہ میں آئیں۔ اب تاریخ اتنی تفصیل نہیں بتاتی کہ اُس وقت‘ زمین کے مالکوں کو زرِتلافی کس حساب سے ملتا تھا۔ آج کل تو اکثر لوگ خوار اور شاکی ہی دیکھے گئے ہیں!

مغل سلطنت کا شیرازہ بکھرا تو جنوبی ہند سے مرہٹے اُٹھے اور شمال پر چھا گئے۔ اٹک ہی کے مقام پر 1758ء میں مرہٹوں کی جنگ درانیوں سے ہوئی۔ فتح پا کر مرہٹوں نے اٹک خورد پر اور قلعے پر قبضہ کر لیا۔

1908ء میں اٹک خورد کے قریب انگریزوں نے نیا شہر بسایا اور جنرل کیمپ بیل
(Campbell)
کے نام پر شہر کا نام کیمپ بیل پور رکھا۔ یہ جرنیل1857ء کی جنگ آزادی کے دوران استعمار کی فوج کا کمانڈر ان چیف تھا۔ آزادی کے مجاہد تانتیا ٹوپے کو اسی نے شکست دی تھی۔

کیمپ بیل پور‘ امتدادِ زمانہ سے کیمبل پور ہو گیا۔ اس زمانے میں مقامی لوگ اسے کامل پور بھی کہتے تھے۔1978ء میں نام بدل کر اٹک رکھ دیا گیا۔ ضلع کیمبل پور(اٹک) 1904ء میں وجود میں آیا۔ اس کی چار تحصیلیں تھیں۔ جہلم کے ضلع سے تلہ گنگ تحصیل لی گئی اور راولپنڈی کے ضلع سے فتح جنگ‘ پنڈی گھیب اور اٹک کی تحصیلیں لے کر نیا ضلع بنایا گیا۔

1904ء سے لے کر 1985ء تک تلہ گنگ ضلع اٹک کا حصہ رہا۔ ثقافت، زبان اور کئی دیگر اعتبار سے یہ ضلع کے باقی علاقوں کے ساتھ پورا ہم آہنگ تھا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران اٹک کے ضلع نے‘ جو مارشل (عسکری) ایریا کا دِل تھا‘ فوج میں بہترین جوان بھیجے۔ خطہ گیتوں سے چھلکنے لگا۔

ماہیا فتح جنگے دیا! تلہ گنگے دی بولی بول!

گیتوں میں ریل گاڑی سے بہت شکوے ہوئے کہ مائوں کے بچوں کو بٹھا کر دور دیسوں میں لے جاتی ہے!تلہ گنگ اور میانوالی کے درمیانی علاقے کو‘جو اٹک ضلع کا حصہ تھا‘ اعوان کاری کہتے ہیں۔ یہاں لوک کہانیاں محاورے‘بجھارتیں‘ دعائیں‘ گالیاں‘ لطیفے‘ طعنے‘ کوسنے‘ کھانے پینے کے رواج‘ لباس کی روایت‘ سب پنڈی گھیب اور فتح جنگ سے ملتی جلتی ہے۔ فتح جنگ اور تلہ گنگ‘ جغرافیائی فاصلے کے باوجود ہمیشہ جڑواں قصبے ہی سمجھے گئے۔ خواندگی کی شرح تلہ گنگ اور پنڈی گھیب کی تحصیلوں میں ہمیشہ زیادہ رہی۔ پنڈی گھیب میں خواتین شروع ہی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ رہیں۔ ایک کثیر تعداد وہاں کی خواتین کی پنجاب کے کالجوں میں پڑھاتی رہی اور اب بھی یہی صورت حال ہے۔ تلہ گنگ کے علاقے میں حفاظ تاریخی اعتبار سے ہمیشہ زیادہ رہے۔وہ بھی زمانہ تھا کہ خواتین‘ کنوئوں سے ڈول کھینچتے ہوئے اور پانی بھرتے ہوئے‘ قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتیں۔ روایت ہے کہ شہنشاہ اورنگزیب کا اس علاقے سے گزر ہوا تو اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک گائوں میں ہر مردوزن‘ بچہ بوڑھا قرآن پاک کا حافظ ہے۔ اس نے سب کوبلا کر امتحان لیا اور کامیاب پایا۔

موٹر وے بننے سے پہلے‘ اہل تلہ گنگ کا راستہ فتح جنگ ہی سے گزرتا تھا۔ راولپنڈی اسلام آباد سے براستہ فتح جنگ‘ یہ لوگ اٹک آئل کمپنی کھوڑ سے ہوتے‘ ڈُھلیاں موڑ جاتے۔ وہاں سے بائیں طرف مُڑ کر اُس شاہراہ پر ہو لیتے جو تلہ گنگ جاتی۔ اس مشترک راستے نے ثقافتی‘ تہذیبی اور لسانی اعتبار سے تلہ گنگ کو اپنے ضلع اٹک کے لوگوں کے ساتھ مزید ہم آہنگ کر دیا تھا۔ مکھڈی حلوہ بھی فتح جنگ‘ پنڈی گھیب اور تلہ گنگ کے درمیان ایک قدر مشترک تھی اور ایسی قدر مشترک جو میٹھی بھی تھی!

تلہ گنگ کے عوام اور خواص کو اپنے شہر اور اپنی تحصیل کی اہمیت کا احساس ہمیشہ سے تھا! تلہ گنگ صرف شہر نہیں‘ایک صد راہا یعنی بہت بڑا جنکشن بھی تھا۔ میانوالی سرگودھا اور کراچی جانے والی ٹرانسپورٹ یہیں سے ہو کر گزرتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے تحریک کا آغاز کیا کہ تلہ گنگ کو ضلع بنایا جائے۔ مطالبہ منطقی طور پر درست تھا۔ جغرافیائی محل وقوع تلہ گنگ کا اسی بات کا متقاضی تھا۔چکوال اور پنڈی گھیب اس ضلع کی تحصیلیں بن سکتی تھیں۔ مگر 1985ء میں تلہ گنگ کے لوگوں کو یہ عجیب و غریب خبر ملی کہ نیا ضلع تو بنا‘ مگر ان کا نہیں! اہلِ چکوال جیت گئے تھے۔ شاید ایک وجہ یہ تھی کہ جرنیل وہاں سے زیادہ تھے۔ بااثر سیاست دانوں نے بھی اپنا وزن چکوال کے پلڑے میں ڈالا اور تلہ گنگ کو اٹک سے کاٹ کر تخت چکوال کا حصہ بنا دیا گیا۔

مگر ہم آہنگی نہ در آ سکی! جب بھی!تلہ گنگ جانا ہوا‘ عوام سے بات ہوئی یا خواص سے یہی سنا کہ چکوال چکوال ہے اور اٹک اٹک تھا۔ جو یادیں‘ ثقافتی تال میل‘ لہجے کا اشتراک ضلع اٹک سے تھا‘ تلہ گنگ کے لوگوں نے اُس کا ہجر ہمیشہ تازہ رکھا۔ ہمارے سینئر دوست جناب ایاز امیر نے تلہ گنگ کے حوالے سے کل جو کالم لکھا‘ وہ دلچسپ بھی ہے اور کھٹا کم اور کڑوا زیادہ ہے! شاید ان کا کالم تلہ گنگ والوں کے اس احساس کی تائید کرتا ہے کہ چکوال والے سلوک تو اچھا کرتے ہیں مگر اتنا ہی اچھا جتنا ایک سوتیلی ماں کا ہوتا ہے۔ تلہ گنگ کی اصل ضلعی ماں تو اٹک ہی ہے! مولانا رُوم یاد آ گئے ؎

دستِ ہر نااہل بیمارت کند

پیشِ مادر آ کہ تیمارت کند

کہ ہر نااہل کا ہاتھ تجھے مزید بیمار کیے جا رہا ہے۔ تیمار داری ماں ہی کرتی ہے۔ اس کے پاس آئو!

فوجی اعتبار سے تو تلہ گنگ نمایاں ہے ہی!ائر مارشل نور خان سے لے کر جنرل فیض جیلانی اور بریگیڈیئر فتح خان ملک تک‘ بہت سے عسکری ستارے تلہ گنگ کے آسمان پر جھلملا رہے ہیں! مگر سول سروس میں بھی تلہ گنگ کے سپوتوں نے اپنی لیاقت کا سکہ منوایا ہے۔ پاکستان ریلوے کے موجودہ سربراہ آفتاب اکبر اور ریلوے کے مالیات کے سربراہ منظور ملک تلہ گنگ سے ہیں! ریجنل کمشنر تنویر ملک کا تعلق بھی وہیں سے ہے۔ سعید اختر ملک سول سروس کے بڑے منصب سے ریٹائر ہوئے۔ ملک فتح خان نے بارانی علاقوں کی ترقی کے لیے تحقیقی اور تنظیمی کام سالہا سال کیا۔ اب بھی اقوام متحدہ سے وابستہ ہیں۔ مشتاق ملک وفاقی سیکرٹری رہے۔ جی آر اعوان بڑے بڑے ملکوں میں سفیر رہے!ملک لال خان ایٹمی ادارے سے وابستہ ممتاز سائنسدان ہیں۔ لیاقت ملک مرحوم انجینئر تھے اور کئی فلاحی تنظیموں میں شامل ہو کر عوام کی خدمت کرتے رہے!

چکوال بھی ہمارا اپنا ہے ! اور اٹک بھی اپنا! تلہ گنگ والوں کو نصیحت یہ کرنا ہے کہ یا ضلع اٹک میں واپس آئو! تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا! یا پھر اپنا ضلع الگ بنوالو!!


















Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Tuesday, September 18, 2018

ایک دن اس کا جہاز آ جائے گا


شہروں میں شہر ہے اور بہشتوں میں بہشت! 

افسوس! شاہ عباس صفوی کو اس شہر کا پتہ نہ تھا ورنہ تبریز کو چھوڑا تو اصفہان کے بجائے یہاں کا رخ کرتا۔ تیمور اسے دیکھتا تو سمرقند کا درجہ دیتا۔ بابر کا گزر ہوتا تو کابل کو یاد کرکے آنسو نہ بہاتا۔ شاہ جہان اسی کو آگرہ بنا لیتا۔ 

بادشاہ نے بخارا سے دور پڑائو ڈالا۔ واپسی کا نام نہیں لے رہا تھا۔ رودکی نے بخارا کو یاد کرایا تو چل پڑا ؎ 

بوئی جوئی مولیاں آید ہمی 

یاد یار مہرباں آید ہمی

شاہ مہ است و بخارا آسماں

ماہ سوئی آسماں آید ہمی

شاہ سرو است و بخارا بوستاں 

سرو سوئی بوستاں آید ہمی

مولیاں ندی کی مہک آ رہی ہے جیسے یار مہرباں کی یاد 

بادشاہ چاند ہے اور بخارا آسماں چاند آسماں کی طرف چل پڑا ہے۔ 

بادشاہ سروہے اور بخارا باغ سرو باغ کی طرف چلا آ رہا ہے 

رودکی ایبٹ آباد کی ہوا کے جھونکے چکھتا تو بخارا کی یاد میں آنسو نہ بہاتا۔ تعجب تو ہندوستان کے وائسرائے جان لارنس پر ہے جس نے 1863ء میں شملہ کو موسم گرما کا دارالحکومت قرار دیا اور نظر ایبٹ آباد پر نہ پڑی۔ دس سال پہلے میجر ایبٹ، ایبٹ آباد شہر کی بنیاد رکھ چکا تھا۔ کہاں شملہ اور کہاں ایبٹ آباد۔ ایبٹ آباد تو شمالی علاقہ جات کا دروازہ ہے۔ تاہم ایبٹ آباد کی قسمت اچھی تھی۔ انگریزوں کی نظر اس پر اس اعتبار سے نہ پڑی ورنہ شملہ کا تو وہ حشر ہوا جو شام کا فرنگیوں نے کیا تھا۔ بقول اقبال ؎ 

فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا 

متاع عفت و غم خواری و کم آزاری 

صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے 

مے و قمار و ہجوم زنان بازاری 

شملہ راجدھانی بنا تو برطانیہ سے آئی ہوئی زنان بازاری نے اس پر ہلہ بول دیا۔ شوہروں کی تلاش میں جوان میموں کی بھی لائن لگ گئی۔ جوئے، شراب اور حرام کاری کے طوفان نے شملہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

شہروں میں ایبٹ آباد شہر ہے اور بہشتوں میں بہشت۔ کیا اس کی خنک ہوا ہے۔ منوچہری دامغانی یاد آ گیا۔ خوارزم کی طرف سے چلنے والی ہوا پر پکار اٹھا ع 

باد خنک از جانب خوارزم وزان است 

اس کالم نگار نے خوارزم بھی دیکھا ہے۔ اس کی بغل میں رواں جیحوں (آمو) دریا کے کنارے کنارے بھی چلا ہے اور خوارزم کی ہوائوں سے بھی لطف اٹھایا ہے مگر اس پروردگار کی سوگند، جس نے اس ناشکر گزار قوم کوشمالی علاقوں کی نعمت عطا کی ہے، خوارزم کی ہوا ایبٹ آباد کی خنک، دل آویز اور روح کو ٹھنڈک پہنچانے والی ہوا کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ 

شہروں میں ایبٹ آباد شہر ہے۔ اور بہشتوں میں بہشت - شہر کے اندر داخل ہونے سے بہت پہلے شاہراہ قراقرم کی خوشبو ہوا میں اپنا نشان بتاتی ہے۔ خوبصورت پہاڑیوں نے شہر کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ جیسے چاند کے گرد ہالہ۔ پرانے ایبٹ آباد کی گلیوں میں ایک سو پینسٹھ برس پرانی مہلک اس زمانے کی یاد دلاتی ہے جب شتر اور اسپ سامان سے لدے یہاں آتے تھے اور یہاں سے جاتے تھے۔ مانسہرہ روڈ پر جوں جوں آگے بڑھیں، ایک دلربا حسن مسافر کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے جس کا سحر الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ 

بٹراسی، شنکیاری، ڈاڈر۔ ایک سے ایک بڑھ کر۔ بہتے ہوئے جھرنے ہیں۔ پتھروں سے سر ٹکراتی، گنگناتی، مست ندیاں ہیں۔ پہاڑوں پر چنار کے درخت ہیں۔ ڈھورڈنگر چراتے چاند جیسے چرواہے ہیں۔ آسمان ہے جو نیلگوں سمندر کا ٹکڑا لگتا ہے۔ زمین ہے جو چاندی کا تھال نظر آتی ہے۔ وہ اشعار یاد آ گئے جو ایک چاندنی رات میں، تاشقند، برف پہنے درختوں کے درمیان چہل قدمی کرتے کہے تھے ؎ 

شبیں تھیں اطلس کی، دن تھے سونے کے تار جیسے

بہشت اترا ہوا تھا جیحوں کے پار جیسے 

گلاب سے آگ، آگ سے پیاس بجھ رہی تھی 

زمیں وہاں کی فلک، فلک تھے ہزار جیسے 

رات کو چاند نکلا ہو تو ایبٹ آباد کی شاہراہوں پر گھوم کر دیکھو، پہاڑوں پر بنے اونچے مکانوں کی روشنیاں جھک جھک کر چاند کو سلام کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ چلتے جائو۔ انہی راستوں پر را کا پوشی اور کے ٹو کی شہزادیاں آسمان سے خراج حسن لیتی ملیں گی۔ یہیں سے وہ شاہراہ پھوٹتی ہے جو سیب اور خوبانی کے باغوں کو جاتی ہے۔ جہاں شہتوت اور شفتالو کے درختوں کے جھنڈ ہیں۔ جہاں تاکستان ہیں۔ جہاں پیڑوں کی ٹہنیاں بادام اور اخروٹ سے لدی ہیں۔ 

آہ! ہم تو اس نعمت سے فائدہ ہی نہ اٹھا سکے۔ ہم نے سیاحت کا محکمہ ہمیشہ سفارشی اور سیاسی مگرمچھوں کے مکروہ دہانوں میں ڈالا اور نقصان اٹھایا۔ ہم نے سیاحوں کے لیے سہولیات نہ مہیا کیں۔ انفراسٹرکچر صفر سے بھی نیچے ہے۔ مگر یہ مرثیہ خوانی پھر کبھی۔ اس وقت تو سامنے ایبٹ آباد ہے اور اس کی حیرت زدہ کرتی تاثیر۔ 

ایبٹ آباد میں شاعر، دانشور اور ماہر تعلیم واحد سراج ہے۔ ساری زندگی تعلیم اور طلبہ کی خدمت میں گزار دی۔ دونوں میاں بیوی، امریکہ سے اور نہ جانے کہاں کہاں سے پڑھ کر، پڑھا کر اور تربیت لے کر اور دے کر، ایبٹ آباد میں ملک کا بہترین تعلیمی ادارہ چلا رہے ہیں۔ کتنے ہی نادار لائق طلبہ ان کی فیاضی سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ پھر اپنی عمارتوں کو اور بڑے بڑے ہال نما کمروں کو ادیبوں اور شاعروں کے اجتماعات کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ فضل تو خدا کا ہن کی طرح بہت سوں پر برستا ہے مگر اس فضل کو آگے بانٹنا کم ہی ثروت مندوں کے حصے میں آتا ہے۔ واحد سراج خوش بخت ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ادب کی بھی سرپرستی کر رہا ہے۔ 

ایبٹ آباد میں احمد حسن مجاہد ہے۔ شاعر اور دوستوں کا دوست۔ بالا کوٹ 2005ء کے زلزلے میں برباد ہوا تو اس کی تباہی پر اور اس کی بحالی کے لیے جمع ہونے والی امداد کے ساتھ ہونے والی بددیانتی پر پوری کتاب لکھی۔ اب ’’رموز شعر‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جو عروض اور شعری گرامر پر سند کا درجہ رکھتی ہے اور آنے والے تحقیقی حوالوں میں اس کا مذکور ہوگا۔

ایبٹ آباد میں ادیبوں اور شاعروں کی پوری کہکشاں ہے جس نے ہزارہ کے جغرافیائی حسن کو معنوی خوبصورتی سے بھی مالا مال کر رکھا ہے۔ محمد حنیف، میجر امان اللہ، امتیاز احمد امتیاز، ڈاکٹر ضیاء الرشید، پرویز ساحر، نسیم عباسی، سفیان صفی، شعیب آفریدی اور عامر سہیل ان میں سے صرف چند ہیں۔ بزرگ شاعر سلطان سکون اب صاحب فراش ہیں اور ہمارا یار شاعر خوش بیان خالد خواجہ کبھی امریکہ میں ہے اور کبھی ایبٹ آباد کے مرغزار میں۔ 

اور ہاں! رستم نامی بھی تو اسی شہر کا مکین ہے۔ حادثے میں جوان بیٹا شہید ہوا اور خود ایک ٹانگ سے محروم۔ کیا شعر کہا ہے ظالم نے ؎ 

وہ بچھڑ جائے گا ہم سے ایک دن 

ایک دن اس کا جہاز آ جائے گا





Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Saturday, September 15, 2018

حلوے کا سرا نہ تلاش کیجیے



آپ بحث کیے جا رہے ہیں۔ عقل اور منطق کی بنیاد پر دلائل دے رہے ہیں۔ کرپشن کے اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں۔ دوسرا شخص زور اس بات پر دے رہا ہے کہ یہ حکمران ولی اللہ تھا کیوں کہ اس کے لیے سعودی حکومت نے کعبۃ اللہ کا دروازہ کھولا تھا۔ آپ مزید دلائل دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس کس طرح قانون کو پامال کیا گیا۔ جوابی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا غریب عوام کی خاطر کیا، جو بات آپ بھول رہے ہیں یہ ہے کہ جس سے بحث کر رہے ہیں۔ اس کے دوبھائیوں کو اس حکمران نے اعلیٰ مناصب دیئے، بیٹی کو ایم این اے بنایا۔ پوتے کو ایف آئی اے میں بھرتی کیا۔ آپ زمین و آسمان کے اعداد و شمار لے آئیں، دوسری طرف مسئلہ ذاتی وفاداری کا ہے۔ احسان کا ہے! چنانچہ پہلا سبق آپ یہ یاد کیجیے کہ کسی 
Beneficiary
سے یعنی کسی ایسے شخص سے جس نے مفادات حاصل کیے ہیں، بحث نہیں کرنی چاہیے۔ 

جسے فیکٹری بنانے کے لیے قرض دیا گیا اور پھر قرض معاف کر دیا گیا، جسے پلاٹ ملے، جسے ملازمتیں ملیں، یا جسے کسی محکمے میں اس لیے رکھا گیا کہ اصل کام قصیدہ خوانی یا دفاع ہے، یا جسے راتب مل رہا ہے، اس سے بحث کرنا بے وقوفی ہے۔جس کسی کو بھی کسی شخص یا جماعت یا گروہ یا پارٹی کی وجہ سے کوئی منصب ملا ہے یا کسی ادارے کی رکنیت نصیب ہوئی ہے اس کے لیے تو وہ شخص فرشتہ ہے اور وہ گروہ مقدس گروہ ہے۔ اس کی ہزارہا تحریریں چھان ماریے، کہیں غلطیوں کی نشان دہی نہیں ملے گی۔ صرف توصیف ملے گی اور تعریف میں حد درجہ مبالغہ آرائی۔ اس کی رگوں میں محض تشکر ہے اور احسان مندی! سو، آپ نے صرف اتنا کہنا ہے بھائی معاف کیجیے۔ میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔ 

دوسرے دن آپ ایسے شخص سے بحث کر رہے ہیں جو یہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ فلاں سیاست دان، فلاں عالم، فلاں پیر، فلاں دانشور غلطی کا ارتکاب بھی کر سکتا ہے۔ ایسے شخص کو شخصیت پرست کہتے ہیں۔ یعنی
 Hero-woriship
کرنے والا۔ آپ کی دلیل عقل کی بنیاد پر ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ فلاں بات ان صاحب نے درست کہی ہے مگر فلاں جگہ وہ غلطی کر گئے ہیں۔ دوسری طرف سے کہا جاتا ہے غلطی وہ کر ہی نہیں سکتے۔ غلطی آپ کے سمجھنے میں ہوئی ہے۔ سو، دوسرا سبق یہ یاد رکھیے کہ شخصیت پرستی میں مبتلا کسی شخص سے بحث کرنا سراسر احمقانہ فعل ہے۔ 

اسی لیے عقل مند لوگ کسی مذہبی گروہ میں شمولیت نہیں اختیار کرتے کیونکہ پھر وہ ہر اقدام کا دفاع کرنے کے پابند ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک مولانا مودودی، سید قطب، جاوید غامدی، فلاں مولانا، فلاں پیر صاحب، فلاں امام، غلطی کا مرتکب ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کے ہر قول کا، ہر فعل کا دفاع کرنا ان پر لازم ہے۔ شخصیت پرستی یا ’’شخصیت دشمنی‘‘ کی بہترین مثال ہمارے ہاں سرسید احمد خان ہیں، اس اعتبار سے وہ مظلوم ترین بھی ہیں۔ ایک طبقہ انہیں شیطان کا پیروکار قرار دیتا ہے۔ دوسرا طبقہ اُن پر اس انداز میں فدا ہے کہ ان کے مذہبی عقائد کی بھی غیر مشروط تائید کرتا ہے۔ درمیان راستہ اوجھل ہو گیا ہے۔ بہت کم ایسے متوازن اہلِ علم ملیں گے جو سرسید احمد خان کے خلوص اور ایثار کی تعریف کریں گے۔ یہ وہی تھے جنہوں نے جدید علوم سیکھنے کے لیے مسلمانوں کو آمادہ کیا۔ گستاخِ رسولؐ کی کتاب کا جواب لکھنے کے لیے گھر کا سامان تک بیچ دیا اور لندن گئے۔ مگر دوسری طرف قرآن کی تفسیر لکھی تو ٹھوکریں بھی کھائیں۔ ضروری نہیں کہ ان سے یہاں بھی اتفاق کیا جائے۔ 

یہیں سےنکتہ پھوٹتا ہے کہ لوگ دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جن کی سوچ کا محور شخصیات ہیں دوسرے وہ جو صرف نظریات پر توجہ دیتے ہیں۔ کم ہی ایسے حضرات نظر آئیں گے جنہوں نے نواز شریف کے کچھ اقدامات کو سراہا ہو اور کچھ پر کڑی تنقید بھی کی ہو، جنہوں نے عمران خان کی تعریف بھی کی ہو، اور ان پر تنقید بھی کی ہو۔ یہ وہ لکھاری یا دانش ور ہیں جن کے نزدیک اہمیت نظریات کی ہے۔ شخصیات کی نہیں! 

جو شخص ذہنی طور پر اس قدر اندھا مقلد ہو کہ لباس اور سر کی ٹوپی یا دستار میں بھی اپنے ممدوح کی تقلید کرتا ہو، اس سے آپ بحث کریں گے تو آپ جیسا گائودی دنیا بھر میں مشکل سے ملے گا۔ اپنا دماغ جلائیں گے وقت ضائع کریں گے، تلخی بڑھے گی۔ تعلقات کشیدہ ہوں گے۔ 

وہ جو اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ؎ 

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں 

فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں 

تو یہ مذہبی بحث کے ساتھ ساتھ دوسری بحثوں پر بھی صادق آتا ہے۔ اُس کتابِ ہدایت میں، جسے ہم نے غلاف میں لپیٹ کر طاق پر رکھا ہوا ہے، دوسنہری فارمولے بتائے گئے ہیں جو ان افراد سے نجات حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں جن کے منہ سے بحث کرتے وقت جھاگ نکلتی ہے۔ گلے کی رگیں سرخ ہو جاتی ہیں، مٹھیاں بھینچ لیتے ہیں، آواز ناروا حد تک بلند کر لیتے ہیں اور مکالمے کو مجادلے میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہ دونوں نسخے ایک ہی سورہ، سورہ فرقان میں بیان کیے گئے ہیں۔ پہلے یہ ہدایت کی گئی کہ

’’جب جاہل لوگ اُن کے منہ آتے ہیں تو جواب میں کہتے ہیں اچھا صاحب! سلام!‘‘ 

یعنی معاف کیجیے۔ میں اس معاملے میں پڑنا ہی نہیں چاہتا۔ اگر اس فارمولے پر عمل پیرا ہوا جائے تو زندگی کی مکروہ صورت تبدیل ہو سکتی ہے۔ خاندانوں میں پڑنے والی دراڑیں، دوستوں میں آنے والے بال، دور ہو سکتے ہیں۔ 

زندگی کے روز و شب میں آپ سے ملنے جلنے والے، آپ کے اعزہ اور اقارب سب عقلیت پسند ہوتے ہیں نہ فلسفی نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ۔ مگر آپ آئے دن دیکھتے ہیں کہ اچھے خاصے معقول حضرات دیواروں سے سر ٹکرا رہے ہوتے ہیں۔ ایک صاحب اپنی گاڑی جس مکینک کے پاس لے کر جایا کرتے تھے۔ اس سے سیاسی بحث کرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کے پاس جانا چھوڑ دیا۔ اب میلوں دور، ایک اور ورکشاپ میں جاتے ہیں۔ ایک بھلے مانس ایک قریبی عزیز سے اس لیے الجھ پڑے کہ فلاں مسجد میں نماز پڑھتے ہو، فلاں میں کیوں نہیں جاتے۔ تلخ کلامی اس حد تک بڑھی کہ تعلقات میں شگاف پیدا ہو گیا۔ آپ کا کیا خیال ہے، کیا غلطی اُس بے وقوف کی تھی جس نے بحث کا آغاز کیا؟ نہیں! دوسرے صاحب زیادہ پڑھے لکھے تھے۔ قصور ان کا ہے۔ انہیں چاہیے تھا خاموش رہتے، یا اتنا کہہ دیتے، پھر کبھی بات کریں گے۔ اگر یہ کہہ دیتے کہ آپ کی مسجد میں بھی نماز پڑھ لیں گے، کوئی مضائقہ نہیں۔ تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا۔ جو بھی یہ اعتراض کرتا ہے کہ فلاں مسجد میں کیوں جاتے ہو، وہ یقینا جاہل ہے اور جاہلوں کے متعلق ہدایت یہ ہے کہ منہ پڑیں تو بحث نہ کیجیے، بس سلامتی بھیج کر ایک طرف ہو جائیے۔ 

دوسرا فارمولا بھی آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے! 

’’اور جب ’’لغو‘‘ کے پاس سے گزر ہوتا ہے تو بس سنجیدگی اور متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں‘‘۔ 

’’لغو‘‘ کا لفظ وسیع و عریض مفہوم رکھتا ہے۔ اس میں وہ کام بھی شامل ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں اور وہ گفتگو بھی شامل ہے جس کا مقصد دوسروں کی دل آزاری ہے۔ کوئی آپ کی پسندیدہ شخصیت کے بارے میں نازیبا کلمات کہتا ہے تو اسے لغو سمجھ کر، متانت اور خاموشی کے ساتھ وہ جگہ چھوڑ دیجیے۔ آگے گزر جائیے۔ 

غیبت کا شمار بھی لغویات ہی میں ہونا چاہیے۔ تھوڑی دیر خاموش رہ کر برداشت کیجیے، اگر غیبت کا سلسلہ طویل ہو جائے اور اس میں شرکا بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں تو وہاں سے اُٹھ آئیے۔ 

اکبر الٰہ آبادی ہی نے کہا تھا ؎ 

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں 
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں 

اب بحث کا سلسلہ فلسفیوں سے گزر کر جہلا کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ ظفر اقبال نے جبھی تو رونا رویا تھا ؎ 

جزیرۂ جہلا میں گھرا ہوا ہوں ظفرؔ 
نکل کے جائوں کہاں چار سُو سمندر ہے 

ہمارے علاقے میں فضول بحث کرنے والے کے بارے میں کہتے ہیں کہ حلوے کا سرا تلاش کر رہا ہے، بھلا حلوے کا سرا بھی کہیں ہاتھ آتاہے؟







Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Thursday, September 13, 2018

جب لاد چلے گا بنجارا


مکان بنتے دیکھا۔ کل میں نے بھی بنانا ہوگا۔ خوب دلچسپی لی۔ ایک ایک بات پوچھی۔ نقشہ کہاں سے بنوایا؟ ٹھیکہ کسے دیا؟ کمروں کا سائز کیا ہے؟ غسل خانے پر کیا خرچ آیا؟ ٹائلیں لگوائیں یا فرش ماربل کا رکھا؟ سیوریج کے پائپ کون سے برانڈ کے بہترین ہیں؟ نقشہ پاس 
کیسے ہوگا؟ فلاں راج کی شہرت کیسی ہے؟ ایک ایک تفصیل، سوئچ تک، کنڈی تالوں تک کی۔ 

شادی کی تقریب میں شرکت کی۔ مجھے بھی بیٹے کی شادی کرنی ہے۔ سب کچھ پوچھا۔ کون سا شادی ہال مناسب ہے۔ کھانے کا مینو کیا تھا؟ زیورات کہاں سے اچھے بنے؟ لہنگا کتنے میں بنا؟ 

ہم ہر کام ہوتا دیکھ کر کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔ اپنے فائدے کے لیے۔ زندگی پر نظر دوڑائیے۔ بچے کے سکول میں داخلے سے لے کر گیس کا میٹر لگوانے تک۔ ویزہ لینے سے لے کر ہوٹل کا کرایہ جاننے تک۔ 

مگر یہ عقلمندی، یہ دور اندیشی، یہ باریک بینی۔ اس وقت ہوا ہو جاتی ہے جب کسی کی موت دیکھتے ہیں۔ خدا کے بندو، قبر کھودی جا رہی ہو تو اس کی تفصیلات بھی تو پوچھو۔ کل تمہارے لیے قبر کون سی مناسب ہوگی؟ کتنی گہرائی والی؟ اپنے لیے سلیں تو چن لو۔ باتھ روم میں لگانے کے لیے ایک ایک ٹائل کی کوائلٹی اور قیمت پوچھتے ہو، ان سلوں کے بارے میں بھی کچھ جاننے کی کوشش کرو جو تمہارے بے جان جسم کے اوپر رکھیں گے اور پھران پر گارا تھوپیں گے؟ 

کلثوم نواز اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ یہ کیوں کہتے ہو کہ نوازشریف کی دولت کام نہ آئی؟ اپنے بارے میں سوچو۔ تمہارا کیا بنے گا؟ تم سے نوازشریف کی دولت کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ اپنی خیرمنائو، اپنے بارے میں سوچو، کلثوم نواز نہ رہیں تو تم کس کھیت کی مولی ہو؟ کسی سے اتنا ہی پوچھ لو کہ تدفین کے بعد، مٹی ڈالنے کے بعد، پھول چڑھانے کے بعد، دعا مانگنے کے بعد جب سب لواحقین اور دوست احباب واپس جا رہے ہوں گے اور ان کے دور ہوتے قدموں کی آہٹ تمہیں سنائی دے رہی ہوگی تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ تم سے پوچھا جائے گا مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ 

مان لیا زرداری اور شریفوں نے بہت کچھ جوڑا اور غلط طریقے سے جوڑا مگر سوال یہ ہے تم کیا جواب دو گے؟ تمہارے سامنے قبر میں وہ گاہک دکھائی دیں گے جنہیں کم تول کر، کم ماپ کر دیتے تھے۔ شے کا نقص نہیں بتاتے تھے؟ ٹیکس چوری کرتے تھے، حاجی صاحب کہلواتے تھے۔ آئے دن دیکھتے ہیں کہ ہمارے سامنے میت اتاری جا رہی ہے اور مٹی ڈالی جا رہی ہے مگر کبھی نہ سوچا کہ یہ کل ہمارے ساتھ بھی ہوگا۔ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ 

یہ گھاٹی اکیلے پار کرنا ہوگی۔ آج مکان تعمیر کرتے وقت، بچے کی شادی کرتے وقت، بیرون ملک سدھارتے وقت، سب ساتھ دیتے ہیں، ہاتھ بٹاتے ہیں، ڈیوٹیاں تقسیم کرلیتے ہیں مگر موت والا کام اکیلے کرنا ہوگا۔ نوکروں کی فوج ظفر موج۔ دوست احباب کے ہجوم! کوئی کام نہیں آتا۔ کچھ ایک دن روتے ہیں، کچھ ایک ہفتہ، کچھ ایک ماہ، کچھ ایک سال۔ اس کے بعد یوں لگتا ہے جیسے یہاں کوئی کبھی تھا ہی نہیں ؎ 

نہ گور سکندر نہ ہے قصر دارا 

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے 

اور کرنا کیا ہے؟ کسی کو دفن ہوتے دیکھ کر؟ پلان کیا بنانا ہے کسی کی قبر پر مٹی ڈالتے وقت؟ یہ واحد مہم ہے جس کو سرکرنے کے لیے سامان نہیں خریدنا۔ جیکٹ نہ سلیپنگ بیگ، مال نہیں جمع کرنا، قرض نہیں لینا، صرف یہ کرنا ہے کہ اپنے آپ کو سیدھا کرنا ہے، اپنی ٹیڑھ نکالنی ہے۔ اس منظر کو یاد رکھنا ہے، بس! اور کچھ نہیں۔ 

ملازمت کا معاہدہ آپ نے یہ کیا ہے کہ آٹھ بجے سے پانچ بجے تک کام کریں گے۔ جب اس معاہدے کو توڑتے ہیں تو توڑتے وقت صرف یہ یاد رکھنا ہے کہ کل آپ کو قبر میں اتارا جائے گا۔ وقت پر جائیے، پورا کام کیجئے، نماز یا ظہرانے کے بہانے بھگوڑے نہ بنیے۔ اس لیے کہ آپ کے اوپر مٹی ڈالی جانی ہے۔ 

وعدہ پورا کیجئے۔ ایک ایک وعدہ شکنی کا پوچھا جائے گا۔ سلوں پر مٹی ڈالے جانے کے بعد جواب دینا ہوگا؟ کیا کہیں گے اس وقت؟ آج انا پہاڑ بنی ہوئی ہے۔ رشتہ دار روٹھا ہے تو روٹھا ہے۔ پہلے وہ آئے۔ پہلے وہ معذرت کرے، میری تو غلطی ہی نہیں تھی، یہ انا، یہ تکبر، یہ غرور اس وقت کہاں ہوگا جب تمہارے جسم کے گرد دو پٹکے ڈالے جائیں گے۔ دونوں کو کناروں سے پکڑ کر لحد میں اتارا جائے گا، کیا قابل رحم حالت ہوگی۔ صرف وہ افراد لحد میں اتریں گے جو جسمانی لحاظ سے تنومند اور قوی ہوں گے۔ اپنے شاید نہ ہوں۔ 

ایک فٹ زمین، مکان بناتے وقت، تم نے سرکاری گلی کی مارلی۔ ایک فٹ پڑوس کی ساتھ ملالی، اس لیے کہ وہ بیوہ ہے اور تم سے مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہ جگہ تمہارے کس کام آئے گی؟ جو مٹی سلوں کے اوپر ڈالی جانی ہے وہ تو کہیں اور سے آنی ہے۔ پھر اس ایک فٹ کے لیے کیوں مرے جا رہے ہو؟ 

یہ کالم نگار ایک ایسے متمول شخص کو جانتا ہے جس نے کوٹھی تعمیر کی۔ ایک مربع فٹ جگہ ایک فٹ چوڑی، ایک فٹ لمبی کا پڑوس کی کوٹھی والے سے جھگڑا پڑ گیا۔ مقدمہ بازی چلی، لوگوں نے ہاتھ جوڑے۔ کوئی ایک ہی چھوڑ دو۔ وہ نہیں چھوڑ رہا تو تم چھوڑ دو۔ ایک مربع فٹ، صرف ایک، مربع فٹ۔ آخری سانس تک اس ’’مقصد جلیلہ‘‘ کے لیے لڑا۔ پھر سانس اکھڑ گئی۔ کوچ کا نقارہ بجا۔ وارثوں نے کبھی دعا تک نہیں کی۔ یاد تک نہیں کیا۔ 

ہم نظیر اکبر آبادی کو پڑھتے ہیں، الفاظ، قافیے، ردیف، تراکیب اور مضمون سے حظ اٹھاتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ بابے کا پیغام کیا تھا۔

یہ کھیپ بھرے جو جاتا ہے یہ کھیپ میاں مت گن اپنی 

اب کوئی گھڑی، پل، ساعت میں یہ کھیپ بدن کی ہے کھپنی 

کیا تھال کٹورے چاندی کے کیا پیتل کی ڈبیا دھپنی 

کیا برتن سونے روپے کے کیا مٹی کی ہنڈیا دھپنی 

سب ٹاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ 

جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا 

کوئی ناز سمیٹے گا تیرے کوئی گون سیے اور ٹانکے گا 

ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا 

اس جنگل میں پھرآہ نظیر! اک بھنگا آن نہ جھانکے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ 

کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل زمرد سیم اور زر 

جو پونجی ہاتھ میں بکھرے گی پھر آن بنے گی جاں اوپر 

نقارے نوبت بان نشاں دولت حشمت فوجیں لشکر 

کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھپر 

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ 

ہمارے تصورات عجیب و غریب ہیں۔ ہم نے خود ہی فیصلہ کرلیا ہے کہ غریب نیک ہوتے ہیں اور امیر گنہگار۔ ہم نے یہ بھی طے کرلیا ہے کہ غریب ہی جنت میں جائیں گے۔ یہ صرف مالک روز جزا کو معلوم ہے کہ کون کہاں بھیجا جائے گا۔ ریڑھی والا، جو گاہک کی نظر بچا کر، شاپنگ بیگ ہی بدل ڈالتا ہے، مستری جو مزدوری لے کر غائب ہو جاتا ہے، نوکر جو مالک کا نمک کھا کر، تنخواہ لے کر اس کے مال کے ساتھ بددیانتی کرتا ہے، ٹرک ڈرائیور جو ٹریفک میں دھاندلی اور غنڈہ گردی سے دوسروں کو اذیت پہنچاتا ہے، یہ سب عرف عام میں غریب ہی تو ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کی خیرات کرنے والے، مسجدیں اور ہسپتال بنوانے والے امیر ہیں، کس کی چھوٹی سی نیکی کام آ جائے، کیا معلوم۔ اپنی فکر کرو، صرف اپنی، دوسروں کا معاملہ ان کے پروردگار پر چھوڑو، جو تمہارا بھی پروردگار ہے، دنیا سے چھپا لیتے ہو، اس سے کیا چھپائو گے۔ 

آخری بات میاں محمد بخش صاحب کہہ کر مسئلہ ہی حل کر چکے ہیں ع 

دشمن مرے تو خوشی نہ کریے سجناں وی مر جانا ،،،،


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Tuesday, September 11, 2018

ڈی ایم جی کا بیل اور عمران خان


نہیں! ہرگز نہیں!
عمران خان صاحب اگر اُن پامال شدہ راستوں پر چلتے رہے جن پر اُن کے پیشرو چلے اور ناکام ہوئے تو عمران خان بھی ناکام ہوں گے کیونکہ اللہ کی سنت یہی ہے۔ وہ جو سعدی نے کہا تھا، سوچ سمجھ کر کہا تھا     ؎
ترسم نہ رسی بکعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است
ابے او بَدُّو! رُخ تیرا ترکستان کی طرف ہے۔کعبہ کیسے پہنچے گا!
نواز شریف نے ایک ریٹائرڈ، ازکار رفتہ، ضعفِ پیری سے خستہ، بیورو کریٹ کو وزیر اعظم آفس میں نصب کر دیا اس لیے کہ ایک تو وہ خواجہ تھا، دوسرے وسطی پنجاب کی اُس تنگ پٹی سے تھا جس سے ذہنی طور پر شریف برادران کبھی نہ نکل سکے اس لیے کہ ذہن میں فراخی تھی نہ علم۔ دونوں بھائیوں کو کتاب سے اتنی ہی دشمنی تھی جتنی روپے سے محبت! غلطی ہو گئی۔ قلم چوک گیا۔ روپے سے نہیں! انہیں ڈالروں، پائونڈوں سے محبت تھی۔
نہیں! ہر گز نہیں!
بیورو کریسی صرف ڈی ایم جی کا نام نہیں اور ڈی ایم جی نے حصار باندھ لیا ہے۔ نئے وزیر اعظم کے گرد، عمران خان کو ارباب شہزادوں اور عشرت حسینوں سے دامن چھڑانا ہو گا ورنہ نوشتۂ دیوار سامنے نظر آ رہا ہے۔
ارباب شہزاد کا معاملہ عشرت حسین سے قدرے مختلف ہے۔ غالباً وہ عشرت حسین کی طرح جاہ طلب نہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ڈی ایم جی کا افسر، ڈی ایم جی کے حصار سے باہر نہیں نکل سکتا۔ کل شام ایک ٹیلی ویژن چینل پر یہ کالم نگار بھی بیٹھاتھا۔ سعدیہ افضال نے پتے کی بات کہی کہ وہی بیورو کریٹ اوپر لائے جا رہے ہیں جو شریف برادران کے دائیں بائیں تھے۔ عرض کیا کہ یہ مسئلہ تو ہے مگر اصل مسئلہ یہ نہیں، اصل مسئلہ اور ہے اور اس میں غلیل کا قصہ در آتا ہے۔
غلیل کا قصّہ یوں ہے کہ ایک پاگل خانے میں ہر سال مریضوں کا انٹرویو کیا جاتا اور جو نارمل ثابت ہوتا اُسے چھٹی دے دیتے۔ ایک مریض ایسا تھا جس کے حواس پر اور اعصاب پر اور دل و دماغ پر اور فکر کے ہر زاویے پر غلیل چھائی ہوئی تھی۔ انٹرویو میں اس سے پوچھا کہ باہر جا کر کیا کرو گے؟ اس نے کہا غلیل لے کر نشانے لگائوں گا۔ اسے انٹرویو میں فیل قرار دیا گیا۔ ایک سال مزید گزر گیا۔ ایک سال کے بعد پھر انٹرویو میں پیش ہوا۔
’’باہر جا کر کیا کرو گے؟ 
’’نئی بائی سائیکل خریدوں گا‘‘
معقول جواب سن کر ڈاکٹروں کے چہروں پر اطمینان کی چمک آئی۔ روبصحت ہونے کی نشانی صاف نظر آ رہی تھی۔
’’نئی بائی سائیکل پر سوار ہو کر کہاں جائو گے؟‘‘
’’جانا وانا کہیں نہیں! اُس کے ٹائر سے ٹیوب نکال کر، ربڑ کا ٹکڑا کاٹ کر، غلیل بنائوں گا۔‘‘
پھر فیل قرار دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے فیصلہ صادر کیا کہ ایک سال اور رکھا جائے۔
تیسرے سال پھر پیش ہوا۔
’’باہر جا کر کیا کرو گے؟‘‘
’’کسی اچھے برانڈ کا تھری پیس سوٹ خریدوں گا۔‘‘


’’کون سا برانڈ پسند ہے‘‘
’’بہت اعلیٰ برانڈ۔ باس۔ سی کے۔ مارک اینڈ سپینسر۔(کنالی کے اطالوی سوٹ کا شاید اسے علم نہ تھا۔ سنا ہے، دروغ برگردن راوی کہ جنرل مشرف زیبِ تن فرماتے تھے۔ اس کالم نگار نے ہمت کر کے ایک بار قیمت پوچھی تھی۔ سب سے سستا ایک لاکھ روپے میں تھا۔ بلکہ آج کل کے زرِمبادلہ کے نرخ کے حساب سے ڈیڑھ لاکھ کا)
ڈاکٹروں کے چہروں پر پھر بشاشت کی سواری اتری! کیا معقول بات ہے۔ اچھے برانڈ کا سُوٹ! نارمل ہونے کے آثار۔
’’اتنا اچھا سُوٹ پہن کر، دنیا کی سیر کو نکلو گے یا دوست احساب کو ملنے چلو گے؟‘‘
’’کسی کو ملنے کا ارادہ ہے نہ باہر نکلنے کا۔ سوٹ کی پتلون کے ساتھ جو انڈر ویئر ہو گا اُس سے الاسٹک نکال کر غلیل بنائوں گا!‘‘
ڈی ایم جی کا افسر غلیل سے باہر نہیں نکلتا۔ وہ نہایت خلوص اور دلسوزی سے یہ سمجھتا ہے کہ ساری لیاقت ساری ذہانت، ساری فطانت ڈی ایم جی کے افسر میں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق کا عہدِ اقتدار آیا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا طوطی بولتا تھا۔ ایک خاتون، جسے جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں خوب خوب عروج نصیب ہوا، میاں ان کے ڈی ایم جی سے تھے۔ کبھی کبھی فرنگی زبان میں کالم بھی لکھتے تھے۔ روایت ہے کہ اسلام آباد کلب میں بیٹھک جمائے تھیں۔ فرمانے لگیں،’’سنا ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان بہت لائق ہے۔ اتنا جینئیس تھا تو ڈی ایم جی میں کیوں نہ آیا؟‘‘
سول سروس بہت سے گروہوں کا مجموعہ ہے۔ صرف ڈی ایم جی کا نہیں! سول سروس میں پولیس بھی ہے۔ فارن سروس بھی۔ آڈٹ اینڈ اکائونٹس بھی۔ انکم ٹیکس بھی۔ کسٹم بھی۔ ریلوے بھی۔ کامرس اینڈ ٹریڈ بھی! انفارمیشن بھی! ایک دھاندلی تونظر آ گئی کہ ڈی ایم جی کے توقیر شاہ کو شریف برادران نے عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں اعلیٰ ترین منصب پر بھیج دیا۔ مگر یہ دھاندلیاں تو عشروں سے ہو رہی ہیں۔ ڈی ایم جی کا کامرس اینڈ ٹریڈ سے کیا واسطہ؟ بیرون ملک منسٹر آف ٹریڈ اور کمرشل کونسلر کی اسامیوں پر یہی تعینات ہوتے آئے ہیں۔ اس لیے کہ ہوائی اڈوں پر حکمرانوں کو الوداع کہتے ہیں اور استقبال کرتے ہیں۔ یوں واقفیت ہو جاتی ہے۔ اس واقفیت کو پھر ذاتی وفاداری سے ضرب دی جاتی ہے اور حاصل ضرب سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔
وہ جو جگر مراد آبادی کے ایک شاگرد نے اپنے استاد کی طرز پر کہا تھا    ؎
مری داستانِ غم کی کوئی حد کہیں نہیں ہے 
ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگ آستاں تک
تو ڈی ایم جی کے افسران ٹیلنٹ کی تلاش ڈی ایم جی سے شروع کرتے ہیں اور ڈی ایم جی پر ختم کر دیتے ہیں۔ 
لیاقت علی خان کے ساتھ، متحدہ ہندوستان میں مسلم لیگ کا بجٹ بنانے والے چوہدری محمد علی آڈٹ اینڈ اکائونٹس سے تھے۔ بعد میں وزیر اعظم بنے۔ ایوب خان کے وزیر خزانہ محمد شعیب اور عالمی خوراک کے مسئلے پر کئی کتابوں کے مصنف سرتاج عزیز ملٹری اکائونٹس سروس سے تھے۔ ایچ یو بیگ، آٹھ سال مسلسل سیکرٹری خزانہ رہے اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین انکم ٹیکس سروس سے تھے۔ وزیر اعظم چوہدری محمد علی کے چھوٹے بھائی محمد ذوالفقار سول سروس میں فرشتہ صفت گردانے جاتے تھے۔ انکم ٹیکس سروس سے تھے۔ متاخرین میں انور محمود کامیاب سیکرٹری انفارمیشن اور سیکرٹری ہیلتھ رہے، انفارمیشن گروپ سے تھے۔ مشہور شاعر یوسف ظفر کے فرزند جاوید ظفر نے سول سروس میں نام کمایا۔ انکم ٹیکس سروس سے تھے۔ چوہدری محمد الیاس برسلز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔ آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروس سے تھے۔ آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروس ہی کے محمد اکرم خان ریٹائر ہوئے تو اقوام متحدہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ مشرقی تیمور میں پھر سوڈان میں۔ اقوام متحدہ نے اُن سے بڑے بڑے کام لیے۔ لاہور میں گوشہ نشین یہ اکرم خان، پوری دنیا کے اسلامی معیشت دانوں میں معروف ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کوالالمپور میں اور سالِ رواں میں ترکی میں اسلامک اکنامکس پر دنیا بھر کے معیشت دانوں کے جو عالمی اجتماع ہوئے، دونوں میں کلیدی خطبہ دینے کا اعزاز اسی پاکستانی سپوت اکرم خان کو حاصل ہوا۔ اکرم خان کی معرکہ آرا کتاب 
What is Wrong with Islamic Economics
نے، جو لندن سے شائع ہوئی، اسلامی معیشت دانوں کی دنیا میں تہلکہ برپا کر دیا۔ کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا اور ہو رہا ہے۔ نہیں معلوم تو اہلِ پاکستان کو اور پاکستان کی حکومت کو اکرم خان کے ٹیلنٹ کا نہیں علم۔ اس لیے کہ ٹیلنٹ کی تلاش کا کام شہزاد ارباب صاحب کو سونپا گیا ہے اور اصلاحات کا کام عشرت حسین صاحب کو اور دونوں ڈی ایم جی سے باہر نہیں نکل سکتے۔ تعصب کی انتہا یہ ہے کہ ریفارم کمیشن میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان ہے نہ ایف بی آر کا چیئرمین نہ پولیس کا کوئی حاضر سروس افسر۔ نہ باقی گروپوں کے نمائندے۔ یہ کھیل عشرت حسین جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی کھیلتے رہے۔ وہ ان کے دام میں نہ آیا۔ اب یہ عمران خان کا سارا پلان کھوہ کھاتے ڈالنا چاہتے ہیں۔
کوئی ہے جو عمران خان صاحب کی خدمت میں عرض کرے کہ جناب! عزم اگر مکے کا کیا ہے تو رُخ آپ کا ترکستان کی جانب ہے۔ کوئی منصور آفاق! کوئی ہارون الرشید! کوئی ارشاد عارف! کوئی ایاز امیر! کوئی ہے جو خان صاحب کو بتائے کہ اس بیل کو سینگوں سے پکڑیں ورنہ یہ سینگوں پر اٹھائے گا اور زمین پر دے مارے گا!




Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

 

powered by worldwanders.com