Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, September 23, 2018

شیر لومڑی کیسے بنتا ہے؟


‎بوڑھا لمبی گہری سانسیں لے رہا تھا۔

‎ڈاکٹر نے سٹیتھو سکوپ سے سینہ‘ پیٹھ اور کندھے چیک کئے۔ آوازیں سنیں‘ خلا میں دیکھا‘ پھر نبض ٹٹولی۔

‎آپ بظاہر ٹھیک ہیں۔ مسئلہ کیا ہے؟

‎ڈاکٹر صاحب نیند نہیں آتی۔ بھوک نہیں لگتی‘ دل ڈوبتا رہتا ہے۔

‎آپ کسی مقدمہ بازی میں تو مبتلا نہیں؟ رشتہ داروں‘ پڑوسیوں سے کوئی جھگڑا؟

‎نہیں! بالکل نہیں‘ اس لحاظ سے خوش بخت واقع ہوا ہوں۔

‎گھر میں بیگم سے کوئی کھٹ پٹ؟ کوئی ذہنی دبائو؟ کوئی ٹینشن؟

‎نہیں‘ ایسا بھی نہیں‘ ہمارے درمیان مکمل ہم آہنگی اور امن و سکون ہے؟

‎کوئی مالی مسائل؟

‎وہ بھی نہیں‘ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔

‎تو پھر دوا کیوں اثر نہیں کر رہی‘ کوئی اور بات جو آپ کے ذہن میں ہو؟

‎ڈاکٹر صاحب! ایک غم ہے جو کھائے جا رہا ہے‘ بیٹے بیٹیاں بیرون ملک ہیں‘ ان کی یاد میں تڑپتا رہتا ہوں۔ 

‎ڈاکٹر نے کیا تجویز کیا؟ عد

‎اس قصے کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں۔ غور اس بات پر کیجئے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے ساری نعمتوں‘ آسودگیوں کے باوجود یہ معمر شخص ایک کرب میں مبتلا تھا۔ یہ کرب کیا تھا؟ اسے ’’احتیاج‘‘ کہتے ہیں۔ سفید فام فرنگی اس احتیاج کو‘ انحصار کی کیفیت کو

Dependence

‎ کا نام دیتے ہیں۔ ہم روزمرہ کی زبان میں اسے ’’محتاجی‘‘ کہتے ہیں۔ بڑے بوڑھے یہ دعا اکثر دیتے ہیں‘ ’’اللہ تمہیں محتاجی سے بچائے‘ خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔ یہ دعا معمولی دعا نہیں ہے‘ بڑے بوڑھوں کو اس احتیاج کی ہولناکی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے یہ دعا بڑے ہی دیتے ہیں‘ شاید ہی کوئی جوان مرد یا عورت یہ دعا کسی کو دیتی ہو۔

‎احتیاج۔ انحصار۔ تین طرح کا ہوتا ہے تینوں بھیانک‘ ہولناک اور قابل رحم ہیں‘ ایک انحصار مالی ہے۔ بڑھاپے میں مالیات کمزور ہوں تو ؎

‎غرض دوگونہ عذاب است جان مجنوں را
‎بلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰ

‎مجنوں دو عذابوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایک لیلیٰ کے قربت کی مصیبت‘ دوسرا اس کا ہجر۔

‎بڑے میاں کو اپنی فکر نہیں۔ مکان بھی بچوں کے لیے بنانا ہے۔ پلاٹ بھی بچوں کے لیے چھوڑ کرجانے ہیں۔ بچے مرنے کے بعد دعائے مغفرت بھی کرتے ہیں یا نہیں‘ یہ نہیں معلوم۔ اپنے لیے کچھ نہیں بچانا نہ رکھنا ہے۔ یہاں تو ایسے ایسے حمقا بھرے پڑے ہیں کہ سرچھپانے کی جگہ‘ فرط محبت میں بیٹوں کے نام کرا دی۔ بہوئوں نے آ کر نکال دیا‘ بیٹوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ پھر توکل کا مطلب بھی غلط لیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کل کا اللہ مالک ہے۔ خدا کے بندو اللہ ہی نے دیا ہے۔ اپنے علاج معالجہ اور اخراجات کے لیے پس انداز کر کے رکھو تاکہ احتیاج نہ ہو۔ تاکہ انحصار سے بچ سکو۔ کیا عزت نفس یہ اجازت دے گی کہ کل اپنے علاج کے لیے‘ روزمرہ کے اخراجات کے لیے‘ بیٹے یا بہو یا بیٹی یا داماد کا منہ دیکھتے رہو۔ چنانچہ مالی احتیاج سے بچنے کی دعا بھی کرنی چاہیے اور دوا بھی۔ جو دعائیں بزرگوں سے منقول ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ آخری عمر میں مالی آسودگی نصیب ہو۔

‎اللھم اجعل اوسع رزقک علی عند کبر سنی وانقطاع عمری۔
‎یااللہ بڑھاپے میں اور عمر کے ختم ہونے کے وقت مجھ پر اپنا رزق وسیع کرنا۔

‎دوسرا انحصار جسمانی انحصار ہے۔ جسمانی احتیاج۔ اس سے پناہ مانگنی چاہیے اور اس سے بچنے کیلئے کچھ منصوبہ بندی بھی۔ ہر کام دوسروں سے کرانیوالے اس معاشرے میں جسمانی محتاجوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ پانی بھی پلائے تو نوکر یا کوئی بچہ یا بیوی۔ اٹھ کر دروازہ بھی نہیں بند کرنا۔ گاڑی یا موٹرسائیکل‘ پارکنگ کی مخصوص جگہ پر نہیں پارک کرنا۔ اس لیے کہ دو قدم چلنا پڑتا ہے۔ عین دکان کے سامنے گاڑی کھڑی کی جائیگی راستہ بے شک بند ہو جائے۔ ورزش کا کلچر ہی نہیں عام ہوسکا۔ شاید خواتین کی مکمل آ بادی میں پانچ یا زیادہ سے زیادہ دس فیصد ورزش اور جسمانی چستی کا خیال رکھتی ہوں۔ آپ بنکاک‘ لندن‘ نیویارک اور ٹورنٹو کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر دیکھئے‘ پاکستان اور بھارت کی معمر عورتیں مشکل سے چل رہی ہوں گی۔ ایک قدم آگے تو دو دائیں بائیں۔ جیسے ایک ٹیڑھی لکیر کھینچی جا رہی ہو۔ ان سے عمر میں کہیں بڑی یورپی چینی اور جاپانی عورتیں کھٹ کھٹ چلتی ہوئی یہ جا وہ جا۔ ان پاکستانی اور بھارتی عورتوں کا سفری سامان بھی ان کے شوہروں نے اٹھایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ جو مغربی یا مشرق بعید کی عمر رسیدہ عورت کھٹ کھٹ‘ تیزی سے گزر جاتی ہے اس کی پیٹھ پر بیک پیک بھی ہے اور ہاتھوں میں ٹرالی بیگ بھی۔ ایک نوے سالہ مغربی عورت کے کمرے میں ہم سب بیٹھے تھے۔ وہ اٹھی اور کمرے کا دروازہ خود بند کیا۔ حالانکہ وہ کسی سے بھی کہہ سکتی تھی۔ امریکہ کے ایک سپر سٹور میں ایک بہت عمر رسیدہ خاتون جو نوے کے پیٹے میں ہوگی‘ خریداری سے بھری ٹرالی دھکیلے لئے جا رہی تھی۔ اس کالم نگار کی بزرگوں کی خدمت کرنے والی رگ پھڑکی۔ اس سے پوچھا‘ خاتون‘ کیا میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں؟ اس نے ہاں یا نہیں یا شکریہ کے بجائے پوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘ جس کا کالم نگار کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

‎اپنے استعمال کی اشیائ‘ چارپائی کے گرد یا ایک کمرے میں جمع نہ کیجئے۔ دور دور رکھئے تاکہ آپ کو بار بار اٹھنا پڑے اور جسم کام کرتا رہے۔ اپنے ذاتی کام بیوی بچوں سے اور خدمت گاروں سے نہ کرائیے۔ اپاہج نہ بنیے۔ دوسروں کے لیے درد سر نہ ثابت ہوں۔ صرف وہ کام دوسروں سے کہیے جو آپ کے بس میں بالکل نہ ہو۔ اپنے اعضا کو اعضائے معطل نہ بنائیے۔ انہیں جیتے جی ریٹائر نہ کیجئے۔ سیر کو معمول بنائیے۔ مسجد تیز چل کر جائیے۔ جم ہے یا واکنگ ٹریک‘ اس میں جانا اپنا معمول بنا لیجئے۔ بستر رات کے لیے بنا ہے دن کے وقت اس کا استعمال جسمانی احتیاج کے راستے کی طرف لے جائے گا

‎اور ہاں کھانا کھاتے وقت ناامید نہ ہوں اور اسے اپنی زندگی کا آخری کھانا نہ گردانیے۔ شادی کی تقریب میں کھانا کھلنے کا اعلان ہو تو دور کھڑے ہو کر تماشا دیکھئے کہ کس طرح لباس ہائے فا خرہ میں ملبوس معززین‘ بھوکے بھیڑیوں کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان کی پلیٹوں میں بریانی کے مینار اور گوشت کے انبار دیکھ کر دل میں ان بدبختوں کے لیے رحم کے جذبات ابھارنے کی کوشش کیجئے اور جب یہ سب بھوکے ننگے امرا کھانا لے چکیں تو جو کچھ بچا ہے‘ تھوڑی سی مقدار میں لے کر تناول فرما لیجئے۔

‎رہی تیسری احتیاج! جذباتی‘ تو اس سے پرہیز کا سامان نہ کیا تو یہ مار ہی ڈالے گی۔ ایک تو یہ مثبت پہلو دیکھئے کہ یہ گھوڑوں‘ قافلوں‘ ڈاکوئوں‘ بحری جہازوں کا زمانہ نہیں۔ آپ کا عزیز یا عزیزہ جو بھی بیرون ملک ہے‘ چند گھنٹوں میں پہنچ سکتا ہے‘ آپ جا کر مل سکتے ہیں۔ سکائپ پر‘ واٹس ایپ پر اور فیس ٹائم پر دن میں کئی بار بات کرسکتے ہیں‘ دیکھ سکتے ہیں۔ خدا کا شکر ادا کیجئے کہ آپ اس زمانے میں پیدا ہوئے ورنہ آپ سے پہلے جو لوگ تھے‘ وہ اپنے پیاروں کے خطوں کا بندرگاہوں پر بیٹھ کر انتظار کرتے تھے اور ہر روز کرتے تھے

‎اور اگر باہر بیٹھے ہوئوں کو آپ کی یاد نہیں ستاتی تو آپ بھی یہی رویہ اپنائیے۔ جو بچے اور پوتے نواسیاں پاس ہیں‘ ان سے لطف اندوز ہوں۔ جو پرندہ ہاتھ میں ہے‘ اسے دیکھئے‘ جو دور ہے‘ اس کے لیے ہلکان نہ ہوں۔ حالی نے یہی تو سمجھایا تھا ؎

‎جب سے دل زندہ! تونے ہم کو چھوڑا
‎ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی

‎مصحفی نے جب کہا تھا کہ ؎

‎بھلا درستی اعضائے پیر کیوں کر ہو
‎ کہ جیسے رسی سے ٹوٹا کواڑ باندھتے ہیں

‎تو مصحفی کا اور زمانہ تھا۔ اب تو دانتوں سے لے کر گھٹنوں تک۔ ہر شے نئی مل جاتی ہے۔

‎اور آخر میں یہ بھی سمجھ لیجئے ؎

‎آنکہ شیراں را کند روبہ مزاج
‎احتیاج و احتیاج و احتیاج

‎یہ احتیاج ہے جو شیروں کو لومڑی بنا دیتا ہے۔


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com