ای جی برائون 1862ء میں انگلستان میں پیدا ہوا۔ باپ انجینئر تھا۔ برائون کو ترکی اور ترکی کے باشندوں میں دلچسپی تھی اس لیے اس نے مشرقی زبانیں پڑھنا شروع کر دیں۔1882ء میں اس نے قسطنطنیہ کا سفر کیا۔ پھر اس کی توجہ ایران اور فارسی کی طرف ہو گئی۔1893ء میں اس نے اپنی مشہور کتاب‘‘ایک برس ایرانیوں کے ساتھ‘‘ شائع کی۔ پھر وہ فارسی ادب میں غرق ہو گیاعمرِ عزیز کے بائیس برس لگا کر اس نے چار جلدوں میں ’’لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘‘ لکھی جو ایک شہکار ہے۔ ان چار جلدوں میں ایران کی سیاسی تاریخ بھی ہے‘ معاشرتی بھی اور ادبی بھی! اس میں اس نے شبلی نعمانی کی ’’شعر العجم‘‘ کے حوالے بھی دیے ہیں۔ انکسار کا یہ عالم ہے کہ چوتھی جلد کے دیباچے میں اپنے حوالے سے سعدی کا وہ شہرہ آفاق شعر لکھا جو ہم نے اپنے بزرگوں سے اور انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنا ؎
کَفیت اذیً یا من تُعّدُ محاسنی
علانیتی ھذا و لم تدرباطنی
کہ تعریف کرتے ہو تو تکلیف ہوتی ہے کیونکہ یہ تو میرا ظاہر ہے‘ اور جو کچھ میں اندر سے ہوں تم لوگ جانتے ہی نہیں!!
1863
ء میں بہاء اللہ نے ایران میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ اور بہائی مذہب کی بنیاد رکھی۔ قدرتی طور پر ایرانی مسلمانوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ بہائیوں پر اور ان کی عمارتوں پر ہجوم حملہ آور ہوئے۔ یزد شہر میں 1903ء میں ایک سو بہائی قتل کئے گئے۔ برائون’’لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘‘ میں اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ لکھتا ہے۔ اصفہان میں ایک مسلمان عالم دین(مجتہد) نے چند بہائیوں کو سزائے موت سنائی۔ ایک غیر ملکی نے جو ایران میں رہ رہا تھا۔ سفارش کی کہ انہیں معاف کر دیجیے۔ مجتہد نہ مانا۔ اُس غیر ملکی نے ‘ جو کئی سالوں سے ایران کے حالات کا جائزہ لے رہا تھا مجتہد کو مخاطب کر کے کہا۔’’آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا بہائی مذہب کی ترقی کا سبب بہائی مذہب کے اصولوں کی برتری ہے؟ ہرگز نہیں!! انہیں تو آپ نے اہمیت اور شہرت دی۔ آپ نے سزائیں دے دے کر انہیں ردعمل میں مبتلا کیا اور یہ پختہ ہو گئے۔ وگرنہ یہ تو چند سو کی تعداد میں تھے اور انہیں کوئی جانتا تھا نہ اہمیت دیتا تھا۔ یہ آپ ہیں اور آپ جیسے ہیں جنہوں نے بہائیوں کی تعدادمیں اضافہ کیا اور انہیں پکا کیا۔ ایک کو مارتے ہو تو اس کی جگہ لینے کے لیے کئی آ موجود ہوتے ہیں۔’’مجتہد نے یہ سن کر چند لمحے کے لیے سوچا اور پھر کہا۔ تم درست کہہ رہے ہو‘‘ پھر سزا معطل کر دی!
ہم پاکستانیوں کو اور ہمارے علماء کرام کو بھی یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ہمارا مقصد قادیانیوں اور دوسرے غیر مسلموں کو اسلام کی آغوش میں واپس لانا ہے یا ان کی ترویج و اشاعت میں ان کی مدد کر کے ان کے مذہب کو پوری دنیا میں پھیلانا ہے؟
جب قومی اسمبلی نے غیر مسلم قرار دے دیا تو اس کے بعد ترغیب ‘تحریص اور تبلیغ کا دور آ جانا چاہیے تھا۔ مگر وہ ملک چھوڑ کر باہر جانے لگ گئے۔ آج وہ پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ انہیں ہر جگہ پناہ
(Asylum)
مل رہی ہے۔ ان ملکوں میں چونکہ مذہبی آزادی ہے اس لیے ان کی سرگرمیاں ان ملکوں میں روز افزوں ہیں۔ کسی کو اندازہ ہی نہیں کہ باہر انہیں کتنے فنڈز مل رہے ہیں۔ عبادت خانے تعمیر ہو رہے ہیں، اجتماع ہو رہے ہیں۔ عقاید کا پرچار کر رہے ہیں، ساتھ ہی نئے آنے والے ’’پناہ گزینوں‘‘ کے لیے مدد اور رہنمائی کے مراکز کھل رہے ہیں!
جو پاکستانی باہر رہ رہے ہیں یا جنہیں سفر کرنے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں اور جنہوں نے قادیانیوں کے اندر جھانک کر دیکھا وہ جانتے ہیں کہ قادیانیوں کی نئی نسل اپنے عقاید پر سوالات پوچھتی ہے۔ ان نوجوان قادیانیوں کو یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ مرزا غلام احمد نے اپنے نہ ماننے والوں کو کافر کہا ہے اور انہیں جنگلوں کے سؤر اور ان کی عورتوں کو کتیا کہا ہے۔ اس پر تعجب اس لیے نہیں ہونا چاہیے کہ قادیانی جماعت ایک بند فرقہ
(CULT)
ہے۔ جس کا باہر کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ آمریت کا یہ عالم ہے کہ ارکان کی ذاتی زندگیاں بھی ’’اوپر‘‘ سے کنٹرول ہوتی ہیں۔ چند سال قبل ورجینیا میں چالیس قادیانیوں کو جماعت ہی سے اس بنا پر خارج کر دیا گیا کہ انہوں نے کسی شادی کی تقریب میں کچھ آزاد خیالی دکھائی تھی۔ قادیانیوں کی نئی نسل یہ بات ہضم کرنے میں ہچکچا رہی ہے کہ ان کے نبی کو نہ ماننے والے کافر ہیں۔ جو قادیانی نوجوان مغربی ملکوں کی آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں ان کا رویہ اُس نسل سے مختلف ہے جو قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لندن میں بیٹھی اس گروہ کی ہئیت مقتدرہ نئی نسل سے بہت سے قادیانی عقائد کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
دوسرا ایشو جس سے ہم اور ہمارے علماء غفلت برت رہے ہیں، یہ ہے، کہ قادیانیوں کا خاندانی نظام مربوط اور مضبوط برادری سسٹم پر قائم ہے۔ قادیانیت چھوڑنے والے نوجوان کے لیے برادری اور خاندان سے نکلنا از حد مشکل ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں نے اور ان کے علما نے قادیانیت چھوڑنے والے نوجوانوں کے لیے کوئی ایسی تنظیم نہیں بنائی جہاں یہ لوگ پناہ لیں‘ جہاں ان کی رہائش اور روزگار کا بندوبست ہو۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ کوئی ہندو‘ مسیحی یا قادیانی مسلمان ہو بھی جائے تو اسے رشتہ کوئی نہیں دیتا اور لیبل اس پر لگا ہی رہتا ہے!
ان دونوں پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ضرورت اس بات کی تھی کہ تبلیغ کے حوالے سے ایسی پالیسی بنائی جاتی کہ ایک طرف تو قادیانیوں کی نئی نسل کو ان کے اصل عقائد سے آگاہ کیا جاتا کہ ان کے نام نہاد نبی نے مسلمانوں کے لیے کیسی زبان استعمال کی ہے۔ دوسری طرف ایسے ادارے بنائے جاتے جو قادیانیت سے تائب ہونے والے لوگوں کو سماجی اور مالی سہارا دیتے اور انہیں برادری کو خیر باد کہنے کا حوصلہ ہوتا۔ یہ سارا مسئلہ جوش سے زیادہ ہوش کا متقاضی تھا۔ قادیانیت کے عقاید غیر منطقی ہیں۔ ان کی بنیاد اس قدر کمزور ہے کہ اگر قادیانیوں کی نئی نسل کو قریب لانے کی کوشش کرتے تو یہ گروہ برف کی طرح پگھلنا شروع ہو جاتا لیکن سختی نے ان کی نئی نسل پر منفی ردعمل طاری کر کے اسے اس بے بنیاد مذہب پر پختہ تر اور ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔
اصل مقصد یہ ہونا چاہیے تھا کہ انہیں بھگایا نہیں‘ واپس لایا جائے۔ مگر افسوس! مکمل مقاطعہ کی پالیسی اپنائی گئی۔ ’’نان ایشوز‘‘ یعنی غیر اہم معاملات پر زور دیا گیا۔ یہاں تک ہوا کہ کام نکلوانے کے لیے مسلمانوں کو قادیانی کہہ کر بلیک میل کیا گیا۔ اس کالم نگار کے علم میں ایسے کئی واقعات ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی نے بھی ایسے کئی چشم دید افسوسناک واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔
اس قضیے کو ہم کس’’انداز‘‘ سے نمٹا رہے ہیں اور نمٹانا کس طرح چاہیے‘ اس کا حساب ایک سو فیصد سچے واقعے سے لگائیے۔
شمالی امریکہ کا ایک شہر تھا جہاں ایک پاکستانی کو ملازمت ملی۔ چوائس نہیں تھا۔ چند ہفتوں میں اسے احساس ہو گیا کہ پاکستانیوں کی تعداد وہاں کم ہے۔ ان چند پاکستانیوں میں بھی زیادہ تعداد اُن قادیانی حضرات کی تھی جو مذہبی بنیادوں پر پناہ
(ASYLUM)
لے کر آباد ہوئے تھے۔ اس کے سامنے دو راستے تھے ایک یہ کہ وہ ان کا مقاطعہ کرے۔ کسی تقریب میں جائے نہ میل ملاپ رکھے۔ دوسرا یہ کہ وہ ان لوگوں سے ملے اور جہاں بھی موقع مناسب لگے ڈائیلاگ کرے۔ اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ تقاریب میں جاتا۔ دعوتوں میں ان سے گھل مل جاتا۔ تفریحی پروگراموں میں شرکت کرتا نماز کا وقت ہوتا تو الگ نماز پڑھتا۔ یوں بھی ہوتا کہ وہ لوگ اسے خود ہی دوسرے کمرے میں جائے نمازبچھا دیتے۔
چند ماہ یہ گزرے تھے کہ ایک دن اسے ایک ٹیلی فون موصول ہوا۔ دوسری طرف ایک قادیانی نوجوان تھا، جو تقاریب میں اسے ملتا رہتا تھا۔ وہ گھر آنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ نوجوان آیا کئی گھنٹے گفتگو رہی۔ جاتے وقت اس نے پاکستان کے دو معروف علماء کے ای میل ایڈریس جاننا چاہے۔ یہ بھی کہا کہ اس ملاقات کا ذکر اُس کی کمیونٹی کے کسی فرد سے نہ کیا جائے۔
چند ہفتوں بعد نوجوان دوبارہ آیا اب کے نشست طویل تر تھی۔ اس بار اُس نے گفتگو قادیانیت کے متعلق کی۔ اس کے خیالات ’’غیر روایتی‘‘ تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ موقع اسے پہلی بار میسر آیا ہے کہ مذہب میں دلچسپی رکھنے والے ایک ایسے شخص سے گفتگو کر رہا ہے جو اُس کے مذہب سے تعلق نہیں رکھتا۔ چند ملاقاتیں اور ہوئیں۔ آخر ایک دن اس نے کہا کہ میں مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتا۔
اس واقعہ کے بیان میں ایک رمق بھی مبالغہ آرائی کی نہیں! آپ کوئی کھڑکی، کوئی دروازہ ان کی طرف کھولیں گے تو کوئی اندر آپ کے پاس آئے گا۔
عاطف میاں خاندانی قادیانی نہیں، یہ 2002ء میں اس کنوئیں میں گرے۔ انہیں نکالنا نسبتاً آسان تھا۔ خدا نے یہ ہدایت کی ہے کہ ’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور موعظۃ الحسنہ(اچھی نصیحت) کے ساتھ دعوت دو اور بحث بہترین اسلوب کے ساتھ کرو‘‘
اگر اس کنوئیں میں گرنے والوں کو یہ احساس دلایا جاتا کہ جن لوگوں کو چھوڑ کر انہوں نے مذہب تبدیل کر لیا وہ لوگ کس قدر حسنِ سلوک سے پیش آ رہے ہیں اور ان پر قومی معاملات میں اعتماد کر رہے ہیں تو کوئی بعید نہیں‘ وہ اسلام کی آغوش میں واپس آ جاتے۔ وَمَا عَلیناَ اِلاّ البلاغ
No comments:
Post a Comment