ہر آنے والا دن سوالیہ نشان بن کر طلوع ہو رہا ہے!
عمران خان نے لوگوں کو ایک راستہ دکھایا ایک زینے پر چڑھایا۔ کچھ وعدے کیے، کچھ امیدیں بندھوائیں مگر ہر آنے والا دن سوچنے والوں کو سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اب عوام پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ آپ نے انہیں صبح کے تارے کا وعدہ کیا۔ اب آپ انہیں بادلوں میں الجھانا چاہتے ہیں۔ نہیں! آپ انہیں تشدد پر اکسا رہے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد!
کوئی وعدہ پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اِکّا دُکّا اقدامات۔ مگر کسی ہوم ورک کے بغیر۔ سرکاری ریسٹ ہائوسز ہی کا مسئلہ لے لیجیے۔ ان کے کمرشل استعمال کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ مگر مچھ سائز کی بڑی کمپنیوں کو لیز پر دیئے جا رہے ہیں۔ بھائی لوگو! ہوم ورک تو کر لو۔ پہلے اعداد و شمار تو حاصل کرو کہ ان سرکاری ریسٹ ہائوسوں میں حکومت کے کتنے افسر سال بھر میں ٹھہرتے ہیں۔ حکومت انہیں ہوٹل کا کرایہ نہیں دیتی۔ جب ریسٹ ہائوس نہیں ہوں گے تو یہ افسر ہوٹلوں میں قیام کریں گے۔ پہلے حساب کتاب تو لگائو کہ ہوٹلوں میں خرچ کتنا ہو گا؟ کہیں آگے دوڑ پیچھے چوڑ والا حساب نہ ہو۔
دوسری مثال شیخ رشید کی لیجیے۔ ہمارے حلقۂ دوستاں میں ایک آتش زیر پا لڑکی ہے۔ بھتیجی ہی سمجھ لیجیے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ۔ مگر سیماب صفت۔ کہیں قرار نہیں۔ ہم اسے اَن گائیڈڈ میزائل کہتے ہیں۔ شیخ صاحب بھی وہ میزائل ہیں جسے کوئی کمپیوٹر، کوئی ریموٹ کنٹرول، کوئی الیکٹرانک نظام کنٹرول نہیں کر سکتا۔ غالباً منٹو نے لکھا تھا کہ راولپنڈی کا ٹانگہ کس طرف مڑے گا؟ خدا اور کوچوان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ حضرت نے اعلان کیا ہے کہ ریلوے میں دو ہزار ملازمین رکھیں گے۔ پہلے یہ تو دیکھ لیتے کہ اندرونی ایڈجسٹ منٹ سے مسئلہ حل ہوتا ہے یا نہیں۔ پہلے ہی ریل کے ڈبے، ریل کے ملازموں سے بھرے ہوتے ہیں۔ قلفی والے پر سکول کے بچوں نے حملہ کیا تو سب سے زیادہ قلفیاں، قلفی والے نے خود کھائیں۔ ریلوے کے مسافروں میں غالب تعداد نہیں، تو اچھی خاص تعداد ریلوے کے اپنے تنخواہ داروں کی ہے۔
شیخ صاحب کو ترجیح لاہور اور راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشنوں پر برقی سیڑھیاں لگانے کو دینی چاہیے تھی۔ سعد رفیق صاحب نے یہ تاثر تو کامیابی سے قائم کیا کہ محنت کر رہے تھے تا ہم ان بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کی طرف ان کا دھیان کبھی نہ گیا جو سامان اٹھائے، ہانپتے ہوئے، ڈیڑھ سو سال پرانی سیڑھیوں پر چڑھتے اترتے ہیں۔ اب تو عام قصباتی پلازوں میں بھی برقی سیڑھیاں نظر آنے لگی ہیں۔ مگر سعد رفیق ہوں یا شیخ رشید۔ اصل میں سارے ایک ہیں۔ ہاتھی کی دم کا شور اٹھتا ہے۔ ہر بار اٹھتا ہے۔ دیکھنے جاتے ہیں تو دوگز کی رسی نظر آتی ہے۔
سارے اقدامات سطحی! کوئی گہرائی نہیں،کوئی طویل المیعاد منصوبہ بندی نہیں، اب سنتے ہیں کہ بیورو کریسی میں تقرریوں اور تبادلوں کی نئی پالیسی وزیر اعظم نے منظور کی ہے۔ دس برس کے بعد صوبہ تبدیل ہو گا اور پانچ برس بعد پوسٹ۔ اصل سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جو ستر برس سے ڈاک خانہ… محض…ڈاکخانہ بنا ہوا ہے، اس کا کردار بدلا جا رہا ہے یا نہیں؟اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا اصل کام بیورو کریسی کی کیریئر پلاننگ ہے۔ یہاں تو کوئی ایسا چارٹ ہی نہیں کہ بیورو کریٹ کی گزشتہ اور مستقبل کی تعیناتیاں دکھا سکے۔ شعبوں کے لحاظ سے، صوبوں کے لحاظ سے، کام کی نوعیت کے اعتبار سے، اسے کہاں کہاں بھیجنا ہے اور کب کب؟ کسی کو معلوم نہیں۔ آرمی کی ملٹری سیکرٹری برانچ میں یہ منصوبہ بندی موجود ہے۔ بیرون ملک تعیناتیاں ستر برس سے ’’ذاتی واقفیت‘‘ اور سفارش کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ نظام کیوں نہیں وضع کیا جا رہا؟ یا توقیر شاہوں اور سراج شمس الدینوں کی لاٹریاں نکلتی رہیں گی۔
اور آخر وزیر اعظم کے ہر ریٹائر ہونے والے پرنسپل سیکرٹری کو گھی میں چُپڑی ہوئی روٹی کیوں پیش کی جاتی ہے؟ ایک صاحب خالد سعید تھے۔ اشتہار چھپا تو درخواستیں جنہوں نے دیں، وہ بیٹھے رہ گئے اور یہ صاحب ریٹائر ہو کر خود ایک ریگولیٹری اتھارٹی میں پانچ برس کے لیے فِٹ ہو گئے۔
عمران خان نے بیورو کریسی کو ضابطے کے اندر لانا ہے تو سائنٹفک بنیادوں پر کوئی نظام وضع کریں۔ ڈاکٹر عشرت حسین کو سول سروس ریفارمزکا سربراہ بنا کر پہلے ہی اپنی سادہ لوحی
(Naivety)
کا ثبوت دے چکے ہیں۔ میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب! اسی سے دوا لینے نکل کھڑے ہوئے! ہماری تاریخ ایسے عشرت حسینوں اور ایسے کمیشنوں سے بھری پڑی ہے جو کچھوے کی رفتار کم کرنے کے لیے دماغ لڑاتے رہے اور سرکاری خزانے پر بوجھ بنتے رہے۔
جس زمانے میں بین المذاہب اور بین المسالک مناظرہ بازی کا رواج عام تھا، مناظر حضرات یہ شعر ضرور پڑھا کرتے تھے ؎
نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
ساتھ ساتھ ایک اور ڈرامہ چل رہا ہے۔ اس تماشے کو دیکھ دیکھ کر خلقِ خدا تنگ آ چکی ہے۔ ادھر زرداری صاحب ہر روز کسی عدالت میں حاضر ہوتے دکھائے جاتے ہیں یا حاضری کے بعد باہر نکلتے۔ دوسری طرف نواز شریف اور ان کی بیٹی۔ ساتھ، ایک ایکٹ کا جنرل پرویز مشرف کا کھیل بھی مسلسل چل رہا ہے۔ جو پہلو غور کرنے کا ہے یہ ہے کہ آج تک کسی سے ایک پائی تک واپس نہیں لی گئی۔ یا نہیں لی جا سکی، ڈاکٹر عاصم، ایان علی، شرجیل میمن، زرداری صاحب۔ ان کی خواہر نیک اختر، نواز شریف صاحب، ان کی دختر نیک اختر، ان کے دونوں ’’غیر ملکی‘‘ صاحبزادے کسی سے کوئی رقم وصولی گئی نہ وصولی جا رہی ہے۔ بندر بادشاہ بنا تو کاروبارِ سلطنت تباہ و برباد ہو گیا۔ سب جانور وفد بنا کر حاضر خدمت ہوئے اور مدعا بیان کیا۔ بندر ایک درخت پر چڑھتا۔ وہاں سے چھلانگ لگا کر دوسرے پر جاتا۔ پھر ایک اور زقند بھرتا اور پہلے درخت پر واپس آتا۔ کہنے لگا۔ یارو! کاروبارِ مملکت بھی ضروری ہے مگر میری ا ٓنیاں جانیاں تو دیکھو! کرپشن کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اداروں اور عدالتوں کی آنیاں جانیاں قوم کب سے دیکھ رہی ہے۔ خوش خبری کا کہیں کوئی نشان نہیں نظر آتا۔ عوام اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں ؎
افق کو دیدۂ حسرت سے دیکھنے والے
تری زمیں سے کہیں آسماں نہیں ملتا؟
جنرل پرویز مشرف ملک کے لیے، حکومت کے لیے، خود فوج کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں ع مارا خراب کردہ و خود مبتلا شدی ’’ہمیں بھی خراب کیا اور خود بھی مصیبت میں ہو‘‘! کون سی رسوائی ہے جو ان کی جھولی میں نہیں پڑی۔ عدالت جاتے ہوئے ہسپتال جا پہنچنا۔ کمر کا درد، بیرون ملک رقص و سرود۔ کئی اکائونٹس، کروڑوں ڈالر، لندن اور دبئی میں جائیدادیں۔ کہیں میچ دیکھتے نظر آتے ہیں کہیں کسی ٹیلی ویژن پر چہرہ کہولت کے لٹکے ہوئے آثار دکھاتا ہے۔ واپس آتے ہیں نہ کچھ بتاتے ہیں۔ سیاست کا شوق جا نہیں رہا۔ دن کو خواب دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جو اقتدار انہیں
By Default
مل گیا تھا، اب کبھی
By Design
نہیں ملنے کا۔
پھر سید بھی ہیں۔ عزتِ سادات کے پرخچے اُڑ رہے ہیں۔ انہیں بہت اہتمام سے ’’سید پرویز مشرف‘‘ کہنے والے اور وردی میں دس دس بار منتخب کرانے والے اگلی منزلوں میں پہنچ گئے۔ سانپ نکل گیا۔ جنرل صاحب لکیر پیٹ رہے ہیں۔ پیٹے جا رہے ہیں۔ جس قبیل کے ترجمان ملک میں ان کی نمائندگی کرتے ہیں اس سے جنرل صاحب کی سوچ کی ’’گہرائی‘‘ اور ’’دور اندیشی‘‘ اور زیادہ نمایاں ہو رہی ہے۔ کوئی ہے جو انہیں سمجھائے کہ سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل اب بند کریں اور کوئی نہیں تو فوج ہی انہیں کسی نہ کسی طرح باور کرائے کہ بہت ہو چکی، بہت اچھل کود کر لی۔ خدا کے لیے اب سٹیج سے نیچے اتر آئیں! دنیا بہت پھرتیاں دیکھ چکی!!
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment