نہیں! ہرگز نہیں!
عمران خان صاحب اگر اُن پامال شدہ راستوں پر چلتے رہے جن پر اُن کے پیشرو چلے اور ناکام ہوئے تو عمران خان بھی ناکام ہوں گے کیونکہ اللہ کی سنت یہی ہے۔ وہ جو سعدی نے کہا تھا، سوچ سمجھ کر کہا تھا ؎
ترسم نہ رسی بکعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است
ابے او بَدُّو! رُخ تیرا ترکستان کی طرف ہے۔کعبہ کیسے پہنچے گا!
نواز شریف نے ایک ریٹائرڈ، ازکار رفتہ، ضعفِ پیری سے خستہ، بیورو کریٹ کو وزیر اعظم آفس میں نصب کر دیا اس لیے کہ ایک تو وہ خواجہ تھا، دوسرے وسطی پنجاب کی اُس تنگ پٹی سے تھا جس سے ذہنی طور پر شریف برادران کبھی نہ نکل سکے اس لیے کہ ذہن میں فراخی تھی نہ علم۔ دونوں بھائیوں کو کتاب سے اتنی ہی دشمنی تھی جتنی روپے سے محبت! غلطی ہو گئی۔ قلم چوک گیا۔ روپے سے نہیں! انہیں ڈالروں، پائونڈوں سے محبت تھی۔
نہیں! ہر گز نہیں!
بیورو کریسی صرف ڈی ایم جی کا نام نہیں اور ڈی ایم جی نے حصار باندھ لیا ہے۔ نئے وزیر اعظم کے گرد، عمران خان کو ارباب شہزادوں اور عشرت حسینوں سے دامن چھڑانا ہو گا ورنہ نوشتۂ دیوار سامنے نظر آ رہا ہے۔
ارباب شہزاد کا معاملہ عشرت حسین سے قدرے مختلف ہے۔ غالباً وہ عشرت حسین کی طرح جاہ طلب نہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ڈی ایم جی کا افسر، ڈی ایم جی کے حصار سے باہر نہیں نکل سکتا۔ کل شام ایک ٹیلی ویژن چینل پر یہ کالم نگار بھی بیٹھاتھا۔ سعدیہ افضال نے پتے کی بات کہی کہ وہی بیورو کریٹ اوپر لائے جا رہے ہیں جو شریف برادران کے دائیں بائیں تھے۔ عرض کیا کہ یہ مسئلہ تو ہے مگر اصل مسئلہ یہ نہیں، اصل مسئلہ اور ہے اور اس میں غلیل کا قصہ در آتا ہے۔
غلیل کا قصّہ یوں ہے کہ ایک پاگل خانے میں ہر سال مریضوں کا انٹرویو کیا جاتا اور جو نارمل ثابت ہوتا اُسے چھٹی دے دیتے۔ ایک مریض ایسا تھا جس کے حواس پر اور اعصاب پر اور دل و دماغ پر اور فکر کے ہر زاویے پر غلیل چھائی ہوئی تھی۔ انٹرویو میں اس سے پوچھا کہ باہر جا کر کیا کرو گے؟ اس نے کہا غلیل لے کر نشانے لگائوں گا۔ اسے انٹرویو میں فیل قرار دیا گیا۔ ایک سال مزید گزر گیا۔ ایک سال کے بعد پھر انٹرویو میں پیش ہوا۔
’’باہر جا کر کیا کرو گے؟
’’نئی بائی سائیکل خریدوں گا‘‘
معقول جواب سن کر ڈاکٹروں کے چہروں پر اطمینان کی چمک آئی۔ روبصحت ہونے کی نشانی صاف نظر آ رہی تھی۔
’’نئی بائی سائیکل پر سوار ہو کر کہاں جائو گے؟‘‘
’’جانا وانا کہیں نہیں! اُس کے ٹائر سے ٹیوب نکال کر، ربڑ کا ٹکڑا کاٹ کر، غلیل بنائوں گا۔‘‘
پھر فیل قرار دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے فیصلہ صادر کیا کہ ایک سال اور رکھا جائے۔
تیسرے سال پھر پیش ہوا۔
’’باہر جا کر کیا کرو گے؟‘‘
’’کسی اچھے برانڈ کا تھری پیس سوٹ خریدوں گا۔‘‘
’’کون سا برانڈ پسند ہے‘‘
’’بہت اعلیٰ برانڈ۔ باس۔ سی کے۔ مارک اینڈ سپینسر۔(کنالی کے اطالوی سوٹ کا شاید اسے علم نہ تھا۔ سنا ہے، دروغ برگردن راوی کہ جنرل مشرف زیبِ تن فرماتے تھے۔ اس کالم نگار نے ہمت کر کے ایک بار قیمت پوچھی تھی۔ سب سے سستا ایک لاکھ روپے میں تھا۔ بلکہ آج کل کے زرِمبادلہ کے نرخ کے حساب سے ڈیڑھ لاکھ کا)
ڈاکٹروں کے چہروں پر پھر بشاشت کی سواری اتری! کیا معقول بات ہے۔ اچھے برانڈ کا سُوٹ! نارمل ہونے کے آثار۔
’’اتنا اچھا سُوٹ پہن کر، دنیا کی سیر کو نکلو گے یا دوست احساب کو ملنے چلو گے؟‘‘
’’کسی کو ملنے کا ارادہ ہے نہ باہر نکلنے کا۔ سوٹ کی پتلون کے ساتھ جو انڈر ویئر ہو گا اُس سے الاسٹک نکال کر غلیل بنائوں گا!‘‘
ڈی ایم جی کا افسر غلیل سے باہر نہیں نکلتا۔ وہ نہایت خلوص اور دلسوزی سے یہ سمجھتا ہے کہ ساری لیاقت ساری ذہانت، ساری فطانت ڈی ایم جی کے افسر میں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق کا عہدِ اقتدار آیا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا طوطی بولتا تھا۔ ایک خاتون، جسے جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں خوب خوب عروج نصیب ہوا، میاں ان کے ڈی ایم جی سے تھے۔ کبھی کبھی فرنگی زبان میں کالم بھی لکھتے تھے۔ روایت ہے کہ اسلام آباد کلب میں بیٹھک جمائے تھیں۔ فرمانے لگیں،’’سنا ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان بہت لائق ہے۔ اتنا جینئیس تھا تو ڈی ایم جی میں کیوں نہ آیا؟‘‘
سول سروس بہت سے گروہوں کا مجموعہ ہے۔ صرف ڈی ایم جی کا نہیں! سول سروس میں پولیس بھی ہے۔ فارن سروس بھی۔ آڈٹ اینڈ اکائونٹس بھی۔ انکم ٹیکس بھی۔ کسٹم بھی۔ ریلوے بھی۔ کامرس اینڈ ٹریڈ بھی! انفارمیشن بھی! ایک دھاندلی تونظر آ گئی کہ ڈی ایم جی کے توقیر شاہ کو شریف برادران نے عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں اعلیٰ ترین منصب پر بھیج دیا۔ مگر یہ دھاندلیاں تو عشروں سے ہو رہی ہیں۔ ڈی ایم جی کا کامرس اینڈ ٹریڈ سے کیا واسطہ؟ بیرون ملک منسٹر آف ٹریڈ اور کمرشل کونسلر کی اسامیوں پر یہی تعینات ہوتے آئے ہیں۔ اس لیے کہ ہوائی اڈوں پر حکمرانوں کو الوداع کہتے ہیں اور استقبال کرتے ہیں۔ یوں واقفیت ہو جاتی ہے۔ اس واقفیت کو پھر ذاتی وفاداری سے ضرب دی جاتی ہے اور حاصل ضرب سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔
وہ جو جگر مراد آبادی کے ایک شاگرد نے اپنے استاد کی طرز پر کہا تھا ؎
مری داستانِ غم کی کوئی حد کہیں نہیں ہے
ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگ آستاں تک
تو ڈی ایم جی کے افسران ٹیلنٹ کی تلاش ڈی ایم جی سے شروع کرتے ہیں اور ڈی ایم جی پر ختم کر دیتے ہیں۔
لیاقت علی خان کے ساتھ، متحدہ ہندوستان میں مسلم لیگ کا بجٹ بنانے والے چوہدری محمد علی آڈٹ اینڈ اکائونٹس سے تھے۔ بعد میں وزیر اعظم بنے۔ ایوب خان کے وزیر خزانہ محمد شعیب اور عالمی خوراک کے مسئلے پر کئی کتابوں کے مصنف سرتاج عزیز ملٹری اکائونٹس سروس سے تھے۔ ایچ یو بیگ، آٹھ سال مسلسل سیکرٹری خزانہ رہے اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین انکم ٹیکس سروس سے تھے۔ وزیر اعظم چوہدری محمد علی کے چھوٹے بھائی محمد ذوالفقار سول سروس میں فرشتہ صفت گردانے جاتے تھے۔ انکم ٹیکس سروس سے تھے۔ متاخرین میں انور محمود کامیاب سیکرٹری انفارمیشن اور سیکرٹری ہیلتھ رہے، انفارمیشن گروپ سے تھے۔ مشہور شاعر یوسف ظفر کے فرزند جاوید ظفر نے سول سروس میں نام کمایا۔ انکم ٹیکس سروس سے تھے۔ چوہدری محمد الیاس برسلز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔ آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروس سے تھے۔ آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروس ہی کے محمد اکرم خان ریٹائر ہوئے تو اقوام متحدہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ مشرقی تیمور میں پھر سوڈان میں۔ اقوام متحدہ نے اُن سے بڑے بڑے کام لیے۔ لاہور میں گوشہ نشین یہ اکرم خان، پوری دنیا کے اسلامی معیشت دانوں میں معروف ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کوالالمپور میں اور سالِ رواں میں ترکی میں اسلامک اکنامکس پر دنیا بھر کے معیشت دانوں کے جو عالمی اجتماع ہوئے، دونوں میں کلیدی خطبہ دینے کا اعزاز اسی پاکستانی سپوت اکرم خان کو حاصل ہوا۔ اکرم خان کی معرکہ آرا کتاب
What is Wrong with Islamic Economics
نے، جو لندن سے شائع ہوئی، اسلامی معیشت دانوں کی دنیا میں تہلکہ برپا کر دیا۔ کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا اور ہو رہا ہے۔ نہیں معلوم تو اہلِ پاکستان کو اور پاکستان کی حکومت کو اکرم خان کے ٹیلنٹ کا نہیں علم۔ اس لیے کہ ٹیلنٹ کی تلاش کا کام شہزاد ارباب صاحب کو سونپا گیا ہے اور اصلاحات کا کام عشرت حسین صاحب کو اور دونوں ڈی ایم جی سے باہر نہیں نکل سکتے۔ تعصب کی انتہا یہ ہے کہ ریفارم کمیشن میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان ہے نہ ایف بی آر کا چیئرمین نہ پولیس کا کوئی حاضر سروس افسر۔ نہ باقی گروپوں کے نمائندے۔ یہ کھیل عشرت حسین جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی کھیلتے رہے۔ وہ ان کے دام میں نہ آیا۔ اب یہ عمران خان کا سارا پلان کھوہ کھاتے ڈالنا چاہتے ہیں۔
کوئی ہے جو عمران خان صاحب کی خدمت میں عرض کرے کہ جناب! عزم اگر مکے کا کیا ہے تو رُخ آپ کا ترکستان کی جانب ہے۔ کوئی منصور آفاق! کوئی ہارون الرشید! کوئی ارشاد عارف! کوئی ایاز امیر! کوئی ہے جو خان صاحب کو بتائے کہ اس بیل کو سینگوں سے پکڑیں ورنہ یہ سینگوں پر اٹھائے گا اور زمین پر دے مارے گا!
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment