Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, September 02, 2018


حفیظ جالندھری کی ایک نایاب نظم

26اگست کے کالم میں بچوں کے لیے لکھی گئی شاعری کا تذکرہ ہوا۔ لاتعداد ای میلز موصول ہوئیں۔ ایک تو یہ پوچھا گیا کہ صوفی تبسم نے ٹوٹ بٹوٹ کے عنوان سے جو کتاب لکھی وہ کہاں سے ملے گی۔ دوسری فرمائش جو کثیر تعداد میں اندرون ملک اور بیرون ملک سے کی گئی یہ تھی کہ حفیظ جالندھری کی شہرہ آفاق نظم ’’تُڑم تم تُڑم‘‘ انہیں بھیجی جائے۔

’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ کافی عرصہ آئوٹ آف پرنٹ رہی۔ خوش قسمتی سے اب مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ کسی بھی بڑے کتاب فروش کے ہاں سے مل سکتی ہے۔ رہی حفیظ جالندھری کی نظم تو چونکہ ہر ای میل کے جواب میں یہ نظم بھیجنا ممکن نہیں‘ اس لیے یہاں نقل کی جا رہی ہے۔

یہ نظم جس کتاب سے نقل کی جا رہی ہے اس کا نام ’’حفیظ کے گیت اور نظمیں‘‘ہے۔ سال اشاعت کہیں نظر نہیں آ رہا۔ مگر لکھا ہے’’ہندوستانی بچوں کے لیے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب تقسیم سے پہلے چھپی تھی۔ یہ بھی لکھا ہے کہ کتاب کے چاروں حصے ’’مجلس اردو ماڈل ٹائون لاہور‘‘ سے منگوائے جا سکتے ہیں۔ غالباً ماڈل ٹائون میں حفیظ صاحب کی رہائش گاہ تھی۔ صرف چوتھے حصے پر سال اشاعت 65ئ‘ بار دوم‘‘ درج ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ابوالاثر حفیظ جالندھری نے دفتر شاہنامہ اسلام ماڈل ٹائون لاہور سے شائع کیا‘‘۔

روزنامہ 92کے لیے یہ اعزاز ہے کہ یہ نایاب نظم افادۂ عام کے لیے یہاں
شائع کی جا رہی ہے

………………………

تُڑم تم تُڑم کی کہانی

………………………………

سنا ہے کہ اونٹوں کا اک قافلہ

بیابان میں تھا چلا جا رہا

تھی اک اونٹ کی پیٹھ زخمی کہیں

اسے اس کے مالک نے چھوڑا وہیں

وہ بوجھا اٹھا نے کے قابل نہ تھا

اکیلا بیابان میں رہ گیا

بڑھی جب کہ گرمی تُڑم تم تُڑم

لگی پیاس اس کو دُڑم دُم دڑم

٭٭٭٭٭

پھرا دھوپ میں وہ ادھر اور ادھر

کہیں اس کو پانی نہ آیا نظر

کئی دن نہ پانی جب اس کو ملا

بُرا حال اس اونٹ کا ہو گیا

بہت ہی برا حال تھا اونٹ کا

اچانک اسے ایک گیدڑ ملا

کہا اونٹ نے پیارے گیدڑ میاں

کوئی ندّی ودّی بتائو یہاں

کہا اس سے گیدڑ نے سُن اے چچا

اگر تجھ کو پانی کا دوں میں پتا

تو کھائوں گا کچھ گوشت میں نوچ کر

جہاں پر سے زخمی ہے تیری کمر

ہوا اونٹ راضی دڑم دم دڑم

چلے پھر وہ مل کر تُڑم تم تُڑم

٭٭٭٭٭

وہ پہنچے وہاں ایک ندی کے پاس

بجھائی جہاں اونٹ نے اپنی پیاس

مگر اس قدر اس نے پانی پیا

کہ اب چلنا پھرنا بھی دوبھر ہوا

کہا اب تو گیدڑ نے اے اونٹ لا

مجھے گوشت اپنی زباں کا کھلا

کہا اونٹ نے یہ تو کہتا ہے کیا

کمر کا تھا میں نے تو وعدہ کیا

تو گیدڑ یہ بولا نہیں اے چچا

زباں ہی کا وعدہ تھا تونے کیا

کہا اونٹ نے جھوٹ کہتا ہے تو

فریبی ہے تو سخت جھوٹا ہے تو

تو گیدڑ پکارا دڑم دم دڑم

کہا اونٹ نے بھی تُڑم تم تُڑم

٭٭٭٭٭

کہا اونٹ نے دیکھ بک بک نہ کر

نہیں مجھ سے ڈرتا‘ خدا سے تو ڈر

نہ گیدڑ نے لیکن سنی اونٹ کی

زباں ہی زباں کی اسے رٹ رہی

کہا اونٹ نے تنگ آ کر کہ خیر

کرے فیصلہ اب کوئی آ کے غیر

زباں اور شے پیٹھ ہے اور شے

ترے پاس کوئی گواہی بھی ہے

پکارا یہ گیدڑ ٹھہر جا ذرا

گواہی بھی لاتا ہوں میں اے چچا

یہ کہہ کر وہ بھاگا دُڑم دم دڑم

اچھل کود کرتا تُڑم تم تُڑم

٭٭٭٭٭

وہیں بھٹ میں رہتا تھا اک بھیڑیا

کہا اس سے گیدڑ نے سب ماجرا

کہ اونٹ ایک پھانسا ہے میں نے میاں

چلو کاٹ لیں چل کے اس کی زباں

یہ سن کر بہت خوش ہوا بھیڑیا

چلا ساتھ گیدڑ کے ہنستا ہوا

بہت جلد پہنچے وہ ندی کے پاس

جہاں اونٹ بیٹھا ہوا تھا اداس

کہا بھیڑیے نے دڑم دم دڑم

میں سچ بولتا ہوں تُڑم تم تُڑم

میں سنتا تھا جھاڑی کے پیچھے وہاں

زباں کے کھلانے کا وعدہ تھا ہاں

جو وعدہ کیا تھا وہ سچ کر دکھا

زباں اپنی گیدڑ کو جلدی کھلا

مکرتا ہے کیوں اب دڑم دم دڑم

مکرنا ہے تیرا تُڑم تم تُڑم

٭٭٭٭٭

کہا اونٹ نے پیٹھ کا گوشت لو

تو دونوں پکارے زباں ہی کا دو

کہا اونٹ نے میں تو مر جائوں گا

تو دونوں یہ بولے ہمیں اس سے کیا

غرض اونٹ بولا دُڑم دُم دُڑم

بہت تنگ آ کر تُڑم تم تُڑم

کہ لو بھائی گیدڑ زبان کاٹ لو

خدا تم سے سمجھے گا اس بات کو

وہ بیٹھا جوں ہی اپنا منہ کھول کر

تو گیدڑ کو لگنے لگا دل میں ڈر

کہا بھیڑیئے سے دُڑم دم دُڑم

کہ اے میرے پیارے تُڑم تم تُڑم

٭٭٭٭٭

زباں اونٹ کی تو ہے موٹی بہت

مری تھوتھنی اس سے چھوٹی بہت

ذرا آکے منہ سے زباں تھامنا

مجھے سہل ہو جائے گا کاٹنا

کہا بھیڑئیے نے دڑم دم دڑم

بہت خوب اچھا۔ تُڑم تم تُڑم

٭٭٭٭٭

نہ تھی بھیڑیے کو مگر کچھ خبر

دیا ڈال جھٹ اونٹ کے منہ میں سر

کیا اونٹ نے بند جھٹ اپنا منہ

دیا زور دانتوں کا بھی۔ کہہ کے‘ اُونہہ

یہ چوٹ اس طرح بھیڑیئے پر پڑی

کہ سر کٹ گیا۔پھٹ گئی کھوپڑی

تو گیدڑ بھی بھاگا یہ کہتا ہوا

ملی جھوٹ کی بھیڑیے کو سزا

کہا اونٹ نے تو بھی آ گوشت کھا

تو گیدڑ پکارا’’نہیں اے چچا‘‘

دڑم دُم دڑم دُم۔ دڑم دم دڑم

تُڑم تم تُڑم تم ۔ تُڑم تم تُڑم

٭٭٭

حفیظ صاحب نے کتاب کا پہلا حصہ شمیم اور طاہرہ کے نام کیا ہے۔ دوسرا فہمیدہ کے نام اور چوتھا سعیدہ کوثر کے نام۔(تیسرا حصہ اس مجموعے میں نہیں) غالباً یہ ان کی اپنی بیٹیوں کے نام ہیں۔ حفیظ صاحب کی معرکہ آرا تصنیف ’’شاہنامۂ اسلام‘‘ بھی مارکیٹ میں ناپید ہے۔ نہیں معلوم ان کے ورثا کون ہیں اور کہاں ہیں! کوئی پبلشر ہمت کرے اور قانونی اجازت ان کے ورثا سے لے کر یہ ساری کتابیں شائع کرے۔ اسماعیل میرٹھی‘ قیوم نظر اور ابصار عبدالعلی کی نظمیں بھی نایاب ہیں۔

اگر بچپن میں آج کے طلبہ کو یہ شاعری نہ پڑھائی گئی تو بڑے ہو کر وہ میر‘ غالب‘ اقبال‘ فیض اور مجید امجد سے بھی نابلد ہی رہیں گے۔ خسرو اور بیدل کا تو ذکر ہی کیا۔ اقبال کا فارسی کلام بھی اب لگتا ہے ایران تاجکستان اور افغانستان ہی میں پڑھا جاتا ہے۔ یہاں تو اردو کلام کے لالے پڑے ہوئے ہیں! بچوں کے ادب کی طرف توجہ بالکل نہیں دی جا رہی! سرکاری اشاعتی ادارے پوری ڈھٹائی سے دوست نوازی اور خوشامد میں مصروف ہیں! ؎

اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور

ساقی نے بِنا کی روش لطف و ستم اور


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com