Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, September 01, 2018

خدا کے لیے جناب وزیراعظم! خدا کے لیے


آٹھ گھنٹے کی بریفنگ! 

جی ایچ کیو کے افسروں سے آٹھ گھنٹے معاملات و مسائل کی تفصیل سننا۔ نوٹس لینا۔ سوالات کرنا۔ بحث کرنا۔ 

آٹھ گھنٹے! 

چار سو اسی منٹ! 

یہ عمران خان نے کیا کاروبار شروع کردیا ہے۔ آنے والے وزرائے اعظم کے لیے اتنا مشکل معیار چھوڑ کر گیا تو کیا ہوگا؟ کیا اب وزرائے اعظم کو محنت کرنا پڑے گی! 

بھائی لوگو! یہ منصب وزیراعظم کا اس لیے نہیں تھا کہ محنت مشقت کی جائے یہ تو لمبی تعطیلات کے لیے تھا۔ جسے فرنگیوں کی زبان میں 

Paid Holiday 

کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسی تعطیلات کہ تنخواہ بھی ملے، مراعات بھی اور کام بھی نہ کرنا پڑے۔ یہاں تو ایسے ایسے وزیراعظم گزرے ہیں کہ تین تین بار اس مسند پر بیٹھے مگر ان پر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ کسی فائل پر کچھ لکھا ہو۔ لکھنا تو درکنار۔ کبھی کوئی فائل پڑھی ہی نہیں۔ 

جب کالم نویسوں نے تذکرہ کیا کہ بی اے کا امتحان ان کی جگہ کسی اور نے دیا تھا تو اس کی تردید کسی نے نہ کی۔ اس داستان میں فلمی کیریئر کی ناکامی کا بھی ایک باب ہے۔ 

روایت ہے کہ صاحبزادہ یعقوب علی خان مرحوم نے رضاکارانہ طور پر خارجہ امور میں بریفنگ دینا چاہی۔ ناشتے کا وقت تھا۔ چند منٹ تو بات سنی، پھر دماغ نے احتجاج کیا تو کہا صاحبزادہ صاحب چھوڑیئے، آئیے ناشتہ کرتے ہیں۔ 

وزارت خارجہ کا ایک سینئر افسر ہمیشہ وزیراعظم آفس میں تعینات رہتا ہے۔ ایسے ہی ایک سابق افسر بتا رہے تھے کہ جب بھی فائل لے کر حاضر ہوئے، فائل دینے کی نوبت ہی نہ آئی۔ آدھی بات سنی۔ پھر فرمایا فلاں کو بتادو۔ فلاں کو بریف کردو۔ یہ ’’فلاں‘‘ بے شک امور خارجہ سے سروکار ہی کوئی نہ رکھتا ہو۔ 

لکھنے پڑھنے، فائل دیکھنے، بریفنگ لینے، سوالات کرنے، بحث کرنے، اپنی رائے یا اپنا حکم لکھنے کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ نوکر شاہی کے ایک ’’مہا دیانت دار‘‘ کارندے کو اختیارات تفویض کردیئے گئے تھے۔ وہ فائلوں کا انبار اٹھاتا اور محمد شاہ رنگیلے کے سامنے کورنش بجا لا کر ایک ایک فائل پر ’’ہدایات‘‘ لیتا۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر حکمران خود فائل پڑھے تو مسئلے کے سارے پہلو دیکھتا ہے۔ تجسس پیدا ہوتا ہے۔ بعض اوقات مزید انفارمیشن طلب کرتا ہے مگر ’’مہا دیانت دار‘‘ افسر معاملے کی بابت بریفنگ اپنی مرضی سے دیتا تھا۔ کچھ پہلو دبا دیتا تھا۔ کچھ اجاگر کردیتا تھا۔ جب ساری فائلوں پر ’’احکام‘‘ لے لیتا تو واپس اپنی راجدہانی میں آ جاتا۔ اب اسے کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا کہ جو احکام جاری کر رہا ہے وہ واقعی بادشاہ کے فرمان کے مطابق ہیں یا قینچی چلا رہا ہے۔ یہ تھا نظم حکومت کا طریق واردات۔ 

رہے مالی معاملات تو وہ تو انتظامی امور سے بھی زیادہ ثقیل تھے۔ اب اگر ہر ماہ لندن جانا ہو، ہفتے میں دوبار لاہور اور تین بار مری کا عزم ہو تو مالی امور کی باریکیوں اور پیچیدگیوں میں کون پڑے۔ اس کے لیے ایک اکائونٹنٹ حاضر تھا۔ اسے قریبی رشتہ دار بھی بنا لیا گیا، بس پھر کیا تھا سارا مالیاتی نظام اس نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ رشتہ دار کا رشتہ دار نوکر کا نوکر۔ منشی کا منشی۔ بیسیوں نہیں، سینکڑوں کمیٹیوں کا وہ چیئرمین بن گیا۔ بینکوں میں اپنے گماشتے پتھر کے بتوں کی طرح کھڑے کردیئے - جو ولایت میں زچہ بچہ کے شفاخانے چلا کر پائونڈ کما رہے تھے وہ بھی بینکوں کے صدرالصدور تعینات ہو گئے۔ مالکوں کی منی لانڈرنگ ان کا اولین فریضہ ٹھہرا اور منصبی ذمہ داریاں ثانوی فریضہ۔ وہ لوٹ مار مچی کہ انیسویں صدی کے اوائل میں سکھا شاہی نے کیا مچائی ہوگی۔ سمدھی ایک افق سے طلوع ہوتا۔ آسمان پر چھا جاتا۔ دوسرے افق سے غروب نہ ہوتا بلکہ وہیں سے دوبارہ پھوٹ پڑتا۔ پورا ملک اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے لگا۔ 

عمران خان کی ایک اور کمزوری یہ ہے کہ خدا کے بندے کو خوراک کی شش جہات میں رمق بھر دلچسپی نہیں۔ کاش اسے کوئی بتاتا کہ اس کے پیشرو اس ضمن میں کتنا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ کراچی میں دھماکہ ہوا۔ کئی ہم وطن اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اسی دن، اس سانحہ کے بعد کراچی چیمبر آف کامرس میں ظہرانہ تھا۔ زمین و آسمان واری ہوں شکم پرست حکمران پر۔ تقریر میں کامرس اور انڈسٹری کے معاملات تو کیا سلجھانے تھے، شکوہ کیا اور کھل کر کیا کہ ظہرانہ کمزور تھا۔ اللہ اللہ! اندازہ لگائیے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی طرف سے پیش کیا ہوا ظہرانہ۔ وہ بھی کراچی کے چیمبر کی طرف سے۔ کتنا کمزور ہوگا۔ مگر دماغ میں بھی شکم تھا، دل میں بھی شکم تھا۔ گلہ نہ ہوتا تو کیا کامرس اور انڈسٹری کے اعداد و شمار ہوتے؟ 

پیٹ پوجا حواس پر اور اعصاب پر اور دل پر اور دماغ پر اور روح پر اور سوچوں پر اس طرح چھائی ہوئی تھی کہ کھانے کی فکر ہی میں اٹھتے۔ کھانے کی فکر ہی میں دن گزارتے اور اسی فکر میں رات پپوٹے بند ہوتے۔ امریکہ گئے تو باورچی ساتھ۔ جدہ گئے تو باورچی ساتھ۔ مودی فتح پر فتح کے شادیانے بجاتا اور یہ باورچیوں سے رات کے کھانے کے اجزا اور مرکبات پر بحث کرتے۔ بھارتیوں کے سامنے تقریر کی۔ دو قومی نظریے کو پیٹ کے تنور میں ڈال کر بھسم کردیا۔ مثال بھی دی تو کھانے کی۔ بہت بڑا نکتہ اپنے فلسفیانہ دماغ سے نکالا۔ کہ آپ کو بھی آلو گوشت پسند ہے اور ہمیں بھی۔ پھر اس لکیر کا رونا رویا کہ وہ درمیان میں آ پڑی ہے ورنہ ہم آپ ایک ہی تھے۔ 

اس پروردگار کی قسم جس نے اس حکمران کے جسم کے ساتھ شکم لگایا تھا، یہ بات اگر کراچی کا کوئی سیاست دان کہتا، کسی بلوچی کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے، کسی سندھی یا پختون نے ان جملوں کا زہر بکھیرا ہوتا تو اس پر غداری کے فتوے لگتے اور پنجاب اس کامنہ نوچ لیتا۔ مگر چونکہ درمیان میں کھینچی گئی لکیر کا ماتم کرنے والا حکمران خود پنجابی تھا اس لیے ہم پنجابیوں کے ہونٹوں پر مہریں لگ گئیں، ہماری زبانیں تالوئوں کے ساتھ چپک گئیں۔ کیا ارسطوئے زمان، کیا خواجگان اور کیا مرد مومن مرد حق کا اوپننگ بیٹس مین۔ سب اس بے حرمتی اور یا وہ گوئی کو پی گئے۔ 

اور کیا ستم ہے کہ آں جناب کو مغل بادشاہوں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ خدا کے بندوْ وہ تو چھ بجے صبح سے رات گئے تک کاروبار مملکت میں غرق رہتے تھے۔ ایک ایک جنگی گھوڑے کو اکبر کے سامنے داغا جاتا۔ یہ بادشاہ کسی مہم پر نکلتے تو سینکڑوں اونٹوں پر لدی ہوئی لائبریری ساتھ ہوتی۔ محمد تغلق رات گئے تک علما اورسکالرز کے ساتھ بحث کرتا۔ خود اکبر ہر مذہب کے علما کے درمیان گفتگو کراتا اور دلچسپی سے سنتا۔ یہ کئی کئی پہر کی بریفنگ سنتے۔ بحث کرتے اور احکام جاری کرتے۔ مجال ہے کہ کوئی فواد احمد فواد، کوئی سمدھی، کوئی احد چیمہ، کوئی باورچی، کوئی مالش کرنے والا، ان بادشاہوں سے اپنی بات منوا لیتا یا آگے لگا لیتا۔ 

کوئی عمران خان کو سمجھائے کہ جو بلند معیار اس کے پیشرو نے قائم کئے تھے، خدارا انہی کو جاری رکھے۔ ایک محل مری میں بنوائے، چار فلیٹ لندن میں خریدے اور درمیانی دیواریں گرا کر قصر میں تبدیل کرلے۔ زور بیرونی دوروں پر رکھے۔ جوتے پالش کرنے والے صحافیوں اور رکوع میں جانے والے کالم نگاروں کو ہر سفر میں ساتھ لے کر جائے۔ ہر تعیناتی، ہر ترقی سے پہلے پوچھے ’’اے بندہ اپنا ای اے؟‘‘ کس چکر میں پڑ گئے ہیں وزیراعظم صاحب! 

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست! 

اے جہان مٹھا   تے ا گلا کس ڈٹھا

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com