آپ بحث کیے جا رہے ہیں۔ عقل اور منطق کی بنیاد پر دلائل دے رہے ہیں۔ کرپشن کے اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں۔ دوسرا شخص زور اس بات پر دے رہا ہے کہ یہ حکمران ولی اللہ تھا کیوں کہ اس کے لیے سعودی حکومت نے کعبۃ اللہ کا دروازہ کھولا تھا۔ آپ مزید دلائل دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس کس طرح قانون کو پامال کیا گیا۔ جوابی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا غریب عوام کی خاطر کیا، جو بات آپ بھول رہے ہیں یہ ہے کہ جس سے بحث کر رہے ہیں۔ اس کے دوبھائیوں کو اس حکمران نے اعلیٰ مناصب دیئے، بیٹی کو ایم این اے بنایا۔ پوتے کو ایف آئی اے میں بھرتی کیا۔ آپ زمین و آسمان کے اعداد و شمار لے آئیں، دوسری طرف مسئلہ ذاتی وفاداری کا ہے۔ احسان کا ہے! چنانچہ پہلا سبق آپ یہ یاد کیجیے کہ کسی
Beneficiary
سے یعنی کسی ایسے شخص سے جس نے مفادات حاصل کیے ہیں، بحث نہیں کرنی چاہیے۔
جسے فیکٹری بنانے کے لیے قرض دیا گیا اور پھر قرض معاف کر دیا گیا، جسے پلاٹ ملے، جسے ملازمتیں ملیں، یا جسے کسی محکمے میں اس لیے رکھا گیا کہ اصل کام قصیدہ خوانی یا دفاع ہے، یا جسے راتب مل رہا ہے، اس سے بحث کرنا بے وقوفی ہے۔جس کسی کو بھی کسی شخص یا جماعت یا گروہ یا پارٹی کی وجہ سے کوئی منصب ملا ہے یا کسی ادارے کی رکنیت نصیب ہوئی ہے اس کے لیے تو وہ شخص فرشتہ ہے اور وہ گروہ مقدس گروہ ہے۔ اس کی ہزارہا تحریریں چھان ماریے، کہیں غلطیوں کی نشان دہی نہیں ملے گی۔ صرف توصیف ملے گی اور تعریف میں حد درجہ مبالغہ آرائی۔ اس کی رگوں میں محض تشکر ہے اور احسان مندی! سو، آپ نے صرف اتنا کہنا ہے بھائی معاف کیجیے۔ میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔
دوسرے دن آپ ایسے شخص سے بحث کر رہے ہیں جو یہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ فلاں سیاست دان، فلاں عالم، فلاں پیر، فلاں دانشور غلطی کا ارتکاب بھی کر سکتا ہے۔ ایسے شخص کو شخصیت پرست کہتے ہیں۔ یعنی
Hero-woriship
کرنے والا۔ آپ کی دلیل عقل کی بنیاد پر ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ فلاں بات ان صاحب نے درست کہی ہے مگر فلاں جگہ وہ غلطی کر گئے ہیں۔ دوسری طرف سے کہا جاتا ہے غلطی وہ کر ہی نہیں سکتے۔ غلطی آپ کے سمجھنے میں ہوئی ہے۔ سو، دوسرا سبق یہ یاد رکھیے کہ شخصیت پرستی میں مبتلا کسی شخص سے بحث کرنا سراسر احمقانہ فعل ہے۔
اسی لیے عقل مند لوگ کسی مذہبی گروہ میں شمولیت نہیں اختیار کرتے کیونکہ پھر وہ ہر اقدام کا دفاع کرنے کے پابند ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک مولانا مودودی، سید قطب، جاوید غامدی، فلاں مولانا، فلاں پیر صاحب، فلاں امام، غلطی کا مرتکب ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کے ہر قول کا، ہر فعل کا دفاع کرنا ان پر لازم ہے۔ شخصیت پرستی یا ’’شخصیت دشمنی‘‘ کی بہترین مثال ہمارے ہاں سرسید احمد خان ہیں، اس اعتبار سے وہ مظلوم ترین بھی ہیں۔ ایک طبقہ انہیں شیطان کا پیروکار قرار دیتا ہے۔ دوسرا طبقہ اُن پر اس انداز میں فدا ہے کہ ان کے مذہبی عقائد کی بھی غیر مشروط تائید کرتا ہے۔ درمیان راستہ اوجھل ہو گیا ہے۔ بہت کم ایسے متوازن اہلِ علم ملیں گے جو سرسید احمد خان کے خلوص اور ایثار کی تعریف کریں گے۔ یہ وہی تھے جنہوں نے جدید علوم سیکھنے کے لیے مسلمانوں کو آمادہ کیا۔ گستاخِ رسولؐ کی کتاب کا جواب لکھنے کے لیے گھر کا سامان تک بیچ دیا اور لندن گئے۔ مگر دوسری طرف قرآن کی تفسیر لکھی تو ٹھوکریں بھی کھائیں۔ ضروری نہیں کہ ان سے یہاں بھی اتفاق کیا جائے۔
یہیں سےنکتہ پھوٹتا ہے کہ لوگ دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جن کی سوچ کا محور شخصیات ہیں دوسرے وہ جو صرف نظریات پر توجہ دیتے ہیں۔ کم ہی ایسے حضرات نظر آئیں گے جنہوں نے نواز شریف کے کچھ اقدامات کو سراہا ہو اور کچھ پر کڑی تنقید بھی کی ہو، جنہوں نے عمران خان کی تعریف بھی کی ہو، اور ان پر تنقید بھی کی ہو۔ یہ وہ لکھاری یا دانش ور ہیں جن کے نزدیک اہمیت نظریات کی ہے۔ شخصیات کی نہیں!
جو شخص ذہنی طور پر اس قدر اندھا مقلد ہو کہ لباس اور سر کی ٹوپی یا دستار میں بھی اپنے ممدوح کی تقلید کرتا ہو، اس سے آپ بحث کریں گے تو آپ جیسا گائودی دنیا بھر میں مشکل سے ملے گا۔ اپنا دماغ جلائیں گے وقت ضائع کریں گے، تلخی بڑھے گی۔ تعلقات کشیدہ ہوں گے۔
وہ جو اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ؎
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
تو یہ مذہبی بحث کے ساتھ ساتھ دوسری بحثوں پر بھی صادق آتا ہے۔ اُس کتابِ ہدایت میں، جسے ہم نے غلاف میں لپیٹ کر طاق پر رکھا ہوا ہے، دوسنہری فارمولے بتائے گئے ہیں جو ان افراد سے نجات حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں جن کے منہ سے بحث کرتے وقت جھاگ نکلتی ہے۔ گلے کی رگیں سرخ ہو جاتی ہیں، مٹھیاں بھینچ لیتے ہیں، آواز ناروا حد تک بلند کر لیتے ہیں اور مکالمے کو مجادلے میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہ دونوں نسخے ایک ہی سورہ، سورہ فرقان میں بیان کیے گئے ہیں۔ پہلے یہ ہدایت کی گئی کہ
’’جب جاہل لوگ اُن کے منہ آتے ہیں تو جواب میں کہتے ہیں اچھا صاحب! سلام!‘‘
یعنی معاف کیجیے۔ میں اس معاملے میں پڑنا ہی نہیں چاہتا۔ اگر اس فارمولے پر عمل پیرا ہوا جائے تو زندگی کی مکروہ صورت تبدیل ہو سکتی ہے۔ خاندانوں میں پڑنے والی دراڑیں، دوستوں میں آنے والے بال، دور ہو سکتے ہیں۔
زندگی کے روز و شب میں آپ سے ملنے جلنے والے، آپ کے اعزہ اور اقارب سب عقلیت پسند ہوتے ہیں نہ فلسفی نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ۔ مگر آپ آئے دن دیکھتے ہیں کہ اچھے خاصے معقول حضرات دیواروں سے سر ٹکرا رہے ہوتے ہیں۔ ایک صاحب اپنی گاڑی جس مکینک کے پاس لے کر جایا کرتے تھے۔ اس سے سیاسی بحث کرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کے پاس جانا چھوڑ دیا۔ اب میلوں دور، ایک اور ورکشاپ میں جاتے ہیں۔ ایک بھلے مانس ایک قریبی عزیز سے اس لیے الجھ پڑے کہ فلاں مسجد میں نماز پڑھتے ہو، فلاں میں کیوں نہیں جاتے۔ تلخ کلامی اس حد تک بڑھی کہ تعلقات میں شگاف پیدا ہو گیا۔ آپ کا کیا خیال ہے، کیا غلطی اُس بے وقوف کی تھی جس نے بحث کا آغاز کیا؟ نہیں! دوسرے صاحب زیادہ پڑھے لکھے تھے۔ قصور ان کا ہے۔ انہیں چاہیے تھا خاموش رہتے، یا اتنا کہہ دیتے، پھر کبھی بات کریں گے۔ اگر یہ کہہ دیتے کہ آپ کی مسجد میں بھی نماز پڑھ لیں گے، کوئی مضائقہ نہیں۔ تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا۔ جو بھی یہ اعتراض کرتا ہے کہ فلاں مسجد میں کیوں جاتے ہو، وہ یقینا جاہل ہے اور جاہلوں کے متعلق ہدایت یہ ہے کہ منہ پڑیں تو بحث نہ کیجیے، بس سلامتی بھیج کر ایک طرف ہو جائیے۔
دوسرا فارمولا بھی آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے!
’’اور جب ’’لغو‘‘ کے پاس سے گزر ہوتا ہے تو بس سنجیدگی اور متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں‘‘۔
’’لغو‘‘ کا لفظ وسیع و عریض مفہوم رکھتا ہے۔ اس میں وہ کام بھی شامل ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں اور وہ گفتگو بھی شامل ہے جس کا مقصد دوسروں کی دل آزاری ہے۔ کوئی آپ کی پسندیدہ شخصیت کے بارے میں نازیبا کلمات کہتا ہے تو اسے لغو سمجھ کر، متانت اور خاموشی کے ساتھ وہ جگہ چھوڑ دیجیے۔ آگے گزر جائیے۔
غیبت کا شمار بھی لغویات ہی میں ہونا چاہیے۔ تھوڑی دیر خاموش رہ کر برداشت کیجیے، اگر غیبت کا سلسلہ طویل ہو جائے اور اس میں شرکا بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں تو وہاں سے اُٹھ آئیے۔
اکبر الٰہ آبادی ہی نے کہا تھا ؎
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
اب بحث کا سلسلہ فلسفیوں سے گزر کر جہلا کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ ظفر اقبال نے جبھی تو رونا رویا تھا ؎
جزیرۂ جہلا میں گھرا ہوا ہوں ظفرؔ
نکل کے جائوں کہاں چار سُو سمندر ہے
ہمارے علاقے میں فضول بحث کرنے والے کے بارے میں کہتے ہیں کہ حلوے کا سرا تلاش کر رہا ہے، بھلا حلوے کا سرا بھی کہیں ہاتھ آتاہے؟
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment