Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, September 06, 2018

راجہ ظفر الحق صاحب کے نام کھلا خط



…رومی نے ہزار افسوس کے ساتھ بتایا تھا کہ شیخ ہاتھ میں چراغ لیے سارے شہر میں گھوما کہ میں شیطانوں اور عفریتوں سے دل برداشتہ ہو گیا ہوں اور اب مجھے کسی انسان کی آرزو ہے! ایک ہاتھ میں کیا‘ 

دونوں ہتھیلیوں پر چراغ رکھ کر پوری نون لیگ میں گھوم چکے سوائے آپ کے کوئی رجل رشید نہیں نظر آ رہا جس سے گلہ کریں‘ جس کا دامن پکڑ کر کھینچیں‘ جس سے فریاد کریں! آپ کا نام کبھی کسی مالی سکینڈل میں نہیں آیا۔ آپ نے شائستہ سیاست کی اور کبھی کسی کے لیے نازیبا الفاظ استعمال نہیں کئے۔ 

جناب راجہ صاحب! کاغذی طور پر ہی سہی آپ مسلم لیگ نون کے چیئرمین تو ہیں!شاید یہ واحد ادب آداب والا کام ہے جو زرپرست اور بھارت نواز شریف برادران سے صادر ہو گیا۔ آپ کے لیے یہ حقیقت ہرگز ہرگز قابل فخر نہیں کہ آپ اُس مسلم لیگ کے چیئرمین ہیں جس کی اصل‘ عملی قیادت شریف برادران اور اُن کے بچوں کے ہاتھ میں ہے جو اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے رہے۔ مگر چلیے‘ اسے آپ کی سیاسی مجبوری سمجھ لیتے ہیں!۔ 

محترم بزرگوار! آپ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں دنیا کی کم اور عقبیٰ کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔ آپ نے سب کچھ دیکھ لیا۔ خسروی بھی۔ شاہجہانی بھی۔ وزارت بھی۔ مصر میں پاکستان کی سفارت بھی!پارلیمنٹ کی رکنیت بھی! آپ اقتدار کی ہر غلام گردش میں ہر موڑ مُڑے ہیں۔ آپ نے ہر راہداری پر قدم رکھا ہے۔ ہر دالان سے گزرے ہیں۔ ایک مدت سے آپ سوسائٹی کے اعلیٰ ترین طبقے میں ممتاز نشست پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ کا کیا نقصان ہو جاتا اگر آپ مولانا فضل الرحمن کی امیدواری سے اختلاف کرتے ہوئے بطور چیئرمین مستعفی ہو جاتے؟ اس چیئرمینی کو بچا کر آپ نے کیا پایا ہے؟ 

حرمت فروشوں کے اس انبوہ میں کیا آپ نے بھی نہ سوچا کہ مسلم لیگ نون …جیسی بھی ہے‘ قائد اعظم کا نام لیتی ہے اور اپنے آپ کو اس جماعت کا وارث کہتی ہے جس نے کانگرس کی مخالفت کی۔ جس کا مقابلہ اُس جمعیت العلما نے ڈنکے کی چوٹ کیا جس کے آج فضل الرحمن وارث ہیں! آپ 1947ء میں مقتدر ہوتے تو کیا مولانا ابوالکلام آزاد کو پاکستان کا گورنر جنرل بناتے اور کیا مولانا حسین احمد مدنی کو پاکستان کا جھنڈا لہرانے کا اعزاز سونپتے؟ 

آپ اس حقیقت کو بھی چھوڑ دیجیے کہ ایک معروف صحافی نے الیکٹرانک میڈیا پر وہ دستاویزات دکھائیں جن میں مولانا کو اور ان کے قریبی رفقا کو سینکڑوں کنال اراضی وطن فروش پرویز مشرف نے بھاڑے میں دی! 

آپ اسے بھی بھول جائیے کہ ڈیزل کے پرمٹ کی کون سی کہانی کس سے وابستہ ہے۔ 

آپ اس سے بھی صرفِ نظر کر لیجیے کہ یہ مولانا صاحب ہر حکومت سے فوائد سمیٹتے رہے ہیں۔ وزارتیں لیتے رہے ہیں اور بیک وقت حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں شامل رہے ہیں۔ 

آپ اس چابکدستی پر بھی نہ جائیے کہ یہ ہر انٹرویو میں نظریات کا نام لیتے ہیں اور آج تک کسی کو علم نہ ہو سکا کہ یہ کون سے نظریات ہیں۔ 

اس بات سے بھی چشم پوشی اختیار کر لیتے ہیں کہ بدنام ترین وزارت کا بدنام ترین عہد ان کی جماعت سے وابستہ تھا۔ 

چلیے‘ ہم اس حقیقت کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں کہ قیام پاکستان کی مخالفت مولانا نے نہیں‘ ان کے بزرگوں نے کی تھی۔ یہ بات انہوں نے نہیں‘ ان کے مرحوم والد نے فخر سے کہی تھی کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہ تھے۔ پاکستان کی سر توڑ مخالفت کرنے والے یہ نہیں‘ ان کے نظریاتی بزرگ تھے۔ 

مگر آپ کو یہ خیال بھی نہ آیا کہ خود مولانا نے آج تک قائد اعظم کا نام کسی بیان کسی تقریر کسی ریزولیوشن میں نہیں لیا؟ انہوں نے تحریک پاکستان کی موافقت میں آج تک اپنے خاندانی اور روحانی بزرگوں کے موقف سے بال برابر انحراف نہیں کیا۔ فاتحہ خوانی کے لیے آج تک قائد کے مزار پر نہیں گئے۔ 

جناب راجہ صاحب! جناب چیئرمین مسلم لیگ! یہ حقیر کالم نگار آپ کو چیلنج کرتا ہے کہ آپ نے بطور چیئرمین جس شخصیت کو پاکستان کی صدارت کے لیے منظور کیا اس کی زبان سے ایک بار‘ فقط ایک بار۔ جی ہاں! صرف ایک بار ’’قائد اعظم محمد علی جناح رحمت اللہ علیہ کے الفاظ کہلوا دیجیے! ایک بار ۔ صرف ایک بار! جی ہاں! فقط ایک بار انہیں قائد اعظم کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے بھجوا دیجیے۔ اگر یہ چیلنج آپ قبول نہیں کر سکتے تو اب بھی وقت ہے استعفیٰ دے دیجیے اور اعلان کیجیے کہ یہ نامزدگی تحریک پاکستان سے غداری تھی! چلیے! غداری کا لفظ بھی چھوڑ دیجیے‘ اتنا ہی اعتراف کر لیجیے کہ مسلم لیگ نون تحریک پاکستان سے بے وفائی کی مرتکب ہوئی ہے۔ 

آپ پرانے وقتوں کے بزرگ ہیں۔ اس مصرع کا مطلب خوب سمجھتے ہیں ع

ببین کہ از کہ بریدی و با کہ پیوستی؟

آپ نے مسلم لیگ کا سربراہ ہوتے ہوئے کن سے ناتا جوڑا؟ آپ نے اگر کسی مذہبی رہنما ہی کو صدارت کا امیدوار بنانا تھا تو کیا آپ کو پورے ملک میں کوئی ایسی شخصیت نہ نظر آئی جو مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا مفتی محمد شفیع کی یادگار ہو؟ مولانا حسین احمد مدنی ہی کے سیاسی جانشین پر آپ کی نظر کیوں پڑی ؟ حضور!!آپ مسلم لیگ کے چیئرمین ہیں یا کانگرس کے؟ 

بارہ نومبر 2017ء کا اخبار منگوا کر پڑھیے ۔ہارون الرشید کیا لکھتے ہیں۔

’’حضرت (مولانا فضل الرحمن) بھارت تشریف لے گئے۔ اور یہ کہا کہ ایک عدد گول میز کانفرنس بلا کر پاک بھارت سرحد ختم کی جا سکتی ہے۔ قاضی حسین احمد نے اپنے حلیف کے لیے جوازڈھونڈنے کی کوشش کی مگر منور حسن ڈٹ گئے‘ قاضی صاحب کو خاموش ہونا پڑا۔ جماعت اسلامی کے اجتماعی ضمیر نے قاضی صاحب کی تاویل کو مسترد کر دیا۔‘‘ 

منور حسن آج جماعت کے امیر ہوتے تو اس صدارتی نامزدگی کو کبھی قبول نہ کرتے۔ چلیے‘ جماعت اسلامی کی تو مجبوری تھی۔ اس کا سربراہ ایک ایسا شخص ہے جس کے گوناگوں اور متناقض بیانات اس کی سیاسی ناپختگی کا ثبوت ہیں مگر آپ؟ آپ تو ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ منجھے ہوئے مسلم لیگی ہیں‘ آپ کی فکر کو کیا ہوا؟ تو کیا آپ کے عہدِ چیئرمینی میں مسلم لیگ‘ جماعت اسلامی سے بھی اسفل ہو گئی؟؟؟ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ 

آپ ساری زندگی خار زارِ سیاست میں چلنے کے باوجود یہ بات نہ سمجھ سکے کہ شریف برادران مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کا تو ایجنڈا ایک ہے! ان میں تو قدرِ مشترک اس لکیر کو مٹانے کا عزم ہے جو تقسیم نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کھینچی تھی۔ ایک اگر بھارت جا کر کہتا ہے کہ گول میز کانفرنس بلا کر پاک بھارت سرحد ختم کی جا سکتی ہے تو دوسرا پاکستان کا وزیر اعظم ہوتے ہوئے برملا کہتا ہے کہ بس درمیان میں بارڈر آ گیا ہے ورنہ ہمارا ایک ہی کلچر ہے ایک ہی بیک گرائونڈ ہے۔ مگر آپ کا تو یہ ایجنڈا نہ تھا! پھر آپ کیوں خاموش رہے؟ 

اُس پروردگار کی قسم! جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو قائد اعظم عطا کیا اور اُس خالق کائنات کی قسم! جس نے خلقت کو اتنا فہم دیا کہ محمود خان اچکزئی کے والد کو ’’بلوچی گاندھی‘‘ کے نام سے پکاریں‘ جس دن نواز شریف نے کوئٹہ کے جلسہ عام میں کہا تھا کہ ’’محمود خان اچکزئی، نواز شریف سب ایک ہیں، محمود اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے۔ عبدالصمد اچکزئی نے نظریے کی جنگ لڑی ہم نے ان کے نظریے پر عمل کیا ہے‘‘ تو جناب چیئرمین صاحب! مسلم لیگ! آ پ کو اسی دن اسی وقت اس پر احتجاج کرنا چاہیے تھا۔ مگر افسوس! ایک برائے نام چیئرمینی کی خاطر ہر موقع پر آپ کی زبان گنگ رہی، یہاں تک کہ شریف برادران نے پاکستان کی تحریک اور پاکستان کے وجود میں چھرا گھونپتے ہوئے‘ اس شخص کو صدارتی امیدوار نامزد کیا جو پوری زندگی قائد اعظم اور تحریک پاکستان کا نام زبان پر نہ لایا اور آپ پھر بھی چُپ رہے! 

اتنی بھاری قیمت !! 

اس چیئرمینی کے لیے!! 

تو پھر تو یہ چیئرمینی بہت مستقل اور لافانی ہو گی! 

خدا کرے آپ سینکڑوں برس اس منصب پر فائز رہیں ؎ 

تم سلامت رہو ہزار برس 

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار



Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com