Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, November 29, 2013

عجز صدیوں کا

Thursday, November 28, 2013

کاش! کوئی حسن روحانی افغانستان کو بھی ملتا

اگر وہ جنگ کا اشارہ کر دیتے؟ صرف اشارہ! انگلی کا نہیں‘ ابرو کا اشارہ بھی کافی ہوتا۔ یہ چودہ سو سرفروش جس جذبے سے سرشار تھے اور موت کو جس طرح کھیل سمجھتے تھے‘ شہر پر ہر حال میں قبضہ کر لیتے۔ 
یا اہلِ مکہ کی اشتعال انگیز شرائط سن کر اگر وہ فرما دیتے کہ ہم واپس جا رہے ہیں اور چند دنوں میں پوری قوت سے حملہ آور ہوں گے تو بہت سے سر کٹتے اور شہر فتح ہو جاتا۔ 
یا صلح کی شرائط سے ازحد بددل ہونے والے ساتھیوں کا دل رکھنے کے لیے موقف بدل لیتے! 
لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہادیٔ اسلام نے صلح حدیبیہ کے معاہدے پر دستخط فرما کر اپنے پیروکاروں کو بالخصوص اور پوری دنیا کو بالعموم یہ سبق دیا کہ ہوش مندی‘ صبر اور سفارت کاری جنگ سے بہت بہتر ہے۔ پھر جب معاہدہ ضبطِ تحریر میں لاتے وقت فریقِ مخالف نے ’’رسول‘‘ کے لفظ پر اعتراض کیا، تب بھی اشتعال پیدا کیا جا سکتا تھا۔ صرف اس ایک بات پر مسلمانوں کو مرنے یا مارنے پر آمادہ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اُس ہستیؐ نے نظامیؔ گنجوی جس کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خرد آپ کی خاک تھی‘ اپنے ہاتھ سے رسول کا لفظ مٹایا۔ 
اضطراب! مایوسی! مسلمان اس معاہدے پر اضطراب اور یاس میں مبتلا تھے۔ وہ مغموم تھے، آزردہ تھے، یہاں تک کہ فاروق اعظمؓ نے پوچھا کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ پھر ہم کیوں یہ شرائط مان رہے ہیں؟ کیا ایک لمحے کے لیے بھی ذہنِ مبارک میں یہ امکان ابھرا کہ پیروکار ناراض نہ ہو جائیں؟ نہیں! قیادت اور پھر پیغمبرانہ قیادت یہ ہوتی ہے کہ ساری دنیا بھی ایک طرف ہو جائے تو ہو جائے‘ کسی کی خوشی کے لیے موقف نہیں بدلا جا سکتا۔ صلح حدیبیہ ہی سے یہ اصول بھی ہمیشہ کے لیے طے ہو گیا کہ لیڈرشپ پیروکاروں کو اپنے پیچھے چلاتی ہے‘ خود پیروکاروں کے پیچھے نہیں چلتی۔ دیانت اور ایسی دیانت! جو مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ پناہ لینے پہنچے‘ معاہدے کی رُو سے واپس کر دیے گئے! اس سے یہ اصول بھی ہمیشہ کے لیے طے ہو گیا کہ بسااوقات جو باتیں شکست آسا لگتی ہیں‘ وہ کچھ عرصہ انتظار کرنے کے بعد برتری کا سبب بنتی ہیں۔ کیا بدر‘ احد اور خندق کا انتقام لینے کے لیے ایک بار بھی مکہ پر چڑھائی کی گئی؟ نہیں! کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ ساری لڑائیاں دفاعی تھیں۔ 
پھر جب ایک صحابی ایک شخص کو قتل کرتے ہیں اور جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ تو جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا تھا تو آپؐ نعرہ لگاتے ہیں نہ شاباش دیتے ہیں، فرمایا تو صرف یہ کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ وہ کیوں کلمہ پڑھ رہا تھا۔غالباً پوری تاریخ میں اس فقرے کی اورکوئی مثال نہیں! معرکوں میں‘ مخالفتوں کے طوفانوں میں‘ ایک جان کی اہمیت ہی کیا ہوتی ہے‘ لیکن نہیں! ایک ایک جان کی حفاظت کا اہتمام تھا۔کچھ عرصہ پہلے ایک تکبر مآب انٹرویو لینے والے کو بار بار کہہ رہے تھے‘ ’’کلمہ پڑھیے‘ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں‘‘ تو ان سطور کا لکھنے والا سوچ رہا تھا کیا جوش اور جذبہ ہے مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے باہر کرنے کا! اب تو دل چیر کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں‘ تکبر ایسی مافوق الفطرت طاقت فراہم کرتا ہے کہ ان حضرات کو ایک ایک دل کے اندرکی کیفیت معلوم ہوجاتی ہے! 
تین عشروں سے ایران اذیت پراذیت سہہ رہا تھا،گھائو پرگھائو کھا رہا تھا، عوام پِس رہے تھے، شرحِ مبادلہ آسمان کو چھونے لگی تھی۔ اس کہانی کی ابتدا 1979ء میں ہوئی جب 52 امریکیوں کو 444 دنوں کے لیے یرغمال بنا لیا گیا۔ سفارتی تعلقات ٹوٹ گئے۔ کارٹر نے ایران کے بارہ ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے۔ 1983ء میں ریگن حکومت نے ایران کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیا اور بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی روک لی۔ امریکہ نے ’’دُہرے استعمال‘‘ کی اشیا کی فروخت بھی منع کردی۔’’دُہرے استعمال‘‘ کی اشیا وہ تھیں جو جنگی اورغیر جنگی مقاصد دونوں کے لیے استعمال کی جا سکتی تھیں۔ 1995ء میں امریکہ نے ہر اُس چیز سے تعلق توڑ لیا جس کا ایرانی تیل سے دور کا بھی واسطہ تھا۔ 1997ء میں بہت خفیف سی تجارت امریکہ اور ایران کے درمیان باقی رہ گئی اورامریکہ نے دوسرے ملکوں کو بھی تجارت ختم کرنے کے لیے کہنا شروع کردیا۔ پھر بُش آیا تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ شکنجہ مزید کس دیا گیا۔ اوباما نے کانگرس کے ساتھ مل کر مزید پابندیاں عائد کردیں۔ غیر امریکی کمپنیوں کو گیسولین بیچنے سے منع کردیا جو ایران کی تیل کی صنعت کے لیے ازحد ضروری تھی! پھر ہر اُس کمپنی کے لیے امریکی بینک شجرِ ممنوعہ ہو گئے جو ایران کے ساتھ ذرا سا کاروبار بھی کر رہی تھی۔ اُن مالی اداروں سے بھی تعلق توڑ لیا گیا جو ایران کے مرکزی بینک کے ساتھ لین دین کر رہے تھے۔ 
ان پابندیوں کا اثر ایرانی عوام پر کیا پڑا؟ ہم پاکستانی شاید اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایرانیوں کو پچاس پچاس سال پرانے 
ٹھیکرا نما روسی جہازوں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ جہازوں کے پرزے ناپید ہیں،ان کواکثر و بیشتر کریش لینڈنگ کرنا پڑتی ہے،ایک ہزارسات سوافرادکریش لینڈنگ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ افراطِ زر پچاس فی صد تک پہنچنے والا ہے، نئی کار خریدنا ناممکن ہے، ہسپتالوں میں جان بچانے والے آلات درآمد نہیں کیے جا سکتے، مریض مسلسل موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ جس دوا کی قیمت ایک ریال تھی‘ اب تین سوآٹھ ریال ہے۔تھیلاسیمیا کے بیس ہزار مریض تیزی سے مر رہے ہیں۔ سات سال پہلے دانت کی ’’روٹ کینال‘‘ پندرہ تومان میں ہوجاتی تھی،اب تین لاکھ تومان لگتے ہیں۔ زیادہ مشہور ڈاکٹر دس لاکھ بھی مانگتے ہیں۔ جن گھروں میں مریضوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے وہاں ہر روز قیامت سروں سے گزرتی ہے۔ ایلومینیم کی درآمد بند ہو جانے کے بعد ویل چیئر اور واکر نہیں بن رہے۔ ایک مریض کا معلوم ہوا کہ کینسر کے علاج کے لیے اسے ماہانہ ایک کروڑ دس لاکھ تومان کی ادویات درکار ہیں جب کہ گھر کے تمام افراد مل کر چھیانوے لاکھ تومان کما رہے ہیں۔غذائی اجناس فروخت کرنے والی دکانیں تو ٹوٹی پھوٹی چل ہی رہی ہیں لیکن اخبارات ورسائل‘ کھیلوں کے سامان‘ میک اپ اورملبوسات کی دکانیں ایک ایک کر کے بند ہو رہی ہیں۔ 
یہ ایرانی عوام کی حالتِ زار کی محض ایک جھلک ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ بنیادی حقوق اورجمہوریت کے لیے جدوجہدکرنے والی تنظیمیں اقتصادی پابندیاں ہٹانے کی مہم چلا رہی تھیں! 
قومیں نعروں سے ترقی نہیں کرتیں۔ ’’مرگ بر امریکہ‘‘، ’’شیطانِ بزرگ‘‘، ’’گو امریکہ گو‘‘، ’’ماریں گے مر جائیں گے‘‘، ’’ایک ہزار سال تک گھاس کھائیں گے‘‘… ان میں سے کوئی ایک نعرہ بھی ایسا نہیں جسے حقیقت میں بدلا جا سکے۔ ایرانی عوام سے ان کے سیاست دان تیس سال… جی ہاں‘ پورے تین عشرے مرگ بر امریکہ کا نعرہ لگواتے رہے لیکن امریکہ نہ مر سکا۔ جنگوں کی نوعیت بدل چکی ہے، فتح اورشکست کے تصورات تبدیل ہو چکے ہیں، شکست خوردہ جاپان اورجرمنی آج اقتصادی لحاظ سے امریکہ کی حکومت اور امریکی عوام پر راج کر رہے ہیں۔ چین نے دوسروں کے معاملات میں سیاسی مداخلت سے مکمل طور پرگریز کیا لیکن آج کوئی ایک بین الاقوامی کمپنی بھی ایسی نہیں جو اپنا دفتر چین میں نہ رکھتی ہو۔کیا عجب آئندہ تیس سالوں میں ایران امریکہ کو اقتصادی میدان میں اسی طرح سرنگوں کر لے جس طرح جرمنی جاپان اورچین نے کیا ہے۔ 
کاش کوئی حسن روحانی افغانستان کو بھی میسر آتا۔کاش محمد جواد ظریف جیسا وزیر خارجہ افغانستان کے مقدر میں بھی ہوتا! کاش کوئی افغان رہنما‘ افغان بچوں کے ہاتھوں سے بندوقیں لے کر ان کوکتابیں اورلیپ ٹاپ پکڑاتا۔کاش افغان عورتیں اور بوڑھے بھی دنیا میں عزت سے زندگی گزار سکتے۔ 
پاکستانی دارالحکومت میں پشاور موڑکے بارونق گنجان بازار میں چنددکانیں افغان نانبائیوں کی تھیں، اہلِ خیران دکانداروں کو کچھ رقم دے جاتے تھے کہ مستحقین میں روٹیاں تقسیم کردیں، ان دکانوں کے سامنے گھنٹوں انتظار کرتی اور پھرروٹی کے لیے قطار میں کھڑی ہوئی افغان عورتوں کو دیکھ کر کالم نویس کے دل میں ایک ہُوک اُٹھتی۔ لیکن افغانوں کو غیرت مند کہہ کر مروانے والا کوئی دانش ور یہاں کبھی نظر نہ آیا۔نہیں معلوم، یہ دکانیں اب بھی ہیں یا بڑھا دی گئیں!

Tuesday, November 26, 2013

کاش!درمیان میں دیوار ہوتی

یہ نامعقول بچہ حجام کی دکان پر بیٹھا تھا۔دو اشخاص خصوصی کرسیوں پر براجمان بال کٹوا رہے تھے اور ہم تین اپنی اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ایک صاحب حجام صاحب کو اخبار پڑھ کر سنارہے تھے۔ہنگو پر ڈرون حملہ ہواتھا۔سنانے والا سنارہا تھا کہ جاں بحق ہونے والوں میں تین افغان کمانڈر بھی شامل تھے۔یہ بچہ جو عمر میں آٹھویں ،نویں جماعت کا طالب علم لگ رہا تھا، اچانک بولا کہ افغان پاکستان علاقے ہنگو میں کیا کررہے تھے ؟ بحث چھڑگئی۔کالم نگار خاموشی سے سنتا رہا۔ ایک موقع پر جب حجام نے کہا کہ افغان کمانڈروں کو پاکستان میں داخل ہونے کے لیے پاسپورٹ یا ویزہ تھوڑی ہی درکار ہوتا ہے تو بچے نے پھر سوال کیا کہ کیوں؟ کیا افغان غیرملکی نہیں؟
لڑکے کے دونوں سوالات سن کر وہ مشہور و معروف بچہ یاد آگیا جس نے بلند آواز سے کہا تھا کہ بادشاہ ننگا ہے جب کہ ہر کوئی بادشاہ کے نئے ’’لباس ‘‘ کی تعریف کررہا تھا۔
کیا پاکستانی عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجا نب نہیں ہیں کہ غیر ملکیوں کو مطلوبہ دستاویزات کے بغیر پاکستان میں کیوں آنے دیا جاتا ہے؟روکا کیوں نہیں جاتا؟
کوئی یہ حقیقت تسلیم کرے یا شتر مرغ کی طرح سرریت میں چھپالے، افغان سرحد پاکستان کے لیے ایک ایسا درد سر ہے جس کا تاحال کوئی علاج نہیں دریافت ہوا۔ جب تک یہ سرحد حقیقی معنوں میں سرحد نہیں بنتی پاکستانی ریاست کی خود مختاری اور سلامتی ایک سوالیہ نشان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ڈرون حملے فضائی مداخلت ہے اور غیر ملکیوں کا دستاویزات کے بغیر اس ملک میں دندناتے پھرنا زمینی مداخلت ہے۔ جو لوگ اس زمینی مداخلت کو نظر انداز کررہے ہیں وہ دماغ کے فتور میں مبتلا ہیں یا اس ملک کی سرحدوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔سیدھی سی بات ہے کہ افغانستان ایک الگ ملک ہے اور پاکستان الگ۔جس طرح کسی ایرانی ، اطالوی یا مصری کو پاکستان میں داخل ہونے کے لیے پاسپورٹ اور ویزہ درکار ہے اسی طرح کسی افغان شہری کو پاکستان میں داخل ہونے کے لیے دستاویزات دکھانی چاہئیں۔
جوش جذبات میں کہا جاتا ہے کہ پاسپورٹ مغربی ممالک نے ایجاد کیا تاکہ خطوں اور علاقوں کے درمیان تفریق پیدا کی جائے ۔ خون میں اُبال پیدا کرنے کے لیے ایسی باتیں ازحد موزوں ہیں لیکن حقائق مختلف ہیں۔ازمنہ وسطیٰ کی اسلامی حکومتوں میں سرحد پار کرنے کے لیے کاغذات دکھاناضروری تھا۔خاص طورپر ٹیکس کی ادائیگی کا ثبوت۔ ٹیرف کا تو لفظ ہی عربی الاصل ہے ۔کچھ کہتے ہیں یہ تعارف سے اور کچھ کا خیال ہے کہ تعریف سے نکلا ہے۔ تاجر کے پاس ایک دستاویز ہوتی تھی جسے ’’تعارف‘‘ کہا جاتاتھا۔سرحد پار کرنے کے لیے اس کا دکھانا لازمی تھا۔یہ ’’ تعارف‘‘ بعد میں ’’ٹیرف‘‘ کہلانے لگ گیا۔ سلطنت عثمانیہ میں نہ صرف باہر جانے کے لیے بین الاقوامی پاسپورٹ لازمی تھا بلکہ سلطنت کے اندر سفر کرنے کے لیے ’’ اندرونی پاسپورٹ‘‘ بھی جاری کیے جاتے تھے۔ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے کے لیے ضروری کاغذات جنہیں آپ پاسپورٹ کا نام دیں یا کوئی اور اسلامی امہ کے اتحاد میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔الگ ریاست کا مطلب ہی سرحدوں کا تقدس ہوتا ہے۔ جس زمانے میں بڑی بڑی مسلمان سلطنتیں قائم تھیں اس وقت بھی سرحدوں پر چھان بین ہوتی تھی۔سلجوقیوں کی اپنی حکومت تھی خوارزم کی اپنی ، عباسیوں کی اپنی خلافت تھی اور مصر میں حکومت الگ تھی۔آج کے منظر نامے میں یورپی یونین کی مثال سب کے سامنے ہے۔کرنسی ایک کردی گئی ہے اس کے باوجود بارڈر کراس کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی دستاویز دکھانا پڑتی ہے ۔ انتظامی معاملات ، ٹیکس کے معاملات ، دفاع کے معاملات اور بہت سے دیگر پہلو ایسے ہیں کہ کوئی بھی ملک اپنی سرحدوں کی نگرانی سے غافل نہیں رہ سکتا۔یوں بھی امت مسلمہ کے اتحاد کا مطلب سیاسی حوالے سے ہے۔ اگر تمام اسلامی ممالک اپنی خارجہ پالیسیاں ایک دوسرے کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر وضع کریں تو اسلامی اتحاد کا خواب تعبیر پاسکتا ہے۔ یہ اتحاد عسکری اور اقتصادی حوالے سے بھی ہوسکتا ہے۔ بہرطور اسلامی اتحاد کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلامی ریاستیں اپنی سرحدوں کے منہ دوسرے مسلمانوں کے لیے کھول دیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو تصور کیجیے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کتنے کروڑ مسلمان داخل ہوجائیں گے!
اس وقت پاکستان امن وامان کی جس تشویشناک صورت حال سے دوچار ہے اس کی ایک بہت بڑی وجہ پاکستان افغان سرحد ہے۔ کل ہی ایک معاصر نے لکھا ہے کہ سو افغان مہاجر پاکستان سے واپس جاتے ہیں تو پانچ سو داخل ہوجاتے ہیں۔ ہماری ریاستی نااہلی ہے کہ آج پاکستان کے ہر گوشے میں افغان پائے جاتے ہیں۔ یہ جائدادیں بھی خرید لیتے ہیں اور ملازمتیں بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔لاکھوں کروڑوں کے پاس پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ موجود ہیں جو متعلقہ محکموں کی نالائقی ، لاپروائی اور کرپشن کا واضح ثبوت ہے۔
امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا یا ڈرون حملوں کے خاتمہ کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ مسئلہ الگ جہتیں رکھتا ہے۔ افغانستان میں مستقبل کا منظرنامہ پاکستان کے لیے کسی صورت خوش آئند نہیں۔جو سادہ لوح پاکستانی ، افغان طالبان کی تحریک میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔اصل میں یہ پختون اور غیر پختون کشمکش ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ افغان طالبان کی ’’ اسلامی جدوجہد ‘‘ میں ازبک ،تاجک ،ترکمان اور ہزارہ کہیں دکھائی نہیں دیتے ؟ وہ بھی اتنے ہی پکے مسلمان ہیں جتنے پختون ! افغانستان میں پختون 48فیصد سے زیادہ نہیں۔1747ء سے لے کر ،جب احمد شاہ ابدالی موجودہ افغانستان کو دنیا کے نقشے پر لایا تھا 1979ء تک جب سوویت یونین نے شمال سے افغانستان پر حملہ کیا ،دو سوتیس سال کے دوران پختون ہی افغانستان کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔اس سارے عرصہ میں پالیسی سازی میں غیر پختونوں کا حصہ برائے نام رہا۔ سوویت یونین کے حملہ کے بعد افغانوں کی مدافعت شروع ہوئی تو اس میں احمد شاہ مسعود اور رشید دوستم جیسے غیر پختون پیش پیش تھے۔آج کے افغان سیاسی پیش منظر پر غیر پختون اتنا نمایاں مقام حاصل کرچکے ہیں کہ اب افغانستان پر خالص پختون حکومت کا قیام ناممکن ہے۔مگر افغان پختون اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہے وہ پس منظر جو امریکی انخلا کے بعد والے افغانستان کو پُرامن دیکھنے سے قاصر ہے۔ طالبان یا دوسرے لفظوں میں پختونوں کی افتاد طبع ایسی حکومت کو برداشت نہیں کرے گی جس میں ازبکوں ،تاجکوں ،ترکمانوں اور ہزارہ کو بھی انصاف پر مبنی حصہ دیاجائے۔ دوسری طرف غیر پختون قومیتیں ایک بار پھر تاریخ کے اندھیرے میں ڈوب جانے کے لیے تیارنہیں۔مستقبل کے افغانستان میں باہمی خانہ جنگی اور قتل و غارت اسی طرح یقینی ہے جس طرح رات کے بعد سورج کا طلوع ہونا ۔چنانچہ پاکستان افغانستان سرحد افغانوں کے بلا روک ٹوک داخلے اور در اندازی کا مستقل دروازہ بنی ہی رہے گی۔ پاکستان اس سرحد سے صرف اسی وقت محفوظ رہ سکتا ہے جب افغانستان میں ایک قانون پسند ، تعلیم یافتہ اور مہذب حکومت قائم ہوجائے جس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔شمال کے تعلیم یافتہ افغانوں کے مقابلے میں جنوب کے افغان ایسے ہی ہیں جیسے لاہور کے تعلیم یافتہ شہری کے مقابلے میں نیلی بار کا اجڈ کسان !
شام اور عراق کی فتح کے بعد امیرالمومنین عمر فاروق اعظمؓ ایران کے ساتھ جنگ سے بچنا چاہتے تھے۔ چنانچہ کہا کرتے تھے کہ کاش ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہوجائے تاکہ ہم ان کی طرف جاسکیں نہ وہ ہماری طرف آسکیں۔یہ اور بات ہے کہ حالات و واقعات نے اس جنگ سے بچنے نہ دیا۔ یہی صورت حال افغان پاکستان سرحد کی ہے۔ کاش ایک دیوار درمیان میں کھڑی ہوجائے تاکہ وہ اپنے ملک میں رہیں اور ہم اپنے ملک میں !
پس نوشت۔ مغربی طاقتوں کے ساتھ ایران کا جو معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت ایران ایٹمی سرگرمیاں محدود کرکے 20فیصد تک افزودہ یورینیم کے ذخائر ناکارہ بنادے گا، جناب سید منور حسن نے ابھی تک اس پر احتجاج نہیں کیا اورعوام کو سڑکوں پر نکلنے کے لیے نہیں کہا، قوم ان کی آواز کا انتظار کررہی ہے۔

Monday, November 25, 2013

آخر کار وہ مجھے پکڑنے کے لیے آ گئے

                                                معاشرہ تفریق در تفریق کا شکار ہو رہا ہے۔ اگر اب بھی اسے مجتمع کرنے کی کوشش نہ کی گئی اور اس کوشش میں اگر اب بھی ہر فرد‘ ہر طبقہ‘ ہر فرقہ‘ صدقِ دل سے شامل نہ ہوا تو بات بڑھ جائے گی۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ کل ہم پچھتائیں تو کچھ بھی نہ ہو سکے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ آج پچھتائیں۔ آج… کہ آج معاملات ہمارے ہاتھ سے بالکل نہیں نکلے۔ 
گزشتہ جمعہ کو مذہبی جماعتوں نے ملک گیر احتجاج کا پروگرام بنایا۔ یہ احتجاج سانحۂ راولپنڈی کے خلاف تھا؛ تاہم شیعہ اور سنی علما نے اس احتجاج سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ سانحۂ راولپنڈی کے خلاف جمعہ کو ہونے والے احتجاج سے اہلِ سنت کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی شیعہ اور سنی علما نے صوبائی وزیر قانون پر شدید تنقید کی اور واقعہ کی انکوائری کمیٹی کے سربراہ کے طور پر ان کا نام مسترد کردیا۔ دارالحکومت میں مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت المسلمین کے رہنما اور سنی تحریک کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ صوبائی وزیر قانون کالعدم تنظیموں سے تعلقات کا پس منظر رکھتے ہیں۔ دونوں گروہوں کے رہنمائوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ربیع الاول اور یوم عاشور کے جلوسوں پر پابندی لگانے کا بیان مخصوص فرقے کی ترجمانی کرتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اس تفریق در تفریق کو ختم کرنے کے لیے کم از کم اس کی شدت کو گھٹانے کے لیے سوسائٹی مثبت طور پر سوچتی‘ سوشل میڈیا پر ایک اور نکتہ نکالا گیا کہ غیر شیعہ گروہوں کو تقسیم کرنے میں بالآخر حکومت کامیاب ہو گئی ہے اور یہ کہ اسی لیے سنی تحریک نے جمعہ کے احتجاج سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے۔ کاش ایسا ہوتا اور حکومت اتنی لائق اور باریک بین ہوتی! مگر ایسا نہیں ہے۔ مذہبی گروہوں کی تقسیم اس جمعہ کے احتجاج سے بہت پہلے ہو گئی تھی۔ یہ کام تو سالہا سال سے ہو رہا ہے۔ جن گروہوں کو اب دھچکا لگا ہے صرف وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تقسیم اب بھی کی جا رہی ہے۔ 
معاشرہ پہلے ہی دو بڑے گروہوں میں تقسیم تھا۔ بظاہر مذہبی اور بظاہر غیر مذہبی۔ دوسرے الفاظ میں ایک طرف وہ ہیں جو مدارس میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں اور دوسری طرف وہ جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے اور تعلیم دیتے ہیں۔ یہ تفریق عملی زندگی میں اتنی شدید ہے کہ ان دونوں طبقات کا رہنا سہنا‘ کھانا پینا الگ الگ ہے۔ یہاں تک کہ ان کے اخبارات و جرائد اپنے اپنے ہیں۔ اکثر و بیشتر حالات میں ان طبقات کے درمیان رشتے ناتے تک نہیں ہوتے۔ ایک لڑکا جس نے ایم بی اے کیا ہے‘ ڈاکٹر ہے‘ انجینئر ہے‘ سی ایس ایس کیا ہے یا کپتان ہے‘ ایسی لڑکی سے شادی نہیں کرتا جس نے کسی دینی مدرسہ سے عالمہ کا کورس کیا ہے۔ اسی طرح ایک صاحب جو دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں‘ اپنی بیٹی کا رشتہ ایسے خاندان میں کرنا پسند کرتے ہیں جن کی مذہبی حوالے سے ان کے ساتھ مناسبت ہو۔ ایسا نہ ہونے کی شرح بہت کم ہے۔ لیکن غور کیجیے کہ جو طبقہ مدارس سے تعلق رکھتا ہے‘ اُس کی آگے پھر تقسیم در تقسیم ہو چکی ہے اور اگر یہ تقسیم پہلے موجود تھی تو اب کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ 
دوسری طرف دہشت گردی کا کوئی مسلک ہے نہ مذہب‘ بازار‘ مزار یا مدرسے میں دھماکہ ہوتا ہے تو بم کے ٹکڑے مسلک یا عقیدے کا لحاظ نہیں کرتے۔ مرنے والوں میں شیعہ بھی ہوتے ہیں‘ دیوبندی بھی‘ اہلِ حدیث بھی‘ بریلوی بھی اور عیسائی بھی! بدقسمتی سے ہمارے مسالک اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکے۔ جب قبروں سے میتیں نکالی گئیں اور مزاروں اور خانقاہوں پر حملے ہوئے تو صرف متاثرہ مسلک نے احتجاج کیا۔ باقی مسالک الگ بیٹھے رہے۔ اسی طرح جب دہشت گردوں نے کوئٹہ اور چلاس میں ایک خاص گروہ کو نشانہ بنایا اور پھر بناتے ہی گئے تو دوسرے مذہبی گروہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے رہے۔ اب راولپنڈی کے سانحے میں تیسرے مسلک کو نشانہ بنایا گیا۔ مسجد کی بے حرمتی کی گئی‘ لوگوں کو قتل کیا گیا اور مارکیٹیں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔ اب اس مسلک نے یومِ احتجاج منایا تو باقی دونوں مسالک الگ کھڑے ہو گئے۔ یہ ہے وہ تقسیم در تقسیم در تقسیم جو خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ 
مارٹن نیمولر (Martin Niemoller) ایک جرمن پادری تھا۔ شروع میں وہ کمیونسٹوں کے خلاف تھا اور ہٹلر کا ہم نوا تھا۔ جب ہٹلر نے کہا کہ ریاست کو مذہب پر فوقیت حاصل ہے تو نیمولر ہٹلر سے مایوس ہو گیا۔ وہ ان مذہبی قوتوں کے ساتھ شامل ہو گیا جو ہٹلر کی مخالفت کر رہی تھیں۔ 1937ء میں اُسے نازیوں نے گرفتار کر لیا۔ اتحادیوں کو فتح ہوئی تو انہوں نے 1945ء میں اُسے رہا کیا۔ نیمولر نے ایک شہرۂ آفاق نظم لکھی۔ اس نظم میں مختلف مواقع پر ردّوبدل کیا جاتا رہا لیکن مشہور ترین روایت یہ ہے: 
’’پہلے وہ کمیونسٹوں کو پکڑنے کے لیے آئے میں نے کوئی احتجاج نہ کیا کیونکہ میں کمیونسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ سوشلسٹوں کو پکڑنے آئے‘ میں خاموش رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ ٹریڈ یونین والوں کو پکڑنے آئے‘ میں تب بھی خاموش رہا کہ میرا ٹریڈ یونین سے کوئی تعلق نہ تھا۔ پھر وہ یہودیوں کو پکڑنے آئے‘ میں تب بھی نہ بولا اس لیے کہ میں یہودی نہ تھا۔ آخرکار وہ مجھے پکڑنے کے لیے
 آگئے لیکن اب کوئی باقی ہی نہ بچا تھا کہ بولتا!‘‘ آپ غور کیجیے کہ مارٹن نیمولر کی نظم ہمارے مسالک کی باہمی چپقلش پر کس حیرت انگیز طریقے سے صادق آ رہی ہے۔ پہلے ایک مسلک کو نشانہ بنایا گیا۔ پھر دوسرے کو اور اب تیسرے کو۔ ہر مسلک دوسرے مسلک کی تباہی سے بے نیاز رہا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج تمام الگ الگ کھڑے ہیں! 
ان حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ دہشت گرد کسی مسلک کے ہم درد نہیں۔ دہشت گردی کا ایک ہی مسلک ہے۔ قتل و غارت اور لاقانونیت کی زندگی گزارنا۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسالک کے رہنما اصل حقیقت کا ادراک کریں‘ سر جوڑ کر بیٹھیں اور فروعی اختلافات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھیں۔ یہ وہی مسالک ہیں جن کے بزرگ کئی مواقع پر اکٹھے ہوئے اور کئی تحریکوں میں متحد ہو کر جدوجہد کی۔ وہ نکات جن پر ان مسالک کا اتفاق ہے زیادہ تعداد میں ہیں۔ اختلافی نکات کم ہیں۔ فساد پھیلانے والے عناصر صرف اُن نکات کو ہوا دیتے ہیں جو اختلافی ہیں‘ جو سانحہ راولپنڈی میں ہوا وہ خدانخواستہ کل کہیں اور‘ کسی دوسرے مسلک کے ساتھ رونما ہو سکتا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ شیعہ‘ سنی‘ بریلوی‘ دیوبندی اور اہلِ حدیث علماء فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اکٹھے بیٹھ جائیں اور کسی ایک مسلک پر حملے کو تمام مسالک پر حملہ تصور کریں۔ یہی وہ صورت ہے جب مسجدیں‘ امام بارگاہیں اور ملحقہ مارکیٹیں محفوظ رہیں گی اور معصوم شہریوں کو ان کے نام پوچھ کر اور شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے کا ہولناک سلسلہ بند ہوگا۔

Friday, November 22, 2013

خلا ہمیشہ پُر ہوتا ہے

’’آج یہ معاملہ بہت عجیب معلوم ہوتا ہے۔ مجھے جن علماء کی جوتیاں سیدھی کرنے کا شرف حاصل رہا ہے وہ کسی طرح بھی دنیا دار قسم کے لوگ نہیں تھے۔ درویشانہ زندگی گزارتے تھے اور انہوں نے افلاس اور فاقہ کشی کی زندگی رضا کارانہ طور پر اختیار کی تھی۔ میں عربی ادب اور فلسفے میں ان کا ایک ادنیٰ شاگرد رہا ہوں۔ میں ان کا واحد شہری طالب علم رہ گیا تھا جو اپنے ذاتی شوق میں عربی ادب اور فلسفہ پڑھ رہا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ مہینے میں ان علماء کی فاقہ کشی کا کیا اوسط تھا؟ جب میں ان کے بارے میں سنتا تھا کہ یہ لوگ بِکے ہوئے ہیں تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔ آپ اپنے نظریاتی حریفوں سے پوری شدت کے ساتھ اختلاف کیجئے مگر گالیاں تو نہ دیجیے۔‘‘
علمائے دیوبند کے بارے میں یہ تحریر شاعرِ بے مثال جون ایلیا کی ہے۔ اُن کے اولین مجموعۂ کلام ’’شاید‘‘ کے صفحہ بیس پر یہ سطور جو دیباچہ کا حصہ ہیں‘ دیکھی جا سکتی ہیں۔ جون ایلیا شیعہ تھے۔ یہ ممکن نہیں کہ انہیں پڑھانے والے علماء کو اُن کے تشیع کی خبر نہ ہو۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب کفر اتنا ارزاں نہ ہوا تھا کہ جگہ جگہ بٹتا پھرے۔ لاتعداد شہروں قصبوں اور قریوں میں شیعہ سنی ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔سُنیّ بزرگ شیعہ نوجوانوں کو اُن کی نماز سکھاتے تھے اور شیعہ بزرگ سنّی نوجوانوں کی رہنمائی سنی فقہ کی روشنی میں کرتے تھے۔ سنّی اور شیعہ علماء ایک دوسرے کے گھروں میں قیام کرتے تھے‘ بحثیں ہوتی تھیں، ضیافتوں کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔ابھی مناظروں نے مجادلوں کی صورت اختیار نہیں کی تھی۔ ہاں معانقے ضرور ہوتے تھے۔ دوسرے مکتبِ فکر کو برداشت کیا جاتا تھا اور اختلاف نظریات سے ہوتا تھا۔ شخصیات سے نہیں، ملحد اور زندیق نوجوانوں سے بھی بات چیت ہوتی تھی۔ اسی دیباچے میں جون ایلیا لکھتے ہیں: 
’’ہمارے ماحول کا اپنے غیر مذہبی نوجوانوں کے بارے میں بہت فراخ دلانہ رویہ تھا۔ علماء ان کے باغیانہ اور منکرانہ خیالات سُن کر مسکرا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ مطالعہ کرتے رہے تو راہِ راست پر آ جائیں گے۔ ان ملحد نوجوانوں کے حق میں جو سب سے زیادہ نامہربان بلکہ شدید فیصلہ صادر کیا جاتا تھا یہ کہ پڑھ بہت لیا ہے اس لئے ہضم نہیں ہوا۔‘‘
لیکن آج کا موضوع برداشت اور عدم برداشت نہیں، اوپر جون ایلیا نے علماء کی رضا کارانہ فاقہ کشی کا ذکر کیا ہے۔ اُس وقت مدرسہ کے نام پر لئے گئے چندے سے گھر کے شاہانہ خرچ کو چلانے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اہلِ علم ہل چلا کر یا تجارت کر کے گزر اوقات کرتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ علم فروخت نہیں کیا جاتا تھا، طلبہ کو کتابیں اساتذہ اپنی ذاتی لائبریریوں سے مہیا کرتے تھے۔ اساتذہ کو فکر ہوتی تھی کہ ایک ایک کتاب کے کئی نسخے اُن کے ہاں موجود رہیں ۔ فاقہ کشی اس رضا کارانہ طرزِ زندگی کا لازمی جزو تھا۔ رویّے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ کسی قسم کا خوف یا طمع سچّی بات کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی تھی۔ روٹی کا انحصار معاشرے پر تھا۔ مقتدیوں پر‘ نہ چندے پر‘ اس لئے یہ علماء جس بات کو حق سمجھتے، ڈنکے کی چوٹ کہتے تھے۔
یہ افلاس کا لیکن اخلاص کا دور تھا۔ ہوائی جہازوں پر ملکوں ملکوں پھر کر علمِ دین سکھانے کے لئے مال متاع جمع نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ نہیں ہوتا تھا کہ ایک صاحبزادہ مستقل امریکہ رہ رہا ہے اور ’’کاروبار‘‘ کو دیکھ رہا ہے۔ حرمین شریفین کے جوار میں بلند معیار بیش بہا ذاتی اپارٹمنٹ نہیں تھے۔ یہ بھی نہیں تھا کہ کوئی اکانومی کلاس کا ٹکٹ پیش کرے تو اُسے ٹکا سا جواب دے دیا جائے۔ مدرسہ چلانے والے کا معیارِ زندگی وہی ہوتا جو مدرسہ میں پڑھانے والے اساتذہ کا۔ خوفِ خدا دامن گیر رہتا تھا۔ مرنے کے بعد ایک ایک پائی کے محاسبے کا ڈر راتوں کو سونے نہیں دیتا تھا۔
اس تمہید کا باعث فاضل دوست خورشید ندیم کی وہ تحریر ہے جو دو دن پیشتر انہی صفحات پر شائع ہوئی اور جس کا عنوان تھا۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا تقی عثمانی کی خدمت میں۔ خورشید ندیم ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ۔اُن کے والد محترم جناب قاضی گل حسین مرحوم‘ اسِ کالم نگار کے جدّ امجد حضرت غلام محمد مرحوم کے ،کہ سعدیٔ ثانی کہلاتے تھے، قریبی احباّ میں سے تھے۔ وہ پوسٹ کارڈوں کا دور تھا۔ پوسٹ مین کہ ڈاکیا کہلاتا تھا‘ اٹھارہ برس تک ہفتے میں دو بار ہمارے مہمان خانے میں قیام کرتا رہا۔ گلستانِ سعدی یا نظامی کے سکندر نامہ کا نسخہ بغل میں دابے میں، کہ سبزۂ خط آغاز ہو رہا تھا ، دادا جان کے پاس بیٹھتا۔ قاضی گل حسین صاحب کے ہر خط کا آغاز ’’ازچک امرال‘‘ سے ہوتا جو خورشید ندیم کا آبائی قریہ ہے۔ محبت اور خلوص کا کیا رشتہ تھا! مہینے میں ایک دو خط ضرور آتے تھے۔ کبھی اس سے زیادہ بھی! یہ علمی پس منظر ہی ہے جس کے باعث خورشید صاحب دنیائے مدارس اور اہلِ مذہب کی حرکیات (Dynamics) پر بلند پایہ مضامین لکھتے ہیں۔
تاہم زیر نظر مضمون میں انہوں نے دیو بند مسلک کی علمی شخصیات سے جو توقع کی ہے کہ وہ کچھ سوالات کا جواب دیں گے۔ عبث ہے! خورشید صاحب نے یہ تفریق ہمارے خیال میں درست کی ہے کہ اس 
مسلک کی سیاسی قیادت مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے۔مولاناسے ہزار اختلاف سہی لیکن انہیں دو باتوں کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے۔ ایک‘ انہوں نے دین کے حوالے سے بندوق کے استعمال کی ہمیشہ مخالفت کی۔ دوم، وہ جمہوریت ہی کو مسائل کا حل گردانتے ہیں اور برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے فاضل دوستِ گرامی نے مسلک کی جس گرامی قدر شخصیات سے علمی میدان میں رہنمائی طلب کی ہے‘ افسوس کے ساتھ عرض ہے کہ ان حضرات کی طویل خاموشی تغافل اور بے نیازی کے سبب معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ضمیر جعفری نے جو بات مزاح کے انداز میں کہی تھی، وہ دراصل گریہ ہے   ؎
حضرتِ اقبال کا شاہیں تو کب کا اُڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
سولہویں صدی کا شاعر وحشی بافقی یہی ماتم دوسرے لہجے میں کرتا ہے   ؎
دل نیست کبوتر کہ چو برخاست، نشیند
از گوشۂ بامی کہ پریدیم، پریدیم
کبوتر منڈیر سے اُڑ گیا تو بس اُڑ گیا۔ اِن سطور کا لکھنے والا تقریباً نصف درجن تحریروں میں نوحہ خوانی کر چکا ہے کہ خلقِ خدا جن سے رہنمائی چاہتی تھی وہ مُہر بہ لب رہے۔ خاموشی کے اسباب و علل جو بھی ہوں خاموشی کے نتائج کو کوئی نہیں رو ک سکتا۔ کیسے کیسے اہم اور نازک مواقع پر جن معزز علماء کو اپنی رائے بے لاگ دینا چاہیے تھی‘ وہ گلوگیر رہے۔ فقہی بنیاد پر قبروں سے میتیں نکال کر لٹکائی گئیں۔ فقہا پر سکوت طاری رہا۔ پھر طالبان نے اعلان کیا کہ وہ چرچ پر حملے میں ملوث نہیں لیکن حملہ شریعت کی رُو سے درست تھا۔ تب بھی یہ جیدّ علماء خاموش رہے۔ پھر اب حب شہادت اور عدم شہادت کی بحث چھڑی ہے اور بحث چھیڑنے والے صاحب عالم دین نہیں ہیں‘ تب بھی اِس مسلک کے محراب و منبر سے کوئی آواز نہیں سنائی دی‘ ہاں دوسرے مسالک کے علماء نے اپنی آرا کا اظہار برملا کیا۔
اِس مسلک کے عام وابستگان‘ طالبان کی رائے نہ مانیں تو کیا کریں! خلاکبھی باقی نہیں رہتا، جب یہ علماء کرام جو عظیم الشان مدارس اور ثروت مند مسندوں پر تشریف فرما ہیں، خاموش ہیں تو لوگ لامحالہ اُنہی علماء کی بات سنیں گے جو طالبان سے وابستہ ہیں۔ طالبان کی رائے سے اتفاق ہو یا نہ ہو، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مسائل کے بارے میں واضح رائے رکھتے ہیں اور اس رائے کا اظہار ،کسی مصلحت کے بغیر، بآواز بلند کرتے ہیں۔ چرچ پر حملے کی بات دیکھ لیجئے ، طالبان کو معلوم تھا کہ اُن کے اپنے ہمدردوں کی کثیر تعداد اُن کی رائے سے اتفاق نہیں کرے گی ۔ وہ مصلحتاً خاموش رہ سکتے تھے لیکن جس بات کو وہ صحیح سمجھتے تھے، انہوں نے اُسے برملا کہا اور کسی ابہام کے بغیر کہا۔
کوئی مانے یا نہ مانے، اِس مسلک کی علمی قیادت اب اُن علماء کرام کے ہاتھ میں آ چکی ہے جو طالبان سے وابستہ ہیں۔ اور اُن سے طالبان رہنمائی لیتے ہیں، اِن علماء کرام کے پاس عالی شان عمارتوں والے مدرسے نہ سہی‘ نہ یہ ناشتہ یورپ میں کر کے رات کا کھانا خلیجی ریاستوں میں کرتے ہیں۔ درست ہے یہ پہاڑوں میں رہتے ہیں یا کچی بستیوں میں‘ روکھی سوکھی کھاتے ہیں لیکن اپنی رائے بے لاگ دیتے ہیں۔ اب مسند بھی انہی کے پاس ہے، اِفتا بھی انہی کے ہاتھ میں ہے اور بات کرنے کی جرأت بھی یہی رکھتے ہیں۔ جون ایلیا کے بقول   ؎
کچھ دشت اہلِ دل کے حوالے ہوئے تو ہیں 
ہمراہ کچھ جُنوں کے رسالے ہوئے تو ہیں

Thursday, November 21, 2013

کامن سینس

فرض کیجیے کسی پاکستانی حکمران کی کسی فیکٹری میں‘ خدانخواستہ مزدوروں کے دو گروہ جھگڑ پڑتے ہیں۔ بات بڑھ جاتی ہے۔ نوبت لڑائی مارکٹائی تک آ جاتی ہے۔ کچھ لوگ زخمی ہو جاتے ہیں۔ انتظامیہ اپنا کردار نہیں ادا کرتی۔ پروڈکشن رُک جاتی ہے۔ لاکھوں کا یومیہ نقصان شروع ہو جاتا ہے۔ آپ کے خیال میں فیکٹری مالک کا طرزِ عمل کیا ہوگا؟ 
اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے نہ فلسفہ میں پی ایچ ڈی کرنے کی۔ یہ صرف اور صرف کامن سینس کا مسئلہ ہے۔ بچے کو بھی معلوم ہے کہ فیکٹری کے مالک کیا کریں گے اور پاگل بھی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ بکھیڑے کا حل کیا ہوگا۔ سب سے پہلے تو حاکم جہاں بھی ہوں گے‘ سارے کام چھوڑ کر فیکٹری کا رُخ کریں گے۔ لڑائی کرنے والے دو گروہوں کو ہر قیمت پر ایک دوسرے سے الگ کروائیں گے۔ ابتدائی طبی امداد کا بندوبست کرنے کے بعد‘ اولین فرصت میں اپنے سب سے زیادہ دیانت دار اور ذہین ملازم کو حقائق معلوم کرنے کا کام سونپیں گے۔ یہ کام چند گھنٹوں کے اندر اندر یا زیادہ سے زیادہ ایک دن میں مکمل کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد ذمہ دار افراد کو سزائیں ملیں گی۔ جن لوگوں کے بارے میں انہیں یقین ہو جائے گا کہ وہ فسادی ہیں اور آئندہ بھی ایسا کرنے کی ہمت رکھتے ہیں‘ انہیں فوراً فارغ کردیا جائے گا۔ اس عمل میں کسی کی سفارش ماننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوگا۔ اگر ان کے بھائی بھی سازش کے سرغنے کی سفارش کریں گے تو ان کا ایک ہی جواب ہوگا۔ ’’بھائی جان! اگر آپ چاہتے ہیں کہ فیکٹری ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے تو میں آپ کی سفارش مان لیتا ہوں‘‘۔ 
پاکستانی حاکم کی فیکٹری میں جو بھی صورت حال ہے‘ اُسے ہم یہیں چھوڑتے ہیں اور بحرِ اوقیانوس پار کر کے امریکہ پہنچتے ہیں۔ 1985ء میں انتقال کرنے والی مشہور امریکی تاریخ دان خاتون باربرا ٹک مین نے ایک زبردست نظریہ پیش کیا تھا۔ ایسا نظریہ جس کی مدد سے فیکٹری کا مسئلہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے اور راولپنڈی کے سانحہ کا بھی۔ باربرا ٹک مین کہتی ہے کہ حکومت کرنے والے افراد جب حکومتی معاملات میں فیصلے کرتے ہیں تو ہر شخص کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ فیصلے ناقص ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ فیصلے احمقانہ ہوتے ہیں۔ یہی حکومتی افراد جب اپنے ذاتی معاملات میں پڑتے ہیں‘ جیسے ذاتی کاروبار‘ اولاد کے امور… تو پوری عقل مندی سے فیصلے کرتے ہیں۔ پھر باربرا بتاتی ہے کہ عقل مندی کیا ہے۔ اگر فیصلہ تین بنیادوں پر کیا جائے تو اُسے عقل مندی کہا جائے گا۔ اوّل: اُس وقت کے معلوم حقائق‘ دوم: اُن حقائق کی بنیاد پر مستقبل کی پیش بینی۔ سوم: کامن سینس۔ 
اب ہم واپس فیکٹری اور پھر راولپنڈی چلتے ہیں۔ حاکم کی اپنی فیکٹری میں مسئلہ پیدا ہو تو فوری ایکشن ہوتا ہے۔ اس طرح کہ آئندہ ایسا واقعہ رونما ہونے کا امکان کم سے کم ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سرکاری امور دیکھیے۔ راولپنڈی میں قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی۔ سینکڑوں دکانیں جل کر راکھ ہو گئیں‘ ہزاروں خاندان قلاش ہو گئے۔ تاجروں کی زندگی بھر کی کمائیاں دھواں بن کر فضا میں روپوش ہو گئیں۔ درجن بھر پاکستانی موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ آپ ملبے کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ ایک لاش چار دن کے بعد نکلی ہے۔ لیکن صوبے کے حاکمِ اعلیٰ نے متاثرہ علاقے میں قدم تک نہیں دھرا۔ لوگ احتجاج کیے جا رہے ہیں لیکن انہیں یہ تک نہیں بتایا جا رہا کہ ان کے مجرم کون ہیں؟ واحد ’’ایکشن‘‘ جو لیا گیا ہے‘ پولیس افسروں کے تبادلے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں سزا کیوں نہیں دی جا رہی اور اگر وہ مجرم نہیں ہیں تو ہٹائے کیوں جا رہے ہیں؟ اس سارے معاملے کو جس طرح ڈیل کیا جا رہا ہے اس میں ایک چیز مکمل مفقود ہے اور وہ ہے کامن سینس! 
کہیں ایسا تو نہیں کہ وزیراعلیٰ‘ چودھری نثار علی کے ’’معاملات‘‘ میں دخل نہیں دینا چاہتے؟ یا نہیں دے سکتے؟ 
میڈیا یہ دلچسپ انکشاف کر چکا ہے کہ خیبرپختونخوا کے ایک خاص علاقے سے ماضی قریب میں کثیر تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی۔ تقریباً دس ہزار راولپنڈی میں آباد ہوئے اور اتنے ہی اسلام آباد میں۔ محرم کے جلوس کا ہر اوّل دستہ ہمیشہ مقامی لوگوں پر مشتمل ہوتا تھا لیکن اس دفعہ اس دستے میں باہر کے لوگ شامل 
تھے۔ خلقِ خدا کی زبانیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ اگر راولپنڈی کے لوگ‘ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر کر‘ اپنے شہر کا موازنہ ایک اور بڑے شہر سے کرنے لگ پڑے ہیں تو یہ بلا سبب نہیں۔ خدانخواستہ اگر ایسا سانحہ اُس بڑے شہر میں رونما ہوتا تو کیا وزیراعلیٰ وہاں بھی متاثرہ علاقے کا دورہ نہ کرتے؟ وہاں بھی متاثرین سے براہ راست مل کر ہمدردی نہ دکھاتے؟ وہاں تو وہ بس میں سفر کرتے ہیں‘ مینارِ پاکستان کے پاس خیمے لگا کر دفتری امور سرانجام دیتے ہیں! تو کیا یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے کہ معزز شریف برادران کا ذہنی اُفق وہی ہے جو تھا اور ان کا پنجاب ایک خاص علاقے اور ایک خاص شہر تک محدود ہے  ؎ 
مری داستانِ غم کی کوئی انتہا نہیں ہے 
ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگِ آستاں تک 
حکومتی معاملات طے کرنے میں کامن سینس اور عقل عنقا ہیں۔ اس کی روشن مثال جنرل پرویز مشرف پر چلایا جانے والا غداری کا مقدمہ ہے۔ جنرل نے حکومت پر قبضہ 1999ء میں کیا تھا اور غداری کا مقدمہ اُس ایمرجنسی کے ضمن میں چلایا جا رہا ہے جو 3نومبر 2007ء میں لگائی گئی تھی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص آپ کے مکان پر قبضہ کر لے اور چند سالوں کے بعد اردگرد کے کھیتوں کا بھی مالک بن بیٹھے۔ مگر آپ جب عدالت میں جائیں تو مکان کا ذکر ہی نہ کریں اور صرف کھیتوں کا رونا روئیں۔ گویا 1999ء سے لے کر 2007ء تک نو سال کے عرصہ میں پرویز مشرف نے جو کچھ کیا‘ موجودہ حکومت اُسے جائز سمجھتی ہے! 
اور کیا یہ قرینِ انصاف ہے کہ جو کچھ ہوا‘ جنرل پرویز مشرف تن تنہا اس کے ذمہ دار تھے؟ کیا وہ اس قدر طاقت ور تھے کہ اداروں‘ وزارتوں‘ کابینہ‘ بیوروکریسی اور مسلح افواج کے بغیر خود ہی سب کچھ کرتے رہے؟ کیا ان کے پاس جادو کی کوئی چھڑی تھی؟ اُن پر جان چھڑکنے والے وفاداروں کی اچھی خاصی تعداد اس وقت حکمران جماعت میں شامل ہے۔ کیا وہ سب معصوم ثابت ہو چکے ہیں؟ 
اور کیا انصاف کا تقاضا یہ نہیں کہ میرٹ کا خون کر کے پرویز مشرف کو سپہ سالار بنانے والوں کا بھی احتساب کیا جائے۔ قوم یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ آخر پرویز مشرف میں وہ کون سی نایاب صلاحیت تھی جو ان سے سینئر جرنیلوں میں مفقود تھی اور جس کی بنیاد پر انہیں نیچے سے اوپر لایا گیا۔ وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار؟ معاف کیجیے گا صوابدیدی اختیار کا مطلب ظلم یا میرٹ کُشی نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی سینیارٹی پامال کی جاتی ہے تو قاعدہ یہ ہے کہ اس کی وجوہ ضبطِ تحریر میں لائی جائیں اور ریکارڈ کا حصہ بنائی جائیں۔ 
تو کیا یہ انصاف ہوگا کہ پرویز مشرف سے پہلے جن طالع آزمائوں نے منتخب حکومتوں کے تختے الٹے‘ اُن کے خلاف مقدمے نہ چلائے جائیں؟ کیوں؟ اگر حکومت میں شامل اربابِ حل و عقد کو تاریخ کا ذرہ بھر بھی ادراک ہے تو ایوب خان‘ یحییٰ خان اور ضیاء الحق نے جو کچھ اس قوم کے ساتھ کیا‘ کسی طور بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ پرویز مشرف کو کٹہرے میں ضرور لانا چاہیے لیکن اس کے پیشروئوں کے باب میں بھی عدالت سے فیصلہ لیا جائے۔

Monday, November 18, 2013

مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا

آدھی رات ایک طرف تھی اور آدھی دوسری طرف۔ سائڈ ٹیبل کا برقی چراغ گُل کر کے نیم خوابی کی کیفیت میں تھا کہ موبائل فون پر ایس ایم ایس کی گھنٹی نے اُس کیفیت سے نکال دیا۔ بچوں کے مشورے کے باوجود رات کو ٹیلی فون کی آواز بند نہیں کرتا کہ زینب کسی بھی وقت فون کر دیتی ہے اور اُسے یہ بات بالکل پسند نہیں کہ نانا ابو سے بات نہ ہو سکے۔ مگر یہ ایس ایم ایس کسی اجنبی نمبر سے تھا۔ پیغام چند آیات اور طویل ذکر اذکار پر مشتمل تھا۔ یہی پیغام دوسرے دن ظہر کی نماز کے دوران موصول ہوا اور آنے والی رات ایک بجے پھر‘ زچ ہو کر بھیجنے والے نمبر پر کال کی کہ پوچھوں‘ یہ آیات‘ دعائیں اور اذکار مسلسل کیوں بھیجے جا رہے ہیں‘ دوسری طرف ریکارڈنگ تھی۔ درودِ پاک کی مسلسل ریکارڈنگ!! 
یہ صرف کالم نگار کی کہانی نہیں‘ ہر شخص ایسے نیکوکاروں کی اس بوچھاڑ کا نشانہ بن رہا ہے۔ ایک صاحب حج اور عمرے کا طریقہ ایس ایم ایس کر رہے ہیں۔ کوئی صاحب مشورہ دے رہے ہیں کہ آج فلاں دن ہے یہ یہ کام ضرور کیجیے۔ کوئی صاحب چاند کے نئے مہینے کے فضائل ارسال کر رہے ہیں۔ کوئی صاحب آزمائش میں ڈال رہے ہیں کہ اگر آپ صاحب ایمان ہیں تو یہ ایس ایم ایس کم از کم دس افراد کو ضرور بھیجیں۔ 
آپ ای میل کھولتے ہیں کہ ڈاک چیک کر لیں‘ وہاں یہ سلسلہ شدید تر ہے۔ کسی نے اپنے پسندیدہ واعظ کا تازہ ترین درس وڈیو کی صورت میں بھیجا ہے اور تلقین کی ہے کہ اسے سن کر مزید پھیلایئے۔ کسی نے کوئی لِنک میل کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ فلاح کی واحد صورت اس لِنک کو کھول کر پڑھنے میں ہے۔ ایک اور میل میں ایک عرب ملک پر تنقید کی گئی ہے۔ اس کے بعد والی میل میں ایران کی حکومت پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ ایک اور میل میں غیرت دلائی گئی ہے کہ فلاں فلاں مشروبات کا بائیکاٹ کرو۔ اس کے بعد والی میل میں منت سماجت ہے کہ فلاں ملک کے سفارت خانے کو احتجاجی میل بھیجنا دینی جذبے کا تقاضا ہے۔ ساتھ سفارت خانے کا ای میل ایڈریس بھی ہے۔ 
کالم نگار بطورِ خاص نشانے پر ہیں۔ کچھ ثروت مند کالم نگاروں نے تو باقاعدہ ملازم رکھ لیے ہیں جو چھانٹی کر کے فقط کام کی ای میلیں صاحب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں مگر یہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ کالم نگاروں کی اکثریت کے پاس اس کا ایک ہی علاج ہے کہ پڑھے بغیر یہ بن بلائی میلیں ڈیلیٹ کرتے جائیں۔ یہ اور بات کہ ڈیلیٹ کرنے میں بھی وقت صرف ہوتا ہے۔ 
مہذب دنیا میں اس قبیل کی ہر میل کے آخر میں ایک آپشن ضرور مہیا کیا جاتا ہے کہ اگر آپ آئندہ اس سلسلے کی کوئی میل وصول نہیں کرنا چاہتے تو یہاں کلک کیجیے۔ اسے Unsubscribe کرنا کہتے ہیں۔ اگر آپ Unsubscribe کریں تو آپ کو ایک آخری میل ملتی ہے جس میں معذرت کی جاتی ہے اور یقین دلایا جاتا ہے کہ آئندہ میل نہیں بھیجی جائے گی۔ لیکن اس تہذیب‘ خوش اخلاقی اور فراخ دلی کا ہمارے ہاں کوئی رواج نہیں۔ اس کی غالباً دو وجوہ ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص‘ اپنے آپ کو چھوڑ کر‘ پورے ملک اور پھر پوری دنیا کی اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ اصلاح کی یہ دُھن جنون کی سرحد کو چھو رہی ہے۔ آپ پسند کریں یا بددعائیں دیں‘ بیمار ہیں یا سو رہے ہیں‘ روزے سے ہیں یا نماز پڑھ رہے ہیں۔ ایس ایم ایس اور ای میل پڑھتے بھی ہیں یا نہیں‘ مُصلح صاحب کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ اس تبلیغ کے بعد اُن کی بخشش یقینی ہو گئی ہے۔ ایک صاحب کی خدمت میں‘ جو کئی دن سے مسلسل تبلیغی میلیں بھیج رہے تھے عرض کیا کہ ازراہِ کرم میلیں نہ ارسال کریں‘ جواب آیا کہ بھلے آدمی! میں تو صدقۂ جاریہ سمجھ کر یہ کام کر رہا ہوں۔ جہاں صدقۂ جاریہ کا تصور انفاق فی سبیل اللہ سے ہٹ کر ایس ایم ایس اور ای میلوں کی بارش برسانے پر آ جائے تو کسی کو اس نیک کام سے کیسے روکا جا سکتا ہے! ایک بین الاقوامی قسم کی مذہبی تنظیم کالم نگاروں کو ہر روز کئی میلیں بھیج رہی ہے جو کئی صفحات پر مشتمل ہوتی ہیں اور کئی لِنک اس کے علاوہ ہیں۔ Unsubscribe کرنے کی گنجائش تو دور کی بات ہے‘ استدعا کی گئی‘ ہاتھ جوڑے گئے کہ حضور! معاف فرمایئے‘ مگر بمباری رکنے کے کوئی آثار نہیں‘ دوسری وجہ فراغت ہے۔ آبادی کا کثیر حصہ کسی بھی قسم کے شغل سے عاری ہے۔ جائے حادثہ پر آن کی آن میں جمع ہونے والے جمِ غفیر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے پاس کوئی کام نہیں۔ وقت کی پابندی کا بھی کوئی تصور نہیں۔ سڑک کے کنارے گھنٹوں کھڑے ہیں۔ اُلٹی ہوئی بس کو دیکھ رہے ہیں‘ دیکھے جا رہے ہیں۔ دو شخص آپس میں ہاتھا پائی کر رہے ہیں تو اس سے زیادہ دلچسپ تماشا کیا ہوگا۔ موٹر سائیکلوں اور کاروں کو باقاعدہ پارک کر کے لڑائی سے حظ اٹھایا جاتا ہے۔ بے پناہ فراغت کے اس پس منظر میں یہ بات ہرگز باعثِ تعجب نہیں ہونی چاہیے کہ دو سو افراد کو ایس ایم ایس اور پانچ سو کو ای میل کرنے کے لیے ہر مصلحِ قوم ہر وقت فارغ ہے۔ 
اور اگر آپ نے کار یا پلاٹ فروخت کرنے کے لیے اخبار میں اشتہار دیا ہے اور اس میں لینڈ لائن ٹیلی فون کا نمبر دینے کے بجائے اپنے موبائل فون کا نمبر دے دیا ہے تو پھر ایک طویل اذیت کے لیے تیار ہو جایئے۔ اب آپ کو غف غف کرتے بھیڑیوں اور پھنکارتے شُوکتے اژدہوں سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اب نام نہاد اشتہاری ’’کمپنیاں‘‘ جو ایک موبائل فون پر مشتمل ہیں‘ آپ کی زندگی کو جہنم بنا دیں گی۔ ہر آدھ گھنٹے بعد ایک اشتہار موصول ہوگا۔ کوئی احرام بیچ رہا ہے‘ کسی نے ٹیوشن سنٹر کھولا ہوا ہے اور اسے اکیڈیمی کا نام دیا ہے‘ کوئی مکانوں اور پلاٹوں کی تفصیل بتا رہا ہے۔ کوئی عجوہ کھجوروں کی فروخت سے راتوں رات دولت مند بننا چاہتا ہے۔ کوئی چاہتا ہے کہ آپ اپنے نمبر سے ملتا جلتا نمبر‘ جو ایک اور موبائل کمپنی کا ہے‘ ضرور خریدیں اور اُسی سے خریدیں۔ جنسی دوائوں کا ایک اشتہار موصول ہوا۔ بھیجنے والے کو فون کر کے شرم دلائی کہ اشتہار بازی اور وہ بھی ایسی! کراچی سے بول رہے تھے‘ فرمانے لگے‘ بھائی صاحب کیا بات کرتے ہیں۔ میں تو خود پانچ وقت کا نمازی ہوں! موبائل فونوں کی کمپنیوں کو اس سے کوئی علاقہ نہیں کہ اُن کی جاری کردہ سمیں کس طرح استعمال ہو رہی ہیں اور خلقِ خدا کو کیسے پریشان کیا جا رہا ہے۔ یہ کمپنیاں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں اور سرمایہ اکٹھا کر کے اپنے اپنے ملکوں کو بھیجے جا رہی ہیں۔ نئے سے نئے پیکیج دے کر طرح طرح کی ترغیبات دلائی جا رہی ہیں۔ ’’دوست بنایئے‘‘ قسم کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ نرخ اس طرح مقرر کیے جا رہے ہیں کہ لوگ راتوں کو زیادہ 
گفتگو کریں۔ ان کمپنیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے جو ریاستی ادارہ بنایا گیا ہے وہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ہے جو آئے دن خود جھگڑوں‘ بحرانوں اور بکھیڑوں کا شکار رہتا ہے۔ ایک مدت تک اس کا چیئرمین تھا نہ کوئی ممبر۔ شعبۂ سروسز کے سربراہ طالب ڈوگر صاحب سے اشتہار بازوں کی اذیت رسانی کے متعلق گفتگو ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایس ایم ایس کے ذریعے اشتہار بازی قانونی طور پر جرم ہے۔ اگر پی ٹی اے کے متعلقہ شعبے کو شکایت کی جائے تو اشتہار بھیجنے والوں کی سم بلاک کردی جاتی ہے۔ تاہم اگر ایسا قانون ہے تو عوام کو اس کے بارے میں علم ہی نہیں اور گمان غالب یہ ہے کہ اشتہار بھیجنے والی نام نہاد ’’کمپنیوں‘‘ کو بھی معلوم نہیں۔ پی ٹی اے اگر اس ضمن میں سنجیدگی کے ساتھ قانون نافذ کرنا چاہتی ہے تو اسے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے صارفین کو بتانا چاہیے اور زور دینا چاہیے کہ اشتہار بازوں کی شکایت کرنی اس ابتری کو کم کرنے کے لیے لازم ہے! 
ایک جانے پہچانے شاعر‘ جو اب کچھ عرصہ سے پس منظر میں ہیں‘ گھر میں فون نہیں لگواتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو غیر مرد کو گھر میں داخل کرنے والی بات ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ پورے پورے بازار اور منڈیاں گھروں میں گھُس آئی ہیں۔ یہاں تک کہ ریڑھیوں اور کھوکھوں والے بھی ایس ایم ایس پر سوار ہو کر آپ کے بیڈروم میں اُتر چکے ہیں۔ آوازے آ رہے ہیں۔ آپ کو گھیرنے کے لیے باقاعدہ ہانکے لگائے جا رہے ہیں۔ چار ٹکے کمانے کے لیے دکاندار لاکھوں کی نیند اور کروڑوں کا آرام حرام کر رہے ہیں۔ مصلحینِ قوم الگ آپ کی اصلاح پر تُلے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی صورتِ حال تھی جب کوئی پکار اٹھا تھا    ؎ 
ہے تمنا مجھے ابنائے زمانہ سے یہی 
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا

Friday, November 15, 2013

ایہہ پُتر ہَٹاں تے نئیں وِکدے

اُس نے سفید رنگ کا تہمد باندھا ہوا تھا۔ سر پر سفید ہی پگڑی تھی۔ میں نے اُسے کاکول کے صدر دروازے کے قریب دیکھا۔ وہ تہمد پوش  اپنے کیڈٹ بیٹے سے گلے مل رہا تھا۔ یہ ایسا منظر تھا جسے اب تک بھول نہیں پایا۔ سالہا سال گزر گئے ہیں۔ جب بھی پہاڑیوں کے حصار میں گھرے کاکول کا خیال آتا ہے‘ سفید تہمد والا کسان اور اس سے گلے ملتا کیڈٹ بیٹا فوراً ذہن کے پردے پر چھا جاتے ہیں۔ بیسیوں بار کاکول جانا ہوا۔ کئی بار قیام کیا۔ بارہا پاسنگ آئوٹ پریڈ دیکھی۔ عام مہمان کی حیثیت سے بھی اور خصوصی مہمانوں میں شامل ہو کر بھی‘ سب نظاروں پر وہ منظر غالب رہا۔ 
ایک ایسا ادارہ جہاں جرنیل کا بیٹا کامیاب نہیں ہوتا اور کسان کا بیٹا منتخب ہو جاتا ہے‘ باعثِ اطمینان ہے بلکہ باعثِ فخر ہے۔ اب اگر یہاں کی بھٹی سے نکل کر کُندن بننے کے بجائے کوئی ضیاء الحق یا پرویز مشرف بن جاتا ہے تو اس میں بھٹی کا کوئی قصور نہیں۔ 
کسان کا بیٹا دو سال کی جانکاہ تربیت کے بعد کاکول سے نکلتا ہے۔ ایسی تربیت‘ ایسی ٹریننگ جو لوہے کو پگھلا دے‘ جو ہڈیوں کے گودے تک اتر جائے‘ جو رگوں کے خون کو دھوئیں میں تبدیل کردے۔ کہنا‘ سننا اور بتانا آسان ہے۔ یہ چوبیس ماہ‘ یہ ایک سو دو ہفتے‘ یہ سات سو بیس دن کس طرح گزرتے ہیں؟ وہ لڑکا جو دو سال پہلے آیا تھا‘ جانے کہاں گم ہو گیا‘ یہ اب ایک اور شخص ہے۔ اس کا معاہدہ زندگی سے نہیں‘ موت سے ہے۔ اس کی جِلد بھی اور ہے‘ دل اور دماغ بھی بدل چکے ہیں۔ اب اس کے لیے سفید تہمد والے بوڑھے باپ کی اہمیت ہے نہ سفید بالوں اور جھریوں سے اٹے چہرے والی ماں کی۔ اب اس کے لیے بہن مقدم ہے نہ بھائی۔ اور تو اور اس کی نوجوان بیوی اور چند مہینوں کا مہکتا کھِل کھلاتا بچہ بھی اس کی ترجیحات میں سرِ فہرست نہیں۔ اس نوجوان کا وعدہ اب سبز ہلالی پرچم سے ہے اور اُس سرزمین سے ہے جس پر وہ پرچم لہرا رہا ہے‘ پھڑپھڑا رہا ہے۔ اس کے لیے اب رات رات ہے نہ دن دن‘ اس کی زندگی اب سیاچین کی اس بلندی پر گزرتی ہے جہاں سردی سے ہاتھ جھڑ جاتے ہیں اور آنکھیں بینائی کھو دیتی ہیں۔ اب اس نے کشمیر کے ان پہاڑوں پر رہنا ہے جہاں گھر سے خط کم آتے ہیں اور دشمن کی طرف سے گولیاں زیادہ۔ اب اُس نے تھرپار کر کے اُن ریگستانوں میں چلنا ہے جہاں اُڑتی ہوئی ریت کے ہر ذرّے پر موت بیٹھ کر آ رہی ہوتی ہے۔ اُس نے وزیرستان کے اُن ناقابلِ اعتبار درّوں اور فریب دینے والی کوہستانی چوٹیوں میں راتیں بسر کرنی ہیں‘ جہاں گولیوں سے جسم چھلنی تو کیے ہی جاتے ہیں‘ گلے بھی کاٹے جاتے ہیں اور ان کی فلمیں بھی بنائی جاتی ہیں۔ کون سا باپ اور کون سی ماں؟ کیسی بیوی اور کیسا بچہ؟ اب اس جوان کا ایک ہی خاندان ہے۔ وطن… اس کی ایک ہی محبوبہ ہے۔ موت… اس کے مقدس جسم نے سفید کفن میں نہیں‘ سبز پرچم میں ملبوس ہونا ہے۔ پھر جب اس کی شہادت کی خبر پہنچتی ہے تو اس کا تہمد پوش کسان باپ الحمدللہ کہتا ہے۔ سفید بالوں والی ماں کو مبارکیں ملتی ہیں۔ بہن فخر کرتی ہے اور بھائی سینہ تان کر چلتا ہے۔ 
شہادت افسر اور سپاہی میں فرق نہیں کرتی۔ محلّات میں رہنے والوں‘ کارخانے چلانے والوں اور ٹیکس چرانے والوں کو کیا معلوم کہ اس ملک کی بنیادوں میں اُن سپاہیوں‘ اُن لانس نائکوں‘ اُن حوالداروں‘ اُن صوبیداروں اور اُن کپتانوں‘ میجروں اور کرنیلوں کے جسموں کے ٹکڑے شامل ہیں جو چونڈہ کے میدان میں ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے اور جن کی کڑکڑاتی‘ چٹختی‘ ٹوٹتی ہڈیوں نے دشمن کی گرانڈیل مشینوں کے پرخچے اُڑا دیے تھے۔ یہ ان سپاہیوں اور ان افسروں کا خون تھا جس نے بہہ کر بھارتی سالار کے اُس خواب کو چکنا چور کردیا جس میں اس نے لاہور جم خانہ میں بیٹھ کر شراب پینا تھی! 
اللہ کے بندو! ملک کی سرحد‘ ملک کی سرحد ہوتی ہے خواہ مشرقی ہو یا مغربی ہو؟ یہ کیسی شہادت ہے جو ایک سرحد پر ہو تو شہادت ہے اور دوسری سرحد پر ہو تو صرف موت؟ تم کیسے محب وطن ہو جو اس بات پر مطمئن ہو کہ غیر ملکی تمہاری سرحدیں پامال کر کے تمہارے ملک میں بس جائیں اور تمہارے ہی لشکر کے سامنے صف آرا ہو جائیں۔ سرحد فضائی ہو یا زمینی‘ مقدس ہے۔ کسی بدبخت طاغوت کے ڈرونوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس مقدس ملک کی فضائوں کو تاراج کریں۔ اسی طرح اُن سنگدل غیر ملکیوں کو بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس ملک کی زمینی سرحدوں کو پامال کر کے دراندازی کریں اور یہاں کے رہنے والوں سے وسائل چھین کر قابض ہو جائیں۔ ہر وہ طاقت‘ ہر وہ گروہ‘ جس کے تار سرحد پار سے ہلائے جاتے ہیں‘ خواہ یہ تار امریکی ہلاتے ہیں یا نیٹو‘ یا کرزئی یا افغان خفیہ ایجنسیاں‘ اس ملک کا دشمن ہے اور اس ملک کی فوج اُس کا مقابلہ کرے گی! 
فرانسیسی وزیراعظم Georges Clemenceau نے کہا تھا کہ جنگ اتنا گمبھیر مسئلہ ہے کہ جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ مذہبی معاملات بھی ازحد سنجیدہ معاملات ہیں جو مصلحت میں سیاست دانوں پر چھوڑے جا سکتے ہیں نہ اُن ملّائوں پر جن کا فہم دین ناقص ہے   ؎ 
قوم کیا چیز ہے‘ قوموں کی امامت کیا ہے 
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام 
غالباً ڈیگال کا قول ہے کہ ہر ملک میں ایک فوج ضرور ہوتی ہے۔ آپ کو اپنی فوج پسند نہیں تو کسی اور ملک کی رکھنا پڑے گی۔ منیر نیازی نے اس لیے کہا تھا  ؎  
ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے 
تخت خالی نہیں رہا کرتا 
درست کہ ہماری فوج ماضی میں حدود سے تجاوز کرتی رہی لیکن یہ فوج ہماری اپنی ہے۔ ہم اس کا خون رائگاں کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ 
اے دوست! اختلافِ طبیعت کے باوجود 
ہم کو ترا فراق گوارا نہ ہو سکا 
عسکری مداخلت کی تاریخ کے طالب علم کو دو نکات ذہن میں رکھنے لازم ہیں۔ اوّل: چند طالع آزمائوں کے لالچ اور قانون شکنی کا الزام پورے ادارے پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ آخر سارے سیاست دان کس طرح بُرے ہو سکتے ہیں؟ کیا اس ملک کے تمام ڈاکٹر دولت کے اسیر ہیں؟ کیا سارے وکیل ججوں کو تھپڑ مارتے ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! فوج دیگ نہیں جس کے ایک چاول سے پوری دیگ کا اندازہ لگایا جائے۔ فوج گوشت پوست کے انسانوں پر مشتمل ایک منظم ادارہ ہے۔ کمانڈ سٹرکچر کی مجبوریاں آڑے آتی ہیں۔ ضابطہ اور ڈسپلن زبانیں روک لیتا ہے ورنہ ایسا نہیں کہ فوج جمہوریت کی مخالف ہے۔ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنے والے حق پسند فوج میں بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح دوسرے شعبوں میں پائے جاتے ہیں۔ دوم: فوجی طالع آزمائوں نے آمریت کے محل ہوا میں نہیں کھڑے کیے تھے۔ ان محلات کو چھتیں‘ دیواریں اور دروازے سیاست دانوں نے فراہم کیے اور اُس مرغِ بادنما نوکر شاہی نے جو کبھی پھدک کر باڑ کے اس طرف ہو جاتی ہے اور کبھی دوسری طرف۔ ایک جرنیل صدر نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ سیاست دان میرے بلانے پر فلاں کی طرح آ جائیں گے! امیر المومنین بننے کا مشورہ دینے والے اور ظلِ الٰہی کہنے والے غیر فوجی تھے! سترھویں ترمیم کا قصہ پرانا نہیں ہوا۔ رات کے اندھیروں میں کون ملنے جاتا رہا اور کون کس کو کس کے خلاف اُکساتا رہا   ؎ 
نہ روزنوں سے کسی نے دیکھا نہ ہم ہی مانے 
وگرنہ سرزد ہوئے تو ہوں گے گناہ سارے 
بادل زمین سے بلند ہوتے ہیں۔ فوج کو اپنے سیاسی جھگڑوں‘ اپنے مذہبی تنازعوں اور اپنی فقہی موشگافیوں سے بلند رکھیے۔ مائوں کے اُن بیٹوں‘ بہنوں کے اُن ویروں اور نوجوان بیویوں کے اُن شوہروں کا کچھ تو خیال کیجیے جو گھروں سے دور‘ مورچوں میں بیٹھے ہیں۔ جن کے سینے گولیوں سے ا ور گلے خنجروں سے نہیں ڈرتے اور جو مٹی میں مٹی ہو کر آپ کو ایک پُرآسائش زندگی فراہم کر رہے ہیں‘ ایک ایسی پُرآسائش زندگی جس میں آپ سیاست کر سکتے ہیں!!

Thursday, November 14, 2013

شہیدوں کے پس ماندگان رو رہے ہیں

اُن دنوں یہ گنہگار ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ مغربی پاکستان کا سب سے بڑا انگریزی اخبار’’پاکستان ٹائمز‘‘اپنے اداریے میں تسلیم کرچکا تھا کہ مشرقی پاکستان کے وسائل مشرقی پاکستان پر صرف نہیں کئے جا رہے۔ دونوں حصّوں کے درمیان عدم مساوات ایک مسلّمہ حقیقت بن چکی تھی۔ ایوبی آمریت کو دس سال ہو چکے تھے۔ الطاف گوہر اور اس قبیل کے دیگر ’’دانشور‘‘ ،’’عشرہ ترقی‘‘ منانے کا آئیڈیا بادشاہ سلامت کو دے چکے تھے۔ میگنا اور بُوری گنگا کے بپھرے ہوئے دریائوں میں ہچکولے کھاتی کشتیوں اور دھواں اگلتے سٹیمروں پر ’’عشرۂ ترقی‘‘کے بینر پھڑ پھڑا رہے تھے۔ اندھے کو بھی معلوم تھا کہ ایک فوجی آمر نے دس سال نکال لیے ہیں تو اِس حساب سے مشرقی پاکستان یا سندھ جیسے ’’نان مارشل‘‘ صوبوں کی باری کبھی نہیں آئے گی۔ بّرِ صغیر کے جن علاقوں نے انگریزوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی تھی، بنگال اور سندھ ان میں سرِفہرست تھے، اسی لئے سلطنتِ انگلیشیہ نے ’’وفادار‘‘ علاقوں کو ’’مارشل ریس‘‘ قرار دیا تھا اورسر نہ جھکانے والے خطّوں سے فوجی بھرتی منع کر دی تھی۔ تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایوب خان گیا تو ایک اور فوجی آمر آن دھمکا۔ مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی اس قدر شدید ہو چکا تھا کہ ’’مرکز پسند‘‘ اور ایوبی آمریت کے مددگار عناصر بھی اعداد و شمار تسلیم کرنے لگے تھے۔ لیکن ایک جماعت ایسی تھی جو اس صورتِ حال سے ، ان تمام حقائق سے یکسر بے نیاز تھی اور اپنی پالیسی میں کسی قسم کی’’وقتی‘‘ تبدیلی لانے کے لئے تیار نہ تھی! اور وہ تھی مشرقی پاکستان کی جماعت اسلامی!
ہم جب اسلامی چھاترو شنگو (اسلامی جمعیت الطلبہ ) کے دوستوں سے کہتے تھے کہ نوشتۂ دیوار پڑھو اور معاشی اور سماجی حقائق کا ادراک کرو کہ مرکز گریز قوتوں کا مقابلہ کرنے کی یہی ایک صورت ہے، جن مسائل کو یہ قوتیں سیڑھی کے طور پر استعمال کر رہی ہیں، تم بھی خدارا اِن مسائل پر توجّہ دو اور میدان اُن کے لیے کھلا نہ چھوڑو، لیکن اکثر و بیشتر جواب یہ ملتا تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے وقتی مسائل ہیں، ہمارا نصب العین بلند ہے اور ہماری نظر اسی پر ہے۔ یہ سب سُن کر سعدی کا شعر یاد آتا تھا    ؎
شب چو عقدِ نماز می بندم
چہ خورد بامداد فرزندم
کہ رات کو نماز کی نیت باندھتا ہوں تو یہی فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ صبح اہل و عیال کا پیٹ کیسے بھروں گا؟
پھر وہی ہوا جو نوشتۂ دیوار تھا۔ مشرقی پاکستانیوں کی بھاری اکثریت نے عوامی لیگ کو اپنی نمائندگی سونپی۔ یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات کے نتائج عملاً تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور واضح اکثریت کے باوجود شیخ مجیب الرحمٰن اوراُس کی جماعت کو وہ حق نہ دیا جو جمہوری حساب سے انہیں ملنا چاہیے تھا۔ مشرقی پاکستان کی جماعت اسلامی نے عوام کا ساتھ نہ دیا۔ آج ہم یہاں، باقی ماندہ پاکستان میں بیٹھ کر جب کہتے ہیں کہ البدر اورالشمس پاکستان کی لڑائی لڑ رہے تھے تو یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی اکثریت تو دوسری طرف تھی! کچھ ناواقف حضرات ایک ہی لکیر پیٹ رہے ہیں کہ یہ سب مشرقی پاکستان کے ہندوئوں کا کیا دھرا تھا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جب مشرقی بنگال کے سو فیصد مسلمانوں نے پاکستان کے لئے ہاتھ کھڑا کیا تھا، اس وقت وہ ہندوئوں کے زیر اثر کیوں نہ آ سکے؟ وہاں تو کوئی احرار تھے نہ خاکسار جو پاکستان کی مخالفت کرتے۔ پھر مہاجرین آئے تو مشرقی پاکستانیوں نے اپنے دروازے اُن کے لیے کھول دیے۔ جذبات کو مشتعل کرنے والے، حقائق سے بے خبر حضرات کو معلوم ہی نہیں کہ ریلوے اور ڈاکخانے کے محکموں پر مہاجرین کا مکمل قبضہ تھا، اس حد تک کہ مقامی لوگوں کو نوکریاں ہی نہیں ملتی تھیں!
عوامی بہائو کے مخالف رُخ پر بہنے کی دوسری عبرت ناک مثال جماعت اسلامی کا وہ رویّہ ہے جو ضیاء الحق کے پورے عہد آمریت میں اختیار کیا گیا۔ خاموش اکثریت اِس آمریت کے خلاف تھی مگر جماعت اسلامی نے اکثریت کے بجائے ساتھ ان لوٹوں اور ٹوڈیوں کا دیا جو پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کو چھوڑ کر ضیاء الحق سے آ ملے۔ Jamaat Islami Thrives in Martial Lawکا محاورہ اُسی زمانے میں مشہور ہوا۔ جماعت، ضیاء الحق کی کابینہ کا حصہ بنی۔ آج سے دو سال پہلے جب صدارتی ریفرنس کے نتیجہ میں سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کیس پر نظرثانی کر رہی تھی تو معروف قانون دان محمد فاروق بیدار نے عدالتِ عظمیٰ کو اپنا حلفی بیان دیا ۔ ایک معروف انگریزی معاصر نے 5مئی 2011ء کی اشاعت میں یہ حلف نامہ شائع کیا۔ ایم انور استغاثہ کے وکیل تھے۔ فاروق بیدار جو ایم انور کی معاونت کر رہے تھے بیان حلفی میں بتاتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے میاں طفیل محمد اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق حسین کو ایم انور کے چیمبر سے نکلتے دیکھا۔ ایم انور نے بعد میں فاروق بیدار کو بتایا کہ بھٹو کے خلاف گواہ، اپنے بیانات سے پھر رہے ہیں،ان میں سے دو کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ میاں طفیل محمد جیل میں انہیں مِل کر یہ یقین دلائیں گے کہ اگر انہیں (یعنی گواہوں کو) سزا ہو بھی گئی تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ بعد میں ان گواہوں کو سزا دی گئی یا نہیں، یہ تاریخ کا حصہ ہے اور سب جانتے ہیں!
امیر جماعت اسلامی کے حالیہ بیان پر (جس میں انہوں نے پاکستانی عساکر کو شہید تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے) جو لوگ یہ رائے دے رہے ہیں کہ جماعت تو ہمیشہ فوج کا ساتھ دیتی آئی تھی،ایک لطیف اور باریک نکتے کو بھول رہے ہیں۔ جماعت فوج کا ساتھ دیتی آئی ہے یا نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جماعت ہمیشہ عوامی رائے کی مخالف رہی ہے۔ مشرقی پاکستانی عوام اور مشرقی پاکستانی جماعت کی مثال ہم دے چکے ہیں۔ ضیاء الحق کی آمریت کا ساتھ بھی اسی حوالے سے دیا گیا تھا۔ موجودہ امیر کے اس بیان کو بھی اسی روشنی میں دیکھا جائے تو بات واضح تر ہو جاتی ہے۔ پوری قوم کی رائے ایک طرف ہے لیکن امیرِ جماعت اور جماعت کی رائے اس کے الٹ ہے!
جماعت اسلامی قحط الرجال کا شکار ہے، کہاں ابوالاعلیٰ مودودی، عبدالحمید صدیقی ، ملک غلام علی، مصباح الاسلام فاروقی، عبدالوحید خان ،اسعد گیلانی اور خلیل حامدی جیسی متین علمی شخصیات جنہیں اسلامی علوم و فنون پر عبور حاصل تھا اور مخالف بھی جن کے علم و فضل اور فقہی دیانت کو تسلیم کرتے تھے اور کہاں زمینوں، جائیدادوں اور ہائوسنگ سوسائٹیوں کے سوداگر جن کا علومِ اسلامی تو دور کی بات ہے، قرطاس و قلم اور کتاب ہی سے رشتہ نہیں!
سید منور حسن کے بیان پر سب سے دردناک تبصرہ ایک شہید فوجی افسر کے والد اور بہن نے کیا ہے۔ یہ بارہ نومبر 2013ء کے روزنامہ دنیا میں شائع ہوا ہے:’’پروگرام میں شریک پاک فوج کے شہیدکیپٹن فیض خان کے والد صاحب خان نے کہا کہ جب ان کا بیٹا شہید ہوا تھا تو وہ، ان کی اہلیہ اور بچے رونے کے بجائے اظہارِ مسرت کر رہے تھے لیکن منور حسن کے بیان کے بعد ہم دو دن سے رو رہے ہیں، ان کا بیٹاپانچ وقت کا نمازی اور تہجد گزار تھا۔ اسلامی ریاست پاکستان کی حفاظت کرتے ہوئے میرے بیٹے نے جان دی لیکن اس کی شہادت پر منور حسن سوالیہ نشان کھڑا کر رہے ہیں۔ ان کے بیٹے کی شہادت پر قاضی حسین نے کہا تھا کہ طالبان ظالمان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان جہاد میں جماعت اسلامی امریکہ سے پیسے لے کر مدرسوں کے بچوں کو اٹھا کر لاتی رہی۔ وہ ذاتی طور پر اس کے گواہ ہیں۔ شہید کیپٹن کی بہن سونیا نے کہا کہ بھائی نے دس جون کو فون کر کے کہا تھا کہ بہن اب تم سے بات نہیں ہو گی کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شہید ہو رہا ہوں اور گیارہ جون کو وہ شہید ہو گیا۔ میرے بھائی کے سینے پر 35گولیاں لگیں اور منور حسن کہہ رہے ہیں کہ اسلامی ریاست کی حفاظت کرنے والے فوجی شہید نہیں ہیں‘‘۔
نہ جانے کتنے شہیدوں کے باپ ،بہنیں، بیویاں اور بچے رورہے ہیں!

Wednesday, November 13, 2013

نہیں! ڈاکٹر قدیر خان صاحب! نہیں

اہلِ پاکستان میں سو برائیاں سہی، ہزار کمزوریاں سہی، مگر ایک گناہ کا طعنہ انہیں نہیں دیا جا سکتا اور وہ ہے لسانی تعصّب!
لسانی تعصّب نہ ہونے کا ثبوت صرف اہلِ پاکستان ہی میں نہیں، تاریخ ِ پاکستان میں بھی روزِروشن کی طرح موجود ہے۔ غلام رسول مہر کی تحریکِ مجاہدین کی تاریخ میں بالا کوٹ کے شہدا کے اسمائے گرامی دیکھ لیجئے، یو پی اور بہار کے مجاہدین کے شانہ بہ شانہ سندھ ،پنجاب اور سرحد کے غازی لڑ رہے تھے۔ خود تحریک پاکستان اس حقیقت کا بّین ثبوت ہے کہ برّصغیر کے مسلمانوں نے الحمد للہ لسانی تعصّب سے اپنا دامن ہمیشہ بچا کر رکھا۔ قائد اعظم اردو سپیکنگ تھے نہ بنگالی بولتے تھے۔ پنجابی آتی تھی نہ پشتو۔ بلوچی اور سندھی سے بھی ناآشنا تھے‘ لیکن جمرود سے لے کر برما کی سرحد تک اور دہلی کے شمال میں ہمالیہ کی ترائیوں سے لے کر دکن اور میسور تک ہر مسلمان نے ان کی آواز پر لبیک کہا۔ برّصغیر کی کون سی زبان تھی جس کے بولنے والے قائدِاعظم کے جھنڈے تلے جمع نہ تھے! جِلد کا کون سا رنگ تھا جو وہاں نہ تھا اور لباس کا کون سا ڈھنگ تھا جو مسلم لیگ کے اجلاسوں میں دیکھا نہ جا سکتا تھا!
قیامِ پاکستان کے بعد کی تاریخ دیکھ لیجئے، ذوالفقار علی بھٹّو کو، سندھی جن کی مادری زبان تھی، پنجاب نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ ضیاء الحق کے زمانے میں کوڑے کھانے والوں میں پنجابی اور پٹھان سب شامل تھے، سندھیوں نے حالیہ انتخابات میں نواز شریف پر بہت سے دروازے کھولے۔ خیبر پختونخوا نے تو لسانی تعصّب کے پرخچے اڑ دیئے۔ انہوں نے اس پارٹی کو ہرا دیا جس میں پٹھان ہی پٹھان تھے، تحریک انصاف جس کا غلغلہ پنجاب میں تھا، صرف خیبر پختونخوا میں حکومت بنا سکی! ایم کیو ایم کو دیکھ لیجئے ۔ اس نے اپنی شناخت سے مہاجر کا نشان ہٹا کر ’’متحدہ‘‘ کا پرچم بلند کیا تو پورے ملک کا زاویۂ نظر بدل گیا۔ اِس وقت ملک کے ہر صوبے میں، ان کے عہدیدار کام کر رہے ہیں۔ نبیل، گْجر، اعوان، سب الطاف حسین کی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ سکّہ بند پنجابی صحافی ایم کیو ایم کا دفاع کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ایم کیو ایم کے جلسے بے حد کامیاب رہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں ان کے نمائندے بیٹھے رہے!
جنرل پرویز مشرف نے پکّے لاہوریے وزیر اعظم کا تختہ الٹا تو پنجابی جرنیل، آرمی چیف کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو گئے۔ پھر عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلی تو کسی کو معلوم ہی نہ تھا کہ افتخار چودھری کہاں کے ہیں، پشاور سے کراچی تک صرف وکیل ہی نہیں،پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔
یہ جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے کہا ہے کہ ’’میرے ساتھ زبان کی بنیاد پر زیادتی کی گئی ہے‘‘ تو اس قوم کے دل پر زخم لگایا ہے کہ مدتوں رِستا رہے گا۔تلوار کا زخم بھر جاتا ہے لیکن ’’زبان‘‘ کا زخم؟اور پھر زبان کا وہ زخم جو زبان کے حوالے سے ہے!!
ڈاکٹر صاحب کا کارنامہ عظیم ہے، اگرچہ اس میں بھی تنازعے بہت ہیں، ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ان کی ٹیم کچھ اور کہتی ہے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب کا کردار ایٹمی کامیابی کے حوالے سے بے مثل ہے‘ مگر قوم نے اپنی بساط سے بڑھ کر ان کی پزیرائی کی، جس زمانے میں وہ یہ کام کر رہے تھے، ان کی حیثیت عملی طور پر نائب وزیر اعظم کی تھی۔ صرف پروٹوکول ہی نہیں، امورِ مملکت میں بھی۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ اندرون ملک اور بیرونِ ملک تعیناتیوں میں بھی ان کے اشارے ہوتے تھے۔ درست کہ وہ مشکل کام کر رہے تھے مگر ہر حکومتِ وقت نے بغیر کسی روک ٹوک کے فنڈ جاری کئے۔ کوئی حساب تھا نہ کتاب تھی۔ آڈٹ تھا نہ کوئی جواب دہی تھی۔ پھر، ڈاکٹر صاحب نے جس فلاحی منصوبے کے لئے بھی قوم کو حکم دیا، قوم نے لبیک کہا اور دل کھول کر درہم و دینار دیے۔ اس قوم نے، پاکستان کی حکومتوں نے، پاکستان کی ریاست نے ڈاکٹر صاحب اور ان کے اہل و عیال کو وہ معیارِ زندگی فراہم کیا جس کا بھارت میں ڈاکٹر عبدالکلام سوچ بھی نہیں سکتے۔ 
المیہ یہ ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان ذاتی تشہیر کے حد سے زیادہ دلدادہ ہیں۔ جانے روایات صحیح ہیں یا غلط لیکن کہا جاتا ہے کہ اسلامی بم کے بارے میں شائع شدہ کتابوں میں ایک باب کا اضافہ کر دیا جاتا تھا۔ تشہیر کا کوئی موقع اور پبلسٹی کا کوئی فورم ڈاکٹر صاحب جانے نہیں دیتے تھے، پی ٹی وی کے ناظرین کو یاد ہو گا کہ خبرنامے سے پہلے ایک آدھ منٹ کا جو اشتہار ہوتا تھا جس کا عنوان تھا۔’’سب لوگ کہتے ہیں۔‘‘ اور جو خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق تھا، اس میں بھی ڈاکٹر صاحب دیکھے جانے لگے تھے۔ ڈاکٹر عبدالکلام کے معیارِ زندگی کی بات چل نکلی ہے تو یہ یاد کر لینا بھی بے جا نہ ہو گا کہ بنی گالہ اسلام آباد میں تعمیرات کا سلسلہ ڈاکٹر صاحب ہی نے شروع کیا تھا۔ انہوں نے آج تک قوم کو اپنے اثاثوں سے آگاہ نہیں کیا۔
اگر پاکستانی قوم ’’زبان‘‘ کی بنیاد پر فیصلے کرتی تو ڈاکٹر صاحب کو محسنِ پاکستان کا خطاب نہ دیتی۔ ابھی اگست کے پہلے ہفتے میں ڈاکٹر صاحب نے خود تسلیم کیا ہے اور فخر سے بتایا ہے کہ قوم ’’قائدِ اعظم کے بعد مجھے دوسرا بڑا لیڈر کہتی ہے‘‘ ان سے زیادہ متوازن تو جنرل اسلم بیگ نکلے جنہیں سپریم کورٹ نے مجرم قرار دیا، میڈیا نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا لیکن انہوں نے لسانی کارڈ نہ کھیلا۔ یہ الزام جو ڈاکٹر صاحب نے اہلِ پاکستان پر لگایا ہے، پرویز مشرف بھی، جو مقدموں پر مقدمے بھگت رہے ہیں، لگانے کی ہمت نہ کر سکے۔
ڈاکٹر صاحب کا شکوہ ہے کہ ’’اگر سیاسی جماعتیں مجھے بھی موقع دیتیں تو پاکستان میں حالات اتنے بُرے نہ ہوتے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ آپ کو موقع کیسے ملتا؟ یا تو آپ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی طرح منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیتے یا انتخابات میں حصہ لیتے۔ اب تک تو اِس ملک میں یہی دو طریقے رائج رہے ہیں۔ آپ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوتے تو وہ 
آپ کو موقع دینے کے بارے میں سوچتی! آپ نے اپنی سیاسی جماعت ’’تحریکِ تحفظِ پاکستان‘‘ جولائی 2012 ء میں آغاز کی اور ایک سال دو ماہ بعد ستمبر 2013ء میں اسے اپنے ہاتھوں ہی دفن کر ڈالا۔ انتخابات میں یہ پارٹی ایک نشست بھی نہ جیت سکی۔ ڈاکٹر صاحب نے سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کے خلاف بیان بازی شروع کی تو ان کے عقیدت مندوں کو دکھ ہوا کہ وہ اپنے مقام سے نیچے اْتر رہے تھے۔ سیاست صرف پاکستان ہی میں نہیں، پوری جمہوری دنیا میں گندے انڈوں اور ٹماٹروں کا کھیل ہے، جس شخص کو قوم نے محسنِ پاکستان کا خطاب دیا اور بقول ان کے اپنے،قائد اعظم کے بعد دوسرا بڑا لیڈر سمجھا، اسے سیاسی کھیل سے ویسے بھی اجتناب کرنا چاہئے تھا کہ سیاست میں آنے کے بعد بہت کچھ سننا اور سہنا پڑتا ہے  ع 
یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اِسے میخانہ کہتے ہیں
ڈاکٹر صاحب نے قوم پر لسانی تعصّب کا الزام لگایا ہے ۔ ان کے کالموں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بحرِ ادب کے شناور ہیں۔ ابو سعید ابوالخیر کی یہ رباعی یقینا انہوں نے پڑھی ہو گی    ؎
گفتی کہ فلاں ز یادِ ما خاموش است
از بادۂ عشقِ دیگری مدہوش است
شرمت بادا ہنوز خاکِ درِ تو
از گرمئی خونِ دلِ من درجوش است
آپ نے الزام لگایا کہ فلاں میری یاد سے غافل ہے۔ اور کسی اور کے عشق میں مدہوش ہو گیا ہے۔ حضور! کچھ تو خیال فرمائیے! ابھی تو ہمارے دل کے خون کی وہ گرمی بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی جس سے آپ کے دروازے کی مٹی جوش میں ہے!!

Monday, November 11, 2013

کافر بھارت

گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران بھارت میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے جن کا سن کر اس پڑوسی کافر ملک پر رحم ہی کیا جا سکتا ہے۔ 
پہلا واقعہ اُس بدبخت جاہل شوہر کا ہے جس نے اپنی بیوی کو اپنے ہاتھوں فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قصور بیوی کا یہ تھا کہ وہ بیٹا نہیں پیدا کر رہی تھی۔ یکے بعد دیگرے اُس نے چار بیٹیاں جنم دے دیں۔ پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد ہی شوہر نے بیوی پر تشدد کرنا شروع کردیا۔ پھر ہر بیٹی کی پیدائش پر یہ تشدد بڑھتا گیا۔ جس روز کا یہ واقعہ ہے اُس دن بیوی نے گھر کے لیے خرچہ مانگا۔ شوہر نے پہلے تو اُسے زدوکوب کیا اور پھر فائرنگ کر کے ہلاک کردیا۔ وہ اپنے آپ کو راہِ راست پر سمجھ رہا تھا۔ اس حد تک کہ قتل کرنے کے بعد ہتھیار سمیت خود ہی تھانے میں پیش ہو گیا۔ 
دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دردناک اور باعثِ عبرت ہے۔ ایک عورت نے اپنے ہاتھوں سے اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کو نہر میں گرا کر ڈبو دیا۔ ایک بیٹی چار سال کی تھی۔ دوسری سات سال کی تھی۔ بیٹا آٹھ سال کا تھا۔ وہ تو بارہ سالہ بڑے بیٹے کی قسمت اچھی تھی کہ وہ سکول گیا ہوا تھا اور بچ گیا۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ یہ عورت ایک سادھو کے پاس جایا کرتی تھی۔ سادھو ہی نے ہدایت کی کہ وہ بچوں کو پانی میں ڈبو کر ہلاک کرے۔ عورت کے باپ کا بیان یہ تھا کہ اُس کی بیٹی پر چڑیلوں کا اثر تھا اور تہرے قتل کی واردات کا ارتکاب اُس نے انہی کے اثر کی وجہ سے کیا۔ 
بھارتی معاشرے میں ایسے واقعات انوکھے نہیں۔ عورت کی اُس معاشرے میں کوئی قدر ہے نہ اہمیت۔ اُسے بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ شوہر مر جائے تو پہلے اس کے ساتھ ہی آگ میں جل کر بھسم ہو جاتی تھی۔ اب ساری زندگی بیٹھی رہتی ہے۔ بیوہ اٹھارہ سال کی بھی ہو تو دوسری شادی نہیں کر سکتی۔ جہیز نہ لائے تو باورچی خانے میں چولہا پھٹتا ہے اور بہو ہلاک ہو جاتی ہے۔ اس معاشرے میں اگر اس بدبخت قاتل کی ایک یا دو نہیں‘ چار بیٹیاں سر پر آ بیٹھی تھیں تو وہ ان کی ماں کو قتل نہ کرتا تو کیا تخت پر بٹھاتا؟ 
رہا دوسرا واقعہ تو اس میں بھی حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔ جہاں چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک سینکڑوں دیوتا ہوں‘ جہاں سادھو‘ پنڈت‘ پروہت خدا کا درجہ رکھتے ہوں‘ جہاں ہر شخص صبح اٹھ کر گھر میں اور دکان پر پہنچ کر‘ پتھر کے بتوں کے آگے ہاتھ جوڑتا ہو اور ماتھا ٹیکتا ہو‘ وہاں سادھو کے کہنے پر بچوں کو ڈبونا کون سی نئی بات ہے۔ 
لیکن ٹھہریے! اگر آپ ہندوئوں کی جہالت‘ ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی پر افسوس کر رہے ہیں اور اگر آپ خوش ہو رہے ہیں کہ اچھا ہوا ہم ان جانوروں سے الگ ہو گئے تو آپ شدید خوش فہمی کا شکار ہیں۔ یہ دونوں واقعات بھارت میں نہیں‘ پاکستان میں پیش آئے اور پاکستان کے کسی دور افتادہ دیہات میں نہیں بلکہ لاہور اور شیخوپورہ میں رونما ہوئے جو سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور سب سے زیادہ روشن خیال صوبے کے عین مرکز میں واقع ہیں۔ ایک شخص کا جنازہ جا رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کس کا ہے۔ دوسرے نے جواب دیا کہ فلاں کا ہے۔ اوّل درجے کا بدمعاش‘ غنڈہ‘ قاتل اور دھوکے باز تھا لیکن اپنے باقی بھائیوں کی نسبت فرشتہ تھا۔ یہ واقعات لاہور اور شیخوپورہ کے ہیں‘ دور افتادہ دیہات کا اندازہ خود لگا لیجیے۔ 
اس ملک میں‘ جو اسلام کے نام پر لاکھوں انسانوں کا خون بہا کر حاصل کیا گیا‘ بیٹی سے نفرت کا یہ اکیلا واقعہ نہیں‘ شاید ہی کسی روز ایسا واقعہ اخبارات کی زینت نہ بنتا ہو۔ ایک دلیل معاشی بدحالی کی ہے کہ غربت میں بیٹے کمائو بن کر مدد کرتے ہیں لیکن آج کل بیٹیاں اس میدان میں لڑکوں سے پیچھے نہیں۔ بیٹیوں سے نفرت اور بیٹوں کو ترجیح دینے کی لعنت کھاتے پیتے خوشحال گھرانوں میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ یہ اُس معاشرے کا حال ہے جو توہینِ رسالت کے نام پر ہر وقت گردنیں کٹانے کے لیے تیار ہے لیکن اس سے بڑھ کر توہینِ رسالت کیا ہوگی کہ جو پیغمبرﷺ اپنی بیٹی کی آمد پر کھڑے ہو جاتے تھے اور جنہوں نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنی دو بیٹیوں کو پڑھایا لکھایا‘ اچھی تربیت کی اور پھر ان کے گھر بسائے‘ وہ جنت میں میرے ساتھ اس طرح ہوگا اور یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنی دو مبارک انگلیاں دکھائیں‘ اُس پیغمبرﷺ کے نام لیوا بیٹیوں کی پیدائش پر منہ چھپاتے پھرتے ہیں‘ بیٹوں کے لالچ میں کبھی قبروں کے آگے کھڑے ہوتے ہیں‘ کبھی مُشٹنڈوں سے تعویذ گنڈے لاتے ہیں اور اِس دُھن میں یہ بے غیرت عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ 
لاہور کی بی آر بی نہر میں جس مسلمان عورت نے اپنے تین بچوں کو ڈبو کر مار دیا‘ اسے ایسا کرنے کی ہدایت اُس کے پیر‘ بابا سوہنے شاہ‘ نے کی تھی۔ جس ’’اسلامی‘‘ ملک کے قیام کے لیے ہم لاکھوں مسلمان عورتیں مشرقی پنجاب کے سکھوں کے پاس چھوڑ آئے تھے‘ اُس ’’اسلامی‘‘ ملک میں ہر شہر‘ ہر قصبے کی ہر گلی میں‘ ہر گائوں‘ ہر ڈھوک‘ ہر گوٹھ میں‘ سوہنے شاہ بیٹھے ہیں۔ ان میں اور سادھوئوں میں صرف نام کا اور جغرافیائی محلِ وقوع کا فرق ہے۔ ان کی ہدایات پر عمل پیرا ہو کر کبھی کوئی ’’مسلمان‘‘ آدھی رات کو قبر کھول کر مردے کا پیٹ چاک کر رہا ہوتا ہے‘ کبھی کوئی اپنے بچے کے گلے پر چھُری پھیر دیتا ہے اور کبھی کوئی عورت اپنے لخت ہائے جگر کو بپھرتی موجوں کی نذر کر دیتی ہے۔ اس ’’اسلامی‘‘ ملک کے وزرائے اعظم پیٹھ پر چھڑیاں مرواتے ہیں۔ منتخب نمائندے اپنے دن کا آغاز پامسٹوں کے پاس حاضر ہو کر کرتے ہیں۔ ’’پڑھی لکھی‘‘ آبادی کی اکثریت ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت پہلے پوچھتی ہے کہ آپ کا سٹار کون سا ہے؟ پھر سارے مشاغل‘ 
سارے پلان‘ سارے ارادے اُس سٹار کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ پھر بیویوں کے سٹار پوچھے اور بتائے جاتے ہیں۔ جس شاعرِ مشرق کے یوم پیدائش اور یومِ وفات پر ملک گیر تعطیل ہوتی ہے‘ اُس کی وارننگ کو جُوتے کی نوک پر بھی کوئی نہیں لکھتا  ؎ 
ستارہ کیا تری تقدیر کی خبر دے گا 
وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں 
ابھی ایک صدرِ مملکت کو ہم نے گارڈ آف آنر دے کر کندھوں سے اتارا ہے جس کی ہر سانس‘ ہر لمحہ پیر صاحب کی ہدایت کے مطابق بسر ہوتا تھا۔ کبھی وہ پہاڑوں سے دور رہتا تھا‘ کبھی سمندر سے دور ہوتا تھا۔ کل ہی ایک ماہر نفسیات بتا رہا تھا کہ مانسہرہ کے نزدیک‘ مظلوم دماغی مریضوں کو ایک درخت سے باندھا جاتا ہے کیونکہ ایک بابا جی کے فرمان کے مطابق صرف اُس درخت ہی کی وساطت سے معاملات طے ہو سکتے ہیں۔ یہ اُس رسولﷺ کی امت کا حال ہے جن کا فرمان ہے کہ بیمار ہو تو صرف اہل (کوائلی فائڈ) طبیب (ڈاکٹر) سے علاج کرائو‘ جن کے خلیفۂ راشد نے حجرِ اسود کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ میں تمہیں اس لیے بوسہ دے رہا ہوں کہ آقاﷺ نے دیا تھا ورنہ تم ایک پتھر ہو۔ نفع پہنچا سکتے ہو نہ نقصان! 
مملکتِ خداداد کا کافر بھارت سے مقابلہ صرف کرکٹ کے میدان میں نہیں ہے‘ انسان پرستی‘ قبر پرستی‘ ستارہ پرستی‘ توہم پرستی‘ فال گیری‘ پامسٹری اور شگون پر اعتماد… میں بھی ہے اور باعثِ اطمینان امر یہ ہے کہ ہم اس میں بھی کافر بھارت سے پیچھے نہیں ہیں۔

Friday, November 08, 2013

’’مطالبہ‘‘

اس سارے ہنگامے میں وہ بات دَب گئی جس پر سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے تھی! 
اس پر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ انہونی ہونی کیسے ہوگئی؟ 
دنیا کا سب سے زیادہ دشوار گزار خطہ‘ جس پر کوئی طاقت کبھی قابض نہ ہو سکی‘ آخر ہتھیلی کی لکیروں کی طرح‘ سات سمندر پار‘ دشمن پر کیسے واضح ہو گیا؟ 
جو وجہ سورج کی روشنی کی طرح نمایاں ہے‘ ہماری توجہ سے محروم ہے! ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے بارے میں شاعر نے کہا تھا   ؎ 
عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی 
کلچر نکل رہا ہے ٹنوں کے حساب سے 
بحث یہ ہو رہی ہے کہ حکیم اللہ محسود شہید ہے یا ہلاک۔ اس پر کوئی غور نہیں کر رہا کہ صدیوں کے ریکارڈ کیسے ٹوٹ رہے ہیں اور کیونکر ٹوٹ رہے ہیں؟ جن علاقوں میں‘ جن پہاڑوں میں‘ جن پہاڑوں کی ہولناک گھاٹیوں میں کوئی سیاح جا سکتا ہے نہ مہم جُو‘ جہاں کوئی لشکر کامیاب نہیں ہو سکتا‘ وہاں ایک فولادی پرندہ نمودار ہوتا ہے‘ ایک خودکار جہاز‘ جس میں کوئی کوچوان ہے نہ ڈرائیور‘ گاڑی بان ہے نہ پائلٹ‘ میزائل داغتا ہے اور وہ شخص جس کی حفاظت کے لیے نڈر سورما جانیں ہتھیلیوں پر رکھے ہیں اور سروں پر کفن بندھے ہیں‘ ایک ثانیے میں بھسم ہو جاتا ہے۔ مہلک فولادی پرندے کے اندر خودکار کمپیوٹر لگے ہیں۔ اُس کا پائلٹ وہاں سے سینکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھا‘ اُسے کنٹرول کرتا ہے۔ 
جدید ٹیکنالوجی!! جب جناب سلمان فارسیؓ نے خدا کے پیغمبرﷺ سے اُس ٹیکنالوجی کا ذکر کیا جو ایران میں رائج تھی اور عرب جس سے مکمل ناآشنا تھے‘ پیغمبرﷺ نے اسے قبولیت کا شرف بخشا۔ مدینۃ النبیﷺ کے گرد خندق کھودی گئی۔ قبیلے جمع ہو کر‘ معاہدوں میں بندھ کر‘ حملہ آور ہوئے تھے لیکن انہیں معلوم ہی نہ تھا خندق سے عہدہ برآ کیسے ہوں؟ ٹیکنالوجی نے انہیں بے بس کردیا۔ 
دیبل کے باشندے حیرت سے اُس مشین کو د یکھتے تھے جو شہر کے لہراتے جھنڈے پر چٹانوں جیسے پتھر پھینک رہی تھی۔ منوں بھاری پتھر منجنیق ماڈرن ٹیکنالوجی تھی جس کے آگے اہلِ شہر بے بس تھے! 
اور یہ تو چند سو سال پہلے کا ذکر ہے۔ پانی پت کی پہلی لڑائی… پانی پت جو آج ہریانہ کا صنعتی قصبہ ہے۔ ابراہیم لودھی کے پاس‘ بابر کے بقول‘ ایک لاکھ فوج تھی۔ کچھ چالیس ہزار کہتے ہیں لیکن اگر چالیس ہزار بھی ہوں تو بابر کے پاس تو کل پندرہ ہزار لشکری تھے۔ یہ جہاد بھی نہیں تھا‘ اس لیے کہ دونوں طرف مسلمان تھے۔ ایک طرف مغل۔ دوسری طرف پٹھان‘ مگر ابراہیم لودھی کی بدقسمتی کہ جدید ٹیکنالوجی بابر کے پاس تھی۔ بیس یا چوبیس توپیں! بابر نے ان توپوں کے آگے بیل گاڑیوں کی صف کھڑی کی۔ بیل گاڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ چرمی رسوں سے باندھ دی گئیں۔ اب یہ ایک ایسی حفاظتی صف بن گئی جو اپنی جگہ سے ہل ہی نہیں سکتی تھی۔ ابراہیم لودھی کے پاس ایک ہزار جنگی ہاتھی تھے لیکن دو درجن جدید ترین توپوں کے سامنے ہاتھیوں کی سونڈیں کیا کرتیں! بہادر پٹھان نے میدانِ جنگ میں موت کو گلے لگا لیا اور بابر نے دیارِ غیر میں اُس سلطنت کی بنیاد رکھ دی جو تین سو اکتیس برس قائم رہی‘ سوائے اُن چند برسوں کے جب سُوریوں سے گلبدن بیگم کے پیارے بھتیجے کو مار مار کر برصغیر سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ 
سر اولف کرک پیٹرک کیرو۔ جو شمال مغربی سرحدی صوبے پر حکومت کرنے والا برطانوی ہند کا آخری گورنر تھا‘ کہا کرتا تھا کہ محسود کسی غیر ملکی طاقت کے آگے ہتھیار ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن کیرو صاحب کو یاد نہیں رہا یا وہ ڈنڈی مار گئے کہ 1925ء 
کے مارچ سے شروع ہونے والی برطانوی ایئرفورس کی بے رحمانہ فضائی بمباری نے‘ جو مئی تک جاری رہی‘ محسود جنگ جوئوں کو اس درجہ بے بس کردیا تھا کہ اکثر قبائلی سردار انگریزی سرکار کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان فضائی حملوں کی پشت پر زمینی فوج نہیں تھی۔ محسودوں نے اس فضائی تباہی کے بعد بھی انگریز لشکریوں پر حملے جاری رکھے۔ 
لیکن یہ قبیلے نہیں‘ بلکہ وہ پہاڑ اور ناقابلِ عبور گھاٹیاں ہیں جو ناقابلِ شکست ہیں۔ محسودوں کی بہادری‘ مستقل مزاجی اور غیر لچکدار رویے میں کوئی شبہ ہی نہیں‘ لیکن یہ بہادری اس علاقے کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان سورمائوں نے کسی اور علاقے میں‘ ان ناقابلِ عبور پہاڑوں سے دور‘ مسلسل کامیابیاں حاصل کی ہوں۔ ابراہیم لودھی کے ساتھ اور پھر شیر شاہ سوری کے جانشینوں کے ساتھ یہی بہادر افغان تھے جو اپنے بادشاہوں کو شکستوں سے نہ بچا سکے۔ 
ٹیکنالوجی‘ جدید ٹیکنالوجی! جدید ٹیکنالوجی کے بغیر… محض بموں سے‘ خودکش جیکٹوں سے‘ فوجیوں کو اغوا کرنے سے‘ آپ گوریلا جنگ تو سو سال بھی جاری رکھ سکتے ہیں لیکن حکومت نہیں قائم کر سکتے۔ آج محسودوں کے پاس اُسی معیار اور اُسی سطح کی جدید ٹیکنالوجی ہوتی جسے امریکی استعمال کر رہے ہیں‘ تو کیا نیک محمد‘ بیت اللہ اور حکیم اللہ محسود مارے جاتے؟ نہیں! کبھی نہیں! محسودوں کی جدید ٹیکنالوجی امریکی ڈرون جہازوں کے پرخچے اڑا دیتی۔ محسودوں نے اپنے ڈرون بگرام امریکی اڈے کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔ محسودوں کی ایٹمی آبدوزیں‘ بحرِ ہند میں کھڑے امریکی طیارہ بردار بیڑوں کو میلوں گہرے پانی میں جہنم رسید کردیتیں۔ اس لیے ’’من رباطِ الخیل‘‘ والی آیت کریمہ کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم سمیت کئی مفسرین نے زور دیا ہے‘ اس سے مراد وقت کی تازہ ترین ٹیکنالوجی والے ہتھیار ہیں! 
نہ جانے ہماری غیرت اُس وقت کہاں گم ہو جاتی ہے جب ہم امریکہ سے ’’مطالبہ‘‘ کرتے ہیں کہ ہمیں ڈرون ٹیکنالوجی دو! ہم جس سانس میں تسلیم کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ امریکہ عالم اسلام کا بدترین دشمن ہے‘ اُسی سانس میں کشکول آگے کر دیتے ہیں۔ کبھی دشمن بھی ٹیکنالوجی دیتا ہے؟ کیا 1925ء کے مارچ‘ اپریل اور مئی میں محسودوں نے برطانوی ایئر فورس سے اپنے لیے بمبار جہاز مانگے تھے؟ کیا جاپانیوں نے دوسری جنگ عظیم میں امریکیوں سے ’’مطالبہ‘‘ کیا تھا کہ تم نے ہیروشیما اور ناگاساکی تباہ کردیے‘ اب ایک ایٹم بم ہمیں بھی دو‘ ہم ذرا اسے واشنگٹن پر گرائیں! اور کیا ا مریکیوں نے ایٹم بم کسی سے مانگا تھا؟ کیا ڈرون مانگے کے ہیں؟

Thursday, November 07, 2013

بٹوارہ

مکار شیوا جی کو اورنگ زیب عالم گیر ’’پہاڑی چوہا‘‘ کہا کرتا تھا۔ مشہور مسلمان جرنیل افضل خان نے پے در پے شکستیں دے کر شیوا جی کو پرتاب گڑھ کے قلعے میں محصور ہونے پر مجبور کردیا۔ شیوا جی نے پیغام بھیجا کہ وہ ہتھیار ڈالنا چاہتا ہے بشرطیکہ افضل خان خود آئے۔ یہ نومبر 1659ء کا واقعہ ہے۔ شیوا جی نے قلعے کے ساتھ والی پہاڑی کے دامن میں خوبصورت استقبالیہ خیمہ نصب کرایا۔ جنگل کا ایک حصہ کاٹا اور اپنی فوج چھپا دی۔ طے ہوا تھا کہ دونوں ایک ایک باڈی گارڈ کے ساتھ آئیں گے۔ افضل خان کھرا آدمی تھا۔ ململ کے کُرتے میں آیا۔ شیوا جی نے پگڑی کے نیچے فولادی ٹوپی اور عبا کے نیچے زرہ پہنی ہوئی تھی۔ دائیں آستین میں خنجر تھا اور بائیں مٹھی میں رسوائے زمانہ مرہٹہ فولادی پنجہ۔ شیوا جی جھکتا کورنش بجا لاتا آیا۔ افضل خان گلے ملا تو شیوا جی نے پہلے فولادی پنجہ اور پھر خنجر پیٹ میں گھونپا۔ ضمیر جعفری نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے   ؎ 
سچ کہتا تھا افضل خان 
تری پورہ تا راجستان 
مر گیا ہندو میں انسان!
شیوا جی ہندوئوں کا ہیرو بن گیا اور مسلمانوں کا ولن۔ محمد بن قاسم اور محمد غوری مسلمانوں کے ہیرو تھے اور ہندوئوں کے ولن۔ یہ تھا وہ مرکزی نکتہ جس پر اختلاف تھا۔ باقی سارے اختلافات اسی نکتہ سے پھوٹ رہے تھے۔ آخر وہ دو گروہ اکٹھے کیسے رہ سکتے تھے جن میں سے ایک کے ہیرو دوسرے کے ولن ہوں اور ایک کے ولن دوسرے کے ہیرو ہوں! 
آپ غور کیجیے‘ کیا یہی وہ صورتِ حال نہیں جس سے ہم پاکستانی آج خود دوچار ہیں۔ فکری انتشار اس عروج پر ہے کہ آدھی قوم کے لیے حکیم اللہ محسود ہیرواور باقی آدھی کے لیے ولن ہے۔ سید منور حسن نے مصرع پیش کیا کہ حکیم اللہ محسود شہید ہے۔ الطاف حسین نے اس پر گرہ لگائی کہ وہ سینکڑوں معصوم پاکستانیوں کا قاتل ہے۔ منور حسن نے جواب آں غزل کے طور پر الطاف حسین کو قرآن پاک کے مطالعہ کی نصیحت کی۔ اسمبلی میں خورشید شاہ نے شہید کہنے پر احتجاج کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے فتویٰ دیا کہ امریکی جسے ماریں گے شہید کہلائے گا۔ ساتھ ہی کتا لپیٹ میں آ گیا۔ یہی ’’اتفاق‘‘ نیٹو سپلائی روکنے کے لیے دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایم کیو ایم اور اے این پی ایک طرف ہیں اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی خم ٹھونکے دوسری طرف کھڑی ہیں۔ 
تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ ایک ہی قوم کے ہیرو اور ولن الگ الگ ہو جائیں۔ آپ کسی مسجد میں چلے جائیے‘ مولوی صاحب جمعہ کے خطبہ میں ملا عمر کو امیر المومنین کہیں گے۔ کئی کالم نگار اسامہ بن لادن کو احتراماً ’’شیخ‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جو اپنی مجلسوں اور بحثوں میں ان حضرات کو دہشت گرد اور گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی قوم بحران سے نکل سکتی ہے؟ 
ہم چھیاسٹھ برسوں سے بھارت کے مقابلے میں کیوں ڈٹے ہوئے ہیں؟ اس لیے نہیں کہ ہم مسلح ہیں بلکہ اس لیے کہ ہم یکسو ہیں، پوری قوم متحد ہے۔ ایک قلیل، ازحد قلیل اقلیت کو چھوڑ کر ہر پاکستانی بھارت کے مقابلے میں یکساں جذ بات رکھتا ہے۔ پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ‘ پتلون پہنتا ہے یا پگڑی‘ تاجر ہے یا افسر‘ لشکری ہے یا سیاستدان‘ اس ضمن میں دو آراء نہیں کہ ہمیں بھارت کے مقابلے میں چوکس رہنا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کا موازنہ ایٹمی ہتھیاروں سے کرنا ہے۔ سیاچین سے لے کر سندھ کے صحرائوں تک اُس کا مقابلہ کرنا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ حل ہو نہ ہو‘ مطالبہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ فرض کیجیے‘ آج خدانخواستہ صورتِ حال ایسی ہو جائے کہ آدھی قوم بھارتی حکومت کو دوست اور خیرخواہ سمجھنے لگ جائے تو کیا باقی آدھی قوم بھارت کا مقابلہ کر سکے گی؟ 
فکری انتشار کے جس عروج کا ہم سامنا کر رہے ہیں، اُس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ڈرون حملے بند ہونے چاہئیں، نہیں بند ہونے چاہئیں، مذاکرات کرنے ہیں، نہیں لاحاصل ہوگا۔ امریکہ ڈرون حملوں سے ہماری مدد کر رہا ہے، نہیں ہماری خودمختاری متاثر ہو رہی ہے۔ اس کالم نگار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا ہے کہ ٹیلی ویژن چینل پر ایک ہی ادارے سے تعلق رکھنے والوں میں سے ایک یقین دلا رہا تھا کہ طالبان ہمارے دشمن نہیں‘ دوسرا اُس سے پوچھے جا رہا تھا کہ کیا طالبان نے بم دھماکوں کی اور ا تنے مسلمانوں کی موت کی ذمہ داری قبول نہیں کی؟ 
آدھی قوم اِدھر… آدھی اُدھر۔ اللہ کے بندو! غور کرو‘ یہ تقسیم‘ یہ بٹوارا راتوں رات وجود میں نہیں آیا‘ یہ درخت جو کڑوا پھل لایا ہے‘ جڑیں رکھتا ہے۔ اسے ہم خودپانی دیتے رہے ہیں۔ ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے قوم کو دو مختلف‘ متضاد اور متحارب حصوں میں بانٹ دیا ،دو متوازی لکیریں کھینچیں جو آپس میں مل نہیں سکتیں۔ ہم نے کچھ لاکھ‘ کچھ کروڑ بچوں کو سکولوں کالجوں میں ڈالا، پھر ہم نے کچھ لاکھ‘ کچھ کروڑ بچوں کو مدرسوں میں بھیجا۔ دونوں کے نہ صرف نصاب ہائے تعلیم الگ ہیں بلکہ لباس‘ خورونوش‘ رہن سہن‘ تفریح‘ کھیلیں سب الگ الگ ہیں۔ اساتذہ کے نکتہ ہائے نظر‘ انداز ہائے فکر الگ ہیں۔ اخبارات و رسائل اور جرائد اپنے اپنے ہیں۔ یہاں تک کہ رشتے ناتے الگ الگ ہیں۔ اس قصے کو تو چھوڑ دیجئے کہ مجموعی طور پر بریلوی‘ دیوبندی‘ شیعہ، سنی‘ اہلِ حدیث ایک دوسرے کے ہاں رشتے کرنے سے کتراتے ہیں، اس بات پر غور کیجئے کہ مدارس والے خاندان کالج یونیورسٹی والے خاندانوں سے عائلی حوالے سے دور ہیں۔ تبلیغی خاندان اپنے رشتے تبلیغی خاندانوں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ جو بچے مدرسے سے یا دارالعلوم سے فارغ التحصیل 
ہیں‘ اُسے اُس خاندان کی لڑکی راس نہیں آتی جس کے مرد تھری پیس سوٹ پہن کر صبح صبح یونیورسٹیوں‘ بینکوں یا دفتروں میں جا رہے ہوتے ہیں۔ جس بچے نے مقابلے کا امتحان پاس کیا ہے یا باہر سے ایم بی اے کر کے آیا ہے‘ وہ رشتے کے لیے اُس ثقافتی مناسبت کی تلاش میں ہے جو اُس کے لیے اجنبی نہ ہو۔ یہ دو الگ دنیائیں ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے مکمل مختلف۔ اس میں ایک رمق بھی مبالغہ آرائی نہیں کہ مدارس سے پڑھے ہوئوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل حضرات میں باہمی دوستیاں ہی مفقود ہیں۔ مستثنیات کی بات اور ہے۔ قاعدہ کلیہ عمومی صورتِ حال سے بنتا ہے۔ اب اس پس منظر میں قائداعظم کی اُس تقریر کا اقتباس دیکھیے جو انہوں نے 22 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کی: 
"The … and … belong to two different religious philosophies, social customs, literature. They neither intermarry nor interdine together and indeed they belong to two different civilizations which are based mainly on conflicting ideas and conceptions". 
آدھی قوم حکیم اللہ محسود کو شہید کہتی ہے باقی آدھی محمد علی جناح کو قائداعظم نہیں کہتی۔ دونوں کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے۔ طالبان اور ڈرون کا مسئلہ حل ہو بھی گیا تو یہ تفریق بُعدالمشرقین پیدا کرتی ہی رہے گی جب تک کہ اس کا مستقل حل نہ تلاش کر لیا جائے۔

Tuesday, November 05, 2013

وَرَفعنالک ذکرک

یورپ میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ’’ محمد‘‘ دنیا کا مقبول ترین نام ہے۔ اسی سروے میں بتایاگیا ہے کہ اس وقت پندرہ کروڑ افراد کا نام محمد ہے۔ 
زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ محمد نام کے لوگوں کی اصل تعداد پندرہ کروڑ سے بہت زیادہ ہوگی۔ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق مسلمانوں کی آبادی دو ارب ہے۔ اس میں سے اگر ساٹھ فیصد بھی عورتیں ہوں تو مردوں کی تعداد اسّی کروڑ بنتی ہے ۔اسّی کروڑ میں سے یقینا نصف سے زیادہ تعداد ایسے مردوں کی ہوگی جن کے ناموں کے شروع میں، یا درمیان میں یاآخرمیں محمد کا نام نامی آتا ہے۔
یہ تعداد پندرہ کروڑ یا چالیس کروڑ یا اس سے زیادہ یا اس سے کم، جتنی بھی ہے اس میں کیا شک ہے کہ یہ نام پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ یہ نام کروڑوں افراد کا تو اس لمحے میں ہے چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے کہ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جب یہ نام کروڑوں افراد کا نہ ہو ۔ایسے لوگوں کی کل تعداد کا تعین خدا کی ذات ہی کرسکتی ہے، یا اس کے حکم سے اس کے فرشتے کرسکتے ہیں۔
صدیوں سے اس نام پر کرہ ارض کے مرد، عورتیں ، بوڑھے ، بچے ، درود پاک بھیج رہے ہیں ۔کتنے درود پڑھے گئے ، کتنے سلام بھیجے گئے یہ صرف اس پروردگار ہی کو معلوم ہے جس کے علم میں ریت کے ذرے، سمندر کے قطرے ، کہکشائوں کے ستارے ، درختوں کے پتے اور انسانوں کی سانسیں ہیں۔
اس نام کا کیا ہی کہنا! کتنے لوگوں نے اس نام کو لکھا اور چوما، بار بار لکھا اور باربار چوما، کتنے اس نام کو سن کر بے اختیار صلی اللہ علیہ وسلم کا ورد کرنے لگتے ہیں، کتنوں کی آنکھیں بھیگ اٹھتی ہیں ،کتنوں کے دلوں کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، کتنوں کے سینوں میں وہاں جانے کی آرزو تڑپ تڑپ اٹھتی ہے جہاں اس نام کی ہستی ؐمحو استراحت ہے کتنوں کے لبوں پر یہ نام سن کر دل کی حسرت دعا بن جاتی ہے کہ حاضری نصیب ہو!
اس نام کا کیا ہی کہنا ! سبحان اللہ ! محمد ؐکے میم میں دنیا بھر کی مٹھاس ہے۔ یہ ’’ میم ‘‘ محمود ہے ، مشہود ہے ، مجتبیٰ ہے ، مصطفی ہے ، مزمل ہے ، مدثر ہے ، مصدق ہے، منصور ہے ، مصباح ہے ، مجیب ہے ، مامون ہے ، معلوم ہے ،معین ہے، منیر ہے ، مکرم ہے ، مبشر ہے ، مطّہر ہے۔
اس نام کی برکات سمیٹنے کے لیے کائنات کے پھیلتے کنارے، ہر دم ہر لحظہ پھیلتے کنارے ،کم پڑرہے ہیں۔ اس کی ’’ح‘‘ حاشیہ ہے جو ساری دنیائوں کے اردگرد کھینچا گیا ہے۔ حصار ہے جس کے اندر کروڑوں اربوں دل محفوظ و مامون ہیں۔ اس ’’ح‘‘ سے حب ہے ، حجت ہے، حرارت ہے، حیات ہے۔ حریت ہے جس پر لوگ جانیں قربان کردیتے ہیں۔ حرمت ہے اور اس نام کی حرمت پر لوگ اولاد کیا ماں باپ تک نچھاور کردیتے ہیں اور ہاں محمد کی’’ح ‘‘ سے حسن ہے ، حسن جو اس نام کے قدموں میں بیٹھا ہے کہ حسن کے سارے معیار ، سارے تقاضے صرف یہی نام پورے کرسکتا ہے۔’’ح‘‘ سے حضور ہے، حق ہے ،حقیقت ہے ،حکم ہے کہ اس ذات کے حکم پر کائنات کا ہر ذرہ جھکتا اور اڑتا چلا آتا ہے۔’’ح‘‘ سے حکیم 
ہے ، حلیم ہے ، حیا ہے ، حوصلہ ہے ، ’’ ح‘‘ سے حیرتیں ہیں ، جن کے در یہ نام وا کرتا ہے۔
اس نام میں تقدیس سے بھرے اس نام میں ’’ میم ‘‘ دوسری بار آتا ہے۔ ’’ میم ‘‘ ماورا ہے کہ سامنے والی دنیا تو اس نام کا احاطہ ہی نہیں کرسکتی۔ یہ میم مامتا ہے کہ مائیں اپنے لخت ہائے جگر کو اس نام پر قربان کرنا فخر سمجھتی ہیں ۔یہ مانگ ہے جس سے زندگی کی زلف کا حسن دوچند ہوتا ہے۔ یہ ماہ کامل ہے جو چودہ صدیاں قبل چڑھا اور آج تک ڈوبا ہے نہ ڈوبے گا۔ یہ میلاد ہے کہ جب بھی وہ تاریخ آتی ہے جہانوں میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ یہ میم مبارک ہے، مبعوث ہے، مبسوط ہے، متاع ہے ، محافظ ہے ، محبوب ہے ، محسن ہے ، مختارہے ، مدام ہے، مدلل ہے ،مدنی ہے،مکّی ہے، مراد ہے ، مرحبا ہے ، مرصع ہے ، مزکّی ہے ، مسکراہٹ ہے ، مسلسل ہے ، مشفق ہے ، مشک ہے ، معتبر ہے، معتدل ہے ، معنبر ہے ، معجزہ ہے ، معراج ہے ، معزز ہے ، معظم ہے ، مطلوب ہے ، مفتاح ہے ، مفرح ہے ، مقبول ہے ، مقتدر ہے ، مکمل ہے ، ملائم ہے ،ممتاز ہے ، من موہن ہے اور موتی ہے۔
اس نام کی تعریف آج تک کوئی نہیں کرسکا، جس نے بھی کیا ، عجز اور بے بسی کا اظہار کیا ۔غالب جیسے نکتہ سنج نے کہا تو یہ کہا    ؎
غالب ثنائی خواجہؐ بہ یزدان گذاشتیم 
کآن ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است 
کہ پروردگار خود ہی اس نام کی تعریف کرسکتا ہے۔ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ نظامی نے خرد کو آپ کے قدموں کی خاک قرار دیا اور کہا کہ دونوں جہان آپ کے فتراک سے بندھے ہیں۔ حافظ ظہور نے تو بات ہی ختم کردی   ؎
ہے شان تری اس سے کہیں ارفع و اعلیٰ
جو لفظ تری شان کے شایان نظر آیا
کسی نے عجز کا اظہار یوں کیا کہ منہ کو ہزاروں بار مشک و گلاب سے دھوئیں تب بھی یہ نام لینے کے لیے ادب کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
اس نام کی صفات کا شمار ممکن ہی نہیں۔ اس کے آخر میں ’’د‘‘ ہے ۔ یہ ’’ د‘‘ داد رسی ہے جو مسکینوں کی داد رسی کرتا ہے۔ یہ دارالامان ہے جہاں دنیا بھر کے ستائے سر چھپاتے ہیں۔یہ دامن ہے جس کے سائے تلے خلقت آرام پاتی ہے ،یہ دانش ہے جو عقدے کھولتی ہے اور معمے حل کرتی ہے۔ یہ دانا ہے جو راستہ بتاتا ہے۔ یہ دائرہ ہے زمان و مکان جس سے باہر نکلنے کا حوصلہ نہیں پاتے۔ یہ دائم ہے جو قیامت تک اور قیامت کے بعد بھی رہے گا۔ یہ دفتر ہے جس کے اوراق شمار سے باہر ہیں ۔ یہ دروازہ ہے خدا کی قسم وہ دروازہ جس کی چوکھٹ پر چاند ستارے سورج کہکشائیں  کائناتیں جہان وقت سب دو زانو بیٹھے ہیں۔ ایسا دروازہ جو کسی پر بند نہیں ہوتا کہ وہ مجسم رحمت تو راستے میں کانٹے بچھانے والوں کی بھی دست گیری کرتے تھے۔
محمد ؐکا ’’ د‘‘ دربار ہے جہاں شہنشاہ غلاموں کی طرح حاضر ہوتے ہیں۔ درخشاں ہے جو افق افق روشنی بکھیر رہا ہے، درود ہے جو مسلسل زمینوں سے آسمانوں کی طرف جارہا ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتا، درس گاہ ہے جہاں سقراط اور ارسطو ، افلاطون اور جالینوس ، جیسے کروڑوں حکیم ،فلسفی ،دانشور آپ کے غلاموں کے غلاموں کے جوتے سیدھے کرتے ہیں۔یہ ’’د‘‘ دریا ہے جو ہمیشہ بہتا رہے گا۔ دستاویز ہے جس میں زمانوں اور جہانوں کی ملکیت کا گوشوارہ ہے۔ دستور ہے جس سے کائنات کا نظام چل رہا ہے ،دعوت ہے جو خاص و عام کے لیے ہے، دعا ہے جس کی قبولیت کا وعدہ ہے، دعویٰ ہے جسے کوئی نہیں جھٹلا سکتا ، دل آویزی اور دلکشی ہے ،دلبری اور دل بستگی ہے، دلداری اور دلگیری ہے۔ دلاسا ہے ،دلیل ہے ، دمک ہے ، دوراندیشی ہے ،دوستی ہے دیانت ہے۔
جب تک دنیا قائم ہے یہ نام بلند رہے گا۔ پھر جب حشر اٹھے گا تو ہر طرف چلچلاتی کڑکتی کوڑے برساتی قیامت ڈھاتی دھوپ ہوگی اور اس دھوپ میں صرف اس نام ہی کی چھائوں ہوگی ،وہ سب جو آج تک پیدا ہوئے اور وہ بھی جو قیامت تک پیدا ہوں گے اس نام پر درود و سلام پڑھتے رہیں گے۔

Friday, November 01, 2013

ٹھیکے پر دے دیجیے

کیا کسی اور ملک میں بھی ایسا ہو رہا ہے؟ کیا خطّے کے دیگر دارالحکومت ایسا منظر پیش کر رہے ہیں؟ 
ڈرون حملے؟ طالبان کے ساتھ معاملات؟ آسمان سے باتیں کرتی گرانی کا سدباب؟ کراچی میں ہر روز برپا ہونے والی قیامت کا علاج؟ یہ تو بڑے بڑے معاملات ہیں۔ جس ریاست کا دارالحکومت بے یارومددگار ہو اور جنگل کا سماں پیش کر رہا ہو‘ اُس سے اور کیا امید باندھی جا سکتی ہے؟ 
پاکستانی دارالحکومت کی کل آبادی چھ لاکھ ہے۔ ایک سال میں 689 گاڑیاں چوری ہوئی ہیں۔ تہران کی آبادی اسّی لاکھ ہے۔ دہلی کی (مضافات کو چھوڑ کر) ایک کروڑ ہے۔ 74 لاکھ گاڑیاں چل رہی ہیں۔ آٹھ ہزار سالانہ چوری ہوتی ہیں جن میں سے اکثر تلاش کر لی جاتی ہیں۔ اس نسبت تناسب کو سامنے رکھیں تو اسلام آباد سے سالانہ چوری تین سو سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ وزیر صاحب بتاتے ہیں کہ ان تقریباً سات سو گاڑیوں میں سے صرف 75 کا سراغ مل سکا۔ یہ کالم نگار دعوے سے کہتا ہے کہ مقابلہ کر لیجیے‘ تہران اور دہلی کی نسبت پولیس کی تعداد اسلام آباد میں کہیں زیادہ ہے۔ فی کس حساب سامنے رکھ لیجیے۔ چھ لاکھ آبادی کے اوپر گریڈ بائیس کا انسپکٹر جنرل پولیس بیٹھا ہے۔ نیچے کے افسروں کا شمار ہی نہیں۔ تزک و احتشام‘ تام جھام‘ شان و شوکت‘ گاڑیوں کے قافلے اس پر مستزاد ہیں۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانا ہو تو گارڈ متحرک ہو جاتی ہے۔ ان کے محلات پر پہرہ دینے والے جوانوں اور افسروں کا شمار کر کے اطلاع دی جائے تو نیم مردہ عوام پر سکتہ طاری ہو جائے۔ قوم کے خون پسینے کی کمائی کہاں کہاں کس کس طرح خرچ ہو رہی ہے‘ کیسے اڑائی جا رہی ہے؟ وزیر صاحب نے چوری کی گاڑیوں کی سالانہ تعداد بتائی ہے۔ ایک اور کرم فرمائی کریں‘ اسلام آباد میں تعینات پولیس کے افسروں اور جوانوں کی کل تعداد بھی بتا دیں۔ ان پر ہر سال اٹھنے والے اخراجات سے بھی قوم کو آگاہ فرمادیں‘ جوانوں کی جو تعداد ان افسروں‘ ان کے اہلِ خانہ ا ور ان کے عشرت کدوں کی حفاظت پر مامور ہے‘ اس سے بھی مطلع کردیں۔ آپ بھی شرمسار ہوں۔ قوم کو بھی شرمسار کریں! 
سب جانتے ہیں کہ چوری کی اس بلند ترین شرح کی کیا وجہ ہے؟ کون کس کے ساتھ ملا ہوا ہے؟ دودھ کی رکھوالی کس کے سپرد ہے؟ تاریں کہاں کہاں جُڑی ہوئی ہیں۔ جہاں چرواہا بھیڑوں کو پکڑ پکڑ کر بھیڑیے کے حوالے کر رہا ہو؟ جہاں باڑ خود کھیت کو تر نوالہ بنا رہی ہو؟ اُس خدا کی قسم! جس کے حضور دارالحکومت کے بے بس باشندے فریاد کر رہے ہیں‘ آج اگر وہ جو حفاظت پر مامور ہیں‘ مافیا سے تعلق توڑ لیں اور عزم کر لیں کہ اپنے بچوں کے منہ میں حلال کی چوگ ڈالیں گے تو یہ شرح حیرت انگیز حد تک کم ہو سکتی ہے۔ لیکن مافیا اس قدر طاقت ور ہے کہ سکندر حیات جیسا دیانت دار اور نیک نام سربراہ بھی بے بس ہے۔ 
شارجہ میں سالِ رواں کے آغاز میں گاڑیوں کی چوری زیادہ ہونے لگی تو پولیس نے سخت ترین اقدامات کیے۔ یہ اقدامات مریخ سے نہیں اتارے گئے۔ کوئی بھی پولیس جو اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہوگی‘ اپنی ریاست کی وفادار ہوگی اور جس کی ملازمت کا مقصد صرف اور صرف اکلِ حلال ہوگا یہی اقدامات کرے گی! شارجہ کے باشندے امن و ا مان کی صورتِ حال سے اتنے شادکام تھے کہ انہوں نے گاڑیوں کو پارک کرنے کے بعد مقفّل کرنا ترک کردیا۔ یہاں تک کہ انجن چلتے ہوئے چھوڑ جاتے تھے۔ چوروں کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ صورتِ حال کارآمد ثابت ہوئی۔ اب پولیس نے قانون بنایا ہے کہ ایسا کرنے والے شخص پر تین سو درہم جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ چوری کی وارداتیں صرف شارجہ میں زیادہ ہوئیں لیکن پورے متحدہ عرب امارات میں پولیس کی نقل و حرکت میں اضافہ کردیا گیا۔ پارکنگ والی جگہیں رات دن‘ چوبیس گھنٹے‘ کنٹرول روم سے جوڑ دی گئی ہیں جہاں ہر لحظہ‘ ہر ثانیہ نگرانی کی جا رہی ہے۔ پولیس کی مستعدی کی انتہا دیکھیے کہ چابیاں تیار کرنے والے ایک ایک دکاندار کی نگرانی شروع کردی گئی کہ کون کون جعلی چابیاں بنا رہا ہے۔ اس محنتِ شاقہ اور اس اخلاص کا نتیجہ یہ نکلا کہ سال کے اختتام پر چوری کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہوگئی۔ 
ظلم کی انتہا دیکھیے کہ پاکستان کے دارالحکومت میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے۔ بسوں کا وجود ہی نہیں۔ ویگنیں اور سوزوکیاں مسافروں سے وہی سلوک کر رہی ہیں جو ان کے بھائی پولیس کی وردی پہن کر گاڑیوں کے مالکان سے کر رہے ہیں۔ ایسے میں ایک شخص خون پسینے کی کمائی سے‘ بچوں کا پیٹ کاٹ کر‘ گاڑی خریدتا ہے تاکہ اس کے اہل و عیال ٹریفک کی ذلت آمیز صورتِ حال میں آرام کا سانس لے سکیں۔ لیکن افسوس! صد افسوس! وہ کار چوری ہو جاتی ہے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کار چوری ہونے کے بعد مالک پولیس کو چوری کی رپورٹ کرتے ہوئے ڈرتا ہے کہ کار تو گئی‘ جو سازو سامان گھر میں بچ گیا ہے‘ اس سے بھی محروم نہ ہو جائے۔ 
اس کالم نگار نے تاشقند جیسے پسماندہ شہر میں زیر زمین ریلوے کا چاق و چوبند نظام دیکھا ہے۔ ہر چند منٹ کے بعد ریل گاڑی آتی ہے۔ خودکار دروازے کھلتے ہیں‘ مسافر اترتے اور چڑھتے ہیں۔ دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ شہر بھر میں بسیں دوڑتی پھرتی ہیں۔ چلیے‘ یہ تو روسی استعمار کا تحفہ تھا۔ دلی میں تو انگریز انڈر گرائونڈ ریلوے بنا کر نہیں گئے تھے۔ چھ لائنوں پر مشتمل یہ نظام ایک سو نوے کلو میٹر لمبی پٹڑیوں پر قائم ہے۔ ایک دن میں دو ہزار سات سو پھیرے لگانے والی ٹرینیں ہر دو منٹ چالیس سیکنڈ بعد میسر آ رہی ہیں۔ صبح چھ بجے سے رات گیارہ بجے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بیس لاکھ مسافر ہر روز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس 
کی منصوبہ بندی 1984ء میں آغاز ہو گئی تھی۔ یہ 1984ء ہمارے ہاں بھی آیا تھا اور پورے تین سو پینسٹھ دن موجود رہا۔ تعمیر 1998ء میں ابتدا ہوئی۔ 2002ء میں پہلی انڈر گرائونڈ ریل چل پڑی۔ منافع پہلے سال ہی آنا شروع ہوگیا۔ جیسا کہ تمام بڑے ملکوں میں ہو رہا ہے‘ دہلی میں بھی ہر سٹیشن پر اے ٹی ایم‘ چائے خانوں‘ سپر سٹوروں کی سہولت موجود ہے۔ 
لیکن دوسری طرف بھارت کے حکمرانوں نے اپنی دولت دساور نہیں بھیجی۔ اب تو وہاں Reverse-Brain-Drain شروع ہو چکا ہے۔ یعنی بھارتی دوسرے ملکوں کی ملازمتیں چھوڑ چھوڑ کر واپس آ رہے ہیں۔ سید منور حسن نے کل پاکستان کے وزیراعظم سے اپیل کی ہے کہ بیرون ملک ان کی جو دولت جمع ہے اور جو اربوں روپے کے اثاثے ہیں وہ ملک میں لے آئیں تو ملک معاشی لحاظ سے ترقی کر سکتا ہے کیونکہ خالی بیانات دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اگر میاں محمد نوازشریف اور آصف علی زرداری اپنی دولت گھر واپس لے آئیں‘ اس سے ملک کے بڑے شہروں میں زیر زمین ریلوے پر سرمایہ کاری کریں اور بے شک پانچ سال تک سارا منافع خود لے لیں تو ان کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا اور عوام کو فائدہ اس کے علاوہ ہوگا۔ 
بات دور نکل گئی۔ قصہ دارالحکومت میں گاڑیوں کی بے تحاشا چوریوں سے شروع ہوا تھا۔ چھ لاکھ آبادی کے شہر میں سالانہ سات سو گاڑیاں چوری ہو رہی ہیں۔ ہمارے انگریز آقائوں نے ایک لفظ ’’آئوٹ سورس‘‘ ایجاد کیا ہے۔ عوام پر رحم کیجیے اور دارالحکومت کی حفاظت کا کام کسی کو ٹھیکے پر دے دیجیے۔

 

powered by worldwanders.com