Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, June 29, 2020

مسائل‘‘ جو ہمیں در پیش ہیں

پٹرول کی قیمت میں یکدم پچیس چھبیس روپے فی لٹر کا اضافہ ہو گیا۔ مگر یہ اصل مسئلہ نہیں!
پہلے چینی کے حوالے سے اہلِ خیر نے کروڑوں اربوں کمائے۔ چینی کا ایک بہت بڑا ٹائیکون چارٹرڈ جہاز پر بیٹھ کر ملک سے چلا گیا اور اُس دیار میں پہنچ گیا جو اُس سمیت بہت سوں کے لیے ارضِ موعود (Promised land) ہے۔
پھر پٹرول کی قلت پیدا کی گئی۔ اب قیمت بڑھی ہے تو پٹرول باہر نکلے گا۔ مگر یہ بھی اصل مسئلہ نہیں!
ہمارے مسائل اور نوعیت کے ہیں۔ اہم ترین مسئلہ جو قوم کو آج در پیش ہے‘ یہ ہے کہ اسامہ بن لادن شہید تھا یا نہیں؟ قوم اس مسئلے پر دو واضح گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر شہید کہنے والے اور نہ کہنے والوں کی بھرمار ہے! وہ تو خدا کا شکر ہے کہ سوشل میڈیا پر دونوں گروہ جسمانی طور پر آمنے سامنے نہیں آ سکتے ورنہ خون کی ندیاں بہہ چکی ہوتیں۔ کسان کا بیٹا جو دوسری جنگ عظیم میں بھرتی ہوا تھا‘ بہت سخت تھا۔ کسان کو معلوم ہوا کہ ہٹلر بھی سخت ہے۔ وہ ڈرا کہ دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو کیا بنے گا؟ 
اس نوع کے مسائل ہم چھیڑتے رہتے ہیں۔ کبھی خود! کبھی کسی کی انگیخت پر! تا کہ پٹرول اور چینی جیسے ایشوز پس منظر ہی میں رہیں! اس سے پہلے ایک صاحب نے ٹیلی ویژن پر اسی نوعیت کا ایک اور مسئلہ چھیڑا تھا۔ اب یہ جو نیا سیاپا اٹھایا گیا ہے! اندیشہ ہے کہ ہفتوں چلے گا!
زندگی اور موت جس پر منحصر ہے‘ وہ ایک اور مسئلہ بھی ان دنوں پیش منظر پر چھایا ہوا ہے! مندر کی تعمیر !! قوم پریشان ہے۔ آدھے اس کے حق میں ہیں۔ آدھے اسے ایمان اور اسلام کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں! امید واثق ہے کہ یہ قضیّہ بھی ہفتوں نہیں مہینوں چلے گا۔ اس کی آڑ میں پٹرول مافیا بھی شوگر مافیا کی طرح بچ نکلے گا! پھر ایک اور مافیا آ دھمکے گا!
ہماری ذمہ داریوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے ہم زندگیوں کے ذمہ دار تھے کہ فلاں اگر زندہ ہے تو مسلمان ہے یا نہیں! اب ہم نے ترقی کر لی ہے۔ اب ہم حیات بعد الموت کے بھی ٹھیکیدار ہیں۔ یہ ہم پر منحصر ہے اور یہ ہمارا اختیار ہے کہ کس کو شہادت کا درجہ دیں اور کس کو غیر شہادت کا۔ جسے چاہیں جنت میں بھیجیں اور جسے چاہیں جہنم کا ایندھن قرار دیں!
کورونا کے حوالے سے سازشی نظریات تو دوسرے ملکوں میں بھی چلے مگر شاید ہم واحد ملک ہیں جس نے کورونا کے وجود ہی کو چیلنج کر دیا! اَن پڑھ تو اَن پڑھ‘ اچھے خاصے پڑھے لکھوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ کورونا قسم کا کوئی وائرس یا بیماری موجود ہے! اپنے وجود کو تسلیم کرانے کے لیے کورونا کو کئی پاپڑ بیلنے پڑے۔ لوگ باگ پوچھتے تھے کہ کیا اپنی آنکھوں سے کورونا کا کوئی مریض دیکھا ہے؟ کورونا نے ہر شخص کو مریض دکھا دیئے۔ نہ ماننے والوں کے سامنے جنازوں پر جنازے اٹھے! حفیظ جالندھری نے کہا تھا؎
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
کورونا نے بھی فتح مندی کے بعد یہی شعر پڑھا ہو گا!
صنعت‘ زراعت‘ درآمدات‘ برآمدات‘ بجٹ‘ گرانی‘ تعلیم‘ زرعی اصلاحات‘ صحت‘ بنیادی حقوق‘ فیصلوں میں غیر معمولی تاخیر‘ محکموں میں سرخ فیتہ‘ یہ مسائل تو ہمیں مسائل لگتے ہی نہیں! بہادری کا یہ عالم ہے کہ یہ سب ایشوز پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں! ہمارے مسائل آفاقی‘ مابعد الطبیعاتی اور غیر مرئی ہیں! ایک صاحب نے یہ ایشو چھیڑا کہ اللہ تعالیٰ کواللہ تعالیٰ ہی کہنا چاہیے‘ خدا نہیں کہنا چاہیے۔ چودہ پندہ سو برسوں سے خدا کا لفظ استعمال ہو رہا ہے! بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر! ہر شخص کی زبان پر ہے۔ صدیوں سے خدا حافظ کہا جا رہا ہے!
حکومتوں کے مزے ہیں۔ جو بھی حکومت ہو‘ زرداری صاحب کی‘ میاں صاحبان کی‘ عمران خان کی‘ جنرل ضیاء الحق کی‘ اپنی دُھن میں مست رہتی ہے۔ عوام انہی پریشانیوں میں گرفتار رہتے ہیں جن کی مثالیں ہم نے اوپر دی ہیں!
پائلٹوں کی ایسوسی ایشن نے الگ معاملہ اٹھایا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ پائلٹوں کے لائسنس کیسے جعلی ہو سکتے ہیں؟ شاہد خاقان عباسی تو خیر خود پارٹی ہیں اس لیے کہ ایک ائیر لائن کے مالک ہیں مگر پالپا کے اس پوائنٹ میں خاصا وزن ہے کہ تشہیر سے پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے اور غیر ملکی ائیر لائنوں میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹوں کو عجیب نظروں سے دیکھا جائے گا۔ وفاقی وزیر کے بیان کا ردِّ عمل سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔ کئی ملکوں نے پاکستانی پائلٹوں اور انجینئروں کو گرائونڈ کر دیا ہے۔ فہرستیں بن رہی ہیں۔ صاف معلوم ہو رہا ہے کہ پاکستانی پائلٹ اب کہیں بھی قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔ اپنی ہی حکومت کا بیان ان کے گلے کا پھندا بن رہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ خاموشی سے جعل سازوں کو پکڑ کر سخت سزائیں دی جاتیں۔ تادمِ تحریر‘ نہیں معلوم کہ کسی کو پکڑا بھی گیا ہے یا نہیں! فہرست کی ثقاہت کا یہ حال ہے کہ مبینہ طور پر ان پائلٹوں کے نام بھی شامل ہیں جو دنیا سے رحلت کر چکے۔
ابھی تو یہ بھی معلوم نہیں کہ انجینئرنگ‘ حسابات اور دوسرے شعبوں میں جعلی ڈگری ہولڈر ہیں! ایک سابق وزیر اعلیٰ تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے‘ جعلی ہو یا اصلی!!
نیا جھگڑا مغلوں کی تاریخ پر بھی پڑا ہوا ہے۔ پہلے چھ بادشاہوں کا عرصۂ اقتدار ایک سو پچاس سال نہیں‘ ایک سو اکاسی برس ہے۔ یعنی 1526ء سے لے کر 1707ء تک! اس میں سے پندرہ برس سُوری خاندان کے نکال دیں تو یہ عرصہ ایک سو چھیاسٹھ سال رہ جاتا ہے۔ رہا مسئلہ اورنگ زیب کے بعد کا تو اس میں عمران خان اور خواجہ آصف دونوں اپنی اپنی جگہ درست کہہ رہے ہیں‘ وزیر اعظم جب کہتے ہیں کہ اورنگ زیب کے بعد چھ فرماں روا صرف تیرہ برس نکال سکے تو یہ واقعاتی طور پر درست ہے! اورنگ زیب کی وفات (1707ء) کے بعد تیرہ سال 1720ء میں پورے ہوئے۔ ان تیرہ برسوں میں چھ ہی بادشاہ تھے۔ کسی کو تین برس ملے‘ کسی کو تین سو پچاس دن! کسی کو دو سو تریپن دن! کسی کو صرف اٹھانوے دن!
دوسری طرف خواجہ آصف جب کہتے ہیں کہ 1707ء سے لے کر 1857ء تک چودہ (یا تیرہ؟) بادشاہ حکمران رہے‘ وہ بھی صحیح ہے۔ وزیر اعظم نے صرف پہلے تیرہ برس کا ذکر کیا جب کہ خواجہ صاحب کُل ڈیڑھ سو برس کا حساب لگا رہے ہیں! اس معاملے میں کمیشن بٹھانے کی ضرورت نہیں!
ہاں ایک اشکال یہ ابھرا ہے کہ وزیر اعظم ایک طرف کہتے ہیں کہ بادشاہت کی وجہ سے مسلمان پیچھے رہ گیا اور مغرب آگے نکل گیا کیونکہ بادشاہت میں میرٹ نہیں ہوتا۔ مگر اُسی سانس میں وہ پہلے چھ مغل بادشاہوں کی تعریف بھی کرتے ہیں!!
پہلے چھ مغل بادشاہوں نے کمال کیا کہ ان کے سامنے انگریز‘ پرتگالی اور فرانسیسی بحری جہازوں سے اُتر کر ہندوستان کے مغربی‘ مشرقی اور جنوبی ساحلوں پر ''تجارتی‘‘ کوٹھیاں تعمیر کرتے رہے اور ہمارے بادشاہ کبھی تختِ طائوس بنواتے رہے اور کبھی کئی کئی ہفتے تاج پوشی کے جشن مناتے رہے۔ خدا نرم معاملہ کرے اورنگ زیب عالم گیر کے ساتھ! پچیس برس دکن میں گزار دیئے۔ جن مسلمان ریاستوں (بیجا پور‘ گولکنڈہ‘ احمد نگر) نے مرہٹوں کو زیر کر کے رکھا ہوا تھا‘ اُن ریاستوں کو بزعمِ خویش فتح کیا۔ مغل سلطنت ''وسیع تر ‘‘ ہو گئی مگر مرہٹہ جِن بوتل سے نکل آیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ ہم سب جانتے ہیں!!

Thursday, June 25, 2020

معاملات باہر نہ جائیں

‘‘ 

یہ ایک عجیب و غریب صورتِ حال ہے، جس میں وفاقی حکومت کا سربراہ ایک صوبے میں جاتا ہے مگر صوبائی حکومت کے سربراہ سے ملاقات نہیں کرتا!
سیاست اور حکومت... جمہوریت میں جڑواں بہنیں ہیں۔ یہاں مخالفت مستقل ہے نہ موافقت! کسی بھی ایشو پر، اختلاف ہو سکتا ہے! مگر کیا اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کی طرح کُٹی کر لی جائے؟ وزیر اعظم حکومت کے سربراہ ہیں۔ ان کا نمائندہ یا نائب، صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے! گورنر نہیں! گورنر تو ریاست کا نمائندہ ہے! حکومت وزیر اعلیٰ چلاتا ہے! اگر وزیر اعظم سندھ جا کر اپنی پارٹی کی کور کمیٹی سے ملتے ہیں اور صرف گورنر سے! اور ان کے پروگرام میں اور تو سب کچھ ہے، صوبائی حکومت کے سربراہ سے ملاقات کا پروگرام نہیں، تو نرم ترین الفاظ میں بھی اسے سیاسی ناپختگی ہی کہیں گے۔
کئی دیگر معاملات میں خود وزیر اعظم کے عمل نے ثابت کیا ہے کہ سیاست میں مخالفت دائمی نہیں ہوتی۔ قاف لیگ کے رہنمائوں اور راولپنڈی کے ایک سیاست دان کے بارے میں اُن کے ریمارکس ریکارڈ پر ہیں جنہیں یہاں نقل کرنا مناسب نہیں! مگر یہی حضرات آج موجودہ حکومت کے اتحادی ہیں! اہم اتحادی!! وزیر اعظم اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگر وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرتے، انہیں طلب ہی کر لیتے اور کورونا سے پیدا شدہ صورت حال پر کچھ سنتے، کچھ سناتے تو وفاق کا بندھن اس سے ضعیف نہیں، قوی ہوتا، گورنر اور ایک وفاقی وزیر... صوبے کی صورت حال پر آخر کتنا کچھ بریف کر سکتے ہیں!
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جب اپنے آئین میں ترمیم کر کے بدنیتی اور ظلم کا ارتکاب کیا تو یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا ایشو تھا! قوم توقع کر رہی تھی کہ اس موقع پر بھی وزیراعظم اپوزیشن سمیت تمام سیاسی رہنمائوں کو اعتماد میں لیں گے‘ مگر ایسا نہ ہوا۔ اگر وہ ایک آل پارٹیز کانفرنس اس ضمن میں بلاتے تو ان کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا۔ حزبِ اختلاف میں سے اگر کوئی ایسی کانفرنس کا بائیکاٹ کرتا، تو اس کی اپنی پوزیشن پر سوالیہ نشان لگتا!
یہ بات تواتر کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد عمران خان صاحب صرف تحریک انصاف کے سربراہ نہیں، وفاقی حکومت کے بھی سربراہ ہیں! وفاق کی تمام اکائیوں کو ساتھ لے کر چلنا ان کا فرضِ منصبی ہے۔ اگر وہ ان کے پاس جا کر بھی ان سے ملاقات نہیں کریں گے تو یہ اکائیوں کے لیے ایک صحت مند پیغام نہیں ہو گا۔ ریاض مجید کا شعر یاد آ رہا ہے؎
اے زمیں! ہم خاک زادوں سے جدا ہے کس لیے
ہم ترے بچے ہیں، ماں! ہم سے خفا ہے کس لیے
اس کالم نگار کا پیپلز پارٹی سے تعلق ہے نہ مراد علی شاہ سے شناسائی! مگر ابتلا کے اس دور میں سندھ کے وزیر اعلیٰ ایک متحرک اور فعال شخصیت بن کر ابھرے ہیں۔ مخالفت میں بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر کورونا کے حوالے سے ان کی تشویش اور اقدامات... دونوں... قابلِ ستائش رہے! کاش! اس نازک مرحلے پر وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی رہتی مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! یہاں عوام جس شے کی تمنا کریں وہی عنقا ہو جاتی ہے؎
ہمارے بھاگ میں لکھے گئے ہیں تہہ خانے
کہ آرزو تھی ہمیں صحن میں نکلنے کی
فواد چوہدری کا انٹرویو ایک افق سے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے افق تک چھا گیا! یہاں تک کہ کابینہ کے اجلاس کو بھی اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وزیر اعظم نے مبینہ طور پر تلقین کی کہ ''معاملات باہر نہ جائیں...‘‘! یہ تلقین دلچسپ ہے! کیا ریاست مدینہ میں حکومت کے سربراہ اپنے مشیروں اور ساتھیوں کو یہی ہدایت دیتے تھے کہ معاملات باہر نہ جائیں؟ یا معاملات شفاف ہوتے تھے۔ کھلی کتاب کی طرح؟ باہر اور اندر کی تفریق نہیں تھی! سوال یہ ہے کہ ایسا کچھ کیا ہی کیوں جائے جسے پردۂ اخفا میں رکھنے کی ضرورت پڑے؟
فواد چودھری صاحب کے انٹرویو سے بہت کچھ چھن کر باہر آیا ہے۔ بنیادی طور پر ان کے دو نکات ایسے ہیں جن سے موجودہ حکومت کے طریق کار (Modus operandi) پر روشنی پڑ رہی ہے۔ اوّل: بہترین لوگوں کو عہدوں پر لگانے کے بجائے کمزور اور ڈکٹیشن لینے والے لوگوں کو لگایا گیا ہے۔ فواد کہتے ہیں ''ہم نے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن بات نہیں بنی‘‘۔ دوم: سیاسی کلاس آئوٹ ہو گئی اور ان کی جگہ بیورو کریٹس نے لے لی۔
یہ بات کہ عہدوں پر کمزور اور ڈکٹیشن لینے والے لوگوں کو لگایا گیا ہے، کسی دھند کے بغیر، پیش منظر پر صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اس ضمن میں اتنا کچھ کہا اور لکھا گیا ہے کہ شاید ہی کسی اور ایشو پر کہا اور لکھا گیا ہو! مگر ع
واں ایک خامشی تری، سب کے جواب میں
کائنات کے جو لا ینحل مسائل ہیں، جیسے انسانی زندگی کی ابتدا کب ہوئی، خاتمہ کب ہو گا، آسٹریلیا، ایشیا سے کب جدا ہوا، اور بہت سے دوسرے، ان میں اب ایک اور لا ینحل مسئلے کا اضافہ ہوا ہے کہ جناب بزدار کو کس بنیاد پر ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کا حکمران بنایا گیا اور یہ کہ وہ کس کی دریافت ہیں؟ سب اپنے اپنے اندازے لگا رہے ہیں۔ ڈور کو سلجھا رہے ہیں اور سرا ملتا نہیں! اندازوں کے ڈانڈے کہاں جا ملتے ہیں؟ اس بارے میں بات نہ کرنا ہی مناسب ہے!
نبض پر جو ہاتھ فواد چوہدری نے بیوروکریسی کی مکمل حاکمیت کے حوالے سے رکھا ہے وہ بالکل صحیح ہے! کہتے ہیں ''ڈاکٹر عشرت حسین 1968ء سے یہ کام کر رہے ہیں۔ انہیں اصلاحات لانا ہوتیں تو پہلے لے آتے...‘‘!
ڈاکٹر عشرت حسین کی اس حکومت میں تعیناتی کے بعد اس کالم نگار نے سب سے پہلے یہی بات کی تھی جو آج فواد چوہدری کر رہے ہیں۔ کالم بھی لکھے۔ ٹی وی پر بھی دہائی دی۔ ڈاکٹر صاحب ذہنی طور پر سول سروس کے اُس خاص گروپ سے باہر نکلے ہی نہیں جس میں چھپن سال پہلے وہ اترے تھے۔ اصلاحات کی جو شکل بھی وہ پیش کریں گے (اگر پیش کی تو) اس میں یہ خاص گروپ ہی غالب رہے گا۔ لمحۂ موجود میں زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایک خاص گروپ کے سوا، سول سروس کے تمام گروپ دل شکستہ، نا امید اور آشفتہ حال ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومت کے سربراہ کو اس زمینی حقیقت کا کوئی اندازہ نہیں کیونکہ ان کے اردگرد اس مخصوص گروہ نے مضبوط حصار بنا رکھا ہے! بیورو کریسی کی جتنی مضبوط گرفت اس عہد میں ہے، گزشتہ ادوار میں شاید ہی اس کی کوئی مثال ہو! اس کی ایک خفیف سی جھلک کل کی اس خبر میں دیکھیے کہ ایک بیوروکریٹ نے مدتِ ملازمت ختم ہونے سے ایک سال پہلے ریٹائرمنٹ لی اور فوراً انہیں صوبائی محتسب کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا۔ وجہ ظاہر ہے کہ اگر وہ ایک سال بعد، ریٹائر ہوتے تو یہ آسامی خالی نہ ہوتی! اس خبر کا دردناک حصہ یہ ہے کہ ''صوبائی محتسب لگانے کی منظوری وزیراعظم نے دی‘‘۔ کیا وزیراعظم کو منظوری دیتے وقت پوچھنا نہیں چاہیے تھا کہ اگر اس منصب پر کسی ر یٹائرڈ بیوروکریٹ ہی کو لگنا ہے تو جو افراد اس سال ریٹائر ہوئے ہیں، کیا ان میں کوئی اس کا اہل نہیں؟ کیا قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ ایک خاص فرد کو ایک سال پہلے صرف اس منصب پر مقرر کرنے کے لیے ریٹائر کیا جا رہا ہے؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا کہ بیوروکریسی جو کچھ سامنے رکھتی ہے، منظور کر لیا جاتا ہے؟
فواد چوہدری کا یہ انٹرویو چشم کشا ہے! اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس سے اصلاح کی کوئی صورت برآمد ہوگی یا صرف یہی نتیجہ نکلے گا کہ ... ''معاملات باہر نہ جائیں‘‘؟

Tuesday, June 23, 2020

جس کا کام اُسی کو ساجھے

سب سے پہلے پروفیسر صاحب کی ہخدمت میں حاضر ہوا''جناب! اس ملک کے دانشور ایک عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ سیاست پر اور اسمبلیوں کی ممبری پر‘ کچھ خاندانوں کی نسل در نسل اجارہ داری چلی آ رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی سیاست میں آنا چاہیے تاکہ اس خاندانی اجارہ داری کا خاتمہ ہو سکے۔ آپ کی خدمت میں درخواست ہے کہ اپنے صاحبزادے کو سیاست میں لائیں! ہمیں سیاست میں علم و فضل اور نیک نامی کی ضرورت ہے‘‘۔پروفیسر صاحب نے چائے کا کپ محبت سے پیش کیا۔ ان کا جواب واضح تھا''آپ کی پیشکش کا شکریہ! مگر جوڑ توڑ اور عوامی رابطے‘ ہمارے ضمیر میں نہیں! میں نے آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کی اور ساری عمر یونیورسٹی میں پڑھایا۔ اپنے بیٹے کیلئے میں اُس کی پیدائش سے لے کر آج تک ایک ہی خواب دیکھتا آیا ہوں کہ وہ آکسفورڈ یا کیمبرج میں جائے۔ وہاں کی لائبریریوں میں بیٹھے‘ پی ایچ ڈی کرے اور واپس آ کر پروفیسر لگے‘‘۔
پھر میں حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا۔''مولانا! سیاست میں علما کے چند خاندان نسل در نسل چلے آ رہے ہیں! التماس ہے کہ اپنے صاحبزادے کو الیکشن میں حصہ لینے کا حکم دیجئے‘‘۔مولانا قالین پر آلتی پالتی مار کر تشریف فرما تھے۔مہمان نوازی کے طور پر انہوں نے کمال شفقت سے میری پشت پر ایک تکیہ اپنے دستِ مبارک سے رکھا اور فرمایا:''نہیں جناب! میں خود بھی سیاست سے کنارہ کش رہا اور اپنی اولاد کو بھی اس میدان سے دور ہی رکھنا پسند کروں گا! سیاست ہمارے بس کی بات نہیں! میں اپنے بیٹے کو الازہر یونیورسٹی بھیج رہا ہوں۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہوکر لوٹے گا تو باپ دادا کی مسندِ ارشاد سنبھالے گا۔ میری خواہش ہے کہ وہ علمِ حدیث کا ماہر بنے!‘‘
پھر میں ایک نیک نام سینئر صحافی کے پاس گیا۔''حضور! آپ کی شہرت بہت اچھی رہی ہے! آپ نے نیک نامی کمائی! وہی لکھا ‘وہی کہا جسے آپ نے سچ سمجھا۔ اچھے کاموں کی تعریف کی! آپ جیسے مخلص‘ بے لوث لوگوں کو سیاست میں آ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ آپ اپنے بیٹے کو بھی صحافت میں بھیج رہے ہیں‘ ہماری درخواست ہے کہ اسے سیاست میں لائیے۔ شہر کا ہر گھر آپ کی شرافت کا قائل ہے‘ وہ انتخابات میں ضرور کامیاب ہوگا!‘‘بزرگ صحافی نے مسکرا کر میری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔''عزیزِ من! میں نے صحافت کے کوچے میں زندگی گزاری۔ اہلِ سیاست کو جتنا قریب سے میں نے دیکھا ہے‘ کسی نے نہ دیکھا ہوگا! سچ پوچھیں تو سیاست سے زیادہ مشکل کام کوئی نہیں!الیکشن میں مخالفین آبا و اجداد کی قبریں تک کھود ڈالتے ہیں کہ کوئی نقص ظاہر ہو! ایک ایک محلّے‘ ایک ایک گھر جا کر ووٹ مانگنا آسان نہیں! ہر ایک کے ساتھ چل کر تھانے کچہری جانا میرے بیٹے کے بس کی بات ہی نہیں! پھر اقتدار سے اترنے کے بعد عدالتوں کا سامنا کرنا اور میڈیا میں اپنی پگڑی اچھلنے دینا اہلِ سیاست ہی کا حوصلہ ہے! میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جن سیاست دانوں نے آبائی جائیدادیں فروخت کر کے اخراجات پورے کیے‘ ان پر بھی خیانت کے الزام لگے! الزام سچ ثابت ہو یا نہ ثابت ہو‘ بدنامی تو ہو جاتی ہے! میرے بیٹے کے خون میں صحافت ہے اور یہی پیشہ اُسے راس آئے گا! میں اسے سیاست کے خارزار میں نہیں دھکیلوں گا!‘‘
یہاں سے مایوس ہو کر اُٹھا اور بیورو کریسی کا رُخ کیا۔ صوبے کے حسابدارِ اعلیٰ (اکاؤنٹنٹ جنرل) کے پاس گیا۔ اتفاق سے چیف کمشنر انکم ٹیکس بھی وہاں بیٹھے تھے۔ ٹیکس اور حسابات کے ٹیکنیکل مسائل پر گفتگو ہو رہی تھی۔ ان کی خدمت میں عرضگزار ہوا۔''آپ دونوں سینئر بیورو کریٹ نے صاف ستھری زندگی گزاری۔ دونوں کے کیریئر بے داغ ہیں۔ ہم موروثی سیاست دانوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ آپ حضرات اپنے بچوں کو سیاست میں لائیے‘ نیا خون کچھ کر کے دکھائے گا!‘‘دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ کمشنر صاحب نے کہا کہ ان کی بیٹی سیاست میں نہیں آ سکتی۔ سیاست میں کوئی عزت نہیں! طعنے ہی طعنے ہیں! وہ باپ کے نقشِ قدم پر چل کر مقابلے کا امتحان دینا چاہتی ہے‘‘ اکاؤنٹنٹ جنرل صاحب نے بھی صاحبزادے کو سیاست کیلئے موزوں نہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ وہ پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہے ‘‘۔
آخری امید علاقے کا وہ نیک نام شریف زمیندار تھا جس کی جاگیر وسیع تھی اور بہت غریب پرور اور شریف النفس انسان تھا۔ وہ اپنے ہاریوں سے محبت کرتا تھا۔ انہیں ان کے حقوق دیتا تھا۔ بیٹے نے ایک بار ایک مزارع کو پیٹا تو اس نے بیٹے کو وارننگ دی کہ آئندہ ایسی حرکت کی تو سبق سکھا دے گا۔ میں نے اُسے آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے خاندان کو سیاست میں لا کر‘ ملک کی خدمت کرے۔ علاقے کو ضرورت ہے کہ وہ اسمبلی میں پہنچ کر پسماندگی کا علاج کرے۔ مگر زمیندار نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔''نہیں بابا! میرے جو عزیز‘ سیاست میں دخیل ہیں‘ میں ان کا انجام دیکھ رہا ہوں۔ ووٹر گالیاں دیتے ہیں۔ میڈیا سے وہ خوف کھاتا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں اس کے دو کارکن مارے گئے۔ اس نے اپنے حلقے میں ترقیاتی کام کرائے مگر مخالفین نے الزام لگایا کہ اس نے حرام کا مال اکٹھا کیا ہے۔ جب بھی اس کے مخالف اقتدار میں آتے ہیں‘ اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ میں سیاست کے دنگل میں کودنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ مجھے اپنی بہو بیٹیوں کی عزت عزیز ہے اور اپنے آباؤ اجداد کے نام کی شہرت!‘‘
میرا دماغ درست ہو چکا تھا! یہ معمہ کہ مخصوص خاندانوں کے افراد ہی انتخابات کیوں لڑتے ہیں‘ حل ہو چکا تھا۔ ہر شخص ہر کام نہیں کر سکتا۔ سروس سیکٹر کے لوگ کاروبار نہیں کر سکتے اور کاروباری خاندانوں میں ایک لاکھ میں ایک ہی شخص پروفیسری یا ڈاکٹری کرتا ہے! گھر کا ماحول بچوں کی اٹھان پر گہرا اثر ڈالتا ہے! سیاست دان کا بیٹا یا بیٹی بچپن سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے باپ کو وقت ناوقت لوگ ملنے آتے ہیں کبھی کسی کے ساتھ تھانے جا رہا ہوتا ہے کبھی کسی جرگے میں بیٹھا ہوتا ہے۔ ایک ایک ووٹر کے حسب و نسب کا اسے علم ہے۔ کونسلر سے شروع کیا اور وفاقی اسمبلی تک پہنچا۔ یہ سب کچھ ایک ڈاکٹر‘ بیورو کریٹ‘ عالمِ دین یا ماہرِ تعلیم کے بچوں کیلئے اجنبی دنیا ہے۔ تمام نہیں‘ مگر بہت سے ڈاکٹروں کے بچے ڈاکٹر اور علما کی اولاد عالمِ دین بنتی ہے۔ سرکاری ملازموں کے بیٹے بیٹیاں سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں‘ رشتے بھی اکثر و بیشتر انہی خاندانوں میں کئے جاتے ہیں جن سے سماجی ہم آہنگی ہو! ایدھی کا بیٹا سوشل ورکر ہے‘ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ شاہ محمود قریشی‘ عابدہ حسین‘ عمر ایوب خان‘ محمد میاں سومرو‘ بلاول‘ حمزہ شہباز‘ اسفند یار ولی‘ مولانا اسد محمود اور بے شمار دوسرے افراد‘ پیدائش سے اپنے اپنے گھروں میں سیاست دیکھ کر جوان ہوئے۔ سیاست کا میدان ان کا فطری اور قدرتی چناؤ تھا۔ پھر افتادِ طبع پر بھی بہت کچھ منحصر ہے۔ شیخ رشید طالب علمی ہی سے سیاست میں ہیں۔ فردوس عاشق اعوان میڈیکل کالج میں دورانِ تعلیم سٹوڈنٹس یونین میں آئیں۔
ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو یاد آ گیا۔ اینکر پرسن نے ایک سیاست دان کو (غالباً میجر طاہر صادق تھے) الزامی لہجے میں کہا کہ آپ اپنے بیٹے اور صاحبزادی کو بھی الیکشن لڑوا رہے ہیں۔ سیاست دان نے فوراً پوچھا:''کیا آپ الیکشن لڑنے کیلئے تیار ہیں؟‘‘اینکر کا جواب نفی میں تھا۔

Monday, June 22, 2020

2023ء

پہلا مشیر: مبارک ہو عالی جاہ! ہماری شرحِ نمو منفی چار سے ترقی کرتے کرتے صفر پر پہنچ گئی ہے۔ امید ہے کہ ہماری حکومت میں اگلے دس برسوں کے دوران یہ دو یا تین تک پہنچ جائے گی!
دوسرا مشیر: جہاں پناہ! چینی کا نرخ تین سو روپے سے کم ہو کر دو سو اسّی ہو گیا ہے! ہم عوام کو مہنگائی کے جبڑوں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو رہے ہیں! یہ سب آپ کی دوراندیشی اور مستقبل بین پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
تیسرا مشیر: حضور! پٹرول کا مسئلہ بھی حل ہو چکا ہے۔ ہر بڑے شہر‘ یعنی لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد‘ پشاور وغیرہ میں کم از کم ایک پٹرول پمپ ضرور پٹرول مہیا کرے گا! اسی طرح ہر ضلع میں ایک پٹرول پمپ یہ فرض ادا کرے گا۔ پہلے تو تجویز یہ تھی کہ دو یا تین متصل اضلاع کیلئے ایک پٹرول پمپ ہو‘ مگر عوام کی سہولت کیلئے اب ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ایک پٹرول پمپ پر پٹرول لازماً دستیاب ہوگا۔
چوتھا مشیر: اس سے ماحولیات کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ درخت لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی! صرف دس فیصد گاڑیاں اور بسیں چل رہی ہیں۔ لوگ پیدل چلتے ہیں یا گھوڑا گاڑیوں پر۔ حضور تاریخ کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں۔ مغلوں کے زمانے میں گھوڑوں‘ گھوڑا گاڑیوں اور بیل گاڑیوں کے ذریعے آمد و رفت ہوتی تھی۔ دھواں اور کاربن نہیں ہوتا تھا۔ ماحول صاف ستھرار ہتا تھا۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ صحرائے عرب سے اونٹ اور سری لنکا اور تھائی لینڈ سے ہاتھی درآمد کریں تاکہ سواری کے ذرائع میں اضافہ ہو سکے۔ اگلے بجٹ میں شتربان اور مہاوت کی آسامیاں پیدا کی جائیں گی۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے روزگار میں اضافہ ہوگا! جیسا کہ ہم نے وعدہ کیا تھا‘ لاکھوں افراد کو نوکریاں مل جائیں گی!
پانچواں مشیر: سرکار!آئی ایم ایف کا جو کارندہ ہمارے مرکزی بینک کا گورنر تھا‘ اپنا مشن مکمل کر کے واپس جا رہا ہے۔ اسے بے مثال کارکردگی کے نتیجہ میں آئی ایم ایف نے ترقی دے کر پورے جنوبی امریکہ کا ڈائریکٹر تعینات کیا ہے! اُس کی روانگی سے پہلے ڈالر چار سو روپے کا ہو چکا ہے! بہت سے کمرشل بینک اپنا کاروبار ختم کر کے کفن بنانے کی فیکٹریاں لگا رہے ہیں! سنا ہے جو صاحب یہاں مشیر تھے‘ انہیں بھی واپس بلایا جا رہا ہے! یہ اور بات کہ وہ واپسی کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔اُن کا خیال ہے کہ ہماری حکومت جلد انہیں دوبارہ بلانے پر مجبور ہو جائے گی!
پہلا مشیر: ہم نے عالی جاہ! ایک اور مسئلہ بھی حل کر لیا ہے۔ وزارت خزانہ میں عالمی اقتصادی اداروں کے ملازمین کو دفاتر مہیا کرنے کیلئے اپنے ملازمین کو ریٹائر کر دیا ہے۔ اس سے ہم نے دو فوائد بیک وقت حاصل کئے ہیں۔ اوّل: ان اداروں کے افسروں اور اہلکاروں کو بیٹھنے کی باعزت جگہ مل گئی ہے۔ دوم: وزارت خزانہ کے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دینا پڑیں گی۔ یوں بھی وہ بیکار بیٹھے تھے‘کام تو سارا آئی ایم ایف کے لوگ ہی کر رہے تھے۔ ہمیں سالانہ قرض لینے کیلئے اب پُر صعوبت مذاکرات نہیں کرنا پڑیں گے۔ جب بجٹ آئی ایم ایف کے اپنے کارندے بنائیں گے تو قرض لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی!
جہاں پناہ: باقی مشیرانِ کرام کہاں ہیں‘ سپیشل اسسٹنٹ بھی نظر نہیں آ رہا!
(مشیر نظریں نیچی کر لیتے ہیں! ماحول پر خاموشی چھا جاتی ہے)
پہلا مشیر: (ہکلاتے ہوئے) بندہ پرور! ان میں سے جو جناب کے ذاتی احبّا و اصدقا ہیں‘ ان کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی تاب نہیں!
جہاں پناہ:جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے ضمن میں کیا پروگریس ہے؟
دوسرا مشیر! حضورِ پرنور! ہم نے پولیس اور سیکرٹریٹ کا ایک ایک افسر تو جنوبی پنجاب کو دے ہی دیا تھا۔ باقی امور بھی طے کئے جا رہے ہیں! بہاولپور اور ملتان کے حامیوں کے درمیان اختلافات طے کرانے کیلئے ایک کمیٹی بنانے پر غور کیا جا رہا ہے! امید واثق ہے کہ 2050ء تک جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کیلئے اہم نکات پر اتفاق کرا لیا جائے گا!
تیسرا مشیر: جہاں پناہ! کچھ طالع آزما‘ کوتاہ اندیش اب بھی یہ سوال اٹھانے کی جسارت کر رہے ہیں کہ احتساب کے نتیجہ میں تاحال کوئی چھوٹی موٹی رقم‘ حتیٰ کہ چند روپے بھی سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرائے جا سکے۔ یہ سوال زرداری اور شریف خاندان کے ضمن میں پوچھا جا رہا ہے! اس پر مستزاد یہ پہلو ہے کہ ان افراد سے دولت واپس لینے کی کارروائی پر قومی خزانے سے کتنا روپیہ خرچ کیا جا چکا ہے؟ لوگ حساب مانگتے ہیں۔
پہلا مشیر! ایسے لوگوں کی بات سنی ان سنی کر دینی چاہیے۔ لوگوں کا کیا ہے! ایسے ناروا سوالات اٹھانے والوں میں حاسد‘ بداندیش اور کور چشم شامل ہیں۔ یہ ہماری کامیابیوں پر سیخ پا ہوتے ہیں!
جہاں پناہ: مکان اب تک کتنے بن چکے ہیں اور کتنے خاندانوں کو نئے گھروں میں مقیم کیا جا چکا ہے؟
تیسرا مشیر: کام زور و شور سے جاری ہے! گھروں کے ڈیزائن پر اختلافات تھے۔ اب کوئی صورت اتفاق کی نظر آنے کی امید ہے! پروجیکٹ کے اخراجات ہم اُس رقم سے پورے کریں گے جو زرداری خاندان اور شریف خاندان سے واپس ملے گی!
جہاں پناہ: کورونا کی تازہ ترین صورت احوال سے آگاہ کیا جائے!
چوتھا مشیر: صاحبِ عالم! ہم بدستور ٹاپ کے دو یا تین ملکوں میں شمار کئے جا رہے ہیں۔ مگر مثبت پہلو اس ابتلا میں یہ ہے کہ ہر چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں! ہماری لحیم شحیم آبادی کے تناظر میں‘ جہاں پناہ اتفاق فرمائیں گے‘ یہ تعداد کچھ زیادہ نہیں!
جہاں پناہ: بازار‘ منڈیاں‘ مارکیٹیں کھلی ہونی چاہئیں! پارک‘ سیر گاہیں‘ باغات‘ کوئی چیز بند نہ ہو! دیہاڑی دار مزدوروں متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
پانچواں مشیر:شاہِ عالم! دیہاڑی دار مزدوروں کی اکثریت کورونا کی نذر ہو چکی ہے! اس طرح قدرت نے اس مسئلے کو حل کرنے میں ہماری مدد غیب سے کی ہے! تاجر برادری کے بچے کھچے ارکان خوش ہیں۔ مضبوط معیشت کا سہرا ہماری حکومت کے ماتھے پر جھومر کی طرح چمک رہا ہے۔
جہاں پناہ: ہم کچھ شہروں کا دورہ کرنا چاہتے ہیں! (دورہ شروع ہوتا ہے)
جہاں پناہ: یہ تیسرا شہر ہے جس کا ہم دورہ کر رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے لوگ بہت ہی کم نظر آ رہے ہیں۔ راستوں پر اردگرد کی بستیوں میں سناٹا ہے‘ ٹریفک برائے نام ہے۔ کیا وجہ ہے؟
پہلا مشیر: حضور! کورونا کی وجہ سے لاکھوں افراد مر چکے ہیں۔ جب عالمی ادارئہ صحت نے لاک ڈاؤن کی تلقین کی تھی اور پنجاب کی وزیر صحت نے اس کی تائید کی تھی اس وقت بھی ہم اپنے موقف پر ڈٹے رہے! اس کے نتیجہ میں شہر کے شہر‘ محلوں کے محلے‘ آبادیوں کی آبادیاں کورونا چٹ کر گیا۔ مگرخدا کا شکر ہے کہ معیشت کمزور نہیں ہوئی۔ جو پانچ چھ دیہاڑی دار مزدور زندہ ہیں‘ ان کی دال روٹی برابر چل رہی ہے۔ 
جہاں پناہ: بہت خوب! معیشت متاثر نہیں ہونی چاہئے! کورونا نے پھیلنا ہی پھیلنا تھا! اس کا کچھ نہیں ہو سکتا! لاک ڈاؤن پر اصرار کرنے والے قبروں میں جا لیٹے ہیں۔
دوسرا مشیر:جہاں پناہ! آئی ایم ایف نے سرکاری ملازموں کی تنخواہیں پچاس فیصد کم کرنے کا حکم دیا ہے!
جہاں پناہ: حکم کی تعمیل کی جائے۔

Thursday, June 18, 2020

ترازو تو کہیں اور ہے!!


دل گرفتگی کا عالم ہے! ہاتھ قلم سے کنارہ کش ہونا چاہتا ہے اور قلم خیالات سے! قومیں گرتی ہیں! یہاں تک کہ پاتال آ جاتا ہے تو رُک جاتی ہیں! مگر ہم، بحیثیت قوم، پاتال پر آ کر بھی رُک نہیں رہے! نیچے ہی نیچے جا رہے ہیں! اخلاق، شائستگی، شرافت، سب کچھ ختم ہو گیا ہے! دلیل گالی سے شروع ہوتی ہے۔ گالی پر ختم ہوتی ہے! طعن و تشنیع، دشنام طرازی، لُچپن، جوتم پیزار! اور یہ سب ان کا حال ہے جن کا شمار پڑھے لکھوں میں ہو رہا ہے! ناخواندہ ان سے بدرجہا بہتر ہوں گے!
اس میں شک نہیں کہ گنتی کے چند شرفا اس عامیانہ طرزِ گفتگو کے جبراً عادی ہو چکے مگر کبھی کبھی صدمہ اس طرح آتا ہے کہ پیس کر رکھ دیتا ہے! ایک شریف انسان ہے۔ سیاست سے بھی تعلق ہے۔ ایک عرصہ سے اخبارات میں لکھ بھی رہے ہیں۔ اس کالم نگار سے ان کا تعارف ہے نہ ملاقات۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک فریاد پوسٹ کی کہ لاہور کے نجی ہسپتال کورونا کے مریضوں سے لاکھوں روپے ایڈوانس مانگ رہے ہیں۔ اس پر ایک کمنٹ یہ تھا : ''اوئے لعنتی! ہسپتال کا نام بھی بتا‘‘!
زیادہ شرمناک بات یہ کہ کسی نے اپنے کمنٹ میں اس طرزِ تخاطب کی مذمت کی نہ بیزاری کا اظہار!!
ایک دن اور ایک رات اس کالم نگار کے ہاتھ کانپتے رہے! یا خدا! ہم کہاں پہنچ گئے ہیں! اور یہ تو وہ کمنٹ ہے جو کالم میں نہ چاہتے ہوئے بھی، لکھا جا سکتا ہے! ایسی مغلظات بکی جا رہی ہیں اور اس قدر افراط سے کہ انسان حیران ہوتا ہے کہ آسمان سے پتھروں کی بارش کیوں نہیں ہو رہی، زمین دھنس کیوں نہیں رہی! کوئی کسی کو ولدیت پر اشتباہ کا اظہار کر رہا ہے! کوئی کسی کی پردہ نشین کے بارے میں ناقابلِ بیان، ناقابلِ یقین، انگارے منہ سے نکال رہا ہے! کوئی کسی کے بزرگ، پیر، استاد کے بارے میں اشتعال انگیز الفاظ استعمال کر رہا ہے! عدم برداشت اور بات ہے! یہ تو عدم برداشت سے کوسوں آگے تک معاملہ پہنچ چکا ہے! سوشل میڈیا اوباش خانے میں بدل چکا ہے! اخبارات کی ویب سائٹس پر کالموں کے نیچے کمنٹس میں لوگ گالیاں لکھ رہے ہیں۔ آئی ٹی والے ایڈٹ کر کر، تھک چکے! ویب سائٹس والے ایک کو بلاک کرتے ہیں تو اس کی جگہ دوسرا اوباش آ جاتا ہے!
رات دن دہانوں سے آگ کے بھبکے نکل رہے ہیں۔ کالم نگاروں پر بُرا وقت آیا ہے۔ لفافہ صحافی کی اصطلاح یوں استعمال ہو رہی ہے جیسے اس ملک میں ہر لکھنے والا، دوسروں کے سامنے، گواہ بنا کر لفافے وصول کر رہا ہے! خدا کے بندو! جس پر الزام لگا رہے ہو، اس کے گناہ ہلکے اور اپنا نامۂ اعمال سیاہ کر رہے ہو! تم لفافہ صحافی کہہ کر بھول چکے مگر کل وہ خدا کی عدالت میں تم سے اس الزام، اس بہتان، اس افترا کا ثبوت مانگے گا۔ تم منہ کی کھائو گے اور اوندھے پڑے ہوگے!
لکھنے والا ڈاکٹر ہے تو ڈاکٹری کے پورے شعبے کو گالیاں دی جا رہی ہیں! لکھنے والا پروفیسر ہے تو کمنٹس میں شعبۂ تعلیم کی ایسی تیسی کی جا رہی ہے۔ سرکاری ملازم ہے تو اسے رشوت خور قرار دیا جا رہا ہے! پیشہ ور صحافی ہے تو صحافت ہی کو سرے سے شرمناک قرار دیا جا رہا ہے! اصل موضوع پر کوئی نہیں بات کرتا! کسی کے بارے میں ذاتی معلومات حاصل ہیں تو ان کی بنیاد پر زبانِ طعن دراز کی جا رہی ہے! تیس تیس، چالیس چالیس سال صحافت کے شعبے سے جو وابستہ رہے ہیں ان کی عزت وہ اٹھائی گیرے اچھال رہے ہیں جن سے ان کے اپنے محلّہ دار پناہ مانگتے پھرتے ہیں!
کیا یہ لوگ اپنے گھروں میں یہی زبان استعمال کرتے ہیں؟ کیا اپنے اعزہ و اقربا کو مخاطب کرتے وقت بھی ایسے ہی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں؟ کیا یہ اپنی روزمرہ کی گفتگو میں، اپنی دکانوں میں، اپنے کارخانوں، دفتروں، سکولوں، کالجوں، مدرسوں میں ایک دوسرے سے بات کرتے وقت اسی طرح مخاطب کرتے ہیں؟ کیا انہیں یہی سکھایا گیا ہے کہ فلاں کے باپ کی تلاش جاری ہے اور فلاں کی ماں غیرت کے نام پر قتل کر دی گئی؟
تم سُنّی ہو یا شیعہ، بریلوی ہو یا دیو بندی، مسلم لیگی ہو یا جیالے، تحریک انصاف کے ہو یا جے یو آئی اے، کے پنجابی ہو یا سندھی، بلوچی ہو یا پختون، کراچی کے ہو یا گلگت کے، تم جو کچھ بھی ہو، تمہارے بزرگ، تمہارے پیشوا، تمہارے استاد، تمہارے لیڈر یہی لفظیات استعمال کرتے تھے؟تم امیرالمومنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ پر جان چھڑکتے ہو! انہوں نے تو اُس دشمن کو چھوڑ دیا تھا جس نے ان کے رخِ انور پر تھوکنے کی جسارت کی تھی! کجا کہ اسے کچھ کہتے! امیرالمومنین حضرت عثمانؓ نے جان دے دی مگر قتل کرنے والوں کو ایک لفظ بُرا نہ کہا! امام شافعیؒ فرماتے ہیں، جب بھی امام جعفر صادقؓ کی خدمت حاضر ہوا، نماز میں مشغول ہوتے یا تلاوت میں۔
پھر قریب کا زمانہ دیکھ لو! کیا قائداعظم اور لیاقت علی خان کی ایسی زبان تھی! قائداعظم کو عمر بھر کسی سے اپنے کہے ہوئے الفاظ پر معذرت کرنا پڑی نہ الفاظ واپس لینا پڑے۔ یہ طرزِ تخاطب تم نے کہاں سے سیکھا؟ کس سے اخذ کیا؟ کہتے ہیں طرزِ گفتگو خاندانی پس منظر کا عکّاس ہوتا ہے۔ کیا خدانخواستہ، اب ہماری اکثریت کا خاندانی پس منظر مشکوک ہو چکا ہے؟ اناللہ و انا الیہ راجعون ۔ خدا کا خوف کرو! تمہارے یہ غلیظ کمنٹ، یہ گالیاں، یہ دوسروں کی ولدیت اور دوسروں کے حسب نسب پر ناگفتہ بہ حملے، عورتیں بھی پڑھتی ہیں، بچے بھی، بزرگ بھی! اب تو بڑی بوڑھیاں بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں! کچھ شرم کرو! پاسِ ادب نہیں تو اُس موت ہی کا خیال کرو جو چاروں طرف رقص کر رہی ہے! اب تو شرح اموات، چوبیس گھنٹوں میں سوا سو تک پہنچ چکی ہے! ابھی تو اوپر جا رہی ہے! یہ وقت نامۂ اعمال گندا کرنے کا ہے یا سنوارنے کا؟ تم اگر اب تک زندہ ہو تو اس زندگی کا کیا فائدہ جو دوسروں کے لیے اذیت کا سامان بنے؟
اور یاد رکھو! تمہاری گالی سے زرداری کو، نواز شریف کو، عمران خان کو، بلاول کو، مولانا فضل الرحمن کو کچھ نقصان نہیں پہنچنے والا! تم ان کو گالیاں دے کر اپنے عالمِ نزع کو درد ناک سے درد ناک تر کر رہے ہو! اختلاف کرو! گالی کیوں دیتے ہو؟ آج مریم نواز سیاست میں ہے۔ کل بے نظیر سیاست میں تھیں۔ ان کے لیے غلط الفاظ استعمال کرتے وقت یہ نہ بھولو کہ کل، کل نہیں تو پرسوں، پرسوں نہیں تو اس کے بعد، تمہارے گھر کی کوئی خاتون بھی سیاست میں داخل ہو سکتی ہے! تو کیا تم پسند کرو گے کہ اس کے لیے کل لوگ وہی زبان استعمال کریں جو آج تم بھٹو اور نواز شریف کی بیٹیوں کے لیے استعمال کر رہے ہو؟ اس کالم نگار کو مریم نواز سے ایک سو دس فیصد اختلاف ہے۔ بے نظیر بھٹو کبھی اس کی پسندیدہ رہنما نہیں رہیں۔ مگر خدا کی پناہ! کہ پاکستان کی ان بیٹیوں کیلئے کوئی غیر پارلیمانی لفظ استعمال کرنے کا کبھی سوچا بھی ہو! یاد رکھو! اس ملک کی ہر بیٹی تمہاری بیٹی ہے! ہر ماں تمہاری ماں ہے! ہر بہن تمہاری بہن ہے! دوسروں کی خواتین پر زبانِ طعن دراز کرو گے تو خود بھی محفوظ نہیں رہو گے۔ مجنوں پر سنگ اٹھاتے وقت اپنے سر کا بھی خیال کرلو! تمہارے کانوں میں تو یہ بول ڈالے گئے تھے ع
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سُن کر دعائیں دیں
تو پھر سوچو کہ کس کی پیروی کر رہے ہو؟ رہا یہ معاملہ کہ کون سچا ہے اور کون جھُوٹا، کون حق پر ہے اور کون باطل پر؟ تو یہ فیصلہ تم نے نہیں کرنا! نہ کسی نے تمہیں کہا ہے کہ فیصلہ کرو! صائب تبریزی کئی سو سال پہلے کہہ چکا؎
ای کہ مشغول بہ سنجیدنِ مردم شدہ ای
دست بردار ازیں کار کہ میزان آنجاست!
لوگوں کو جانچنے کا کام تم نے سنبھال لیا، حالانکہ اعمال تولنے والا ترازو تو کہیں اور ہے

Tuesday, June 16, 2020

سرکاری ملازم: مُکا بازی کا بہترین ہدف

فروری کے وسط میں کورونا کی مصیبت آ چکی تھی۔ یہ پانچواں مہینہ ہے۔
ان پانچ مہینوں میں بجلی کی سپلائی معطل نہیں ہوئی‘ گیس بند نہیں ہوئی‘ ٹیلی فون کام کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ موجود رہا اور موجود ہے! سرکاری ہسپتال برابر کام کر رہے ہیں۔ ہر یکم کو لاکھوں وفاقی اور صوبائی ملازمین کو تنخواہیں موصول ہو رہی ہیں۔ عسا کر جہاں جہاں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں‘ ان کی ہر یونٹ کو تنخواہ وہیں پہنچائی جا رہی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک پولیس مسلسل موجود ہے۔ دونوں سرکاری بینک‘ سٹیٹ بینک اور نیشنل بینک آف پاکستان ایک دن کے لیے بھی بند نہیں ہوئے۔ ڈاکخانے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ وزارت خزانہ سے لے کر ایف بی آر تک سب نے بجٹ کی تیاری میں رات دن ایک کیا۔ اضلاع اور تحصیلوں میں سرکاری اہلکار ڈیوٹیاں سر انجام دیتے رہے۔ اب یہ جو کہا جا رہا ہے کہ سرکاری ملازم گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں‘ تو پھر ریاست کے یہ تمام کام‘ کون انجام دیتا رہا؟ کیا یہ تمام امور جِنّات کے سپرد ہیں یا سبز پوش ملنگ دفتروں ‘ ہسپتالوں‘ شاہراہوں‘ بینکوں میں آ کر فرائض سنبھالے رہے؟ 
ہم میں سے اکثر کو معلوم ہے کہ ''پنچنگ بیگ‘‘ کیا ہے! جو نہیں جانتے ان کے لیے بتائے دیتے ہیں۔ پنچ مُکّے کو کہتے ہیں۔ ہوا سے یا فوم سے بھرا ہوا بیگ‘ جس پر مکے باز‘ مکے مارنے کی مشق کرتے ہیں‘ پنچنگ بیگ کہلاتا ہے۔ سرکاری ملازم پنچنگ بیگ ہے! سیاست دان سے لے کر عوام تک‘ سب اسے مُکے مارتے ہیں۔ سب اس پر مشقِ ناز کرتے ہیں! اس لیے کہ یہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ یہ پریس کانفرنس نہیں بلا سکتا۔ اخبار یا ٹیلی ویژن پر وضاحت نہیں کر سکتا۔ کرے تو انضباطی کارروائی (کنڈکٹ رُولز) کے تحت دھر لیا جاتا ہے! اس لیے اسے مُکّے مارنا محفوظ ترین سرگرمی ہے!وزرا اور مشیران کرام کی اچھی خاصی تعداد اپنے نجی کاروبار اور جاگیریں سنبھالنے میں مصروف رہتی ہے۔ کاروبارِ مملکت سرکاری ملازم چلاتا ہے۔ جس دن یہ گھر بیٹھ گیا‘ لگ پتہ چل جائے گا۔ اس لیے بات انصاف کی کرنی چاہیے۔ مرنا صرف سرکاری ملازم نے نہیں‘ طعنہ زنوں نے بھی ہے!کبھی جا کر ان سرکاری ملازموں کی کام کرنے کی حالت (Working Condition) دیکھیے۔ چند افسروں کی میز‘ کرسی‘ قالین اور پردوں پر نہ جائیے۔ ضلع کچہریاں ہیں یا ڈاکخانے‘ اکائونٹس کے دفاتر ہیں یا ریلوے کے شیڈ‘ ڈھنگ سے بیٹھنے کی جگہ ہے نہ ریکارڈ رکھنے کی! کرسی کا بازو ہے تو پشت نہیں! کہیں بلب نہیں‘ کہیں گھنٹی خراب ہے۔ کہیں بیوی بچوں کے علاج کے لیے سرکاری ہسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں‘ کہیں سکولوں میں داخلے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ شام گئے بھی دفتروں میں کام مکمل کر رہے ہیں۔ اور اب جب پہلی بار بجٹ میں تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں تو اس کے جواز میں یہ پروپیگنڈا کیا جانے لگا کہ یہ تو گھر بیٹھے ہوئے تنخواہ لے رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کے سامنے پھیلایا جانے والا کشکول توڑنے کی دعویدار حکومت نے آئی ایم ایف کے اشارۂ ابرو پر سرکاری ملازموں کی تنخواہیں نہیں بڑھائیں! مشیر خزانہ سے پوچھا جاتا ہے تو طرح دے جاتے ہیں! کچھ بزرجمہر یہ دلیل دے رہے ہیں کہ سعودی عرب میں تو تنخواہیں بیس فیصد کم کر دی گئیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ وہاں تنخواہیں تھیں کتنی؟ وہاں کی بھاری بھرکم عظیم الجثّہ تنخواہیں‘ بیس فیصد کم ہو کر بھی اچھی خاصی تنومند ہیں! پھر وہاں مہنگائی بڑھنے کی رفتار بھی پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے! یہاں آپ نے روپے کی قدر میں چالیس فیصد کمی کر دی۔ اوپر سے تنخواہ بھی نہیں بڑھا رہے! سو روپیہ‘ ساٹھ روپے کا رہ گیا ہے! مثالیں آپ سعودی عرب جیسے ملکوں کی دے رہے ہیں! ہنسا جائے یا رویا جائے؟ 
پارلیمنٹ کے ہر رکن کو اٹھائیس ریٹرن ہوائی ٹکٹ سالانہ ملتے ہیں۔ یہ اکانومی کلاس کے نہیں‘ بزنس کلاس کے ہوتے ہیں۔ پہلے یہ ٹکٹ صرف ارکان کی ذات تک محدود تھے۔ موجودہ عہدِ حکومت میں ان کا اطلاق ان کے خاندانوں پر بھی کر دیا گیا تا کہ کوئی ٹکٹ خرچ ہونے سے بچ نہ جائے۔ حکومت کو اگر بچت کرنا تھی تو ان عیاشیوں کو محدود کرتی! آخر ارکان پارلیمنٹ اکانومی کلاس میں کیوں نہیں سفر کر سکتے؟ کیا ملک کے معاشی حالات اس عشرت کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کا بجٹ 82 فیصد بڑھا دیا گیا۔ یہ صرف ایک ضلع کا احوال ہے! وزیراعظم نے اپنے احباب کو بھی مشیرانِ کرام کی فوج ظفر موج میں شامل کر رکھا ہے۔ جہازی سائز کی کابینہ ہے۔ کفایت شعاری کرنی ہے تو اس کی تعداد کم کیجیے۔سرکاری ملازم صرف وہ نہیں جس نے سوٹ پہن رکھا ہے‘نکٹائی لگا رکھی ہے اور گاڑی پر آتاہے۔ یہ تعداد تو سرکاری ملازموں کی کل تعداد کا مشکل سے ایک فیصد ہو گی۔ سرکاری ملازم کلرک بھی ہے‘ ڈرائیور بھی! نائب قاصد بھی! دفتری بھی! سپرنٹنڈنٹ بھی! ٹائپسٹ بھی! کی پنچ آپریٹر بھی! گریڈٖ گیارہ کا آڈیٹر بھی! انسپکٹر بھی! محرّر بھی! پی اے بھی! غم ہائے روزگار کا بارِ گراں پشت پر رکھے‘ یہ اہلکار کس طرح مہینے کے دن پورے کرتے ہیں‘ انہیں معلوم ہے یا ان کے خدا کو! ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھُو رہی ہیں۔ آٹا‘ دال‘ سبزی‘ گھی‘ چائے‘ دودھ‘ مرچ مصالحہ‘ ڈبل روٹی‘ پھل‘ کیا ان سب کی قیمتوں میں استحکام ہے؟ کیا یہ نہیں بڑھیں؟ کیا جوتوں‘ کپڑوں‘ کپڑے دھونے والے صابن اور سرف کی قیمتیں وہی ہیں جو گزشتہ سال تھیں؟ کیا بسوں‘ ویگنوں‘ رکشہ کے کرائے وہی ہیں‘ جو پہلے تھے؟ وزارتِ خزانہ کے اربابِ حل و عقد ایک کلرک یا ایک نائب قاصد کا ماہانہ بجٹ بنا کر دکھا دیں! بے شک آئی ایم ایف کی اجازت لے کر یہ کارِ خیر انجام دے دیجیے! ذرا رہنمائی فرما دیجیے کہ یہ لوگ مہینہ کس طرح گزاریں؟ 
دنیا بھر کی حکومتیں کرپشن کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے سرکاری ملازموں کی تنخواہیں بڑھاتی ہیں‘ یہ ایک پورا فلسفہ ہے! پورا طرزِ فکر ہے! سنگاپور کے معمار لی کوان ییو نے جدید سنگاپور کی بنیاد رکھی تو پہلی اینٹ یہی تھی۔ اس نے سرکاری شعبے میں تنخواہیں نجی شعبے کے برابر کیں۔ پھر عدلیہ سے اپیل کی اور سمجھایا کہ ان بڑھی ہوئی تنخواہوں کے بعد ہم کسی کو کرپشن پر پکڑیں تو آپ اس سے ہمدردی نہ کیجیے گا! یہی طرزِ فکر تمام ترقی یافتہ ملکوں میں کار فرما ہے! سرکاری ملازم کی زندگی پُر صعوبت بنا کر آپ اس سے کیا توقع رکھتے ہیں؟
لاکھوں‘ کروڑوں روپوں کا نظامِ حکومت چلانے والوں کو آپ چند سو‘ چند ہزار روپوں کے اضافے سے محروم رکھ کر آزمائش میں مبتلا کر رہے ہیں۔ یہ انصاف نہیں! امیر المومنین سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ‘ سے یہ فرمان منسوب ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے‘ ظلم کی نہیں چل سکتی! سرکاری ملازم کو اس نوبت تک نہ لے جائیے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائے؎
درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
بیچ منجدھار‘ تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا اور حکم یہ ہے کہ چھینٹا تک نہ پڑے!
ایک دنیا آئی ایم ایف کے ائیر کنڈیشنڈ دفتروں اور وزارت خزانہ کے قالینی برآمدوں سے باہر بھی آباد ہے! اس دنیا میں سگار ہیں نہ نکٹائیاں! ائیر کنڈیشنر ہیں نہ کافی کے دھواں دھار کپ! کلائیو اور کرزن کی چھوڑی ہوئی جُوٹھی انگریزی ہے نہ اعداد و شمار کے گتکے کا کھیل! اس دنیا میں بچوں کی فیسیں ہیں! مکان کا کرایہ ہے! بیوی کی دوا ہے! مہینے بھر کا راشن ہے! گیس‘ بجلی اور پانی کے بل ہیں! اور ایک غم زدہ خاموش سرکاری ملازم! خوف کھائیے! اس سے نہیں ڈرتے تو اس کے خدا سے ڈریئے! یہاں نہیں تو کل کسی اور عدالت میں آپ کو اس کا ماہانہ بجٹ بنا کر کسی کے سامنے پیش کرنا ہوگا!

Monday, June 15, 2020

بہت پہلے یہ گھر ایسا نہیں تھا

حکیم شفائی‘ شاہ عباس صفوی کا پرسنل فزیشن تھا‘ اور با کمال شاعر! ایک روایت کے مطابق وہ صائب تبریزی کا استاد بھی تھا! اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ طبابت نے اس کے علم و فضل کو ماند کر ڈالا اور شاعری اس کی طبابت کو پیچھے چھوڑ گئی!
طب اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔ یہی روایت وسط ایشیا اور ایران و خراسان سے مسلم ہندوستان میں در آئی۔ حکیم مومن خان مومن اس روایت کی درخشاں مثال تھے۔ باپ دادا‘ شاہی اطبا میں شامل تھے۔ مومنؔ نے شاعری بھی کی اور طبابت بھی! اور اس میں کیا شک ہے کہ شاعری کے آگے طبابت ماند پڑ گئی! اپنے تخلص کا بھی خوب خوب استعمال کیا؎
مومنؔ تم اور عشقِ بتاں! اے پیر و مرشد خیر ہے
یہ ذکر اور منہ آپ کا! صاحب! خدا کا نام لو
شفیق الرحمن بھی ڈاکٹر تھے۔ ایسے ڈاکٹر کہ ادب پر چھا گئے اور چھائے رہیں گے! حماقتیں‘ مزید حماقتیں‘ دجلہ! شگوفے! ایک سے ایک بڑھ کر! شیطان‘ روفی اور حکومت آپا جیسے لازوال کردار تخلیق کیے! زبان ایسی کہ ہر عمر کے لوگ پڑھیں اور حظ اٹھائیں!
ہمارے ہم عصروں میں ڈاکٹر آصف فرخی نے ادب میں خوب نام پیدا کیا۔ اعلیٰ پائے کے تراجم کیے۔ ادبی پرچہ نکالا۔ ادبی میلوں کو رواج دیا۔ ایک اور ڈاکٹر‘ وحید احمد نے نظم گوئی میں کیا کیا کمالات دکھائے ہیں۔ ''ہم شاعر ہوتے ہیں‘‘ اور ''خانہ بدوش‘‘ جیسی لازوال نظمیں کہیں۔ شاید ہی شاعری کا کوئی دلدادہ ایسا ہو جس نے ان نظموں کو شوق سے پڑھا اور سنا نہ ہو!
ڈاکٹر ابرار احمد اسی روایت سے وابستہ ہیں! آنکھ‘ ناک اور گلے کے ماہر ڈاکٹر! ان کی ڈاکٹری سے شفا پانے والے مریضوں کو کیا معلوم کہ ڈاکٹر ابرار دل کے ڈاکٹر نہیں‘ مگر شاعری سے دلوں کا علاج کرتے ہیں! وہی بات کہ طبابت شاعری کو پیچھے چھوڑ گئی اور شاعری نے طبابت کو ماند کر ڈالا!
اسّی کی دہائی تھی۔ ڈاکٹر ابرار احمد راولپنڈی کے سول ہسپتال (فوارہ چوک) میں تعینات تھے۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ گارڈن کالج میں پروفیسری کرتے تھے! اور یہ کالم نگار ایک دفتر میں کلرکی! اچھے زمانے تھے۔ بہم مل بیٹھتے تھے! شاعری اور ادب پر گفتگو ہوتی تھی۔ آج کورونا کی تیز‘ چلچلاتی دھوپ میں وہ زمانے نعمت لگتے ہیں کہ اب تو مل بیٹھنا بھی خواب و خیال ہو گیا؎
وحشت اتنی ہے تو کیوں سائے سے بھی خوف نہ کھائیں
دہشت اتنی ہے تو کیوں شیرِ دلاور نکلے
پھر ڈاکٹر ابرار لاہور آئے اور یہیں کے ہو رہے! کلینک اور شاعری ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ چنیوٹ کے مردم خیز شہر نے لاہور کو ہمیشہ بہترین افرادی قوت فراہم کی! ابرار کا تعلق بھی چنیوٹ سے ہے! شاہ جہان کے نامی گرامی وزیر اعظم نواب سعد اللہ خان بھی چنیوٹ سے تھے۔ نوجوان شاعر اور بیوروکریٹ شکیل جاذب بھی چنیوٹ ہی کی دین ہیں!
ابرار نے نظم اور غزل دونوں میں نام پیدا کیا ہے؛ تاہم‘ اس فقیر کے نزدیک‘ ان کا ایک بڑا کارنامہ انگریزی میں ادبی کالم نویسی ہے۔ تقریباً دس سال‘ قومی سطح کے معروف انگریزی روزنامہ میں ادبی کالم لکھے۔ یہ معرکہ آرا کالم تھے۔ اردو ادب کا ایک مسئلہ یہ رہا ہے کہ اکثر ادیب اور شاعر انگریزی سے اچھے خاصے فاصلے پر رہے اور اب بھی ہیں۔ لکھنا تو دور کی بات ہے۔ انگریزی ادب براہ راست پڑھنے ہی کی سکت نہیں رکھتے! فرانسیسی‘ روسی‘ ہسپانوی اور دیگر مغربی زبانوں کا ادب بھی ہم تک انگریزی ہی کے ذریعے پہنچا ہے اور پہنچ سکتا ہے! ڈاکٹر ابرار احمد کو انگریزی لکھنے پر قدرت حاصل ہے۔ ان کالموں کو کتابی شکل میں محفوظ رکھنا از بس ضروری ہے۔
پھر ابرار نے ستم ڈھایا کہ انگریزی میں کالم لکھنا چھوڑ دیئے۔ سچ یہ ہے کہ اس کے بعد اُس اخبار کا ہفتہ وار ادبی صفحہ ایسا بے رنگ ہوا کہ ویرانے ہی میں تبدیل ہو گیا۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے ابرار غزل کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا۔ نظموں کے کئی مجموعے لا چکا۔ ''موہوم کی مہک‘‘ تازہ تصنیف ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ نظموں کے اس تلاطم میں غزل گو ابرار چھپ نہ جائے! غزلوں کا مجموعہ ''غفلت کے برابر‘‘ 2007ء میں چھپا‘ اس کے بعد خاموشی ہے! غزل میں اس طرح دار شاعر کا رنگ‘ آہنگ اور ڈھنگ دیکھئے؎
جگہ نہ چھوڑے کہ سیلِ بلا ہے تیز بہت
اڑا پڑا ہی رہے اب جہاں تہاں کوئی ہے
وہ کوئی خدشہ ہے یا وہم‘ خواب ہے کہ خیال
کہ ہو نہ ہو مرے دل! اپنے درمیاں کوئی ہے
وہ راستہ ابھی بھولا نہیں ہے‘ سو یہ فقیر
تُو جب کہے تری جانب رواں دواں ہو گا
یہاں سے اب ہمیں کچھ بھی سجھائی دیتا نہیں
اگر یہ ابر نہیں ہے تو پھر دھواں ہو گا
جو بھی دیکھے اسے میلا کر دے
وہ کہاں چاند سی صورت لے جائے
کام بھی کرنے ہیں پر کیا کیجے
وقت سارا تو یہ فرصت لے جائے
ترے کچھ کام آنا چاہتا ہوں
بالآخر رائیگاں ہونے سے پہلے
نشانی چھوڑ کر جائوں گا کوئی
میں بے نام و نشاں ہونے سے پہلے
مجھے کچھ کام یاد آنے لگے ہیں
تری جانب رواں ہونے سے پہلے
آ بھی گیا تو آرزوئے وصل اب کسے
اب اور بھی انتظار بھی کتنا کریں گے ہم
مارنے والا ہے کوئی کہ ہے مرنے والا
اسی مٹی میں ہے آخر کو اترنے والا
جانے کس چیز کو کہتے ہیں مکافاتِ عمل
اور کرتا ہے‘ کوئی ہے بھرنے والا
چشم و دل کام میں لائو کہ ابھی مہلت ہے
اور کچھ دن میں یہ ساماں ہے بکھرنے والا
ابھی پہلی مصیبت کم نہیں تھی
درِ آفات وا ہونے کو ہے پھر
نہ جانے کون کس کے کام آئے
نہ جانے کیا سے کیا ہونے کو ہے پھر
وہ شام شامِ الم تھی سو اپنی آنکھوں میں
چراغِ خواب جلایا‘ ملال میں نے کیا
سو چکا تھا تہہِ خاک میں جس گھڑی
میرے اندر کوئی جاگتا رہ گیا
سب چراغوں کو بجھنا تھا‘ بجھتے گئے
آنکھ میں ایک جلتا دیا رہ گیا
یہاں مہماں بھی آتے تھے ہوا بھی
بہت پہلے یہ گھر ایسا نہیں تھا
یوں ہی نمٹا دیا ہے جس کو تو نے
وہ قصّہ مختصر ایسا نہیں تھا
ان ڈاکٹروں کو خدا سلامت رکھے۔ دوائوں سے ہمارا جسمانی علاج کرتے ہیں اور ادب سے ہمارا جذباتی علاج! مجید امجد نے اسی لیے دعا کی تھی؎
سدا لکھیں/ انگلیاں یہ/ لکھتی رہیں۔۔۔۔۔۔!

Thursday, June 11, 2020

جہاں پناہ! حل ایک ہی ہے


نہیں! جناب وزیر اعظم آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ نہیں! عالی جاہ! آپ ایسا نہیں کر سکتے!
دو دن پہلے پی آئی اے کے سربراہ نے آپ کو بریفنگ دی! اور بتایا کہ قومی ائر لائن کو ہر مہینے، چھ ارب روپے کا خسارہ ہو رہا ہے! دو ارب ماہانہ صرف اُن ساڑھے چودہ پندرہ ہزار ملازمین کی تنخواہوں کے کھاتے میں دیئے جا رہے ہیں جن کی ضرورت ہی نہیں!
ہمیں نہیں معلوم ائر لائن کے سربراہ نے آپ کو بتایا ہے یا نہیں کہ فی جہاز پانچ سو ملازم پالے جا رہے ہیں جبکہ دوسری ائر لائنوں میں ڈیڑھ سو سے تین سو افراد فی جہاز کام کر رہے ہیں۔ یہ تین سو ملازم فی جہاز بھی صرف ایک آدھ ائر لائن میں ہیں۔ اکثریت کا تناسب دو سو افراد فی جہاز سے کم ہے!ہمیں نہیں معلوم موجودہ سربراہ نے آپ کو حقائق سے اس طرح آگاہ کیا یا نہیں جس طرح چار سال پہلے، اُس وقت کے چیئرمین مسٹر اعظم سہگل نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا کہ چھ یونینیں اور ایسوسی ایشنیں ہیں جو ائر لائن کو یرغمال بنائے ہیں۔ ''اگر ہم احتساب کے حوالے سے صحیح نتیجے پر پہنچ بھی جائیں تو اگلا اقدام کرنا ان تنظیموں کے اثر و رسوخ اور مداخلت کی وجہ سے بہت مشکل ہوتا ہے‘‘ یہ الفاظ سابقہ چیئرمین کے تھے!!
ملازمین ساڑھے چودہ ہزار نہیں، اٹھارہ ہزار کے لگ بھگ ہیں کیونکہ مبینہ طور پر تین ہزار کے افراد روزانہ اجرت کی بنیاد پر بھی رکھے جاتے ہیں۔ نہیں معلوم سربراہ صاحب نے آپ کو بتایا یا نہیں کہ ضرورت صرف چار ہزار افراد کی ہے کیونکہ جہاز ہی تیس بتیس سے زیادہ نہیں! 
28 ستمبر 2018ء کو اس وقت کے وزیر اطلاعات سرکاری ٹویٹر اکائونٹ پر مندرجہ ذیل اعداد و شمار ٹویٹ کر چکے ہیں: مستقل ملازمین: 14800
ملازمین روزانہ اجرت پر: 3700
ملازمین فی جہاز: 500۔
جناب وزیر اعظم! کیا یہ قلاش قوم اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر ان چودہ ہزار ملازمین کو تنخواہیں اور بھاری مراعات دیتی رہے گی جن کی ائر لائن کو ضرورت ہی نہیں؟ جن کے لیے کام ہی کوئی نہیں؟ جہاں پناہ! دو ارب روپے ہر ماہ ، چوبیس ارب روپے سالانہ ان ہزاروں زائد از ضرورت افراد پر لٹائے جا رہے ہیں! کیا یہ لٹائے جاتے رہیں گے؟ 
جناب وزیر اعظم ! آپ نے تو تبدیلی کا وعدہ کیا تھا! اس قسم کی بریفنگ تمام سابق وزرائے اعظم لیتے رہے ہیں۔ جو اصطلاحات آپ نے دو دن پہلے کے اجلاس میں استعمال فرما کر احکام جاری کیے، وہ اصطلاحات عشروں سے استعمال کی جا رہی ہیں۔ 
1) Restructuring 
2) روڈ میپ
3) اخراجات کم کرو
4) آمدنی بڑھانے پر فوکس کرو
5) فلیٹ کو اپ گریڈ کرو! 
کون سا روڈ میپ؟ کون سی Restructuring؟ کیسا فوکس؟
یہ پانی تو ماضی میں بھی بلویا جاتا رہا۔ یہ مدھانی اس پانی میں دہائیوں سے پھیری جا رہی ہے! کبھی پانی بھی چھاچھ بنا؟؟ کبھی پانی پر بھی مکھن آیا؟؟
آپ تو دیانت دار ہیں! آپ تو مخلص ہیں! آپ کی تو ذاتی غرض کوئی نہیں! تو کیا آپ بھی ان نصف درجن یونینوں اور ایسوسی ایشنوں سے تعرض نہیں کریں گے جو اس سفید ہاتھی کو قائم رکھنے پر مصر ہیں؟ جن کے پیشِ نظر قومی مفاد نہیں، صرف اپنی نوکریوں، اپنی تنخواہوں، اپنے مفادات، اپنے مفت کے ان گنت ٹکٹوں کی بقا کا مسئلہ ہے! 
تو کیا آپ بھی اٹھارہ ہزار میں سے چودہ ہزار زائد ملازمین کو اس ائر لائن ہی میں رکھیں گے؟؟ کیا آپ بھی ائر لائن سے نہیں پوچھیں گے کہ جب ہزاروں مستقل ملازمین ضرورت سے زائد ہیں تو پھر تین چار ہزار ملازمین روزانہ اجرت کی بنیاد پر کیوں لائے جاتے ہیں؟؟
جس ائر لائن میں حادثوں کا اوسط دنیا بھر میں مبینہ طور پر نمایاں ہے، جس میں سفر کرنے سے پاکستانی اور غیر پاکستانی سب احتراز کرتے ہیں، اس کے شب و روز میں اگر آپ بھی تبدیلی نہیں لا رہے تو ہماری ڈھارس تو بندھائیے کہ کون لا رہا ہے؟ فی جہاز پانچ سو ملازمین کی موجودگی میں کون سی ری سٹرکچرنگ ہو گی؟ کیا فوکس ہو گا؟ کس پر فوکس ہو گا؟ کون سا روڈ میپ تیار ہو گا؟ جناب وزیر اعظم! عرض ہے کہ میں نے آپ کو ووٹ اس دعوے پر دیا تھا کہ آپ اپنے پیشروئوں سے مختلف ہوں گے! مگر اس قسم کے اجلاس تو آپ کے پیشرو بھی کرتے رہے!
عالی مرتبت! مجھے معلوم ہے میرے ایک ووٹ کی کوئی وقعت نہیں! میں ایک عام شہری ہوں جس کے ایک ووٹ سے آپ کی پارٹی کو یا کسی بھی پارٹی کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ مگر بندہ پرور! ایک وقت وہ بھی آئے گا جب میری بہت اہمیت ہو گی! جہاں میری آواز سنی جائے گی! جہاں میں پوچھ سکوں گا کہ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے میں نے خون پسینے کی کمائی سے اتنا حصّہ سرکاری خزانے کو دیا تھا، اس کے عوض ایک جہاز بھی ایسا نہ چلایا گیا جس پر میں خوف، دہشت اور ہول کے بغیر دو گھنٹوں کا ہی سفر کر لیتا! 
فضیلت مآب! یہ عام شہری جس کا ایک ووٹ آج کے ترازو میں ایک رتّی سے بھی کم ہے۔ اپنی ذات میں پوری دنیا ہے! یہ ذرّہ نہیں! قبلۂ عالم! یہ ایٹم ہے! ایک شاعر ہوتے تھے، علامہ اقبالؔ ، فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ الگ مسلمان ریاست کا تصوّر بھی آپ ہی نے پیش کیا تھا! اس عام شہری کے متعلق کہتے ہیں ؎
اگر ایک ذرہ کم گردد ز انگیزِ وجودِ من
باین قیمت نمی گیرم حیات جاودانی را
ایک ذرہ بھی میرے وجود سے کم ہو جائے تو اس کے بدلے میں ابدی زندگی قبول نہ کروں! 
یہ ایک ذرہ، یہ ایک ایٹم، یہ ایک ووٹ، یہ ایک شہری کے ٹیکس کا حساب، کل کہیں حکمرانوں کیلئے رپھڑ نہ بن جائے! مصیبت میں نہ لا کھڑا کرے! 
ظلِّ الٰہی! آپ اور آپ کے رفقائے کار اچھی طرح جانتے ہیں کہ قومی ائر لائن کا اس روئے زمین کے اوپر اور اس نیلے آسمان کے نیچے ایک ہی حل ہے اور وہ ہے اسے نجی شعبے میں منتقل کرنا! یہ حل سب حکومتوں کو معلوم تھا، مگر پچھلی حکومتوں نے میرٹ کے بغیر اپنے حمایتی اس ائر لائن میں بھرتی کرائے تھے۔ جہاں تک اخباری اطلاعات ہیں، تحریک انصاف نے تاحال اس ادارے کو اپنے حامیوں کے لیے دستر خوان کے طور پر نہیں استعمال کیا تو پھر وہ کون سی مصلحت ہے جو آپ کو مجبور کر رہی ہے کہ 'سٹیٹس کو‘ کو جاری رکھیں۔ چھ ارب روپے ماہانہ یہ ادارہ نقصان اٹھاتا رہے اور عوام اس کی بقا کے لیے ٹیکس دیتے رہیں! کیوں؟ آخر کیوں؟
صاحبِ عالم! آپ کے ارد گرد جو چنیدہ اور غیر چنیدہ عمائدین بیٹھے ہیں۔ ان میں بہت سے اپنے کاروبار کرتے ہیں! بڑے بڑے کاروبار! ان کے کارخانے ہیں، جاگیریں ہیں، ملک کے اندر اور ملک کے باہر بزنس ہیں۔ ان سے صرف یہ پوچھیے کہ ان کے کسی کاروبار میں چار ہزار کے بجائے چودہ ہزار ملازمین اور چھ یونینیں اور ایسوسی ایشنیں ہوں تو کیا وہ کاروبار چل سکے گا؟ اور کیا یہ حضرات اسے اسی حالت میں رکھ کر نفع آور بنا سکیں گے؟
اگر ان کا جواب ہاں میں ہے تو آپ صاحبِ اختیار ہیں اور اگر ان کا جواب نہیں میں ہے تو آپ یہ بھی استفسار فرمائیے کہ کیا ''ری سٹرکچرنگ‘‘ اور ''روڈ میپ‘‘ کے ذریعے وہ فی جہاز پانچ سو افراد کو قبول کر لیں گے؟ 

جہاں پناہ! حل ایک ہی ہے

نہیں! جناب وزیر اعظم آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ نہیں! عالی جاہ! آپ ایسا نہیں کر سکتے!

دو دن پہلے پی آئی اے کے سربراہ نے آپ کو بریفنگ دی! اور بتایا کہ قومی ائر لائن کو ہر مہینے، چھ ارب روپے کا خسارہ ہو رہا ہے! دو ارب ماہانہ صرف اُن ساڑھے چودہ پندرہ ہزار ملازمین کی تنخواہوں کے کھاتے میں دیئے جا رہے ہیں جن کی ضرورت ہی نہیں!
ہمیں نہیں معلوم ائر لائن کے سربراہ نے آپ کو بتایا ہے یا نہیں کہ فی جہاز پانچ سو ملازم پالے جا رہے ہیں جبکہ دوسری ائر لائنوں میں ڈیڑھ سو سے تین سو افراد فی جہاز کام کر رہے ہیں۔ یہ تین سو ملازم فی جہاز بھی صرف ایک آدھ ائر لائن میں ہیں۔ اکثریت کا تناسب دو سو افراد فی جہاز سے کم ہے!ہمیں نہیں معلوم موجودہ سربراہ نے آپ کو حقائق سے اس طرح آگاہ کیا یا نہیں جس طرح چار سال پہلے، اُس وقت کے چیئرمین مسٹر اعظم سہگل نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا کہ چھ یونینیں اور ایسوسی ایشنیں ہیں جو ائر لائن کو یرغمال بنائے ہیں۔ ''اگر ہم احتساب کے حوالے سے صحیح نتیجے پر پہنچ بھی جائیں تو اگلا اقدام کرنا ان تنظیموں کے اثر و رسوخ اور مداخلت کی وجہ سے بہت مشکل ہوتا ہے‘‘ یہ الفاظ سابقہ چیئرمین کے تھے!!
ملازمین ساڑھے چودہ ہزار نہیں، اٹھارہ ہزار کے لگ بھگ ہیں کیونکہ مبینہ طور پر تین ہزار کے افراد روزانہ اجرت کی بنیاد پر بھی رکھے جاتے ہیں۔ نہیں معلوم سربراہ صاحب نے آپ کو بتایا یا نہیں کہ ضرورت صرف چار ہزار افراد کی ہے کیونکہ جہاز ہی تیس بتیس سے زیادہ نہیں! 
28 ستمبر 2018ء کو اس وقت کے وزیر اطلاعات سرکاری ٹویٹر اکائونٹ پر مندرجہ ذیل اعداد و شمار ٹویٹ کر چکے ہیں: مستقل ملازمین: 14800
ملازمین روزانہ اجرت پر: 3700
ملازمین فی جہاز: 500۔
جناب وزیر اعظم! کیا یہ قلاش قوم اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر ان چودہ ہزار ملازمین کو تنخواہیں اور بھاری مراعات دیتی رہے گی جن کی ائر لائن کو ضرورت ہی نہیں؟ جن کے لیے کام ہی کوئی نہیں؟ جہاں پناہ! دو ارب روپے ہر ماہ ، چوبیس ارب روپے سالانہ ان ہزاروں زائد از ضرورت افراد پر لٹائے جا رہے ہیں! کیا یہ لٹائے جاتے رہیں گے؟ 
جناب وزیر اعظم ! آپ نے تو تبدیلی کا وعدہ کیا تھا! اس قسم کی بریفنگ تمام سابق وزرائے اعظم لیتے رہے ہیں۔ جو اصطلاحات آپ نے دو دن پہلے کے اجلاس میں استعمال فرما کر احکام جاری کیے، وہ اصطلاحات عشروں سے استعمال کی جا رہی ہیں۔ 
1) Restructuring 
2) روڈ میپ
3) اخراجات کم کرو
4) آمدنی بڑھانے پر فوکس کرو
5) فلیٹ کو اپ گریڈ کرو! 
کون سا روڈ میپ؟ کون سی Restructuring؟ کیسا فوکس؟
یہ پانی تو ماضی میں بھی بلویا جاتا رہا۔ یہ مدھانی اس پانی میں دہائیوں سے پھیری جا رہی ہے! کبھی پانی بھی چھاچھ بنا؟؟ کبھی پانی پر بھی مکھن آیا؟؟
آپ تو دیانت دار ہیں! آپ تو مخلص ہیں! آپ کی تو ذاتی غرض کوئی نہیں! تو کیا آپ بھی ان نصف درجن یونینوں اور ایسوسی ایشنوں سے تعرض نہیں کریں گے جو اس سفید ہاتھی کو قائم رکھنے پر مصر ہیں؟ جن کے پیشِ نظر قومی مفاد نہیں، صرف اپنی نوکریوں، اپنی تنخواہوں، اپنے مفادات، اپنے مفت کے ان گنت ٹکٹوں کی بقا کا مسئلہ ہے! 
تو کیا آپ بھی اٹھارہ ہزار میں سے چودہ ہزار زائد ملازمین کو اس ائر لائن ہی میں رکھیں گے؟؟ کیا آپ بھی ائر لائن سے نہیں پوچھیں گے کہ جب ہزاروں مستقل ملازمین ضرورت سے زائد ہیں تو پھر تین چار ہزار ملازمین روزانہ اجرت کی بنیاد پر کیوں لائے جاتے ہیں؟؟
جس ائر لائن میں حادثوں کا اوسط دنیا بھر میں مبینہ طور پر نمایاں ہے، جس میں سفر کرنے سے پاکستانی اور غیر پاکستانی سب احتراز کرتے ہیں، اس کے شب و روز میں اگر آپ بھی تبدیلی نہیں لا رہے تو ہماری ڈھارس تو بندھائیے کہ کون لا رہا ہے؟ فی جہاز پانچ سو ملازمین کی موجودگی میں کون سی ری سٹرکچرنگ ہو گی؟ کیا فوکس ہو گا؟ کس پر فوکس ہو گا؟ کون سا روڈ میپ تیار ہو گا؟ جناب وزیر اعظم! عرض ہے کہ میں نے آپ کو ووٹ اس دعوے پر دیا تھا کہ آپ اپنے پیشروئوں سے مختلف ہوں گے! مگر اس قسم کے اجلاس تو آپ کے پیشرو بھی کرتے رہے!
عالی مرتبت! مجھے معلوم ہے میرے ایک ووٹ کی کوئی وقعت نہیں! میں ایک عام شہری ہوں جس کے ایک ووٹ سے آپ کی پارٹی کو یا کسی بھی پارٹی کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ مگر بندہ پرور! ایک وقت وہ بھی آئے گا جب میری بہت اہمیت ہو گی! جہاں میری آواز سنی جائے گی! جہاں میں پوچھ سکوں گا کہ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے میں نے خون پسینے کی کمائی سے اتنا حصّہ سرکاری خزانے کو دیا تھا، اس کے عوض ایک جہاز بھی ایسا نہ چلایا گیا جس پر میں خوف، دہشت اور ہول کے بغیر دو گھنٹوں کا ہی سفر کر لیتا! 
فضیلت مآب! یہ عام شہری جس کا ایک ووٹ آج کے ترازو میں ایک رتّی سے بھی کم ہے۔ اپنی ذات میں پوری دنیا ہے! یہ ذرّہ نہیں! قبلۂ عالم! یہ ایٹم ہے! ایک شاعر ہوتے تھے، علامہ اقبالؔ ، فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ الگ مسلمان ریاست کا تصوّر بھی آپ ہی نے پیش کیا تھا! اس عام شہری کے متعلق کہتے ہیں ؎
اگر ایک ذرہ کم گردد ز انگیزِ وجودِ من
باین قیمت نمی گیرم حیات جاودانی را
ایک ذرہ بھی میرے وجود سے کم ہو جائے تو اس کے بدلے میں ابدی زندگی قبول نہ کروں! 
یہ ایک ذرہ، یہ ایک ایٹم، یہ ایک ووٹ، یہ ایک شہری کے ٹیکس کا حساب، کل کہیں حکمرانوں کیلئے رپھڑ نہ بن جائے! مصیبت میں نہ لا کھڑا کرے! 
ظلِّ الٰہی! آپ اور آپ کے رفقائے کار اچھی طرح جانتے ہیں کہ قومی ائر لائن کا اس روئے زمین کے اوپر اور اس نیلے آسمان کے نیچے ایک ہی حل ہے اور وہ ہے اسے نجی شعبے میں منتقل کرنا! یہ حل سب حکومتوں کو معلوم تھا، مگر پچھلی حکومتوں نے میرٹ کے بغیر اپنے حمایتی اس ائر لائن میں بھرتی کرائے تھے۔ جہاں تک اخباری اطلاعات ہیں، تحریک انصاف نے تاحال اس ادارے کو اپنے حامیوں کے لیے دستر خوان کے طور پر نہیں استعمال کیا تو پھر وہ کون سی مصلحت ہے جو آپ کو مجبور کر رہی ہے کہ 'سٹیٹس کو‘ کو جاری رکھیں۔ چھ ارب روپے ماہانہ یہ ادارہ نقصان اٹھاتا رہے اور عوام اس کی بقا کے لیے ٹیکس دیتے رہیں! کیوں؟ آخر کیوں؟
صاحبِ عالم! آپ کے ارد گرد جو چنیدہ اور غیر چنیدہ عمائدین بیٹھے ہیں۔ ان میں بہت سے اپنے کاروبار کرتے ہیں! بڑے بڑے کاروبار! ان کے کارخانے ہیں، جاگیریں ہیں، ملک کے اندر اور ملک کے باہر بزنس ہیں۔ ان سے صرف یہ پوچھیے کہ ان کے کسی کاروبار میں چار ہزار کے بجائے چودہ ہزار ملازمین اور چھ یونینیں اور ایسوسی ایشنیں ہوں تو کیا وہ کاروبار چل سکے گا؟ اور کیا یہ حضرات اسے اسی حالت میں رکھ کر نفع آور بنا سکیں گے؟
اگر ان کا جواب ہاں میں ہے تو آپ صاحبِ اختیار ہیں اور اگر ان کا جواب نہیں میں ہے تو آپ یہ بھی استفسار فرمائیے کہ کیا ''ری سٹرکچرنگ‘‘ اور ''روڈ میپ‘‘ کے ذریعے وہ فی جہاز پانچ سو افراد کو قبول کر لیں گے؟ 

Tuesday, June 09, 2020

ایس او پی

کہانی وہی ہے پرانی۔ کئی دفعہ سنائی گئی! کئی بار سنی گئی۔ اس ملک کی قسمت! کہ ہر بار سنانا پڑتی ہے ہر بار سننا پڑتی ہے!
صبح سب سے پہلے جو شخص شہر کے دروازے سے اندر داخل ہوا‘ وہ فقیر تھا! اسے‘ فارمولے کے تحت‘ بادشاہ بنا دیا گیا۔ اس نے فقیرانہ لباس اتار کر شاہانہ لباس زیب تن کیا مگر اپنے امور میں خوب عقل مند تھا۔ گدڑی اور لاٹھی چھپا کر رکھ لی۔
پھر اسے بتایا گیا کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے۔ اس نے حلوہ بنوایا۔ ہر خبر کے ساتھ حلوہ بنواتا تھا۔ جب حالات قابو سے باہر ہو گئے‘ تو اس نے گدڑی اوڑھی۔ عصا پکڑا اور یہ کہہ کر چلتا بنا کہ تم جانو‘ تمہارا کام! مرو یا جیو! میں نے تو دو دن حلوہ کھانا تھا!
موت گھر گھر دستک دے رہی ہے! ریاست کی صرف لاتعلقی ہوتی تو اور بات تھی! ریاست تو یوں لگتا ہے حملہ آور کے ساتھ ہے! کوئی پوچھے کہ پارک کھولنے کی اس نازک وقت میں کیا مجبوری تھی؟ یہ جانتے ہوئے کہ عوام کی کثیر تعداد ان پڑھ ہے اور لاپروا! ملنگوں اور مزاروں کے زیر اثر لاکھوں افراد کورونا کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کر رہے‘ ایسے میں پابندیاں سخت کرنے کی ضرورت تھی!مگر پارکوں کی کسر رہتی تھی! وہ بھی کھول دیئے گئے!
ایک بے تحاشا آبادی!! دوسرے تعلیم اور تربیت دونوں کی کمی! شدید کمی! نفسیات قوم کی ایسی بن گئی ہے کہ ہر پابندی کو توڑنا ہے۔ ہر قاعدے کی خلاف ورزی کرنی ہے۔ ہر قانون کو پیروں تلے روندنا ہے! شعور کا مکمل فقدان ہے! ان لوگوں کا آپ کیا کریں گے جو ابھی تک سیٹ بیلٹ صرف پولیس کے ڈر سے باندھتے ہیں۔ جو ٹریفک قانون کی فخر سے بے حرمتی کرتے ہیں! بچے کو گود میں بٹھا کر گاڑی ڈرائیو کرتے ہیں!
عید کی شاپنگ لوگوں نے ایسے کی جیسے زندگی کی آخری عید ہے! بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا رہا! دکانوں پر خلقت ٹوٹ پڑی۔ ایک عید پر نئے کپڑے نہ بنتے تو کون سی قیامت آ جاتی! قیامت آئی مگر نئے ملبوسات خریدنے سے! آج وہ ملبوسات کفن بن کر اپنی قیمت وصول کر رہے ہیں!
اُس سے پہلے کیا ہوا! اُس سے پہلے جب شٹر ڈاؤن تھے تو لالچی دکاندار‘ گاہکوں کو اندر ہانک کر‘ دکان میں لا کر‘ شٹر بند کر دیتے‘ باہر نکالتے وقت شٹر اٹھا دیتے! کس کو دھوکا دے رہے تھے؟ ریاست کو؟ اس میں ریاست کا کیا فائدہ تھا؟ جیسے تاجر ویسے ہی گاہک۔آج جب دوسرے ملکوں میں کورونا کا گراف نیچے جا رہا ہے‘ ہمارے ہاں اوپر جا رہا ہے اور تمام گزشتہ ریکارڈ توڑتا ہوا‘ اوپر جا رہا ہے! موت جو گلی کوچوں میں رقصاں تھی‘ اب گھروں کے دروازے کھٹ کھٹا رہی ہے‘ ریاست لاک ڈاؤن اور سمارٹ لاک ڈاؤن کی موشگافیوں میں الجھ اور الجھا رہی ہے! جب دنیا لاک ڈاؤن کر رہی تھی! ہمارے ہاں کھولنے کے احکام جاری کیے جا رہے تھے۔
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا
ریاست کا اولین فرض رعایا کی حفاظت ہے! نہ کہ محاصل اور معیشت! لوگ ہی نہ رہیں گے تو محصول کون دے گا اور معیشت کس کے سہارے کھڑی ہوگی؟ معیشت خلقِ خدا کیلئے ہے‘ خلقِ خدا معیشت کیلئے نہیں ہے! ملک انسانوں سے بنتے ہیں۔ انسان مکھیوں مچھروں کی طرح مر رہے ہوں تو کون سی معیشت! اور کہاں کے محصولات!!
مشیر صحت بتاتے ہیں کہ کورونا سے مرنے والوں میں 74فیصد وہ تھے جو دیگر امراض میں مبتلا تھے۔ یہ اعداد و شمار انہوں نے کہاں سے لئے ہیں؟ ذرا قوم کے ساتھ وہ حساب کتاب شیئر تو فرمائیے جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں! عفریت عفریت ہے! اس کا قد گھٹانے کی کوشش مت کیجئے! جو ''دیگر امراض‘‘ میں مبتلا نہیں‘ انہیں ''خود تسکینی‘‘ کا نشہ نہ پلائیے! بازار‘ سیر گاہیں‘ پارک پلازے‘ مال‘ سب کچھ آپ نے کھول دیا۔ رہی سہی کسر یہ کہہ کر نہ نکالیے کہ مرنے والے زیادہ تر بلڈ پریشر اور شوگر کے مریض تھے۔ یہ بیماریاں تو لاکھوں کروڑوں افراد کو لاحق ہیں!اب دوسری کہانی بھی سن لیجیے۔ بادشاہ کو ایسی بیماری لاحق ہوئی جس کا کوئی علاج کارگر نہیں ہو رہا تھا! بالآخر ڈاکٹروں کے بورڈ نے تجویز کیا کہ ایک نوجوان جس کی فلاں فلاں خصوصیات ہوں‘ ڈھونڈا جائے اور اس کے پتّے سے علاج کیا جائے۔ ایسا نوجوان مل گیا۔ ماں باپ کو اشرفیوں کی تھیلی دے کر راضی کر لیا گیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ حکمرانِ وقت کی جان بچانے کے لئے یہ ''قربانی‘‘ روا ہے۔ جلاد کے سامنے نوجوان کو لایا گیا تو وہ آسمان کی طرف ہنسا۔ بادشاہ نے پوچھا‘ خوف کے ان لمحات میں بھی ہنس رہے ہو! آخر کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ اولاد کے ناز ماں باپ اٹھاتے ہیں۔ انصاف جج کرتا ہے اور حفاظت بادشاہ! یہاں یہ حال ہے کہ ماں باپ نے اشرفیاں لے لیں۔ جج نے نظریۂ ضرورت ایجاد کر لیا رہا بادشاہ! تو اسی کیلئے تو سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے! ایسے میں خدا کے سوا کون سا سہارا بچا ہے‘ سو اُس کی طرف دیکھا ہے!کہانی کا انجام کیا ہوا! اسے چھوڑیئے! بس یہ ذہن میں رکھیے کہ آپ کے سر پر بادشاہ ہے نہ ریاست نہ حکومت! حکومت نے آپ کو بتا دیا ہے کہ کورونا نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے! حکومت اس معاملے میں کیا کچھ کر سکتی ہے؟ یہ حکومت نے نہیں بتایا! اس کا جواب آپ کو بھی معلوم ہے اور کالم نگار کو بھی! سو‘ منہ آسمان کی طرف اٹھائیے اور پروردگار سے مدد مانگئے۔ کیوں کہ جن پر تکیہ بطور شہری ہونا چاہیے تھا‘ وہ پتے ہوا دے رہے ہیں!
پس جان لو کہ تم بے یارو مددگار ہو۔ جس ریاست کو تمہاری جانوں کی حفاظت تفویض کی گئی ہے‘ وہ ابھی محاصل گِن رہی ہے اور معیشت کی فکر میں ہے! اس معیشت کو اور ان محاصل کو شہریوں کے پتّوں کی ضرورت ہے! اپنے پتّوں کی خود حفاظت کرو! کسی نے تمہاری مدد کو نہیں آنا۔ اگر پارک کھول دیئے گئے ہیں کہ پتّے زیادہ تعداد میں جمع ہو سکیں تو خدا کیلئے پارکوں میں نہ جاؤ! نہ بچوں کو نہ اہلِ خانہ کو جانے دو! تمہارے گھر کی چھت ہی تمہارا پارک ہے! بازاروں‘ پلازوں‘ مالوں اور مارکیٹوں میں نہ جاؤ! ضروریات کو محدود کرو! اگر محلے یا کالونی میں کوئی دکاندار‘ کوئی سٹور‘ سودا آپ کے گھر بھجوانے کو تیار ہے تو جیسا بھی آتا ہے‘ اس پر قناعت کرو! یہ نہ دیکھو کہ بھنڈی تازہ نہیں ہے اور لوبیا سرخ کی جگہ سفید کیوں آ گیا ہے! نزاکتیں‘ نخرے‘ غمزے‘ عشوے بالائے طاق رکھو! تانے شاہ کی طرح اس وقت ناجائز مطالبات نہ کرو! اسے شکایت تھی کہ کمخواب کے گدے کے نیچے‘ پلنگ پر‘ کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا جس کی وجہ سے نیند میں خلل آیا۔ یہ بان کی کھردری چارپائی پر لیٹنے کا وقت ہے!اردگرد کے غربا اور مساکین کا خیال رکھئے۔ صدقہ دینے کا یہی وقت ہے! جو حاصل ہے اس پر شکر کیجئے۔ جن کو یہ بھی نہیں میسر‘ ان کی کفالت کیجئے۔ وینٹی لیٹر پر بینک بیلنس کام آتا ہے نہ جائیداد! جو دن سلامتی سے گزر جائے اس پر سجدہ ریز ہو جائیے ۔ابتلا کے اس عرصہ میں جب صرف آپ خود ہی اپنی حفاظت کر رہے ہیں‘ اگر ریاست کہیں‘ کسی سایہ دار درخت کے نیچے‘ پوٹلی پاس رکھے‘ سستاتی نظر آئے تو اُسے کچھ ضرور دیجئے۔ بیچاری مستحق ہے! اس کی پوٹلی میں کچھ محصول ڈال دیجئے۔ اس کی معیشت تاکہ مستحکم ہو جائے۔ اسے آپ کی زندگی سے نہیں‘ آپ کی کمائی سے دلچسپی ہے!
رہی ایس او پی‘ تو اس سے مراد سَن آف پاور ہے! اصل شے پاور ہے! انسانوں پر نہیں تو میتوں ہی پر سہی

Monday, June 08, 2020

صرف نام ہی کافی ہونا چاہیے تھا

صرف نام ہی کافی تھا! علائو الدین خلجی کا صرف نام ہی کافی تھا!
پاکستان سے کئی گنا بڑی سلطنت! کاریں نہ جہاز! تار برقی نہ ای میل! وٹس ایپ نہ ٹیلی فون! مگر جو ریٹ علائو الدین مقرر کرتا تھا‘ سلطنت کے ہر شہر ‘ ہر قصبے ‘ ہر منڈی‘ ہر بازار میں وہی ریٹ چلتا تھا۔ ہر جنس کی قیمت مقرر تھی! ہر بازار کی اطلاع بادشاہ کو پل پل پہنچتی تھی!
جب حکمران کی نیت صاف ہو‘ تو فضائیں اور ہوائیں بھی اس کی مدد کرتی ہیں! اس کے انصاف کی خبر خوشبو کی طرح پھیلتی ہے! دور افتادہ قریوں کے تاجر بھی جانتے تھے کہ کم تولنے کی صورت میں‘ کم تولنے والے کے جسم سے اتنا گوشت کاٹ لیا جائے گا جتنا اس نے کم تولا ہے۔ انصاف کی خوشبو ہوتی ہے تو دہشت بھی! مظلوم کے لیے خوشبو! ظالم کے لیے دہشت! خلجی کے دور حکومت میں قیمتوں کا استحکام حیرت انگیز تھا! آج تک حیرت انگیز ہے!
شیر شاہ سوری کا زمانہ بھی آج کی مواصلات سے چھلکتی دنیا سے سینکڑوں سال پہلے کا تھا۔ بابر چار سال آگرہ سے حکومت کرنے کے بعد 1530ء میں دنیا چھوڑ گیا۔ دس سال ہمایوں نے جوں توں کر کے کاٹے۔ 1540ء میں سوری نے زمام سنبھالی! پانچ سال اسے ملے۔ صرف پانچ سال! ان پانچ برسوں میں وہ خود نہیں‘ اس کا نام حکمران تھا! وہ دارالحکومت سے گھوڑے یا ہاتھی پر سوار ہو کر آخر کہاں کہاں پہنچ سکتا تھا! مگر سلطنت کے اطراف و اکناف میں ہر شخص جانتا تھا کہ سوری کا زمانہ ہے۔ کون سا سوری؟ جس نے کھیت کو نقصان پہنچانے والے لشکری کا کان اپنے ہاتھ سے کاٹا تھا اور پورے لشکر میں اسے پھرایا تھا! کون سا سُوری؟ جو قاتل نہ ڈھونڈنے کی صورت میں گائوں کے نمبردار کو پھانسی دیتا تھا! سُوری کا نام ہی کافی تھا! کس کی مجال تھی کہ ظلم کرے! ظلم کرے گا تو کتنے دن بچے گا؟ یوں تو شیر شاہ نے جگہ جگہ چوکیاں بنوائی تھیں۔ جہاں سے تازہ‘ تیز رفتار گھوڑے‘ ڈاک کے ہر کاروں کو میّسر آتے تھے‘ مگر اس کے باوجود اس کی خوش نیتی‘ انصاف کے لیے اس کا عزمِ صمیم اور کسی رشتہ دار کا جرم بھی معاف نہ کرنے کا رویہ‘ یہ وہ عوامل تھے جو اس کی سلطنت کو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ذکرِ خیر دے گئے!
پھر انگریز کا زمانہ آیا! ٹھیک ہے‘ قومی‘ ملکی سطح پر وہ استعمار تھا! ان کے اپنے مفادات تھے‘ مگر ان مٹھی بھر سفید فاموں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ انصاف انہوں نے سب سے نچلی سطح تک پہنچانا ہے! گائوں میں قتل ہوتا تھا تو تھانیدار وہاں تنبو گاڑ کر بیٹھ جاتا تھا۔ قاتل کے پکڑے جانے تک بیٹھا رہتا۔کیوں؟ اسے معلوم تھا کہ اوپر بیٹھا ہوا انگریز ایس پی مجرم پکڑے جانے کا شدت سے منتظر ہے! انگریز افسر چند ہزار سے زیادہ نہ تھے‘ مگر انگریز کے انصاف کا نام چلتا تھا! نام ہی کافی تھا!
تحریک انصاف کی حکومت آئی تو یہ خوش فہمی تھی کہ اب ہر شخص جان جائے گا کہ کس کی حکومت ہے! غلط کام کرنے سے پہلے وہ سو بار سوچے گا کہ علائوالدین نہ سہی‘ شیر شاہ سوری نہ سہی‘ ملکہ برطانیہ اور وائسرائے نہ سہی‘ عمران خان کی حکومت تو ہے نا! تحریک انصاف تو انصاف کرنے کیلئے آئی تھی! مگر افسوس! ایسا نہ ہوا! نام کی خوشبو پھیلی نہ نام کی دہشت! کچھ بھی نہیں بدلا! افسوس! صد افسوس! ہیہات! کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ امام دین اب بھی امام دین ہے اور چوہدری آج بھی چوہدری ہے! وہی چنگیزی چیلے!
اخبار سامنے پڑا منہ چڑا رہا ہے۔ آٹھ سالہ ملازمہ کو تشدد کا نشانہ میاں بیوی نے بنایا‘ تشدد اتنا کیا کہ ہسپتال جا کر وہ مر گئی۔ مگر خبر کے اس حصے پر غور کیجیے کہ جس تھانیدار نے قاتل جوڑے کو پکڑا‘ اُسے اُس تھانے ہی سے تبدیل کر دیا گیا۔ پریس کہتا ہے کہ پولیس نے اس تبادلے کی تصدیق بھی کر دی!
یہ درست ہے حکمران اعلیٰ ہر تھانے‘ ہر کچہری‘ ہر قصبے میں ذاتی طور پر نہیں پہنچ سکتا! مگر ایک نام ہوتا ہے جو ہر جگہ پہنچتا ہے۔ کہیں خوشبو بن کر‘ کہیں دہشت کی شکل میں! تبادلہ کرنے والے نے یہ کیوں نہ سوچا کہ عمران خان کی حکومت ہے! کل میں اس تبادلے کا کیا جواب دوں گا؟ یہ گھڑا گھڑایا جواب تو ہر موقع پر ملتا ہی ہے کہ یہ روٹین کی ٹرانسفر تھی۔ روٹین کی ٹرانسفر کی بھی سُن لیجیے۔ تھانوں میں ایس ایچ او کبھی ماہ دو ماہ بعد ٹرانسفر ہو جاتا ہے کبھی سات آٹھ ماہ بعد۔ اگر باقاعدہ مطالعہ کیا جائے اور اعداد و شمار بہم پہنچائے جائیں کہ ایک تھانیدار کو ایک تھانے میں کتنا عرصہ رکھا جاتا ہے تو شاید دنیا کی سب سے زیادہ مضحکہ خیز پبلک ایڈمنسٹریشن نکلتے۔
اخبار کا ورق الٹتا ہوں! لکھا ہے فلاں وزارت میں گریڈ 21 کے دو افسران موجود ہیں۔ اُن کے اوپر گریڈ بیس کے افسر کو تعینات کر دیا گیا ہے! تعیناتی کرنے والے نے ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچا کہ کس کا دورِ حکومت ہے اور کل جواب دینا پڑے گا! اس لیے کہ جس کا بھی دورِ حکومت ہے پوچھ گچھ کوئی نہیں! سننے والوں نے کان بند کر رکھے ہیں۔بیورو کریسی کو برا بھلا سب کہتے ہیں۔ اس کے زخم کوئی نہیں دیکھتا! کون سا گروہ ہے جو حکمران اعلیٰ کے اردگرد حصار بنائے بیٹھا ہے؟ بیورو کریسی کی اکثریت کیوں مایوس اور دل برداشتہ ہے؟ استعداد پر یہ یاس کیسے اثر انداز ہو رہی ہے؟ بیورو کریسی میں برہمن اور شودرگروہوں کو الگ الگ کیوں رکھا جا رہا ہے؟ ساٹھ سال پہلے کی پالیسی ابھی تک چل رہی ہے۔
جس سانس میں دہائی دی جا رہی ہے کہ غربت 9 فیصد بڑھ سکتی ہے اور جس سانس میں رونا رویا جا رہا ہے کہ محاصل میں آٹھ سو ارب روپے کی کمی ہوئی‘ ٹھیک اسی سانس میں اس بھوکی ننگی قلاش‘ بے یارومددگار قوم کو مژدہ سنایا جا رہا ہے کہ 25 بزنس کلاس اوپن ریٹرن ہوائی جہاز کے ٹکٹ اب ارکان پارلیمنٹ کے خاندان بھی استعمال کرسکیں گے! صرف یہی نہیں‘ گزشتہ مالی سال کے غیراستعمال شدہ ٹکٹ اور وائوچر اس سال بھی قابلِ قبول ہوں گے‘ نئے سال کے توالگ ملیں گے ہی! تبدیلی کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان بااثر افراد کو بزنس کلاس کے بجائے اکانومی کے ٹکٹ دیئے جاتے مگر وہ قائداعظم تو گئے جو کابینہ کے ارکان کو چائے گھر سے پی کرآنے کا حکم دیتے تھے۔ نہ صرف ارکان پارلیمنٹ بلکہ ان کے اہلِ خاندان بھی بزنس ٹکٹ کے حقدار!ماشا اللہ ! اُن مغلوں کے آپ صحیح وارث ثابت ہوئے جو نیم برہنہ خلقِ خدا کو باجرے کی روٹی کھاتے دیکھ کر تاج محل اور تختِ طائوس بنواتے تھے! فکر دیہاڑی دار مزدوروں کی اور پرورش اپنی کلاس کی!!
عرصہ ہوا ایک غیر ملکی پاکستان کی ٹریفک کو دیکھ کر پکار اٹھا تھا کہ : People have been left on roads to kill each other.
کہ لوگوں کو شاہراہوں پر کھلا چھوڑ دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کو مار دیں! یہی صورتحال کورونا کی ہے۔ جب ذمہ دار سطح سے یہ کہا جائے کہ کورونا نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے تو اس کا بین السطور مطلب یہی ہے کہ مرنا ہے تو مرو! ریاست کچھ نہیں کر سکتی! سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کا کام اس پھیلائو کو روکنا نہیں! پولیس‘ ضلعی انتظامیہ‘ وزرا اور مشیران کرام کے لشکروں کے لشکر! دوسرے ادارے! یہ سب کہاں ہیں؟ کیا ایس او پی پر بزور عمل کرانے کیلئے اقوامِ متحدہ کی فوج درکار ہے؟ نوّے نوّے افراد روزانہ مر رہے ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان میں وائرس سے اتنا نقصان نہیں ہوا۔ غالباً نقصان میں جانی مال شامل نہیں کیا جا رہا! مریضوں کی تعداد چین کو پیچھے چھوڑ گئی ہے! ہسپتال بھر چکے‘ لائف سیونگ انجکشن ناپید! وینٹی لیٹروں کی تعداد برائے نام! بہت سے امراض کی طرح خود تسکینی کا بھی کوئی علاج نہیں!
ویسے یہ فارمولا برا نہیں! ٹڈی دَل نے آنا ہی آنا ہے! چینی نے مہنگا ہونا ہی ہونا ہے! روٹی کا بھائو بڑھنا ہی بڑھنا ہے! کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس نے ہونا ہی ہونا ہے! ایک کروڑ نوکریوں نے ملنا ہی ملنا ہے! پچاس لاکھ مکانوں نے بننا ہی بننا ہے! شاید حسنؔ بریلوی کا شعر ہے؎
او وصل میں منہ چھپانے والے!/ یہ بھی کوئی وقت ہے حیا کا؟

Thursday, June 04, 2020

پردے میں رہنے دو، پردہ نہ اٹھاؤ

… 

صاف پتہ چل رہا تھا کہ مریض کی حالت نازک ہے! بہت نازک!
منہ اور ناک میں ٹیوبیں لگی ہوئی تھیں، ہاتھ کے راستے، سٹینڈ پر لٹکی بوتل میں سے دوا جسم میں جا رہی تھی۔ سر کی جانب دیوار کے ساتھ متعدد آلات نظر آ رہے تھے جن پر بلڈ پریشر، دل کی رفتار اور نہ جانے کیا کیا دیکھا جا سکتا تھا۔ آنکھیں بند تھیں۔ سانس مشکل سے چل رہا تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے اس حالت میں مریض کے قریبی اعزہ کیا کر رہے ہوں گے؟ بیٹے، بیٹیاں، بیوی، بھائی بہن، ماں باپ! یقینا محوِ دعا ہوں گے۔ بارگاہِ ایزدی میں گڑگڑا رہے ہوں گے کہ رحیم و کریم پروردگار شفا بخش دے۔ اگر ہسپتال میں کوئی مسجد ہو گی تو وہاں جا کر کوئی بیٹا یا بھائی سجدہ ریز ہو گیا ہو گا! کوئی ڈاکٹر کے پاس کھڑا، امید کا چراغ آنکھوں میں جلائے، کچھ پوچھ رہا ہو گا! ماں اور بیوی صدقے پر صدقہ دے رہی ہوں گی!
مگر آہ! ہم میں سے کچھ اتنے بے درد اور پتھر دل ہیں کہ اس حالت میں بھی، اپنے جاں بلب باپ، ماں یا چچا کی فوٹو کھینچتے ہیں۔ پھر اس فوٹو کو فیس بک کی سولی پر چڑھاتے ہیں اور وہاں اپیل کرتے ہیں کہ یہ حالت ہے میرے پیارے کی، دعا کرو... پھر غضب خدا کا اُس پر ''لائیک‘‘ آتے ہیں۔ اس لیے کہ لائیک کے علاوہ اور وہاں کوئی کالم ہی نہیں! حیرت ہے کہ تم خود دعا کرنے کے بجائے فوٹو کھینچ رہے ہو، فیس بک پر مشغول ہو اور دوسروں کو کہہ رہے ہو کہ دعا کرو! کتنے لوگ فیس بک پر فوٹو دیکھ کر، رقت اور زاری سے دعا کریں گے؟ شاید سو میں ایک یا دو تین! تصویر نظر آئے گی اور فیس بک کے چلتے دریا میں بہہ جائے گی۔
ایسا ایک دو بار نہیں، بارہا دیکھا ہے ہر بار حیرت ہوئی اور افسوس! ایسی حالت تو دیکھی تک نہیں جاتی چہ جائیکہ تصویر بنا کر پوسٹ کی جائے۔ اپنے پیاروں کا تو تدفین سے پہلے چہرہ دیکھنے کیلئے بھی پہاڑ جتنا مضبوط دل چاہیے۔ ایک دوست ایسے موقع پر روتے ہیں مگر چہرہ نہیں دیکھتے! وہ ذہن میں مرحوم کا ہنستا بستا زندگی سے بھرپور چہرہ رکھنا چاہتے ہیں۔
جاپان سے نئی نئی سوزوکی وین پاکستان میں آئی تھی تو کسی نے کہا تھا کہ اٹھارہ بیس انسان وین کے اندر پچک کر بیٹھے اور اتنے ہی باہر لٹکتے دیکھ کر جاپانیوں کے اوسان خطا ہو گئے ہوں گے۔ پھر کورونا آیا تو اس کے ساتھ بہت کچھ ہوا۔ راتوں رات ہزاروں ماہرین پیدا ہو گئے۔ اسی طرح فیس بک کا بانی بھی سوچتا تو ہو گا کہ جو سلوک اس ایجاد کے ساتھ ہم پاکستانیوں نے کیا، کہیں اور کیا ہوا ہو گا!! خارج از وزن شاعری ٹنوں کے حساب سے ظہور پذیر ہوئی۔ اس کے مداح لاکھوں میں! کفار کی اس ایجاد کو ہمارے واعظین، مناظر اور مسلک پرست حضرات نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس پر یوں چھا گئے جیسے ٹڈی دل کھیتوں پر چھا جاتی ہے! گالیاں ایسی ایسی پڑھنے میں آئیں کہ الامان و الحفیظ! پھر یہ دھمکی کہ شیطان آپ کو لائیک کرنے سے روکے گا! واہ! بھئی واہ! تم شیطان کے اتنے قریب ہو کہ تمہیں معلوم ہے وہ کیا کرے گا!!
کچھ ایسے قابلِ رحم شرفا بھی ہیں جو فیس بک پر پوچھتے پھر رہے ہیں کہ میرے پاس اتنے ہزار روپے ہیں، بتائیے میں کون سا بزنس کروں؟ خدا جھوٹ نہ بلوائے پانچ سو روپے کی خطیر رقم کے ساتھ بھی بل گیٹس کے کچھ رقیب بزنس کے مشورے مانگ رہے ہیں!
ذاتی اور خاندانی زندگی کی ایک ایک پرت کھولنے کا کیا فائدہ! چند دن ہوئے امریکہ سے ایک عالمِِ دین کی ہدایات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کیا پتے کی باتیں بتائیں:
٭ اپنی پُر مسرت شادی کی تشہیر سوشل میڈیا پر مت کیجیے۔
٭ اپنی مہنگی خریداریوں کی اطلاعات نہ دیجیے۔
٭ یہ جو واہ اور نائس کے کمنٹ آتے ہں، ان میں سے اکثر جعلی ہیں۔
٭ آپ اس طرح کر کے حاسدوں کو بھڑکا رہے ہیں۔
٭ آپ کو کیا علم کون آپ کی اطلاعات محفوظ کر رہا ہے اور تصویریں غلط موقع پر استعمال کرے گا۔
٭ اپنی نجی زندگی کو پردے ہی میں رہنے دیجیے۔ اپنے آپ پر، اپنے خاندان پر، اپنی ازدواجی زندگی پر، اپنے بچوں کے مستقبل پر رحم کیجیے! 
عبادات بھی اس کراہیت سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ احرام باندھتے ہی فیس بک پر تشہیر شروع ہو جاتی ہے۔ پھر ایئر پورٹ پر پہنچنے کی!! کلام پاک میں تو یہ ہدایت دی گئی کہ اپنے رب کو زاری سے پکارو اور خفیہ! مگر یہاں یہ عبادت بھی تشہیر کی نذر ہو گئی۔ خوفِ خدا سے دل اس قدر خالی ہو گئے ہیں کہ بیت اللہ کے طواف کے دوران اب دعائوں کے کتابچے کم اور سیلفیاں لیتے موبائل فون زیادہ نظر آتے ہیں۔ اور ان میں ہر رنگ اور ہر نسل کے مسلمان ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوشاں!! اس میں تعجب بھی کیا ہے۔ جب ہنستا قہقہے لگاتا، مشّاق خرانٹ اینکر، کیمرہ آن ہوتے ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر، زار و قطار رونا، گڑگڑانا شروع کر سکتا ہے تو اس کے دوسرے مسلمان بھائی دورانِ طواف، اور حالتِ احرام میں تصویریں بنوا کر دنیا بھر کو کیوں نہیں بتا سکتے کہ لو! دیکھو! ہم چلے عبادت کرنے! ہم کس قدر نیک ہیں!!
فیس بک پر اس کالم نگار کا جو دائرہ ہے اس میں پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی ہیں جو صرف علمی، ثقافتی اور ادبی پوسٹنگ احباب کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں فارسی ادبیات عالیہ کے صدر رہے۔ اب معتبر ترین نجی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں مگر کبھی اپنی کامیابیوں کی تشہیر نہیں کی! ان کی فیس بک کی وال (یا ٹائم لائن، نہیں معلوم دونوں میں کیا فرق ہے) بذاتِ خود ایک دبستان ہے، ایک مدرسہ ہے ایک ادارہ ہے! انہوں نے سو سو دو دو سو سال پرانی کتابوں سے متعارف کرایا۔ ابھی ایک ہفتہ ہوا انہوں نے 1922ء کا شائع شدہ، مولوی غلام رسول صاحب کا شہرۂ آفاق ''قصّہ سسّی و پنوں‘‘ احباب کے ساتھ شیئر کیا اور کتاب کا ٹائٹل دیکھنے کو ملا۔ 1812ء میں لکھے گئے مرزا محمد حسن قتیل لاہوری کا خط انہی کے طفیل پڑھنے کو ملا۔ خطاطی کے بیش بہا نادر نمونے دیکھے۔ عبدالرحیم خانخاناں کا یہ با کمال شعر انہی کی وال پر ملا؎
خاک بادا خاک بادا برسرِ این زندگی
خانِ خانان بودن و بی جانِ جانان زیستن
ایسی زندگی پر خاک! ہو تو خانِ خانان مگر خانِ خاناں کے بغیر جی رہے ہو!
انگریز شاعر رابرٹ گارڈنر اسبقؔ (1876-1930) کی شاعری بھی یہیں پڑھی۔ اس انگریز شاعر اسبق صاحب کا ایک شعر دیکھیے؎
تیرے دیوانے کے پیچھے کیا ہے لڑکوں کا ہجوم
کچھ ہیں پتھر جھولیوں میں، کچھ ہیں پتھر ہاتھ میں
تاہم نظامی صاحب اپنی دلکش اور عمدہ شاعری شیئر کرنے میں فیاض ہرگز نہیں!!معروف کالم نگار، جوانِ رعنا، آصف محمود بھی اپنی وال پر ہمیشہ سیاسی، قومی اور صحافتی معاملات ہی لے کر آتے ہیں۔ یہ اور بات کہ خون جوان ہے اور قوتِ تحریر زبردست! ایسے میں پوسٹنگ کبھی کبھی طوفانی یا سیلابی بھی ہو جاتی ہے۔ ان دنوں وہ اسلام آباد کے اُن مقامات کی ہمیں سیر کرا رہے ہیں جو اس نئے شہر سے پہلے کے ہیں، اب تک محفوظ ہیں اور اکثر لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل!! سارے پند و نصائح بجا! مگر، میرے سمیت، ہم جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے۔ ہم وہ نہیں جو بدل جائیں۔ فیس بک ہم سے پناہ مانگتی رہے گی اور گانے والا گاتا جائے گا؎
پردے میں رہنے دو
پردہ نہ اٹھائو
پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا!
 

powered by worldwanders.com