نہیں! جناب وزیر اعظم آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ نہیں! عالی جاہ! آپ ایسا نہیں کر سکتے!
دو دن پہلے پی آئی اے کے سربراہ نے آپ کو بریفنگ دی! اور بتایا کہ قومی ائر لائن کو ہر مہینے، چھ ارب روپے کا خسارہ ہو رہا ہے! دو ارب ماہانہ صرف اُن ساڑھے چودہ پندرہ ہزار ملازمین کی تنخواہوں کے کھاتے میں دیئے جا رہے ہیں جن کی ضرورت ہی نہیں!
ہمیں نہیں معلوم ائر لائن کے سربراہ نے آپ کو بتایا ہے یا نہیں کہ فی جہاز پانچ سو ملازم پالے جا رہے ہیں جبکہ دوسری ائر لائنوں میں ڈیڑھ سو سے تین سو افراد فی جہاز کام کر رہے ہیں۔ یہ تین سو ملازم فی جہاز بھی صرف ایک آدھ ائر لائن میں ہیں۔ اکثریت کا تناسب دو سو افراد فی جہاز سے کم ہے!ہمیں نہیں معلوم موجودہ سربراہ نے آپ کو حقائق سے اس طرح آگاہ کیا یا نہیں جس طرح چار سال پہلے، اُس وقت کے چیئرمین مسٹر اعظم سہگل نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا کہ چھ یونینیں اور ایسوسی ایشنیں ہیں جو ائر لائن کو یرغمال بنائے ہیں۔ ''اگر ہم احتساب کے حوالے سے صحیح نتیجے پر پہنچ بھی جائیں تو اگلا اقدام کرنا ان تنظیموں کے اثر و رسوخ اور مداخلت کی وجہ سے بہت مشکل ہوتا ہے‘‘ یہ الفاظ سابقہ چیئرمین کے تھے!!
ملازمین ساڑھے چودہ ہزار نہیں، اٹھارہ ہزار کے لگ بھگ ہیں کیونکہ مبینہ طور پر تین ہزار کے افراد روزانہ اجرت کی بنیاد پر بھی رکھے جاتے ہیں۔ نہیں معلوم سربراہ صاحب نے آپ کو بتایا یا نہیں کہ ضرورت صرف چار ہزار افراد کی ہے کیونکہ جہاز ہی تیس بتیس سے زیادہ نہیں!
28 ستمبر 2018ء کو اس وقت کے وزیر اطلاعات سرکاری ٹویٹر اکائونٹ پر مندرجہ ذیل اعداد و شمار ٹویٹ کر چکے ہیں: مستقل ملازمین: 14800
ملازمین روزانہ اجرت پر: 3700
ملازمین فی جہاز: 500۔
جناب وزیر اعظم! کیا یہ قلاش قوم اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر ان چودہ ہزار ملازمین کو تنخواہیں اور بھاری مراعات دیتی رہے گی جن کی ائر لائن کو ضرورت ہی نہیں؟ جن کے لیے کام ہی کوئی نہیں؟ جہاں پناہ! دو ارب روپے ہر ماہ ، چوبیس ارب روپے سالانہ ان ہزاروں زائد از ضرورت افراد پر لٹائے جا رہے ہیں! کیا یہ لٹائے جاتے رہیں گے؟
جناب وزیر اعظم ! آپ نے تو تبدیلی کا وعدہ کیا تھا! اس قسم کی بریفنگ تمام سابق وزرائے اعظم لیتے رہے ہیں۔ جو اصطلاحات آپ نے دو دن پہلے کے اجلاس میں استعمال فرما کر احکام جاری کیے، وہ اصطلاحات عشروں سے استعمال کی جا رہی ہیں۔
1) Restructuring
2) روڈ میپ
3) اخراجات کم کرو
4) آمدنی بڑھانے پر فوکس کرو
5) فلیٹ کو اپ گریڈ کرو!
کون سا روڈ میپ؟ کون سی Restructuring؟ کیسا فوکس؟
یہ پانی تو ماضی میں بھی بلویا جاتا رہا۔ یہ مدھانی اس پانی میں دہائیوں سے پھیری جا رہی ہے! کبھی پانی بھی چھاچھ بنا؟؟ کبھی پانی پر بھی مکھن آیا؟؟
آپ تو دیانت دار ہیں! آپ تو مخلص ہیں! آپ کی تو ذاتی غرض کوئی نہیں! تو کیا آپ بھی ان نصف درجن یونینوں اور ایسوسی ایشنوں سے تعرض نہیں کریں گے جو اس سفید ہاتھی کو قائم رکھنے پر مصر ہیں؟ جن کے پیشِ نظر قومی مفاد نہیں، صرف اپنی نوکریوں، اپنی تنخواہوں، اپنے مفادات، اپنے مفت کے ان گنت ٹکٹوں کی بقا کا مسئلہ ہے!
تو کیا آپ بھی اٹھارہ ہزار میں سے چودہ ہزار زائد ملازمین کو اس ائر لائن ہی میں رکھیں گے؟؟ کیا آپ بھی ائر لائن سے نہیں پوچھیں گے کہ جب ہزاروں مستقل ملازمین ضرورت سے زائد ہیں تو پھر تین چار ہزار ملازمین روزانہ اجرت کی بنیاد پر کیوں لائے جاتے ہیں؟؟
جس ائر لائن میں حادثوں کا اوسط دنیا بھر میں مبینہ طور پر نمایاں ہے، جس میں سفر کرنے سے پاکستانی اور غیر پاکستانی سب احتراز کرتے ہیں، اس کے شب و روز میں اگر آپ بھی تبدیلی نہیں لا رہے تو ہماری ڈھارس تو بندھائیے کہ کون لا رہا ہے؟ فی جہاز پانچ سو ملازمین کی موجودگی میں کون سی ری سٹرکچرنگ ہو گی؟ کیا فوکس ہو گا؟ کس پر فوکس ہو گا؟ کون سا روڈ میپ تیار ہو گا؟ جناب وزیر اعظم! عرض ہے کہ میں نے آپ کو ووٹ اس دعوے پر دیا تھا کہ آپ اپنے پیشروئوں سے مختلف ہوں گے! مگر اس قسم کے اجلاس تو آپ کے پیشرو بھی کرتے رہے!
عالی مرتبت! مجھے معلوم ہے میرے ایک ووٹ کی کوئی وقعت نہیں! میں ایک عام شہری ہوں جس کے ایک ووٹ سے آپ کی پارٹی کو یا کسی بھی پارٹی کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ مگر بندہ پرور! ایک وقت وہ بھی آئے گا جب میری بہت اہمیت ہو گی! جہاں میری آواز سنی جائے گی! جہاں میں پوچھ سکوں گا کہ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے میں نے خون پسینے کی کمائی سے اتنا حصّہ سرکاری خزانے کو دیا تھا، اس کے عوض ایک جہاز بھی ایسا نہ چلایا گیا جس پر میں خوف، دہشت اور ہول کے بغیر دو گھنٹوں کا ہی سفر کر لیتا!
فضیلت مآب! یہ عام شہری جس کا ایک ووٹ آج کے ترازو میں ایک رتّی سے بھی کم ہے۔ اپنی ذات میں پوری دنیا ہے! یہ ذرّہ نہیں! قبلۂ عالم! یہ ایٹم ہے! ایک شاعر ہوتے تھے، علامہ اقبالؔ ، فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ الگ مسلمان ریاست کا تصوّر بھی آپ ہی نے پیش کیا تھا! اس عام شہری کے متعلق کہتے ہیں ؎
اگر ایک ذرہ کم گردد ز انگیزِ وجودِ من
باین قیمت نمی گیرم حیات جاودانی را
ایک ذرہ بھی میرے وجود سے کم ہو جائے تو اس کے بدلے میں ابدی زندگی قبول نہ کروں!
یہ ایک ذرہ، یہ ایک ایٹم، یہ ایک ووٹ، یہ ایک شہری کے ٹیکس کا حساب، کل کہیں حکمرانوں کیلئے رپھڑ نہ بن جائے! مصیبت میں نہ لا کھڑا کرے!
ظلِّ الٰہی! آپ اور آپ کے رفقائے کار اچھی طرح جانتے ہیں کہ قومی ائر لائن کا اس روئے زمین کے اوپر اور اس نیلے آسمان کے نیچے ایک ہی حل ہے اور وہ ہے اسے نجی شعبے میں منتقل کرنا! یہ حل سب حکومتوں کو معلوم تھا، مگر پچھلی حکومتوں نے میرٹ کے بغیر اپنے حمایتی اس ائر لائن میں بھرتی کرائے تھے۔ جہاں تک اخباری اطلاعات ہیں، تحریک انصاف نے تاحال اس ادارے کو اپنے حامیوں کے لیے دستر خوان کے طور پر نہیں استعمال کیا تو پھر وہ کون سی مصلحت ہے جو آپ کو مجبور کر رہی ہے کہ 'سٹیٹس کو‘ کو جاری رکھیں۔ چھ ارب روپے ماہانہ یہ ادارہ نقصان اٹھاتا رہے اور عوام اس کی بقا کے لیے ٹیکس دیتے رہیں! کیوں؟ آخر کیوں؟
صاحبِ عالم! آپ کے ارد گرد جو چنیدہ اور غیر چنیدہ عمائدین بیٹھے ہیں۔ ان میں بہت سے اپنے کاروبار کرتے ہیں! بڑے بڑے کاروبار! ان کے کارخانے ہیں، جاگیریں ہیں، ملک کے اندر اور ملک کے باہر بزنس ہیں۔ ان سے صرف یہ پوچھیے کہ ان کے کسی کاروبار میں چار ہزار کے بجائے چودہ ہزار ملازمین اور چھ یونینیں اور ایسوسی ایشنیں ہوں تو کیا وہ کاروبار چل سکے گا؟ اور کیا یہ حضرات اسے اسی حالت میں رکھ کر نفع آور بنا سکیں گے؟
اگر ان کا جواب ہاں میں ہے تو آپ صاحبِ اختیار ہیں اور اگر ان کا جواب نہیں میں ہے تو آپ یہ بھی استفسار فرمائیے کہ کیا ''ری سٹرکچرنگ‘‘ اور ''روڈ میپ‘‘ کے ذریعے وہ فی جہاز پانچ سو افراد کو قبول کر لیں گے؟
No comments:
Post a Comment